مخاصمت اور اختلاف دونوں میں ایک چیز مشترک ہے، وہ یہ کہ دونوں کا آغاز ڈسپیوٹ (dispute) سے ہوتا ہے، لیکن عملی اعتبار سے دونوں میں بہت بڑا فرق ہے- یہ فرق اتنا زیادہ ہے کہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے، اختلاف پوری طرح ایک جائز فعل ہے اور مخاصمت پوری طرح ایک ناجائز فعل- درست اختلاف وہ ہے جو تمام تر علمی حقائق پر مبنی ہو، جس میں شروع سے آخر تک معلوم حقائق (objective facts) کی بنیاد پر گفتگو کی جائے-
اِس کے برعکس، مخاصمت میں ساری بحث داخلی نیت پر حملہ اور الزام تراشی پر ہوتی ہے- اختلاف میں رایوں کا بدلنا ممکن ہوتا ہے- ایک فریق کی رائے اگر علمی تجزیے میں درست ثابت ہو تو دوسرا فریق کسی تاخیر کے بغیر اس کو تسلیم کرلیتا ہے-
اختلاف کی حیثیت ایک علمی تبادلہ خیال (scientific discussion) کی ہوتی ہے- اِس سے دونوں فریق کی معلومات میں اضافہ ہوتاہے، وہ دونوں فریق کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنتا ہے- اختلاف اپنی حقیقت کے اعتبار سے، بحث وتکرار کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک اعلی درجے کی علمی تلاش (scientific pursuit) کا نام ہے- اِس میں دونوں فریق ہار اور جیت کے تصور سے اوپر اٹھ کر مشترک طورپر امرِ حق کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
اِس کے برعکس، مخاصمت ایک منفی سرگرمی کا نام ہے- مخاصمت ایک ایسا فعل ہے جو ہمیشہ علمی بددیانتی پر قائم ہوتا ہے- مخاصمت ایک ایسا فعل ہے جو غیر علمی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی- مخاصمت کا کوئی بھی مثبت فائدہ نہیں، نہ ایک فریق کے لیے، نہ دوسرے فریق کے لیے-
مخاصمت یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی سے عناد ہوجائے، وہ ہر حال میں اس کی تنقیص ، اُس پر عیب زنی اور اس کے خلاف الزام تراشی میں لگا رہے— اختلاف ایک ملکوتی فعل (
واپس اوپر جائیں
انسان اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جہاں تخلیق(creation) ہے، لیکن اِس تخلیق کا خالق (Creator) بظاہر یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اِس دنیا میں ڈزائن ہے، لیکن بظاہر اِس دنیا میں ڈزائنر (designer) نظر نہیں آتا۔اِس دنیا میں واقعات ہورہے ہیں، لیکن واقعات کو وجود میں لانے والا آنکھوں سے اوجھل ہے۔ پوری کائنات ایک عظیم انڈسٹری کی طرح کام کررہی ہے، لیکن اِس انڈسٹری کا انجینئر کسی خورد بین یا دور بین کے ذریعے دکھائی نہیں دیتا۔
انسان کو اِسی سوال کا جواب دینے کے لیے دنیامیں پیغمبر ظاہر ہوئے۔ پیغمبروں نے ہر زمانے میں انسان کو بتایا کہ یہاں محسوسات کے پیچھے ایک غیر محسوس ہستی موجود ہے۔ یہ خدا ہے، اُس کو مانو اور اس کی عبادت کرو۔ گویا کہ پیغمبروں کا رول ایک اعتبار سے، ایک قسم کا استنباطی رول (inferential role) تھا، یعنی انھوں نے انسان کو بتایا کہ تم کو چاہیے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرو اور دکھائی دینے والی چیزوں سے استنباط کرکے، نہ دکھائی دینے والے خدا پر اپنے یقین کی بنیاد قائم کرو۔
پیغمبروں نے اپنے اِس استنباطی رول کو مستند بنانے کے لیے یہ کیا کہ انھوں نے معجزے دکھائے۔ قرآن میں یہ بات اِن الفاظ میںآئی ہے: إنّا أرسلنا رُسُلنا بالبیّنات (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 610 ء میں پیغمبر کی حیثیت سے مکہ میں ظاہر ہوئے۔ آپ سے پہلے جو پیغمبر آئے، اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے پیغام کی صداقت کے طورپر مذکورہ قسم کے معجزے دکھاتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام، جو سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے، ان کے بعد خارقِ عادت معجزات کا طریقہ ختم کردیاگیا (
اب سوال یہ ہے کہ معجزے کا بدل کیا ہے۔ پہلے دعوت کی صداقت معجزے کے ذریعے متحقّق کی جاتی تھی، اب دعوت کی صداقت کو متحقق کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ یہ ذریعہ جدید سائنس ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس، قدیم معجزے کا بدل ہے ۔ آج سائنس ٹھیک وہی استدلالی رول انجام دے رہی ہے، جو قدیم زمانے میں معجزات کے ذریعے انجام پاتاتھا۔
مذہب کے حق میں استدلال کے یہ دونوں دَور قرآن میں واضح طورپر بتادئے گئے ہیں۔ پہلے دورِ استدلال کے بارے میں قرآن میں یہ آیت ہے: إنَّا أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میںہوا۔ آپ کے ظہور کے تقریباً ایک ہزار سال بعد جدید سائنس ظاہر ہوئی۔ جدید سائنس کا یہ ظہور محض اتفاقی نہ تھا، وہ پیغمبراسلام کے لائے ہوئے انقلاب کا ایک براہِ راست نتیجہ تھا۔ پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے انقلاب کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اُس نے پہلی بار شرک کے غلبے کو ختم کردیا۔ شرک کے غلبے کے خاتمے کے بعد تاریخ میںایک نیا پراسس شروع ہوا۔ اِس پراسس کے نقطۂ انتہا کا دوسرا نام سائنس ہے۔
شرک کیا ہے۔ شرک دراصل نیچر ورشپ (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ انسان نے قدیم زمانے میں فطرت کے مظاہر کو پرستش کا موضوع بنا دیا تھا۔ اِس طرح شرک، نیچر کی تحقیق اور تسخیر کے عمل کے سلسلے میں ایک قسم کا ذہنی مانع (mental block) بن گیا تھا۔ کیوں کہ جس چیز کو آپ پرستش کا موضوع بنا لیں، اُس کو عین اُسی وقت آپ تحقیق کاموضوع نہیں بناسکتے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ انسان نیچر کی تحقیق میںمصروف ہوگیا۔ یہ تحقیق مسلسل جاری رہی، یہاں تک کہ وہ دریافتیں شروع ہوئیں، جن کو سائنسی دریافتیں کہا جاتا ہے۔ فطرت کے اندر چھپے ہوئے راز معلوم واقعات بن کر سامنے آنے لگے۔ یہ عین وہی چیز تھی جس کو قرآن میں آفاق اور انفُس میں آیات کے ظہور سے تعبیر کیا گیا تھا۔ جدید سائنس دراصل نیچرل سائنس کا دوسرا نام ہے، اور یہ بلاشبہہ قرآن کی پیشین گوئی کا جواب بن کر ظاہر ہوئی ہے۔
اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید سائنس قدیم طرز کے معجزات کا بدل ہے۔ جدید سائنس، دینِ حق کا علمِ کلام (Theology)ہے۔ جدید سائنس اُس دین کو علمِ انسانی کے معیار پر ثابت شدہ بنا رہی ہے، جس کو قدیم زمانے میں خارقِ عادت معجزات کے ذریعے ثابت شدہ بنایا جاتا تھا۔
واضح ہو کہ جدید سائنس کے دو پہلو ہیں۔ ایک نظریاتی سائنس (theoretical science) اور دوسرے، ٹکنکل سائنس (technical science)۔ نظریاتی سائنس، جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے حقائقِ کون یا حقائقِ کائنات کو دریافت کررہی ہے۔ اِس کے مقابلے میں ،ٹکنکل سائنس اس کے عملی پہلو کا نام ہے۔ ٹکنکل سائنس کے ذریعے جدید مشینی تہذیب وجود میںآئی ہے۔ اِس مقالے میں ہماری بحث ٹکنکل سائنس سے نہیں ہے، بلکہ نظریاتی سائنس سے ہے۔ موجودہ زمانے میں نظریاتی سائنس کا ایک مشہور سائنس داں اسٹفن ہاکنگ(Stephen Hawking) ہے۔ اِس موضوع پر اسٹفن ہاکنگ کی کئی کتابیں چھپ کر شائع ہو چکی ہیں۔
یہ بات ایک حدیثِ رسول میںاِن الفاظ میں ملتی ہے: ما من الأنبیاء نبیّ إلا أعطی من الاٰیات ما مثلُہ اٰمن علیہ البشر۔ وإنّما کان الّذی أوتیتُہ وحیاً أوحاہ اللہ إلیَّ۔ فأرجوا أن أکون أکثرھم تابعاً یومَ القیامۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4981) نبیوں میں سے ہر نبی کو ایسی نشانیاں دی گئیں، جن کو اُس زمانے کے لوگ مانتے تھے۔ اور مجھ کو وحی (قرآن) کا معجزہ دیاگیا۔ اِس لیے میںامید کرتاہوں کہ قیامت میں مجھ پر ایمان لانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میںعلم انسانی کا ارتقا بہت کم ہوا تھا، اِس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ خود علمِ انسانی کے مسلّمات کے حوالے سے دینِ حق کی صداقت کو مدلل کیا جائے۔ اِس لیے قدیم زمانے میں پیغمبروں کے ذریعے خارقِ عادت معجزات دکھائے گئے۔ یہ معجزات معاصر انسان کے مانوس دائرے کے اعتبار سے ہوتے تھے۔ مگر قرآن کے بعد دنیا میں جوانقلاب آیا، اس کے بعد بتدریج ایسا ہوا کہ علمِ انسانی میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ خود علمِ انسانی کے مسلّمات کی سطح پر دین ِ حق کو مدلل کرکے پیش کیا جاسکے۔
دونوں دور میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ معجزہ معاصر انسان کو اپنے عجز کا تجربہ کراتا تھا، لیکن اُس میں یہ پہلو شامل نہ تھا کہ مدعو کو خود اپنے مسلّمات کی سطح پر دینِ حق کی دلیل نظر آنے لگے۔ بعد کے زمانے میں جب علمی مسلمات کی سطح پر استدلال ممکن ہوگیا تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ اِس قسم کا استدلال مقابلۃً ایک عمومی اور عالمی استدلال بن جائے گا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ بعد کے زمانے میں ہر انسانی گروہ پیغامِ نبوت کی اہمیت کو سمجھے اور خود اپنے مسلّمات کی روشنی میں اُس پر یقین کرسکے۔ اِس کا ایک فائدہ فطری طور پر یہ ہوگا کہ بعد کے زمانے میں اِس پیغام کو ماننے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔
قدیم معجزاتی دلیل اور جدید سائنسی دلیل دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں ہی استنباط (inference) کی سطح پر دینی عقائد کی دلیل فراہم کرتے ہیں۔ قدیم زمانے میں جب ایک پیغمبر حسّی معجزہ دکھاتا تھا تو ایسانہیں ہوتا تھا کہ معجزہ ایک آئینہ ہو، جس میں پیغمبر کا اصل دعویٰ مشاہداتی طورپر نظر آنے لگے۔ جو کچھ ہوتا تھا، وہ یہ کہ معجزہ دیکھ کر مدعو یہ استنباط کرسکتا تھا کہ جب یہ شخص ایک ایسا واقعہ کررہا ہے جس پر دوسرے انسان قادر نہیں، تو ضرور اِس شخص کو خدا کی نصرت حاصل ہے۔
یہی معاملہ سائنسی دلیل کا بھی ہے۔ سائنسی دلیل میں ایسا نہیں ہوتا کہ پیش کردہ دلیل براہِ راست معنوں میںاصل دعوے کا مظاہراتی ثبوت بن جائے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ پیش کردہ دلیل بالواسطہ معنوں میں یہ موقع دیتی ہے کہ استنباطی طورپر وہ اصل دعوے کو قابلِ فہم اور قابلِ یقین بنا دے۔ تاہم جدید سائنسی دلیل میں ایک مزید پہلو موجود ہے، جس کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ پیش کردہ دلیل بالواسطہ معنوں میں یہ موقع دیتی ہے کہ استنباطی طور پر وہ اصل دعوے کو قابلِ فہم اور قابلِ یقین بنادے۔تاہم جدید سائنسی دلیل میں ایک مزید پہلوموجود ہے، جس کی بنا پر اس کو آرگومینٹ پلس (argument plus) کہا جاسکتا ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی دلیل خود مدعو کے عقلی مسلّمہ (rational axiom) کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔
یہ فرق اُس جدید علم کی بنا پر پیدا ہوا ہے، جس کو نیوکلیرسائنس کہاجاتا ہے۔ قدیم فزیکل سائنس، عالمِ کبیر (macro world) کی سطح پر مبنی تھی۔ مگر بیسویں صدی میں اس کے اندر ترقی ہوئی، اور ایک نئی سائنس وجود میں آئی جس کو نیوکلیر سائنس کہاجاتا ہے۔ نیوکلیر سائنس کے تحت، انسان اِس قابل ہوگیا کہ وہ عالمِ صغیر (micro world) تک رسائی حاصل کرسکے، جب کہ اِس سے پہلے وہ صرف عالمِ کبیر تک محدود تھا- اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر حقیقی چیز اپنا ایک مادّی جسم رکھتی ہے جس کو ناپا اور تولا جاسکے، لیکن عالمِ صغیر کی دریافت نے یہ صورتِ حال بدل دی۔ اب یہ معلوم ہوا کہ چیزیں اپنے آخری تجزیے میںاتنا زیادہ ’’صغیر‘‘ ہوجاتی ہیں کہ اُن کو صرف امکانی لہروں(waves of probability) کا نام دیا جاسکتا ہے۔
عالمِ صغیر کے بارے میں اِس نئی دریافت نے علم میں جو انقلاب پیدا کیا، اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ علمی استدلال کا معیار بدل گیا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول استدلال ہے، جتنا کہ غیر استنباطی استدلال یا براہِ راست استدلال ۔ کیوں کہ علم کا دریا اب جس مقام پر پہنچا تھا، وہاں براہِ راست استدلال کا طریقہ قابلِ عمل ہی نہ رہا۔ اب لازم ہوگیا کہ استنباطی استدلال کو بھی معقول استدلال کا درجہ دیا جائے، تاکہ نئے دریافت کردہ عالمِ صغیر کے قوانین کو مرتب کیا جاسکے۔
علمِ انسانی میں اِس ارتقا کے بعد یہ ممکن ہوگیا ہے کہ مذہبی عقائد کو عین اُسی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے، جس سطح پر مادّی دنیا کی چیزوں کو ثابت شدہ بنایا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ —— دنیا میں ڈزائن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک ڈزائنر موجود ہے، اپنی نوعیت کے اعتبار سے ویسا ہی ایک معقول استدلال ہے، جیسا کہ مادّی دنیا کے بارے میں سائنسی استدلالات ۔
چند مثالیں
یہاں ہم اِس نوعیت کی چند مثالیں درج کریں گے۔ اِن مثالوں سے اندازہ ہوگا کہ کس طرح جدید سائنس، قدیم طرز کے معجزات کا بدل فراہم کررہی ہے۔ کس طرح اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ دینی حقائق، جو پچھلے زمانے میں خارقِ عادت معجزات کی سطح پر پیغمبر کے معاصرین کے سامنے پیش کیے جاتے تھے، اُن کو اب خود علمِ انسانی کے معروف مسلّمات کی بنیاد پر پیش کیاجاسکے۔ گویا کہ اب جدید علمِ کلام نے قدیم معجزے کی جگہ لے لی ہے۔ آج کے ایک داعی کو اپنی دعوت کے حق میں معجزہ دکھانا نہیں ہے، بلکہ اُس کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ وقت کے علمی مسلّمات کی روشنی میں اپنی دعوت کو مدلل کرے۔ وہ جدید ذہن کو خود اُس معیار پر ایڈریس کرسکے جس کا اعتراف وہ پہلے سے کیے ہوئے ہے۔
1 - مذہب کے اعتبار سے سب سے پہلا مسئلہ وجودِ خداوندی کے اِثبات کا ہے۔ اِس معاملے میں علمِ انسانی میں ایک نیا ارتقائی واقعہ وجود میں آیا ہے۔ پہلے، خدا کو صرف عقیدے کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ اب وہ انسانی سائنس کے دائرے کی چیز بن چکا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ جدید سائنس نے خدا کے وجودکو ایک سائنسی دلیل کی حیثیت دے دی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، سائنس کے مطالعے کا موضوع خدایا خالق کا وجود نہیں ہے۔ سائنس کاموضوع نیچر یا تخلیق (creation) کا مطالعہ ہے۔ سائنسی مطالعے کے ابتدائی دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام چیزیں معلوم اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں، اِس لیے کسی مسبّب کو مطالعے کا موضوع بنانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بعد کے سائنسی مطالعے نے اِس نظریے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔سائنس کے تفصیلی مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ نیچر یا کائنات میں ہر وقت ان گنت واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہر واقعے میں نیچر کے سامنے بے شمار انتخابات (options) ہوتے ہیں، لیکن نیچر ہر موقع پر اُسی انتخابات کو لیتی ہے جو سب سے زیادہ بامعنٰی ہو۔
اِس مطالعے نے سائنس دانوں کو یہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ اِس کائنات کے پیچھے ایک ذہین دماغ (intelligent mind) یا ریاضیاتی دماغ(mathematical mind) ہے۔ نیچر کے پیچھے ایک برتر ذہانت کی موجودگی کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ اِس معاملے کو ایک سائنس داں نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— کائنات کا مادّہ ایک ذہین مادّہ ہے:
The stuff of the world is mind-stuff.
2 - قدیم زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ خدا کو ماننے کی صورت میں اُس کو ابدی ماننا پڑتا ہے، جب کہ ہمیں اس کا براہِ راست کوئی علم نہیں۔ مگر کائنات ہمارے لیے ایک معلوم اور مشہود چیز کی حیثیت رکھتی ہے، پھرخدا کو ابدی ماننے کے بجائے کیوں نہ خود کائنات کو ابدی مان لیاجائے۔ لیکن بگ بینگ (Big Bang) کی دریافت کے بعد اِس قسم کے عقیدے کو ماننا ناممکن ہوگیا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، 2006 کا فزکس نوبل پرائز دو امریکی پروفیسروں کو مشترک طورپر دیاگیا۔ یہ دونوں پروفیسر بگ بینگ کے سائنسی نظریے پر کام کررہے تھے اور اُس پر انھوں نے ایک کتاب چھاپی تھی۔ دونوں پروفیسروں کے نام یہ ہیں:
John C. Mather (60), George F. Smoot (
امریکا کے ادارہ ناسا نے 1989میں ایک راکٹ بیرونی خلامیں بھیجا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ بگ بینگ دھماکے سے نکلنے والے ریڈی ایشن (Cosmic Background Radiation) کا مطالعہ کرے اور اس کا فوٹو لے کر زمین پر بھیجے۔ اس راکٹ کا نام یہ تھا:
Cosmic Background Explorer
اِس تحقیق کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ کرنے سے بگ بینگ کے نظریے پر مزید روشنی پڑی ہے۔ اُس نے اِس نظریے کو اسٹرانگ سپورٹ(strong support) دی ہے، اور کائنات کی عمر کا حتمی تعیّن کردیا ہے۔ اِس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا واقعہ
It helped pinpoint the age of the universe, and supported the Big Bang theory of its birth (The Times of India, October 4, 2006, p.
بگ بینگ کا نظریہ ابتدائی طورپر بیسویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں دریافت ہوا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کا آغاز ایک عظیم انفجار (explosion) سے ہوا۔ اس کے بعد اِس نظریے پر کام ہوتا رہا، یہاں تک کہ اب یہ نظریہ ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔
بگ بینگ کا نظریہ، علم العقائد یا تھیالوجی کے اعتبار سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اِس سے خالص انسانی علم کی سطح پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وقتِ خاص پر پیدا ہوئی۔ اس کی یہ پیدائش ایک بہت بڑے دھماکے کے ذریعے ہوئی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طورپر نہیںہوسکتا۔ اس کو وقوع میں لانے کے لیے ایک خارجی عامل (external factor) درکار ہے۔ اس طرح بگ بینگ کا واقعہ اِس نظریے کے حق میں ایک مضبوط منطقی سپورٹ بن گیا ہے کہ اِس کائنات کو ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا۔ بِگ بینگ کا واقعہ معلوم ہونے کے بعد اس کی کوئی دوسری نظریاتی توجیہہ ممکن نہیں۔
3 - کائنات کی ترکیب اِس طرح ہوئی ہے کہ یہاں ہر صداقت (truth) کا مادّی مظاہرہ (physical demonstration) پایا جاتا ہے۔ اِس طرح ایک غور کرنے والے انسان کے لیے تمام غیر مرئی صداقتیں (invisible truths) مرئی سطح (visible level) پر قابلِ فہم بن جاتی ہیں۔ اِس قسم کی مثالوں میں سے ایک مثال وہ ہے جس کو موجودہ زمانے کی فلکیاتی اصطلاح میں بلیک ہول (Black Hole) کہاجاتا ہے۔ بلیک ہول کا نظریہ تقدیر اور تدبیر، یا انسانی آزادی اور خدائی جبر کے درمیان نازک تعلق کو قابلِ فہم بنا رہا ہے۔
فلکیات (astronomy) کے جرمن عالم کارل(Karl Schwarzschild) نے 1907 میں اپنے قیاس کے تحت یہ پیشین گوئی کی کہ خلامیںایسے بڑے بڑے ستارے ہوسکتے ہیں جن کی قوتِ کشش اتنی زیادہ ہو کہ وہ اپنی روشنی کو بھی روکے ہوئے ہوں اور ان کی روشنی باہر نہ آسکتی ہو۔ چوں کہ انسان کسی چیز کو صرف روشنی کی مدد سے دیکھ سکتا ہے، اِس لیے یہ عظیم ستارے خلا میں موجود ہونے کے باوجود انسان کے لیے ناقابلِ مشاہدہ ہیں۔ اِس نظریے پر تحقیق جاری رہی، یہاں تک کہ فلکیات دانوں نے ایسے ستاروں کی امکانی موجودگی پر اتفاق کرلیا، اور ایسے ستاروں کا نام ’بلیک ہول‘ رکھا گیا۔
الٰہیات کے میدان میں قدیم زمانے سے یہ بحث جاری ہے کہ اِس دنیا میں انسان آزاد ہے، یا مجبور۔ بظاہر انسان اِس دنیامیں اپنے آپ کو آزاد پاتا ہے، لیکن جب خدا قادرِ مطلق ہے تو یہ بات ناقابلِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ خدا کی قدرتِ کاملہ کے درمیان انسان کو خود مختاری حاصل ہو۔ اِس تصور پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ اردو شاعر میر تقی میر (وفات: 1810 ) نے اِسی بات کو اِس طرح نظم کیا ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر، یہ تہمت ہے مختاری کی چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
مگر یہ اعتراض ایک غیر منطقی اعتراض ہے۔ کیوں کہ خدا کو اگر ہر قسم کا اختیار حاصل ہے تو اُس کو یقیناً یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی مقام پراپنی قدرت کو محدود کرلے۔ وہ کامل اختیار رکھتے ہوئے عارضی مصلحت کی بنا پر اپنے اختیار کو وقتی طورپر روک لے۔ یہ قیاس بظاہر ایک نظری قیاس ہے، لیکن بلیک ہول کی دریافت نے اِس قیاس کے لیے مظاہراتی سطح پر ایک عملی تصدیق فراہم کردی۔ بلیک ہول کا نظریہ اِس قیاس کو قابل فہم بنا رہا ہے۔
ایمسٹرڈم (نیدر لینڈس) میں ماہرین ِ طبیعیات (physicists) کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر فزکس کا نوبل پرائز پانے والے ایک سائنس داں مسٹر جیمس واٹسن (James Watson Cronin) نے اپنے مقالے میں بتایا کہ ہماری کائنات کا
Dark matter can not be detected directly, because it does not emit or reflect light or radiation.
جیمس واٹسن نے مزید کہا کہ — ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کائنات کو جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے صرف 4 فی صد حصے کو جان سکتے ہیں:
We think we understand the universe, but we only understand four percent of everything. (The Times of India, September 23, 2007, p. 20)
4 - قرآن خدا کی طرف سے آئی ہوئی ایک محفوظ کتاب ہے۔ قرآن کے آغاز ہی میں یہ آیت شامل ہے: ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (
قرآن کے اِس دعوے کی صداقت کے لیے ضروری تھا کہ بعد کے زمانے کے حالات اس کی تصدیق کرتے رہیں۔ بعد کے زمانے میں ایساکوئی واقعہ پیش نہ آئے جو اِس بیان کی تردید کرنے والا ہو۔ قرآن کا یہ بیان حیرت انگیز طورپر اِس معیار پر پورا اترا ہے۔ راقم الحروف نے اِس موضوع سے متعلق اس کے مختلف پہلوؤں پر کئی مضامین اور کتابیں تیار کی ہیں۔ مثلاً تاریخی پہلو، نفسیاتی پہلو، حیاتیاتی پہلو اور سائنسی پہلو، وغیرہ۔ یہاں اِس سلسلے میںصرف ایک مثال نقل کی جاتی ہے۔
قرآن کی سورہ یونس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پندرھویں صدی قبل مسیح میں خدا نے مصر کے فرعون (Ramesses II) کو سمندر میں غرق کیا۔ کیوں کہ اُس نے خدا کے پیغمبر موسیٰ کا انکار کیا تھا۔ اُس وقت خدا نے کہا تھا کہ — آج ہم تمھارے جسم کو محفوظ کردیں گے، تاکہ وہ تمھارے بعد آنے والوں کے لیے ایک نشانی بنے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَۃً (
ساتویں صدی کے رُبع اوّل میں جب قرآن میں یہ آیت اُتری تو اِس واقعے پر دو ہزار سال سے زیادہ مدت گزر چکی تھی۔ اُس زمانے میں نہ پرنٹنگ پریس تھا اور نہ کمیونکیشن، اور نہ معلوم تاریخ میں اِس کا کوئی ریکارڈ موجود تھا۔ چناںچہ تمام لوگ اِس واقعے کو بھول چکے تھے۔ اُس زمانے میں کوئی بھی شخص نہ اِس واقعے کو جانتا تھا اور نہ اُس کو یہ خبر تھی کہ کبھی فرعون کا جسم ظاہر ہو کر قرآن کی اِس آیت کی تصدیق کرنے والا ہے۔اِس آیت کے نزول کے ہزار سال بعد انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں سائنس نے ایسے طریقے دریافت کیے، جن کے ذریعے قدیم اَجسام کی تاریخ ٹھیک ٹھیک طور پر معلوم کی جاسکے۔ مزید یہ کہ سائنس کی ترقی نے لوگوں کے اندر بہت بڑے پیمانے پر تجسس کا ذہن پیداکیا۔ لوگ ہر میدان میںنئی نئی چیزیں دریافت کرنے کے لیے عالمی سطح پر سرگرم ہوگئے۔
اِسی دوران مغربی یورپ کے کچھ اسکالر مصر پہنچے۔ انھوںنے قاہرہ کے قریب واقع اَہرام کی تحقیق شروع کی۔ طویل کوشش کے بعد انھوںنے دریافت کیا کہ اہرام کے اندر مصر کے قدیم بادشاہوں کے مردہ اجسام مومیائی حالت میں موجود ہیں۔ چناں چہ خصوصی اہتمام کے ساتھ اِن اجسام کو نکالا گیا۔ اِس کے بعد ان اجسام کی جانچ شروع ہوئی۔ سائنس کے جدید طریقوں کے مطابق، ان کی عمر کا تعیّن کیاگیا۔ اِس تحقیق کے دوران حیرت انگیز طورپر معلوم ہوا کہ مصر کے قدیم بادشاہ فرعون کی لاش ایک اہرام میںموجود تھی۔ سائنسی ٹکنیک کے ذریعے جب اس کی عمر کا پتہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت موسیٰ کا ہم زمانہ شاہِ مصر فرعون کا جسم ہے، جس کی بابت قرآن میں
اِس حقیقت کاعلم اِس سے پہلے کسی بھی انسان کو حاصل نہ تھا۔ قرآن میںاِس کا صراحتاً ذکر ہونا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن اُس خدا کی کتاب ہے جو ساری باتوںکو جانتا ہے(عالم الغیب والشہادة)۔ اس نے اپنے علم کے تحت قرآن میںیہ آیت اُتاری۔ اِس واقعے میں واضح طورپر جدید سائنس، قرآن کے کتابِ الٰہی ہونے کی تصدیق بن گئی۔
فرانس کے ڈاکٹر موریس بکائی (وفات:1998 ) نے 1975 میں اپنے ساتھیوں کے ہم راہ مصر کا سفر کیا، اور قاہرہ کے میوزیم میںجاکر وہاں براہِ راست طورپر اِس محفوظ جسم کا مشاہدہ کیا۔ اِس واقعے پر پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد انھوںنے اپنی کتاب میںنہایت حیرت کے ساتھ یہ الفاظ درج کیے ہیں— وہ لوگ جو مقدس کتابوں کی سچائی کے لیے جدید ثبوت چاہتے ہیں، وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میںشاہی ممیوں (Mummies)کے کمرے کو دیکھیں۔ وہاں وہ قرآن کی اُن آیتوں کی شان دار تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے بحث کرتی ہیں:
Those who seek among modern data for proof of the veracity of the Holy Scriptures, will find a magnificent illustration of verses of the Quran dealing with the Pharaoh’s body by visiting the Royal Mummies Room of the Egyptian Museum, Cairo!
5 - دین کے عقائد میںسے ایک بنیادی عقیدہ رسالت کا عقیدہ ہے، یعنی یہ عقیدہ کہ انسان کی رہنمائی کے لیے خدا کی طرف سے ہر زمانے میں پیغمبر آئے۔ اِس سلسلے کے آخری پیغمبر محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ رسالت کے عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے رہنما اصول خود اپنی عقل سے دریافت نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس معاملے میں خدا کے پیغمبروں پر یقین کرے اور اُن سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف خدا کے آخری پیغمبر ہیں، بلکہ آپ پر جوخدا کی ہدایت آئی، وہ اپنی کامل شکل میں اور اپنی اصل حالت میں پوری طرح محفوظ ہے۔ پیغمبر اسلام پر جو پہلی وحی اتری تھی، وہ سورہ العلق کی صورت میں قرآن میں موجود ہے۔ اِس ابتدائی وحی میں اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ: اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(
اِس آیت میں گویا کہ اِس بات کا اعلان ہے کہ انسان خود سے اپنی رہنمائی وضع نہیں کرسکتا۔ دنیوی زندگی کے شعبے مثلاً زراعت، باغ بانی اور انجینئرنگ، وغیرہ کے معاملے میںوہ اپنے تجربات کے ذریعے کچھ علم حاصل کرسکتا ہے، جوانسان کی موجودہ زندگی کی ضرورتوں سے متعلق ہیں۔ لیکن انسان کی ابدی رہنمائی کے لیے جو برتر علم درکار ہے، اُس کو انسان خود سے حاصل نہیں کرسکتا۔ زندگی کے اِس برتر شعبے میں اُس کے لئے پیغمبرانہ رہنمائی سے مدد لینا ضروری ہے۔
قدیم زمانے میں جو بڑے بڑے فلسفی پیدا ہوئے، اُن سب کا موضوع یہی تھا کہ انسانی زندگی کے لیے رہنمایانہ اصول دریافت کیے جائیں، لیکن کئی ہزار سال تک بڑے بڑے دماغوں کی کوششوں کے باوجود فلسفہ اِس قسم کی کسی رہنمائی کو دریافت نہ کرسکا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسفیانہ کاوشوں نے انسان کو جو چیز دی، وہ صرف کنفیوژن (confusion) تھا، نہ کہ کوئی یقینی رہنمائی۔
کارل مارکس (وفات: 1883) نے فلسفے کی ناکامی پر ایک کتاب لکھی جس کا نام یہ تھا— فلسفے کا افلاس (Poverty of Philosophy) ۔ یہ کتاب کارل مارکس نے اپنے مخصوص نقطۂ نظر کے اعتبار سے لکھی تھی، لیکن عمومی اعتبار سے بھی یہ درست ہے کہ فلسفیانہ غور وفکر، جو تمام تر عقل کی بنیاد پر ہوتا ہے، وہ انسان کو رہنمائی کے ابدی اصول دینے کے معاملے میں پوری طرح ناکام ہے۔ فلسفیانہ شعبے کی یہی ناکامی تھی جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ موجودہ سائنس کے ظہور کے بعد فلسفے کا دَور ختم ہوگیا۔ اب فلسفے کی حیثیت زیادہ تر ایک تاریخی شعبے کی ہے، نہ کہ زندہ شعبۂ علم کی۔
یہی معاملہ باطنیّت (mysticism) کے ساتھ پیش آیا۔ باطنی نقطہ نظر کے حاملین کا خیال تھا کہ وہ باطنیّت کے تجربے کے ذریعے سچائی کو دریافت کرسکتے ہیں، مگر ایسا نہ ہوسکا-
باطنیت کیا ہے، اس کی تعریف اِس طرح کی جاتی ہے:
Mysticism: The doctrine that it is possible to attain the higher truth through contemplation and love without the medium of human reason, or without any other external source.
مسٹی سزم کی تاریخ کئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ بے شمار لوگوں نے مسٹی سزم کے ذریعے سچائی کو پانا چاہا، لیکن لمبے تجربے کے بعد معلوم ہواکہ مسٹی سزم کے ذریعے آخری چیز جو انسان کو ملتی ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ وَجد(ecstasy) ہے۔ مگر سچائی کے معاملے میں وَجد کی کوئی حقیقت نہیں۔ انسان کے وجود میں سب سے بڑی چیز شعور یا ذہن ہے۔ اِس لیے سچائی کو پانے والا وہی شخص ہے جو ذہن یا شعور کی سطح پر سچائی کو پائے، نہ کہ وجد کی سطح پر۔ وجد دراصل بے شعور ی کی ایک حالت ہے جس کوبے خودی کے خوب صورت لفظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ سچائی دراصل شعور کی سطح پر حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کا نام ہے۔
شعور کی سطح پر حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کی ایک مادّی مثال بجلی کے بلب اور پا ور ہاؤس میں ملتی ہے۔ بلب ابتدائی حالت میں ایک بے نور شے ہے۔ اس کے اندر نہ خود روشنی ہے اور نہ وہ دوسروں کو روشنی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن جب پاور ہاؤس سے اس کا کنکشن قائم ہو جاتا ہے تو اچانک وہ ایک روشن وجود بن جاتا ہے۔ اب وہ خود بھی روشن ہوتا ہے اور دوسروں کو روشنی دینے کی صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔سچائی کو پانے کا معیار کیا ہے، وہ اِس مادّی واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ سچّائی کو پانا شعوری معنوں میں ایک روشنی کو پانا ہے۔ مسٹی سزم اِس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ مسٹی سزم سے آدمی کو جو چیز ملتی ہے، وہ صرف بے شعوری ہے، نہ کہ شعور۔ اور انسان جیسی باشعور ہستی کے لیے بے شعوری کبھی حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کے ہم معنٰی نہیں بن سکتی۔اِس معاملے میں آخری چیز جس کا نام لیا جاسکتا ہے، وہ سائنس ہے۔ جدید سائنس نے بلا شبہہ انسان کو بہت سی چیزیں دی ہیں۔ مثلاً ٹیلی کمیونکیشن اور کنزیومرگڈس (consumer goods)، وغیرہ۔ مگر جہاں تک سچائی کا معاملہ ہے، سائنس نے خود ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ سچائی کی دریافت اس کا میدانِ عمل نہیں۔
ایک مغربی اسکالر نے درست طورپر لکھا ہے کہ علم کا میدان بہت وسیع ہے۔ علم کی دوقسمیں ہیں۔ چیزوں کا علم (knowledge of things) ، اور سچائی کا علم (knowledge of truth)۔ اہلِ علم کے درمیان بلا اختلاف یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ سائنس کا دائرہ صرف چیزوں کے علم تک محدود ہے۔ سچائی کا علم سائنس کے دا ئرے سے مکمل طورپر باہر ہے۔ ایسی حالت میںیہ کہنا صحیح ہوگا کہ سائنس اِس مقابلے میں بطور امیدوار بھی شامل نہیں۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا راستہ متعین کرنے کے لیے گہرے علم کی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو ڈاکٹر الیکسس کیرل نے اپنی کتاب انسانِ نامعلوم (Man the Unknown) میں بخوبی طورپر واضح کیا ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ انسان خود اپنی کوششوں سے اِس ناگزیر علم کو دریافت نہیں کرسکتا۔ ایک طرف، علم کا ناگُزیر ہونا اور د وسری طرف، انسان کا اس ناگزیرعلم کو دریافت کرنے کے لیے نا اہل ہونا، بتاتا ہے کہ اِس معاملے میںانسان کوایک خارجی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے پیغمبر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہہ پیغمبرہی وہ انسان ہے جو خدا کے نمائندے کی حیثیت سے ہمارا حقیقی رہنما ہے۔ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التحریم کی ایک آیت میں اہلِ ایمان کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۚ نُوْرُہُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (
قرآن کی اِس آیت میں ’نور‘ سے مراد کوئی خارجی نور نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد خود صاحبِ ایمان کی منور شخصیت (radiant personality) ہے- اِسی طرح ’اتمامِ نور‘ سے مراد کوئی خارجی نوعیت کا اتمام نور نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہے جو خود صاحبِ ایمان کی اپنی شخصیت کے اندر پیش آئے گا-
اُن کا نور ان کے دائیں اور ان کے آگے دوڑ رہا ہوگا— اِس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی منور شخصیت اتنی زیادہ نمایاں ہوگی کہ وہ لوگوں کو دور سے دکھائی دے گی- سچا مومن جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے عمل کا خارجی پہلواِس دنیا میں لوگوں کو نظر آجاتا ہے، لیکن اس کے عمل کا باطنی پہلو دکھائی نہیں دیتا-سچے اہلِ ایمان کے عمل کا یہ چھپاہوا پہلو آخرت میں عیاناً ظاہر ہوجائے گا- اِسی حقیقت کو قرآن میں، نورکےدوڑنے سے تعبیر کیاگیا ہے- اتمامِ نور کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، جس طرح دنیا میں ہمارے عمل کا خارجی پہلو ظاہرہوا تھا، اُسی طرح تو ہمارے عمل کے داخلی پہلو کو بھی ظاہرکردے-
مثال کے طورپر قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے آیا ہے کہ: اَلَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَةٌ (
واپس اوپر جائیں
اسلامی تعلیم کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل پیغمبر ہیں- آپ کی سیرت میں انسان کی زندگی کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے- ایک انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات میں پیغمبراسلام سے مستند ربانی ہدایت حاصل کرسکتاہے- پیغمبر اسلام بلاشبہہ ایک رول ماڈل (role model)کی حیثیت رکھتے ہیں- اِسی کو قرآن میں اسوہ حسنہ (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کامل اسوہ بہ اعتبار فہرست (in terms of list) نہیں ہے، بلکہ وہ بہ اعتبارِ انطباق (in terms of application) ہے- یہ حقیقت ایک حدیثِ رسول سے معلوم ہوتی ہے- اس کے مطابق،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل کو (بطور عامل) یمن کی طرف بھیجا تو آپ نے معاذ بن جبل سے پوچھا کہ جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ آئے گا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کروگے- انھوںنے کہا کہ میں اللہ کی کتاب سے اس کا فیصلہ کروں گا- آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ- انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ کی سنت سے فیصلہ کروں گا- آپ نے فرمایا کہ اگر تم رسول اللہ کی سنت میں اور اللہ کی کتاب میں بھی نہ پاؤ- انھوں نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کروں گا(أجتہد رأئی ولا اٰلو)- رسول اللہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے رسول کے فرستادہ کو اُس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے-(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 3592)
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معاذ بن جبل کو اعتماد تھا کہ وہ سنت ِ رسول کے ذریعے تمام پیش آمدہ معاملات کا فیصلہ کرسکتے ہیں، لیکن یہ فیصلہ اِس اعتبار سے نہ تھاکہ سنت بہ اعتبارِ فہرست ایک مکمل فہرست ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ معلوم فہرست پر اجتہاد کا اضافہ کرکے وہ اس کو مکمل کرسکتے ہیں- اِس روایت سے جو اصول دریافت ہوتا ہے، وہ یہ ہے — سنت پلس اجتہاد برابر ہے کامل اسوہ رسول کے:
Sunnah plus Ijtihad is equal to ‘Uswah-e-Kamilah’
واپس اوپر جائیں
حضرت عائشہ کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرکم خیرُکم لأہلہ، وأنا خیرکم لأہلی (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3895) یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں-
خاندان کسی سماج کا ایک یونٹ ہے- خاندانوں کے مجموعے ہی کا دوسرا نام سماج ہے- اگر خاندان بہتر ہوگا تو سماج بھی بہتر ہوگا- اور اگر خاندان بہتر نہ ہو تو سماج بھی بہتر نہیں ہوسکتا-ہر شخص کسی خاندان میں پیداہوتا ہے- گویا کہ گھر، خاندان یا سماج کی پہلی تربیت گاہ ہے- اِس لیے اگر کسی سماج کو بہتر بنانا ہے تو خاندان کو بہتر بنانا ہوگا-
تعلیم کی دو قسمیں ہیں — رسمی تعلیم (formal education)، اور غیر رسمی تعلیم (informal education) - رسمی تعلیم کا ادارہ آدمی کو جاب (job) کے لیے تیار کرتا ہے اور غیررسمی تعلیم کا ادارہ سماج کے لیے بہتر افراد بنانے کا ذریعہ ہے- اسکول اور کالج رسمی تعلیم کے ادارے ہیں اور خاندان غیر رسمی تعلیم کے ادارے-سماج کے اندر وسیع تر دائرے میں مثبت اور منفی نوعیت کے جو تجربات ہوتے ہیں، وہ تمام تجربات گھر کے اندر محدود دائرے میں ہوتے ہیں- گھر کے اندر کسی عورت یا مرد کو یہ سیکھنا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد سے اس کو تکلیف پہنچے تو وہ اُس کو بھلا دے- اِسی طرح جب گھر کے کسی فرد سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ دل سے اس کا اعتراف کرے-
جو لوگ اپنے گھر کے اندر اِس طرح کی تربیت حاصل کریں، وہ جب گھر سے نکل کر سماج میں داخل ہوں گے تو وہاں بھی وہ دوسروں کے ساتھ اِسی طرح کا برتاؤ کریںگے- وہ ناخوشگوار باتوں کو بھلائیں گے اور خوش گوار باتوں پر دوسرے کے سلوک کا اعتراف کریں گے- یہی وہ لوگ ہیں جو اخلاقی اعتبار سے بہترین لوگ ہیں- ایسے ہی افراد کسی سماج کو بہتر سماج بناتے ہیں-
واپس اوپر جائیں
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے ’’سیرت النبی‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ : ’’امام بیہقی کتاب المدخل میں ابنِ مہدی کا قول نقل کرتے ہیں: إذا روینا عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم فی الحلال والحرام والأحکام شدّدنا فی الأسانید وانتقدنا فی الرجال، وإذا روینا فی الفضائل والثواب والعقاب سہلنا فی الأسانید وتسامحنا فی الرجال (فتح المغیث، صفحہ 120)یعنی جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال وحرام اور احکام کے متعلق حدیث روایت کرتے ہیں تو ہم سند میں نہایت تشدد کرتے ہیں، اور راویوں کو پرکھتے ہیں- لیکن جب ہم فضائل اور ثواب اور عقاب کی حدیثیں روایت کرتے ہیں تو ہم سندوں میں سہل انگاری کرتے ہیں اور راویوں کے متعلق چشم پوشی سے کام لیتے ہیں‘‘- )مقدمہ سیرت النبی، 1/52)
تدوین حدیث کے وقت محدثین نے دو قسم کی روایتوں میں جو فرق کیا، وہ بلاشبہہ ایک اجتہادی خطا کا معاملہ تھا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت کے مطابق، ایسا کرنا اُن کے لیے درست نہ تھا- اِس معاملے میں اصل سوال یہ نہیں تھا کہ جو روایت اُن کو حدیث رسول کے نام پر پہنچ رہی ہے، وہ اپنے متن کے اعتبار سے، مسائل سے متعلق ہے یا فضائل سے متعلق- اصل سوال یہ تھا کہ جس روایت کو پیغمبر ِخدا سے منسوب کیا جارہا ہے، وہ باعتبار انتساب درست ہے یا نہیں- اِس معاملے میں یہ ایک ثانوی بات ہے کہ حدیث میں کوئی قانونی مسئلہ بیان ہوا ہے یا کسی عمل کی فضیلت بیان ہوئی ہے- اصل سوال یہ تھا کہ پیغمبر خدا سے اس کا انتساب سنداً ثابت ہوتا ہے یا نہیں- حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں محدثین نے دو قسم کی روایتوں کے درمیان جو تفریق کی، اس کا ہرگز اُنھیں حق نہ تھا- اِس معاملے میں محدثین کی حیثیت صرف ناقل کی تھی، ان کی حیثیت جج کی نہ تھی- ابتدائی دور کے محدثین کو جاننا چاہیے تھا کہ اگر انھوں نے روایتِ حدیث میں کوئی غلطی کردی تو یہ غلطی قیامت تک باقی رہے گی، عملاً وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں
بلیز پاسکل(Blaise Pascal) ایک فرانسیسی سائنس داں تھا- وہ 1623 میں پیدا ہوا اور 1662 میں صرف
Pascal’s last words were: “May God never abandon me”!
پاسکل نے جو کچھ کہا، وہ دراصل انسانی فطرت کی آواز ہے — قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: خُلِقَ الإنسانُ ضعیفاً (
انسان کا تخلیقی ضعف انسان کے لیے ایک رحمت ہے- اِسی ضعف کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان خدا کے مقابلے میں اپنے عجز (helplessness) کو دریافت کرتا ہے- اگر ایسا نہ ہو تو انسان اپنی حیثیتِ واقعی کی دریافت سے محروم رہ جائے-اِس دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ (minus point)کا ایک پلس پوائنٹ (plus point)ہے- نادان آدمی مائنس پوائنٹ میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور دانش مند آدمی پلس پوائنٹ کو دریافت کرکے اپنی ترقی کا نیا راز پالیتا ہے-
انسان کا تخلیقی ضعف اُس کو سرکش بننے سے بچاتا ہے، وہ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پیدا کرتاہے، وہ آدمی کو اِس سے بچاتا ہے کہ وہ بے جا خود اعتمادی (over confidence) کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے، وہ آدمی کو انسانِ حقیقی (man cut to size) بننے میں مدد دیتا ہے، وہ انسان کو خدا فراموشی کی برائی میں مبتلا ہونے نہیں دیتا، وہ انسان کو خدا سے قریب کرنے والا ہے، وہ انسان کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرسکے-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا عطس أحدکم فلیقل الحمد للہ، ولیقل لہ أخوہ أو صاحبہ یرحمک اللہ، فإذا قال: یرحمک اللہ، فلیقل: یہدیکم اللہ ویصلح بالکم(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6224 )یعنی جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ کہے: الحمد للہ (اللہ کا شکرہے)- اُس وقت اس کا ساتھی یہ کہے: یرحمک اللہ (اللہ کی رحمت ہو تم پر)- اس کے بعد چھینکنے والا کہے: یہدیکم اللہ ویصلح بالکم (اللہ تم کو ہدایت دے اور تمھارے حالات کو درست کردے)
چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا محض کوئی رسمی بات نہیں- حقیقت یہ ہے کہ چھینک آنا شکر کا ایک آئٹم ہے- یہ بات ایک تازہ تحقیق سے علمی طورپر ثابت ہوئی ہے- اِس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چھینک کوئی بری چیز نہیں، وہ فطرت کا ایک عمل ہے- چھینک سے جسم میں تازگی آتی ہے:
Sneezing revives your body: A sneeze is your body’s way of rebooting naturally and patients with disorders of the nose such as sinusitis sneeze more often as they can’t reboot easily, a new study said. Researchers from the University of Pennsylvania found that our noses require "reboot" by the pressure force of a sneeze. (The Times of India, New Delhi, August 2, 2012, p.
اِس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنا کوئی سادہ بات نہیں، چھینک آنا بھی شکر کا ایک آئٹم ہے- ہر چھینک پورے جسم کو تازگی عطا کرتی ہے- مزید یہ کہ چھینک اللہ کی نعمتوں کی ایک یاد دہانی ہے- چھینک کے ذریعے ایک انسان اللہ کی ایک نعمت کو یاد کرکے جب اُس پر شکر ادا کرتاہے تو اُس وقت اس کا ذہن بیدار ہوجاتا ہے- اِس ذہنی بیداری کی بنا پر انسان کو شکر کے دوسرے آئٹم بھی یاد آنے لگتے ہیں- شکر کے ایک آئٹم پر شکر کرکے آدمی شکر کے دوسرے آئٹم پر بھی شکر کرنے کے قابل ہوجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں
راجیش کھنہ انڈیا کی فلم انڈسٹری کے پہلے سپر اسٹار تھے- ان کو عوام کے اندر غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی، مگر آخری سالوں میں وہ مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے- چناں چہ 18 جولائی 2012 کو بمبئی میں ان کی وفات ہوگئی ،جب کہ ان کی عمر صرف
حقیقت کے اعتبار سے راجیش کھنہ کا یہ جملہ درست نہیں- اگر وہ زندگی کی حقیقت کو جانتے تو وہ کہتے کہ — ٹائم اب آگیا، یعنی اب زندگی کے دوسرے دور میں داخلے کا وقت آگیا، جہاں خالق کے سامنے پیشی ہوگی اور پورے کارنامۂ زندگی کا حساب لیا جائے گا اور پھر اس کے مطابق، ابدی دورِ حیات کا فیصلہ ہوگا، یعنی ابدی جنت یا ابدی جہنم کا فیصلہ-
ممبئی سی پی ایس ٹیم کے ایک داعی مسٹر محبوب اے ایچ نے راجیش کھنہ کی وفات سے کچھ ماہ پہلے ان کو ہمارے یہاں کا چھپا ہواقرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچایا تھا- اِس بات کی کوئی اطلاع نہیں کہ انھوں نے قرآن کے ترجمے کو پڑھا تھا یا نہیں، لیکن یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات ایک انتباہ (warning)کی حیثیت رکھتے ہیں- وہ تمام لوگ جو یہ مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ کہ قرآن واحد کتاب ہے جو یہ بتاتی ہے کہ انسان کے لیے اس کے خالق کا منصوبۂ تخلیق (creation plan of God) کیا ہے، اُن پر فرض ہے کہ وہ دنیا کے تمام انسانوں تک اِس کتاب (قرآن) کو پہنچا دیں-
اگر پہنچانے والوں نے قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیا تو ان کی ذمے داری اللہ کے یہاں ساقط ہوجائے گی- ایسی حالت میں معاملہ خدااور انسان کے درمیان ہوگا- لیکن اگر پہنچانے والوں نے قرآن کو لوگوں تک نہیں پہنچایا تو وہ خود اِس کے ذمہ دارقرار پائیں گے اور اب معاملہ خدا اور حاملینِ قرآن کے درمیان ہوجائے گا-
واپس اوپر جائیں
اسلام انسان کی فطرت کی آواز ہے- اسلام اگر کسی ملاوٹ کے بغیر انسان کے سامنے آئے تو وہ اُس کے ذہن کو ایڈریس کرے گا، وہ خو د اپنے داخلی شعور کے تحت اسلام کی اہمیت کو ماننے پر مجبور ہوجائے گا- تاریخ میں کثرت سے اِس کی مثالیں موجود ہیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانے میں مکہ کے لوگ شرک میں مبتلا تھے- مگر جب قرآن کے ذریعے ان کے سامنے اسلام کا پیغامِ توحید بے آمیز طورپر آیا تو ان کی اکثریت نے اسلام کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر اس کو جلد یا بدیر قبول کرلیا-
موجودہ زمانے میں بھی اِس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں- ایک بنگالی ہندو جن کا نام ڈاکٹرنشی کانت چٹوپادھیا (وفات: 1910) تھا، انھوںنے اعلیٰ تعلیم پائی- وہ کئی زبانیں جانتے تھے- انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا- ان کی فطرت نے اسلام کی سچائی کی تصدیق کی- چناں چہ انھوں نے اسلام کو اپنے مذہب کی حیثیت سے قبول کرلیا- اِس کے بعد انھوں نے انگریزی زبان میں کئی کتابیں لکھیں- انھوں نے 1904 میں حیدر آباد (انڈیا) کے ایک جلسے میں اپنے اسلام کا اعلان کیا اور اپنا نام عزیز الدین رکھا-
اِسی طرح مارما ڈیوک پکتھال (Marmaduke Pickthall) ایک انگریز تھے- وہ عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے- اسلام کی فطری تعلیمات نے ان کو متاثر کیا- چناں چہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام محمد پکتھال رکھا- ان کی وفات 1936 میں ہوئی- انھوںنے انگریزی زبان میں قرآن کا مکمل ترجمہ کیا - یہ انگریزی ترجمہ کافی مقبول ہوا-
موجودہ زمانے کے مسلمان یہود کو اسلام کا ازلی دشمن سمجھتے ہیں، مگر یہ بات یقینی طورپر غلط ہے- واقعات بتاتے ہیں کہ ہر زمانے میں یہودی، اسلام قبول کرتے رہے ہیں- مثال کے طورپر عبد اللہ بن سلام مدینہ میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے- وہ مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے- ہجرت کے بعد انھوںنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا- 663 عیسوی میں مدینہ میں ان کی وفات ہوئی-
اسی طرح کعب الاحبار یمن کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے- وہ ایک بڑے یہودی عالم تھے- انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کے زمانے میں اسلام قبول کیا- حضرت عمر کے زمانے میں وہ یمن سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے- 652 عیسوی میں شام کے شہر حمص میں ان کی وفات ہوئی-
بعد کی صدیوں میں بھی یہود کے قبولِ اسلام کا سلسلہ جاری رہا- موجودہ زمانے میں فلسطین کے سوال کو لے کر یہود اور مسلمانوں کے درمیان نہایت تلخ فضا قائم ہوگئی ہے- مسلسل طورپر دونوں کے درمیان تشدد کے واقعات ہورہے ہیں- اِس کے باوجود موجودہ زمانے میں بھی یہود میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جنھوں نے کھلے طور پر اسلام قبول کیا-
اس قسم کی ایک مثال محمد اسد (Leopold Weiss Muhammad Asad) کی ہے- وہ یوکرین (Ukraine) کے ایک یہودی خاندان میں 1900میں پیدا ہوئے اور 1992 میں اسپین میں ان کی وفات ہوئی- انھوںنے اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر 1926 میں انھوں نے اسلام قبول کرلیا- انھوںنے انگریزی زبان میں قرآن کی ایک مکمل تفسیر لکھی- اِسی طرح انھوں نے دوسری کتابیں اسلام کے موضوع پر تیار کیں-
اِسی طرح کی ایک مثال مریم جمیلہ کی ہے- وہ 1934 میں نیویارک (امریکا) کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں- ان کا ابتدائی نام مارگریٹ مارکوس (Margret Marcus) تھا- انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر 1961 میں اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام مریم جمیلہ رکھا- انھوں نے انگریزی زبان میں اسلام پر کئی کتابیں لکھیں- 31 اکتوبر 2012 کو لاہور (پاکستان) میں ان کا انتقال ہوگیا-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے سب سے بڑی چیز جو کھوئی ہے، وہ مغل ایمپائر یا عثمانی ایمپائر جیسی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ سب سے بڑی چیز جو انھوں نے کھوئی ہے، وہ دعوت الی اللہ کا ذہن ہے- موجودہ زمانے میں پوری دنیا کے مسلمانوں میں دعوت کا حقیقی ذہن مفقود ہے- اگر کوئی شخص دعوت کا نام لیتا ہے تو وہ بھی اپنے خود ساختہ مفہوم میں، نہ کہ قرآن وحدیث کے اصل مفہوم میں-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ذہن اسلام پسند ذہن نہیں ہے، بلکہ وہ قوم پسند ذہن ہے- اس قوم پسند ذہن کی بنا پر یہ ہوا ہے کہ ان کی ہر چیز پر قوم پسندی کا ذہن غالب آگیا ہے-
دعوت الی اللہ مسلم ملت کا سب سے بڑا فریضہ ہے- اِسی فریضے کے تصور سے ان کی سوچ درست ہوتی ہے، اِس فریضے کی ادائیگی سے ان کی تمام سرگرمیوں کا رخ صحیح ہوتا ہے، اِسی فریضے کی ادائیگی سے وہ اللہ کی نصرت کے مستحق بنتے ہیں- دعوت الی اللہ کی سوچ مسلم ملت کے لیے گویا ماسٹرفارمولا (master fomula) کی حیثیت رکھتی ہے- مسلمانوں کے اندر اگر دعوت الی اللہ کا تصور زندہ ہو تو ان کے تمام معاملات درست ہوں گے اور اگر دعوت الی اللہ کا تصور ان کے اندر زندہ نہ ہو تو ان کے تمام معاملات بگڑ جائیں گے-
دعوتی شعور کے اِس فقدان کا ایک سنگین نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان دوسری قوموں کو مدعو کے روپ میں نہ دیکھ سکے اور جب اِن قوموں کے کچھ افراد نے خود اپنی تلاش کے ذریعے اسلام قبول کیا تو وہ ان کو مزید دعوتی کام کے لیے استعمال نہ کرسکے- مثلاً محمد اسد کی ملاقات اسلام قبول کرنے کے بعد ڈاکٹر محمد اقبال (وفات: 1938)سے ہوئی- اقبال خود مسلم ریاست کا خواب دیکھتے تھے- چناں چہ انھوںنے محمد اسد کو بھی مسلم ریاست کے قیام کے بے نتیجہ کام پر ڈال دیا- محمد اسد کے لیے صحیح مشورہ یہ تھا کہ ان کو یہ بتایا جائے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں میں اسلامی دعوت کا کام کریں، نہ کہ مسلم ریاست کے قیام کے بے نتیجہ کام میں اپنا وقت ضائع کریں-
یہی واقعہ مریم جمیلہ کے ساتھ پیش آیا- اسلام قبول کرنے کے بعد وہ
واپس اوپر جائیں
مسلمانوں میں اِس وقت عملاًپانچ بڑے فقہی اسکول قائم ہیں — —مالکی اسکول، حنبلی اسکول، شافعی اسکول، حنفی اسکول، جعفری اسکول۔ یہ تمام فقہی اسکول یہ مانتے ہیں کہ اُن کا دین ایک ہے، اور وہ اسلام ہے۔ اِس کے باوجود کیوں ایسا ہوا کہ ایک مذہب پانچ مذہبوں میں بٹ گیا۔ اُن میں اتنے زیادہ اختلافات ہوئے کہ سخت قسم کی گروہ بندی اور باہمی ٹکراؤ تک نوبت آگئی۔
اِس گروہ بندی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے مشہور مالکی عالم یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البرّ (وفات:
دوسرے مذہبی نظاموں کی طرح، اسلام کی مذہبی تعلیمات کے دو حصے ہیں— اساسات (basics)، اور فروع(non-basics) ۔ اِس معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ اسلام کے دورِ اوّل (عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین) میں یہ دونوں قسم کی چیزیں موجود تھیں، لیکن اُس زمانے میں یہ چیزیں گروہ بندی کا سبب نہیں بنیں۔ اختلافات کی بنیاد پر گروہ بندی کا واقعہ بعد کو عباسی دور میں پیش آیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، عباسی دور میں اسلامی علوم کی تدوین ہوئی۔ اس زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر حدیثیں جمع کی گئیں۔ اِن حدیثوں میں دوسری باتوں کے علاوہ، یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اصحابِ رسول کس طرح نماز ادا کرتے تھے۔ اِن روایتوں سے معلوم ہوا کہ نماز کا ایک حصہ وہ ہے جس میں صحابہ کے درمیان کوئی فرق یا اختلاف نہیں پایا جاتا تھا۔ مثلاً ہر صحابی کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے فجر کی نماز دو رکعت پڑھی، ظہر اور عصر کی نماز انھوں نے چار رکعت پڑھی، مغرب کی نماز انھوںنے تین رکعت پڑھی، اور پھر عشا کی نماز انھوں نے چار رکعتوں کے ساتھ پڑھی۔
اِس طرح نماز کا ایک پہلو وہ تھا جس کے بارے میں تمام صحابہ ایک ہی متعین طریقے کے پابند تھے، لیکن اِسی کے ساتھ نماز کے بعض دوسرے پہلوؤں کے بارے میں فرق یا اختلاف پایا جاتا تھا۔ مثلاً کسی نے نماز شروع کرتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ باندھے، اور کسی نے سینے کے نیچے۔ قرأتِ فاتحہ کے بعد کسی نے آمین دھیرے سے کہی، اور کسی نے زور سے۔ نماز کے دوران کسی نے اللہ اکبر کہتے ہوئے رفعِ یَدین کیا، اور کسی نے نہیں کیا، وغیرہ۔
جمعِ حدیث کے دوران جب عبادت کے اختلافات سامنے آئے، تو اب یہ سوال اٹھا کہ اِن اختلافات کی کیا توجیہہ کی جائے۔ اختلافات کو مٹانا ممکن نہ تھا، کیوں کہ یہ اختلافات سب کے سب ، اصحابِ رسول کی طرف سے آرہے تھے، اور اصحابِ رسول وہ لوگ تھے جنھوں نے براہِ راست طورپر پیغمبر کی عبادت کا مشاہدہ کیاتھا۔اُن کو مخاطَب کرتے ہوئے پیغمبر نے کہا تھا: صلّوا کما رأیتمونی أصلّی (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 631/6008) ایسی حالت میں ہر طریقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مستند حیثیت رکھتا تھا۔ بظاہر یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس بنیاد پر ایک طریقے کو لیا جائے اور دوسرے طریقے کو چھوڑ دیا جائے۔
اِس موقع پر مسلم فقہا کی دو رائیں ہوگئیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ: الحق لا یتعدد (تذکرۃ المؤتسی 1/402) یعنی حق کئی نہیں ہوسکتا، اِس لیے ہمیں عملی طورپر یہ کرنا ہوگا کہ ہم یہاں ترجیح (preference) کے اصول کو رائج کریں، یعنی کسی ایک رائے کو راجح قرار دینا، اور دوسری رائے کو مرجوح قرار دے کر اُس کو چھوڑ دینا۔
مگر اِس کے باوجود مسئلہ باقی رہا، کیوں کہ ترجیح کا اصول ہمیشہ اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے اور جہاں اجتہاد آیا، وہاں اختلاف رائے بھی لازماً آئے گا۔ چناں چہ ترجیح کے اِس اصول کا نتیجہ عملی طورپر یہ ہوا کہ لوگوں کے درمیان کئی رائیں بن گئیں۔ ہر ایک نے اپنی رائے کی صحت پر اصرار کیا۔ چناں چہ کسی نے ایک رائے کو ترجیح (preference) دی اور کسی نے دوسری رائے کو، اور اِس طرح لوگ کئی گروہ میں بٹ گئے۔ مختلف فقہی اسکول کے وجود میں آنے کا سبب یہی ہے۔
ترجیح کے اِس اصول پر بحث کرتے ہوئے محمد بن ادریس الشافعی (وفات: 820 ء) نے درست طور پر لکھا ہے کہ : رأیی صواب یحتمل الخطأ، ورأی غیری خطأ یحتمل الصواب (الفتاویٰ الکبریٰ الفقہیۃ 4/313 ) یعنی میری رائے درست ہے، اِس احتمال کے ساتھ کہ وہ غلط ہو۔ اور دوسری کی رائے غلط ہے، اِس احتمال کے ساتھ کہ وہ درست ہو۔
امام شافعی کے اِس قول سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں فقہا کا مسلک کتنا زیادہ غیرمنطقی (illogical) تھا۔ جب ایک رائے کو ترجیح دینے کے بعد بھی اس کی عدم صحت کا احتمال موجود ہے، اور اِسی طرح جب ایک رائے کو ترک کرنے کے باوجود بھی اس کی صحت کا احتمال پایا جائے، تو ایسی ترجیح عملاً سر تاسر بے معنی ہوجاتی ہے۔ اِس کے بعد یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی پُریقین کیفیت کے ساتھ اپنی عبادت کرسکے، جب کہ عبادت کے ساتھ یقین کا عنصر لازمی طورپر ضروری ہے۔
محدثین کا مسلک اِس معاملے میں فقہاکے مسلک سے مختلف تھا، اور بلاشبہہ وہی مسلک زیادہ درست تھا۔ محدثین کے نقطۂ نظر کا اندازہ احمد بن حنبل (وفات:
محدثین کے مسلک کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوںنے روایتوں کے اِس فرق کو تنوع (diversity) پر محمول کیا، یعنی یہ بھی ٹھیک، اور وہ بھی ٹھیک۔ یہ نظریہ انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حدیث سے اخذ کیا: أصحابی کا لنجوم، بأیّہم اقتدیتم، اہتدیتم (کشف الخفاء، جلد 1 ، صفحہ
اِس نقطۂ نظر کی حکمت یہ تھی کہ چیزوں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اُن کے کچھ اساسی اجزا ہوتے ہیں، اور کچھ فروعی اجزا۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ وحدت (oneness) اساسات میں مطلوب ہوتی ہے۔ جہاں تک فروع (non-basics)کاتعلق ہے، اُن میں ہمیشہ تنوع (diversity) ہوتا ہے- یہ ایک عمومی اصول ہے۔ فروع میں اگر تنوع نہ ہوتواُس سے کٹر پن(rigidity) پیدا ہوتا ہے اور کٹر پن کسی بھی چیز کے لیے مفید نہیں۔
مزیدیہ کہ خدا کی عبادت ایک زندہ عمل کا نام ہے۔ وہ کسی بے روح فارم کو دہرانے کا نام نہیں۔ عبادت کو جب اس کی زندہ اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے گا، تو یہی ہوگا کہ عبادت کے بنیاد ی اجزا کی حد تک تو یکسانیت ہوگی، لیکن اس کے فروعی اجزا میں تنوع پیدا ہوجائے گا۔
زندہ عبادت کبھی فروع میں یکسانیت کا تحمل نہیں کرسکتی۔ فروع میں یکسانیت لانے کی کوشش کرنا، عبادت کو بے روح رسموں کا ایک مجموعہ (set of rituals) بنا دینا ہے۔ ایسی عبادت ایک مشینی روبوٹ (robot) کی عبادت ہوگی، نہ کہ کسی زندہ انسان کی عبادت۔ عبادت، اعلیٰ کیفیات کے تحت کیا جانے والا ایک عمل ہے۔ ایسا عمل کبھی یکسانیت کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا۔
اصحابِ رسول کی عبادت کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی عبادت اگرچہ اساسات (basics) کے اعتبار سے یکساں انداز میں ہوتی تھی، لیکن غیر اساسی اجزا کے اعتبار سے، ان کے یہاں ہمیشہ تنوع پایا جاتا تھا۔ اِس قسم کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے جس سے صحابہ کی عبادت کا اندازہ ہوگا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رفاعہ بن رافع الانصاری (وفات:
اِس طرح کے بہت سے واقعات، حدیث کی کتابوں میں رسول اور اصحابِ رسول کے بارے میں آ ئے ہیں۔ اِن واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نماز کسی سیٹ پیٹرن (set pattern) کا نام نہیں، نماز ایک زندہ عمل کا نام ہے۔ کوئی زندہ عمل کبھی لگے بندھے طریقے سے نہیں ہوسکتا۔ زندہ عمل کیفیت سے بھرا ہوا عمل ہوتا ہے، او رکیفت کبھی یکسانیت کی پابند نہیں ہوسکتی۔
اِس سے نماز کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نماز کے بنیادی ڈھانچے میں تو ہمیشہ یکسانیت پائی جائے گی، لیکن نماز کے فروعی اجزا ہمیشہ کیفیات کے تابع ہوتے ہیں۔ فروعی پہلوؤں میں کیفیت کا اظہار کبھی ایک طریقے پر ہوگااور کبھی دوسرے طریقے پر۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادت کو ہر پہلو سے یکساں قسم کے ڈھانچے کا پابند بنانا، عبادت کی اسپرٹ کے بھی خلاف ہے، اور پیغمبراور اصحاب پیغمبر کے نمونے کے بھی خلاف۔
تاریخ بتاتی ہے کہ محدثین کے زمانے میں، یا اُن سے پہلے، مختلف قسم کے فقہی اسکول موجود نہ تھے۔ یہ اسکول بعد کو فقہا کے دور میں بنائے گئے۔ ابتدائی دور میں مختلف فقہی اسکول کا بننا محض ایک سادہ واقعہ معلوم ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے بعد کے زمانے میں، وہ غلو آمیز گروہ بندی کی صورت اختیار کرگیا، جب کہ غلو اسلام میں نہیں (لا غلوَّ فی الإسلام)۔
(نوٹ: مذکورہ موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوراقم الحروف کی کتاب: تجدید ِ دین)
واپس اوپر جائیں
دینی مسائل کے بارے میں اختلاف، امت کے افراد میں ہمیشہ پایا گیا ہے- اِس طرح کے اختلافات کے بارے میں کچھ لوگوں نے شدت اختیار کی ہے اور اس کو حق اور ناحق کا مسئلہ بنادیا- لیکن علماءِ اسلام کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ غیر اساسی امور میں اختلاف فطری چیز ہے- ایسے اختلافات کو حق اور ناحق کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے- مثال کے طورپر مشہور حنبلی عالم عبد اللہ بن محمد قدامہ المقدسی (وفات: 1223ء) نے اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ کے مقدمہ میں اِس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علماءِ امت کا اختلاف ایک رحمتِ واسعہ ہے: اختلافہم رحمة واسعة-
اختلاف کے معاملے کا یہی ایک پہلونہیں ہے کہ اس میں شدت نہ اختیار کی جائے، بلکہ رایوں کے تعدّد کو توسّع پر محمول کرتے ہوئے ہر ایک کا احترام کیا جائے- اِس کے علاوہ، اِس کا ایک مزید مثبت پہلو بھی ہے- اِس معاملے کی طرف ایک روایت میں اشارہ کیا گیاہے: اختلاف أمتی رحمة (تدریب الراوی للسیوطی
اختلاف سادہ طورپر صرف اختلاف نہیں، وہ رائے میں فرق کا نام ہے- اختلاف بند ذہن کو کھولتا ہے- رایوں کا فرق (difference of opinions)لوگوں کے اندر ڈسکشن اور ڈائلاگ کا ماحول پیدا کرتا ہے، وہ فکری ارتقا کا ذریعہ ہے-یہ اختلاف کا صحت مند پہلو ہے - اگر لوگوں میں رائے کا اختلاف نہ ہو تو ایسے گروہ کے اندر ذہنی جمود پیدا ہوجائے گا- اِس کے برعکس، جہاں رائے میں فرق پایا جائے، وہاں ذہنی ارتقا کا سلسلہ جاری رہے گا-
اِس معاملے میں اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر علمی ذوق ہو- اُن کے اندر طلب پائی جائے- وہ کسی تعصب کے بغیر تبادلہ خیال کرنا جانتے ہوں- جن لوگوں کےاندر یہ مزاج ہو، اُن کے لیے اختلاف فکری ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا، وہ لوگوں کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کا باعث بنے گا، نہ کہ ذہنی جمود اور انتشار پیدا کرنے کا سبب-
واپس اوپر جائیں
ارنسٹ شیکلٹن (Ernest Shackleton) ایک برٹش مہم جو تھا- اُس نے قطب جنوبی (Antarctica) کی دریافت کو اپنا مشن بنایا- وہ تین خطرناک مہم (expeditions) کا قائد تھا- آخری مہم جس میں
اُن کا جہاز سمندر میں کسی چٹان سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا- اِس کے بعد شیکلٹن اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایسے مقام پر رہنا پڑا جہاں صرف برف کے تودے تھے، وہاںاس کے علاوہ اورکچھ نہ تھا- یہ ایک ہولناک تجربہ تھا جس کی تفصیل حسب ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
Endurance: Shackleton’s Incredible Voyage (1959) by Alfred Dansing.
شیکلٹن اور اس کے ساتھی 150 دن تک خالص برف کی دنیا میں رہنے کے بعد محفوظ حالت میں اپنے وطن واپس آگئے- یہ ’’معجزہ‘‘ کیسے ہوا- مصنف کے الفاظ میں، اُس کا راز صرف ایک تھا— پارٹی کے اندر یہ امید کہ ان کو جو صورتِ حال پیش آرہی ہے،وہ صرف عارضی ہے:
Underlying the optimism of the party was the confidence that their situation was only temporary.
کامیابی کا یہ فارمولا ایک عمومی فارمولا ہے- جب بھی آپ کو کوئی مصیبت پیش آئے تو آپ صرف یہ کیجئے کہ اپنے ذہن کو یہ بتائیے کہ یہ مصیبت مستقل نہیں ہے، یہ صرف وقتی اور عارضی ہے (It is all but temporary)-اِس کے بعد ہرمصیبت آپ کے لیے آسان ہوجائے گی- سفر ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر ایک کو پیش آتا ہے-
سفر میں کسی کو بھی گھر والی راحت نہیں ملتی، مگر ہر مسافر مطمئن رہتاہے، کیوں کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ ایک عارضی مدت کے بعد وہ بہر حال اپنے گھر پہنچ جائے گا-یہی معاملہ پوری زندگی کا ہے- اپنی زندگی پر اِس فارمولے کو منطبق کیجئے اور پھر کبھی آپ مایوسی کا شکار نہ ہوں گے-
واپس اوپر جائیں
بی بی سی لندن (اردو) کے ویب سائٹ پر 18 دسمبر 2012 کی اشاعت کے تحت ایک رپورٹ آئی ہے- یہ رپورٹ جموں وکشمیر کی تحریک کے بارے میں ہے- اس کا عنوان ہے— ’’عسکری تحریک سے پُرامن جدوجہد تک‘‘-اس رپورٹ کا متعلق حصہ یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’بھارت کے زیر ِ انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کا آغاز کرنے والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) نے اپنے آئین میں تبدیلی کر کے عسکریت پسندی کو اپنے عزائم سے نکال دیا ہے۔ گذشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے جاری بھارت مخالف تحریک کے پس منظر میں اس کو جے کے ایل ایف کی طرف سے ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ تنظیم کے پاکستان کے زیر ِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ جے کے ایل ایف ایک عسکری تحریک تھی- اس سے اس نے خود کو ایک پرامن سیاسی تحریک میں بدلا۔ تو اس حوالے سے آئین میں یہ تبدیلی کی گئی کہ جے کے ایل ایف کے مونوگرام میں بندوق کی علامت ختم کردی گئی اور اس کی جگہ ٹہنی کی علامت شامل کردی گئی ہے۔ ڈاکٹرگیلانی نے کہا کہ اس علامت کو بدلنے کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ کشمیری پرامن حل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں اور اس کے لیے وہ پہلا قدم اٹھا رہے ہیں، تاکہ بھارت، پاکستان اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرایا جائے کہ پرامن ذرائع سے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں۔جے کے ایل ایف کا کہنا ہے کہ تشدد کے ذریعے مقاصد کا حصول اب دنیا کے لیے قابل قبول نہیں رہا اور اقوام عالم کا مسلسل یہ دباؤ رہا کہ بندوق چھوڑ کر پرامن ذرائع اپنائے جائیں۔وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے جے کے ایل ایف کے اہم رہنما اور سابق چیف کمانڈر محمد رفیق ڈار کہتے ہیں کہ مغرب خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ اور مشرق وسطی کے کچھ طاقتور ممالک جو مسئلہ کشمیر میں دلچسپی رکھتے تھے اور جن کا پاکستان اور بھارت سے تعلق ہے، ان کی مسلسل کوشش تھی اور اس کے علاوہ ہندوستان کے اندر ایک دانشور طبقہ، جو انسانی حقوق کا بڑاچیمپیئن ہے، اس کی بھی یہ کوشش تھی کہ امن اور پرامن ذرائع کو ایک موقع دیا جائے۔ خیال رہے کہ آزادکشمیر کی حامی تنظیم جے کے ایل ایف پہلی تنظیم ہے جس نے
جموں وکشمیر کی تحریک 1947 کے بعد شروع ہوئی- ابتدا میں وہ پرامن انداز میں چلائی جارہی تھی- کشمیری لیڈر پرامن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے نہایت زور وشور کے ساتھ اس کو چلاتے رہے- 40 سال سے زیادہ مدت تک اِس ’’پرامن‘‘ تحریک کو ناکام طور پر جاری رکھنے کے بعد کشمیر میں نئی لیڈر شپ ابھری- انھوں نے دوسرا آپشن لیا- نئی لیڈر شپ نے 1988سے کشمیر کی تحریک کو تشدد کی بنیاد پر چلانا شروع کردیا، لیکن کشمیر کا یہ دوسرا دور بھی اپنے نتیجے کے اعتبار سے، مکمل طور پر ناکام رہا- بے حساب جانی اور مالی نقصان کے باوجود اِس دوسرے دور میں بھی یہ ہوا کہ کشمیری اپنے مطلوب مقصد کو حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہے،جب کہ اِس پرتشدد جدوجہد میں پاکستان پوری طرح ان کا مددگار بن گیا تھا-
کشمیر کی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ کشمیری لیڈر دونوں میدانوں میں مکمل طورپر شکست کھا چکے ہیں، پرامن میدان میں بھی اور عسکریت کے میدان میں بھی- اب اصل مسئلہ کسی تیسرے آپشن کی تلاش کا ہے، نہ کہ ناکام عسکری طریق کار سے، ناکام پرامن طریقِ کار کی طرف دوبارہ لوٹنے کا- کشمیری لیڈروں کی مذکورہ ’’تبدیلی‘‘ خوب صورت الفاظ میں صرف ہلاکت کی توسیع ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں-یہ نام نہاد تبدیلی صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ کشمیری لیڈر جس طرح پہلے دانش مندانہ سوچ سے محروم تھے، اُسی طرح اب بھی وہ دانش مندانہ سوچ سے محروم ہیں-
کشمیریوں کے لیے تیسرا قابل عمل آپشن کیا ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے اسٹیٹس کوازم (statusquoism)، یعنی موجود صورتِ حال کو على حالہ قبول کرلینا اور اپنی تمام کوششوں کو تعمیر و ترقی کے کام میں لگا دینا- اب کشمیریوں کے لیے جو دانش مندانہ راستہ ہے، وہ صرف یہی ہے- یہ تیسرا ممکن راستہ ایک لفظ میں — پرامن تعمیر ہے، نہ کہ صورتِ حال کو بدلنے کے نام پر مفروضہ قسم کی پرامن جدوجہد،جو کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، نہ پر امن ہے اور نہ جدوجہد-
کشمیریوں کے لیے نیا آغاز صرف یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کی غلطی کا کھلا اعتراف کریں اور نئے ذہن کے ساتھ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کا منصوبہ بنائیں-
واپس اوپر جائیں
ایک شخص کا قول ہے کہ زندگی میں کوئی موقع (chance) صرف تین بار آتا ہے، چوتھی بار نہیں — بابری مسجد کے مسئلے پر یہ قول پوری طرح صادق آتا ہے- بابری مسجد کے معاملے میں مسلمان تین موقع کھو چکے ہیں، اب چوتھا موقع اُنھیں ملنے والا نہیں-
بابری مسجد کو بے مسئلہ مسجد بنانے کا پہلا موقع وہ تھا جب کہ بابر کے گورنر میر باقی نے 1528 عیسوی میں ایودھیا میں مسجد کی تعمیر کرائی- اُس مقام پر بابری مسجد سے پہلے ہندوؤںکا ایک مقدس اسٹرکچر تھا، جس کو وہ رام چبوترہ یا رام مندر کہتے تھے- میر باقی نے یہ کیا کہ رام چبوترہ کو مسجد کے صحن سے ملا کر مسجد کی تعمیر کروائی- یہ اِس معاملے میں پہلے موقع کو کھونا تھا، کیوں کہ خلیفہ عمر فاروق کے مقرر کردہ ایک اصول کے مطابق، دو عبادت خانوں کو’رمیة حجر‘ (stone's throw) کی دوری پر ہونا چاہیے، لیکن میر باقی نے اِس اصول پر عمل نہ کرکے اول دن سے بابری مسجد کو ایک نزاعی مسجد بنا دیا-
اِس معاملے میں دوسرا موقع وہ تھا جب کہ 1949 میں کچھ ہندوؤں نے بابری مسجد کے اندر تین بت رکھ دئے- اُس وقت مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ اِس معاملے کو عدالت تک محدود رکھیں، لیکن مسلم لیڈر اِس مسئلے کو سڑکوں پر لے آئے- اِس طرح مسلم لیڈروں نے دوسرے موقع کو کھودیا، کیوں کہ سڑک پر آنے کے بعد مسئلہ صرف مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے، وہ کبھی حل نہیں ہوتا-
تیسرا موقع وہ تھا جب کہ 1991 میں اُس وقت کی یوپی گورنمنٹ نے یہ پیش کش کی کہ مسلمان اگر مسجد کو ری لوکیٹ (re-locate) کرنے پر راضی ہوں تو وہ مسجد کے لیے مسلمانوں کی پسند کے مطابق، ایک متبادل جگہ اُن کو دینے کے لیے تیار ہے- لیکن مسلمانوں نے اِس پیش کش کو رد کرکے اس تیسرے موقع کو بھی کھودیا-
اِس کے بعد 6دسمبر 1992کو مسجد ڈھا دی گئی- اب بابری مسجد کی تعمیر ثانی کی تحریک چلانا گویا چوتھے موقع کو تلاش کرنا ہے جو کہ سرے سے ملنے والا ہی نہیں- (6 دسمبر 2012)
واپس اوپر جائیں
سوال
آپ نے ’’دابہ‘‘ سے متعلق مختلف رائیں دی ہیں- مثلاً تذکیر القرآن میں دابہ سے آپ نے ’’غیر انسانی مخلوق‘‘ مراد لیا ہے- الرسالہ جون 2007 کے شمارہ میں آپ نے دابہ سے ملٹی میڈیا مراد لیا ہے- الرسالہ مئی2010 میں آپ نے دابہ سے ’’ایک انسان‘‘مراد لیا ہے- الرسالہ (جنوری 2013) میں آپ نے دابہ سے کشتی نوح مراد لیا ہے-بر اہِ کرم، اس سوال کی وضاحت فرمائیں- (محمد عبد اللہ، کلکتہ)
جواب
دابہ کے بارے میں اِس سے پہلے میں نے جو کچھ لکھا، وہ بھی قیاس پر مبنی تھا اور الرسالہ جنوری 2013 میں جو بات آپ نے پڑھی، وہ بھی قیاس پر مبنی ہے- تاہم الرسالہ جنوری 2013 میں دابہ کے متعلق جو رائے میں نے دی ہے، وہی میرا آخری قیاس ہے- پہلے قیاس کو اب میں اپنے فکری سفر کا ایک تاریخی حصہ سمجھتاہوں- اِس طرح کا معاملہ صرف میرےساتھ خاص نہیں، اہلِ علم کے ساتھ ہمیشہ اِس طرح کا معاملہ پیش آتا رہاہے-
سوال
میں 1981 سے الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں- الحمد للہ اِس دوران میں نے خود بھی الرسالہ سے ذاتی طورپر فائدہ اٹھایا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی جانب متوجہ کیا ہے- ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کرکے الرسالہ مشن کالٹریچر منگوا کر پڑھے لکھے لوگوں کو مطالعہ کے لئے فراہم کرتا ہوں- الرسالہ کے مطالعہ سے میں نے جو باتیں سیکھی ہیں، وہ مختصر طورپردرج ذیل ہیں-
(1) مثبت سوچ اور مثبت پہلو کامیابی کا راز ہے اور منفی سوچ اور منفی طرز عمل ہلاکت وبربادی کا راستہ ہے- (2) انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے- حقیقت پسندی زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتی ہے- (3) انسان کو امن پسند ہونا چاہئے- (4)آپ نے نئی نسل کی تربیت کے سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے، وہ اِس پُرفتن دور میں مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے- (5) آپ نے موجودہ دور میں مایوسی کے شکار نوجوانوں کو زندگی کا جو مثبت پیغام دیا ہے، وہ بہت قیمتی ہے- اگر آج کل کے نوجوان آپ کی اِن تحریروں کی رہنمائی میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کامیابی انھیں حاصل نہ ہو- (6) آپ نے خاص طورپر خواتین کو سادگی اور قناعت پسندی اختیار کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے- فیشن پرستی اور صارفیت (consumerism)کے سیلاب میں بہنے والی خواتین اگر اِن باتوں کی طرف متوجہ ہوں تو سماج سے فتنہ وفساد کا خاتمہ ہوسکتا ہے- (نثار اختر، ابوالکلام آزاد لائبریری، دربھنگہ، بہار)
جواب
ماہ نامہ الرسالہ کے بارے میں آپ کا تاثر قابلِ قدر ہے- اللہ تعالی مزید ترقی عطا فرمائے- میرے تجربے کے مطابق، الرسالہ کے قاری (readers) تین قسم کے ہیں:
1- ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جو الرسالہ کو صرف ادب یا معلومات کے لیے پڑھتے ہیں- اُن کو الرسالہ میں ایک ادبی چاشنی ملتی ہے یا الرسالہ سے اُن کو نئی نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں، اِس لیے وہ دلچسپی کے ساتھ الرسالہ کو پڑھتے ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جو الرسالہ کو محض انٹرسٹ ریڈنگ (interest reading) کے ایک آئٹم کے طورپر لیتے ہیں- ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ نہ الرسالہ کو جانتے ہیں اور نہ خود اپنے آپ کو، حتی کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ بحیثیت انسان ان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ کیا ہے- ایسے لوگ ہمارے نزدیک، الرسالہ کے قاری نہیں ہیں- اُن کو الرسالہ سے وقتی تفریح کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں-
2- الرسالہ کے قاریوںکی دوسری قسم وہ ہے جو الرسالہ سے وہ چیز لیتے ہیں جس کو ’’رازِ حیات‘‘ کہاجاسکتا ہے، یعنی دنیا میں زندگی گزارنے کا تعمیری طریقہ- ایسے لوگ الرسالہ کے قاری ہیں، مگر وہ اس کے قاری نہیں، یعنی انھوں نے الرسالہ سے صرف اس کا قِشر پایا، مگر انھوں نے الرسالہ کا مغز نہیں پایا-انھوں نے بطور خود جو عملی زندگی اختیار کررکھی ہے، اُس کے حق میں انھیں الرسالہ میں کچھ مفید مواد مل جاتا ہے، اِسی کو وہ کافی سمجھتے ہیں- ایسے لوگ الرسالہ کے صرف جزئی قاری ہیں، وہ حقیقی معنوں میں الرسالہ کے قاری نہیں- ایسے کو الرسالہ کا قدر داں کہاجاسکتا ہے، لیکن ان کو الرسالہ شناس نہیںکہاجاسکتا-
3- الرسالہ کا حقیقی قاری وہ ہے جو خالی الذہن (empty mind) ہو کر الرسالہ کو پڑھے، جو الرسالہ میں خدائی حکمت (divine wisdom) کو دریافت کرسکے- اِسی خدائی حکمت کا دوسرا نام معرفت یا ربانیت ہے- ایسے لوگوں کے لیے الرسالہ ذہنی ارتقا اور روحانی بلندی کا ذریعہ بن جائے گا، وہ الرسالہ میں وہ چیز پانے لگیں گے جس کو قرآن میں، رزقِ رب (
واپس اوپر جائیں
1- نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 2 اکتوبر 2012 کو وینو آئی سنٹر (Venu Eye Centre) کی طرف سے آنکھوں کی صحت کے موضوع پر ایک آل انڈیا پروگرام ہوا- یہاں طلبا کے علاوہ، آنکھ کے مشہور ماہرین موجود تھے- سی پی ایس کی دعوہ فیلڈ ٹیم (DFT) کے کچھ ممبران نے اِس میں شرکت کی اور حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا-واضح ہو کہ انڈیا اور انڈیا سے باہر کے تمام ممبران دعوتی میٹریل بطور خود خرید کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں-
2- فرینکفرٹ (جرمنی) میں
“I lived in Dubai for 15 years, but I never saw Quran there.”
“I was impressed by the peaceful meaning of Jihad in the Introduction of the Quran. It is better to read this original sources, rather than knowing from the media”.
3- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف امریکا میں ایک متنازع فلم بنی جس کے بعد برمنگھم کے مسلمانوں نے ایک میٹنگ کی- اس میٹنگ میں مقامی مسلمانوں نے یہ طے کیا کہ وہ متنازع فلم ’’انوسنس آف مسلمس‘‘ کے خلاف احتجاج کریں گے- شمشاد محمد خان صاحب (IPCI)نے کہا کہ احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں- اگر کچھ کرنا ہے تو آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات پر مشتمل ایک پمفلٹ تیار کرکے اُس کو لوگوں کے درمیان تقسیم کریں- مقامی لوگوں نے اِس رائے کو پسند کیا- چناں چہ برطانیہ میں 5 لاکھ پمفلٹس تقسیم کئے گئے- برطانیہ کے مقامی لوگوں نے اس کو شوق سے لیا اور اِس طریقے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا-
4- سہارن پور (یوپی) میں
5- نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) کی طرف سے روزنامہ راشٹریہ سہارا ، اردو میں
6- سہارن پور کے جے وی جین ڈگری کالج میں
7- نیشنل بک ٹرسٹ (NBT) کی طرف سے
8- • Hyderbad hosted one International convention on Biodiversity (CBD) that was marked by the visit of prime minister Manmohan Singh and several other scholars, academician from world over. This convention was held from 1st till 19th Oct, 2012 and is known as 11th Conference of Parties Convention on Biological Diversity. Hyderabad dawah team took this as an opportunity to reach out to people for Dawah work. We prepared one page document to be distributed in the Fair with the help of internet and Maulana's Book. We went into the Exhibition Hall and distributed it along with. The reality of Life, The Creation Plan of God , & The Quran. They welcomed us warmly. (Hyderabad Dawah team)
9- • Maulana Wahiduddin Khan participated in the World Economic Forum on India 2012, held in Gurgaon, from 6 to 8 November. He shared his views on‘The New Collaborative Space: Future Scenarios for Civil Society, Business and Government Engagement in India.’ The Centre for Peace and Spirituality International team distributed Quran and Maulana's book, The Prophet of Peace, to the delegates.
10- • On November 18, 2012, CPS International members distributed Quran at a book launch in IIC, New Delhi. They gave Quran to personalities such as the Chief Minister of Delhi, Sheila Dikshit, the American Ambassador to India, Nancy Jo Powell, the president of the India International Centre, Soli J. Sorabjee, Member of Parliament N. K. Singh, president of the Indian Liberal Group, Meera Sanyal, Isher Judge Ahluwalia, and economist Jagdish Natwarlal Bhagwati.
18- پونہ (مہاراشٹر) کے گنیش کلا کریڈا منچ میں7نومبرسے
19 - علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں
20- الٰہ آباد (یوپی) کے جی جی آئی سی گراؤنڈ (سول لائن) میں
آپ سب الرسالہ مشن کے ساتھی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے جو اسلام رسول اللہﷺ سے اخذ کیا ہے، اس کے صرف تین نقطے ہیں۔ ایک ہےتوحید کی اعلیٰ معرفت، دوسرا ہے فکر آخرت اور تیسرا ہے رسول اللہ ﷺ کا سچا اتباع۔ یہی الرسالہ مشن کا نصب العین ہے۔ اس لئے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ الرسالہ مشن موجودہ دور میں رسول اور اصحاب رسول کی تبعیت میں چلنے والا واحد دعوتی مشن ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق، اس مشن کا ساتھ دیں۔ یہ ایک بے حد سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس معاملہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے کا کوئی تیسرا راستہ نہیں ، کیوں کہ خدا مسلمانوں کو’’ شہادت علی الناس‘‘ کے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے-کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ الرسالہ مسئلہ کشمیر سے انکار کرتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ لوگ جب قومی اور وطنی ذہن سے دیکھتے ہیں تو انھیں مسئلہ کشمیر نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ بحیثیت داعی حق خدا کے تخلیقی منصوبہ کی روشنی میں دیکھیں تو انھیں صرف مسئلہ آخرت دکھائی دے گا جو کہ ہر انسان کا اصل مسئلہ ہے ۔ الرسالہ جیسے بے آمیز مشن کو قبول کرنا ہمیشہ انسانوں کے لئے مشکل ترین کام رہا ہے، کیوںکہ اس راہ میں ہمیشہ انسانوں کی نفس پرستی، دنیا طلبی اور شیطان کی فریب کاریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ موجودہ دور میں الرسالہ مشن کو تاریخ میں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،کیوںکہ اس کی زد ہر خود ساختہ اور بناوٹی اسلام پر پڑتی تھی۔ الرسالہ مشن نے اسلام پر پڑے ہوئے مصنوعی پردوں کو ہٹا کر اس کو اس کی اصل اور ابتدائی صورت میں پیش کیا۔ اس قسم کے مشن کا ساتھ دینے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو زندہ فطرت والے ہوں، جو دلائل کی عظمت کو محسوس کرتے ہوں اور جو سچائی کی تلاش اور اس کے استقبال کے انتظار میں رہتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی تعداد ہمیشہ بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن اسی قسم کی نادر روحیں انسانیت کا حاصل ہیں۔ اُن کی قدر و قیمت خدا اور اس کے فرشتوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ میں آپ کی خدمت میں مولانا وحید الدین خاں کے دو تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم الرسالہ مشن کے ساتھی خود کو دیکھ سکتے ہیں۔اپنی ڈائری میں مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’دو احساسات ہروقت غم کا پہاڑ بن کر میرے اوپر چھائے رہتے ہیں۔ ایک دعوتِ دین اور اصلاحِ امت کی ذمہ دار ی، دوسرے آخرت کی جواب دہی کامسئلہ —ان دو غموں کے نیچے میری شخصیت گویا کچل کر رہ گئی ہے۔ کتنا جینے کی ضرورت ہے اور حال یہ ہے کہ ایک لمحہ بھی جینے کی طاقت نہیں ۔ اِسی طرح آخرت کی دنیا میں لازمی طورپر داخل ہونا ہے اور آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کی ذرابھی ہمت نہیں ‘‘- اسی طرح اپریل 2000میں سہارن پور کے ایک سفر کے دوران ایک صاحب نے مولانا سے کہا کہ میں آپ کی تحریریں برابر پڑھتا رہاہوں اور ان کو پسند کرتا ہو ں، مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے بعد کون ؟ مولانا نے جواب میں کہا کہ اکثر لوگ اس طرح کے سوال کرتے ہیں، مگر میں تو یہ سوچتا ہوں کہ میری موجودگی میں کون؟میری دعوتی جدوجہد تقریباً پچاس سال کی مدت تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس راہ میں ،میں نے اپنا خون خشک کیا، میری شخصیت ویران ہوگئی، میرے دن اور رات کا سکون چھن گیا، مگر اب بھی ہر طرف وہی حال نظر آتا ہے جس کی مثال انجیل میں ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ — ہم نے بانسری بجائی، مگر تم نے رقص نہیں کیا،ہم نے ماتم کیا، مگر تم نہیں روئے۔
محترم ساتھیو،الرسالہ کا دعوتی مشن ہماری صلاحیتوں اور اثاثوں کا بہترین مصرف ہے۔ اسی سے ہم اپنے خالق کی رضا اور خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں من أنصاری إلی اللہ کے جواب میں نحن أنصاراللہ کہنے کی سچی توفیق عطا فرمائے۔ (نذیر الاسلام ،پلوامہ، کشمیر)
مولانا محترم، بنا تعارف آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی توفیق بر اہِ راست اللہ تعالی نے نصیب فرمائی- اِس سعادت کے لیے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں، وہ کم ہے- بندہ تقریباً
• I attended two days Kashmir Dawah Meet held in New Delhi. Infact, I experienced anda learnt a lot from da’ees of islam. The lectures of Maulana Wahiduddin Khan and the tips given and experiences shared especially with Dawah Field Team, CPS (DFT) boosted me a lot and gave enthusiasm to work for dawah in future. Infact, this annual conference is of great importance for da’ees of the mission. (M Ismail Bhat, Kashmir)
• The entire Kashmir Dawah meet was such an inspiration that I feel I am re-born with a renewed understanding of my purpose in life. I was listening to the whole program. Everyone spoke from their heart for it reached our hearts. This is a sure sign of speaking from the heart. (Fathima Sarah, Centre for peace Bangalore)
Ist World Parliament on Spirituality
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے انگریزی زبان میں موضوع پر ایک اسپیچ دی- اِس کے علاوہ، کانفرنس کے لیے ایک پیپر (Global Spirituality Awakening)روانہ کیا گیا، جو کانفرنس کے شرکا کے درمیان تقسیم کیاگیا- یہ دونوں چیزیں سی پی ایس کے ویب سائٹ پر موجود ہیں-
30- بنگلور کے پیلیس گراؤنڈس ، مہکری سرکل (گائتری وہار) میں
The Muslim 500: The World's 500 Most Influencial Muslims-2012
کتاب میں اسکالرس کی کٹیگری میں صدراسلامی مرکز کا نام حسب ذیل الفاظ میں شامل ;کیا گیا ہے:
Wahiduddin Khan is an Islamic scholar who strongly advocates peace, interfaith, and coexistence. He is the author of over 200 books including a translation and commentary of the Qur’an into simple English. He is also the co-founder,along with his son, Dr. Saniyasnain Khan, of the popular publisher of children’s book – ‘Goodword’. (page 111)
I just want to say I enjoyed reading your opening statement in Quran I got from a booth at a local festival of where I live. I plan to keep reading the Quran and learn its teachings. I'm in search of peace in my life and find Islam to be a very peaceful religion. Thank you. (Walden Corpuz, USA)
There are some people who are regular readers of Al-Risala in the tribal areas also. These areas need the peace material very much. Al-risala copies and Maulana Sahib's books are regularly being distributed there. There are some Afghan nationals who are working here in Peshawar . (M. Salman, Pakistan)
Dear Maulana Wahiduddin Khan, I have read every bit of your published writings. Also, I have listened to your recorded speeches to a greate extent and I am still listening to them everyday. I would say at this point, Allah being my witness, that you have done your job of explaining the mission of Islam to us to the fullest extent. You have made it fully comprehensible to us. You have cleansed our hearts of negativity and taught us to love humanity, the supreme concern of Allah. Now it is our duty to take this message to the people all over the world. Therefore, Maulana, I and also on behalf of USA and Canadian team declare our oath of allegiance to you and to your mission that we will dedicate ourselves to spread Allah's message under Al Risala Mission until our last breath no matter what may come. May Allah and His angels be witness to this. (Khaja Kaleemuddin, Pennsylvania - USA)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.