Turkey Rediscovered
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ تقریباً
یہ حدیث سادہ طورپر مدینہ کی پراسرار فضیلت کے بارے میں نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اِس حدیث میں تاریخ کا ایک قانون بیان کیاگیا ہے۔ یہ قانون تاریخ میں بار بار واقعہ بنا ہے، پھر یہی قانون، مدینہ (یثرب) کے حق میں واقعہ بنا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور یہاں اپنے پیغمبرانہ مشن کی منصوبہ بندی کی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک آپ مکہ میں تھے، آپ کا مشن عملاً ایک مقامی مشن کی حیثیت رکھتا تھا، مگر جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ کا مشن بہت جلد پورے ملک (عرب) میں پھیل گیا۔ اگر چہ پیشگی طور پر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی علاقہ بظاہر صرف ایک علاقہ معلوم ہوتا ہے، مگر بالقوہ طورپر وہ اپنے اندر وسیع تر امکانات کو چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔ اُس کی جغرافی حدیں بظاہر محدود ہوتی ہیں، لیکن اس کی امکانی حدیں اتنی زیادہ وسیع ہوتی ہیں کہ وہ دوسرے تمام علاقوں کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں — راقم الحروف کے نزدیک، ترکی اسی قسم کا ایک ملک ہے۔ ترکی میں اِس کے تمام امکانات موجود ہیں کہ وہ اسلامی دعوت کے لیے دورِ جدید میں ایک عالمی رول ادا کرسکے۔ ترکی اور بقیہ مسلم دنیا کے درمیان لسانی بُعد (language gap) تھا، اِس لیے بقیہ مسلم دنیا کے لوگ ترکی کے اِس امکان (potential) سے عملاً ناواقف رہے۔
کسی علاقے کی یہ امکانی حیثیت اتفاقی طورپر نہیں بنتی، بلکہ وہ لمبی مدت کے بعد بنتی ہے۔ اُس مقام کا جغرافیہ، اس کی تاریخ، اس کے سماجی حالات، وہاں کے لوگوں کا مزاج، وہاں کے ادارے (institutions)، وہاں پیش آنے والے واقعات وحوادث، سب اس کی تشکیل میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ کوئی لیڈر یا ریفارمر بطور خود واقعات کو وجود میں نہیں لاتا۔ وہ صرف یہ کرتا ہے کہ گہرے مطالعے کے بعد وہ اُس علاقے کے امکانات کو دریافت کرے اور پھر دانش مندانہ منصوبہ بندی کے ذریعے اس کے امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنائے۔
زیر نظر مقالے میں اِسی اعتبار سے جدید ترکی کا مطالعہ کیاگیا ہے۔ یہ صرف ایک مقالہ نہیں ہے، بلکہ وہ ترکی کے بارے میں راقم الحروف کا ایک ویژن (vision) ہے، وہ ایک مشن کا چارٹر (charter) ہے، وہ ترکی کے حال کی روشنی میں ترکی کے مستقبل کا ایک بیان ہے۔
ترکی سے میرا تعلق
میں 1938 میں تعلیم کے لئے انڈیا کے ایک عربی مدرسہ (الاصلاح) میں داخل ہوا۔ اسی سال ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کا انتقال ہوا تھا۔ اس طرح تقریباً
یکم مئی 2012 کو پہلی بار مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کا سفر کروں۔ یہ سفر ’’سیرتِ رسول‘‘ کے موضوع پر ہونے والی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے تھا۔ اِس میں 60 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس سلسلے میں مجھے تقریباً ایک ہفتہ ترکی میں قیام کا موقع ملا۔ یہ سفر میرے لئے ترکی کی دریافت کے ہم معنی بن گیا۔ 5 مئی 2012 کو جب میں نے ترکی کے ایک شہر (Gaziantep) میں مذکورہ کانفرنس میں افتتاحی خطاب کیا تو شروع ہی میں میں نے کہا:
It was my first visit to Turkey, but it proved to be a discovery visit.
اِس سفر سے پہلے میں ترکی کو دوسروں کی فراہم کردہ معلومات کی بناپر جانتا تھا، مگر جب میں نے خود ترکی کا سفر کیا تو مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھوں اور براہِ راست طورپر اس کو جاننے کی کوشش کروں۔ اِس کے نتیجے میں جو واقعہ پیش آیا، اس کو میں ایک لفظ میں اس طرح بیان کرسکتا ہوں کہ — میںنے ترکی کو ازسرِ نو دریافت کیا۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے اقتدار پاکر ترکی میں مذہب کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً انھوںنے حکم دیا کہ عربی کے بجائے ترکی میں اذان دی جائے۔ انھوں نے ایک قانون کے ذریعے ترکوں کو پابند کیا کہ وہ قدیم ترکی ٹوپی کے بجائے مغربی طرز کے ہیٹ (hat)پہنیں- انھوںنے مسجدوں کو میوزیم میں تبدیل کردیا- انھوں نے قرآن پر پابندی لگا دی، وغیرہ۔ جب میںوہاں پہنچا تو میںنے دیکھا کہ مسجدوں سے لاؤڈسپیکر پر عربی میں اذان کی آوازیں آرہی ہیں۔ مسجدوں میں لوگ اُسی طرح نمازیں پڑھ رہے ہیں جس طرح میں نے انڈیا میں اور دوسرے ملکوں میں دیکھا تھا۔ ہم نے اپنے اس سفر کے دوران کسی ترک کو ہیٹ پہنے ہوئے نہیں دیکھا- کانفرنس کا افتتاح ہوا تو وہاں ایک ترک قاری نے خالص عرب لہجے میں قرآن کی لمبی تلاوت کی۔اِن باتوں کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے مجھے یہ خیال آیا کہ شاید میں ترکی کے علاوہ کسی اور ملک میں پہنچ گیا ہوں، مگر باربار کے تجربات نے آخر کار یہ یقین کرنے پر مجبور کردیا کہ میں اُسی ملک میں ہوں جس کا نام ترکی ہے-
یہ ایک عام مزاج ہے کہ لوگ ناموافق چیزوں کا مبالغے کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، وہ ایک استثنائی واقعے کو جنرلائز کرکے اس کو عمومی انداز میں بیان کرتے ہیں- بظاہر ایسا ہی ترکی میں ہوا- کمال اتاترک نے پُرجوش اندازمیں مذہب کے خلاف کچھ باتیں کہیں اور اس کے مطابق کچھ اقدامات بھی کیے، لیکن اِن اقدامات کا نتیجہ عملی اعتبار سے نہایت محدود تھا اور یہی ہوسکتا تھا- اِس کی ایک مثال روس میں قائم ہونے والا کمیونسٹ ایمپائر ہے- وہاں باقاعدہ ایک مخالفِ مذہب نظریے کے تحت یہ کوشش کی گئی کہ کمیونسٹ ایمپائر میں مذہب کا کلی خاتمہ کردیا جائے، لیکن 1991 میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو اچانک وہاں مذہب دوبارہ زندہ ہوگیا- اِس کا سبب یہ تھا کہ حکومت کی مخالفانہ کارروائیوں کے باوجود مذہب اگرچہ اوپری سطح سے بظاہر غائب ہوگیا تھا، لیکن انڈرگراؤنڈ سطح پر وہ اب بھی موجود تھا- یہی واقعہ ترکی میں ہوا- اتاترک کے زمانے میں حکومت کی کارروائی سے مذہب ظاہری سطح پر کسی درجے میں غیر موثر ہوگیا تھا، لیکن اتاترک کے بعد رفتہ رفتہ وہ پوری طرح زندہ ہوگیا-اب کمال ازم صرف کچھ کتابوں میں پایا جاتا ہے، خود ترکی میں اس کا کوئی وجود نہیں-
اصل یہ ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ میں انسان کا مزاج ہمیشہ یک طرفہ رپورٹنگ کا رہاہے۔ لوگوں کی یہ قدیم عادت ہے کہ اگر کوئی اچھی بات ہو تو وہ اس کی رپورٹنگ نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی بظاہر بری بات ہو تو وہ اس کو فوراً رپورٹ کریں گے اور ہر جگہ مزید اضافے کے ساتھ اس کا چرچا ہونے لگے گا۔ یہی ترکی کے ساتھ ہوا۔ ترکی، کمال اتاترک کی روش سے زیادہ ، لوگوں کے اِس غلط مزاج کا شکار ہوا ہے۔ جدید ترکی جس بدنامی کا شکار ہوا ہے، وہ زیادہ تر لوگوں کے اِسی مزاج کا نتیجہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں، خود اتاترک کے فعل کا نتیجہ۔
مثال کے طور پر خلافت کے زمانے میں ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ اتاترک نے ایک قانون بنا کر ترکی زبان کے لئے رومن رسم الخط کو لازمی قرار دے دیا۔ یہ بات جس طرح بھیانک انداز میں رپورٹ کی گئی، حقیقت میں وہ اتنی بھیانک نہ تھی۔ اصل یہ ہے کہ ترکی زبان قدیم زمانے میں ایک آرمینین رسم الخط (Armenian Script) میں لکھی جاتی تھی، جس کا نام یہ تھا — Orkon۔نویں صدی عیسوی تک یہی آرمینین رسم الخط ترکی میں رائج رہا۔ اس کے بعد اسلام کے فروغ اور عربوں کے اختلاط کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ترکی میں عربی رسم الخط رائج ہوگیا۔
اس کے بعد جب ترکی میں اسلام پھیلا اور عربوں کو غلبہ حاصل ہوا تو دھیرے دھیرے انٹریکشن کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا کہ ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع اول میں اتاترک نے ترکی زبان کے رومن رسم الخط میں لکھے جانے کا حکم جاری کیا۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا دوسرا واقعہ تھا۔ یہ واقعہ بھی اتفاقاً نہیں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ جس طرح اِس سے پہلے عربوں کے اختلاط سے ترکی زبان میں عربی رسم الخط کا رواج ہوا تھا، اِسی طرح بعد کے زمانے میں یورپ کے اختلاط سے وہ ماحول پیداہوا جس کے زیر اثر اتاترک نے ترکی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں تبدیل کردیا۔ اِس پس منظر میں رسم الخط کے معاملے کو اگر دیکھا جائے تو وہ زیادہ سنگین نظر نہیں آئے گا۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ ترکی کے رسم الخط کو بدلنا وقت کا ایک تقاضا بن چکا تھا۔ ترکی جزئی طورپر یورپ کا ایک حصہ ہے۔ یورپ کی تمام زبانیں رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں یہ بالکل فطری تھا کہ ترکی زبان بھی اپنے پڑوسی ملکوں کے رسم الخط میں لکھی جائے۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں جب ترکی زبان کا رسم الخط بدلا گیا تو بظاہر وہ ایک ریڈیکل واقعہ نظر آتا تھا، لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ ایک دور اندیشی کا فیصلہ تھا۔ جلد ہی بعد دنیا میں کمپیوٹر کا دور آیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر کی اصل زبان انگریزی ہے جس کا رسم الخط رومن ہوتاہے۔ ترکی زبان اپنے رومن رسم الخط کی بنا پر بہت جلد کمپیوٹر کے دور میں داخل ہوگئی۔ وہاں بہت جلد ہر قسم کے علمی اور تعلیمی شعبوں کا کمپیوٹرائزیشن (computerization) ہوگیا، جب کہ آج بھی مسلم ممالک کی دوسری زبانیں جیسے اردو، عربی اور فارسی ، اِس معاملے میں، ترکی زبان سے بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی زبان میں ایک روزنامہ نکلتا ہے جس کا نام زمن (Zaman) ہے، یہ اخبار روزانہ ایک ملین کی تعداد میں چھپتا ہے۔ اس کا صحافتی درجہ یورپ کے کسی بھی معیاری اخبار کے برابر ہے۔ اس قسم کا معیاری اخبار کسی مسلم ملک میں آج بھی نہیں پایا جاتا۔ اِسی مثال پر دوسری چیزوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
ایک علامتی مثال
اہلِ عرب اور شام (Syria) کے درمیان تعلقات قدیم زمانے سے قائم تھے۔ شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنا بہت آسان تھا۔ یہ فاصلہ 500 میل سے بھی کم تھا۔ چناں چہ اصحاب رسول کی جماعت ساتویں صدی عیسوی میں شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنے لگی۔ اِس آمد ورفت کے دوران ترکی میں اسلام پھیلنے لگا، یہاں تک کہ ترکی کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔
لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، بعد کو زوال شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے آخر میں ترکی کے مسلمانوں کا یہ زوال آخری حد تک پہنچ گیا۔ اِس دور میں ترکی کے علما کا کیا حال تھا، اُس کا اندازہ ایک علامتی مثال سے ہوتا ہے۔
خلیفہ عبد الحمید ثانی کا زمانۂ حکومت 1876 سے 1909 تک ہے۔ اس نے ترکی میں ریفارم لانے کی کوشش کی۔ اس نے تعلیمی اصلاحات کا نفاذ کیا- تاہم روایتی ذہن کی بنا پر ملک میں اس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس کو تخت سے معزول کردیاگیا۔
قدیم زمانے میں ترکی اپنے بحری بیڑے کے لیے مشہور تھا، مگر اٹھارھویں صدی میں جب یورپ میں بھاپ (steam) کی طاقت دریافت ہوگئی اور بحری جہازوں کو اسٹیم انجن کے ذریعہ چلانے کا دورآیا تو ترکی اس میدان میں بہت پیچھے ہوگیا۔ اُس وقت وہاں کے مذہبی طبقے کا فکری زوال اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ نئے طرز کی دخانی کشتیوں کو حاصل کرنا اور ان کو استعمال کرنا بھی اُن کو ایک غیرمذہبی فعل نظر آنے لگا۔
سلطان عبد الحمید ثانی (وفات: 1918 )پہلا شخص تھا جس نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا بحری بیڑہ (اُسطول) تیار کرایا۔ کہاجاتا ہے کہ جب دُخانی کشتیاں تیار ہوگئیں تو اس کے بعد وقت کے تُرک علما نے اصرار کیا کہ اس کو استعمال کرنے سے پہلے اُس پر ختمِ بخاری کی رسم ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کشتیوں کو سمندر میں داخل کرنا ان کے نزدیک خطرناک تھا۔ علما کا اصرار جب بڑھا تو اُس وقت کے ایک دانش ور جمیل صدقی الزھاوی (وفات: 1936 ) نے اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ — اِس زمانے میں بحری بیڑا بخار (بھاپ) سے چلتا ہے، نہ کہ بخاری سے: إن الأساطیل فی ہذا العصر تسیر بالبخار، لابالبخاری۔
یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس سے معلوم ہوتاہے کہ انیسویں صدی کے ترک علما فکری زوال کی اُس حالت تک پہنچ چکے تھے، جہاں 500 سال پہلے یورپ کے مسیحی علما تھے۔ اُس زمانے کے مسیحی علما نے یہ کیا تھا کہ انھوں نے سائنس کو اپنے مذہبی عقیدے کے تابع کررکھا تھا۔ وہ سائنس کی ہر اُس دریافت کے دشمن ہوجاتے تھے جو اُن کو اپنے مزعومہ عقیدے کے خلاف نظر آئے۔ اِس کی ایک مثال اٹلی کا سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642 ) ہے- گلیلیو کو آفتاب مرکزی نظریہ (helio-centric theory) پیش کرنے پر سخت سزا دی گئی، صرف اِس لیے کہ آفتاب مرکزی نظریے کو چرچ نے اپنے مذہبی عقیدے کے خلاف سمجھ لیا تھا۔
مگر یہ صرف فکری زوال کا مسئلہ تھا، وہ خدائی مذہب کا مسئلہ نہ تھا۔ اِس معاملے میں اسلام کا موقف اُس حدیث سے معلوم ہوتاہے جو صحیح مسلم میںآئی ہے۔ مدینہ میں ’تابیر نخل‘ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اُس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات اِن الفاظ میں فرمائی: أنتم أعلم بأمر دنیاکم ( صحیح مسلم، رقم الحدیث:2363) یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں زیادہ جانتے ہو۔
تابیر نخل یا پالی نیشن (pollination) کا معاملہ ایک سیکولر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔اِسی طرح ٹکنالوجی یا سائنس کی دریافتیں سیکولر شعبے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ اِس طرح کے معاملات میں سائنٹفک رسرچ کا لحاظ کیا جائے گا، اُن کو عقیدے سے جوڑ کر فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں۔
کمال اتاترک کی اصلاحات اصلاً ایک زوال یافتہ مسلم کلچر کے خلاف تھیں-حقیقت یہ ہے کہ ترکی کو قدیم روایتی دور سے نکال کرنئے سائنسی دور میں پہنچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ اتاترک کی کارروائیوں کو اس کے انتہا پسندانہ طریقِ کار کے اعتبار سے نہیں دیکھنا چاہئے، بلکہ ضرورت ہے کہ اس کو اُس کے نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھا جائے- اس میں کوئی شک نہیں کہ کمال ازم (Kemalism) کے نتیجے میں ترکی میں ایک نئی بیداری آئی۔ اِس کے بعد ترکی میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ دنیا کے
اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک تقابلی مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جون 2011 میں راقم الحروف کا ایک سفر امریکا کے لیے ہوا تھا۔ اِس سفر کے دوران مجھ کو ایک امریکی شہر کے مسلم سنٹر میں خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اِس اجتماع میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے جو پاکستان سے آکر امریکا میں مقیم ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی تقریر کے دوران حضرت ابو بکر صدیق کا ایک واقعہ بیان کیا۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے میںنے اُن کا ایک جملہ اِن الفاظ میں نقل کیا: من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت (صحیح ابن ماجہ، رقم الحدیث:1329) یعنی جو شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد کی وفات ہوگئی، اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ زندہ ہے، اس کی وفات ہونے والی نہیں۔
کچھ پاکستانی مسلمان میرے اِس جملے پر زور زور سے بولنے لگے۔انھوں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ اجتماع کو انتشار کی حالت میں ختم کرنا پڑا۔ ایک پاکستانی نوجوان نے اسٹیج پر آکر غصے میں کہا:
You cited our Prophet by name several times, but you never said: صلی اللہ علیہ وسلم
اب ایک مختلف مثال لیجئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ترکی کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں ہوا، جو 5 مئی 2012 کو ترکی کے شہر غازی عین تاب (Gaziantep) میں ہوئی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں دعوت الی اللہ کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہا کہ اصحاب رسول میں سے کئی افراد دعوت وتبلیغ کے لیے ترکی آئے۔ یہاں ان کی قبریں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ اصحاب، زبانِ حال سے پیغمبر کی امت کو پکاررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:
O Ummat-e-Muhammad, where are you? Rise and complete the prophetic mission by doing dawah work in the present world.
میں نے اپنا یہ جملہ بتکرار دہرایا، دورانِ تقریر میں نے کئی بار رسول اللہ کا نام لیا، مگر وہاں یہ حال ہوا کہ لوگ میری بات کو سن کر رونے لگے۔ اجتماع کے بعد بہت سے لوگ مجھ سے ملے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اصل بات کی طرف توجہ دلائی، آپ نے ہم کو بیدار کردیا، آپ نے ہم کو ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، وغیرہ۔ وہاں کسی ایک شخص نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ نے رسول اللہ کا نام لیا، مگر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا۔
ترکی کا نیا رول
ترکی میں ساتویں صدی عیسوی میں اسلام داخل ہوا۔ یہاں اسلام کو کافی فروغ ملا،یہاں تک کہ یہاں عثمانی خلافت کے نام سے تیرھویں صدی عیسوی میں ایک مسلم ایمپائر قائم ہوگیا۔ ترکی اور اُس وقت کی مسلم دنیا کے لیے اِس عثمانی ایمپائر کا بہت بڑا مثبت رول ہے۔ اُس زمانے میں اسلام کے فروغ کے لیے سیاسی انفراسٹرکچر (political infrastructure)درکار تھا۔ عثمانی خلافت یا عثمانی ایمپائر کو اللہ تعالیٰ نے اِسی اہم کام کا ذریعہ بنایا۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔
اِس سیاسی بنیاد کے بغیر پچھلی صدیوں میں اسلامی دعوت کا استحکام ممکن نہ تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں قانونِ فطرت کے تحت اِس نظام پر زوال اور انحطاط کا دورآیا، یہاں تک کہ اس کے لیے پچھلی حالت پر قائم رہنا مشکل ہوگیا۔ اُس وقت کمال اتاترک نے ایک رول ادا کیا۔
اپنے 18 سالہ دورِ اقتدار میں کمال اتاترک نے جو کام کیا، اس کو ترکی کی تاریخ میں کمال ازم کا نام دیاگیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، کمال اتاترک مخالفِ مذہب نہ تھے، وہ دراصل اُس زوال یافتہ مذہبی ڈھانچے کے خلاف تھے جس کی نمائندگی اُس وقت کے ترک علما کررہے تھے۔ اتاترک کے بارے میں انسائکلو پیڈیا کے مقالہ نگار (Mete Tuncay) نے درست طور پر لکھا ہے:
Atatürk was not an outright atheist but a deist who believed in a rational theology, denying the absolute truth of revealed religions. For tactical reasons, at the beginning of his political career, he recognized Islam as the latest and most perfect of all religion; this declaration, however, equated Islam with the natural religion he fancied. (Kemalism, The Oxford Encyclopedia of the Modern Islamic world, Vol. 2, page.
کمال اتاترک نے جو انقلابی کارروائیاں کیں، اُس کا مثبت تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کے بعد ترکی میں شخصی سلطنت کے بجائے جمہوریت (democracy) کے دور کا آغاز ہوا، قدیم مذہبی تعلیم کی جگہ سیکولر تعلیم رائج ہوئی، مشرقی کلچر کی جگہ مغربی کلچر اختیار کیا گیا، روایتی نظام کی جگہ ہر شعبے میں ماڈرن طریقے رائج ہوئے، وغیرہ۔
اتاترک آپریشن کے بعد ترکی میں جو نئے مواقع کھلے، اُس کے نتیجے میں ترکی میں ریفارمر (reformers)پیدا ہوئے۔ مثلاً سعید نورسی(وفات: 1960) اور استاذ محمد فتح اللہ گولن (پیدائش: 1941)، وغیرہ۔ استاد فتح اللہ گولن اور ان کے پیروؤں نے ترکی میں ایک قابلِ قدر کام انجام دیا ہے۔ انھوںنے بڑی تعداد میں جدید طرز کے تعلیمی ادارے کھولے، کلچر اور صحافت کے میدان میں انھوں نے نمایاں کام کیا، غیر سیاسی انداز میں سماج کی تعمیر کے لیے انھوں نے امتیازی کام انجام دیا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انھوںنے ترکی میں قدیم پولٹکل انفراسٹرکچر (political infrastructure) کی جگہ بڑے پیمانے پر ایک نیا سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure) قائم کردیا جو کہ اگلے مرحلے کے کام کے لیے ایک مضبوط بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
اکیسویں صدی کے ربع اول میں اب وقت آگیا ہے کہ ترکی میں اگلے مرحلے کا کام کیا جائے۔ یہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام دراصل اُس کام کی تکمیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں صحابہ اور تابعین کے ذریعے ترکی میں انجام پایا تھا اور پھر دھیرے دھیرے وہ تقریباً ختم ہوگیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے دعوتی مشن کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور ترکی میں سماجی اور تمدنی اعتبار سے جو نئی بنیاد قائم ہوئی ہے، اس کو بھر پور طور پر استعمال کرتے ہوئے پیغمبراسلام کے دعوتی مشن کی تکمیل کی جائے۔
دورِ شمشیر کا خاتمہ
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ کمال اتاترک نے حقیقۃ ً عثمانی خلافت کا خاتمہ نہیں کیا تھا، بلکہ انھوںنے صرف اس کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔ خلافت کے زمانے میں جو سیاسی کلچر رائج تھا، اُس کی نوعیت کیا تھی، اُس کا اندازہ اِس واقعے سے ہوتاہے کہ سلطان محمد فاتح (وفات: 1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب بھی کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ابو ایوب انصاری) میں اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتی اعظم قسطنطنیہ) عثمانی خاندان کے بانی سلطان عثمان خان (وفات: 1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ خصوصی رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
دورِ خلافت کی اِس شاہانہ رسم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور میں ترکی کے اندر وہی کلچر رائج تھا، جو اُس وقت تمام دنیا میں رائج تھا، یعنی مبنی بر شمشیر کلچر۔ اس کلچر کی نمائندگی ایک قدیم فارسی شعر میں اِس طرح کی گئی ہے کہ — جو شمشیر زنی کرتا ہے، اُسی کے نام کا سکہ دنیا میں چلتا ہے:
ہر کہ شمشیر زند، سکّہ بنامش خوانند
انیسویں صدی کے نصف ثانی میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب شمشیر کی روایتی طاقت ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ اب علم (سائنس) نے لے لی ہے۔ اب ایک ترمیم کے ساتھ مذکورہ فارسی شعر کو اِس طرح پڑھنا چاہئے کہ — جو سائنس میں آگے بڑھتا ہے، اس کا دبدبہ دنیا میں قائم ہوتاہے:
ہر کہ سائنس زند، سکّہ بنامش خوانند!
کمال اتاترک نے ترکی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو کچھ کیا، وہ اپنے عملی نشانے کے اعتبار سے یہی تھا، یعنی ترکی کو دورِ شمشیر سے نکال کر دورِ سائنس میں داخل کرنا۔ کمال اتاترک نے اپنی آئڈیالوجی کو خود اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا تھا:
Science is the most reliable guide in life. (EB.
آج جو شخص ترکی کا سفر کرتاہے ، وہ واضح طورپر دیکھتاہے کہ قدیم ترکی کی تعمیر اگر ’’شمشیر‘‘کے ذریعے کی گئی تھی، تو جدید ترکی کی تعمیر ’’سائنس‘‘ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ جدید ترکی کے ہرشعبے میں سائنسی ترقی کے آثار واضح طورپر دکھائی دے رہے ہیں۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم دور میں اقتصادیات کی بنیاد زراعت پر ہوتی تھی۔ جدید دور میں اقتصادیات کی بنیاد صنعت پر قائم ہوگئی ہے۔ جدید ترکی نے اِس راز کو سمجھا اور صنعت کے تمام شعبوں میں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ عرب ممالک کی بظاہر خوش حالی تمام تر قدرتی تیل کی بنیاد پر قائم ہے۔ ترکی بھی ایک خوش حال ملک ہے، لیکن اس کی خوش حالی کا انحصار برعکس طور پر صنعتی سرگرمیوں پر قائم ہے، نہ کہ تیل کے قدرتی وسائل پر، کیوں کہ تیل جیسی چیز وہاں موجود ہی نہیں۔ اِس قسم کی ترقی بلاشبہہ سائنس اور جدید تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔
ترکی کا پلس پوائنٹ
ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کو 18 سال1920-1938) (تک سیاسی اقتدار حاصل رہا۔ اِس مدت میں انھوںنے جو ریڈیکل کام کئے، اس کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے۔ کمال ازم کا اگر موضوعی مطالعہ (objective study) کیاجائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ کمال ازم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی بلڈوزر (divine bulldozer) کی حیثیت رکھتا تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے زوال یافتہ بوسیدہ کلچر کو ڈھادیا، تاکہ اس کی جگہ ایک نئی عمارت کی تعمیر کی جاسکے۔ کمال ازم کا یہ معاملہ ترکی کے مشہور صوفی شاعر جلال الدین رومی کے اِس شعر کا مصداق تھا کہ — جب کسی عمارت کو آباد کرنا ہوتاہے تو پہلے پرانی عمارت کو ڈھادیتے ہیں:
چوں بنائے کہنہ آباداں کنند اولاً تعمیر را ویراں کنند
اسلام کا اصل ماڈل وہ ہے جو دعوت الی اللہ کے تصور پر قائم ہوتاہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں یہی اسلام کا ماڈل تھا، مگر بعد کو رفتہ رفتہ اُس پر زوال آیا اور دعوتی ماڈل کے بجائے دو متوازی (parallel) ماڈل قائم ہوگئے — پولٹکل ماڈل، اور فقہی ماڈل۔ پولٹکل ماڈل کا یہ نتیجہ ہوا کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے لیے دعوت کا موضوع نہ رہیں، بلکہ وہ سیاست اور حکومت کا موضوع بن گئیں۔ اِسی طرح فقہی ماڈل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام، اسپرٹ کے معنی میں، تعلق باللہ کاموضوع نہ رہا، بلکہ وہ صرف فارم کی بابت فنی بحثوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔ یہ دونوں ماڈل اللہ کی مرضی کے مطابق نہ تھے، چناں چہ اللہ کو مطلوب ہواکہ اُن کو بے رحمی کے ساتھ بلڈوز کرکے ڈھادیا جائے۔ یہی کام تھا جو کمال اتاترک کے ہاتھوں بیسویں صدی کے ربع اول میں انجام پایا۔حقیقت کے اعتبار سے یہ فطرت کا بلڈوزر تھا، نہ کہ کمال اتاترک کا بلڈوزر-
ایک حدیثِ رسول
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062 ) یعنی بے شک اللہ اِس دین کی تائید فاجر شخص سے کرے گا۔
اِس حدیث میں ’فاجر‘ سے مراد وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں سیکولر کہاجاتا ہے۔ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک دین کی تعلیم اور دین کی تشریح کا تعلق ہے، اس کو صرف مخلص اور مومن لوگ ہی انجام دیں گے، لیکن وسیع تر معنوں میں دین کی ایک اور ضرورت ہے اور وہ تائید دین ہے۔ یہ تائیدی رول (supporting role) کوئی بھی شخص انجام دے سکتاہے، حتی کہ سیکولر افراد یا سیکولر نظام بھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر عبد اللہ بن ارقط کا سفری رہنما کا رول اسی قسم کے ایک تائیدی رول کی حیثیت رکھتاہے-
اگر یہ مانا جائے کہ کمال اتاترک محض ایک سیکولر آدمی تھے، وہ نہ کوئی مذہبی آدمی تھے اور نہ ان کا مشن کوئی مذہبی مشن تھا، تب بھی یہ ماننا ہوگا کہ مذکورہ حدیث کے مطابق، اسلام یا مسلمانوں کے لیے کمال اتاترک کا تائیدی رول ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔
سیاسی ماڈل کا نقصان
ترکی کی اسلامی خلافت کیا تھی، وہ اسلام کے نام پر خاندانی بادشاہت تھی۔ مگر اسلام کا ٹائٹل دینے کی بنا پر وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سیاست کا ماڈل بنی ہوئی تھی۔ ہر جگہ مسلمان اسی نہج کا ماڈل قائم کرنے کے لیے سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ اِس راہ میں جان ومال کی قربانی کو انھوں نے اپنے لیے نجاتِ آخرت کا ذریعہ سمجھ لیا تھا۔
ترکی کی مسلم خلافت 1924 میں ختم ہوئی، لیکن تمام دنیا کے علما اُس کو دشمنوں کی سازش قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہے۔ کسی نے اِس راز کو نہیں سمجھا کہ خلافت کا ’’اِلغاء‘‘ دراصل ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اندر قدیم سیاسی ذہن ختم ہو اور ان کے اندر نیا دعوتی ذہن پیدا ہو۔ مگر مسلم رہنماؤں کے منفی رد عمل کی بنا پر 1924 کے بعد بھی مسلمانوں میں قدیم سیاسی ذہن ختم نہ ہوا، مسلمانوں کے اندر سیاسی اعتبار سے، تفکیرِ نو (rethinking) کا پراسس جاری نہ ہوسکا، جو کہ مطلوب تھا۔
اس کی ایک مثال بوسنیا ہرزے گووینا (Bosnia Hercegovina) کا کیس ہے۔ بوسنیا یورپ کے قلب میں واقع ہے، جو کہ قدیم زمانے میں عثمانی خلافت کا ایک حصہ تھا- ہرزے گووینا یوگوسلاویہ (Yugoslavia) کا ایک صوبہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد
عزت بیگووچ (وفات: 2003 ) کو موقع تھا کہ وہ بوسنیا میں دعوتی اور تعلیمی کام کریں، مگر اپنے سیاسی شاکلہ کی بنا پر انھوںنے ایک غیر دانش مندانہ اقدام کردیا۔ انھوں نے بوسنیا کو ایک آزاد مسلم اسٹیٹ (independent Muslim state) ڈکلیر کردیا۔ یوگوسلاویہ کی مرکزی حکومت کے لیے اُن کا یہ اعلان، بغاوت کا درجہ رکھتا تھا۔ چناں چہ مرکزی حکومت نے بوسنیا کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی۔ بیگووچ کے اِس اعلان سے بوسنیا کے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہیں ملا۔ سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset)نہ ٹوٹنے کی وجہ سے مسلمان جگہ جگہ اِسی قسم کی غیرحقیقت پسندانہ سیاست چلاتے ہیں اور نتیجۃً وہ اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔
فقہی ماڈل کا نقصان
فقہ کا شعبہ ایک مستقل شعبہ (independent discipline) کے طور پر صحابہ اور تابعین کے دور میں موجود نہ تھا۔ فقہ کی تشکیل بعد کو عباسی دور750-1258) (میں ہوئی۔ فطری طورپر فقہ کے بہت سے مسائل وقتی حالات کے تقاضے کے تحت بنائے گئے، مگر بعد کو وہ مقدس ہو کراسلام کا ابدی حصہ سمجھے جانے لگے۔ اِس حدکو پہنچ کر فقہ کا شعبہ اُسی طرح ایک فرسودہ ڈھانچہ بن گیا جس طرح مسلم خلافت کے ادارے نے بعد کے زمانے میں ایک فرسودہ ڈھانچے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ فقہ کی تشکیل کے زمانے میں پرنٹنگ پریس کا طریقہ دریافت نہیں ہوا تھا۔کتابیں یا تو حافظے میں ہوتی تھیں یا ہاتھ سے اُن کو قدیم طرز کے معمولی کاغذ (parchment) پر لکھا جاتا تھا۔ اُس دور کے مسلم علما، قرآن کی حفاظت کے معاملے میں بہت زیادہ حساس بن گئے۔ اُس زمانے میں بعض لوگوں نے قرآن کا فارسی ترجمہ کیا۔ اِس سے ایک مسئلہ پیدا ہوا۔ علما نے یہ فتویٰ دے دیا کہ ترجمہ جب لکھا جائے تو اُس کے ساتھ قرآن کا عربی متن (Arabic Text) بھی ضرور شامل کیا جائے۔ قبل از طباعت دور کا یہ مسئلہ بعد از طباعت دور میں بھی مقدس بن کر باقی رہا۔ اس معاملے کی ایک مثال حسب ذیل استفتا اور فتوے سے معلوم ہوتی ہے:
استفتا: کیا قرآن کا ترجمہ بغیر متن کے چھاپنا اور اس کی اشاعت کرنا جائز ہے-
فتوی: قرآن کریم کا ترجمہ بغیر متن کے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ علماءِ کرام نے اس سے منع کیا ہے، اور اس کے ممنوع ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے، اور اس میں علامہ شرنبلالی کے اِس موضوع پر ایک مستقل رسالہ (النفحۃ القدسیۃ فی أحکام قراء ۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ) کا ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ اس میں ائمہ اربعہ سے بغیر متن، قرآن کے لکھنے کو سختی کے ساتھ حرام کیاگیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کا صرف ترجمہ بغیر عربی الفاظ کے لکھنا اور لکھوانا اور شائع کرنا، باجماعِ امت حرام اور باتفاق ائمہ اربعہ ممنوع ہے‘‘۔ (جواہر الفقہ، جلد 1، صفحہ
مذکورہ فتوے کی بنیاد یقینی طور پر کسی نص پر مبنی نہیں ہے۔ اگر اُس کو درست قرار دیا جاسکتاہے تو صرف ایک بنیاد پر اس کو درست قرار دیا جاسکتاہے، اور وہ دورِ طباعت سے پہلے کے حالات کی نسبت سے ایک وقتی احتیاط ہے۔ اب دور طباعت میں اِس وقتی احتیاط کو برقرار رکھنا صرف ذہنی جمود کا ایک معاملہ ہوگا، نہ کہ حقیقۃً احتیاط کا معاملہ۔ دورِ طباعت میں قرآن کی حفاظت اتنے مستحکم انداز میں ہوچکی ہے کہ اب قدیم انداز کی کوئی احتیاط سرتاسر بے معنی ہے۔
مزید یہ کہ اِس قسم کے مفتی صاحبان نے اپنے جامد ذہن کی بنا پر ایک اور فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ فتویٰ ’’بے حرمتی‘‘ کے خود ساختہ تصور پر مبنی ہے۔اِس دوسرے فتوے کے مطابق، قرآن کے ترجمے کو اگر متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو غیر مسلموں کے ہاتھ میں اس کو دینا جائز نہ ہوگا، کیوں کہ وہ قرآن کی بے حرمتی کریں گے۔ گویا کہ قرآن کے ترجمے کو اگر متن (text) کے بغیر شائع کیا جائے تو اس کا شائع کرناناجائز ہے۔ اوراگر قرآن کے ترجمے کو متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو اس کو غیر مسلموں کے ہاتھ میں دینا ناجائز ہے، یعنی پہلی صورت میں طباعت ناجائز اور دوسری صورت میں استعمال ناجائز۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ذہنی جمود اپنے نتیجے کے اعتبار سے کتنا زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اِس قسم کے جامد فتووں کا یہ ہلاکت خیز نتیجہ ہوا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام عملاً معطل ہو کر رہ گیا۔ دعوت الی اللہ کے کام کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں چھاپا جائے اور اس کو منظم طورپر لوگوں تک پہنچایا جائے۔ لیکن مذکورہ قسم کے بے اصل فتوؤں کی بنا پر ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن ہی نہیں بنا۔ موجودہ زمانےمیں پرنٹنگ پریس کا دور اِس لیے آیا تھا کہ خدا کی کتاب کا ترجمہ ہر زبان میں چھاپ کر اس کو تمام انسانوں تک پہنچایا جائے، مگردورِپریس پر تین سو سال سے زیادہ کی مدت گزر گئی اور ذہنی جمود کی بنا پراب تک یہ کام انجام نہ پاسکا۔
اِس مثال کے برعکس، ترکی میں ایک دوسری مثال سامنے آئی۔ یہاں ترکی کے شہر استانبول میں ایک تاریخی مسجد (رستم پاشا مسجد) ہے۔ یہ بڑی مسجد ہے اور یہاں کثرت سے سیاح آتے ہیں۔ یہاں کے ترکی امام کو ہمارے ساتھیوں نے قرآن کے انگریزی ترجمہ (بغیر متن) کی کاپیاں دیں۔ امام صاحب نے اس کو خوشی کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے بڑی تعداد میں قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ ترکی سے چھپوایا اور اس کو مزید پرکشش بنانے کے لیے قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ تیار کیا۔ اب وہ اس کو باقاعدہ نظم کے تحت مسجد میں آنے والے سیاحوں کو دے رہے ہیں۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھوںنے مسجد کے صحن میں ایک میز پر قرآن کے ترجمے رکھ دئے ہیں۔ یہاں انھوں نے لکھ دیاہے کہ — یہ آپ کے لیے مسجد کی طرف سے فری اسپریچول گفٹ (free spiritual gift) ہے۔ چناں چہ مسجد میں آنے والے غیر مسلم سیاح یہاں سے بڑی تعداد میں قرآن کا انگریزی ترجمہ بخوشی حاصل کررہے ہیں۔
اِس فرق سے جدید ترکی کے مثبت پہلو کا اندازہ ہوتاہے۔ اتاترک آپریشن کے بعد ترکی میں یہ ہوا کہ جمود ٹوٹ گیا اور لوگوں کے اندر کھلا پن (openness) آیا۔ اِس کے مختلف مظاہر میں سے ایک مظہر یہ تھا کہ لوگوں کے اندر مذہبی جمود کا مزاج ختم ہوگیا۔ وہ چیزوں کو اُس کی حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ قدامت پسندی اور کٹر پن کے اعتبار سے۔
ترکی کا ر ول
ترکی، شرقِ اوسط کا ایک ملک ہے۔ وہ جزئی طورپر ایشیا میں واقع ہے اور جزئی طور پر یورپ میں۔ دو براعظم کے درمیان اُس کا واقع ہونا اس کی تاریخ بنانے میں ایک مرکزی عامل ہے، اس کے کلچر میں اور اس کی سیاست میں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتاہے:
Turkey is a country of the Middle East lying partly in Asia and partly in Europe. Its location in two continents has been a central factor in its history, culture and politics. Turkey has often been called a bridge between East and West. (EB. 18/782)
ترکی کے ایشیائی حصے کو اناطولیہ (Anatolia) اور اس کے یورپی حصے کو تھریس (Thrace) کہاجاتاہے۔ ترکی کا یہ مختلف جغرافیہ کیسے بنا۔ ارضیاتی سائنس کے ماہرین نے اِس معاملے کی تحقیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ 200 ملین سال پہلے زمین ایک سالم کرہ کی صورت میں تھی، پھر اس کی سطح پر جگہ جگہ پھٹنے کا عمل ہوا۔ اِس نظریے کو جغرافیہ میں ڈرفٹنگ کانٹی نینٹ تھیوری (drifting continent theory) کہا جاتا ہے۔ یہ عمل دھیرے دھیرے تقریباً 140 ملین سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد سطحِ زمین کا پانی سمندروں کی صورت میں جمع ہوگیا اور خشکی کے علاقے 5 الگ الگ براعظم بن گئے۔ گویا کہ ترکی کا موجودہ جغرافی نقشہ بننے میں ایک سو ملین سال سے زیادہ وقت لگ گیا۔
ترکی کا یہ مختلف جغرافیہ اتفاقاً نہیں بنا۔ اس کے پیچھے یقیناً خالق کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ اِسی مختلف جغرافی ساخت کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ بعد کے زمانے میں ترکی انسانی تاریخ میں ایک مختلف رول ادا کرسکے۔
اسلام کا ظہور عرب میں ہوا۔ مخصوص اسباب کی بنا پر عرب کے لوگ بڑی تعداد میں شام (Syria) جایا کرتے تھے۔ شام کا ملک ترکی سے ملاہوا ہے۔ اسلام کا ظہور جب عرب میں ہوا اور اہلِ ایمان عرب کے باہر اطراف کے ملکوں میں تبلیغ کے لیے جانے لگے، تو اُن کی ایک تعداد شام سے گزر کر ترکی میں بھی داخل ہوگئی۔ یہ عمل صحابہ کے زمانے میں شروع ہوگیا تھا۔ چناں چہ ترکی میں بہت سے اصحابِ رسول کی قبریں پائی جاتی ہیں۔ اُن میں سے ایک حضرت ابو ایوب انصاری ہیں جن کی قبر استانبول (قسطنطنیہ) میں واقع ہے۔ اِس طرح ترکی ایک طرف قدیم مذہبی روایات کا حامل بن گیااور دوسری طرف آبنائے باسفورس کے اوپر برٹش انجینئروں کا بنایا ہوا جدید طرز کا پُل علامتی طورپر، یورپی ٹکنالوجی کی یاد دلاتا ہے۔ اِس طرح ترکی گویا مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک سنگم (junction) کا کام کررہا ہے۔
ترکی کا یہ مخصوص جغرافیہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ ترکی کا مشن کیا ہے۔ وہ مشن ہے— مشرق سے ملی ہوئی خدائی ہدایت (divine guidance)کو اہلِ مغرب تک پہنچانا۔
اِس وقت دنیا میں تقریباً 60 مسلم ملک یا مسلم اکثریت کے علاقے ہیں، مگر اِن میں سے کوئی بھی ایسا ملک نہیں جہاں مذکورہ حالات پائے جاتے ہوں۔ یہ مطلوب حالات استثنائی طورپر صرف ترکی میں پائے جاتے ہیں۔ اِس لیے تقریباً یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ دعوت الی اللہ کے معاملے میں آج جو رول مطلوب ہے، اس کا مرکز صرف ترکی بن سکتاہے، ترکی خداوند ِ رب العالمین کا انتخاب ہے۔
اِس معاملے میں، باعتبار نتیجہ، کمال اتاترک کا بھی ایک معاون رول (supporting role) ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی طبقے میں عام طورپر کمال اتاترک ایک بدنام شخص کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کمال اتاترک نے جو کچھ کیا، وہ ایک ریڈیکل آپریشن (radical operation) تھا، اور کسی بڑی تعمیر کے لیے ہمیشہ اِس قسم کا ریڈیکل آپریشن ضروری ہوتاہے۔
میرے مطالعے کے مطابق، کمال اتاترک اسلام دشمن نہ تھے، وہ دراصل اسلام کے نام پر بنائے ہوئے خود ساختہ ڈھانچے کو توڑنا چاہتے تھے۔ اُن کا نشانہ یہ تھا کہ ترکی کے لوگوں میں کٹر پن اور جمود ختم ہو۔ ترکی میں کھلے پن (openness) اور روشن خیالی (enlightenment) کا دورآئے۔ ترکی کے لوگوں کو قدیم توہم پرستانہ دور سے نکال کر جدید سائنسی دور میں داخل کیا جائے۔ ترکی میں سیکولر ایجوکیشن کو فروغ دیاجائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی انقلابی تبدیلی ریڈیکل آپریشن کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
کمال اتاترک ترکی میں جو ریفارم لانا چاہتے تھے، اس کا اندازہ خود اُن کے ایک قول سے ہوتاہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ — سائنس زندگی کی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما ہے-
کمال ازم کی حقیقت
کمال اتاترک کی تحریک کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے- کمال ازم کی تحریک اینٹی اسلام تحریک نہ تھی- اپنی حقیقت کے اعتبار سے، کمال ازم کی تحریک مخالفِ جمود (anti-stagnation) تحریک تھی- ترکی میں کمال اتاترک کا دور 1920 کے بعد شروع ہوتاہے- اس سے پہلے ترکی مکمل طور پر ذہنی جمود کا شکار ہوچکا تھا- یہ وقت تھا جب کہ ترکی کے پڑوسی علاقہ یورپ میں ماڈرن ایجوکیشن اور ماڈرن انڈسٹری آچکی تھی، مگر ترکی قدیم روایتی دور میں پڑا ہوا تھا- اِس صورتِ حال کے ردِ عمل کے طورپر ترکی کے بہت سے لوگوں میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ ترکی کو ماڈرنائز کیا جائے- کمال اتاترک دراصل اِسی ذہن کے قائد کے طورپر ابھرے-
ترکی میں کمال اتاترک کو 1923 میں سیاسی اقتدار ملا- اِس کے بعد انھوں نے ملک میں ریڈیکل اصلاحات کیں- خاص طورپر تعلیم اور انڈسٹری میں ترکی کو یورپ کی ترقیاتی سطح پر لانے کی کوشش کی- اتاترک سے پہلے ترکی میں تعلیم کی شرح بمشکل 20 فی صد تھی، مگر کمال آپریشن کے نتیجے میں ترکی میں تعلیم اتنی تیزی سے بڑھی کہ جلد ہی وہ 90 فی صد تک پہنچ گئی:
The literacy rate did increase greatly after the alphabet reform from around 20% to over 90%.
ترکی کے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ — کمال انتظامیہ نے ترکی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں- اس نے ترکی میں سیکولرازم کو فروغ دیا اور حکومتی نظام کو ماڈرنائز کیا- تعلیم کو ترقی دینے پر خصوصی توجہ دی گئی- انڈسٹری اور بینکنگ کے نظام کو بہت زیادہ وسعت دی گئی:
Kemalist administration brought about a thorough secularization and modernization of the administration, with particular focus on the education system. The development of industry was promoted by strategies such as import substitution and the founding of state enterprises and state banks.
کمال اتاترک کے اِنھیں اقدامات کا یہ نتیجہ ہےکہ آج ترکی، جدید اصطلاح کےمطابق، ایک ترقی یافتہ ملک(developed country)بن گیاہے- وہ یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں کی مانند ایک ترقی یافتہ ملک ہے- ترکی کے ادارے (institutions) ، ترکی کی انڈسٹری، ترکی کے شہر، ترقی کے اعتبار سے یورپ کے ملکوں سے پیچھے نہیں ہیں، حتی کہ جو ورک کلچر (work culture) یورپ میں پایا جاتا ہے، وہی ورک کلچر ترکی میں بھی موجود ہے-
یہ ایک واقعہ ہے کہ کمال اتاترک نے اپنے 18 سالہ دورِ اقتدار میں کئی غلطیاں کیں، مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ہر مصلح غلطیاں کرتاہے، اِس میں کسی مصلح کا کوئی استثنا (exception) نہیں- دیکھنے کی اصل چیز بعد کا نتیجہ ہے، نہ کہ آپریشن کے زمانے کی بعض غلطیاں- آج ترکی کو ترقی کے اعتبار سے جو درجہ حاصل ہے، وہ بلاشبہہ کمال اتاترک کی ریڈیکل اصلاحات کا نتیجہ ہے- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس اعتبار سے، ترکی دوسرے مسلم ملکوں کے لیے ایک نمونہ ہے- دوسرے مسلم ملکوں کو چاہیے کہ وہ اتاترک آپریشن کے بعض منفی پہلوؤں کو نظر انداز کریں اور اس کے مثبت پہلوؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ملکوں کو جدید معیار پر ترقی یافتہ بنائیں-
ترکی کی جدید تصویر
مشہور مستشرق فلپ کے ہٹی (Philip K. Hitti) نے عرب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی ہے- یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک مستند کتاب مانی جاتی ہے اور یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہے- اِس کتاب کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے- اصل انگریزی کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:
History of the Arabs:
From the Earliest Times to the Present
اِس کتاب کا ایک باب علمی اور ادبی ترقیوں (scientific and literary progress) کے بارے میں ہے- مصنف نے بتایا ہے کہ عرب ایک زمانے میں ترقی کی اِس حد تک پہنچے کہ ابن سینا کی کتاب کو میڈیکل بائبل کہاجاتا تھا (صفحہ
Reverence for the past with its traditions, both religious and scientific, has bound the Arab intellect with filters which it is only now beginning to shake off. (p.
یعنی ماضی کی روایات کو مقدس سمجھنا عرب ذہن کے لیے ترقی کا بندھن بن گیا، علمی اعتبار سے بھی اور مذہبی اعتبار سے بھی- اب اِس میں تبدیلی ہور ہی ہے، مگر ابھی وہ صرف آغاز کے درجے میں ہے-
فلپ ہٹی نے جوبات عربوں کے بارے میں لکھی ہے، وہی بات پوری مسلم دنیا کے بارے میں درست ہے- اِس عموم میں خود ترکی بھی شامل ہے- ترکی میں وہ سارے حالات پیدا ہوئے جو بقیہ مسلم دنیا میں پیدا ہوئے تھے- موجودہ دور میں پوری مسلم دنیا قدیم وجدید کی کشمکش سے گزری ہے- اِس اعتبار سے، ترکی میں بھی وہی حالات پیش آئے جو دوسرے مسلم ملکوں میں پیش آئے-
البتہ ایک اعتبار سے فرق ہے، وہ یہ کہ ترکی جغرافی اعتبار سے، یورپ کی سرحد پر واقع ہے، بلکہ جزئی طورپر وہ براعظم یورپ ہی کا ایک حصہ ہے- اِس لیے فطری طورپر ایسا ہوا کہ نشاةِ ثانیہ (Renainssance) کے بعد یورپ میں جو نئے حالات پیداہوئے، اُن کا براہِ راست اثر ترکی پر پڑا- وہ واقعہ جس کو ’’ترکی میں مشرق ومغرب کی کشمکش‘‘ کہاجاتا ہے، وہ دراصل اس علاقے میں پیش آنے والے تہذیبی انقلاب کا نتیجہ تھا، نہ کہ کسی اتفاق یا کسی ’’سازش‘‘ کا نتیجہ-
ترکی کی مخصوص جغرافی پوزیشن کے نتیجے میں فطری طورپر ایسا ہوا کہ ترکی میں وہ پراسس شروع ہوا جس کو ویسٹرنائزیشن (westernization) یا سیکولرائزیشن(secularization) کہاجاتا ہے- اِس تحریک کے علم بردار بہت سے نئے ترکی مفکرین تھے- مثلاً محمد نامق کمال (1840-1888) اور محمد ضیا گوکلپ (1875-1924)، وغیرہ- مشہور تنظیم ینگ ترک Young Turk)) بھی اِسی کا ایک حصہ تھی-
ترکی کا سلطان سلیم اول(وفات: 1520ء) سیاسی دائرے میں اِس تحریک کا حامی تھا- وہ چاہتا تھا کہ ترکی کی تجدید کاری (modernization) کی جائے- خاص طورپر حکومتی ادارے کو ماڈرنائز کرنا- اِس سلسلے میں سلطان نے ترکی کی فوج کو مغربی آلاتِ حرب سے مسلح کرنے کی کوشش کی، مگر اُس وقت ترکی کے حالات اِس قسم کی تجدید کاری کے لیے موافق نہ تھے- چناں چہ مصلحین کی کوششیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں اور خود سلطان سلیم کو تخت چھوڑ دینا پڑا-
جیسا کہ معلوم ہے، ترکی میں اسلام عہدِ صحابہ میں پہنچ چکا تھا- ترکی اِس سے پہلے رومی سلطنت کے قبضے میں تھا- مسلمانوں نے جب رومی سلطنت کو توڑا تو اس کے بعد ترکی مسلم مملکت کا ایک حصہ بن گیا- رومی سلطنت کے زمانے میں ترکی کی آبادی زیادہ تر مسیحی مذہب کو ماننے والی تھی- نئے حالات کے تحت یہاں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا- عربی زبان وسیع پیمانے پر رائج ہوگئی- ترکی کے شہروں میں کثیر تعداد میں عربی مدرسے قائم ہوئے-
ترکی کے یہ عربی مدرسے آخر تک اپنے روایتی انداز پر قائم رہے- اِن مدرسوں کا ماحول مکمل طورپر قدامت پرستی کا ماحول تھا- اِن مدرسوں سے بڑی تعداد میں علما پیدا ہوئے- دھیرے دھیرے ترکی میں علما کو نہایت مضبوط حیثیت حاصل ہوگئی، یہاں تک کہ نئے خلیفہ کی خلافت اُس وقت مکمل ہوتی تھی جب کہ وہ جامع ایوب (مقبرہ ابوایوب انصاری) میں حاضر ہو اور وہاں شیخ الاسلام (مفتی اعظم قسطنطنیہ) اس کی کمر میں روایتی تلوار اپنے ہاتھ سے حمائل کریں، یہ رسم نئے خلیفہ کی تاج پوشی کا ایک لازمی حصہ تھی-
اِن تاریخی اسباب کے نتیجے میں ترکی کے علما کو ترکی میں نہایت طاقت ور پوزیشن حاصل ہوگئی-ترکی کے یہ علما دوسرے ملکوں کی طرح، اپنے محدود ماحول میں رہتے تھے، ان کو خارجی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کی مطلق خبر نہ تھی- وہ اپنے اِس قدامت پرستانہ مزاج کی بنا پر ترکی میں تجدید کاری کی تحریک کے شدید مخالف بن گئے- اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ’’مغرب میں پندرھویں صدی عیسوی میں متحرک ٹائپ کی ایجاد سے پرنٹنگ پریس کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب آگیا تھا، لیکن علما نے اِس نئی ٹکنالوجی کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ عربی یا ترکی کی کتابوں میں خدا اور رسول کا نام ہوتا ہے جس کو اِس جدید طریقہ طباعت میں پامال نہیں کیا جاسکتا‘‘- اِسی طرح ’’1577 عیسوی میں استانبول میں ایک عظیم الشان رصد گاہ قائم کی گئی تھی جس کو علما نے خلافِ اسلام قرار دے دیا- اتفاق سے اُنھیں دنوں وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی- علما کا موقف تھا کہ یہ دراصل اسرارِ خدائی میں مداخلت کی سزا ہے- بالآخر1580 عیسوی میں عوامی دباؤ کے سبب اِس رصد گاہ کو منہدم کردیاگیا‘‘، وغیرہ-
(ادراک زوالِ امت، از: راشد شاز، جلد 2، صفحہ
روایتی علما کی شدید مخالفت کی بنا پر ترکی میں جوحالات پیدا ہوئے، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ایک طرف تجدیدی مصلحین کی آواز دب گئی، اور دوسری طرف شدید دباؤ کے تحت سلطان سلیم اول کو 8 سال حکومت کرنے کے بعد 1520 عیسوی میں تخت خلافت چھوڑنا پڑا-
ریڈیکل تبدیلی
دورِ جدید کے حالات نے اِس کو لازمی قرار دے دیا تھا کہ ترکی میں تجدید کاری (modernization)کا عمل کیاجائے- یہ کوشش ترک مصلحین کے ذریعے شروع ہوئی- ابتداء ً یہ تحریک تدریجی تبدیلی (gradual change) کے اصول پر چل رہی تھی، لیکن انیسویں صدی کے آخر میں یہ بات واضح ہوگئی کہ تبدیلی کا یہ کام تدریج کے اصول پر عملاً ممکن نہیں ہے- اِس کے بعد تاریخ کی فطری رفتار کے مطابق، سوچنے والے دماغوں میں ریڈیکل تبدیلی (radical change) کا ذہن پیدا ہوا- یہی ریڈیکل تبدیلی کا ذہن ہے جس نے بالآخر کمال اتاترک (1881-1938) کی صورت اختیار کرلی-
ریڈیکل تبدیلی (radical change) کا مزاج تدریجی تبدیلی (gradual change) سے بالکل مختلف ہوتا ہے- تدریجی تبدیلی ہمیشہ اعتدال کے اصول پر چلتی ہے، مگر ریڈیکل تبدیلی میں ہمیشہ انتہا پسندی (extremism) کا عنصر شامل ہوجاتا ہے- یہی جدید ترکی میں پیش آیا- جس کام کو پچھلے مصلحین اعتدال کے ساتھ کرنے میں ناکام ہوگئے، اُس کو کمال اتاترک نے انتہا پسندانہ انداز میں کرڈالا- بعض خرابیاں جو کمال ازم کے اندر پائی جاتی ہیں، وہ اِسی انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں-
تاہم یہ ترکی کی خوش قسمتی تھی کہ کمالی ریڈیکل ازم بہت دیر تک نہ چل سکا- بہت جلد ترکی میں ایسے مصلحین پیدا ہوئے جنھوں نے کمال ازم کی تصحیح کی، جنھوں نے ترکی کے انقلاب کو کامیابی کے ساتھ اعتدال کی طرف لوٹایا- اِن ترک مصلحین میں سے دو خاص مصلحین یہ ہیں— بدیع الزماں سعید نورسی (1876-1960) ، اور استاد محمد فتح اللہ گولن (پیدائش: 1941)-
کمال اتاترک نے اپنے انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر سیکولر شعبہ اور مذہبی شعبہ کے درمیان فرق نہیں کیا- انھوں نے یہ کیا کہ سیکولر شعبوں میں ضروری اصلاحات لانے کے ساتھ مذہبی شعبوں کے اوپر بھی بلڈوزر چلا دیا، جو بلاشبہہ غیر ضروری تھا- لیکن جہاں تک مذہبی شعبوں کا تعلق تھا، وہاں دوسرا کام کرنا تھا، وہ تھا — مذہب کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانا-
بعد کے معتدل مصلحین نے اِس انتہا پسندی کو درست کیا- انھوں نے سیکولر شعبوں میں ماڈرنائزیشن کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی شعبوں کو دوبارہ ان کی اصل کی طرف لوٹایا-
اِسی مصلحانہ عمل کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی میں مذہب اپنی اصل صورت میں بدستور قائم ہوگیا ہے- وہاں کی مسجدوں سے پہلے کی طرح عربی میں اذانیں بلند ہورہی ہیں، نماز کا نظام پہلے کی طرح اپنی اصل صورت میں قائم ہوگیا ہے، تمام مذہبی شعبے آزادانہ طورپر اپنا کام کررہے ہیں، وغیرہ- جدید ترکی میں کمال ازم کا دور دورہ نہیں ہے، بلکہ وہاں ایک اور چیز کا دور دورہ ہے جس کو نیو کمال ازم (Neo-Kemalism) یا اصلاح یافتہ کمال ازم کہاجاسکتا ہے-
دعوہ ایمپائر (Dawah Empire)
ترکی اپنی انفرادی خصوصیات کی بنا پر مسلم دنیا میں ایک مختلف ملک (country with a difference)کی حیثیت رکھتاہے۔ اس کا اظہار ہر دور میں اس کے امتیازی رول سے ہوتاہے۔
انیسویں صدی کے آخر تک ترکی پولیٹکل ایمپائر کارول ادا کرتا رہا۔ بیسویں صدی میں ترکی کے رہنماؤں نے کامیاب طور پر عالمی سطح پر ایک ایجوکیشن ایمپائر (Educational Empire) قائم کیا۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ایک عظیم تر رول ادا کرے— وہ ہے دور جدید میں اسلام کا ایک دعوہ ایمپائر قائم کرنا۔ دعوہ ایمپائر وقت کی سب سے بڑی اسلامی ضرورت ہے۔ تقریباً 60 مسلم ملکوں میں ترکی واحد ملک ہے جو اپنے حالات کے اعتبار سے دعوہ ایمپائر قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ترکی کے ایک سفر (مئی 2012)میں میںنے وہاں کا مشہور میوزیم (توپ کاپی پیلس) دیکھا۔ اس میوزیم میں قرآن کا ایک قدیم نسخہ رکھا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کا وہ نسخہ ہے جو قبل از طباعت دور (pre-printing age) میں ایک صحابیٔ رسول کے قلم سے لکھاگیا تھا۔
جب میں میوزیم کے اُس حصے میں پہنچا جہاں یہ قرآن رکھا ہوا ہے تو میری عجیب حالت ہوئی۔ اس معاملے پر غور کرتے ہوئے مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی: نزّل الفرقان علیٰ عبدہ لیکون للعالمین نذیرا (
قرآن میں بار بار اس قسم کے الفاظ آتے ہیں: یا أیہا الإنسان، یاأیہا الناس، یا بنی آدم۔ گویا کہ قرآن خداوند عالم کا ایک مکتوب یا ایک پیغام (message) ہے- اُس کو اِس لئے بھیجا گیاہے، تاکہ وہ تمام پیدا ہونے والے عورتوں اور مردوں تک پہنچ جائے۔ مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کے نزول پر
اکیسویں صدی کی مردم شماری بتاتی ہے کہ پوری دنیا میں 7 بلین سے زیادہ انسان آبادہیں۔ گویا کہ امتِ محمدی کو خدا کا یہ پیغام 7 بلین انسانوں تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ سب سے بڑا کام ہے جو امت محمدی کو انجام دینا ہے۔ امتِ محمدی اگر اس کام کو انجام نہیں دیتی تو وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بن جائے گی: یاأیہا الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربّک، وإن لم تفعل فما بلغت رسالتہ (
ختمِ نبوت کے بعد امت اب مقامِ نبوت پر ہے۔ ایسی حالت میں امت اگر ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ کا کام نہ کرے تو سخت اندیشہ ہے کہ اس کا امتِ محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے۔
نیا دور، نئے امکانات
دنیا کی سیاسی تاریخ کو دو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ قبل نیشن اسٹیٹ دور (pre-nation state age) اور بعد نیشن اسٹیٹ دور (post-nation state age)۔ پچھلے سیاسی دور میں یہ ممکن ہوتا تھا کہ ایک قوم بزور طاقت مختلف ملکوں پر قبضہ کرکے اپنا ایک ایمپائر بنالے۔ بازنتین ایمپائر، رومن ایمپائر، آٹمان ایمپائر (Ottomon Empire)، سوویت ایمپائر اور برٹش ایمپائر اس کی مثالیں ہیں۔
مگر اب دنیا پوسٹ نیشن اسٹیٹ کے دور میں ہے۔ اب یہ آخری حد تک ناممکن ہوچکا ہے کہ کوئی قوم قدیم طرز کا ایمپائر بناسکے۔ آج اگر کوئی قوم قدیم طرز کا ایمپائر بنانا چاہے تو وہ ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) ہوگا جو عملاً کبھی وقوع میںآنے والا نہیں۔
مگر فطرت کا ایک اصول یہ ہے کہ ہر شام کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے، یعنی ایک امکان کے خاتمے کے بعد ایک اور زیادہ بہتر امکان کا وجود میں آنا۔ زیر بحث معاملے میں بھی ایسا ہی پیش آیا ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاسی اعتبار سے اپنا ایمپائر بنانا بلاشبہہ ایک ناممکن نشانہ بن چکا ہے۔ مگر قانون فطرت کے مطابق، دوسرا زیادہ بہتر امکان عین اِسی صدی میں پیدا ہوگیا ہے۔ یہ دوسرا امکان جدید کمیونی کیشن (modern communication) کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ جدید کمیونی کیشن نے اِس بات کوممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں پولٹکل ایمپائر کی جگہ الکٹرانک ایمپائر بنایا جاسکے۔ یہ الکٹرانک ایمپائر بلا شبہہ قدیم ایمپائر سے ہزاروں گنا زیادہ بڑاہے، رقبہ کے اعتبار سے بھی اور حصولِ مقصد کے اعتبار سے بھی۔
دور جدید کا الکٹرانک ایمپائر اُس قوم کے لئے مقدر ہے جس کے پاس انسان کے لیے کوئی نظریہ حیات یا آئڈیالوجی (ideology) ہو۔ اسلام بلاشبہہ اس قسم کی ایک ابدی آئڈیالوجی ہے۔ وہ قرآن پر مبنی ہے جو کہ واحد محفوظ الہامی کتاب ہے۔ امت مسلمہ کو عموماً اور اہلِ ترکی کو خصوصاً یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اسلام کی مبنی بر قرآن آئڈیالوجی کو لے کر اٹھیں اور اکیسویں صدی میں اپنا ایک الکٹرانک ایمپائر بنا دیں۔
پچھلے دور میں پولٹکل ایمپائر بالادستی حاصل کرنے کے لئے ہوتا تھا، لیکن نیا الکٹرانک ایمپائر خدائی بلیسنگ کو عام کرنے کے لئے ہوگا۔ قدیم پولیٹکل ایمپائر ٹیکنگ اسپرٹ کا حامل ہوتا تھا، موجودہ الکٹرانک ایمپائر گونگ اسپرٹ (giving spirit) کا حامل ہوگا۔
قرآن واحد صحیفہ ہے جو انسان کو وہ چیز دیتاہے جس کی اُس کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہ ہے انسان کے لیے اس کے خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) ۔ تخلیقی منصوبے کو جانے بغیر کوئی شخص یا قوم اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکتا۔ اور انسان کے بارے میں اِس تخلیقی منصوبے کو جاننے کے لیے آسمان کے نیچے ایک ہی محفوظ اور مستند کتاب ہے اور وہ بلا شبہہ قرآن ہے۔ استانبول کے میوزیم میں دورِ عثمانی کا قرآن گویا اِس بات کی یاددہانی ہے کہ قبل ازطباعت دور میں قرآن دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ بنا تھا- اب بعد از طباعت دور میں قرآن مزید اضافے کے ساتھ، دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے-
ترکی کی اسلامی تاریخ
اسلام سے پہلے ترکی کے باشندوں کی اکثریت مسیحی مذہب (Christianity) کو ماننے والی تھی۔ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں یہاں اسلام داخل ہوا۔ اِس کے بعدیہاں مسلسل اسلام کا فروغ ہوتا رہا۔ اِس وقت ترکی کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً
ترکی میں اسلام اور مسلمانوں کا استحکام بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ یہاں ایک طاقت ور مسلم سلطنت قائم ہوگئی۔ اس کو عثمانی خلافت (Ottoman Empire)کہاجاتا ہے۔ یہ سلطنت 1299 ء میں قائم ہوئی اور 1924 ء تک باقی رہی۔ عثمانی سلطنت کے عروج کے زمانے میں اس میں ایشیا اور یورپ کے
قدیم زمانہ مبنی بر شمشیر سیاست کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں کسی مشن کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے مستحکم سیاسی بنیاد (political base) درکار ہوتی تھی۔ عثمانی سلطنت نے اسلامی مشن کو یہی مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کی۔ اِس قسم کی مضبوط سیاسی بنیاد کے بغیر قدیم زمانے میں اسلام کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ عثمانی ترکوں نے ایک مدت تک، نہ صرف ترکی، بلکہ مسلم دنیا کے بڑے حصے کو سیاسی دبدبہ کی یہی بنیاد فراہم کی۔ اِس اعتبار سے عثمانی سلطنت کا کارنامہ ناقابلِ انکار ہے۔
لیکن بیسویں صدی میں عالمی حالات مکمل طورپر بدل چکے تھے۔ اب نئے حالات کے مطابق، سیاست کا رول ثانوی (secondary) بن چکا تھا۔ اب ترکی میں اسلام کے فروغ کے لیے ضرورت تھی کہ وہاں غیر سیاسی دائرے میں ایک مضبوط تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
قدیم زمانہ سیاسی اقتدار کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ اس کے بجائے اداروں (institutions) کا زمانہ ہے، یعنی غیر سیاسی شعبوں میں پُرامن تنظیمیں بنانا، مثلاً تعلیم، صحافت، سماجی ترقی کے ادارے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال، وغیرہ۔ نئے دور کے مواقع کو استعمال کرنے میں زوال یافتہ سیاسی نظام ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اتاترک کا کمال ازم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اِسی نوعیت کا ایک آپریشن تھا۔ اِس کے نتیجے میں ترکی میں کھلے پن (openness) کا نیا دور آیا اور یہ ممکن ہوگیا کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے حق میں غیر سیاسی دائرے میں ایک تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
مابعد اتاترک دور (post-Ataturk period) میں ترکی میں کچھ ایسے رہنما اٹھے جو نئے دور کے مواقع کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں منظم طورپر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، اِن نئے تُرک رہنماؤں میں سے دو رہنما خصوصی اہمیت رکھتے ہیں— ایک، بدیع الزماں سعیدنورسی، اوردوسرے استاد محمدفتح اللہ گولن۔ نئے ترکی کی تعمیر میں اِن دونوں کا نمایاں حصہ ہے۔
بدیع الزماں سعید نورسی 1876 میں پیدا ہوئے اور 1960 میں اُن کا انتقال ہوا۔ انھوں نے جزئی طورپر سیاست میں حصہ لیا، لیکن جلد ہی اُن پر سیاست کی برائی واضح ہوگئی اور انھوں نے یہ کہہ کر سیاست سے علاحدگی اختیار کرلی: أعوذ باللہ من الشیطان ومن السیاسۃ۔
سعید نورسی کی تحریک کو ’نورتحریک‘ کہاجاتا ہے۔ اُن کا طریقہ پرامن دائرے میں غیرسیاسی انداز میں کام کرنا تھا۔ اِس طرح کام کرکے وہ مسلمانوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ وہ دورِجدید میں مسلمانوں کے احیائِ نو کے علم بردار تھے۔ سعید نورسی کے ایک سیرت نگار کے الفاظ میں، ان کا مشن اسلامی تہذیب کی تعمیر نو (rebuilding of Islamic civilization) تھا۔ سعیدنورسی کے پیروؤں کی تعداد کئی ملین تک پہنچتی ہے۔
Said Nursi (1876-1960), the most influential Islamic scholar in modern Turkish history, is the inspiration behind the hugely popular Nur movement. Guided by his masterwork, the Risale-i Nur, Nursi's followers shun political ambition, focusing instead on a revival of personal faith through study, self-reform and service of others. Nursi lived through the upheavals that led to the establishement of a vigorously secular Turkish republic in place of the dismembered Ottoman caliphate. Nursi was educated through the medrese system in the tradional Islamic disciplines but also mastered modern Western philosophical and scientific ideas in order to address the challenges Muslims face now. In some ways the Risale-i Nur functions as an interpretation of the Qur’an for the contemporary world, millions within and outside Turkey have found solace in the interpretation.
اِس سلسلے میں دوسرا نام استاد محمدفتح اللہ گولنülen) (Fethullah Gکا ہے۔ وہ اکیسویں صدی عیسوی کے ترکی میں مقبول رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے پیرو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے تعلیم، صحت، سوشل ریفارم جیسے تعمیری شعبوں میں ممتاز کام انجام دئے ہیں، ترکی میں بھی اور ترکی کے باہر بھی۔ میںنے ترکی کے سفر کے دوران ان کے پیروؤں کے قائم کئے ہوئے کچھ اداروں کو دیکھا۔ اِن اداروں کا معیار وہی تھا جو یورپ کے اداروں کا معیار ہوتاہے۔
فتح اللہ گولن کا یہ سوچا سمجھا نظریہ ہے کہ — پُرامن انداز میں تعمیری کام کرو اور عملی سیاست سے دور رہو۔یہاں استاذ فتح اللہ گولن کے ایک سیرت نگار کا ایک اقتباس نقل کیا جاتاہے:
Fethullah Gülen, a 67-year-old Turkish Sufi cleric, author and theoretician has dedicated much of his life to resolving questions such as: Is it possible to be a true religious believer and at the same time enjoy good relations with people of other faiths or none? Moreover, can you remain open to new ideas and new ways of thinking? He leads a global movement inspired by Sufi ideas. He promotes an open brand of Islamic thought. Leaman, a leading scholar of Islamic philosophy, says that Gülen's ideas are a product of Turkish history, especially the end of the Ottoman empire and the birth of the republic. He calls Gülen’s approach “Islamlite”. Millions of people inside and outside Turkey have been inspired by Gülen’s more than 60 books and the tapes and videos of his talks. Why? A combination of charisma, good organisation and an attractive message. What Gülen says is that you can be at home in the modern world while also embracing traditional values like faith in God and community responsibility — a message which resonates strongly in Turkey.
Another belief he shares with Sufism is the idea that God, humanity and the natural world are all linked, and might even be part of a single entity, a sort of cosmic trinity. This idea has practical consequences. For example, it suggests that a believer will love and respect humanity and the natural world as they would God. It also means that no one should be seen as an outsider. Hence Gülen’s insistence on friendship among people of all faiths and none. (Prospect, July 26, 2008)
ترکی کا نیا رول
Turkey: Second Phase of Sahaba Mission
جیسا کہ عرض کیا گیا، مئی 2012 کے پہلے ہفتے میں ترکی میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر میںنے ترکی کا سفر کیا۔ ایک ہفتہ قیام کے دوران میں نے ترکی کے مختلف تاریخی مقامات دیکھے۔ اُن میں سے ایک حضرت ابو ایوب الانصاری کا مقبرہ ہے جو استانبول میں واقع ہے۔ اِس مقبرے کے ساتھ اب ایک بڑا کامپلیکس بنا دیاگیا ہے۔
3 مئی 2012 کو میں نے یہ مقبرہ دیکھا۔ جس وقت میں مقبرے کے سامنے کھڑا ہوا تھا، میرا دماغ اس کی تاریخ کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے سوچا کہ ابو ایوب انصاری ایک صحابیٔ رسول تھے۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے مشن میں شریک ہوئے۔ ایک دعوتی سفر کے دوران
میں نے سوچا کہ ابو ایوب انصاری اور دوسرے صحابہ عرب میں پیداہوئے۔ اس کے بعد وہ پرمشقت سفر کرکے ترکی پہنچے اور پھر وہ یہاں کی سرزمین میں مدفون ہوگئے۔ یہ سوچتے ہوئے مجھے تاریخ کا وہ واقعہ یاد آیا جو
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس ہدایت کے مطابق، آپ کے اصحاب، عرب کے باہر نکلے اور اطراف کے ملکوں میں وہ آپ کا پیغام پہنچانے لگے۔ مگر یہ جدید کمیونکیشن سے پہلے کا زمانہ تھا۔ چناں چہ ایک حد پر پہنچ کر اُن کا دعوتی قافلہ رک گیا اور تمام انسانوں تک پیغام رسانی کا پیغمبرانہ مشن اُس وقت فطری طورپر، اپنی تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
اِس معاملے کی ایک علامتی مثال عقبہ بن نافع التابعی (وفات:
استانبول میں جب میں صحابیٔ رسول کی قبر کے سامنے کھڑا تھا، اُس وقت یہ پوری تاریخ میرے ذہن میں تازہ ہوگئی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے پیغمبر اسلام کے اصحاب جو اپنے دعوتی مشن کے تحت ترکی پہنچے اور یہاں کی زمین میں دفن ہوگئے، وہ خاموش زبان میں آواز دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ — اے امتِ محمد، تم کہاں ہو۔ اٹھو اور پیغمبر اسلام کے مشن کی تکمیل کرو، قبل کمیونی کیشن دور (pre-communication age) میں ہم نے پیغمبر کے مشن کو یہاں تک پہنچایا تھا۔ اب تم بعد کمیونی کیشن دور (post-communication age) میں ہو۔ تم اٹھو اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے۔ زمین کے آخری حصے تک پیغمبر کے دعوتی مشن کو پہنچا دو۔
پیغمبر کا مشن
پیغمبر کا مشن کیا ہے، اس کو قرآن میں انذار وتبشیر(
They were messengers, bearing good news and giving warning, so that mankind would have no excuse before God.
جغرافی اعتبار سے ترکی کا جائے وقوع بہت عجیب ہے۔ اس کا نصف حصہ ایشیا میں ہے اور بقیہ نصف حصہ یورپ میں۔ اِس طرح ترکی گویا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے:
Turkey is like a geographical bridge between East and West.
ترکی کی یہ جغرافی حیثیت بظاہر خدا کے تخلیقی منصوبہ کا ایک خاموش اعلان ہے۔ ترکی کے بارے میںخدا کو یہ منظور ہے کہ وہ حکمتِ نبوت (prophetic wisdom) کو مشرق سے لے اور اس کو مغربی اقوام تک پہنچائے۔
قدیم زمانے میں ترکی دو بڑے ایمپائر کی سیٹ رہا ہے — بازنتینی ایمپائر اور عثمانی ایمپائر اِس خصوصی تاریخ کی بنا پر ترکی میں بہت زیادہ تاریخی یادگاریں ہیںجو سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا ذریعہ ہیں۔ موجودہ زمانے میں سفر اور کمیونکیشن کی بنا پر ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا ہے جس کو عالمی سیاحت (international tourism) کہاجاتاہے۔ترکی اِس اعتبار سے چند ٹاپ کے سیاحتی ملکوں میں شمار ہوتاہے۔ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں مسلسل آتے ہیں۔ سال 2011 میں ترکی میں دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے سیاحوںکی تعداد
اِن سیاحوں کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر آکر دستک دے رہا ہے۔ وہ ترکی کے مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس پیغمبر کا لایا ہوا خدائی کلام (Word of God) ہے۔ ہم تمھارے دروازے پر موجود ہیں۔ لاؤ وہ کلام ہم کو عطا کرو:
We are here. Give us the Word of God you have received from the Prophet of Islam.
اکیسویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والی یہ صورتِ حال، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، زیادہ بڑے پیمانے پر عین وہی ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں نسبتاً محدود پیمانے پر وجود میں آئی تھی۔ اِس صورت ِ حال کی حیثیت ایک دعوتی امکان (dawah opportunity) کی ہے۔ امتِ مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ اِس امکان کو دعوت الی اللہ کے لیے اُسی طرح استعمال کرے جس طرح ساتویں صدی میں پیغمبر اور آپ کے اصحاب نے اس کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ اُس وقت مکہ مشرکانہ کلچر کا مرکز بناہوا تھا، حتی کہ خود مقدس کعبہ میں بھی کئی سو بت رکھے ہوئے تھے۔ اِس مشرکانہ کلچر کی بنا پر ایسا تھا کہ عرب کے مختلف حصوں سے لوگ برابر مکہ آتے تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں یہ کہنا صحیح ہوگاکہ مکہ کے مشرکانہ مرکز ہونے کی بنا پر عرب میں ایک قسم کی مذہبی سیاحت (religious tourism) وجود میں آگئی تھی۔ مکہ اِن ’’مذہبی سیاحوں‘‘ کا مقامِ اجتماع بنا ہوا تھا۔
یہ اجتماعات اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے، مشرکانہ اجتماعات تھے، لیکن اِسی کے ساتھ یہ لوگ پیغمبر اسلام کے داعیانہ مشن کے لیے سامعین (audience) کی حیثیت رکھتے تھے۔ قدیم مکہ میں پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر روزانہ ان کے اجتماعات میں جاتے اور قرآن سنا کر اُن کو دین ِ حق کا پیغام پہنچاتے۔ اِس لیے اصحابِ رسول کو ’’مقری‘‘ کہاجانے لگا، یعنی قرآن پڑھ کر سنانے والا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ مکہ میں رہتے ہوئے تمام عرب قبائل تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا خدائی پیغام پہنچ جائے۔
یہ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے کی بات ہے ۔ اُس وقت صرف یہ ممکن تھاکہ خدا کے کلام (قرآن( کو اپنے حافظے میں محفوظ کرلیا جائے اور اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جائے۔ مگر اب دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آچکا ہے، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن یا اس کا ترجمہ کتابی شکل میں تیار کرلیا جائے اور اس کو مطبوعہ صورت میں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ گویا ساتویں صدی کے داعی اگر قرآن کے مقری بن کر دعوت کا کام انجام دے رہے تھے تو اکیسویں صدی کے داعی کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor) بن کر اِسی پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھنا ہے۔ کسی گروہ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اس کو دنیا میں نظریاتی قائد کا درجہ حاصل ہو۔ دعوت الی اللہ کا کام ہی وہ کام ہے جو امتِ مسلمہ کو موجودہ زمانے میں نظریاتی قیادت کا درجہ عطا کرسکتاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوت الی اللہ کا مشن ہے۔ اِس مشن کے مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی حدیث میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لا یبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدر ولاوبر إلَّا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند أحمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کے اوپر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر یہ کہ اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
اِس حدیثِ رسول میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کا پیغام ساری دنیا میں بسنے والے ہر عورت اور مرد تک پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادخالِ کلمہ کا یہ واقعہ اسباب کے بغیر کسی پراسرار انداز میں پیش آئے گا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں ہر واقعہ اسباب وعلل کے تحت پیش آتا ہے۔ یہی صورت ادخالِ کلمہ کے مذکورہ معاملے میں پیش آئے گی۔ ادخالِ کلمہ کا یہ معاملہ بلا شبہہ ایک معلوم مُدخِل (داخل کرنے والا) کے ذریعے ہوگا، نہ کہ کسی پُراسرار طریقے کے ذریعے۔
اِس حدیث رسول میں دراصل پیشین گوئی کے انداز میں اُس دور کا ذکر ہے جس کو کمیونی کیشن کا دور (age of communication) کہاجاتاہے۔اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بعد کی تاریخ میں اہلِ ایمان کو عالمی کمیونکیشن کے ذرائع حاصل ہوجائیں گے اور اِس طرح اُن کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اِن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچا سکیں، جب کہ اِس سے پہلے صرف مقامی سطح پر پیغام رسانی ممکن ہوتی تھی— یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے دعوہ ایمپائر کا نام دیا ہے-
اخوانِ رسول
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو کمیونی کیشن کے دور میں ادخالِ کلمہ کا یہ رول ادا کریں گے۔ اِس کا جواب ایک حدیث میںملتاہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وددتُ أنا قد رأینا إخواننا۔ قالوا: أولسنا إخوانک یا رسول اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، رقم الحدیث:
دونوں حدیثوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں کا مشن زمانے کے فرق کے ساتھ، ایک ہی ہے، یعنی دعوت الی اللہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اصحابِ رسول نے دعوت کے اس کام کو قبل کمیونی کیشن دور (pre-communication age) میں انجام دیا، اور اخوانِ رسول وہ لوگ ہوں گے جو اِسی دعوتی مشن کو بعد کمیونی کیشن دور (post-communication age) میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کو قرآن میں خیرِ امت (
ترکی کی جو امتیازی خصوصیات ہیں، اُن کی بنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اہلِ ترکی کے لیے امکانی طورپر وہ مواقع حاصل ہیں جن کو استعمال کرکے وہ اسلام کی تاریخ میں وہ رول ادا کریں جس کو حدیث میں اخوانِ رسول کا رول کہاگیا ہے- اِس معاملے میں دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اُن کا ساتھ دے سکتے ہیں، مگر قانونِ فطرت کے مطابق، غالباً ایک گروہ کے لیے قائدانہ رول (leading role) مقدر ہے اور دوسرے گروہ کے لیے تائیدی رول (supporting role) ۔
ترکی کی امتیازی خصوصیات میںسے ایک خصوصیت یہ ہے کہ ترکی کی سرزمین میں بہت سے صحابہ کی قبریں ہیں۔ یہ اصحابِ رسول گویا خاموش زبان میں اہلِ ترکی کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں اصحاب رسول کا دعوتی قافلہ یہاں آکر رک گیا تھا۔ اب تم اکیسویں صدی میں ہو۔ اب تم کو نئے حالات اور نئے وسائل کے ذریعے اِس دعوتی سفرکو آگے بڑھانا ہے، یہاں تک کہ حدیث رسول کی پیشین گوئی کے مطابق، دین ِ حق کا کلمہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل ہوجائے۔ یہی اخوانِ رسول کا رول ہے۔ مستقبل انتظار کر رہا ہے کہ بڑھنے والے آگے بڑھیں اور فرشتوں کے ریکارڈ میں اخوانِ رسول کی حیثیت سے اپنا اندراج کرائیں۔
ترکی میں مدفون صحابہ خاموش زبان میں آواز دے رہے ہیں کہ اے اہلِ ترکی، تم دوبارہ اٹھو اور پیغمبر کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچا دو۔ پھر وہ وقت آنے والا ہے جب کہ حشر کے میدان میں دوبارہ آواز دینے والا فرشتہ آواز دے کہ وہ لوگ آئیں جن کی بابت پیغمبر نے پیشگی خبر دی تھی، اور پھر سارے پیدا ہونے والے لوگ رشک کی نظروں سے دیکھیں گے کہ کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ جنھوں نے دعوتی کام کیا جس کے نتیجے میں آج اُن کو اخوانِ رسول کا درجہ مل رہا ہے۔
اجتہادی رول
جدیدترکی کے لیے جو عالمی دعوتی رول مقدر ہے، اس کے لیے آسمان سے کوئی آواز نہیں آئے گی۔ اِس قسم کا رول اجتہادی ہوتاہے۔ اِس لیے وہ ہمیشہ دریافت کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ دورِ اول میں یثرب (مدینہ) کے لیے ایک عظیم دعوتی رول مقدر تھا، مگر اہلِ مدینہ کو اِس کی خبر نہ تھی۔ پیغمبر اسلام کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی گئی۔ چناں چہ آپ نے فرمایا: أمرتُ بقریۃ تأکل القری، یقولون یثرب، وہی المدینۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1748)۔ اِس طرح ترکی کا عالمی دعوتی رول گہرے غور وفکر کے ذریعے دریافت کرنا ہوگا۔ جیساکہ عرض کیاگیا، قرائن (circumstances) واضح طورپر اس کا اشارہ کررہے ہیں۔
یہ قیاس ترکی کی چند متعین خصوصیات کی بنا پر قائم ہوتاہے۔ یہ خصوصیات بظاہرکسی دوسرے مسلم ملک میں موجود نہیں۔ اِن خصوصیات میں سے چند یہ ہیں:
1 - ترکی کا جغرافیہ ایک انوکھا جغرافیہ ہے۔ ترکی مسلم دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس کو اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے مشرق اور مغرب کے درمیان سنگم (junction) کی حیثیت حاصل ہے۔
2 - ترکی مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جو مختلف اسباب کی بنا پر سیاحت کے نقشہ (tourist map) میں ٹاپ کا درجہ رکھتاہے۔ اِس طرح ترکی وہ واحد مسلم ملک بن گیا ہے جہاں ساری دنیا کے مدعو خود سفر کرکے داعی کے پاس پہنچ رہے ہیں۔
3 - قدیم زمانے میں دعوت کا کام سیاسی انفراسٹرکچر(political infrastructure) کی بنیاد پر ہوا تھا، موجودہ زمانے میں نئی تبدیلیوں کی بناپر دعوتی کام کے لیے سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure) درکار ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں اِس وقت صرف ترکی وہ ملک ہے جہاں یہ مطلوب سوشل انفراسٹرکچر پایا جاتاہے۔ میں نے اپنے سفر کے دوران اِس کو سوشیو ایجوکیشنل انفراسٹرکچر (socio-educational infrastructure) کا نام دیا تھا-ترکی میں یہ سوشل انفراسٹرکچر جن لوگوں کی کوشش سے قائم ہوا ہے، اُن میں استاد فتح اللہ گولن اور ان کے پیرو ایک امتیازی درجہ رکھتے ہیں۔
4 - ترکی کے اِس جدید ڈیولپ مینٹ میں مصطفی کمال اتاترک کا تائیدی رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform) لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ مذہب(anti-religion)کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation)مشن تھا۔ ترکی کے سفر میں وہاں کی مشہور نیوز ایجنسی (Anadolia Ajansi)کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ جدید ترکی کا کیس اسلام کو سیکولر بنانا نہیں تھا، بلکہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے، وہ سیکولرزم کو اسلامی بنانا تھا:
The case of modern Turkey was not one of secularization of Islam, but in terms of result, it was Islamization of secularism.
ترکی میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) کا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو کسی تحفظ کے بغیر رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علاحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization) ، وغیرہ۔
مصطفی کمال اتاترک بظاہر کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
کشتی نوح
ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اول کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جیسا کہ معلوم ہے، تقریباً 5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق) میسوپوٹامیا) سے چلی اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں اور قرآن میں نیز مختلف تاریخی کتابوں میں بشکلِ کہانی موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاںہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ گلیشیر پگھلنے لگے۔ چناں چہ ارارات پہاڑ کے گلیشیر بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔
بیسویں صدی کے آخر میں کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوںنے کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ طوفانِ نوح آیا تھا:
A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand meters up a mountain in Turkey. The team say they recoverd wooden specimes from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: فأنجینٰہ وأصحٰبَ السفینۃ، وجعلناہا اٰیۃً للعالمین (
Then we saved him and those who were with him in the Ark, and made it a sign for mankind.
حضرت نوح کی کشتی تاریخ انبیا کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں آئے اور اُن کے لیے دین ِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا(
ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشیر کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے گا، جب کہ پوری کشتی ظاہر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبہہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشہ سیاحت (tourist map) میں نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں ٹوٹ پڑیں گے۔ اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام کو پہنچادیں۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب کہ ترکی میں آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا جس میں پیشگی طور پر کشتی نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔
کشتی نوح اور ترکی
جیسا کہ عرض کیا گیا، حضرت نوح کی کشتی قدیم عراق (میسوپوٹامیا) کے علاقہ سے روانہ ہوئی- وہ اپنے چاروں طرف مختلف مقامات کی طرف جاسکتی تھی، لیکن اس نے ایک خاص رخ پر اپنا سفر کیا- پھر وہ چلتی ہوئی ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع ایک پہاڑ کے اوپر ٹھہر گئی- یہ سخت سردی کا علاقہ تھا- چناں چہ کشتی بھاری اسنوفال (heavy snow fall) کے نتیجے میں برف کے بہت بڑے تودے کے نیچے دب گئی- اس طرح لمبی مدت تک فاسِلائزیشن (fossilization) کے عمل کے نتیجے میں وہ پتھر جیسی ہوگئی- اس طرح کشتی محفوظ رہی اور اکیسویں صدی میں برف پگھلنے کے نتیجے میں وہ ظاہر ہو کر لوگوں کے سامنے آگئی-
ایسا کیوں ہوا- حضرت نوح کی کشتی کے لئے مختلف آپشن (option) موجود تھے، لیکن اس نے صرف ایک ہی آپشن لیا اور وہ ترکی کے پہاڑ کا آپشن تھا- ایسا بلا شبہہ خدا کی ہدایت پر ہوا- اِس معاملے کو اتفاقی واقعہ کے طورپر نہیں لے سکتے- ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اس کو خالق کے منصوبے کے تحت پیش آنے والا واقعہ سمجھیں-
—اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو جو رول مطلوب ہے، اس رول کے لئے زیادہ موزوںمقام اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر، ترکی (Turkey) تھا-اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں ترکی ایک مسلم ملک بنے گا- اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ترکی ایسا ملک ہے جو مشرقی دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان جنکشن (junction) کی حیثیت رکھتا ہے- اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ مختلف اسباب سے ترکی میں ساری دنیا کے سیاح کثرت سے آئیں گے- اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلم ملکوں کی لمبی فہرست میں ترکی وہ واحد ملک ہوگا جو مذہبی کٹرپن (religious fanaticism) سے خالی ہوگا اور اس بنا پر وہ سب سے زیادہ موزوں ملک ہوگا جہاں سے کشتی نوح کا مطلوب رول ادا کیا جاسکے-
یہ مطلوب رول کیا ہے- وہ بلا شبہہ دعوت ہے، یعنی اللہ کے تخلیقی منصوبہ سے تمام مرد اور عورت باخبر ہوجائیں- اِس مقصد کے لئے کشتی نوح ایک تاریخی شہادت (historical evidence) کی حیثیت رکھتی ہے- وہ اُس خدائی منصوبہ کی ایک تاریخی یادگار ہے جس کا ظہور حضرت نوح کے ذریعہ ہوا- کشتی نوح براہِ راست طورپر حضرت نوح کی تاریخ کی مادی شہادت ہے اور بالواسطہ طورپر تمام نبیوں کی تاریخ کی مادی شہادت-
اللہ تعالیٰ کو مطلوب تھاکہ قیامت سے پہلے تمام انسانوں کے سامنے اس بات کا محسوس اعلان ہوجائے کہ انسان کے بارے میں اللہ کا منصوبۂ تخلیق کیا تھا- کشتی نوح اس خدائی منصوبہ تخلیق (creation plan of God) کی ایک ناقابلِ انکار شہادت ہے- اور مختلف اسباب سے اِس شہادت کی ادائیگی کے لئے سب سے زیادہ موزوں مقام ترکی تھا-
ضرورت ہےکہ تمام دنیا کے مسلمان عموماً اور ترکی کے مسلمان خصوصاً اس خدائی منصوبے کو سمجھیں اور اس منصوبے کی تکمیل کے لئے وہ سارا اہتمام کریں جو اس کے لئے ضروری ہو- مثال کے طورپر وہ کشتی نوح کے مقام کو ایک اعلیٰ درجہ کے ٹورسٹ اسپاٹ (Tourist Spot) کے طورپر ڈولپ (develop) کریں- وہاں آمد ورفت کی تمام سہولتیں مہیا کریں- پھر وہاںاعلیٰ معیار پر یہ انتظام کریں کہ وہاں تربیت یافتہ افراد موجود ہوں، لائبریری موجود ہو- وہاں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں برائے ڈسٹری بیوشن یا برائے فروخت موجود ہو- وہاں اِس بات کا اعلیٰ انتظام کیا جائے کہ کشتی نوح کے حوالے سے پیغمبرانہ مشن لوگوں کے سامنے اطمینان بخش صورت میں آسکے- گویا کہ کشتی نوح کے ظہور کا یہ مقام صرف ایک کشتی کے ظہور کا مقام نہ رہے، بلکہ وہ پورے معنوں میں جدید ترین معیار کا ایک دعوتی سنٹر بن جائے-
خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، ہماری زمین کے لئے دو سیلاب مقدر تھا —— ایک، حضرت نوح کے زمانے کا سیلاب اور دوسرا، وہ جو تاریخ بشری کے خاتمے پر پیش آئے گا- کشتی نوح پہلے سیلاب کے لئے تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتی ہے، اور دوسرے سیلاب کے لئے اس کی حیثیت تاریخی ریمائنڈر (historical reminder) کی ہے- اکیسویں صدی عیسوی کے ربعِ اول میں کشتی نوح کا ظہور گویا اِس بات کی وارننگ ہے کہ لوگو، تیاری کرو، کیوں کہ آخری طوفان کا وقت قریب آگیا ہے-
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس خدائی منصوبے کو سمجھیں اوراس کی تکمیل کرکے اللہ کے یہاں اجرِ عظیم کے مستحق بنیں- حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں سال تک برف کے تودے میں دبے رہنے کے بعد کشتی نوح کا ظاہر ہونا صورِ اسرافیل سے پہلے کے دور کا سب سے بڑا واقعہ ہے- اِس کے بعد اگلا واقعہ صرف صورِ اسرافیل ہوگا جو گویا اِس بات کا آخری اعلان ہوگا کہ عمل کرنے کا وقت ختم ہوچکا اور عمل کا انجام پانے کا دور آگیا-
ترکی کا انتخاب
پہلی عالمی جنگ (1914-1918) دو گروپ کے درمیان ہوئی تھی— ایک کو اتحادی طاقت (Allied Powers) کہاجاتا تھا، اور دوسرے کو محوری طاقت (Axis Powers) کہاجاتا تھا- اُس وقت ترکی کے سامنے یہ سوال تھا کہ وہ دونوں گروپ میں سے کس گروپ کا ساتھ دے- اُس وقت مولانا محمد علی جوہر (وفات: 1931 ) نے اپنے انگریزی ہفتہ وار کامریڈ (Comrade) میں ایک طویل مضمون شائع کیا تھا- اِس مضمون میں انھو ں نے ترکوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ترکوں کا انتخاب (choice)’محوری گروپ‘ ہونا چاہیے- آخر کار ترکی نےپہلی عالمی جنگ میں اپنے داخلی حالات کے تحت محوری گروپ کا ساتھ دیا، لیکن اِس جنگ میں محوری گروپ کو شکست ہوئی جس کی قیادت اُس وقت جرمنی کررہا تھا- اِس کے نتیجے میں ترکی کو شدید سیاسی نقصان سے دوچار ہونا پڑا-
اب اکیسویں صدی میں وہ وقت آگیا ہے کہ ترکی کو ایک اور انتخاب (choice) کا مشورہ دیا جائے- یہ انتخاب دعوت الی اللہ کا انتخاب ہے- یہ انتخاب کسی ایک گروپ کی حمایت اور کسی دوسرے گروپ کی مخالفت کا انتخاب نہیں ہے، وہ ساری انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کا کام ہے- دعوت الی اللہ کا کام ساری انسانیت کو اپنا انتخاب بنانا ہے، نہ کہ کسی ایک محدود گروہ کو-
مزید یہ کہ دعوت الی اللہ کا انتخاب ایک غیر سیاسی مشن کا انتخاب ہے- اِس انتخاب میں نہ شکست کا سوال ہے اور نہ ناکامی کا سوال- یہ انتخاب کسی گروہ کی عدوات پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ پوری انسانیت کی خیر خواہی پر مبنی ہے- اس کے آغاز میں بھی کامیابی ہے، اور اس کے انجام میں بھی کامیابی-
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.