ایک تاریخی قانون
قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک تاریخی قانون کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ فَہَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَاۗءُ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ( 2:250-251 )- یعنی جب جالوت اور اس کی فوجوں سے اُن (بنی اسرائیل) کا سامنا ہوا تو انھوں نے کہا: اے ہمارے رب، ہمارے اوپر صبر ڈال دے اور ہمارے قدموں کو جما دے اور منکروں کے مقابلے میں تو ہماری مدد کر- پھر انھوںنے اللہ کے اذن سے اُن (فلسطینیوں) کو شکست دی- اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا- اور اللہ نے داؤد کو ملک اور حکمت عطا کیا اور جن چیزوں کا چاہا، اس کا علم بخشا- اور اگر اللہ بعض کو بعض لوگوں سے دفع نہ کرتا رہے تو زمین فساد سے بھر جائے- مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے-
Had it not been for God’s repelling some people by means of others, the earth would have been filled with corruption. But God is bountiful to mankind.
قرآن کی اِن آیات میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ واقعہ قبل مسیح دور سے تعلق رکھتا ہے- فلسطین کے جنوبی حصہ (southern coastal area) میں ایک واقعہ ہوا- بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں ایک قوم آکر آباد ہوئی جس کو تاریخ میں، فِلسطی یا فلسطینی (Philistines) کہاجاتا ہے- اِن لوگوں نے یہاں اپنی حکومت قائم کرلی- بعد کو اُن کے درمیان بگاڑ آیا- اُس زمانے میں فلسطین کے شمالی حصے میں بنی اسرائیل آباد تھے- فلسطینی، بنی اسرائیل کے خلاف سرکشی کرنے لگے، یہاں تک کہ 1010 قبل مسیح میں فلسطینیوں کا بنی اسرائیل سے مسلّح ٹکراؤ ہوا - اِس ٹکراؤ میں ایک اسرائیلی نوجوان داؤد کی بہادری سے فلسطینیوں کو شکست ہوئی- اِس کے بعد رفتہ رفتہ 732 قبل مسیح میں فلسطینیوں کا اِس علاقے سے خاتمہ ہوگیا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’دفع‘ (repel)کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی ہٹانا- لسان العرب میں ’دفع‘ کی تشریح ’الإزالة بقوة‘ (8/87) سے کی گئی ہے- یہ ’دفع‘ دراصل تاریخ کے بارے میں اللہ کا ایک قانون ہے- مذکورہ واقعے میں اللہ تعالی نے اسرائیلی گروہ کے ذریعے فلسطینی گروہ کو اقتدار سے ہٹایا تھا- اللہ انسانی تاریخ کی مسلسل نگرانی کررہا ہے، وہ انسان کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کو مینیج (manage) کررہا ہے، وہ بار بار ایسے حالات پیدا کرتا ہے جب کہ ایک قوم دوسری قوم کو مقامِ اقتدار سے ہٹائے- اگر ایک قوم مسلسل طور پر مقامِ اقتدار پر قابض رہے تو اُس کے اندر جمود (stagnation) پیدا ہوجائے گا- یہ جمود مختلف صورتوں میں فساد (corruption) کا سبب بنے گا-
دفع کے اِس قانون کا تعلق سیکولر قوموں سے بھی ہے اور مذہبی قوموں سے بھی- اِس معاملے کی ایک مثال ہندستان ہے- ہندستان میں پہلے راجاؤں کی حکومت تھی- راجاؤں کے بعد یہاں مغل دور آیا، پھر مغل دور ختم ہوا اور برٹش دور آیا- اس کے بعد 1947 میں برٹش دور کا خاتمہ ہوا اور قومی حکومت (national government)کا دور آیا- یہ تمام تبدیلیاں دفع کے قانون کے تحت ہوئیں- ہر بار جب ایک گروہ کے اندر ’’فساد‘‘ آگیا تو اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری قوم لائی گئی- گویا پرانے خون (old blood) کی جگہ نئے خون (new blood) کو کام کرنے کا موقع دیاگیا- اِس عمل کو ریڈیکل آپریشن (radical operation) کہاجاسکتا ہے-
اوپر کی آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ-آیت کے اِس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ کے جس ’فضل‘ کا ذکر ہے، اُس سے مراد یہی قانونِ دفع ہے جو مسلسل طورپر سیاسی اقتدار کی تنظیم کررہا ہے- یہ تنظیم انسان کی اعلیٰ بہبود کے لیے ہے- اگر قانونِ دفع کی صورت میں انسانی اقتدار کی تنظیم نہ کی جائے تو دنیا میں سیاسی اجارہ داری (political monopoly)آجائے اور پھر انسانی تاریخ اپنی مطلوب منزل پر نہ پہنچ سکے گی-
یہود کی تاریخ
دفع کے اِس قانون کا نفاذبعد کے زمانے میں خود یہود (بنی اسرائیل) پر کیاگیا- بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے عروج اور غلبہ عطا کیا، لیکن ایک مدت کے بعد یہود میں بھی وہی ’’فساد‘‘ پیدا ہوا جو کہ ہر قوم میں پیداہوتا ہے- جب ایسا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے کسی اور قوم کے ذریعے یہود کے ساتھ دفع کا وہی معاملہ کیا جس کو ہم نے ریڈیکل آپریشن (radical operation) کا نام دیاہے-
اِس سلسلے میں قرآن میں دو متعین آپریشن کا حوالہ دیاگیا ( 17:4-8 )- پہلا واقعہ بابِل (عراق) کے بادشاہ نبوکد نضر(Nebuchadnezzar)کا ہے- اس نے 586 قبل مسیح میں فلسطین پر حملہ کیا، جو اُس وقت بنی اسرائیل کے زیر قبضہ تھا- نبوکد نضر نے بنی اسرائیل کی سیاسی طاقت کو توڑ دیا اور یروشلم میں ان کے عبادت خانہ (ہیکل سلیمانی) کو مکمل طور پر ڈھادیا-اِس کے بعد دوسرا واقعہ وہ ہے جو رومی بادشاہ ٹائٹس (Titus) کے ذریعے پیش آیا- ٹائٹس نے 70 عیسوی میں یروشلم پر حملہ کرکے اس کو پوری طرح تباہ کردیا- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تذکیر القرآن، صفحہ 760-762)-
بنی اسرائیل کے خلاف یہ آپریشن بطور سزا (punishment) نہ تھا، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ بطور انتباہ (warning) تھا- وہ اِس لیے تھا کہ بنی اسرائیل متنبہ ہوں، اُن کا جمود ٹوٹے اور وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: عَسَی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا( 17:8 )- لیکن بنی اسرائیل دوبارہ اصلاح قبول نہ کرسکے- وہ بدستور اپنی حالت پر قائم رہے- اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حاملِ کتاب الٰہی ہونے کی حیثیت سے معزول کردیا اور بنو اسماعیل کو حاملِ کتاب الٰہی کی حیثیت دے دی- تبدیلی کے اِس واقعے کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمً( 4:54 )-
مسلم تاریخ کی مثال
مسلم ملت دفع کے اِس تاریخی قانون سے مستثنىٰ نہیں- چناں چہ پچھلے چودہ سو سال میں یہ معاملہ بار بار پیش آیا ہے، یعنی ایک گروہ کو مقامِ اقتدار سے ہٹاکر اس کی جگہ دوسرے گروہ کو مقامِ اقتدار پر لانا، ایک گروہ کو معزول کرکے دوسرے گروہ کو کام کا موقع دینا- پچھلے چودہ سو سال میں جن مسلم گروہوں کو اقتدار ملا، اُن کی بنیادی تقسیم یہ ہے:
1- خلافتِ راشدہ (Rashidun Caliphate) 632-661 ء
2- خلافتِ امیہ (Umayyad Caliphate) 661-750 ء
3- خلافتِ اندلس (Moorish Empire) 711-1492 ء
4- خلافتِ بنوعباس (Abbasid Empire) 750-1258 ء
5- مغل سلطنت (Mughal Empire) 1226-1857 ء
6- عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299-1922ء
مذکورہ سیاسی واقعات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلم گروہ کو اقتدار حاصل ہوتا ہے اور پھر ایک مدت کے بعد اُس کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے گروہ کو لایا جاتا ہے- مسلم ملت کےدرمیان یہ سلسلہ تقریباً انیسویں صدی کے آخر تک جاری رہتا ہے- اس کے بعد مسلمانوں کا غلبہ ختم ہوجاتا ہے اور مغربی قوموں کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے، خواہ براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر- یہ تمام واقعات اتفاقاً نہیں ہورہے ہیں، بلکہ وہ اللہ رب العالمین کے قائم کردہ تاریخی قانون کے تحت ہورہے ہیں-
خلافتِ راشدہ کی اصطلاح ایک سیاسی ادارہ کی حیثیت سے بعد کے دور میں وضع ہوئی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا جو سیاسی ادارہ قائم ہوا، وہ تقریبا 30 سال تک باقی رہا- اس کے بعد اس کا خاتمہ ہوگیا- ایسا اتفاقاً نہیں ہوا- اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں خلافت کا یہ ادارہ اپنی اخلاقی خوبیوں کے باوجود سیاسی استحکام (political stability) کو باقی رکھنے کے قابل نہ رہا، اِس لیے اس کو ہٹا کر بنو امیہ کا دور لایا گیا- بنو امیہ کا خاص کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے عربی زبان اور عرب کلچر (المروءة، وغیرہ) کے فروغ کا شدت سے اہتمام کیا جو کہ اُس وقت قرآن کی کامل حفاظت کے لیے ضروری تھا-
بنو امیہ کی حکومت تقریباً 90 سال تک جاری رہی- ان کے دورِ حکومت کے آخری زمانے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عربیت کے تحفظ میں انھوں نے عالمی تقاضے کو فراموش کردیا- چناں چہ اس کے بعد بنو امیہ کو اقتدار کے مقام سے ہٹا کر ان کی جگہ بنو عباس کو لایا گیا- بنو عباس کےدور میں کئی بڑے بڑے کام انجام پائے — احادیث کو جمع کرنا، علومِ اسلامی کی تدوین، اسلام کی اشاعت، وغیرہ- اِس کے علاوہ انھوں نے اُس وقت کے سیکولر علوم کو حاصل کیا اور ان کو فروغ دیا- اِس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عالمی فکر پیدا ہوا- بنو عباس کے دبدبے کے تحت حفاظتِ دین کا کام کامیابی کے ساتھ جاری رہا- واضح ہو کہ دورِ قدیم میں حفاظتِ دین کےلیے سیاسی دبدبہ ضروری تھا، مگر اب پرنٹنگ پریس اور دوسرے موافق اسباب کے ظہور کے بعد سیاسی دبدبے کے بغیر خدا کا دین کامل طور پر محفوظ ہے-
بنو عباس کی سلطنت تقریبا 500 سال تک جاری رہی- اس کے بعد فطری طورپر بنو عباس میں جمود کا دور آگیا- وہ ترقی کے سفر کو مزید جاری رکھنے کے قابل نہ رہے- چناں چہ تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاریوں کے ذریعے ایک آپریشن کیاگیا اور اِس طرح عباسی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا-
اِس کے بعد تاریخی قانون کے مطابق، دوسری قوموں کو موقع دیاگیا- عباسی دور ہی میں ایک مسلم گروہ اٹھا جس نےاندلس (اسپین ) میں اپنا اقتدار قائم کرلیا- اِس حکومت کو سیکولر مورخین مورش سلطنت (Moorish Empire) کا نام دیتے ہیں- مورش سلطنت کو موافق حالات ملے، چناں چہ انھوںنے علم کی ترقی میں مزید بہت زیادہ اضافہ کیا- اُس دور کے ترقیاتی نمونوں کو استنبول (ترکی) کے میوزیم (The Istanbul Museum of the History of Science and Technology in Islam) میں دیکھا جاسکتا ہے-
مگر بعد کے دور میں اندلس کی مسلم سلطنت میں بگاڑ آگیا- اس کے حکمراں عیش وعشرت میں پڑ گئے- آخر کار 700 سال سے زیادہ مدت کے بعد اُن پر دفع کا قانون نافذ ہوا اور اسپین کے مسیحی حکمراں نے لڑ کر اُن کا خاتمہ کردیا-
اِسی دور میں مغل حکمراںہندستان میں داخل ہوئے اور یہاں ایک طاقت ور مسلم سلطنت قائم کردی- مغل سلطنت کے زیر سایہ ہندستان میں کئی کام انجام پائے- مغل حکمرانوں کو دعوت وتبلیغ سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن اُن کے دبدبے کے تحت صوفیوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اِس ملک میں اسلام کی اشاعت بڑے پیمانے پر کرسکیں- لیکن بعد کے دور میں مغل حکمرانوں میں بھی وہی بگاڑ آیا جو ہر قوم میں آتا ہے- چناں چہ 600 سال کے بعد ہندستان میں برٹش قوم ابھری اور اس نے 1857 میں مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا-
اِس سلسلے میں آخری نام عثمانی خلافت کا ہے- اس نے یورپ اور ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں اپنی سلطنت قائم کی- اس نے لمبے عرصے تک اسلام کا دبدبہ قائم رکھا- اِس طرح یہ ہوا کہ پرنٹنگ پریس اور دوسرے موافق اسباب کے ظہور سے پہلے کے دور میں وہ دینِ اسلام کی محافظ بنی رہی-آخر کار عثمانی خلافت میں بھی بڑے پیمانے پر جمود پیدا ہوا، وہ مسلسل کمزور ہوتی چلی گئی، یہاںتک کہ 600 سال کے بعد مغربی قوموں کا ظہور ہوا اور اِس طرح عثمانی خلافت کا دور ختم ہوگیا- کہاجاتاہے کہ کمال اتاترک (وفات: 1938) نے عثمانی خلافت کا خاتمہ کردیا، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کمال اتاترک نے 1924 میں ترک خلافت کے خاتمے کا صرف اعلان کیا تھا، اُس کا خاتمہ اِس سے بہت پہلے ہوچکا تھا(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ماہ نامہ الرسالہ، نومبر 2012)-
جمہوریت کا رول
دفع کا قانون پچھلے زمانے میں انقلابی عمل (ریڈیکل آپریشن) کے ذریعے انجام پاتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں اِس طریقے کو بدل دیاگیا- اِسی بدلے ہوئے طریقے کو موجودہ زمانے میں جمہوریت کہا جاتا ہے- جمہوریت دراصل دفع کے قانون کا باقاعدہ انسٹی ٹیوشنلائزیشن (institutionalization)ہے- فرانسیسی انقلاب (French Revolution) جمہوری دور کا آغاز ہے جس نے 1792 میں بادشاہی نظام کا خاتمہ کیا- اس کے بعد عالمی سیاست میں ایک نیا دور آیا، جس کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا کہ الیکشن کے ذریعے پُرامن طورپر حکومت کی تبدیلی ممکن ہوگئی- اِس طرح تاریخ میں ریڈیکل تبدیلی کے بجائے، پر امن تبدیلی (peaceful change) کا دور آگیا-
موجودہ زمانے کے مسلمان اِس الٰہی منصوبے کو سمجھ نہ سکے- وہ خود ساختہ ذہن کے تحت یہ کررہے ہیں کہ کہیں وہ ناکام طورپر دوسری قوموں سے لڑ رہے ہیں- مسلمانوں کی یہ منفی روش قانون الٰہی کے خلاف ہے، اِس لیے اس کا کوئی مفید نتیجہ نکلنے والا نہیں- اِسی طرح کہیں ایسا ہے کہ مسلمان پچھلے سیاسی ماڈل کی گرفت سے آزاد نہ ہونے کی بنا پر خاندانی لیڈر شپ قائم کئے ہوئے ہیں- کہیں اگر ان کو کچھ سیاسی اقتدار مل گیا ہے تو وہاں وہ آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں- اِن میں سے کوئی بھی صورت خدا کے منصوبے کے مطابق نہیں، اِس لیے وہ نتیجہ خیز بننے والی بھی نہیں-
رول کی تبدیلی
اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے جو دین بھیجا، اُس کے دو تقاضے تھے — ایک تھا، اس کی حفاظت (preservation)، اور دوسرا تھا اس کا اظہار- دین کی حفاظت کا کام پہلے، بنی اسرائیل کو سونپا گیا، مگر وہ اس میں ناکام ہوگئے- اِس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: اَلَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا ( 62:5 )
بنی اسرئیل کی ناکامی کے بعد بنو اسماعیل (امتِ محمدی) کو دینِ خداوندی کے حامل ہونے کی یہ ذمے داری سپرد کی گئی- امت محمدی نے اپنے آغاز کے بعد ہزار سال کی مدت میں دین کی حفاظت کا کام پوری طرح انجام دے دیا- اب خدا کا دین کامل طورپر محفوظ ہے- امت محمدی کو اس کے آغاز کے بعد لمبی مدت تک مددگار قوت کے طورپر سیاسی دبدبہ عطا کیاگیا- اس دبدبے کا خاص مقصد یہی تھا کہ دین کا متن (text) اور اس کی تاریخ مستند طورپر محفوظ ہوجائے-
اِس کے بعد دوسرا کام جو مطلوب تھا، اس کو ایک لفظ میں اظہار کہا جاسکتا ہے- امت مسلمہ اِس دوسرے کام کو انجام نہ دے سکی- اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو غیر معمولی مواقع دئے گئے — تعداد، دولت اور سیاسی طاقت، وغیرہ -مگر امت مسلمہ اِس دوسرے مطلوب کام کو انجام دینے میں ناکام رہی- اٹھارھویں صدی کے آخر میں یہ واضح ہوگیا کہ امت مسلمہ اب اُسی طرح ایک بے جان قوم بن چکی ہے، جیسا کہ اِس سے پہلے بنی اسرائیل اپنے دورِ زوال میں ایک بے جان قوم بن چکے تھے-
بے جان ہونے کا مفہوم
کسی امت کے بے جان ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دینِ خداوندی کو چھوڑ دے اور اعلان کے ساتھ کوئی دوسرا دین اختیار کرلے- اِس قسم کی تبدیلی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آج ہوگی- یہ ایک واقعہ ہے کہ 14 صدیاں گزرنے کے بعد امتِ مسلمہ پر وہ وقت آگیا جو پچھلی امتوں پر آیا تھا، یعنی مسلمان عملاً ایک بے جان قوم بن گئے- اب کوئی بھی اصلاحی جدوجہد ان کو مجموعی طورپر دوبارہ زندہ کرنے والی نہیں- اب جو چیز ہونے والی ہے، وہ صرف یہ کہ امت کے کچھ افراد کو شخصی طورپر زندگی ملتی رہے گی، نہ کہ پورے مجموعے کو-
اِس صورتِ حال کا سبب کیا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ دھیرے دھیرے امت کی بعد کی نسلوں میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ لوگ اسلام کے نام پر ایک خود ساختہ اسلام (self-styled version of Islam) بنا لیتے ہیں- اِس خود ساختہ اسلام میں اسپرٹ حذف ہوجاتی ہے اور صرف کچھ ظاہری شکلیں باقی رہتی ہیں- پھر لمبی مدت تک اُس پر قائم رہتے ہوئے وہ اُس پر پختہ (conditioned) ہوجاتے ہیں- اِس پختگی (conditioning) کے ساتھ ہمیشہ ایک فرضی یقین (false conviction) جمع ہوجاتا ہے- وہ اپنےوضع کردہ اسلام پر اِس طرح جینے لگتے ہیں، جیسے کہ وہ خدا اور رسول کےدین پر قائم ہیں- اِسی فرضی یقین کا نام بے جان ہونا یا زندگی سے محرومی ہے- جو لوگ اِس حالت پر پہنچ جائیں، وہ اِس صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں کہ وہ دوبارہ اپنی روش پر نظر ثانی کرسکیں-
کنڈیشننگ کی حالت
یہی وہ حالت ہے جس کا ذکر یہود کے حوالے سے قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ ( 2:88 ) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں کے اوپر غلاف ہے- نہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی ہے، اِس لیے وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں ’غُلف‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- عبد اللہ بن عباس نے اس کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: أی قلوبنا ممتلئة علما، لا تحتاج إلى علم محمد ولا غیرہ (القرطبی 2/25 ) یعنی ہمارے دل علم سے بھرے ہوئے ہیں، وہ محمد یا کسی اور کے علم کے محتاج نہیں- لعنت کوئی پراسرار چیز نہیں، لعنت سے مراد شدید قسم کی کنڈیشننگ ہے جس کی ڈی کنڈیشننگ عام طورپر ممکن نہیں ہوتی- یہاں ’’علم‘‘ سے مراد معروف معنوں میں علم نہیں، بلکہ خود ساختہ تصورِ دین ہے- یہود کا یہ خود ساختہ دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے، علم پر مبنی نہیں تھا، بلکہ وہ امانی ( 2:78 ) پر مبنی تھا- ٹھیک یہی حال موجودہ زمانے میں مسلم ملت کاہواہے- وہ دین کے خود ساختہ ماڈل پر قائم ہیں- زمانہ گزرنے کے بعد وہ اپنے اِس خود ساختہ ماڈل پر اتنے پختہ ہوچکے ہیں کہ اب وہ اُس پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں سمجھتے-
پچھلی امتوں کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے: الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا ۭکُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ ( 30:32 ) یعنی انھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اور وہ بہت سے گروہ ہوگئے- ہر گروہ اپنے خود ساختہ طریقے پر نازاں ہے-
یہی حال موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ہوا ہے- وہ خود ساختہ تعبیرات کے مطابق، مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں- یہ تمام گروہ خود ساختہ تصورِ دین پر قائم ہیں- لیکن لمبی مدت گزرنے کے بعد اب ہر گروہ کا ذہن اپنے ماڈل کے حق میں اتنا زیادہ پختہ ہوچکا ہے کہ اب وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ وہ اُس پر نظر ثانی کرے-
امت مسلمہ اور اس کے بعد
امتِ مسلمہ کے حال اور مستقبل کو سمجھنے کے لیے قرآن کے سورہ الانبیاء کی اِن آیات کا مطالعہ کیجئے: وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَةٍ اَہْلَکْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ﱑ اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ( 21:95-96 ) یعنی جس بستی والوں کے لیے ہم نے ہلاکت مقرر کردی ہے، اُن کے لیے حرام ہے کہ وہ رجوع کریں، یہاںتک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دئے جائیں گے اور وہ نہایت تیزی کے ساتھ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے-
یہ قرآن کی دو آیتیں ہیں- دوسری آیت میں واضح طورپر مستقبل میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر ہے، یعنی یاجوج اور ماجوج کا ظہور- پہلی آیت میں اگرچہ استقبال کا صیغہ استعمال نہیں ہواہے، لیکن اِس سے مراد بھی مستقبل میں پیش آنے والا واقعہ ہے، یعنی یاجوج اور ماجوج کے ظہور سے فوراً پہلے کاواقعہ-
اصل یہ ہے کہ پہلی آیت میں قرآن کے مخصوص اسلوب میں، امتِ مسلمہ کے مستقبل کا ذکر ہے- اِس آیت میں دفع کا وہی قانون بیان کیا گیا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا- یہاں حرام سے مراد امت کا ’غلف‘ کی حالت تک پہنچ جانا ہے، یعنی دورِ زوال کی حالت- اور اہلاک سے مراد یہ ہے کہ جب امت پر یہ حالت آئے گی تو اُس کو خدائی رول کے لیے رد کردیا جائے گا- یہ فطرت کا ایک عام قانون ہے جو امتِ مسلمہ پر بھی لازما آئے گا (لتتبعن سنن من کان قبلکم)، لیکن ایک فرق کے ساتھ، وہ یہ کہ امت یہود کو نظری اور عملی دونوں اعتبار سے رد کیا گیا تھا، لیکن امتِ مسلمہ کا رد کیا جانا صرف نظری اعتبار سے ہوگا، اِس کے بعدبھی عملی طورپر موجودہ دنیا میں اُن کی حیثیت باقی رہے گی، کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی اور نبی آنے و الا نہیں جو دونوں اعتبار سے امتِ مسلمہ کے رد کیے جانے کا اعلان کرسکے-
قرآن کی مذکورہ آیات میں صرف پہلی آیت امتِ مسلمہ کے بعد کے دور کے بارے میں ہے- جب کہ قانونِ فطرت کے مطابق، امت اپنے زوال کی آخری حد پر پہنچ چکی ہوگی- اِس آیت میں ہلاکت سے مراد معروف ہلاکت نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) کہا جاتا ہے- آیت میں حرام سے مراد بھی معروف حرام نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جمود کی وہ حالت ہے، جب کہ لوگوں کے اندر بے حسی کا وہ درجہ آجائے جس کو قرآن میں قساوت کہاگیا ہے، یعنی قبولیت (receptivity) کے مادے کا ختم ہوجانا-
اِس معاملے کی مثال فطرت میں پتھر اور زرخیز زمین (soil) کی صورت میں رکھ دی گئی ہے- پتھر پر پانی ڈالا جائے تو پتھر اس کو قبول نہیں کرے گا- پانی اس کے اوپر سے بہہ جائے گا- اس کے برعکس، زرخیز مٹی میں پانی ڈالا جائے تو وہ اس کو بھر پورطورپر قبول کرلیتی ہے- اِسی طرح جب کوئی قوم زندہ ہو تو اس کے اندر قبولیت کی صلاحیت بھر پور طورپر موجود ہوتی ہے- اِس کے برعکس، جب قوم میں جمود آجائے تو وہ قبولیت کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے-
کسی امت کی یہ حالت کیوں ہوتی ہے- اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے فرضی یقین (false conviction)- دور زوال میں یہ ہوتا ہے کہ امت حقیقتاً بے روح(spiritless) ہوجاتی ہے، لیکن ظاہری طور پر وہ ایک خود ساختہ دین (self-styled version of religion) پر قائم رہتی ہے- دھیرے دھیرے وہ اپنے اسی خود ساختہ دین پر اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ اس کے خلاف سوچنا اس کے لئے ناممکن ہوجاتا ہے- اس کا حال یہ ہوجاتاہے کہ حقیقی دین اس کے لیے اجنبی (غریب) بن جاتا ہے، خواہ اس کو کتنا ہی دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہو- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی امت کے اندر کوئی نیا فکری انقلاب (intellectual revolution) لانا ناممکن ہوجاتا ہے- اِس مرحلے پر پہنچ کر وہ تخلیقی فکر (creative thinking) سے محروم ہوجاتی ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ آیت میں ’أنہم لا یرجعون‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے-
اہلِ مغرب کا رول
صحیح البخاری میں ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (رقم الحدیث: 3062) یعنی اللہ ضروراِس دین کی تائید فاجر شخص کے ذریعے کرے گا-
اِس حدیث میں ’فاجر‘کا لفظ غیر مومن کے معنی میں آیا ہے- آج کل کی زبان میں اس کو سیکولر انسان کہہ سکتے ہیں-اِس روایت میں پیشین گوئی کی زبان میںیہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ بعد کے زمانے میں ایسے سیکولر لوگوں کو اٹھائے گا جو خدا کے دین کے معاملے میں تائیدی کردار (supporting role) ادا کریں گے- تاریخی اعتبار سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ تائیدی رول بالفعل عمل میں آچکا ہے- اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کی معرفت حاصل کی جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے-
دو مطلوب رول
اصل یہ ہے کہ دین اسلام کے حاملین سے دو رول مطلوب تھا — ایک رول وہ ہے جس کو قرآن میں حفاظتِ دین ( 15:9 ) کہاگیا ہے- اور دوسرا وہ ہے جس کے لیے قرآن میں اظہارِ دین( 48:28 ) کے الفاظ آئے ہیں-
حفاظتِ دین سے مراد ہے دین کا قلمی یا کتابی تحفظ — قرآن کے اصل متن کا مکتوب حالت میں محفوظ ہوجانا، حدیث کا مدوّن مجموعہ تیار ہوجانا، سیرتِ رسول اور سیرتِ صحابہ کا لکھی ہوئی حالت میں ریکارڈ ہوجانا، اسلام کا وہ دور جس کو قرون مشہود لہا بالخیر کہاگیا ہے، اس کو مستند تاریخ کی حیثیت دے دینا، اسلام کی بنیاد پر ایسے ادارے (مسجد، مدرسہ، حج کا نظام، وغیرہ) قائم ہوجانا جن کے ذریعے ابدی طور پر اسلام کو ایک اجتماعی بنیادحاصل ہوجائے- یہ تمام کام ایک لفظ میں، تحفظ ِدین کےکام ہیں- امتِ مسلمہ نے اپنے ابتدائی تقریباً ہزار سال کے دوران اِس کام کو کامل طور پر اور مستند طور پر انجام دے دیا- یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ اسلام کا مستند ماخذ نہ صرف لائبریریوں میں موجود ہے، بلکہ پورا ذخیرہ انٹرنیٹ پر اِس طرح محفوظ ہوگیا ہے کہ ایک شخص فنگر ٹپ (fingertip) کے استعمال سے ایک لمحے میں اِس پورے ذخیرے تک رسائی حاصل کرسکتا ہے-
تائید دین کے چار اہم کام
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: مثل أمتی مثل المطر، لا یُدرى أوّلہ خیر، أم آخرہ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:2869) یعنی میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے یا اس کا آخرزیادہ بہتر ہے-
جیسا کہ معلوم ہے، بارش کا اول اور آخر دونوں اپنے اپنے لحاظ سے بہتر ہوتا ہے- اِس حدیث میں امت کے دو دور کا ذکر ہے — ابتدائی دور اور آخری دور، ایک پہلو سے امت کا ابتدائی دور بہتر ہے اور دوسرے پہلو سے اس کا آخری دور بہتر ہے-
اِس حدیثِ رسول میں دراصل امت کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے جو کہ اب واقعہ بن چکی ہے- امت کے پہلے دور میں ایک طرف، دین کو محفوظ دین کی حیثیت دی گئی ہے اور دوسری طرف، اِس دور میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے انسانی تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کردیا- اِس تاریخی پراسس کا آغاز امتِ مسلمہ نے کیا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں یہ رول مشرق سے مغرب کی طرف منتقل ہوگیا- اِس عمل (process) کے تکمیلی مرحلے میں جو چیزیں مطلوب تھیں، وہ زیادہ تر اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائیں- اِس تاریخی عمل کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں امت مسلمہ کے ذریعے ہوا- اِس کے بعد اہلِ مغرب نے اِس معاملے میں تائیدی رول (supporting role) انجام دیا، جس کی تکمیل انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں ہوئی-
چار پہلو
1- اِس معاملے میں اہلِ مغرب کے ذریعے جو کام انجام پایا، اس کے چار خاص پہلو ہیں اور اِن چاروں پہلوؤں کا اشارہ قرآن میں موجود ہے- اِن میں سے ایک کام وہ ہے جس کا ذکر بطور پیشین گوئی قرآن کی اِس آیت میں کیاگیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53 )یعنی عنقریب ہم اُن کو آفاق میں اور انفس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے، یہاں تک کہ اُن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن حق ہے-
قرآن کی اِس آیت میں جس پیشین گوئی کا ذکر ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ اِس دنیا میں معرفت اور ایمانی رزق کے بے شمار آئٹم ہیں، جن کو قرآن میں آیات اور آلاء اللہ اور کلمات اللہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- اِس قسم کی چیزوں کا ذکر قرآن اور حدیث میں ابتدائی طور پر موجود ہے، لیکن ان کی تفصیلات کو جاننا سائنٹفک مطالعے پر موقوف تھا جس کو قرآن میں زمین وآسمان پر تفکر سے تعبیر کیا گیا ہے-سائنسی مطالعے کے اِ س کام کا آغاز امتِ مسلمہ کے افراد نے کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل تمام تر اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائی- یہی وہ کام ہے جس کو موجودہ زمانے میں، ماڈرن سائنس (modern science) کہاجاتا ہے- ماڈرن سائنس کا نظریاتی حصہ پورا کا پورا قرآن کی اِس آیت کی تفصیل ہے- قدیم زمانے میں آیات اللہ کا علم صرف عینی مشاہدے کے ذریعے ممکن ہوتاتھا، اہلِ مغرب نے اس کو وسیع کرکے دور بینی مشاہدہ اور خورد بینی مشاہدے تک پہنچا دیا-
موجودہ زمانے کی نظریاتی سائنس نے فطرت (nature) کے بارے میں جو حقیقتیں دریافت کی ہیں، اُن کے ذریعے سے پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ انسان تخلیق میں خالق کو دریافت کرسکے،وہ معرفت ِ حق کے اُن اعلیٰ درجات تک پہنچ سکے جو قدیم روایتی دور میں انسان کے لیے ممکن نہ تھا-
2- اِس معاملے میں اہلِ مغرب کی دوسری دین یہ ہے کہ انھوں نے شکر خداوندی کے نئے بے شمار آئٹم دریافت کیے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ انعامات کو شعوری طورپر جانے اور اُن کے لیے منعم کا اعتراف کرے- اِسی اعتراف کا مذہبی نام شکر ہے- شکر کی حیثیت دین کے اہم ترین مطلوب کی ہے، لیکن اعلیٰ شکر، انعامات کی اعلیٰ معرفت ہی سے ہوسکتاہے، اور یہ وہ کام ہے جو تاریخ میں پہلی بار اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پایا-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے: وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ( 14: 34 )یعنی خدا نے تم کو وہ سب کچھ دے دیا جو تم نے اُس سے مانگا- اگر تم اللہ کی نعمتوںکو گنو تو تم گن نہیں سکتے- یقیناً انسان بہت ظالم اور بہت ناشکرگزار ہے-
خالق نے انسان کو اس کی ضرورت کی تمام چیزیں بطور عطیہ دے دی ہیں- یہ عطیات سب کے سب خدائی انعامات ہیں- اِن عطیات کی واقفیت سے اللہ کے لیے بے پناہ شکر پیدا ہوتا ہے- یہ عطیات یا نعمتیں بے شمار ہیں، مگر قدیم زمانے میں انسان اِن میں سے بہت کم عطیات کو جانتا تھا- ایسی حالت میں وہ بڑا شکر نہیں کرسکتا تھا- جدید مغربی سائنس نے فطرت میں چھپے ہوئے بے شمار نئے عطیات کو دریافت کیا اور جدید صنعت او ر ٹکنالوجی کے ذریعے اس کو عام انسان کے لیے قابلِ حصول بنا دیا- یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو اہلِ مغرب کے ذریعے پہلی بار انجام پایا- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ انسان اپنے رب کے لیے زیادہ بڑا شکر ادا کرسکے — اہلِ مغرب کا یہ عطیہ بلا شبہہ تائید دین کی ایک اعلی مثال کی حیثیت رکھتاہے-
3- اِس سلسلے میں اہلِ مغرب کی تیسری دین وہ ہے جس کو عالمی مواصلات کہاجاتا ہے- اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ اس نے اپنا پیغام جو پیغمبروں کے ذریعے بھیجا ہے، وہ تمام اہلِ عالم تک پہنچے- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً ( 25:1 )یعنی بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا، تاکہ وہ تمام عالم کے لیے آگاہ کرنے والا ہو-
یہی بات حدیث میں پیشین گوئی کی زبان میں اِس طرح آئی ہے: لایبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند أحمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی سطح پر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کردے گا-
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ اُس نے پیغمبروں کے ذریعے جو ہدایت نامہ بھیجا ہے، وہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچے- مگر قدیم زمانے میں یہ عالمی پیغام رسانی ممکن نہ تھی- قدیم زمانے میں دعوت الى اللہ کا کام عملاً صرف مقامی طورپر ہوا، وہ عالمی طورپر انجام نہ پاسکا- موجودہ زمانے میں پہلی بار وہ ذرائع اور وسائل وجود میں آئے ہیں جن کو استعمال کرکے کرہ ارض کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اللہ کا پیغام پہنچ جائے، زمین پر بسنے والا کوئی بھی انسان اُس سے بے خبر نہ رہے-
یہ ذرائع اور وسائل خالق نے فطرت (nature) کے اندر بڑے پیمانے پر رکھ دئے تھے، مگر قدیم زمانے میں اِن ذرائع اور وسائل کو دریافت کرنا ممکن نہ ہوسکا- اہلِ مغرب نے پہلی بار ان کو دریافت کیا اور ان کو صنعتی مصنوعات (industrial products) کی صورت دے کر داعیوں اور مبلغوں کے لیے قابلِ حصول بنا دیا-
4- قدیم زمانے میں اقوام کی تنظیم (international organisation) کا تصور نہ تھا- قدیم زمانے میں صرف سیاسی تنظیم (political organisation) کا تصور تھا، جو کسی بڑی سلطنت کے تحت بذریعہ طاقت قائم ہوتا تھا-اِس تصور کے تحت قدیم زمانے میں وہ نظریہ وضع ہوا جس کو جنگ برائے امن (war for peace) کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ اقتدار کے باہر اصول کی بنیاد پر قوموں کی تنظیم قائم کی جائے جو بین اقوامی معاملات میں اقتدار کے استعمال کے بغیر پرامن طورپر فیصلہ کن رول ادا کرسکے-
قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ امن صرف سیاسی اقتدار کے ذریعے قائم ہوتا ہے- اِس تصور کا نتیجہ یہ تھا کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک ساری دنیا میں جنگوں کا سلسلہ جاری رہا- یہ طریقہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا- خدا کے تخلیقی منصوبے کا تقاضا ہے کہ قوموں کے درمیان پرامن تعلقات ہوں، تاکہ دعوت اورتعلیم جیسا تعمیری کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے- اِس لیے اسلام میں یہ مطلوب تھا کہ بین اقوامی امن کو سیاسی اقتدار سے الگ کردیا جائے- بین اقوامی امن کو معاہدات کی بنیاد پر قائم کیا جائے، نہ کہ سیاسی اقتدار کی بنیاد پر-
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں جو انقلاب آیا، اُس کا ایک پہلو یہ بھی تھا-اُس زمانے میں پہلی بار ایسا ہواکہ معاہدات کی بنیاد پر بین الاقوامی امن کا قیام عمل میںآیا - یہ معاہدہ حدیبیہ تھا جو 628 عیسوی میں تشکیل پایا- اِس معاہدہ امن میں براہِ راست طورپر اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ شامل تھے، لیکن بالواسطہ طورپر یہود بھی اس میں شامل تھے جو کہ اُس وقت مدینہ کی آبادی کا تقریبا نصف حصہ تھے- تاریخ کا یہ پہلا بین الاقوامی معاہدہ امن تھا جو اِس لیے کیاگیا کہ قومی تعلقات کو جنگ کے بجائے امن کی بنیاد پر قائم کیا جائے-
معاہدہ حدیبیہ صرف ایک واحد واقعہ نہ تھا، وہ تاریخ میں ایک نئے دورِ امن کا آغاز تھا- اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا، جو سفر کرتے ہوئے یورپ تک پہنچا- چناں چہ 1920 میں جنیوا (سوئزرلینڈ) میں ایک بین اقوامی ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام جمعیتِ اقوام (League of Nations) تھا- اِس جمعیت میں کُل 63 قومیں شامل تھیں، البتہ امریکا اس میں شامل نہ تھا- یہ تنظیم مستقل ثابت نہ ہوسکی، یہاں تک کہ 1946 میں باقاعدہ طورپر اس کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا-
اِس کے بعد اِس مقصد کے لیے 1945 میں نئ اور زیادہ بڑی تنظیم قائم ہوئی- اس کا نام تنظیم اقوامِ متحدہ (United Nations Organisation) تھا- اِس دوسری تنظیم میں 193 ممالک شامل ہیں- اس کا صدر دفتر نیویارک (امریکا) میں ہے- یہ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے- وہ امن کے میدان میں زیادہ موثر رول ادا کررہی ہے-
یہ واقعہ بھی انھیں واقعات میں سے ہے جس کا ذکر ’’تائید دین‘‘ کے طورپر کیاگیا ہے، اِس واقعے کو دوسرے الفاظ میں، دورِ شمشیر کو ختم کرکے عملا دورِ امن کو لانا کہاجاسکتا ہے- بین اقوامی تعلقات میں یہ تبدیلی عین اسلام کے حق میں ہے- یہ واقعہ اُس تاریخی عمل (historical process) کا نقطہ انتہا ہے جس کا آغاز ساتویں صدی کے ربع اول میں معاہدہ حدیبیہ کے ذریعے کیاگیا تھا-
قدیم زمانے میں جنگ اور امن کا کوئی متفقہ اصول نہ تھا- جو لوگ سیاسی اقتدار پر قابض ہوتے تھے، وہی جنگ اور امن کا فیصلہ کرتے تھے- قوموں کے درمیان معاہداتی تنظیم کے مذکورہ طریقے نے اِس صورتِ حال کو ختم کردیا- اب یہ ممکن ہوگیا کہ باہمی مسائل کا فیصلہ بین اقوامی گفت وشنید (international negotiation) کے ذریعے طے کیا جائےاور باہمی ا ختلافات کے باوجود عالمی امن کو برقرار رکھا جائے- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ ہر حال میں تعمیری سرگر میاں کسی رکاوٹ کےبغیر جاری رہیں-
جو لوگ چیزوں کو معیار کے پیمانہ (ideal yardstick) سے ناپتے ہیں، وہ اِن اداروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں-پہلے وہ جمعیت اقوام کے ناقد تھے، اب وہ اقوامِ متحدہ کے ناقد بنے ہوئے ہیں، مگر یہ صرف بے دانشی کی بات ہے- یہ لوگ معیاری امن (ideal peace) کی باتیں کرتے ہیں، مگر اِس دنیا میں معیاری امن کا حصول سرے سے ممکن ہی نہیں-
اِس دنیا میں کوئی چیز صرف خدا کے تخلیقی منصوبے کے تحت ہی حاصل کی جاسکتی ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے تحت اِس دنیا میں صرف قابلِ عمل امن (workable peace) کا حصول ممکن ہے، اور بلاشبہہ اقوام متحدہ نے قابلِ عمل امن کے حصول کو ممکن بنا دیا ہے-
خداکے منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- اِس آزادی کو منسوخ کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں- یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا میں کوئی چیز معیاری درجے میں نہیں، بلکہ صرف قابلِ عمل (workable) درجے میں حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ امن اور عدل ہو یا اور کوئی چیز-
قرآن کی سورہ الانفال میں رسول اور اصحابِ رسول کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ( 8:39 ) یعنی تم اُن سے قتال کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب کا سب، اللہ کے لیے ہوجائے-
اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ قرآن کے مخصوص اسلوب میں یہی بات ہے- دوسرے الفاظ میں، اِس حکم کا مطلب یہ ہے کہ — اپنی ساری طاقت استعمال کرکے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرو جس کے نتیجے میں ایسا ہو کہ دنیا میں جنگ کی حالت نہ رہے اور امن کی حالت قائم ہوجائے- قرآن کی یہ آیت ایک دور کو ختم کرنے اور دوسرے دور کا آغاز کرنے کے معنی میں ہے، نہ کہ کسی وقتی کارروائی کے معنی میں-
استبدالِ قوم کا قانون
قرآن میں ایک خدائی قانون کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ ( 47:38 ) یعنی اگر تم پھر جاؤ تو اللہ تمھاری جگہ دوسری قوم کو لے کر آئے گا، پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے-
قرآن کی اِس آیت میں جس استبدال (replacement) کا ذکر ہے، اس کے دو پہلو ہیں- ایک پہلو سے اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے- اگر مسلمانوں کے اندر عمومی طورپر زوال اور فساد آجائے تو اللہ تعالی کو یہ مطلوب ہوگا کہ یہ صورتِ حال بدلے اور ایسے اہلِ ایمان پیدا ہوں جو صحیح معنوں میں دینِ خداوندی پر قائم ہوں-
لیکن اِس استبدال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بگڑی ہوئی امت اگر ایک بلین کی تعداد میں ہے تو اس کی جگہ ایک بلین ہی کی تعداد میں دوسری صالح امت پیدا کردی جائے- یہ استبدال ہمیشہ افراد کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ مجموعی طورپر ایک پوری امت کے اعتبار سے-
اِس استبدال کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا اوپر ذکر کیاگیا، یعنی اظہارِ دین کے اجزا کو دریافت کرنے میں اگر امتِ مسلمہ ناکام ہوجائے تو اللہ تعالی سیکولر طبقے میں سے ایسے مؤید ِین کو اٹھائے گا جو اس کام کو انجام دیں اور معرفت اور شکر اور دعوت کے اعلی درجات تک پہنچنے کو ممکن بنا دیں-
خلاصہ کلام
انسان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) یہ ہے کہ انسان کو آزادی دے کر اس کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realisation) پر کھڑا ہو اور کامل اختیار رکھتے ہوئے اللہ کے تخلیقی منصوبے کے تحت زندگی گزارے- جو لوگ اِس امتحان میں کامیاب ہوں، وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی جنتوں میںداخل کیے جائیں گے-اللہ نے نبیوں کو اِسی لیے بھیجا کہ وہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں- اِس رہنمائی کے مختلف مراحل ہیں، جو کہ قرآن وحدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتے ہیں-
حضرت ابراہیم کا زمانہ تقریباً چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- حضرت ابراہیم کے زمانے تک جو پیغمبر آئے، وہ انفرادی سطح پر انسان کو رہنمائی دیتے رہے-حضرت ابراہیم کے بعد ایک نئی منصوبہ بندی کی گئی، یعنی ایک قوم وجود میں لانا اور تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری کرنا، جو بالآخر اللہ کے دین کے کامل اظہار تک پہنچ جائے-
یہ نیا منصوبہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل سے شروع ہوا- اس کے بعد رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے اس کو طاقت ور تحریک (boost)ملی- اِس کے بعد امتِ مسلمہ کی حکومتوں کا دور آیا- اِس دورِ اقتدار میں خدا کا دین اصولی اور نظریاتی طورپر پوری طرح محفوظ ہوگیا- اِسی کے ساتھ تاریخ میں ایک نیا عمل جاری ہوا-
اِس آخری دور میں اہلِ مغرب نے بالواسطہ طورپر تائید کا رول اداکیا- انھوںنے فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اِس بات کو ممکن بنا دیا کہ خدا کے دین کو انسان کے مسلّمہ علمی معیار پر مدلل کیا جاسکے- عطیاتِ الہی کے چھپے ہوئے اجزا کو دریافت کرکے انھوں نے اِس بات کو ممکن بنایا کہ انسان اعلی عطیاتِ الہی کا تجربہ کرے اور اپنے رب کے لیے اعلى شکر کا رسپانس دے سکے- اِس طرح اہلِ مغرب نے یہ کیا کہ انھوںنے فطرت کے اندر چھپے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے جدید مواصلات تک دست رس حاصل کی- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ اللہ کے پیغام کو عالمی سطح پر ہر عورت اور مرد تک پہنچایا جاسکے- اِسی طرح اہلِ مغرب نے انسانی تاریخ کو دور سیاست سے نکال کر دورِ تنظیم (age of organization) تک پہنچایا- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ سیاسی طاقت کے بغیرآزادانہ طورپر تمام دینی تقاضے انجام دئے جاسکیں-
جہاں تک حفاظتِ دین کا تعلق ہے، اس کو تمام تر امتِ مسلمہ نے انجام دیا- اظہارِ دین کے کام کا آغاز بھی امتِ مسلمہ کے ذریعے ہوا، لیکن کامل اظہار کے لیے جو وسائل درکار تھے، وہ قدیم زمانے میں موجود نہ تھے- اِس میدان میں بھی امتِ مسلمہ نے ابتدائی کام کیا، لیکن اس کو اتمام تک پہنچانا باقی تھا- اظہارِ دین کا یہ تکمیلی مرحلہ اہلِ مغرب کی جدید دریافتوں کے ذریعے انجام پایا- تاہم اس معاملے میں اہلِ مغرب کا حصۂ تائید باعتبارِ وسائل ہے، تاہم تائید کا یہ واقعہ اتفاقاً پیش نہیں آیا، بلکہ وہ اُس تاریخی عمل (historical process) کا نقطہ انتہا (culmination) تھا جو امتِ مسلمہ کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا-(1 دسمبر 2012)
واپس اوپر جائیں