برادرم عبد المحیط خاں ہم تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ میرے بڑے بھائی عبدالعزیز خاں )وفات: (1988 بزنس کی لائن میں گئے اور لائٹ اینڈ کمپنی پرائیویٹ لمیٹیڈ (الٰہ آباد) قائم کی۔ میری تعلیم مدرسے میں ہوئی۔ میں نے اسلامی دعوت کو اپنی سرگرمی کا مرکز بنایا۔ عبدالمحیط خاں (وفات:2010 ) نے اعظم گڑھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے انھوں نے اعلیٰ نمبر کے ساتھ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ سروس میں چلے گئے۔ وہ بنارس (یوپی) میں جوائنٹ ڈائریکٹر ٹکنکل ایجوکیشن تھے۔1995 میں وہ اِس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
برادرم عبد المحیط خاں کا ریکارڈ اپنی طالب علمی کے زمانے میں محنتی طالب علم، اور سروس کے زمانے میں ایک دیانت دار افسر کا ریکارڈ تھا۔ بنارس ہندو یونی ورسٹی میں ان کی اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر اُن کے پروفیسر اُن کو بہت پسند کرتے تھے۔
چند واقعات
برادرم عبد المحیط خاں کی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ ہے۔ وہ یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ قاعدے کے مطابق، ایک روم میں دو طالب علم رہا کرتے تھے، لیکن عبد المحیط خاں کی اصول پسندی کو دیکھ کر ان کے وارڈن (Warden) نے کہا کہ تمھارے روم میں کوئی دوسرا طالب علم رہے گا تو وہ تمھارے لیے پرابلم بن سکتا ہے، اِس لیے انھوں نے عبد المحیط خاں کو بطور خاص ایک غیرمشترک روم دے دیا، جس میں وہ اکیلے رہتے ـتھے۔
عبد المحیط خاں ریاضی (mathematics) کے بہت اچھے استاد تھے۔ اِس بنا پر اُن کے تمام اسٹوڈنٹ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ سروس کے ابتدائی زمانے میں وہ چندولی (یوپی) کے پالی ٹیکنیک میں ریاضی کے استاد تھے۔ اُس وقت پالی ٹیکنیک کے پرنسپل ایک ہندو تھے۔ ایک بارایسا ہوا کہ پالی ٹیکنیک کے طلبا کو پرنسپل سے شکایت ہوگئی۔ انھوں نے اپنے مطالبات کو لے کر پرنسپل کا گھیراؤ کیا۔ پرنسپل نے طلبا سے بہت کہا کہ وہ اپنے روم میں واپس جائیں، لیکن طلبا وہاں سے ہٹتے نہیں تھے۔ آخرکار کسی نے پرنسپل صاحب کو مشورہ دیا کہ اے ایم خان کو بلائیے، وہی اِس مسئلے کو حل کریں گے۔
چناں چہ پرنسپل نے ایک آدمی بھیج کر عبد المحیط خاں کو بلایا۔ عبد المحیط خاں وہاں آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ طلبا کا ہجوم پرنسپل کو گھیرے ہوئے ہے۔ اپنی عادت کے مطابق، انھوں نے طلبا کو زور سے ڈانٹا اور کہا — یہ کیا بدتمیزی ہے، تم لوگ یہاں سے ہٹو اور فوراً اپنے روم میں واپس جاؤ۔ اِس کے بعد طلبا نے گھیراؤ ختم کردیا اور خاموشی کے ساتھ اپنے روم میں واپس چلے گئے۔
یہ دو واقعات بتاتے ہیں کہ عبد المحیط خاں کا ریکارڈ طالب علمی کے زمانے میں اور سروس کے زمانے میں کیا تھا۔ وہ جہاں بھی رہے، ہمیشہ ایک اصول پسند انسان کی حیثیت سے رہے۔ ایک بار جب وہ فیض آباد کے پالی ٹیکنیک میں پرنسپل تھے، یوپی کے ایک سیاسی لیڈرنے اپنے خط کے ساتھ ایک نوجوان کو بھیجا اور اس کے داخلے کی سفارش کی، مگر وہ طالب علم ٹسٹ میں کوالیفائی (qualify) نہ کرسکا۔ چناں چہ عبد المحیط خاں نے اس کا داخلہ نہیں لیا۔ طالب علم نے واپس جاکر لیڈرصاحب سے شکایت کی۔ اس پر لیڈر صاحب غصہ ہوگئے اور عبد المحیط خاں کو ٹیلی فون پر دھمکی دی، مگر عبد المحیط خاں اپنے فیصلے پر قائم رہے اور انھوں نے طالب علم کا داخلہ نہیں لیا۔
اصول پسندی
برادرم عبد المحیط خاں مجھ کو بہت زیادہ مانتے تھے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ میرے اوپر ان کو بہت زیادہ بھروسہ تھا۔ وہ خود اگرچہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، لیکن جب میں کوئی بات کہتا تو اس کو وہ بلا بحث مان لیتے تھے۔ میرے بارے میں وہ اکثر کہتے تھے کہ— میں دنیا میں سب سے زیادہ وحید بھائی کو مانتا ہوں۔
لیکن اِسی کے ساتھ وہ بہت زیادہ اصول پسند آدمی تھے۔ اصول کے معاملے میں وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے تھے، حتی کہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں۔ مثلاً ان کی دو لڑکیاں تھیں، لیکن اپنے سخت اصولوں کی بنا پر انھوںنے اِن لڑکیوں کو اسکول میں داخل نہیں کیا۔ ان کی لڑکیوں نے ابتدا میں گھر پر کچھ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پرائیویٹ امتحان دے کر انھوں نے اپنی تعلیم پوری کی۔
ان کی اصول پسندی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار میں دہلی سے ان کی پالی ٹیکنیک (گونڈہ) گیا۔ یہاں وہ پرنسپل تھے۔ کالج کی لائبریری میں بہت سی کتابیں تھیں۔ اُن میں سے ایک انسائکلوپیڈیا برٹانکا کا مکملسیٹ تھا۔ چند روزہ قیام کے دوران میں برٹانکا کو برابر پڑھتا رہا۔ جب میں آنے لگا تو میں نے برادرم عبد المحیط خاں سے کہا کہ یہ انسائکلو پیڈیا میرے بہت کام کی ہے۔ یہاں کوئی اس کا قدرداں نہیں۔ میں اس کو اپنے ساتھ دہلی لے جاتا ہوں اور مطالعے کے بعد میں اُس کو واپس کردوں گا۔ مگر اپنی اصول پسندی کی بنا پر انھوں نے مجھے اِس کی اجازت نہ دی۔ انھوںنے کہا کہ کالج کے قاعدے کے مطابق، آپ یہاں رہ کر انسائکلوپیڈیا سے استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن انسائکلوپیڈیا کو اپنے گھر لے جانا، لائبریری کے قواعد کے خلاف ہوگا۔
برادرم عبد المحیط خاں سختی کے ساتھ اپنے اصولوں کے پابند تھے۔ وہ کسی کی بے جا رعایت نہیں کرتے تھے۔ اصول کے معاملے میں وہ کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔اِس بنا پر ڈپارٹمنٹ کے کئی لوگوں کو اُن سے شکایت ہوتی تھی، مگر انھوں نے کبھی کسی کی شکایت کی پروا نہیں کی۔ وہ کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے اصول سے ہٹنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔
میں نے اپنے ذاتی مزاج کی بنا پر کئی بار اُن سے ملاقات کے دوران اور خط کے ذریعے کہا کہ تم خود اپنی ذاتی زندگی میں اصول پر قائم رہو، لیکن دوسروں کے بارے میں اعراض (avoidance) کا طریقہ اختیار کرو، مگر انھوں نے اپنی شدید اصول پسندی کی بنا پر میرا یہ مشورہ نہیں مانا۔
عبد المحیط خاں کو کئی معاملے میں اپنی اِس اصول پسندی کی بھاری قیمت دینی پڑی۔ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کا تعلق یوپی گورنمنٹ کے محکمہ ٹکنکل ایجوکیشن سے تھا۔ وہ اپنی سینئرٹی (seniority) کے اعتبار سے ڈائریکٹر کے عہدے کے مستحق ہوچکے تھے، لیکن آخر تک اُن کو ڈائریکٹر کا عہدہ نہیں دیاگیا۔ ان کو جوائنٹ ڈائرکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہونا پڑا۔ عبد المحیط خاں نے اِس نقصان کو برداشت کیا، مگر وہ اپنے اصول سے کبھی نہیں ہٹے۔
خاندانی حالات
عبد المحیط خاں انجینئر میرے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ یکم اگست1932 کو اعظم گڑھ (یوپی) میں پیدا ہوئے، اور
میرے مورثِ اعلیٰ ضیاء الدین خاں تھے۔ تقریباً 500 سال پہلے وہ افغانستان (سوات) کے علاقے سے ہندستان آئے۔ ابتدامیں وہ جون پور (یوپی) کے ایک گاؤں میں ٹھہرے۔ بعد کو اُن کا خاندان اعظم گڑھ کے گاؤں بڈھیریا میں منتقل ہو گیا۔ دھیرے دھیرے ہمارے خاندان نے یہاں ایک بڑے زمیں دار کی حیثیت حاصل کرلی۔ زراعت کے علاوہ، یہاں ان لوگوں نے نیل کا ایک گودام قائم کیا۔ اِس کے علا وہ، ہمارے خاندان کے کچھ افراد شہراعظم گڑھ میں مقیم ہوگئے۔
میرے والد کا نام فرید الدین خاں تھا۔ ان کا انتقال غالباً 1931 میں ہوا۔ میری والدہ زیب النساء کا انتقال دہلی میں 8 اکتوبر 1985 کو ہوا۔ ہم لوگ 6 بھائی بہن تھے۔ ایک بہن کا انتقال بچپن میں ہوگیا۔ دوسری بہنیں یہ تھیں— طاہرہ خانم (وفات: 1976) اور طیبہ خانم (وفات: 1956 )۔ بھائیوں میں عبد العزیز خاں کا انتقال 1988 میں ہوا۔ عبد المحیط خاں چھوٹے بھائی تھے۔ ان کا انتقال 2010 میں ہوا۔ بھائیوں اور بہنوں میں اب میں آخری شخص رہ گیا ہوں۔
ہمارا خاندان کافی وسیع خاندان ہے، لیکن پورے خاندان میں، میں واحد شخص تھا جس کی تعلیم عربی مدرسے میں ہوئی۔ میرے چچا صوفی عبدالمجید خاں مرحوم کو خیال ہوا کہ خاندان میں کم ازکم ایک شخص کا عالم ہونا ضروری ہے۔ چناں چہ انھوں نے خود اپنی ذمے داری پر مجھ کو عربی مدرسہ (مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر) میں داخل کیا۔ میری عالمیت کی تعلیم میں تمام تر میرے چچا صوفی عبدالمجید خاں کا حصہ ہے۔ (میری تعلیم کے بارے میں تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ’’دین وشریعت‘‘ باب ’’اسلامی تعلیم‘‘ صفحہ 73-151)۔
بعدکے زمانے میں ہمارے گھر پر دو نوجوانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ ایک، میرے بھائی عبد المحیط خاں اور دوسرے اقبال احمد خاں سہیل (وفات:1955 )کے بیٹے یمین الاسلام خاں ۔ اِس تعلیمی انتظام کی حیثیت گویا ایک گھریلو ٹیوشن کی تھی۔ اِس کے لئے بالترتیب دو صاحبان نے استاد کی خدمت انجام دی— ایک ماسٹر صدیق صاحب اور دوسرے ماسٹر یاسین صاحب۔ عبد المحیط خاں اور یمین الاسلام خاں دونوں نے بعد کو انجینئرنگ کا کورس کیا۔ عبد المحیط خاں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی میں، اور یمین الاسلام خاں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں۔
دعوتی زندگی
برادرم عبد المحیط خاں میرے دعوتی مشن میں پوری طرح میرے ساتھ تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی ماہ نامہ الرسالہ کی ایجنسی چلاتے رہے۔ وہ ہر مہینے الرسالہ کے کچھ پرچے منگاتے تھے۔ ایک شمارہ وہ اپنے پاس رکھتے تھے اور بقیہ شمارے مفت تقسیم کردیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی اسلامی کتابیں برابر منگاتے رہتے تھے اور اُنھیں لوگوں کو مطالعے کے لئے دیتے تھے۔
انھوں نے اپنی سروس کے زمانے میں دو مکان بنائے تھے۔ ایک، فیض آباد میں اور دوسرا، علی گڑھ میں۔ بعد کو انھوںنے اپنا علی گڑھ کا مکان فروخت کردیا۔ اِس کی رقم سے 6 لاکھ روپئے وہ میرے وراثتی حصے کے طورپر مجھ کو بھیجنا چاہتے تھے۔ میں نے منع کردیا۔ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کردی کہ یہ رقم دوبارہ مجھے بھیجی جائے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی فہمیدہ خانم نے میری لڑکی ڈاکٹرفریدہ خانم سے ٹیلی فون پر یہ بات بتائی۔ ڈاکٹر فریدہ نے اُن سے کہا کہ میرے والد ذاتی طورپر اس رقم کو قبول نہیں کریں گے، اِس لیے آپ چاہیں تویہ رقم القرآن مشن (Al-Quran Mission) میں دے دیجئے، تاکہ اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک قرآن کا ترجمہ پہنچایا جاسکے۔ چناں چہ یہ پوری رقم القرآن مشن (نئی دہلی) میں دے دی گئی۔
برادرم عبد المحیط خاں ایک صالح کردار کے آدمی تھے۔ اِسی کے ساتھ ان کے اندر دعوت کے کام کا گہرا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ انھوں نے اپنے گھر والوں میں پیدا کیا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کی بیٹی فہمیدہ خانم اُن کی وفات کے بعدمسلسل طورپر دعوت کا کام کررہی ہیں۔ وہ ہمارے یہاں سے چھپا ہوا دعوتی لٹریچر برابر منگاتی ہیں، وہ خود بھی اِس کو پڑھتی ہیں اور دوسروں کو مطالعے کے لیے دیتی ہیں۔
عبد المحیط خاں کو ہمارے دعوتی مشن سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ اس سے مکمل اتفاق کرتـے تھے۔ وہ اس کی توسیع واشاعت کے لیے برابر کوشش کرتے رہتے تھے۔ اِس معاملے میں بھی انھوں نے کسی کی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ وہ کھلے طورپر اور آخر وقت تک ہمارے دعوتی مشن کے حامی بنے رہے۔
میں نے اکتوبر 1976 میں دہلی سے ماہ نامہ الرسالہ جاری کیا۔ عبد المحیط خاں شروع ہی سے الرسالہ کا باقاعدہ مطالعہ کرنے لگے۔ مزید یہ کہ انھوں نے الرسالہ کی ایجنسی لے لی۔ وہ الرسالہ کو خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو اِسے پڑھنے کے لیے دیتے۔ اِسی طرح اُن کے پاس میری تمام کتابیں موجود تھیں۔ وہ اِن کتابوں کو مسلسل پڑھتے رہتے تھے اور لوگوں سے اِن کے مضامین کا چرچا کرتے تھے۔ میرے مشن کے بارے میں ان کو کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا، حتی کہ وہ یہ کہتے تھے کہ یہی واحد صحیح مشن ہے اور لوگوں کو اِس مشن کا ساتھ دینا چاہئے۔میری لکھی ہوئی تفسیر قرآن اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں چھپی ہے۔ اس کا نام ’’تذکیر القرآن‘‘ ہے۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں وہ روزانہ تذکیر القرآن پڑھتے رہتے تھے۔ اِس کے نوٹس (notes) وہ برابر لکھتے رہتے تھے۔
میری عادت ہے کہ میں ہر ایک سے اس کے تجربات پوچھتا ہوں۔ عبد المحیط خاں سے جب میری ملاقات ہوتی تو میں ہمیشہ ان کے تجربات پوچھتا تھا۔ اُن کا ایک تجربہ میںنے اُنھیں کے لفظوں میں چھاپا تھا۔ یہ تجربہ میری کتاب ’’سبق آموز واقعات‘‘ میں شائع ہوا ہے، اُس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
غلطی میری
1954ء میں جب کہ میں بنارس ہندو یونی ورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ایک واقعہ پیش آیا جو کہ اب تک مجھے یاد ہے۔ میرے استاد ڈاکٹر پران ناتھ نے لاپلاس ٹرانسفارم (Laplace Transform) کو پڑھانا شروع کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک دلچسپ کہانی ہے جو ہمارے موجودہ پرنسپل سے متعلق ہے۔ یہ پروفیسر ایم۔سین ۔گپتا تھے جو اُس وقت بنارس ہندو یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج کے پرنسپل تھے اور اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔پروفیسر گپتا مزید تعلیم کے لیے گلاسگو یونی ورسٹی گئے تھے اور وہاں سے انھوںنے ٹاپ کیا تھا۔ گلاسگو کا پروفیسر ایک روز بلیک بورڈ پر ایک الیکٹریکل پرابلم کو حل کررہا تھا۔ اس درمیان میں ڈفرینشیل ایکویشن (differential equation) کا سوال آگیا۔ گلاسگو کے پروفیسر نے اس کو عام طریقے سے حل کیا، جس میں کافی وقت لگا اور سارا بلیک بورڈ بھر گیا۔
پروفیسر گپتا نے اس موقع پر کھڑے ہو کر کہا: میرا خیال ہے کہ یہاں لاپلاس ٹرانسفارم کو اپلائی کیاجاسکتا ہے۔ اس سے یہ سوال بہت مختصر طریقے سے حل ہوجائے گا۔ پروفیسر نے اس تجویز پر عمل کیا تو صرف دو لائنوں میں سوال حل ہوگیا۔ اگرچہ دونوں طریقوں کا آخری جواب ایک ہی تھا، مگر پروفیسر نے کہا: جب مختصر طریقہ ہمارے پاس موجود ہے تو لمبے طریقے کو اختیار کرنا ہی سرے سے غلط ہے، اس نے بلیک بورڈ پر اپنے لکھے ہوئے حل کو مٹا دیا اور پروفیسر گپتا کے طریقے کو لکھتے ہوئے کہا:
This is the only method
اِسی قسم کا ایک اور واقعہ 1964ء کا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے امریکی حکومت کے ایجوکیشن ڈویژن کے تعاون سے چندی گڑھ میں’’سمر اسکول فار ٹیچرس‘‘ کا ایک پروگرام شروع کیا۔ اِس میں ہندستانی شخصیتوں کے علاوہ، تین امریکی پروفیسر آئے ہوئے تھے، اس وقت میں چندولی میں سینئر لکچرر تھا اور اسی حیثیت سے میں نے چندی گڑھ کے اس پروگرام میں شرکت کی تھی۔ یہ پہلا کورس تھا جو
امریکی پروفیسر میچل نے ایک روز کلاس میں سوال کیا—تخلیقی لوگ کون ہوتے ہیں Who are creatives) (۔ مختلف لوگوں نے مختلف نام لیے۔ ایک شخص نے کہا پوئیٹ(شاعر) پروفیسر نے کہا، کیا (What) ۔ پروفیسر میچل کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ با ر بار ’وہاٹ‘ کہتے رہے اور ہمارے ساتھی بار بار ’پوئیٹ‘ دہراتے رہے۔بالآخر انھوں نے اس کی اسپلنگ بتائی: پی او ای ٹی(poet)۔ اب پروفیسر میچل سمجھ گئے کہ ہمارے ساتھی کی مراد شاعر سے ہے۔ مگرہندستانی اور امریکی تلفظ کے فرق کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں پاتے تھے۔ کیوں کہ ہندستانی تلفظ اس لفظ کا پوئیٹ ہے جب کہ امریکی تلفظ میں اس کو پائیٹ کہتے ہیں۔ اِس کے بعد پروفیسر نے کہا:
You are right, I am wrong, because I am in your country.
’’آپ صحیح ہیں۔ میں ہی غلطی پر ہوں، کیوں کہ میں اس وقت آپ کے ملک میں ہوں‘‘۔
برادرم عبد المحیط خاں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی کے شعبۂ الیکٹریکل انجینئرنگ (Electrical Engineering) میں داخلہ لے کر بی ای (B.E.) کیا تھا۔ اس کے بعد اسی یونی ورسٹی سے انھوںنے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ اس طرح انھوں نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے کبھی کسی کالج اور یونی ورسٹی میں داخلہ نہیں لیا، البتہ مجھے سائنس سے دلچسپی تھی۔ میں نے سائنس کے موضوع کو پرائیویٹ طور پر کتابوں کے مطالعہ (self study) کے ذریعے پڑھا۔ اس طرح مجھے نظری سائنس (theoretical science) سے کسی حدتک واقفیت ہوگئی تھی۔ لیکن پریکٹکل اعتبار سے میں نے اس موضوع پر کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
اس پہلو سے مجھے برادرم عبد المحیط خاں سے کافی مدد ملی۔ میں ان کے یہاں اُس وقت جاتا تھا، جب کہ وہ پالیٹکنیک (Technical College) کے پرنسپل تھے۔ میں ان سے سائنس کے موضوع پر بات کرتا تھا۔ پھر وہ مجھے اپنے کالج کی لیب (laboratory) میں لے جا کر اُس کا عملی مشاہدہ کراتے تھے۔
مثال کے طور پر میں نے فریڈے (Michael Faraday) وغیرہ کو پڑھا تھا۔ اس مطالعہ سے میںنے جانا تھا کہ نظریاتی طورپر بجلی کیا ہے۔ نظریاتی طورپر بجلی الیکٹران کے بہاؤ کا نام ہے :
Electricity means flow of electrons.
برادرم عبد المحیط خاں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ وہ مجھ کو اپنی کالج کی لیب (laboratory) میں لے گئے۔ وہاں انھوں نے مجھ کو ڈائینمو (dynamo) دکھایا۔ انھوںنے مجھے عملی طور پر بتایا کہ یہ فطرت کا قانون ہے کہ اگر ڈائینمو کے اندر میگنیٹک فیلڈ (magnetic field) اور موشن (motion) کو یکجا کیا جائے تو اس سے قانونِ فطرت کے مطابق، وہاں بجلی پیداہوجائے گی۔ اور اگر ڈائینمو میں میگنیٹک فیلڈ کے ساتھ الیکٹرسٹی کو یکجا کیا جائے تو وہاں موشن (motion) پیدا ہوجائے گا۔ پہلے قانون کے ذریعہ پاور ہاؤس بنتا ہے اور دوسرے قانون کے ذریعہ مشین متحرک ہوتی ہے۔
انسانی ہمدردی
برادرم عبد المحیط خاں صرف ایک انجینئر نہ تھے، بلکہ اسی کے ساتھ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا۔ وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے بہت سوچتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ بقدر استطاعت اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
ایک بار انھوں نے بہت درد کے ساتھ کہا— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اس جملہ سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو موجودہ دنیا میں زندگی کا موقع صرف ایک بار ملا ہے۔ ایک محدود مدت کے بعد وہ اس دنیا سے چلا جائے گا۔ عقل مند انسان وہ ہے جو اس محدود مدت کو اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کرے۔ اگر اس نے اعلیٰ مقصد کے سوا کسی اور کام میں اپنی عمر گزاردی تو اس کو دوبارہ یہ موقع ملنے والا نہیں۔
ان کا یہ قول کہ ’’زندگی صرف ایک بار ملتی ہے‘‘ کسی محدود معنی میں نہ تھا۔ وہ دنیا و آخرت دونوں کے بارے میں تھا۔ ان کو افسوس ہوتا تھا کہ دنیا میں اکثر لوگ صحیح پلاننگ نہ کرنے کی وجہ سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔ ہر آدمی کا کیس کم تر استعمال کا کیس (A case of under-utilization) بن کر رہ جاتا ہے۔یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت کی نسبت سے ہے۔ ہمارے والد فرید الدین خاں یہ کہا کرتے تھے کہ ’’خدا کو منہ دکھانا ہے‘‘۔ برادرم عبد المحیط خاں کو یہ فکر رہتی تھی کہ لوگ آخرت کے لحاظ سے تیاری نہیں کرتے، پھر اُس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب وہ موت کے بعد خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ برادرم عبد المحیط خاں کی لڑکی فہمیدہ خانم نے بتایا کہ بعد کے زمانے میں ہم لوگوں سے وہ اکثر آخرت کی بات کرتے تھے۔ ان کا اپنا یہ حال تھا کہ وہ خدا کے خوف سے کانپتے رہتے تھے۔
تعمیری ذہن
میرے مشن کا ایک حصہ وہ ہے جو مسلمانوں کی ملی تعمیر سے متعلق ہے۔ اِس معاملے میں لکھنے اور بولنے والوں کا طریقہ عام طورپر یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مظلومی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان، امتیاز (discrimination) کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیںکی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ میں اِس نظریے کو صد فی صد غلط سمجھتا ہوں۔ اِس نظریے کے خلاف لکھنے کا کام میں نے لکھنؤ کے زمانہ قیام (1963-1966) میں شروع کیا تھا۔ اُس زمانے میں، میں لکھنؤ کے ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘ میں اِس قسم کے تعمیری مضامین شائع کرتا تھا۔اس کے بعد 1967میں مجھے ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ (دہلی) کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ اب الجمعیۃ ویکلی میں میرے اِس قسم کے تعمیری مضامین چھپنے لگے۔ اِس کے بعد 1976 میں میں نے ماہ نامہ ’’الرسالہ‘‘ نئی دہلی سے جاری کیا۔ اُس وقت سے اب تک الرسالہ میںمیرے اس قسم کے تعمیری مضامین چھپ رہے ہیں۔
میں اپنے اسلوب کے مطابق، اِس موضوع کو واقعات کی زبان میں لکھتا رہا ہوں۔ اِس سلسلے میں قدیم وجدید تاریخ کے سبق آموز واقعات، میں نے بڑی تعداد میں شائع کئے ہیں۔ اِ س واقعاتی اسلوب نے کثیر تعداد میں لوگوں کو زندگی کا نیا حوصلہ دیا ہے۔
عبد المحیط خاں کی زندگی اِس معاملے میں ایک عملی مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُن کو عام طورپر اے ایم خان کہاجاتا تھا۔ اپنے حلقے میں وہ اِسی نام سے مشہور تھے۔ اپنے مزاج کے مطابق، انھوں نے کبھی کسی سے رعایت نہیں چاہی اور نہ اُنھیں کبھی کسی سے کوئی فیور(favour) ملا۔ انھوںنے اپنی محنت اور اپنی دیانت داری سے اپنے لیے ممتاز جگہ بنائی۔ میںنے الجمعیۃ ویکلی اور ماہ نامہ الرسالہ میں اُن کے بارے میں چند صفحات شائع کیے تھے، وہ یہاں کسی تبدیلی کے بغیر نقل کئے جاتے ہیں۔
استحقاق پیدا کیجئے
مسٹر عبد المحیط خاں ہائر سکنڈری کے امتحان میں اچھے نمبر سے پاس ہوئے تھے۔ مگر کسی وجہ سے وہ بروقت آگے داخلہ نہ لے سکے، یہاں تک کہ اکتوبر کا مہینہ آگیا۔ اب بظاہر کہیں داخلہ ملنے کی صورت نہ تھی۔ تاہم تعلیم کاشوق ان کو ہندو سائنس کالج کے پرنسپل کے دفتر میں لے گیا۔
’’جناب، میں بی ایس سی میں داخلہ لینا چاہتا ہوں‘‘۔ انھوں نے ہندو پرنسپل سے کہا۔
’’یہ اکتوبر کا مہینہ ہے، داخلے بند ہوچکے ہیں، اب کیسے تمھارا داخلہ ہوگا۔‘‘
’’بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ داخلہ لے لیں، ورنہ میرا پورا سال بے کار ہوجائے گا‘‘۔
’’ہمارے یہاں تمام سیٹیں بھر چکی ہیں، اب مزید داخلے کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
پرنسپل اتنی بے رخی برت رہا تھا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہرگز داخلہ نہیں لے گا اور اب اگلا جملہ طالب علم کو شاید یہ سننا پڑے گا کہ ’’کمرے سے نکل جاؤ‘‘۔ مگر طالب علم کے اصرار پر پرنسپل نے بددلی سے پوچھا ’’تمھارے مارکس (marks) کتنے ہیں‘‘۔ پرنسپل کا خیال تھا کہ اس کے نمبر یقینا بہت کم ہوںگے، اِسی لیے اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا۔ چناں چہ طالب علم جب اپنے خراب نتیجہ (result)کو بتائے گا تو اس کی درخواست کو رد کرنے کے لیے معقول وجہ ہاتھ آجائے گی، مگر طالب علم کا جواب اس کی امید کے خلاف تھا۔ طالب علم نے کہا جناب
اس جملہ نے پرنسپل پر جادو کا کام کیا۔ فوراً اس کا موڈ بدل گیا۔ اس نے کہا ’’بیٹھو، بیٹھو‘‘۔ اس کے بعد پرنسپل نے طالب علم کے کاغذات دیکھے اور جب کاغذات نے تصدیق کردی کہ واقعی وہ پچاسی فی صد نمبروں سے پاس ہوا ہے تو اسی وقت پرنسپل نے پچھلی تاریخ میں د رخواست لکھوائی۔ اس نے عبدالمحیط خاں کو نہ صرف تاخیر کے باوجود اپنے کالج میں داخل کرلیا، بلکہ کوشش کرکے ان کو وظیفہ (scholarship)بھی دلوایا۔
یہی طالب علم اگر اس حالت میں پرنسپل کے پاس جاتا کہ وہ تھرڈ کلاس پاس ہوتا اور پرنسپل اس کا داخلہ نہ لیتا تو طالب علم کا تاثر کیا ہوتا۔ وہ اس طرح لوٹتا کہ اس کے دل میں نفرت اور شکایت بھری ہوتی۔وہ لوگوں سے کہتا کہ یہ سب تعصب کی وجہ سے ہوا ہے، ورنہ میرا داخلہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔ داخلہ نہ ملنے کی وجہ اس کا خراب نتیجہ ہوتا، مگر اس کا ذمہ دار وہ ہندو کالج کو قرار دیتا— ماحول کا رد عمل اکثر خود ہماری حالت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر ہم اس کو ماحول کی طرف منسوب کردیتے ہیں، تاکہ اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ ثابت کرسکیں۔
اگر آدمی نے خود اپنی طرف سے کوتاہی نہ کی ہو، اگر زندگی میں وہ اُن تیاریوں کے ساتھ داخل ہوا ہو جو زمانے نے مقرر کی ہیںتو دنیا اس کو جگہ دینے پر مجبور ہوگی۔وہ ہر ماحول میں اپنا مقام پیدا کرلے گا، وہ ہر بازار سے اپنی پوری قیمت وصول کرے گا۔ مزید یہ کہ ایسی حالت میںاس کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہوگی۔ وہ اپنے تجربات سے جرأت، اعتماد، عالی حوصلگی، شرافت، دوسروں کا اعتراف، حقیقت پسندی اور ہر ایک سے صحیح انسانی تعلق کا سبق سیکھے گا۔ وہ شکایت کی نفسیات سے بلند ہو کر سوچے گا۔ ماحول اس کو تسلیم کرے گا، اس لیے وہ خود بھی ماحول کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا۔
اِس کے برعکس، اگر اس نے اپنے آپ کو اہل (competent) ثابت کرنے میں کوتاہی کی ہو۔ اگر وہ وقت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ اگر وہ کم تر لیاقت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوا ہو تو لازماً وہ دنیا کے اندر اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر جو اخلاقیات پیدا ہوں گی، وہ بلاشبہہ پست اخلاقیات ہوں گی۔ وہ شکایت، جھنجھلاہٹ، غصہ، حتی کہ مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ جب آدمی ناکام ہوتا ہے تو اس کے اندرغلط قسم کی نفسیات ابھرتی ہیں۔اگر چہ آدمی کی ناکامی کی وجہ ہمیشہ اپنی کمزوری ہوتی ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے۔ وہ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کے لیے دوسروں کو مجرم ٹھہراتا ہے۔وہ صورتِ حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
کم تر تیاری آدمی کو بیک وقت دو قسم کے نقصانات کا تحفہ دیتی ہے— اپنے لیے بے جا طورپر ناکامی کا احساس، اور دوسروں کے بارے میں بے جا طور پر شکایت۔
پتھر ہر ایک کے لئے سخت ہے، البتہ وہ اس آدمی کے لیے نرم ہوجاتا ہے جو اس کو توڑنے کا اوزار رکھتاہو۔ یہی صورت ہر معاملے میں پیش آتی ہے۔ اگر آپ لیاقت اور اہلیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوئے ہوں تو آپ اپنی واقعی حیثیت سے بھی زیادہ حق اپنے لیے وصول کرسکتے ہیں۔’’وقت‘‘ گزرنے کے بعد بھی ایک اجنبی کالج میں آپ کا داخلہ ہوسکتاہے۔ لیکن اگر لیاقت اور اہلیت کے بغیر آپ نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کو اپنا واقعی حق بھی نہیں مل سکتا۔
گیس نیچے نہیں سماتی تو اوپر اٹھ کر وہ اپنے لئے جگہ حاصل کرتی ہے۔ پانی کو اونچائی آگے بڑھنے نہیں دیتی تو وہ نشیب کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ درخت سطح کے اوپر قائم نہیں ہوسکتا تو وہ زمین پھاڑکر اس سے اپنے لیے زندگی کا حق وصول کرلیتا ہے۔ یہ طریقہ جو غیر انسانی دنیا میں خدا نے اپنے براہِ راست انتظام کے تحت قائم کررکھا ہے، وہی طریقہ انسان کو بھی اپنے حالات کے اعتبار سے اختیار کرنا ہے۔
ہر آدمی جو دنیا میں اپنے آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہو، اس کو سب سے پہلے اپنے اندر کامیابی کااستحقاق پیدا کرنا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانے اور پھر اپنے حالات کو سمجھے۔ وہ اپنی قوتوں کو صحیح ڈھنگ سے منظم کرے۔ جب وہ ماحول کے اندر داخل ہو تو اس طرح داخل ہو کہ اس کے مقابلے میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو پور ی طرح تیار کرچکا ہو۔ اس نے حالات سے اپنی اہمیت منوانے کے لیے ضروری سامان کرلیا ہو۔ اگر یہ سب ہو جائے تو اس کے بعد آپ کے عمل کا جو دوسرا لازمی نتیجہ سامنے آئے گا، وہ وہی ہوگا جس کا نام ہماری زبان میں کامیابی ہے۔ (الجمعیۃ ویکلی، دہلی
ایک واقعہ
مسٹر عبد المحیط خاں نے
مسٹر اے ایم خان نے 1955 میں بنارس ہندو یونی ورسٹی سے الکٹریکل انجینئرنگ میں بی ای (B.E.) کی ڈگری لی۔ 1963 میں چندولی (ضلع بنارس، یوپی) کے پرائیویٹ پالی ٹیکنیک میں ایک جگہ خالی ہوئی۔ یہ سینئر لکچرر کی جگہ تھی۔ اسی کے ساتھ کامیاب امیدوار کو الیکٹریکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ (head) کا عہدہ بھی سنبھالنا تھا۔
اس کا انٹرویو بنارس کے کمشنر جے بی ٹنڈن کی سرکاری رہائش گاہ پر تھا۔ کمشنر صاحب چندولی پالی ٹیکنیک میں بحیثیت عہدہ اس کی مینیجنگ کمیٹی کے صدر بھی ہوتے تھے۔ چناںچہ وہ بھی انٹرویو میں شریک تھے۔ انٹرویوبورڈ کے ایک پروفیسر رام سَرن تھے۔ دوسرے رکن پروفیسر گیرولا تھے۔ پروفیسر گیرولا بنارس ہندو یونیورسٹی میں مسٹر خان کے استاد رہ چکے تھے۔
پروفیسر رام سرن نے مسٹر خان سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ— کیا آپ جانتے ہیں کہ انسٹرومنٹ ٹرانسفارمر کیا ہوتا ہے:
Mr. Khan, do you know what is instrument transformer?
مسٹر خان نے ابھی سوال کا جواب نہیں دیا تھا کہ پروفیسر گیرولا نے کمشنر ٹنڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اِس جاب کے لیے سب سے بہتر امیدوار ہیں۔ ان کے لیے انٹرویو دینے کا کوئی سوال نہیں:
He is the best candidate for the job. There is no question for interview.
اس کے بعد پروفیسر گیرولا نے کہا کہ — مسٹر خان، آپ جاسکتے ہیں:
Mr. Khan, you can go.
پروفیسر سرن جنھوں نے سوال کیا تھا، وہ خاموش رہے۔ مسٹر خان اپنے کاغذات لے کر کمرہ سے باہر آگئے۔ ایک ہفتہ کے بعد ان کو حسب قاعدہ اپائنٹمنٹ لیٹر مل گیا۔ وہ چندولی پالی ٹیکنیک میں سینئر لکچرر مع ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ الکٹریکل انجینئرنگ مقرر ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی ترقی ہوتی رہی، یہاں تک کہ وہ جوائنٹ ڈائرکٹر (ٹکنکل ایجوکیشنل) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
آج کل اکثر نوجوان یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ روزگار نہیں، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قابلِ روزگار افراد نہیں۔مسٹر اے ایم خان کے ساتھ مذکورہ واقعہ اِسی لیے پیش آیا کہ انھوں نے محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے، تعلیم کے دوران ان کا کردار نہایت عمدہ رہا۔ پروفیسرگیرولا اور دوسرے متعلق لوگوں کے درمیان ان کی تصویر نہایت عمدہ بنی۔ اِسی کی وہ قیمت تھی جو مذکورہ شان دار واقعہ کی صورت میں انھیں ملی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر دفتر اچھے کارکن کو چاہتا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اس کا کام درست طورپر نہیں چل سکتا۔ کوئی بھی آدمی اپنا دشمن نہیں، اِس لیے کوئی بھی آدمی اچھے کارکن کو نظر انداز کرنے والا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اچھا اور قابلِ اعتماد کارکن دوسروں کی ضرورت ہے۔ آپ دوسروں کی ضرورت بن جائیے۔ اور پھر آپ کے لیے روزگار حاصل کرنا کچھ بھی مشکل نہ ہوگا۔
اِس دنیا کا نظام دو طرفہ لین دین پر چل رہا ہے۔ یہاں شکایت اور احتجاج اور مطالبہ کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس دنیا کا سادہ اصول یہ ہے کہ — جتنا دینا اتنا پانا۔ اگر آپ روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے آپ کودوسروں کے لیے مفید بنا ئیے۔ اپنے اندر وہ مہارت پیدا کیجئے جس کی دوسروں کو ضرورت ہے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ اِس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کو روزگار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد روزگار خود آپ کو تلاش کرے گا، حتی کہ یہ حال ہوجائے گا کہ آپ آگے ہوں گے اور روزگار آپ کے پیچھے۔
جب بھی آپ دنیا میں کوئی جگہ چاہیں اور دنیا والے آپ کو وہ جگہ دینے پر تیا ر نہ ہوں تو دوسروں کی شکایت نہ کیجئے بلکہ یہ یقین کرلیجئے کہ آپ کے اندر کوئی کمی ہے جس کی بنا پر آپ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوسکے، اور پھر اس کمی کو دور کرنے میں لگ جائیے۔ اِس کے بعد آپ کو دوسروں سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
برادرم عبد المحیط خاں کے بارے میں اُن کی زندگی میں، میں نے کئی تحریریں شائع کی تھیں۔ اِن تحریروں میں ان کی زندگی کے وہ پہلو شامل ہوتے تھے جن میں عام لوگوں کے لیے سبق (lesson) ہے۔ انھیں تحریروں میں سے ایک تحریر وہ ہے جو انٹرویو کے انداز میں دہلی کے اخبار ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ کے شمارہ
ایسی مثالیں بھی ہیں
اِس مطبوعہ انٹرویو کو کسی تبدیلی کے بغیر یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’میرا رکشا اب شہر کے باہر ایک صاف ستھری سڑک پر چل رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک انتہائی وسیع میدان میں نئی تعمیر شدہ عمارتوں کا ایک سلسلہ نظرآیا، جس کے سامنے ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا— ’’گورنمنٹ ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ‘‘ اِس کا مطلب یہ تھا کہ میںاپنی منزلِ مقصودپر پہنچ گیا ہوں۔ ’’پرنسپل صاحب کا بنگلہ کون سا ہے‘‘۔ میں نے قریب کھڑے ہوئے کچھ طلبا سے سوال کیا۔ ’’وہ سامنے جو عمارت ہے، وہی پرنسپل صاحب کا بنگلہ ہے‘‘۔ بیک وقت کئی لڑکے بول پڑے۔اب میرا رکشا ایک خوب صورت مکا ن کے سامنے کھڑا تھا جس کا حلیہ بتاتا تھا کہ وہ جلد ہی بن کر تیار ہوا ہے۔ سامنے پلاسٹک کی کالی پلیٹ پر سفید حرفوں میں لکھا ہوا تھا:
A. M. Khan, Principal
اب مجھے پورا طمینان ہوگیا کہ یہی اس شخص کی رہائش گاہ ہے جس سے ملنے کے لیے میں اس وقت یہاں آیا ہوں۔ میں فوراً رکشے سے اتر گیا۔
میں نے کال بیل (call bell) کا بٹن دبایا اور جواب کے انتظار میں مکان کے باہر ٹہلنے لگا۔ سرکاری طورپر تعمیر شدہ رہائش گاہ ’’کلاس ون آفیسر‘‘ کے شایانِ شان تھی۔ مگر میں نے دیکھا کہ اس کے رکھ رکھاؤ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مکان کے چاروں طرف وسیع زمین سوکھی پڑی تھی۔ گملوں کی قطار اور السیشین (Alsatian) کا ہیبت ناک چہرہ بھی اس کی رونق بڑھانے کے لیے موجود نہیں تھا۔ موٹر گیرج تو بناہوا تھا، مگر وہ خالی تھا۔ چپراسیوں کی فوج بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اب میں ملاقات کے کمرہ میں تھا۔ یہ کمرہ بھی بس سادگی کی تصویر تھا۔ نہ صوفہ سٹ، نہ بیش قیمت قالین، نہ آرائش کے سازوسامان۔ میرا پہلا تاثر یہ ہوا کہ مسٹر خان ’’آمدنی‘‘ کرنے کے بہترین مقام پر ہوتے ہوئے بھی صرف سرکاری تنخواہ پر قناعت کرتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ انجینئرنگ کے ادارہ کا ایک پرنسپل اپنی تنخواہ کے علاوہ، بہت بڑی کمائی کرسکتا ہے۔ اگر مسٹر خان اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے تو گھر کے اندر اور باہر کا یہ نقشہ نہ ہوتا۔
میں مسٹر خان سے پہلی بار اس وقت متاثر ہوا جب وہ ہمارے یہاں پالی ٹیکنیک میں لکچرر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا خاص مضمون میتھمیٹکس اور الکٹریکل انجینیئرنگ تھا۔اپنے مضمون سے انھیں اس طرح دل چسپی تھی جیسے کسی نوجوان کو فلم اور ناول سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنے مضمون پر بے حد تیار تھے۔ اور اس طرح پڑھاتے تھے کہ ان کے ایک شاگرد کے الفاظ میں ’’بالکل گھول کر پلا دیتے تھے‘‘۔پالی ٹیکنیک میں جن درجات کو انھوں نے پڑھایا تھا، ان کا نتیجہ سو فی صد کامیاب رہا۔ میں انھیں خیالات میں غرق تھا کہ اتنے میں پیچھے کا پردا اٹھا او رمسٹر خان کمرہ میں داخل ہوئے۔ ایک انتہائی شریف انسان، ہنس مکھ چہرہ اور پُروقار شخصیت کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔
’’مسٹر خان‘‘ ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے کہا ’’میں اِس وقت آپ کے پاس اس لیے آیاہوں کہ آپ اپنی زندگی کے کچھ تجربات مجھے بتائیں۔ خاص طورپر وہ تجربات جو آپ کے پیشہ (profession)سے متعلق ہیں‘‘۔
’’میں کیا اور میرے تجربات کیا‘‘ مسٹر خان نے سادگی کے ساتھ جواب دیا۔
’’تجربات تو ہر شخص کے ہوتے ہیں اور آپ کے تجربات بھی یقینا ہوں گے‘‘۔
’’ہاں، اس لحاظ سے میں بھی کچھ تجربات کا نام لے سکتا ہوں‘‘۔
ٹھیک ہے، آپ جس حیثیت سے بھی بتائیں، مجھے تو آپ کے تجربات معلوم کرنے ہیں۔ خاص طور پر وہ تجربات جو آپ کی ملازمت کی زندگی سے متعلق ہیں۔‘‘
’’اس سے آپ کی کیا مراد ہے، یعنی آپ کس قسم کے تجربات مجھ سے سننا چاہتے ہیں‘‘۔
’’آپ مسلمان ہوتے ہوئے ایک اچھی سرکاری ملازمت میں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا ہندستان میں مسلمانوں کے لیے اس کا موقع ہے کہ وہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں پہنچ سکیں اور پہنچنے کے بعد عزت کے ساتھ رہیں‘‘۔میں نے سوال کو متعین کرتے ہوئے کہا۔یہ سنتے ہی مسٹر خان کا موڈ بدل گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے ان کی نازک رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ ’’یقینا‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’میرے نزدیک یہ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ اگر کوئی چیز ناممکن ہے تو وہ خود ہمارے اندر موجود ہے‘‘۔
’’براہِ کرم، تفصیل سے بتائیے کہ آپ کا کیا مطلب ہے‘‘۔میں نے کہا۔
’’آپ کو معلوم ہے کہ میری انجینئرنگ کی تعلیم ہندو یونی ورسٹی میں ہوئی ہے۔‘‘ انھوںنے کہنا شروع کیا۔ ’’اس وقت سے لے کر اب تک میرا سابقہ ہمیشہ ہندؤوں سے رہا۔ حالاں کہ میں نے کبھی مصالحت یا خوشامد پسندی کے نظریہ کے تحت کوئی بات نہیں کی، اور نہ میں نے کبھی اپنی اسلامیت کو چھپایا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ مجھے کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوئی۔ میں نے 1955 ء میں بی ایس سی (انجینئرنگ) پاس کیا۔ اگرچہ میرا سکنڈ کلاس آیا تھا، مگر جب میںنے اپنے ہندو اساتذہ سے تصدیق (testimonial) کے لیے کہا تو انھوں نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنی تحریریں مجھے عطا کیں۔ مثلاً الیکٹریکل کمیونی کیشن کے پروفیسر نے اپنی تصدیق میں میرا تعارف کراتے ہوئے لکھا:
I am confident that Mr. A. M. Khan will prove his merit in any branch of his profession.
(مجھے پورا اعتماد ہے کہ مسٹر خان اپنے پیشہ کے کسی بھی کام میں اپنی اہلیت ثابت کریں گے)
سول انجینئرنگ کے ہندو ریڈر نے یہ بتاتے ہوئے کہ میں اپنے موجودہ مطالعہ کی بنیاد پر جونیر ڈگری یا ڈپلوما کلاسز کو آسانی سے لے سکتا ہوں، میرے بارے میں لکھا:
...and after some experience, any classes without limitation.
(اور کچھ تجربات کے بعد مسٹر خان بلا قید کوئی بھی کلاس لے سکتے ہیں)
’’یہ الفاظ تو نہ صرف یہ کہ بے تعصبی کا ثبوت ہیں، بلکہ وہ اپنی حد سے بھی کچھ آگے بڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے اپنا تاثر ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’واقعی اگر آدمی لیاقت کا ثبوت دے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا اسے تسلیم نہ کرے‘‘۔ ’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ ’’مجھے لیاقت کادعویٰ تو نہیں ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ میں اپنا کام محنت اور دیانت داری سے کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب تک میں ملازمت کے تحت تین کالجوں میں رہا ہوں۔ اور تینوں جگہ کا میرا تجربہ یہی ہے کہ اگر آدمی اپنا کام ٹھیک طریقہ سے کرے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آسکتی‘‘۔ کیا براہِ کرم، آپ اپنے کچھ ایسے تجربات بتائیں گے جن سے آپ کے اِس خیال کی واقعاتی تائید ہوتی ہو‘‘ میں نے کہا۔ ’’ضرور‘‘ مسٹر خان نے کہنا شروع کیا۔
’’سب سے پہلے جس ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ میں میرا تقرر ہوا تھا، اس کا قصہ سنئے۔ وہاں ابتداء ً میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ ایک ہندو ٹیچر کو معلوم نہیں مجھ سے کیا ضد ہوگئی کہ وہ میرے خلاف ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ ایک روز تنخواہ تقسیم کرنے کا دن تھا۔ وہ میرے آفس آئے اور کچھ بدتمیزی کے انداز میں باتیں کیں۔ مجھے غصہ آگیا اور میں نے ان کو آفس سے نکلوا دیا۔ اب وہ مجھ سے اوربھی خفا ہوگئے، اور میرے خلاف ایک کیس تیار کیا جس میں مجھ پر طرح طرح کے فرضی الزامات قائم کئے اور اس کو لے کر ڈائرکٹریٹ میں پہنچے۔ پہلے انھوں نے آفس سپرنٹنڈنٹ سے ملاقات کی، مگر جب انھوں نے کچھ توجہ نہ دی تو وہ ڈائرکٹر سے ان کے دفتر میں ملے۔ جب انھوں نے ڈائرکٹر سے کہا کہ وہ میرے خلاف شکایت لے کر آئے ہیں تو ڈائرکٹر بہت خفا ہوئے۔ انھوں نے کہا ’’ہم مسٹر خان کے خلاف کوئی شکایت سننا نہیں چاہتے‘‘۔ اور یہ کہہ کر ان کو آفس سے باہر نکلوا دیا۔
’’اور آپ جانتے ہیںیہ ڈائرکٹر کون تھا‘‘۔ مسٹر خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور پھر خود ہی جواب دیا ’’وہ کوئی مسلمان نہیں، بلکہ ہندو تھا‘‘۔
’’میں سمجھتا ہوںکہ ایسا اس لیے ہوا کہ ڈائرکٹر کو معلوم ہوگا کہ آپ کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں کرتے اور اپنا کام محنت سے انجام دیتے ہیں‘‘میں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
’’پھر اسی سے ملتا جلتا قصہ ایک چپراسی کے ساتھ پیش آیا‘‘۔ ہمارے کالج میں بوائلر (boiler) کو نصب کرنے کے سلسلے میں کچھ تعمیرات کی ضرورت تھی۔ میں نے سوچا کہ چپراسیوں کی فوج بے کار پڑی رہتی ہے، ان کو مستریوں کے ساتھ کام پر لگا دوں۔ اِس طرح کام بھی ہوجائے گا اور کالج کا فائدہ بھی ہوگا۔چپراسیوں میں ایک شخص انسٹرکٹر (instructor)کے گریڈ کا تھا۔ اس سے میں نے کہا تو وہ بولا ’’میرا یہ کام نہیں ہے‘‘ مجھے اس کے جواب پر غصہ آیا اور میں نے اس کو معطل (suspend) کردیا، حالاں کہ قانونی طور پر مجھے معطلی کا اختیار نہیں تھا‘‘۔
’’اب اِس ہندو چپراسی نے میرے خلاف زبردست شکایت نامہ تیار کیا اور اس کو ڈائرکٹر کے نام روانہ کیا۔ وہاں سے میرے نام چٹھی آئی کہ ڈائرکٹریٹ میں ایسی ایسی شکایت پہنچی ہے اور یہ کہ میں اس کی وجہ بیان کروں۔ میں نے صحیح صحیح بات لکھ دی۔ اور لکھا کہ میں نے جو کچھ کیا، کالج کے مفاد میں کیا۔ اس کے بعد ڈائرکٹر کا فیصلہ آیا جس میں چپراسی کو اس سے بھی زیادہ سخت سزا دی گئی جو میں نے تجویز کی تھی۔ معطلی میں نصف تنخواہ ملتی ہے۔ ڈائرکٹر نے لکھا کہ اس کو تین مہینے کی بلا تنخواہ جبری رخصت دی جاتی ہے۔ نیز اس کو بد عملی (misconduct) کا مجرم قرار دیا اور لکھا کہ اس کا اندراج اس کی سروس بک میں کیا جائے‘‘۔
’’مگر حکم کے خلافِ ضابطہ ہونے کا ڈائرکٹر نے کوئی نوٹس نہیں لیا‘‘ میںنے کہا۔ ’’ہاں، اس نے فیصلہ کے آخر میں لکھا کہ ہیڈ ماسٹر کایہ فیصلہ اس کے اختیارات سے باہر تھا، اس لیے آئندہ احتیاط کی جائے‘‘۔
’’کیا آپ کا سابقہ کبھی کسی نیتا سے بھی پیش آیا ہے‘‘ میں نے ایک نیا سوا ل کیا۔
’’ہاں، ایسا بھی ہوا‘‘ مسٹر خان نے کہنا شروع کیا ’’ایک بار ایک خراد مشین (Lathe)کی خریداری کے سلسلے میں ایک دکان دار سات سو روپیہ غلط طورپر وصول کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو موقع نہیں دیا۔ اس کے علاوہ کالج کے اسٹاف میں بھی کئی لوگ اسی طرح کی وجوہ کی بنا پر اندر اندر مجھ سے برہم تھے۔ ان لوگوں نے مل کر ایک ایم ایل اے کے ذریعے سے اسمبلی میں میرے خلاف شکایت پہنچا دی۔ وہاں سے ڈائرکٹریٹ میں سوال نامہ آیا جو میرے پاس بھیجا گیا۔ اس میں مجھ پر مختلف قسم کے الزمات تھے، مثلاً—آپ مسلم گُٹ کے بڑے پجاری ہیں۔آپ گھس کھاتے ہیں۔ آپ اپنے کالج میں چوروں کو جگہ دئے ہوئے ہیں، وغیرہ۔
اسی طرح نمبر وار چھ سوالات تھے۔ میںنے ان سوالات کا الگ الگ کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے لکھا کہ یہ سب بالکل بے حقیقت باتیں ہیں اور اس طرح کی باتوں کے بارے میں میں کوئی صفائی دینا نہیں چاہتا۔ البتہ ڈپارٹمنٹ خود جو اقدام چاہے کرے۔ آخر میں میں نے لکھا:
If the department feels the least doubt about me, I may be relieved from my duties.
(اگر ڈپارٹمنٹ کو میرے اوپر ذرا بھی شبہہ ہو تو مجھے میری ملازمت سے الگ کر دیا جائے)
’’اس کے جواب میں پھر میرے پاس کوئی کاغذ نہیں آیا۔ البتہ مجھے معلوم ہوا کہ ایم ایل اے صاحب نے ایک اور لمبی چوڑی فردِ جرم میرے خلاف تیار کرکے روانہ کی جس کو ڈائرکٹر نے اپنے دفتر میں روک لیا اور دوبارہ اس کو میرے پاس نہیں بھیجا۔‘‘
’’آج کل لڑکوں کی طرف سے کالج کے لوگوں کو بڑی شکایت رہتی ہے، اس سلسلہ میں آپ کے تجربات کیا ہیں‘‘ میں نے پوچھا۔’’یہاں بھی وہی بات ہے‘‘ مسٹر خان بولے ’’اگر آپ اپنا کام اچھی طرح سے کریں تو آپ کو کبھی شکایت نہیں ہوگی‘‘۔
’’اس سلسلہ میں آپ اپنا کوئی متعین تجربہ بتائیے‘‘ میں نے کہا۔
’’بہت سے تجربات ہیں‘‘۔ مسٹر خان بولے ’’میں جب دوارکا پالی ٹیکنیک میں سینئر لکچرر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے کالج کا ایک لڑکا اپنا کپڑا لینے کے لیے شہر کی واشنگ کمپنی میں گیا۔ وہاں کسی بات پر دکان دار سے جھگڑا ہوا اور دکان دارنے لڑکے کو مار دیا۔ کالج میں جب اس کی خبر پہنچی تو تمام لڑکے بگڑ گئے اور لاٹھی اور بلم لے کر بہت بڑی تعداد میں بازار کی طرف مارچ کرنا شروع کردیا۔ پرنسپل صاحب نے مجھ کو بلوایا، کیوں کہ پرنسپل صاحب کو معلوم تھا کہ لڑکے میرا کچھ لحاظ کرتے ہیں۔ میںوہاں پہنچا تو لڑکے نعرہ لگاتے ہوئے بازار کی طرف بڑھ رہے تھے۔میں فوراً لاٹھیوں اور بلموں سے مسلح اِس مجمع میں گھس گیا، اور کہا کہ تم لوگ آگے نہیں جاسکتے۔ کچھ دیر کی کوشش کے بعد بالآخر لڑکوں نے کہا اچھا، اگر آپ کہہ رہے ہیں تو ہم رک جاتے ہیں، ورنہ آج اِس دکان دار کی خیریت نہیں تھی‘‘۔
’’یہ پرنسپل کس قوم کا آدمی تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’ہندو تھا‘‘ مسٹر خان نے کہا ’’اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہندوپرنسپل کی بات لڑکوں نے نہیں مانی اور وہ مسلمان لکچرر کی بات مان گئے‘‘۔ ’’جی ہاں۔ یہ بہت عجیب واقعہ ہے‘‘۔ میںنے کہا۔ ’’اور آپ تو اسی پالی ٹیکنیک کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ پھر آتے وقت لڑکوں کا رد عمل کیا رہا‘‘۔
’’یہ اور بھی زیادہ عجیب واقعہ ہے۔ اور سچ پوچھئے تو مجھے امید نہیں تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
’’براہِ کرم، اس کی کچھ تفصیل بتائیے‘‘۔
’’وہ بھی سن لیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ روانگی سے دو دن پہلے لڑکوں کی ایک جماعت میرے پاس آئی اور اس نے اصرار کیا کہ کل آپ دن بھر ہم کو پڑھائیے اور کورس پورا کردیجئے‘‘۔
’’شاید ان کو احساس تھا کہ آپ کے بعد کوئی ایسا پڑھانے والا ان کو نہیں ملے گا‘‘۔میں نے کہا۔
’’ہاں، بہر حال ان کو میرے بارے میں اس قسم کی خوش گمانی تھی‘‘۔ مسٹر خان نے کچھ رکتے ہوئے کہا ’’چناں چہ حال میں وہاں کے ایک لکچرر مجھ سے ملے تو انھوںنے بتایا کہ میرے آنے کے بعد جس ہندو لکچرر کو میرا کلاس دیاگیا تھا، کچھ دن کے بعد لڑکوں کا کہنا تھا کہ خاں صاحب جتنا پڑھا گئے تھے، وہی ہم جانتے ہیں، اس کے بعد کا کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔
پھر روانگی کے دن لڑکوں نے مجھ کو جو الوداعی پارٹی دی، لوگ کہتے ہیں کہ وہ کالج کی پوری تاریخ میں نرالی پارٹی تھی۔
’’اس کی بھی تفصیل بتائیے‘‘ میں نے کہا ’’پارٹی کے بعد‘‘ مسٹر خان نے ہچکچاہٹ کے انداز میں کہنا شروع کیا ’’ایک ایک لڑکے نے مجھ کو ہار پہنائے۔ یہ ہار مقدار میں اتنے زیادہ ہوگئے کہ بلامبالغہ ایک بیل گاڑی ان سے بھری جاسکتی تھی۔ پھر یہ طلبہ چوںکہ تقریباً سب کے سب ہندو تھے، اِس لیے اپنے اصول کے مطابق، ہر ایک نے ’’چرن اسپرش‘‘ بھی کیا، یعنی ہر لڑکا ہار پہنانے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوتا تھا‘‘۔
’’اس موقع پر آپ کو سپاس نامہ بھی تو دیا گیا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا۔
’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ اس کے بعد انھوںنے بڑے سائز پر فریم کیا ہوا ایک ’’ابھی نندن پتر‘‘ (سپاس نامہ) اندر سے منگوایا۔ میںنے دیکھا تو اس میں مسٹر خان کو نہایت عزت اور محبت کے ساتھ خطاب کیا گیا تھا اور ان کو ’’آدرش گرو‘‘، ’’گیان نِدھی‘‘، ’’سوم تیاگی مورتی‘‘ ، ’’گیان ساگر‘‘ وغیر ہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا۔ اِسی کے ساتھ لڑکوں نے کئی اور قیمتی سامان اظہارِ خلوص کے طورپر مسٹر خان کو دیے۔
’’اس کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں تمام لڑکے میرے ساتھ اِس طرح اسٹیشن آئے کہ وہ راستہ بھر نعرہ لگا رہے تھے‘‘۔ ’’کیا نعرہ تھا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’وہی جو عام طور پر ہوتا ہے‘‘۔
’’آخر بتائیے کہ وہ نعرے کیا تھے‘‘۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’یہی کہ — خان صاحب زندہ باد، گروجی زندہ باد، خان صاحب امر رہیں،وغیرہ‘‘۔ پھرجب لڑکوں نے آخری طورپر مجھے رخصت کیا تو تمام لڑکے زار وقطار رو رہے ـتھے‘‘۔
’’یہ واقعی نہایت عجیب واقعہ ہے‘‘میں نے کہا۔اور جب یہ خیال کیا جائے کہ یہ واقعہ ابھی 1966 کے آخر میں پیش آیا ہے تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان اگر واقعی اپنا کام ٹھیک طریقہ سے انجام دے تو سارے تعصب کے باوجود وہ ہندؤوں کے اندر انتہائی عزت کا مقام حاصل کرسکتا ہے اور اگر ساری قوم ایسی ہوجائے تو تعصب کی دیوار سرے سے ڈھ جائے‘‘۔
’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا ’’میں تو تعصب وغیرہ کی بات کو بالکل نہیں مانتا۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور واقعہ مجھے تعصب کے وجود سے انکار ہے۔ بلا شبہہ تعصب ہے۔ مگر ہر کام میں کچھ نہ کچھ مشکلیں ہوتی ہیں اور تعصب کی حیثیت بھی میرے نزدیک بس زندگی کے ایک ’’چیلنج‘‘ کی ہے۔ جس طرح دوسرے چیلنجوں کو محنت اور دانش مندی سے عبور کیاجاتا ہے، اِسی طرح اِس چیلنج کو بھی یقینی طورپر عبور کیا جاسکتا ہے۔ زندگی میں دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہوتی کہ کوئی مشکل ہے یا نہیں، بلکہ دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ مشکل کا کوئی حل موجود ہے یا نہیں۔ اگر حل موجود ہے تو پھر کوئی مشکل مشکل نہیں‘‘۔
میں مسٹر خان کی اِن باتوں کو حیرت کے ساتھ سن رہا تھا۔ کیوں کہ میرا خیال تھا کہ وہ صرف انجینئر ہیں، مگر معلوم ہوا کہ وہ انجینئر ہی نہیں، بلکہ مفکر بھی ہیں۔ ان کے پاس ہندستان کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو بہت سے مفکروں اور لیڈروں کے پیغامات سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔
’’اب تعصب کی بات پر ایک قصہ اور سُن لیجئے‘‘ مسٹر خان کچھ دیر خاموش رہ کر بولے۔
’’جس پالی ٹیکنیک کو چھوڑ کر میں یہاں آیا ہوں، اس کے پرنسپل ہندو تھے اور نہایت متعصب ہندو۔ وہاں کام کے دوران مجھے دو جگہیں ملیں۔ ایک، آئی ٹی آئی (I.T.I) میں ٹکنکل افسر کی جگہ اور دوسرے یہاں پرنسپل کی جگہ، مگروہ کسی طرح مجھے relieve کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ بڑی لمبی کش مکش اور حکومت کے سخت احکام کے بعد انھوں نے مجھے چھوڑا ہے‘‘۔
’’شاید متعصب ہونے کی وجہ سے وہ آپ کو پریشان کرنا چاہتے ہوں گے‘‘ میں درمیان میں بولا۔’’ہاں، عام خیال تو یہی تھا‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ ’’مگرمجھے ان کی ایک تحریر ملی جو انھوںنے کمشنر کے نام لکھ کر بھیجی تھی۔ اِس سے اندازہ ہوا کہ معاملہ صرف تعصب کا نہیں تھا‘‘۔
’’وہ کیا تحریر تھی‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ دو صفحہ کا ایک خط تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ کیوں مجھ کو یہاں سے relieve کرنا کالج کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس تحریر کا آخری جملہ یہ تھا:
The departure of Mr. A. M. Khan from this institute would cause the education of students to suffer an irreparable loss.
(مسٹر اے ایم خان کا اس ادارے سے جانا لڑکوں کی تعلیم کے لیے ایسے نقصان کا باعث ہوگا جس کی تلافی نہیں کی جاسکتی)
اب ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا اور مسٹر خان کی نگاہیں اپنی گھڑی کی سوئی پر جم چکی تھیں۔
’’مسٹر اے ایم خان‘‘ میںنے کہا ’’مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ مجھے آپ کی زندگی میں مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام نظر آتا ہے۔ میں اِس پیغام کو سارے مسلمانوں تک پہنچاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان اگر آپ کے نمونہ کو پکڑ لیں تو ان کے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے‘‘۔ (الجمعیۃ ویکلی، صفحہ
تعلیم کا شوق
برادرم عبد المحیط خاں کو تعلیم کا بہت شوق تھا۔ وہ تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ خود انھوں نے نہایت محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ پہلے انھوں نے ایک گھریلو استاد ماسٹر صدیق صاحب سے گاؤں (بڈھیریا) پر تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوںنے اعظم گڑھ سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اِس کے بعد ان کی بقیہ تعلیم ہندو یونی ورسٹی (بنارس) میں ہوئی۔ تعلیم کے زمانے میں شروع سے آخر تک ظہیر الاسلام مرحوم اُن کے ساتھی تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ظہیر الاسلام صاحب نے علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی میں سروس حاصل کرلی تھی۔ علی گڑھ میں 1988 میں ان کا انتقال ہوا۔
برادرم عبد المحیط خاں تعلیم کے سلسلے میں طلبا کی مدد کرتے رہتے تھے۔ سروس کے زمانے میں وہ طلبا کو الگ سے پڑھایا کرتے تھے۔ رٹائرمنٹ کے بعد انھوںنے طلبا کو میتھمیٹکس پڑھانے کے لیے اپنے گھر پر ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا۔ اِس سے بہت سے طلبا نے فائدہ اٹھایا۔ اِن طلبا میں زیادہ تعداد ہندو نوجوانوں کی ہوتی تھی۔ تعلیم کے بارے میں وہ نوجوانوں کے ساتھ کس طرح تعاون کرتے تھے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے بھتیجے شکیل احمد خاں انجینئر نے ہائی اسکول کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی اور اعظم گڑھ میں محمد یونس صاحب کی شرکت میں تیل کی دکان کرلی تھی۔ عبد المحیط خاں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہ دکان سے ہٹا کر شکیل احمد خاں کو اپنے ساتھ لے گئے اور بنارس ہندو یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلوا کر ان کی تعلیم مکمل کرائی۔ شکیل احمد خاں انجینئر تعلیم کے بعد انڈسٹری کے میدان میں آگئے۔ پہلے انھوں نے اپنے والد کے ساتھ الٰہ آباد میں لائٹ اینڈ کمپنی لمیٹڈ قائم کی۔ بعد کو وہ عرب امارات چلے گئے۔ وہاں زیادہ بڑے پیمانے پر وہ شارجہ میں کام کرتے رہے۔ 7 اپریل 2010 کو 70 سال کی عمر میں حیدرآباد (انڈیا) میں ان کا انتقال ہوا۔
جدیدتعلیم (modern education) کا چرچا ہمارے خاندان میں بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی اقبال احمد خاں سہیل (وفات:1955 ) نے بنارس سے ہائی اسکول کیا۔ اس کے بعد وہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ گئے۔ وہاں انھوں نے بی اے، ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اقبال احمد خاںسہیل علی گڑھ میں ایک نہایت ممتاز طالب علم کی حیثیت رکھتے تھے۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی (وفات :1977 ) مولانا اقبال سہیل کے ساتھیوں میں سے تھے۔ مولانا سہیل کی علی گڑھ کی تعلیمی زندگی کے زمانے کا ایک واقعہ وہ اِس طرح بیان کرتے ہیں:
’’1918 یا 1919 کا واقعہ ہے، یونین میں ’’اُمّ الالسِنَۃ عربی‘‘ پر پروفیسر خواجہ کمال الدین مرحوم کی اردو میں تقریر تھی۔ مرحوم نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا: مولانا، تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریر سنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سہیل سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادہ میں ملفوف تھے۔ سرپر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس پر ایک ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محوِ حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو پریسڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف ’’سازش‘‘ کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچا دیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میز کے پاس کھڑے کئے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی تھوڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانانے بے تکلف تقریر شروع کردی۔ اِس اعتماد سے گویا تمام عمر اِسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھہرتا اور صدر کا شکریہ بھی اِسی بد نظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا سہیل نے بھی ’’اُم الالسنہ عربی ‘‘ پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹے تک تقریر کی۔ نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پرروشنی ڈالی۔ نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر کو اِس درجہ دل نشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنا دیا کہ خواجہ کمال الدین نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا اور فرمایا: ’’تمھارے ایسا جامعِ کمالات آدمی ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو میں اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں‘‘۔ (مضامینِ رشید، صفحہ
اقبال احمد خاں سہیل کے ذریعے خاندان کے اور بہت سے لوگوں نے جدید تعلیم حاصل کی۔ میرے بڑے بھائی عبد العزیز خاں کا داخلہ انھوںنے اعظم گڑھ کے ایک اسکول میں کرایا، لیکن عبدالعزیز خاں صاحب اپنی تعلیم آگے تک جاری نہ رکھ سکے۔ وہ جلد ہی انڈسٹری کی لائن میں چلے گئے۔
عبد العزیز خاں صاحب نے عبد المحیط خاں کو یونی ورسٹی کی تعلیم دلائی۔ اِس کے بعد عبد المحیط خاں نے میرے بھتیجے شکیل احمد خاں کو بنارس ہندو یونی ورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم دلائی۔
بعد کو مجھے یہ خیال ہوا کہ ہمارے خاندان میں افراد کے اعتبارسے تو جدید تعلیم آئی، لیکن اجتماعی اعتبار سے کوئی خاص کام نہ ہوسکا۔ چناں چہ میں نے شکیل احمد خاں سے کہا کہ ہمارے وطن بڈھیریا (اعظم گڑھ) میں ایک انگریزی اسکول کھولا جائے۔ اِس طرح بڈھیریا میں ایک ہائی اسکول قائم ہوا جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اِس اسکول کا آئڈیا میں نے ہی دیا تھا۔ چناں چہ اسکول کے تعارف نامے میں یہ الفاظ درج ہیں:
It was during one of the discussions between Shakil Ahmad Khan and his uncle, Maulana Wahiduddin Khan, that the idea of establishing an educational institution was conceived.
یہ معاملہ ڈسکشن (discussion) کا نہ تھا، بلکہ وہ سجیشن (suggestion) کا معاملہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ 2000ء کے آغاز میں میرے بھتیجے شکیل احمد خاں انجینئر جو شارجہ میں کاروبار کرتے تھے، دہلی میں مجھ سے ملے۔ انھوں نے بتایا کہ میرے پاس کچھ رقم ہے، اُس کو میں کسی ملّی کام میں لگانا چاہتا ہوں۔ مسٹر شکیل احمد خاںنے بتایا کہ انھوں نے کچھ مشہور مسلم اداروں کے ذمہ داروں کے سامنے یہ پیش کش کی کہ وہ یہ رقم ان کو دے دیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ ایک مقرر مدت تک ادارہ کا کنٹرول میرے ہاتھ میں ہوگا، مگر کسی نے یہ شرط نہ مانی۔
میں نے شکیل احمد خاں سے کہا کہ اِس طرح آپ اپنا پیسہ صرف ڈمپ (dump) کریںگے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ آپ یہ کیجئے کہ اس رقم سے بڈھریا میں ایک اچھا انگلش میڈیم اسکول کھولیے۔ شکیل صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اِس طرح ہمارے خاندان کی مشترک زمین پر یہ اسکول ستمبر 2000ء میں قائم ہوا۔
موت کا زندہ تصور
میںنے غور کیا کہ موت کے بارے میں یہ نیا شعور میرے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اصل یہ ہے کہ ہم لوگ 6بھائی بہن تھے۔ چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے سوا تمام بھائی بہن مرچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اِس احساس سے مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ میرے بھائی اور بہن کل تک اِسی دنیا میںتھے جہاں کہ میں ہوں، لیکن اب وہ ایک ایک کرکے مرچکے ہیں، یہاں تک کہ 6بہن بھائیوں میں اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ وہ لوگ اِس دنیا سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ اب نہ وہ مجھ سے مل سکتے ہیں اور نہ میں اُن سے مل سکتا۔ موت نے مجھ کو اپنے تمام بھائی بہنوں سے ابدی طورپر جدا کردیا۔
موت کیا ہے۔ موت ایک جبری انخلا (compulsory expulsion) کا معاملہ ہے۔ موجودہ زندگی میں ہر آدمی اپنے لیے ایک دنیا بناتا ہے— گھر، جائداد، بزنس، اولاد، تعلقات، شہرت، عوامی حلقہ، عہدہ، سماجی پوزیشن، وغیرہ۔ اِن تمام چیزوں کی بنیاد پر ہر آدمی کی اپنی ایک چھوٹی یا بڑی دنیا ہوتی ہے، جس کے اندر وہ اپنے صبح و شام گزارتا ہے۔ وہ اس کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔ لیکن اچانک موت کا وقت آجاتا ہے اور فرشتے اس کو جبری طورپر موجودہ دنیا سے نکال کر اُس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کے پاس اپنے ذاتی وجود کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا— موت کے واقعے کو صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس حقیقت کا زندہ شعور رکھتا ہو۔
عبد المحیط خاں کی یادداشتیں
عبد المحیط خاں مرحوم رٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر علی گڑھ اور فیض آباد میں رہتے تھے۔ اِس زمانے میں اُن پر زیادہ تر موت کی یاد اور آخرت کی سوچ کا غلبہ ہوتا تھا۔ وہ اپنا زیادہ وقت ’’تذکیر القرآن‘‘ اور دوسری اسلامی کتابیں پڑھنے میں گزارتے تھے۔ مطالعے کے دوران وہ الرسالہ اور میری کتابوں کے منتخب حصے ایک نوٹ بک میں لکھتے رہتے تھے۔ اِس طرح ان کی بہت سی تحریریں متفرق اجزا کی صورت میں جمع ہوگئی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تحریروں کا یہ مجموعہ ان کی صاحب زادی فہمیدہ خانم نے مجھ کو دیا۔یہاں اِن اقتباسات کے کچھ منتخب حصے نقل کئے جاتے ہیں:
ک معرفت، خدا کی شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پُراسرار چیز کانام نہیں۔
ک معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ (divine gift) ہے۔ دنیا میں جس انسان کو معرفت کا عطیہ ملا، وہی وہ انسان ہے جو آخرت میں جنت کے عطیہ کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت گویا کہ کسی انسان کے لیے خدا کا دنیوی انعام ہے، اور جنت کسی انسان کے لیے خداکا اُخروی انعام۔
ک معرفت صرف اُس سینے میں جگہ پاتی ہے جو مکمل طورپر منفی احساس سے خالی ہو۔ جس دل کے اندر نفرت اور غصہ اور انتقام موجود ہو، اُس دل میں کبھی معرفت جگہ نہیں پائے گی۔
ک دعا ایک طاقت ہے۔ نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی کھونا آخری نہیں، بلکہ ہر کھونے میںاز سرِ نو پانے کا راز چھپا ہوا ہے۔
ک شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (
ک آخرت میں نجات صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو خدا کے یہاں اِس حال میں پہنچیں کہ اُن کے پاس دو میں سے کوئی ایک چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہو۔وہ دو چیزیں یہ ہیں— سچا عمل، یا سچی دعا۔ سچا عمل وہ ہے جو خالص رضائِ الٰہی کے لیے کیا جائے۔ اور سچی دعا وہ ہے جو کامل عجز کی سطح پر کی گئی ہو۔
ک جنت کیا ہے، جنت دراصل خداکے پڑوس میں رہنے کا نام ہے (
ک جنت ایک حقیقی انعام ہے اور حقیقی انعام کسی کو ایک حقیقی عمل ہی کے ذریعے مل سکتا ہے، اِس سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔
ک جو لوگ اپنی موجودہ زندگی میں جنت کے طالب نہ بن سکیں، جن کا دل جنت کے سوا کسی اور چیز میں لگاہواہو، وہ اللہ کے مطلوب انسان نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کی۔ ان کا کیس ناقدری کا کیس ہے، نہ کہ قدردانی کا کیس۔
ک آخرت کی جنت اُس کے لیے ہے جو اِس دنیا کی لذتوں سے اپنے آپ کو بے رغبت بنالے، اور آخرت کی جہنم اُس کے لیے ہے جو اِس دنیا کی لذتوں میں گم رہے، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرجائے۔
ک جہنم کے دروازے پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے، اور جنت کی طرف جانے والا راستہ بالکل سونا پڑا ہوا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ غیر خدائی منظر جو آج خدا کی دنیا میں ہر طرف نظر آتا ہے۔
ک موت زندگی کا خاتمہ نہیں۔ موت ایک نئے دور حیات کا آغاز ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو آج کے ملے ہوئے مواقع کو کل کے لیے استعمال کرے۔
ک موت کے مقابلے میں ہر ایک کے لیے شکست مقدر ہے۔ کسی کا عہدہ، کسی کی مقبولیت، کسی کی دولت، کسی کا اقتدار، غرض کسی کی کوئی چیز اِس کو ہر گز موت سے بچانے والی نہیں۔
ک کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
ک موت کا مطلب مرنے والے کے لیے یہ ہے کہ وہ عمل کی دنیا سے نکل کر جزا کی دنیا میں چلا گیا۔ وہ اپنے خالق کے سامنے حساب وکتاب کے لیے کھڑا کردیاگیا۔ جہاںتک زندہ رہنے والوں کا معاملہ ہے، موت اُن کے لیے ایک سنگین یاد دہانی (reminder) کی حیثیت رکھتی ہے۔
ک لوگ اپنی سال گرہ(birthday) مناتے ہیں، حالاں کہ ہر سال گرہ صرف اِس بات کا اعلان ہے کہ آدمی کی عمر کا ایک سال اور کم ہوگیا۔ ایسی حالت میں، ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ہر سال کی تکمیل پر آنے والی موت کو یاد کرے۔ کیوں کہ اگلی سال گرہ کا آنا یقینی نہیں، لیکن موت کا آنا یقینی ہے۔
ک موت ایک ایسا گیٹ ہے جس کے اندر آدمی داخل ہونے کے لئے مجبور ہے۔ اور داخل ہونے کے بعد اس کو خالقِ کائنات کا آخری فیصلہ (final judgement)سننا ہے۔ اِس فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے کوئی اور عدالت موجود نہیں۔
ک موت کا فرشتہ کبھی اپائنٹمنٹ (appointment) لے کر نہیں آتا، وہ بتائے بغیر اچانک آدمی کے پاس آجاتا ہے۔ عقل مندانسان وہ ہے جو ہر دن کواپنا آخری دن سمجھے۔
ک جو آدمی دوسروں کی موت کے واقعے میں خود اپنی موت کو دیکھے، وہی زندہ انسان ہے۔زندہ انسان اِس کا انتظار نہیں کرتا کہ خود اُس پر ایک مہلک تجربہ گزرے، اس کے بعد وہ اُس سے سبق لے۔ زندہ انسان وہ ہے جو دوسروں پر گزرنے والے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔
ک مرنے والے مرگئے— یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ایک اور خبر ایسی ہے جو کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ کہ مجھے بھی ایک دن مرنا ہے۔ ایک دن میرا بھی وہی انجام ہونے والا ہے جو انجام دوسروں کا ہوچکا ہے۔
ک ہر آدمی اپنی ساری توانائی خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماتا ہے، صرف اِس لیے تاکہ وہ جہنم کا زیادہ مہنگا ٹکٹ خرید سکے— یہ جملہ اکثر نہایت درد کے ساتھ میری زبان سے نکل جاتا ہے۔
ک آدمی اپنے بچوں کے مادّی مستقبل کی تعمیر میں اپنے آپ کو ہلکان کئے رہتاہے، یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آجاتاہے اور خود اُس کو ایک ایسے مستقبل کی طرف ہانک دیا جاتا ہے جس کے لیے اس نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔
ک امتحان ہال کے اندر ایک طالب علم جس نفسیات کے ساتھ رہتا ہے، اُسی نفسیات کے ساتھ ہم کو اپنی پوری زندگی میں رہنا ہے۔ ہر ایک کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دیے ہوئے پرچے کو درست طور پر حل کرے، تاکہ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اُس کا رزلٹ سامنے آئے تو وہ اُس کے لیے کامیابی کی خوش خبری ہو، نہ کہ ناکامی کا اعلان۔
ک آخرت کی جنت صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
ک آج لوگوں کے پاس الفاظ ہیں جن کو وہ بے تکان دہرارہے ہیں۔ مگر ایک وقت آنے والا ہے جب کہ ان کے الفاظ چھن چکے ہوں گے۔ وہاں کوئی سننے والا نہ ہوگا جو ان کی باتوں کو سنے۔
ک زندگی ایک بے اعتبار چیز ہے، جب کہ موت بالکل یقینی ہے۔ ہم ہر لمحہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم زندگی کے مقابلہ میں موت سے زیادہ قریب ہیں۔جو چیز ابھی اگلے لمحہ آسکتی ہو، وہ گویا ہر وقت آرہی ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ آچکی ہے، بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ وہ آنے والی ہے۔ اسی لیے حدیث میںارشادہوا ہے کہ ’’اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو‘‘۔
ک آدمی زندگی چاہتا ہے۔ مگر بہت جلد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف موت اس کا استقبال کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔
ک انسان اپنی عظمت کا محل تعمیر کرتا ہے، مگر موت کا طوفان اس کو تنکوں کی طرح اڑا کر یہ سبق دیتاہے کہ انسان کو اس دنیا میں کوئی قدرت حاصل نہیں۔
ک فیصلہ کا یہ دن ہر آدمی کی طرف دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس دن ہر آدمی اپنی اصل صورت میں ظاہر ہو جائے گا۔ خواہ اس نے اپنے اوپر کتنے ہی زیادہ پردے ڈال رکھے ہوں، خواہ اس نے اپنے آپ کو کتنے ہی خوب صورت الفاظ میں چھپا رکھا ہو۔
ک ہر آدمی کی اصل حقیقت خدا کے علم میں ہے، مگر دنیا میں خدا لوگوں کی حقیقت کو چھپائے ہوئے ہے۔ آخرت میں وہ ہر ایک کی حقیقت کو کھول دے گا۔ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدا کی ترازو کھڑی ہو اور ہر آدمی کو تول کر دیکھا جائے کہ کون کیا تھا اور کون کیا نہیں تھا۔ اس وقت کا آنا مقدر ہے۔ کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے بچا نہیں سکتا۔ کامیاب صرف وہ ہے جو آج ہی اپنے آپ کو خدا کی ترازو میں کھڑا کرے، کیوں کہ جو شخص کل خدا کی ترازو میں کھڑا کیا جائے، اس کے لیے بربادی کے سوا اور کچھ مقدر نہیں۔
ک موت سے پہلے آدمی کو بہت سے کام نظر آتے ہیں۔ مگر موت کے بعد آدمی کے سامنے صرف ایک ہی کام ہوگا— یہ کہ خدا کے غضب سے وہ کس طرح بچے۔
ک ہر آدمی چل رہا ہے ۔ہر آدمی کا چلنا موت پر ختم ہوتا ہے۔ موت کسی کے لیے جنت کا دروازہ ہے اور کسی کے لیے جہنم کا دروازہ۔ وہ انسان بڑا خوش قسمت ہے جس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اپنے آپ کو جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا پائے۔
ک آہ، وہ انسان جس کو اُسی چیز کا شوق نہیں جس کا اسے سب سے زیادہ شوق کرنا چاہیے۔ آہ، وہ انسان جو اسی چیز سے سب سے زیادہ بے خوف ہے جس سے اسے سب زیادہ خوف کرنے کی ضرورت ہے۔
ک زندگی عمل کا وقفہ ہے اور موت خدا کی عدالت میں پیشی کا وقت۔
ک ایک دعا — خدایا، جب اہلِ دنیا سے میرا ساتھ چھوٹے تو مجھے خداوند ِذوالجلال کی قربت حاصل ہوجائے۔ مجھے انسانوں کی مجلس سے اٹھنا پڑے تو مجھے فرشتوں کی مجلس میں شامل ہونا نصیب ہوجائے۔ جب موت مجھے اپنے لوگوں سے منقطع کردے تو میں اکیلا نہ ہوجاؤں، بلکہ مجھے اعلیٰ تر مجلس میں خدا اور اس کے فرشتوں کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوجائے۔
فہمیدہ خانم کا خط
برادرم عبد المحیط خاں کے پس ماندگان میں تین خواتین شامل ہیں— اُن کی اہلیہ عابدہ خاتون (پیدائش: 1942)، ان کی دو لڑکیاں،فہمیدہ خانم (پیدائش:1964 )، اور سعیدہ خانم (پیدائش:1965 )۔ فہمیدہ خانم فیض آباد (یوپی) میں رہتی ہیں اور دوسری صاحب زادی بمبئی میں مقیم ہیں۔ عبد المحیط خاں کے متعلقفہمیدہ خانم کا ایک خط مجھے ملا ہے۔ اُس کو یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’تعلیم ختم ہونے کے بعد پاپا (عبد المحیط خاں)نے کئی جگہ تھوڑے دن سروس کی۔ جیسے Hydel. Dep. Jamia, وغیرہ۔ پھر ان کو ٹیکم گڑھ (مدھیہ پردیش) میں سروس ملی۔ وہاں سے پروموشن (promotion) کے بعد وہ چندولی پالی ٹیکنیک میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ پر آئے۔ پھر جلد ہی پالی ٹیکنیک کے پرنسپل ہوگئے تھے۔سروس کرنے کے تقریباً 2 سال بعد ہی ان کی شادی 1959میں عابدہ خاتون سے ہوئی۔عابدہ خاتون، شاہ گنج (جون پور، یوپی) کے مشہور ڈاکٹر بدر الدین بی یو ایم ایس (وفات: 1985) کی صاحب زادی ہیں۔ پاپا، امی سے بے انتہا محبت کرتے تھے جس کو خاندان کا ہر فرد جانتا ہے۔امی نے بھی ہر موقع پر ان کا پورا ساتھ دیا۔ ان کی مرضی کے بغیر کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کی پسند، نا پسند کا خیال رکھا۔ آخری دنوں میں انھوںنے امی سے کہا تھا: ’’تمھاری حکیمانہ باتوں سے مجھے بہت سکون ملتاہے‘‘۔
وہ گھر سے جب بھی آفس کے لیے نکلتے تھے، یا کسی اور کام سے، پہلے وہ 2 رکعت نماز ادا کرتے، اور دعائیں پڑھ کر ہم لوگوں کو پھونک دیتے، پھر گھر سے نکلتے تھے۔ ایک بات جو امی سے وہ اکثر مسکرا کرکہتے تھے ’’آپ میری ناک ہیں، اور دونوں بیٹیاں میری آنکھ ہیں‘‘۔ اِس طرح وہ ہم سب سے بہت محبت کرتے تھے۔
انھوں نے جس طرح محنت سے پڑھائی کی، اسی طرح انھوںنے محنت اور ایمان داری سے سروس بھی کی۔
دوسرے سال پھر یہ ہوا کہ خان صاحب ہیں اور نقل کی سختی ہے تو کچھ لوگوں نے لڑکوں کو غنڈہ گردی سکھائی، اُس وقت اندرا گاندھی کی گورنمنٹ تھی اور ایمرجنسی کا زمانہ تھا۔ پالی ٹیکنیک کی نمائش لکھنؤ میں لگی ہوئی تھی۔ پاپا لکھنؤ گئے ہوئے تھے۔ یہاں لڑکوں نے احتجاج میں روڈ ویز کی بس پالی ٹیکنیک کے سامنے جلا دی۔ اِس طرح کافی بچے جیل چلے گئے اور وہ سال بھی تقریباً خرا ب ہوا۔پاپا نے ڈی ایم سے کہہ کر لڑکوں کو جیل سے نکلوایا۔ اُس وقت فیض آباد کے ڈی ایم سچدا نند پانڈے (Sachidanand Pandey) تھے، وہ پاپا کو بہت زیادہ مانتے تھے۔ ابھی تک پاپا ان کی بات بتا کر انھیں یاد کرتے تھے۔ اس زمانے میں اے سی آر (ACR) ڈی ایم لکھا کرتا تھا۔ پاپا سے وہ اتنا خوش رہتے تھے کہ انھوںنے پاپا کے لیے جو اے سی آر لکھا، اتنا اچھا اے سی آر کسی نے نہیں لکھا۔
جب 1997 میں جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو اُس وقت کے اسٹیٹ منسٹر نے کچھ لڑکوں کا داخلہ کرانے کے لیے اُن کے پاس بھیجا۔ اِن لڑکوں کے مارکس داخلے کے لیے کافی نہ تھے۔اِس کو پاپا نے سختی سے رد کردیا اورلڑکوں کا داخلہ نہیں لیا۔اس وجہ سے منسٹر صاحب اتنے ناراض ہوئے کہ انھوںنے پاپا کے ٹرانسفر کا آرڈر لکھوا دیا۔ آرڈر کو ٹائپ کراکے وہ کیبنٹ منسٹر کے ساتھ فیض آباد آئے، جب پاپا نے کیبنٹ منسٹر سے اپنے خلاف شکایت سنی تو انھوں نے بھری محفل میں کیبنٹ منسٹر کو، اسٹیٹ منسٹر صاحب کی ساری باتیں بتائیں کہ انھوںنے یہ کیا اور یہ کیا اور بغیر اجازت کے بچوں کے ہاسٹل میں جاکر اُن کو میرے خلاف بھڑکایا۔ پاپا پندرہ سے بیس منٹ تک منسٹر صاحب کے خلاف بولے۔ جب کیبنٹ منسٹر کو ساری باتیں معلوم ہوئیں تو وہ ناراض ہوئے اور انھوںنے لکھ دیا کہ خان صاحب فیض آباد سے نہیں جائیں گے، وہ یہیں رہیں گے۔ اس طرح وہ پھر 5 سال فیض آباد میں رہے۔ جب وہ فیض آباد سے گئے ہیں، اُس وقت وہ یوپی کا سب سے اچھا پالی ٹیکنیک مانا جاتا تھا۔
اِسی طرح پاپا زیادہ تر اس جگہ بھیجے جاتے جہاں ڈسپلن (discipline) نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ بہت پریشان ہوتے اور کبھی کبھی ہمت بھی ہار جاتے۔ مگر پھر بڑے ابا (مولانا وحید الدین خاں) کو خط لکھ کر پوچھتے تھے، ان کے خط کو وہ ابھی تک سنبھال کر رکھتے تھے۔ (بڑے ابا ہی کی کتابوں کو پڑھ کر پاپا آخر وقت میں اتنے دین دار ہوگئے تھے کہ ان کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اسی کو سچا مومن اور اللہ کا حقیقی بندہ کہتے ہیں)۔اس طرح پھر وہ سنبھل کر اپنی ہمت کو بڑھاتے تھے اور ہمیشہ کامیاب ہوئے۔ یہاں اس سلسلے میں پاپا کے نام بڑے ابا کے دو خطوط نقل کئے جاتے ہیں:
برادرم سلام مسنون
اس سے پہلے ایک خط لکھ چکا ہوں۔ امید کہ ملا ہوگا۔ تمھارے خط میں جس پریشانی کا ذکر تھا، اس کی وجہ سے دل برابر تمھاری طرف لگا رہا اور تمھارے لئے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور تمھارے مسائل کو حل کردے۔
تمھاری اصل مشکل تمھاری معیار پسندی (idealism) ہے۔ تمھاری خواہش یہ رہتی ہے کہ لوگ صحیح طریقہ سے رہیں اور ٹھیک کام کریں۔ یہ خواہش اچھی ہے۔ مگر اس میں اپنے آپ کو اتنا زیادہ involve کردینا ٹھیک نہیں ہے کہ خوداپنی صحت و عافیت بھی خطرہ میں پڑ جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرو۔ مگر جب دیکھو کہ تمھاری کوشش کے باوجود لوگ اصلاح نہیں قبول کررہے ہیں تو تم خود اپنی فکر کرو: فإذا رأیت شحاً مطاعاً، وہوی متبعاً، وإعجاب کلّ ذی رأی برأیہ، فعلیک نفسک، ودع عنک أمرَ العوام۔یعنی جب تم دیکھو کہ لوگ حرص کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ہر شخص اپنی ہی رائے کو ٹھیک سمجھتا ہے تو اپنے آپ کو بچاؤ اور لوگوں کو چھوڑ دو۔
میرا خیال ہے کہ اس حدیث میں تمھارے لیے بڑی نصیحت ہے۔ تم بس اسی کو پکڑ لو۔ جتنا وقت تم لوگوں کے لئے کڑھنے میں لگاتے ہو، اس کو نماز، مطالعہ قرآن اور اسلامی کتابوں کے پڑھنے میں لگاؤ، یہ تمھاری دنیا و آخرت کے لیے زیادہ مفید ہوگا۔
آج کا انسان اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہیں۔ لوگوں کے سوچنے کی سطح اُس سے بالکل مختلف ہے جو ہماری ہے۔ اس لئے ہماری کوئی بات ان کے دماغ میں بیٹھتی ہی نہیں۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ اس کے بعد ہر آدمی کو آخرت کا سفر کرنا ہے، پھر لوگوں کے پیچھے بے فائدہ کڑھنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ کیوں نہ اس وقت کو اپنی آخرت کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ترقی یا اضافۂ تنخواہ وغیرہ کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا چھوڑ دو۔ حدیث میں ہے کہ آدمی کو اتنا ہی ملتاہے جتنا اس کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ اس لئے غم میں پڑ کر آدمی صرف اپنے کو ہلکان کرتا ہے۔ وہ مقدر کو بدل نہیں سکتا۔
مزید یہ کہ جن لوگوں کی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں، ان میں سے کسی کو میں نے خوش نہیں دیکھا۔ لیبیا میں بہت سے ایسے لوگوں سے قریبی تعلق رہا جن کی تنخواہیں 8 سے 10 ہزار روپئے مہینہ تھیں۔ مگر سب اندر سے سخت قسم کے ذہنی تناؤ (frustration) میں مبتلا تھے۔ وہ مجھ کو رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جب کہ میری سرے سے کوئی آمدنی ہی نہیں۔ سارا معاملہ اللہ توکل ہے۔
حال میں لیبیا کا ایک باشندہ ہندستان آیا تھا اور یہاں ناز ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہ مجھ سے ملا اور نہ صرف لیبیا بلکہ تمام عرب ملکوں کو لعن طعن کرتاتھا۔ کہتا تھا کہ ہندستان میں جھونپڑی میں رہنا اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں عرب ملک میں کوٹھی میں رہوں۔طرابلس میں مجھے کئی لوگ ملے جو اتنے پریشان تھے کہ جہنم کا ڈر نہ ہو تو خود کشی کرلیں۔ اصل یہ ہے کہ جو مقام آدمی کو ملا نہیں رہتا، اس کو دور سے وہ اچھا دکھائی دیتاہے اور جب وہ مل جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو نیا عذ۱ب ہے۔ تم کو میری مخلصانہ نصیحت ہے کہ تم حالات کو اپنی رفتار پر چھوڑ دو جس طرح دوسرے پرنسپل چھوڑے رہتے ہیں۔ بس ضروری حد تک اپنے فرائض انجام دو۔ تم اس قسم کی پریشانیوں کو چھوڑ کر قرآن وغیرہ پڑھنا شروع کردو۔ نماز باقاعدہ پڑھو اور اسلامی چیزوں کا مطالعہ کرو۔
اس وقت خط لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، مگر تمھاری پریشانی بار بار یاد آتی رہی، اس لئے لکھنے بیٹھ گیا کہ شاید کچھ فائدہ ہو۔ زندگی کا اصل راز دوسروں سے تصادم نہیں ہے، بلکہ حالات کے ساتھ adjustment ہے۔ تمھارا ذہن ہر وقت اس پر کام کرتاہے کہ تم جس طرح ٹھیک سمجھتے ہو، اسی طرح لوگ رہیں۔ اس سوچ کو ختم کردو۔ تم کو بحیثیت مسلمان اس طرح سوچنا ہے کہ دنیا میں مجھے تھوڑے دن کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہاں اپنے اور اپنے اہل وعیال کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور آخرت کی تیاری کرنا ہے۔ ان دو چیزوں کے سوا کسی بھی تیسری چیز کو تمھیں اہمیت نہ دینا چاہئے۔ کالج کے معاملہ میں ویسا ہی بن جانا چاہیے جس طرح دوسرے پرنسپل رہتے ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ اصل مسئلہ اپنے آپ کو بچانا ہے، نہ کہ دوسروں کو۔قرآن میں ہے: یا أیہا الذین آمنوا قُوا أنفسکم وأہلیکم ناراً ۔ یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
تم جن چیزوں کے لئے کڑھتے ہو، اس کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔ تم کو اپنے دماغ کی قوتوں کو اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے لگانا چاہیے۔ دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ بالفرض ضروری رہا ہو تو تم نے اپنی طرف سے اتمام حجت کردیاہے۔ اب اس سلسلے میں تمھاری ذمہ داری نہیں ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ بروقت تو تم فوراً دو چیزیں شروع کردو۔ ایک، باقاعدہ پنج وقتہ نماز۔ دوسرے قرآن کا ترجمہ۔ ان میں کافی وقت دو۔ دفتر کا کام صرف بقدر ضرورت کرو۔ انشاء اللہ اس سے آئندہ کی راہ کھلے گی اور تمھاری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔
اماں کی خدمت میں سلام۔ عابدہ سلمہا اور بچوں کو دعائیں
دہلی،
برادرم عبد المحیط سلام مسنون
تمھارا خط مورخہ
تم جانتے ہو کہ حاتم طائی فیاض وسخی تھا اور نوشیرواں بڑا عادل تھا۔ مگر حاتم طائی کی سخاوت اور نوشیرواں کے انصاف کا خدا کے یہاں کوئی وزن نہیں۔ کیوں کہ وہ خدا ئی نظام کے تحت نہیں تھا۔ خدا کو تو وہی چیز مطلوب ہے جو اس کے اپنے لئے کی گئی ہو۔ اپنی ضرورتوں کے لیے ہم کو ہر کام کرنے کی اجازت ہے۔ خدا کے نقطۂ نظر سے تمھاری ملازمت کسی خدائی کاز کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ تمھاری ملازمت صرف اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ جتنی فکر تم نظام کو ٹھیک کرنے کی کرتے ہو، اتنی ہی خدا کے لئے کرنے لگو تو تمھاری آخرت کے لئے ضرور فائدہ ہو، جب کہ اس کے پیچھے اپنے کو ہلکان کرنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ بعض اوقات ’’نیکی‘‘ بھی محض عزت (prestige) کا سوال بن جاتی ہے۔ خیر خیرات کرنا، مذہبی اور اخلاقی باتیں کرنا، رشوت نہ لینا، خلافِ قانون کام نہ کرنا، بظاہر اچھی باتیں ہیں، مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی مخصوص اسباب سے جو ایک پوزیشن ہوجاتی، اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرے۔ وہ خدا کو خوش کرنے کے لئے نہیں، بلکہ اپنی عزت اور نیک نامی کو برقرار رکھنے کے لیے اچھا کام کرتا ہے۔اس قسم کا عمل چوں کہ نیکی کی صورت میں ہوتا ہے، اس لئے آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی اصل تعریف (definition) یہ ہے کہ آدمی اپنے لاشعور(sub-conscious mind) کو دیکھنے لگے۔ اس وقت وہ صحیح معنوں میں خدا کے لئے کام کرسکتا ہے۔
حدیث میں ہے: إنما الأعمال بالنیات (عمل کا دارومدار نیت پر ہے) خدا کے یہاں جو چیز دیکھی جائے گی وہ صرف یہ کہ خالص خدا کے لئے آدمی نے کیا کام کیا۔ جو کام سوچ سمجھ کر پورے ارادہ کے ساتھ خداکے لئے نہیں تو وہ بے فائدہ ہے۔ اس کا کوئی اجر نہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم میری باتوں پر ضرور غور کروگے۔ عقل مند وہ ہے جو اُن باتوں کو اہمیت دے جو آخرت میں اہم بننے والی ہیں۔ کسی اور بات کو اہم سمجھ کر آدمی کتنا ہی خوش ہولے۔ موت کے بعد بہر حال اس کو افسوس کرنا پڑے گا۔
اس کی مثال اندرا گاندھی کی زندگی ہے۔ اندرا گاندھی کو ہندستان میں ڈکٹیٹر جیسا اقتدار ملا۔ اس نے سمجھ لیا کہ اہم بات وہ ہے جو اس کے ذہن میں اہم ہو۔ غیر اہم وہ ہے جو اس کو غیر اہم نظر آئے، حتی کہ اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی جرأت ہو گئی کہ ’’ایمرجنسی سے پہلے کا دور اب کبھی واپس نہیں آئے گا، مگر جب فیصلہ کا دن آیا تو معلوم ہوا کہ اہم کیا ہے اور غیر اہم کیا، اس کے فیصلہ کا حق اندرا گاندھی کو حاصل نہ تھا۔ اس کا بنایا ہوا نظام اس طرح اچانک اڑ گیا جیسے آندھی میں تنکا۔
اسی طرح آدمی دنیا میں اپنے ذوق، اپنے حالات، اپنی دلچسپیوں کے تحت اپنی زندگی کا ایک ڈھانچہ بنالیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ حق وہی ہے جو اس کو حق نظر آئے۔ یہ ذہن اس پر اتنا چھاجاتا ہے کہ یہی اس کا لاشعور بن جاتا ہے۔وہ اپنی بنائی ہوئی اسی خیالی دنیا میں زندگی گزارتا رہتاہے، یہاںتک کہ جب موت آتی ہے تو اچانک اس کو معلوم ہوتاہے کہ حقیقت تو کچھ اور تھی۔ اس کی زندگی کی پوری عمارت اس طرح دھڑام سے گر جاتی ہے جیسے اس کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی۔ اندرا گاندھی کی مثال میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک نمونہ دکھایا ہے۔ اندرا گاندھی کے واقعہ میں جو اس حقیقت کو دیکھ لے، اسی نے اندرا گاندھی کے واقعے کو جانا۔ ورنہ وہ خواہ کتنا ہی اخبار پڑھتا ہو، وہ ابھی تک اس واقعہ سے بے خبر ہے۔ جیسے ایک بے روزگار نوجوان اخبار میں "wants" کے کالموں میں گم ہو اور سارا خبار الٹ کر بھی اس کو معلوم نہ ہو کہ اخبار میں اصل خبر کیا تھی۔ میری عادت اتنے خطوط لکھنے کی نہیں ۔ مگر صرف تمھاری خاطر ایسا کررہا ہوں۔
دہلی، 2 جون 1977 وحیدالدین
مجھے یاد ہے کہ کتنے اسٹاف کے لوگ ان کے خلاف ہڑتال (strike) کرتے، نعرہ لگاتے، پتلا بھی جلایا گیا، مگر پھر وہی اسٹاف کے لوگ ان کو اتنا پسند کرنے لگتے کہ وہ ان کے ٹرانسفر ہونے پر روتے تھے۔ ہر وہ جگہ جہاں ڈسپلن (discipline) نہیں ہوتا تھا، وہاں ان کے جانے پر ڈسپلن کا ماحول بن جاتا۔ اس طرح ان کا ریکارڈ اتنا اچھا ہوتا کہ ان کے اوپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ پاپا کا ڈائرکٹر ہمیشہ ان سے ناراض رہتا، کیوں کہ وہ اس کی ساری غلط باتوں کو ناپسند کرتے اور اس کو کرنے سے منع کردیتے۔ اس لیے ان کا پروموشن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پاپا بہت سینئر تھے۔ اِس طرح ان کا اچھا ریکارڈ ہونے کی وجہ سے ڈائرکٹر ان کا پروموشن روک نہیں سکتا تھا۔ مگر پاپا نے کبھی کوشش نہ کی کہ ان کا پروموشن ہوجائے۔پاپا کی عادت نہ تھی کہ وہ ڈائرکٹر کی خوشامد کریں۔ انھوں نے کبھی کسی کے فوٹو پر ہار مالا نہیں پہنائی۔ انھوں نے ہمیشہ ایمان داری اور سچائی سے زندگی گزاری۔
کبھی بھی کو ئی غلط بات جو ان کا ڈائرکٹر ان سے کرنے کو کہتا، وہ اس کو نہ کرتے اور اپنے ڈائرکٹر کو باقاعدہ لکھ کر بھیج دیتے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اِس پر ایک بار ان کے ڈائرکٹرنے کہا کہ ’’مسٹر خان، آپ ایسا لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ میں کسی کو دکھا بھی نہیں سکتا‘‘۔بہر حال وہ 1984 میںجوائنٹ ڈائرکٹر ہوئے۔ بنارس ان کا آفس تھا۔ وہ Circuit House میں P.A. Suits میں رہتے تھے۔ 1995 میں پاپا ریٹائر ہوئے۔ اور ریٹائرمینٹ کے بعد وہ فیض آباد میں رہنے لگے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے حج ادا کیا۔ حج کے بعد انھوں نے ایک کتاب لکھی تھی ’’حج کیسے کریں‘‘۔ وہ اپنے خاص لوگوں کو حج کے بارے میں بتاتے تھے۔
دھیرے دھیرے وہ صرف لکھنے پڑھنے میں مشغول رہنے لگے۔ میتھ(Maths)ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ بچوں کو وہ شوق سے میتھ پڑھاتے، باقی ٹائم میں وہ بڑے ابا کی کتابیں پڑھتے جس میں ماہ نامہ الرسالہ، تذکیر القرآن، مطالعہ قرآن، الربّانیہ اورقال اللہ و قال الرسول ان کی پسندیدہ کتابیں تھیں۔ وہ کافی کتابیں لوگوں کو دیتے۔ بڑے ابا کے خلاف کوئی بولتا تو انھیں بہت تکلیف ہوتی۔ اکثر کہتے تھے ’’آج کل کا مسلمان جوشیلا ہے، اس کو جوشیلی باتیں ہی پسند آتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو بھائی صاحب (مولانا وحیدالدین خاں) کی باتیں کیوں نہیں سمجھ میں آتیں، یہ ان کی مخالفت کیوں کرتے ہیں‘‘ ۔
اللہ کا شکر ہر دم ان کی زبان پر رہتا۔ وہ اکثر کہتے ’’ہم لوگ یتیم تھے، ہمارا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے ہم تینوں بھائیوں کو ہر چیز سے نوازا۔ ہم لوگ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اللہ ہم لوگوں کو اتنا دے گا۔خدا کا بہت بڑا احسان ہم لوگوں پر ہے‘‘۔
ہم لوگوں سے اپنے بچپن کے چھوٹے چھوٹے قصّے بتاتے، مثلاً دادی کا تکلیف سے پرورش کرنا وغیرہ، اور رودیتے۔ اپنی سروس کے دوران انھوں نے بڑی عزت پائی، مگر خدا کے شکر کے علاوہ کبھی کوئی ایسی بات نہ کہی جس سے کوئی بڑائی یا گھمنڈ ظاہر ہو۔ ہر چھوٹے بڑے موقع پر وہ خدا کے شکر میں ڈوب جاتے تھے۔غریبوں کی وہ ہر طرح مدد کرتے۔فیض آباد میں جہاں وہ رہے، اسی طرح علی گڑھ میں بھی کسی غریب کو پریشان دیکھتے تو اپنی طرف سے وہ اس کی پوری مدد کرتے۔
انھوںنے تذکیر القرآن کو 8 بار پڑھا اور اپنے اندر ایسا بسا لیا کہ ان کا ہر کام، ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا تھا۔ ان کا کام لکھنا اور پڑھنا تھااور اس پر عمل کرنا۔ ان کا ہر عمل ویسا ہی ہوتا جیسا کہ اللہ نے بتایا ہے۔ اُن کے صبر کا معاملہ اتنا زبردست تھا کہ وہ اس کے ذریعے اللہ سے بہت قریب ہوتے چلے گئے۔ انھوں نے اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھا تھا: ’’ایمان روح کی پاکیزگی ہے اور جس کی روح پاک ہوگئی ہو، وہ اپنے معاملات میں ناپاکی کا طریقہ کیسے اختیار کرسکتاہے‘ ‘۔
میرے والد، اللہ کے ایک ایسے بندے تھے جنھوں نے ساری زندگی سچائی کا ساتھ دیا۔ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ ان کی زندگی میں بہت سے شدید ترین حالات پیدا ہوئے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرے نہیں۔ جھوٹ سے ان کو سخت نفرت تھی۔ گھڑی ہوئی بات، زیرزبر کے فرق، اور بغیر آنکھ کان کے دیکھے سنے، وہ کسی بات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اور اسی طرح کی عادت میری چھوٹی بہن سعیدہ کی بھی ہے۔
اس طرح ہم لوگوں نے ان سے حق اور انصاف کی باتیں بھی سیکھیں۔ جس طرح انھوں نے بڈھریا کی جائداد اپنے ذمہ دار بننے کے بعد تقسیم کی، وہ بھی ایک مثال ہے ۔ پاپا نے سب کا حصہ سب کے پاس پہنچایا۔ بقول ہماری پھوپھی زاد بہن جن کا نام سلمیٰ ہے، ’’ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ اماں کا حصہ بھی ہے ۔ ماموں نے دینا شروع کیا تو معلوم ہوا‘‘۔ یہ بات انھوںنے مجھ سے کہی تھی۔ اسی طرح سے انھوں نے میراث کے متعلق دیو بند سے فتویٰ منگوایا۔معلوم ہوا کہ جس کی صرف لڑکیاں ہوں، کوئی بیٹا نہ ہو تو جائداد میں بھائی کا حصہ ہوتا ہے، اگر وہ زندہ ہے۔ اور یہ کام وہ انتقال سے چار سال پہلے ہی کر چکے تھے۔ اس طرح انتقال کے بعدپاپا کے مکان کو فروخت کرکے بڑے ابا (مولانا وحیدالدین خاں) کا حصہ دیاگیا تھا جو بڑے ابا نے نہ لے کر ’القرآن مشن‘(Al-Quran Mission) میں لگا دیا۔ اس طرح ان کی ایمان داری کا پاک صاف پیسہ پاک جگہ لگ کر پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
یہاں پر بھی ہم لوگوں نے یہی سیکھا کہ حق و انصاف اور ایمان داری میں کتنی برکت ہوتی ہے۔ اپنے اور دوسروں سے چھین لینے میں نہیں، بلکہ دوسروں کو دینے میں برکت اور محبت ہے۔
اسی طرح ہم لوگوں کے بچپن کے کچھ واقعے ہیں جن کو پاپا سنا کر ہنستے تھے، ان میں سے کچھ ہم لوگوں کو یاد ہیں، وہ یہاںنقل کئے جاتے ہیں :
ہم لوگ بہت چھوٹے تھے ۔ امی کبھی کھانے کو ایک ہی پلیٹ میں 2 چمچ لگا کر دے دیتی تھیں۔ پاپا کہتے آدھا آدھا کرو۔ ہم لوگ جب حصہ لگاتے تو وہ بتاتے کہ کدھر زیادہ ہے اور کدھر کم ہے۔ اس طرح آخر میں ہم لوگوں کی عادت یہ ہوگئی کہ سعیدہ اپنا حصہ میری طرف کرتی، میں اس کی طرف کہ اس کی طرف زیادہ رہے اور میری طرف کم رہے۔ اکثر بچوں میں لڑائی ہوتی ہے کہ ہمارا کم ہے دوسرے کازیادہ ہے، مگر ہم لوگ دوسرے کو زیادہ دینے اور اپنے لئے کم لینے پرمطمئن ہوتے تھے۔
ایک بار کوئی انگوٹھی تھی۔ وہ ہم لوگوں کو بہت اچھی لگی۔انگوٹھی ایک تھی۔اس کو دونوں لوگ نہیں پہن سکتے تھے۔ اس لئے یہ طے پایا کہ باری باری پہنیں، ایک دن میں اور ایک دن تم۔ اس طرح ایک دن پہن کر دوسرے دن صبح بستر سے اٹھنے سے پہلے ہم انگوٹھی دوسرے کو دے کر اٹھتے تھے کہ صبح کے ساتھ ہی اپنی باری ختم ہوگئی۔ بچپن سے انصاف کرنا سیکھ رہے تھے، کبھی کسی چیز پر لڑائی نہیں ہوئی، دوسرے کو دینے میں زیادہ خوشی ہوتی۔
سعیدہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھی، شاید ہم سے بھی زیادہ ۔وہ کوئی کام اکیلے نہیں کرتی ، نہ اکیلے کہیں جاتی تھی۔ ایک بار پتا نہیں کیسے وہ اکیلے کہیں چلی گئی۔ کیسے گئی، یاد نہیں۔ مگر روتی ہی جارہی تھی۔ جس کے یہاں گئی تھی، وہ پریشان کہ بچی کیوں روئے جاری ہے۔ انھوںنے اس کو ایک کیلا لاکر دیا، جیساکہ اکثر بچوں کو دیا جاتا ہے کہ شاید کھانے میں بہل جائے۔ اس نے کیلا لے کر زور زور سے رونا شروع کردیا۔ سب پریشان کہ کیاہوگیا۔ بہت پوچھا تو بولی ’’آپا کے لیے‘‘۔پھر دوسرا کیلا دیا تو وہ لے کر گھر آئی، پھر ساتھ بیٹھ کر کھایا۔ اس طرح کے بہت سارے ہم لوگوں کے قصے ہیں۔ خاندان میں ہم اِس طرح کی باتوں کی وجہ سے کافی مشہور ہوگئے تھے۔
پاپا بھی اپنے بچپن کے قصے بہت بتاتے تھے۔ پاپا اپنے دونوں بھائیوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اکثر بات کرکے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ کہتے ’’میں نے اپنے ابا کو تو دیکھا ہی نہیں، بھائی لوگوں کوہی باپ کی طرح سمجھا‘‘۔ شکر بے حد کرتے۔ بچپن کے قصہ بتاتے ، کس طرح ہم یتیم ہوگئے اور سب کچھ چھن گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے تینوں بھائیوں کو کس طرح نوازا۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ ہم لوگوں کو پھر سے اتنا ملے گا۔
پاپا کی زندگی میں ہمیں کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ کیا چیز تھے۔ شاید بچپن سے ایسا دیکھنے کی عادت تھی۔ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ اتنی جلدی اچانک ایک صبح وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ہم لوگوں کی زندگی کا یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے زندگی کو بالکل بدل دیا۔ زندگی نے ایسا رُخ لیا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ پاپا کیسے کرتے تھے، ویسا ہی کرنا ہے۔ جو ان کو نہیں پسند تھا، وہ نہیں کرنا ہے۔
پاپا کی طرح تو شاید ہم کبھی نہ بن پائیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اتنے اچھے والدین ہم کو دئے۔ اسی خاندان کا ایک فرد (مولانا وحید الدین خاں) ساری دنیا میں دین پھیلا رہا ہے۔ پوری دنیا میں ان کی کتابیں پڑھی جارہی ہیں۔انھیں کی کتابیں پڑھ کر ہمارے پاپا نے اپنے کو ایسا بنا لیا تھا کہ کوئی ایک نظر دیکھ لینے سے ہی بتا سکتا تھا کہ یہ سچا مومن ہے ، اللہ کا نیک بندہ ہے، ہر دم خدا کے خوف میں ڈوبا رہنے والا، دیکھنے میں لگتا کہ کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ نماز میں اللہ کے سامنے کس قدر گڑگڑانا۔ عام طورپر ان کی نماز کافی دیر میں ختم ہوتی تھی۔یہ سب تذکیر القرآن کو ہر دم پڑھنے کی وجہ سے تھا۔ ہر خالی وقت میں وہ تذکیر القرآن کو پڑھتے رہتے تھے، جیسے پورا تذکیر القرآن ان کو حفظ ہوگیا تھا ۔
پاپا کے انتقال کے بعدسے ہم دونوں بہنوں کو توفیق ہو رہی ہے کہ Al-Quran Mission سے ہندی اور انگریزی کے قرآن منگاکرہم اس کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے۔اور اللہ تعالیٰ ہمارے بڑے ابا (مولانا وحید الدین خاں) کو اس کا اجر دے جن کی وجہ سے ہم لوگوں کو توفیق ہوئی کہ ہم لوگ کچھ کرسکیں اور اپنے آپ کو بدل سکیں۔
ہم اپنی نمازوں میں ہمیشہ اپنے پاپا کے لیے بے انتہا اجر اور مغفرت کی دعا کرتے ہیںاور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسے انسان کی اولاد بنایا اور انسان کو خدا سے ڈر کر کس طرح زندگی گزارنی چاہیے، اس کی تمیز سکھائی۔پاپا کو زندگی میں ماحول سے ایسا دھکا لگا تھا کہ اس ماحول کا جھوٹ اور ناانصافی کا بوجھ انھیں اللہ کی ڈور میں کستا چلا گیا اور وہ اس میں ڈھل کر بالکل مؤمنانہ زندگی گزارنے لگے تھے۔ آخر وقت میں وہ ایک معصوم بچے کی طرح ہو گئے تھے کہ ان کو خدا اور رسول کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ بات بھی بہت کم کرتے تھے۔ڈر اور سوچ میں ڈوبے رہتے، کوئی بات کی جاتی تو سمجھ ہی نہیں پاتے تھے۔اس طرح وہ آخرت کی یاد میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔
پینشن (pension)لینے کے لئے وہ ہر سال فیض آباد آتے اور ہمارے پاس رہتے تھے۔اس طرح نومبر 2009 میں بقرعید سے2دن پہلے وہ فیض آباد آئے۔ وہ کمزور ہوگئے تھے، مگر اللہ کے کرم سے ان کو کوئی مرض نہیں تھا۔ جس طرح وہ بیماری سے اور بستر پرپڑ جانے سے ڈرتے تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر ہر طرح سے کرم کیا۔ ہر دم اللہ کے خوف سے کانپتے تھے۔ ایسا پریشان رہتے جیسے کسی بڑی مشکل میں آدمی پریشان رہتا ہے۔
اس طرح کی باتیں جو وہ تقریباً روز کہتے تھے—کس طرح اللہ کے یہاں پیشی ہوگی۔کب موت آجائے ،کس وقت بلاوا آجائے۔ہم دو بھائی بچے ہیں، پتہ نہیں کس کی باری پہلے ہے۔ بچپن کی باتیں کرتے، سب کو یاد کرتے اور کہتے کہ لگتاہے میرا وقت قریب آگیا ہے، وغیرہ۔
اپنی زندگی میں جس طرح کی تکلیف ان کو پہنچی تھی، اس کے مطابق باتیں وہ تذکیر القرآن سے ہم لوگوں کو پڑھ کر سناتے تھے، مثلاً: ’’عام آدمی روٹی پر جیتا ہے، مومن وہ انسان ہے جو دلیلِ حق پر جیتاہے‘‘۔ ’’دلیل کے ذریعہ کسی کو رد کرنا درست ہے، جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست‘‘ ۔’’لوگ خود غرض بن کر نہ رہیں، بلکہ وہ لوگوں کے خیر خواہ بن کر رہیں‘‘۔
اس طرح وہ ہر دم اللہ کا کلام سنتے ، سناتے ، لوگوں کو اس کے بارے میں بتاتے اور اس کو لکھتے ہوئے وقت گزار رہے تھے اور شاید اللہ کے بہت قریب ہوگئے تھے۔انتقال سے دو روز پہلے انھوں نے امی سے کہا کہ ’’آج خواب میں چچا کو دیکھا، وہ مجھے بلانے آئے تھے‘‘۔
امی کا پنشن کے کاغذ میں نام نہیں تھا، اس کو درج کروایا، یہ کہہ کر کہ ’’بہت ضروری ہے، اس کو درج کرانا ہے‘‘۔ اُس رات جس دن ان کا انتقال ہوا ہے، انھوں نے امی سے کہا ’’دل چاہتا ہے ہم چاروں لوگ (پاپا، امی ، دونوں بہن) اکٹھا ہوجائیں‘‘۔ سعیدہ سے ایک سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس کو یاد کیا، پھر فون پر اس سے بات کرکے امی سے یہ بات کرتے ہوئے سوئے کہ تم لیٹتے وقت کیا دعائیں پڑھتی ہو،اور خود بتایا کہ میں یہ دعائیں پڑھتا ہوں۔ معمول کے مطابق، وہ صبح 4 بجے تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے اُٹھے، باتھ روم میں ہی ہارٹ اٹیک ہوا اور جب تک ان کو بستر پر لایا گیا وہ بے ہوش ہوچکے تھے۔ بے ہوش ہونے سے پہلے انھوں نے امی کاہاتھ پکڑ کر کچھ کہناچاہا، شاید وہ امی کی طرف سے فکرمند تھے، پھر کلمہ پڑھا، زبان لڑکھڑا رہی تھی اور ڈاکٹر کے آنے سے قبل ہی ان کی روح نکل چکی تھی۔ (إنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون)
زندگی میں ان کا چہرہ پریشان حال رہتا تھا، انتقال ہوتے ہی جیسے ان کو سکون مل گیا ہو۔ ایسا چہرہ زندگی میں کسی کا نہ دیکھا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے ابھی ہنس دیں گے، اتنا چمکتا ہوا چہرہ۔ وہاں موجود ہر فرد نے کہا کہ جیسے ابھی ہنس دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.