قرآن کا تصورِ تاریخ — ایک جائزہ
انسائکلوپیڈیا برٹینکا میں حسب ذیل عنوان کے تحت ایک مقالہ چھپا ہے: (Historiography and Historical Methodology) اِس مقالے میں ایک ذیلی عنوان (Muslim Historiography) قائم کیا گیاہے۔اِس کے تحت مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ — محمد نے اسلام کو ایک ایسے مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس میں تاریخ کا طاقت ور تصور موجود تھا۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن انتباہات سے بھرا ہوا ہے جو کہ تاریخ کے اسباق سے ماخوذ ہے:
Muhammad made Islam a religion with a strong sense of history. The Quran, Islam’s holy book, is full of warnings derived from the lessons of history. (EB. 8/959, 1974)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس سے قرآن کا تصورِ تاریخ معلوم ہوتاہے۔ قدیم زمانے میں شاہی خاندان (dynasty) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جاتی تھی۔ عبد الرحمن ابن خلدون (وفات: 1406 ) کے بعد ایک نیا دور آیا، جب کہ نیشن (nation) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جانے لگی۔ اس کے بعد آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب (A Study of History) لکھی۔ اِس میں تہذیب (civilization) کو یونٹ بنا کر پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ اِن سب سے مختلف ہے۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ قرآن کا تصورِ تاریخ خدائی منصوبہ (divine plan) پر مبنی ہے، یعنی خدا کے تخلیقی پلان کی روشنی میں انسانی تاریخ کا جائزہ لینا۔ زیر نظر مقالے میں اِس قرآنی تصور کے مطابق، تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اِس جائزے کے لیے بنیادی طورپر9 ذیلی عنوانات مقرر کیے گییہیں— خلافتِ آدم، اعلان واِسرار، ذبح عظیم، احسن القصص، مقامِ محمود، آیتِ اسرا، اظہارِ دین، لوحِ محفوظ، ادخالِ کلم
جنتی افراد، جنتی معاشرہ
قرآن کی سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون ( 51: 56 ) یعنی میں نے جن اور انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ صحابی مفسر عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت میں ’لیعبدون‘ کی تشریح ’لیعرفون‘سے کی ہے، یعنی جنات اورانسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت (realization) حاصل کریں۔
معرفت کا تعلق فرد سے ہے۔ کیوں کہ یہ ایک فرد ہی کا ذہن ہے جو اِس موضوع پر غور وفکر کرتاہے اور پھر اس کا ذہن اُس فکری واقعے کا تجربہ کرتاہے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق کے منصوبے کے مطابق، تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ایسے افراد پیدا ہوں جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے ہوں۔ اِس کے مطابق، تخلیق کا نشانہ افراد ہیں، نہ کہ کوئی مجموعہ یا نظام۔
تخلیق کا نشانہ وہی چیز ہوسکتی ہے جو فی الواقع قابلِ حصول ہو۔ اِس پہلو سے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوئے جو عارف باللہ (realized person)کی حیثیت رکھتے تھے۔اِس کے برعکس، اگر مقصد تخلیق کو اجتماعی معنوں میں لیا جائے، مثلاً صالح معاشرہ بنانا، عادلانہ نظام کی تشکیل، عالمی سطح پر حکومتِ الٰہیہ کا قیام، زندگی کے تمام شعبوں میں شرعی قوانین کا نفاذ، وغیرہ۔ اِس طرح کے اجتماعی انقلاب کو برپا کرنا اگر تخلیق کا نشانہ ہو، تو وہ پوری تاریخ بشری میں کبھی معیاری معنوں میں وقوع میں نہیں آیا، نہ انبیا کے زمانے میں اور نہ انبیا کے زمانے کے بعد۔
آدم کی تخلیق سے لے کر اب تک انسانی تاریخ پر بہت لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ اِس پوری مدت میں، انبیا یا پیروانِ انبیا کے ذریعے مسلسل طور پر یہ کام ہوتا رہا کہ تخلیق کا منصوبہ پورا ہو۔ یہ لوگ اللہ کے نمائندے تھے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کی ضرور مددکرتاہے، نہ صرف آخرت میں بلکہ موجودہ دنیا میں بھی ( 40: 51 ) ۔ اِس طرح کی قرآنی آیات کی روشنی میں ہم کو یہ ماننا ہوگا کہ انبیا اور اُن کے پیروؤں کا مشن یقینی طورپر کامیاب ہوا۔
یہ ایک مسلّمہ واقعہ ہے کہ اِن حضرات کی کوششیں پورے انسانی مجموعہ یا نظام کی سطح پر کبھی معیاری معنوں میں کامیاب نہیں ہوئیں، البتہ افراد کی سطح پر وہ ہمیشہ کامیاب ہوئیں۔ ہر زمانے میں اور ہر کوشش کے ذریعے ایسے افراد وجود میں آئے جو پورے معنوں میں عارف باللہ تھے، جنھوںنے اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ کو اپنا کنسرن بنایا، جو اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اور جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے بھی۔
اِس تاریخی تجربے کا تقاضا ہے کہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کی کامیابی کا معیار پورے مجموعۂ انسانیت (mankind) کو قرار نہ دیا جائے، بلکہ اس کی کامیابی کا معیار افراد کو قرار دیا جائے۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو خالق کا منصوبہ تخلیق آخری حد تک کامیاب نظر آئے گا۔ آدم سے قبل جنات پیدا کئے گئے تھے ( 15: 27 )۔ جنات کی بڑی اکثریت اگر چہ سرکش بن گئی، لیکن قرآن کے مطابق، اُن میں شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے صالح افراد بھی پیدا ہوئے ( 72: 11 ) ۔ اِس طرح انبیا کے زمانے میں اگر چہ یہ ہوا کہ انبیا کے مخاطبین کی بڑی اکثریت منکر بنی رہی، لیکن انھیں کے درمیان یہ واقعہ بھی ہوا کہ شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے صالح افراد پیدا ہوتے رہے۔ اِسی طرح ختم نبوت کے بعد دُعاۃ (داعیوں) کی کوششوں کے ذریعے بھی یہ واقعہ پیش آیاکہ اگرچہ نظام یا مجموعہ انسانیت کی سطح پر کبھی کامل معنوں میں صالح انقلاب نہیں آیا، لیکن شخصی سطح پر ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے تھے۔
اسلام کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دور ہیں، قیامت سے پہلے اور قیامت کے بعد۔ قیامت سے پہلے کا دور برائے امتحان ہے اور قیامت کے بعد کا دور برائے انجام۔ یہ دونوں دور خالقِ کائنات کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ دونوں دور یکساں طورپر پوری طرح کامیاب دور ہوں۔ یہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا کہ کامیابی کے اعتبار سے دونوں دوروں میں فرق کیا جائے۔ اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں دوروں کی بہترین توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دور کو انتخابِ افرادکا دور (period of individual selection) قرار دیاجائے اور دوسرے دور کو اقامتِ سماج (establishment of society) کا دور کہا جائے، یعنی پہلے دورمیں اس اعلیٰ سماج کے لئے مستحق افراد (deserving individuals) کا انتخاب اور دوسرے دور میں پوری تاریخ کے ان مشترک افراد کو یکجا کرکے ان کی بنیاد پر ایک اعلیٰ معاشرہ (high society) بنانا۔ انسانی حیات کا یہی وہ دوسرا دور ہے جس کو قرآن میں جنت کہا گیاہے۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، انسانیت کا آغاز آدم اور حوا کی تخلیق سے ہوا۔آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسان کی پیدائش سے پہلے سیارۂ ارض پر ایک ناری مخلوق جنات کو بسایا گیا تھا ( 15: 27 ) ۔ یہ غالباً اُس وقت کی بات ہے جب کہ زمین ابھی گرم حالت میں تھی۔ اِس کے بعد جب زمین ٹھنڈی ہوئی اور یہاں کے سمندروں میں پانی بھر گیا تو اس کے بعد اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے لیے خلافتِ ارضی کا فیصلہ کیا۔ اِس لحاظ سے انسان، خلیفۃ الجن ہے۔ روایات کے مطابق، جنات نے زمین پر فساد برپا کیا، اِس لیے زمین کا چارج جنات سے چھین لیاگیا اور اس کو انسان کے حوالے کیا گیا۔ اِسی معاملے کو قرآن میں ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔
موجودہ زمین پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے بسایا گیا ہے، لیکن یہ آزادی ایک مشروط آزادی ہے۔ اِس کے مطابق، موجودہ زمین انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے، وہ انسان کے لیے عیش گاہ نہیں۔ اِس معاملے کی ایک عملی مثال ابلیس اور ملائکہ کی صورت میں قائم کردی گئی ہے۔ جو لوگ ملائکہ کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر کردیں، وہ قیامت کی عدالت میں کامیاب قرار پائیں گے، اور جو لوگ ابلیس کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر نہ کریں، وہ قیامت کی عدالت میں ناکام قرار دئے جائیں گے۔ انسان کا یہ امتحان خود انسان کی سطح پر ہے، جیسا کہ ابلیس اور ملائکہ کے معاملے میں پیش آیا۔اِس معاملے سے انسان کو ہر زمانے اور ہر نسل میں باخبر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے۔ یہ پیغمبر لوگوں کی اپنی زبان میں صراطِ مستقیم کی وضاحت کرتے رہے۔ یہ پیغمبر جو کچھ کہتے تھے، وہ اللہ کی وحی سے کہتے تھے۔ تمام پیغمبروں کا ایک ہی مشترک اصول تھا— نصح وخیر خواہی، یعنی اپنے مدعو کی یک طرفہ طورپر خیر خواہی، مدعو کی طرف سے پیش آنے والی کسی بھی زیادتی پر رد عمل کا طریقہ اختیار کئے بغیر مثبت انداز میں اپنا پیغام دیتے رہنا۔
خدا اور فرشتوں کا مکالمہ
آدم کی تخلیق کے وقت خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھائے آدمی کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک، تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘ ۔( 2: 30-32 )
یہاں یہ سوال ہے کہ وہ کیا بات تھی جس پر فرشتوں کو اشکال پیدا ہوا، اور بعد کو کیا چیز اُن کے علم میںآئی جس کے بعد اُن کا اشکال دور ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ ابتدا میں فرشتوں نے آدمی کی نسل کو اس کے پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے لیا۔ اُن کو نظر آیا کہ جس طرح اختیار پاکر جنات کا گروہ سرکش بن گیا، اس طرح اختیار پانے کے بعد انسانی نسل بھی مجموعی طور پر سرکش بن جائے گی۔
مگر اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرے کے ذریعے انسانی نسل کے منتخب افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور آدم نے اِن منتخب افراد کا تعارف کرایا۔ اُس وقت فرشتوں کو اندازہ ہوا کہ اگر چہ مجموعہ کے اعتبار سے انسانی نسل میں فساد آجائے گا، لیکن عمومی فساد کے باوجود ہر زمانے میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو فساد سے خالی ہوں اور اصلاح کے راستے پر چلنے والے ہوں۔ نسلِ انسانی کے اِنھیں منتخب افراد کو قرآن میںانبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین ( 4: 69 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس مظاہرے کے بعد فرشتوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے کا علم ہوا۔ فرشتوں نے جانا کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تعلق پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ اِس مجموعے کے استثنائی افراد سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جنت کی معیاری دنیا میں آباد کرنے کے لیے ایسے افراد درکار تھے جو مکمل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو سرکشی سے بچائیں اور خدا کی زمین پر خدا کے مطیع بن کر رہیں۔ ایسے افراد صرف کھلی آزادی کے ماحول میں بن سکتے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو کامل آزادی کے ماحول میں بسایا اور پھر فرشتوں کو مقرر کیا کہ وہ اُن استثنائی افراد کا ریکارڈ تیار کریں جو دباؤ کے بغیر خدا کی معرفت حاصل کریں اور پھر اپنے آزادانہ فیصلے کے تحت اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کا پابند بنائیں۔ یہی استثنائی افراد اللہ کے مطلوب افراد ہیں۔ انھیں مطلوب افراد کا انتخاب کرکے اُن کو جنت کی معیاری دنیا میں بسایا جائے گا۔
اعلان واِسرار
حضرت آدم کے بعد ان کی نسل جس علاقے میں پھیلی، وہ غالباً وہی علاقہ تھا جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا ہے، یعنی دجلہ اور فرات کے درمیان کا زرخیز علاقہ۔ حضرت آدم کے بعد کئی نسلوں تک وہ درست حالت پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان بگاڑ آیا۔ ان میں شرک پھیل گیا، یعنی خالق کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِس کے بعد ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔حضرت نوح نے وحی کے ذریعے ان کو خدا اور آخرت کا پیغام دیا۔ ان کی کوشش سے ان کی قوم کی ایک محدود تعداد اُن پر ایمان لائی،لیکن قوم کی بڑی اکثریت سرکشی پر قائم رہی۔ حضرت نوح نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ — خدایا، میں نے اعلان کے ساتھ بھی کام کیا اور اسرار کے ساتھ بھی ( 71: 9 ) ۔
اِس آیت میں اعلان سے مراد قوم سے اجتماعی خطاب ہے،اور اِسرار سے مراد انفرادی سطح پر اُن کو نصیحت کرنا ہے۔ حضرت نوح نے لمبی مدت تک دونوں طریقے سے اپنا دعوتی مشن جاری رکھا، مگر قوم کی سرکشی ختم نہ ہوسکی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا طوفان بھیجا جس میں چند لوگ زندہ بچے جو حضرت نوح کی کشتی پر سوار تھے، بقیہ پوری قوم طوفان میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ اِس طوفان کے بعد حضرت نوح کے تین بیٹے زندہ بچے جن کا نام —حام، سام، یافث تھا۔ اِنھیں تین بیٹوں سے بعد کی انسانی نسل چلی اور پھر وہ دھیرے دھیرے پوری سطح ارض پر پھیل گئی۔ جب انسانی نسل زمین کے مختلف حصوں میں آباد ہوئی تو ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انھیں میں سے کسی فرد کو پیغمبر بنایا جس نے اپنی قوم کو خدائی صداقت کا پیغام دیا۔ مگر جو انجام ہوا، وہ قر آن کے بیان کے مطابق یہ تھا کہ لوگوں نے اپنے پیغمبروں کا مذاق اڑایا اور ان کو ماننے سے انکار کردیا( 36: 30 ) ۔
اِس عام گمراہی کا سبب لوگوں کی ظاہر پرستی تھی۔ لوگ مخلوقات کو دیکھتے تھے، مگر خالق ان کو نظرنہ آتا تھا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ مخلوقات میں سے جو چیز بظاہر بڑی دکھائی دی، اُسی کو انھوںنے اپنا معبود سمجھ لیا اور اس کو پوجنے لگے۔ مثلاً سورج اور چاند، وغیرہ۔اِس عام گمراہی کی بنا پر ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی یا پیغمبروں کے مشن کی کوئی تاریخ ریکارڈ نہ ہوسکی۔ انسان نے جب لکھنا پڑھنا سیکھا تو اس نے اپنی تاریخ بھی لکھی، مگر اِن تاریخوں میں بادشاہوں اور جنرلوں کے واقعات لکھے گئے، مگر پیغمبروں کو یا ان کے مشن کو ناقابلِ ذکر سمجھ کر چھوڑ دیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح سے لے کر حضرت مسیح تک کسی بھی پیغمبر کا حوالہ مدوّن تاریخ (recorded history) میں موجود نہیں۔
تاہم موجودہ زمانے میں زمین کی کھدائی سے پیغمبروں کے دور کے کچھ آثار برآمد ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ پیغمبروں کے حالات مورخین نے تحریر کئے ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم انیسویں صدی عیسوی تک تاریخی شخصیت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ بیسویں صدی کے نصف اول (1922-1943) میں کھدا ئی (excavation) کے ذریعے عراق کا قدیم شہر اُر (Ur) دریافت ہوا جو کہ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل تھا۔ اِس کے بعد پیغمبر ابراہیم کو ایک تاریخی شخصیت کی حیثیت سے مان لیا گیا۔
ذبحِ عظیم
ہزاروں سال تک پیغمبروں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ضرورت تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدائی مشن کی ایک تاریخ بنے۔ وہ انفرادی واقعات سے بڑھ کر ایک تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ اِس مقصد کے لیے ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں ساتھی ملیں، جن سے ایک مضبوط ٹیم تیار ہو۔ یہ ٹیم جدوجہد کرکے صورتِ حال کو بدلے۔ وہ تاریخ میں ایک نیا دور لائے، جب کہ خدائی مشن ایک تہذیب کی صورت اختیار کرلے۔ اِس قسم کی مطلوب ٹیم بنانے کے لیے وہ واقعہ ہوا جس کو قرآن میں ذبحِ عظیم ( 37: 107 ) کہا گیا ہے۔
ہزاروں سال تک ایساہوا کہ پیغمبر آتے رہے، مگر بڑی تعداد میں قبولِ ایمان نہ کرنے کی وجہ سے کسی پیغمبر کے ساتھ کوئی ٹیم نہیں بنی۔ اِس کا سبب وہی چیز تھی جس کو ماحول کی کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ اِس کنڈیشننگ کا ذکر حدیث میں اِن الفاظ میں کیاگیاہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہودانہ، أویمجسانہ، أوینصرانہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1385) یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتاہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔
اِس صورتِ حال کی بنا پر آبائی مذہب ایک سماجی رواج بن گیا تھا۔ اِس تسلسل کو توڑنے کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ ایک ایسی نئی نسل بنائی جائے جو اپنی فطری حالت پر قائم ہو اور پھر پیغمبر کی دعوت کو قبول کرکے وہ خدا پرست انسانوں کی ٹیم کا حصہ بن سکے۔
اِس مخصوص منصوبے کے تحت، حضرت ابراہیم نے یہ کیا کہ وہ اُس دور کے متمدن ملک عراق کو چھوڑ کر عرب کے صحرا میں آئے اور یہاں خالص صحرائی ماحول میںاپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کیا۔ صحرائی ماحول میں آباد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ متمدن دنیا سے منقطع ہو کر ایک نسل بنے جو متمدن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) سے پاک ہو۔
یہی وہ خصوصی منصوبہ تھا جس کے تحت حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آپ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں ( 37: 102 ) ۔ حضرت ابراہیم نے اِس معاملے کو اپنے بیٹے کے جسمانی ذبح کے ہم معنی سمجھا اور بیٹے کولٹا کر اس کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ عین اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اسماعیل کے جسمانی ذبیحہ سے روک دیا۔ اُس وقت فرشتے نے کہا کہ آپ بیٹے کے بجائے ایک دنبہ ذبح کردیں اور بیٹے کو لے جاکر صحرا میں اُس مقام پر بسا دیں، جہاں آج مکہ آباد ہے۔
اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: وفدیناہ بذبح عظیم ( 37: 107 ) یعنی ہم نے چھڑا لیا اسماعیل کو ایک بڑے ذبیحہ کے بدلے۔ یہاں بڑے ذبیحہ سے مراد صحرا کے غیرمتمدن اور بے آب وگیاہ ماحول میںآباد ہونا تھا، جو کہ جسمانی ذبیحہ سے بلا شبہہ بہت زیادہ سخت تھا۔
اِس آیت میں ذبحِ عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میںآباد کردیاگیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف ایک بے آب وگیاہ صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسباب حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی، اِس لیے اِس معاملے کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیا گیا۔
احسن القصص
قرآن کی سورہ یوسف میں پیغمبر یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیاہے۔ اِس واقعے کو قرآن کا احسن القصص ( 12: 3 ) بتایاگیاہے۔ احسن القصص کا لفظی مطلب ہے — بہترین قصہ (best story) مگر قرآن میں یہ بات قصہ برائے قصہ کے طورپر نہیں آئی ہے، بلکہ وہ ایک اہم سبق (lesson)کے طور پر آئی ہے۔ ہر پیغمبر کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ حق کا داعی ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ دعوت کا عملی نمونہ ہوتاہے۔ مختلف پیغمبر مختلف حالات میں آئے۔ اِس لحاظ سے یہ ہوا کہ مختلف پیغمبروں کے ذریعے مختلف قسم کی عملی مثالیں قائم ہوئیں۔ اُنھیں میں سے ایک مثال یا ماڈل وہ ہے جو حضرت یوسف کے ذریعے قائم ہوا۔
حضرت یوسف کنعان (فلسطین) کے علاقے میں ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مصر جیسے متمدن ملک کے دارالسلطنت میں پہنچا دیا، جہاں ایک بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ ایسا غالباً اِس لیے ہوا کہ حضرت یوسف کے ذریعے دعوت کی جو مثال قائم کرنا مطلوب تھا، وہ مصر جیسے ملک ہی میں ممکن تھی۔حضرت یوسف کے اِس واقعے کی تفصیل قرآن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اُس وقت کے مصری بادشاہ نے حضرت یوسف کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انھیں ایک اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی۔ اِس پیش کش کو حضرت یوسف نے قبول کرلیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ بادشاہ اپنے مذہبی عقیدے کے اعتبار سے مشرک تھا۔ مزید یہ کہ سیاسی تخت بھی بدستور اُس کے قبضے میں تھا۔ اِس کے باوجود حضرت یوسف نے بادشاہ کے تحت ملنے والے اِس عہدے کو قبول کرلیا۔
قرآن کے مطابق، اِس کا سبب یہ تھا کہ خزائن ارض پوری طرح حضرت یوسف کو حاصل ہورہے تھے۔ قدیم زمانے کے لحاظ سے، خزائن ارض کا مطلب تھا— سر زمین مصر کا زراعتی انتظام۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک مطلوب پیغمبرانہ ماڈل ہے کہ داعی اگر ایسے ملک میں ہو، جہاں سیاسی اقتدار (political power) کسی اور کے ہاتھ میں ہو، لیکن یہ امکان ہو کہ اگر داعیٔ حق دوسرے کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرلے تو اس کو کام کے مواقع بلا روک ٹوک حاصل ہوجائیںگے، تو اُس وقت حکمت کا تقاضا یہ ہوگا کہ ایسی پیش کش کو کھلے دل سے قبول کرلیاجائے۔
حضرت یوسف کے ساتھ یہ معاملہ اُس دور میں پیش آیا، جب کہ دنیا میں ہر جگہ زراعت کا دور (agricultural age) پایا جاتا تھا۔ کام کے مواقع تمام تر زراعت کے ساتھ وابستہ تھے۔ اُس وقت خزائنِ ارض کا مطلب تھا — خزائنِ زراعت۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ہم جمہوریت کے دور میں ہیں۔ اب سیاست کا ڈی سنٹرلائزیشن (de-centralization) ہوچکا ہے۔ اب انتظام (administration) کے سوا تمام شعبے ہر ایک کے لیے آزادانہ طورپر کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں حضرت یوسف کا ماڈل موجودہ حالات میں مکمل طورپر قابلِ انطباق (applicable) ہے۔ آج اگر داعیٔ حق، سیاسی حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرے تو کسی باضابطہ اعلان یا معاہدہ کے بغیر ہی تمام خزائن ارض، بہ الفاظ دیگر، تمام مواقع کار آزادانہ طورپر داعی کے زیر تصرف آجائیں گے۔ حضرت یوسف کے اِس ماڈل کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ حق کے داعی کو چاہئے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں غیر نزاعی طریقِ کار (non-confrontational approach) اختیار کرے۔ اِس حکمت کا یہ نتیجہ ہوگا کہ خزائنِ ارض پوری طرح اس کے استعمال میں آجائیں گے اور وہ پُرامن رہنے کی شرط پر دعوت کا کام اعلیٰ ترین معیار پر انجام دے سکے گا۔
حضرت یوسف کے واقعے کو قرآن میں احسن القصص کہاگیا ہے۔ یہ محض ایک قصے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین ماڈل ہے جس کو ایک پیغمبر کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ حضرت یوسف کا قصہ قرآن کے علاوہ، بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ بائبل میں بتایا گیاہے کہ بادشاہِ مصر نے جب حضرت یوسف کو مصر کے خزائن پر مقرر کیا تو اس نے کہا:
Only in regard to the throne, I will be greater than you. (Genesis 37: 50)
حضرت یوسف کی مثال کی روشنی میں اگر یہ متعین کیا جائے کہ اس کے مطابق، کام کا بہترین ماڈل کیا ہے، تو وہ ماڈل یہ ہوگا کہ بادشاہِ وقت سے سیاسی ٹکراؤ نہ کرو۔ اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ غیر سیاسی دائرے میں موجود تمام مواقع کو آزادانہ طورپر حق کے مشن کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ اِس ماڈل کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے — سیاسی اقتدار کے معاملے میں موجودہ صورت حال کو تسلیم کرنا، اور سیاسی اقتدار کے باہر کے دائرے میں اپنے عمل کی تنظیم کرنا:
Political statusquoism, non-political activism.
مقامِ محمود
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محموداً ( 17: 79 ) یعنی امید ہے کہ تمھارا رب تم کو مقامِ محمود پر کھڑا کرے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس مقامِ محمود کا ذکر کیاگیا ہے، اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے۔ اِس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو آخرت سے پہلے موجودہ دنیا میں پیش آنا ہے۔ مقامِ محمود کے اِس دوسرے پہلو کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو استثنائی طورپر خود انسانی تاریخ کے مطابق، ایک مسلَّم نبوت (acknowledged prophethood) کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ہمارے عقیدے کے اعتبار سے، وہ بلاشبہہ خدا کے پیغمبر تھے۔ مگر قدیم زمانے میں موافق اسباب نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے پیغمبر قدیم تاریخی ریکارڈ میں درج نہ ہوسکے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں پہلی بار وہ اسباب پیدا ہوئے جب کہ آپ کو آزاد تاریخی ریکارڈ میں ایک معلوم اورمسلّم شخصیت کے اعتبار سے درج کیاگیا۔ اِس تاریخی حقیقت کو ایک مستشرق نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب 570 میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ بنو اسماعیل کے ایک فرد تھے۔ پچھلے تقریباً ڈھائی ہزار سال کے دوران عرب کے ماحول میں بنو اسماعیل کے نام سے ایک پوری نسل تیار ہوچکی تھی۔جس کے افراد کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی نسل (a nation of heroes) کہا تھا۔ یہی وہ گروہ ہے جس میں دعوت وتربیت کا کام کرکے وہ جماعت تیار ہوئی جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ رسول اور اصحاب رسول نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے یہ کیا کہ انھوںنے ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اُن سے پہلے توحید کا عقیدہ صرف ایک نظریے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اصحاب رسول کی غیر معمولی کوششوں سے وہ انقلاب کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ شرک کا دور ختم ہوگیا اور توحید کا دور پوری طاقت کے ساتھ شروع ہوگیا۔
اِسی انقلاب کا نتیجہ تھا کہ تاریخ میں ایک نیا پراسس (process) شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا آغاز ساتویں صدی کے نصف اول میں عرب سے ہوا، اس کا اختتام (culmination) ایک ہزار سال کے بعد یورپ میں ہوا۔اس انقلاب کے بہت سے پہلو تھے۔ مثلاً اِس انقلاب نے اسلام کے عقیدے کو سائنسی حقیقت (scientific reality) کے درجے تک پہنچا دیا۔ اس نے مذہبی آزادی کا دروازہ کھولا۔ اس کے بعد دعوت وتبلیغ کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں جدید کمیونکیشن وجود میں آیا، جس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جاسکے۔ آفاق وانفس میں سائنس کی دریافتوں سے یہ ممکن ہوگیاکہ اعلیٰ ترین علمی معیار پر حق کی تبیین کی جاسکے ( 4: 53 )۔
آیتِ اسرا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور، یعنی ہجرت ( 622 ء) سے ایک سال پہلے ایک واقعہ پیش آیا، جس کو قرآن میں اسراکہاگیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں:سبحان الذی أسریٰ بعبدہ لیلاًً من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی الذی بارکنا حولَہ لنریہ من آیاتنا ( 17: 1 )۔ اِس آیت میں اسرا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسراکا لفظی مطلب ہے— رات کا سفر(night journey) ۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ رات کے ایک لمحے میںآپ نے مکہ سے یروشلم کا سفر کیا، اور پھر آپ اسی رات کو یروشلم (فلسطین) سے مکہ واپس آئے۔ اِس سفر کی مجموعی مسافت تقریباً 25 سو کلو میٹر تھی۔
اِس سفر کا مقصد قرآن میں اِن الفاظ میں بتایاگیا ہے: لنریہ من اٰیاتنا یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں پیغمبر کو دکھانا۔ یہ نشانیاں (آیات اللہ) کیا تھیں، وہ یروشلم کی عمارتیں یا وہاں کے درخت اور چشمے نہ تھے۔ وہ نشانی دراصل فطرت میں چھپا ہوا وہ امکا ن تھا جس کو تیزرفتار سفر اور تیز رفتار پیغام رسانی کہا جاتا ہے، یعنی آنے والا دورِ مواصلات (age of communication) ۔ اِس تجربے کے ذریعے پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہوجائیں گے جن کی مدد سے عالمی سطح پر خداکے آخری دین کی اشاعت ممکن ہوجائے، یعنی وہی واقعہ جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمۃ فی کل البیوت‘ (ہر گھر میں کلمۂ اسلام کا داخلہ) کہا گیاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا کے واقعے کی صورت میں جو تجربہ کرایا گیا، وہ مستقبل کے بارے میں ایک بشارت تھی۔ اِس بشارت کا ذکر احادیث میں مختلف الفاظ میں آیاہے۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: و لیتمنّ اللہُ ہٰذا الأمر حتی یسیر الراکب من صنعاء إلی حضرموت، ما یخاف إلاّ اللہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3852 ) یعنی اللہ ضرور اِس امر (دین ) کو تکمیل تک پہنچائے گا، یہاںتک کہ ایک سوار صنعا سے حضرت موت تک جائے گااور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہ ہوگا۔اِس سلسلے میں ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے: لیبلغن ہٰذا الأمرُ ما بلغ اللیلُ والنہار(مسند احمد، رقم الحدیث: 17082)یعنی خدا کی قسم، یہ امر (دین) ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔اِسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقی علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیںبچے گا، جہاں اللہ تعالیٰ اسلام کے کلمہ کو داخل نہ کردے۔
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تیز رفتار کمیونکیشن کا تجربہ کرایاگیا تھا۔ مذکورہ احادیث میں پیشین گوئی کے انداز میں بتایا گیا ہے کہ یہ امکان ضرور مستقبل میں واقعہ بنے گا اور خدا کا دین جو عرب میں شروع ہوا، وہ گلوبل کمیونکیشن کے ذریعے سارے عالم میں پہنچ جائے گا، یہاں تک کہ کوئی بھی انسان اُس سے بے خبر نہ رہے۔
اظہارِ دین
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ’اظہارِ دین‘ تھا۔ اظہارِ دین کی آیت قرآن میں تین بار آئی ہے ( 9: 33 ; 48: 28 ; 61: 9 ) ۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ التوبہ کے الفاظ یہ ہیں: ہوالذی أرسل رسولَہ بالہُدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلّہ ( 9:33 ) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ وہ اس کو سارے دین پر غالب کردے۔اِس آیت کی تفسیر کے تحت مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ— اظہارِ دین کا مطلب ہے حجت اور دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنا (أی بالحجۃ والبراہین، 8/121 ) ۔
اظہارِ دین کے جس واقعے کا قرآن میں ذکر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خو د زمانۂ رسول میں وہ پوری طرح واقع ہوجائے گا۔ اِس آیت میں ایک تاریخی تبدیلی کا ذکر ہے، اور تاریخ میںکوئی بڑی تبدیلی اچانک یا محدود مدت میں نہیں آتی، ایسی تبدیلی ہمیشہ لمبی مدت کے پراسس (process) کے بعد آتی ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ساتویں صدی کے نصف اول میں ایک انقلابی عمل شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف حالتوں سے گزرتا ہوا تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا اور پھر اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طورپر وہ واقعہ اپنی کامل صورت میں پیش آیا جس کو قرآن میں ’لیظہرہ علی الدین کلّہ‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔
حجت یا برہان کیا ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے، یعنی ایک طرف حجت کو پیش کرنے والا ہوتا ہے اور دوسری طرف حجت کو سننے والا۔ اِس لیے حجت کو مخاطب کے ذہنی تقاضے کے مطابق ہونا چاہئے۔ علمی استدلال دراصل اِس بات کا نام ہے کہ مخاطب کے علمی مسلّمہ پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے۔ ساتویں صدی کے نصف اول میں جب کہ قرآن اترا، اُس وقت دنیا روایتی دور سے گزر رہی تھی۔ اُس وقت صرف روایتی استدلال ہی ممکن تھا۔ مگر قرآن ایک ابدی کتاب کی حیثیت سے اتارا گیا ہے، ا س لیے قرآن کے مذکورہ الفاظ میں یہ بات شامل ہے کہ نہ صرف روایتی دور میں، بلکہ بعد کو ظہور میں آنے والے سائنسی معیار کے مطابق بھی قرآن مسلّمہ طورپر اپنی ایک ثابت شدہ کلام کی حیثیت کو برقرار رکھے گا۔
اِس مصلحت کا تقاضا تھا کہ انسانی علم کا ارتقا ایسے نہج پر ہو جو قرآن کی صداقت کو بعد کے دورمیں بھی یکساں طورپر برقرار رکھے۔ یہی وہ مطلوب ہے جو بعد کے سائنسی دور میں حاصل ہوا۔ سائنس کی دریافتوں نے صرف یہ کیا کہ قرآن کے نظریات کو دوبارہ سائنس کے معیار پر ایک مسلّمہ معیار کی حیثیت دے دی۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی موافقِ قرآن واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر ان الفاظ میں دی گئی تھی: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق ( 41: 53 ) ۔
قرآن کی اِس آیت میں آفاق وانفس کی جن نشانیوں کا ذکر ہے، اُس سے مراد وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس کی دریافتیں (scientific discoveries) کہا جاتا ہے۔ یہ دریافت دراصل فطرت میں قائم شدہ خدائی قانون کی دریافتیں ہیں۔ چوں کہ قرآن کو نازل کرنے والا جو خدا ہے، اُسی نے فطرت کے اِن قوانین کو بھی قائم کیا ہے، اِس لیے دونوں کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ اِس مطابقت نے حاملینِ قرآن کو موجودہ زمانے میں ایک یہ موقع دیا ہے کہ وہ قرآن کی صداقتوں کو سائنس کے مسلّمات کی روشنی میں ثابت شدہ بنا سکیں۔
قرآن میںاظہارِ دین کے جس واقعے کا ذکر ہے، اُس سے مراد یہ نہیں ہے کہ خود زمانۂ نزول میں یہ واقعہ عملاً پیش آجائے گا، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلاب آئے گا، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے پراسس کو شروع کرے گا۔ یہ پراسس عرب میں شروع ہوا اور بتدریج ارتقا کرتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اِس تکمیل کے ذریعے نہ صرف واقعاتِ فطرت ظہور میں آئے جنھوںنے اسلامی عقائد کے اثبات کے لیے سائنسی بنیاد فراہم کی، بلکہ اِس کے ذریعے دوسرے وہ اجتماعی واقعات ظہور میں آئے جو اسلامی دعوت کے عین موافق تھے۔ مثلاً آزادی، جمہوریت اور مذہب کے اعتبار سے کھلاپن (openness) ، وغیرہ۔
قرآن کی اِس آیت میں اظہار سے مراد سیاسی غلبہ نہیںہے، بلکہ اِس سے مراد فکری غلبہ اور ایسے حالات کا پیدا ہونا ہے جس کے بعد قرآن کے مشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، ہر قسم کے مواقع اس کے لیے قابلِ استعمال ہوجائیں — اکیسویں صدی عیسوی میں، قرآن کی یہ پیشین گوئی عملاً پوری طرح وقوع میں آچکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی اظہارِ دین کی صدی ہے۔ اسلامی انقلاب کے ذریعے جو تاریخی عمل (historical process) ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا، وہ اکیسویں صدی میں اپنے آخری نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ اب اہلِ اسلام کا واحد فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام دوسری چیزوں کو ثانوی (secondary) بنائیں۔ وہ دعوت الی اللہ، بہ الفاظ دیگر دورِ جدید کی نسبت سے قرآنی تعلیمات کی اشاعتِ عام کریں، یہاں تک کہ ہر عورت اور ہر مرد اس سے باخبر ہوجائے۔
لوحِ محفوظ
قرآن کی سورہ البروج میں یہ آیت آئی ہے: بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ ( 85: 21-22 ) یعنی وہ ایک باعظمت قرآن ہے، لوح محفوظ میں۔اِس آیت میں لوحِ محفوظ (well-guarded tablet) کا مطلب کیا ہے۔ اِس سلسلے میں کوئی مستند حدیث موجود نہیں۔ تاہم عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملائِ اعلیٰ میں ایک محفوظ لوح ہے اور اِس لوح پر قرآن کا متن لکھا ہوا ہے۔ یہ بات اصولاً درست ہے، لیکن لوح سے مراد معروف لوح نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد ربانی لوح ہے۔
اصل یہ ہے کہ پورا عالمِ موجودات مکمل طورپر اللہ کے امر کے تحت ہے۔ شمس وقمر اور د وسرے ستاروں اور سیاروں کے بارے میں قرآن میں بتایا گیاہے کہ اُن کا ایک مقرر کورس (determined course) ہے، اور وہ ادنیٰ انحراف کے بغیر اِس مقرر کورس پر چلتے ہیں( 36: 38 ) ۔ اِسی معاملے کو علمی طورپر اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ عالمِ مادی، فطرت کے قانون (law of nature) کی پابند ہے، اور عالمِ حیوانات اپنی جبلت (instinct) کی پابند۔
انسان کا معاملہ بظاہر مختلف ہے، کیوں کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی آزادی دی گئی ہے۔ مگر اِس آزادی کے باوجود انسانی تاریخ پر اللہ نے اپنا کنٹرول قائم کررکھا ہے۔ تاریخ پر اِسی کنٹرول کی ایک صورت وہ ہے جس کو قرآن کے حوالے سے اِس طرح بتایاگیا ہے کہ قرآن ایک لوح محفوظ میں ہے۔ لوحِ محفوظ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیںہے، مطالعہ کے ذریعے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے اپنے نبیوں کے ذریعے بہت سی کتابیں بھیجیں جو انسان کے لیے معتبر ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مگر پچھلی کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ اب آخری پیغمبر بھیج دیاجائے تو اِس فیصلے کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے آئی ہوئی کتاب (قرآن) کی مستقل حفاظت کا انتظام کردیا جائے— لوح محفوظ کے الفاظ میں قرآن کے اِسی مخصوص حفاظتی انتظام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اِس کی تدبیر یہ کی گئی کہ اولاً قرآن کا معیاری متن (standard version) علمِ الٰہی یا بہ الفاظِ دیگر، ملائِ اعلیٰ میں محفوظ کردیاگیا اور پھر تاریخ کے لیے مقدر کردیا گیا کہ وہ اِس معاملے میں اِسی رخ پر سفر کرے۔ چناں چہ عملاً یہی ہوا۔ اولاً یہ ہوا کہ ساتویں صدی کے نصف اول میں قرآن کو حافظے سے کتابت کی صورت میں محفوظ کیاگیا۔ ہزاروں لوگوں نے نسل درنسل یہ کیا کہ قرآن کو نہ صرف یاد کرکے اپنے حافظے میں ریکارڈ کرلیا، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ قرآن کے کتابت شدہ نسخے برابر تیار کرتے رہے۔ اِس طرح وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک مکتوب قرآن کو پہنچاتے رہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: علّم بالقلم۔تعلیم بالقلم کا یہ عمل اِس طرح مسلسل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ انسانوں کو یہ توفیق دی کہ وہ طباعت کے آلات ایجاد کریں۔ اِس فن کے ارتقا میں بہت سے انسانوں نے کام کیا۔ آخر کار جرمن گولڈ سمتھ جوہانس گوٹن برگ (وفات: 1468 ) اِس میں کامیاب ہوگیا کہ وہ ایک قابلِ عمل طباعتی آلہ دریافت کرے۔ اِس دریافت کے بعد تاریخ میں ایک پرنٹنگ انقلاب (printing revolution) آیا جو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے موجودہ اعلیٰ طباعتی مشین (printing press) تک پہنچا۔
لوح محفوظ کے الفاظ میں اِسی تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ قرآن کا نزول 610 عیسوی میں شروع ہوا۔ اس کی تکیل تقریباً 23 سال میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے استثنائی طورپر یہ واقعہ پیش آیا کہ خداکے نزدیک، قرآن کا جو معیاری متن (standard version) تھا، وہ ادنی تغیر کے بغیر پہلے انسانی حافظے میں ریکارڈ ہوا، پھر ادنیٰ تغیر کے بغیر کتابت کے ذریعے اس کی جلدیں بنائی گئیں، پھر تاریخ میں ایک پراسس جاری ہوا جس کے نتیجے میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کا ایک نسخہ نہایت درست طورپر تیار کیا جائے اور پھر اس کی بلین اور بلین کاپیاں تیار کرلی جائیں۔ آج ہر گھر میں اور ہر مسجد میں اور ہر مدرسہ اور ہر لائبریری میں قرآن کے نہایت صحیح مطبوعہ نسخے موجود ہیں۔ اِس طرح خدا کی تقدیر اِس بات کی ضامن بن گئی کہ قرآن کسی بھی قسم کے تغیر اور تبدل کے بغیر ہر انسان کے لیے قابلِ دستیاب ہوجائے۔
ادخالِ کلمہ
سیکولر مبصرین عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا سفر اس کے پیغمبر کے جلد ہی بعد ٹوٹ گیا، بعد کی تاریخ میں اسلام کا تسلسل باقی نہ رہا۔ مگر یہ رائے صرف سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ اسلام کی تاریخ خدائی منصوبے کے تحت مسلسل سفر کررہی ہے۔ غلط فہمی صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ تاریخ کا ہر سفر ناموافق حالات میں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سفر انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے جاری ہے، نہ کہ انسانی آزادی کو منسوخ کرکے۔ انسانی تاریخ میں اسلام کے سفر کے تین مرحلے ہیں:
Land expansion — consolidation — overseas expansion
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں اپنے مشن کا آغاز 610 عیسوی میں کیا۔ اِس کے بعد دینِ توحید کی ایک نئی تاریخ بنی۔ اِس تاریخ کا خلاصہ یہ تھا کہ — انسانی آزادی کو منسوخ کئے بغیر دینِ توحید کی تاریخ بنانا اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچانا۔ اس تاریخ پر اب تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یہ تاریخ مسلسل طورپر اپنی منزل کی طرف سفر کررہی ہے۔ اِس مدت کے دوران بظاہر جو اتار چڑھاؤ کے واقعات نظر آتے ہیں، وہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کرنے کی مثالیں ہیں۔
قرآن کی سورہ الانعام میں بتایا گیا ہے کہ — یہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اے پیغمبر، آگاہ کردو اہلِ مکہ کو اور مکہ کے اطراف کے لوگوں کو ( 6: 92 ) ۔ قرآن کی اِس آیت میں، مکہ اور اطرافِ مکہ سے مراد بَرّی حصۂ ارض ہے، جہاں تک اُس زمانے کے درمیان حق کا پہنچنا بہ آسانی ممکن تھا ۔
زمین کے نقشہ (map) پر نظر ڈالیں تو عرب کے ایک طرف بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) ہوگا، جس کے دوسری طرف یورپ کا براعظم واقع ہے۔ اِسی طرح اگر آپ عرب سے افریقہ کی طرف چلیں تو اس کی آخری سرحد پر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) ہوگا، جس کے دوسری طرف امریکا کا براعظم واقع ہے۔ اسی طرح اگر آپ عرب سے بحرِ ہند (Indian Ocean) کی طرف چلیں تو اس کے دوسری طرف آسٹریلیا کا براعظم دکھائی دے گا۔
عقبہ بن نافع (وفات: 683 ء) ایک تابعی تھے۔ وہ عرب سے ایک دستہ لے کر نکلے اور افریقہ میں اسلام کی اشاعت کرتے ہوئے اس کے مغربی ساحل تک پہنچ گئے۔ یہاں تاحدِ نظر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) پھیلا ہوا تھا۔ وہ اُس وقت گھوڑے پر سوار تھے ۔انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر کے کنارے کھڑا کیا اور کہا: اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخُضتُہ إلیہ، حتی لا یُعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اِس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا، یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے)۔
عقبہ بن نافع کا یہ واقعہ علامتی طورپر یہ بتاتا ہے کہ دورِ اول میں اسلام کی دعوتی توسیع زمین کے برّی حصے میں برابر ہوتی رہی، لیکن وہ سمندر پار کے ملکوں تک نہ پہنچ سکی، کیوں کہ سمندری سفر کے لیے اُس زمانے میں قابلِ اعتماد اسباب موجود نہ تھے۔ اِس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِس کا ایک پہلو استحکام (consolidation) تھا۔ استحکام کے بغیر دعوتی توسیع عملاً غیر موثر ہوجاتی، حتی کہ قرآن کی حفاظت بھی ممکن نہ ہوتی۔ اِس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے عالمی حالات پیدا کئے کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم ہوگیا۔ یہ مسلم ایمپائر اِس بات کا ضامن تھا کہ خدا کا آخری دین پوری طرح محفوظ ہوجائے اور اس کی اشاعت مسلسل جاری رہے۔
مذکورہ استحکام کے دورمیں اس کے زیر اثر ایک اور تاریخی پراسس (historical process) شروع ہوا۔ اِس کا مقصد تھا فطرت (nature) میں چھپے ہوئے امکانات کو وقوع میں لانا۔ یہ عمل تدریج کے ساتھ تاریخ میں جاری رہا۔ اِس عمل کا آغاز ابتداء ً مسلمانوں نے کیا۔ اس کے بعد یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار وہ چیزوجود میں آگئی جس کو کمیونکیشن کا دور (age of communication) کہاجاتا ہے۔ اِس مواصلاتی انقلاب کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی توسیع زمین کے برّی حصے تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ سمندر پار کے ملکوں تک بہ آسانی پہنچ جائے۔
اسلامی دعوت کی عالمی توسیع اول دن سے اسلام کا نشانہ تھی ( 25: 1 ) ۔ مگر اسلام کی یہ عالمی توسیع، اسباب کی اِس دنیا میں ضروری وسائل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ جدید مواصلاتی انقلاب نے اِس کو پوری طرح ممکن بنا دیا۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی واقعہ تھا جس کی خبر پیشگی طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں دے دی تھی: لا یبقی علی ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللّٰہ کلمۃ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی گھر یا خیمہ ایسا نہیں بچے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے۔
اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسان جو اِس زمین پر پیدا ہوئے، اُن کو موت سے پہلے یہ بتادیا جائے کہ خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) ان کے بارے میں کیا ہے۔ انسان کی پوری تاریخ میں اس کو مسلسل طورپر جاری رہنا ہے۔ آغاز کے پہلے مرحلے میں اس کی توسیع زمین کے بری حصہ (ایشیا اور افریقہ) میں ہوتی رہی۔ اس کے بعد استحکام کے ساتھ ایسے مادی اسباب پیدا ہوئے جس کے تحت مواصلاتی ذرائع میں ایسا انقلاب آیا جس کے تحت یہ ممکن ہوگیا کہ اسلامی دعوت کی عالمی اشاعت کا کام کیا جاسکے۔ موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور دوسرے ذرائع کی بنا پر اسلامی دعوت کے اِس عالمی نشانے کو پورا کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی (religious freedom) بھی مکمل طورپر حاصل ہوچکی ہے۔ اب امتِ محمدی سے وابستہ افراد کی یہ لازمی ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچائیں، یہاں تک کہ کرۂ ارض پر بسنے والا کوئی مرد یا عورت خدا کے اِس پیغام سے بے خبر نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں