ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (الترمذی، رقم الحدیث: 2307) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جولذتوں کو ڈھادینے والی ہے-
اِس حدیث میں ’ہادم‘ (ڈھا دینے والا) کا لفظ سلبی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ایجابی معنی میں ہے، یعنی موت کی یاد صرف موت کی یاد نہیں، بلکہ اس کا ایک بہت بڑا مثبت پہلو ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ موت اِس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ دنیا کی تمام لذتیں مٹ جانے والی ہیں، اِس لیے تم دنیا کی لذتوں کے بجائے، آخرت کی لذتوں کو اپنی سوچ کا مرکز بناؤ، کیوں کہ آخرت کی لذتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں (فاٰثروا ما یبقىٰ على ما یفنىٰ)-
انسان ایک لذت پسند مخلوق ہے- انسان ہر دور میں اپنی لذتوں کی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے- قدیم زمانے میں لذت کے سامان بہت محدود تھے- موجودہ زمانے میں لذت کے سامانوں کی کثرت ہوگئی ہے- اِس اعتبار سے، موجودہ زمانے کو کنزیومر ازم (consumerism) کا زمانہ کہا جاسکتا ہے- موجودہ زمانے میں کنزیومرازم کا دور آیا تو انسان مزید اضافہ کے ساتھ اپنی لذتوں کی تسکین حاصل کرنے کی کوشش\ میں لگ گیا-
مگر تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اِس معاملے میں انسان کا کیس کامل محرومی کا کیس ہے، انسان نہ قدیم روایتی زمانے میں تسکین کا سامان حاصل کرسکا، اور نہ جدید کنزیومرازم کے زمانے میں- گویا اِس دنیا میں طالب موجود ہے، مگر یہاں اس کا مطلوب موجود نہیں- جس آدمی کا شعور زندہ ہو، اس کے لیے موت اس بات کی یاد دہانی بن جائے گی کہ جس مطلوب کو میں قبل از موت دور میں نہ پاسکا، وہ مطلوب خالق کے پلان کے مطابق، موت کے بعد کے دور میں رکھ دیاگیا ہے- ایسے آدمی کے لیے موت کا تصور اس کی زندگی کے کورس کو متعین کرنے والا بن جائے گا-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں قدیم اہلِ کتاب (یہود) کے حوالے سے فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے - آیت کے الفاظ یہ ہیں: مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا (
یہ تمثیل صرف سابق اہلِ کتاب (یہود) کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ ماضی کے تجربے کی صورت میں حال کے اہلِ کتاب (امتِ مسلمہ) کے بارے میں بھی ہے- قرآن میں یہ مثال اِس لیے دی گئی ہے، تاکہ امتِ مسلمہ کے لوگ اُس سے سبق لیں اور اپنے آپ کو اس کے برے انجام سے بچائیں-
قرآن کی اِس آیت میں دراصل امت کے دو دور بتائے گئے ہیں — زوال سے پہلے کی حالت، اور زوال کے بعد کی حالت- اَلَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاةَ سے مراد زوال سےپہلے کی حالت ہے، یعنی وہ ابتدائی حالت جب کہ امت کے اندر دین زندہ ہوتا ہے، وہ مطلوب انداز میں دین پر قائم ہوتی ہے- یہ وہ ابتدائی دور ہے جس کو حدیث میں قرونِ ثلاثہ کہاگیا ہے-
حدیث کے مطابق، امت کی یہ حالت ابتدائی تین نسلوں تک ہوتی ہے- اِس کے بعد قانونِ فطرت کے مطابق، امت پر زوال آجاتاہے- اِس بعد کے دور کو کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاکے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے-
اس زوال یافتہ دور میں امت بظاہر کتاب کی حامل بنی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اب کتاب کی اصل روح اس کے اندر باقی نہیں ہوتی- اب اس کا معاملہ ایسے حیوان جیساہوجاتا ہے جس کی پیٹھ پر بظاہر کتابیں لدی ہوئی ہوں، لیکن یہ کتابیں اس کے شعور کا حصہ نہ ہوں— پہلے دور میں امت انسان کی سطح پر حاملِ کتاب ہوتی ہے اور دوسرے دور میں حیوان کی سطح پر حاملِ کتاب-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں یہود کو خطاب کرتےہوئے کہاگیا ہے کہ: وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا (
مثلاً اس میں جامع تعویذ کا ایک نسخہ اِن الفاظ میں لکھا ہوا ہوگا: بسم اللہ کا تعویذ ہر طرح کے بخار نیز تنگ دستی اور قرض وغیرہ جیسی ہر قسم کی پریشانی کے لیے مفید ہے- بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر گلےیا دائیں ہاتھ کے بازومیں باندھنا یا ٹوپی میں رکھ کر پہننا چاہیے- اِسی طرح اس میں ایک عمل اِن الفاظ میں در ج ہوگا کہ قرآن کی آیت: ’’نرفع درجات من نشاء وفوق کلّ ذی علم علیم‘‘ کو تین روز تک روزانہ سات ہزار مرتبہ پڑھے- اس کے بعد ملازمت کے لیے درخواست دے تو اس کی درخواست ضرور منظور ہوگی- اِسی طرح اس میں لکھا ہوگا کہ یا حی یا قیوم ایک ہزار بار اور یا وہّاب ایک ہزار بار پڑھے- اِس سے مرتبہ بڑھے گا اور مال میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، وغیرہ-
یہی وہ روش ہے جس میں یہود اپنے دور زوال میں مبتلا ہوئے اور قرآن میں یہود کی اِس روش کی مذمت کی گئی- موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے دور زوال میں ہیں- وہ بھی ٹھیک اُسی روش میں مبتلا ہوچکے ہیں جس میں یہود اپنے دورِ زوال میں مبتلا ہوئے تھے-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
اِس نازک موقع پر حضرت ابوبکر نےجو کام انجام دیا تھا، اس کی تفصیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے- یہاں ہم اِس سلسلے کی صرف ایک روایت نقل کرتے ہیں- جب مذکورہ صورتِ حال پیش آئی، اُس وقت اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے حضرت ابوبکر کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے: أینقص الدین وأنا حیّ (ہدایة الرواة لابن حجرالعسقلانی، رقم الحدیث: 3031) یعنی کیا دین میں نقص پیدا کیا جائے گا اور میں زندہ ہوں-خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق کے اِس قول سے زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے— کوئی بڑا کام ہمیشہ اُس وقت ہوتا ہے جب کہ ایک شخص کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ یہ میری ذمے داری ہے اور میں اِس کام کو کروں گا- بڑا کام ہمیشہ ایک باعزم انسان کے ذریعے انجام پاتا ہے، نہ کہ کسی بھیڑ (crowd)کے ذریعے- اِس قسم کی طوفانی اسپرٹ ایک فرد کے اندر پیدا ہوتی ہے، نہ کہ کسی مجموعے کے اندر- یہ ایک کوہ شکن اسپرٹ ہے- اِس کو ایک لفظ میں — ’’آئی ول ڈو اسپرٹ‘‘ (I will do spirit)کے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے-
اس معاملے میں دوسری صورت یہ تھی کہ حضرت ابوبکر یہ سوچتے کہ اِس وقت ملک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ اصحابِ رسول موجود ہیں، یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے، جنھوں نے رسول اللہ کو دیکھا، جنھوں نے رسول اللہ کی صحبت پائی- یہ سوچ کر حضرت ابو بکرکہتے کہ: أینقص الدین وأصحاب الرسول أحیاء (کیا دین میں نقص پیدا کیا جائے گا، حالاں کہ اصحابِ رسول زندہ ہیں)- اِس کے بجائے حضرت ابو بکر نے کہا کہ: أینقص الدین وأنا حی-
حضرت ابوبکر اگر پہلا جملہ کہتے تو نفسیاتی طورپر وہ ذمے داری کو پورے مجموعے پر ڈال دیتے- ایسی حالت میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اُن کا ذہن یہ کہتا کہ ایک لاکھ پچاس ہزار ذمے داریوں میں سے صرف ایک ذمے داری ان کی اپنی ہے- اِس کے برعکس، جب انھوں نے دوسرا جملہ کہا تو ان کا ذہن اِس عزم سے بھر گیا کہ ساری کی ساری ذمے داری تنہا ان کی اپنی ہے، کسی کا انتظار کئے بغیر انھیں خود اپنے آپ کو اِس کام میں پوری طرح جھونک دینا ہے-
اِس اسپرٹ کو ایک لفظ میں انقلابی اسپرٹ کہا جاسکتا ہے- تمام بڑے کام اِسی انقلابی اسپرٹ کے ذریعے انجام پاتے ہیں- جہاں افراد کے اندر یہ انقلابی اسپرٹ موجود نہ ہو، وہاں باتیں تو بہت ہوں گی، لیکن ایسی صورت میں کوئی بڑاکام انجام پانے والا ہر گز نہیں-
کسی فرد کے اندر یہ انقلابی اسپرٹ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ وہ مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ بنا لے، جب اس کو یقین ہوجائے کہ یہ کوئی خارجی سوال نہیں، یہ اس کی اپنی زندگی اور موت کا سوال ہے، یہیں اس کے لیے یا تو کامیابی کا فیصلہ ہونے والا ہے یا ناکامی کا فیصلہ- جب کوئی فرد اِس طرح ایک مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ بنالے تو اُس وقت اس کے اندر ایک انقلابی اسپرٹ پیداہوجاتی ہے، اور یہی انقلابی اسپرٹ کسی بڑے کام کی اصل ضامن ہے، خواہ وہ کوئی مذہبی کام ہو یا سیکولرکام-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ القمر میں اہلِ جنت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں وہ اللہ کے قریب سچائی کی سیٹ پر جگہ پائیں گے: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ (
The God-conscious will find themselves in gardens and rivers. In the seat of truth with an all-powerful sovereign.
اہلِ جنت کی سب سے بڑی سعادت یہ ہوگی کہ آخرت کی دنیا میں وہ اللہ کی قربت میں جگہ پائیں- اللہ کی قربت بلا شبہہ انسانی سعادت کا سب سے اعلی مقام ہے- سچے اہل ایمان کو اِس دنیا میں قربت کا یہ درجہ بہ اعتبار احساس ملتا ہے، اور آخرت میں سچے اہلِ ایمان کو یہ درجہ بہ اعتبارِ حقیقت حاصل ہوگا-
سچ بولنا انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے اور جھوٹ بولنا انسان کی سب سے بڑی برائی- سچ بولنا یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کہے، وہ حقیقتِ واقعہ کے عین مطابقت ہو، اور جھوٹ بولنا یہ ہےکہ آدمی ایسی بات کہے جو حقیقتِ واقعہ سے مطابقت نہ رکھتی ہو-
ایسے لوگ بہت کم ہیں جو دانستہ طور پر کھلا کھلا جھوٹ بولتے ہیں، لیکن جھوٹ کی ایک اور قسم ہے جس میں تقریباً سارے لوگ مبتلا رہتے ہیں، اور وہ ہے جذباتی تاثر کے تحت خلافِ واقعہ بات کہنا- اِس دوسرے جھوٹ کی سب سے زیادہ عام قسم وہ ہے جو قومی معاملات میں پیش آتی ہے، یعنی اپنی قوم اور دوسری قوم کے درمیان پائی جانے والی شکایت کے بارے میں خلافِ واقعہ بیان دینا- اِس طرح کے قومی معاملے میں تقریباً ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ متاثر ذہن کے تحت بولتا ہے- وہ دوسری قوم کی غلطی کو بتاتا ہے، لیکن وہ خود اپنی قوم کی غلطی کا ذکر نہیں کرتا- وہ قومی نزاعات کی تصویر اِس طرح پیش کرتا ہے، جس میں دوسری قوم سراسر ظالم اور اپنی قوم سراسر مظلوم دکھائی دے- قومی نزاعات کی اِس طرح رپورٹنگ یقینی طور پر ایک جھوٹ ہے، وہ یقینی طور پر قانون فطرت کے خلاف ہے- قومی معاملات میں جھوٹ کی روش اختیار کرنے والے لوگ بظاہر قوم کی ہمدردی کے جذبے کے تحت ایسا کرتے ہیں، مگر اپنے انجام کے اعتبار سے، بلا شبہہ یہ قوم کے ساتھ دشمنی ہے، نہ کہ قوم کے ساتھ ہمدردی-
قرآن میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتےہوئے ارشاد ہوا ہے کہ: وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى(
Believers, do not let your enmity for others turn you away from justice. Deal justly; that is nearer to being God-fearing.
کوئی آدمی جھوٹ پر کھڑا ہوا ہے یا وہ سچائی پر کھڑا ہوا ہے، اِس کا صحیح اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی سے اس کو شکایت یا نزاع پیداہوجائے- شکایت پیدا ہوتے ہی آدمی فوراً غیر منصفانہ بولی بولنے لگتاہے- اِسی غیر منصفانہ کلام کو قرآن میں تطفیف (
دوسری قوم کو ظالم بتانا اور اپنی قوم کو مظلوم بتانا دنیا میں قومی مقبولیت کے لیے بہت مفید ہے- قوم پسند بولی بولنے والے لوگ بہت جلد اپنی قوم میں قیادت کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں، مگر آخرت کے اعتبار سے، یہ صرف ہلاکت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں- قوم پسند بولی بولنے والے لوگ بہت جلدقوم کے اسٹیج پر ممتاز مقام حاصل کرلیتے ہیں، لیکن آخرت کے ربانی اسٹیج پر یقیناً ُاُن کوکوئی جگہ ملنے والی نہیں-
قومی شکایت کا موقع آدمی کے لیے سب سے زیادہ امتحان کا موقع ہوتا ہے- ایسا ہر لمحہ آدمی کی جنت یا جہنم کا فیصلہ کرنے والا ثابت ہوتا ہے- قومی معاملے میں لکھتے اور بولتے وقت جو لوگ غیرمنصفانہ رپورٹنگ کریں، وہ گویا کہ دنیا میں جھوٹ کی سیٹ پر کھڑے ہوئے ہیں- ایسے لوگوں کو آخرت کی دنیا میں ہر گز سچائی کی سیٹ پر جگہ ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر راجندر پرشاد (وفات: 1963) آزاد انڈیا کے پہلے صدر تھے، اُن کے زمانے میں گجرات میں سوم ناتھ کا مندر دوبارہ تعمیر ہوا- مئی 1951 میں مرکزی وزیر کے ایم منشی نے ڈاکٹر راجندر پرشاد کو دعوت دی کہ وہ سوم ناتھ مندر کی رسمِ تنصیب (installation ceremony) میں شرکت کریں- ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اِس تقریب میں شرکت کی اور وہاں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ میرے نزدیک، سوم ناتھ مندر کی تعمیر ثانی اُس دن مکمل ہوگی، جب کہ یہاں نہ صرف ایک شان دار عمارت کھڑی ہوگی، بلکہ سوم ناتھ مندر کی شان دار تعمیر انڈیا کی خوش حالی کی علامت بن جائے گی- انھوںنے مزید کہا کہ سوم ناتھ مندر اِس بات کی علامت ہے کہ تخریب کے مقابلے میں تعمیر کی طاقت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے-
یہ واقعہ اُس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر راجندر پرشاد کے درمیان شدید نااتفاقی کا سبب بن گیا، کیوں کہ نہرو سوم ناتھ مندر کی تعمیر ثانی کو ہندو احیا کی کوشش کے ہم معنی سمجھتے تھے- اِس کے برعکس، ڈاکٹر راجندر پرشاد اور مرکزی وزیر کے ایم منشی کا خیال تھا کہ سوم ناتھ مندر کی تعمیر ثانی آزادی کا ایک پھل ہے اور ماضی میں ہندوؤں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ:
In May 1951, Rajendra Prasad, the first President of the Republic of India, invited by K. M. Munshi, performed the installation ceremony for the temple. Rajendra Prasad said in his address: “It is my view that the reconstruction of the Somnath Temple will be complete on that day when not only a magnificent edifice will arise on this foundation, but the mansion of India's prosperity will be really that prosperity of which the ancient temple of Somnath was a symbol''. He added : "The Somnath temple signifies that the power of reconstruction is always greater than the power of destruction.”
This episode created a serious rift between the then Prime Minister Jawaharlal Nehru, who saw the movement for reconstruction of the temple as an attempt at Hindu revivalism and the President Rajendra Prasad and Union Minister K. M. Munshi, who saw in its reconstruction, the fruits of freedom and the reversal of past injustice done to Hindus. (en.wikipedia.org/wiki/Somnath)
مذکورہ واقعہ 1951 میں پیش آیا- اب اِس واقعے پر 60 سال سے زیادہ کی مدت گزر چکی ہے- اب ہم اِس پوزیشن میں ہیں کہ جواہر لال نہرو کے اندیشے کا عملی تجزیہ کرسکیں- اِس اعتبار سے دیکھاجائے تو جواہر لال نہرو کا اندیشہ (apprehension)واقعہ نہ بن سکا- اِس درمیان ہندو احیائیت (Hindu revivalism) کی تحریکیں اس کے داعیوں کی طرف سے پوری طاقت کے ساتھ چلائی جاتی رہیں، مگر آج عملاً جس چیز کا غلبہ ہے، وہ تمام تر مغربی کلچر ہے، نہ کہ ہندو کلچر، حتی کہ جو ہندو لیڈر ہندو احیائیت کے علم بردار بنے ہوئے تھے، ان کے اپنے بیٹے اور پوتے ہندو کلچر کو چھوڑ کر تیزی کے ساتھ مغربی کلچر کی طرف دوڑ رہے ہیں-
اِس سلسلے میں دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ دوبارہ کچھ ہندو لیڈروں نے ایک ’رتھ یاترا‘ نکالی- یہ رتھ یاترا سوم ناتھ سے شروع ہو کر اجودھیا تک پہنچی- یہاں انھوںنے ایک بھیڑ اکھٹا کی- اِس بھیڑ نے 6 دسمبر 1992 کو اجودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو ڈھا دیا-
یہ احیا پرست لوگ جس وقت بابری مسجد کو ڈھارہے تھے، اُس وقت یہ نعرہ ان کی زبان پر تھا کہ — اجودھیا تو جھانکی ہے، کاشی، متھرا باقی ہے- اِس واقعے کے بعدتمام مسلم رہنما اِس اندیشے میں پڑ گئے کہ اب ہندستان کی تمام مسجدیں ڈھائی جائیں گی- اِس معاملے کو لے کر مسلم رہنماؤں نے تقریر اورتحریر کے ذریعے احتجاجی ہنگامے برپا کیے، مگر عملاً کیا ہوا- واقعات بتاتے ہیں کہ اجودھیا میں اِس تحریک پر فل اسٹاپ (full stop) لگ گیا، وہ کاما(comma)نہ بن سکا- یہ واقعہ بتاتا ہے کہ— اِس دنیا میں ہمیشہ حقائق غالب (prevail) ہوتے ہیں، نہ کہ اندیشے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ حم السجدہ میںاُن لوگوں کا ذکر کیاگیا ہے جو دعوت الی اللہ کی مخالفت کرتے ہیں- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور انکار کرنے والوں نے کہا اِس قرآن کو نہ سنو اور اس میں خلل ڈالو، تاکہ تم غالب رہو- پس ہم انکار کرنے والوں کو سخت عذاب چکھائیں گے اور اُن کو ان کے عمل کا بدترین بدلہ دیں گے- یہ اللہ کے دشمنوں کا بدلہ ہے، یعنی آگ- اُن کے لیے اس میں ہمیشگی کا ٹھکانا ہوگا، اِس بات کے بدلے میںکہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے‘‘- (
’’آیتوں کا انکار‘‘ سے مراد دعوت الی اللہ کی صداقت سے انکار ہے-ایسے لوگوںکو ’’اعداء اللہ‘‘ کہا گیاہے، یعنی اللہ کے دشمن- دعوت کا مشن ایک خدائی مشن ہوتاہے- جو لوگ دعوت الی اللہ کی مخالفت کریں، وہ خدائی مشن کی مخالفت کررہے ہیں- اِسی بنا پر اُن کو اللہ کا دشمن بتایا گیاہے-
دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن میں انذار اور تبشیر (
ایسی حالت میں دعوتی مشن کی مخالفت، اللہ کی مخالفت ہے- جو لوگ دعوتی مشن کی مخالفت کرتے ہیں، وہ اپنے خیال کے مطابق، انسان کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ اللہ کے کام کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو قرآن میں اللہ کے دشمن (أعداء اللہ) کہاگیاہے- آخرت میں اُن کے ساتھ اللہ کے دشمن جیسا معاملہ کیا جائے گا، نہ کہ اللہ کے دوست جیسا معاملہ-
واپس اوپر جائیں
ٹی بی میکالے (Thomas Babington Macaulay)ایک انگریز مورخ اور سیاست داں تھا- وہ 1800 میں پیدا ہوا، اور 1859 میں اس کا انتقال ہوا- وہ 1835 میں انڈیا آیا- اُس وقت کی برٹش حکومت میں اس کو ایک بڑا عہدے دار بنایا گیا- اس نے ایک تعلیمی نظریہ وضع کیا جس کو میکال ازم (Macaulayism) کہاجاتا ہے- اس کا مقصد تھا ملک میں اینگلی سائزڈ انڈین (anglicised Indians) کا ایک نیا طبقہ پیدا کرنا-
لارڈ میکالے سے پہلے انڈیا کی آفیشیل زبان فارسی تھی- لارڈمیکالے کی کوششوں سے ایسا ہوا کہ 1938 میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیاگیا- اِس کے بعد ملک کے اسکولوں میں انگریزی زبان ذریعہ تعلیم قرار پائی- لارڈ میکالے کا کہنا تھاکہ — اس سے ایک نئی نسل پیدا ہوگی جو کہ پیدائش کے اعتبار سے ہندستانی اور اپنے ذہن کے اعتبار سے انگریز ہوگی:
So that a generation may arise which is Indian in birth and English in thought.
لارڈ میکالے نے جب یہ کہا تو اس کے خلاف سخت ہنگامہ کیاگیا، خاص طور پر مسلم رہنما انگریزی تعلیم کے شدید مخالف ہوگئے، حتی کہ انھوںنے کہا کہ انگریزی تعلیم گاہیں مسلمانوں کے لیے قتل گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں-مگر یہ سب غیر ضروری اندیشے تھے- عملاً جو کچھ ہونے والا تھا، وہ صرف یہ کہ اِن درس گاہوں میں تعلیم پانے کی وجہ سے کٹر پن ختم ہوجائے اور لوگوں کے اندرکھلا پن آجائے- اپنے نتیجے کے اعتبار سے دیکھئے تو لارڈ میکالے کا قول ایک لفظی تبدیلی کے ساتھ دراصل یہ تھا:
So that a generation may arise which is Indian in birth and liberal in thought.
چناںچہ تجربہ بتاتا ہے کہ اِن انگریزی اداروں میں تعلیم پائے ہوئے مسلم نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو بعد کو بہترین مسلمان بنے- مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو انھیں انگریزی اداروں سے بہترین افراد حاصل ہوئے، وغیرہ-اِس معاملے میں اصل قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ لارڈ میکالے یا برٹش حکمرانوں نے بطور خود کس نظریے کے تحت انگریزی تعلیم گاہیں بنائیں، بلکہ اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ باعتبار نتیجہ ان کا انجام کیا ہوا، اوریہ کہ یہاں سے کس قسم کے لوگ تعلیم پاکر نکلے-
انگریزی تعلیم حقیقتاً برٹش تعلیم نہ تھی، بلکہ وہ جدید علم (modern learning) کے حصول کا ذریعہ تھی- ماڈرن ایجوکیشن اپنی حیثیت کے اعتبار سے نہ پروبرٹش (pro-British)تھی اور نہ اینٹی مسلم، وہ صرف جدید علوم تک پہنچنے کا ایک ذریعہ تھی- ’’انگریزی تعلیم‘‘ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اندر ذہنی جمود ٹوٹا، ان کے اندر کھلا پن آیا، ان کے اندر متعصبانہ طرز فکر (biased thinking) کا خاتمہ ہوا، وہ چیزوں کو موضوعی انداز (objective way) میں دیکھنے لگے، ان کے اندر کٹر پن ختم ہوگیا، ان کے اندر چیزوں کو عقل (reason)کے معیار پر جانچنے کا مزاج پیداہوگیا، وغیرہ-
یہ تمام چیزیں عین دینِ حق کے موافق تھیں، کیوں کہ دین حق انسانی فطرت کےعین مطابق ہے، وہ عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے- دین حق کے راستے میں اگر کوئی چیز ر کاوٹ ہے تو وہ صرف متعصبانہ طرز فکر ہے- کسی بھی طریقے سے اگر متعصبانہ طرز فکر کو ختم کردیا جائے تو دینِ حق اور انسان کے درمیان حائل فکر ی دیوار اپنے آپ منہدم ہوجائے گی- اس کے بعد انسان اِس قابل ہوجائے گا کہ وہ حقیقت کو اس کی بے آمیز صورت میں دیکھ سکے- انگریزی تعلیم یا سیکولر تعلیم کے ذریعے یہی واقعہ پیش آیا- اِس تعلیم کے ذریعے بہت سے نوجوان اِس قابل ہوگئے کہ وہ حقیقت کو دریافت کرکے اس کو قبول کرلیں- موجودہ زمانے میں اِس طرح کی مثالیں ہر مقام پر دیکھی جاسکتی ہیں— قدیم زمانہ قیاسی استدلال کا زمانہ تھا- موجودہ زمانہ سائنسی استدلال کا زمانہ ہے- آج کے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے سائنسی استدلال کی ضرورت ہے- انگریزی تعلیم نے اِسی دروازے کو کھولا تھا-
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورتِ حال پیش آئے تو اگر چہ وہ بظاہر عُسر دکھائی دیتی ہو تب بھی آپ اس کے اندر یُسر تلاش کریں- ہر نئی صورتِ حال ہمیشہ نئے مواقع کو لاتی ہے- ایسی حالت میں اصل کام صرف یہ ہے کہ مواقع کو دریافت کرکےان کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ سارے عالم کا رب ہے(
موجودہ دنیا میں ہر انسان اپنا امتحان دے رہا ہے- موجودہ دنیا میں ہر انسان کو یہ موقع دیاگیا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو اِس طرح تعمیر کرے کہ وہ آخرت میں جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے جو کہ انسان کی اصل منزل ہے- اِس مصلحت کے تحت اللہ موجودہ دنیا کی مسلسل نگرانی کرتا ہے- وہ انسانی تاریخ کو اِس طرح مینج کررہا ہے کہ موجودہ زمین اپنے دار الامتحان (testing ground) ہونے کی حیثیت کو کسی خلل کے بغیر مسلسل طور پر برقرار رکھے- اِس کا مقصد زمین پر اجتماعی معنوں میں کوئی صالح نظام قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی انفرادی تعمیر کرنا چاہے، وہ کسی خلل کے بغیر اپنی شخصی تعمیر کرتا رہے-
اللہ کی اِس سنت کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (
And if God did not check one set of people by means of another, the earth would indeed be full of mischief. But God is full of bounty to all worlds.
انسانی تاریخ کے بارے میں اللہ کا یہ منصوبہ بظاہر کسی اعلان کے بغیر اپنا کام کررہا ہے- قرآن کی سورہ الکہف (
دو طرفہ انتظام
اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد ایک طرف یہ کیا کہ پیغمبروں کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جو ساتویں صدی عیسوی میں خاتم النبیین کے ظہور تک جاری رہا- یہ پیغمبر اِس لیے آئے تاکہ انسان کو لفظی طور پر یہ بتادیا جائے کہ انسان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ کیا ہے، تاکہ جو انسان اِس تخلیقی منصوبے کے مطابق، زندگی گزارنا چاہے، وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرسکے- خاتم النبیین کے ذریعے اللہ کا جو کلام قرآن کی شکل میں آیا، وہ پوری طرح محفوظ ہوگیا، اور پرنٹنگ پریس کے دور میں ہر انسان تک اس کا مستند نسخہ پہنچ گیا- اِس لیے اب کسی پیغمبر کے آنے کی ضرورت نہیں-
اِس خدائی انتظام کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تاریخ کا ربانی مینج مینٹ (divine-management of history) کہاجاسکتا ہے- اِس مینج مینٹ کا خاص حصہ یہ ہے کہ زمین پر کوئی فتنے کی حالت قائم نہ ہونے پائے- چناں چہ جب بھی زمین پر فتنے کی کوئی حالت قائم ہوتی ہے تو اللہ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو اس کو ختم کردینے والے ہوں- موجودہ زمانے میں اِس قانونِ دفع کی ایک مثال یہ ہے کہ 1917 میں کمیونسٹ ایمپائر قائم ہوا- اس نے ایک بڑے رقبے میں خلافِ مذہب قانون بنا کر انسان سے چوائس (choice) کا حق چھین لیا- اُس وقت اللہ تعالی نے امریکا کو استعمال کیا اور تقریباً
امت مسلمہ کا رول
اِس خدائی منصوبے میں امتِ مسلمہ کا رول کیا ہونا چاہئے، اس کو قرآن میں اشارات کی زبان میں بتا دیاگیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ الصف کی ایک آیت یہ ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَى اللّٰہِ ۭ قَالَ الْحَــوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ ۚ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰہِرِیْنَ (
قرآن کی اِس آیت میں ایک بہت اہم بات کہی گئی ہے- اِس آیت کا خطاب امتِ مسلمہ سے ہے، لیکن اِس میں امتِ مسیح کے ایک نمونے کو بطور ماڈل پیش کیا گیا ہے اور امتِ مسلمہ سے یہ کہا گیا ہے کہ تم بھی اُسی ماڈل کے مطابق کام کرو جس کے مطابق، امتِ مسیح نے کام کیایا مستقبل میں کام کریں گے- یہ ماڈل آئڈیالوجی یا عقیدہ کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ صرف طریقِ کار (method)کے اعتبار سے ہے- اِس اعتبار سے، امتِ مسیح (Christian community)کے یہاں جو ماڈل ملتا ہے، اس کی دو تاریخی مثالیں یہاں درج کی جاتی ہیں- حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسیحی گروہ، تعداد کے اعتبار سے، سب سے بڑا مذہبی گروہ بن جائے گا (صحیح مسلم، کتاب الفتن)- ایسا کیوں کر ہوگا، اس کا جواب بھی اِسی مثال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے-
اِس معاملے کی پہلی مثال وہ ہے جو خود حضرت مسیح کے زمانے میں پیش آئی-حضرت مسیح کا مقامِ عمل قدیم فلسطین تھا- فلسطین میں حضرت مسیح کے ابتدائی پیروؤں پر سخت ظلم کیا گیا، مگر حضرت مسیح کی تعلیم کے مطابق، اُن کے پیروؤں نے اپنے دشمنوں سے کوئی نفرت نہیں کی- انھوں نے دشمنوں کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی، حتی کہ ان کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ بھی نہیں کیا- وہ خاموشی کے ساتھ فلسطین سے باہر چلے گئے اور حضرت مسیح کی تعلیم: دشمن سے محبت کرو(love your enemy) کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پرامن دعوت (peaceful missionary work) میں مشغول ہوگئے-
تاریخ بتاتی ہے کہ سینٹ پال کے زیر اثر مسیحی گروہ کے اندر کچھ نظریاتی انحرافات پیدا ہوئے، لیکن جہاں تک پرامن طریقِ کار کا معاملہ ہے، اُس پر وہ بدستور پوری طرح قائم رہے- پرامن مشنری سرگرمیوں کے ذریعے مسیحیت مختلف ملکوں میں پھیلتی رہی، یہاں تک کہ رومی شہنشاہ کانسٹینٹین اول (Constantine I)نے
مسیحی گروہ کے ذریعے تاریخ میں اِس سلسلے میں دوسرا ماڈل ساتویں صدی عیسوی میں قائم ہوا- ساتویں صدی میں مسلمانوں کو جب عروج ہوا تو انھوں نے رومن ایمپائر کو توڑ دیا اور اِس مسیحی سلطنت کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا- اِس علاقے میں مسیحی عقیدے کے مطابق، مقدس مقامات، شام اور فلسطین، بھی شامل تھے- بعد کے زمانے میں یورپ کے مسیحی بادشاہوں کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ اپنے مقدس مقامات کو مسلمانوں سے واپس لے لیں- اِس مقصد کے لیے انھوں نے وہ جنگ چھیڑ ی جو تاریخ میں، صلیبی جنگ (Crusades) کے نام سے مشہور ہے-صلیبی جنگ وقفے وقفے سے تقریباً دو سو سال (1095-1291) تک جاری رہی- مورخ گبن کے الفاظ میں، اِس جنگ میں یورپ کی مسیحی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی- مگر تاریخ کا یہ انوکھا معجزہ ہے کہ اِس شکست کے بعد مسیحی قوموں میں منفی ردّعمل (negative reaction) کا جذبہ پیدا نہیں ہوا، بلکہ انھوں نے یہ کیا کہ اپنے جذبے کو پُرامن عمل کی طرف ڈائـورٹ(divert) کردیا، یعنی مسلمانوں سے مسلح مقابلہ ختم کرکے علم وتحقیق کے میدان میں اپنی کوششوں کو صرف کرنا-
ڈائـورژن (diversion) کے اِس عمل کو ابتدائی زمانے میں، اسپریچول کروسیڈ (spiritual crusades) کہاگیا تھا- بعد کو وہ رفتہ رفتہ سائنٹفک کروسیڈ (scientific crusades) میں تبدیل ہوگیا- اِس عمل میں اُس وقت چرچ رکاوٹ بن گیا تو انھوں نے سخت جدوجہد کے بعد چرچ کے اختیارات پر حد بندی قائم کردی، پھر 1929 میں چرچ کو ویٹکن (روم) کے محدود رقبے میں گویا ہاؤس اریسٹ (house arrest) کردیا جس کا کُل رقبہ صرف
اِس دور میں یورپ کے جن لوگوں نے سائنٹفک کروسیڈ (scientific crusades) یا سائنسی ریسرچ کے میدان میں کام کیا، وہ تقریباً سب کے سب مسیحی افراد تھے- اِس سائنسی عمل میں بریک تھرو (breakthrough) اُس وقت آیا، جب کہ 1609 میں اٹلی کے فلکیاتی عالِم گلیلیو (Galileo Galilei) نے ابتدائی دور بین تیار کی اور اس کے ذریعے خلا کا مشاہدہ کیا- اس مشاہدے نے سائنس دانوں کے سامنے عمل کا ایک ایسا میدان کھول دیا جو ناقابل قیاس حد تک وسیع تھا- اُس وقت یورپی ذہن نے یہ جانا کہ ہم عالمِ صغیر میں جی رہے تھے، جب کہ یہاں عالمِ کبیر ہمارا استقبال کرنے کے لیے موجود ہے- اس کے بعد یورپ کے مسیحی اہلِ علم پوری طرح سائنسی تحقیق کے میدان میں سرگرم ہوگئے، یہاں تک کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار ایک نیا دور پیدا کردیا جس کو عام طور پر جدید تہذیب (modern civilization) کہاجاتا ہے-
قابلِ تقلید ماڈل
قرآن کی سورہ الصف میں پیروانِ مسیح کے اِس ماڈل کو اہلِ ایمان کے لیے قابلِ تقلید ماڈل کے طورپر پیش کیا گیاہے- اِس سے مراد خاص طورپر پیروانِ مسیح کی تاریخ کے یہی دو واقعات ہیں- پہلا واقعہ وہ ہے جو حضرت مسیح کے بعد کی ابتدائی صدیوں میں پیش آیا، اُس وقت پیروانِ مسیح کو سخت طورپر ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن انھوں نے اس کے مقابلے میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ وہ طریقہ اختیار کیا جو حضرت مسیح نے اُن کو اِن الفاظ میں بتایا تھا — اپنے دشمن سے محبت کرو- اِس کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی طرف سے اگر تم کو دشمنی کا تجربہ ہو تب بھی تم اپنے آپ کو منفی نفسیات سے بچاؤ اور یک طرفہ طورپر پر امن طریقہ اختیار کرتے ہوئے دوسروں تک اپنا پیغام پہنچاؤ-
پیروانِ مسیح کے ماڈل میں دوسرا نمونہ وہ ہے جو صلیبی جنگوں کے بعد سامنے آیا ، یعنی عسکری میدان میں ناکامی کے بعد اپنے میدانِ عمل کو بدل دینا، جیسا کہ پیروانِ مسیح نے کیا- انھوں نے مسلح کروسیڈ کے میدان میں اپنی کوششوں کو بے نتیجہ پایا تو انھوں نے ڈائـورژن کا طریقہ اختیار کیا، اِس طرح کہ عسکری میدان کو چھوڑ کر پر امن سائنسی میدان میں اپنے آپ کو سرگرمِ عمل کرلیا-
امت مسلمہ کی کوتاہی
عجیب بات ہے کہ سورہ الصف میں مسلمانوں کو جوعملی نصیحت کی گئی تھی، اس کو وہ اختیار نہ کرسکے- مسلمانوں سے یہ مطلوب تھا کہ وہ پیروانِ مسیح کے اُس ماڈل کو اپنائیں جس کو قرآن میں پیشگی طورپر بتادیا گیا تھا- یہی وہ پرامن ماڈل ہے جس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر اختیار فرمایاتھا- مگر مسلمان بحیثیت قوم اِس سے بے خبر رہے، وہ اِس ماڈل کو اپنانے میں ناکام رہے- مسلمانوں کی تاریخ میں اِس کی دو بڑی مثالیں موجود ہیں-
پہلی مثال وہ ہے جو نوآبادیاتی طاقتوں کے ظہور کے بعد پیش آئی- اِس دور میں یورپ کی نو آبادیاتی طاقتوں نے مسلمانوں کی سلطنتوں کو توڑ دیا اور ان کے سیاسی دبدبے کو ختم کردیا- اس کے بعد مسلمان منفی رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوگئے- وہ نفرت اور انتقام اور تشدد میں مبتلا ہو کر رہ گئے، حالاں کہ قرآن میں بیان کردہ پیروانِ مسیح کے ماڈل کے مطابق، انھیں یہ کرنا تھا کہ وہ پُرامن طریقِ کار اختیار کرتے، یعنی وہ میدانِ جنگ کو چھوڑ کرمیدانِ دعوت میں آجاتے، جن لوگوں کو وہ اپنا حریف سمجھ کر اُن سے متشددانہ ٹکراؤ کررہے تھے، اُن کو مدعو کا درجہ دے کر وہ ان کے اوپر پر امن دعوہ ورک شروع کردیتے- اگر مسلمان ایسا کرتے تو یقیناً اُن کے اوپر قرآن کے وہ الفاظ صادق آتے جو اِس سے پہلے پیروانِ مسیح کے اوپر صادق آچکے تھے، یعنی: فأیدنا الذین آمنوا على عدوّہم فأصبحوا ظاہرین (
پیروانِ مسیح کے ماڈل میں دوسرا نمونہ وہ تھا جو صلیبی جنگوں کے بعد ظہور میں آیا- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا کے اوپر پہلی بار فطرت کے قوانین (laws of nature) منکشف ہوئے اور جدید تہذیب وجود میں آئی جس کے نتیجے میں پوری انسانیت کو بے شمار فائدے حاصل ہوئے-
اِس دوسرے معاملے میں بھی مسلمان پوری طرح ناکام ہوگئے- قرآن میں بیان کردہ پیروانِ مسیح کے ماڈل میں ان کے لیے یہ پیغام تھا کہ مغربی قوموں سے مقابلہ آرائی میں جب باعتبار نتیجہ وہ ناکام ہوجائیں تو وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی (revision) کریں-اِسی نظر ثانی کو قرآن میں اجتماعی توبہ (
اگر مسلمان اپنی منفی نفسیات سے باہر آکر مثبت انداز میں سوچتے تو اُن کو معلوم ہوتا کہ مغرب کی مسیحی قوموں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، وہ عین اُن کی اپنی موافقت میں ہے- اِس کے نتیجے میں جو جدید تہذیب وجود میں آئی ہے، اس نے مسلمانوں کے لیے خدمتِ دین اور اشاعتِ اسلام کے نئے وسیع تر دروازے کھول دئے ہیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگی طور پر فرمایا تھا کہ بعد کے دور میں اللہ تعالی کچھ سیکولر لوگوں کو کھڑا کرے گا جو دین کے حق میں تائیدی رول (supporting role) انجام دیں گے- مغرب کی مسیحی قوموں کا کارنامہ اِسی قسم کا تائیدی کارنامہ تھا- اِس موقع پر مسلمانوں کو چاہئے تھاکہ وہ مغربی قوموں کے خلاف نفرت اور تشدد کی پالیسی کو مکمل طورپر ختم کردیں- اگر وہ ایسا کرتے تو ان کے اندر ایک نیا مثبت ذہن ابھرتا- اس کے بعد وہ جان لیتے کہ مغربی قوموں نے ان کے لیے کتنا بڑا تائیدی کام انجام دیا ہے-
اِس تائیدی کام کا ایک پہلو وہ ہے جس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے — عن قریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ ان کے اوپر یہ آشکارا ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے(
اِس قسم کی تمام تبدیلیاں جو مغربی تہذیب کے بعد دنیا میں آئیں، وہ سب خود اسلام کا مطلوب تھیں- اِن تبدیلیوں کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی صداقت کو خالص علمی اعتبار سے مدلّل کیا جائے- جدیدٹکنالوجی اور کمیونکیشن نے اِس بات کو ممکن بنا دیا کہ اسلام کی اشاعت کو عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے- اِس طرح کی بے شمار جدید چیزیں ہیں جو عین اسلام کے حق میں ہیں اور وہ عملاً سب کی سب مغربی تہذیب کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوئی ہیں-
خاتمہ کلام
امتِ مسلمہ کی تاریخ اب اکیسویں صدی عیسوی میں پہنچ چکی ہے- اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ امت کے اندر وہ سوچ پیدا ہو جس کو قرآن کے اندر اجتماعی توبہ کہا گیا ہے، یعنی قومی پالیسی کو بدلنا- یہی امت مسلمہ کے مسائل کا واحد حل ہے- اِس کے سوا کوئی اور حل نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب- پچھلی صدیوں میں جو حالات پیدا ہوئے، اس کے نتیجے میں، ساری دنیا کے مسلمانوں کے اندر منفی نفسیات کا ذہن پیدا ہوا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنی اصل حیثیت کو بھول گئے، یعنی یہ کہ وہ اللہ کے دین کے داعی ہیں اور دوسری قومیں ان کے لیے مدعو کا درجہ رکھتی ہیں-
اصل حقیقت کے اعتبار سے، مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے درمیان داعی اور مدعو کی نسبت ہے، لیکن مسلمانوں کی منفی نفسیات کی بنا پر یہ ہوا کہ مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے درمیان حریف اور رقیب کی نسبت قائم ہوگئی- موجودہ زمانے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے درمیان اِس نسبت کو درست کیا جائے- مسلمانوں کے اندر عمومی طورپر یہ سوچ پیدا کی جائے کہ وہ داعی ہیں اور دوسری قومیں ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں- اِسی میں مسلمانوں کی دنیا کی کامیابی بھی ہے اور اِسی میں ان کی آخرت کی کامیابی بھی- (10 اپریل 2013)
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمان مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہیں- مثلاً فقہی مسائل، سیاسی مسائل، اور بین اقوامی مسائل، وغیرہ- مسائل کے حل کا صحیح فارمولا وہ ہے جو حالات کی نسبت سے قابل عمل ہو- اِس اعتبار سے دیکھئے تو مذکورہ مسائل کا سادہ فارمولا یہاں حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
فقہی مسائل میں توسع، سیاسی مسائل میں شورائیت،اور مشترک مسائل میں بین اقوامی رواج کو مان لینا-
فقہی (عبادتی) مسائل میں اختلاف کا اصل سبب یہ ہے کہ صحابہ کی روایتیں عبادات کے فارم کے معاملے میں مختلف ہیں- ایسی حالت میں اِس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ اِن اختلافات کو توسع پر محمول کیا جائے- یہ مسلک حدیثِ رسول کے مطابق ہوگا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: بأیہم اقتدیتم اہتدیتم (کشف الخفاء، جلد1، صفحہ
سیاسی مسائل میں شورائیت کا مطلب یہ ہے کہ سیاست میں کوئی شخص اپنا معیار چلانے کی کوشش نہ کرے- عوامی رائے کے مطابق، جو بات طے ہو، اس کو مان لیا جائے-
مذہبی معاملات میں افراد کو آزادی دیتے ہوئے، سیاسی اقتدار کے معاملے کو جمہوری عمل (democratic process) کے حوالے کردیا جائے-
مشترک مسائل میں بین اقوامی رواج کو مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ بین اقوامی معاملے میں اُس اصول کو اختیار کرلیناجس کو اُس وقت انٹرنیشنل نارم(international norm) کا درجہ حاصل ہو- مسائل کا حل ہمیشہ حقیقت پسندی میں ہوتا ہے، نہ کہ معیار پسندی میں- اجتماعی زندگی میں کوئی بھی شخص اپنے ذاتی معیار کو نہیں چلا سکتا، اِس لیے اجتماعی زندگی میں ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کی رعایت کی جائے، دوسروں کے ساتھ ایڈ جسٹ کرتے ہوئے اپنےعمل کا منصوبہ بنا یا جائے-
واپس اوپر جائیں
آپ انٹرنیٹ کھولیں تو آپ کو اُس میں دو اصطلاحیں ملیں گی — جوئش پیرانوئیا (Jewish Paranoia) اور مسلم پیرانوئیا (Muslim Paranoia) - دونوں عنوانات کے تحت آپ کو بہت سے مضامین ملیں گے- اِن مضامین کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ اپنے بعد کے زمانے میں، یہود اور مسلمان دونوں، ایک ہی نفسیات کا شکار ہوئے- یہ نفسیات وہی ہے جس کو اصطلاحی طورپر پیرانوئیا (paranoia) کہاجاتاہے- پیرانوئیا کا مطلب ہے: فریب خوردگی (delusion) میں جینا-
یہود اور مسلمانوں کی اِس فریب خوردگی کا مشترک سبب اُن کی قومی تاریخ ہے- دونوں کے ساتھ یہ ہوا کہ قدیم زمانے میں اُن کو قومی بر تری اور سیاسی دبدبہ ملا- اِس کے بعد دونوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ کچھ قومیں ابھریں جنھوں نےدونوں کی قومی برتری اور سیاسی دبدبے کو ختم کردیا- یہ واقعہ پہلے، یہود کے ساتھ پیش آیا اور اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ-یہ واقعہ قانونِ فطرت کے تحت ہوا تھا، لیکن دونوں نے اُس کو ’’غیروں‘‘ کی سازش قرار دے دیا-
اِس سے دونوں کے اندر جو مریضانہ ذہنیت پیداہوئی، اُسی کا نام پیرانوئیا ہے-اِس ذہنیت کے نتیجے میں مشترک طورپر جو ہوا، وہ یہ تھا— اپنے بارے میں فرضی فخر (false pride) اور دوسرے کے بارے میں فرضی نفرت (false hate)- اِس بگڑے ہوئے مزاج کے تحت دونوں کے اندر جو برائیاں پیدا ہوئیں، اُن میں سے ایک مشترک برائی یہ تھی کہ دونوں نے دعوت کا وہ کام چھوڑ دیا جس کی ذمے داری اُن پر خدا کی طرف سے ڈالی گئی تھی-
اِس سلسلے میں یہود کے کیس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ ۡ فَنَبَذُوْہُ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَـــنًا قَلِیْلًا ۭ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ (
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہود نے اپنے بعد کے زمانے میں تبیینِ حق کی ذمے داری کو چھوڑ دیا، حتی کہ اِس حکم کی فرضیت اُن کے لیے ایک نامعلوم چیز بن گئی- انھوں نے بطور خود یہ عقیدہ بنا لیا کہ نجات (salvation) صرف یہود (بنی اسر ائیل) کے لیے ہے-غیر یہود کے لیے نجات ہی نہیں- ٹھیک یہی حال بعد کے زمانے میں مسلمانوں کا ہوا- دعوت یا شہادت علی الناس کا حقیقی تصوران کے ذہن سے حذف ہوگیا- ان کی تفسیریں، اُن کی شرحیں اور ان کی تیار کردہ کتابیں دعوت الی اللہ کے حقیقی تصور سے خالی ہیں- انھوں نے اپنے آپ کو ’’خیر امت‘‘ کا درجہ دےرکھا ہے اور دوسروں کو انھوں نے عملاً ’’کافر‘‘ کا درجہ دے کر اُن کو نظر انداز کردیا ہے-
موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے بظاہر دعوت کے نام سے ادارے قائم کیے ہیں، اور اس کے تحت کچھ سرگرمیاں کررہے ہیں، مگر اپنی حقیقت کے اعتبا ر سے، یہ سرگرمیاں دعوتی سرگرمیاں نہیں- ان کی سرگرمیوں کو دو قسم میں تقسم کیا جاسکتا ہے — ایک، وہ لوگ ہیں جو دعوت کےنام پر ڈبیٹ (debate) کرتے ہیں- وہ دوسروں کے مذہب پر مسلمانوں کے مذہب کی بر تری ثابت کرتے ہیں- اِس سے مسلمانوں کے جذبہ فخر کو تسکین ملتی ہے- مسلمان اُن کی تقریروں پر خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں، مگر اس قسم کا ڈبیٹ صرف ایک قومی کام ہے، اس کا دعوت سے کوئی تعلق نہیں-
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دعوت کا نام لیتے ہیں، لیکن عملاً اُن کا کام یہ ہے کہ وہ عوام کے اندر جائیں اور پر اسرار قسم کے بے اصل قصے کہانیاں سنا کر وقتی طورپر لوگوں سے کلمہ پڑھوائیں- اِس طرح کے کام سے مسلمان خوش ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کا تعاون کرتے ہیں، اِس لیے کہ اِس کام میں مسلمانوں کو یہ نفسیاتی تسکین ملتی ہے کہ اُن کی قوم کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے-
دعوت الی اللہ کے کام کا نہ قومی فخر سے کوئی تعلق ہے اور نہ قومی تعداد بڑھانے سے- دعوت الی اللہ تمام تر شہادت علی الناس کا کام ہے- دعوت کا کام انسانوں کی خیر خواہی میں خالص آخرت کے جذبے کے تحت ہوتا ہے- دعوت کا کام کیا ہے، اس کی حقیقت قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتی ہے: رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ(
پچھلی تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا کہ کچھ طاقتوں نے فلسطین میں یہودیوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں کیں- اِس کے بعد یہود کی تاریخ میں ایک ظاہرہ پیدا ہوا جس کو ڈائس پورا (diaspora) کہاجاتا ہے، یعنی اپنے وطن سے ہجرت کرنا اور دوسرے مقام پر جاکر آباد ہونا-
اِس طرح جو یہود فلسطین کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں گئے، وہ اپنی علاحدہ قومی شناخت (identity) کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے- چناں چہ وہ جس ملک میں گئے، وہاں انھوں نے اپنی علاحدہ بستیاں بنائیں- اِن بستیوں کو گھیٹو (ghetto) کہا جاتا ہے- اپنی شناخت برقرار رکھنے کے نام پر اِس طرح علاحدہ بستیاں بنانا کوئی سادہ بات نہ تھی- اِس طرح علاحدہ رہنے کی وجہ سے اُن کے اندر ایک ذہنیت پیدا ہوئی جس کو گھیٹو مینٹلٹی (ghetto mentality) کہاجاتا ہے- بعد کے زمانے میں خود یہودیوںمیں گھیٹو کا یہ کلچر باقی نہ رہا- وہ تعلیم اور دوسرے جدید شعبوں میں دوسری قوموں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے- اِس طرح یہودیوں کے اندر گھیٹو مینٹلٹی بڑی حد تک ختم ہوگئی-
موجودہ زمانے میں مسلمانوںکے اندر بھی یہی کلچر رائج ہوا، یعنی مسلم شناخت کے نام پر دوسروں سے الگ ہو کر رہنا- یہ صورتِ حال تادمِ تحریر برقرار ہے- اِس روش نے مسلمانوں کے اندر بہت بڑے پیمانے پر گھیٹو ذہنیت پیدا کردی- اِسی گھیٹو ذہنیت کا ایک سیاسی مظاہرہ وہ تھا جس کو پاکستانائزیشن (Pakistanization) کہا جاسکتا ہے-
اِس پاکستانائزیشن کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچا ہے، اُس کی کوئی مثال پچھلی پوری تاریخ میں نہیں ملتی- موجودہ زمانے میں پاکستانائزیشن کی پالیسی اسلام کے نام پر اختیار کی گئی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ صرف سیاسی گھیٹوازم (political ghettoism) تھا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں (
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا- ابتدائی مشکلات کے بعد آپ کا مشن نہایت تیزی کے ساتھ پھیلا، یہاں تک کہ تقریباً 50 سال کے عرصے میں آپ کے ماننے والوں نے ایشیا اور افریقہ اور یورپ میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرلیں- مسلمانوں کا یہ دبدبہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا- اِس کے بعد وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (
The Ottoman naval establishment was wiped out at the Battle of Çeşme (1770) by a Russian fleet. (EB. 13/784)
اِس سلسلے میں دوسرا واقعہ ہندستان میں پیش آیا- اُسی زمانے میں برٹش فوجیں ہندستان میں داخل ہوئیں اور تیزی سے پیش قدمی کرنے لگیں- اٹھارھویں صدی کے آخر میں اُن کا مقابلہ میسور کے سلطان ٹیپو سے پیش آیا- برٹش فوجیں کامیاب ہوئیں اور 1799 میں انھوں نے سری رنگا پٹنم میں سلطان ٹیپو کو ہلاک کرکے میسور کی سلطنت پر قبضہ کرلیا- اُس وقت سلطان ٹیپو کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر جنرل ہیرس (George Harris) نے فاتحانہ انداز میں کہا تھا کہ — آج ہندستان ہمارا ہے:
Today, India is ours!
نئی سوچ کی ضرورت
اِس کے بعد مغربی قوموں کے خلاف مسلمانوں کا ٹکراؤ شروع ہوا- یہ ٹکراؤ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان دو صدیوں تک مسلسل جاری رہا- اِس طویل جنگ میں مسلمانوں کو ساری دنیا میں یک طرفہ طور پر تباہی سے دوچار ہونا پڑا-اب اِس تباہ کن لڑائی کی تاریخ اکیسویں صدی میں پہنچ چکی ہے- اب حالات اُس سنگین حد تک پہنچ چکے ہیں، جب کہ اِس تباہ کن لڑائی کو مزید جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں- اب آخری طور پر وہ قت آگیا ہے کہ مسلمانوں کے علما اور دانش ور یہ فیصلہ کریں کہ اب ہمیں پورے معاملے کا از سرِ نو جائزہ لینا ہے- اب ہمیں ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے احیاءِ ملت کی نئی منصوبہ بندی کرنا ہے- دو سو سال کا ناکام تجربہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ ماضی کی پالیسی کو بدستور جاری رکھنا، اب صرف دیوانگی ہے، نہ کہ کوئی دانش مندی-
اسلام کے عملی اصول میں سے ایک اصول وہ ہے جس کو نظر ثانی (reassessment) کا اصول کہا جاسکتا ہے- فطرت کے نظام کے مطابق، یہ ممکن ہے کہ آدمی نظریہ (ideology) کی سطح پر ہمیشہ ایک ہی آئڈیل اصول پر قائم رہے، لیکن عمل کی دنیا میں آنے کے بعد ہمیشہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی عملی تقاضے کی نسبت سے اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرنا، بدلے ہوئے حالات کے مطابق، ازسرِ نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا- یہ اسلام کا تقاضا بھی ہے اور عقل کا تقاضا بھی- موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر اب آخری طور پر وہ وقت آگیا ہے کہ وہ اِس عملی اصول کے تحت اپنی سرگرمیوں کا از سرِ نو جائزہ لیں اور حقائق (realities) کی بنیاد پر اپنے عمل کا نیا نقشہ بنائیں، جو حالات کے مطابق، قابلِ عمل بھی ہو اور نتیجہ خیز بھی-
اسلامی لٹریچر کا معاملہ
اسلام استثنائی طورپر ایک ایسا مذہب ہے جس کا اصل متن (original text) آج بھی محفوظ طور پر موجود ہے- یہی متن (قرآن اور سنت) اسلام کی تعلیمات کو جاننے کا واحد ماخذ ہے- اسلام کا یہ تاریخی پہلو اسلام کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں- مگر اسلام کی بعد کی صدیوں میں یہ ہوا کہ اسلام کے متن کی تشریح وتفصیل کے طور پر ہزاروں کتابیں عربی زبان میں لکھی گئیں- اس کے بعد دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ بعد کو لکھی جانے والی یہ کتابیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اسلام کا اصل ماخذ قرارپاگئیں- اب یہی کتابیں مدرسوں اور اداروں اور لائبریریوں میں استعمال ہوتی ہیں، ہر جگہ اُنھیں کا چرچا ہوتا ہے، حتی کہ عملاً اب قرآن اور سنت کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے اور بعد کو پیدا ہونے والے لٹریچر کو بلا اعلان اسلام کے اولین لٹریچر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے-
اب موجودہ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ فکری حیثیت سے وہ دین ِ منزَّل پر کھڑے ہوئے نہیں ہیں، اب عملاً وہ اُس دین پر کھڑے ہوئے ہیں جو بعد کی صدیوں میں مسلم علما نے اصل دین کی تشریح وتفصیل کی حیثیت سے بطور خود مدوّن کیا- مسلمانوں کی یہ صورتِ حال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس پیشین گوئی کی تصدیق ہے جو حدیث کی کتابوں میں اِن الفاظ میں آئی ہے: من اقتراب الساعة أن یرفع الأشرار، ویوضع الأخیار، ویوضع فی القوم الِمثْناة، لیس أحد یغیرہا، قیل: وما المثناة- قال: کتاب کتب سوى کتاب اللہ عزوجل (المستدرک على الصحیحین، رقم الحدیث: 8782 )یعنی قرب قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ برے لوگوں کو بلندی حاصل ہوجائے گی، اور اچھے لوگوں کو ذلیل کیا جائے گا، اور لوگوں کے درمیان ’مِثناة‘ کا رواج عام ہوجائے گا، کوئی نہ ہوگا جو اس کی تغییر کرے- پوچھا گیا کہ مثناة کیا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ کی کتاب کے سوا لکھی جانے والی کتابیں-
اِس حدیث میں دراصل امتِ مسلمہ کے زوال کی حالت کو بتایا گیا ہے- جب ملت پر زوال کا دور آتا ہے تواس کی حالت بھی وہی ہو جاتی ہے جو دوسری ملتوں کی ہوئی، یعنی لوگ ظاہر پسند بن جاتے ہیں- اُن کو معنوی حقائق دکھائی نہیں دیتے، البتہ ظاہری چیزیں خوب نظر آتی ہیں- لوگوں کے اِس بگڑے ہوئے ذوق کی بنا پر اُن کے درمیان دنیا پرست قسم کے لوگ ابھرتے ہیں اور آخرت پسند قسم کے لوگ غیر نمایاں بن جاتے ہیں- جو لوگ بگڑے ہوئے عوامی ذوق کو غذا فراہم کریں، وہ مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں اور جو لوگ اپنی سنجیدگی کی بنا پر عوامی ذوق کی رعایت نہ کرسکیں، وہ اُن کے درمیان غیر مقبول بن جاتے ہیں-اُس وقت ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو اگر چہ روحانی اعتبار سے خالی ہوتے ہیں، لیکن اپنے شان دار مذہبی لباس کے ذریعے وہ لوگوں کے درمیان اپنے کو نمایاں بنا لیتے ہیں- ان کے خوش نما الفاظ ، ان کا بناوٹی انداز، ان کی بڑی بڑی باتیں عوام کو اپیل کرتی ہیں- ایسے لوگ حقیقت کے اعتبار سے، اگر چہ ’’اشرار‘‘ ہوتے ہیں، لیکن عوام کے بگڑے ہوئے ذوق کی بنا پر وہ اُن کے درمیان ’’اَخیار‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں- یہی وہ لوگ ہیں جن کی تقریر اور تحریر کو حدیث میں ’مثناة‘ کہاگیا ہے-
مذکورہ حدیث میں اللہ کی کتاب کے سوا جن کتابوں کا ذکر ہے، اُن سے مراد عام کتابیں نہیں ہیں، بلکہ ان سے مراد وہ کتابیں ہیں جو امت کے بعد کے زمانے میں دینِ خداوندی کی تفسیر اور تشریح کے طورپر لکھی جائیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِن قابلِ ترک کتابوں سے مراد وہ کتابیں ہیں جو اُس زمانے میں لکھی جائیں جو ’قُرون مشہود لہا بالخیر‘ کے بعد کا زمانہ ہے- اِس قسم کی کتابیں پچھلی امتوں کے زمانۂ ما بعد میں لکھی گئی تھیں، اِسی طرح وہ یقینی طورپر خود امتِ مسلمہ کے زمانۂ مابعد میں بھی لکھی جائیں گی- اِس معاملے میں کسی حاملِ کتاب امت کا کوئی استثنا (exception) نہیں-
بعد کے زمانے میں لکھی جانے والی کتابیں دو قسم کی ہوسکتی ہیں— ایک وہ جو کتاب اللہ کے گہرے مطالعے کے بعد اس کی حقیقی وضاحت کے طورپر لکھی جائیں- اور دوسری کتابیں وہ ہیں جو دورِ زوال میں لوگوں کے بگڑے ہوئے ذوق کی رعایت کے طورپر لکھی جائیں- مذکورہ حدیث میں ’مثناة‘ کے نام سے جن کتابوں کا ذکر ہے، وہ یہی دوسرے قسم کی کتابیں ہیں-امتِ مسلمہ کے بعد کے دور میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ اُس وقت لکھی گئیں، جب کہ مسلمان ایک نظریاتی گروہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہے تھے، بلکہ وہ عام قوموں کی طرح ایک قوم بن چکے تھے، چناں چہ اِن کتابوں میں ایک مشترک خامی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قومی ذہن کی عکاسی کرتی ہیں، نہ کہ اسلام کے اصولی موقف کی-
بعد کے دور میں مسلمان دوسری قوموں کو مدعو کے بجائے محکوم کی نظر سے دیکھنے لگے، اِس لیے ایسا ہوا کہ بعد کے دور میں پیدا ہونے والے لٹریچر میں دعوت الی اللہ کا باب حذف ہوگیا- بعد کے دور میں جب کہ مسلمانوں کا پولٹکل ایمپائر قائم ہوا، اُس وقت مسلمانوں میں عام طورپر سیاسی طرز فکر پیدا ہوگیا- اِس سیاسی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد کے مسلمانوں میں جہاد کے نام پر قتال (جنگ) کا تصور غالب آگیا، حتی کہ قتال اُن کے لیے مذہبی عقیدے کا جز بن گیا، جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتال کو صرف ضرورتِ شدیدہ (law of necessity) کے طورپر اختیار کیا گیا تھا-
بعد کے دور میں مسلمانوں کو جو دبدبہ حاصل ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عام طورپر فخر (pride) کا ذہن پیدا ہوگیا- وہ دوسروں کے مقابلے میں، اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگے- اِسی ذہن کا یہ نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنے زیر ِ قبضہ علاقوں کو ’دار الاسلام‘ اور دوسروں کے زیر قبضہ علاقوں کو ’دار الکفر‘ کہنا شروع کردیا، حالاں کہ قرآن کے مطابق، تمام دنیا یکساں طورپر دار الانسان کی حیثیت رکھتی تھی- دار الکفر اور دار الاسلام کی اصطلاحیں سرتا سر مبتدعانہ اصطلاحیں ہیںجو بعد کے دور میں وضع کی گئیں- اِسی صورت حال کا یہ نتیجہ تھا کہ بعد کے زمانے میں اسلام کو صرف احکام اور قوانین کا ایک مجموعہ سمجھ لیا گیا، اِسی ذہن کا نتیجہ تھا کہ علما کے درمیان علم فقہ کو غلبہ حاصل ہوگیا اور قرآن اور حدیث عملاً فقہ کے تابع قرار پاگئے- دورِ زوال کا یہ بھی ایک ظاہرہ ہے کہ دین میں اسپرٹ (spirit) کی اہمیت گم ہوجاتی ہے اور ساری اہمیت فارم (form) کو حاصل ہوجاتی ہے- اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دین میں ساری بحثیں فنی اور قانونی پہلوؤں پر مرتکز ہوجاتی ہیں- اِس کے نتیجے میں ایک شدید تر خرابی پیدا ہوجاتی ہے، یعنی بہت سے فرقوں کا وجود میں آنا- یہاں پہنچ کر ملتِ واحدہ، ملتِ متفرقہ میں تبدیل ہوجاتی ہے-
واقعات بتاتے ہیں کہ بعد کے دور میں ملتِ مسلمہ کے درمیان یہ تمام خرابیاں کامل طورپر پیش آئیں- اِن تمام خرابیوں کا سبب وہی چیز ہے جس کو مذکورہ حدیث میں ’مثناة‘ کہاگیا ہے، یعنی ملت کے دورِ زوال میں پیدا ہونے والا لٹریچر- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام فکری مسائل براہِ راست طورپر اِسی صورتِ حال کا نتیجہ ہیں- اب اِس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہے، وہ یہ کہ قرون مشہود لہا بالخیر کے بعد مسلمانوں نے عربی زبان میں بطور خود جو لٹریچر تیار کیا، اُن کتابوں کو اب مسلمانوں کے کلاسکل لٹریچر (classical literature)کا درجہ دے دیا جائے- اب دوبارہ کھلے ذہن کے تحت قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا جائے اور پھر ایسا لٹریچر تیا رکیا جائے جو جدید ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو- بعد کے پیدا شدہ لٹریچر کی تاریخی حیثیت ہمیشہ باقی رہے گی، لیکن جہاں تک ماخذ کی بات ہے، اسلام میں مستند ماخذ کی حیثیت ہمیشہ قرآن اور سنت کو حاصل رہے گی-
ایک ’’روشن خیال‘‘ مسلمان نے ایک بار لکھا تھا کہ — آج قرآن کو دوبارہ نازل ہونا چاہئے:
Quran has to be re-revealed today.
یہ ایک صحیح بات ہے جس کو غلط الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- آج ہم کو نئے قرآن کی ضرورت نہیں،ضرورت صرف یہ ہے کہ اسلوبِ عصر میں قرآن کی تبیین کی جائے- چناں چہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
Quran has to be re-defined today.
قرآن کی تمام تعلیمات ابدی ہیںتاہم اسلوب کلام کا تعلق مخاطب گروہ سے ہے، اِس لیے اسلوب کلام ہر دور میں بدلتا رہتا ہے- اب ضرورت ہے کہ قرآن کی ابدی تعلیمات کو اسلوبِ عصر میں اِس طرح بیان کیا جائے کہ وہ آج کے لوگوں کے لیے قابل فہم بن سکیں-
ملتِ مسلمہ کا کیس
ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے آج محرم 1434 کی پہلی تاریخ ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی تھی، اُس پر اب 1433 سال گزر چکے ہیں- آپ کے زمانے میں جس ملتِ مسلمہ کی تشکیل ہوئی تھی، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ اب ختم ہوچکی ہے- آج جس کو ہم ملتِ مسلمہ کہتے ہیں، وہ ملت کی بعد کی نسلیں ہیں جو مختلف حالات سے گزرتے ہوئے اکیسویں صدی عیسوی میں داخل ہوئی ہیں- یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر امت اپنے بعد کے دور میں زوال کا شکار ہوتی ہے-موجودہ زمانے میں مسلمان دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں پائے جاتے ہیں- یہ مسلمان، قرآن کی زبان میں، خیرِ امت(
تحریکوں کی ناکامی کا سبب
پچھلے دو سوسال کے اندر مسلم علما اور مسلم رہنماؤں نے ملت کے احیا کے لیے بہت سی بڑی بڑی تحریکیں اٹھائیں اور بہت سی بڑی بڑی جماعتیں بنائیں- اِن تحریکوں اور جماعتوں کے تحت جو پُرجوش سرگرمیاں جاری ہیں، ایک فارسی شاعر کے الفاظ میں، اُن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
زمیں شش شد و آسماں ہشت شد
مگر یہ تحریکیں اپنے اعلان کردہ مقصد کے اعتبار سے مکمل طورپر ناکام رہیں- اِس کا سبب صرف ایک تھا، وہ یہ کہ اِن رہنماؤں نے موجودہ مسلمانوں کو ’’خیر امت‘‘ فرض کرکے اپنا کام شروع کیا، جب کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا یہ انبوہ ایک زوال یافتہ گروہ کے درجے میں پہنچ چکا تھا-
اصلاح کا آغاز افراد سے
دورِ زوال کی نفسیات یہ ہے کہ زوال اگرچہ عمومی سطح پر ہوتا ہے، لیکن اصلاح کا آغاز افراد کی سطح سے کیا جاتا ہے- دورِ زوال میں مجموعی اصلاح کا طریقہ سراسر بے معنی ہے- قرآن کےمطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں کام کا آغاز اصلاحِ افراد سے کیا جائے، یعنی بھیڑ کو ایڈریس کرنے کے بجائے افراد کو ایڈریس کرنا- اصلاح کی اِس حکمت کو قر آن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے :
1- ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ۙ وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (
2- اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ (
قرآن کی اِن دونوں آیتوں کا مطلب ایک ہے، وہ یہ کہ جب کوئی قوم عروج کے بعد زوال کا شکار ہوجائے اور اس کو دوبارہ عروج کی طرف لوٹانا ہو تو اصلاح کے کام کا آغاز مجموعی قوم کی سطح سے شروع نہیں کیا جائے گا، بلکہ افراد کی سطح سے شروع کیا جائے گا- ایسا نہیں کیا جائے گاکہ یہ فرض کرلیا جائے کہ قوم تو موجود ہے، اب اُس کو صرف اجتماعی اقدام کی طرف متحرک کرنا ہے، بلکہ یہ تسلیم کیاجائے گا کہ قوم موجود نہیں ہے اور افراد کی اصلاح کرکے دوبارہ قوم کو وجود میں لانا ہے- یہی اللہ کا قانون ہے، اور اللہ کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی (
اِس معاملے کی ایک واضح عملی مثال موجودہ زمانے میںپائی جاتى ہے، اور یہ فلسطین اور پاکستان کی مثال ہے- دونوں کا کیس بالکل ایک ہے- فلسطین کا تعلق عرب دنیا سے ہے، اور پاکستان کا تعلق بقیہ مسلم دنیا سے- فلسطین اور پاکستان کا معاملہ گویا موجودہ زمانے میں اِس قانون الہی کو سمجھنے کے لیے عملی مثال کی حیثیت رکھتا ہے- فلسطین اور پاکستان دونوںکے کیس میں ایسا ہوا کہ قوم کی سطح پر ایک مسلم ملک وجود میں لانے کی کوشش کی گئی، مگر دونوں جگہ مکمل طور پر ناکامی ہوئی- فلسطین کا مسئلہ 1948میں شروع ہوا- فلسطینی جدوجہد پر اب 60 سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے- اِس جدوجہد میں جان ومال کی جو قربانی دی گئی ہے، وہ شاید پوری مسلم تاریخ کی تمام قربانیوں سے بھی زیادہ ہے، مگر انجام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ پوری جدوجہد معکوس نتیجہ (counter productive) کی بدترین مثال ثابت ہوئی ہے-
اِس معاملے میں دوسری مثال پاکستان کی ہے- پاکستان 1947 میں بنا- اِس سے پہلے برصغیرہند کا پورا علاقہ ایک واحد ملک کی حیثیت رکھتا تھا جس میں مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ آباد تھے- اُس وقت مسلمانوں کے کچھ رہنماؤں نے متحد ہندستان میں دو قومی نظریہ (two nation theory) چلایا- اُن کا کہنا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں- اُن کو اپنے مذہب کے مطابق، زندہ رہنے کے لیے ایک الگ ملک چاہیے- یہ تحریک اِس مفروضے پر قائم تھی کہ مسلم قوم کے نام سے ایک امت آل ریڈی موجود ہے، اب صرف اُس کو ایک علاحدہ خطہ ارض کی ضرورت ہے- اُس زمانے میں ایک مسلم شاعر کا یہ شعر بہت مقبول ہوا:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
جان ومال کی بے پناہ قربانی کے بعد 1947 میں جغرافی معنوں میں پاکستان وجود میں آگیا، مگر معنوی اعتبار سے، پاکستان کا اب تک کوئی وجود نہیں- پاکستان میں نہ اسلام آیا اور نہ وہاں کے مسلمانوں کو امن اور تحفظ حاصل ہوا- حقیقت یہ ہے کہ آج انڈیا کے مسلمان، اسلام اور امن وتحفظ دونوں اعتبار سے، پاکستان کے مسلمانوں سے بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں- یہی وجہ ہے کہ 1971 سے پہلے انڈیا کے مسلمان، پاکستان جانے کے لیے بے تاب رہتے تھے، مگر آج انڈیا کا کوئی مسلمان، پاکستان جانے کےلیے تیار نہیں، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ انڈیا میں وہ پاکستانی مسلمانوں کے مقابلے میں ہر اعتبار سے زیادہ بہتر حالت میں ہے-
پاکستان بننے کے اول دن ہی سے وہاں باہمی ٹکراؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا- پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو گولی مار دی گئی- پاکستان کے مسلمانوں میں جو باہمی لڑائی شروع ہوئی، اس میں اب تک تقریباً 40 ہزار آدمی ہلاک ہوچکے ہیں- امریکا میں ایک آزاد تنظیم ہے- اس کا نام — فنڈ فار پیس (Fund for Peace) ہے- اِس تنظیم کا ایک کام یہ ہے کہ وہ ملکوں کے حالات کا سالانہ انڈیکس تیار کرتی ہے- اِس تنظیم نے 2011 میں ملکوں کا جو انڈیکس شائع کیا ہے، اس کے مطابق، پاکستان ایک ناکام ریاست (failed state) کی حیثیت اختیار کرچکا ہے-
اِس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کے مسلم رہنماؤں نے یہ فرض کرلیا کہ امتِ مسلمہ عملاً موجود ہے، اب صرف یہ ضرورت ہے کہ اس کو اقتدار حاصل ہوجائے، جب کہ اصل صورتِ حال یہ تھی کہ اپنی حقیقت کے اعتبا ر سے، امتِ مسلمہ کا وجود ہی نہ تھا- جو چیز موجود تھی، وہ امت کے نام پر صرف ایک انبوہ تھا- ایسی حالت میں کام کا آغاز افراد کی اصلاح کرکے دوبارہ امت کو وجود میں لانا تھا- پاکستان کے مسلم رہنماؤں نے جو کچھ کیا، وہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا (putting the cart before the horse) تھا- اِس قسم کا غیر فطری منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، اور پاکستان کے معاملے میں ایسا ہی ہوا-
فلسطین کی تحریک میں تمام عرب دنیا براہِ راست طورپر اور بقیہ مسلم دنیا بالواسطہ طورپر شریک ہے، مگر بے پناہ قربانیوں کے باوجود ابھی تک ایسا نہیں ہوا کہ فلسطین میں عربوں کی مطلوب حکومت قائم ہوجائے- لیکن جہاںتک سبق کا تعلق ہے، وہ فلسطین کی مثال میں بھی پوری طرح موجود ہے- فلسطین میں اگر بالفرض عربوں کی حکومت قائم ہوجائے تو عملاً وہ بھی ایک ناکام ریاست ہی ثابت ہوگی، کیو ں کہ فلسطینی عرب بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح صرف ایک انبوہ ہیں، نہ کہ تیار شدہ افراد- ایسی حالت میں بالفرض اگر فلسطین میں عربوں کی حکومت قائم ہوجائے تو فلسطین میں عملاً وہی ہوگا جو دوسرے عرب ملکوں میں ہورہا ہے، یعنی یا تو سخت قسم کی ڈکٹیٹر شپ (dictatorship) ، یا اگر بالفرض آزادی کا ماحول ہو تو خود فلسطینی مسلمانوں کے درمیان سخت قسم کی باہمی جنگ-
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف ایک ہی محفوظ طریقہ باقی ہے، اوروہ ہے— اسٹیٹس کوازم کا طریقہ، یعنی حالتِ موجودہ کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرلینا- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو یہ کرناہے کہ وہ یک طرفہ طورپر نفرت اور تشدد کا طریقہ ختم کردیں- وہ اقدام کی نوعیت کی تمام سرگرمیوں کو مکمل طورپر بند کردیں- وہ یو ٹرن (U turn) لیتے ہوئے اپنے عمل کے میدان کو بدل دیں- وہ دوسروں سے ٹکراؤ کے بجائے خود اپنے افراد کی تعلیم وتربیت کی طرف لوٹ آئیں- وہ اپنی تمام طاقت کو ’’اقدام‘‘ کے بجائے ’’تیاری‘‘ پر مرتکز کردیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کےلیے زندگی کا یہی واحد راستہ ہے- اِس کے سوا جو کچھ ہے، وہ صرف ہلاکت ہے، نہ کہ زندگی- (
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمانوںمیں باربار ایک واقعہ پیش آیا ہے- ایک اسلام پسند جماعت (Islamist party) اٹھتی ہے- وہ اسلام کے نام پر سیاسی تحریک چلاتی ہے، یہاں تک کہ وہ موجودہ حکمرانوں ;کو ہٹا کر اپنی پارٹی کی حکومت بنالیتی ہے- اِس واقعے پر ساری دنیا کے مسلمان خوشی مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں ملک میں اسلام آگیا- مگر بہت جلد معلوم ہوتاہے کہ جو چیز آئی، وہ اسلام نہیں تھا، بلکہ صرف یہ تھا کہ حکومت کا ڈھانچہ بدل گیا، یعنی یہ معاملہ تبدیلی افراد کا معاملہ تھا، نہ کہ تبدیلی نظام کا-
ایساکیوں ہوتاہے- اِس کا سبب سیاسی بے بصیرتی ہے جو موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمانوں پر چھائی ہوئی ہے، خواہ وہ علما ہوں یا غیر علما- وہ سیاسی بے بصیرتی یہ ہے کہ لوگ صرف لفظی نعروں کو جانتے ہیں- اُن کو یہ خبر نہیں کہ ’’انقلاب‘‘ کے نام پر جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ صرف سیاسی اکھیڑ پچھاڑ کی بنا پر پیش آیا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں اسلام کی بنا پر-
اصل یہ ہے کہ جب بھی کچھ لوگ اقتدار کی کرسی پر ہوں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، خواہ وہ مخلص ہوں یا غیر مخلص، ہمیشہ عوام میں اُن کے خلاف شکایت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے- اجتماعی نظام میں اِس عنصر کو اینٹی انکمبنسی فیکٹر (anti-incumbency factor) کہاجاتا ہے- سادہ لفظوں میں اس کو اینٹی اتھارٹی(anti-authority)ماحول کہہ سکتے ہیں-جمہوری نظام میں اپوزیشن پارٹیاں ہمیشہ یہی کرتی ہیں کہ وہ برسرِ اقتدار گروہ کے خلاف موجود شکایتوں کو استعمال (exploit) کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں-
جن مسلم ملکوں میں یہ واقعہ پیش آرہا ہے کہ وہاں نہایت دھوم کے ساتھ ’’اسلام‘‘ آیا اور پھر جلد ہی معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز آئی تھی، وہ اسلام نہ تھا، بلکہ صرف اربابِ اقتدار کی تبدیلی (replacement) تھی، اس کے سوا اور کچھ نہیں- یہ صورتِ حال ہر اُس مسلم ملک میں پیش آئی جہاں نام نہاد اسلام پسند پارٹیاں سرگرم عمل ہیں-
واپس اوپر جائیں
4 مارچ 2013 کو یہ واقعہ ہواکہ نیدرلینڈ (Netherlands) کے ایک مشہور سیاسی لیڈر نے اسلام قبول کرلیا- اُن کا نام یہ ہے— ارناڈوان ڈارن (Ernaud Van Dorn)- دوسرے عہدوں کے علاوہ، وہ ڈچ پارلیامنٹ کے ممبر ہیں- انٹرنیٹ پر اِس واقعے کی خبر حسب ذیل عنوان کے تحت دیکھی جاسکتی ہے:
Anti-Islam Dutch Politician Converts to Islam
ارناڈوان ڈارن پہلے اسلام کے سخت مخالف تھے- بعد کو کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس نے ان کے اندر ایک نیا تجسس پیدا کردیا- انھوں نےخاموشی کے ساتھ باقاعدہ طورپراسلام کا مطالعہ شروع کردیا- آخر کار اُن کی فطرت جاگ اٹھی- انھوں نے کھلے طورپر ماضی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا- وہ وہاں کی ایک مقامی مسجد (مسجد السنّة) میں گئے اور وہاں کے امام فواز الجنید کے سامنے کلمۂ شہادت ادا کرکے اپنے اسلام کا اعلان کردیا- اِس سلسلے میں میڈیا میں جو خبریں آئی ہیں، اس کی چند سطریں یہ ہیں — ہیگ میونسپل کاؤنسل کے ایک ممبر اور رائٹ ونگ فریڈم پارٹی کے سابق ممبر ارناڈوان ڈارن نے ٹویٹر پر اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا ہے:
The member of Hague municipal council and the former member of the right-wing Freedom Party, Ernaud Van Dorn, has announced his conversion to Islam through his account on Twitter.
قبولِ اسلام کے اِس طرح کے واقعات برابر میڈیا میں آتے رہتے ہیں - اِس طرح کے واقعات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام فطرت کا دین ہے، جو انسان کی فطرت ہے، وہی اسلام ہے- اگر کوئی شخص بظاہر اسلام کا مخالف ہو تو اس کی مخالفت یقیناً غلط فہمی کی بنیاد پر ہوگی- آپ اس کی غلط فہمی کو دور کردیجئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ، قرآن کے الفاظ میں، جو شخص اسلام کا دشمن بنا ہوا تھا، وہ اسلام کا دوست بن گیا ہے (
واپس اوپر جائیں
مشہور پاکستانی صحافی شورش کاشمیری (وفات: 1975) نے لکھا تھا کہ: ’’اقبال وہ شبلی نعمانی ہے جسے کوئی سید سلیمان ندوی میسر نہ آسکا‘‘- (ماہ نامہ الشریعہ، پاکستان، اپریل 2013، صفحہ: 7)
یہ تقابل درست نہیں-صحیح یہ ہے کہ شبلی نے افراد سازی کا کام کیا، اِس لیے اُن کو افراد ملے- اِس کے برعکس، اقبال کا معاملہ یہ تھا کہ فرد سازی عملاً ان کا کنسرن (concern)ہی نہ تھا- وہ ایک شاعر تھے اور شاعری کے ذریعے مجموعۂ ملت کو خطاب کرتے تھے- اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال کو مجموعۂ ملت کے اندر مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن اُن کو نہ کوئی فرد ملا اور نہ افراد کی کوئی ٹیم-
مجموعۂ ملت کو خطاب کرنا دوسرے الفاظ میں، بھیڑ (crowd)کو خطاب کرنا ہے ا ور بھیڑکو خطاب کرنے سے کبھی افراد حاصل نہیں ہوتے، افراد کے حصول کا طریقہ بالکل جداگانہ ہے- اِس کے لیے ضرورت ہے کہ فرد کی نفسیات کو سمجھا جائے، فرد کے ذہن کو ایڈریس کیا جائے، فر د کو اپنا کنسرن بنایا جائے- یہ ایک بے حد مشکل کام ہے- اس کام کو صرف وہی لوگ انجام دے سکتےہیں جو ایک فرد کے ملنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیں کہ،حدیث کے الفاظ میں، ایک فرد اُن کو ’’سرخ اونٹوں‘‘ (حمر النعم)کی فوج سے زیادہ قیمتی دکھائی دینے لگے- اقبال کا مشہور شعر ہے:
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
اِس طرح کے کلام سے ایک بھیڑ کے اندر وقتی طورپر ہلچل پیدا کی جاسکتی ہے، لیکن اِس طرح کے پُرجوش کلام سے ایک فرد کے اندر شعوری انقلاب نہیں لایا جاسکتا- فرد کے اندر شعوری انقلاب لانے کے لیے صرف سنجیدہ کلام اور حقیقت بیانی کا انداز موثر ہوسکتا ہے(
واپس اوپر جائیں
جرمن فلسفی نٹشے 1844 میں پیدا ہوا، اور صرف
“God is dead” is a widely quoted statement by German philosopher Friedrich Nietzsche. It first appears in his book The Gay Science, first published in 1882. On January 3, 1889, Nietzsche suffered a mental collapse. Nietzsche’s mental illness was originally diagnosed as tertiary syphilis, in accordance with prevailing medical paradigm of the time. Some believe he suffered from manic-depressive illness with periodic psychosis, followed by dementia. In 1898 and 1899 Nietzsche suffered at least two strokes, which partially paralysed him and left him unable to speak or walk. After contracting pneumonia in mid-August 1900 he had another stroke during the night of August 24-25, and died about noon on August 25, 1900.
نٹشے کا معاملہ ’’عذاب‘‘ کا معاملہ نہ تھا- عذاب کا تعلق تمام تر آخرت سے ہے- نٹشے کا معاملہ دراصل عبرت کا معاملہ تھا- نٹشے کے واقعے میں یہ سبق ہے کہ اِس دنیا میں منفی سوچ کسی کے لیے مفید نہیں ہوتی- نٹشے جس قسم کی سوچ (“God is dead”) میں مبتلا ہوا، وہ پوری کائنات میں اجنبی ہے، وہ مکمل طورپر ایک خلافِ واقعہ سوچ ہے- اِس قسم کی خلافِ واقعہ سوچ آدمی کو غیر معتدل بنا دیتی ہے- اس کو ذہنی سکون (peace of mind)حاصل نہیں ہوتا، وہ مسلسل طورپر ٹنشن کا شکار رہتا ہے، کوئی علاج یا کوئی بھی تدبیر اس کو صحت عطا نہیں کرتی- اسی قسم کا عبرت ناک انجام دوسرے کئی ذہین لوگوں کا ہوا ہے- اُن میں سے ایک تازہ مثال رجنیش -اوشو-(وفات: 1999) کی ہے-
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Kashmir finds no mention in Pak poll campaigns.
یہ ایک عجیب بات ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کی سیاست میں ایک مشترک چیز پائی جاتی ہے- دونوں ملکوں میں جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں، مگر حالت یہ ہے کہ انڈیا کی جس پارٹی نے اِس سے پہلے رام مندر کی تعمیر کو اپنے الیکشن مینی فیسٹو (election menifesto)میں سب سے زیادہ نمایاں اشو کا درجہ دیا تھا، اب اس کے الیکشن مینی فیسٹو میں رام مندر کی تعمیر کا کوئی ذکر نہیں-
رام مندر کی تحریک اپنے نتیجے کے اعتبار سے، ہندو اور مسلم کے درمیان نفرت کا جنگل اگانے کی تحریک تھی- اِس قسم کا منفی جنگل خود پارٹی کے سیاسی مفاد کے خلاف تھا- چناںچہ انھوں نے جب اِس منفی نتیجے کو دیکھا تو حالات کے دباؤ کے تحت اِس تحریک سے عملاً کنارہ کشی اختیار کرلی- اِسی طرح پاکستان میں کشمیر کی تحریک اپنے نتیجے کے اعتبار سے،پاکستان اور پڑوسی ملک کے درمیان نفرت اور تشدد کا آتش فشاں بھڑکانے کے ہم معنی تھی- چناں چہ عملاً ایسا ہی ہوا- پہلے یہ آتش فشاں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بھڑکا اور بعد کو وہ خود پاکستان کے اندر بھڑک اٹھا- اِس منفی نتیجے کو دیکھ کر پاکستان کے لیڈر گھبرا اٹھے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے سے کنارہ کشی اختیار کرتےہوئے وہ اپنے ملک کی تعمیر کا نیا نقشہ بنائیں-
حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں کسی اقدام سے پہلے ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ اس کا عملی نتیجہ کیا ہوگا- اگر نتیجہ برعکس نکلنے والا ہو تو اقدام کرنے سے بہتر یہ ہے کہ کوئی اقدام ہی نہ کیا جائے- یہ اصول اِس دنیا میں قوم کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ فرد کے لیے-
واپس اوپر جائیں
آسام پولس کے ایک سپاہی اندرا اپادھیائے کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا- اس کا نام یہ تھا — کسان اپادھیائے- 1969 میں جب کہ وہ صرف چار سال کا تھا، وہ اپنی ایک بہن مایا کے ساتھ اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا- حالات نے اس کو کٹھمنڈو (نیپال) پہنچا دیا-ایک عرصے تک وہاں اس نے ایک ٹی اسٹال (tea stall)پر کام کیا- وہاں اس کو سخت نمونیہ ہوگیا- اس کی بہن مایا نے اس کو وہاں کے ایک اسپتال میں داخل کردیا جس کو کرسچن مشنری کے لوگ چلا رہے تھے- کسان اپادھیائے اِس اسپتال میں چھ ماہ تک زیر علاج رہا-
اِس دوران کسان اپادھیائے کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا- یہ واقعہ اُس کے لیے ایک نئی کامیابی کے ہم معنی بن گیا —1987 میں کسان اپادھیائے کی قسمت جاگی- ایک امریکی ڈاکٹر جو کہ کٹھمنڈو میں کام کرتا تھا، اس نے کسان اپادھیائے کے اندر کچھ خاص صلاحیت دیکھی اور اس کو پیش کش کی کہ وہ اسکالر شپ پر امریکا جائے اور وہاں تعلیم حاصل کرے:
Luck shone on Kisan Upadhaya in 1987, when an American doctor working in Kathmandu saw something in him and offered him a scholarship to study in the US. (The Times of India, April 10, 2013, p.
اب اِس واقعے پر 40 سال گزر چکے ہیں- کسان اپادھیائے اعلی تعلیم کے بعد اب آئی ٹی اسپیشلسٹ (top-notch IT specialist) کی حیثیت سے امریکا میں مقیم ہیں— صلاحیت کی یہ قدردانی کسی قوم کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے- جس قوم کے اندر فرد کی صلاحیت کی قدردانی کا یہ مزاج پایا جائے، اُس قوم کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا-موجودہ زمانے میں امریکا کو جو ترقی حاصل ہوئی ہے، اس کا خاص سبب یہی ہے- امریکا میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز میرٹ (merit) ہے- امریکی سماج میں، میرٹ نوازی کا اصول ہے، نہ کہ خویش نوازی کا اصول-
واپس اوپر جائیں
سویڈن (یورپ)کے شہر اسٹاک ہوم کا ایک عجیب واقعہ میڈیا میں رپورٹ کیاگیا ہے- یہاں ایک اسٹیشن پر ایک کمیوٹر ٹرین (commuter train) خالی کھڑی ہوئی تھی- ایک 20 سالہ لڑکی جو ٹرین میں صفائی کا کام کرتی تھی، وہ ڈرائیور کے کیبن میں داخل ہوگئی- اس کو اتفاق سے ڈرائیور کی چابی مل گئی تھی، چناں چہ اس نے گاڑی کو اسٹارٹ کر دیا- گاڑی پٹری پر تیزی سے چلنے لگی- لڑکی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ٹرین کو کس طرح روکے- ٹرین چلتی رہی، یہاں تک کہ وہ پٹری سے اتر کر ریلوے لائن کے کنارے واقع ایک بلڈنگ سے ٹکرا گئی- اِس حادثے میں لڑکی سمیت بلڈنگ کے کئی افراد زخمی ہوئے- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Cleaning woman steals train, crashes it into house. (p.
اِس واقعے میں ایک اہم سبق ہے، وہ یہ کہ کسی معاملے میں اقدام صرف اُس انسان کے لیے جائز ہے جو اپنے اقدام کے نتیجہ(result) کو جانتا ہو- جو شخص اپنے اقدام کے نتیجے کو نہ جانے، اُس کے لیے اقدام ہرگز جائز نہیں- کوئی آدمی اگر اتنا بے شعور ہے کہ وہ نتیجہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اِس کے باوجود اگر وہ اقدام کردیتا ہے تو یقینی طورپر اس کا انجام ہلاکت خیز ہوگا- اقدام کرنے والا خود بھی تباہ ہوگا اور اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کی تباہی کا باعث بنے گا-
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک مقرر جذباتی تقریر کے ذریعے لوگوں کو ایک سمت میں دوڑا دیتاہے، مگر وہ نہیں جانتا کہ روکنے کے وقت لوگوں کو وہ کس طرح روکے- ایسا آدمی صرف لوگوں کی تباہی میں اضافہ کرتاہے، وہ ہر گز لوگوں کی تباہی میں کمی کرنے والا نہیں-
گاڑی کو چلانا صرف اُس انسان کے لیے جائز ہے جو گاڑی کو روکنا بھی جانتا ہو- جو شخص گاڑی کو روکنے کا ہنر نہ جانے، اس کے لیے گاڑی کاچلانا سرے سے جائز ہی نہیں- یہ اصول جس طرح مادی ٹرین کے لیے درست ہے، اسی طرح وہ انسانی زندگی کے لیے بھی یکساں طور پر درست ہے-
واپس اوپر جائیں
قربانی (sacrifice) کا لفظ بولا جائے تو عام طورپر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ — لڑ کر جان دے دینا- عام طور پر اِس کو شہادت سمجھا جاتا ہے، اور یہ کہ یہی شہادت سب سے بڑا عمل ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ جسمانی قربانی سے زیادہ بڑی قربانی نفسیات کی قربانی ہے- سب سے بڑی قربانی سرکٹانا نہیں ہے، بلکہ سرجھکانا ہے- تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے صرف اُن لوگوں نے انجام دئے ہیں جو اصول کی خاطر سر جھکانے کے لیے تیار ہوگئے-
ایک بار میں امریکا کے ایک شہر میں گیا- وہاں امریکی مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم قائم تھی- اس کے ایک سینئر ممبر نے جوش کے ساتھ کہا کہ — اب میں نے لیڈر شپ (leadership) کا رول لے لیا ہے- بات یہ تھی کہ اُن کو تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا تھا، مگر ٹرم پورا ہونے سے پہلے انھوں نے صدارت کے عہدے سے استعفا دے دیا- اِس کا سبب یہ تھا کہ دوسرے حضرات ان کا تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے-
مذکورہ مسلمان اپنے اوصاف کے اعتبار سے، نہایت لائق انسان تھے- وہ تنظیم کو ترقی دینے کے لیے بہت کچھ کرسکتےتھے، مگر کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی زیادہ لائق ہو، وہ تنہا کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا- بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بہت سے لوگ اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں- بقیہ لوگوں کے لیے ساتھ دینا صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے راضی ہوں-
اجتماعی زندگی کا اصول یہ ہے کہ ایک شخص لیڈر شپ کا رول صرف اُس وقت کامیابی کے ساتھ انجام دیتا ہے، جب کہ دوسرے لوگ شعوری طور پر اس بات پر راضی ہوجائیں کہ اُن کو سپورٹیو رول (supportive role)ادا کرنا ہے، نہ کہ لیڈر شپ (leadership) کا رول- سپورٹیو رول پر راضی ہونا بلا شبہہ ایک عظیم قربانی ہے- کوئی بڑا کام صرف اُس وقت انجام پاتا ہے، جب کہ ایک شخص کو لیڈر بنا کر بقیہ تمام لوگ سپورٹیو رول ادا کرنے پر راضی ہوجائیں- یہی سب سے بڑی قربانی ہے، اور اِس قربانی کے بغیر کسی بڑے کام کا انجام پانا ممکن نہیں-
واپس اوپر جائیں
الرسالہ مشن 1976میں ماہ نامہ الرسالہ کے اجرا سے شروع ہوا- الرسالہ مشن ایک پرامن دعوتی مشن ہے- اِس کی سرگرمیاں انٹرنیشنل سطح پر جاری ہیں- مگر الرسالہ مشن میں برانچ (branch) کا طریقہ نہیں- الرسالہ مشن میں انڈپنڈنٹ چیپٹر (independent chapter) کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے- یہی طریقہ پیغمبرانہ سنت کے مطابق ہے-
برانچ کے پیٹرن (pattern)میں ایسا ہوتا ہے کہ مشن دھیرے دھیرے ایک رٹین (routine)کی صورت اختیار کرلیتاہے- لوگ ایک ہی مقرر طریقہ (prescribed method) کو بار بار دہراتے رہتے ہیں- اِس طرح بظاہر لوگ متحرک نظر آتے ہیں، لیکن یہ ایک بے روح حرکت ہوتی ہے- اِس حرکت میں کوئی زندگی نہیں ہوتی- اِس حرکت میں کوئی تخلیقیت (creativity) نہیں ہوتی- اِس طریقے میں آدمی کے پاس بظاہر دوسروں کو دینے کے لیے کچھ ہوتا ہے، لیکن خود اپنے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے-اِس کے برعکس، انڈپنڈنٹ چیپٹر کا پیٹرن لوگوں کو مسلسل طورپر زندہ رکھتا ہے- آدمی کے ذہن میں تخلیقی عمل (creative process) جاری رہتا ہے- اِس طریقے میں ہر آدمی پروگرام ساز (program-maker) بن جاتاہے- برانچ کا طریقہ اگر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کرنے والا ہے تو انڈپنڈنٹ چیپٹر کا طریقہ ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے-
برانچ کے طریقے میں کام کو اَعداد وشمار کے اعتبار سے جانچا جاتا ہے- اِس کے برعکس، انڈپنڈنٹ چیپٹر کی صورت میں کام کو حقیقی نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے- کسی مشن کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ افراد کے اندر زندہ شخصیت پیدا کرے، اور انڈپنڈنٹ چیپٹر کے طریقے میں یہ فائدہ پوری طرح حاصل ہوتا ہے- زندہ شخصیت صرف تخلیقی عمل کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے، زندہ شخصیت کبھی رٹین کے ذریعے پیدا نہیں ہوتی-
واپس اوپر جائیں
سوال
حسب ذیل سوالات کی وضاحت مطلوب ہے- (ایک قاری الرسالہ، پاکستان)
آپ نے اپنے امریکا کے سفر (الرسالہ، جنوری 2012) میں یہ بات لکھی ہے کہ قرآن مجید واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔مگر امریکا کی معشیت جو سرتاسر سود پر استوار ہے ،اس کی ترقی کودیکھ کرآپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن کی سود کو گھٹانے اور صدقات کو بڑھانے والی بات جدید ذہن کے لیے قابل فہم نہیں۔ اس کے بعدآپ ان الفاظ سے مراد یہ لیتے ہیں کہ یہاں قرآن جس برکت کا ذکر کررہا ہے، وہ ذہنی اور اسپریچول ترقی ہے(صفحہ:
آپ ضعیف احادیث سے بکثرت استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً ملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، جولائی 2011، صفحہ
دوسری چیزجو میں قابل اصلاح سمجھتا ہوں، وہ مسلم لیڈر شپ کا نام لے کر براہ راست تنقید ہے۔آپ کی تنقید سو فی صد درست ہے- میرا کہنا یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کی ذات یا نیت پر تنقید کرتے ہیں۔ بس میری ناقص رائے میں تنقید رویوں پر ہونی چاہیے، شخصیات پر نہیں۔
اگلی چیز جو قابل اصلاح ہے، وہ آپ کا اپنے بارے میں خبرنامہ وسفرنامہ میں دوسروں کی رائےکا نقل کرنا ہے۔ اللہ نے آپ کو جو مقام و مرتبہ دیا ہے، وہ کافی ہے۔ اِس کے بعد عاجز انسانوں کی اپنے بارے میں رائے نقل کرنا آپ کی سطح کی معرفت رکھنے والے شخص کے لیے شاید مناسب نہیں۔
جواب
1- آخرت کا معاملہ کوئی علاحدہ معاملہ نہیں ہے، وہ پوری طرح موجودہ دنیا سے جڑا ہوا ہے- قرآن وحدیث میں جس چیز کو تزکیہ کہاگیا ہے، اُس کے لیے میں نے ذہنی اور روحانی ارتقا کا لفظ استعمال کیا ہے- یہ تزکیہ یا ذہنی اور روحانی ارتقا ہی وہ چیز ہے جو آخرت میں اجر کی صورت میں ظاہر ہوگی- جو لوگ حصولِ دنیا میں اتنا زیادہ گم ہوں کہ وہ اپنا تزکیہ نہ کرسکیں، وہ گویا ’محق‘ کا کیس بن رہے ہیں- یہی لوگ ہیں جو آخرت کے اجر سے محروم ہو کر رہ جائیں گے-واضح رہے کہ مذکورہ آیت کا یہ صرف ایک توسیعی پہلو ہے، وہ آیت کی مکمل تفسیر نہیں-
2- ضعیف روایات کے بارے میں راقم الحر وف کا مسلک وہی ہے جو عام طور پر علما کا مسلک ہے، یعنی ضعیف روایت کو اُس وقت قبول نہ کرنا جب کہ اس کا تعلق کسی حکمِ شرعی سے ہو، لیکن جب اس کا تعلق معرفت جیسے پہلو سے ہو تو اُس وقت ضعیف روایت کو قبول کرلیا جائے گا، بشرطیکہ وہ روایت قرآن وحدیث کی کسی معلوم نص سے ٹکراتی نہ ہو-
حکمِ شرعی اور رمزِ معرفت کے درمیان نوعی فرق پایا جاتا ہے- مثلاً ایک شخص اگر یہ روایت بیان کرے کہ جو آدمی جھوٹ بولے، اس کی زبان کاٹ دو، تو اِس روایت کی صحت کو نہایت شدت سے جانچا جائے گا، کیوں کہ اس کا تعلق ایک حکمِ شرعی سے ہے- اِس کے برعکس، ایسی روایت جس کا تعلق حکمِ شرعی سے نہ ہو، بلکہ رموزِ معرفت سے ہو تو اس کو اِس شرط کے ساتھ دعوت وتربیت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہےکہ وہ کسی معلوم نص سے نہ ٹکراتی ہو- اِسی معاملے کی ایک مثال الرسالہ میں مذکور یہ روایت ہے: إن الدنیا خلقت لکم، وأنتم خلقتم للآخرة- یہ روایت سند کے لحاظ سے اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے، وہ تربیتی نقطہ نظر سے، ایک درست بات ہے- کیوں کہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اِس دنیا کو اللہ تعالی نے انسان کے لیے بطور امتحان گاہ پیدا کیا ہے- انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اِس دنیا کو اصل نہ سمجھ لے، بلکہ یہاں کے حالات میں وہ فلاحِ آخرت کی تیاری کرے-
3- نظریہ کے حوالے سے تنقید کرنا اور شخصیت کا حوالہ نہ دینا بذات ِ خود ایک درست اسلوب ہے اور الرسالہ میں اس اسلوب کی مثالیں آپ دیکھ سکتے ہیں- لیکن بعض حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ شخصیت کا نام لے کر اس کے نظریے پر تنقید کی جائے، ورنہ تنقید کا مطلوب فائدہ حاصل نہ ہوگا، خاص طورپر اُس وقت جب کہ کسی آدمی کے ساتھ شخصیت پرستی کاپہلو شامل ہوگیا ہو- ایسی حالت میں شخصیت کا نام لے کر اس کے نظریہ پر علمی تنقید کرنا میرے نزدیک فرض کے درجے میں ضروری ہوجاتا ہے- البتہ تنقیص یا عیب زنی کا طریقہ کسی حال میں جائز نہ ہوگا، مدلل علمی تنقید کی شرط ہر حال میں لازمی طورپر باقی رہے گی-
4- جس چیز کو آپ نے تعریف یا خود ستائی کے طورپر لیا ہے ، اُس کا ذکر الرسالہ میں ’’خبرنامہ‘‘ کے تحت بطور تعریف نہیں ہوتا، بلکہ بطور تاریخ ہوتا ہے- کچھ چیزوں کی حیثیت ایک دعوتی مشن کے تاریخی ریکارڈ کی ہوتی ہے- اُن کو اگر ضبطِ تحریر میں نہ لایا جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے لامعلوم ہوجائیں گی، اِس لیے ضروری ہےکہ ان کو تحریری شکل میں محفوظ کردیاجائے - مشن سے متعلق لوگوں کے تاثرات وغیرہ، الرسالہ میں تاریخی ریکارڈ کے اِسی اصول کے تحت درج کیے جاتے ہیں، اس کی حیثیت ایک مشن کے تاریخی ریکارڈ کی ہے، نہ کہ معروف معنوں میں شخصی تعریف کی-
دوسری بات یہ کہ تعریف برائے تعریف بلاشبہہ ہر گز اچھی چیز نہیں ہے، لیکن ایک ایسی چیز جو بظاہر ’’تعریف‘‘ معلوم ہوتی ہو، لیکن اس کے اندر سبق کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو تو اس کا ذکر ضرور کیا جائے گا، تاکہ عام لوگ اُس سبق سے محروم نہ رہیں- رسول اور اصحابِ رسول اور دیگر اہلِ علم کی زندگی میں اِس کی بہت سی مثالیں ’’تحدیثِ نعمت‘‘ کے عنوان کے تحت پائی جاتی ہیں-
جہاں تک سفرنامے کا تعلق ہے، اِس میں اِس طرح کی باتیں اگر آتی ہیں تو وہ سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات کا بیان ہوتا ہے، اور سفر نامے میں بہر حال وہی باتیں کہی جائیں گی جو سفر کے دوران پیش آئی ہیں، نہ کہ مفروضہ طورپر وہ باتیں جو سفر کے دوران سرے سے پیش ہی نہیں آئیں-علمی اور تاریخی ذوق نہ ہونے کی بناپر لوگ، عام طورپر، اس طرح کی چیزوں کو شخصی تعریف سمجھ لیتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سفرنامے میں اِس نوعیت کی چیزوں کا ذکر بیانِ واقعہ کے طورپر ہوتا ہے، نہ کہ کسی آدمی کی شخصی تعریف کے طور پر-اِس طرح کے معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ چیز پائی جاتی ہو جس کو ڈٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking) کہاجاتاہے، یعنی اصل بات اور شخصیت کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا-علمی ذوق کا تقاضا ہےکہ چیزوں کو ہمیشہ ان کی میرٹ (merit) کی بنیاد پر دیکھا جائے، نہ یہ کہ وہ کسی کی تعریف ہے یا تنقیص-
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.