حضرت ابراہیم تقریباً چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے- وہ تینوں سامی مذاہب — یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مشترک پیشوا مانے جاتے ہیں-حضرت ابراہیم کے بارے میں قرآن میں عالمی امامت کا اعلان ان الفاظ میں کیاگیاہے : وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا(
حضرت ابرہیم کا ذکر بائبل (عہد نامہ قدیم) میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے- حضرت ابراہیم کی امامت کے بارے میں قرآن کی مذکورہ آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بائبل میں بھی ان الفاظ میں آئی ہے— اور زمین کی سب قومیں اس کے وسیلے سے برکت پائیں گی:
All the nations of the earth shall be blessed in him. (Genesis 18:18)
قرآن اور بائبل کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو عالمی امامت کا درجہ دیا- یہ عالمی امامت کیا تھی، اس کے بارے میں یہودی علما ،مسیحی علما اور مسلم علما تقریباً سب کے سب بے خبری میں مبتلا ہیں- وہ اِس کو صرف ایک پراسرار(mysterious) مفہوم میں لیے ہوئے ہیں، حالاں کہ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا- اس کی عظمت صرف اُس وقت واضح ہوتی ہے جب کہ اس کو تاریخ کی زبان میں بیان کیا جائے-
منصوبہ تخلیق
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے بعد انسانی نسلوں کی ہدایت کے لیے اولاً پیغمبر بھیجنا شروع کیا- حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم تک بڑی تعداد میں پیغمبر آئے، لیکن دنیا میں مطلوب حالت قائم نہ ہوسکی- وہ مطلوب حالت یہ تھی کہ ایک طرف، دین ِ خداوندی کا مستند متن محفوظ ہوجائے- اور دوسری طرف انسان کودین ِ خداوندی کے معاملے میں کامل آزادی حاصل ہو- دین کے معاملے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ باقی نہ رہے-مگر مختلف اسباب کے تحت ایسا ہوا کہ انسانی زندگی میں ایک برعکس حالت قائم ہوگئی- اِس کو ایک لفظ میں، استبدادیت(despotism) کہا جاسکتا ہے- اِس کے نتیجے میں دنیا میں ہرجگہ انسانی زندگی میں استبدادی ماڈل (despotic model) رائج ہوگیا- اِس ماڈل کے تحت انسانی زندگی کے تمام معاملات مُستَبِد حکمراں (despotic rulers) کے تحت آگئے- یہ مستبد حکمراں اپنےمزاج کے تحت ہر نئی چیز کے دشمن ہوتے تھے- وہ ہر نئی تحریک کو پوری طاقت سے کچل دیتے تھے، تاکہ لوگوں کے اوپر ان کی حکمرانی غیرمشروط طورپر قائم رہے-
اِسی نظام کا ایک ظاہرہ وہ تھا جس کو قرآن میں فتنہ (
نیا عمل
حضرت ابراہیم کے زمانے میںاللہ نے تاریخ میں ایک نیا عمل (process)جاری کیا- یہ عمل انسان کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر کیا گیا- اِسی کے ساتھ اسباب کے ماحول کو پوری طرح برقرار رکھا گیا- اِس صورتِ حال کی بنا پر اِس خدائی عمل کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر (element of doubt) شامل ہوگیا- یہی وجہ ہے کہ مذاہب ثلاثہ کے علما خداکے اِس منصوبے کو سمجھ نہ سکے- حضرت ابراہیم کی امامت کا معاملہ علماءِ مذاہب کے لیے ایک پراسرار معاملہ بنا رہا-
مذاہبِ ثلاثہ کے علما اِس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہیں- وہ اِس واقعے کی کوئی ایسی توجیہہ دریافت نہ کرسکے جو اِس معاملے میں اُن کو یقین پر کھڑا کرنے والی ہو- انھوںنے اپنے ذہنی سانچہ (mind-set)کے اعتبار سے، بعض توجیہات کیں، مگر انھوں نے دیکھا کہ اِن توجیہات کو تاریخ کی تصدیق حاصل نہیں ہورہی ہے، اس لیے وہ اِس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے-
مثلاً کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم کے ذریعہ دنیا کو توحید کی مستند آئڈیالوجی ملی- مگر یہ بات حقیقتِ واقعہ کے خلاف ہے، کیوں کہ دنیا کو توحید کی آئڈیالوجی قرآن کے ذریعے حاصل ہوئی، نہ کہ صُحفِ ابراہیم (
اِس معاملے میں خدا کا منصوبہ کیا تھا، اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے- قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت آئی ہےجس کو اکمالِ دین (
قرآن کی مذکورہ آیت میں کسی وقتی واقعے کا ذکر نہیں ہے، اِس میں ایک تاریخی حقیقت کا اعلان کیاگیاہے- یہ آیت حجة الوداع (10ہجری) کے موقع پر نازل ہوئی- اِس آیت کا نزول دراصل تاریخ کے ایک دور کے خاتمے اور تاریخ کے دوسرے دو رکے آغاز کا اعلان تھا- یہ اعلان اب پوری طرح واقعہ بن چکا ہے- اگر چہ اہلِ مذاہب اپنے خود ساختہ ذہن کی بنا پر اِس حقیقت سے بے خبر رہے-
اسباب اور انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جو خدائی منصوبہ بندی کی گئی ، اس کا خاص نشانہ یہ تھا کہ دنیا میں مذہبی جبر کا مکمل خاتمہ ہوجائے، ہر انسان کو یہ موقع ہو کہ وہ مذہب کے معاملے میں اپنے انتخاب (choice) کے لیے مکمل طورپر آزاد ہوجائے- یہ منصوبہ بندی مکمل طورپر ایک غیرسیاسی منصوبہ بندی تھی- اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا، نہ نظری اعتبار سے اور نہ عملی اعتبار سے-
حضرت ابراہیم کے ذریعے جومنصوبہ بندی کی گئی، اس کے دو پہلو تھے — ایک یہ تھا کہ مطلوب صورتِ حال کا ایک ابتدائی نمونہ (prototype) تیار کرنا- اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ میں ایسا عمل (process) جاری کرنا جو آخر کار ایک نئے دور کو وجود میں لائے، جب کہ مذکورہ ابتدائی اور وقتی نمونہ ایک عالمی انقلاب کی صورت اختیار کرلے اور اِس طرح تمام دنیا کے انسانوں کے لیے عمومی طورپر اور مستقل طورپر یہ امکان کھل جائے کہ وہ کسی بھی جبر کے بغیر ہر قسم کی مذہبی سرگرمیوں کے لیے آزاد ہوں- اپنے ذاتی عقیدے کے معاملے میں بھی اور دوسروں کے درمیان اپنے عقیدے کی اشاعت کے معاملے میں بھی-
وہ چیز جس کو اوپر ابتدائی نمونہ (prototype) کہا گیاہے، اس کی مثال حضرت یوسف کے ذریعے قائم کی گئی- حضرت یوسف، حضرت ابراہیم کے گریٹ گرینڈ سن (great grandson) تھے- وہ فلسطین اور شام کے درمیان ایک گاؤں (کنعان) میں پیدا ہوئے- اس زمانے میں مصر ایک ترقی یافتہ ملک تھا- یہاں ایک خاندان حکومت کرتا تھا، جس کو ہکساس بادشاہ (Hyksos Kings) کہاجاتا ہے- حضرت یوسف کے زمانےمیں یہاں جو بادشاہ حکومت کررہا تھا، اس کا نام یہ تھا— اپوفس (Apophis) -یہ بادشاہ استثنائی طورپرایک منفرد مزاج کا آدمی تھا- وہ شخصی طور پر ایسی صفات کا حامل تھا جو مطلوب منصوبے کے لیے ایک موزوں کردار کی حیثیت رکھتی تھیں- یہی وجہ ہے کہ خدائی منصوبے کے تحت حضرت یوسف کو کنعان سے نکال کر قدیم مصر کی راجدھانی ممفس (Memphis ) پہنچایا گیا- یہاں ایسے اسباب پیدا ہوئے جن کے تحت حضرت یوسف اُس وقت کے مصری بادشاہ کے دربار میں پہنچے- بادشاہ حضرت یوسف کی صلاحیت سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ اُس نے اپنے ایک فیصلے کے تحت، حضرت یوسف کو مصر کے خزائن (وسائل ارض) کا انچارج بنادیا (
حضرت یوسف کا یہ قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں یکساں طورپر تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیاہے- اِس سلسلے میں بائبل کا بیان یہ ہے کہ بادشاہ نے کہا— میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی- فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب میں بزرگ تر ہوں گا:
Only in regard to the throne, I will be greater than you. (Genesis 41:40)
حضرت یوسف کے ذریعے مصر میں جو مثال قائم ہوئی، وہ دراصل اُس عمومی اور عالمی حالت کا ایک ابتدائی نمونہ تھا جو حضرت ابراہیم کے جاری کردہ تاریخی عمل کے نتیجے میں بعد کو زیادہ بڑے پیمانے پر قائم ہونے والا تھا- حضرت یوسف کے ذریعے قدیم مصر میں یہ مثال قائم ہوئی کہ اگر حاکم کے محدود سیاسی اقتدارکو تسلیم کرلیاجائے اور اُس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے تو کس طرح ایک انسان کے لیے ہر قسم کے مذہبی دروازے کھل جاتے ہیں- یہ گویا سیاسی ادارہ (political institution) اور غیر سیاسی اداروں (non-political institutions) کے درمیان علاحدگی کا معاملہ تھا- یہ علاحدگی اللہ کے منصوبے کےعین مطابق تھی- یہی وجہ ہے کہ اِس معاملے کو قرآن میں احسن القصص (
قرآن کی اِس آیت میں ’’بہترین قصہ‘‘ سےمراد دراصل بہترین ماڈل (best model) ہے- اللہ تعالی کے نزدیک انسان کی اجتماعی زندگی کا بہترین ماڈل وہی ہے جس کا ایک ابتدائی نمونہ حضرت یوسف کے ذریعے ساڑھے تین ہزار سال پہلے قدیم مصر میں قائم کیاگیا- اِس معاملے کو دوسرے الفاظ میں، اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قدیم مستبدانہ ماڈل (despotic model) کی جگہ جمہوری ماڈل (democratic model)کو دنیا میں رائج کرنا- کچھ لوگ جمہوری نظام کو لادینی نظام کہتے ہیں، مگر یہ درست نہیں- جدید جمہوری نظام دراصل سیکولرزم کے اصول پر قائم ہے- اس کے مطابق، جمہوریت عدم مداخلت کی پالیسی (policy of non-interference)کا دوسرا نام ہے، یعنی سیاسی اقتدار کے ادارے کا اِس پر راضی ہوجانا کہ وہ اپنے حدود کو انتظامیہ (administration) تک محدود رکھے گا- انتظامِ ملکی سے باہر جو ادارے ہیں، وہ اپنے دائرے میں مکمل طورپر آزاد ہوں گے- مثلاً تعلیم، صحافت، اشاعتی ادارے، اقتصادی سرگرمیاں، مذہب، دعوت وتبلیغ، وغیرہ- اِس میں وہ تمام پُرامن سرگرمیاں شامل ہیں جن کو موجودہ زمانے میں غیر سیاسی سرگرمیاں (non-political activities)یا این جی اوز (NGOs) کی سرگرمیاں کہاجاتاہے-
نئی نسل کی تیاری
اِس سلسلے میں دوسری زیادہ بڑی منصوبہ بندی جو حضرت ابراہیم کے ذریعے چار ہزار سال پہلے شروع کی گئی، اس کا مرکز قدیم مکہ تھا- حضرت ابراہیم نے اپنی ایک دعا میں یہ الفاظ کہے تھے: رب إنہنّ أضللن کثیراً (
اِس حکومتی حمایت کی بناپر ایک شدید تر صورتِ حال پیدا ہوگئی- وہ تھا — اعتقادی شرک کے ساتھ اس میں حکومتی تشدد کا شامل ہوجانا- اعتقادی شرک اور سیاسی اقتدار کے اِس اتحاد کی بنا پر وہ صورتِ حال پیدا ہوئی جس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہاجاتا ہے-
اِس نظامِ جبر کو ختم کرکے نظامِ آزادی کو دنیا میں لانا ایک لمبا تاریخی منصوبہ تھا- اِس کے لیے صرف آئڈیالوجی کافی نہیں تھی، اِس کے لیے ضرورت تھی کہ ایک مطلوب ٹیم وجود میں آئے- یہ ٹیم ایک آئیڈیالوجی کے تحت متحد ہو، تمام ضروری شرطوں کو اختیار کرتے ہوئے یہ ٹیم ایک ہمہ گیر جدوجہد کرے، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے انقلابی عمل (revolutionary process) کا آغاز کرے، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے وہ اپنا سفر شروع کرے اور پھر اللہ کی خصوصی تدبیر (management) کے ذریعے وہ اپنے منتہا (culmination) تک پہنچ جائے- اٹھارھویں صدی میں جو سیاسی انقلاب آگیا اور جس کے نتیجے میں جمہوری ماڈل دنیا میں رائج ہوا، وہ حضرت ابراہیم کے ذریعے جاری کردہ اِسی عمل کی تکمیل کی حیثیت رکھتا تھا-
رسول اور اصحابِ رسول کی مثال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
اِسی اعلانِ جمہوریت کاایک عملی مظاہرہ وہ تھا جو اِس اعلان کے تقریباً 10 سال بعد حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں پیش آیا-اُس وقت حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں مصر کا ملک مدینہ کی ریاست میں شامل ہوچکا تھا-اُس وقت مصر میں ایک واقعہ ہوا، وہ یہ کہ ایک عرب مسلمان اور ایک مصری مسیحی کے درمیان ایک مسئلے پر نزاع ہوئی- عرب مسلمان جو گورنر کا بیٹا تھا، اس نے مسیحی کو کوڑا مار دیا- یہ مسیحی مصر سے چل کر مدینہ آیا- اُس نے خلیفہ عمر فاروق سے شکایت کی- خلیفہ نے گورنر اور اس کے بیٹے دونوں کو مدینہ بلوایا- جب وہ لوگ آگئے تو خلیفہ نے مصر کے مسیحی کو ایک کوڑا دیا اور کہا کہ گورنر کے بیٹے کو مارو- مسیحی نے کوڑا اپنے ہاتھ میں لیا اور گورنر کے بیٹے کو مارنا شروع کیا- جب وہ اچھی طرح مار چکا تو اس کے بعد خلیفہ نے مذکورہ عرب مسلمان کے باپ عمروبن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: متى استعبدتم الناس وقد ولدتہم أمہاتہم أحرارا (سیرة عمر بن الخطاب، علی محمد الصلاّبی،1/306) یعنی اے عمرو، تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، جب کہ ان کی ماؤں نے اُن کو آزاد پیداکیا تھا-
جس وقت یہ واقعہ ہوا، اُس وقت خلافت ایک ایمپائر بن چکی تھی جس کے حدودِ مملکت ایشیا سے افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے- ایسی حالت میں خلیفہ کے الفاظ محض ایک شخص کے الفاظ نہ تھے، بلکہ وہ وقت کی سب سے بڑی سلطنت کی طرف سے گویا بین اقوامی پالیسی کا اعلان تھا- یہ پالیسی تاریخ میں سفر کرتی رہی- انسانی آزادی کو برقرار رکھتےہوئے وہ تاریخ کو ایک نیا شیپ (shape) دیتی رہی، یہاں تک کہ یہ عمل یورپ تک پہنچ گیا- فرانس کے مشہور جمہوری مفکر روسو (J. J. Rousseau) کی کتاب سوشل کنٹریکٹ (Social Contract) 1762 میں شائع ہوئی- اِس کتاب میں جمہوریت (democracy) کی آئڈیالوجی کو پیش کیاگیا تھا- روسو نے اپنی کتاب کا آغاز جس جملے سے کیا، وہ گویا خلیفہ عمر فاروق کے مذکورہ قول کا اعادہ تھا- روسو کی کتاب کا ابتدائی جملہ یہ تھا— انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chains.
جمہوریت کی یہ تحریک 1789 میں ایک باقاعدہ سیاسی واقعہ بن گئی، جب کہ یورپ میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو انقلاب فرانس (French Revolution)کہاجاتا ہے- انقلاب فرانس نے اصولی طور پر بادشاہت (kingship) کے نظام کا خاتمہ کردیا اور جمہوریت کو ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے بالفعل قائم کردیا- یہ تاریخی عمل 1948میں آخری طورپر مکمل ہوگیا، جب کہ اقوامِ متحدہ (UNO) کا باضابطہ قیام عمل میں آیا اور دنیا کی تمام قومیں باضابطہ طورپر اقوامِ متحدہ کی ممبر بن گئیں- اِس ادارے کے تحت دنیا کی تمام قوموں نے اِس عہد نامے پر دستخط کردئے- اِس کا مطلب یہ تھا کہ استبدادی ماڈل اب آخری طورپر غیر مطلوب ماڈل قرار پاگیا اور جمہوری ماڈل کو عملاً مسلمہ ماڈل کی حیثیت دے دی گئی-
جمہوری ماڈل
جمہوریت کی تعریف (definition) عام طور پر اِس طرح کی جاتی ہے — عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے:
Government of the people, by the people, for the people
یہ تعریف جمہوریت کے صرف ظاہری ڈھانچے کو بتاتی ہے- اِس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جمہوریت کے حقیقی فوائد کیا ہیں اور انسانی زندگی کے حق میں اس کے دور رس نتائج کیا پیدا ہوئے- جمہوریت اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، اُس سے بہت زیادہ ہے جیسا کہ وہ مذکورہ تعریف کے مطابق، نظر آتی ہے-
جمہوریت کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس نے اُن تمام رکاوٹوں کو ختم کردیا جو قدیم غیر جمہوری نظام کے تحت انسان پرعائد تھیں- جمہوریت نے کامل معنوں میں، انسان کو فکر وخیال کی آزادی دے دی- انسان اپنے فطری وجود کے اعتبار سے، امکانات کی ایک کائنات اپنے اندر رکھتا ہے- اِن انسانی امکانیات (potentials) کو انفولڈ (unfold) کرنے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے کامل آزادی- قدیم زمانے میں اِس انسانی آزادی پر پابندی لگی ہوئی تھی، اِس کا یہ نتیجہ تھا کہ قدیم زمانے میں انسان کوئی بڑی ترقی نہ کرسکا، نہ مذہبی اعتبار سے اور نہ سیکولر اعتبار سے-
موجودہ زمانے میں جمہوریت کا دور آیا تو اسی کے ساتھ کامل آزادی کا دور آگیا- اِس آزادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی تمام فطری صلاحیتیں انفولڈ ہونے لگیں- وہ تمام ترقیاں جن کے مجموعے کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے، وہ دراصل اِسی انفولڈنگ (unfolding) کا نتیجہ ہیں- اِسی کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دنیامیں مذہبی آزادی کا دور آیا- فطرت کے اندر چھپی ہوئی سائنسی حقیقتوں کی دریافت ہوئی- انسان کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی دولت ملی - تاریخ میں پہلی بار وہ انقلاب آیا جس کو عالمی کمیونکیشن (global communication) کہاجاتا ہے، وغیرہ-
جدید تہذیب کی یہ تمام ترقیاں اسلام کے عین موافق تھیں- انھوں نے دین ِ خداوندی کی اشاعت کے ایسے دروازے کھول دئے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں کھلے تھے- جدیدتہذیب نے اِس کو ممکن بنایا کہ اسلام کی حقیقتوں کو علمِ انسان کی اعلی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے- اِن نئی دریافتوں کی بناپر یہ ممکن ہوا کہ انسان اعلی سطح کی معرفت کا تجربہ کرسکے- اِسی کے ذریعے یہ ممکن ہوا کہ اللہ کے پیغام کی اشاعت کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے- اِسی جدید تہذیب کی بنا پر تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ عالمی سطح پر ایک دعوہ ایمپائر (Dawah empire) قائم کیا جاسکے، وغیرہ-
یہ سب کچھ جو دورِ جدید میں ہوا، وہ اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق ہوا- وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو ہر حال میں باقی رکھا جائے- جو کام بھی کیا جائے، وہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے کیاجائے- خدا کے اِسی تخلیقی منصوبے کی بنا پر ایسا ہوا کہ تہذیبی ترقیوں کے ساتھ انسان کے لیے یہ موقع باقی رہا کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے، خواہ اس کے نتیجے میں فساد کی صورتیں پیدا ہوجائیں- یہ دوطرفہ صورتِ حال موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی بصیرت کا امتحان تھی- یہاں ضرورت تھی کہ مسلمانوں کے رہنما اُس صلاحیت کا ثبوت دیں جس کو خدا کی کتاب میںفرقان (
اِس موقع پر مسلم رہنماؤںکو یہ کرنا تھا کہ وہ مغربی تہذیب اور اہلِ مغرب کی قومی سیاست دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں- مغربی تہذیب، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مغربی تہذیب نہیں ہے، بلکہ وہ خدائی تہذیب (divine civilization) ہے- وہ فطرت میں چھپے ہوئے خدائی قوانین کی دریافت کے ذریعے وجود میں آئی ہے- وہ قوانین ِ فطرت کا انسانی سطح پر ظہور ہے- فطرت کے قوانین جب انسانی ٹکنالوجی میں ڈھل جائیں تو اسی کا نام تہذیب ہوتاہے- جدید تہذیب کو سمجھنے کے لیے اُسی طرح اس کو مغرب کے قومی پہلو سے الگ کرکے دیکھنا چاہئے، جس طرح اسلام کومسلمانوں کے قومی پہلو سے الگ کرکے دیکھا جاتاہے-
دورِ جدید کے مسلم رہنما اگر اِس بصیرت کے حامل ہوتے کہ وہ جدید تہذیب اور مغربی قوم، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھتے تو یقیناً وہ پالیتے کہ جدید تہذیب اُن کے لیے ایک خدائی نعمت ہے، وہ حضرت یوسف کے ’احسن القصص‘ کا عالمی اظہار ہے، وہ حضرت ابراہیم کے جاری کردہ عمل (process) کا بر اہِ راست حصہ ہے، وہ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ذریعے لائے جانے والے انقلاب کا تکمیلی مرحلہ ہے- جدید تہذیب کے ذریعے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے وہ عالمی مواقع آخری حد تک کھول دئے ہیں، جب کہ پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی کو واقعہ بنایا جاسکے- آپ کی اِس پیشین گوئی کو مختصر طورپر اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— ادخال الکلمة فی کل البیوت-
اوپر کے صفحات میں تاریخ کا جو جائزہ پیش کیا گیاہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خدائی منصوبہ کیا تھا جس کو قرآن میں امامتِ ابراہیم کہاگیاتھا اور جس کے بارے میں بائبل میں یہ الفاظ آئے تھے کہ — زمین کی سب قومیں اس کے وسیلے سے برکت پائیں گی-
اِس خدائی اعلان کا مطلب یہ تھاکہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کرے گا جو آخر کار اِس انجام تک پہنچے گا کہ انسانی زندگی میں سیاسی جبر کا فتنہ کامل طورپر ختم ہو جائے اور جمہوریت کے تحت ایک ایسا سیاسی نظام بنے گا جس میں دوبارہ زیادہ بڑے پیمانے پر اور عالمی سطح پر وہ حالت قائم ہوجائے گی جو حضرت یوسف کے زمانے میں قدیم مصر میں وقتی طورپر اور محدود طورپر قائم ہوئی تھی، یعنی سیاسی حکمراں کا اقتدار ’’تخت‘‘ تک محدود رہے گا- ’’تخت‘‘ کے سوا تمام غیر سیاسی شعبے مکمل طورپر آزاد ہوجائیں گے- ہر انسان کو یہ موقع ہوگا کہ وہ کامل معنوں میں مذہبی آزادی کی فضا میں جیے- وہ اپنے چوائس (choice)کے مطابق، جس مذہبی عقیدے کو چاہے، اختیار کرے، وہ عبادت کے جس طریقے کو چاہے،اس کے مطابق، عبادت کرے- مذہب کی تبلیغ واشاعت پر کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، انسان کو مکمل معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہو، اِس واحد شرط کے سوا کوئی اور شرط اس کے لیے موجود نہ ہو کہ وہ دوسرے انسانوں کو کسی بھی قسم کی عملی جراحت (physical injury) نہیں پہنچائے گا- انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے یہی واحد ممکن ماڈل تھا جس کو اللہ کے منصوبے کے تحت بروئے کار لایا گیا-
اِس مذہبی آزادی میں یہ بات بھی اپنے آپ شامل ہے کہ تمام مواقعِ کار جوسیکولر لوگوں کو حاصل ہوں گے، وہ سب کے سب مکمل طورپر اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہوں گے- مواقع کے استعمال میں مذہبی انسان اورغیر مذہبی انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا-
ایک مسئلے کی وضاحت
انسانی زندگی کی تشکیل کا جو نقشہ اوپر بیان کیا گیا ہے، بظاہر اس میں حکومت یا سیاسی اقتدار کا معاملہ شامل نہیں ہے، لیکن بالواسطہ طورپر وہ یقیناً اس میں شامل ہے- اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ اگر حکومت کے معاملے کو مذکورہ نقشہ میں شامل کیا جائے تو پورا خدائی منصوبہ تخلیق عملاً معطّل ہو کر رہ جائے گا- اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں شعبوں میں کوئی مثبت کام نہ ہوسکے گا، نہ عبادت اور دعوت کے شعبے میں اور نہ سیاست اور حکومت کے شعبے میں-
اِس کا سبب یہ ہے کہ مذکورہ دونوں شعبوں کی حیثیت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے- عقیدہ اور عبادت اور دعوت کا معاملہ اُس میدان سے تعلق رکھتا ہے جہاں آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ پُرامن طورپر اپنی تمام سرگرمیوں کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکے- اِس کے برعکس، سیاست کا دائرہ ایک ایسا دائرہ ہے جہاں داخل ہوتے ہی فوراً دوسرے فریق سے نزاع پیدا ہوجاتی ہے- سیاست کے دائرے میں ہمیشہ کوئی فرد یا گروہ اتھارٹی کی پوزیشن میں ہوتا ہے، اِس لیے سیاست کے دائرے میں داخل ہونا عملاً پولٹکل اتھارٹی سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتا ہے- یہ ٹکراؤ اِس ماحول کو ختم کردیتاہے جب کہ ایک شخص عقیدہ اور عبادت اور دعوت کے میدان میں موجود مواقع کو استعمال (avail)کرسکے-
خدا کے منصوبہ تخلیق میں اِس مسئلے کا حل یہ مقرر کیا گیا کہ سیاسی اقتدارکے شعبے کو عقیدہ سے وابستہ کرنے کے بجائے اس کو سماجی حالات (social conditions) سے وابستہ کردیا جائے، یعنی کسی وقت سماج کے جو حالات ہوں اور انسانوں کے درمیان جس سیاسی ڈھانچے پر اتفاق ہوسکتا ہے، اس کو اختیار کرلیا جائے- یہ صورتِ حال جاری رہے گی، یہاں تک کہ سماج کے حالات بدل جائیں اور سیاسی ڈھانچے کے بارے میں کوئی دوسرا نقشہ لوگوں کے لیے قابل قبول بن جائے-
اِس حکمت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَأمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ (
یہ ایک قسم کے سماجی بندو بست (social settlement)کا معاملہ ہے- اِس کا فائدہ یہ ہے کہ زندگی کے دونوں شعبوں (سیاسی اور غیر سیاسی) میں امن کا قیام ممکن ہوجاتاہے- عقیدہ اور عبادت اور دعوت کے میدان میں لوگوں کو موقع مل جاتاہے کہ وہ پُر امن طورپر اپنی تمام سرگرمیوں کو جاری رکھیں، وہ اپنے حق میں مواقع کا بھر پور استعمال کریں- دوسری طرف، سماج کے ہر گروہ کو یہ موقع حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ سماج کے اندر اپنے افکار کی پر امن اشاعت کرسکے اور پھر اگلے الیکشن کے موقع پر، حسبِ حالات، وہ اپنی پرامن کوششوں کا فائدہ اٹھائے — انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے سماجی بندوبست کا اِس سے بہتر کوئی نظام ممکن نہیں-
خاتمہ کلام
جیسا کہ عرض کیا گیا، اللہ تعالی کا یہ منصوبہ تھاکہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کیا جائے جس کے نتیجے میں سیاست کے جبری ماڈل (despotic model)کا خاتمہ ہوجائے اور اس کے بجائے سیاست کا جمہوری ماڈل (democratic model) عمومی طورپر رائج ہوجائے- اِس مطلوب ماڈل کا ایک ابتدائی نمونہ (prototype) حضرت یوسف کے ذریعہ قدیم مصر میں محدود طورپر قائم کیاگیا تھا- اِسی کے ساتھ حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک وسیع تر عمل جاری کیا گیا جو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے منتہا تک پہنچا- انیسویں صدی اور بیسویں صدی مذکورہ ابراہیمی عمل کی تکمیل کی صدی ہے- اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور یہ عمل اب اِس حد تک مکمل ہوچکا ہے کہ آج تمام مواقع دعوت الی اللہ کے حق میں پوری طرح کھل چکے ہیں- اب ہر اعتبار سے، وہ وسائل اور مواقع حاصل ہوچکے ہیں، جب کہ کسی رکاوٹ کے بغیر فکری سطح پر اللہ کے دین کا عالمی اظہار اپنی مطلوب صورت میں کیا جاسکے-
مگر اسلام کی تاریخ کا شاید یہ سب سے بڑا المیہ ہےکہ اِس دور میں جو بڑے بڑے مسلم ذہن پیدا ہوئے، وہ اِس واقعے سے بالکل بے خبر رہے- نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اِس دور میں پیدا شدہ عظیم مواقع کو استعمال بھی نہ کرسکے- اِس المیہ کا سبب بنیادی طورپر صرف ایک تھا، اور وہ ایک اتفاقی مطابقت (coincidence) ہے- اِس اتفاقی مطابقت کا یہ نتیجہ تھا کہ تاریخ کا عظیم ترین امکان غیراستعمال شدہ امکان (unavailed opportunity) بن کر رہ گیا-
اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مذکورہ ابراہیمی عمل کی تکمیل ہوئی تو یہ اٹھا رھویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ تھا- عین اُس زمانے میں ایک حادثہ پیش آگیا- وہ حادثہ یہ تھا کہ اِسی زمانے میں مغربی قوموں نے بڑی بڑی مسلم سلطنتوں کو توڑ دیا اور پوری مسلم دنیا میں اپنا سیاسی اور تہذیبی دبدبہ قائم کرلیا- یہ حادثہ مسلمانوں کی قومی نفسیات کے لیے ایک ایٹمی دھماکے سے بھی زیادہ بڑے دھماکے کی حیثیت رکھتا تھا- چناں چہ اِس دور کے تمام مسلمان، غالباً کسی استثنا کے بغیر، شدید طورپر منفی رد عمل کاشکار ہوگئے- وہ مغربی قوموں سے نفرت کرنے لگے- انھوںنے مغربی قوموں کے خلاف فکری یا عملی جنگ چھیڑ دی- یہ رد عمل اتنا شدید تھا کہ مغربی قوموں کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ خود کش بم باری (suicide bombing) کو بھی اپنے لیے جائز سمجھنے لگے-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں پیدا ہونے والا مسلم لٹریچر،تقریباً سب کا سب، اِسی نفرت کی نفسیات سے بھرا ہوا ہے- اِس لٹریچر کے مطابق، موجود ہ زمانے کے مسلمانوں کا جو ذہن بنا، وہ یہ تھا گویا کہ ساری مغربی دنیا صرف ایک کام میں مشغول ہے— مسلمانوں کے خلاف سازش اور دشمنی- اِس معاملے کی ایک علامتی مثال ایک عرب عالم کی کتاب ہے، جس کا ٹائٹل یہ ہے:
أجنحـة المکـر الثـلاثـة وخوافیہا: التبشیر، الإستشراق، الإستعمار)صفحات: (
عبد الرحمن حسن حبنکة المیدانی(دارالقلم، دمشق:2000)
اجتماعی توبہ کی ضرورت
یہ صورتِ حال بلاشبہہ توبہ کی متقاضی ہے، یعنی منفی سوچ کو ترک کرکے مثبت سوچ کی طرف واپس جانا- اب تمام مسلمانوں کے لیے اُس عمل کا وقت آگیا ہے جس کا حکم قرآن میں اِن الفاظ میں دیاگیا تھا: وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (
قرآن کی اِس آیت میں جس چیز کا حکم دیاگیا ہے، اس سے مراد اجتماعی توبہ (collective repentance) ہے- موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ مذکورہ قسم کا منفی ذہن تمام مسلمانوں کا قومی ذہن بن گیا ہے- مسلمانوں کی تمام قومی پالیسیاں اِسی منفی ذہن کے مطابق بنتی ہیں- اِس معاملے میں مسلمان اتنازیادہ متحد الخیال ہیں جیسے کہ اِس معاملے میں تمام مسلمانوں کا اجماع (consensus) ہوگیا ہو- اِس وقت سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اِس عمومی قومی ذہن کو بدلا جائے- یہی موجودہ مسلمانوں کی اصلاح کا نقطہ آغاز ہے- اِس ذہن کے باقی رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان کوئی بھی نتیجہ خیز اصلاحی کام نہیں کیا جاسکتا-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں: جعلتُ أسمعہ یقول: فی الرفیق الأعلى،ثم قرأ:’مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِیْقًا‘ (
اِس واقعے کا تعلق محدود طورپر خصائصِ نبوت سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق تمام اہلِ ایمان سے ہے- ایک مومن جب سچے ایمان کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو اپنے آخری زمانے میں اس کا احساس یہ ہوجاتا ہے کہ اللہ نے مجھے اکرم الخلق (
جس صاحبِ ایمان کی نفسیات یہ ہو، وہ اپنے آخری زمانے میں، معنوی طورپر، اُسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے جس کا اظہار مذکورہ روایت میں پیغمبر کے حوالے سے کیاگیاہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ العلق میں ایک انسانی کردار کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓى اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى(
Yet man behaves arrogantly, because he thinks himself self-sufficient.
قرآن کی اِس آیت میں ایک انسانی نفسیات کو بتایا گیاہے- یہی نفسیات اکثر لوگوں کی سرکشی کا باعث بن جاتی ہے- یہ نفسیات، بے نیازی کی نفسیات ہے- بے نیازی کی نفسیات جب ترقی کرتی ہے تو وہ خودرائی، سرکشی اور گھمنڈ جیسی برائیوں کا سبب بن جاتی ہے-
ایک شخص کے پاس اتنا مال آجائے کہ وہ کسی کا محتاج نہ رہے- ایک شخص جسمانی اعتبار سے اتنا طاقت ور ہو کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر خود اپنا ہر کام کرلے- ایک شخص کے اندر اتنی زیادہ ذہنی صلاحیت ہو کہ وہ کسی کے مشورے کے بغیر خود اپنی عقل سے باتوں کو سمجھ لے اور اپنے عمل کا کامیاب منصوبہ بناسکے- جس شخص کے اندر اِس قسم کی اضافی خصوصیت پائی جائے، وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بے نیاز سمجھ لیتاہے- شعوری یا غیر شعوری طورپر اُس کا یہ ذہن بن جاتا ہے کہ مجھے کسی کے اوپر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں، میں خود اپنے ہر کام کو انجام دے سکتاہوں-
بے نیازی کی یہ نفسیات انسان کے ذہنی اور روحانی ارتقا کے لیے قاتل ہے- ایسے آدمی کا ذہنی ارتقا (intellectual development) رک جائے گا اور اپنی بے نیازانہ نفسیات کی بنا پر ا س کو یہ محسوس بھی نہ ہوگا کہ میرے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک گیاہے-
بے نیازی بظاہر کوئی برائی نہیں، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے، وہ ایک سنگین برائی کی حیثیت رکھتی ہے- بے نیازی آخر کار آدمی کو کبر (arrogance)تک پہنچاتی ہے اور بلا شبہہ کبر سے زیادہ تباہ کن کوئی اور چیز انسان کے لیے نہیں-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التوبہ میں یہود ونصاری کے دورِ زوال کی ایک کمزوری کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیاہے: اتخذوا أحبارہم ورُہبانہم أرباباً من دون اللہ(
عدی بن حاتم الطائی (وفات:
یہ دراصل حاملِ کتاب امتوں کے دورِ زوال کا ایک ظاہرہ ہے- دورِ زوال میں یہ ہوتا ہے کہ خدا کی کتاب اُن کے لیے ان کے دین کا اصل ماخذ نہیں رہتی، بلکہ ان کے علما ومشائخ کے اقوال اُن کے دین کا ماخذ بن جاتے ہیں- دورِ زوال سے پہلے افرادِ امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں: إیتونی شیئاً من کتاب اللہ حتى أقول- لیکن جب دورِ زوال آتا ہے تو وہ کہتے ہیں: إیتونی شیئا من أقوال العلماء حتى أقول- اِس طرح گویا دورِ زوال کا مطلب ہے — دین میں مرجع اور ماخذ کا بدل جانا(change in source of reference) -
موجودہ زمانے میں مسلم ملت کا جو حال ہے، اُس پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مسلم ملت موجودہ زمانے میں عین اِسی حالت پر پہنچ چکی ہے- مسلمانوں کی تقریر وتحریر کو دیکھئے ، اُن کے اداروں میں جو کلچر رائج ہے، اس پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان حقیقتاً قرآن وسنت پر کھڑے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ عملاً وہ اپنے اکابر کے دین پر کھڑے ہوئے ہیں-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت، حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- اِس کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: لقد کان فیما قبلکم من الأمم ناس محدَّثون، فإن یک فی أمتی أحد فإنہ عمر (صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عمر بن الخطّاب، رقم الحدیث: 3689) یعنی تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں، اُن میں محدَّث افراد ہوتے تھے- اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوگا تو وہ عمر ہیں-
شارحین حدیث نے محدَّث کی شرح مُکلَّم اور مُلہَم کے الفاظ میں کی ہے، یعنی وہ شخص جس سے فرشتے بات کریں، یا جس پر الہام کیا جائے- انگریزی میں اِس کو انسپائرڈ شخص (inspired person) کہاجاسکتا ہے- شارحین نے اِس کو پُراسرار کرامت کے معنی میں لیا ہے اور محدثین نے اس کو مناقبِ صحابہ یا فضائل صحابہ کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سنتِ الہی ہے، یعنی انسانی ہدایت کا خدائی انتظام، نہ کہ محض ایک شخصی کرامت-
اصل یہ ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ نے دو قسم کا انتظام کیا ہے — ایک، پیغمبر کے ذریعے، اور دوسرا، ملہَم انسان (inspired person) کے ذریعے- پیغمبرپر اللہ کی ہدایت ملفوظ وحی کے ذریعے آتی ہے جس کو علما وحیِ متلو کہتے ہیں- اِسی نوعیت کا معاملہ محدث یا ملہم انسان کے ساتھ پیش آتا ہے- اس کو فرشتوں کے ذریعے مسلسل طورپر خدائی رہنمائی ملتی رہتی ہے- اِس کی وجہ سے وہ اِس قابل ہوجاتاہے کہ وہ لوگوں کو ہر صورتِ حال میں صحیح رہنمائی دے سکے- پیغمبر ایک صاحبِ وحی رہنما ہوتاہے، اور محدث انسان ایک صاحبِ الہام رہنما- یہ معاملہ اللہ کی خصوصی رحمت کی بنا پر ہوتا ہے- پیغمبر کے بعد اللہ اگر محدث یا ملہم افراد پیدا نہ کرے تو بدلے ہوئے حالات میں لوگوں کے لیے خدا کی رہنمائی کو جاننا ناممکن ہوجائے- حقیقت یہ ہے کہ صحیح رہنمائی صرف خدائی مدد کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، پیغمبر کے زمانے میں بھی اور محدث انسان کے زمانے میں بھی-
واپس اوپر جائیں
علمِ نباتات کی ایک اصطلاح ہے جس کو ٹرانسپلانٹیشن (transplantation) کہا جاتا ہے، یعنی پودے کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانا، تاکہ وہ بہتر نشو ونما پائے:
The act of removing a plant from one location and introducing it in another location.
یہی اصول انسانی زندگی کے لیے بھی ہے- انسانی گروہ کے لیے بھی کبھی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کے عمل کے مقام کو بدلا جائے، تاکہ وہ زیادہ بہتر طورپر اپنا کام انجام دے سکے- اسلام میں ہجرت کا مقصد یہی ہے- اسلام کےمطابق، ہجرت سادہ طورپر صرف ترکِ مقام کے معنی میں نہیں، بلکہ وہ عمل کی تبدیلی کے معنی میں ہوتی ہے-
اِس ہجرت کی دو صورتیں ہیں — ایک ہے عمل کے مقام (place of work) کو بدلنا- اور دوسرا وہ ہے جس کو رول کی تبدیلی (change of role) کہاجائے گا- اسلام کے دورِ اول کی تاریخ میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت پہلی قسم کی مثال ہے، اور حدیبیہ دوسری قسم کی مثال، جس نے اہلِ ایمان کے عسکری رول کو دعوتی رول میں تبدیل کردیا-
اسلام کے ظہور کے بعد مسلمانوں کو یہ موقع ملا کہ انھوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرلیں- اِس کو مسلم ایمپائر کا دور کہا جاسکتا ہے- یہ دور تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا- اٹھارھویں صدی کے آخر میں اس کا خاتمہ ہوگیا- چھوٹی چھوٹی مسلم حکومتیں اب بھی باقی تھیں، لیکن مسلم ایمپائر باقی نہ رہا-
یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی کی سازش یا دشمنی کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ فطرت کے ایک اصول کے تحت پیش آیا اور وہ ٹرانسپلانٹیشن کا اصول تھا- اِس کے تحت ایسے حالا ت پیداہوئے جس کا تقاضا تھا کہ مسلمان اپنے رول کو بدلیں- اٹھارھویں صدی تک انھوں نے سیاسی رول ادا کیا تھا، اب نئے حالات میں اُن کو دعوتی رول ادا کرنا تھا-
اسلام کے ظہور کے بعد ضرورت تھی کہ خدا کا دین کامل طورپر محفوظ اور مدوّن ہوجائے- اسلامی علوم کا ایک مستند کتب خانہ قائم ہوجائے- اٹھارھویں صدی میں پرنٹنگ پریس وجود میں آیا ، اُس نے دین کی حفاظت وتدوین کے کام کو اتنا زیادہ مستحکم کردیا کہ اب اُس میں کسی قسم کی تبدیلی یا تحریف عملاً ناممکن ہوگئی-
انیسویں صدی کا آغاز تاریخ انسانی میں ایک نئے دو رکا آغاز تھا- اِس دور میں مذہبی جبر کی جگہ مذہبی آزادی آئی- کٹرپن کی جگہ کھلاپن (openness) ، تعصب کے بغیر دوسرے مذاہب کا مطالعہ اور جدید مواصلات، وغیرہ- اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر تاریخ میں ایک نیا دور آگیا- اِس دور کو اپنی حقیقت کے اعتبار سے، دعوت کا دور(age of dawah) کہاجاسکتا ہے- اِسی کے ساتھ وہ چیز وجود میں آئی جس کو عالمی سیاحت (world tourism)کہا جاتا ہے- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مختلف قوموں کے لوگ بڑی تعداد میں دوسرے ملکوں کا سفر کرنے لگے- مثلاً 2011 میں مختلف ملکوں کے جو سیاح شرقِ اوسط (Middle East) میں آئے، اُن کی تعداد
یہ حالات اشارہ کررہے تھے کہ اب مسلمانوں کا رول بدل گیا- اٹھارھویںصدی تک اگر اُن سے پولٹکل رول مطلوب تھا تو اب اُن سے دعوتی رول مطلوب ہے- اب انھیں چاہیے کہ وہ دوسری قوموں سے لڑائی کو مکمل طورپر ختم کردیں- وہ اپنے اور دوسری قوموں کی درمیان وہ پرامن اورمعتدل حالات قائم کریں، جب کہ موافق ماحول میں دعوت الی اللہ کا کام عالمی سطح پر ہونے لگے-
اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے رول کی اِس تبدیلی کو جانیں اور اپنی کوششوں کو پوری طرح دعوت کے میدان میں لگا دیں- ورنہ اِس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ ایک حدیثِ رسول کے مطابق، اُن کی مثال اُس حیوان جیسی ہوگی جس کے مالک نے اُس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا، لیکن وہ اِس سے بے خبر رہا کہ اِس منتقلی کے ذریعے اس کا مالک اُس سے کیا چاہتا ہے: والمنافق مثلہ کمثل الحمار، لا یدری فیم ربط أہلہ ولا فیم أرسلوہ (تفسیر ابن کثیر3/450 ) یعنی منافق کی مثال گدھے کی طرح ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے مالک نے کس لیے اس کو باندھا اور کیوں اس کو چھوڑ دیا-
واپس اوپر جائیں
مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف ایک تحریک اٹھی- اِس کی قیادت الاخوان المسلمون کے لوگ کررہے تھے- اِس کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت ختم ہوگئی- اِس کے بعد مصر میں الیکشن ہوا- الیکشن کے بعد الاخوان المسلمون کے ایک لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصرکی نئی حکومت کے صدر مقرر ہوئے- جنوری 2013 میں اِس ’’انقلاب‘‘ پر ایک سال گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک وہاںامن قائم نہیں ہوا-
یہ نہ بھولنے کا کلچر ہرجگہ کے مسلمانوں میں عام ہے- موجودہ زمانے میں مسلمان بار بار ایسا کرتے ہیں کہ وہ جذباتی اِشوز پر پرشور مظاہرے کرتے ہیں- یہ مظاہرہ بعد کو تشدد کی صورت اختیار کرلیتاہے- اِس میں بہت سے لوگ زخمی ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں-
ہرجگہ کے مسلمان اِسی نفسات میں جی رہے ہیں کہ ہم اپنے ’’شہیدوں‘‘ کو نہیں بھولیں گے، ہم ضرور اُن کا بدلہ لیں گے- اِس کے نتیجے میں مسلمان ایک قسم کی آتش پذیر کمیونٹی (combustible community) بن گئے ہیں-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں ہر جگہ یہی کلچر پھیلا ہوا ہے- اِس کلچر نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو نفرت اور تشدد کی نفسیات میں مبتلا کردیا ہے- ہرجگہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ منفی جذبات سے بھرے رہتے ہیں اور کوئی بھی خلافِ مزاج واقعہ پیش آنے پر وہ فوراً بھڑک اٹھـتے ہیں-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی یہ منفی نفسیات بلا شبہہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے- مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نہ بھلانے والے کلچر کو چھوڑ کر، بھلانے والا کلچر اختیار کریں، ورنہ وہ قیامت تک اِس کے تباہ کن نتائج بھگتتے رہیں گے- کوئی بھی دوسری تدبیر اِس معاملے میں اُن کو نجات دینے والی نہیں-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے دوران مسلمانوں کے اندر بڑی بڑی سیاسی تحریکیں اٹھیں- اِن تمام تحریکوں کا نشانہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر صرف ایک تھا— کھوئے ہوئے مسلم ایمپائر کا دوبارہ قیام- مگر دوسو سال کی دھواں دھار سرگرمیوں کے باوجود یہ نشانہ حاصل نہیں ہوا- اِن تمام سیاسی تحریکوں کے مسلم رہنما آخر کار مایوسی میں مبتلا ہوئے اور مایوسی میں اِس دنیا سے چلے گئے-
اِس کا سبب یہ تھا کہ کوئی سیاسی ایمپائر، خواہ وہ مسلم ایمپائر ہو یا غیر مسلم ایمپائر، حالات کے تحت قائم ہوتا ہے- یہ قدیم زمانے کا ایک ظاہرہ تھا کہ مختلف قوموں نے اپنے ایمپائر قائم کیے- اِنھیں زمانی حالات کی بنا پر مسلمانوں کو بھی یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنا ایمپائر قائم کریں-
مگر اٹھارھویں صدی میں یہ زمانی حالات ختم ہوگئے- اب کسی قوم کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ قدیم طرز کا سیاسی ایمپائر قائم کرے- مسلمانوں کی سیاسی تحریکوں کو جو ناکامی ہوئی، وہ کسی دشمن کی ’’سازش‘‘ کی بنا پر نہ تھی، وہ صرف اِس لیے تھی کہ موجودہ زمانے میں اٹھنے والے مسلم رہنما زمانے کی تبدیلی سے بے خبر تھے- اِس بنا پر وہ ایسی سیاست کے چیمپئن بنے رہے جو نئے دور میں سرے سے ممکن ہی نہ تھی-
اب جو لوگ مسلم تحریکوں کی ناکامی کو دشمن کی ’’سازش‘‘ قرار دے کر مضامین اور کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ صرف اپنی بے دانشی کا ثبوت دے رہے ہیں- اکیسویں صدی میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو صرف ایک ہی کام کرنا ہے، یہ کہ وہ ماضی میں کی ہوئی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور یہ عہد کریں کہ اب دوبارہ وہ ایسی غلطی نہ کریں گے، نہ فکری اعتبار سے اور نہ عملی اعتبار سے-
موجودہ دنیا میں غلطی کرنا ایک امرِ فطری ہے- کوئی بھی شخص غلطی کرسکتا ہے، لیکن غلطی کے بعد جب موافق نتیجہ نہ نکلے تو یہ بلاشبہہ دیوانگی ہوگی کہ اپنی ناکامیوں کا سبب دشمنوں کی سازش کو قرار دے دیا جائے- غلطی کرنا قابلِ معافی ہے، لیکن غلطی کا اعتراف نہ کرنا ہرگز قابلِ معافی نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک مشہور مسلم لیڈر اگست 2012 میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی گئے- وہاں انھوں نے میڈیا کو انٹرویو دیتےہوئے کہا کہ — یہ بہت اچھی بات ہے کہ ترکی نے مغرب کے بجائے مشرق کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے:
It is very good that Turkey has started looking East instead of West.
انسانیت کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کرنے کا ذہن ایک قومی ذہن ہے-ایک قومی لیڈر اس قسم کے الفاظ بول سکتا ہے، لیکن ایک مسلمان ایسے الفاظ بولنے کا تحمل نہیں کرسکتا، کیوں کہ اسلام ایک قومیت نہیں، بلکہ وہ ایک انسانی مشن ہے- رُڈیارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling) ایک برٹش شاعر اور اسٹوری رائٹر تھا- وہ 1865 میں ممبئی میں پیدا ہوااور 1936 میں اس کی وفات ہوئی- رڈیارڈ کپلنگ نے کہا تھا کہ مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق - دونوں کبھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے:
West is West and East is East, and the twain shall never meet.
اِس قسم کی سوچ سرتاسر غیر داعیانہ سوچ ہے- مومن کا مشن عالمی دعوت کا مشن ہے- یہ ذہن فطری طورپر مومن کے اندر آفاقیت پیدا کرتا ہے- اس کا نشانہ پوری انسانیت ہوتی ہے- وہ قومی تعصب سے یکسر خالی ہوتاہے- وہ سارے انسانوں کا خیر خواہ ہوتا ہے- وہ سارے انسانوں کو ایک فیملی کی طرح اپنا سمجھتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ مومن ’’ہم اور وہ‘‘(We and They) کے تصور سے ناآشنا ہوتا ہے- اِس کے بجائے مومن کا تصور ’’ہم اور ہم‘‘ (We and We) کے تصور پر مبنی ہوتا ہے- قرآن میں بتایا گیاہےکہ اللہ تمام انسانوں کا رب ہے- یہی وہ عقیدہ ہے جو مومن کا ذہن بناتا ہے- مومن اپنے عقیدے کے اعتبار سے، اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ انسان کو مشرق اور مغرب میں بانٹے- مومن کی نظر میں ہر ایک اس کا ہے اور وہ ہر ایک کا- یہی وہ تصور ہے جو مومن کی اخلاقیات کی تشکیل کرتاہے اور یہی وہ آفاقی تصور ہے جو مومن کے اندر یہ عالمی خیر خواہی پیدا کرتاہے کہ وہ تمام دنیا والوں کی ہدایت کا حریص بن جائے-
واپس اوپر جائیں
کہا جاتاہے کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system) ہے، مگر یہ اصل واقعے کی صحیح تعبیر نہیں- صحیح بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظریہ(complete ideology) ہے- قرآن اور حدیث میں اسلام کی جو تبیین ملتی ہے، اُس سے یہی ثابت ہوتاہے کہ اسلام ایک مکمل آئڈیالوجی ہے- مکمل نظام کا تصور قرآن اور حدیث میں سرے سے اجنبی ہے-
دنیا میں ہم جن چیزوں سے واقف ہیں، وہ دو قسم کی ہوتی ہیں— ایک، وہ چیزیں جو مکان کی مانند ہیں- دوسری، وہ جو درخت کی مانند ہیں- مکمل کا لفظ مکان کے لیے بولنا درست ہے- جب کسی تعمیر کو مکمل مکان کہاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر مکان کے تمام اجزا پائے جاتے ہیں، اس کے اندر انسان کی تمام ضرورتوں کا انتظام موجود ہے- درخت کا معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے- بظاہر درخت میں مختلف اور متنوع اجزا ہوتے ہیں- مثلاً تنا اور شاخ اور پتے، وغیرہ- درخت کے ظاہرہ کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ درخت کی ایک اصل ہے اور بقیہ اس کی تفصیل- درخت کی اصل اس کا بیج ہے- جہاں بیج ہوگا، وہاں درخت ہوگا- اگر بیج نہ ہو اور تنا اور شاخ اور پتے کو جمع کردیا جائےگا تو اس سے کوئی درخت وجود میں آنے والا نہیں-قرآن ا ور حدیث کا مطالعہ بتاتاہے کہ دین کی اصل تقوی ہے، یعنی اللہ کو اپنے واحد کنسرن (sole-concern) کے طورپر دریافت کرنا، اللہ کو اِس طرح دریافت کرنا کہ وہی آدمی کے لیے اس کے خوف اور محبت کا مرکز بن جائے- تقوی ہوگا تواسلام ہوگا اور اگر تقوی نہ ہو تو اسلام بھی نہ ہوگا، نہ ناقص اور نہ مکمل- اِس لیے قرآن میں کلمہ ایمان کی مثال شجرہ (tree) سے دی گئی ہے (
واپس اوپر جائیں
پاکستان کے قدرت اللہ شہاب (وفات: 1986) نے اپنی ضخیم کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں اپنے زمانہ طالب علمی کا ایک تجربہ بیان کیاہے- وہ لکھتےہیں کہ:
’’آبادی سے دور ایک مخبوط الحواس، مجنون صفت، مجذوب نما شخص ویرانے میں بیٹھا رہتا تھا- اور ہمہ وقت اِلاّ اللہ، اِلاّ اللہ کی ضربیں لگاتا رہتا تھا- میں اور میرا ایک ہم عمر ہندو دوست اکثر اس کے پاس جاکر اس کا منھ چِڑایا کرتے اور اس کے ذکر کی نقلیں اتارا کرتے تھے- میرا ہندو دوست اِلاّ اللہ کے وزن پر مہمل، مضحکہ خیز اور کبھی کبھی فحش قافیے جوڑ کر مذاق بھی اڑایا کرتا تھا- مجذوب نے ہمیں بار بار ڈانٹا کہ ہم اللہ کے نام کی بے حرمتی نہ کریں، لیکن ہم باز نہ آئے- ایک روز ہم دونوں اِسی مشغلے میں مصروف تھے کہ ایک شخص اُدھر سے چند نعتیہ اشعار الاپتاہوا گزرا، جس کا ایک مصرعہ یہ تھا:
محمدؐ نہ ہوتے، تو دنیا نہ ہوتی
یہ مصرع سن کر میرا ہندو دوست زور زور سے ہنسنے لگا- اور اس نے اسمِ محمدؐ کی شان میں کچھ گستاخیاں بھی کیں- میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، لپک کر ایک پتھر اٹھایا، اور اسے گھما کر ہندو لڑکے کے منہ پر ایسے زور سے دے مارا کہ اس کا سامنے کا آدھا دانت ٹوٹ گیا-
لاشعور کی وہ کون سی لہر تھی جو اللہ کے ساتھ مذاق پر تو خاموش رہتی تھی، لیکن رسول اللہ کے ساتھ گستاخی پر آناً فاناً جوش میں آگئی تھی؟ کوئی شخص رسول خدا کے متعلق بدزبانی کرےتو اکثر لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ تو مرنے مارنے کی بازی تک لگا بیٹھتے ہیں- اس میں اچھے، نیم اچھے یا برے مسلمان کی بالکل کوئی تخصیص نہیں، بلکہ تجربہ تو یہی شاہد ہے کہ جن لوگوں نے ناموسِ رسول پر اپنی جانِ عزیز کو قربان کردیا، ظاہری طورپر نہ تو وہ علم وفضل میں نمایاں تھے اور نہ زہد وتقوی میں ممتاز تھے- ایک عامی مسلمان کا شعور اور لاشعور جس شدت اور دیوانگی کے ساتھ شانِ رسالت کے حق میں مضطرب ہوتاہے، اس کی بنیاد عقیدے سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہے- خواص میں یہ عقیدت ایک جذبہ اور عوام میں ایک جنون کی صورت میں نمودار ہوتی ہے‘‘- (شہاب نامہ،لاہور، 1988، صفحہ
قدرت اللہ شہاب نے جو بات کہی ہے، وہ بلاشبہہ ایک واقعہ ہے- یہ ایک حقیقت ہےکہ تمام مسلمان، غالباً کسی استثنا کے بغیر، اِسی نفسیات کا شکار ہیں- خدا کی بے حرمتی ہو تو مسلمانوں کے جذبات نہیں بھڑکـتے، لیکن رسول کی بے حرمتی ہو تو تمام مسلمان شدید طورپر بھڑک اٹھتے ہیں- فتوے اور بیانات سے لے کر عوامی مظاہرے تک وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں- اِس معاملے میں ان کی جذباتیت کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ تشدد اور توڑ پھوڑ تک کو اپنے لیے جائز سمجھ لیتے ہیں- اِس معاملے کی مثالیں بار بار میڈیا میں آتی رہتی ہیں- اِس کی ایک مثال وہ ہے جو ماہ نامہ الرسالہ (دسمبر 2012، صفحہ
خدا اور رسول کے درمیان اِس فرق کا سبب کیا ہے- اِس کے سبب کی تحقیق کیجئے تو اِس کے پیچھے مسلمانوں کی ایک ایسی کمزوری کی دریافت ہوتی ہے جو صرف ایک کمزوری نہیں، بلکہ وہ یقینی طورپر ایک سنگین جرم کی حیثیت رکھتی ہے-
خدا کا عقیدہ
خدا کے خلاف لکھنے اور بولنے والے پہلے بھی دنیا میں پائے جاتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں گنا زیادہ بڑھ گئی ہے- فریڈرک نٹشے (Friedrich Nietzsche) مشہور جرمن فلسفی ہے- 56 سال کی عمر میں 1900 میں اس کی وفات ہوئی- جدید فلسفے میں اس کا بہت بڑا درجہ مانا جاتاہے- نٹشے نے کھلے طورپر کہاتھا کہ — خدا مر چکا ہے:
God is dead. (EB. 13/79)
البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) دورِ جدید کا مشہور ترین جرمن سائنس داں ہے- 76 سال کی عمر میں 1955 میں اس کی وفات ہوئی- خدا کے بارے میں آئن سٹائن کے خیالات کیا تھے، اس کا اظہار آئن سٹائن کے ایک مطبوعہ خط سے ہوتاہے- یہ خط اس نے 3 جنوری 1954 کو اپنی ہینڈ رائٹنگ میں جرمن زبان میں ایک یہودی فلاسفر ایرک بی گٹ کائنڈ (Eric B. Gutkind) کے نام لکھا تھا- اِس خط میں اس نے لکھا تھا کہ — خدا کا لفظ میرے نزدیک اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ وہ صرف انسانی کمزوریوں کا ایک اظہار ہے:
The word God is for me nothing more than the expression of human weaknesses.
موجودہ زمانے میں خدا کے عقیدے کے خلاف جو کتابیں لکھی گئی ہیں اور جو مقالات شائع ہوئے ہیں، ان کی تعداد ہزاروں سے بھی زیادہ ہے- اِس نوعیت کی چندکتابوں کے نام یہ ہیں:
God: The Failed Hypothesis, by Victor Stenger, 2007
Society without God, by Phil Zuckerman, 2008
God is not Great, by Christopher Hitchens, 2009
انٹرنیٹ پر اِس نوعیت کی کئی مستقل ویب سائٹس ہیں- مثلاً:
God is Imaginary, God Does not Exist
اِس سے بڑھ کر یہ کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا علمی موضوع سائنس ہے-سائنس کو موجودہ زمانے کا سب سے زیادہ طاقت ور علمی موضوع سمجھا جاتا ہے- مگر حال یہ ہے کہ سائنس کے تمام شعبوں سے خدا کو مکمل طورپر خارج کردیاگیاہے- سائنس بظاہر تخلیق (creation) کےمطالعے کا نام ہے، مگر سائنس کی تمام شاخوں میں خالق (Creator) کو پوری طرح حذف کردیاگیا ہے- اِس کی آخری حد یہ ہے کہ خود سائنس کے مطالعے سے موجودہ زمانے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ کائنات میں واضح طورپر ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer) پایا جاتاہے- یہ دریافت اپنے آپ میں ثابت کرتی ہے کہ یقینی طورپر کائنات کے پیچھے ایک ذہین ڈیزائنر موجود ہے- اِس کے باوجود سائنٹفک کمیونٹی (scientific community) خدا کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں-
خدا اور مسلمان
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ علم اور کلچر دونوں اعتبار سے، ایک خدا ناشناس زمانہ ہے- موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ طبقے کا کیس صرف یہ نہیں ہے کہ وہ خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا، بلکہ وہ کھلے طورپر خدا کے عقیدے کا استہزا کرتاہے- وہ کھلے طور پر اُس مذموم روش میں مبتلا ہے جس کو بیان کرنے کے لیے ’’خداکی شان میں گستاخی‘‘ کا لفظ بھی ہلکا ہے- اس کو بیان کرنے کے لیے کوئی شدید تر لفظ وضع کرنا پڑے گا- یہ سب کچھ کسی ایک مقام پر نہیں، بلکہ ساری دنیا میں ہورہاہے- موجودہ زمانے کی لائبریریوں میں ایسی کتابیں کثرت سے موجود ہیں جو خدا کے بارے میں اُس سے بھی زیادہ قابلِ اعتراض ہیں جس کی مثال سلمان رشدی کی کتاب سیٹنک ورسیس (The Satanic Verses) میں پائی جاتی ہے-اِس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ اِس سے کم تر درجے کے کیس میں مسلمانوں کی حمیتِ رسول آخری حد تک بھڑک اٹھتی ہے، جب ;کہ خدا کے معاملے میں ان کی حمیت نہیں بھڑکتی-
مثال کے طور پر ستمبر -نومبر 2012 میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر امریکی فلم (Innocence of Muslims) کے خلاف احتجاج (protest) کیا-یہ احتجاج مصر سے لے کر آسٹریلیا تک، بہت سے شہروں میں کیا گیا- اِس میں ہرجگہ مسلمانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی- کئی جگہ اِس احتجاج نے تشدد اور توڑ پھوڑ کی صورت اختیار کرلی- میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اِس احتجاج میں تقریباً 80 لوگ مارے گئے اور ایک سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے- اِس درمیان پراپرٹی کا جو نقصان ہوا، وہ اس کے علاوہ ہے-
نفسیاتی تجزیہ
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اِس کے پیچھے مسلمانوں کی ایک مجرمانہ نفسیات پائی جاتی ہے- یہ وہی نفسیات ہے جو مشرکین کے بارے میں قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَکَاۗىِٕنَا ۚ فَمَا کَانَ لِشُرَکَاۗىِٕہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰہِ ۚ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَاۗىِٕہِمْ ۭسَاۗءَ مَا یَحْکُمُوْنَ (
لوگ اللہ اور اپنے شرکا کے درمیان جو تفریق کرتے تھے، وہ کوئی سادہ بات نہ تھی- اِس کا سبب دراصل اُن کے غلط مفروضات تھے- انھوں نے بطور خود یہ عقیدہ بنا رکھا تھا کہ اُن کو دنیا میں جو کچھ ملتا ہے، وہ ان کے شرکا کی برکت سے ملتاہے- اِس خود ساختہ عقیدے کی بنا پر وہ سمجھتے تھے کہ اصل مسئلہ شرکا کو خوش رکھنے کا ہے- اگر شرکا خوش رہیں گے تو ان کے سارے معاملات درست رہیں گے- اِس عقیدے کی بنا پر وہ شرکا کے حصے کو تو پورا کردیتے تھے اور خدا کا حصہ کم کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے-
ٹھیک یہی معاملہ مسلمانوں کا ایک اور اعتبار سے ہے- صحابہ اور تابعین کے بعد مسلمانوں میں جو ذہن بنا، اُس ذہن کے تحت مسلمانوں نے خود ساختہ طورپر یہ کیا کہ انھوں نے اپنے پیغمبر کو سب سے بڑا درجہ دے دیا- انھوں نے اپنے پیغمبر کا درجہ اتنا بڑھایا کہ خدا اُن کے لیے عملاً صرف ایک رسمی عقیدہ بن کررہ گیا- اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ دورِ تصنیف میں مسلمانوں کے لکھنے والوں نے پیغمبر کی عظمت پر ہزاروں کتابیں لکھیں، لیکن وہ اللہ کی عظمت پر کوئی قابلِ ذکر کتاب نہ لکھ سکے-
بعد کے زمانے میں یہ ہواکہ مسلمانوں کے پاس جتنے بڑے بڑے القاب تھے، وہ سب انھوں نے اپنے پیغمبر کو دے دیے- مثلاً سرورِ عالم، شہنشاہِ کونین، تاج دارِ دو عالم، سید الکونین، وغیرہ- اِس قسم کے بڑے بڑے القاب جب پیغمبر کو دے دئے جائیں تو اس کے بعد انسانی الفاظ میں، اللہ کو دینے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا- اِس بنا پر ایساہوا کہ اللہ کا تصور ایک باعظمت تصور کی حیثیت سے شعوری طورپر مسلمانوں کے ذہن میں باقی نہیں رہا-یہی وہ ذہن ہے جس کی نمائندگی ایک مسلم شاعر نے اِن الفاظ میں کی ہے:
اللہ کے پلّے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے، لے لیں گے محمد سے
اسلام کی تاریخ
اپنے پیغمبر کے بارے میں بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو ذہن بنا، اس کا ایک سیاسی پس منظر تھا- اصل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استثنائی طورپر یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک عظیم تاریخ آپ کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگئی- آپ کے زمانے میں اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں ایک بڑا سیاسی انقلاب پیش آیا- اِس سے پہلے کسی پیغمبر کے زمانے میں اِس قسم کا سیاسی انقلاب پیش نہیں آیا تھا-پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا موحدانہ مشن شروع کیا، جب کہ اُس وقت آپ ایک فردِ واحدکی حیثیت رکھتے تھے، مگر
یہ سیاسی انقلاب اتنا زیادہ واضح تھا کہ سیکولر مورخین نے بھی کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا ہے- مثال کے طورپر ایک امریکی مصنف جان ڈرنک واٹر (وفات: 1937) نے اپنی ایک کتاب میں پیغمبر اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ — وہ عالمی تاریخ میں ایک انتہائی ممتاز انسان کی حیثیت رکھتے ہیں:
One of the most remarkable men in history of the world. (The Outline of Literature by John Drinkwater, 1923)
انڈیا کے ایک مشہور اسکالر ایم این رائے (وفات: 1954) نے پیغمبر اسلام اور آپ کے بعد بننے والی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ — محمد کا اِس حیثیت سے اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے- اسلام کی توسیع تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے:
Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (The Historical Role of Islam, by M. N. Roy, 1939, p. 4)
امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے ایک کتاب شائع کی ہے- اس میں انھوںنے انسانی تاریخ کے ایک سو ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جنھوں نے تاریخ میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی-اِس فہرست میں انھوں نے پیغمبر اسلام کو نمبر ایک پر رکھاہے- وہ لکھتے ہیں کہ — آپ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے- مذہبی سطح پر بھی اور سیکولر سطح پر بھی:
Mohammad was the only man in history who was supremely successful on the religious and secular levels. (Dr. Michael H. Hart, The 100, 1978)
اِسی طرح، ایک امریکی اسکالر چارلس اساوی (وفات: 2000) نے اپنی ایک کتاب میں پیغمبر اسلام کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے — یہ کہنا مبالغہ نہیں ہے کہ اگر کوئی ایک شخص ایسا ہے جس نے تاریخ کے دھارے کو بدل دیا، تو وہ شخص محمد تھے:
It does not seem too much to say that if any one man changed the course of history, that man was Muhammad. (Muhammad’s Historical Role, by Charles Issawi, 1950, p.
اِس طرح کے بہت سے سیکولر مصنفین اور غیر مسلم محققین ہیں جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نہایت شان دار الفاظ میں کیا ہے- پیغمبر اسلام کے مشن کے ذریعے تاریخ میں جو انقلابی دور آیا، وہ اتنا عظیم تھا کہ تمام اہلِ علم نے اس کا اعتراف کیا، خواہ وہ سیکولر اہلِ علم ہوں یا مذہبی اہلِ علم- انھوں نے کثرت سے اِس موضوع پر کتابیں لکھیں اور مقالات شائع کیے- مذکورہ چند اقتباسات اِس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہیں-
خدا کاحصہ پیغمبر کو دینا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تحت جو عظیم تاریخ بنی، وہ تمام تر منصوبہ الہی کے تحت بنی- پیغمبر اسلام سے پہلے ہزاروں سال کے درمیان خدا کی طرف سے بہت سے پیغمبر آئے- اِن پیغمبروں کے زمانے میں توحید کا اعلان توہوا، لیکن توحید کی بنیاد پر کوئی اجتماعی انقلاب نہ آسکا، جب کہ اللہ تعالی کو مطلوب تھا کہ پیغمبر کے ذریعے ایک ایسا موحدانہ انقلاب برپا ہو جو شرک کے دور کو ختم کرے اور توحید کا دور دنیا میں لے کر آئے- آخر کار اللہ تعالی کی یہ منشا ہوئی کہ وہ تاریخ میں مداخلت کرے اور خصوصی نصرت کے ذریعے وہ انقلاب برپا کرے جو کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کے تحت ضروری تھا- اللہ تعالی کے عام منصوبے کے مطابق، اِس منصوبے کی تکمیل اسباب کی صورت میں کی گئی- خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اِس انقلاب کی بنیادی کڑی تھے-
اللہ تعالی کے اِس خصوصی منصوبے کا آغاز چار ہزار سال پہلے حضرت ہاجرہ، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ذریعے عرب کے صحرا میں ہوا- اِس منصوبے کے تحت لمبی مدت کے دوران ایک خصوصی نسل تیار کی گئی جس کو بنو اسماعیل کہاجاتاہے- اِس نسل کی اعلی خصوصیات کی بنا پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کا لقب دیا ہے- اِسی خصوصی نسل میں پیغمبراسلام اور آپ کے اصحاب پیداہوئے- اِس کے بعد اللہ کی برتر تدبیر کے تحت بہت سے موافق حالات ظہور میں آئے- یہ اپنے آغاز سے انجام تک، ایک انتہائی اعلی نوعیت کا خدائی منصوبہ تھا- پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے جو عظیم اسلامی تاریخ بنی، وہ در اصل اِسی منصوبہ الہی کا نتیجہ تھی-
قرآن میں اِس حقیقت کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے زمانے میں جو تاریخی انقلاب آیا، وہ کسی فرد کا شخصی کارنامہ نہ تھا، بلکہ وہ براہِ راست طورپر اللہ کے ایک برتر منصوبے کا نتیجہ تھا- اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتیں یہ ہیں: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ۭ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ -ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس حقیقت کو بار بار نہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے- اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے مشن کے آغاز کے تقریباً 20 سال بعد مکہ فتح ہوا، جو کہ اُس وقت پورے عرب میں ہر اعتبار سے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا- روایات میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے وقت جب آپ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو احساسِ تواضع کے باعث آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی، حتی کہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی داڑھی کجاوے کی لکڑی کو چھورہی ہے- اُس وقت کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے جوخطبہ دیا، اُس میں یہ الفاظ تھے:لا إلہ إلا اللہ وحدہ، صدق وعدہ، ونصر عبدہ، وہزم الأحزاب وحدہ ( سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4547 ) یعنی ایک اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں- اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا- اللہ نے اپنے بندے (محمد) کی نصرت کی اور اللہ نے دشمن کی جماعتوں کو تنہا شکست دے دی-
حبِ شدید کا تعلق
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اہلِ ایمان کو حب شدید (
سیرت اور تاریخ کی کتابیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیرت ا ور تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ فخر کی نفسیات کے تحت لکھی گئیں- سیرتِ رسول کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کا عنوان غزواتِ رسول (مغازی) بن گیا، اور تاریخ اسلام پر لکھی جانے والی کتابوں کا عنوان شاہ نامہ اسلام اور فتوح البلدان قرار پایا-اِس بنا پر ایسا ہوا کہ سیرتِ رسول اور تاریخ اسلام کی کتابوں میں خدا کا عامل (divine factor) حذف ہوگیا- اسلام کی تاریخ عام طرز کی انسانی تاریخ بن گئی، وہ خدائی تاریخ نہ بن سکی- جب کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے، سیرتِ رسول اور اسلامی تاریخ دونوں میں اللہ کا خصوصی منصوبہ کارفرما تھا-
سیرت نگاری اور تاریخ نگاری کا یہی غیر واقعی طریقہ بعد کے زمانے کے مسلمانوں میں رائج ہوگیا- اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر جو ذہن بنا، وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ تھاکہ انھوں نے تاریخ کی تمام عظمتوں کو اپنے پیغمبر کے خانے میں ڈال دیا، جو چیز اصلاً خدا کا حصہ تھی، وہ پیغمبر کا حصہ قرار پائی- اِس کے بعد مسلمانوں کے اندر جو نفسیات بنی، وہ فطری طورپر یہ تھی کہ اُن کو تمام بڑائی اپنے پیغمبر کی طرف دکھائی دینے لگی، مسلمانوں کے اپنے ذہن کے مطابق،اللہ کے حصے میں کچھ بھی باقی نہ رہا- (10 نومبر2013)
واپس اوپر جائیں
قدیم مدینہ میں ایک مشہور عالم ربیعہ بن فرّوخ التیمی (ربیعة الرأى) تھے- اُن کی وفات
ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر کوئی خاص صلاحیت ہوتی ہے-یہی صلاحیت اس کو دوسرے لوگوں سے ممتاز بناتی ہے- آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی اِس خداداد صلاحیت کو پہچانےاور اس کو بھر پور طورپر استعمال کرے- اِسی میں انسان کی کامیابی کا راز بھی ہے اور اِسی میں انسان کی ناکامی کا راز بھی-
اِس معاملے میں انسان کی ناکامی کا سبب کیا ہوتا ہے - اس کا سبب یہ ہے کہ اپنے حالات کے اعتبار سے، ہر آدمی کے اندر کسی چیز سے جذباتی لگاؤ(emotional attachment) پیدا ہوجاتا ہے- دھیرے دھیرے وہ اُس @چیز سے اتنا زیادہ وابستہ ہوجاتا ہے کہ وہی آدمی کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتاہے— کسی آدمی کو تفریحی باتوں سے دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے، کسی آدمی کو لذیذ کھانوں کا شوق ہوجاتا ہے، کوئی آدمی شہرت (fame)کا گرویدہ بن جاتاہے، کوئی آدمی دولت کی حرص میں جینے لگتا ہے، کسی آدمی کو یہ بات مرغوب ہوجاتی ہے کہ اس کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ دکھائی دے، کسی آدمی کی پسند یہ بن جاتی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کرتے رہیں، کسی آدمی کے اوپر اس کی عادتیں غالب آجاتی ہیں اور وہ اُن عادتوںسے باہر نہیں آپاتا، وغیرہ-
یہ سب غیر فطری جذبات ہیں- اِن میں سے کوئی بھی جذبہ اگر آدمی کے اوپر چھا جائے تو وہ اپنی خاص صلاحیت کو دریافت نہیں کرپائے گا- اور بالفرض اگر اُس کو اپنی خاص صلاحیت کا علم ہوجائے، تب بھی وہ ایسا نہیں کرپاتا کہ مضبوط ارادے کے تحت وہ اپنی عادتوں کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو اُس مقصد کے لیے استعمال کرے جس مقصد کے لیے خالق نے اس کو پیدا کیا ہے-
واپس اوپر جائیں
پونٹی چڈھا اور ہردیپ چڈھا دونوں سگے بھائی تھے- اُن کا بہت بڑا بزنس تھا- ان کا بزنس انڈیا کی کئی ریاستوں میں پھیلا ہوا تھا- کہاجاتاہے کہ وہ 6 ہزار کروڑ روپیے سے زیادہ کے مالک تھے- چھتر پوری (نئی دہلی) میں اُن کا
اِس فارم ہاؤس میں
ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے شمارہ 18 نومبر 2012 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چڈھا برادران کا ریاستی حکومتوں پر اتنا اثر تھا کہ قانونی ضوابط اِس طرح بنائےجاتے تھے جو کہ اُن کے موافق ہوں:
Rules were tailor-made for Chadha Brothers. (p.2)
مگر دولت کی کثرت اور اثر ورسوخ کی طاقت اور قوانین وضوابط کی حمایت چڈھا برادران کو ہلاکت سے نہ بچا سکی- دونوں بھائیوں نے خود ہی ایک دوسرے کو مار کر اپنا خاتمہ کرلیا-
حقیقت یہ ہے کہ کوئی قانون یا قانونی تدبیر کسی کی محافظ نہیں بن سکتی، انسان کو اپنا محافظ آپ بننا ہے- اصل حفاظت یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش پر کنٹرول کرے، وہ اپنے آپ کو اشتعال سے بچائے، وہ مس ایڈوینچرازم (misadventurism) کا شکار نہ ہو، وہ غصہ اور نفرت میں مبتلا نہ ہو، وہ حالات سے ٹکراؤ کے بجائے حالات سے ایڈجسٹ (adjust)کرے- حفاظت کا اصل فارمولا صرف ایک ہے اور وہ ہے — اپنے آپ کو اپنے آپ سے بچانا:
Saving yourself from yourself
واپس اوپر جائیں
فٹ بال کا امریکی کوچ ونس لمبارڈی (Vince Lombardi) اپنی فیلڈ کا ایک مشہور آدمی تھا- اس کی وفات 1970 میں ہوئی- کھیل میں کامیابی کاراز کیا ہے، اس کے بارے میں اس کا ایک قول یہ ہے— کامیاب انسان اور دوسروں کے درمیان فرق علم اور طاقت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ یہ فرق عزم کے اعتبار سے ہے:
The difference between a succesful person and others, is not a lack of strength, not a lack of knowledge, but rather a lack of will.
اِس قول میں ایک حکمت بتائی گئی ہے- اِس حکمت کا تعلق صرف کھیل سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق زندگی کے ہر میدان سے ہے- زندگی کا خواہ کوئی بھی میدان ہو، ہر میدان میں کامیابی کا اصول صرف ایک ہے- ہر میدان میں کامیابی کے لیے عزم یا قوتِ ارادی (will power) کی ضرورت ہوتی ہے-
اِس دنیا میں کامیابی کے لیے بلاشبہہ طاقت کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور علم کی بھی، لیکن آخر کار جو چیز فیصلہ کن ہوتی ہے، وہ آدمی کی قوتِ ارادی ہے- قوتِ ارادی اگر مستحکم ہو تو ہر صورتِ حال میں وہ آدمی کی رہنما بنی رہتی ہے- زندگی میں ہمیشہ اونچ نیچ کے مرحلے پیش آتے ہیں- ایسی حالت میں مسلسل جدوجہد پر قائم رہنے کے لیے جو چیز آدمی کے کام آتی ہے، وہ صرف عزم اور قوتِ ارادی ہے-
عزم سے مراد بابصیرت عزم ہے- عزم کا براہِ راست تعلق بصیرت (wisdom) سے ہے، جس آدمی کے اندر گہری بصیرت ہو، وہی کامیاب پلاننگ کرسکتاہے اور جو آدمی کامیاب پلاننگ کا اہل ہو، وہی اِس امتحان میں پورا اتر سکتا ہے کہ وہ ہر پیش آمدہ صورتِ حال میں اپنے عزم پر مسلسل قائم رہے- عزم کسی بنیاد پر قائم ہوتاہے اور یہ بنیاد صرف بصیرت ہے- جہاں بصیرت نہ ہو، وہاں عزم بھی نہ ہوگا-
واپس اوپر جائیں
سوال
آپ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے اِس دنیا میں ہم کو امتحان کے لیے رکھا ہے، تاکہ وہ دیکھے کہ کون صبر واستقامت کے اِس امتحان میں کامیاب ہوتاہے- آخرت کی جنت اِسی کامیاب ہونے والے انسان کے لیے ہے- سوال یہ ہے کہ خدا نے آخرت کی کامیابی کے لیے امتحان کا یہ طریقہ کیوں رکھا- اس کی وضاحت فرمائیں- (مکرم حسین، نئی دہلی)
جواب
یہ بات درست ہے کہ موجودہ دنیا میں ہمارے لیے ایک ہی آپشن (option) ہے ا ور وہ ہے— صبرواستقامت اور یک طرفہ ایڈجسٹ مینٹ کا آپشن-یہی آپشن، اللہ کے تخلیقی نقشہ کے مطابق ہے- اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ سرے سے ممکن ہی نہیں- دوسرا طریقہ خود کشی کا طریقہ ہے، نہ کہ کامیابی کا طریقہ-
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے خالق نے ہمارے لیے یہ طریقہ کیوں مقرر کیا- اِس کا سبب یہ ہے کہ اِسی طریقے کے ذریعے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا ہوتاہے- خالق نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، مگر یہ صلاحیتیں بالقوہ (potential) کےروپ میں ہیں، یعنی امکان کے روپ میں، نہ کہ واقعہ کے روپ میں-اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کی شخصیت کے اندر چھپی ہوئی فطری صلاحیتوں کو واقعہ بنانے کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہےچیلنج(challenge)- چیلنج آدمی کے سوئے ہوئے ذہن کو جگاتاہے- چیلنج آدمی کو اِس قابل بناتاہے کہ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچ سکے- چیلنج اِس بات کا ذریعہ ہےکہ آدمی منفی تجربات میں مثبت آئٹم کو دریافت کرے- آدمی ابتدائی طور پر ایک ناپختہ (immature)مخلوق ہے- یہ صرف چیلنج ہے جو آدمی کو پختہ (mature) بناتاہے- چیلنج آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنی شخصیت کو انفولڈ (unfold) کرے-
عام طور پر عورتوں اور مردوں کا حال یہ ہے کہ چیلنج پیش آنے کی صورت میں وہ منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں- اِس طرح کے مواقع پر منفی رد عمل، ڈی ریلمینٹ (derailment) کی حیثیت رکھتا ہے- یہی وہ مقام ہے جہاں کسی عورت یا مرد کی زندگی غلط رخ پر چل پڑتی ہے- دھیرے دھیرے وہ اِسی میں کنڈیشنڈ (conditioned) ہوجاتے ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اِسی منفی مزاج میں جیتےہیں اور اِسی منفی مزاج میں مرجاتے ہیں-
یہ کسی عورت یا مرد کی بدترین ناکامی ہے- اِس دنیا میں ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اندر ایک مثبت شخصیت (positive personality) کی تشکیل کرے- مگر انسان اللہ کے تخلیقی منصوبے کو نہ سمجھنے کی بنا پر یہ کرتاہے کہ وہ چیلنج کو ایک برائی (evil) سمجھ لیتاہے- وہ دنیا سے اُس چیز کو حاصل کیے بغیر چلا جاتاہے جس کو حاصل کرنے کے لیے خالق نے اُس کو اِس دنیا میں بھیجا تھا-
سوال
1- ہمارے ملک (پاکستان) اور عموماً پوری دنیا میں ہر مرتبہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتاہے کہ کل روزہ ہوگا یا نہیں-یہی صورتِ حال عید کے چاند پر بھی پیدا ہوتی ہے- اور اکثر ملک کے ایک حصہ میں روزہ رکھا جاتا ہے جب کہ دوسرے حصہ میں عید منائی جارہی ہوتی ہے(یہی صورتِ حال تقریباً پوری مسلم اور غیر مسلم دنیا میں بھی ہوتی ہے)
سوال یہ ہے کہ اگر روزے کا تعلق رمضان کے مہینے کی آمد سے ہے تو پھر دنیا میں ہر جگہ ایک ساتھ روزہ کیوں نہیں- اس سوال کا براہِ راست تعلق مذہب اور سائنس دونوں سے ہے- آپ ایک علمی بصیرت رکھنے والے اور جدید سائنسی اسلوب میں بات کرنے والے عالم دین ہیں- آپ سے التماس ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں قرآن ، احادیث اور رویت ہلال کی سائنس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کی وجوہات اور اس کا حل تفصیل سے بتائیں-
2- مغربی دنیا کی چوٹی کے سائنس داں مثلاً آئن سٹائن اور فلاسفر مثلا برٹرینڈ رسل وغیرہ حقیقی علم تک رسائی کیوں حاصل نہ کرسکے، حالاں کہ انھوں نے مذہب اور سائنس کا براہِ راست مطالعہ کیا تھا-
3- آپ نے اپنی کتاب ’’تجدید دین‘‘ کے شروع میں لکھا ہے کہ ’’فقہ‘‘ کا لفظ عباسی دور کی پیداوار ہے-قرآن اور حدیث میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے- جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت معاذ بن جبل والی روایت سے جو اجتہاد کا نکتہ ہمیں ملتاہے، وہ اصل میں فقہ کا ہی ایک حصہ ہے-
میں نے اپنے گھر میں آپ کی ہر کتاب رکھی ہوئی ہے اور اُس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں- الرسالہ خود بھی پڑھتا ہوں اور اپنے اسکول کے پرنسپل صاحب کو بھی دیتا ہوں-میری اکثر دعا ہوتی ہے کہ خدا آپ کو لمبی عمر دے اور تندرست رکھے- میں ایم اے انگلش کا اسٹوڈنٹ ہوں اور ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر بھی ہوں- (شہزاد احمد، پاکستان)
جواب
1- موجودہ زمانے میں علم فلکیات کی ترقی کی بنا پر یہ ممکن ہوگیاہے کہ پیشگی طور پر رویتِ ہلال کا ٹھیک ٹھیک یقین کیا جاسکے- اِس لیے ذاتی طور پر میری رائےہے کہ آبزرویٹری کے فلکیاتی مشاہدہ کے تحت جو کیلنڈر بنتے ہیں، اُس کیلنڈر کو بنیاد بنار کر رمضان اور عید کے چاند کا تعین کرنا چاہیے- لیکن اِسی کے ساتھ میری یہ رائے ہے کہ علما چوں کہ ابھی تک اس مسئلے پر متفق نہیں ہوئے ہیں، اس لیے دفعِ فتنہ کے لیے عملاً وہی کرنا چاہئے جو علما کی اکثریت کا مسلک ہے-
2- موجودہ زمانے کے سیکولر اہلِ علم مذہب کا مطالعہ کرتےہیں، لیکن اُن کا طریقِ مطالعہ مختلف ہوتاہے- ہم آپ مذہب کو وحی کا ظاہرہ سمجھتے ہیں، لیکن سیکولر اہلِ علم مذہب کا مطالعہ اِس ذہن کے تحت کرتے ہیں کہ مذہب ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon) ہے، اِس لیے وہ مذہب کا مطالعہ کرکے بھی مذہب کو اپنا عقیدہ نہیں بنا پاتے- اِس سلسلے میں پہلی ضرورت یہ ہے کہ اُن کے طریقِ مطالعہ کو بدلا جائے- اِس موضوع پر میں اپنی کتابوں میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں-
3- حضرت معاذ بن جبل کی روایت میں فقہ کا لفظ موجود نہیں ہے اور میراکہنا یہی ہے کہ فقہ کا لفظ اپنے موجودہ مفہوم کے اعتبار سے، ایک بعد کی اصطلاح ہے، دورِ اول میں یہ اصطلاح موجود نہ تھی-
آپ کے وطن میں آپ جیسے بہت سے لوگ ہیں- بہتر ہوگا کہ آپ اِن افراد سے ربط قائم کریں اور اجتماعی کوشش سے اپنے علاقے میں الر سالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھائیں-
واپس اوپر جائیں
1- چنئی (تمل ناڈو) میں
2- چنئی (تمل ناڈو) کے وائی ایم سی اے گراؤنڈ میں
3- ہمار ے ساتھی مقامی طورپر دعوہ ورک کرنے کے ساتھ سفر کے دوران بھی دعوتی کام کرتے ہیں- مثلاً ہمارے ایک ساتھی مسٹر حمید اللہ حمید (کشمیر) نے جنوری 2013 کے تیسرے ہفتے میں ساؤتھ انڈیا کے مختلف پروگراموں میں شرکت کے لیے وہاں کا سفر کیا- اِس دوران انھوں نے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے مل کر ان کے سامنے اسلام کا مثبت تعارف پیش کیا- انھوں نے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی میٹریل برائے مطالعہ دیا-
4- جمشید پور (جھارکھنڈ) میں ہمارے ساتھی دعوہ ورک کررہے ہیں- وہ مختلف موقعوں پر لوگوں سے مل کر ان کو دعوتی لٹریچر پیش کرتے ہیں- مثلاً
5- نئی دہلی کے ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن(IFSE)کی طرف سے 20 جنوری 2013 کو ایوانِ غالب (نئی دہلی) میں قرآن کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی- اِس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے اس میں شرکت کی اور باہر سے آئے ہوئے مقررین کو صدر اسلامی مرکز کی نئی تصنیف ’’کتابِ معرفت‘‘ برائے مطالعہ دی- اِس کے علاوہ، یہاں خود اسلامک فاؤنڈیشن کی طرف سے ہمارے یہاں کے مطبوعہ تراجمِ قرآن حاضرین کو بطور ہدیہ پیش کیے گئے-
6- روحانی مرکز (سہارن پور) میں
7- نئی دہلی کے ٹی وی چینل اسٹار نیوز کی ٹیم نے یکم فروری 2013 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ریڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا- یہ انٹرویو ’’وشوروپم‘‘ فلم کے بارے میں حالیہ تنازعہ سے متعلق تھا- سوالات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیاکہ یہ آزادی رائے کا زمانہ ہے- اگر اِس فلم پر کسی کمیونٹی کو کوئی اعتراض ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اِس معاملے میں ذمے داروں سے مل کر بات کرے- اس کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ آرائی اسپرٹ آف ایج (spirit of age) کے خلاف ہے، نیز احتجاج کا طریقہ کسی مسئلے کا کوئی حقیقی حل نہیں-
8- لاہور (پاکستان) سے جیو ٹی وی (اردو) نے 2 فروری 2013 کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا- یہ انٹرویو موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے فکری مسائل پر تھا- سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی- ایک سوال اسلام کی سیاسی تعبیر کے بارے میں تھا-
9- رام لیلا گراؤنڈ (نئی دہلی) میں 3 فروری 2013 کو شری شری روی شنکر کی طرف سے والنٹیرس فار بٹر انڈیا (Volunteers for better India)کے موضوع پر ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی-اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی- اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کی دعوہ فیلڈ ٹیم(DFT) کے تعاون سے رام لیلا گراؤنڈ میں ایک بک اسٹال لگایا گیا- یہاں سی پی ایس کے ممبران کی طرف سے خرید کر حاضرین کو کئی ہزار کی تعداد میں قرآن کا ہندی، انگریزی ترجمہ اور دعوتی بروشر بطور گفٹ دیاگیا- خاص طورپر ملک وبیرونِ مل سے آئے ہوئے خصوصی مہمانوں کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
10- نئی دہلی کے پرگتی میدان میں
18- نئی دہلی کی انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنس (ICCR) کی طرف سے 9مارچ 2013 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) کے ملٹی پرپز ہال میں ایک انٹرفیتھ کانفرنس ہوئی- اِس کا موضوع یہ تھا:
On World Religions: Diversity, Not Dissension
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی- یہ ایک پینل ڈسکشن تھا جس میں صدر اسلامی مرکز کے علاوہ، ایچ ایچ دلائی لاما، ریویرینڈ ٹوٹو(Mpho Tutu) اور ڈاکٹر کرن سنگھ شریک تھے- یہاں صدر اسلامی مرکز نے اپنے خطاب اور سوالات کے دوران اسلام کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی- خطاب کے بعد لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے مل کر کہا کہ آپ کی بات سن کر ہم کو قرآن سے دلچسپی پیدا ہوگئی ہے- اب ہم ضرور قرآن کا مطالعہ کریں گے- اِس موقع پر دعوہ فیلڈ ٹیم (DFT) کی طرف سے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا-
19- گاندھی میدان (پٹنہ، بہار) میں
20- افریقی جزیرہ ماریشش (Mauritius) کے سوامی وویکانند انٹرنیشنل کنونشن سینٹر (Les Pailles) میں
الرسالہ کے مطالعہ سے میری ذاتی زندگی میں بے حد مثبت تبدیلی آئی ہے- یہ کہنا درست ہے کہ الرسالہ نے مجھے زندگی کی حقیقتوں کو پہچاننے اور ان کا حوصلہ مندی کے ساتھ سامنا کرنے کی سمجھ دی ہے- میں نے ہمیشہ اپنے اطراف خواتین کو ایک دوسرے کی برائی، غیبت، چغلی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے سطحی مشغلوںمیں مصروف دیکھا ہے- خواہ وہ گھریلو خواتین ہوں یا تعلیم یافتہ اور working women -الرسالہ کے مطالعہ سے الحمد للہ میں اِس قابل ہوئی کہ میری فکری سطح ان ساری باتوں سے اوپر اٹھ چکی ہے-ایک عورت کا مقصدِ حیات کیا ہے، یہ میں نے الرسالہ کی تحریروں میں پایا ہے- الرسالہ نے مجھے یہ سمجھ دی کہ کسی کے منفی عمل کا جواب دے کر ہم اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں، کیوں کہ جب ہم ردّ عمل نہ کریں تو اللہ کے فرشتے ہماری طرف سے اس کا جواب دیتے ہیں، اور بلاشبہہ اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہوسکتی-الرسالہ مشن ایک خاتونِ خانہ کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہے جتنا کہ ایک مرد کے لیے- ازدواجی زندگی کے لیے مولانا نے ایک نصیحت کی تھی، وہ ہےیک طرفہ ایڈجسٹ مینٹ- یہ صد فی صد صحیح فارمولا ہے ایک اجنبی ماحول نیز اجنبی افراد کے دل میں جگہ بنانے کا- الرسالہ کے مضامین اور ’’نکاح اور کامیاب ازدواجی زندگی‘‘ (خاندانی زندگی) پڑھنے سے الحمد للہ میں تیار ذہن کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع کرسکی ہوں، ورنہ منفی ذہنیت اور شکایت میری ذات کا حصہتھی- ایسانہیں ہے کہ ناخوش گوار بات پیش نہ آتی ہو، زندگی میں ہر دن ایک ناموافق اور ناخوش گوار بات پیش آتی ہے، لیکن الرسالہ کی تربیت نے مجھے ان مسائل کو چیلنج سمجھنے کی صلاحیت دی ہے- الرسالہ نے حقیقت پسندانہ انداز میں اجتماعی زندگی گزارنے کے اصول سکھائے ہیں- ماں باپ، بھائی بہن کے برتاؤ سے لے کر سُسرالی رشتہ دار، شوہر، نیز بچوں کی تربیت وغیرہ تک ہر موڑ پر الرسالہ کے مضامین بے حد کار آمد ہیں- ضرورت صرف سنجیدگی کے ساتھ اور کھلے ذہن سے پڑھنے کی اور ان اصولوں کو اپنی روز مرّہ کی زندگی میں اختیار کرنے کی ہے- اِسی کے ساتھ خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے- اللہ کے فضل سے میں نے یہ طے کیا ہے کہ میں اپنے گھر کو ’’بگاڑ کا کارخانہ‘‘ بننے نہیں دوں گی ،ان شاء اللہ - (اے ایم بشری، حیدرآباد، انڈیا)
Dear Maulana, I was getting astray, Allah saved me through you, thanks a lot. After reading about the Prophet and the Life of the Prophet, I was very satisfied with his life and he impressed me the most. I met a person who is a regular reader of Al Risala in my college, I talked to him many times and saw him talking wisdom and he was behaving very much well. I thought to read Al Risala but was not able to. Even I recieved first copy of Al Risala in 2011 through a person of my town, but I was not reading. I read Al-Risala many times and thanked Allah so much. I got answer to my questions. I got what I was seeking from many years. It removed my misconceptions and guided me in many matters. Now I’m a regular reader of Al-Risala. I read it 30 times every month. (Faheem Khan, J&K)
Dear Maulana, please allow me this opportunity to express my sincerest thanks for your important work. Writing to you from the northernmost university town of Umeå, Sweden, I am currently working on a PhD dissertation on Islamic nonviolence. Since I find your work crucial for any in-depth study of the field, a selection of your works will be an important addition to the chapter describing Islamic non-violent thinking and theology. Also, for this reason I would very much like to come to India in order to gain a deeper understanding of the context of your work and hopefully also conduct a formal interview with yourself for the purposes of my research. With hopes that you will find the idea of a Swedish dissertation on Islamic nonviolence somewhat interesting and most of all that you will agree to a meeting at your convenience and share your thinking with a Swedish audience.
(Mattias Dahlkvist, Umeå University, Sweden)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.