میڈیا میں دو خبریں ایک ساتھ آئی ہیں— ایک، یہ کہ پاکستانی لیڈر شپ نے کشمیر کے اِشو کو وقتی طور پر ختم کردیا ہے۔ یہ خبر نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Pakistan may junk Kashmir issue temporarily
دوسری خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا خفیہ رہائشی کمپاؤنڈ واقع تھا۔ 3 مئی 2011 کو امریکا نے ایک ٹارگیٹڈ اٹیک (targetted attack) کے ذریعے وہاں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا۔ اب خبر ہے کہ خود پاکستانی حکومت نے اسامہ بن لادن کے اِس رہائشی کمپاؤنڈ کو
اِن دونوں خبروں کا خلاصہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ کشمیر میں جہاد کے نام سے جو متشددانہ جدوجہد شروع کی گئی تھی، وہ اب اپنے فطری انجام کو پہنچ کر ختم ہوگئی ہے، مذکورہ خبر میں ’’وقتی طورپر‘‘ (for the time being) کا لفظ محض ڈپلومیٹک ہے۔ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے، اُس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پاکستان نے اب ہمیشہ کے لیے اِس بے نتیجہ اشو کو ترک کردیا ہے، یہاں تک کہ اب اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میں متشددانہ جدوجہد کی علامتوں تک کو مٹا دیا جائے۔ اِس کی ایک مثال پاکستان میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی مسماری ہے۔
کشمیر کی نام نہاد جنگ، کشمیریوں کی اپنی آواز نہ تھی، وہ مکمل طورپر پاکستان کی برآمد کردہ جنگ (exported war) تھی۔ پاکستان نے اب حالات کی مجبوری کے تحت اُس کا خاتمہ کردیا ہے۔ ایسی حالت میں اب کشمیر کی نام نہاد جنگ کو جاری رکھنے کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ کوئی امکان۔ اب اہلِ کشمیر کے لیے متعدد انتخابات (options) نہیں رہے۔ اب اُن کے لیے ایک ہی ممکن انتخاب ہے، یہ کہ وہ ہتھیار اور ہتھیار کی سیاست دونوں کا مکمل خاتمہ کردیں، اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔
اجتماعی زندگی میں اقدام کی دو صورتیں ہوتی ہیں— ایک، یہ صورت کہ وہ اپنے مطلوب انجام تک پہنچے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنے انجام کے اعتبار سے، کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہو، یعنی الٹا نتیجہ برآمد کرنے والا۔ پاکستان کی طرف سے چھیڑی ہوئی کشمیری جنگ کا یہی دوسرا انجام ہوا ہے۔ اِس جنگ میں پاکستان نے بہت زیادہ کھویا، لیکن وہ اپنے مطلوب کو نہ پاسکا۔
پاکستان کے لیے یہ ایک حقیقت پسندانہ فیصلہ ہے کہ وہ اس تباہ کُن جنگ سے اپنے آپ کو الگ کررہا ہے، مگر اہلِ پاکستان کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ تصحیحِ فکر کا ہے، یعنی منفی سوچ کو چھوڑ کر مثبت سوچ کو اختیار کرنا۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کھلے طورپر یہ اعلان کرے کہ کشمیر کی جنگ چھیڑنا ہماری ایک مہلک غلطی تھی۔ غلطی کے کھلے اعلان کے بغیر پاکستان کو اس کا کوئی حقیقی فائدہ ملنے والا نہیں۔ غلطی کے اعلان کا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں ایک نئی مثبت سوچ (positive thinking) کا آغاز ہوجائے گا۔ پاکستان کے لوگ اِس معاملے میں اپنی منفی نفسیات کی بنا پر غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا شکار ہوگئے۔ اِس طرح کا اعلان اُن کو ایک نئی رہنمائی دے گا۔ وہ مثبت سوچ میں جینے لگیں گے۔ اُن کی قومی پالیسی جواب تک غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر پر کھڑی ہوئی تھی، وہ حقیقت پسندانہ طرز فکر پر قائم ہوجائے گی۔ یہ واقعہ پاکستان اور اس کے حلیفوں کے لیے بلا شبہہ ایک انقلابی واقعہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
سورہ الفاتحہ، قرآن کی پہلی سورہ ہے۔اِس میں انسان کی زبان سے اللہ رب العالمین کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: إیّاک نعبد، وإیّاک نستعین (
دین کی بنیاد دو چیزوں پر ہے — عبادت، اور استعانت۔ انسان جب اللہ کی عظمت کو دریافت کرتاہے تو اس کا نتیجہ جس شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اس کا نام عبادت الٰہی ہے۔ اِسی طرح انسان جب اپنے عجز کو دریافت کرتاہے تو اس کے نتیجے کے طورپر جو چیز ظاہر ہوتی ہے، اس کا نام استعانت باللہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ دین کا آغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ انسان جب آفاق اور انفس پر غور کرتاہے تو اُس کو ایک عظیم خالق کی دریافت ہوتی ہے۔ خالق کی عظمت کا احساس اُس کے پورے وجود پرچھا جاتا ہے۔ وہ بے اختیار چاہنے لگتاہے کہ وہ اپنے خالق کے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ خود کو سرینڈر (surrender) کر دے، وہ اپنے پورے وجود کو اللہ کے آگے ڈال دے۔ یہ احساس، معرفت کا ایک فطری نتیجہ ہے اور اِسی فطری نتیجے کا نام عبادت ہے۔ عبادت اپنے ظاہر کے اعتبار سے، ایک فارم ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ مومن کے اندر پیداہونے والے داخلی طوفان کا ایک خارجی ظہور ہے۔ عبادت ایک عارف انسان کی طرف سے اپنے رب کا قولی اور عملی اعتراف ہے۔
یہی معاملہ استعانت کا بھی ہے۔ ایک انسان جب اللہ کی عظمتِ کامل کو دریافت کرتا ہے تو اِسی کے ساتھ وہ اپنے عجزِ کامل کو بھی دریافت کرلیتاہے۔ اس کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ دینے والا ہے، اور وہ صرف پانے والا۔ اللہ مُنعم ہے اور وہ محتاجِ انعام۔ یہ احساسِ عجز بار بار ذکر او ردعا کی صورت میں ظاہر ہوتارہتاہے۔ اِسی کا نام استعانت باللہ ہے— معرفت سے انسان کے اندر اعتراف (acknowledgement) کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے۔ اِس اعتراف کے اظہار کی ایک صورت وہ ہے جو اللہ کی نسبت سے ظاہر ہوتی ہے، اِس کا نام عبادت ہے۔ اِس اعتراف کی دوسری صورت وہ ہے جو خود انسان کی نسبت سے ظاہر ہوتی ہے، اِسی کو استعانت باللہ کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک طویل روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: واللہ لا یُلقی اللہُ حبیبَہ فی النار (السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی، 5/531 ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم، اللہ اُس شخص کو آگ میں نہیں ڈالے گاجس سے وہ محبت کرتاہے۔
یہ حدیث کسی پُراسرار معنی میں نہیں ہے۔ اِس حدیث میں جس محبت کا ذکر ہے، وہ دو طرفہ ہے، نہ کہ یک طرفہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان غور وفکر کے ذریعے اپنے خالق کو پہچانے ، جو اللہ کو اپنے منعم کی حیثیت سے د ریافت کرے، ایسے انسان کا حال یہ ہوگا کہ اللہ اس کا محبوب بن جائے گا، اُس کے تمام قلبی جذبات اللہ سے وابستہ ہوجائیں گے۔
جب کسی انسان کا یہ حال ہو کہ اس کے شعوری ادراک کے نتیجے میں اللہ اس کا محبوب بن جائے تو اس کے بعد ایسا انسان خود بھی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ اور جب اِس اعتبار سے کوئی شخص اللہ کا محبوب بن جائے تو یہ محبوبیت اُس آدمی کے لیے اِس بات کی ضمانت ہوگی کہ اللہ اُس کو قیامت کے دن ہر گز آگ میں نہیں ڈالے گا۔
کسی انسان کا محبوبِ خدا بن جانا کوئی پُر اسرار چیز نہیں، یہ فطری اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ سے اتنا زیادہ وابستہ کرے کہ اللہ سے اُس کو محبت کے درجے میں تعلق پیداہوجائے، تو ایسا انسان، اللہ کی نظر میں اِس کا مستحق بن جاتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے اور اس کو آخرت کے عذاب سے بچا لے۔
اللہ کا کسی انسان سے محبت کرنا بربنائِ رحمت ہوتاہے، اور انسان کا اللہ سے محبت کرنا بربنائِ انعام ہوتا ہے۔ اللہ کی محبت کسی بندے کے لیے ایک عطیۂ الٰہی ہے، اور بندے کی محبت اللہ کے لیے شکرواعتراف کا ایک معاملہ ہے۔ یہی شکر و اعتراف بلاشبہہ جنت کی قیمت ہے۔
واپس اوپر جائیں
قدیم روایتی زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ تزکیہ اور معرفت کا ذریعہ قلب (heart) ہے، مگر جدید سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کا قلب صرف گردشِ خون (circulation of blood) کا ذریعہ ہے۔ اِس کے مطابق، معرفت اور تزکیہ ایک مبنی بر دماغ (mind-based) علم ہے، وہ مبنی بر قلب (heart-based) علم نہیں۔
یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ قرآن میں کچھ ایسے حوالے ہیں جن میں معرفت اور تزکیہ کو قلب سے منسوب کیاگیا ہے، پھر اس کا مطلب کیا ہے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں صرف قلب کا حوالہ نہیں ہے، بلکہ عقل کا حوالہ بھی قرآن میں بار بار آیا ہے۔ مثلاً : لعلکم تعقلون (
قرآن کی اِن آیتوں میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ سب عقل (mind) کے معنی میں ہیں۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ دونوں قسم کے قرآنی بیانات میں تطبیق کس طرح پیدا کی جائے۔ اِس طرح کے معاملات میں بلاغت کا اصول یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کے تابع قرار دیا جائے۔ اِس اصول کو منطبق (apply) کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کس بیان کے حق میں اضافی قرینہ (additional evidence) موجود ہے،اور پھر جس بیان کے حق میں اضافی قرینہ موجود ہو، اس کو اصل مان کر دوسرے کو اس کے تابع قرار دیا جائے۔
قلب اور دماغ کی اِس بحث میں، دماغ کے حق میں ایک اضافی قرینہ موجود ہے، اور وہ ہے سائنس کی جدید دریافت۔ اِس لیے اِس معاملے میں یہ کیا جائے گا کہ جن آیتوں میں عقل کا حوالہ ہے، ان کو اس کے اصل معنی میں لیا جائے گا، اور جن آیتوں میں قلب کا حوالہ ہے، اُن کو اس کے ادبی معنی (literary meaning) پر محمول کیا جائے گا۔ اِس طرح قرآن میں استعمال کئے گئے دونوں لفظ (قلب اور عقل) ہم معنی قرار پائیں گے۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قلب میں سوچنے کی صلاحیت ہے۔ وہ انسانی جسم کا ایک تفکیری عضو (thinking organ) ہے، مگر یہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ اِس دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ عضویاتی مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قلب اور عقل کے درمیان ایک رابطہ موجود ہے۔
مگر یہ دعویٰ صرف ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ اِس قسم کا ربط دماغ اور دوسرے تمام اعضا کے درمیان ہمیشہ موجود رہتاہے۔ مگر یہ ربط فکری ربط نہیں ہوتا، وہ صرف ڈائریکشن (direction) کے معنی میں ہوتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضا (organs) دماغ کی ہدایت (direction) ہی پر اپنا اپنا عمل انجام دیتے ہیں۔ کوئی بھی عضو دماغ سے آزاد ہو کر اپنا فنکشن انجام نہیں دیتا۔
اِس استدلال کی غلطی یہ ہے کہ اُس میں ربط کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے ایک غلط لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی کمیونکیشن (communication) کا لفظ۔ اِس معاملے کو بیان کرنے کے لیے صحیح لفظ ڈائریکشن ہے، نہ کہ کمیونکیشن۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ڈائریکشن کاعمل یک طرفہ (unilateral) ہوتا ہے اور کمیونکیشن کا عمل دو طرفہ(bilateral) ۔ ڈائریکشن کا لفظ بتاتا ہے کہ دماغ یک طرفہ طورپر اعضا کو اپنی ہدایت جاری کرتا ہے، جب کہ کمیونکیشن کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ دماغ اور جسم کے اعضا کے درمیان یہ عمل دو طرفہ طورپر ہوتا ہے۔
مذکورہ استدلال میں یہ کیا گیا ہے کہ پہلے ربط کے لیے کمیونکیشن کا لفظ استعمال کیا گیا اور پھر اُس سے یہ مطلب نکال لیا گیا کہ قلب ایک تفکیری عضو (thinking organ) ہے، حالاں کہ اِس مفروضہ کے لیے کوئی علمی بنیاد (scientific base) موجود نہیں۔
اس غلطی کا عظیم نقصان یہ ہوا کہ حکمت (wisdom) اہلِ سائنس کی اجارہ داری بن گئی۔ مبنی بر قلب معرفت کے نظریے کے حاملین عام طور پر حکمت سے محروم ہوکر رہ گئے، کیوں کہ وہ حکمت کو قلب میں تلاش کررہے تھے، جب کہ قلب میں حکمت سرے سے موجود ہی نہ تھی۔ اہلِ مذہب کے یہاں فرضی کہانیوں کا جو دفتر دکھائی دیتا ہے، اس کا سبب حکمت کی اِسی کمی کی تلافی ہے۔
واپس اوپر جائیں
شیخ محی الدین ابن العربی اندلس میں 560 ھ میں پیداہوئے اور
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ کن بے بنیاد دلائل پر قائم کیا گیا ہے، قرآن کی آیت کی مذکورہ تفسیر جو ابن العربی نے کی ہے، وہ بلاشبہہ ایک بے اصل تفسیر ہے، علمی اعتبار سے اُس کی کوئی حیثیت نہیں، یہ تفسیر بالرائے کی ایک بدترین قسم ہے۔ اس طرح کی تفسیر کو اگر درست سمجھا جائے تو اس سے ہر بات ثابت کی جاسکتی ہے، حتی کہ قرآن سے غیر قرآنی نظریہ بھی۔
وحدتِ وجود اصلاً ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔ فلسفیوں نے خدا اور موجودات کو ایک ثابت کرنے کے لئے وحدتِ وجود کا نظریہ پیش کیا۔ اس کو فلسفیانہ اصطلاح میں مانزم (Monism) کہا جاتاہے۔ بعد کو یہ نظریہ آرین مذاہب میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد اکثر مسلم صوفیا نے اس کو اختیار کرتے ہوئے اسلام میں داخل کردیا۔ شیخ احمد سرہندی بظاہر وحدتِ وجود کے خلاف تھے، مگر انھوں نے وحدتِ شہود کے نام سے جو نظریہ پیش کیا ہے، وہ بھی وحدتِ وجود ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ وجود (monism)کا نظریہ قرآن اور حدیث میں سرتاسر اجنبی ہے۔ وحدتِ وجود کا نظریہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے، وہ کوئی اسلامی نظریہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مشہور امریکی باکسر محمد علی کلے (پیدائش: 1942 ) کو جب ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپین (World Heavy Weight Champion) کاخطاب ملا تو انھوںنے کہا کہ — میں دنیا کا بادشاہ ہوں:
I am the king of the world.
یہی کم وبیش ہر عورت اور ہر مرد کا حال ہے۔ ہر آدمی صرف اپنی ذاتی بڑائی (self glory) کو جانتا ہے۔ کسی نے خدا کی بڑائی کو دریافت نہیں کیا۔
انسان کا وجود ایک تخلیقی معجزہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے وجود کو ڈوائن گلوری (divine glory) کے طور پر دریافت کرے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے وجود میں صرف ذاتی عظمت (self glory) کو دیکھتا ہے، وہ اپنے وجود میں خدا کی عظمت کو دریافت نہیں کرپاتا۔ یہ بلاشبہہ تاریخ ِ انسانی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
مشہور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650 ) نے اپنے مشہور قول میں کہا تھا کہ — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں(I think, therefore, I exist) ۔ یہ کسی انسان کے لیے خود اپنی دریافت کا معاملہ ہے۔ لیکن زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے وجود میں خدا کے وجود کو دریافت کرے۔ وہ یہ کہہ سکے کہ — میں موجود ہوں، اِس لیے خدا بھی یقینا موجود ہے:
I am, therefore, God exists
یہی معرفت کا آغاز ہے۔ انسان سب سے پہلے اپنی موجودگی کی صورت میں، خدا کی موجودگی کو دریافت کرتا ہے۔ اِس دریافت کے بعد اس کے لیے دریافتوں کا لامتناہی دروازہ کھل جاتا ہے۔ ہرنئی دریافت اس کی معرفت میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ اِس طرح، انسان کے عارفانہ شعور میں مسلسل ترقی ہوتی رہتی ہے۔ معرفت کا لا محدود خزانہ اُس پر انفولڈ (unfold) ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان یقین اور معرفت ِ خداوندی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ میں امتِ محمدی کو ’امتِ وسط‘ (
قرآن کی اِس آیت میں امت محمدی کے داخلی اوصاف کو بیان نہیں کیاگیا ہے، بلکہ اِس میں امت کی خارجی ذمے داری کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ خارجی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اللہ کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) سے لوگوں کو باخبر کرے۔ وہ ہر زمانے اور ہر نسل میں اِس دعوتی کام کو جاری رکھے۔ یہ دعوتی مشن ہی وہ مشن ہے جس کی ادائیگی پر امتِ محمدی کا ’امت محمدی‘ ہونا متحقق ہوتا ہے۔
دعوت الی اللہ کی یہ ذمے داری امتِ محمد کے ہر فرد پر اُسی طرح فرض ہے جس طرح اس کے اوپر نماز اور روزہ فرض ہے۔ تاہم اس کی عملی صورت کا تعین ہر فردکی ذاتی استطاعت کے اعتبار سے ہوگا۔ جو فرد جس درجہ یا جس نوعیت کی استطاعت رکھتاہو، اُسی کے اعتبار سے اُس کو دعوت الی اللہ کا یہ فرض انجام دینا ہوگا۔ جو شخص عمل کی استطاعت رکھتا ہو، وہ عمل سے اُس میں شرکت کرے۔ جو شخص مال کے اعتبار سے استطاعت رکھتا ہو، وہ مال کے اعتبار سے اس میں شرکت کرے، وغیرہ۔ بالفرض اگر کوئی شخص اِن میں سے کسی چیز کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ انسانوں کا سچا خیر خواہ بنے اور مدعو کی ہدایت کے لیے دل سے دعائیں کرے۔
واپس اوپر جائیں
ہجرتِ رسول کے تیسرے سال مدینہ میں قریش اور اہلِ اسلام کے درمیان ایک جنگ ہوئی جو غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے۔ اِس میں بعض اسباب سے اہلِ ایمان کو شکست ہوئی۔ تقریباً 70 مسلمان مارے گئے۔ بہت سے زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم شامل تھے۔ جنگ کے خاتمے پر قریش کے سردار نے فخر کے ساتھ اپنی فتح کا کریڈٹ اپنے بت عزی کو دیتے ہوئے کہا: لنا العزیٰ، ولا عُزّی لکم (ہمارے پاس عزی ہے، اور تمھارے پاس کوئی عزی نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر صحابہ نے اِن الفاظ میں اِس کا جواب دیا: اللہ مولانا، ولا مولیٰ لکم (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4043 ) اللہ ہمارا مولا ہے، اور تمھارا کوئی مولا نہیں۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ و ہ زندگی کا ایک عمومی اصول ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فریقِ ثانی کوئی اشتعال انگیز بات کہے تو تم اس کے جواب میں خود مشتعل نہ ہو، بلکہ مثبت انداز میں اس کا جواب دو۔ فریقِ ثانی کی طرف سے خواہ کچھ بھی کیا جائے، تمھارا طریقہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہئے، نہ کہ منفی رد عمل کا طریقہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ نے فریقِ ثانی کو جو جواب دیا، اُس میں بہ یک وقت دو فائدے تھے — ایک، یہ کہ صحابہ نے اپنے آپ کو منفی رد عمل کی نفسیات سے بچالیا، اور منفی رد عمل سے بچانا ہی تزکیہ نفس کااصل ذریعہ ہے۔ منفی رد عمل آدمی کے نفس کو آلودہ کرتا ہے اور مثبت رد عمل آدمی کے نفس کو پاک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اِس طرح مثبت جواب دینے کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ قول محض قول نہ رہا، وہ ایک دعوت کا قول بن گیا۔ اِس کے ذریعے صحابہ نے فریقِ ثانی کو یہ پیغام دیا کہ شرک کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔ صحیح اور درست عقیدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ واحد کو مانے اور اُسی سے ہر قسم کے خیر کی امید رکھے۔ ساری طاقت کا مالک اللہ ہے۔کسی کو جو کچھ ملتاہے، وہ صرف اللہ سے ملتا ہے، نہ کہ کسی اور سے۔
واپس اوپر جائیں
نور الدین زنگی (وفات:1174 ء) مصر کے سلطان تھے۔ صلاح الدین ایوبی (وفات:1193 ء) اُن کے ایک فوجی افسر تھے۔ سلطان نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد اگر چہ اُن کے بیٹے موجود تھے، لیکن صلاح الدین ایوبی نے حکومت پر قبضہ کرکے سلطان کا منصب حاصل کرلیا۔ تیسری صلیبی جنگ (Crusade) میں،جس کا زمانہ 1189-1192 عیسوی ہے، صلاح الدین ایوبی نے فاتحانہ رول ادا کیا تھا۔اِس زمانے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک مسیحی جنرل ریجی نالڈ (Reginald of Chatton) نے 1182 عیسوی میں ایک مسلم قافلے پر حملہ کرکے اس کو زیر کرلیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت ریجی نالڈ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: أین محمدکم لینقذکم (النوادر السلطانیۃ والمحاسن الیوسفیۃ لقاضی ابن شدّاد، صفحہ
مسلم مورخین اِ س واقعے کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی دینی حمیت اور اس کی قوتِ ایمانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیح اسلامی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ یہ موقع تھا، جب کہ صلاح الدین اور دوسرے مسلمان ریجی نالڈ کے سامنے اِس بات کی گواہی دیتے کہ ہمارے دین کے معاملے میں تم غلط فہمی کا شکار ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مشکل کشا سمجھتے ہیں، حالاں کہ ہم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اپنا ہادی اور پیغمبر سمجھتے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق، مشکل کشائی کا اختیار صرف اللہ رب العالمین کو ہے، نہ کہ محمد یا کسی اور شخصیت کو۔ پیغمبرانہ اسوہ کے مطابق، یہ وقت ریجی نالڈ کے سامنے حق کی گواہی دینے کا تھا، نہ کہ تلوار مارکر اس کو قتل کرنے کا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جو کچھ کیا، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، قومی حمیت یا شخصی حمیت کا معاملہ تھا، مگر قومی حمیت یا شخصی حمیت کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں۔ رسول اللہ کا طریقہ حمیتِ خداوندی کا طریقہ ہے، نہ کہ قومی حمیت یا شخصی حمیت کا طریقہ ۔
اِس حمیتِ خداوندی کی ایک مثال یہ ہے کہ ہجرت (
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں مومن کا احساس کیا ہونا چاہیے۔ اِس طرح کے معاملے میں مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے عجز کے مقابلے میں اللہ کی قدرت کو دریافت کرے۔ وہ یہ یقین کرے کہ سارا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اللہ دینے والا ہے، اور اللہ چھیننے والا۔ عزت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ذلت بھی اللہ کے ہاتھ میں۔ سارا اختیار اللہ کو حاصل ہے۔ اختیار کے معاملے میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
مومن پر فرض ہے کہ وہ پورے شعور کے ساتھ اِس حقیقت کو جانے۔ ذاتی اعتبار سے اُس کا یقین اِسی عقیدے پر قائم ہو۔ اِسی کے ساتھ مومن پر یہ فرض ہے کہ جب بھی اِس قسم کا کوئی وقت آئے تو وہ لوگوں کے سامنے اِس حقیقت کی گواہی دے۔ وہ لوگوں کو بتائے کہ اللہ کے اختیار میں کوئی اس کا حصہ دار نہیں۔ اللہ کے اختیار میں کسی کو حصے دار ماننا شرک ہے، اور شرک ایک ایسا جرم ہے جو اللہ کے یہاں کسی حال میں قابلِ معافی نہیں(
واپس اوپر جائیں
امام ابن تیمیہ (وفات: 1328 ء) اسلامی تاریخ کے انتہائی مشہور عالم ہیں۔ اُن کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ شتمِ رسول کے موضوع پر ان کی ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس کا نام یہ ہے: الصّارم المسلول علی شاتم الرسول۔ کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ جو آدمی شتمِ رسول کا مرتکب ہو، اُس کو حد کے طورپر قتل کردیا جائے۔ شتمِ رسول کی اِس سزا کو جائز ثابت کرنے کے لیے انھوں نے لمبی بحثیں کی ہیں، لیکن حقیقی طورپر اُن کے اِس موقف کے لیے نہ قرآن میں کوئی دلیل ہے اور نہ حدیث میں۔
کتاب کے مطابق، بہ ظاہر صرف ایک ’’روایت‘‘ ہے جس سے صراحت کے ساتھ شاتمِ رسول کے لیے قتل کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ خود ابنِ تیمیہ اِس روایت کو منکَر اور ضعیف بتاتے ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اِس روایت کے راوی غیر ثقہ ہیں۔ اِس اعتراف کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ: فإن کان محفوظاً فہو دلیلٌ علی وجوب قتل مَن سبّ نبیاً من الأنبیاء (صفحہ
امام ابنِ تیمیہ حدیث کے بہت بڑے عالم مانے جاتے ہیں۔ اُن کے بارے میں امام الذہبی کا یہ قول ہے کہ — ہر وہ حدیث جس کو ابن تیمیہ نہ جانتے ہوں، وہ حدیث نہیں (کلّ حدیث لایعرفہ ابن تیمیۃ، فہو لیس بحدیث)۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ جب خود حافظِ حدیث ابن تیمیہ اِس روایت کو غیرثقہ مانتے ہوں تو پھر ایسی غیر ثابت شدہ روایت سے قتلِ شاتم کا استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے۔ اِس قسم کا استدلال بلا شبہہ غیر دینی بھی ہے اور غیر علمی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ شاتم کو قتل کرنے کے بارے میں نہ قرآن میں کوئی حکم ہے اور نہ حدیث میں۔ اِس معاملے میں مسلمانوں نے اپنے قومی جذبات کو شرعی حکم کا درجہ دے دیا ہے۔ یہ بلاشبہہ سرکشی کا فعل ہے۔ یہ خود ایک اہانتِ رسول ہے کہ رسول کے نام پر کسی انسان کو ناحق قتل کیا جائے۔ شتم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک اختلافِ رائے ہے، اور اختلاف رائے کے مقابلے میں جو چیز مطلوب ہے، وہ علمی استدلال ہے، نہ کہ بندوق اور تلوار۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانے میں کعبہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ یہ بلاشبہہ ایک مسئلہ تھا، لیکن اِسی کے ساتھ اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اِنھیں بتوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں وہاں مشرک زائرین آتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا اور مشرک زائرین کے سامنے قرآن کا پیغام پیش کیا۔ جے پور لٹریچر فیسٹول کے موقع پر مسلمانوں کو یہی کام کرنا تھا۔ اِس فیسٹول میں ہندستانی اور غیر ہندستانی لوگ بڑی تعداد میں شریک ہورہے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے تھا کہ وہ فیسٹول کے ناخوش گوار پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو ایک موقع دعوت (Dawah opportunity) کے طورپر استعمال کریں۔ وہ وہاں اپنا اسٹال لگائیں اور لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ یہی اِس معاملے میں پیغمبر اسلام کا نمونہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ سوشل موبلائزیشن (social mobilization) کا زمانہ ہے۔ اِس بنا پر ہر جگہ ایک نیا ظاہرہ پیدا ہوا ہے، وہ یہ کہ ہر جگہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہنے لگے ہیں۔ اِس بنا پر کانفرنسوں اور سیمیناروں میں ایک نیا بحث کا موضوع بن گیا ہے، وہ یہ کہ مختلف مذاہب کے سماج (multi-religious society) کے درمیان کس طرح ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ اِس سوال کو لے کر جگہ جگہ ایسے سیمینار کئے جارہے ہیں جن کا موضوع بین مذاہب ہم آہنگی (interfaith harmony) ہوتا ہے۔
اِس طرح کے سیمناروں اور کانفرنسوں کی کثرت کے باوجود اصل مسئلہ بدستور باقی ہے۔ اِس طرح کے اجتماعات کسی بھی درجے میں سماجی اتحاد کے مطلوب مقصد کو پورا نہ کرسکے۔اِس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اِس معاملے میں خود مطالعے کا زاویہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس مسئلے کا تعلق بین مذاہب اتحاد (interfaith harmony) سے نہیں ہے، بلکہ وہ اہلِ مذاہب کے درمیان اتحاد (harmony among the people of faith) سے ہے۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، نہ کہ اعتقادی مسئلہ۔ اِس مسئلے کے حل کے لیے ہم کو سماجی اتحاد کا فارمولا دریافت کرنا ہے۔ مذہبی اتحاد کی بات ایک علاحدہ بات ہے، اُس کا اِس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔
اہلِ مذاہب کے درمیان اتحاد کے لیے ہمیں کوئی نیا فارمولا وضع کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی آزمودہ فارمولا ہے جو تمام قوموں کے درمیان عملاً تسلیم کرلیا گیا ہے، اور وہ ہے، پر امن بقائے باہم (peaceful co-existence) کا فارمولا۔ اِس معاملے میں لوگوں کے اندر جو ذہن بنانا ہے، وہ ہے ایک دوسرے کا باہمی احترام کرتے ہوئے وسیع تر سماجی مفاد کے لیے متحد ہو کر کام کرنا— وحدتِ ادیان (unity of faiths) اور سماجی اتحاد(social unity) دونوں ایک دوسرے سے الگ موضوعات ہیں۔ اِس مسئلے کا حل صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
واپس اوپر جائیں
جولائی 2011 میں ایک عرب ملک میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اِس کانفرنس میں
العالم الإسلامی: المشکلات والحلول (The Muslim World: Issues and Solutions)
کانفرنس کے شرکا نے اپنے مقالات میں جو باتیں کہیں، رپورٹ کے مطابق، اس کا خلاصہ یہ تھا:
ایک صاحب نے اپنے مقالے میں امتِ مسلمہ میں فرقہ وارانہ اختلافات کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے، کیوں کہ اَعدائِ اسلام کی طرف سے اِس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ اِسی طرح مسلم حکومتوں سے درخواست کی گئی کہ سیاسی اختلافات کے لیے مذہب کو آلۂ کار نہ بنایا جائے۔ اِسی طرح ایک صاحب نے کہا کہ مسلمانوں میں امت ہونے کا تصور ختم ہوگیا ہے اور مسلمانوں نے علاقائیت کو اختیار کرلیا ہے، حالاں کہ مسلمانوں کے لیے باہمی رشتے کی بنیاد دین ہے، نہ کہ کوئی خطۂ زمین۔ ایک صاحب نے کہا کہ ہمارے فقہی ذخیرے میں عبادات پر تو بے شمار کتابیں ہیں، لیکن اسلام کے نظامِ سیاست پر محض چند کتابیں پائی جاتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسلام کا باضابطہ مجموعۂ قوانین مرتب کیا جائے۔ اِسی طرح ایک صاحب نے کہا کہ مسلم ممالک کا فریضہ ہے کہ وہ جدید صنعت و ٹکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں، ورنہ وہ دوسری قوموں کے محتاج ہو کر رہ جائیں گے، وغیرہ۔
یہ تمام باتیں اصل مسئلے کی نسبت سے، غیر متعلق (irrelevant) ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں، مسلم امت کا مسئلہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اصل منصبی فریضے کو چھوڑ دیا ہے، یہ دعوت الی اللہ کا فریضہ ہے۔ اِس بناپر موجودہ زمانے کے مسلمان نصرتِ الٰہی سے محروم ہوگئے ہیں۔ تمام مسائل دراصل اِسی دعوتی غفلت کا نتیجہ ہیں۔ امتِ مسلمہ کے موجودہ مسائل کے حل کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ مسلمان دعوت الی اللہ کی اہمیت کو سمجھیں اور وہ اس کے لیے منصوبہ بند انداز میں عمل کریں۔ دعوت کا فریضہ ادا کرنے ہی سے امت کے مسائل حل ہوں گے، اِس کے سوا، کوئی اور تدبیر امت کے مسائل کو حل کرنے والی نہیں۔ دوسری تمام تدبیروں سے اُن کے مسائل میں صرف اضافہ ہوگا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
دعوت کیا ہے۔ دعوت سادہ طورپر اعلان (announcement) کا نام نہیں۔ دعوت ایک انقلابی مشن ہے جو داعی کی پوری زندگی میں بھونچال کی طرح داخل ہوتا ہے اور اس کی زندگی کے ہر پہلو کو ایک نیا رخ دے دیتاہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔ اِس معاملے میں اصل سوال خود مسائل کی موجودگی کا نہیں ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ یہ مسائل کیوں پیدا ہوئے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ تھی۔ یہ صرف موجودہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو اِن مسائل میں مبتلا پارہے ہیں۔ اِس فرق کے مطالعے ہی میں اِس سوال کا جواب ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے مسائل کا حل کیا ہے۔
اِس معاملے میں قرآن کی ایک آیت ایک رہنما آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن کی سورہ الانفال میں قوموں کے عروج وزوال کا قانون اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ذلک بأن اللہ لم یک مغیّراً نعمۃً أنعمہا علیٰ قوم حتی یغیروا ما بأنفسہم(
دورِ اول کے مسلمان، دعوت کے تصور پر کھڑے ہوئے تھے، یعنی وہ دنیا کو زندگی کی بہتر آئڈیالوجی دے رہے تھے۔ اِس لیے ان کو قوموں کے درمیان عزت ووقار کا درجہ حاصل تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے نفع بخشی کی یہ حیثیت کھو دی ہے۔ اب اُن کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کی زبان ہے۔ مسلمان صرف یہ اعلان کررہے ہیں کہ دنیا ہم کو ہمارے حقوق نہیں دے رہی ہے۔ اورفطرت کا یہ قانون ہے کہ جو قوم نفع بخشی کی صلاحیت کھو دے، اس کو کبھی عزت ووقار کا درجہ نہ ملے۔
دورِ قدیم کے مسلمانوں کی نفع بخشی کا اعتراف مورخین نے عام طورپر کیا ہے۔ مثلاً پنڈت جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ عرب جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے انڈیا کو ایک شان دار کلچر (brilliant culture) دیا۔ سوامی وویکا نند نے اعتراف کیا ہے کہ انڈیا کو مسلمانوں سے مساوات کا تحفہ ملا۔ بریفالٹ (Briffault)نے اعتراف کیا ہے کہ قرونِ وسطی میں مسلمانوں نے جو علمی ترقیاں کیں، اُس سے مغرب کی جدید سائنس وجود میں آئی۔
قدیم زمانے کے مسلمانوں میں نفع بخشی کی یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوئی۔ اِس کا اصل راز یہ تھا کہ وہ دینِ توحید کے مبلغ بن گئے۔ توحید کا تصور ایک انقلابی تصور تھا۔ اِس تصور نے اُن کو ایک ایسی آئڈیالوجی دی جس کی ضرورت تمام دنیا کو تھی۔ توحید کی آئڈیالوجی نے مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ وہ زندگی کے ہر میدان میں عزم وحوصلے کے ساتھ داخل ہوگئے۔ اُن کو یقین تھا کہ ان کے پاس دنیا کو دینے کے لیے وہ چیز ہے جو دنیا کے پاس نہیں ہے۔ اِس یقین نے اُن کے اندر ایک تسخیری شخصیت پیدا کردی۔ اِس یقین کے فکری نتیجے کے طور پر ان کی تمام فکری اور عملی صلاحیتیں جاگ اٹھیں۔
دورِ اول کے مسلمانوں اور موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے درمیان اصل فرق یہی ہے۔ جب تک یہ فرق دور نہ کیا جائے، اُس وقت تک موجودہ صورتِ حال بدلنے والی نہیں۔ یہی وہ فطری حقیقت ہے جس کو امام مالک نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: لا یصلح آخر ہذہ الأمۃ إلا ما أصلح أولہ (مسند الموطأ: رقم:
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الانعام میں اللہ کے عذاب کی ایک صورت یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ لوگوں کو دو گروہوں میں بانٹ دے اور یہ دونوں گروہ باہم ایک دوسرے کے خلاف خونیں لڑائی اور خونیں جنگ شروع کردیں۔ چناں چہ فرمایا کہ: أویلبسکم شیعا ویُذیق بعضکم بأس بعض(
قرآن کی اِس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اُس کا تعلق صرف غیر مسلموںسے نہیں، بلکہ اُس کا تعلق خود مسلمانوں سے بھی ہے۔ یہ بات مختلف احادیث سے ثابت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو انتباہ دیتے ہوئے فرمایاتھا: لا ترجعوا بعدی کفّاراً، یضرب بعضُکم رِقابَ بعض (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1739) یعنی میرے بعد تم لوگ دوبارہ کافر نہ ہوجانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔اِسی طرح آپ نے فرمایا کہ: مَن حمل علینا السلاح، فلیس منا (صحیح البخاری، رقم الحدیث:6874 ) یعنی جو شخص ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں۔ نیز فرمایا کہ: سباب المسلم فسوقٌ وقتالہ کُفرٌ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:6044) یعنی مسلمان پر سب وشتم کرنا فسق ہے اور اُس سے جنگ کرنا کفر ہے۔ قرآن میں یہاں تک آیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، ا س کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اُس پر اللہ کا غضب اور اللہ کی لعنت ہے۔ اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے (
موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں جو باہمی لڑائیاں ہو رہی ہیں، وہ بلاشبہہ اِن آیتوں اور حدیثوں کا مصداق ہیں۔ اِن لڑائیوں میں مسلمان دو طبقے میں بٹ گئے ہیں— ایک، حکمراں طبقہ اور دوسرا، غیر حکمراں طبقہ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف خونیں لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ باہمی لڑائیاں بلاشبہہ فعلِ حرام کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ واقعہ اِن مسلمانوں کے لیے دنیا میں ذلت کا سبب ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنما أخاف علی أمتی الأئمۃَ المُضِلِّین، وإذا وُضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث :5427 ) یعنی میںاپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ گم راہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہ جائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی کے اندر یہ تلوار حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں داخل ہوئی۔ یہ معاملہ گمراہ کن لیڈروں کے ذریعہ پیش آیا اور عملاً وہ آج تک مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا اصل ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں یہی ماڈل امت کے درمیان جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ اب امت کے اندر غیردعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔
دعوتی ماڈل پر امن مشن کا ماڈل ہے۔ اِس ماڈل میں مثبت سوچ ہوتی ہے، تعمیری سرگرمیاں ہوتی ہیں، تمام سرگرمیاں دعوت کے مرکزی تصور کے تحت تشکیل پاتی ہیں، ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اختلاف کوگفت وشنید (negotiation) کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
غیر دعوتی ماڈل کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اس میں نفرت اور تشدد اور ٹکراؤ جیسی چیزیں فروغ پاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد امت میں غیر دعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔ اس کے بعد امت کے اندر کوئی ایسی طاقت ور شخصیت نہیں ابھری جو غیر دعوتی ماڈل کو ختم کرے اور امت کے اندر دوبارہ دعوتی ماڈل کو رائج کرے۔ یہی امتِ مسلمہ کا اصل المیہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس المیہ کو دورکرکے امت کو دوبارہ دعوتی ماڈل پر لایاجائے۔ اِس کے بغیر امت کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔
امتِ مسلمہ کے اندر تلوار کا داخل ہونا کیا ہے۔ یہ دراصل تاریخی اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ اسلام کے ابتدائی تیرہ سالہ دور کو مکی دور کہاجاتا ہے۔ اِس دور میں اسلام کا جو ماڈل بنا، وہ پوزیشن آف ماڈسٹی (position of modesty) پرمبنی ایک ماڈل تھا۔
مدنی دور کے بعد، اسلامی تاریخ کا جو دور آیا، وہ تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ اِسی بعد کے دور میں، اسلام کا کتب خانہ وجود میں آیا۔ وہ چیز جس کو مسلم فکر کہا جاتا ہے، وہ تمام تر اِس بعد کے دور میں بنا جو کہ پوزیشن آف اسٹرینتھ (position of strength) کا دور تھا۔
مکی دور میں جو حالات تھے، اس کے مطابق، اُس زمانے کا مسلم فکر تمام تر صبر پر مبنی تھا۔ اُس زمانے کے مسلمان، اپنے حالات کے مطابق، امن کی اصطلاحوں میں سوچتے تھے، نہ کہ جنگ کی اصطلاحوں میں۔ اُس زمانے میں، مسلمانوں کے اندر دعوت کا چرچا تھا، نہ کہ جہاد کا چرچا۔ اُس زمانے کے مسلمان ترغیب (persuasion) میں یقین رکھتے تھے، نہ کہ نفاذ (implementation) میں۔ اُس زمانے کے مسلمان دوسروں کو مدعو کی نظر سے دیکھتے تھے، نہ کہ حریف (rival) کی نظر سے۔
اِس قسم کی صفات کے نتیجے میںاُس زمانے کے مسلمانوں کے اندر جو ذہن بنا، وہ تمام تر داعیانہ ذہن تھا۔ سیکولر اصطلاح میں، اِس ذہن کو ایک غیر سیاسی ذہن (non-political mind) کہاجاسکتا ہے۔ اِس کے برعکس، پوزیشن آف اسٹرنتھ کے دور میں جو ذہن بنا، وہ ہر اعتبار سے، مذکورہ ذہن سے مختلف تھا۔ بعد کے دور میں جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، اس میں صبر کو منسوخ سمجھ لیاگیا۔ تالیفِ قلب ایک غیر ضروری روش قرار پائی۔ اب غیر مسلموں کے لیے ’’کفار‘‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ مسلم علاقہ دارالاسلام ہے اور غیر مسلم علاقہ دار الکفر یا دار الحرب۔ اب یہ ذہن بن گیا کہ ہم کو پُرامن دعوت دینے کی ضرورت نہیں، حاکمانہ طاقت کے زور پر ہم، لوگوں سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ اب یہ سمجھا جانے لگا کہ مسلمان خیرامت ہیں اور دوسرے لوگ کافرانہ امت۔اِسی دور میں ایک عرب شاعر نے مسلم دبدبے کو اِن الفاظ میں بیان کیا تھا کہ — جہاں دوسرے لوگ ایک فوج بھیجتے ہیں، وہاں ہم صرف ایک خط بھیج دیتے ہیں:
إذا ما أرسل الأمراء جیشاً إلی الأعداء، أرسلنا الکتابا
ہزار سالہ اقتدار کے دور میں یہی چیزیں مسلمانوں کے ذہن کی تشکیل کرتی رہیں۔ یہ فکر نسل در نسل چلتا رہا، یہاں تک کہ پوزیشن آف اسٹرنتھ کے تصور کے تحت پوری امتِ مسلمہ کی کنڈیشننگ ہوگئی۔ تمام دنیا کے مسلمان اِسی انداز پر سوچنے لگے۔ کسی اور انداز پر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔
اٹھارھویں صدی کے خاتمے کے ساتھ مسلم امت کے لیے پوزیشن آف اسٹرنتھ کا دور ختم ہو گیا۔ اب ساری دنیا میں مسلم ایمپائر کے بجائے، مغربی ایمپائر قائم ہوگیا۔ مسلم تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب کو ساری مسلم دنیا میں غلبہ حاصل ہوگیا۔ مسلمانوں کی شوکت ختم ہوگئی اور غیر مسلموں کی شوکت ہر جگہ قائم ہوگئی۔ یہ وقت مسلم رہنماؤں کے لیے سخت امتحان کا وقت تھا۔ مسلم رہنماؤں کو چاہیے تھا کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو سمجھیں اور مسلمانوں کو مشورہ دیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم مکی ماڈل کی طرف لوٹو، یعنی پوزیشن آف ماڈسٹی کے ماڈل کی طرف۔ لیکن مسلم رہنماؤں نے اِس کے برعکس، یہ کیا کہ انھوں نے ’’تحفظِ ملت‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو ابھارا کہ وہ پوزیشن آف اسٹرنتھ کی حالت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے مفروضہ ظالموں کے خلاف جنگ چھیڑ دیں۔ مسلمانوں کے اندر یہ غیر دانش مندانہ جنگ تقریباً دو سو سال سے جاری ہے— اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنی اِس تباہ کُن روش کو بدلیں۔ وہ حقائق کی بنیاد پر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں۔ اِس کے سوا، کوئی بھی دوسرا راستہ اُن کو کامیابی تک پہنچانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
کشمیر میں ہر طرف فطرت کے مناظر ہیں— سرسبز درخت، پانی کے چشمے، بہتے ہوئے دریا، چڑیوں کی چہچہاہٹ، پھلوں اور پھولوں کی بہاریں، اِس طرح پورا کشمیر فطرت کا گارڈن نظر آتاہے۔ کشمیر کا یہ سرسبز ماحول اپنی خاموش آواز میں پکار رہا ہے کہ یہاں نفرت اور عداوت کے لیے کو ئی جگہ نہیں، یہاں تشدد کا کلچر چلانا خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہے، اور جو چیز خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہو، وہ کبھی خدا کی اِس دنیا میں کامیاب ہونے والی نہیں۔
کشمیر میں 2012 کے موسم سرما میں بڑی مقدار میں اسنو فال (snow fall) ہوا۔ اسنو فال ایک خوب صورت فطری ظاہرہ (natural phenomenon) ہے۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے کہ اسنو فال ایک قسم کی روحانی بارش (spiritual rain)ہے۔
Today Kashmir is white due to snow fall. White is the symbol of peace. This is the lesson from nature, and violation of the law of nature always leads to destruction.
کشمیری مسلمان کا یہ پیغام گویا کشمیر کی روح کی ایک پکار ہے۔ کشمیر کی روح، فطرت کی زبان میں یہ پکار رہی ہے کہ کشمیر اپنی تخلیق کے اعتبار سے، امن کی ایک وادی ہے۔ کشمیر کو اس کے خالق نے اِس لیے چنا ہے کہ وہ دنیا کو امن کا پیغام دے۔ وہ فطرت کا ایک ایسا گہوارا بنے جہاں سے خدا کے بندوں کو امن اور انسانیت کا پیغام ملے — یہی کشمیر کا اصل رول ہے، اہل کشمیر کے لیے ترقی اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ خدا کے عطا کئے ہوئے اپنے اِس رول کو پہچانیں اور اُس کو بھر پور طورپر انجام دیں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں خلافت کے سوال پر مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ انصار کا یہ کہنا تھا کہ: منا أمیر، ومنکم أمیر(ایک امیر مہاجرین میں سے اور ایک امیر انصار میں سے)۔ آخر کار حضرت عمر کے اس قول پر فیصلہ ہوا : نحن الأمراء، وأنتم الوزراء (مہاجرین میں سے امیر ہوں اور انصار میں سے وزیر)۔ لیکن بعد کو اِس وعدے پر عمل نہ ہوسکا۔ حضرت عمر فاروق نے اپنے آخری زمانے میں کہا کہ — ہم نے انصار سے وعدہ کیا تھا کہ ہم خلافت کے کام میں انصار کو وزیر بنائیں گے، لیکن ہم ایسا نہ کرسکے: واللہ ما وفینا لہم، کما عاہدناہم علیہ (مسند البزّار، رقم الحدیث:
مگر اجتماعی زندگی کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ جو وعدہ سیاسی اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتاہو، وہ عام معنوں میں ایک وعدہ نہیں ہوتا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، چوں کہ اجتماعی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، مختلف قسم کے تقاضے اُس کے اوپر فیصلہ کن طور پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں، اِس لیے اِس قسم کے وعدے کبھی حتمی نہیں ہوتے، وہ حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ اجتماعی وعدوں کے معاملے میں طرفین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ حالات کے تقاضے کو سمجھیں۔ وہ ابتدائی الفاظ پر اصرار کرنے کے بجائے بعد کے پیدا شدہ حالات سے مطابقت پر راضی ہوجائیں— اجتماعی زندگی کے معاملات کبھی آئڈیل وزڈم (ideal wisdom) پرطے نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) پر طے ہوتے ہیں۔ یہی اسلام کا تقاضا ہے، اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
واپس اوپر جائیں
6 فروری 2012 کو پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں ایک بیان دیا۔ یہ بیان پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں عمومی طورپر رپورٹ کیا گیا۔ اِس بیان میں انھوںنے کہا تھا کہ ’’کشمیر کے لیے پاکستان اب مزید جنگ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ انھوں نے کہا کہ اِس سے پہلے کشمیر کے لیے ہم نے انڈیا سے چار مرتبہ (1948, 1965, 1971, 1999) جنگ کی ہے، لیکن اِس جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کشمیر کا مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کے ہم معنی ہے۔ جنگ کرنا پاکستان کی پہلی غلطی تھی۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ باہمی تعلقات کو آخری حد تک بگاڑ کر بات چیت کی پیش کش کی جائے۔ جنگ کسی سادہ واقعے کا نام نہیں۔ جنگ انتہائی قسم کا وہ منفی اقدام ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ فریقِ ثانی کے اندر نفرت اور دوری کے جذبات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جو علاقہ پہلے صرف ایک جغرافی علاقے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ اب اُس کے لیے وقار کا سوال (prestige issue) بن جاتا ہے، اور جب جنگ کا انجام یک طرفہ شکست کی صورت میں نکلے تو اس کے بعد فاتح فریق کے اندر اپنے موقف کی صداقت پر یقین بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ماضی کی ناکام لڑائیوں کے یہ نتائج اب پوری طرح واقعہ بن چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ سے پہلے جو معتدل فضا پائی جاتی تھی، وہ اب پوری طرح برباد ہوچکی ہے۔ ایسی حالت میں یہ امکان ختم ہوچکا ہے کہ میز کی بات چیت (negotiation) کا کوئی مفید نتیجہ برآمدہو۔ بات چیت کے لیے معتدل فضا لازمی طورپر ضروری ہے، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ معتدل فضا اب موجود ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب خود اپنی نادانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے لیے بات چیت کا انتخاب (choice) سرے سے باقی نہیں رہا۔ اب پاکستان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ کشمیر کو فراموشی کے خانے میں ڈال دے۔ وہ کشمیر کے بغیر پاکستان کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرے، وہ ملے ہوئے کی بنیاد پر پاکستان کی ترقی کی عمارت کھڑی کرے۔ پاکستان کے لیے یہی واحد دانش مندی کا طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
فروری 2012 میں اسلام آباد (پاکستان) کے ایک معروف عالم انڈیا آئے۔ انھوں نے انڈیا کے مختلف شہروں کا سفر کیا۔ اِن سفروں کے دوران اُن کو یہ موقع ملا کہ وہ انڈیا کے مسلمانوں کے حالات قریب سے دیکھ سکیں۔ دہلی میں 7 فروری 2012 کو اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے تعجب کے انداز میں کہا کہ— انڈیا میں بہت زیادہ امن پایا جاتا ہے، اور انڈیا کے مسلمان کافی ترقی کررہے ہیں۔ مذکورہ عالم کے لیے یہ بات خلافِ توقع تھی، کیوں کہ پاکستانی میڈیا کے ذریعے انھوں نے یہ سمجھا تھا کہ انڈیا کے مسلمان ہر اعتبار سے تباہی کا شکار ہیں، انڈیا کے مسلمانوں کو نہ آزادی حاصل ہے اور نہ وہ یہاں ترقی کرسکتے ہیں، وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی کا تعلق اِس سے نہیں ہے کہ مسلمانوں کا علاحدہ بلاک بنایا جائے۔ یا نظامِ مصطفی کے نام پر ہنگامہ خیز تحریکیں چلائی جائیں۔ اِس قسم کی تحریکیں ترقی کے لیے بالکل غیر متعلق ہیں۔ ترقی کے لیے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے — امن اور آزادی۔ یہ دونوں چیزیں انڈیا میں پوری طرح موجودہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جس نے انڈیا کے مسلمانوں کو یہ موقع دیا کہ وہ یہاں ترقی کرسکیں۔
ترقی ہمیشہ معتدل حالات میں ہوتی ہے۔ اِسی معتدل حالت کو امن کہا جاتا ہے۔ امن کے حصول کا راز ایک لفظ میں، اسٹیٹس کو ازم (statusquoism) ہے۔ جو لوگ ترقی چاہتے ہوں، اُن کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ نام نہاد انقلابی تحریکوں کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ وہ موجود صورتِ حال (statusquo) کو علی حالہ مان لیں۔ وہ موجود امکانات کو پر امن طورپر استعمال کریں اور بقیہ تمام چیزوں کو مستقبل کے خانے میں ڈال دیں۔اِسی تعمیری طریقے کا نام دانش مندانہ منصوبہ بندی ہے۔ اِس دنیا میں کوئی نتیجہ خیز کام صرف دانش مندانہ منصوبہ کے ذریعے انجام پاتاہے، نہ کہ جذباتی ہنگامہ آرائی کے ذریعے۔ جذباتی ہنگامہ آرائی صرف نقصان میں اضافہ کرتی ہے، وہ کسی مفید نتیجے تک پہنچنے والی نہیں — یہ واقعہ اہلِ کشمیر کے لیے ایک رہنما سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نزاعی امور میں کبھی غیر اصولی موقف اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا موقف ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے، یعنی الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا۔
اِس معاملے کی ایک تازہ مثال پاکستان ہے۔ پاکستان نے انڈیا کے خلاف ’’لڑائی‘‘ میں ایک غیر اصولی موقف اختیار کیا۔ انھوں نے غیر حکومتی تنظیموں کو ہتھیار دیا اور ان کی فوجی تربیت کی، تاکہ وہ انڈیا کے خلاف پراکسی وار (proxy war) لڑسکیں۔ یہ کام پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر کیا گیا۔پاکستان کے تمام لوگ اِس واقعے کو جانتے تھے، مگر میرے علم کے مطابق، پاکستان کے کسی بھی شخص یا جماعت نے بالاعلان اس کی مذمت نہیں کی۔ کسی نے بھی اِس معاملے میں نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ اب 60 برس سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد یہ پالیسی خود پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔اِس تباہی کی خبریں روزانہ میڈیا میں آرہی ہیں۔
یہ طریقہ سراسر اصول کے خلاف تھا۔ مسلمہ اصول کے مطابق، ہتھیار کااستعمال صرف ایک قائم شدہ حکومت کے لے جائز ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے لیے کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانا ہر گز جائز نہیں۔ غیر حکومتی تنظیموں کے لیے صرف دو میں سے ایک کا اختیار حاصل ہے، یا تووہ کامل طورپر امن کے دائرے میں اپنی کوشش انجام دیں، یا پھر وہ خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیں۔ اِس کے بجائے، ہتھیار اٹھانا یا تشدد کرنا اُن کے لیے تھرڈ آپشن (third option) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اِس معاملے میں تھرڈ آپشن لینا اپنے آپ میں ایک جرم ہے، وہ ہرگز کوئی اصلاحی اقدام نہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ اجتماعی زندگی میں جب بھی وہ کوئی اقدام کرے تو وہ عقلی طورپر جائز اقدام (rationally justified action) ہو۔اجتماعی زندگی میں اقدام کا معاملہ بے حد نازک ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں آدمی کو چاہئے کہ وہ جائز اقدام کرے اور اگر جائز اقدام ممکن نہ ہو تو وہ عملاً معاملے سے الگ رہ کراس کی اصلاح کے لئے اللہ سے دعا کرے۔
واپس اوپر جائیں
اسامہ بن لادن کا عمومی تشخص یہ ہے کہ وہ مغرب کے سخت دشمن تھے اور جہاد کے نام پر مغرب کے خلاف متشددانہ کارروائیوں کے سب سے بڑے حامی تھے۔ 3 مئی 2011 کو پاکستان (ایبٹ آباد) میں وہ ہلاک ہوگئے۔ یہ ان کا کردار بحیثیت ایک لیڈر تھا۔ باپ کی حیثیت سے اُن کا کردار اِس سے بالکل مختلف تھا۔
اسامہ بن لادن کے برادرِ نسبتی (brother-in-law) زکریا (Zakaria al-Sadah) کا ایک انٹرویو ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) میں سنڈے ٹائمس (لندن) کے حوالے سے چھپا ہے۔ اِس انٹرویو میں انھوںنے بتایا کہ — اسامہ بن لادن نے اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں سے کہا تھا کہ تم لوگ یورپ اور امریکا جاؤ، وہاں اچھی تعلیم حاصل کرو، اور اچھی زندگی گزارو۔ تم کو تعلیم حاصل کرنا ہے، امن کے ساتھ رہنا ہے۔ تم وہ نہ کرو جو میں کررہا ہوں یا جو میں نے کیا:
He told his own children and grand children, ‘Go to Europe and America and get a good education, and live a good life. You have to study, live in peace and don’t do what I am doing or what I have done’. (The Times of India, New Delhi, February 14, 2012, p. 20)
یہ صرف ایک شخص کی بات نہیں، یہی اِس معاملے میں موجودہ زمانے کے تمام مسلم لیڈروں کا حال ہے۔ وہ دوسروں کو مغرب سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں، وہ قوم کے بچوں کو جہاد کے نام پر تشدد کے راستے پر ڈالتے ہیں، مگر خود اپنے بچوں کے لیے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور مغربی ملکوں میں آباد ہو کر وہاں پر امن زندگی گزاریں۔ ایسے لیڈروں کو نصیحت کرنا بے کار ہے، کیوں کہ وہ خود اپنی روش کبھی نہیں بدلیں گے، البتہ جو لوگ نادانی میں اُن لیڈر وں کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کو چاہئے کہ وہ ہوش مندی کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ ایسے لیڈروں کی جذباتی باتوں کو ہر گز نہ سنیں۔ وہ خود اپنی عقل سے کام لیں اور اپنے لیے اوراپنی اولاد کے لئے پُرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کریں۔
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
‘I see fire! I see fire!’ “Behind us, passengers were praying: ‘God, save our flight! Give us Your protection!’” (The Times of India, New Delhi, May 17, 2011)
تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی صورتِ حال سے دوچار ہوتاہے، جب وہ محسوس کرتاہے کہ وہ پیش آمدہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل عاجز (helpless) ہے۔ اُس وقت وہ بے تابانہ طورپر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اِس کی ایک مثال مذکورہ واقعے میں ملتی ہے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے واقعات آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں پیوست (interwoven) ہے۔ ہر انسان کو امکانی طورپر (potentially) خدا کی معرفت حاصل ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد اِسی امکان کو واقعہ بنانا ہے۔ دعوت انسانی شخصیت سے الگ کوئی چیز نہیں، وہ اس کی اپنی شخصیت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اِسی لیے آدمی جب اپنی اِس فطرت کو دریافت کرلیتاہے تو وہ توحید کی دعوت کو اِس طرح قبول کرلیتا ہے جیسے کہ وہ اس کی اپنی چیز تھی۔
واپس اوپر جائیں
کیمبرج یونی ورسٹی (برطانیہ) میں نظریاتی سائنس کے پروفیسر اسٹفن ہاکنگ 8 جنوری 2012 کو 70 سال کے ہوگئے۔ ان کی عمر کے 70 سال پورا ہونے پر کیمبرج یونی ورسٹی کے وائس چانسلر (Leszek Borysiewic) نے ایک بیان دیا۔ انھوںنے کہا کہ — اگر چہ اپنی عمر کے بڑے حصے میں اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) وہیل چئر پر رہے، اور وہ صرف کمپیوٹر کے ذریعے ہی بول سکتے تھے، مگر رموزِ کائنات کے بارے میں اسٹفن ہاکنگ کی تلاش نے اُن کو درست طورپر دنیا کا سب سے زیادہ مشہور سائنس داں بنا دیا۔ اسٹفن ہاکنگ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میری اِس شہرت کا تعلق میری جسمانی معذوری سے ہے۔ لوگوں کو یہ چیز مسحور کرتی ہے کہ میں اپنی جسمانی محدودیت کے باوجود کس طرح کائنات کے انتہائی وسیع موضوع کو اپنی بحث کا موضوع بناتاہوں:
Despite spending most of his life in a wheelchair and being able to speak only through a computer, the theoretical physicist’s quest for the secrets of the universe has made him arguably the most famous scientist in the world. “I am sure my disability has a bearing on why I am well known,” he once said. “People are fascinated by the contrast between my very limited physical powers, and the vast nature of the universe I deal with.” (The Times of India, New Delhi, Jan 9, 2012, p.
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اِس دنیا میں کسی آدمی کی جسمانی معذوری (disability) اس کے لیے ایک ایڈوانٹج (advantage) بن سکتی ہے۔ فطرت کے اصول کے مطابق،جسمانی معذوری کا شکار ہونے والا آدمی کلّی معنوں میں معذور نہیں ہوتا۔ جسمانی معذوری کے باوجود اس کی ذہنی صلاحیت (intellectual ability) بدستور برقرار رہتی ہے۔ جسمانی معذوری کا شکار ہونے والا آدمی اگر مایوسی میں مبتلا نہ ہو، وہ اپنی صلاحیت کو ترقی دینے کی کوشش میں لگ جائے، وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنانے کی کوشش کرے تو عین ممکن ہے کہ جسمانی معذوری کے باوجود وہ اُن لوگوں سے بھی زیادہ کامیاب زندگی حاصل کرلے جو بہ ظاہر کسی جسمانی معذوری کا شکار نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کو کوئی قلبی تعلق نہیں۔ البتہ اِس دوران اُن کے موبائل پر بار بار ان کے بچوں کے ٹیلی فون آتے رہے۔ اپنے بچوں سے ٹیلی فون پر وہ اِس طرح گفتگو کرتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنے بچوں سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہے۔
میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیس اُسی طرح ایک نادان باپ کا کیس ہے جیسا کہ دوسروں کا کیس ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز عملاً ملی ہوئی ہے، اُس کو آپ بھر پور طور پر استعمال نہیں کرتے اور جو چیز آپ کو ملنے والی نہیں، اُس کو آپ اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنائے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو عملاً آپ کو حاصل ہوچکی ہیں— ایک، آپ کا اپنا وجود۔ اور دوسرے، آپ کی بیوی۔ آپ نے اپنے معاملے میں یہ کیا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، اور بیوی کے معاملے میں آپ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کا شکار ہیں، وہ اپنی زندگی کا کوئی تخلیقی کردار (creative role) دریافت نہ کرسکیں۔دوسری طرف، آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کی تمام دلچسپیاں اپنے بچوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں، حالاں کہ یہ بچے آپ کو ملنے والے نہیں۔ آپ کا بیٹا اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کو چھوڑ کر خود اپنی الگ زندگی بنائیں گے، وہ ہر گز آپ کے کام آنے والے نہیں۔ آپ ملی ہوئی چیز کو ضائع کررہے ہیں اور نہ ملنے والی چیز کے لیے آپ بے فائدہ طورپر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی ’’کھونے‘‘ کا کیس بن رہا ہے۔ کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’’پانے‘‘ کا کیس نہیں۔ آدمی اپنی اِس غفلت کو اپنی عمر کے آخر میں اُس وقت دریافت کرتاہے، جب کہ اِس تباہ کن غفلت کی تلافی کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حاصل شدہ کو اپنا مرکز ِ عمل بنائے، نہ کہ غیر حاصل شدہ کو۔
واپس اوپر جائیں
کامیاب زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل کے لیے کسی ایسے میدانِ کار کا انتخاب نہ کرے جس کے لیے وہ صرف جزئی طورپر اہل (competent) ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے بارے میں یہ دریافت کرے کہ وہ کس کام کی زیادہ بہتر صلاحیت رکھتاہے اور پھر وہ اُسی کام کو اپنے عمل کا میدان بنائے۔ کسی کام میں حقیقی کامیابی کے لیے کلّی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ جزئی اہلیت کے ذریعے کوئی شخص کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔
یہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے، مگر عجیب بات ہے کہ بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس اصول کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیرکریں۔ بیش تر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ محض شوق کے تحت ایک ایسے میدان میں داخل ہوجاتے ہیں جس کے لیے وہ پوری طرح اہل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیش تر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عمل کا آغاز حوصلہ مندی کے ساتھ کرتے ہیں، مگر آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور پھر وہ اِسی حال میں مرجاتے ہیں۔ ہرآدمی کا یہ معاملہ ہے کہ اس کے اندر فطری طورپر بعض صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ آدمی کوچاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے اِس پہلو کو دریافت کرے۔ وہ صرف اُس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کے لیے وہ اپنی صلاحیت اور اپنے حالات کے اعتبار سے زیادہ اہلیت (competence) رکھتا ہو۔
کسی بھی عورت یا مرد کو یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ایسے میدان میں کود پڑے جس میں وہ بہتر کارکردگی کا ثبوت نہ دے سکتا ہو۔ مثال کے طورپر اگر ایک شخص کے اندر تعلیمی کام کی صلاحیت ہے تو اس کو سیاست کے میدان میں نہیں کودنا چاہیے۔ اگر ایک شخص کے اندر علمی کام کی صلاحیت ہے تو اس کو بزنس نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایک شخص کے اندر روایتی کام کی صلاحیت ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ غیر ر وایتی کام کو اپنا میدانِ کار نہ بنائے، وغیرہ۔ اِسی کا نام منصوبہ بندی (planning) ہے، اور منصوبہ بندی کے بغیر اِس دنیا میںکوئی اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں
یوپی (انڈیا) کے ایک شہر کا واقعہ ہے۔یہاں ایک مسلم عالم نے ایک مدرسہ بنایا۔ اِس کے بعد وہاں حکومت کی طرف سے ایک سڑک کی تعمیر کی گئی۔ یہ سڑک مدرسے کی عمارت کے پاس سے گزر رہی تھی۔ یہاں مدرسے کی ایک دیوار تھی جو سڑک کی تعمیر میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ مدرسے کے لوگ اِس دیوار کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ پختہ دیوار ہے، ہم اِس کو کیسے ہٹا سکتے ہیں۔آخر کار یہ معاملہ بڑھ کر نزاع تک پہنچ گیا۔
ایک دوسرے مدرسے کے ذمے دار جو الرسالہ مشن سے وابستہ ہیں، اُن کو معلوم ہوا تو وہ اُس متنازعہ مقام پر گئے۔ انھوں نے مدرسے کے ذمے داروں سے کہا کہ یہ نہ پختہ دیوار ہے اور نہ غیر پختہ دیوار۔ یہ صرف انا کی دیوار ہے۔ اِس کے بعد مدرسے والے اِس دیوار کو ہٹانے پر راضی ہوگئے اور سڑک اپنے نقشے کے مطابق، تعمیر کردی گئی۔ اِس واقعے کے بعد اہلِ مدرسہ اور حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوگئے۔ اِس کا مزید فائدہ یہ ہوا کہ وہاں اسلامی دعوت کی راہ ہموار ہوگئی۔
اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو لوگ رکاوٹ کہتے ہیں، وہ حقیقی رکاوٹ نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف ضد اور انا کی رکاوٹ ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک سنگین مسئلہ بن جاتی ہے۔ اِس طرح کے مسائل کے موقع پر اگر دانش مندی سے کام لیا جائے تو مسئلہ اِس طرح ختم ہوجائے گا جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف ایک ذہنی مسئلہ ہوتاہے، وہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں ہوتا۔
ہر مسئلہ ابتداء ً ایک چھوٹا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ صرف لوگوں کا غیر دانش مندانہ رویہ ہے جو ایک چھوٹے مسئلے کو بڑا مسئلہ بنادیتا ہے۔ اِس طرح یہ ہوتاہے کہ اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے اور نئے زیادہ پیچیدہ مسئلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ مسئلے کو پہلے ہی مرحلے میں ختم کردیا جائے۔ مسئلے کا بڑھنا کسی بھی حال میں مفید نہیں، خواہ وہ فرد کا معاملہ ہو یا جماعت کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں
سوال
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے دعوت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے اِس سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ قرآن میں صاف طورپر آیا ہے کہ: إنّ الذین کفروا سواء علیہم أأنذرتہم أم لم تنذر ہم لا یؤمنون (
جواب
قرآن کی اِس آیت کا تعلق عمومی معنوں میں دعوت الی اللہ سے نہیں۔ اُس کا تعلق اصلاً صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر (contemporary) ایک گروہ سے ہے جس کے اوپر پیغمبراسلام نے لمبی مدت تک دعوتی جدوجہد کی، اِس کے باوجود وہ لوگ انکار کی روش پر قائم رہے۔ اِس آیت کا تعلق منصوبۂ دعوت سے نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تہدیدی اعلان ہے۔ اِس آیت سے برعکس طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر گر وہ پر لازماً دعوت کا عمل کیا جائے گا۔ اس کو کسی بھی حال میں بند نہیں کیا جائے گا۔ یہ اللہ کا معاملہ ہے کہ وہ اِس گروہ کو ایمان کی توفیق دے یا نہ دے۔ دعوت، اہلِ ایمان کی ذمے داری ہے اور مدعو کو قبول حق کی توفیق دینا اللہ کا کام۔
قرآن کی اِس آیت کے نزول کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ گروہ کے درمیان دعوت کاکام بند نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس کو بدستور جاری رکھا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دعوت الی اللہ کا کام ہر حال میں جاری رکھا جائے گا، حتی کہ ایسے گروہ پر بھی جو علمِ الٰہی کے مطابق، اُس کو قبول کرنے والا نہ ہو۔ داعی کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ داعی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مخاطَب اس کی بات کو قبول کرے گا یا وہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ دوسری جگہ قرآن میں یہ آیت آئی ہے: فذکر إنما أنت مذکّر، لستَ علیہم بمصیطر إلا من تولّی وکفر، فیعذبہ اللہ العذاب الأکبر (
سوال
اہلِ کتاب خصوصاً نصاریٰ سے متعلق یہ سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ موجودہ دور کے عیسائی بغیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے نجات اخروی کے مستحق ہیں یا نہیں۔ کیا ان کے لئے اللہ کی نازل کردہ کتاب انجیل مقدس کافی نہیں ہے۔ اخروی نجات کا معاملہ تو خدا اور بندہ کا پرسنل معاملہ ہے، اور اس کے لئے خدائے واحد کو ماننا، آخرت پر ایمان رکھنا اور عمل صالح کرنا کافی ہے، جیسا کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے: إن الذین آمنوا والذین ہادوا والنصاری والصابئین من آمن باللہ والیوم الآخر وعمل صالحا فلہم أجرہم عند ربہم ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون (
جواب
1 - اِس سوال کے سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ طرز فکر اپنے آپ میں درست نہیں۔ ’’نجاتِ اُخروی‘‘ کا مستحق کون ہے، اِس کا علم صرف خدا کو ہے۔ کوئی بھی شخص اگر اِس معاملے میں اپنی رائے دیتاہے تو وہ ایک ایسے دائرے میں داخل ہوتاہے جس میں داخل ہونے کا سرے سے اس کو کوئی حق حاصل نہیں۔ ہمارا کام صرف دعوت دیناہے، نہ کہ اِس سوال پر رائے زنی کرنا کہ نجاتِ اخروی کا مستحق کون ہے۔ اِس معاملے میں قرآن اور حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ مثلاً اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وما أدری ما یفعل بی ولا بکم (
قرآن کی اِس آیت اور اِس حدیثِ رسول سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ نجاتِ آخرت کا معاملہ سرتا سر اللہ کے فیصلے کا معاملہ ہے۔ ہمارے ایمان اور ہمارے عمل کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ نجات کی عملی دعا ہے، وہ نجات کی قیمت نہیں۔ ہماری ذمے داری صرف یہ ہے کہ ہم ہر ایک کو یکساں طورپر اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ جہاں تک آخرت کے انجام کی بات ہے، وہ تمام تر اللہ کا معاملہ ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے علم کی بنیاد پر ہر ایک کے لیے اُس کے اخروی انجام کا فیصلہ کرے گا۔
2 - قرآن کی دوسری آیت جس کا آپ نے حوالہ دیا، اُس کا ترجمہ یہ ہے: ’’بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاری اور صابی، اُن میں سے جو شخص ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور اس نے عملِ صالح کیا، تو اُس کے لیے اُس کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور اُن کے لیے نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غم گین ہوں گے‘‘ (
اِس آیت میں دراصل گروہی نجات کی تردید ہے۔ نجات کا تعلق کسی فرد کے ذاتی عمل سے ہے، نہ کہ مجرّد کسی گروہ سے وابستہ ہونے کی بنا پر۔ اِس معاملے میں مسلم گروہ کا بھی کوئی استثنا نہیں۔یہاں مسلمانوں کو دوسرے مذہبی گروہوں سے الگ نہیں کیا گیاہے، بلکہ مسلمانوں کا اور دوسرے پیغمبروں سے نسبت رکھنے والی امتوں کا ذکر ایک ساتھ کیاگیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ گروہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک سب برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ گروہ کے اعتبار سے، ایک گروہ اور دوسرے گروہ میں کوئی فرق نہیں۔ سب کی نجات کا ایک ہی محکم اصول ہے، اور وہ ہے — ایمان اور عملِ صالح۔ کوئی گروہ اپنے آپ کو خواہ مسلمان کہتا ہو، یا وہ اپنے آپ کو یہودی، یا مسیحی، یا صابی کہے، اُن میں سے کوئی بھی محض ایک مخصوص گروہ ہونے کی بنا پر خدا کے یہاں کوئی خصوصی درجہ نہیں رکھتا۔ درجے کا اعتبار صرف اِس بات پر ہے کہ کس نے خدا کی منشا کے مطابق، اپنی عملی زندگی کو ڈھالا۔
یہاں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تاریخی اعتبار سے، نہ کہ مدارِ نجات کے اعتبار سے، وہ تمام مذاہب یکساں حیثیت رکھتے ہیں جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ مگر اب سے
حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا مواخذہ تمام تر اِس بات پر منحصر ہے کہ اُس کو کس درجے میں خدا کا پیغام پہنچا تھا۔ اور اِ س کا علم صرف اللہ کو ہوسکتاہے، نہ کہ کسی انسان کو۔ جہاں تک ہماری ذمے داری کا تعلق ہے، وہ یقینی طورپر دعوت ہے، نہ کہ فتویٰ نافذ کرنا۔
3 - آپ نے قرآن کی جو آیت (
واپس اوپر جائیں
1 - یکم اکتوبر2011 کو سہارن پور اور اطراف کے بڑے ہوٹلوں اور ریلوے اسٹیشن پر ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن پہنچانے کا مستقل انتظام کیاگیا۔ یہاں سے لوگوں کو ترجمہ قرآن بطور ہدیہ (gift) دیا جارہا ہے۔
2 - سہارن پور کے ڈی ایم مسٹر زبیر بن صغیر (IAS) کو 3 اکتوبر 2011 کو سی پی ایس (سہارن پور) کی ٹیم کے لوگوں نے پرافٹ آف پیس اور تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا۔ اِسی طرح سہارن پور کے ڈسٹرکٹ جج مسٹر ایم طاہر تیاگی سے ملاقات کرکے اُن کو دعوتی لٹریچر دیا۔مسٹر تیاگی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی پی ایس کے لوگ ہم ججوں کے کام کو آسان کررہے ہیں۔اگر آپ اِسی طرح پرامن انداز میں ذہن سازی کا کام کرتے رہے تو ہمارے سماج میں کرائم (crime) بہت کم ہوجائے گا۔ سہارن پور کے ڈی آئی جی مسٹر جے نارائن سنگھ (IPS) نے صدر اسلامی مرکز کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھ کر کہا کہ آپ لوگ فرشتوں والا کام کررہے ہیں کہ لوگوں تک خداکا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ 4 اکتوبر 2011 کو مسٹر جے نارائن کے پورے اسٹاف کو قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
3 - نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 3 اکتوبر 2011 کو سرٹفکٹ ڈسٹری بیوشن کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات شریک تھے۔ ان کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
4 - سی پی ایس (نئی دہلی) کے ہال میں
5 - دہلی یونی ورسٹی کی طرف سے،
6 - سہارن پور میں
7 - جے پور (راجستھان) میں
8 - جنگ پورہ (نئی دہلی) کے مسیحی ادارہ (Christian Institute for the Study of Religion) میں
Religion in Secular India: Rights and Responsibilities
اِس پروگرام کو فادر تھامس نے انٹرفیتھ کولیشن فار پیس (ICP) کے تحت آرگنائز کیاتھا۔ اِس میں انڈیا اور یورپ (ناروے) کے 40 نمائندے شریک تھے۔ یہ پیس ایکٹوسٹس(peace activists) تھے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز اِس پروگرام کے واحد اسپیکر تھے۔ اُن کو ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیاگیا تھا، ایک گھنٹہ خطاب کے لیے اور آدھ گھنٹہ سوال و جواب کے لیے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں انگریزی زبان میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ پروگرام کے آخر میں حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
9 - نئی دہلی کے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی (IGNOU) میں 19 نومبر 2011 کو اندرا گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک پروگرام ہوا۔ یہاں کے وائس چانسلر (VC) ایک کشمیری مسلمان (ڈاکٹر محمد اسلم) ہیں۔ وہ الرسالہ مشن سے بخوبی طورپر واقف ہیں۔ انھوںنے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ہندستان میں ایک کشمیری مسلمان ایک ہندو یونی ورسٹی (IGNOU) کا وائس چانسلر ہے۔ یہاں ایک مسلمان، ملک کا صدر بن سکتا ہے۔ یہ صرف انڈیا میں ممکن ہے۔ اِس لیے ہمیں ملک کے ساتھ دل سے محبت کرنا چاہئے۔ اِس موقع پر یونی ورسٹی کے اساتذہ اور اسٹاف کو سی پی ایس (سہارن پور) کی طرف سے، قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
10 - سہارن پور کے براؤن ووڈ پبلک اسکول (Brown Wood Public School) میں
18 - اینگلو عربک اسکول (دہلی) میں
19 - بہائی ہاؤس (نئی دہلی) میں
-20 سی پی ایس (سہارن پور) کی طرف سے 18 دسمبر 2011 کو بلڈ ڈونیشن (Blood Donation) کا ایک پروگرام کیاگیا۔ اِس موقع پر آنے والے لوگوں کو بطور ہدیہ قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
M. Necim CAN (President), Mustafa Günes (President Assistant)
ان سے اسلام اور امنِ عالم کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
Dialogue on Religion and Globalization
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام کے ریفرنس میں مذکورہ موضوع پر
30 -یکم جنوری 2012 کو وشو ہندو پریشد (VHP) کی طرف سے سہارن پور میں ایک پروگرام تھا۔ اِس موقع پر وی ایچ پی کے ممبر مسٹر سی ایم شرما نے حاضرین کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیا۔
October 30, 2011 “The Man Islam Builds”
November 06, 2011 “Interfaith Dialogue”
November 13, 2011 “Success in the Light of Seerah”
December 04, 2011 “Islam in the Modern Age”
January 01, 2011 “Seerah As a Movement"
January 08, 2012 “Importance of Peace”
January 15, 2012 “Lessons of Optimism from Prophet's Life"
January 29, 2012 “Scholars of Islam”
February 05, 2012 “Seerah of the Prophet Muhammad”
February 19, 2012 “Islam Ki Sarbulandi (Ascendancy of Islam)”
40 - قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
Maulana Wahiduddin Khan is an excellent man of reason. He is great blessing of Almighty for people like me. I find him a truly dedicated scholar. His face depicts his truthful personality. I did never find an intellectual personality of his caliber in today’s world of Islam in my life. I am exceptionally thankful for taking up my question and guidance about "Marxism". I have started reading his book and finding it engaging as per my question was concerned. (Tasawwur Hussain, UK)
I want to share with you some news. I have a friend whose name is Afridi a regular reader of Al-Risala and other books of Maulana and is truly a Da'i. He installed a plant of oxygen and nitrogen gas in small industrial area near our home. For maintenance he hired an engineer from Rawalpindi, Pakistan. A few days ago, I visited the plant and found the engineer readingAl-Risala copy of December 2011. I did not disturb him and asked my friend. He said that he has been sitting for many hours and also reading only Al-Risala copies of previous months. Today, he called me and said that the engineer wanted to start Al-Risala agency of 10 copies for himself and for his other friends to distribute. Al-Risala gives us positive thinking and appeals everyone. It gives us the message which fully relates to our natures. So people get inspiration when they start reading. (M. Salman, Pakistan)
Thanks for spreading the message of “true” Islam; a task which has been made all the more important, timely and urgent because of the highly un-Islamic activities of some extremists and terrorists. My wife, who converted to Islam, is finding your introduction to Islam to be highly informative. I have finished reading your book The Prophet of Peace. It is written clearly, concisely, and constructively. It conveys the urgent message to Muslims to engage in introspection and examine the extent to which Muslims have contributed to the negativity about Islam that we find in practically all non-Muslim countries and to see how we can - individually and collectively - rectify the situation. (Saleem Ahmed, USA)
Dear Maulana, From last 5-7 years, I was so harsh about Islam. I was becoming a non-believer and going far from religion and God. Last week, I read your book The Prophet of Peace and it made me live in Islam once again. I want to thank you heartily to make me live in Islam again. (Husain Tosseef, Udaipur, Rajasthan)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.