قرآن کی سورہ البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں داخلہ کسی نسل یا گروہ سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ وہ تمام تر شخصی صفات کی بنیاد پر ہوگا- اِس سلسلے میں ارشاد ہوا ہے: بَلٰی ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(
قرآن کی اِس آیت میں کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کی دوشرط بتائی گئی ہے— ایک، اپنا چہرہ اللہ کے لیے جھکا دینا- دوسرے، اُس انسان کا محسن ہونا- پہلی شرط کا تعلق فارم (form) سے ہے اور دوسری شرط کا تعلق اسپرٹ (spirit) سے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جنت اُس انسان کے لیے ہے جو دنیا کی زندگی میں دوشرطوں پر پورا اترے- ایک، یہ کہ اس کی زندگی بہ اعتبار فارم اسلام پر مبنی ہو- مگر صرف فارم کو اختیار کرنا کافی نہیں، اُسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ محسن ہو- محسن یا احسان کا مطلب ہےکسی کام کو اچھی طرح کرنا (to do better) - کسی انسان کی زندگی میں جب یہ دوشرطیں جمع ہوں تو اس کے بعد ہی وہ جنت میں داخلے کا مستحق قرار پاتا ہے-
کسی کام کو اچھی طرح کرنا کب ممکن ہوتاہے، یہ اُس وقت ممکن ہوتاہے جب کہ انسان اپنے کام کو صرف جسمانی طورپر نہ کرے، بلکہ اس کا دل ودماغ اس کے ساتھ وابستہ ہوجائے- وہ اسی کے لیے سوچے، اس کے جذبات اسی کے ساتھ وابستہ ہوں، وہ کام پوری طرح اس کی توجہ کا مرکز بن گیا ہو، اس کی زندگی میں اُس کام کا درجہ مقصدحیات کا ہو، نہ کہ صرف ایک رسم یا ایک رٹین (routine) کا- یہی احسان ہے، اور کوئی شخص جنت میں داخلے کے قابل صرف اُس وقت بنتا ہے جب کہ اُس کے دینی عمل میں احسان کی یہ روح شامل ہوجائے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ النساء میں ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَة (
قرآن کی اِس آیت میں ہجرت سے مراد صرف زمینی ہجرت نہیں ہے، اِس میں وہ تمام واقعات شامل ہیں جو ہجرت سے مشابہت رکھتے ہوں- مثلاً ایک آدمی ایک دینی تنظیم (organization) سے وابستہ تھا، پھر ایسے اسباب پیش آئے کہ اس کو اِس تنظیم کو چھوڑ کر دوسری دینی تنظیم سے وابستہ ہونا پڑا،تو ایسا شخص بھی بلا شبہہ مہاجر فی سبیل اللہ ہے- اُس کے لیے بھی وہ تمام خدائی بشارتیں مقدر ہیں جو مذکورہ آیت میں وطنی مہاجر کے لیے بتائی گئی ہیں- ایسے مہاجر فی سبیل اللہ کو بلا شبہہ اللہ کی مدد حاصل ہوگی، نئے ماحول میں وہ اپنے لیے مزید اضافے کے ساتھ مواقعِ عمل پالے گا- اس کو اللہ کی طرف سے یقینی طورپر رزقِ مادی بھی ملے گااور رزقِ معنوی بھی-
اِس آیت میں وسعت (کشادگی) کی بشارت بہت بامعنی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی ’’ہجرت‘‘ کے بعد آدمی کو وسیع تر دائرہ کار ملے گا، اس کے ذہنی افق میں اضافہ ہوگا، نئے تجربات اس کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بنیں گے، وہ محسوس کرے گاکہ وہ بند ماحول سے نکل کر کھلے ماحول میں آگیا ہے- اُس نے پچھلے ساتھیوں کے مقابلے میں، بہتر ساتھی اور پچھلے حالات کے مقابلے میں، بہتر حالات پالیے ہیں، وہ محدود دنیا سے نکل کر لامحدود دنیا میں آگیا ہے- اس کی ہجرت اس کے لیے ذہنی ترقی کا ذریعہ ثابت ہوگی اور روحانی ترقی کا ذریعہ بھی- اُس کے یقین، اس کی معرفت، اس کی بصیرت اور اس کے تعلق باللہ میں ناقابلِ قیاس حد تک اضافہ ہوجائےگا- اُس پر یہ قول صادق آئے گا کہ — مالی کبھی ایک پودے کو ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ نصب کرتا ہے، صرف اِس لیے کہ پودے کو اپنی نشو ونما (growth) کے لیے زیادہ بہتر موقع دیا جائے-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیاہے کہ قیامت میں جب تمام لوگ حشر کے میدان میں جمع ہوں گے، اُس وقت اُن لوگوں کو کھڑا کیا جائے گا جن لوگوں نے دنیا میں اللہ کے دین کی گواہی دی تھی: یَوْمَ یَقُوْمُ الْأَشْہَاد(
قرآن میں بتایا گیاہے کہ امت محمدی کا اصل کام یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے بعد خداکے پیغام کو سارے انسانوں تک اُسی طرح پہنچائے جس طرح اس سے پہلے نبیوں نے پہنچایا۔ یہی وہ معیار ہے جس پر قیامت کے دن لوگوں کو جانچا جائے گا۔ جو لوگ اس معیار پر پورے اتریں گے، وہ حقیقی معنوں میں اللہ کے یہاں امتِ محمدی قرار پائیں گے۔ اور جو لوگ اس معیار پر پورے نہ اتریں، اُن کے لیے سخت اندیشہ ہے کہ جب قیامت کے دن وہ حشر کے میدان میں حاضر ہوں تو اُن کے بارے میں یہ اعلان کردیا جائے کہ تم اِس قابل نہیں کہ تم کو امتِ محمدی کا حصہ قرار دیا جائے۔ تم دنیا میں خداکے بتائے ہوئے راستے سے دور تھے، اب تمھارے لیے یہی مقدر ہے کہ تم ہمیشہ کے لیے خدا کی رحمتوں سے دور ر ہو، تمھارے لیے خدا کی رحمتوں میں حصہ پانا مقدر نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی تلاوت صرف ثواب کے لیے نہیں ہے، بلکہ قرآن کی تلاوت کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے ذریعے اللہ کی ہدایت حاصل کی جائے - قرآن کتاب ہدایت ہے اور قرآن کے ذریعے ہدایت حاصل کرنا یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے-
اِس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ جب قرآن کو پڑھیں تو اس کی ہر آیت کو آپ اپنی ذات پر منطبق (apply) کریں، اس کی ہر آیت کو آپ اپنی ذات کے لیے عملی رہنما بنائیں-مثلاً آپ نے قرآن میں یہ آیت پڑھی: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْم(
اپنے وجود کے بارے میں آپ یہ دریافت صرف ایک دن نہ کریں، بلکہ ہر دن کریں- جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے اندر وہ چیز پیدا ہوگی جس کو تھرلنگ معرفت (thrilling realization) کہاجاسکتاہے-
اِسی طرح جب آپ قرآن میں یہ آیت پڑھیں: اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ (
واپس اوپر جائیں
انوپم کھیر فلمی دنیا کی ایک ممتاز شخصیت ہیں- ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ان کے اندر کبر (arrogance) پایا جاتاہے- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
My arrogance comes from my being a self-made man and a secure person. (p. 8)
کہا جاتاہے کہ سیلف میڈ مین کا لفظ پہلی بار بنجامن فرینکلن نے اپنی آٹو بائگریفی میں استعمال کیا تھا- بنجامن فرینکلن 1706میں امریکا کی ایک غریب فیملی میں پیداہوا- اس کا باپ موم بتی بنایا کرتا تھا- بنجامن فرینکلن نے اعلی تعلیم حاصل کی- اس نے اپنی زندگی میں غیر معمولی جدوجہد کی، یہاں تک کہ 1790 میں جب وہ مرا تو وہ امریکا کی تاریخ میں امریکا کے فاؤنڈنگ فادر کی حیثیت سے لکھاگیا- بنجامن فرینکلن اپنی آخری عمر میں مختلف بیماریوں کا شکار ہوگیا- اپنی زندگی کے آخری تین سال اس نے اِس طرح گزارے کہ وہ لاس اینجلیز میں اپنے گھر کے اندر رہتا تھا اور پبلک کے سامنے نہیں آتا تھا-
سیلف میڈ مین کا تصور تمام تر لوگوں کی ناواقفیت پر مبنی ہے- حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان گاڈ میڈ مین (God-made man) ہوتاہے، کوئی بھی شخص سیلف میڈ مین نہیں ہوتا- اِسی حقیقت کو یاد دلانے کے لیے اللہ تعالی انسان کے اوپر بڑھاپا طاری کرتاہے- قرآن میں ارشاد ہواہےکہ— ہم جس کو لمبی عمر دیتے ہیں ، اس کو اس کی ابتدائی تخلیق کی طرف لوٹا دیتے ہیں- کیا وہ سوچتے نہیں(
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیاکےشمارہ
تاہم یہ لوگ اپنے آپ کو ملحد (atheist)کہنا پسند نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے کیس کو بتانے کے لیے اپنے لیے اسپریچول ملحد (spiritual atheist) کا لفظ استعمال کرتےہیں-
یہ صر ف امریکا کی بات نہیں ہے، بلکہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں ایسے افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں جو عملاً مذہب کو چھوڑ چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اسپریچولٹی (spirituality) کی تلاش میں رہتے ہیں- وہ چاہتے ہیں کہ مذہب کے دائرے سے باہر انھیں کوئی ایسی چیز مل جائے جو اُن کو روحانی سکون دے سکے-
ایسا کیوں ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک روحانیت پسند مخلوق ہے- مذہب کے نام سے وہ صرف اُس کلچر کو جانتا ہے جو آج مذہبی گروہوں کے درمیان پایا جاتا ہے- یہ کلچر اس کو اپیل نہیں کرتا، اِس لیے وہ اپنی فطرت کی تسکین کے لیے اسپریچولٹی کی تلاش میں رہتا ہے-
انسان فطری طورپر یہ چاہتاہے کہ وہ اپنے خالق (creator) کو پائے اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردے- مذہب اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اِسی خالق کا تعارف ہے- مگر موجودہ زمانے کے اہلِ مذہب اپنے زوال کی بنا پر، مذہب کی غلط نمائندگی کررہے ہیں- ضرورت ہے کہ مذہب کی اصل تصویر کو لوگوں کے سامنے بے آمیز شکل میں پیش کیا جائے- اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسپریچویلٹی کے نام سے انسان جس چیز کی تلاش میں تھا، وہ دراصل خود خدا اورمذہب تھا، نہ کہ کوئی اور چیز-
واپس اوپر جائیں
انڈیا کے ایک اعلی تعلیم یافتہ مسلمان تعلیم کے بعد لندن چلے گئے- اب وہ مستقل طورپر لندن میں مقیم ہیں، انھوں نے برٹش شہریت لے لی ہے- اپنے سوچ کے اعتبار سے وہ الٹرا سیکولر (ultra-secular) ہیں- وہ اسلام یا کسی مذہب کو نہیں مانتے اور بالکل آزادانہ قسم کی زندگی گزارتے ہیں-
اب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں- ان کی صحت بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے- لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر وہ سوچتے ہیں کہ میں بھی اِسی طرح مرنے والا ہوں- وہ جاننا چاہتے ہیں کہ موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے- ایک صاحب کا بیان ہے کہ وہ لندن میں اُن سے ملے- ملاقات کے دوران انھوں نے کہا کہ— اگر معلوم ہوتا کہ کوئی ایسا شخص ہے جو یہ جانتا ہے کہ موت کے بعد کیا ہونے والا ہے تو میں اُس سے انتہائی عاجزانہ درخواست کرتاکہ وہ مجھے اس کے بارے میں بتائے:
I would beg him to tell me what is after death.
اِسی قسم کا ایک واقعہ کرسچن مشنری بلی گرہم نے بیان کیا ہے- انھوں نے لکھا ہے کہ ایک بار میں ایک سفر میں تھا- مجھ کو امریکا کے ایک بہت بڑے دولت مند آدمی کا میسج ملا، جس میں کہاگیا تھا کہ فوراً یہاں آکر مجھ سے ملو- جب میں وہاں گیا تو مذکورہ امریکی دولت مند نے کسی تمہید کے بغیر کہا کہ— تم دیکھتے ہو کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں- زندگی کی تمام معنویت ختم ہوچکی ہے- میں بہت جلد ایک نا معلوم دنیا کی طرف چھلانگ لگانے والا ہوں- کیا تم مجھ کو امید کی ایک کرن دے سکتے ہو:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope?
ایسے کسی سائل سے صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ موت کے بعد کیا ہوگا، اس کو جاننے کا مستند ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ خداکی کتاب قرآن ہے-کوئی انسان نہیں جانتا کہ موت کے بعد کیا ہونے والا ہے، لیکن خالق ضرور اِس حقیقت کو جانتا ہے اوراس نے اپنی کتاب میں اِس حقیقت کو پوری طرح واضح کردیا ہے-
واپس اوپر جائیں
مغربی تہذیب اور مغربی کلچر دونوں ایک دوسرے سے اُسی طرح الگ ہیں جس طرح اسلام اورمسلمانوں کی قومی تاریخ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں- ایک شخص اگر ایسا کرے کہ وہ صرف مسلم تاریخ کو پڑھے اور اُسی سے اسلام کے متعلق رائے قام کرے تو وہ کہہ سکتاہے کہ مسلمانوں کا مذہب نام ہے — باہمی لڑائی، خاندانی حکومت، ملک گیری، فرقہ بندی، عسکریت اور خود کش بم باری جیسی چیزوں کا- مگر یہ تاثر سرتاسر غلط ہوگا، کیوں کہ یہ چیزیں بلاشبہہ مسلم تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن وہ ہرگز مذہب اسلام کا حصہ نہیں- اسلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہےکہ اس کو مسلمانوں کی قومی تاریخ سے الگ کرکے دیکھاجائے، ورنہ آدمی اسلام کو سمجھنے سے قاصر رہے گا-
یہی معاملہ مغربی تہذیب اور مغربی کلچر کا ہے- دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں- مغربی تہذیب اصلاً سائنسی تہذیب، بالفاظِ دیگر، قوانینِ فطرت کی دریافت کا نام ہے- اِس دریافت کے نتیجے میں جو نظام وجود میں آیا، اُسی کا نام مغربی تہذیب ہے- دوسری چیز مغربی اقوام ہیں- مغربی اقوام کو اُسی طرح آزادی ملی ہوئی ہے جس طرح دوسری قوموں کو آزادی ملی ہوئی ہے- وہ بھی اُسی طرح خواہشات کا شکار ہوتی ہیں جس طرح دوسری قومیں خواہشات کا شکار ہوتی ہیں- ان کے درمیان بھی اُسی طرح ایک قومی سیاست وجود میں آتی ہے جس طرح دوسرے گروہوں کے درمیان ان کی قومی سیاست وجود میں آتی ہے- اِن اسباب کی بنا پر مغربی قوموں کی درمیان بھی وہ تمام خرابیاں پیداہوئیں جو دوسری قوموں میں پیدا ہوئیں، حتی کہ خودمسلم قوموں کے درمیان بھی- عدل کا تقاضا ہے کہ ہم دونوں پہلوؤں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں- اِس قسم کی عادلانہ تفکیر کا یہ نتیجہ ہوگا کہ ہم اِس غلطی سے بچ جائیں گےکہ ہم اہلِ مغرب کی قومی خرابیوں کو سائنسی تہذیب کا حصہ سمجھ لیں اور مغربی اقوام اور سائنسی تہذیب دونوں کے بارے میںیکساں طورپر منفی ذہن کا شکار ہوجائیں- یہ عین وہی منصفانہ طریقِ مطالعہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے ذیل میں کیا جاتا ہے- مسلمانوں کی قومی خرابیوں کو الگ کرکے اسلام کو اس کی نظریاتی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے- اس طریقِ مطالعہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے سامنے اسلام کی بھی درست تصویر آتی ہے اورمسلم قوم کی بھی درست تصویر-
مغربی تہذیب بمعنی سائنسی تہذیب، اسلام کی دشمن نہیں، بلکہ وہ اسلام کے لیے ایک عظیم مددگار کی حیثیت رکھتی ہے- مغربی تہذیب بمعنی سائنسی تہذیب کے ذریعے موجودہ زمانے میں بہت سی نئی حقیقتیں سامنے آئی ہیں- اِن حقیقتوں کے ذریعے سائنس نے فیصلے کی ایک نئی بنیاد فراہم کی ہے جو عین ہمارےحق میں ہے- مثال کے طورپر سائنسی طریقِ مطالعہ کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ کوئی چیز مقدس (holy) نہیں، ہر چیز علمی تنقیح (scientific scrutiny) کے تابع ہے- اِس اصول کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تاریخ میں ایک نیا شعبہ علم وجود میں آیا جس کو تنقید عالیہ (higher criticism) کہاجاتا ہے- اِس شعبہ علم کے تحت قدیم مذہبی کتابوں، خصوصاً بائبل کا، تنقیدی مطالعہ کیا جانے لگا، جب کہ یہ کتابیں پہلے تنقید سے بالا تر سمجھی جاتی تھیں- اِس مطالعے کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالص علمی اعتبار سے، یہ ثابت ہوگیا کہ یہ کتابیں تاریخی اعتباریت (historical credibility) سے خالی ہیں- اِس سلسلے میں مغربی زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، اُن میں سے ایک کتاب یہ ہے:
Albert Schweitzer, The Quest of the Historical Jesus, Published 1910, London
اِسی طرح، سائنسی تہذیب نے ایک نیا فکر پیداکیا جس کو مبنی بر قطعیت فکر (exact thinking) کہاجاتاہے- اِس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ سبجیکٹیو طرزِ فکر (subjective thinking) غیرمعقول قرار پاگیا اور آبجیکٹیو طرزِ فکر(objective thinking) کو درست سمجھا جانے لگا- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ وہ کتابیں غیر معتبر قرار پاگئیں جو صلیبی جنگوں (Crusades)کے بعد اسلام اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے کے لیے غیر علمی انداز میں لکھی گئی تھیں- اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل کتاب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
On Heroes, Hero-Worship (1841) by Thomas Carlyle
اِسی طرح، سائنسی تہذیب کے تحت فطرت کا جو مطالعہ شروع کیا گیا، اس کے نتیجے میں فطرت کے بہت سے راز دریافت ہوئے- رموزِ فطرت کی یہ دریافت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، آیات اللہ (signs of God) کے انکشاف کے ہم معنی تھی- اِن دریافتوں کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیاکہ اسلام کی صداقتوں کو وقت کے مسلّمہ علمی معیار کی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے- اِس سلسلے میں ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب— مذہب اور جدید چیلنج جو عربی میں ’الإسلام یتحدى‘ کے نام سے چھپی ہے- اِس کتاب کا انگریزی ایڈیشن گاڈ ارائزیز (God Arises) کے نام سے چھپ چکا ہے-
اِسی طرح مغربی تہذیب کے تحت دنیا میں اور کئی چیزیں وجود میں آئیںجو علمی طورپر مفید ہونے کے علاوہ، خود اسلام کے لیے بے حد مفید تھیں- مثلاً فکری آزادی، مذہبی تنگ نظری کا خاتمہ، جمہوریت کا عالمی فروغ، عالمی سیاحت (world tourism)، جس کا مطلب یہ تھا کہ مدعو خود داعی کے پاس بڑی تعداد میں پہنچنے لگا، وغیرہ- اِسی طرح مغربی تہذیب کے تحت ایک دور وجود میں آیا جس کو دورِ مواصلات (age of communication) کہا جاتاہے- اِس کے تحت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا جیسی چیزیں وجود میں آئیں جو اسلام کی دعوت واشاعت کے اعتبار سے، بلاشبہہ ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتی ہیں-مغربی تہذیب کے تحت موجودہ زمانے میں اِس طرح کی بہت سی مفید چیزیں وجود میں آئی ہیں- چوں کہ مغربیقومیں اور دوسری قومیں بھی اِن چیزوں کا اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں، اس لیے مسلمان اس کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے، مگر اِس دنیا میں خود اللہ تعالی نے ہر عورت اور مرد کو آزادی عطا کیہے- اِس دنیا کے جو فطری وسائل (means) ہیں، اُن کو ہر ایک اپنے حق میں استعمال کرتا ہے- اِسی طرح تہذیبی وسائل کو بھی ہر گروہ اپنے اپنے حق میں استعمال کرے گا- مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اِس معاملے میں خدائی منصوبے کو سمجھیں اور حقیقت پسندانہ روش اختیار کریں- جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ سورج صرف مسلم بستیوں میں چمکے اور غیر مسلم بستیوں میں اندھیرا چھایا رہے، اِسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہےکہ فطرت میں چھپی ہوئی نعمتوں کو مسلمان تو اپنے حق میں استعمال کریں اور غیر مسلم ان کو اپنے حق میں استعمال کرنے سے محروم رہیں-
واپس اوپر جائیں
کسی امت کے اندر بعد کے زمانے میں ایک ظاہرہ وہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں تفرق فی الدین (
قرآن کی یہ آیت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ ا س کا مطالعہ قرآن کی ایک اور آیت کی روشنی میں کیا جائے- وہ آیت یہ ہے: اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ (
قرآن کی اِن آیتوں کی روشنی میں مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کو تفرق فی الدین کہاگیا ہے، وہ دراصل ایک تاریخی عمل ہے جو ہر امت میں اس کے بعد کے ادوار میں ظاہر ہوتا ہے- یہ واقعہ امتِ مسلمہ میں بھی ضرور پیش آئے گا، اِس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
اصل یہ ہےکہ امت کے بعد کے زمانے میں مختلف مصلحین اٹھتے ہیں- امت کے یہ مصلحین اپنے قریبی حالات کے زیر اثر دین کے کسی تقاضے کو بیان کرتے ہیں اور اس کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں- اِس کی بنیاد پر اُن کے گرد دھیرے دھیرے ایک گروہ بن جاتا ہے- اِس گروہ کے اندر اپنے مسلک کے حق میں رفتہ رفتہ تعصب کا ذہن پیدا ہوجاتا ہے- وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے جو بات کہی تھی، وہی آخری سچائی ہے- تعصب کا یہ ذہن بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ہرگروہ ایک جامد گروہ کی صورت اختیار کرلیتاہے- ہر گروہ یہ سمجھ لیتاہے کہ وہی حق پر ہے اور دوسرے لوگ حق پر نہیں ہیں- یہی وہ تاریخی عمل ہے جس کی طرف قرآن کی مذکورہ آیت میں اشارہ کیا گیا ہے-
اِس حقیقت کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تفرق فی الدین کا مطلب ہے — دین ِ خداوندی کے بجائے دین ِاکابر پر قائم ہوجانا- کسی امت پر جب یہ وقت آتاہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اللہ اور رسول کا نام نہ لے- اللہ اور رسول کا چرچا تو بدستور اُن کے درمیان جاری رہتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، لوگ اپنے اکابر کے دین پر قائم ہوتے ہیں- وہ بظاہر اللہ اور رسول کا نام لیتے ہیں، لیکن صرف اِس لیے کہ وہ اپنے اختیار کردہ مسلک کو اللہ اور رسول کے حوالے سے درست ثابت کرسکیں-کسی امت کی یہ حالت ایک غیر مطلوب حالت ہے- ایسے گروہ، خواہ وہ اپنے آپ کو دینی گروہ یا خدائی گروہ قرار دیں، لیکن اللہ کے نزدیک ان کا کیس تفرق فی الدین کا کیس ہے، ان کا کیس اتباعِ دین کا کیس نہیں- اللہ کے نزدیک وہ اپنے خود ساختہ اکابر کے دین پر ہیں، نہ کہ حقیقتاً خدا اور رسول کے دین پر-
تفرق فی الدین کا یہ ظاہرہ صرف پچھلی امتوں کے ساتھ مخصوص نہیں- یہ دراصل دورِ زوال کا ظاہرہ ہے جو ہر امت کے بعد کے دور میں لازماً پیدا ہوتا ہے- اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق، یقینا وہ امتِ مسلمہ میں بھی پیدا ہوگا- ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن بنی إسرائیل تفرقت على ثنتین وسبعین ملة وتفترق أمتی على ثلاث وسبعین ملة، کلہم فی النار إلا ملة واحدة. قالوا ومن ہی یا رسول اللہ، قال ما أنا علیہ وأصحابی (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 4641) یعنی بنی اسرائیل
اِس حدیثِ رسول میں
’’فرقۂ ناجیہ‘‘ کا تصور سراسر بے بنیاد ہے- اِس تصور کا کوئی تعلق مذکورہ حدیث رسول سے نہیں- اِس حدیث رسول کا مطلب صرف یہ ہے کہ آخرت کی نجات فرقہ کی بنیاد پر نہیں ہوگی، بلکہ یہ ہوگا کہ مختلف فرقوں میں سے جو افراد اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم پر قائم ہوںگے، وہ آخرت میں نجات کے مستحق قرار پائیں گے-
جیسا کہ عرض کیا گیا، تفرق کے معاملے کا آغاز اکابر امت سے ہوتا ہے- یہ لوگ حالات کے زیر اثر ایک بات کہتے ہیں جو بعد کے زمانے میں غلو اور تعصب کی بنا پر ایک علاحدہ مسلک بن جاتی ہے اور آخر کار وہ ایک جامد فرقہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے- یہ واقعہ بنیادی طور پر دو سبب سے پیدا ہوتا ہے— ایک، شفٹ آف امفیسس (shift of emphasis) اور دوسرے، اجتہادی خطا- اِن دونوں صورتوں کی مثالیں یہاں نقل کی جاتی ہیں، ماضی کی تاریخ سے بھی اور حال کی تاریخ سے بھی-
امتِ مسلمہ کے ماضی میں شفٹ آف امفیسس کی ایک مثال صوفیا کے یہاں ملتی ہے- صوفیا کا زمانہ وہ ہے جب کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوگئیں- صوفیا نے دیکھا کہ سیاست کا ذہن بہت بڑھ گیا ہے اور اس کے مقابلے میں لوگوں کے اندر دین کا روحانی پہلو بہت دب گیا ہے- اِن حالات میں صوفیا نے دین کے روحانی پہلو یا اعمالِ قلب پر اس طرح زور دیا جیسے کہ وہی دین میں سب کچھ ہو- صوفیا کے بعض متنازع طریقوں سے قطع نظر، اُن کا کیس اپنی حقیقت کے اعتبار سے، شفٹ آف امفیسس کا کیس تھا- یہ معاملہ ویسا ہی تھا جیسے ایک عالم کےزمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ لوگ مسح على الخفین کو غیر افضل سمجھنے لگے- اُس وقت انھوں نے مسح على الخفین کے طریقے پر زور دینے کے لیے یہ فتوی دیا کہ: المسح على الخفین واجب (خفین پر مسح واجب ہے)- صوفیا کے اس شفٹ آف امفیسس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر دین کے نام پر ’’پراسرار مذہبیت‘‘ آگئی اور عقلی غور وفکر اور حقیقت پسندی کا تقریباً خاتمہ ہوگیا-
دوسری صورت اجتہادی خطا کی ہے- اِس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو عباسی دور کے فقہا کے یہاں نظر آتی ہے- اُس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ حدیثیں اور صحابہ کے آثار جمع کیے گئے اور ان کو کتابوں کی صورت میں مدون کیا گیا- اُس وقت لوگوںکو معلوم ہوا کہ صحابہ کے یہاں عبادت کے طریقوں میں بہت سے جزئی فرق پائے جاتے ہیں- اِس معاملے کی بابت رہنمائی حدیث میں موجود تھی، کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا تھا: بأیہم اقتدیتم اہتدیتم (کشف الخفاء: 1/146)
اِس حدیثِ رسول کے مطابق، عبادت کے طریقوں میں جزئی فرق تنوع (diversity) کی بنا پر تھا، وہ حق اور ناحق کا مسئلہ نہ تھا، ان میں سے ہر طریقہ یکساں طورپر درست تھا- لیکن دورِ عباسی کے فقہا نے اجتہاد کرکے یہ کہا کہ: الحق لا یتعدد (حق کئی نہیں ہوسکتے)- چناں چہ انھوں نے بحث وتنقیح کرکے ترجیحات قائم کیں- انھوں نے ایک طریقے کو اختیار کیا اور دوسرے طریقے کو قابلِ ترک قرار دیا- مختلف فقہا نے اپنے اپنے طریقے پر اِس کام کو انجام دیا- اِس طرح مختلف فقہی اسکول بن گئے جنھوں نے بعد کو غلو اور تعصب کی بنا پر آخر کار جامد فقہی مذہب کی صورت اختیار کرلی-
اب اس معاملے میں بعد کے زمانے کی مثال لیجئے- موجودہ زمانے میں شفٹ آف امفیسس (shift of emphasis) کی ایک مثال اُس دینی گروہ میں ملتی ہے جس کو عام طورپر تبلیغی جماعت کہاجاتا ہے- تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلوی (وفات: 1944) نے اپنے زمانے میں دیکھا کہ لوگ عام طورپر نمازوں سے غافل ہیں- مسجدوں کا وہ حال ہوگیا جس کو علامہ اقبال نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
اِس صورتِ حال کی بنا پر مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے نماز کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا- نماز کو زندہ کرنے کے لیے انھوں نے ایک مستقل تحریک اٹھائی- لیکن بعد کو یہ تحریک غلو اور تعصب کا شکار ہوگئی- لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ دین صرف ’’مسجد وار تحریک‘‘ کا نام ہے- حالاں کہ دین کی دعوت وتبلیغ ایک انسان وار تحریک ہے، وہ محدود معنوں میں صرف مسجد وار تحریک نہیں-
موجودہ زمانے میں اجتہادی خطا کی ایک مثال جماعت اسلامی ہے جو مولانا سید ابو الاعلى مودودی کے افکار پر قائم ہوئی- مولانا سید ابو الاعلى مودودی(وفات: 1979) ایک ایسے زمانے میں پیداہوئے جب کہ دنیا میں سیاسی تحریکوں کا زور تھا — اشتراکی تحریک، جمہوری تحریک، قومی آزادی کی تحریک، وغیرہ- لوگ عام طورپر سیاست کو سب سے بڑی چیز سمجھنے لگے تھے- مولانا ابو الاعلى مودودی اِن حالات سے متاثر ہوئے- انھوں نے اسلام کو اِس طرح پیش کیا جیسے کہ وہ کوئی سیاسی نظام ہو، جیسے کہ اس کا نشانہ عالمی حکومت قائم کرنا ہو- اِس تصور کے تحت مولانا مودودی نے قرآن کی آیتوں کی سیاسی تفسیرکی اور سنتِ رسول کو سیاسی اصطلاحوں میں بیان کیا- یہ واضح طورپر اجتہادی خطا کی ایک مثال تھی- کیوں کہ اسلام ایک ربانی تحریک ہے، نہ کہ کوئی سیاسی تحریک- (اِس موضوع پر راقم الحروف کی ایک تفصیلی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے- اس کتاب کا عربی ترجمہ بھی چھپ چکا ہے- اس کا ٹائٹل یہ ہے: خطأ فی التفسیر-
مسئلے کا حل
دوبارہ اصلاحِ حال کے لیے ضروری ہے کہ ہر گروہ برابر اپنا محاسبہ کرتا رہے، وہ اپنے اکابر کے افکار کابے لاگ انداز میں بار بار جائزہ لیتا رہے- جس چیز کو اس کے اکابر نے حالات کے زیر اثر اختیار کیا تھا، اُس کو دوبارہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی روشنی میں جانچا جائے اور کھلے ذہن کے ساتھ اس کا تجزیہ کیا جائے، کوئی بھی تحریک یا گروہ اِس جائزے سےمستثنی نہیں- اِس جائزے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ امرِ حق دوبارہ منقح ہو کر سامنے آجائے گا، ہر گروہ دوبارہ دینِ خداوندی کو دریافت کرکے اُس پر قائم ہوجائے گا-
ایک عالم یا رہنما کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنا کہ وہ حالات کے زیر اثر بات کہے یا دین کا ایک تقاضا بیان کرے، اپنی ابتدائی صورت میں وہ تفرق فی الدین کا واقعہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک فرد کا طرز فکر یا ایک فرد کا ذاتی اجتہاد ہوگا- لیکن جب اُس کے گرد ایک گروہ بن جائے اور وہ تعصب کی نفسیات میں مبتلا ہو کر ایک جامد گروہ کی صورت اختیار کرلے تو یہی وہ واقعہ ہے جہاں سے تفرق فی الدین کی برائی کا آغاز ہوتا ہے- یہ برائی رفتہ رفتہ شدید ہو کر اِس نوبت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہر گروہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ صرف وہی حق پر ہے اور دوسرے تمام گروہ باطل پر - اِسی کو قرآن میں تحزّب کہا گیاہے -جو لوگ تحزب کی اِس نفسیات کا شکار ہوں، وہ کسی بھی حال میں اپنے خلاف کوئی تنقید سننے پر راضی نہیں ہوتے، خواہ تنقید کتنے ہی زیادہ قوی دلائل کے ساتھ کی گئی ہو-
تفرق فی الدین ایک مسئلہ ہے، وہ کوئی ابدی برائی نہیں- حالات کے زیر اثر ہر امت میں یہ مسئلہ ضرور پیدا ہوتاہے، لیکن اِسی کے ساتھ اِس مسئلے کا حل بھی بلاشبہہ موجود ہے- یہ حل وہی ہے جس کو محاسبہ (introspection) کہاجاتاہے- محاسبہ کی ایک قسم وہ ہے جو انفرادی محاسبہ کی حیثیت رکھتی ہے- اِسی کے ساتھ قرآن میں اجتماعی محاسبہ کی بھی تعلیم دی گئی ہے، قرآن کی درج ذیل آیات کا تعلق اِسی اجتماعی محاسبہ سے ہے: وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ فلاح (اصلاحِ حال) کا تعلق اجتماعی توبہ سے ہے- اجتماعی توبہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی ادارے کھلے طورپر اِس قسم کا اعلان کریں، مسلمانوں کے دار الافتا اِس قسم کے فتوے دیں، مسلمانوں کے میڈیا میں اِس قسم کے مضامین شائع کیے جائیں، اِسی طرح کی اجتماعی کوشش کو مذکورہ آیت میں اجتماعی توبہ کہاگیا ہے- یہی وہ طریقہ ہے جس سے دوبارہ اصلاحِ حال کا دروازہ کھل سکتا ہے- (30 اپریل 2013)
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک تاریخی قانون کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ فَہَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَاۗءُ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (
Had it not been for God’s repelling some people by means of others, the earth would have been filled with corruption. But God is bountiful to mankind.
قرآن کی اِن آیات میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ واقعہ قبل مسیح دور سے تعلق رکھتا ہے- فلسطین کے جنوبی حصہ (southern coastal area) میں ایک واقعہ ہوا- بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں ایک قوم آکر آباد ہوئی جس کو تاریخ میں، فِلسطی یا فلسطینی (Philistines) کہاجاتا ہے- اِن لوگوں نے یہاں اپنی حکومت قائم کرلی- بعد کو اُن کے درمیان بگاڑ آیا- اُس زمانے میں فلسطین کے شمالی حصے میں بنی اسرائیل آباد تھے- فلسطینی، بنی اسرائیل کے خلاف سرکشی کرنے لگے، یہاں تک کہ 1010 قبل مسیح میں فلسطینیوں کا بنی اسرائیل سے مسلّح ٹکراؤ ہوا - اِس ٹکراؤ میں ایک اسرائیلی نوجوان داؤد کی بہادری سے فلسطینیوں کو شکست ہوئی- اِس کے بعد رفتہ رفتہ
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’دفع‘ (repel)کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی ہٹانا- لسان العرب میں ’دفع‘ کی تشریح ’الإزالة بقوة‘ (8/87) سے کی گئی ہے- یہ ’دفع‘ دراصل تاریخ کے بارے میں اللہ کا ایک قانون ہے- مذکورہ واقعے میں اللہ تعالی نے اسرائیلی گروہ کے ذریعے فلسطینی گروہ کو اقتدار سے ہٹایا تھا- اللہ انسانی تاریخ کی مسلسل نگرانی کررہا ہے، وہ انسان کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کو مینیج (manage) کررہا ہے، وہ بار بار ایسے حالات پیدا کرتا ہے جب کہ ایک قوم دوسری قوم کو مقامِ اقتدار سے ہٹائے- اگر ایک قوم مسلسل طور پر مقامِ اقتدار پر قابض رہے تو اُس کے اندر جمود (stagnation) پیدا ہوجائے گا- یہ جمود مختلف صورتوں میں فساد (corruption) کا سبب بنے گا-
دفع کے اِس قانون کا تعلق سیکولر قوموں سے بھی ہے اور مذہبی قوموں سے بھی- اِس معاملے کی ایک مثال ہندستان ہے- ہندستان میں پہلے راجاؤں کی حکومت تھی- راجاؤں کے بعد یہاں مغل دور آیا، پھر مغل دور ختم ہوا اور برٹش دور آیا- اس کے بعد 1947 میں برٹش دور کا خاتمہ ہوا اور قومی حکومت (national government)کا دور آیا- یہ تمام تبدیلیاں دفع کے قانون کے تحت ہوئیں- ہر بار جب ایک گروہ کے اندر ’’فساد‘‘ آگیا تو اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری قوم لائی گئی- گویا پرانے خون (old blood) کی جگہ نئے خون (new blood) کو کام کرنے کا موقع دیاگیا- اِس عمل کو ریڈیکل آپریشن (radical operation) کہاجاسکتا ہے-
اوپر کی آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ-آیت کے اِس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ کے جس ’فضل‘ کا ذکر ہے، اُس سے مراد یہی قانونِ دفع ہے جو مسلسل طورپر سیاسی اقتدار کی تنظیم کررہا ہے- یہ تنظیم انسان کی اعلیٰ بہبود کے لیے ہے- اگر قانونِ دفع کی صورت میں انسانی اقتدار کی تنظیم نہ کی جائے تو دنیا میں سیاسی اجارہ داری (political monopoly)آجائے اور پھر انسانی تاریخ اپنی مطلوب منزل پر نہ پہنچ سکے گی-
یہود کی تاریخ
دفع کے اِس قانون کا نفاذبعد کے زمانے میں خود یہود (بنی اسرائیل) پر کیاگیا- بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے عروج اور غلبہ عطا کیا، لیکن ایک مدت کے بعد یہود میں بھی وہی ’’فساد‘‘ پیدا ہوا جو کہ ہر قوم میں پیداہوتا ہے- جب ایسا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے کسی اور قوم کے ذریعے یہود کے ساتھ دفع کا وہی معاملہ کیا جس کو ہم نے ریڈیکل آپریشن (radical operation) کا نام دیاہے-
اِس سلسلے میں قرآن میں دو متعین آپریشن کا حوالہ دیاگیا (
بنی اسرائیل کے خلاف یہ آپریشن بطور سزا (punishment) نہ تھا، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ بطور انتباہ (warning) تھا- وہ اِس لیے تھا کہ بنی اسرائیل متنبہ ہوں، اُن کا جمود ٹوٹے اور وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: عَسَی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا(
مسلم تاریخ کی مثال
مسلم ملت دفع کے اِس تاریخی قانون سے مستثنىٰ نہیں- چناں چہ پچھلے چودہ سو سال میں یہ معاملہ بار بار پیش آیا ہے، یعنی ایک گروہ کو مقامِ اقتدار سے ہٹاکر اس کی جگہ دوسرے گروہ کو مقامِ اقتدار پر لانا، ایک گروہ کو معزول کرکے دوسرے گروہ کو کام کا موقع دینا- پچھلے چودہ سو سال میں جن مسلم گروہوں کو اقتدار ملا، اُن کی بنیادی تقسیم یہ ہے:
1- خلافتِ راشدہ (Rashidun Caliphate) 632-661 ء
2- خلافتِ امیہ (Umayyad Caliphate) 661-750 ء
3- خلافتِ اندلس (Moorish Empire) 711-1492 ء
4- خلافتِ بنوعباس (Abbasid Empire) 750-1258 ء
5- مغل سلطنت (Mughal Empire) 1226-1857 ء
6- عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299-1922ء
مذکورہ سیاسی واقعات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلم گروہ کو اقتدار حاصل ہوتا ہے اور پھر ایک مدت کے بعد اُس کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے گروہ کو لایا جاتا ہے- مسلم ملت کےدرمیان یہ سلسلہ تقریباً انیسویں صدی کے آخر تک جاری رہتا ہے- اس کے بعد مسلمانوں کا غلبہ ختم ہوجاتا ہے اور مغربی قوموں کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے، خواہ براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر- یہ تمام واقعات اتفاقاً نہیں ہورہے ہیں، بلکہ وہ اللہ رب العالمین کے قائم کردہ تاریخی قانون کے تحت ہورہے ہیں-
خلافتِ راشدہ کی اصطلاح ایک سیاسی ادارہ کی حیثیت سے بعد کے دور میں وضع ہوئی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا جو سیاسی ادارہ قائم ہوا، وہ تقریبا 30 سال تک باقی رہا- اس کے بعد اس کا خاتمہ ہوگیا- ایسا اتفاقاً نہیں ہوا- اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں خلافت کا یہ ادارہ اپنی اخلاقی خوبیوں کے باوجود سیاسی استحکام (political stability) کو باقی رکھنے کے قابل نہ رہا، اِس لیے اس کو ہٹا کر بنو امیہ کا دور لایا گیا- بنو امیہ کا خاص کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے عربی زبان اور عرب کلچر (المروءة، وغیرہ) کے فروغ کا شدت سے اہتمام کیا جو کہ اُس وقت قرآن کی کامل حفاظت کے لیے ضروری تھا-
بنو امیہ کی حکومت تقریباً 90 سال تک جاری رہی- ان کے دورِ حکومت کے آخری زمانے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عربیت کے تحفظ میں انھوں نے عالمی تقاضے کو فراموش کردیا- چناں چہ اس کے بعد بنو امیہ کو اقتدار کے مقام سے ہٹا کر ان کی جگہ بنو عباس کو لایا گیا- بنو عباس کےدور میں کئی بڑے بڑے کام انجام پائے — احادیث کو جمع کرنا، علومِ اسلامی کی تدوین، اسلام کی اشاعت، وغیرہ- اِس کے علاوہ انھوں نے اُس وقت کے سیکولر علوم کو حاصل کیا اور ان کو فروغ دیا- اِس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عالمی فکر پیدا ہوا- بنو عباس کے دبدبے کے تحت حفاظتِ دین کا کام کامیابی کے ساتھ جاری رہا- واضح ہو کہ دورِ قدیم میں حفاظتِ دین کےلیے سیاسی دبدبہ ضروری تھا، مگر اب پرنٹنگ پریس اور دوسرے موافق اسباب کے ظہور کے بعد سیاسی دبدبے کے بغیر خدا کا دین کامل طور پر محفوظ ہے-
بنو عباس کی سلطنت تقریبا 500 سال تک جاری رہی- اس کے بعد فطری طورپر بنو عباس میں جمود کا دور آگیا- وہ ترقی کے سفر کو مزید جاری رکھنے کے قابل نہ رہے- چناں چہ تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاریوں کے ذریعے ایک آپریشن کیاگیا اور اِس طرح عباسی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا-
اِس کے بعد تاریخی قانون کے مطابق، دوسری قوموں کو موقع دیاگیا- عباسی دور ہی میں ایک مسلم گروہ اٹھا جس نےاندلس (اسپین ) میں اپنا اقتدار قائم کرلیا- اِس حکومت کو سیکولر مورخین مورش سلطنت (Moorish Empire) کا نام دیتے ہیں- مورش سلطنت کو موافق حالات ملے، چناں چہ انھوںنے علم کی ترقی میں مزید بہت زیادہ اضافہ کیا- اُس دور کے ترقیاتی نمونوں کو استنبول (ترکی) کے میوزیم (The Istanbul Museum of the History of Science and Technology in Islam) میں دیکھا جاسکتا ہے-
مگر بعد کے دور میں اندلس کی مسلم سلطنت میں بگاڑ آگیا- اس کے حکمراں عیش وعشرت میں پڑ گئے- آخر کار 700 سال سے زیادہ مدت کے بعد اُن پر دفع کا قانون نافذ ہوا اور اسپین کے مسیحی حکمراں نے لڑ کر اُن کا خاتمہ کردیا-
اِسی دور میں مغل حکمراںہندستان میں داخل ہوئے اور یہاں ایک طاقت ور مسلم سلطنت قائم کردی- مغل سلطنت کے زیر سایہ ہندستان میں کئی کام انجام پائے- مغل حکمرانوں کو دعوت وتبلیغ سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن اُن کے دبدبے کے تحت صوفیوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اِس ملک میں اسلام کی اشاعت بڑے پیمانے پر کرسکیں- لیکن بعد کے دور میں مغل حکمرانوں میں بھی وہی بگاڑ آیا جو ہر قوم میں آتا ہے- چناں چہ 600 سال کے بعد ہندستان میں برٹش قوم ابھری اور اس نے 1857 میں مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا-
اِس سلسلے میں آخری نام عثمانی خلافت کا ہے- اس نے یورپ اور ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں اپنی سلطنت قائم کی- اس نے لمبے عرصے تک اسلام کا دبدبہ قائم رکھا- اِس طرح یہ ہوا کہ پرنٹنگ پریس اور دوسرے موافق اسباب کے ظہور سے پہلے کے دور میں وہ دینِ اسلام کی محافظ بنی رہی-آخر کار عثمانی خلافت میں بھی بڑے پیمانے پر جمود پیدا ہوا، وہ مسلسل کمزور ہوتی چلی گئی، یہاںتک کہ 600 سال کے بعد مغربی قوموں کا ظہور ہوا اور اِس طرح عثمانی خلافت کا دور ختم ہوگیا- کہاجاتاہے کہ کمال اتاترک (وفات: 1938) نے عثمانی خلافت کا خاتمہ کردیا، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کمال اتاترک نے 1924 میں ترک خلافت کے خاتمے کا صرف اعلان کیا تھا، اُس کا خاتمہ اِس سے بہت پہلے ہوچکا تھا(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ماہ نامہ الرسالہ، نومبر 2012)-
جمہوریت کا رول
دفع کا قانون پچھلے زمانے میں انقلابی عمل (ریڈیکل آپریشن) کے ذریعے انجام پاتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں اِس طریقے کو بدل دیاگیا- اِسی بدلے ہوئے طریقے کو موجودہ زمانے میں جمہوریت کہا جاتا ہے- جمہوریت دراصل دفع کے قانون کا باقاعدہ انسٹی ٹیوشنلائزیشن (institutionalization)ہے- فرانسیسی انقلاب (French Revolution) جمہوری دور کا آغاز ہے جس نے 1792 میں بادشاہی نظام کا خاتمہ کیا- اس کے بعد عالمی سیاست میں ایک نیا دور آیا، جس کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا کہ الیکشن کے ذریعے پُرامن طورپر حکومت کی تبدیلی ممکن ہوگئی- اِس طرح تاریخ میں ریڈیکل تبدیلی کے بجائے، پر امن تبدیلی (peaceful change) کا دور آگیا-
موجودہ زمانے کے مسلمان اِس الٰہی منصوبے کو سمجھ نہ سکے- وہ خود ساختہ ذہن کے تحت یہ کررہے ہیں کہ کہیں وہ ناکام طورپر دوسری قوموں سے لڑ رہے ہیں- مسلمانوں کی یہ منفی روش قانون الٰہی کے خلاف ہے، اِس لیے اس کا کوئی مفید نتیجہ نکلنے والا نہیں- اِسی طرح کہیں ایسا ہے کہ مسلمان پچھلے سیاسی ماڈل کی گرفت سے آزاد نہ ہونے کی بنا پر خاندانی لیڈر شپ قائم کئے ہوئے ہیں- کہیں اگر ان کو کچھ سیاسی اقتدار مل گیا ہے تو وہاں وہ آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں- اِن میں سے کوئی بھی صورت خدا کے منصوبے کے مطابق نہیں، اِس لیے وہ نتیجہ خیز بننے والی بھی نہیں-
رول کی تبدیلی
اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے جو دین بھیجا، اُس کے دو تقاضے تھے — ایک تھا، اس کی حفاظت (preservation)، اور دوسرا تھا اس کا اظہار- دین کی حفاظت کا کام پہلے، بنی اسرائیل کو سونپا گیا، مگر وہ اس میں ناکام ہوگئے- اِس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: اَلَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا (
بنی اسرئیل کی ناکامی کے بعد بنو اسماعیل (امتِ محمدی) کو دینِ خداوندی کے حامل ہونے کی یہ ذمے داری سپرد کی گئی- امت محمدی نے اپنے آغاز کے بعد ہزار سال کی مدت میں دین کی حفاظت کا کام پوری طرح انجام دے دیا- اب خدا کا دین کامل طورپر محفوظ ہے- امت محمدی کو اس کے آغاز کے بعد لمبی مدت تک مددگار قوت کے طورپر سیاسی دبدبہ عطا کیاگیا- اس دبدبے کا خاص مقصد یہی تھا کہ دین کا متن (text) اور اس کی تاریخ مستند طورپر محفوظ ہوجائے-
اِس کے بعد دوسرا کام جو مطلوب تھا، اس کو ایک لفظ میں اظہار کہا جاسکتا ہے- امت مسلمہ اِس دوسرے کام کو انجام نہ دے سکی- اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو غیر معمولی مواقع دئے گئے — تعداد، دولت اور سیاسی طاقت، وغیرہ -مگر امت مسلمہ اِس دوسرے مطلوب کام کو انجام دینے میں ناکام رہی- اٹھارھویں صدی کے آخر میں یہ واضح ہوگیا کہ امت مسلمہ اب اُسی طرح ایک بے جان قوم بن چکی ہے، جیسا کہ اِس سے پہلے بنی اسرائیل اپنے دورِ زوال میں ایک بے جان قوم بن چکے تھے-
بے جان ہونے کا مفہوم
کسی امت کے بے جان ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دینِ خداوندی کو چھوڑ دے اور اعلان کے ساتھ کوئی دوسرا دین اختیار کرلے- اِس قسم کی تبدیلی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آج ہوگی- یہ ایک واقعہ ہے کہ
اِس صورتِ حال کا سبب کیا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ دھیرے دھیرے امت کی بعد کی نسلوں میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ لوگ اسلام کے نام پر ایک خود ساختہ اسلام (self-styled version of Islam) بنا لیتے ہیں- اِس خود ساختہ اسلام میں اسپرٹ حذف ہوجاتی ہے اور صرف کچھ ظاہری شکلیں باقی رہتی ہیں- پھر لمبی مدت تک اُس پر قائم رہتے ہوئے وہ اُس پر پختہ (conditioned) ہوجاتے ہیں- اِس پختگی (conditioning) کے ساتھ ہمیشہ ایک فرضی یقین (false conviction) جمع ہوجاتا ہے- وہ اپنےوضع کردہ اسلام پر اِس طرح جینے لگتے ہیں، جیسے کہ وہ خدا اور رسول کےدین پر قائم ہیں- اِسی فرضی یقین کا نام بے جان ہونا یا زندگی سے محرومی ہے- جو لوگ اِس حالت پر پہنچ جائیں، وہ اِس صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں کہ وہ دوبارہ اپنی روش پر نظر ثانی کرسکیں-
کنڈیشننگ کی حالت
یہی وہ حالت ہے جس کا ذکر یہود کے حوالے سے قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ (
قرآن کی اِس آیت میں ’غُلف‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- عبد اللہ بن عباس نے اس کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: أی قلوبنا ممتلئة علما، لا تحتاج إلى علم محمد ولا غیرہ (القرطبی
پچھلی امتوں کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے: الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا ۭکُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ (
یہی حال موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ہوا ہے- وہ خود ساختہ تعبیرات کے مطابق، مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں- یہ تمام گروہ خود ساختہ تصورِ دین پر قائم ہیں- لیکن لمبی مدت گزرنے کے بعد اب ہر گروہ کا ذہن اپنے ماڈل کے حق میں اتنا زیادہ پختہ ہوچکا ہے کہ اب وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ وہ اُس پر نظر ثانی کرے-
امت مسلمہ اور اس کے بعد
امتِ مسلمہ کے حال اور مستقبل کو سمجھنے کے لیے قرآن کے سورہ الانبیاء کی اِن آیات کا مطالعہ کیجئے: وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَةٍ اَہْلَکْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ﱑ اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ (
یہ قرآن کی دو آیتیں ہیں- دوسری آیت میں واضح طورپر مستقبل میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر ہے، یعنی یاجوج اور ماجوج کا ظہور- پہلی آیت میں اگرچہ استقبال کا صیغہ استعمال نہیں ہواہے، لیکن اِس سے مراد بھی مستقبل میں پیش آنے والا واقعہ ہے، یعنی یاجوج اور ماجوج کے ظہور سے فوراً پہلے کاواقعہ-
اصل یہ ہے کہ پہلی آیت میں قرآن کے مخصوص اسلوب میں، امتِ مسلمہ کے مستقبل کا ذکر ہے- اِس آیت میں دفع کا وہی قانون بیان کیا گیا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا- یہاں حرام سے مراد امت کا ’غلف‘ کی حالت تک پہنچ جانا ہے، یعنی دورِ زوال کی حالت- اور اہلاک سے مراد یہ ہے کہ جب امت پر یہ حالت آئے گی تو اُس کو خدائی رول کے لیے رد کردیا جائے گا- یہ فطرت کا ایک عام قانون ہے جو امتِ مسلمہ پر بھی لازما آئے گا (لتتبعن سنن من کان قبلکم)، لیکن ایک فرق کے ساتھ، وہ یہ کہ امت یہود کو نظری اور عملی دونوں اعتبار سے رد کیا گیا تھا، لیکن امتِ مسلمہ کا رد کیا جانا صرف نظری اعتبار سے ہوگا، اِس کے بعدبھی عملی طورپر موجودہ دنیا میں اُن کی حیثیت باقی رہے گی، کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی اور نبی آنے و الا نہیں جو دونوں اعتبار سے امتِ مسلمہ کے رد کیے جانے کا اعلان کرسکے-
قرآن کی مذکورہ آیات میں صرف پہلی آیت امتِ مسلمہ کے بعد کے دور کے بارے میں ہے- جب کہ قانونِ فطرت کے مطابق، امت اپنے زوال کی آخری حد پر پہنچ چکی ہوگی- اِس آیت میں ہلاکت سے مراد معروف ہلاکت نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) کہا جاتا ہے- آیت میں حرام سے مراد بھی معروف حرام نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جمود کی وہ حالت ہے، جب کہ لوگوں کے اندر بے حسی کا وہ درجہ آجائے جس کو قرآن میں قساوت کہاگیا ہے، یعنی قبولیت (receptivity) کے مادے کا ختم ہوجانا-
اِس معاملے کی مثال فطرت میں پتھر اور زرخیز زمین (soil) کی صورت میں رکھ دی گئی ہے- پتھر پر پانی ڈالا جائے تو پتھر اس کو قبول نہیں کرے گا- پانی اس کے اوپر سے بہہ جائے گا- اس کے برعکس، زرخیز مٹی میں پانی ڈالا جائے تو وہ اس کو بھر پورطورپر قبول کرلیتی ہے- اِسی طرح جب کوئی قوم زندہ ہو تو اس کے اندر قبولیت کی صلاحیت بھر پور طورپر موجود ہوتی ہے- اِس کے برعکس، جب قوم میں جمود آجائے تو وہ قبولیت کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے-
کسی امت کی یہ حالت کیوں ہوتی ہے- اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے فرضی یقین (false conviction)- دور زوال میں یہ ہوتا ہے کہ امت حقیقتاً بے روح(spiritless) ہوجاتی ہے، لیکن ظاہری طور پر وہ ایک خود ساختہ دین (self-styled version of religion) پر قائم رہتی ہے- دھیرے دھیرے وہ اپنے اسی خود ساختہ دین پر اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ اس کے خلاف سوچنا اس کے لئے ناممکن ہوجاتا ہے- اس کا حال یہ ہوجاتاہے کہ حقیقی دین اس کے لیے اجنبی (غریب) بن جاتا ہے، خواہ اس کو کتنا ہی دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہو- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی امت کے اندر کوئی نیا فکری انقلاب (intellectual revolution) لانا ناممکن ہوجاتا ہے- اِس مرحلے پر پہنچ کر وہ تخلیقی فکر (creative thinking) سے محروم ہوجاتی ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ آیت میں ’أنہم لا یرجعون‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے-
اہلِ مغرب کا رول
صحیح البخاری میں ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (رقم الحدیث: 3062) یعنی اللہ ضروراِس دین کی تائید فاجر شخص کے ذریعے کرے گا-
اِس حدیث میں ’فاجر‘کا لفظ غیر مومن کے معنی میں آیا ہے- آج کل کی زبان میں اس کو سیکولر انسان کہہ سکتے ہیں-اِس روایت میں پیشین گوئی کی زبان میںیہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ بعد کے زمانے میں ایسے سیکولر لوگوں کو اٹھائے گا جو خدا کے دین کے معاملے میں تائیدی کردار (supporting role) ادا کریں گے- تاریخی اعتبار سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ تائیدی رول بالفعل عمل میں آچکا ہے- اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کی معرفت حاصل کی جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے-
دو مطلوب رول
اصل یہ ہے کہ دین اسلام کے حاملین سے دو رول مطلوب تھا — ایک رول وہ ہے جس کو قرآن میں حفاظتِ دین (
حفاظتِ دین سے مراد ہے دین کا قلمی یا کتابی تحفظ — قرآن کے اصل متن کا مکتوب حالت میں محفوظ ہوجانا، حدیث کا مدوّن مجموعہ تیار ہوجانا، سیرتِ رسول اور سیرتِ صحابہ کا لکھی ہوئی حالت میں ریکارڈ ہوجانا، اسلام کا وہ دور جس کو قرون مشہود لہا بالخیر کہاگیا ہے، اس کو مستند تاریخ کی حیثیت دے دینا، اسلام کی بنیاد پر ایسے ادارے (مسجد، مدرسہ، حج کا نظام، وغیرہ) قائم ہوجانا جن کے ذریعے ابدی طور پر اسلام کو ایک اجتماعی بنیادحاصل ہوجائے- یہ تمام کام ایک لفظ میں، تحفظ ِدین کےکام ہیں- امتِ مسلمہ نے اپنے ابتدائی تقریباً ہزار سال کے دوران اِس کام کو کامل طور پر اور مستند طور پر انجام دے دیا- یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ اسلام کا مستند ماخذ نہ صرف لائبریریوں میں موجود ہے، بلکہ پورا ذخیرہ انٹرنیٹ پر اِس طرح محفوظ ہوگیا ہے کہ ایک شخص فنگر ٹپ (fingertip) کے استعمال سے ایک لمحے میں اِس پورے ذخیرے تک رسائی حاصل کرسکتا ہے-
تائید دین کے چار اہم کام
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: مثل أمتی مثل المطر، لا یُدرى أوّلہ خیر، أم آخرہ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:2869) یعنی میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے یا اس کا آخرزیادہ بہتر ہے-
جیسا کہ معلوم ہے، بارش کا اول اور آخر دونوں اپنے اپنے لحاظ سے بہتر ہوتا ہے- اِس حدیث میں امت کے دو دور کا ذکر ہے — ابتدائی دور اور آخری دور، ایک پہلو سے امت کا ابتدائی دور بہتر ہے اور دوسرے پہلو سے اس کا آخری دور بہتر ہے-
اِس حدیثِ رسول میں دراصل امت کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے جو کہ اب واقعہ بن چکی ہے- امت کے پہلے دور میں ایک طرف، دین کو محفوظ دین کی حیثیت دی گئی ہے اور دوسری طرف، اِس دور میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے انسانی تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کردیا- اِس تاریخی پراسس کا آغاز امتِ مسلمہ نے کیا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں یہ رول مشرق سے مغرب کی طرف منتقل ہوگیا- اِس عمل (process) کے تکمیلی مرحلے میں جو چیزیں مطلوب تھیں، وہ زیادہ تر اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائیں- اِس تاریخی عمل کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں امت مسلمہ کے ذریعے ہوا- اِس کے بعد اہلِ مغرب نے اِس معاملے میں تائیدی رول (supporting role) انجام دیا، جس کی تکمیل انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں ہوئی-
چار پہلو
1- اِس معاملے میں اہلِ مغرب کے ذریعے جو کام انجام پایا، اس کے چار خاص پہلو ہیں اور اِن چاروں پہلوؤں کا اشارہ قرآن میں موجود ہے- اِن میں سے ایک کام وہ ہے جس کا ذکر بطور پیشین گوئی قرآن کی اِس آیت میں کیاگیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ(
قرآن کی اِس آیت میں جس پیشین گوئی کا ذکر ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ اِس دنیا میں معرفت اور ایمانی رزق کے بے شمار آئٹم ہیں، جن کو قرآن میں آیات اور آلاء اللہ اور کلمات اللہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- اِس قسم کی چیزوں کا ذکر قرآن اور حدیث میں ابتدائی طور پر موجود ہے، لیکن ان کی تفصیلات کو جاننا سائنٹفک مطالعے پر موقوف تھا جس کو قرآن میں زمین وآسمان پر تفکر سے تعبیر کیا گیا ہے-سائنسی مطالعے کے اِ س کام کا آغاز امتِ مسلمہ کے افراد نے کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل تمام تر اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائی- یہی وہ کام ہے جس کو موجودہ زمانے میں، ماڈرن سائنس (modern science) کہاجاتا ہے- ماڈرن سائنس کا نظریاتی حصہ پورا کا پورا قرآن کی اِس آیت کی تفصیل ہے- قدیم زمانے میں آیات اللہ کا علم صرف عینی مشاہدے کے ذریعے ممکن ہوتاتھا، اہلِ مغرب نے اس کو وسیع کرکے دور بینی مشاہدہ اور خورد بینی مشاہدے تک پہنچا دیا-
موجودہ زمانے کی نظریاتی سائنس نے فطرت (nature) کے بارے میں جو حقیقتیں دریافت کی ہیں، اُن کے ذریعے سے پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ انسان تخلیق میں خالق کو دریافت کرسکے،وہ معرفت ِ حق کے اُن اعلیٰ درجات تک پہنچ سکے جو قدیم روایتی دور میں انسان کے لیے ممکن نہ تھا-
2- اِس معاملے میں اہلِ مغرب کی دوسری دین یہ ہے کہ انھوں نے شکر خداوندی کے نئے بے شمار آئٹم دریافت کیے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ انعامات کو شعوری طورپر جانے اور اُن کے لیے منعم کا اعتراف کرے- اِسی اعتراف کا مذہبی نام شکر ہے- شکر کی حیثیت دین کے اہم ترین مطلوب کی ہے، لیکن اعلیٰ شکر، انعامات کی اعلیٰ معرفت ہی سے ہوسکتاہے، اور یہ وہ کام ہے جو تاریخ میں پہلی بار اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پایا-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے: وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(
خالق نے انسان کو اس کی ضرورت کی تمام چیزیں بطور عطیہ دے دی ہیں- یہ عطیات سب کے سب خدائی انعامات ہیں- اِن عطیات کی واقفیت سے اللہ کے لیے بے پناہ شکر پیدا ہوتا ہے- یہ عطیات یا نعمتیں بے شمار ہیں، مگر قدیم زمانے میں انسان اِن میں سے بہت کم عطیات کو جانتا تھا- ایسی حالت میں وہ بڑا شکر نہیں کرسکتا تھا- جدید مغربی سائنس نے فطرت میں چھپے ہوئے بے شمار نئے عطیات کو دریافت کیا اور جدید صنعت او ر ٹکنالوجی کے ذریعے اس کو عام انسان کے لیے قابلِ حصول بنا دیا- یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو اہلِ مغرب کے ذریعے پہلی بار انجام پایا- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ انسان اپنے رب کے لیے زیادہ بڑا شکر ادا کرسکے — اہلِ مغرب کا یہ عطیہ بلا شبہہ تائید دین کی ایک اعلی مثال کی حیثیت رکھتاہے-
3- اِس سلسلے میں اہلِ مغرب کی تیسری دین وہ ہے جس کو عالمی مواصلات کہاجاتا ہے- اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ اس نے اپنا پیغام جو پیغمبروں کے ذریعے بھیجا ہے، وہ تمام اہلِ عالم تک پہنچے- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً (
یہی بات حدیث میں پیشین گوئی کی زبان میں اِس طرح آئی ہے: لایبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند أحمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی سطح پر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کردے گا-
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ اُس نے پیغمبروں کے ذریعے جو ہدایت نامہ بھیجا ہے، وہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچے- مگر قدیم زمانے میں یہ عالمی پیغام رسانی ممکن نہ تھی- قدیم زمانے میں دعوت الى اللہ کا کام عملاً صرف مقامی طورپر ہوا، وہ عالمی طورپر انجام نہ پاسکا- موجودہ زمانے میں پہلی بار وہ ذرائع اور وسائل وجود میں آئے ہیں جن کو استعمال کرکے کرہ ارض کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اللہ کا پیغام پہنچ جائے، زمین پر بسنے والا کوئی بھی انسان اُس سے بے خبر نہ رہے-
یہ ذرائع اور وسائل خالق نے فطرت (nature) کے اندر بڑے پیمانے پر رکھ دئے تھے، مگر قدیم زمانے میں اِن ذرائع اور وسائل کو دریافت کرنا ممکن نہ ہوسکا- اہلِ مغرب نے پہلی بار ان کو دریافت کیا اور ان کو صنعتی مصنوعات (industrial products) کی صورت دے کر داعیوں اور مبلغوں کے لیے قابلِ حصول بنا دیا-
4- قدیم زمانے میں اقوام کی تنظیم (international organisation) کا تصور نہ تھا- قدیم زمانے میں صرف سیاسی تنظیم (political organisation) کا تصور تھا، جو کسی بڑی سلطنت کے تحت بذریعہ طاقت قائم ہوتا تھا-اِس تصور کے تحت قدیم زمانے میں وہ نظریہ وضع ہوا جس کو جنگ برائے امن (war for peace) کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ اقتدار کے باہر اصول کی بنیاد پر قوموں کی تنظیم قائم کی جائے جو بین اقوامی معاملات میں اقتدار کے استعمال کے بغیر پرامن طورپر فیصلہ کن رول ادا کرسکے-
قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ امن صرف سیاسی اقتدار کے ذریعے قائم ہوتا ہے- اِس تصور کا نتیجہ یہ تھا کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک ساری دنیا میں جنگوں کا سلسلہ جاری رہا- یہ طریقہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا- خدا کے تخلیقی منصوبے کا تقاضا ہے کہ قوموں کے درمیان پرامن تعلقات ہوں، تاکہ دعوت اورتعلیم جیسا تعمیری کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے- اِس لیے اسلام میں یہ مطلوب تھا کہ بین اقوامی امن کو سیاسی اقتدار سے الگ کردیا جائے- بین اقوامی امن کو معاہدات کی بنیاد پر قائم کیا جائے، نہ کہ سیاسی اقتدار کی بنیاد پر-
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں جو انقلاب آیا، اُس کا ایک پہلو یہ بھی تھا-اُس زمانے میں پہلی بار ایسا ہواکہ معاہدات کی بنیاد پر بین الاقوامی امن کا قیام عمل میںآیا - یہ معاہدہ حدیبیہ تھا جو
معاہدہ حدیبیہ صرف ایک واحد واقعہ نہ تھا، وہ تاریخ میں ایک نئے دورِ امن کا آغاز تھا- اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا، جو سفر کرتے ہوئے یورپ تک پہنچا- چناں چہ 1920 میں جنیوا (سوئزرلینڈ) میں ایک بین اقوامی ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام جمعیتِ اقوام (League of Nations) تھا- اِس جمعیت میں کُل
اِس کے بعد اِس مقصد کے لیے 1945 میں نئ اور زیادہ بڑی تنظیم قائم ہوئی- اس کا نام تنظیم اقوامِ متحدہ (United Nations Organisation) تھا- اِس دوسری تنظیم میں
یہ واقعہ بھی انھیں واقعات میں سے ہے جس کا ذکر ’’تائید دین‘‘ کے طورپر کیاگیا ہے، اِس واقعے کو دوسرے الفاظ میں، دورِ شمشیر کو ختم کرکے عملا دورِ امن کو لانا کہاجاسکتا ہے- بین اقوامی تعلقات میں یہ تبدیلی عین اسلام کے حق میں ہے- یہ واقعہ اُس تاریخی عمل (historical process) کا نقطہ انتہا ہے جس کا آغاز ساتویں صدی کے ربع اول میں معاہدہ حدیبیہ کے ذریعے کیاگیا تھا-
قدیم زمانے میں جنگ اور امن کا کوئی متفقہ اصول نہ تھا- جو لوگ سیاسی اقتدار پر قابض ہوتے تھے، وہی جنگ اور امن کا فیصلہ کرتے تھے- قوموں کے درمیان معاہداتی تنظیم کے مذکورہ طریقے نے اِس صورتِ حال کو ختم کردیا- اب یہ ممکن ہوگیا کہ باہمی مسائل کا فیصلہ بین اقوامی گفت وشنید (international negotiation) کے ذریعے طے کیا جائےاور باہمی ا ختلافات کے باوجود عالمی امن کو برقرار رکھا جائے- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ ہر حال میں تعمیری سرگر میاں کسی رکاوٹ کےبغیر جاری رہیں-
جو لوگ چیزوں کو معیار کے پیمانہ (ideal yardstick) سے ناپتے ہیں، وہ اِن اداروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں-پہلے وہ جمعیت اقوام کے ناقد تھے، اب وہ اقوامِ متحدہ کے ناقد بنے ہوئے ہیں، مگر یہ صرف بے دانشی کی بات ہے- یہ لوگ معیاری امن (ideal peace) کی باتیں کرتے ہیں، مگر اِس دنیا میں معیاری امن کا حصول سرے سے ممکن ہی نہیں-
اِس دنیا میں کوئی چیز صرف خدا کے تخلیقی منصوبے کے تحت ہی حاصل کی جاسکتی ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے تحت اِس دنیا میں صرف قابلِ عمل امن (workable peace) کا حصول ممکن ہے، اور بلاشبہہ اقوام متحدہ نے قابلِ عمل امن کے حصول کو ممکن بنا دیا ہے-
خداکے منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- اِس آزادی کو منسوخ کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں- یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا میں کوئی چیز معیاری درجے میں نہیں، بلکہ صرف قابلِ عمل (workable) درجے میں حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ امن اور عدل ہو یا اور کوئی چیز-
قرآن کی سورہ الانفال میں رسول اور اصحابِ رسول کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (
اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ قرآن کے مخصوص اسلوب میں یہی بات ہے- دوسرے الفاظ میں، اِس حکم کا مطلب یہ ہے کہ — اپنی ساری طاقت استعمال کرکے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرو جس کے نتیجے میں ایسا ہو کہ دنیا میں جنگ کی حالت نہ رہے اور امن کی حالت قائم ہوجائے- قرآن کی یہ آیت ایک دور کو ختم کرنے اور دوسرے دور کا آغاز کرنے کے معنی میں ہے، نہ کہ کسی وقتی کارروائی کے معنی میں-
استبدالِ قوم کا قانون
قرآن میں ایک خدائی قانون کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (
قرآن کی اِس آیت میں جس استبدال (replacement) کا ذکر ہے، اس کے دو پہلو ہیں- ایک پہلو سے اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے- اگر مسلمانوں کے اندر عمومی طورپر زوال اور فساد آجائے تو اللہ تعالی کو یہ مطلوب ہوگا کہ یہ صورتِ حال بدلے اور ایسے اہلِ ایمان پیدا ہوں جو صحیح معنوں میں دینِ خداوندی پر قائم ہوں-
لیکن اِس استبدال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بگڑی ہوئی امت اگر ایک بلین کی تعداد میں ہے تو اس کی جگہ ایک بلین ہی کی تعداد میں دوسری صالح امت پیدا کردی جائے- یہ استبدال ہمیشہ افراد کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ مجموعی طورپر ایک پوری امت کے اعتبار سے-
اِس استبدال کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا اوپر ذکر کیاگیا، یعنی اظہارِ دین کے اجزا کو دریافت کرنے میں اگر امتِ مسلمہ ناکام ہوجائے تو اللہ تعالی سیکولر طبقے میں سے ایسے مؤید ِین کو اٹھائے گا جو اس کام کو انجام دیں اور معرفت اور شکر اور دعوت کے اعلی درجات تک پہنچنے کو ممکن بنا دیں-
خلاصہ کلام
انسان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) یہ ہے کہ انسان کو آزادی دے کر اس کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realisation) پر کھڑا ہو اور کامل اختیار رکھتے ہوئے اللہ کے تخلیقی منصوبے کے تحت زندگی گزارے- جو لوگ اِس امتحان میں کامیاب ہوں، وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی جنتوں میںداخل کیے جائیں گے-اللہ نے نبیوں کو اِسی لیے بھیجا کہ وہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں- اِس رہنمائی کے مختلف مراحل ہیں، جو کہ قرآن وحدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتے ہیں-
حضرت ابراہیم کا زمانہ تقریباً چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- حضرت ابراہیم کے زمانے تک جو پیغمبر آئے، وہ انفرادی سطح پر انسان کو رہنمائی دیتے رہے-حضرت ابراہیم کے بعد ایک نئی منصوبہ بندی کی گئی، یعنی ایک قوم وجود میں لانا اور تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری کرنا، جو بالآخر اللہ کے دین کے کامل اظہار تک پہنچ جائے-
یہ نیا منصوبہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل سے شروع ہوا- اس کے بعد رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے اس کو طاقت ور تحریک (boost)ملی- اِس کے بعد امتِ مسلمہ کی حکومتوں کا دور آیا- اِس دورِ اقتدار میں خدا کا دین اصولی اور نظریاتی طورپر پوری طرح محفوظ ہوگیا- اِسی کے ساتھ تاریخ میں ایک نیا عمل جاری ہوا-
اِس آخری دور میں اہلِ مغرب نے بالواسطہ طورپر تائید کا رول اداکیا- انھوںنے فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اِس بات کو ممکن بنا دیا کہ خدا کے دین کو انسان کے مسلّمہ علمی معیار پر مدلل کیا جاسکے- عطیاتِ الہی کے چھپے ہوئے اجزا کو دریافت کرکے انھوں نے اِس بات کو ممکن بنایا کہ انسان اعلی عطیاتِ الہی کا تجربہ کرے اور اپنے رب کے لیے اعلى شکر کا رسپانس دے سکے- اِس طرح اہلِ مغرب نے یہ کیا کہ انھوںنے فطرت کے اندر چھپے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے جدید مواصلات تک دست رس حاصل کی- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ اللہ کے پیغام کو عالمی سطح پر ہر عورت اور مرد تک پہنچایا جاسکے- اِسی طرح اہلِ مغرب نے انسانی تاریخ کو دور سیاست سے نکال کر دورِ تنظیم (age of organization) تک پہنچایا- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ سیاسی طاقت کے بغیرآزادانہ طورپر تمام دینی تقاضے انجام دئے جاسکیں-
جہاں تک حفاظتِ دین کا تعلق ہے، اس کو تمام تر امتِ مسلمہ نے انجام دیا- اظہارِ دین کے کام کا آغاز بھی امتِ مسلمہ کے ذریعے ہوا، لیکن کامل اظہار کے لیے جو وسائل درکار تھے، وہ قدیم زمانے میں موجود نہ تھے- اِس میدان میں بھی امتِ مسلمہ نے ابتدائی کام کیا، لیکن اس کو اتمام تک پہنچانا باقی تھا- اظہارِ دین کا یہ تکمیلی مرحلہ اہلِ مغرب کی جدید دریافتوں کے ذریعے انجام پایا- تاہم اس معاملے میں اہلِ مغرب کا حصۂ تائید باعتبارِ وسائل ہے، تاہم تائید کا یہ واقعہ اتفاقاً پیش نہیں آیا، بلکہ وہ اُس تاریخی عمل (historical process) کا نقطہ انتہا (culmination) تھا جو امتِ مسلمہ کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا-(1 دسمبر 2012)
واپس اوپر جائیں
سائنس کی تاریخ کے مشہور واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ برطانیہ کا نوجوان سائنس داں نیوٹن (وفات: 1727) اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا- اُس وقت سیب کے درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر اس کے سر پر گرا- اِس چوٹ سے اس کے اندر سوچ کا ایک طوفان آگیا- اِس واقعے کے بعد اس نے زمین کی کشش کا نظریہ دریافت کیا:
It is one of the most famous anecdotes in the history of science. The young Isaac Newton is sitting in his garden when an apple falls on his head and, in a stroke of brilliant insight, he suddenly comes up with his theory of gravity.
کرہ ارض کے اندر کشش (gravitational pull) ایک عظیم نعمت ہے- اِس کشش کے بغیر زمین پر انسان کی آبادی اور انسانی تہذیب کا وجود ممکن نہ تھا- انسانی زندگی کی تمام سرگرمیاں اِسی زمینی کشش کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں- یہ کشش نہ ہو تو زمین کے اوپر ہوا، پانی، سبزہ، انسانی آبادیاں ہر چیز کا خاتمہ ہوجائے- اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ انسان اِس حقیقت کو شعوری طورپر جانے اور اِس نعمت پر خالق کا گہرا شکر ادا کرے- اللہ نے مختلف فطری نشانیوں کے ذریعے اِس کی طرف انسان کو متوجہ کیا- مثلاً اوپر کی فضا سے پانی کا نیچے آنا، وغیرہ- مگر انسان اِس پر غور نہ کرسکا، اِس لیے وہ اِس دریافت تک بھی نہیں پہنچا-
نیوٹن کے سرپر سیب کا گرنا گویا سر پر پتھر مار کر انسان کے ذہن کو بیدار کرنا تھا، تاکہ وہ فطرت کے اِس ظاہرے پر غور کرے اور زمین کی کشش کے قانون کو دریافت کرے- گویا یہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise)کا معاملہ تھا- یہ طریقہ کامیاب ہوا اور انسان اِس عظیم نعمت کو شعوری طورپر دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا-تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جب کہ عام حالات میں انسان ایک حقیقت کو دریافت نہ کرسکا تھا، پھر اس کے ساتھ وہ تجربہ پیش آیا جس کو شاک ٹریٹمینٹ (shock treatment) کہا جاتاہے اور پھر اس نے حقیقت کو دریافت کرلیا- اصل یہ ہے کہ ہر زحمت میں ایک رحمت ہوتی ہے، آدمی اگر اِس حقیقت کو سمجھے تو وہ کبھی مایوسی کا شکار نہ ہو-
واپس اوپر جائیں
There should be change in Pakistan and there was no other way to bring change in Pakistan but politics.
الیکشن ہوا تو نواز شریف کو بھاری کامیابی حاصل ہوئی اور عمران خان کو اسمبلی میں بہت کم سیٹ ملی- اِس کے بعد عمران خان نے دوسرا بیان (
Imran Khan has given a three day ultimatum to the Election Commission of Pakistan (ECP) to probe rigging in the genereal elections, otherwise his party would lauch protests across the country against the ECP.
بعد کی خبروں سے معلوم ہواکہ انصاف پارٹی اور جماعت اسلامی نے مل کر پاکستان میں احتجاجی مہم شروع کردی- اُن کا نعرہ یہ تھا کہ الیکشن میں جو پارٹی کامیاب ہوئی ہے، اس کو منتخب پارٹی نہیں کہا جاسکتا ، کیوں کہ اس نے یہ کامیابی دھاندلی کے ذریعے حاصل کی ہے-
یہ طریقہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے والاہے- صحیح طریقہ ہے کہ جو پارٹی الیکشن میں کامیاب ہوئی ہے، اس کو مقررہ مدت تک کام کرنے کا موقع دیاجائے اور دوسری پارٹیاں تعلیم ا ور دعوت جیسے غیرسیاسی میدانوں میں پر امن جدوجہد شروع کردیں- یہی تعمیر ِ ملک کا واحد طریقہ ہے-
نوٹ: مذکورہ موضوع پر مولانا وحید الدین خاں کا تفصیلی خطاب سننے کے لئے ملاحظہ ہو:
(http://cpsglobal.org/content/politics-and-nation-building-i-may-19-2013)
واپس اوپر جائیں
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسٹریس (stress) ایک برائی (evil) ہے- وہ انسان کی قوتِ کارکردگی کو گھٹا دینے والا ہے، وہ انسان کو ذہنی سکون سے محروم کردیتا ہے، حتی کہ اسٹریس ایک ایسی برائی ہے جو آدمی کی عمر کو کم کردینے والی ہے- اِس تصور کے تحت ساری دنیا میں ایک نئی انڈسٹری کھل گئی ہے- اِس کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing)کہاجاتا ہے-
مگر حال میں امریکا میں اِس موضوع پر ایک رسرچ ہوئی ہے- اِس سے ثابت ہوا ہے کہ اسٹریس کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ اسٹریس کسی انسان کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے:
Stress primes the brain for improved performance and optimal alertness.
دنیا میں مختلف قسم کے مسائل ہیں- یہی مسائل انسان کے لیے اسٹریس یا ٹنشن کا ذریعہ بنتے ہیں- فلاسفہ نے اِن مسائل کو لے کر ایک نظریہ بنایا جس کو وہ پرابلم آف اِول (problem of evil) کہتے ہیں- ان کے نزدیک، یہ مسائل (problems)اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اِس دنیا کا کوئی خالق نہیں، اگر اِس دنیا کا کوئی خالق ہوتا تو وہ دنیا کو پرفکٹ انداز میں بناتا اور پھر ہم کو رہنے کے لیے ایک پرابلم فری دنیا مل جاتی- مگر تحقیقات نے بتایا کہ دنیا میں مسائل کا ہونا ایک نعمت ہے، کیوں کہ یہی مسائل ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنتے ہیں، یہی مسائل دماغ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو انفولڈ کرتے ہیں-
Being overworked and stressed may have a positive side, say scientists who found short-lived stress primes the brain for improved performance and optimal alertness. Researchers from University of California, Berkeley uncovered exactly how acute stress, — short-lived, not chronic, — primes the brain for improved performance. “You always think about stress as a really bad thing, but it’s not. Some amounts of stress are good to push you just to the level of optimal alertness, behavioural and cognitive performance,” said Daniela Kaufer, associate professor of integrative biology at the UC Berkeley. (The Times of India, New Delhi, April 18, 2013, p. 19)
واپس اوپر جائیں
سوال
عرض ہےکہ آپ نے ماہ نامہ الرسالہ مارچ 2013 کے شمارے کے ٹائٹل پر ایک عبارت تحریرفرمائی ہے، جو اس طرح ہے: ’’چھوٹوں کو عزت دینا اخلاص کی پہچان ہے اور بڑوں کو عزت دینا منافقت کی پہچان‘‘- میں اِس عبارت کو سمجھنے سے قاصر ہوں- آپ نے بڑوں کو عزت دینے کو منافقت سے تعبیر کیا ہے، جب کہ احادیث سے ثابت ہے کہ بڑوں کو عزت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے- ازراہِ کرم، اِس عبارت کی وضاحت فرمائیں- (فیصل احمد، کشمیر)
جواب
الرسالہ کے ٹائٹل پر چھپنے والا یہ قول موجودہ زمانے کی نسبت سے ہے- اِس عبارت کو اگر آپ اِس اضافے کے ساتھ پڑھیں کہ موجودہ زمانے میں یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ چھوٹے (کم حیثیت کے) لوگوں کو عزت نہیں دیتے اور وہ بڑوں (زیادہ حیثیت والوں) کو عزت دیتے ہیں، تو اِس قول کا مطلب بالکل واضح ہوجائے گا- حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اخلاقیات کے مطابق، چھوٹوں کو عزت دینا اخلاص کی پہچان ہے اور بڑوں کو عزت دینا منافقت کی پہچان-
الرسالہ کے اِس قول میں ’’چھوٹوں‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو معمولی درجے سے تعلق رکھنے والا سمجھا جاتاہے اور ’’بڑوں‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اعلی درجے سے تعلق رکھنے والا سمجھا جاتاہے- مذکورہ حدیث ( لیس منامن لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا) سے الرسالہ کے اِس قول کا کوئی تعلق نہیں- مذکورہ حدیثِ رسول دوسرے سیاق میں آئی ہے اور الرسالہ کا یہ قول دوسرے سیاق میں- دونوں کا سیاق (context) بالکل الگ الگ ہے-
سوال
میں تفسیر اَحسن البیان (حافظ صلاح الدین یوسف) پڑھ رہا تھا- سورہ النساء کی آیت
جواب
مذکورہ تفسیر میں جو مسئلہ بیان کیا گیا ہے، وہ مسئلہ درست نہیں، کیوں کہ اس میں بخاری کی مذکورہ روایت کو مطلق معنی میں لے لیا گیا ہے- اِس سلسلہ کی دوسری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مطلق معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ فقہا کی اصطلاح میں، ’’بیان جواز‘‘ کے معنی میں ہے-
قرآن اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ اہلِ ایمان کو ہمیشہ زیادہ بہتر انداز میں جواب دینا چاہیے- اِس معاملے میں یہود یا کسی دوسرے کا کوئی استثنا نہیں ہے- اعلی اخلاق (
صحیح البخاری کی مذکورہ روایت کی تشریح کے تحت صاحبِ فتح الباری نے لکھا ہے: وذہب جماعة من السلف إلى أنہ یجوز أن یقال فی الردّ علیہم ’’علیکم السلام‘‘ کما یردّ على المسلم- واحتج بعضہم بقولہ تعالى: فاصفح عنہم وقل سلام (
سلام جیسے معاملے میں مذکورہ قسم کی بحث اُس وقت پیداہوتی ہے، جب کہ اُس کو خالص فقہی اور قانونی نظریے سے دیکھا جائے- اس کے برعکس، اگر اِس معاملے کو دعوتی اخلاقیات کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ تالیفِ قلب کا مسئلہ بن جائے گا اور کہا جائے گا کہ اِس معاملے میں مسلم اور غیرمسلم کی تمیز مت کرو، بلکہ ہر ایک کو یکساں طورپر مدعو کی نظر سے دیکھو، حتی کہ اگر بالفرض فریقِ ثانی نے ’’السام علیکم‘‘ کہا ہے، تب بھی صفحِ جمیل (
آپ نے لکھا ہے کہ — کیا اِس کا اطلاق آج ہمارے پڑوسی مذہب کےہندوبھائیوں پر بھی ہوگا- جواب یہ ہے کہ یقیناً ہوگا- جو مثبت روش آپ کو دوسرے اہلِ کتاب کے بارے میں اختیار کرنا ہے، وہی مثبت روش آپ کو ہندو مذہب کے لوگوں کے بارے میں بھی اختیار کرنا ہے- بعض علما نے ہندوؤں کو ’’شِبہہِ اہلِ کتاب‘‘ لکھا ہے- میں اِس کو توسیعی معنی میں لیتے ہوئے یہ کہوں گا کہ تمام دنیا کے لوگ یا تو اہلِ کتاب ہیں، یا شبہِ اہلِ کتاب، کیوں کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بتایا گیاہے کہ: وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (
واپس اوپر جائیں
1- سہارن پور (یوپی) میں 20 مارچ 2013 کو ایک احتجاجی جلوس کو روکنے کے لیے مقامی پولس انتظامیہ کے لوگ تعینات تھے- اِس موقع پر سہارن پورٹیم کےممبران نے انتظامیہ کے لوگوں سے مل کر اُن کو دعوتی لٹریچر دیا-
2- مقامی انتظامیہ اور نئی دہلی کے اسکارٹ ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کی ٹیم کے ساتھ مل کر نیشنل میڈیکل کالج کی ٹیم نے
3- ہوٹل رائل ریزی ڈینسی (سہارن پور) میں
4- پیس ہال (سہارن پور) میں
5- رڑکی (اتراکھنڈ) اور سہارن پور میں مارچ اور اپریل 2013 کے دوران شادی کی کئی تقریبات ہوئیں، ہمارے ساتھیوں نے یہاں شرکت کے دوران حاضرین کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا-
6- نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 7 اپریل 2013 کو ڈاکٹر ہینی مینس ڈے کے موقع پر ایک بڑا پروگرام ہوا- اِس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ، ڈاکٹر سی بی ترپاٹھی (اے ڈی ایم ای)، ڈاکٹر آر پی شرما (سی ایم ایس) اور ڈاکٹر شلبھ جین جیسے لوگوں نے شرکت کی- یہاں تمام حاضرین کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا-
7- برطانیہ (Earls Court) میں
8- دوسرے مقامات کی طرح کلکتہ میں ہمارے ساـتھی دعوہ ورک کررہےہیں- اِس سلسلے میں
9 - ہالینڈ یونی ورسٹی کی رسرچ اسکالر مز بیٹ ڈام (Bett Dam) اسلام اور طالبان کے موضوع پر رسرچ کررہی ہیں- اِس سلسلے میں آج کل وہ افغانستان میں مقیم ہیں- 16 اپریل 2013 کو انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے اِس موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تفصیلی انٹرویو لیا- مز بیٹ ڈام کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا-
10- انڈیا اور انڈیا کے باہر مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی دعوتی کام کررہے ہیں- مثلاً ہمارے ایک ساتھی مولانا عبد الباسط عمری دوحہ (قطر) میں مقیم غیر مسلموں کے درمیان خاص طورپر دعوتی کام کرتے ہیں- اِس سلسلے میں انھوں نے 18 اپریل 2013 کو اللؤلؤ ہائپر مارکیٹ (دوحہ) کے اسٹاف کو قرآن کا انگریزی ترجمہ بطور گفٹ پیش کیا- اِسی طرح 20 اپریل 2013 کو انھوںنے وہاں کے مشہور شاپنگ سنٹر (الخورمال) میں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس دئے-اس کو لوگوںنے خوشی اور شکریے کے ساتھ قبول کیا-
http://khabarsouthasia.com/en_GB/articles/apwi/articles/features/2013/05/01/feature-01
http://cpsglobal.org/articles/speakingtree
Respected Maulana, I want to say that I was very confused before adopting your views & , your real Islamic thought. Alhamdulillah, today I dont have any confusion. Some years ago, when I was in Nadwa , that time my mind was very suspicious towards everything even Islam, but now I am fully satisfied, there is no confusion. I respect all human beings & by Allah’s grace, I am doing dawah work here in Jeddah as much as I can. I m very thankful to you. (Malik Anas Nadwi, KSA)
I was reading Al-Risala of May 2013. I felt a lot of love and respect for the Maulana. He always connects me with my Lord. His writings almost always bring tears to my eyes. We can't afford losing him, may Allah add my days to his life. (Riyaz Ahmad, Kashmir)
I am very happy to share with you the good news that the Government of Pakistan has included an article of Maulana Wahiduddin Khan in the Textbook of English (Compulsory). The textbook is for class 10 (matric students). The title of this article is: “The sublime character of Prophet Muhammad” covering the first 13 pages with a short note of Maulana’s biography. The article is taken from Maulana’s book “The Prophet of Revolution.” (Salman, Pakistan)
We saw Maulana on Al-Maurid web tv (www.almawrid.org ) and are touched by his clarity of thinking and the manner of discourse pertaining to spiritual matters. (Dr Ataulla Butt, USA)
I have read about 35 pages of the book Moral Vision by Maulana Wahiduddin Khan. It is during these times of trail and struggle when words of encouragement and kindness from fellow beings show the true meaning of humanity. I also read his articles in the Speaking Tree. Please do convey my regards and gratefulness to the Maulana. I believe he writes for the betterment of our society, and in giving directions and hope to individuals like me, he has actually touched many hearts and changed many minds. (Bhagya Nair, Delhi University)
18- سی پی ایس کے ممبر ثانی اثنین خاں کو 1 مئی 2013 کو اُن کی کتاب ’دی اسٹوری آف خدیجہ‘ (The Story of Khadija) کے لیے شارجہ چلڈرنس بک ایوارڈ (Sharjah Children’s Book Award) سے نوازا گیا- یہ ایوارڈ
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.