قرآن کی سورہ النحل میں ارشاد ہوا ہے: من عمل صالحاً من ذکر أو أنثى وہو مؤمن فلنحیینّہ حیاة طیبة، ولنجزینہم أجرہم بأحسن ما کانوا یعملون (
قرآن کی اِس آیت کے تین حصے ہیں— پہلے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ غور وفکر کے ذریعے ایمان باللہ تک پہنچے اور پھر اس کے مطابق، وہ عملِ صالح کا طریقہ اختیار کرے، ایسا شخص گویا اللہ کی رحمت کے سایے میں آگیا، وہ اللہ کے مطلوب بندوں میں شامل ہوگیا-
دوسری بات ہے ایسے شخص کو ’حیاتِ طیبہ‘ کا ملنا- اِس حیات طیبہ کا تعلق موجودہ دنیا سے ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دے، تو اُس کے بعد وہ اللہ کی نصرت کا مستحق بن جاتا ہے، اُس پر فرشتے اترتے ہیں، زندگی کے ہر موڑ پر اس کو وہ مدد ملتی رہتی ہے جس سے اس کے اندر ثابت قدمی پیدا ہو، وہ صحیح اور غلط میں فرق کرتے ہوئے اپنے لیے صحیح کا انتخاب کرے، اللہ کی توفیق سے اس کے اندر وہ شعور پیدا ہوجاتا ہے جو اس کو ہر انحراف (deviation) سے بچائے، اِس طرح وہ اپنے اندر اُس شخصیت (personality) کی تعمیر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو اس کو اللہ کے مطلوب بندوں کی فہرست میں شامل کردے -
آیت کے آخری حصے میں، اجر ملنے سے مراد، آخرت کا اجر ہے- ایسے افراد آخرت کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلے کے مستحق قرار دئے جائیں گے-
ان کے اوپر اللہ کا مزید احسان یہ ہوگا کہ آخرت میں ان کو جو بدلہ دیاجائے گا، وہ اُن کے اعمال کے بہتر حصہ (احسنِ عمل) کی نسبت سے دیاجا ئے گا-
واپس اوپر جائیں
سورہ آل عمران قرآن کی ایک طویل سورہ ہے- اس کی آیات 130-200 غزوہ احد (3ہجری) کے بعد نازل ہوئیں- غزوہ احد میں 70 صحابہ شہید ہوئے- اِس موقع پر قرآن کا جو حصہ اترا، اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: إن یمسسکم قرح فقد مسّ القوم قرح مثلہ، وتلک الأیام نداولہا بین الناس، ولیعلم اللہ الذین آمنوا ویتخذ منکم شہداء، واللہ لا یحب الظالمین (
قرآن کی اِس آیت میں اصلاً شہید سے مراد مقتول نہیں ہے، بلکہ شہید سے مراد گواہ (witness) ہے- قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں جب تمام انسان اکھٹا کئے جائیں گے اور لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا- اُس وقت کچھ لوگ اللہ کے گواہ کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے- اِس گواہی کے دوپہلو ہیں — نظری گواہی، اور عملی گواہی- نظری گواہی سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے سے آگاہ کردیا جائے- اور عملی گواہی سے مراد یہ ہے کہ زندگی میں اِس حقیقت کا عملی مظاہرہ کیا جائے کہ دنیا میں یہ پوری طرح ممکن تھاکہ ایک شخص اللہ کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم کا پیرو بن سکے- قرآن میں اصحابِ اعراف (
واپس اوپر جائیں
بائبل (پرانا عہد نامہ) میں ایک اسرائیلی نبی حبقّوق کی زبان سے مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی درج ہے- حبقوق، یہود کی جلاوطنی (
He stood and measured the earth. He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered, the perpetual hills bowed. His ways are everlasting. (Habakkuk 3: 6)
بائبل کی اِس پیشین گوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں ایک عظیم انقلاب پیش آئے گا- اِس انقلاب کا قائد ایک شخص ہوگا- مگر بائبل کے شارحین یہ نہ بتاسکے کہ اِس عظیم انقلاب سے مراد کون سا واقعہ ہے-
لیکن بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِس سے مراد وہی انقلاب ہے جو بعد کو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا- کوئی بھی دوسرا واقعہ ایسا نہیں جو حقیقی طورپر اِس طور پر اس پیشین گوئی کا مصداق بن سکے-
حبقّوق نبی نےجس وقت یہ پیشین گوئی کی، اُس وقت ایشیا اور افریقہ کے علاقے میں دو بڑی سلطنتیں (empires) قائم تھیں — بازنتینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر-
یہ دونوں سلطنتیں قدیم طرز کی جابرانہ بادشاہت کی سب سے بڑی نمائندہ تھیں- لمبی مدت کے نتیجے میں وہ بہت زیادہ مستحکم ہوچکی تھیں- اِن سلطنتوں نے آزادی اور ترقی کا دروازہ انسان کے اوپر بند کررکھا تھا- یہی وہ سلطنتیں تھیں جن کو بائبل میں ’’ازلی پہاڑ‘‘ کہاگیا ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے اِن سیاسی پہاڑوں کو توڑ دیا اور اِس طرح دنیا میں آزادی اور ترقی کا دور آیا، وہ دراصل اُسی انقلابی عمل کا نقطہ انتہا (culmination)تھا جو ساتویں صدی عیسوی اور آٹھویں صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تحت برپا ہوا تھا — یہی وہ انقلابی واقعہ ہے جس کو بائبل میں حبقّوق نبی نے تمثیل کی زبان میں بیان کیا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلابی رول اتنا زیادہ واضح ہے کہ سیکولر مورخین نے بھی کھلے لفظوں میں اس کا اعتراف کیا ہے- اس کی ایک مثال امریکی مورخ چارلس (Charles Issawi) ہیں، جن کی وفات 2000 میں ہوئی-
مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977) نے اپنی انگریزی تفسیر قرآن میں سورہ الانشراح کی تفسیر کے تحت اِس سلسلے میں چارلس اساوی کا ایک قول اِس طرح نقل کیا ہے کہ — یہ کہنا کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ اگر کسی ایک شخص نے تاریخ کے کورس کو بدلا ہے، تو وہ انسان محمد تھے:
It does not seem too much to say that if any one man changed the course of history that man was Muhammad. (The Muslim World, Hartford, April 1950, p.
یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا طویل زمانہ بادشاہت (kingship) کا زمانہ تھا- اِس بادشاہت کے تحت ساری دنیا میں جبری نظام قائم تھا- انسان کو آزادانہ سوچ اور آزادانہ تحقیق کا اختیار حاصل نہ تھا- اِسی کا نتیجہ تھا کہ ہزاروں سال سے علمی ترقی کا دروازہ انسان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا- ہر قسم کی ترقی آزادانہ سوچ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اور قدیم بادشاہی نظام میں یہ آزادانہ سوچ سرے سے موجود نہ تھی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی قربانیوں کے نتیجے میں قدیم بادشاہت کے تحت قائم شدہ جبری نظام ختم ہوا- اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ دنیا میں آزادی آئے اور انسانی قافلہ ترقیات کے دور میں پہنچے-
واپس اوپر جائیں
انسان ایک سوچنے والا حیوان (thinking animal) ہے- انسان کی تمام سرگرمیاں سوچ سے کنٹرول ہوتی ہیں- کہاجاتا ہے کہ انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی وہ بن جاتا ہے-سوچنے کی اس فیکلٹی (faculty) کو ذہن (mind) کہاجاتا ہے- ذہن کے لئے قرآن میں حسب ذیل الفاظ آئے ہیں — عقل، لُب، فواد، حِجر، نُہىٰ اور قلب-
قلب کو عام طورپر دل کے ہم معنى سمجھا جاتا ہے، مگر اسی کے ساتھ قلب کا لفظ عقل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے-عربی زبان کے مشہور لغت لسان العرب میں قلب کی تشریح کے تحت یہ الفاظ آئے ہیں: وقد یُعبربالقلب عن العقل- قال الفراء فی قولہ تعالى: إن فی ذلک لذکرى لمن کان لہ قلب، أی: عقل- قال الفراء: وجائز فی العربیة أن تقول: مالک قلب، وما قلبک معک- تقول: ما عقلک معک، وأین ذہب قلبک- أی: أین ذہب عقلک- (لسان العرب، 1/687)
یعنی قلب کو عقل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے- فرا نحوی نے کہا ہے کہ قرآن کی آیت: إن فی ذلک لذکرى لمن کان لہ قلب (
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے بڑی چیز ذہن (mind) ہے، قلب کا لفظ اور عقل کا لفظ دونوں اِس معنی میں استعمال ہوتے ہیں- فرق صرف یہ ہے کہ عقل کے لفظ کو لفظی طور پر ذہن کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، اور قلب کا لفظ ادبی استعمال کے لحاظ سے ذہن کے معنی میں بولا جاتا ہے-
موجودہ زمانے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قلب صرف حرکتِ خون کا مرکز ہے اور سوچنے کا مرکز صرف دماغ ہے، لیکن ادبی استعمال کی بنا پر اب بھی، ہول مائنڈڈلی (wholemindedly) نہیں بولا جاتا، بلکہ ہول ہارٹڈلی (wholeheartedly) بولاجاتا ہے- یہی طریقہ ہر زبان میں رائج ہے-
قرآن کا موضوع علمِ تشریح الاعضا (anatomy) نہیں ہے، بلکہ قرآن کا موضوع انسان کی ہدایت ہے- ہدایت کا تعلق کامل طورپر تعقل اور تفقہ سے ہے- ایسی حالت میں قرآن میں جہاں بھی قلب کا لفظ آئے گا، تو قرآن کے موضوع کی بناپر اُس کو عقل کے معنی میں لیا جائے گا-
قلب کا لفظ جب دو معنی میں آتا ہے — ایک، معروف طورپر دل کے معنی میں اور دوسرے، عقل کے معنی میں، تو ایسی حالت میں قرآن میں قلب کا مفہوم قرآن کے موضوع کی نسبت سے متعین ہوگا- قلب بمعنی دل، قرآن میں قابلِ انطباق (applicable) نہیں ہوگا، بلکہ قرآن میں قلب بمعنی عقل ہی قابلِ انطباق قرار پائے گا-
یہ اصول، بلاغت کا ایک مسلّم اصول ہے، اور یہ قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے قابلِ انطباق ہے- مثلاً ایک کتاب جو علم تشریح الاعضا (anatomy) پر لکھی گئی ہو، اُس میں اگر کہیں قلب (heart) کا لفظ آتا ہے تو وہاں قلب کے لفظ کو عقل (mind)کے معنی میں نہیں لیا جائے گا، بلکہ دل کے معنی میں لیا جائے گا- اس کے برعکس، جب قرآن میں قلب کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کو عقل (mind) کے معنی میں لیاجائے گا- علمِ تشریح الاعضا کے موضوع پر لکھی جانے والی کتاب میں قلب کامفہوم اس کے موضوع کی نسبت سے متعین ہوتا ہے- اِسی طرح قرآن میں اگر قلب کا لفظ کسی آیت میں آئے تو یہاں قلب کا مفہوم قرآن کے موضوع کی نسبت سے متعین ہوگا، یعنی اِس کو عقل کے معنی میں لیا جائے گا- یہ بلاغت کا ایک معروف اصول ہے-
ہر زبان میں ایسا ہے کہ اکثر کسی لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں- یہ معنی سیاق (context) سے متعین ہوتا ہے- مثلاً عربی زبان کا ایک لفظ دین ہے، جس کے کئی معنی ہوتے ہیں- مثلاً مالک یوم الدین(
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ یونس میں ارشاد ہوا ہے: ربنا لا تجعلنا فتنةً للقوم الظالمین (
ایک اسلوبِ کلام یہ ہے کہ بظاہر مخاطب کوئی اور ہوتا ہے، لیکن اصل مقصود کوئی دوسرا ہوتا ہے- مثلاً عربی میں کہاجاتا ہے: لا یضربنک زید- اِس جملے کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زید تم کو ہرگز نہ مارے، مگر اِس کا اصل مطلب زید کو مارنے سے منع کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل خطاب آدمی کی اپنی ذات ہے، یعنی تم اپنے کسی عمل سے زید کو یہ موقع نہ دو کہ وہ تم کو مارے-
قرآن میں اِس اسلوب کی ایک مثال یہ آیت ہے: فلاینازعنّک فی الأمر (
یہی اسلوب قرآن کی مذکورہ آیت میں ہے- بظاہر آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ظالم لوگ ہم کو ہدفِ فتنہ نہ بنائیں، مگر اِس دعائیہ کلام کا اصل خطاب خود اہلِ ایمان سے ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ، تو ہم کو اِس سے بچا کہ ہم کوئی ایسا فعل کریں جو ہمارے مخالفین کو یہ موقع دے دے کہ وہ ہم کو اپنے ظلم کا تختہ مشق بنائیں-
دوسرے لفظوں میں، یہ کہ مذکورہ آیت میں اہلِ ایمان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہر گز کوئی ایسا فعل نہ کریں جو اُن کے مخالفین کے لیے اُن کے خلاف ظالمانہ کارروائی کا مبرّر (justification) بن جائے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ مصری حکومت نے 1956 میں سوئز کمپنی سے پٹہ (lease) کو یک طرفہ طورپر قبل ازوقت منسوخ کردیا- اِس منسوخی نے فریقِ ثانی کو یہ مبرّر دے دیا کہ وہ 1967 میں مصر پر تباہ کن حملہ کردے-
واپس اوپر جائیں
مسٹر ساجد انور انجینئر (رڑکی، اتراکھنڈ) اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں- انھوں نے ایک مجلس میں یہ بات کہی کہ مسلمانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ قرآن کے ترجمے کو غیر مسلموں تک پہنچائیں، تاکہ وہ قرآن کے پیغام سے واقف ہوسکیں- اِس مجلس میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان موجودتھے- انھوں نے اِس پر اعتراض کرتےہوئے کہاکہ— اگر ایک شخص کسی غیر مسلم کو قرآن کا ترجمہ دیتاہے اور وہ اس کو پھاڑ کر کوڑے دان میں ڈال دیتا ہے تو کون اس کے لیے گناہ گار ہوگا:
If one gives a copy of the Quran to a non-Muslim, and he tears it apart and puts it into a dustbin, then who would be a sinner?
اُس وقت مجلس میں ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان ڈاکٹر عندلیب طارق موجود تھے- انھوں نے اِس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں کچھ غیر مسلم حکمرانوں کے نام دعوتی مکتوب روانہ کیے تھے- اُن میں سے ایک مکتوب وہ تھا جو ایران کے غیر مسلم بادشاہ کسری کے نام بذریعہ عبد اللہ بن حُذافہ صحابی بھیجا گیا تھا-اِس مکتوب میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں- کسرى ایک مغرور بادشاہ تھا- وہ مکتوب کو دیکھ کر غصہ ہوگیا- اس نے مکتوب نبوی کو پھاڑ کر پھینک دیا- اس کے لیے کون گنہ گار ہوگا- کیا نعوذ باللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم :
Did the act of the king in any way make the Prophet a sinner?
اِس جواب پر مذکورہ مسلمان خاموش ہوگئے، مگر یہ خاموشی کی بات نہیں- اِس جواب کے بعد مذکورہ مسلمان کو چاہئے تھا کہ وہ کہتے کہ آج میں نے اپنی ایک غلطی دریافت کی- واقعہ یہ ہے کہ اِس قسم کے شبہات مکمل طورپر بے حقیقت ہیں- ہم کو چاہئے کہ اِس معاملے میں ہم صرف اپنے دعوتی فرض کے بارے میں سوچیں اور قرآن کے تراجم کو تمام انسانوں تک پہنچادیں- ہمارا کام پہنچا دینا ہے- کسی بھی عذر کی بنا پر ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہم اللہ کے کلام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا کام نہ کریں-
واپس اوپر جائیں
ایک اردو میگزین میں ایک ہندستانی عالم کا مضمون نظر سے گزرا- یہ مضمون موجودہ مسلمانوں کے بارے میں تھا- اِس مضمون کی سرخی یہ تھی: ’’عالمی سطح پر ملتِ اسلامیہ کو گھیرنے کی کوشش‘‘- اِس موضوع پر ایک اور مسلم پروفیسر کا انگریزی مضمون نظر سے گزرا- اس کا عنوان یہ تھا— موجودہ مسلمان محاصرے کی حالت میں:
Present Muslims Under Siege.
مسلم علما اور مسلم رہنماؤں کی طرف سے آج کل ہر جگہ اِس طرح کی تحریریں چھپ رہی ہیں اور اِس طرح کی تقریریں کی جارہی ہیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام ذہن یہی ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ وہ مخالفین کی طرف سے کی جانے والی دشمنی اور سازش کے درمیان گھرے ہوئے ہیں- ان کے خیال کے مطابق، یہ صورتِ حال اتنی عام ہے کہ وہ خود مسلم ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے-
اِس قسم کی منفی سوچ یقینی طورپر ایک غیر اسلامی سوچ ہے، وہ قومی ذہن سے نکلی ہوئی سوچ ہے، حقیقی اسلامی سوچ سے اس کا کوئی تعلق نہیں- جو مسلمان اِس طرح سوچتے ہیں، اُن کو قرآن کی حسب ذیل آیات پر غور کرنا چاہیے: الذین قال لہم الناسُ إن الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم إیمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل- فانقلبوا بنعمة من اللہ وفضل لم یمسسہم سوء واتبعوا رضوان اللہ، واللہ ذو فضل عظیم- إنما ذلکم الشیطنُ یخوف أولیاءہ، فلاتخافوہم وخافونِ إن کنتم مؤمنین (
قرآن کی اِس آیت میں ’’قد جمعوا لکم‘‘ کے الفاظ میں جو بات نقل کی گئی ہے، وہ قدیم مدینہ کے منافقین کی بات تھی- منافقین نے جب یہ بات پھیلائی تو اس کو سن کرسچے اہلِ ایمان کا جواب کیا تھا، وہ قرآن کے اِن الفاظ سے معلوم ہوتا ہے: حسبنا اللہ ونعم الوکیل- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن اندیشہ ناک باتوں کو سن کر سچے اہلِ ایمان کے دلوں میں کوئی خوف پیدا نہیں ہوا، بلکہ اُن کا ایمان اور زیادہ بڑھ گیا-
منافق مسلمانوں اور سچے اہلِ ایمان کے درمیان یہ فرق کیوں تھا-اِس کا سبب یہ ہے کہ منافق مسلمانوں کو صرف’’مخالفین‘‘ نظر آتے تھے، وہ اِن مخالفین کی باتوں سے اپنی رائے بناتے تھے- اُن کا حال یہ تھا کہ مخالفین کی طرف سے جو پروپیگنڈہ انھوں نے سنا، اس کو اُسی طرح مان لیا اور لوگوں کے درمیان اس کا چرچا کرنے لگے-
سچے اہلِ ایمان کا معاملہ اِس سے مختلف تھا- سچے اہلِ ایمان کی توجہ ہمیشہ اللہ کے وعدوںاور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی بشارتوں پر ہوتی تھی- سچے اہلِ ایمان کا ذہن قرآن سے اور پیغمبر کی باتوں سے بنا تھا، نہ کہ کسی اور چیز سے- اِس بناپر سچے اہلِ ایمان کے اندر یہ بصیرت پیدا ہوچکی تھی کہ وہ منفی پروپیگنڈہ کا تجزیہ کرسکیں اور مخالفین کی باتوں سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے بنائیں-
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: أشداء على الکفار (
سچے اہلِ ایمان کے اِس ذہن نے ان کے اندر یہ اتھاہ یقین پیدا کردیا تھا کہ جب وہ حق کے راستے پر چل رہے ہیں تو کوئی ان کو نقصان پہنچانے والا نہیں- اپنے اِس ذہن کی بنا پر ان کا یہ حال تھا کہ وہ دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنے کے بجائے ہمیشہ خود اپنا جائزہ لیتے رہتے ـتھے، کیوں کہ ان کو یقین تھا کہ وہ حق پر ہیں، ان کو ضرور اللہ کی مدد پہنچتی رہے گی- اُن کے نزدیک اصل مسئلہ خود اپنے آپ کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنا تھا، نہ کہ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کا-
واپس اوپر جائیں
امت مسلمہ کی تاریخ میں بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن کو فتنہ کہاجاتا ہے- مثلاً باطنیت کا فتنہ، وحدتِ وجود کا فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ، قادیانیت کا فتنہ ، وغیرہ- تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی ماضی میں اِس قسم کا کوئی فتنہ پیدا ہوا تو بہت سے علما اٹھے جنھوں نے قرآن اور سنت کی روشنی میں اس کا بھرپور رد کیا- اس کے بعد یہ ہوا کہ بہت سے مسلمان جو ان فتنوں سے متاثر ہوئے تھے، انھوںنے ان سے توبہ کی اور وہ امت مسلمہ کی مین اسٹریم (mainstream) میں شامل ہوگئے-
تاریخ مزید بتاتی ہے کہ اِن موقعوں پر ایسا نہیں ہوا کہ ایک فتنہ دوبارہ ایک نئے فتنے کی شکل اختیار کرلے، یعنی جو لوگ ان فتنوں سے ذہنی طورپر متاثر ہوئے تھے، انھو ں نے اپنی اصلاح کر لی اور اربابِ فتنہ سے الگ ہوکر وہ اسلامی زندگی گزارنے لگے-
موجودہ زمانے میں بھی اِسی قسم کا ایک ’’فتنہ‘‘ پیش آیا- یہ مغربی تہذیب کا فتنہ تھا- یہ فتنہ ابتدائی طورپر یورپ کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد شروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر پہنچ گیا- اُس وقت بہت سے عرب اور غیر عرب مصلحین پیدا ہوئے جنھوں ے مغربی تہذیب کے خلاف زبان وقلم کے ذریعے جہاد شروع کیا- یہ جہاد بظاہر کامیاب رہا- بہت سے مسلم نوجوان جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوئے تھے، وہ اس سے تائب ہوگئے-
اِس کامیابی کا عمومی طور پر اعتراف کیاگیا- حتی کہ ان مصلحین میں سے کئی افراد ایسے تھے جن کو بڑے بڑے القاب دئے گئے- مثلاً مفکرِ اسلام، معمارِ ملت، عہد ساز شخصیت، مجدّدِ دوراں، وغیرہ-مگر واقعات بتاتے ہیں کہ قدیم فتنوں کے مقابلےمیں جدید فتنے کا معاملہ اپنے حقیقی نتیجہ (result) کے لحاظ سے بالکل مختلف ثابت ہوا، یعنی بظاہر نظری سطح پر خاتمہ کے نتیجے کے اعتبار سے وہ دوبارہ مزید اِضافے کے ساتھ زندہ ہوگیا- اِن مصلحین نے مسلمانوں کی جدید نسلوں کو یہ باور کرایا تھا کہ — مغربی تہذیب زہریلے پھل کا ایک درخت ہے-جدید تہذیب ایک مسلم دشمن تہذیب ہے- مغربی تہذیب کے تحت پیدا شدہ تعلیمی ادارے قتل گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں- مسلمانوں کا تعلق مغربی تہذیب سے بائیکاٹ کا ہونا چاہئے، نہ کہ اس سے تعاون کا-
ابتدائی طورپر مسلم نوجوانوں پر بظاہر ان باتوں کا اثر ہوا- مسلم نوجوان مغربی تہذیب کے علم برداروں سے لڑنے کے لئے کھڑے ہوگئے- انھوں نے مغربی تہذیب کے تحت قائم شدہ تعلیمی اداروں کو چھوڑ دیا، انھوں نے مغربی اداروں میں جاب لینے سے انکار کردیا، وغیرہ- مگر بعد کو آسمان نے یہ منظر دیکھا کہ انھیں مسلم نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر یوٹرن (U turn) لیا- انھوں نے اور ان کی اولاد نے مغربی تہذیب کے تحت قائم شدہ اداروں میں ڈگریاں حاصل کیں- وہ مغربی تہذیب کے اداروں کے کارکن بن گئے- وہ بہت بڑی تعداد میں مسلم ملکوں سے ہجرت کرکے مغربی ملکوں میں پہنچ گئے اور وہاں سٹل (settle) ہونے پر فخر کرنے لگے-
قدیم فتنوں اور جدید تہذیب کے فتنہ میں نتیجہ (result) کے اعتبار سے یہ فرق کیوں ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ قدیم طرز کے فتنے صرف اعتقادی فتنے تھے، مگر مغربی تہذیب کا معاملہ یہ تھا کہ دنیا کی مادی ترقی سے وہ براہِ راست جڑا ہوا تھا- مغربی تہذیب کے علم برداروں نے جو نئی دنیا بنائی، وہ مادی اعتبار سے ایک نہایت شاندار دنیا تھی- اس کے مکانات، اس کے شہر، اس کے دفاتر، اس کی سواریاں، اس کے سامانِ حیات، ہر چیز نہایت اعلی معیار کی تھی- اِسی حقیقت کو موجودہ زمانے کے ایک مسلم شاعر نے طنزیہ انداز میں اس طرح بیان کیا تھا:
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جااٹکا ہے واں کنسٹر سب بلوری ہیں، یا ںایک پرانا مٹکا ہے
انسان اپنی نفسیات کے اعتبار سے ہمیشہ ترقی کا طالب ہوتا ہے- وہ اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے زیادہ ترقی یافتہ مستقبل دیکھنا چاہتا ہے- مغربی تہذیب میں یہ پہلو نہایت اعلی درجے میں موجود تھا- یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین کی خلافِ مغرب مہم ابتداء ً نظر ی طورپر کامیاب ہو کر اپنے نتیجہ کے اعتبار سے مکمل طورپر ناکام ہوگئی- مسلم نوجوان ابتدائی طورپر رومانوی جذبات کے تحت جدید تہذیب کے خلاف ہوگئے، مگر بعد کو جب انھوں نے دیکھا کہ ساری ترقیاں مغربی تہذیب اور مغربی علوم سے وابستہ ہیں، تو وہ سب کچھ بھول کر اس کے اوپر ٹوٹ پڑے- جن تعلیمی اداروں کو قتل گاہ سمجھ کر انھوں نے وقتی طورپر چھوڑ دیا تھا، وہ دوبارہ اُسی میں داخل ہوئے اور انھوں نے وہاں سے ڈگریاں حاصل کیں-جن مغربی قوموں کو انھوں نے مسلم دشمن قرار دیا ، انھیں کے اداروں میں جاب لینے کو وہ اپنے لئے قابلِ فخر سمجھنے لگے- اُن کے بزرگوں نے جن مغربی ملکوں سے ہجرت کا فتوی دیا تھا، انھیں ملکوں میں واپس جاکر وہ پُرفخر طورپر آباد ہونے لگے، وغیرہ-
اصل یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے دو حصے تھے — ایک، اس کی سائنس اور دوسرے، اس کا کلچر- مغربی سائنس حقائقِ فطرت کے انکشاف پر مبنی تھی- اُس کے اندر ذاتی طورپر غلطی کا کوئی پہلو شامل نہ تھا- حقیقت یہ ہے کہ مغربی سائنس، قرآن کی اِس آیت کی انفولڈنگ تھی: وسخّرلکم ما فی السموات وما فی الأرض جمیعا منہ (
مغربی تہذیب کا دوسرا پہلو اس کا کلچر تھا- یہ کلچر براہِ راست طورپر سائنس کی پیداوار نہ تھا، بلکہ وہ قومی اور سماجی عوامل کی پیداوار تھا- قومی اور سماجی دائرے میں خالق نے ہر انسان کو آزادی دی ہے- اِس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اس کا غلط استعمال کرے- مغربی کلچر کے جن پہلوؤں کو لے کر ہمارے علما نے اُس کے خلاف ہنگامہ آرائی کی، وہ دراصل آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کا نتیجہ تھا، نہ کہ حقیقةً مغربی سائنس کا نتیجہ- اِس معاملے میں ہمارے مفکرین کو اصولِ تمییز (principle of differentiation) کو منطبق کرنا تھا، مگر وہ ایسا نہ کرسکے- نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے افراد ایک فتنے کے استیصال کے نام پر ایک شدید تر فتنے کا شکار ہوگئے، یعنی دہراپن- اس کا مزید نقصان یہ ہوا کہ وہ مغربی تہذیب کے پیدا کردہ مثبت مواقع کے استعمال سے محروم ہو کر رہ گئے-
واپس اوپر جائیں
خلیفہ دوم عمر فاروق کے زمانے کا واقعہ ہے- مسلمانوں کا مقابلہ ایرانی ایمپائر سے پیش آیا- مسلمان جب پیش قدمی کرنے لگے تو ایرانی سپہ سالار رستم نے مسلم فوج کے سردار سعد بن وقاص کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنا نمائندہ گفت وشنید کے لیے بھیجو - اِس موقع پر مسلمانوں کی جماعت میں سے جو لوگ رستم کے دربار میں گئے، اُن میں سے ایک ربعی بن عامر تھے- وہ دربار میں پہنچے تو رستم نے اُن سے کہا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میں آئے ہو- اِس سوال کے جواب میں ربعی بن عامر نے کہا: اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة اللہ (البدایة والنہایة،
اِس واقعے سے ایک اہم اصول اخذ ہوتاہے اور وہ ہے فرقان کا اصول، یعنی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا- صحابی کے قول کا مطلب یہ تھا کہ تم ہم کو حملہ آور نہ سمجھو، ہم دراصل تہذیبِ توحید کے نقیب (harbinger) بن کر آئے ہیں- ہم تمھارے لیے رحمت ہیں، نہ کہ کوئی مسئلہ-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی غلبہ کا دور آیا تو مسلم دنیا کے تمام رہنما، علما اور غیر علما دونوں اُن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئے- اِس لڑائی میں انھوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیںنکلا- مسلم رہنما اگر صحابی رسول کی اِس مثال سے سبق لیتے اور اس کو موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرتے اور وہ کہتے کہ یہ نوآبادیاتی قومیں سادہ طورپر صرف حملہ آور نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger of a new civilization) ہیں- ہم کو چاہئےکہ ہم اُن سے لڑنے کے بجائے، اُن سے نئے ترقیاتی ذرائع کو سیکھیں- ہمارے رہنما اگر اِس طرح ایک پہلو کو دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھتے اور اِس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرتے تو آج امتِ مسلمہ کی تاریخ مختلف ہوتی- آج مسلمان شکر کرنے والا گروہ ہوتے، جب کہ آج مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کرنے والا گروہ بنے ہوئے ہیں-
واپس اوپر جائیں
آج اسلام شدید خطرے میں ہے، وہ عصری طوفانوں کی زد میں ہے— یہ بات موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلمان مختلف انداز میں دہرا رہے ہیں، مگر یہ بات جتنی زیادہ دہرائی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ وہ بے اصل ہے- جو لوگ یہ باتیں کہتے ہیں، ان کے بارے میں یقینی طورپر کہاجاسکتا ہے کہ وہ نہ اسلام کو سمجھتے ہیں اورنہ عصری تقاضوں کو-اِس جملے میں پہلی غلطی یہ ہے کہ اس میں اسلام اور مسلم قوم دونوں کو ایک سمجھ لیاگیا ہے- موجودہ زمانے میں اگر بالفرض کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف مسلم قوم کے لیے ہے- جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ اسلام ایک دین ِ محفوظ ہے، اللہ نے خوداس کی حفاظت کی ذمے داری لے لی ہے، اور جس دین کا محافظ خود اللہ تعالی ہو، اس کے لیے خطرے کاکوئی سوال نہیں- اِس واقعے کا ایک عملی ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، اتنی زیادہ سرگرمی اِس سے پہلے کبھی موجود نہ تھیں-
یہی معاملہ دورِ جدید کا ہے- دور جدید اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک موافقِ اسلام دور ہے، نہ کہ مخالفِ اسلام دور- دور جدید کو مخالفِ اسلام دور بتانا، صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی دورِ جدید کی الف ب بھی نہیں جانتا- ایسا آدمی دراصل مسلم قومی ذہن کے تحت سوچ رہا ہے اور غلط فہمی کی بنا پر اس کو وہ اسلام کے اوپر منطبق کررہا ہے-
دورِ جدید کیا ہے، دورِ جدید عقلی طرز فکر (rational thinking) کا نام ہے، اور عقلی طرز فکر مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے- دورِ جدید مذہبی آزادی کا دور ہے، اور مذہبی آزادی مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے- دورِ جدید کمیونکیشن کا دور ہے، اور کمیونکیشن مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے- دورِ جدید پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے، وغیرہ- ایسی حالت میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دورِ جدید کے موافقِ اسلام پہلوؤں کو دریافت کرکے اس کو اسلام کےحق میں استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں
عبد اللہ بن زبیر (وفات:
ایک اور روایت میں اِس طرح کے الفاظ آئے ہیں: نافع تابعی کہتے ہیں کہ فتنہ ابن زبیر کے زمانے میں دو آدمی عبد اللہ بن عمر کے پاس آئے - انھوں نے کہا کہ لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور آپ عمر بن الخطاب کے بیٹے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں- آپ کو کیا چیز اِس سے روک رہی ہے کہ آپ نکلیں اور اِس جنگ میں شریک ہوں- عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ مجھے یہ بات روکتی ہے کہ اللہ نے میرے بھائی کا خون میرے لیے حرام قرار دیا ہے- پھر اُن آدمیوں نے کہا: کیا اللہ نے قرآن میں یہ نہیں فرمایا کہ: وقاتلوہم حتى لا تکون فتنة (
نافع تابعی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبد اللہ بن عمر کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ خدا نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑیں تو تم اُن کے درمیان صلح کراؤ(
اِس روایت میں ’’وکان الدخول علیہم فتنة‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی مشرکین کے یہاں جانا ایک فتنہ تھا- یہ جانے والے کون لوگ ہوتے تھے- یہ وہ لوگ ہوتے تھے جو موحد اور داعی تھے- جب وہ مشرکین کے یہاں موحد کی حیثیت سے اور توحید کے داعی کی حیثیت سے جاتے تو مشرکین اُن کو طرح طرح سے ستاتے تھے، کیوں کہ توحید کا عقیدہ مشرکین کے عقیدہ شرک کے خلاف تھا- اِس کا سبب یہ تھا کہ اُس زمانے میں مذہب، سیاسی اقتدار کا ایک حصہ بنا ہوا تھا- اِسی واقعے کو ایک قدیم مقولے میں اِس طرح کہاگیا ہے: الناس على دین ملوکہم (لوگ اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتے ہیں)-
قدیم زمانے میں مذہب، ریاست (state) سے وفاداری کی علامت بن گیا تھا- جو آدمی بادشاہ کے مذہب پر ہو، وہ ریاست کا وفادار سمجھا جاتا تھا، اور جو آدمی ریاست کے مذہب پر نہ ہو، وہ ریاست کا باغی قرار پاتا تھا- شرک اور اقتدار کے اِس تعلق کی بنا پر قدیم زمانے میں وہ چیز پیداہوئی جس کو قرآن میں فتنہ کہاگیا ہے، یعنی مذہبی جبر(religious persecution) - یہ فتنہ یا مذہبی جبر خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف تھا- خدا کی منشا یہ ہے کہ لوگوں کو مذہب کے معاملے میں آزادئ اختیار (freedom of choice) حاصل ہو، تاکہ اُس کے مطابق، آخرت میں اُن کے مثبت یا منفی مستقبل کا فیصلہ کیا جاسکے- اِس بنا پر اللہ تعالی نے رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا کہ اہلِ شرک اگر پُرامن نصیحت کے ذریعے مذہبی جبر کے اِس کلچر کو ختم کرنے پر راضی نہ ہوں تو تم جنگ کرکے اِس کلچر کو ختم کردو، تاکہ انسان کو اختیار کی آزادی حاصل ہوجائے، جو کہ منصوبہ تخلیق کے مطابق، لازمی طورپر مطلوب ہے-قرآن کے الفاظ (
فتنہ ابن زبیر میں شریک ہونے والوں سے عبد اللہ بن عمر نے کہا تھا کہ: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ- وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ- اِس کا مطلب، دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ قرآن میں جنگ کا حکم صرف ایک مقصد کے لیے دیاگیا تھا اور وہ تھا مذہبی تعذیب (religious persecution) کو ختم کرنے کے لیے، اور اصحابِ رسول نے جنگ کرکے اس کو ختم کردیا- اب تم لوگ قرآن کی اِس آیت کے نام پر اقتدار کی جنگ کررہے ہو، جس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ دنیا میں مذہبی تعذیب کی جگہ سیاسی تعذیب (political persecution) کا دور آجائے- یہ اصلاح کے نام پر صرف فساد ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا-
عبد اللہ بن عمر کے اِس قول کو ایک حدیث کی روشنی میں سمجھئے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو انتباہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: إذا وضع السیف فی أمتی، لم یرفع عنہا إلى یوم القیامة (الترمذی، رقم الحدیث: 2202) یعنی جب میری امت میں تلوار داخل ہوجائے گی تو وہ اُس سے قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیشین گوئی کی زبان میں اُس صورتِ حال کی خبر ہے جو بعد کے زمانے میں امت کے اندر بہت بڑے پیمانے پر ایک واقعہ بن گئی- تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے تقریباً
تاریخ بتاتی ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان مذہب کے نام پر سیاست شروع ہوگئی- یہ طریقہ بلاشبہ اسلام کی اصل تعلیمات سے انحراف تھا- اگر اِس طریقے کو اسلام کا مطلوب طریقہ قرار دیا جائے تو کوئی کہنے والا جائز طورپر یہ کہہ سکتا ہے کہ — اسلام نے مذہبی تعذیب کو ختم نہیں کیا، بلکہ اسلام نے مذہبی تعذیب کی جگہ سیاسی تعذیب کا طریقہ رائج کردیا-اِس طرح یہ ہوا کہ مذہبی تعذیب کا دور ختم ہوگیا، لیکن اس کی جگہ شدید تر انداز میں سیاسی تعذیب کا د ور انسانی تاریخ میں واپس آگیا- یہ دوسرا دور اب تک جاری ہے— اِس پورے دور کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ الفاظ (إذا وضع السیف فی أمتی الخ) لفظ بلفظ درست ثابت ہوئے ہیں-
اصل یہ ہے کہ قدیم مذہبی تعذیب صرف جبر کے زور پر قائم تھی، اُس کی پشت پر کوئی فلسفہ یا نظریہ موجود نہ تھا، اس لیے اُس کو ختم کرنا آسان تھا، مگر بعد کے زمانے میں سیاسی تعذیب کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کے ساتھ ایک مبرَّر (justification) موجود تھا- اُس کو اسلامی طورپر جائز کردہ تعذیب (Islamically justified persecution) کہاجاسکتا ہے- بعد کے دور میں پیدا ہونے والے تشدد کا یہی وہ نظریاتی پہلو ہے جس کی بنا پر اس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ شروع ہونے کے بعد وہ پھر کبھی ختم نہ ہوسکا-اِس معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ قدیم طرز کا فتنہ صرف سیاسی جبر کا ایک فتنہ تھا، اُس کو جنگ کے ذریعے ختم کیا جاسکتا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والا فتنہ ایک نظریاتی فتنہ ہے، اس کو جنگ کے ذریعے ختم کرنا ممکن نہیں- اُس کو ختم کرنے کے لیے ایک طاقت ور جوابی نظریہ (counter ideology) درکار ہے- کوئی بھی دوسری تدبیر اِس دوسرے فتنے کو ختم کرنے کے لیے موثر (effective) نہیں ہوسکتی-
واپس اوپر جائیں
ایک مغربی ملک میں مقیم ایک مسلم خاندان نے اِس کا اظہار کیا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کچھ دنوں کے لیے آکر ہمارے یہاں ٹھہریں اور ہم سے اسلامی تربیت حاصل کریں- میں نے اِس تجویز کو رد کردیا- میرے نزدیک یہ تربیت کا ایک مصنوعی طریقہ ہے- اس دنیا میں کوئی بھی نتیجہ خیز کام صرف فطری طریقے کے مطابق، انجام پاتا ہے- غیر فطری طر یقہ کسی بھی کام کے لیے ہرگز مفید نہیں-
اِس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے- اپریل 1981 میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے تحت میں بار بیڈوز (Barbados)گیا تھا- اِس سلسلے میں وہاں کے مقیم مسلمانوں نے ایک مسجد میں میرا پروگرام رکھا- ایک صاحب اپنے ایک بچے کو اپنے ساتھ لے کر وہاں آئے- یہ بچہ جو تقریباً
کسی بچے کا ابتدائی تقریباً 10سال وہ ہے جس کو، نفسیاتی اصطلاح میں، تشکیلی دور (formative period) کہاجاتا ہے- یہ تشکیلی دوربے حد اہم ہے، کیوں کہ اِس تشکیلی دور میں کسی کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ بے حد اہم ہے- یہی شخصیت بعد کی پوری عمر میں باقی رہتی ہے- اِسی حقیقت کو ایک عربی مقولے میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: من شَبَّ على شیئ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جوان ہوتاہے، اُسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)-
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تشکیلی دور (formative period) میں نام نہاد محبت کے ذریعے بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ آج کل کے تمام والدین اپنے بچوں کو می ناٹ بچے (me not children) بنادیتے ہیں- اس کے بعدوہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی کرشمہ ساز تربیتی طریقے (charismatic method of training) کے ذریعے اصلاح یافتہ بن جائیں-
میرے تجربے کے مطابق، اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں- اِس معاملے میں اگر کوئی باپ زیادہ سے زیادہ سوچ پاتا ہے تو وہ صرف یہ کہ وہ اپنے بیٹے کو گول ٹوپی اور اپنی بیٹی کو اسکارف پہنا دے اور پھر خوش ہو کہ اُس نے اپنی اولاد کو اسلامی تربیت سے مزیّن کردیا ہے- تاہم اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لیے میں چند عملی مشورے یہاں درج کروں گا-
1- محبت کے نام پر لاڈ پیار (pampering) کو وہ اِس طرح چھوڑ دیں جیسے وہ کسی حرام کو چھوڑتے ہیں- محبت کے نام پر جو لاڈ پیار کیا جاتا ہے، اُس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے حقائق (realities) سے بالکل بے خبر کردیتا ہے- اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے کے اندر حقیقت پسندانہ طرز فکر (realistic approach) نشو ونما نہیں پاتا- مزید یہ کہ اِس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خود پسند شخصیت (self-centered personality) تشکیل پاتی ہے، جو کسی آدمی کے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر میں بلا شبہہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے-
2- اِس سلسلے میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ بچے کی عمر کا ابتدائی تشکیلی دور ماں باپ کے ساتھ گزرتا ہے- اِس دور میں بچے کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ ہمیشہ بدستور اس کے اندر باقی رہتی ہے- والدین کو جاننا چاہیے کہ اِس ابتدائی تشکیلی د ور میں اگر انھوں نے بچے کی تربیت میں غلطی کی تو بعد کے زمانے میں اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی- بعد کے زمانے میں ایسے کسی شخص کی اصلاح کی صرف ایک ممکن صورت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس کو شدید نوعیت کا کوئی ہلادینے والا تجربہ (shocking experience) پیش آئے جو اس کے لیے ایک نقطہ انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بہت کم لوگوں کو اِس قسم کا ہلادینے والا تجربہ پیش آتا ہے، اور ایسا ہلادینے والا تجربہ مزید نادر (rare) ہے، جب کہ وہ آدمی کے لیے مثبت انقلاب کا سبب بن جائے-
3- اپنے تجربے کی روشنی میں ایسے والدین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ لٹریچر اہتمام کے ساتھ پڑھوائیں، صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار- اِسی کے ساتھ وہ کوشش کریں کہ اُن کے بچے ہمارے یہاں کے تیار شدہ آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ دیکھیں اور سنیں- مزید یہ کہ دہلی میں ہونے والا ہمارا ہفتے وار لکچر کا پروگرام پابندی کے ساتھ سنیں جو کہ ہر سنڈے کی صبح کو انڈین ٹائم کے اعتبار سے ساڑھے دس بجے شروع ہوتا ہے اور ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتاہے-
4- یہ لازمی نوعیت کا ابتدائی پروگرام ہے- جو والدین اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت کے خواہش مند ہوں، اُن کو لازماً اِسے اختیار کرنا چاہئے- اگر وہ اِس کو اختیار نہ کریں تو کوئی بھی جادوئی تدبیر بچوں کی اصلاح کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتی-
واپس اوپر جائیں
امریکا کی ایک کمپنی نے ایک فلم بنائی- اِس فلم کا نام تھا — مسلمانوں کی معصومیت (Innocence of Muslims)- ستمبر 2012 میں اِس فلم کا ایک مختصر حصہ انٹرنیٹ پر ڈال دیاگیا- کچھ مسلمانوں نے اس کو دیکھا- پھر مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر اس کا چرچا ہوا- مسلمانوں نے کہا کہ اِس فلم میں پیغمبر اسلام کی توہین کی گئی ہے- اِس پر ساری دنیا کے مسلمان بھڑک اٹھے اور مختلف ملکوںمیں وہ اس فلم کے خلاف پرشور مظاہرے کرنے لگے- اِن مظاہروں کے درمیان جان ومال کا شدید نقصان ہوا-
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
In fact, few people have seen more than a few minutes of the film, and there are doubts if it was even completed. But the little that is online is so crude and contrived that it was not even taken seriously till Islamist mobs made it world-famous. (p.
اِس طرح کے فتنے کو قرآن میں شجرِ خبیثہ (
واپس اوپر جائیں
ستمبر 2012 میں امریکا میں ایک فلم بنائی گئی- اِس فلم کا نام تھا — انوسنس آف مسلمس- اِس فلم میں ایسے مناظر دکھائے گئے تھے جو مسلمانوں کی نظر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ’’گستاخی‘‘کے ہم معنی تھے- اِس کے بعد دنیا بھر کے مسلمان بھڑک اٹھے- شرق سے غرب تک، ہر جگہ اس کے خلاف پرشور احتجاج ہونے لگا- ہر جگہ دھوم کے ساتھ جذباتی مظاہرے اور تقریریں کی گئیں- اِن مواقع پر مسلمان جگہ جگہ اپنے مظاہروں کے دوران جو پلے کارڈ (placard) بلند کیے ہوئے تھے، اُن ;کی نوعیت کا اندازہ اُن پر لکھے ہوئے حسب ذیل الفاظ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے:
Obama, Obama, we like Osama!
Behead all those who insult the Prophet!
Insulting the Prophet is insulting 1.5 billion Muslims!
The Prophet is dearer to us than our lives!
اِس سلسلے میں دنیا کے مختلف ملکوں میں جو پرشور مظاہرے کئے گئے، اُن میں سےایک پاکستان کا وہ مظاہرہ تھا جو
’’گستاخی رسول‘‘کے سوال پر اِس طرح کے پرتشدد واقعات مسلمانوں کی طرف سے ہر جگہ ہورہے ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی- اِن واقعات کی رپورٹ برابر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں آرہی ہے- اِس صورتِ حال کو دیکھ کر ساری دنیا میںایک سوال کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ — پُر امن گستاخی کے جواب میں مسلمان خود پرتشدد گستاخ کیوں بن جاتے ہیں، رسول کی شان میں ’’گستاخی‘‘ کرنے والا صرف یہ کرتا ہے کہ وہ اِس قسم کی ایک کتاب شائع کرتا ہے، یا اخبار میں ایک کارٹون چھاپ دیتاہے، یا ایک فلم بنا کر اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیتا ہے- یہ اگر گستاخی ہے تو وہ یقینی طور پر ایک پرامن گستاخی ہے، لیکن اس کے جواب میں مسلمان جو کچھ کرتے ہیں، وہ مبیّنہ طورپر ایک پرتشدد رد عمل یا پرتشدد گستاخی کا معاملہ ہے-
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسلامی شریعت دی ہے، اُس میں واضح طورپر اِس طرح کے معاملات میں ایک اصول بتایا گیا ہے ، وہ اصول قِصاص(
دو آپشن
قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں اہل ایمان کے لیے دو میں سے ایک کا آپشن (option) ہے — ایک، عفو اور صبر کا آپشن اور دوسرا، قصاص کا آپشن- اِس طرح کے معاملے میں مسلمانوں کے لیے اِنھیں دو میں سے ایک کا آپشن جائز ہے، اس کے سوا کوئی تیسرا آپشن لینااُن کے لیے سرے سے جائز ہی نہیں-قتل کے معاملے میں اسلامی شریعت کا ایک مسلّمہ قانون یہ ہے کہ زمانہ جنگ میں بھی صرف مقاتل(combatant) کو مارا جائے گا، غیر مقاتل (non-combatant) کو مارنا جنگ کے زمانے میں بھی جائز نہیں- ایسی حالت میں اسلام کیسے اجازت دے سکتاہے کہ امن کی حالت میں غیر مقاتل یا پرامن افراد کو مارا جائے-
عفو اور صبر کے آپشن کا مطلب یہ ہے کہ آپ پیش آمدہ معاملے پر رد عمل کی نفسیات کے تحت نہ سوچیں، بلکہ اصلاح کی نفسیات کے تحت سوچیں- آپ یہ سوچیں کہ جو شخص اِس ’’گستاخی‘‘ میں ملوث ہوا ہے، وہ بھی ایک انسان ہے- اس کے اندر بھی وہی فطرت موجود ہے جو دوسرے انسانوں کے اندر ہوتی ہے- اِس لیے آپ ہمدردانہ انداز میں اس کی فطرت کو ایڈریس کرنے کی کوشش کریں- ہوسکتا ہے کہ اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ توبہ کرکے اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوجائے-
اِس معاملے میں دوسرا آپشن وہ ہے جس کو قرآن میں قصاص کہا گیا ہے- یہ ثانوی درجے کا آپشن ہے- اِس کی حیثیت صرف ایک قانونی جواز کی ہے- جہاں تک اسوہ رسول کا معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرح کے معاملے میں ہمیشہ عفو اور صبر اور اصلاح کے طریقے کو اختیار فرمایا، کیوں کہ یہی طریقہ عزیمت اور خُلقِ عظیم کا طریقہ ہے- جیسا کہ اِس سلسلہ کلام کے تحت اگلی آیت میں ارشاد ہوا ہے: ولمن صبر وغفر إن ذلک لمن عزم الأمور (
جراحت (harm) کی دو قسمیں ہیں — ایک، جسمانی جراحت (physical harm) اور دوسرے، نفسیاتی جراحت(psychological harm) - دونوں قسم کی جراحتوں کی نوعیت ایک دوسرےسے مختلف ہے- قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطابق، جسمانی جراحت کی صورت میں ہمارے لیے دو آپشن ہیں— قصاص، اورعفو-
جیسا کہ عرض کیاگیا ، قصاص کا مطلب ہے: برابر کا بدلہ لینا، یعنی جتنا کسی نے کیا ہے، ٹھیک اتنا ہی اس کے ساتھ کرنا- اِس کے مقابلے میں، عفو کا مطلب ہے: یک طرفہ طورپر صبر کرلینا، نہ کوئی عملی کارروائی کرنااور نہ زبان سے اس کے خلاف شکایت یا احتجاج کے الفاظ بولنا- گویا اسلامی تعلیم کے مطابق، جسمانی جراحت کی صورت میں اہلِ ایمان کے لیے دو آپشن ہیں، لیکن نفسیاتی جراحت کی صورت میں اُن کے لیے صرف ایک آپشن ہے، اور وہ صبر کا آپشن ہے-
قصاص کا اصول
جیسا کہ عرض کیا گیا ، اِس طرح کے معاملے میں قصاص کا آپشن ثانوی آپشن ہے- اگر مسلمانوں کو قصاص کا آپشن لینا ہے تو لازمی طورپر انھیں یہ کرنا ہوگا کہ وہ فریقِ ثانی کے ساتھ برابر کا معاملہ کریں، یعنی یہ کہ جتنا کسی نے کیا ہے، مسلمان بھی اس کے خلاف اتنا ہی کریں- اگر کسی شخص نے ایک کتاب چھاپی ہے تو مسلمان بھی اس کے جواب میں ایک کتاب شائع کریں- کسی نے اگر کوئی قابلِ اعتراض آرٹکل یا کارٹون چھاپا ہے تو اس کے جواب میں مسلمان بھی اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے ایک اور آرٹکل چھاپیں- اگر کسی نے اسٹیج پر ایک تقریر کی ہے تو مسلمان بھی اس کے جواب میں اسٹیج پر ایک تقریر کریں- اگر کسی نے ایک اخباری بیان دیا ہے تو مسلمان بھی اس کے جواب میں ایک مدلل اخباری بیان دیں- مسلمان اگر اِس طرح کے معاملے میں پیغمبر کے اسوہ کے مطابق، عفو وصبر کا طریقہ اختیار نہیں کرسکتے تو اسلامی شریعت کے مطابق، اُن کو صرف یہ حق ہے کہ وہ قلم کا جواب قلم سے دیں اور تقریر کا جواب تقریر سے دیں- اِس کے برعکس، قلم کا جواب پرتشدد مظاہرہ کے ذریعے دینا یا پر امن اعتراض کے جواب میں توڑ پھوڑ کرنا ایک ایسا فعل ہے جو بلاشبہہ حرام کے درجے میں قابلِ ترک ہے-رسول اور اصحاب رسول کی مثال سے یہی طریقہ ثابت ہوتا ہے- جیسا کہ معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مخالفین نے بہت بڑے پیمانے پر وہ سب کچھ کیا جس کو ’’شتمِ رسول‘‘ کہاجاتا ہے، مگر رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اس کے جواب میں احتجاج اور ہنگامے کا طریقہ اختیار نہیں کیا- اِس کے برعکس جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ حسان بن ثابت انصاری اپنے اشعار کے ذریعے سے اس کا جواب دیتے تھے- واضح ہو کہ اُس زمانے میں شاعری کا وہی درجہ تھا جو موجودہ زمانے میں صحافت کا درجہ ہے-
پرامن احتجاج
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ احتجاج (protest) ہمارا ایک مسلّمہ حق ہے، اِس لیے مسلمانوں کو لازماً اِس طرح کے واقعات پر احتجاج کرنا چاہئے، البتہ یہ ضروری ہے کہ اُن کا یہ احتجاج پرامن ہو- مگر یہ شرط ایک ایسی شرط ہے جو عملاً کبھی پوری ہونے والی نہیں- عوامی احتجاج میں دو میں سے ایک برائی کا پیش آنا یقینی ہے، یا تو وہ بظاہر پر امن احتجاج کسی مرحلے میں پہنچ کر لوگوں کو مشتعل کردے گا اور پر امن احتجاج فوراً ہی پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوجائے گا- آغاز میں بظاہر وہ ایک پرامن احتجاج کی حیثیت سے شروع ہوگا، لیکن آخر میں وہ توڑ پھوڑ اور فساد اور تخریب کی شکل اختیار کرلے گا، جس کی ایک مثال پاکستان کے مذکورہ احتجاجی واقعے میں نظر آتی ہے-
اگر بالفرض کوئی احتجاج واقعةً پرامن احتجاج ہو، وہ اول سے آخر تک امن کی شرط پر قائم رہے، تب بھی عملاً وہ ایک فساد کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں وہ سنگین برائی پیدا ہوتی ہے جس کو باہمی نفرت کہاجاتا ہے، اور نفرت بلاشبہ ایک منفعل تشدد (passive violence) ہے- یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تشدد اگر ایک بم ہے تو نفرت ایک ٹائم بم (time-bomb) -
احتجاج کا حق
’’شتمِ رسول‘‘ کے مسئلے پر ساری دنیا کے مسلمان پُر شور احتجاج (protest) کررہے ہیں- اِس پُر شور احتجاج کے جواز کے لیے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ — حقوقِ انسانی (human rights) کے مسلّمہ اصول کے تحت احتجاج ہمارا ایک جائز حق ہے-
سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالنا کوئی سادہ بات نہیں- گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کو رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اختیار نہیں کیا- مسلمان آج جس طرح کے واقعات پر جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالتے ہیں، اُس طرح کےناخوش گوار واقعات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر موجود تھے- مثلاً مقدس کعبہ میں مشرکین کی طرف سے سیکڑوں کی تعداد میں بتوں کا نصب کیا جانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلے طورپر، نعوذ باللہ، مذمَّم اور مجنون کہنا، وغیرہ- مگر حدیث اور سیرت کی کتابوں سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اُس کے خلاف احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کیا- رسول اور اصحابِ رسول کے اِس ثابت شدہ عمل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ احتجاج کا طریقہ یقینی طور پر اسلام کا طریقہ نہیں-
پھر احتجاج کا طریقہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو کہاں سے ملا- یہ طریقہ انھوں نے حقوقِ انسانی کی جدید شریعت سے اخذ کیا ہے-یہ انسانی شریعت کی ایک دفعہ ہے جس کو 1948میں اقوامِ متحدہ کے یونی ورسل ڈیکلریشن (universal declaration) کے ذریعہ وضع کیا گیا -
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کے دو طریقے ہیں — ایک ہے، حبل اللہ کے تحت جینا، اور دوسرا ہے، حبل الناس کے تحت جینا (
حبل اللہ اور حبل الناس کی اِس قرآنی تقسیم کے مطابق دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنی زبان سے یہ اعلان کررہے ہیں کہ اِس معاملے میں وہ حبل اللہ پر قائم نہیں ہیں، بلکہ وہ حبل الناس پر قائم ہیں- وہ اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اپنی احتجاجی روش کا جواز حبل اللہ میں نہ پاکر اس کو حبل الناس سے اخذ کررہے ہیں، اور اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر وہ یہ کررہے ہیں کہ اپنی غیر اسلامی روش کے لیے وہ حبل اللہ کے بجائے حبل الناس کا حوالہ دے رہے ہیں، جو کہ ان کی قومی خواہشات کے مطابق ہے- یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں اتباعِ شہوات کہاگیا ہے-
یہ کوئی سادہ بات نہیں- آپ قرآن کی مذکورہ آیت (
واپس اوپر جائیں
ایک خبر کے مطابق، آرایس ایس کے سابق سرسنگھ چالک سی کے سدرشن (
اِس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ دین ِ حق اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایک فطری ’کلمہ سواء‘ (natural common ground)موجود ہے- دین ِ حق کے حاملین کے لیے بہترین آغاز ِ کار یہ ہے کہ وہ اِس فطری کلمہ سواء کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کام کریں- یہ بلاشبہہ ایک بہترین طریقِ کار ہے- مگر اِس امکان کو کامیاب طورپر استعمال کرنے کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ طرفین کے درمیان کشیدگی کا ماحول نہ ہو، بلکہ معتدل ماحول ہو- طرفین کے درمیان کشیدگی یا غیر معتدل ماحول میں اِس کام کو انجام نہیں دیا جاسکتا-
واپس اوپر جائیں
American journalist suspended for plagiarism.
نظریاتی سرقہ (plagiarism) کیاہے، وہ دراصل کسی شخص کی فکری پراپرٹی (intellectual property) کا سرقہ کرنے کا نام ہے- نظریاتی سرقہ یہ ہے کہ کسی شخص کے آئڈیا کو اصل مصنف کے حوالے کے بغیر اپنا بنا کر نقل کیا جائے:
Plagiarism: Copying someone's idea without crediting the original author. (Merriam-Webster Dictionary)
یہ معاملہ امریکا کے مشہور صحافی مسٹر فرید زکریا کا ہے-وہ امریکی میگزین ٹائم (Time) کے ایڈیٹر تھے- انھوں نے ٹائم کے شمارہ 20 اگست 2012 میں اپنا ایک مضمون گن کلچر کے موضوع پر شائع کیا- اِس کا عنوان یہ تھا: The Case for Gun Control
اِس مضمون میں انھوںنے ایک پیراگراف شامل کیا تھا جو پورا کا پورا، ایک اور شائع شدہ مضمون سے لیا گیا تھا- یہ دوسرا مضمون امریکا کی ایل (Yale) یونی ورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر جل لیپور (Jill Lepore) کا تھا، جس کو مسٹر فرید زکریا نے بلا حوالہ اپنے مضمون میں شامل کرلیا تھا- یہ مضمون امریکا کے ایک اخبار نیویارکر (The New Yorker) کے شمارہ
نظریاتی سرقہ کا یہ واقعہ جو عالمی میڈیا میں آیا ہے، وہ کوئی سادہ واقعہ نہیں- وہ دراصل اِس قسم کے ایک زیادہ بڑے سرقہ (super plagiarism) کے لیے ایک یاددہانی (reminder) کی حیثیت رکھتا ہے- وہ ایک انسان کی برخاستگی کے حوالے سے یہ یاد دلا رہا ہے کہ شاید وہ وقت آگیا ہے جب کہ کائنات کا مالک پوری تہذیب کو برخاست کردے-
سترھویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا میں روایتی دور قائم تھا- اس کے بعد دنیا میں سائنٹفک دور کا آغاز ہوا- سائنٹفک دور سے مراد وہ دور ہے جب کہ انسان نے نیچر (nature)پر آزادانہ غور وفکر شروع کیا- اِس غور وفکر کے بعد یہ ہوا کہ نیچر میں چھپے قوانین ایک کے بعد ایک دریافت ہونے لگے- مثلاً پانی میں اسٹیم پاور کی دریافت، اور مادّہ (matter) میں بجلی (electricity)کی دریافت، وغیرہ-جدید دنیا، خاص طور پر مغربی دنیا میں کئی سو سال تک اِس موضوع پر رسرچ جاری رہی، یہاں تک کہ فطرت میں چھپے ہوئے ہزاروں قوانین دریافت ہوگئے- اِن کے ذریعے ایک نئی ٹکنالوجی بنی اور بہت سے نئے فنی علوم وجود میں آئے- وہ ظاہرہ جس کو جدید مغربی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کی تشکیل تمام تر انھیں دریافت کردہ قوانین فطرت پر مبنی ہے-
یہ قوانین جو موجودہ زمانے میں معمارانِ تہذیب نے دریافت کیے، اُن کو سائنسی قوانین (scientific laws) کہاجاتا ہے- مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ سائنسی قوانین نہیں ہیں، بلکہ وہ خدائی قوانین(divine laws) ہیں- خدائی قوانین کو نظامِ فطرت سے لینا اور اُن کو سائنس قوانین کے نام پر اپنا بناکر پیش کرنا، یہ بلاشبہہ ایک سپر سرقہ(super plagiarism) کا کیس ہے- تہذیب جدید کے معمار وں کا یہ واقعہ بھی بلا شبہہ اِسی قسم کا ایک سرقہ ہے- امریکی صحافی کا سرقہ اگر جرنلسٹک سرقہ (journalistic plagiarism) تھا تو معمارانِ تہذیب کا سرقہ سائنٹفک سرقہ (scientific plagiarism) ہے- امریکی صحافی نے تو صرف اپنے ایک آرٹکل میں نظریاتی سرقہ کا ارتکاب کیا تھا، جب کہ مغربی تہذیب کا پورا کا پورا ڈیولپمنٹ اِسی قسم کے عظیم تر نظریاتی سرقہ کی بنا پر ہوا ہے- امریکی جرنلسٹ کا سرقہ اگر صرف ایک انفرادی سرقہ تھا تو مغربی تہذیب کا سرقہ اس کے مقابلے میں ایک عالمی سرقہ (global plagiarism) کی حیثیت رکھتا ہے-
دنیا سے انسان کے بے دخلی
تہذیب کی ترقی کے نام پر مذکورہ سائنسی سرقہ کئی سو سال سے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں جاری ہے، مگر اِس مدت میں اہلِ تہذیب کے درمیان کوئی شخص نہیں اٹھا جو یہ اعلان کرے کہ یہ تمام تہذیبی ترقیاں خدائی قوانین (divine laws)کی بنا پر ممکن ہوئی ہیں- ہم کو چاہیے کہ ہم کھلے طورپر اِس حقیقت کا اعتراف کرلیں- بے اعترافی کا یہ معاملہ اب اپنی آخری حد پر پہنچ چکا ہے- اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ کائنات کا خالق انسان کو زمین کے چارج سے بے د خل کردے اور زمین کا اور پوری دنیا کا نظام حقیقتِ واقعہ کی بنیاد پر قائم کرے-
دنیا کا یہ انجام پیشگی طورپر مقدر تھا- خدا نے پیشگی طورپر یہ اعلان کردیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کہ انسان کو زمین کے چارج سے بے دخل کردیا جائے اور دنیا کا نیا نظام بنایا جائے- اِس سلسلے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: وما قدروا اللہ حق قدرہ، والأرض جمیعا قبضتہ یوم القیامة، والسماوات مطویّات بیمینہ، سبحانہ وتعالى عما یشرکون (
اِس آیت میں ’قدر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- قدر کا مطلب ہے اندازہ کرنا، یعنی انسان جو کچھ دنیا میں کررہا ہے، وہ اِس لیے کررہا ہے کہ اس نے خالق کا کم تر اندازہ (under-estimation) کررکھا ہے- یہ کم تر اندازہ کیا ہے، اِس کم تر اندازہ کو قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیاگیاہے: افحسبتم أنما خلقناکم عبثاً وأنکم إلینا لا ترجعون(
اس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے- یہ روایت قرآن کی مذکورہ آیت (وما قدروا اللہ حق قدرہ) کی مزید تشریح کرتی ہے- روایت کے الفاظ یہ ہیں: عن ابن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرأ ہذہ الآیة ذات یوم على المنبر ’’وما قدروا اللہ حق قدرہ، والأرض جمیعاً قبضتہ یوم القیامة والسماوات مطویات بیمینہ، سبحانہ وتعالى عما یشرکون‘‘ ورسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول ہکذا بیدہ ویحرکہا یقبل بہا أو یدبر یمجد الرب نعتہ: أنا الجبار، أنا المتکبر، أنا الملک، أنا العزیز، أنا الکریم، فرجف برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المنبر حتی قلنا لیخرنّ بہ (السلسلة الصحیحة، 7/596) یعنی عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ممبر کے اوپر قرآن کی مذکورہ آیت پڑھی- اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے کہا کہ اللہ اپنی تمجید کرے گا اور کہے گا کہ میں ہوں جبار، میں ہوں متکبر، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں زبردست، میں ہوں کریم- کہاں ہیں زمین کے بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبر- یہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لرزہ طاری ہوا، یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ شاید آپ گر پڑیں-
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت آگیا ہے جب کہ خالقِ کائنات ظاہر ہو اور براہِ راست طورپر دنیا کا چارج لے لے- اسباب کے اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگاکہ قرآن میں جس آنے والے وقت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، وہ وقت بالفعل آچکا ہے، اُس وقت کے آنے میں اب کوئی دیر نہیں-
لائف سپورٹ سسٹم کی تباہی
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے- مثلاً پانی، روشنی، آکسیجن، نباتات، وغیرہ- اِن چیزوں کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، یعنی معاونِ حیات نظام- سائنس کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین پر یہ معاونِ حیات نظام خطرناک حد تک بگڑ گیاہے، سائنس داں برابر یہ انتباہ دے رہے ہیں کہ زمین پر انسان کی آبادکاری بہت جلد ناممکن ہوجائے گی، یہاں تک کہ مشہور برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ نے اِس صورت حال کی نشان دہی کرتےہوئے کہا ہے کہ ہم کو اب خلائی بستیاں (space colonies) بنانا چاہیے، حالاں کہ اسٹفن ہاکنگ اور دوسرے تمام لوگ جانتے ہیں کہ یہ تجویز عملاً ممکن نہیں-
زمین کا وہ حصہ جس کو آرکٹک (Arctic) کہاجاتا ہے، یہ برف کے بہت بڑے پہاڑ کی مانند ہے جو کئی ہزار مربع میٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے- یہ برفانی پہاڑ زمین پر موسم کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے- آرکٹک (قطب شمالی) کا یہ منطقہ مختلف پہلوؤں سے زمین پر انسان کی آبادی کے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے- مگر بیسویں صدی کے ربع آخر میں، جب سے گلوبل وارمنگ کے ظاہرے نے شدت اختیار کی ہے، قطب شمالی کی یہ برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے- سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق، شایداندیشہ ہے کہ اگلے 10 برسوں میں یہ پورا برفانی پہاڑ پگھل کر سمندروں میں چلا جائے- اِس کی بنا پر مختلف قسم کے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے جو زمین کو انسان کے لیے ناقابلِ رہائش بنا دیں گے-اس سائنسی تحقیق کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Arctic Sea Ice May Vanish in 10 Years (p. 19)
خلاصہ کلام
اوپر جو کچھ لکھا گیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نے اُس نوعیت کا ایک بہت بڑا واقعہ کیا ہے جس کو نظریاتی سرقہ کہاجاتا ہے- وہ چیز جس کو جدید تہذیب کہا جاتا ہے، وہ پوری کی پوری اِسی جرم کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے- اِس جرم میں موجودہ زمانے کی پوری آبادی شریک ہے- جن لوگوں نے اِس تہذیب کو وجود دیا، وہ اِس جرم میں براہِ راست طورپر شریک ہیں، اور بقیہ لوگ جو تہذیب کے اِس جرم پر نکیر (denial) کیے بغیر اُس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ بالواسطہ طورپر اِس جرم میں شریک ہیں-
اِس نظریاتی سرقہ (plagiarism)کے خلاف خالق کی کارروائی اب مستقبل بعید کی چیز نہیں رہی- یہ کارروائی اب عملاً شروع ہوچکی ہے- اِس کارروائی کو ایک لفظ میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خالق نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ انسان کو مذکورہ جرم کی بنا پر زمین سے بے دخل کردیا جائے- خالق کا یہ فیصلہ لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمے کی صورت میں بتدریج ظاہر ہورہا ہے- بظاہر وہ وقت بہت قریب آچکا ہے جس کی پیشین گوئی قرآن کی مختلف آیتوں میں کی جاچکی تھی-
نوٹ: صدر اسلامی مرکز کا مذکورہ خطاب سی پی ایس کے حسب ذیل ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/end-human-history-12th-aug-12
واپس اوپر جائیں
برادرِ محترم مولانا محمد اکرم الزہری (مسقط،عمان)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ آپ مع متعلقین بخیر ہوں گے- اللہ تعالی آپ کو اور آپ کے تمام اہلِ خانہ کو اپنی خصوصی نصرت اور رحمت سے نوازے اور دنیا اور آخرت کی سعادتیں عطا فرمائے- 12 اکتوبر 2012 کو آپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی- ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں-
آپ ماشاء اللہ برابر دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں- اللہ تعالی آپ کی اِن کوششوں کو قبول فرمائے- تاہم مجھے آپ کو ایک خاص کام کی طرف توجہ دلانا ہے- یہ کام دعوت الی اللہ کا کام ہے، یعنی غیر مسلموں تک اللہ کا پیغام پہنچانا- یہ بلاشبہہ اہلِ ایمان کا سب سے بڑا فریضہ ہے- دعوت کا کام گویا کہ خاتم النبیین کی نیابت کا کام ہے- یہ کام بلاشبہہ فرضِ عین ہے اور ہر مومن کو اپنے دائرے میں اِس کام کو انجام دینا ہے-
موجودہ زمانے میں دو واقعات ایسے پیش آئے ہیں جنھوں نے دعوت کے کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے- ایک ہے پرنٹنگ پریس، جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیاکہ قرآن کا ترجمہ ’لسانِ قوم‘ میں تیار کیا جائے اور اُس کو مطبوعہ صورت میں لوگوں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ کیا جائے- اصحابِ رسول کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے، اِس بنا پر اُن کو مقری کہاجاتا تھا- اب وقت آگیا ہے کہ تمام اہلِ ایمان قرآن کے ڈسٹری بیوٹر بن جائیں-
اِس معاملے میں دوسرا موافقِ دعوت پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مواصلات کی ترقی کی بناپر ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا ہے، جس کو عالمی حرکت (global mobility) کہاجاتا ہے- موجودہ زمانے میں سیاحت، تجارت، ملازمت اور دوسرے اسباب کے تحت، لوگوں کی آمد ورفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے- ہر ملک میں دوسرے ملکوں کے لوگ پہنچ رہے ہیں- اِن میں بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہوتی ہے- اِس نئے ظاہرے کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ مدعو خود چل کر داعی کے یہاں پہنچ رہا ہے- وہ خاموش زبان میں امتِ محمدی کے ہر فرد سے کہہ رہا ہے کہ ہم تمھارے دروازے پر ہیں- آؤ، ہم کو اُس ربانی پیغام سے آگاہ کرو جو اللہ نے تمھارے پاس بھیجا ہے-
اب ہر مسلمان کو، خواہ وہ عرب میں ہو یا غیر عرب میں، اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے پاس اسلامی کتابیں رکھے اور اِس کو اُن لوگوں تک پہنچاتا رہے جو اس کے علاقے میں بار بار کسی نہ کسی سبب سے آرہے ہیں- اِس قسم کے مواقع آج کل ہر جگہ موجود ہیں- دفتروں میں پارکوں میں، کانفرنسوں میں، غرض ہر اجتماعی مقام پر اِس قسم کے مدعو برابر پہنچ رہے ہیں- اُن کو نہایت آسانی کے ساتھ دعوتی لٹریچر پہنچایا جاسکتا ہے- اِس سلسلے میں ہمارے ادارے سے قرآن اور سیرتِ رسول اور خصوصی اسلامی موضوعات پر مختلف زبانوں میں کتابیں تیار کی گئی ہیں- مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ اور پرافٹ آف پیس (The Prophet of Peace)، وغیرہ-
میں امید کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے دوسرے دینی کاموں کے ساتھ اِس کام کو اپنی سرگرمیوں میں شامل کریں گے، یعنی اسلامی لٹریچر کو غیر مسلموں تک پہنچانا-
نئی دہلی،
واپس اوپر جائیں
سوال
عام طور پر کہا جاتا کہ میں تشدد کا حامی نہیں، لیکن دشمنوں کی سازش سے واقف ہونا تو بہت ضروری ہے- براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
جواب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: إن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئا (
گویا کہ سازش سے واقف ہونا سازش کا توڑ نہیں ہے، بلکہ صبر اور تقوی کی روش اس کا توڑ ہے-قرآن کی اس آیت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اِس معاملے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کی بے صبری اور ان کے غیر متقیانہ مزاج سے واقفیت حاصل کی جائے، اور پھر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے- کیوں کہ مسلمانوں کے اندر صبر اور تقوی کی روش پیدا کرکے ہی سازش کو بے اثر بنایا جاسکتا ہے- قانونِ فطرت کے تحت ’’سازش‘‘ کا خاتمہ ممکن نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ مسلمان اپنے مثبت رد عمل کے ذریعے اپنے آپ کو اس کے نقصان سے بچا سکیں-
جس چیز کو ’’سازش‘‘ کہا جاتا ہے، وہ دراصل ایک امرِ فطری ہے- اِس کا تعلق خدا کی دی ہوئی آزادی سے ہے- یہ آزادی مصلحتِ امتحان کی بنا پردی گئی ہے، اس لیے وہ قیامت تک باقی رہے گی، اس کو ہرگز ساقط نہیں کیا جاسکتا- کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ لا حاصل طورپر خود سازش کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے- کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو اتنا باشعور بنایا جائے کہ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں- مشتعل نہ ہو کر سازش کو بے اثر بنایا جاسکتا ہے- اِس معاملے میں اصل حقیقت تدبیرِ کار کی ہے، نہ کہ سازش سے باخبر ہونے کی- اِسی لیے قرآن میں یہ نہیں فرمایا کہ اے مسلمانو، تم سازش سے باخبر رہو، بلکہ یہ فرمایا کہ تم ہر حال میں صبر کی روش اختیار کرو- صبر کی روش اختیار کرکے تم سازش کا شکار ہونے سے بچ جاؤ گے-
سوال
ایک حدیث میں آیا ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی- اِس حدیث کا مطلب کیا ہے- اس کو واضح فرمائیں- (حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ، بہار)
جواب
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن أمتی لا تجتمع على الضلالة (ذخیرة الحفاظ للقیسرانی، 1/364)یعنی میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی- اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امتِ محمدی کے افراد جس چیز پر مجتمع ہوجائیں، وہ لازماً حق ہوگا- اِس حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ عام ضلالت کے وقت بھی امت محمدی کے کچھ افراد ایسے ہوں گے جو ہدایت پر قائم رہیں گے اور وہ حق کی نمائندگی کریں گے- قانونِ فطرت کے مطابق، امتِ محمدی میں بھی انحراف آئے گا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ امت کا کوئی فرد بھی اِس انحراف سے محفوظ نہ رہے-حدیث کے اِس مفہوم کی تصدیق ایک اور روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: أن تستجمعوا کلکم على الضلالة (مسند إسحاق بن راہویہ، رقم الحدیث:
امت محمدی کے بارے میں یہ بات کسی پراسرار فضیلت کی بات نہیں- یہ دراصل ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام نے پیشین گوئی کے انداز میں بیان فرمایا- اصل یہ ہے کہ امت ِمحمدی کی بنیاد جس دین پر قائم کی گئی ہے، اُس کا متن کامل طورپر ایک محفوظ متن ہے- پیغمبر اسلام کی یہ ایک استثنائی صفت ہے کہ آپ پر اتارا ہوا قرآن پوری طرح اپنی اصل زبان میں محفوظ ہے- پیغمبر اسلام کی سیرت بھی تاریخی طورپر پوری طرح معلوم ہے- پیغمبر اسلام کا کلام بھی مستند کتابوں میں محفوظ ہوچکا ہے- پیغمبر اسلام کا لایا ہوا دین اپنے تمام پہلوؤں کے اعتبار سے، پوری طرح معلوم اور محفوظ ہے- یہ صورتِ حال اِس بات کی ضمانت بن گئی ہے کہ امت کے زوال یا انحراف کے دور میں بھی دین ِ اسلام کا ماخذ پوری طرح محفوظ ہو اور حق کے طالب افراد ہمیشہ اُس سے دین ِ خداوندی کو اخذ کرکے ہدایت پر قائم رہیں- امتِ محمدی میں دین سے انحراف عمومی ہوسکتاہے، لیکن وہ کلی کبھی نہیں ہوگا-
سوال
کہاجاتا ہے کہ امریکا اور افغانستان کی جنگ میں امریکا ناکام ہوگیا اور افغانستان جیت گیا- وہ اِس طرح کہ اگر دو فریقوں کی جنگ میں ایک فریق کے لیے جنگ منفی نتائج کا سبب ہوتی ہے تو اِس کا واضح مطلب یہی ہے کہ دوسرے فریق کے لیے وہ جنگ یقینی طور پر مثبت نتائج کا سبب بن رہی ہے- یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلی افسر کے اِس بیان کی روشنی میں کہی جاتی ہے کہ امریکا جو کچھ افغانستان میں کررہا ہے، وہ سب اس کے لیے الٹےنتیجوں کا ہی سبب بن رہا ہے- براہِ کرم، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (عبد الباسط عمری، قطر)-
جواب
افغان جنگ کے بارے میں امریکی افسر نے جو بات کہی، وہ صرف ایک جنگی تبصرہ ہے، اِس سے وہ نتیجہ ہر گز نہیں نکلتا جو مذکورہ قسم کے لوگ اُس سے نکال رہے ہیں- کوئی بھی منفی تبصرہ، مثبت نتیجے کا سبب نہیں بن سکتا-امریکا نے جب عراق اور افغانستان پر ہوائی حملے کیے، تو اس کا مقصد اصلاً القاعدہ کا زور توڑنا تھا، اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت (2011) کے بعد یہ مقصد ایک حد تک حاصل ہوچکا ہے- لیکن امریکی قائدین کو غالباً اِس کا اندازہ نہ تھا کہ اُن کے اقدام سے القاعدہ کی طاقت تو کمزور ہوسکتی ہے، لیکن اِس اقدام کے رد عمل میں امریکا کے خلاف مسلمانوں میں جو نفرت پیدا ہوگی، اس کا کوئی توڑممکن نہ ہوگا-
امریکی افسر نے جو کچھ کہا وہ صرف امریکی قائدین کے غلط اندازے کو بتاتا ہے- اُس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اِس جنگ میں افغانستان کی جیت ہوئی ہے- واقعات بتاتے ہیں کہ افغانستان کی اقتصادی طاقت بالکل تباہ ہوگئی ہے- افغانستان کی تعمیر وترقی کا کام بالکل رکا ہوا ہے- مزید یہ کہ افغانی لوگوں میں آپس کی جنگ چھڑ گئی ہے- یہ واقعات افغانستان کی تباہی کو بتاتے ہیں، نہ کہ اس کی جیت یا کامیابی کو-
اِس معاملے میں جہاں تک اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے، اسلام میں وہی اقدام مثبت اقدام ہے جو مثبت نتیجہ برآمد کرنے والا ہو- فریقِ ثانی کے نقصان پر خوش ہونا اسلام کا طریقہ نہیں- اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ اِس جنگ میں امریکا کو کچھ نقصان پہنچا، اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ افغانستان بدستور پچھڑا ہوا ایک ملک ہے، وہ تعمیر وترقی کے راستے میں آگے نہ بڑھ سکا- یہی وجہ ہے کہ لوگ اب بھی بدستور اپنے بیٹوں کو امریکا بھیج رہے ہیں، کوئی بھی شخص اپنے بیٹوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے تیار نہیں-
واپس اوپر جائیں
1- نئی دہلی کے تاج پیلیس (ہوٹل) میں 3 اگست 2012 کو افطار کا ایک پروگرام ہوا- یہ پروگرام ترکی کے ادارہ ایجوکیشنل ٹرسٹ (Educational Endowment Trust) کی طرف سے کیا گیا تھا- اس کی دعوت پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے نمائندوں نے اس میں شرکت کی- یہاں ملک وبیرون ملک کے اعلی افسران اور تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے- مثلاً کمیونکیشن منسٹر کپل سبل ،اور ٹرکش ایمبیسڈر مسٹربراق (Burak Akcapar) وغیرہ- یہاںحاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
2- اینگلو عربک اسکول (دہلی) میں
3- پولس کمیونٹی کی طرف سے
4- پیس ہال (سہارن پور) میں
5- نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 9 ستمبر2012 کو ایک ورک شاپ ہوا- اِس میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی- مثلاً گنیز بک آف ریکارڈ میں شامل ڈاکٹر اشوک جین، وغیرہ - اِس موقع پر حاضرین کو دعوتی میٹریل دیاگیا- ڈاکٹر اشوک جین نے بعد کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایاکہ انھوں نے سی پی ایس کے لٹریچر کا مطالعہ کیا- انھوں نے کہا کہ اِن کتابوں کے مطالعے نے مجھے اِس حقیقت کو سوچنے پر مجبور کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آدمی اپنی آخرت کے لیے تیاری کرے- انھوں نے کہا کہ میں اِس مشن میں شامل ہو کر دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں-
6- صدر اسلامی مرکز کے مضامین مختلف انگریزی جرائد میں چھپ رہے ہیں- اِس سلسلے میں
In the Name of God, Deccan Chronicle (Daily Newspaper, Hydrabad)
7- جموں وکشمیر کے چند نمائندہ افراد ایک پروگرام کے تحت دہلی آئے- اس موقع پر
8- مسٹر اے والٹر (A. Walter Emmerich) نے
9- پرل پیلیس (سہارن پور) میں
10- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Thanks for a timely piece of article that serves as an eye-opener to all of us. As we keep getting tangled or caught up in many difficulties in our day-to-day situations, we need support and mental strength that comes from moral support offered by a mentor. Today, at a very personal level, as I read these words of wisdom, I am helped to unshackle the clouds of depression cropping up and I feel once again motivated and cheerful to address the day’s challenges. (Ramana Acharyulu)
It is a very meaningful article. Maulana’s understanding of the society, nature, and how to live life is truely amazing. This is best formula one can adopt for everyday life. (Dr Giriyappa Kollannavar)
Very inspiring article. Faith in the divine could do wonders. The belief that we are being watched over and are protected brings in lots of hope and the will to face difficult times. (Dr Rashmi Chaturvedi)
Surely this is an excellent article, particularly for those who are seeing their lives as purely hopeless owing to several negative problems in their day-to-day life. (Gangadharan Pulingat)
Thank you so much for posting this blog. It has really energized my mind to fight with difficulties. (Archana Vishwakarma)
This is a fantastic article. All things in life are temporary and transient and will eventually change and fade away. Nothing stays the same forever and sooner we learn how to accept that fact, the happier we will be. (C.Swami)
Non-Violence, World Peace and Environment Conservation
یہ پروگرام آل انڈیا جین آرگنائزیشن (All India Shwetambar Jain Organization) کی طرف سے کیاگیا تھا- اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی- یہ تقریر ہندی زبان میں تھی- اِس تقریر میں اسلام کی پرامن تعلیمات کا تعارف پیش کیا گیا- اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا- اِس پروگرام کو دور درشن ٹی وی چینل نے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا-
میں بہت دنوں سے ہندی ما دھیم میں قرآن پڑھنا چاہتا تھا، آج اِس دھرم گرنتھ(قرآن) کو پاکر میں بہت خوش ہوں- یہ گرنتھ انسانیت کا سبق دیتاہے -(پروفیسر رام سمیر یادو، شعبہ سنسکرت، لکھنؤ یونی ورسٹی)
خدا نے انسان کو کئی زبانیں دی ہیں- اِن میں سب سے اچھی زبان ہم کو اردو معلوم ہوتی ہے- مطالعے کے بعد میں نے پایا کہ ہندی، اردو کے بغیر ادھوری ہے- آج یہاں ہندی اور اردو میں قرآن کا ترجمہ پاکر میری دیرینہ خواہش پوری ہورہی ہے-(منوویندر سنگھ، مظفر پور، بہار)
آج قرآن کا انگریزی ترجمہ پاکر مجھ کو بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے- (مہیندر راول، پولس انسپکٹر، گجرات، جونا گڑھ)
Extremely impressed by the noble activities and precious publications of CPS, Kashmir. The activities are meant for promotion of universal brotherhood and mutual fellow-feelings which appreciating the endavour of the organisation, I wish this spiritual exercise all success in the days to come. (Prof. Hare Krishna Satyapathy, VC. R.S. University, Tirupati)
Your article made a very interesting reading, which is in consonance with my own very little understanding of the readings of the Quran over the last many years. I congratulate you for explaining this so vividly, and in a scholarly manner, as well. I would be too glad to read such scholarly articles / books of yours, especially the scientific understandings or inference of Quran. (P Ravindra Kumar, Bangalore)
Thank you for sharing the beautiful article on a proper response to blasphemy. It is an eloquent articulation of the religious freedom that we both believe God wants for all humanity to enjoy. I hope your article reaches a very wide and receptive audience. (Galen Carey, W. D.C.)
Shift of Emphasis, 2nd September 2012
Discover Your Ignorance ,
The Issue of Blasphemy in Islam , 30th September 2012
Relative Value of Things | ,
Overwhelming response from all age groups. I fell very ill and had 103 degree’ fever, I prayed to God and in the morning to my surprise, my fever was gone. And after that for the next 10 days, I attended the book fest. An Assistant Commissioner, Muhammad Yunus came at the stall (Gwalior) with a non-Muslim friend. He had several questions about the ideology . I explained to him. He had read the book in one day and came back the next day as a different person. Yunus said that after talking with me the non Muslim youth’s mind had also undergone a change as he was also negative about Islam . I told Yunus that you should give the Quran to all at Eid. The idea struck him and he placed an order of 175 Quran and the non Muslim youth also bought some copies along with other books. Our initial stock of Quran had finished in few days , another stock was sent from Delhi . Some of those who left the addresses, called me up and asked when would we recieve our copy of the Quran. Reaching of the second consignment was also very miraculous , my neighbour Mr. Vijay who works for the state transport volunteered to send the Quran. The residents of Gwalior are open hearted and nationalistic and loving people. During the entire period, there was not a single untoward happening, they were all very open to the message of Islam . All of them were extremely welcoming. (Junaidul-Islam)
As a reader, I always wanted to read the Quran. Now, it is available in Hindi and English. I am very grateful. (Anand Lakra, Indore)
I had a dream many years back in which it was written: “Read Quran!” (Hansharastan Chopra, Indore)
میں بہت دنوں سے قرآن کو سمجھنا چاہتی تھی- آپ نے مجھ کو قرآن پڑھنے کا موقع دیا،شکریہ (مزپونم بترا، اندور)
کٹر وادی وچار دھارا سے بچنے اور سچا گیان حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے، ا ور وہ ہے سچائی کو خود سے ڈسکور کرنا- اِس مقصد کے لیے میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں- مجھے یقین ہےکہ قرآن خداکی کتاب ہے، اور وہ صحیح راستہ دکھاتا ہے- اگرچہ اِس پر کچھ پردے پڑے ہوئے ہیں، لیکن ہم کو خود ہی اِن پردوں کو ہٹانا ہوگا-(مہیش یادو، اندور)
قرآن میں آسان طریقے سے بتایا گیا ہے کہ بندہ اپنے خدا کو کس طرح پاسکتا ہے- خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے- وہاں شرمندگی نہ ہو، چہرہ اجلا رہے، یہی سب سے بڑی چیز ہے -(دواکر دونگولے، ناگ پور)
سی پی ایس کے لٹریچر میں مذہب کو جس طرح پازیٹیو انداز میں پیش کیا گیا ہے،اس کے لیے ہم آپ لوگوں کے بہت شکر گزار ہیں-(راجیش مدھولکر، ناگ پور)
میں بہت دنوں سے اسلام کے بارے میں سوچ رہی تھی، مجھ کو سی پی ایس کے بک اسٹال سے اچھی کتابوں کا سیٹ مل گیا- شاید میں اِن کتابوں کے ذریعے اسلام کو سمجھ سکوں- (مز سونیا مَنے، ناگ پور)
18- الرسالہ مشن سے متعلق مولانا عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر کا ایک تاثر یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ہم احساس محرومی میں جیتے تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ احساس یافت میں جینےکے قابل بنایا۔ہم بے شعور تھے ، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں شعور عطا کیا۔ہم ظواہر اسلام میں جیتے تھے ، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ روح اسلام سے متعارف ہونے کا موقع دیا۔اسلام ہمارے لئے ہاتھ کی چھنگلیا کی طرح تھا، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ اسے ہماری حقیقی زندگی میں شامل کیا اور اس کو ہمارے لئے روحانی غذا اور ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنا دیا- ہم خدا کی شعوری دریافت سے محروم تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں خدا کی شعوری دریافت سے متعارف کیا۔ہم خدا کو مانتے ہوئے خدا سے دور تھے ،ہمیں معلوم تھا کہ خدا ارحم الراحمین ہے اور ہمیں اس سے حب شدید ہونا چاہیے، لیکن خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہم کو کم لگتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ ہم حقیقی جذبات شکر سے محروم تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ بتایا کہ خدا کے ارحم الراحمین ہونے کو کس طرح دریافت کیا جائےاور خدا سے حب شدید کا طریقہ کیاہے۔ہم صرف نفی غیر کو جانتے تھے اور اسی کو خالص توحید سمجھے ہوئے تھے۔نفی ذات کیا ہے، اس سے ہم کلی طور پر بےخبر تھے، یہی وجہ تھی کہ ہم سچی تواضع سے بھی محروم تھے۔اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ نفیِ ذات کا شعور عطا کیا ۔ ہم اللہ اکبر کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ اللہ بڑا ہے، اس لئے ’’لوگو‘‘ تم بڑے نہیں ہو، اِس سے فخر اور ذاتی بڑائی کا احساس پیدا ہوتاتھا، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں بتایا کہ اللہ اکبر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بڑا ہے، اس لئے ’’میں‘‘ بڑا نہیں ہوں۔اس سے تواضع کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے- ہم کنفیوژن میں جیتے تھے - ہمیں معلوم نہیں تھا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ وہ کون سا کام ہے جس کو ہمیں اپنا سپریم کنسرن بنانا چاہئے- اِس وقت اسلام کے نام پر اٹھنے والی مسلم تحریکوں کا حال وہ ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے : کل حزب بما لدیھم فرحون (
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.