روزے کا مقصد احساسِ شکر کو پیدا کرنا ہے۔ غذا آدمی کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ غذا شکر کا بہت بڑا آ ئٹم ہے۔ روزے میںآدمی کو غذا سے وقتی طورپر روک کر شکر کی نفسیات کو جگایا جاتاہے، تاکہ اِس تجربے کی بنا پر آدمی دوسری نعمتوں کے بارے میں بھی شکر کرنے والا بنے۔ ایک مہینے کا روزہ آدمی کے اوپر اِس لیے فرض کیا گیا ہے، تاکہ وہ سال کے بقیہ دنوں میں بھی خدا کا شاکر بنا رہے۔
انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ اس کی نفسیات میں کسی کیفیت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ شکرِ خداوندی کی کیفیات میں زندگی گزارے۔ اِس لیے ہر سال کے ایک مہینے میں روزے کے ذریعے شکر کی کیفیت کو ری ایکٹویٹ (re-activate) کیا جاتا ہے، تاکہ آدمی کبھی شکر کی کیفیت سے خالی نہ ہونے پائے، وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے ہر تجربے کے بعد شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
دین کا خلاصہ اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ سے تعلق قائم ہونے کے بعد انسان کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اِسی اعتراف کا شرعی نام شکر ہے۔ جہاں شکر نہ ہو، یقینی طور پر وہاں دین بھی نہ ہوگا۔
روزہ اصلاً ایک انفرادی عبادت ہے، لیکن اس کو ایک مخصوص مہینے میں مقرر کیاگیا ہے۔ اس کا مقصد انفرادی عمل میں اجتماعی پہلو کو شامل کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ روزے کے مہینے میں ایک اجتماعی فضا پیدا ہو۔ ہرجگہ کے لوگ یکساں طورپر ایک ہی عبادت میں مشغول ہوں اور ہر جگہ کے لوگ ایک ہی عبادت کا چرچا کریں، ہرجگہ کے لوگ اپنے تجربات میں دوسروں کو شریک کریں۔ روزہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے تو اس کا انعام اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں، اس میں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ ہوجاتاہے۔ یہ اضافہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ کس صائم کا روزہ کیفیت کے اعتبار سے کتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ عبادت کا اصول یہ ہے کہ — جتنی زیادہ کیفیت، اتنا زیادہ اجر۔
واپس اوپر جائیں
ایمان کے بارے میں علما کا یہ اتفاق ہے کہ ایمان دو چیزوں کا نام ہے — زبان سے اقرار کرنا، اور دل سے تصدیق کرنا (الإیمان: اقرار باللسان، وتصدیق بالقلب)۔ اِس مسئلے پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ قولی اقرار اور قلبی تصدیق، دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔قلبی تصدیق کے خارجی اظہار ہی کا دوسرا نام قولی اقرار ہے۔ اِس اعتبار سے، ترتیب میں قلبی تصدیق پہلے ہے اور قولی اقرار اس کے بعد۔یہ قلبی تصدیق کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس قلبی تصدیق کے ساتھ معرفت جڑی ہوئی ہے۔ جب آدمی معرفت کے درجے میں اللہ کو دریافت کرتاہے تو ا س کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس کا قلب اس کی تصدیق کرنے والا بن جاتاہے۔ اور جب قلب تصدیق کرتا ہے تو اس کے بعد لازماً یہ ہوتاہے کہ اس کی زبان پر کلمہ کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں۔
پھر یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس معرفت کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے۔ جو آدمی معرفت کے درجے میں اللہ کو دریافت کرے، اُس نے گویا کہ اپنے خالق کو دریافت کیا۔ اُس نے اُس برتر ہستی کو دریافت کیا جو اس کا مالک ہے، جو دینے والااور چھیننے والا ہے، جس کے سامنے آدمی اپنے تمام اعمال کے لیے جواب دہ (accountable) ہے، جو خالق ہونے کے علاوہ، آدمی کا محاسب اور مُجازی بھی ہے، جس کی گرفت سے انسان کسی حال میں بچ نہیں سکتا، جو دنیا اور آخرت کا واحد مالک ہے۔اِس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ بات ایک غیر متعلق بات قرار پاتی ہے کہ عمل، ایمان کے اندر داخل ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمل، ایمان کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو ایمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جس آدمی کو معرفت والا ایمان حاصل ہو، اس کے لیے ایمان ایک انقلاب کے ہم معنی ہوگا، ایمان اس کی پوری زندگی کو بدل دے گا۔ اُس کی نیت، اس کی سوچ، اس کی گفتگو، اس کا سلوک، ردوقبول کے بارے میں اُس کا معیار، سب کچھ یکسر بدل جائے گا۔ ایسے آدمی کے لیے ایمان اور عمل دو چیز نہیں، ایسے آدمی کے لیے ایمان گویا کہ ایک بیج ہے اور عمل اُس بیج سے نکلاہوا درخت ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اللہ کو رب العالمین بتایا گیاہے۔ رب یا ربوبیت کا مطلب ہے: إنشاء الشیٔ حالا فحالا إلی حدّ التمام (المفردات للراغب) یعنی کسی چیز کی پرورش کرکے اس کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ قرآن میں رب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کو بتاتاہے، اُس کا کوئی تعلق انسان کے قائم کردہ نظام سے نہیں ہے۔
قرآن کی سورہ المومنون کی چند آیتیں یہ ہیں: ولقد خلقنا الإنسان من سُلالۃ من طین۔ ثم جعلناہ نطفۃً فی قرار مکین۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃً فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً، ثم أنشأناہ خلقاً آخر، فتبارک اللہ أحسن الخالقین(
قرآن کی اِن آیتوں میں ربوبیت کی وہ مثال بتائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست طورپرخود تخلیق کے عمل میں شامل کردی ہے۔ اِس ربوبیت کے ظہور میںانسان کا کوئی حصہ نہیں۔ اِس طرح کی تخلیقی ربوبیت کا معاملہ پوری کائنات میں جاری ہے۔ اِس ربوبیت کا تعلق انسان کے وجود سے بھی ہے اور دوسری اشیا کے وجود سے بھی۔
ربوبیت الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے جو فطرت کے قانون کے تحت اپنے آپ ظہور میں نہیں آتی، بلکہ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف صورتوں میں انسان کو توفیق دیتاہے اور اللہ کی توفیق سے انسان اس میں اپنا حصہ ادا کرتاہے۔ اِس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ فطرت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں بطور امکان رکھی ہیں۔ آدمی اللہ کی توفیق سے، اِن امکانات (potentials) کو واقعہ (actual) بناتاہے۔
تہذیب (civilization) کاارتقا اِسی دوسری ربوبیت سے تعلق رکھتا ہے۔ تہذیب کے تمام اجزا امکان کی صورت میں فطرت میں موجود تھے۔ اللہ کی توفیق سے انسان نے اِن امکانات کو واقعہ بنایا۔ اِس طرح ایک تدریجی عمل (gradual process) کے ذریعے موجودہ تہذیب وجود میں آئی۔
مثلاً انسان کی ایک ضرورت اپنے وجود کی توسیع ہے۔ اِسی توسیع کا ایک ذریعہ وہ ہے جس کو سفر کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں یہ کیا کہ اس نے انسان کو دو پاؤں دئے جس کے ذریعے وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔ پھر جنگل میں اونٹ اور گھوڑے اور خچر جیسے حیوانات پیدا کئے جن کو پکڑ کر انسان سدھائے اور پھر اُن کو اپنی سواری (vehicle) کے طورپر استعمال کرے۔ اِس طرح، اللہ کی توفیق سے انسان نے کشتی بنائی اور اِس طرح وہ پانی کو اپنی گزر گاہ کے طورپر استعمال کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر انسان نے اللہ کی توفیق سے پہیہ (wheel) بنایا۔ اِس سے انسان کے لیے بری سفر کا نیا دور شروع ہوگیا۔ اِس کے بعد اللہ کی توفیق سے انسان نے فطرت کی کچھ اور طاقتیں دریافت کیں جس سے تیز رفتار مشینی سواریاں وجود میں آئیں۔ مثلاً ریل اور کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔
سفر کے تیز رفتار ذرائع اور دوسری ترقیاتی چیزیں، جن کا تعلق تہذیب سے ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انسان کو حاصل ہوئیں۔ اِس اعتبار سے، تہذیب کا پورا معاملہ الٰہی ربوبیت کا ایک حصہ ہے۔ تہذیب کا ارتقابظاہرانسان کے ذریعے ہوا، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تمام تر اللہ کی توفیق سے انجام پایا۔ اللہ کی خصوصی توفیق کے بغیر انسان، فطرت کی اُن دریافتوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا جن کے نتیجے میں تہذیب کا واقعہ ظہور میں آیا۔
انسان اور نظامِ ربوبیت
انسان ایک مکمل وجود ہے، مگر اِسی کے ساتھ وہ مکمل طورپر ایک غیر مکتفی وجود ہے۔ انسان کو اپنے وجود کی تکمیل کے لیے ہر لمحہ ایک مددگار نظام درکار ہے۔ اِس نظام کے بغیر وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ اِسی مددگار نظام کا نام نظامِ ربوبیت ہے، یعنی رب العالمین کا قائم کردہ نظام۔
انسان کے اندر نظامِ ہضم ہے، مگر غذائی اشیا کی سپلائی باہر سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر نظامِ تنفس ہے، مگر آکسیجن اس کو خدا کے کارخانے سے ملتا ہے۔ انسان کے پاس نظامِ بصارت ہے، مگر وہ روشنی خداکی طرف سے آتی ہے جس کے بغیر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس نظامِ سماعت ہے، مگر اُس ہوا کو چلانے والا خدا ہے جس کے بغیر انسان سن نہیں سکتا، وغیرہ۔انسانی وجود کے اندر اِس قسم کے بہت سے نظام ہیں، مگر ہر نظام اپنی کارکردگی کے لیے خارجی مدد کا محتاج ہے۔ یہ مختلف قسم کے خارجی نظام جس پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے، اس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتاہے۔ یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو انسان کا پورا وجود بے معنی ہوجائے گا۔
مچھلی پانی کے باہر مسلسل تڑپتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے اور مچھلی صرف پانی سے آکسیجن لے سکتی ہے۔ مچھلی کی یہ مثال ہر آدمی کے لیے بہت زیادہ سبق آموز ہے۔ ہر وقت انسان کو سوچنا چاہئے کہ خدا اگر لائف سپورٹ سسٹم یا بالفاظ دیگر اپنے نظامِ ربوبیت کو واپس لے لے تو میراکیا حال ہوگا۔ یہ سوچ اگر آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے تو یہی ایک بات اس کے اندر تمام اعلیٰ قدروں (values) کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔ مثلاً تواضع (modesty) ، شکر، عفو ودرگزر، خیر خواہی، انصاف، وغیرہ۔
شکر کے دو درجے
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔ خدا کے اِسی اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔اِس شکر یا اعتراف کے دو درجے ہیں — ایک ہے، نارمل اعتراف (normal acknowledgement)، اور دوسرا ہے، تخلیقی اعتراف (creative acknowledgement) ۔ نارمل شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ کو پیاس لگی۔ آپ نے گلاس میں پانی لے کر اس کو پیا۔ اِس سے آپ کو سیرابی حاصل ہوئی اور پھر آپ نے کہا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ کو پانی دیا جس سے میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
تخلیقی شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جب پانی پیا تو آپ کو پانی کی وہ پوری تاریخ یاد آگئی جو جدید سائنس نے دریافت کی ہے، یعنی تقریباً
پانی کے معاملے میں پہلی صورت نارمل شکر کی ہے اور دوسری صورت تخلیقی شکر کی۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا شکر اگر صرف شکر ہے تو دوسرا شکر برتر شکر— شکر اور برتر شکر کا یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کے بارے میں پیش آتا ہے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال خون (blood) ہے۔ انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے، پھر یہ خون ایک اور پیچیدہ نظام کے تحت سارے جسم میں رگوں کے ذریعے مسلسل دوڑتا ہے۔ یہ بلاشبہہ ربوبیت کے نظام کی ایک اعلی مثال ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں انسان کو خدا کی نعمتیں یاد دلاتی ہیںاور وہ اللہ کے لیے سراپا شکر میں ڈھل جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں خون کا تصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک سرخ سیال ہے جو جسم کی طاقت بن کر جسم کے اندر گردش کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ دریافت ہوئی کہ خون دو قسم کے ذرات سے مل کر بنتا ہے— سرخ ذرات (red blood corpuscles)، اور سفید ذرات (white blood corpuscles) ۔ اب یہ دریافت ہوئی ہے کہ خون میں اِس کے سوا، ایک اور خورد بینی ذرہ ہوتاہے۔ اس کو پلیٹ لیٹس (platelets) کانام دیاگیاہے۔ یہ تیسرا ذرہ انسان کی زندگی اور صحت کے لیے بے حد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خون ہراعتبار سے، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس نعمت کا احساس آدمی کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔
اِس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کے اوپر انسان کی زندگی قائم ہے۔ یہ نظام براہِ راست خدا کی قدرت کے تحت قائم ہے اور اِسی کو قرآن میں ربوبیت کہاگیاہے۔ یہ نظامِ ربوبیت تمام تر اللہ کی جانب سے قائم ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ربوبیت کے اِس نظام سے واقفیت حاصل کرے اور پورے معنوںمیں اللہ کا شاکر بندہ بن کر اِس دنیا میں رہے۔
قرآن میں بتایا گیاہے کہ رب صرف اللہ ہے اور اُسی کی ربوبیت اِس دنیا میں قائم ہے۔اِسی طرح فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے اور تمام چیزیں اُسی کے زیر حکم ہیں۔ یہ دونوں الفاظ (رب اور حکم) اللہ کی ذات کی نسبت سے قرآن میںآئے ہیں، اس کا کچھ بھی تعلق سیاسیات یا معاشیات سے نہیں ہے۔مگر موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ انھوں نے مذکورہ الفاظ قرآن سے لئے اور اس کے اندر اپنے خود ساختہ مفہوم کو شامل کردیا۔ یہ گویا کہ ’رب‘ اور’ حکم‘ کے لفظ کو سیاسی بنانا (politicisation) تھا۔ قرآنی الفاظ میں اِس قسم کا خود ساختہ مفہوم شامل کرکے انھوںنے یہ اعلان کیا کہ مسلمان کا یہ مشن ہے کہ وہ دنیا میں نظامِ ربوبیت یا نظامِ حاکمیت قائم کرے۔ یہ بلا شبہہ ایک غیرعلمی بات ہے۔ اس کی غلطی اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ النور کی ایک آیت میں ایک اہم تاریخی اصول بتایا گیا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور عمل صالح کریں کہ اللہ اُن کو زمین میں استخلاف عطا کرے گا، جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو استخلاف عطا کیا تھا۔ اور ان کے لیے اُن کے اُس دین کو تمکین عطا کرے گا جس دین کو اللہ نے اُن کے لیے پسند کیا ہے۔ اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد اُس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو وہ میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔(
قرآن کی اِس آیت میں ’’تمکین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تمکین کا مطلب قدرت دینا (strengthening) ہے۔ اِس قدرت یا تمکین سے کیا مراد ہے،اُس کا ذکر خود قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ آیت کے مطابق، وہ قدرت یا تمکین یہ ہے کہ دین کے معاملے میں خوف کی حالت ختم ہوجائے اور امن کی حالت قائم ہوجائے۔ اہلِ ایمان کو یہ موقع مل جائے کہ وہ شرک سے محفوظ ہو کر اللہ کی مطلوب عبادت کرسکیں۔ ’استخلاف فی الارض‘ سے مراد اِسی قسم کی تمکین ہے۔ اِس آیت میں استخلاف یا تمکین سے مراد کسی قسم کا قومی غلبہ یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اُس سے مرادوہ موقع ہے جب کہ ایک مومن کو آزادانہ طور پر عابدانہ زندگی گزارنا ممکن ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ اِس آزادی کی بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ اجتماع کی سطح پر کوئی کامل نظام قائم ہوجائے۔اِس لیے نظام یا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول رکھا ہے کہ حالات کے تحت کبھی ایک گروہ کو سیاسی اقتدار ملے اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تلک الأیام نداولہا بین الناس (
اللہ کی یہ سنت مجموعی نظام یا سیاسی اقتدار کے بارے میں ہے، مگر جہاں تک افراد کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں یہ مطلوب ہے کہ ان کو ہر حال میں یہ موقع حاصل رہے کہ وہ خدائے واحد کی آزادانہ عبادت کریں اور پُرامن دعوت الی اللہ کو کسی رکاوٹ کے بغیر ہر حال میں جاری رکھ سکیں۔ اِس لیے اللہ نے اِس سلسلے میں یہ اصول اختیار کیا ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں قوموں کو ایک حد تک آزادی دئے ہوئے ہے، لیکن اللہ نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ عبادت اور دعوت الی اللہ کے کام میں غیر ضروری رکاوٹ پیدا کرے۔ جب بھی کو ئی گروہ اِس قسم کی غیر ضروری رکاوٹ ڈالتاہے تو اللہ تعالیٰ تاریخ میں مداخلت کرکے اِس غیر ضروری رکاوٹ کو ختم کردیتاہے، تاکہ آزادانہ عبادت اور پُرامن دعوت کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں فتنہ (جارحانہ شرک) کو ختم کرنے کے لیے اصحابِ رسول کو قتال کا حکم دینا اِسی مصلحت کے تحت تھا (
استخلاف یا تمکین کا مطلب حکومت الٰہیہ کا قیام نہیں ہے۔ استخلاف کا تعلق دراصل خدا کی سنتِ امتحان سے ہے۔ اِس سنتِ امتحان کا ایک پہلو وہ ہے جو فرد سے متعلق ہے، دوسرا وہ ہے جو قوم سے متعلق ہے۔ جس طرح افراد کو اُن کے انفرادی دائرے میں کوئی چیز دے کر اُنھیں جانچا جاتاہے، اُسی طرح قوموں کو باری باری اقتدار دیا جاتا ہے، تاکہ اُنھیں جانچا جائے(165: 6)
استخلاف بمعنی زمینی اقتدار کا تعلق اگر لازماً ایمان اور عملِ صالح سے ہو، تو تمام نبیوں کو زمینی اقتدار حاصل ہونا چاہئے تھا، جب کہ معلوم ہے کہ پچھلے نبیوں میں سے صرف دو نبیوں کو زمینی اقتدار ملا، یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان۔
اِسی طرح تمکین سے مراد تمکینِ سیاسی نہیں ہے، بلکہ تمکینِ دینی ہے، یعنی فرد کی نسبت سے دینی ذمے داری ادا کرنے کے لیے جو مواقع درکار ہیں، اُن مواقع کی پوری آزادی۔ فرد کی دینی ذمے داری بنیادی طورپر دو چیزیں ہیں—آزادانہ عبادت، پُرامن دعوت۔ سیاسی اقتدار کے محدود دائرہ میں اگر کوئی غیر مسلم حکمراں ہو، لیکن پُرامن دعوت اور آزادانہ عبادت کے معاملے میں اہلِ ایمان کو پورے مواقع حاصل ہوں تو کہا جائے گا کہ ایسے مقام پر اہلِ ایمان کو تمکین حاصل ہے— موجودہ زمانے میں تمام جمہوری ملکوں میں اہلِ ایمان کو پوری طرح یہ مواقع حاصل ہیں۔ اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے کے جمہوری ملکوں میں وہ چیز عملاً حاصل ہے جس کو قرآن میں ’تمکین فی الارض‘ کہا گیا ہے۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو مصرمیں تمکین (
واپس اوپر جائیں
انسائکلوپیڈیا برٹینکا میں حسب ذیل عنوان کے تحت ایک مقالہ چھپا ہے: (Historiography and Historical Methodology) اِس مقالے میں ایک ذیلی عنوان (Muslim Historiography) قائم کیا گیاہے۔اِس کے تحت مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ — محمد نے اسلام کو ایک ایسے مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس میں تاریخ کا طاقت ور تصور موجود تھا۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن انتباہات سے بھرا ہوا ہے جو کہ تاریخ کے اسباق سے ماخوذ ہے:
Muhammad made Islam a religion with a strong sense of history. The Quran, Islam’s holy book, is full of warnings derived from the lessons of history. (EB. 8/959, 1974)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس سے قرآن کا تصورِ تاریخ معلوم ہوتاہے۔ قدیم زمانے میں شاہی خاندان (dynasty) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جاتی تھی۔ عبد الرحمن ابن خلدون (وفات: 1406 ) کے بعد ایک نیا دور آیا، جب کہ نیشن (nation) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جانے لگی۔ اس کے بعد آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب (A Study of History) لکھی۔ اِس میں تہذیب (civilization) کو یونٹ بنا کر پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ اِن سب سے مختلف ہے۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ قرآن کا تصورِ تاریخ خدائی منصوبہ (divine plan) پر مبنی ہے، یعنی خدا کے تخلیقی پلان کی روشنی میں انسانی تاریخ کا جائزہ لینا۔ زیر نظر مقالے میں اِس قرآنی تصور کے مطابق، تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اِس جائزے کے لیے بنیادی طورپر9 ذیلی عنوانات مقرر کیے گییہیں— خلافتِ آدم، اعلان واِسرار، ذبح عظیم، احسن القصص، مقامِ محمود، آیتِ اسرا، اظہارِ دین، لوحِ محفوظ، ادخالِ کلم
جنتی افراد، جنتی معاشرہ
قرآن کی سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (
معرفت کا تعلق فرد سے ہے۔ کیوں کہ یہ ایک فرد ہی کا ذہن ہے جو اِس موضوع پر غور وفکر کرتاہے اور پھر اس کا ذہن اُس فکری واقعے کا تجربہ کرتاہے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق کے منصوبے کے مطابق، تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ایسے افراد پیدا ہوں جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے ہوں۔ اِس کے مطابق، تخلیق کا نشانہ افراد ہیں، نہ کہ کوئی مجموعہ یا نظام۔
تخلیق کا نشانہ وہی چیز ہوسکتی ہے جو فی الواقع قابلِ حصول ہو۔ اِس پہلو سے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوئے جو عارف باللہ (realized person)کی حیثیت رکھتے تھے۔اِس کے برعکس، اگر مقصد تخلیق کو اجتماعی معنوں میں لیا جائے، مثلاً صالح معاشرہ بنانا، عادلانہ نظام کی تشکیل، عالمی سطح پر حکومتِ الٰہیہ کا قیام، زندگی کے تمام شعبوں میں شرعی قوانین کا نفاذ، وغیرہ۔ اِس طرح کے اجتماعی انقلاب کو برپا کرنا اگر تخلیق کا نشانہ ہو، تو وہ پوری تاریخ بشری میں کبھی معیاری معنوں میں وقوع میں نہیں آیا، نہ انبیا کے زمانے میں اور نہ انبیا کے زمانے کے بعد۔
آدم کی تخلیق سے لے کر اب تک انسانی تاریخ پر بہت لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ اِس پوری مدت میں، انبیا یا پیروانِ انبیا کے ذریعے مسلسل طور پر یہ کام ہوتا رہا کہ تخلیق کا منصوبہ پورا ہو۔ یہ لوگ اللہ کے نمائندے تھے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کی ضرور مددکرتاہے، نہ صرف آخرت میں بلکہ موجودہ دنیا میں بھی (
یہ ایک مسلّمہ واقعہ ہے کہ اِن حضرات کی کوششیں پورے انسانی مجموعہ یا نظام کی سطح پر کبھی معیاری معنوں میں کامیاب نہیں ہوئیں، البتہ افراد کی سطح پر وہ ہمیشہ کامیاب ہوئیں۔ ہر زمانے میں اور ہر کوشش کے ذریعے ایسے افراد وجود میں آئے جو پورے معنوں میں عارف باللہ تھے، جنھوںنے اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ کو اپنا کنسرن بنایا، جو اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اور جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے بھی۔
اِس تاریخی تجربے کا تقاضا ہے کہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کی کامیابی کا معیار پورے مجموعۂ انسانیت (mankind) کو قرار نہ دیا جائے، بلکہ اس کی کامیابی کا معیار افراد کو قرار دیا جائے۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو خالق کا منصوبہ تخلیق آخری حد تک کامیاب نظر آئے گا۔ آدم سے قبل جنات پیدا کئے گئے تھے (
اسلام کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دور ہیں، قیامت سے پہلے اور قیامت کے بعد۔ قیامت سے پہلے کا دور برائے امتحان ہے اور قیامت کے بعد کا دور برائے انجام۔ یہ دونوں دور خالقِ کائنات کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ دونوں دور یکساں طورپر پوری طرح کامیاب دور ہوں۔ یہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا کہ کامیابی کے اعتبار سے دونوں دوروں میں فرق کیا جائے۔ اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں دوروں کی بہترین توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دور کو انتخابِ افرادکا دور (period of individual selection) قرار دیاجائے اور دوسرے دور کو اقامتِ سماج (establishment of society) کا دور کہا جائے، یعنی پہلے دورمیں اس اعلیٰ سماج کے لئے مستحق افراد (deserving individuals) کا انتخاب اور دوسرے دور میں پوری تاریخ کے ان مشترک افراد کو یکجا کرکے ان کی بنیاد پر ایک اعلیٰ معاشرہ (high society) بنانا۔ انسانی حیات کا یہی وہ دوسرا دور ہے جس کو قرآن میں جنت کہا گیاہے۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، انسانیت کا آغاز آدم اور حوا کی تخلیق سے ہوا۔آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسان کی پیدائش سے پہلے سیارۂ ارض پر ایک ناری مخلوق جنات کو بسایا گیا تھا (
موجودہ زمین پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے بسایا گیا ہے، لیکن یہ آزادی ایک مشروط آزادی ہے۔ اِس کے مطابق، موجودہ زمین انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے، وہ انسان کے لیے عیش گاہ نہیں۔ اِس معاملے کی ایک عملی مثال ابلیس اور ملائکہ کی صورت میں قائم کردی گئی ہے۔ جو لوگ ملائکہ کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر کردیں، وہ قیامت کی عدالت میں کامیاب قرار پائیں گے، اور جو لوگ ابلیس کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر نہ کریں، وہ قیامت کی عدالت میں ناکام قرار دئے جائیں گے۔ انسان کا یہ امتحان خود انسان کی سطح پر ہے، جیسا کہ ابلیس اور ملائکہ کے معاملے میں پیش آیا۔اِس معاملے سے انسان کو ہر زمانے اور ہر نسل میں باخبر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے۔ یہ پیغمبر لوگوں کی اپنی زبان میں صراطِ مستقیم کی وضاحت کرتے رہے۔ یہ پیغمبر جو کچھ کہتے تھے، وہ اللہ کی وحی سے کہتے تھے۔ تمام پیغمبروں کا ایک ہی مشترک اصول تھا— نصح وخیر خواہی، یعنی اپنے مدعو کی یک طرفہ طورپر خیر خواہی، مدعو کی طرف سے پیش آنے والی کسی بھی زیادتی پر رد عمل کا طریقہ اختیار کئے بغیر مثبت انداز میں اپنا پیغام دیتے رہنا۔
خدا اور فرشتوں کا مکالمہ
آدم کی تخلیق کے وقت خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھائے آدمی کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک، تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘ ۔(
یہاں یہ سوال ہے کہ وہ کیا بات تھی جس پر فرشتوں کو اشکال پیدا ہوا، اور بعد کو کیا چیز اُن کے علم میںآئی جس کے بعد اُن کا اشکال دور ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ ابتدا میں فرشتوں نے آدمی کی نسل کو اس کے پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے لیا۔ اُن کو نظر آیا کہ جس طرح اختیار پاکر جنات کا گروہ سرکش بن گیا، اس طرح اختیار پانے کے بعد انسانی نسل بھی مجموعی طور پر سرکش بن جائے گی۔
مگر اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرے کے ذریعے انسانی نسل کے منتخب افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور آدم نے اِن منتخب افراد کا تعارف کرایا۔ اُس وقت فرشتوں کو اندازہ ہوا کہ اگر چہ مجموعہ کے اعتبار سے انسانی نسل میں فساد آجائے گا، لیکن عمومی فساد کے باوجود ہر زمانے میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو فساد سے خالی ہوں اور اصلاح کے راستے پر چلنے والے ہوں۔ نسلِ انسانی کے اِنھیں منتخب افراد کو قرآن میںانبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین (
اِس مظاہرے کے بعد فرشتوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے کا علم ہوا۔ فرشتوں نے جانا کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تعلق پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ اِس مجموعے کے استثنائی افراد سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جنت کی معیاری دنیا میں آباد کرنے کے لیے ایسے افراد درکار تھے جو مکمل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو سرکشی سے بچائیں اور خدا کی زمین پر خدا کے مطیع بن کر رہیں۔ ایسے افراد صرف کھلی آزادی کے ماحول میں بن سکتے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو کامل آزادی کے ماحول میں بسایا اور پھر فرشتوں کو مقرر کیا کہ وہ اُن استثنائی افراد کا ریکارڈ تیار کریں جو دباؤ کے بغیر خدا کی معرفت حاصل کریں اور پھر اپنے آزادانہ فیصلے کے تحت اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کا پابند بنائیں۔ یہی استثنائی افراد اللہ کے مطلوب افراد ہیں۔ انھیں مطلوب افراد کا انتخاب کرکے اُن کو جنت کی معیاری دنیا میں بسایا جائے گا۔
اعلان واِسرار
حضرت آدم کے بعد ان کی نسل جس علاقے میں پھیلی، وہ غالباً وہی علاقہ تھا جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا ہے، یعنی دجلہ اور فرات کے درمیان کا زرخیز علاقہ۔ حضرت آدم کے بعد کئی نسلوں تک وہ درست حالت پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان بگاڑ آیا۔ ان میں شرک پھیل گیا، یعنی خالق کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِس کے بعد ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔حضرت نوح نے وحی کے ذریعے ان کو خدا اور آخرت کا پیغام دیا۔ ان کی کوشش سے ان کی قوم کی ایک محدود تعداد اُن پر ایمان لائی،لیکن قوم کی بڑی اکثریت سرکشی پر قائم رہی۔ حضرت نوح نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ — خدایا، میں نے اعلان کے ساتھ بھی کام کیا اور اسرار کے ساتھ بھی (
اِس آیت میں اعلان سے مراد قوم سے اجتماعی خطاب ہے،اور اِسرار سے مراد انفرادی سطح پر اُن کو نصیحت کرنا ہے۔ حضرت نوح نے لمبی مدت تک دونوں طریقے سے اپنا دعوتی مشن جاری رکھا، مگر قوم کی سرکشی ختم نہ ہوسکی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا طوفان بھیجا جس میں چند لوگ زندہ بچے جو حضرت نوح کی کشتی پر سوار تھے، بقیہ پوری قوم طوفان میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ اِس طوفان کے بعد حضرت نوح کے تین بیٹے زندہ بچے جن کا نام —حام، سام، یافث تھا۔ اِنھیں تین بیٹوں سے بعد کی انسانی نسل چلی اور پھر وہ دھیرے دھیرے پوری سطح ارض پر پھیل گئی۔ جب انسانی نسل زمین کے مختلف حصوں میں آباد ہوئی تو ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انھیں میں سے کسی فرد کو پیغمبر بنایا جس نے اپنی قوم کو خدائی صداقت کا پیغام دیا۔ مگر جو انجام ہوا، وہ قر آن کے بیان کے مطابق یہ تھا کہ لوگوں نے اپنے پیغمبروں کا مذاق اڑایا اور ان کو ماننے سے انکار کردیا(
اِس عام گمراہی کا سبب لوگوں کی ظاہر پرستی تھی۔ لوگ مخلوقات کو دیکھتے تھے، مگر خالق ان کو نظرنہ آتا تھا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ مخلوقات میں سے جو چیز بظاہر بڑی دکھائی دی، اُسی کو انھوںنے اپنا معبود سمجھ لیا اور اس کو پوجنے لگے۔ مثلاً سورج اور چاند، وغیرہ۔اِس عام گمراہی کی بنا پر ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی یا پیغمبروں کے مشن کی کوئی تاریخ ریکارڈ نہ ہوسکی۔ انسان نے جب لکھنا پڑھنا سیکھا تو اس نے اپنی تاریخ بھی لکھی، مگر اِن تاریخوں میں بادشاہوں اور جنرلوں کے واقعات لکھے گئے، مگر پیغمبروں کو یا ان کے مشن کو ناقابلِ ذکر سمجھ کر چھوڑ دیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح سے لے کر حضرت مسیح تک کسی بھی پیغمبر کا حوالہ مدوّن تاریخ (recorded history) میں موجود نہیں۔
تاہم موجودہ زمانے میں زمین کی کھدائی سے پیغمبروں کے دور کے کچھ آثار برآمد ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ پیغمبروں کے حالات مورخین نے تحریر کئے ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم انیسویں صدی عیسوی تک تاریخی شخصیت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ بیسویں صدی کے نصف اول (1922-1943) میں کھدا ئی (excavation) کے ذریعے عراق کا قدیم شہر اُر (Ur) دریافت ہوا جو کہ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل تھا۔ اِس کے بعد پیغمبر ابراہیم کو ایک تاریخی شخصیت کی حیثیت سے مان لیا گیا۔
ذبحِ عظیم
ہزاروں سال تک پیغمبروں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ضرورت تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدائی مشن کی ایک تاریخ بنے۔ وہ انفرادی واقعات سے بڑھ کر ایک تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ اِس مقصد کے لیے ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں ساتھی ملیں، جن سے ایک مضبوط ٹیم تیار ہو۔ یہ ٹیم جدوجہد کرکے صورتِ حال کو بدلے۔ وہ تاریخ میں ایک نیا دور لائے، جب کہ خدائی مشن ایک تہذیب کی صورت اختیار کرلے۔ اِس قسم کی مطلوب ٹیم بنانے کے لیے وہ واقعہ ہوا جس کو قرآن میں ذبحِ عظیم (
ہزاروں سال تک ایساہوا کہ پیغمبر آتے رہے، مگر بڑی تعداد میں قبولِ ایمان نہ کرنے کی وجہ سے کسی پیغمبر کے ساتھ کوئی ٹیم نہیں بنی۔ اِس کا سبب وہی چیز تھی جس کو ماحول کی کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ اِس کنڈیشننگ کا ذکر حدیث میں اِن الفاظ میں کیاگیاہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہودانہ، أویمجسانہ، أوینصرانہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1385) یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتاہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔
اِس صورتِ حال کی بنا پر آبائی مذہب ایک سماجی رواج بن گیا تھا۔ اِس تسلسل کو توڑنے کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ ایک ایسی نئی نسل بنائی جائے جو اپنی فطری حالت پر قائم ہو اور پھر پیغمبر کی دعوت کو قبول کرکے وہ خدا پرست انسانوں کی ٹیم کا حصہ بن سکے۔
اِس مخصوص منصوبے کے تحت، حضرت ابراہیم نے یہ کیا کہ وہ اُس دور کے متمدن ملک عراق کو چھوڑ کر عرب کے صحرا میں آئے اور یہاں خالص صحرائی ماحول میںاپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کیا۔ صحرائی ماحول میں آباد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ متمدن دنیا سے منقطع ہو کر ایک نسل بنے جو متمدن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) سے پاک ہو۔
یہی وہ خصوصی منصوبہ تھا جس کے تحت حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آپ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں (
اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: وفدیناہ بذبح عظیم (
اِس آیت میں ذبحِ عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میںآباد کردیاگیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف ایک بے آب وگیاہ صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسباب حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی، اِس لیے اِس معاملے کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیا گیا۔
احسن القصص
قرآن کی سورہ یوسف میں پیغمبر یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیاہے۔ اِس واقعے کو قرآن کا احسن القصص (
حضرت یوسف کنعان (فلسطین) کے علاقے میں ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مصر جیسے متمدن ملک کے دارالسلطنت میں پہنچا دیا، جہاں ایک بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ ایسا غالباً اِس لیے ہوا کہ حضرت یوسف کے ذریعے دعوت کی جو مثال قائم کرنا مطلوب تھا، وہ مصر جیسے ملک ہی میں ممکن تھی۔حضرت یوسف کے اِس واقعے کی تفصیل قرآن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اُس وقت کے مصری بادشاہ نے حضرت یوسف کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انھیں ایک اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی۔ اِس پیش کش کو حضرت یوسف نے قبول کرلیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ بادشاہ اپنے مذہبی عقیدے کے اعتبار سے مشرک تھا۔ مزید یہ کہ سیاسی تخت بھی بدستور اُس کے قبضے میں تھا۔ اِس کے باوجود حضرت یوسف نے بادشاہ کے تحت ملنے والے اِس عہدے کو قبول کرلیا۔
قرآن کے مطابق، اِس کا سبب یہ تھا کہ خزائن ارض پوری طرح حضرت یوسف کو حاصل ہورہے تھے۔ قدیم زمانے کے لحاظ سے، خزائن ارض کا مطلب تھا— سر زمین مصر کا زراعتی انتظام۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک مطلوب پیغمبرانہ ماڈل ہے کہ داعی اگر ایسے ملک میں ہو، جہاں سیاسی اقتدار (political power) کسی اور کے ہاتھ میں ہو، لیکن یہ امکان ہو کہ اگر داعیٔ حق دوسرے کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرلے تو اس کو کام کے مواقع بلا روک ٹوک حاصل ہوجائیںگے، تو اُس وقت حکمت کا تقاضا یہ ہوگا کہ ایسی پیش کش کو کھلے دل سے قبول کرلیاجائے۔
حضرت یوسف کے ساتھ یہ معاملہ اُس دور میں پیش آیا، جب کہ دنیا میں ہر جگہ زراعت کا دور (agricultural age) پایا جاتا تھا۔ کام کے مواقع تمام تر زراعت کے ساتھ وابستہ تھے۔ اُس وقت خزائنِ ارض کا مطلب تھا — خزائنِ زراعت۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ہم جمہوریت کے دور میں ہیں۔ اب سیاست کا ڈی سنٹرلائزیشن (de-centralization) ہوچکا ہے۔ اب انتظام (administration) کے سوا تمام شعبے ہر ایک کے لیے آزادانہ طورپر کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں حضرت یوسف کا ماڈل موجودہ حالات میں مکمل طورپر قابلِ انطباق (applicable) ہے۔ آج اگر داعیٔ حق، سیاسی حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرے تو کسی باضابطہ اعلان یا معاہدہ کے بغیر ہی تمام خزائن ارض، بہ الفاظ دیگر، تمام مواقع کار آزادانہ طورپر داعی کے زیر تصرف آجائیں گے۔ حضرت یوسف کے اِس ماڈل کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ حق کے داعی کو چاہئے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں غیر نزاعی طریقِ کار (non-confrontational approach) اختیار کرے۔ اِس حکمت کا یہ نتیجہ ہوگا کہ خزائنِ ارض پوری طرح اس کے استعمال میں آجائیں گے اور وہ پُرامن رہنے کی شرط پر دعوت کا کام اعلیٰ ترین معیار پر انجام دے سکے گا۔
حضرت یوسف کے واقعے کو قرآن میں احسن القصص کہاگیا ہے۔ یہ محض ایک قصے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین ماڈل ہے جس کو ایک پیغمبر کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ حضرت یوسف کا قصہ قرآن کے علاوہ، بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ بائبل میں بتایا گیاہے کہ بادشاہِ مصر نے جب حضرت یوسف کو مصر کے خزائن پر مقرر کیا تو اس نے کہا:
Only in regard to the throne, I will be greater than you. (Genesis 37: 50)
حضرت یوسف کی مثال کی روشنی میں اگر یہ متعین کیا جائے کہ اس کے مطابق، کام کا بہترین ماڈل کیا ہے، تو وہ ماڈل یہ ہوگا کہ بادشاہِ وقت سے سیاسی ٹکراؤ نہ کرو۔ اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ غیر سیاسی دائرے میں موجود تمام مواقع کو آزادانہ طورپر حق کے مشن کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ اِس ماڈل کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے — سیاسی اقتدار کے معاملے میں موجودہ صورت حال کو تسلیم کرنا، اور سیاسی اقتدار کے باہر کے دائرے میں اپنے عمل کی تنظیم کرنا:
Political statusquoism, non-political activism.
مقامِ محمود
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محموداً (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ہمارے عقیدے کے اعتبار سے، وہ بلاشبہہ خدا کے پیغمبر تھے۔ مگر قدیم زمانے میں موافق اسباب نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے پیغمبر قدیم تاریخی ریکارڈ میں درج نہ ہوسکے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں پہلی بار وہ اسباب پیدا ہوئے جب کہ آپ کو آزاد تاریخی ریکارڈ میں ایک معلوم اورمسلّم شخصیت کے اعتبار سے درج کیاگیا۔ اِس تاریخی حقیقت کو ایک مستشرق نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب 570 میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ بنو اسماعیل کے ایک فرد تھے۔ پچھلے تقریباً ڈھائی ہزار سال کے دوران عرب کے ماحول میں بنو اسماعیل کے نام سے ایک پوری نسل تیار ہوچکی تھی۔جس کے افراد کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی نسل (a nation of heroes) کہا تھا۔ یہی وہ گروہ ہے جس میں دعوت وتربیت کا کام کرکے وہ جماعت تیار ہوئی جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ رسول اور اصحاب رسول نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے یہ کیا کہ انھوںنے ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اُن سے پہلے توحید کا عقیدہ صرف ایک نظریے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اصحاب رسول کی غیر معمولی کوششوں سے وہ انقلاب کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ شرک کا دور ختم ہوگیا اور توحید کا دور پوری طاقت کے ساتھ شروع ہوگیا۔
اِسی انقلاب کا نتیجہ تھا کہ تاریخ میں ایک نیا پراسس (process) شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا آغاز ساتویں صدی کے نصف اول میں عرب سے ہوا، اس کا اختتام (culmination) ایک ہزار سال کے بعد یورپ میں ہوا۔اس انقلاب کے بہت سے پہلو تھے۔ مثلاً اِس انقلاب نے اسلام کے عقیدے کو سائنسی حقیقت (scientific reality) کے درجے تک پہنچا دیا۔ اس نے مذہبی آزادی کا دروازہ کھولا۔ اس کے بعد دعوت وتبلیغ کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں جدید کمیونکیشن وجود میں آیا، جس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جاسکے۔ آفاق وانفس میں سائنس کی دریافتوں سے یہ ممکن ہوگیاکہ اعلیٰ ترین علمی معیار پر حق کی تبیین کی جاسکے (
آیتِ اسرا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور، یعنی ہجرت (
اِس سفر کا مقصد قرآن میں اِن الفاظ میں بتایاگیا ہے: لنریہ من اٰیاتنا یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں پیغمبر کو دکھانا۔ یہ نشانیاں (آیات اللہ) کیا تھیں، وہ یروشلم کی عمارتیں یا وہاں کے درخت اور چشمے نہ تھے۔ وہ نشانی دراصل فطرت میں چھپا ہوا وہ امکا ن تھا جس کو تیزرفتار سفر اور تیز رفتار پیغام رسانی کہا جاتا ہے، یعنی آنے والا دورِ مواصلات (age of communication) ۔ اِس تجربے کے ذریعے پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہوجائیں گے جن کی مدد سے عالمی سطح پر خداکے آخری دین کی اشاعت ممکن ہوجائے، یعنی وہی واقعہ جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمۃ فی کل البیوت‘ (ہر گھر میں کلمۂ اسلام کا داخلہ) کہا گیاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا کے واقعے کی صورت میں جو تجربہ کرایا گیا، وہ مستقبل کے بارے میں ایک بشارت تھی۔ اِس بشارت کا ذکر احادیث میں مختلف الفاظ میں آیاہے۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: و لیتمنّ اللہُ ہٰذا الأمر حتی یسیر الراکب من صنعاء إلی حضرموت، ما یخاف إلاّ اللہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3852 ) یعنی اللہ ضرور اِس امر (دین ) کو تکمیل تک پہنچائے گا، یہاںتک کہ ایک سوار صنعا سے حضرت موت تک جائے گااور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہ ہوگا۔اِس سلسلے میں ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے: لیبلغن ہٰذا الأمرُ ما بلغ اللیلُ والنہار(مسند احمد، رقم الحدیث: 17082)یعنی خدا کی قسم، یہ امر (دین) ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔اِسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقی علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیںبچے گا، جہاں اللہ تعالیٰ اسلام کے کلمہ کو داخل نہ کردے۔
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تیز رفتار کمیونکیشن کا تجربہ کرایاگیا تھا۔ مذکورہ احادیث میں پیشین گوئی کے انداز میں بتایا گیا ہے کہ یہ امکان ضرور مستقبل میں واقعہ بنے گا اور خدا کا دین جو عرب میں شروع ہوا، وہ گلوبل کمیونکیشن کے ذریعے سارے عالم میں پہنچ جائے گا، یہاں تک کہ کوئی بھی انسان اُس سے بے خبر نہ رہے۔
اظہارِ دین
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ’اظہارِ دین‘ تھا۔ اظہارِ دین کی آیت قرآن میں تین بار آئی ہے (
اظہارِ دین کے جس واقعے کا قرآن میں ذکر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خو د زمانۂ رسول میں وہ پوری طرح واقع ہوجائے گا۔ اِس آیت میں ایک تاریخی تبدیلی کا ذکر ہے، اور تاریخ میںکوئی بڑی تبدیلی اچانک یا محدود مدت میں نہیں آتی، ایسی تبدیلی ہمیشہ لمبی مدت کے پراسس (process) کے بعد آتی ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ساتویں صدی کے نصف اول میں ایک انقلابی عمل شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف حالتوں سے گزرتا ہوا تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا اور پھر اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طورپر وہ واقعہ اپنی کامل صورت میں پیش آیا جس کو قرآن میں ’لیظہرہ علی الدین کلّہ‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔
حجت یا برہان کیا ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے، یعنی ایک طرف حجت کو پیش کرنے والا ہوتا ہے اور دوسری طرف حجت کو سننے والا۔ اِس لیے حجت کو مخاطب کے ذہنی تقاضے کے مطابق ہونا چاہئے۔ علمی استدلال دراصل اِس بات کا نام ہے کہ مخاطب کے علمی مسلّمہ پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے۔ ساتویں صدی کے نصف اول میں جب کہ قرآن اترا، اُس وقت دنیا روایتی دور سے گزر رہی تھی۔ اُس وقت صرف روایتی استدلال ہی ممکن تھا۔ مگر قرآن ایک ابدی کتاب کی حیثیت سے اتارا گیا ہے، ا س لیے قرآن کے مذکورہ الفاظ میں یہ بات شامل ہے کہ نہ صرف روایتی دور میں، بلکہ بعد کو ظہور میں آنے والے سائنسی معیار کے مطابق بھی قرآن مسلّمہ طورپر اپنی ایک ثابت شدہ کلام کی حیثیت کو برقرار رکھے گا۔
اِس مصلحت کا تقاضا تھا کہ انسانی علم کا ارتقا ایسے نہج پر ہو جو قرآن کی صداقت کو بعد کے دورمیں بھی یکساں طورپر برقرار رکھے۔ یہی وہ مطلوب ہے جو بعد کے سائنسی دور میں حاصل ہوا۔ سائنس کی دریافتوں نے صرف یہ کیا کہ قرآن کے نظریات کو دوبارہ سائنس کے معیار پر ایک مسلّمہ معیار کی حیثیت دے دی۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی موافقِ قرآن واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر ان الفاظ میں دی گئی تھی: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (
قرآن کی اِس آیت میں آفاق وانفس کی جن نشانیوں کا ذکر ہے، اُس سے مراد وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس کی دریافتیں (scientific discoveries) کہا جاتا ہے۔ یہ دریافت دراصل فطرت میں قائم شدہ خدائی قانون کی دریافتیں ہیں۔ چوں کہ قرآن کو نازل کرنے والا جو خدا ہے، اُسی نے فطرت کے اِن قوانین کو بھی قائم کیا ہے، اِس لیے دونوں کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ اِس مطابقت نے حاملینِ قرآن کو موجودہ زمانے میں ایک یہ موقع دیا ہے کہ وہ قرآن کی صداقتوں کو سائنس کے مسلّمات کی روشنی میں ثابت شدہ بنا سکیں۔
قرآن میںاظہارِ دین کے جس واقعے کا ذکر ہے، اُس سے مراد یہ نہیں ہے کہ خود زمانۂ نزول میں یہ واقعہ عملاً پیش آجائے گا، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلاب آئے گا، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے پراسس کو شروع کرے گا۔ یہ پراسس عرب میں شروع ہوا اور بتدریج ارتقا کرتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اِس تکمیل کے ذریعے نہ صرف واقعاتِ فطرت ظہور میں آئے جنھوںنے اسلامی عقائد کے اثبات کے لیے سائنسی بنیاد فراہم کی، بلکہ اِس کے ذریعے دوسرے وہ اجتماعی واقعات ظہور میں آئے جو اسلامی دعوت کے عین موافق تھے۔ مثلاً آزادی، جمہوریت اور مذہب کے اعتبار سے کھلاپن (openness) ، وغیرہ۔
قرآن کی اِس آیت میں اظہار سے مراد سیاسی غلبہ نہیںہے، بلکہ اِس سے مراد فکری غلبہ اور ایسے حالات کا پیدا ہونا ہے جس کے بعد قرآن کے مشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، ہر قسم کے مواقع اس کے لیے قابلِ استعمال ہوجائیں — اکیسویں صدی عیسوی میں، قرآن کی یہ پیشین گوئی عملاً پوری طرح وقوع میں آچکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی اظہارِ دین کی صدی ہے۔ اسلامی انقلاب کے ذریعے جو تاریخی عمل (historical process) ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا، وہ اکیسویں صدی میں اپنے آخری نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ اب اہلِ اسلام کا واحد فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام دوسری چیزوں کو ثانوی (secondary) بنائیں۔ وہ دعوت الی اللہ، بہ الفاظ دیگر دورِ جدید کی نسبت سے قرآنی تعلیمات کی اشاعتِ عام کریں، یہاں تک کہ ہر عورت اور ہر مرد اس سے باخبر ہوجائے۔
لوحِ محفوظ
قرآن کی سورہ البروج میں یہ آیت آئی ہے: بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ (
اصل یہ ہے کہ پورا عالمِ موجودات مکمل طورپر اللہ کے امر کے تحت ہے۔ شمس وقمر اور د وسرے ستاروں اور سیاروں کے بارے میں قرآن میں بتایا گیاہے کہ اُن کا ایک مقرر کورس (determined course) ہے، اور وہ ادنیٰ انحراف کے بغیر اِس مقرر کورس پر چلتے ہیں(
انسان کا معاملہ بظاہر مختلف ہے، کیوں کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی آزادی دی گئی ہے۔ مگر اِس آزادی کے باوجود انسانی تاریخ پر اللہ نے اپنا کنٹرول قائم کررکھا ہے۔ تاریخ پر اِسی کنٹرول کی ایک صورت وہ ہے جس کو قرآن کے حوالے سے اِس طرح بتایاگیا ہے کہ قرآن ایک لوح محفوظ میں ہے۔ لوحِ محفوظ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیںہے، مطالعہ کے ذریعے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے اپنے نبیوں کے ذریعے بہت سی کتابیں بھیجیں جو انسان کے لیے معتبر ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مگر پچھلی کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ اب آخری پیغمبر بھیج دیاجائے تو اِس فیصلے کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے آئی ہوئی کتاب (قرآن) کی مستقل حفاظت کا انتظام کردیا جائے— لوح محفوظ کے الفاظ میں قرآن کے اِسی مخصوص حفاظتی انتظام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اِس کی تدبیر یہ کی گئی کہ اولاً قرآن کا معیاری متن (standard version) علمِ الٰہی یا بہ الفاظِ دیگر، ملائِ اعلیٰ میں محفوظ کردیاگیا اور پھر تاریخ کے لیے مقدر کردیا گیا کہ وہ اِس معاملے میں اِسی رخ پر سفر کرے۔ چناں چہ عملاً یہی ہوا۔ اولاً یہ ہوا کہ ساتویں صدی کے نصف اول میں قرآن کو حافظے سے کتابت کی صورت میں محفوظ کیاگیا۔ ہزاروں لوگوں نے نسل درنسل یہ کیا کہ قرآن کو نہ صرف یاد کرکے اپنے حافظے میں ریکارڈ کرلیا، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ قرآن کے کتابت شدہ نسخے برابر تیار کرتے رہے۔ اِس طرح وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک مکتوب قرآن کو پہنچاتے رہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: علّم بالقلم۔تعلیم بالقلم کا یہ عمل اِس طرح مسلسل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ انسانوں کو یہ توفیق دی کہ وہ طباعت کے آلات ایجاد کریں۔ اِس فن کے ارتقا میں بہت سے انسانوں نے کام کیا۔ آخر کار جرمن گولڈ سمتھ جوہانس گوٹن برگ (وفات: 1468 ) اِس میں کامیاب ہوگیا کہ وہ ایک قابلِ عمل طباعتی آلہ دریافت کرے۔ اِس دریافت کے بعد تاریخ میں ایک پرنٹنگ انقلاب (printing revolution) آیا جو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے موجودہ اعلیٰ طباعتی مشین (printing press) تک پہنچا۔
لوح محفوظ کے الفاظ میں اِسی تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ قرآن کا نزول 610 عیسوی میں شروع ہوا۔ اس کی تکیل تقریباً
ادخالِ کلمہ
سیکولر مبصرین عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا سفر اس کے پیغمبر کے جلد ہی بعد ٹوٹ گیا، بعد کی تاریخ میں اسلام کا تسلسل باقی نہ رہا۔ مگر یہ رائے صرف سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ اسلام کی تاریخ خدائی منصوبے کے تحت مسلسل سفر کررہی ہے۔ غلط فہمی صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ تاریخ کا ہر سفر ناموافق حالات میں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سفر انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے جاری ہے، نہ کہ انسانی آزادی کو منسوخ کرکے۔ انسانی تاریخ میں اسلام کے سفر کے تین مرحلے ہیں:
Land expansion — consolidation — overseas expansion
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں اپنے مشن کا آغاز 610 عیسوی میں کیا۔ اِس کے بعد دینِ توحید کی ایک نئی تاریخ بنی۔ اِس تاریخ کا خلاصہ یہ تھا کہ — انسانی آزادی کو منسوخ کئے بغیر دینِ توحید کی تاریخ بنانا اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچانا۔ اس تاریخ پر اب تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یہ تاریخ مسلسل طورپر اپنی منزل کی طرف سفر کررہی ہے۔ اِس مدت کے دوران بظاہر جو اتار چڑھاؤ کے واقعات نظر آتے ہیں، وہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کرنے کی مثالیں ہیں۔
قرآن کی سورہ الانعام میں بتایا گیا ہے کہ — یہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اے پیغمبر، آگاہ کردو اہلِ مکہ کو اور مکہ کے اطراف کے لوگوں کو (
زمین کے نقشہ (map) پر نظر ڈالیں تو عرب کے ایک طرف بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) ہوگا، جس کے دوسری طرف یورپ کا براعظم واقع ہے۔ اِسی طرح اگر آپ عرب سے افریقہ کی طرف چلیں تو اس کی آخری سرحد پر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) ہوگا، جس کے دوسری طرف امریکا کا براعظم واقع ہے۔ اسی طرح اگر آپ عرب سے بحرِ ہند (Indian Ocean) کی طرف چلیں تو اس کے دوسری طرف آسٹریلیا کا براعظم دکھائی دے گا۔
عقبہ بن نافع (وفات:
عقبہ بن نافع کا یہ واقعہ علامتی طورپر یہ بتاتا ہے کہ دورِ اول میں اسلام کی دعوتی توسیع زمین کے برّی حصے میں برابر ہوتی رہی، لیکن وہ سمندر پار کے ملکوں تک نہ پہنچ سکی، کیوں کہ سمندری سفر کے لیے اُس زمانے میں قابلِ اعتماد اسباب موجود نہ تھے۔ اِس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِس کا ایک پہلو استحکام (consolidation) تھا۔ استحکام کے بغیر دعوتی توسیع عملاً غیر موثر ہوجاتی، حتی کہ قرآن کی حفاظت بھی ممکن نہ ہوتی۔ اِس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے عالمی حالات پیدا کئے کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم ہوگیا۔ یہ مسلم ایمپائر اِس بات کا ضامن تھا کہ خدا کا آخری دین پوری طرح محفوظ ہوجائے اور اس کی اشاعت مسلسل جاری رہے۔
مذکورہ استحکام کے دورمیں اس کے زیر اثر ایک اور تاریخی پراسس (historical process) شروع ہوا۔ اِس کا مقصد تھا فطرت (nature) میں چھپے ہوئے امکانات کو وقوع میں لانا۔ یہ عمل تدریج کے ساتھ تاریخ میں جاری رہا۔ اِس عمل کا آغاز ابتداء ً مسلمانوں نے کیا۔ اس کے بعد یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار وہ چیزوجود میں آگئی جس کو کمیونکیشن کا دور (age of communication) کہاجاتا ہے۔ اِس مواصلاتی انقلاب کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی توسیع زمین کے برّی حصے تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ سمندر پار کے ملکوں تک بہ آسانی پہنچ جائے۔
اسلامی دعوت کی عالمی توسیع اول دن سے اسلام کا نشانہ تھی (
اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسان جو اِس زمین پر پیدا ہوئے، اُن کو موت سے پہلے یہ بتادیا جائے کہ خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) ان کے بارے میں کیا ہے۔ انسان کی پوری تاریخ میں اس کو مسلسل طورپر جاری رہنا ہے۔ آغاز کے پہلے مرحلے میں اس کی توسیع زمین کے بری حصہ (ایشیا اور افریقہ) میں ہوتی رہی۔ اس کے بعد استحکام کے ساتھ ایسے مادی اسباب پیدا ہوئے جس کے تحت مواصلاتی ذرائع میں ایسا انقلاب آیا جس کے تحت یہ ممکن ہوگیا کہ اسلامی دعوت کی عالمی اشاعت کا کام کیا جاسکے۔ موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور دوسرے ذرائع کی بنا پر اسلامی دعوت کے اِس عالمی نشانے کو پورا کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی (religious freedom) بھی مکمل طورپر حاصل ہوچکی ہے۔ اب امتِ محمدی سے وابستہ افراد کی یہ لازمی ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچائیں، یہاں تک کہ کرۂ ارض پر بسنے والا کوئی مرد یا عورت خدا کے اِس پیغام سے بے خبر نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں
میرے مطالعے کے مطابق، عرب وعجم کے تمام مسلمان اِس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کو مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ تقریباً دو سو سال کی غیر معمولی کوشش کے باوجود یہ چیلنج بدستور باقی ہے۔ ایسی حالت میں یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ اس چیلنج کاتجزیہ کیا جائے اور اِس کے حوالے سے مسلمانوں کا لائحہ عمل متعین کیا جائے۔
چیلنج کیا ہے۔ چیلنج کا لفظ مسئلہ (problem) کے لفظ سے مختلف ہے۔مسئلہ ایک منفی لفظ ہے، جب کہ چیلنج ایک مثبت لفظ ہے۔ چیلنج نسبتاً ایک نیا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے — ایک نیا یا مشکل مسئلہ جو کہ آدمی کے لیے اس کی استعداد کا امتحان ہوتا ہے:
A new or difficult task that tests somebody's ability and skill.
چیلنج کا رسپانس دینے کی دوصورتیں ہیں — نگیٹیو رسپانس (negative response) اور پازیٹیو رسپانس (positive response)۔ نگیٹیو رسپانس یہ ہے کہ آدمی کو جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو وہ منفی رد عمل کا شکار ہوجائے۔ ایسے آدمی یا گروہ کا حال یہ ہوگا کہ چیلنج پیش آنے کے بعد وہ نفرت اور شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ یہی نفسیات اس کو تشدد تک لے جائے گی اور آخر کار خود کش بم باری تک۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا یہی حال ہوا ہے۔ تقریباً دوسو سال پہلے اُن کو مغربی اقوام یا مغربی تہذیب کی طرف سے چیلنج پیش آیا۔ عرب سے عجم تک تمام مسلمان کم وبیش اس کا شکار ہوئے۔ مگر تمام مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے اِس چیلنج کا منفی رسپانس دیا۔ اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کو یک طرفہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔اِس جدید چیلنج کے مقابلے میں، صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان اس کا مثبت رسپانس دیتے۔ اِس معاملے میں مثبت رسپانس یہ تھا کہ وہ گہرائی کے ساتھ جدید چیلنج کا مطالعہ کرتے۔ وہ اِس قانونِ فطرت کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے کہ — جب بھی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو وہ مسائل (problems) کے علاوہ، نئے امکانات (opportunities) بھی اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس امکان کو سمجھے اور اس کو استعمال کرے۔
مغربی چیلنج کیا تھا، وہ دراصل یہ تھا کہ مغربی قوموں نے فطرت (nature) کا گہرا مطالعہ کیا۔ انھوں نے نئی طاقتیں دریافت کیں۔ مثلاً پرنٹنگ پریس، مشین، کمیونکیشن، وغیرہ۔ اِس طرح ایک نئی تہذیب (civilization) وجود میں آئی۔ اِس واقعے نے مغربی قوموں کو نئی طاقت دے دی۔ انھوںنے قدیم دنیا پر فکری اور عملی غلبہ حاصل کرلیا۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ مغربی قومیں غالب اور مسلمان مغلوب بن کررہ گئے ہیں۔
اِس نئی پیش آمدہ صورتِ حال کے مقابلے میں مسلمانوں نے صرف منفی رد عمل کا طریقہ اختیار کیا۔ صحیح یہ تھاکہ وہ جدید دریافتوں کے پیدا کردہ امکانات کو عالمی امکانات سمجھتے۔ جس طرح اِن امکانات کو اہلِ مغرب نے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، اُسی طرح مسلمان بھی اِن جدید امکانات کو اپنے حق میں استعمال کرتے۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے، جدید چیلنج کا مثبت رسپانس ہوتا۔ مسلمان اگر ایسا کرتے تو یقینی طور پر وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرلیتے۔
یہ اِس معاملے کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اِس معاملے کو خالص دینی اعتبار سے دیکھیں، تب بھی معلوم ہوگا کہ جدید چیلنج کی نسبت سے مسلمانوں کا یہ رویہ یقینی طورپر درست نہ تھا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان متفقہ طورپر ایک ہی بات کہتے ہیں۔ وہ یہ کہ وہ موجودہ صورتِ حال کو مغربی قوموں کی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد بات ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان اگر صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کریں، تو دوسروں کی سازش انھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی(
یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے ایک لمبی دعا کی۔ اِس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے یقین دہانی کرتے ہوئے اپنے پیغمبر سے فرمایا: یا محمد، إنی أعطیت لأمتک أن لا أسلّط علیہم عدوًّا من سویٰ أنفسہم (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2889 ) یعنی اے محمد، میں نے تمھاری امت کے لیے یہ مقدر کردیا ہے کہ میںاُن کے اوپر اُن کے اپنے سوا کسی خارجی دشمن کو مسلط نہیں کروں گا۔
یہ امتِ محمدی کے لیے کسی پراسرار فضیلت کی بات نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی واقعے کی بات ہے۔ خاتم النبیین کی امت ہونے کی حیثیت سے، امتِ محمدی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنا تھا کہ وہ بعد کے دور میں پہنچے، یعنی ایک ایسے دور میں جب کہ حالات مکمل طورپر بدل جائیں گے۔ یہ دور وہی ہے جس کو ہم آزادی اور جمہوریت اور اقوامِ متحدہ (UNO) کا دور کہتے ہیں۔ اِس نئے دو رمیں خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیاکہ کوئی خارجی دشمن کسی کے لیے مسئلہ نہ بنے۔ اِس نئے دور میں اگر کوئی گروہ سنگین مسائل سے دوچار ہے تو وہ خود اپنی غلطی کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اب خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں کسی گروہ کے لیے خارجی حملہ (external invasion) کا مسئلہ نہیں ہے، وہ صرف داخلی ناکامی (internal failure) کا مسئلہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
(
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر چیز کا ایک سپر فارمولا (super-formula) ہوتا ہے۔ اسلام کا سپر فارمولا یا سنٹرل تھیم (central theme) کیا ہے، وہ ہے شکر، یعنی پہلی آیت جو قرآن مجید کی ہے: ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ وہی اسلام کی سنٹرل تھیم ہے۔
جب ایک مسلمان پیدا ہوتاہے تو اس کے کان میں سب سے پہلی آواز جو ڈالی جاتی ہے، وہ کیا ہے، وہ ہے ’’اللہ اکبر‘‘، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد جب وہ قرآن کو پڑھتا ہے تو سب سے پہلی آیت یہ پڑھتا ہے کہ حمد صرف اللہ کے لئے ہے۔ اس کلمہ کو وہ روزانہ اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں بار بار دہراتا ہے ۔ پھر قرآن میں ہے کہ آخرت میں بھی یہی ہوگا : ’’وقیل الحمد للہ رب العالمین‘ ‘۔
دنیا سے لے کر آخرت تک جو سب سے بڑی چیز مقرر کی گئی ہے، وہ ہے حمد میں جینا۔ حمد کیا ہے، وہ شکر ہے۔ اللہ کی عظمت کو جب آپ پہچانـتے ہیں، جب آپ اللہ کی بڑائی کو دریافت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوتی ہے، وہ ہے اعتراف (acknowledgement) ، اسی اعتراف کا دوسرا نام شکر ہے۔خود کو چانچنے کے لیے کہ میں اسلام پر ہوں یا نہیں، اللہ کے صحیح راستہ پر ہوں یا نہیں، اس کو پہچاننے کا جو معیار ہے، وہ حمد ہے۔ اگر آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ میں اللہ کے راستہ پر ہوں کہ نہیں، تو اپنے آپ کو اس اعتبار سے جانچئے کہ آپ کے اندر شکر کی نفسیات ہے یا نہیں۔
دیکھئے، شکر کرنے والے ہی کے لیے جنت ہے۔ قرآن میں ہے: ’’إلاّ من أتی اللہ بقلبٍ سلیمٍ‘‘ جو آدمی قلبِ سلیم کے ساتھ آیا آخرت میں، اس کو جنت میں داخلہ ملے گا۔ قلب سلیم کیا ہے، وہ دل جس کے اندر نفرت نہ ہو، کینہ نہ ہو، غصہ نہ ہو، کسی کے خلاف برائی نہ ہو، جو ایسا دل لے کر آخرت میں پہنچا، اسی کے لیے جنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک صحابی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ: اگر تم سے ہوسکے تو تم اپنی صبح اور شام اس طرح کروکہ تمھارے دل میں کسی کے خلاف غِش نہ ہو، کینہ (malice) نہ ہو، نفرت نہ ہو، یہ سب چیزیں نہ ہوں۔ اس کو ہم اگر دوسرا لفظ دیں تو کہیںگے کہ— مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ دنیا میں رہو، مثبت سوچ کے ساتھ جیو، مثبت سوچ کے ساتھ مرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت ہے۔
دیکھئے ہوتا کیا ہے، ہم سب جانتے ہیں اس بات کو، لیکن ہم کسی چیز کو الگ کردیتے ہیں۔ مثلاً پولٹکل (political) شکایت ہوتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو الگ چیز ہے۔ پولٹکل شکایت الگ چیز نہیں ہے، پولٹکل شکایت بھی اسی میں شامل ہے۔ دوسری شکایتوں کو لے کر اگر آپ نگیٹیو (negative) ہوگئے، دوسری شکایتوں کو لے کر اگر آپ کی پازیٹیو تھنکنگ (positive thinking) ختم ہوگئی، تو آپ نے جنت کا رسک (risk) لیا۔ اسی طرح دیکھئے، پولٹکل شکایتوں کو لے کر اگر آپ نیگیٹیو (negative) ہوگئے، آپ کے اندر نفرت آئی، تشدد آیا، تو بس جنت رسک میں آگئی۔ یاد رکھئے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں آپ کو کو ئی بھی اکسکیوز(excuse) لینا نہیں ہے۔ نہ پولیٹکل اکسکیوز (political excuse) نہ ہی سوشل اکسکیوز(social excuse) نہ ہی اور کوئی اکسکیوز (excuse) ۔
جب بھی کوئی تجربہ آپ کے اندر ناشکری پیدا کرے، آپ کے اندر نفرت پیدا کرے، آپ کو نفرت اور تشدد کی طرف لے جائے، تو سمجھ لیجئے کہ وہ شیطان کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے آغاز ہی میں ایک مثال قائم کردی۔ ایک طرف تھے فرشتے، دوسری طرف تھا ابلیس۔ ابلیس شکایت کے راستہ پر چلا: ’’ربِّ بما أغویتَنی‘‘۔ ابلیس نے نعوذ باللہ، اللہ تعالی سے شکایت کی۔ فرشتوں نے کہا کہ جو آپ کاحکم ہے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، ہم اس کو دل سے مانتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ نے نمونہ قائم کردیا کہ جو نفرت اور شکایت اور تشدد کے راستہ پرچلے گا، اس کا انجام شیطان کے ساتھ ہوگا، اور جو محبت، خیر خواہی اور امن اور positivity کے راستے پر چلے گا، اس کے لئے جنت ہے، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کو اسی اعتبار سے اپنا محاسبہ (introspection) کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنی family life میں ، اپنی social life میں اور اپنی قومی زندگی میں کون سا راستہ اختیا رکیا ہے— نفرت والا راستہ یا محبت والا راستہ، امن والا راستہ یا تشدد والا راستہ۔ اسی سے فیصلہ ہوگا کہ ہم اللہ کے راستے پر ہیں، یا شیطان کے راستے پر ہیں۔
یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا ہمیں ہر صبح وشام محاسبہ کرنا چاہئے۔ کیوں کہ ہر آدمی کو مرنا ہے۔ مرنے کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یاد رکھئے، اللہ کے سامنے کوئی اکسکیوز(excuse) نہیں چلے گا، کوئی عذر نہیں چلے گا۔ جو پرسنالٹی (personality) آپ نے بنائی ہے، اُسی کے ساتھ آپ خدا کے سامنے جائیں گے۔ دنیا میں جو تجربات ہوتے ہیں، اس کے درمیان کیا ہوتاہے— کسی کی پرسنالٹی، پازیٹیو پرسنالٹی (positive personality) بنتی ہے اور کسی کی نیگیٹیو پرسنالٹی (negative personality) بنتی ہے۔ کوئی آدمی ہوتا ہے نفرت میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے محبت اور خیر خواہی میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے امن میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے تشدد میں جینے والا۔ اسی چیز سے آدمی کی پرسنالٹی بنتی۔ یہی پرسنالٹی آدمی کو یا تو جہنم میں لے جائے گی یا جنت میں لے جائے گی۔
جیسے میں اس وقت دلّی میں ہوں۔ میں بول رہا ہوں اور آپ لوگ کشمیر میں میری آواز کو سن رہے ہیں۔ دلّی اور کشمیر کے بیچ میں 850 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اتنی دوری کے باوجود میں آپ کو ایڈریس کررہا ہوں، آپ میری بات کو سن رہے ہیں۔ کتنی بڑی نعمت ہے یہ۔ پچھلے زمانہ میں کسی بادشاہ کو بھی یہ نعمت حاصل نہیں تھی، اسی کا نام شکر ہے، ہم کو رات دن شکر ہی کرتے رہنا چاہئے۔
میرا مشورہ ہے، شکر میں جینے والا بنئے، شکر کے آئٹم کو تلاش کیجئے، اور ناشکری کے آئٹم کو بھلائیے۔ چاہے پولٹکل لائف ہو یا کوئی اور لائف ہو، ہرجگہ دونوں قسم کے آئٹم ہوتے ہیں ، شکر کے بھی اور اور ناشکری کے بھی۔ تو شکر کے آئٹم کو تلاش کرکے، اس کو اپنے مائنڈ میں بٹھائیے، ناشکری کے آئٹم کو بھلائیے، بھلائیے، بھلائیے، تاکہ آپ کے اندر مثبت شخصیت (positive personality) بنے، یعنی وہ پرسنالٹی جو آپ کو جنت کا مستحق بنائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق دے، اور ہم آپ اللہ کے سامنے اس طرح حاضر ہوں کہ اللہ ہمیں قبول کرے، وہ ہمیں رد نہ کردے۔ أقول قولی ہذا، وأستغفر اللہ لی ولکم اجمعین۔
واپس اوپر جائیں
عزیزم عبد الرحمن چاؤش السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ام السلام بظاہر میرے دعوتی مشن میں براہِ راست شریک نہ تھیں، مگر وہ برابر اس کے لئے دعا کرتی تھیں۔ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ میرے تمام بچے، بلکہ بچوں کے بچے بھی میرے دعوتی مشن میں کسی نہ کسی پہلو سے شریک ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ اس میں سب سے زیادہ دخل ام السلام کی دعاؤں کا ہے۔ مرحومہ اس بات کی ایک انوکھی مثال تھیں کہ دعوتی مشن میں شریک نہ ہوتے ہوئے بھی ایک شخص بالواسطہ طورپر دعوتی مشن کے لیے بہت بڑا کام کرسکتا ہے۔ مرحومہ دل سے میرے دعوتی مشن میں شریک تھیں۔ وہ اپنے شوہر محمد عثمان چاؤش (وفات: 2005 ) کے لیے کبھی کوئی مسئلہ نہ بنیں۔ ان کے اِسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ محمدعثمان چاؤش صاحب کو یہ موقع ملا کہ وہ پورے مہاراشٹر میں ہمارے دعوتی لٹریچر کو پھیلا دیں۔ اِس طرح دعوتی مشن میں اُن کی خاموش شرکت کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کی اولادیں سب کی سب، دعوتی مشن میں شامل ہوگئیں۔ وہ مقرر یا محرر نہ تھیں، مگر انھوں نے اپنے صالح مزاج کی بنا پر مقرر اور محرر سے بھی زیادہ بڑا کام کیا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرحومہ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آپ کے گھر میں ان کے جانے سے جو کمی واقع ہوئی ہے، خدا اس کی بھرپور تلافی فرمائے۔
نئی دہلی، یکم جون 2012 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں
رمضان کا مہینہ ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ اِس مہینے میں اہلِ ایمان کے لیے روزہ رکھنے کا حکم ہے(
یہ 610 ء کی ایک رات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے قریب غارِ حرا میں موجود تھے۔ اُس وقت جبریل، قرآن کی پہلی وحی لے کر آپ کے پاس آئے۔ یہ پہلی وحی سورہ العلق(
شبِ قدر کے موقع پر خدا اپنے سالانہ فیصلے فرماتا ہے۔ اِس لیے یہ رات ذکر اور دعا اور عبادت اور تلاوت کی رات قرار دی گئی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کو اِس موقع پر زیادہ سے زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ دعا کرناچاہیے، تاکہ خدا کے سالانہ فیصلوں میں اُس کو خدا کی رحمت میں زیادہ سے زیادہ حصہ ملے۔ وہ خدا کے نزدیک زیادہ سے زیادہ انعام کا مستحق قرار پائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رمضان کی آخری راتوں میں اعتکاف میں تھا، اُس وقت مجھ پر شبِ قدر کا علم اُتارا گیا۔ میںمسجد سے باہر نکلا، تاکہ میں تم کو شبِ قدر کے وقت کے بارے میں بتا دوں، لیکن اُس وقت مدینہ کے دو مسلمان آپس میں لڑ گیے، اِس کے بعد شبِ قدر کا علم اٹھا لیا گیا(فتلاحیٰ رجُلان من المسلمین، فرُفعت) صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1919۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ قدر کی خصوصی رحمتوںمیں حصّے دار بننے کے لیے کیا چیز ضروری ہے، وہ چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر لڑائی جھگڑے کا مزاج نہ ہو۔ اُس کا دل نفرت جیسے منفی جذبات سے خالی ہو۔ اُس کا ذہن پوری طرح مثبت انداز میں سوچنے والا ہو۔ جو عورت یا مرد اپنے اندر اِس قسم کی مثبت شخصیت رکھتے ہوں، انھیں کو شبِ قدر کی رحمتوں میں حصہ ملے گا۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں شبِ قدر کو پاؤں تو میں کیا دعا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اِس طرح کہو: اللہم إنک عفوٌّ تحبّ العفو، فاعفُ عنی (سنن التّرمذی، رقم الحدیث: 3513 ) یعنی اے اللہ، تو سرتا پا معافی ہے اور تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف فرما۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ شبِ قدر میںآدمی کے اندر سب سے زیادہ طلب کس چیز کی ہونا چاہیے، وہ یہ کہ آدمی موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کی کامیابی کا حریص ہو۔ وہ اللہ سے یہ درخواست کرے کہ — خدایا، تومیری غلطیوں اورکوتاہیوں کو معاف فرما، آخرت کی ابدی زندگی میںتو مجھے دوزخ سے بچا، اور جنت کے باغوں میں تو مجھے جگہ عطا فرما۔
قرآن کے مطابق، شبِ قدر میںکثرت سے خدا کے فرشتے اترتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا شبِ قدرکی صورت میں ہر عورت اور مرد کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ فرشتوں کا ہم نشیں بنے۔ وہ فرشتوں سے ایسی روحانی غذا لے جس کے نتیجے میں اُس کا دل سلامتی کے جذبات سے بھر جائے۔ وہ منفی جذبات اور دنیا پرستی سے اوپر اٹھ جائے اور حقیقی معنوں میں وہ خدا کا طالب بن جائے۔ ایسا ہی دل و دماغ رکھنے والے لوگ شبِ قدر کے موقع پر خدا کی خصوصی رحمتوں میں حصے دار بنیں گے۔
شبِ قدر ایک اعتبار سے شبِ امن ہے۔ جس عورت یا مرد کو شبِ قدر کی رحمتیں مل جائیں، اُس کا دل امن و سلامتی کے جذبات سے بھر جائے گا۔اس کی سوچ پُر امن سوچ ہوگی۔ اس کی گفتگو پُر امن گفتگو ہوگی۔ اس کا کردار پُر امن کردار ہوگا۔ اس کا طریقہ پُرامن طریقہ ہوگا۔ اس کی پوری شخصیت امن پسند شخصیت بن جائے گی۔ اس کے ذریعے سے دوسروں کو جو چیز ملے گی، وہ امن ہوگا اور صرف امن۔
قرآن: کتابِ قدر
قرآن کی سورہ القدر کی پہلی آیت یہ ہے: إنّا أنزلناہ فی لیلۃ القدر (
قرآن میں انسان کی تقدیر بتائی گئی ہے، یعنی وہ قوانینِ فطرت جو انسان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہیں، فرد کی تقدیر بھی اور قوم کی تقدیر بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ قرآن کے اِن ابدی قوانینِ تقدیر کو معلوم کرے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔
مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئاً (
اِس قانونِ فطرت کے مطابق، اگر کوئی قوم یہ پائے کہ دوسرے لوگ اس کے خلاف سازش کررہے ہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے، نہ کہ اپنے آپ سے باہر۔ اِس طرح کی صورتِ حال میں کسی مفروضہ حریف کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلانا اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک غیر متعلق (irrelevant) کام ہے۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر خود اپنا جائزہ لیا جائے، صبر وتقویٰ کے اعتبار سے اپنی کمیوں کو تلاش کیا جائے۔ جو لوگ اِس اعتبار سے قرآن کو اپنی زندگی کا رہنما بنائیں، وہی شبِ قدر کی برکتوں کو پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
آپ نے لکھا ہے کہ جنت کسی کی سفارش سے نہیں ملتی، اگر ایسا ہے تو اِس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ میری شفاعت میری اُمت کے گناہِ کبیرہ کرنے والوں کے لئے ہے: شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی (مسند أحمد، رقم الحدیث: 13566 )۔ ابھی الرسالہ، جون 2012 کا شمارہ مجھے ملا۔ اُس میں ’’وسیلہ کی حقیقت‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل نہیں ہوگی اور اس کو وسیلہ کا نام دینا خود ساختہ مفہوم ہے۔جو شخص اپنے عمل کے اعتبار سے جنتی نہ ہو، وہ پیغمبر کی سفارش سے جنتی نہیں بن جائے گا۔ اگر کوئی شخص شفاعت کا یہ مطلب سمجھتاہے تو یہ مطلب صحیح نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ نہ کسی کو پیغمبر کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل ہوگی اور نہ کوئی جہنمی شخص پیغمبر کی سفارش سے جنتی بن جائے گا۔یہ تمام تر اللہ کا عطیہ ہے، قرآن اورحدیث دونوں میں اِس بارے میں واضح ہدایات ہیں۔
میں جاننا چاہوں گا کہ قرآن کی کس آیت میں اور حدیث کی کس روایت میں یہ واضح ہدایات موجود ہیں۔ آپ نے شفاعت کا جو مطلب بیان کیا ہے، اُس کی روشنی میں’’شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی‘‘ کا مفہوم واضح فرمائیں۔(اے، جے، قادری، امبیڈکر نگر، یوپی)
جواب
احادیث کے بارے میں علما کا مسلک یہ ہے کہ جب دو حدیثوں میں تعارض ہو تو ایک حدیث کو لیاجائے گا اور دوسری حدیث کی تاویل کی جائے گی، مسند احمد کی مذکورہ روایت کا معاملہ یہی ہے۔ ایک طرف یہ حدیثہے اور دوسری طرف ایسی کئی روایتیں ہیں جو اِس حدیث کے سراسر خلاف ہیں۔ مثال کے طورپر یہاں اِس سلسلے میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں:
1 - ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ ما أدری، وأنا رسول اللہ، ما یُفعل بی، ولابکم(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 7018 ) یعنی خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔
2 - عن أبی ہریرۃ قال لمّا نزلت: وأنذر عشیرتک الأقربین۔ جَمََعَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشا فخصّ وعَمّ، فقال یا معشر قریش،انقذوا انفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًّا ولانفعًا۔ یا معشر بنی عبد مناف، أنقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًّا ولا نفعًا۔ یا معشر قُصی، انقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ یا معشر بنی عبد المطلب، أنقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ یا فاطمۃ بنت محمّد، أنقذی نفسکِ من النار فإنی لا أملک لکِ من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:3185)
یعنی جب قرآن کی یہ آیت اتری: وأنذر عشیرتک الأقربین(
3 - عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: سدّدوا وقاربوا وأبشروا، فإنہ لایُدخل أحدًا الجنۃَ عملُہ۔ قالوا: ولا أنت یا رسول اللہ۔ قال: ولا أنا، إلا أن یتغمّدنی اللہ بمغفرۃ ورحمۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6467) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا رویہ درست رکھو اور میانہ روی پر قائم رہو اور پُر امید رہو، کیوں کہ کسی بھی شخص کو اُس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ کیا آپ کو بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے۔
یہی بات قرآن میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لیس للإنسان إلاّ ما سعی (
اِس آیت کی تشریح یہ ہے کہ ’’قیامت میں پیغمبر اور داعیانِ حق جو شفاعت کریں گے، وہ حقیقۃً شفاعت نہیں ہے، بلکہ شہادت ہے، یعنی ایسی بات کی گواہی دینا جس کو آدمی ذاتی طور پر جانتا ہو۔ آخرت میں جب لوگوں کا مقدمہ پیش ہوگا تو سارے علم کے باوجود اللہ تعالیٰ مزید تائید کے طورپر اُن لوگوں کو کھڑا کرے گا جو قوموں کے ہم عصر تھے، انھو ںنے اُن کے سامنے حق کا پیغام پیش کیا، پھر کسی نے مانا اور کسی نے نہیں مانا، کسی نے حق کا ساتھ دیا اور کوئی حق کا مخالف بن کر کھڑا ہوگیا۔
یہی تجربہ جو اُن صالحین پر براہِ راست گزرا، اس کووہ خدا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ کوئی گواہ عدالت میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ایک سچا بیان دے۔ اِس کے سوا کسی کو قیامت میں یہ اختیار حاصل نہ ہوگا کہ وہ کسی مجرم کا شافع بن کر کھڑا ہواور وہ اس کے بارے میں اُس خدائی فیصلے کو بدل دے جو از روئے واقعہ اس کے بارے میں ہونے والا تھا۔ خدا اِس سے بہت بلند ہے کہ اُس کے حضور کوئی شخص ایسا کرنے کی کوشش کرے‘‘۔ (تذکیر القرآن، صفحہ :1351 )
سوال
غلوکیا ہے اور غلو کا نقصان کیا ہے۔ براہِ کرم، اس کو واضح فرمائیں ، نیز یہ بتائیں کہ کسی تحریک سے وابستہ افراد اپنی تحریک کو غلو اور فرقہ بندی کی نفسیات سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
اسلام میں غلو سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت قرآن میںبھی ہے اور حدیث میں بھی۔ قرآن اور حدیث میںاگرچہ غلو کے لیے حرام کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے غلو کی برائی یقینی طورپر حرام سے کم نہیں۔
غلو کا مطلب حد سے تجاوز کرنا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو انتہا پسندی (extremism) کہاجاسکتاہے۔ غلو کی دو قسمیں ہیں — اعتقادی غلو، اور عملی غلو۔ دونوں قسم کے غلو کی نوعیت ایک دوسرے سے الگ ہے۔ عملی غلو سے انفرادی مزاج میں بگاڑ آتاہے، لیکن اعتقادی غلو کی برائی اِس سے زیادہ ہے۔ اعتقادی غلو اگربڑھ جائے تو اُس سے نئے نئے فرقے وجود میں آتے ہیں۔
عملی غلو کی ایک مثال یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہوائی جہاز سے سفر کرنا سنت کے خلاف ہے اور پھر وہ حج کے لیے پیدل یا اونٹ کے ذریعے سفر کرکے مکہ پہنچے۔ یہ طریقہ ایک شخص کے مزاج میں انتہاپسندی پیدا کرسکتا ہے، لیکن اُس سے کوئی الگ فرقہ نہیں بنے گا۔
اعتقادی غلو زیادہ شدید قسم کا غلو ہے۔ ایک شخص اعتقادی غلو کی بات کرے اور پھر بہت سے لوگ اس کے ماننے والے بن جائیں تو اس سے ایک نیا فرقہ وجود میں آجائے گا۔ مثلاً کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ نبوت کُلّی معنوں میں ختم نہیں ہوئی، زمانے کے بدلنے سے دوبارہ کوئی نبی آسکتا ہے، اور اِس نئے پیغمبر پر ایمان لانا اس کے معاصرین کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ اِس طرح کی بات اگر زیادہ لوگ مان لیں تو اس سے دین میں ایک نیا فرقہ وجود میں آجائے گا۔
غلو ایک قسم کی بدعت ہے۔ غلو ہر حال میں ایک برائی ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایک ایسی سنت کو زندہ کرنے کے لیے کھڑا ہو جو معاصرین کو بظاہر نئی چیز معلوم ہو، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک متروک سنت کا احیا ہو تو ایسی تحریک غلو نہیں۔ مثلاً دعوت الی اللہ کی تحریک ۔ایسی تحریک سے دین میں کبھی کوئی برائی پیدا نہیں ہوگی۔
آپ کے سوال کا دوسرا جُز یہ ہے کہ —کسی تحریک سے وابستہ افراد اپنی تحریک کو غلو اور فرقہ بندی کی نفسیات سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ میرے نزدیک، اِس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قسم کے غلو اور فرقہ بندی سے بچنا غالباً ممکن نہیں۔ غلو اور فرقہ بندی کی یہ قسم اصلاً دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ اِسی بنا پر یہود کے اندر بعد کے دور میں فرقے پیداہوئے اور اِسی بنا پر مسیحیوں میں بعد کے دور میں فرقے پیدا ہوئے اور اِسی بنا پر خود امتِ محمدی میں بعدکے دور میں فرقے پیدا ہوئے۔ چوں کہ دورِ زوال لازماً ہر تحریک پر آتا ہے، اِس لیے دورِ زوال میں اِس قسم کے غلو اور فرقہ بندی جیسی چیزیں بھی ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ اِس قسم کے غلو اور فرقہ بندی کی پیدائش کو روکنا تو ممکن نہیں ہے، البتہ دوسری چیز ممکن ہے، وہ یہ کہ تحریک کے افراد اِس سلسلے میں بہت زیادہ حساس اور باشعور ہوں۔
چناں چہ جب دورِ زوال میں اس قسم کا غلو پیدا ہو تو اُن کے درمیان ایسے مصلح اٹھیں جو دوبارہ لوگوں کو غلو سے ہٹا کر صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کریں، وہ اُن کو فرقہ بندی اور شخصیت پرستی کے بجائے دوبارہ حقیقی خدا پرستی کے راستے پر قائم کریں، وہ قرآن اور حدیث کے دلائل کے ذریعے اُن پر یہ واضح کریں کہ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے، وہ غلو اور فرقہ بندی نہیں، بلکہ اعتدال اور آفاقیت ہے۔ اِس آفاقی ذہن کے بغیر نہ کوئی مذہبی تحریک کبھی کامیاب ہوسکتی ہے، اور نہ سیکولر تحریک۔
واپس اوپر جائیں
1 - سہارن پور(یوپی) میں ڈاکٹر محمد اسلم خان اپنے ساتھیوں کے تعاون سے دعوتی کام کررہے ہیں۔ ٹیم کی طرف سے
2 - مئی 2012 کے پہلے ہفتہ (
3 - سہارن پور کے نیشنل میڈیکل کالج (NMC) میں 9 مئی 2012 کو ایک آل انڈیا ورک شاپ منعقد ہوئی۔ اِس میں بڑی تعداد میں سہارن پور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ مثلاً ڈاکٹر راجیو، ڈاکٹر انشُل جین، وغیرہ۔ اِن لوگوں کو ہمارے ساتھیوں کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔
4 - سہارن پور حلقہ الرسالہ کے ایک قاری مسٹر بشیر کی بیٹی کے نکاح کے موقع پر
5 - نارتھ کیرولینا (امریکا) کے اسلامک افئرس سیکشن کے تحت چلنے والے ادارہ مسلم چپلن (Muslim Chaplain) کے ذریعے وہاں کے مسیحی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا جارہا ہے۔ چپلن کی درخواست پر
6 - ترکی کے ویکلی میگزین ’اکسیان‘ (AKSIYON) کے نمائندہ مسٹر عثمان انالن نے
7 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 2 جون 2012 کو ایک سمپوزیم ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
The Presidential Election-2012
اِس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز کو افتتاحی خطاب(inaugural address) کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے مطابق، صدر اسلامی مرکز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں 20 منٹ کا خطاب کیا۔ اِس موقع پر حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
8 - نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 10 جون 2012 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ مثلاً ڈاکٹر اے کے ڈمری (ڈائرکٹر اگنو)، ڈاکٹر جی بی لال، ڈاکٹر اُدے سنگھ، وغیرہ۔
9 - سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے کچھ ساتھیوں نے کشمیر کا سفر کیا۔ اِس مناسبت سے بیروہ میں
10 - سہارن پور میں الوسیلہ ویلفیر سوسائٹی کی طرف سے
April 29, 2012: The Importance of Religious Freedom
May 13, 2012: Lessons from Makkan and Madinan Periods of the Prophet
May 27, 2012: Hudaybiya Principle
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.