قرآن کی سورہ غافر کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ ہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے وہ تمھارے لیے رزق نازل کرتاہے۔ اور نصیحت صرف وہی شخص حاصل کرتاہے جو انابت کرنے والا ہو‘‘ ۔(
قرآن کی اِس آیت میں تین باتیں کہی گئی ہیں— پہلی بات ہے، نشانیوں (آیات) کا ظاہر ہونا۔ دوسری چیز ہے، اِن نشانیوں سے رزقِ خداوندی کا ملنا۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ رزق صرف اُن افراد کو ملتاہے جن کے اندر انابت کی صفت پائی جائے۔ آیات سے مراد وہ نشانیاں (signs) ہیں جو تخلیق میں ظاہر ہوئی ہیں۔ رزق سے مراد وہ ربانی اسباق (divine lessons) ہیں جو اِن نشانیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انابت کا لفظ یہ بتا رہاہے کہ یہ ربانی سبق کن خوش قسمت افراد کو حاصل ہوتا ہے۔
انابت کا لفظی مطلب ہے، بار بار واپس آنا (to return from time to time) ۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے آدمی کے ساتھ بار بار وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو ڈسٹریکشن کہاجاتا ہے، یعنی توجہ کا ہٹ جانا۔ یہی چیز رزق ربانی کے حصول میں اصل رکاوٹ ہے۔ اللہ کی تخلیقات میںاور زندگی کے تجربات میں رزقِ ربانی کے آئٹم ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر سوچے تو وہ ہر وقت اِن چیزوں میں نصیحت کا رزق پاتا رہے گا، لیکن حالات کے تحت بار بار آدمی کی توجہ مطلوب نشانے سے ہٹتی رہتی ہے۔ انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس ڈسٹریکشن سے بچائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قرآن میں منیب (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: والذین آمنوا أشد حبّا للہ (
اصل یہ ہے کہ محبت، جواب (response) کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موج زن ہوجاتا ہے۔
اِسی کا نام حبّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت (discovery) کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی رسمی تعمیل نہیں۔
انسان جب اپنے آپ کو احسنِ تقویم (
اصل بات یہ نہیں ہے کہ محبت کرو، اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو اتنے بڑے منعم کی حیثیت سے دریافت کرو کہ تمھارے اندر اللہ کے لیے حب شدید پیدا ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الکوثر (
کوثر مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب ہے — خیر کثیر۔ خیر کثیرسے کیا مرادہے، اس کی وضاحت قرآن کی دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ قرآن کی سورہ البقرہ میں یہ آیت آئی ہے: یؤتی الحکمۃ من یشاء، ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیراکثیرا۔ وما یذکر إلاّ أولوا الألباب (
قرآن کی اِس آیت میں حکمت سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن کے دوسرے مقام پر معرفت یا عرفانِ حق (
سورہ الکوثر میں صلوٰۃ اور نحر کے الفاظ علامتی طورپر آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کے پروپیگنڈے کو نظر انداز کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اللہ سے تعلق قائم کرو، تاکہ شکر کا جذبہ پوری طرح برقرار رہے۔ ’نحر‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو دعوتی مشن تم کو دیاگیا ہے، قربانی کی سطح پر تم اس مشن کو جاری رکھو۔ مخالفین کی مخالفت تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی، وہ خود ناکام و نامراد ہو کر رہ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — فلاح اُن اہلِ ایمان کے لیے ہے جو خشوع کے ساتھ اپنی نماز ادا کرتے ہیں (
ایک فارسی شاعر نے کہا — رات کو جب میں نماز کی نیت کرکے کھڑا ہوا تو دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ میرا بچہ صبح کو کیا کھائے گا:
شب چو عقدِ نماز بر بندم چہ خورد بامداد فرزندم
یہ شعر تمثیل کی زبان میں بتا رہا ہے کہ خشوع کی نماز ادا کرنے کے لیے کیا چیز درکار ہے، وہ یہ کہ آدمی کا ذہن کسی اور سوچ میں مبتلا نہ ہو، اپنی سوچ کے اعتبار سے، وہ پوری طرح لقائِ رب پر فوکس کئے ہوئے ہو۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ذہنی فوکس کو ہٹانے والی سب سے طاقت ور چیز منفی سوچ ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔آدمی کو چاہئے کہ وہ صبر کی روش اختیار کرتے ہوئے کامل طور پر اپنے آپ کو منفی احساس سے بچائے۔ خشوع کی نماز پڑھنا صرف اُس کے لیے ممکن ہے جو نماز سے پہلے اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کرچکا ہو۔ اور ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ آدمی اپنے اندر یہ صابرانہ نفسیات پیدا کر لے کہ وہ منفی تجربات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت روش پر قائم رکھے۔
واپس اوپر جائیں
قدیم مکہ میں جب کہ وہاں کے سردار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کررہے تھے، اُس وقت قرآن کی سورہ الانعام میں یہ آیت اتری: قد نعلم إنہ لیحزنک الذی یقولون، فإنہم لا یکذبونک ولکنّ الظالمین بٰایات اللہ یجحدون (
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی مشن سادہ طور پر صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طور پر اللہ کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے بندوں کے لیے ہدایت کا انتظام کرے، اِس لیے اُس نے پیغمبر کے ذریعے اُس دعوتی مشن کو برپا کیا ہے۔ ایسی حالت میں، پیغمبر کے دعوتی مشن کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا، اللہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا ہے، اور یہ خدا کی اِس دنیا میں کسی کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔
یہ کوئی زمانی معاملہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی دعوت خالص حق کی بنیاد پر اٹھے تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، اُس کا معاملہ بھی یہی ہوگا۔ بظاہر یہ دعوت کسی فرد کے ذریعہ اٹھے گی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبارسے، وہ بلاشبہہ اللہ کا ایک منصوبہ ہوگا۔ دوبارہ ایسا ہوگا کہ جو لوگ اِس دعوتی مشن کی مخالفت کریں، وہ بلاشبہہ ناکام رہیں گے، ان کی مخالفانہ تدبیریں یقینی طور پر بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
بعد کے دور میں اٹھنے والی دعوتِ حق کی پہچان وہی ہوگی جو دورِ اول میں اِس قسم کی دعوتِ حق کی پہچان تھی، وہ یہ کہ اس کی مخالفت کرنے والے اپنی مخالفت کے حق میں کوئی دلیل نہ پاسکیں گے۔ اُن کی ساری مخالفت بے بنیاد الزام تراشی پر قائم ہوگی، نہ کہ کسی حقیقی دلیل پر۔ دونوں کے درمیان بلا دلیل تکذیب کی یہی مشابہت اِس بات کا ثبوت ہوگی کہ یہ مخالفت، اللہ کے منصوبے کی مخالفت ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک مجرمانہ فعل ہے، نہ کہ کوئی اسلامی فعل۔
واپس اوپر جائیں
وسیلہ کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول، ثم صلّوا علیّ، فإنہ من صلّی علیَّ صلاۃ، صلّی اللہ علیہ بہا عشراً، ثم سَلوا للہ لی الوسیلۃ، فإنّہا منزلۃ فی الجنۃ۔ لاتنبغی إلا لعبد من عباد اللہ، وأرجوا أن أکون ہو، فمن سأل لی الوسیلۃ، حلّت لہ الشفاعۃ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:
1 - وسیلہ کا لفظی مطلب قربت (nearness) ہے۔ یہ لفظ قرآن میں اِسی معنی میں آیا ہے۔ ایک جگہ فرشتوں کی نسبت سے، اور دوسری جگہ انسان کی نسبت سے۔ فرشتوں کی نسبت سے، قرآن میں آیا ہے کہ وہ اللہ کے وسیلہ، یعنی قربت کے طالب رہتے ہیں (
2 - مذکورہ روایت میں وسیلہ کا لفظ اِسی معنی میں استعمال ہواہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ دعا کرو کہ آپ کو اللہ کاوسیلہ، یعنی اللہ کی قربت حاصل ہو، جو کہ اللہ کی طرف سے کسی انسان کے لیے ایک عظیم رحمت ہے اور جنت میں اس کے درجے کو بڑھانے والی ہے۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: اللہم آت محمداً الوسیلۃ والفضیلۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:
3 - عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ وسیلہ سے مراد سفارش (recommendation) ہے، یعنی قیامت میں لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل ہوگی۔ وسیلہ کا یہ مفہوم ایک خود ساختہ مفہوم ہے، وہ لفظی طورپر کسی بھی روایت میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغفرت تمام تر اللہ کا ایک عطیہ ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اِس بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
4 - روایت میں ’حلّت لہ الشفاعۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اس کے لیے شفاعت واجب ہوگئی۔ یہاں شفاعت سے مراد سفارش نہیں ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا آدمی اپنے عمل کی بنا پر اِس قابل ہوگیا کہ رسول اللہ اس کو پہچانیں اور قیامت میں اس کو اپنی امت کا ایک فرد شمار کریں۔
5 - شفاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص جو اپنے عمل کے اعتبار سے جنتی نہ ہو، وہ پیغمبرکی سفارش سے جنتی بن جائے گا۔ اصل یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی انسان کے اخروی مستقبل کا فیصلہ تمام تر اللہ کی مرضی سے ہوگا، لیکن اُس کے اعلان کا طریقہ یہ ہوگا کہ انبیاء اور دُعاۃ کو بلندمقام (اعراف) پر کھڑا کیاجائے گا۔ انھوں نے جن لوگوں کے اوپر دعوت وشہادت کا کام کیا ہوگا، وہ اُن کو قیامت کے دن صاف طورپر پہچان لیں گے اور ہر ایک کے لیے اللہ کے فیصلے کا اعلان کریں گے۔
6 - وسیلہ (قربت) کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ تعلق باللہ کے دو درجے ہیں— ایک درجۂ اطاعت، اور دوسرا درجۂ قربت۔ مومن کو چاہئے کہ وہ درجۂ قربت میں اللہ سے تعلق قائم کرے، اور اِسی اعلیٰ درجۂ قربت کے لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں دعا کرے۔ اِس دعا کا کوئی تعلق سفارش کے خود ساختہ نظریے سے نہیں ہے۔
7 - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعاو صلاۃ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں۔ وہ صرف اظہارِ تعلق کی ایک صورت ہے۔ ایک انسان جو سچائی کا طالب ہو، لمبی جستجو کے بعد جب اس کو پیغمبراسلام کے ذریعے ہدایت ملے تو فطری طورپر ایسا ہوگا کہ اس کو پیغمبر اسلام سے قلبی تعلق ہوجائے گا اور وہ اِس تعلق کا اعتراف الفاظ کی صورت میں کرے گا۔ اِسی اعتراف کا دوسرا نام درودو صلاۃ ہے۔
8 - حدیثوں کی نوعیت زیادہ تر یہ ہے کہ کوئی واقعہ گزرا تو اُس کی نسبت سے آپ نے لوگوں کو ایک اسلامی تعلیم بتادی۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کسی موقع پر جب مسجد سے اذان کی آواز آئی تو اُس وقت آپ کے پاس جو لوگ موجود تھے، اُن سے آپ نے مذکورہ بات فرمائی۔ آپ کے اِس قول کا مطلب یہ تھا کہ موذن کے کلمات کو سننے والا بھی اُسی طرح دہرائے۔ اُس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ سننے والا مسجد میں حاضر ہو اور نماز کے ذریعے وہ قربتِ الٰہی (
9 - حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ’’جو میرے لیے ایک بار دعا کرتا ہے، اللہ اُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے‘‘۔حدیث کے یہ الفاظ ’’درود‘‘ کی کسی علاحدہ خصوصیت کو نہیںبتارہے ہیں۔ وہ ایک عام سنتِ الٰہی کو بتارہے ہیں، جیسا کہ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی عمل کا کم ازکم دس گنا اجر دیتا ہے اور عمل کی کیفیاتی قدر کے مطابق، اس کا انعام سات سو گنا تک یا اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ حدیث کے مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایسا کروگے تو تم کو اس کا اجر ملے گا۔ جس کی کم سے کم مقدار دس گنا ہوگی۔ صلاۃ وسلام دراصل پیغمبر کے حق میں ایک مومن کی طرف سے اعتراف کا کلمہ ہے۔ جس کا اعتراف جتنا شدید ہوگا، اتنا ہی اس کا اجر بڑھتا جائے گا۔وسیلہ کا یہ مفہوم قرآن وحدیث کے متن سے بالکل واضح ہے۔ مگر اُس کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی اپنے روایتی شاکلہ (traditional mindset) کو توڑے۔ وہ خالص علمی انداز میں کھلے ذہن کے ساتھ قرآن وحدیث کا موضوعی (objective) مطالعہ کرے۔ وسیلہ کی مذکورہ تشریح کو سمجھنے کے لیے اِس شرط کو پورا کرنا ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاحزاب میں ارشاد ہوا ہے: إن اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی، یاأیہا الذین اٰمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماً (
’صلاۃ‘ کا لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولا جائے تو اس سے مراد رحمت ہوتی ہے۔ اور جب ’صلوۃ‘ کا لفظ بندے کی نسبت سے بولا جائے تو اس سے مراد دعا ہوتی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جس مشن کی ذمے داری ڈالی ہے، اُس میں وہ تنہا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہیں۔ اللہ کے فرشتے بھی اِس مشن میں رسول کی مسلسل تائید کررہے ہیں۔ یہی کام اہلِ ایمان کو بھی کرنا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے دل میں رسول کے لیے بہترین جذبات ہونے چاہئیں۔
آیت میں ’صلّوا‘ کے بعد ’وسلّموا تسلیماً‘ کے الفاظ ’صلّوا‘ کی مزید تاکید کو بتا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہئے کہ وہ پیغمبر کے رول کو بھر پور طورپر دریافت کریں۔ جب وہ اِس رول کو شعوری طورپر دریافت کریں گے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رسول کے لیے سرتاپا اطاعت بن جائیں گے۔ اُن کے دل میں رسول کے لیے صلاۃ وسلام اور اعتراف کے چشمے جاری ہوجائیں گے، جس کا اظہار بار بار الفاظ کی صورت میں ہوگا۔ یہی مطلب ہے صلاۃ وسلام کے اِن الفاظ کا: اللہم صل علی محمد وعلی اٰلِ محمد، کما صلیت علٰی إبراہیم، وعلیٰ اٰل إبراہیم، إنک حمید مجید۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ یہ دراصل ایک مومن کی طرف سے آپ کے لئے قلبی اعتراف (heartfelt acknowledgement) ہے۔ رسول اللہﷺکے ذریعہ انسان کو دو انتہائی اہم چیزیں ملی ہیں— ایک، مستند خدائی ہدایت نامہ(authentic divine guidance)۔ اور دوسرا، خدائی ہدایت کا مستند رول ماڈل(authentic role model)۔ یہ دونوں چیزیں رسول کے سوا کہیں اور سے نہیں مل سکتی تھیں۔ایک مومن کو جب اِس حقیقت کا شعور حاصل ہوتا ہے تو اس کے اندر رسول اللہ کے لیے گہرے اعتراف کا جذبہ پیدا ہوتاہے اور پھر اس کی زبان سے بے اختیارانہ طورپر وہ الفاظ نکل جاتے ہیں جن کو صلاۃ وسلام کہا جاتا ہے۔
درود کلمۂ فضیلت نہیں ہے، درود کلمۂ اعتراف ہے۔ ایک شخص پیدا ہو کر اِس دنیا میں آتاہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ میں کیا ہوں اور یہ کائنات کیا ہے۔موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اِن سوالات کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے، مگر کہیں بھی اس کو اِن سوالات کا مستند جواب نہیں ملتا۔
آخر کار، وہ اِس دریافت تک پہنچتا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے جو دین انسان کو دیاگیا ہے، وہی اس سوال کا حقیقی جواب ہے۔ یہ دریافت اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اعتراف کے جذبے سے سرشار کردیتی ہے۔ یہ جذبۂ اعتراف جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو اِسی کا نام صلاۃ وسلام ہے۔
درود یا صلاۃ وسلام یہ نہیں ہے کہ کچھ مخصوص الفاظ کو اپنی زبان سے دہرا دیا جائے یا اُن کی تکرار کی جاتی رہے۔ یہ رسول کے لیے صلاۃ وسلام کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ رسول کے لیے صلاۃ وسلام کا آغاز دریافت سے ہوتا ہے۔
ایک مومن پیغمبر کے اِس رول کو دریافت کرتاہے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں اس کے اندر اعلیٰ کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیفیات لفظوں میں ڈھل جاتی ہیں، اِس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ مومن، پیغمبر کو اپنا رہنما بنا لیتاہے۔ وہ پیغمبر کے اسوہ (model) کو اختیار کرلیتا ہے۔ وہ پیغمبر کے مشن میں اپنے آپ کو ہمہ تن لگا دیتاہے۔ وہ پیغمبر کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتاہے— یہ تمام چیزیں درود وسلام کا لازمی حصہ ہیں، کچھ چیزیں براہِ راست طور پر اس کا حصہ ہیں اور کچھ چیزیں بالواسطہ طورپر اس کا حصہ۔
واپس اوپر جائیں
سلطان غیاث الدین تغلق (وفات:1325 ء) کے دربار میں ایک خاص مسئلے پر شیخ الوقت خواجہ نظام الدین اولیاء (وفات: 1325 ء) اور شیخ الاسلام قاضی جلال الدین کے مابین مناظرہ ہوا۔ اُس وقت اپنے موقف کے حق میں خواجہ نظام الدین نے ایک حدیث رسول کو پیش کرنا چاہا، تو قاضی جلال الدین نے کہا کہ — تم ابو حنیفہ کے مقلد ہو، تمھیں حدیث رسول سے کیا مطلب۔ اگر ابو حنیفہ کا کوئی قول پیش کرسکتے ہو تو پیش کرو: ’’تو مقلدِ ابو حنیفہ ہستی، تُرا با حدیثِ رسول چہ کار۔ قول ابو حنیفہ بیار‘‘۔
اِس کو سن کر خواجہ نظام الدین اولیاء نے یہ کہتے ہوئے مناظرہ ختم کردیا اور دربار سے اٹھ گئے کہ — سبحان اللہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ہوتے ہوئے مجھ سے ابو حنیفہ کے قول کا مطالبہ کیاجارہا ہے: ’’سبحان اللہ، کہ باوجود قول مصطفوی، از من قولِ ابو حنیفہ می خواہند‘‘۔ (سیر العارفین بحوالہ سہ ماہی مجلہ حکمتِ قرآن، لاہور، جنوری- مارچ 2011 ، صفحہ 9)۔
یہ واقعہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک مثال کی صورت میں دورِ زوال کی امتِ مسلمہ کی تصویر ہے۔ زوال کے دور میں، دوسری امتوں کی طرح امتِ مسلمہ میں بھی یہ واقعہ پیش آیا کہ امت کے شیوخ اور اکابر، دین کا ماخذ بن گئے۔ جس طرح یہود کے دورِ زوال میں یہ ہوا کہ اُن کے احبار اور رہبان (علما اور مشائخ) اُن کے لیے دین کا ماخذ بن گئے۔ تاہم امتِ مسلمہ کے پاس اِس معاملے میں ایک واضح معیار (criterion) موجود ہے، جس کے ذریعے صحیح اور غلط میں فرق کیا جاسکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، امت میں تین دور قُرون مشہود لہا بالخیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تین دور یہ ہیں — دورِ رسالت، دور صحابہ، دورِ تابعین۔ اِس معیار کی روشنی میں دیکھئے تو وہ تمام افراد جن کو بعد کے زمانے میں ’’اکابر‘‘ کا درجہ دے دیاگیا، وہ سب قرونِ مشہود لہا بالخیر کے بعد کے افراد ہیں۔ ہم کو حق ہے کہ ان بعد کے لوگوں کی باتوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں جانچیں۔ اگروہ قرآن اور سنت کے مطابق ہوں تو اُن کو لیں، ورنہ ان کو رد کردیں۔
واپس اوپر جائیں
والٹر ڈی لا میئر (Walter De La Mare) ایک برٹش مصنف ہے۔ وہ 1873 میں پیدا ہوا، اور 1956 میں اس کی وفات ہوئی۔ ڈی لا میئر کی ایک نظم ہے۔ اس کا عنوان مس ٹی (Miss T) ہے۔ اِس نظم کی ایک لائن یہ ہے — یہ بہت زیادہ عجیب بات ہے کہ مس ٹی جو کچھ کھاتی ہے، وہ مس ٹی بن جاتاہے:
It's a very odd thing— as odd can be —
That whatever Miss T eats, turns into Miss T.
’’مس ٹی‘‘ ایک فرضی نام ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مس ٹی کے باہر دسترخوان پر مختلف قسم کے کھانے ہیں— پھل، سبزی، چاول، دال، وغیرہ۔ یہ چیزیں جب تک باہر ہیں، وہ مختلف غذائی آئٹم ہیں۔ لیکن جب مس ٹی اِن چیزوں کو کھاتی ہے تو وہ اُس کے اندر داخل ہو کر اُس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔
یہ تبدیلی (conversion) کا ایک واقعہ ہے، جب کہ ایک مادی چیز تبدیل ہو کر ایک شخص کے جسم کا جز بن جاتی ہے۔ تبدیلی کے اِس واقعے کا ایک اور پہلو ہے۔ یہ پہلو شعور سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک با شعور آدمی جب یہ سوچتاہے کہ یہ مادی چیزیں کیسے بنیں، کیوں ایسا ہے کہ دو بہ ظاہر الگ الگ چیزوں میں کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ کس طرح یہ ممکن ہوا کہ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے لائف سپورٹ سسٹم (life-support system) کا ذریعہ بن گئیں۔
جب ایک شخص اِس طرح سوچتا ہے تو ہ تخلیق کی معنویت (meaningfulness)کو دریافت کرتاہے۔ وہ تخلیق میں خالق کو دیکھ لیتاہے— یہی وہ تجربہ ہے جو انسان کے لیے ذہنی اور روحانی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ مادی چیزیں انسان کے باہر صرف مادی چیزیں ہیں، لیکن انسان کے ذہن میں آکر وہ شعوری ارتقا میں ڈھل جاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ مریم میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لتبشر بہ المتقین (
یہ اچھی خبر اُن افراد کے لیے ہے جو دنیا کی زندگی میں تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ جنت عمومی طورپر ہر انسان کو نہیں ملے گی، وہ صرف اُس انسان کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں تقویٰ کا ثبوت دے(
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، جنت کی بشارت متقی انسانوں کے لیے ہے۔ متقی کا لفظی مطلب ہے — ڈرنے والا یا بچنے والا۔ ڈرنا یا بچنا کیا ہے، یہ دراصل حساسیت (sensitivity) کا ایک ظاہرہ ہے۔ جب آدمی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ باشعور ہوجائے تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں بہت زیادہ حساس (sensitive) ہوجاتاہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا رول اِسی حساسیت کا ہے۔ آدمی جس چیز کے بارے میں حساس نہ ہو، وہ اس کو نظر انداز کرے گا، اور جس چیز کے بارے میں وہ حساس ہو، وہ چیز اس کا کنسرن (concern) بن جائے گی۔ عین اپنے مزاج کے مطابق، اُس کو وہ سب سے زیادہ قابلِ توجہ چیز سمجھنے لگے گا۔
قرآن کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچائے۔ وہ اپنے شعورکو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ اپنی زندگی میں خدا کی اطاعت ہی اُس کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بن جائے، کوئی دوسری چیز اس کی حساسیت کا مرکز نہ بنے۔
ایسے آدمی کا حال کیا ہوگا، اُس کو قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ولا تقفُ ما لیس لک بہ علم، إن السمع والبصر والفؤاد کلُّ أولئک کان عنہ مسؤلاً(
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
قرآن کے مطابق، یہی وہ منصوبۂ تخلیق (creation plan) ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کرکے اس کو محدود مدت کے لیے سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا گیا ہے۔ سیارۂ ارض انسان کے لیے کوئی عیش گاہ نہیں ہے، وہ مذکورہ مقصد کے لیے مقامِ انتخاب (selection ground) ہے۔ یہاں وہ افراد چُنے جارہے ہیں جو اپنی اعلیٰ صفات کی بنا پر جنت جیسی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ یہی بات قرآن کی سورہ الملک میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیُّکم أحسن عملاً (
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، وہ وسیع تر تقسیم (division) میں دوہیں— مادی دنیا اور انسان۔ مادی دنیا سے مراد وہ پوری وسیع کائنات ہے جس کو نیچر (nature)کہاجاتاہے۔ مادی دنیا مکمل طورپر خدا کے مقرر کئے ہوئے قانون (divine laws) کے تحت کام کررہی ہے۔ وہ خدا کے قانون سے ادنی انحراف نہیں کرتی۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پوری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انتخاب کی آزادی (freedom of choice) عطا کی گئی ہے۔ انسان کو کامل اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنی سوچ کے مطابق، اپنے قول وعمل کا فیصلہ کرے۔ یہ بات قرآن کی مختلف آیتوں میں بتائی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالاں کہ اُسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے، اور سب اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ (
قرآن کی اِس آیت میں لفظ ’اسلام‘ (submission) استعمال کیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی جو اطاعت بقیہ کائنات سے جبری (compulsory) طورپر مطلوب ہے، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ اِسی اطاعت کو وہ کامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
انسان کو سننے کی طاقت، دیکھنے کی طاقت اور سوچنے کی طاقت اِس لیے دی گئی ہے، تاکہ انسان اُن کا استعمال کرکے اپنے لیے اُس صحیح روش کو جان سکے جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم کہاگیاہے۔ صراطِ مستقیم سے ہٹنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال نہیں کیا۔ ایساآدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ مواخذہ (accountable) قرار پائے گا، کو ئی بھی عذر اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا
اِسی طرح حیاتِ انسانی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کبر (arrogance) کی نفسیات سے بچائے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: ولا تمش فی الأرض مرحاً، إن اللہ لا یحب کلَّ مختال فخور(
قرآن کی اِس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لیے سب سے بُری اخلاقی صفت کیا ہے، وہ کبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبر تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے برعکس، تواضع (modesty) تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو متواضع ہو اور کبر کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ جو خوش گوار یا نا خوش گوار تجربات پیش آتے ہیں، وہ صرف ابتلا (test) کے لیے ہوتے ہیں، مگر انسان ایسے واقعات کو منفی معنی میں لے لیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ خوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میںمبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ برتری (superiority complex) کی نفسیات میں۔ اِس کے برعکس، اگر اُس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أہانن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ کم تری (inferiority complex) کی نفسیات میں (
قرآن کے مطابق، یہ دونوں چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی خوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ اور اگر اس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ جو انسان اِس طرح معتدل شخصیت کا ثبوت دے، اس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس کو موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلہ مل جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: إن ہذا لہو الفوز العظیم۔ لمثل ہذا، فلیعمل العاملون (
واپس اوپر جائیں
بعد کے زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکَلَۃُ إلی قصعتہا۔ فقال قائلٌ: و من قلۃٍ نحن یومئذ۔ قال بل أنتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعنّ اللہ من صدور عدوکم المہابۃ منکم، ولیقذفنّ فی قلوبکم الوَہْن۔ قیل وما الوہن یا رسول اللہ۔ قال: حب الدنیا وکراہیۃ الموت (أبو داؤد، رقم الحدیث: 4297) حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ قومیں تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں، جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر ٹوٹتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا، کیا اِس لیے کہ اُس وقت ہم لوگ کم تعداد میں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اُس وقت تم لوگ بہت زیادہ ہو گے، مگر تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دل سے تمھاری ہیبت نکال دے گا، اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘ پیدا کردے گا۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول، ’وہن‘ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت، اور موت کو ناپسند کرنا۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمانوں میں یہ مسئلہ اگرچہ خارجی اعتبار سے پیداہوگا، لیکن اُس کا اصل سبب تمام تر داخلی ہوگا۔ امت کے اِس داخلی مسئلے کو حدیث میں ’’وہن‘‘ کہاگیا ہے۔ وہن کا لفظی مطلب ہے— ضعف (weakness) ۔
یہ ضعف (کمزوری) کیاہوگا، اِس کو بھی حدیث میں بتادیاگیا ہے۔ وہ یہ کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کا کنسرن (concern) یہ نہیں رہے گا کہ وہ دین کے تقاضے پورے کریں۔ اُن کا کنسرن صرف یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں مادی اعتبار سے اپنی جگہ بنائیں۔ موت کے بعد پیش آنے والی صورتِ حال اُن کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور نہ ہوگی، بلکہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور صرف یہ ہوگا کہ وہ موت سے پہلے کی زندگی میں کس طرح مادی کامیابی اور مادی ترقی حاصل کریں۔ ’’دنیا پرستی اور آخرت فراموشی‘‘ کے اسی مزاج کو حدیث میں وہن کہاگیا ہے۔ اِس مزاج کے بعد امتِ مسلمہ سے خدا کی نصرت اٹھ جائے گی، اور خدا کی نصرت اٹھنے ہی کا وہ نتیجہ ہوگا جس کی ایک تصویر مذکورہ روایت میں نظر آتی ہے۔ ایسی حالت میں اِس مسئلے کا حل دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج نہ ہوگا، بلکہ اُس کا حل صرف یہ ہوگا کہ اپنی داخلی حالت کی اصلاح کرکے د وبارہ اپنے آپ کو نصرتِ الٰہی کا مستحق بنایا جائے۔
لوگوں کے دلوںمیں تمھاری ہیبت باقی نہ رہے گی — ہیبت یا مہابت کا ترجمہ عام طور پر خوف کیا جاتاہے، مگر خوف ایک منفی لفظ ہے، جب کہ ہیبت تمام تر ایک مثبت لفظ ہے۔ اِس حدیث میں ہیبت سے مراد سیاسی ہیبت نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ ہیبت ہے جو اعلیٰ قسم کے مثبت اوصاف سے پیدا ہوتی ہے۔ ہیبت سے مراد وہ خوف نہیں ہے جو کسی درندہ جانور کو دیکھ کر آدمی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ ہیبت یا مہابت سے مراد وہ رعب و دبدبہ (profound reverence) ہے جو کسی فرد یا گروہ کے اندر اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ وہ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے دوسروں کے مقابلے میں برتر حیثیت حاصل کرلے۔قدیم زمانے میں مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں یہ ہیبت حاصل تھی، جب کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے دوسروں کے مقابلے میں اپنی یہ ہیبت مکمل طور پر کھو دی ہے۔ اِس فرق کا سبب یہ نہیں ہے کہ قدیم زمانے میں مسلمانوں کے پاس ’’لشکرِ جر ّار‘‘ کی طاقت موجود تھی، بلکہ اِس کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانے کے مسلمان اپنی نظریاتی برتری، اصول پسندی، نفع بخشی اور اپنی اخلاقی عظمت کے اعتبار سے، دوسروں کے مقابلے میں اعلیٰ سطح پر پہنچے ہوئے تھے۔
اِس حدیث میں بعد کے زمانے کے مسلمانوں کی جس حالت کا ذکر ہے، وہ کوئی پُراسرار بات نہیں، وہ ایک تاریخی حقیقت کا بیان ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، ہر قوم کی بعد کی نسلوں میں زوال (degeneration) آتا ہے۔ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، ایسا ہوتا ہے کہ دورِ زوال میں پیدا ہونے والی نسلیں مثبت اوصاف سے محروم ہوجاتی ہیں۔ پہلے اگر وہ دوسری قوموں کو دینے والے (giver) تھے، تو اب وہ دوسری قوموں سے لینے والے (taker) بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر اُن کے افراد میں اعلیٰ حوصلگی تھی، تو اب اُن کے افراد پست حوصلگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پہلے اگر اُن کے اندر تخلیقی فکر تھی، تو اب اُن کے افراد صرف تقلیدی فکر کے حامل بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے دلوں میں دوسروں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہوتا تھا، تو اب ان کے دل دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کا جنگل بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے اندر صبر وتحمل کے اوصاف تھے، تو اب ان کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہو کر لڑنے لگتے ہیں۔
حدیث میں ’کراہیۃ الموت‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمان موت سے ڈرنے لگیں گے۔اِس کا ثبوت موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی حالت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر اب وہ وقت مسلّمہ طورپر آچکا ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔ لیکن اِسی کے ساتھ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ موت سے بالکل بے خوف ہوگئے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر اُن کی مسلح تنظیمیں قائم ہیں۔ اِن مسلّح تنظیموں میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ وہ جگہ جگہ جہاد کے نام پر مسلح کلچر چلائے ہوئے ہیں۔ بالا کوٹ کے شہیدوں اور علمائِ ہند کی قربانیوں سے لے کر موجودہ فلسطین اور افغانستان تک ہر جگہ مسلمان بڑے پیمانے پر مسلح کلچر چلائے ہوئے ہیں، حتی کہ وہ بے خوف ہو کر خود کش بم باری کرتے ہیں۔ وہ جگہ جگہ پُرتشدد مظاہرے کرتے ہیں، خواہ اس کے جواب میں اُن کو فریق ثانی کی طرف سے بندوق کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑے۔
ایسی حالت میں ’’کراہیتِ موت‘‘ کی تشریح یہ نہیں ہوسکتی کہ مسلمان بعد کے دور میں لڑنا مرنا چھوڑ دیں گے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ بعد کے دور کے مسلمانوں میں دینی زوال کے نتیجے میں مبنی بر موت سوچ ختم ہوجائے گی، آخرت رخی زندگی کا حقیقی تصور اُن کے اندر باقی نہیں رہے گا۔ موت سے وابستہ حقائق، جنت اور جہنم اور فکرِ آخرت جیسی چیزیں ان کی شخصیت کا حصہ نہیں رہیں گی۔اِس حدیثِ رسول سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہیبت‘‘ کا تعلق تعداد سے نہیں ہے، بلکہ کردار سے ہے۔ تعداد خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، وہ مسلمانوں کے لیے عزت ووقار کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم افراد میں حقیقتِ موت کا شعور پیدا کیا جائے، جس کا دوسرا نام آخرت رخی سوچ ہے۔ آخرت رخی سوچ ہی سے افراد میں وہ اعلیٰ کردار بنتا ہے جو اُن کو لوگوں کے درمیان عزت ووقار کادرجہ عطا کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں
کچھ بچے ایک جگہ بیٹھ کر کھیل رہے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ تم لوگ کیا کررہے ہو۔ بچوں نے کہا کہ جھوٹ موٹ کھچڑی پکارہے ہیں۔ پوچھنے والے نے کہا کہ جب جھوٹ موٹ ہی پکانا ہے تو کھچڑی کیوں پکاؤ، پلاؤ پکاؤ۔
یہ لطیفہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ موجودہ زمانے کا ہر رہنما احیائِ ملت کی باتیں کرتاہے، مگر اُن کا احیائِ ملت کا تصور رومانی خواب کے سوا کچھ اورنہیں۔ یہ سب کے سب رہنما ایسی چیزوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں جو کبھی وقوع میں آنے والی نہیں۔ یہ رہنما عام طور پر درج ذیل قسم کے خوش نما الفاظ بولتے ہیں:
مسلم تہذیب کا احیا (Revival of Muslim Civilization)
مسلم ایمپائر کا احیا (Revival of Muslim Empire)
مسلم خلافت کا احیا (Revival of Muslim Khilafah)
مسلم عظمت کا احیا (Revival of Muslim Glory)
مسلم تاریخ کا احیا (Revival of Muslim History)
یہ نشانے سب کے سب قومی نشانے ہیں اور قومی نشانے کبھی اِس دنیا میں پورے نہیں ہوتے، کیوں کہ قومی نشانوں کو کبھی خدا کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ مسلم امت کا نشانہ صرف ایک ہے، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اِس کو ’’شہادت علی الناس‘‘ کہاگیا ہے، یعنی اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانا۔ یہی دعوت الی اللہ امتِ مسلمہ کا واحد مشن ہے۔ یہ مشن اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک غیر سیاسی مشن ہے، اور اپنے طریقِ کار کے اعتبار سے، پوری طرح ایک پُر امن مشن (peaceful mission)۔ اِس دعوتی مشن کے لیے اللہ کی طرف سے یقینی نصرت کا وعدہ ہے۔ یہ مشن تمام انسانوں کے لیے ہے، نہ کہ کسی خاص قوم کے لیے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے بہت بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی گئیں، لیکن ظاہری دھوم کے باوجود مثبت نتیجے کے اعتبار سے اُن کا کوئی حقیقی حاصل نہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِن تحریکوں کا نقطۂ آغاز (starting point) درست نہ تھا۔ اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ سب سے پہلے افراد کا ذہن بنایا جائے۔ خارجی نوعیت کی سرگرمیوں سے آغاز کوئی آغاز نہیں۔
مسلمانوں کی اصلاح کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان کے ذہنی شاکلہ (mindset) کو بدلا جائے۔ مائنڈ سیٹ کیا ہے، اس کا مطلب ہے :
A fixed set of attitudes
تاریخی اعتبار سے دیکھئے تو قدیم عرب میں لوگوں کا جو مائنڈ سیٹ تھا، اس کو قبائلی مائنڈ سیٹ (tribal mindset) کہا جاسکتاہے۔
اِس کے بعد دورِ اقتدار آیا۔ اُس زمانے میں، مسلمانوں کے اندر ایک نیا مائنڈ سیٹ بنا۔ اِس کو سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset) کہاجاسکتاہے۔ یہ مائنڈ سیٹ تقریباً اٹھارھویں صدی کے آخر تک چلتا رہا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں، مسلمانوں کا سیاسی اور تہذیبی دبدبہ ختم ہوگیا۔اِس کے بعد مسلمانوں کے اندر ردِّ عمل کی نفسیات پیدا ہوئی۔ اب ان کے اندر جو مائنڈ سیٹ بنا، اس کو انتقامی مائنڈ سیٹ (revengeful mindset) کہاجاسکتاہے۔
یہی انتقامی مائنڈ سیٹ آج تقریباً تمام دنیا کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ شکایت، نفرت، تشدد، خود کش بم باری سب اِسی مائنڈ سیٹ کے عملی مظاہر ہیں۔ اب اکیسویں صدی میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جو کام کرنا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ اُن کے اندر دوبارہ وہی مائنڈ سیٹ پیدا کیا جا ئے جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں پایاجاتاتھا، یعنی دعوتی مائنڈ سیٹ۔ یہی مسلمانوں کی اصلاح کا صحیح آغاز ہے۔ اِسی طرح کام کرنے سے مسلمانوں کے اندر حقیقی نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام خیال یہ ہے کہ وہ ’’اغیار‘‘ کی سازش اور تشدد کا شکار ہیں۔ مگر قرآن یہ کہتے ہوئے اِس نظریے کو رد کررہا ہے کہ — اللہ ہرگز منکروں کو مومنوں پر کوئی راہ نہیں دے گا:
And never will God allow non-believers to harm the believers. (
پھر مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والی موجودہ صورتِ حال کا سبب کیا ہے۔ قرآن ایک اور آیت میں اُس کا جواب اِس طرح دیتاہے—اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے، وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں ہی کے سبب سے ہے:
Whatever misfortune befalls you is of your own-doing (
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ ’’اغیار‘‘ کی طرف سے جو مسائل پیش آرہے ہیں، اُس کا اصل سبب کیا ہے۔ اِس کا جواب قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے — اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، تم اس کو لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگرتم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا:
O Prophet, deliver whatever has been sent down to you by your Lord. If you do not do so, you will not have conveyed His message. God will protect you from the people. (
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کی عصمت (protection) کا معاملہ دعوت الی اللہ (Dawah work) سے جڑا ہوا ہے، یعنی اہلِ ایمان اگر دعوہ ورک کریں تو اُن کو خدا کی طرف سے پروٹکشن ملا رہے گا۔ اگر وہ دعوہ ورک چھوڑ دیں، تو خدا کا پروٹکشن اُن سے اٹھ جائے گا۔ اہلِ ایمان کے مسائل کا حل نہ پروٹسٹ ہے اور نہ ٹکراؤ۔ اہلِ ایمان کے مسئلے کا واحد حل دعوہ ورک ہے۔ کوئی بھی دوسری تدبیر اِس معاملے میں اہلِ ایمان کے لیے ہرگز کار گر نہیں ہوسکتی:
Dawah work guarantees divine protection of Muslim Ummah.
حدیثِ رسول کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو عالمی ادخالِ کلمہ کی ذمے داری ادا کرنا تھا، یعنی گلوبل دعوہ ورک۔ اِس گلوبل دعوہ ورک کے لیے ایک گلوبل انفراسٹرکچر درکار تھا۔ مسلمان خود اس گلوبل انفراسٹرکچر کو وجود میں نہ لاسکے۔ اِس کے بعد خدا نے سیکولر قوموں سے یہ کام لیا کہ وہ ایک گلوبل انفراسٹرکچر ڈیولپ کریں۔ سیکولر قوموں کے اِس رول کی پیشین گوئی خود حدیثِ رسول میں کردی گئی تھی۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں سیکولر لوگوں کے ذریعے اپنے دین کی تائید کا انتظام کرے گا (إن اللہ لیؤیدہذا الدین بالرجل الفاجر)۔
مسلمانوں کی ناکامی کے بعد سیکولر قوموں کے ذریعے اِس گلوبل انفراسٹرکچر کا وجود میں آنا، اِسی حدیثِ رسول کے مطابق تھا۔ مسلمانوں پر فرض تھا کہ وہ اِس راز کو سمجھیں اور ماڈرن انفراسٹرکچر کو گلوبل دعوہ ورک کے لیے استعمال کریں۔ لیکن بعض اسباب سے مسلمان اِس راز کو نہ سمجھ سکے اور خود ساختہ اِشوز کو لے کر لوگوں سے رقابت (rivalry) قائم کرلی، حتی کہ وہ اُن کے خلاف تشدد کرنے لگے۔
مسلمانوں کی یہ روش خدا کی اسکیم کے خلاف تھی۔ اب مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، وہ از سرِ نو اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
وہ دوسری قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں، نہ کہ اپنا حریف (rival) ۔ وہ جدید تہذیب کے ذریعے حاصل ہونے والے گلوبل انفراسٹرکچر کو لے کر عالمی سطح پر پر امن دعوہ ورک کو انجام دیں۔ مسلمانوں کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جو مسلمانوں کو موجودہ مسائل سے نجات دلانے والا ہو۔مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کے سوا ہر دوسری چیز کو اپنے لیے سکنڈری بنائیں۔ وہ دعوت کو اپنی زندگی کا واحدمشن قرار دیں۔اِس کے بعدہی ان کو دوبارہ خدا کی حفاظت ملے گی۔ اِسی میں اُن کے لیے دنیا کی حفاظت ہے اور اِسی میں ان کے لیے آخرت کی نجات مقدر ہے۔
واپس اوپر جائیں
تبلیغی جماعت کے سابق امیر مولانا انعام الحسن کاندھلوی (وفات: 1996 ء) نے کہا تھا کہ: ہماری تبلیغی تحریک ایک مسجد وار تحریک ہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کا یہ قول تبلیغی جماعت کی صحیح تصویر کو بتاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کی تحریک اصلاً مسلمانوں کی دینی اصلاح کی تحریک ہے، جومسجدوں کو بنیاد بنا کر چلائی جارہی ہے۔ مسجدوار تحریک کا مطلب ہے — مسجد اورینٹڈ موومنٹ (Masjid-oriented movement)۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو تحریکیں اٹھیں، وہ مختلف پہلوؤں سے اِسی قسم کی تحریکیں تھیں — مسجدوار تحریک، مدرسہ وار تحریک، ملت وار تحریک، تحفظ وار تحریک، مناظرہ وار تحریک، فخروار تحریک، سیاست وار تحریک، وغیرہ۔ اِس قسم کی تحریکوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان پھیلا ہوا ہے، اور اکیسویں صدی میں بھی اس قسم کی تحریکوں کا تسلسل جاری ہے۔
تحریکوں کی اِس طویل فہرست میں صرف ایک تحریک ہے جو غیر موجود ہے، اور وہ ہے دعوت وار تحریک۔ دعوت وار تحریک کے لیے قرآن میں دعوت الی اللہ کا لفظ آیا ہے، یعنی خدا کے بندوں کو خداکی طرف بلانا، تمام انسانوں کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کرنا۔ قرآن میں اِس دعوت وار تحریک کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً اِنذار، تبشیر، وغیرہ۔
دعوت الی اللہ، امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مشن ہے۔ یہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔ یہی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ یہی اب امتِ محمدی کا مشن ہے۔ اِسی دعوتی مشن کی انجام دہی پر امتِ محمدی کا امتِ محمدی ہونا متحقق ہوتاہے۔ امت اگر اِس دعوتی مشن کو انجام نہ دے تو اللہ کی نظر میں ٍٔ اس کا امتِ محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ یہ دعوتی مشن فرض علی الکفایۃ نہیں ہے، بلکہ وہ فرضِ عین ہے۔ امت کا ہر فرد جس طرح عبادت کو اپنے لیے فرض سمجھتاہے، اسی طرح امت کے ہر فرد کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق، اِس دعوتی مشن میں اپنے آپ کو شریک کرے۔
واپس اوپر جائیں
(Human Responsibility)
رسپانسبلٹی (responsibility) سے مراد وہی چیز ہے جس کو ڈیوٹی (duty) کہاجاتاہے۔ کہا جاتاہے کہ — انسان ایک سماجی حیوان ہے:
Man is a social animal
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے ہر فرد کے اوپر اپنی سوسائٹی کی نسبت سے کچھ ذمے داریاں ہیں (Individual’s duty towards his society) ۔
اِسی کے ساتھ انسان، نیچر کا ایک حصہ ہے۔ اِس اعتبار سے، ہر انسان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ نیچر کے معاملے میں اپنی ڈیوٹی کو ادا کرے۔ اِس طرح، انسانی ذمے داری کے دو پہلو ہیں— ایک، سوسائٹی کی نسبت سے۔ اور دوسرا، نیچر کی نسبت سے۔ انسانی ذمے داری کا یہ تصور مذہبی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔
تمام مذاہب میں انسان کی اِن دونوں ذمے داریوں کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اِس طرح، اسلام میں بھی اِن دونوں پہلوؤں کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
رسپانسبلٹی اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ آپ کو دوسروں سے جو کچھ ملتا ہے، آپ عملی طورپر اس کا اعتراف کرنا چاہیں تو اِسی سے وہ کردار وجودمیں آتاہے جس کو انسانی ذمے داری کہا جاتا ہے۔
سوسائٹی کی نسبت سے فرد کی ذمے داری
پہلے سوسائٹی کو لیجئے۔ پچھلے زمانے میں سوسائٹی سے مراد آپ کا قریبی سماج ہوتا تھا۔ اب ہم الکٹرانک دور میںجی رہے ہیں، اِس لیے اب سوسائٹی کا لفظ وسیع ترسماج کے ہم معنی بن گیا ہے۔ اب سوسائٹی سے مراد قریبی سوسائٹی بھی ہے، اور الکٹرانک سوسائٹی بھی۔
سماجی زندگی کا اخلاقی معیار یہ ہے کہ ہر فرد اپنی سوسائٹی میں اُس کا دینے والا ممبر (giver member) بن کررہے۔ وہ سوسائٹی میں اِس طرح رہے کہ اُس سے دوسروں کو کچھ نفع مل رہاہو۔ وہ سوسائٹی کے حق میں اپنی ڈیوٹی کو ادا کرے۔ مثلاً وہ دوسروں کے لیے کوئی پرابلم پیدا نہ کرے۔ وہ دوسروں سے کئے ہوئے عہد کو لازماً پورا کرے۔ وہ دوسروں کے جان ومال میں اُنھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ وہ سماج میں ایک قابل پیشین گوئی کردار والا انسان (predictable character) بن کر رہے، یعنی سماج اُس سے جائز طور پر جو امید رکھے، اُس امید میںوہ پورا اترے۔
ایک واقعہ اِس معاملے کو اچھی طرح واضح (illustrate) کرتاہے۔شکاگو (Chicago) امریکا کا ایک شہر ہے۔ شکاگو کے لفظی معنی جنگلی پیاز (wild onion) کے ہیں۔ پہلے یہ شہر اپنی گندگی اور جرائم اور ناقص مکانات کے لیے مشہور تھا۔ اِس لیے اس کا یہ نام پڑ گیا۔ آج شکاگو ایک اعلیٰ درجے کا خوب صورت شہر ہے۔
شکاگو کی جدید تاریخ رچرڈڈیلی (Richard J. Daley) کی طرف منسوب ہے۔ وہ 1902 میں پیدا ہوا، اور 1976 میں اس کی وفات ہوئی۔ 1955 میں وہ شکاگو کا میئر منتخب ہوا، اور آخر عمر تک وہ شکاگو کا میئر رہا۔ میئر بننے کے بعد اس نے از سرِ نو شہر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس نے قدیم شکاگو کو ہر اعتبار سے نیا شکاگو بنا دیا۔
رچرڈ ڈیلی کی کامیابی کا خاص راز یہ تھا کہ اس نے شکاگو کی جدید تعمیر کو وہاں کے باشندوں میں سے ہر ایک کا ذاتی مسئلہ بنا دیا۔ اُس نے ہر ایک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ یہ کام مجھے کرنا ہے، اور میں ہی اس کو انجام دوں گا۔ اس نے شکاگو میں بسنے والے ہر شخص کو یہ ماٹو دیا— میںاِس کو کروں گا:
I will do it.
ایک فرد کے لیے سماج میں جینے کے دو اصول ہیں— ایک، یہ کہ وہ سماجی ذمے داریوں کو اپنے اوپر لے۔ دوسرا، یہ کہ وہ سماجی ذمے داریوں کو دوسروں کے اوپر ڈالے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک ہے، آئی ول ڈو اسپرٹ (I will do spirit) کے ساتھ سماج میں رہنا۔ اور دوسرا ہے، دے وِل ڈو اِٹ اسپرٹ (They will do it spirit) کے ساتھ سماج میں رہنا۔ اِن دونوں طریقوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سماج کے افراد آئی ول ڈو اٹ اسپرٹ (I will do it spirit) کے ساتھ رہیں، وہ سماج ترقی کرے گا۔ اس کے ہر شعبے درست طورپر کام کریں گے۔ اِس کے برعکس، جس سماج کے افراد دے وِل ڈو اِٹ اسپرٹ (They will do it spirit) کے ساتھ رہیں، وہ سماج غیر ترقی یافتہ سماج ہوگا۔ ایسے سماج کے ہر شعبے بگاڑ کا شکار ہوجائیں گے۔ آئی ول ڈو اٹ (I will do it) ذمے دار شخصیت کی علامت ہے اور دے وِل ڈو اِٹ (They will do it) غیر ذمے دار شخصیت کی علامت۔
سماجی رسپانسبلٹی کا تصور ہر فرد کو ڈیوٹی کانشس (duty-conscious) بناتا ہے۔ ایسے سماج میں ہر فرد اس کا گور ممبر (giver member) بن کر رہنے کی کوشش کرتا ہے، نہ کہ صرف ٹیکر ممبر (taker member)۔ اِس کے برعکس، جس سماج میں لوگوں کے اندر رسپانسبلٹی کا احساس نہ ہو، وہاں کا ہر فرد رائٹ کانشس (right-conscious) بن جائے گا۔ ایسے سماج کا ہر فرد، سماج سے اپنے لیے لینا چاہے گا، لیکن خود سماج کو دینے کی اسپرٹ اس کے اندر موجود نہ ہوگی۔
رسپانسبلٹی پر مبنی سماجی اخلاقیات کی معقولیت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سماج اپنے وسیع تر مفہوم میں، ہر فرد کو بہت زیادہ دے رہاہے۔ کوئی فرد سماج کو جو کچھ دیتاہے، وہ اُس سے بہت کم ہے جو اُس کو سماج سے مل رہا ہے۔ کوئی فرد اگر پورے معنوں میں سماج کا گور ممبر بن جائے، تب بھی سماج کے لیے اُس کا عطیہ ایک فی صد سے بھی کم ہوگا، جب کہ سماج نے اس کو جو کچھ دیاہے، وہ
سوسائٹی صرف اُس قریبی مجموعۂ انسانیت کا نام نہیں ہے جہاں ایک فرد پیداہوتا ہے، بلکہ سوسائٹی ایک طویل سلسلۂ تاریخ کانام ہے۔ سوسا ئٹی کا دائرہ، پہلے انسان (آدم) سے لے کر، آج کے انسان تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس پورے مجموعۂ انسانیت نے اپنی لمبی تاریخ کے دوران جو کچھ کیا ہے، اس کو تہذیب کا ارتقا کہا جاتاہے۔ تہذیب کے اِس ارتقا میںہر فرد اپنا حصہ پارہا ہے۔ آج ایک فرد جس مہذب دنیا (civilized world) میں رہ رہا ہے، وہ دنیا ہمیشہ سے موجود نہ تھی۔ وہ پوری انسانیت کی لمبی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ انسان اپنے پیروں پر چلتا تھا، پھر لمبے تجرے کے بعد انسان نے پہیہ بنایا۔ اِس طرح، انسان کے لیے پاؤں پر چلنے کے بجائے گاڑی سے چلنے کا دور شروع ہوا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد کشتی بنائی۔ اِس طرح دریاؤں اور سمندروں کو بحفاظت پار کرنے کا دور شروع ہوا۔ پھر لمبے تجربے کے بعد انسان نے اسٹیم پاور دریافت کیا۔ اِس کے بعد ریلوے ٹرین اور اسٹیم شپ کا دور شروع ہوا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد کار بنائی اور انسان تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرنے کے دور میں پہنچا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد ہوائی جہاز بنایا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ انسان فضا میں تیز رفتاری کے ساتھ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے اور جنگل اور پہاڑ اور سمندر اور بستیاں کوئی بھی چیز اُس کے سفر میں رکاوٹ ثابت نہ ہوں۔
یہ انسانیت کی جدوجہد کے صرف ایک پہلو کی چھوٹی سی مثال ہے۔ اِس طرح پورا مجموعہ انسانیت ہزاروں سال تک مسلسل جدوجہد کرتا رہا، یہاں تک کہ لاکھوں کی تعداد میں زندگی کے بے شمار سامان وجود میں آئے، جن کے مجموعے کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے۔ موجودہ تہذیب کو وجود میں لانے میں پورے مجموعۂ انسانیت کا حصہ ہے۔ ایک سُوئی (needle)سے لے کر ایک ترقی یافتہ شہر تک، ہر چیز میں براہِ راست طورپر پوری انسانیت کی مجموعی جدوجہد اور قربانی شامل ہے۔
یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جو انسانی رسپانسبلٹی کی اخلاقی بنیاد ہے۔ جب ایک فرد اِس حقیقت کو دریافت کرتاہے کہ آج وہ جس ترقی یافتہ دنیا میں رہ رہا ہے ، اُس کو وجود میں لانے کے لیے پوری انسانیت اس میں شریک ہے، اِس معاملے میں وہ پوری انسانیت کا مقروض ہے۔ جب ایک شخص اِس تاریخی حقیقت کا اعتراف کرکے اس کے مطابق، زندگی گزارے تو اِسی کا نام سوسائٹی کے حق میں اپنی ذمے داری کو ادا کرنا ہے۔ گویا کہ انسانی رسپانسبلٹی ایک اعتبار سے، پوری نوعِ انسانی (mankind) کے کنٹری بیوشن (contribution)کا اعتراف ہے، اور دوسرے اعتبار سے، وہ اپنے انفرادی دائرے میں اس کی محدود قیمت ادا کرنا ہے۔
انسانی ذمے داری کی اِسی نوعیت کی بنا پر قرآن میں اس کو انسان کی طرف سے انسان کو اس کے حقوق ادا کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إن اللہ یأمرکم أن تؤدّوا الأمانات إلی أہلہا:
God commands you to hand back your trusts to their rightful owners. (
اسلام کے اِس تصور (concept) کے مطابق، ایک فرد جب انسانی سماج کے حق میں اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں کو کچھ دیتا نہیں ہے، وہ صرف یہ کرتا ہے کہ دوسروں سے ملے ہوئے میں سے کچھ حصے کو وہ اُن کی طرف لوٹاتا ہے۔ یہ تصور ہر فرد کے اندر اپنی ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے طاقت ور محرک (strong incentive) پیدا کرتاہے، اتنا زیادہ طاقت ور محرک کہ اس سے زیادہ طاقت ور محرک اور کوئی نہیں۔
نیچر کی نسبت سے فردکی ذمے داری
انسانی ذمے داری کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نیچر سے تعلق رکھتا ہے۔ نیچر سے مراد پورا عالمِ مادیت (entire physical world) ہے۔ یہ عالم جس کے اندر انسان اپنے آپ کو پاتا ہے، وہ انسان کے لیے اتنا زیادہ موزوں ہے جیسے کہ وہ اُسی کے لیے بنایا گیا ہو۔ اِسی لیے ایک سائنس داںنے اس کو کسٹم میڈ ورلڈ (custom-made world) کہا ہے۔ اِس دنیا کے اندر انسان کی ضرورت کی تمام چیزیں نہایت متناسب انداز میں موجود ہیں۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: واٰتاکم من کل ما سألتموہ:
God has given you all that you asked of Him. (
انھیں تمام چیزوں کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر موجودہ دنیا میں انسان کی زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔
ہماری یہ موافق دنیا اتفاقاً اِس طرح نہیں بن گئی ہے۔ اُس کو بنانے والے نے اُس کو بلا شبہہ شعوری منصوبے کے تحت اِس طرح بنایا ہے کہ وہ ہر پہلو سے عین ہماری ضرورتوں کے موافق ہے۔ اِس طرح کی ایک موافق دنیا ہم خود وجود میں نہیں لاسکتے تھے۔ یہ دنیا ہم کو خالق کی طرف سے انتہائی استثنائی طورپر بطور خصوصی عطیہ دی گئی ہے۔قرآن میں موجودہ دنیا کے اِس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم فطری حالت پر باقی رکھتے ہوئے اس کا استعمال کرو، تم اُس میں ہر گز کوئی بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے— ولا تفسدوا فی الأرض بعد إصلاحہا:
Do not corrupt the land after it has been set in order (
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ہماری دنیا ایک اصلاح یافتہ دنیا ہے۔ وہ پیشگی طورپر انسان کی ضرورتوں کے مطابق، بنائی گئی ہے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اِس دنیا کو اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کرے، لیکن کسی انسان کو یا کسی انسانی مجموعے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دنیا کے فطری نظام کو بگاڑے۔ وہ دنیا کے فطری نظام میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا کرے جس کے بعد وہ اگلی نسلوں کے لیے قابلِ استعمال نہ رہے۔ یہ انسان کی وہ ذمے داری ہے جو نیچر کے اعتبار سے، انسان کے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں یہ ہدایت دی گئی ہے— کلوا واشربوا ولا تسرفوا :
Eat and drink, but do not be wasteful (
مثلاً انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین میں واقع پانی کے ذخیرے کو استعمال کرے، لیکن اُس کو یہ حق نہیں کہ وہ پانی میں کسی قسم کی آلودگی (pollution) پیدا کرکے اس کو انسان کے لیے ناقابلِ استعمال بنا دے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی سطح پر اُگے ہوئے درختوں کو استعمال کرے، لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ زمین کے درختوں کو کاٹ کر زمین کی ہریالی (greenery)کو ختم کردے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی زرخیزی کو زراعت کے لیے استعمال کرے، لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ زمین کے غلط استعمال سے اس کو ناقابلِ پیداوار بنادے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی فضا کو استعمال کرے، لیکن انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے کسی غیر فطری عمل کے ذریعے وہ خرابی (evil) پیدا کرے جس کو فضائی کثافت کہاجاتاہے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ یہاں اپنی انڈسٹری لگائے، مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ یہاں ایسی انڈسٹری لگائے جو اوزون کے زندگی بخش غلاف (layer) کو ڈیمیج کردے، وغیرہ۔
نیچر انسان کے لیے ایک بے حد قیمتی تحفہ ہے جو انسان کو بالکل فری دیاگیا ہے، لیکن انسان اِس نیچر کا مالک نہیں، وہ اُس کا امین ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ نیچر کے بارے میں خالق کے منصوبے کو جانے اور وہ اس کو خالق کے منصوبے کے مطابق، استعمال کرے۔
خالق کا وہ منصوبہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ خالق نے نیچر کی تمام چیزوں کو انسانی خواہش کے مطابق (according to human greed) نہیں بنایا، بلکہ خالق نے نیچر کی تمام چیزوں کوانسانی ضرورت کے مطابق (according to human need) بنایا ہے۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— إناّ کلّ شیٔ خلقناہ بقدر :
We have created everything in due measure (
یہ تخلیقی منصوبہ انسان کے لیے لازم کرتاہے کہ وہ ایک طرف، اپنی حقیقی ضرورتوں کا تعین کرے اور دوسری طرف، وہ نیچر کی چیزوں کو اُن کی تخلیقی نوعیت کے اعتبار سے جانے، پھر وہ اِن دو طرفہ تقاضوں کے مطابق، اپنی زندگی کی پلاننگ کرے۔ اِس کے برعکس، انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی خواہش کی بنیاد پر نیچر کا اندھا دھند استعمال کرے، کیوں کہ ایسا کرنے سے نیچر کا متناسب نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی خواہشیں (desires) لامحدود ہیں۔ اِس کے برعکس، نیچر کی تمام چیزیں محدود ہیں۔ ایسی حالت میں انسان اگر خواہشوں (desires) کی بنیاد پر اپنا پلان بنائے، تو اس کا پلان خالق کے پلان کے مطابق نہ ہوگا۔انسان اِس قسم کے ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مشین دو کاگ (cog) پر چل رہی ہے— ایک، ہیومن کاگ (human cog) اور دوسرا، ڈوائن کاگ (divine cog) ۔ ڈوائن کاگ کی اپنی ایک مقرر رفتار (pace) ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے کاگ کو بھی اُسی رفتار پر چلائے جو ڈوائن کاگ کی رفتار ہے۔ یہ واضح ہے کہ ڈوائن کاگ طاقت ور (strong) ہے اور ہیومن کاگ کمزور(weak) ۔ اگر انسان اپنے کاگ کی رفتار کو اپنی خواہش کے مطابق، چلانے لگے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ڈوائن کاگ تو اپنی جگہ باقی رہے گا، لیکن ہیومن کاگ یقینی طورپر ٹوٹ جائے گا۔ اِس کے نتیجے میں انسان کی زندگی ایسی تباہی سے دوچار ہوگی جس کی تلافی کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
خلاصۂ کلام
ہیومن رسپانسبلٹی کا مطلب ہے — ہیومن ڈیوٹی۔ حضرت مسیح نے کہا تھا:
Render therefore to Caesar the things that are Caesar’s, and to God the things that are God’s. (Luke 20: 25)
یہی بات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں کہی ہے— أدّوا إلیہم حقہم، وسلوا اللہ حقکم (صحیح البخاری: رقم الحدیث: 7052 ):
Give to them what is due to them. And ask your dues from God.
یہ دونوں اقوال، فرد اور سوسائٹی کے درمیان صحیح تعلق کو بتاتے ہیں۔ فرد اور سوسائٹی کے درمیان صحت مند تعلق اُس وقت قائم ہوتاہے جب کہ فرد کے اندر رسپانسبلٹی کی اسپرٹ پوری طرح زندہ ہو۔ جب ایسا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فرد کا فوکس اپنی ذمے داریوں پر ہوگا۔ فرد یہ چاہے گا کہ سوسائٹی کا جو حق اُس کے اوپر آتا ہے، اس کو وہ پوری طرح ادا کرے۔جہاں تک فرد کے اپنے حقوق کی بات ہے، وہ کسی مطالبے سے نہیں ملتے، بلکہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے ملتے ہیں۔ یہی اسپرٹ آف رسپانسبلٹی اِس بات کی ضامن ہے کہ فرد اور سماج کے درمیان ٹکراؤ کی صورتِ حال نہ پیدا ہو۔ صحت مند سرگرمیوں کے درمیان دونوں کا ارتقا فطری انداز میں جاری رہے۔ (20 دسمبر 2011)
واپس اوپر جائیں
1947 کے بعد کشمیر کی ریاست انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک نزاعی اشو بن گئی۔اب بے شمار نقصانات کے بعد پاکستان نے اِس معاملے میں دانش مندانہ پالیسی اختیار کی ہے۔پاکستانی حکومت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا کو موسٹ فیورڈ نیشن (Most-Favoured Nation) کا درجہ دے دیا جائے۔ اِس کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے(ملاحظہ ہو، ہندستان ٹائمس، 1 مارچ 2012، صفحہ
اِس واقعے میں لیڈر شپ کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ لیڈر شپ کو کبھی ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی اِشو پر جذباتی انداز اختیار کرے، وہ اس کے بارے میں ہائی پروفائل میں بولنے لگے۔ اِس قسم کا طریقہ لیڈر شپ کے لیے ایک غیر دانش مندانہ طریقہ ہے، کیوں کہ عوام کو اگر ایک بار جذباتی تقریریں کرکے بھڑکا دیا جائے تو وہ حقیقت پسندانہ مزاج کھودیتے ہیں۔ اِس کے بعد خواہ حالات کتنے ہی بگڑ جائیں، وہ یوٹرن (U Turn) لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُن کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ — خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، لیکن ہم اِس مسئلے پر مفاہمت نہیں کریں گے۔
اِس قسم کا مزاج کسی قوم کی ترقی کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جذباتی انداز کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اجتماعی زندگی نام ہے — اپنی سوچ اور فریقِ ثانی کی سوچ کے درمیان ایڈجسٹمنٹ تلاش کرنے کا۔ اجتماعی زندگی کے معاملات یک طرفہ بنیاد پر طے نہیں ہوتے، بلکہ وہ دو طرفہ بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں جذباتی سیاست کا طریقہ ایک سنگین رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے معاملات یا تو فریقِ ثانی کی رعایت کے ذریعے حل ہوتے ہیں، یا وہ کبھی حل نہیں ہوتے۔
واپس اوپر جائیں
زندگی میں ہمیشہ ناموافق حالات پیش آتے ہیں۔ اِس طرح کے ناموافق حالات کا تجربہ ہر ایک کو ہوتا ہے، خواہ وہ عام آدمی ہو یا کوئی بڑی حیثیت والا آدمی۔ اِس میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔
ناموافق حالات اُسی طرح زندگی کا حصہ ہیں جس طرح بھوک اور پیاس زندگی کا حصہ ہیں۔ ناموافق صورت حال کو اگر مسئلہ (problem) کہاجائے تو اِس سے منفی ذہن بنے گا۔ آدمی مایوسی کی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔ وہ پیش آمدہ مسئلے کو ایک غیر مطلوب صورت حال سمجھے گا۔ وہ اس کے مقابلے میں، مثبت منصوبہ بندی نہ کرسکے گا۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسئلے کو ایک چیلنج سمجھا جائے۔ مسئلہ کا لفظ اگر ایک منفی لفظ ہے تو چیلنج کا لفظ ایک مثبت لفظ۔ چیلنج کیا ہے، چیلنج ایک مشکل صورتِ حال ہے جو کسی آدمی کی استعداد کا امتحان ہوتی ہے:
Challenge: a difficult task that tests somebody’s ability.
جب آپ کسی صورت حال کو چیلنج کی نظر سے دیکھیں تو آپ کے اندر مقابلے کا ذہن پیدا ہوگا۔ آپ کی ساری توجہ اِس پر لگ جائے گی کہ آپ پیش آمدہ صورتِ حال کو بے لاگ انداز سے دیکھیں اور اس کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کریں۔
یہ سوچ آپ کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرے گی۔ اِس سے آپ کے اندر شکایت کے بجائے مقابلے کا ذہن پیدا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کسی کو پیش آمدہ صورتِ حال کا ذمّے دار قر ار دے کر اس سے نفرت کرنے لگیں۔ آپ کسی دوسرے کی تخریب میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے، بلکہ آپ مکمل طورپر اپنی تعمیر میں لگ جائیںگے۔ آپ ایسا نہیں کریں گے کہ کسی کو اپنا دشمن قرار دے کر اس کے خلاف تقریر وتحریر کے ہنگامے کھڑے کریں۔ آپ ایسے کسی معاملے کو فطرت کے نظام کے تحت پیش آنے والا واقعہ سمجھیں گے، نہ کہ کسی دشمن کی سازش کے تحت پیش آنے والا واقعہ۔
واپس اوپر جائیں
حکیم اجمل خاں (وفات: 1927 ) نے دہلی میں ’’ہندستانی دواخانہ‘‘ قائم کیا تھا۔ اِس دوا خانے میں ایک صاحب معمولی ملازم تھے۔ ان کی تنخواہ پندرہ روپئے ماہانہ تھی۔ اُن کا نام حافظ عبد المجید تھا۔ انھوں نے بعد کو ہندستانی دواخانہ چھوڑ دیا اور دواؤں کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ اس دکان کا نام ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ تھا۔ان کا انتقال 1922 میں ہوا جب کہ ان کی عمر صرف 40 سال تھی۔
حافظ عبد المجید صاحب کے دو بیٹے تھے۔ یہ وہی دو بیٹے ہیں جو بعد کو حکیم عبد الحمید (وفات:1999 ) اور حکیم محمد سعید (1998) کے نام سے مشہور ہوئے۔ دونوں نے بعد کو غیر معمولی ترقی کی۔ دونوں نے ہمدرد ایمپائر اور ہمددر یونی ورسٹی قائم کی۔ حکیم عبد الحمید نے دہلی میں اور حکیم محمد سعید نے کراچی (پاکستان )میں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ترقی کے لیے اصل چیز جو درکار ہے، وہ محنت ہے۔ عام طورپر لوگ ایسے آدمی کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جو خوش حال گھرانے میں پیدا ہوا ہو، لیکن ایسے خوش قسمت لوگ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیتے۔ بڑا کارنامہ ہمیشہ اُن لوگوں نے انجام دیا ہے جو معمولی حالات میں پیدا ہوئے، جن کو پیدا ہوتے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آسان حالات آدمی کی قوتِ عمل کو گھٹاتے ہیں اور مشکل حالات آدمی کی قوتِ عمل کو بڑھاتے ہیں— زیادہ خوش قسمت انسان وہ ہے جو مشکل حالات میں پیدا ہو، نہ کہ آسان حالات میں۔
مشکل حالات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اُس سے آدمی کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر یہ زبردست خواہش جاگتی ہے کہ میں اپنے حالات کو بدلوں، میں اپنے ’نہیں‘ کو ’ہے‘ بناؤں، میں ایسا عمل کروں جس کے ذریعے یہ ہو کہ میرا مستقبل میرے حال سے بہتر ہوسکے۔
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت محرکِ عمل کی ہے، اور محرک عمل ہمیشہ مشکل حالات میں پیدا ہوتاہے، نہ کہ آسان حالات میں۔
واپس اوپر جائیں
میں نے آپ کی کتاب ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘ کا مطالعہ کیا ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آج جو سائنسی اور ٹکنیکل ترقی ہورہی ہے، اس کا آغاز اسلام نے کیاہے۔ اسلام سے پہلے فطرت کو مقدس سمجھنے کی وجہ سے اس کو تحقیق وریسرچ کا موضوع نہیں بنایا گیا۔ اسلام نے ساتویں صدی میں آکر اس تقدس کو ختم کیا اور فطرت کی تحقیق و تسخیر کا دروازہ کھولا۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ فطرت کی آزادانہ تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ لیکن ایک دن میں ماحولیات پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس میں ماحولیات کے بگڑنے کی اہم وجہ فطرت کو ریسرچ وتحقیق کا موضوع بنانا بتایا گیا ہے:
At present we are not adhering to the old tradition properly. Hence man has become one of the factors for the present day environmental problems. The ancient people respected nature and also understood the value of nature. They worshipped the earth, fire, air, water and sky. (Environmental Education, HS 1st year, TN Textbook corporation, 2009, p. 3)
آپ نے جو بتایا، وہ بالکل حقیقت ہے، اور اس کتاب میں ماحولیاتی مسائل کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ بھی بظاہر درست معلوم ہوتی ہے۔ براہِ کرم، میرے کنفیوژن کو دور کریں۔ (فرہاد احمد سلفی، بنگلور)
جواب
یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانے میں ماحولیاتی مسائل (ecological problem) پیدا ہوئے ہیں، مگر اِن مسائل کا سبب فطرت کا مطالعہ نہیںہے، بلکہ وہ چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنزیومرزم (consumerism) کہاجاتا ہے۔ اور دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔
کنزیومر گڈس (consumer goods)سے مراد اصلاً اشیائِ صرف ہیں، لیکن موجودہ زمانے میں نئی ٹکنالوجی کے تحت جو صنعتیں قائم ہوئیں، اُن کی ترقی کے لیے یہ نظریہ وضع کیا گیاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اشیائِ صرف استعمال کریں، تاکہ صنعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل ہو:
Consumerism: advocacy of a high rate of consumption and spending as a basis for a sound economy.
اشیائِ صَرف (consumer goods) میں اضافے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر ایک نیا نظام وضع ہوا۔ یہ بینکوں سے اندھا دھند قرض کا نظام تھا۔ لوگوں کو یہ موقع دیاگیا کہ وہ نقد خریداری کا انتظار نہ کریں، بلکہ بینکوں سے سودی قرض لے کر وہ حسب خواہش جو چیز چاہیں، حاصل کریں — اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قدیم زمانے کا مبنی بر ضرورت سماج (need-based society) ختم ہوگیا اور اس کی جگہ مبنی بر حرص سماج (greed-based society) وجود میں آیا۔
مگر یہ سادہ معاملہ نہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں وہ بھیانک مسئلہ پیدا ہوا جس کو ضرورت سے زیادہ کاربن اخراج (carbon emission) کہاجاتا ہے۔ جدید صنعتی دور سے پہلے بھی کاربن کا اخراج ہوتا تھا، لیکن وہ فضا کے اندر جذب ہوجاتا تھا اور انسان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنتا تھا۔ لیکن جدید صنعتی نظام اور بڑھے ہوئے کنزیومرزم کی بنا پر وہ مصنوعی مسئلہ پیدا ہوا ہے جس کو گرین ہاؤس گیس (greenhouse gas) کہاجاتا ہے، یعنی فضا میں مضر گیس کا نقصان دہ حد تک بڑھ جانا:
The problem of the gradual rise in temperature of the earth’s atmosphere, caused by an increase of gases, such as carbon dioxide in the air surrounding the earth, which trap the heat of the sun.
فطرت کو تحقیق کا موضوع بنانا ایک خالص علمی اور نظری کام تھا۔ یہ کام خواہ کتنا ہی زیادہ کیا جائے، اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، مگر جدید صنعت کے ظہور کے بعد معیارِ زندگی میں مصنوعی اضافہ اور اشیائِ صرف کے اندھا دھند استعمال کے نتیجے میں وہ مسائل پیدا ہوئے جن کو ماحولیاتی مسائل کہاجاتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فطرت کی تحقیق کو لامحدود طورپر جاری رکھتے ہوئے صنعتی سرگرمیوں پر کنٹرول قائم کیا جائے۔
سوال
الرسالہ مشن کو سمجھنے کے لیے اردو زبان کی اہمیت کیا ہے، اس کو واضح فرمائیں۔ (عظیم الدین، لکھنؤ)
جواب
ہمارے دعوتی مشن سے جو لوگ جڑے ہوئے ہیں، اُن لوگوں کی ایک بڑی تعدادہے جو انگریزی کتابوں یا ٹی وی اور نیٹ پر میری تقریروں کے ذریعے ہمارے دعوتی مشن سے متعارف ہوئی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ الرسالہ مشن کو پوری طرح جاننے کے لیے ماہ نامہ الرسالہ کا مسلسل مطالعہ بہت ضروری ہے۔ جو لوگ اردو جانتے ہیں، ان کے لیے ماہ نامہ الرسالہ ایک طاقت ور ذہنی غذا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ان کے لیے مسلسل طورپر ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔
افراد کے پاس یہ عذر ہے کہ ہم اردو نہیں جانتے یا اردو کم جانتے ہیں، مگر یہ کوئی عذر نہیں۔ اصل ضرورت شوق کی ہے۔ اگر شوق ہو تو اردو زبان سیکھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مثلاً مہاراشٹریہ (ناندیڑ) کے کشن جَیونت راؤ پاٹل کے ایک دوست عثمان چاؤش (وفات: 2006 ) تھے۔ انھوں نے مسٹر کشن پاٹل کو الرسالہ کے کچھ مضامین پڑھ کر سنائے۔ اِن مضامین کو سن کر کشن راؤ پاٹل کے اندر اتنا زیادہ شوق پیدا ہوا کہ انھوںنے مسلسل محنت کرکے اردو زبان سیکھ ڈالی۔ اب وہ الرسالہ کے مسلسل قاری ہیں۔
تاریخ میں اِس نوعیت کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً مولانا عنایت رسول چریّا کوٹی (وفات: 1902) نے بائبل کو عبرانی زبان میں پڑھنے کے لیے عبرانی زبان سیکھی۔ شری آروبندو گھوش (وفات: 1950 ) نے رابندر ناـتھ ٹیگور (وفات: 1941 ) کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘کو بنگلہ زبان میں پڑھنے کے لیے بنگلہ زبان سیکھی۔ آج کل لوگ جاب کے لیے کثرت سے انگریزی فرانسیسی اور جرمن زبان سیکھ رہے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
1 - جنوری2012 میں برطانیہ سے 610 صفحات کی ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کا نام یہ ہے: Why Peace ۔ اس کو ایک امریکی مصنف ڈاکٹر مارک گٹ مین (Marc Guttman) نے ایڈٹ کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں صدر اسلامی مرکز کا ایک مقالہ حسب ذیل عنوان سے شامل کیا ہے:
Peace versus Interventionism (p.
2 - جنوری 2012 کے پہلے ہفتے میں بیڑمہاراشٹریہ میں مراٹھا سیوا سنگ کا سہ روزہ اجلاس ہوا۔ یہاں حلقہ الرسالہ مہاراشٹریہ سے وابستہ ساتھیوں نے مسٹر محمد الطاف انعام دار (الطاف بک ڈپو، بیڑ) کے تعاون سے ایک بک اسٹال لگایا۔ یہاں سے بڑے پیمانے پر برادرانِ وطن نے قرآن کے ہندی، انگریزی اور مراٹھی تراجم حاصل کیے۔ وزٹرس کو مختلف زبانوں میں دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
3 - امریکا اور ترکی کے اسکالرز کا ایک وفد 2 فروری 2012 کو اسلامی مرکز میں آیا۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے اسلام اور امن عالم کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔وفد کے اراکین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - سی پی ایس کے آڈی ٹوریم (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) میں 4 فروری 2012 کو ’دعوہ ایمپائر‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس ٹیم کو خصوصی طورپر خطاب کیا۔ یہ خطاب سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھا جاسکتاہے۔
5 - لبرٹی انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کی طرف سے
Freedom to Express
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس ڈسکشن میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6 - نئی دہلی کے ادارہ انٹر فیتھ کولیشن فار پیس (ICP) اور اسلامک اسٹڈیز اسوسی ایشن (ISA) کی طرف سے
Perspectives on Peacemaking: Muslims and Christians in Constructive conversation.
اِس میں دو اسپیکر تھے — صدر اسلامی مرکز اور امریکن پروفیسر لیفبر (Fr. Leo D. Lefebure) ۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ آخر میں حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
7 - بلجیم کی ایمبسی(نئی دہلی) کے دو ڈپلومیٹ نے
Antoine Evrard
Minister Councellor, Embassy of the Kingdom of Belgium
Jochen Anthierens
First Secretary, Embassy of the Kingdom of Belgium
انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اُن کا عام تصور یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان یہاں مظلومیت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اُن کے ساتھ یہاں امتیاز (discrimination) برتا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فساد میںمسلمان مارے جاتے ہیں۔ اُن کو سرکای سروس نہیں دی جاتی، وغیرہ۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔ اِس کا سبب سلیکٹیو رپورٹنگ (selective reporting) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمان ہر اعتبار سے یہاں
8 - نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے آڈیٹوریم میں
9 - اورنگ آباد (بہار) میں 20 فروری 2012 کو نیشنل ہاکر فیڈریشن (NHF) کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مقامی لوگوں کے علاوہ، انڈیا کے مختلف مقامات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مسٹر ابوالحکم محمد دانیال اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس پروگرام میں شریک ہوئے۔یہاں لوگوں کو اردو، ہندی، انگریزی میں دعوتی لٹریچر کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح
10 - جیک ہیون (Jeik Hyun MA)
ک درونا چاریہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں
ک سہارن پور کی ٹیم نے
ک مولانا سلمان حسینی ندوی نے 2 مارچ 2012 کو سہارن پور کا دورہ کیا۔ یہاں ڈاکٹر محمد اسلم خان نے مولانا سلمان حسینی کی دعوت پر مدرسہ مظاہر العلوم کے باہر سٹی گیٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی۔ اور ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں بطور ہدیہ پیش کیں۔یہاں مظاہرالعلوم کے طلبا اور اساتذہ کو بھی دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
ک سوامی امر پال سنگھ کی دعوت پر سہارن پور ٹیم کے ساتھیوں نے 9 مارچ 2012 کو گنگوہ اور ناگوڑ کے مختلف پروگرام میں شرکت کی۔ یہاں انٹرفیتھ کے موضوع پر ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ جس میں ہمارے ساتھیوں کے علاوہ مقامی ہندوؤں نے بھی شرکت کی اور سی پی ایس کی انٹرفیتھ ایکٹوٹی کو اپنا تعاون دینے کا وعدہ کیا۔
ک سہارن پور کے قدیم چرچ سینٹ تھامس(St. Thomas) میں
ک سہارن پور کے پیس ہال میں
Islam and Spirituality
18 - پنگوئن بکس، انڈیا کی
19 - بنگلہ دیش کے مشہور مصنف اور صحافی مسٹر شہر یار کبیر (Shahriar Kabir) نے
20 - اپریل 2012 کے دوسرے ہفتے میں مولانا محمد ذکوان ندوی نے لکھنؤ کا سفر کیا۔ وہ اپنے ساتھ دعوتی لٹریچر خرید کر لے گئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا، خاص طورپر علما کو ’’کتاب معرفت‘‘ بطور ہدیہ پیش کی۔
ک Dawah work and the Al-Risala Mission have successfully been started here in Kolkata. Copies of the Quran and other dawah literature were distributed at the International Book Fair in Kolkata. The distribution of literature was also done in Ghazipur, (U.P) and Vaishali (Bihar). People, particularly the non-Muslims showed great interest. Our members here are also doing this work on a one-to-one basis. We hope, it will yield results, Insha Allah. A friend, Md. Aslam Ansari, who is an employee at the Indian Railways, gave a copy of the Quran and some Hindi literature to one of his senior colleagues, Mr. Baldeo Singh Randhar, Chief Office Superintendent (Mechanical Diesel). He is very popular in the office for his jovial and humorous attitude. But after going through the literature he has become extremely serious, to the surprise of his colleagues. They even asked our friend as to what he had given him that had brought about such tremendous change in a person like him. (Mohammed Abdullah, Kolkata Team)
ک I am over 90. I hail from Kashmir and am settled in Gurgaon. The thought of taking the liberty of writing to you came to my mind immediately after I came across your booklet Peace in Kashmir, which I read on your website. I could not help rating it as the first realistic version of the Kashmir dispute. It is indeed thought-provoking. (Muhammad Amin Chishti, Gurgaon, Haryana)
ک I would like to express my sincere gratitude to Maulana Wahiduddin Khan, for delivering the keynote address and participating in the discussion held at the Liberty Institute on the topic, Freedom to Express. His clear thinking, I am sure, cleared a lot of misconceptions which some people may have had about Islam. Almost everyone I spoke to at the end acknowledged that they were most impressed by Maulana’s sincerity and knowledge. (Barun Mitra, Liberty Institute, New Delhi)
ک I am a Chaplain in a prison in the United States. The Center for Peace and Spirituality in Bensalem, Philadelphia, has sent us a box of paperback translations of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan, and a box of study booklets by Maulana W. Khan. Thank you very much for these generous and helpful donations. The inmates in this facility will benefit greatly by your contribution. (Richard Tinker, Chaplain, Oklahoma, USA)
ک Brother, there is a great need for copies of the Quran in Ghana. Many of these requests come from non-Muslims or new Muslims. We have sent this list to individuals and organizations that have helped Voice of Islam provide such a service to those in need in Ghana. We wish to thank you for your efforts and support in our humble efforts and encourage you to continue your support in the future. (Mohammad Thompson, Voice of Islam Trust, Auckland, New Zealand)
Capacity Building Workshop of Women Managers in Higher Education.
اس میں خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور کرسچن خواتین نے شرکت کی۔ اِس پروگرام کا آغاز سی پی ایس (نئی دہلی) کی ممبرمز عائشہ نے قرآن کی تلاوت سے کیا۔ اس کے بعد مز سعدیہ خان نے ان آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ قرآن کے ترجمہ اور تلاوت کو سن کر نان مسلم شرکا نے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔مثلاً سروجنی نائڈو سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مز بلبل دھر نے کہا کہ قرآن کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اِسی طرح پروفیسر منی ایس تھامس (PIO) نے کہا:
The recitation of the Quran was mind boggling. It stirred our souls.
اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ہمارے ساتھی اِس تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور حسب موقع وہ قرآن کے منتخب حصے کی تلاوت اور ترجمہ سنانے کے بعد لوگوں کو قرآن کا ترجمہ دیں۔
30 - مسٹر ہارون شیخ(ممبئی) کے تعاون سے گھانا(مغربی افریقہ) میں ایک دعوتی ٹیم تیار ہوگئی ہے۔ یہ لوگ افریقہ میں بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچارہے ہیں۔دعوتی مقصد کے لیے رابطہ قائم کریں:
Mr. Siraj, Tel. +23326566740
Mr. Teslim Braimah, Tel. +233243720702
www.islamic-exhibition.org
Feb 19 Islam Ki Surbulandi (Ascendency of Islam)
March 16 Philosophy, Religion and Science
April 1 Importance of Sincerity
April 15 The Concept of Tawassum in Islam
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.