روزہ کے لیے عربی لفظ صوم ہے۔ صوم کے معنیٰ ہیں، رُکنا(abstinance)۔ زندگی میں صرف اقدام کی اہمیت نہیںہوتی، بلکہ رُکنا بھی زندگی میںایک بے حد اہم پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقدام اگر خارجی توسیع کی علامت ہے تو رُکنا داخلی استحکام کی علامت۔ اور زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے بلا شبہہ دونوں ہی یکساں طورپر ضروری ہیں۔
مشہور صحابی خالد بن الولید کو پیغمبر اسلام نے سیف اللہ کا لقب عطا کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو یہ لقب کسی اقدام یا جنگی پیش قدمی پر نہیں دیا تھا۔ بلکہ آپ نے سیف اللہ کا لقب اُنہیں اُس وقت دیا تھا جب کہ غزوۂ موتہ کے موقع پر انہوں نے یک طرفہ طورپر اپنی تلوار میان میں رکھ لی تھی اور تمام صحابہ کو جنگ کے میدان سے ہٹا کر مدینہ واپس آگئے تھے۔
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ تم چند دنوں کے لیے کھانا چھوڑ دو تاکہ تم بقیہ دنوں میں زیادہ اچھے کھانے والے بنو۔ تم چند دنوں کے لیے اپنی سرگرمیوں کو داخلی تعمیر کے محاذ پر لگا دو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر طورپر خارجی سرگرمی کے قابل بن جاؤ۔ چند دنوں کے لئے تم اپنے بولنے پر پابندی لگا لو تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر بولنے والے بن سکو۔ چند دنوں کے لیے تم اپنے مقام پر ٹھہر جاؤ تاکہ اس کے بعد تم کامیاب پیش قدمی کے قابل بن سکو۔
روزہ کا مہینہ مومن کے لیے تیاری کا مہینہ ہے۔ اپنی سوچ کے معیار کو بلند کرنا، اپنی عبادت میںتقویٰ کی اسپرٹ بڑھانا ، اپنی روحانیت میںاضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، بھوک اور سیری کا تجربہ کرکے اپنے اندر شکر کا احساس جگانا، مادی مشغولیت کو کم کرکے آخرت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا، خارجی سفر کو روک کر داخلی سفر کی طرف رواں دواں ہونا، ایک مہینہ کے تربیتی کورس سے گذر کر پورے ایک سال کے لیے شکر و تقویٰ کی غذا حاصل کر لینا، وغیرہ۔یہی روزہ کا مقصد ہے اوریہی روزہ کی مقبولیت کا اصل معیاربھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر ۷۳ میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (المزمل ۱۰) اُردو مترجمین نے اس آیت کے جو ترجمے کئے ہیں اُن میں سے چند یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
۱۔ اور سہتا رہ جو کہتے رہیں اور چھوڑ اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا (شاہ عبد القادر)
۲۔ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اُن پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔ (اشرف علی تھانوی)
۳۔ اور سہتا رہ جوکچھ وہ کہتے رہیں اور چھوڑ دے اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا۔ (محمود حسن، دیو بندی)
۴۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کر اور اُن کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔ (امین احسن اصلاحی)
اس آیت کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا:
Endure patiently what ever they say, and avoid them in a decent manner.
قرآن کی یہ آیت مکی دور میں اُتری۔ اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اوراصحاب رسول نے اُن کے آبائی دین سے انحراف کیا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ رسول اور اصحاب رسول کو ستانے لگے۔ اُنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ اس ماحول میں قرآن کی یہ آیت اُتری۔ اس میں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ تم لوگ صبر کرو اور ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کرو۔
ہجر جمیل کے لفظی معنیٰ ہیںــــ خوبصورتی کے ساتھ چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ستانے والوں کے ساتھ حسن اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ ان کے معاملہ میں تمہارا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہوناچاہئے بلکہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہئے۔ تم کو چاہئے کہ اُن کے معاملہ میں در گذر کرو اور اُن کے برے انداز کے مقابلہ میں تم اُن کے ساتھ اچھا انداز اختیار کرو۔
مفسرین نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ صبر اور ہجر جمیل کا یہ حکم آیات قتال کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔مگر یہ ایک غلط تفسیر ہے۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ اہل ایمان کا ایک مثبت رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن منفی رد عمل کا تحمل نہیں کرسکتا۔ شکایت کی نفسیات شکر کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن یک طرفہ طورپر شکایت کے جذبات کو ختم کرتا ہے تاکہ اُس کے اندر شکر کا جذبہ مجروح نہ ہونے پائے۔ اسی طرح نفرت کی نفسیات محبت کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن نفرت کی نفسیات کواپنے اندر پنپنے نہیں دیتا تاکہ اُس کے اندر محبت الٰہی کا جذبہ پوری طرح باقی رہے۔ اس کام کو کبھی سختی سے کرنا پڑتا ہے اور کبھی حسن تدبیر سے۔
ہجر جمیل (حسن اعراض) بظاہر دوسرے کے مقابلہ میں ہوتا ہے مگر اُس کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ مومن آخری حد تک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے اندر اعلیٰ اسلامی احساس ہمیشہ زندہ رہے۔ کسی بھی حال میں اُس کے اندر نقصان (erosion) نہ ہونے پائے۔
قرآن کے مطابق، اللہ نے کسی انسان کے اندر دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب ۴) یعنی انسان کے دل میں بیک وقت دو متضاد نفسیات پرورش نہیں پاسکتیں۔ جو دل انسان سے نفرت کرے، عین اُسی وقت وہ خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ جس دل کے اندر انسانوں کے بارے میں شکایات بھری ہوئی ہوں وہ دل کبھی خدا کے شکر سے سرشار نہیں ہوسکتا۔ جس آدمی کا سینہ انتقامی نفسیات کا جنگل بنا ہوا ہو وہ خدا سے طلبِ عفو کی لذت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان ظلم کی یادوں میں جی رہا ہو وہ خدائے رحمن ورحیم کی یادوں کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر اور حسن اعراض مومن کے لیے ایک خود حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ اُس کے سینے میں غیر مومنانہ نفسیات کی پرورش ہونے لگے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو مومن کہہ اُٹھتا ہے کہ میںاس قسم کی منفی سوچ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہاںاس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے رسو ل اور اصحاب رسول کی زندگی سے حسن اعراض کی کچھ عملی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ ابن اسحق کی روایت ہے کہ مکہ کے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے تھے اور سبّ وشتم کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذمّم رکھ دیا تھا۔ محمد کا مطلب ہے، تعریف کیا ہوا۔اس کے بجائے وہ آپ کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ألا تعجبون لما صرف اللہ عنی من اذی قریش، یسبون ویہجون مذمما وأنا محمد۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱، صفحہ ۳۷۹) یعنی کیا تم کو تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھے قریش کی اذیت سے کس طرح بچا لیا، وہ سبّ وشتم کرتے ہیںاور مذمم کہہ کر ہجو کرتے ہیں، حالاں کہ میں محمد ہوں۔
پیغمبر اسلام کے اس قول کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً قریش اگر یہ کہیں کہ ’’مذمّم مجنون ہے‘‘ تو رسول اللہ اس کا بُرا اثر نہ لیتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری یہ بات اُس کے اوپر پڑے گی جس کا نام مذمّم ہو،میرا نام تو محمد ہے۔ یہ حسن اعراض کی ایک لطیف مثال ہے۔ اس طرح مومن اپنے آپ کواس نقصان سے بچاتا ہے کہ کسی کی بدگوئی اُس کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ مومن کا قول یہ ہوتا ہے کہ میں منفی جذبات کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے حسن اعراض کی ایک دلچسپ مثال ڈاکٹر ذاکر حسین کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ایک بار وہ دہلی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی چلا رہے تھے، اتفاق سے اُن کی گاڑی ایک اور شخص کی گاڑی سے معمولی طور پر ٹکرا گئی۔ اُن کی گاڑی میں رگڑ(dent) آگیا۔ اُس آدمی نے ابھی نئی گاڑی لی تھی۔ وہ گاڑی روک کر اُترا۔ ذاکر صاحب بھی اپنی گاڑی روک کر اُتر گئے۔ اُس آدمی نے ذاکر صاحب کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹ(idiot) ۔ اس انگریزی لفظ کے معنیٰ ہوتے ہیں، احمق۔ ذاکر صاحب نے جوابی غصہ نہیں دکھایا۔ اُنہوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا:
Sir, I am not Mr. Idiot, I am Zakir Husain.
جناب، میں مسٹر ایڈیٹ نہیں ہوں۔ میں ذاکر حسین ہوں۔ یہ سُن کر اُس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ساری(sorry) کہہ کر وہ خاموشی کے ساتھ اپنی گاڑی پر بیٹھا اور آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
۲۔ہجرت کے بعد حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ کے صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اُس وقت حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدۂ امن تیار کیا گیا ۔ اس معاہدہ کے وقت قریش نے ضد کا مظاہرہ بھی کیا اور تشدد کا مظاہرہ بھی۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ اُن کی یک طرفہ شرطوں پر معاہدہ کیا جائے۔ اصحاب رسول کواس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس طرح کی شرطوں پر معاہدہ کرنا اُن کو بظاہر ایک ذلت کا معاہدہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ:قریش آج جو خاکہ بھی پیش کریں گے، بشرطیکہ اُس میں صلہ رحمی کو ملحوظ رکھا گیا ہو ، میں ضرور اُس پر راضی ہوجاؤں گا (سیرت ابن ہشام ،الجزء ۳، صفحہ ۳۵۸) دشمن کی یک طرفہ شرطوں کو ماننا ایک سخت ناگوار معاملہ تھا۔ مگر آپ نے مذکورہ بات کہہ کر اس ناگوارکو ایک گوارا معاملہ بنا لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہجر جمیل کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔قدیم عربوں کے نزدیک صلہ رحمی بہت بڑی انسانی قدر سمجھی جاتی تھی۔ اور قطع رحمی کو وہ بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا سوال ہی نہ تھا کہ وہ معاہدہ کے لیے ایسا خاکہ پیش کریں جس میں قطع رحم کی دفعہ رکھی گئی ہو۔ باعتبار حقیقت رسول اللہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں ہر قیمت پر قریش سے صلح کر لوں گا۔ اس بات کو کہنے کے باعزت طریقہ کے طورپر آپ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف سے صُلح کے ہر خاکہ کو منظور کرلوں گا بشرطیکہ اُس میں قطع رحم نہ پایا جاتا ہو ۔ حالاںکہ پیشگی طورپر یہ معلوم تھا کہ وہ قطع رحم کی شرط کبھی نہیں رکھیں گے۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو جلد ہی یہاں کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اُس وقت مدینہ میںایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ بن اُبیّ تھا۔ وہ اپنے زمانہ کا ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ بھی اگر چہ اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا مگر اُس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حسد کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپ کے خلاف شر انگیز باتیں کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ ﷺنے اس معاملہ کا ذکر مدینہ کے ایک مسلمان اُسید بن حضیر سے کیا۔ اُنہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ، ارفق بہ، فواللہ لقد جاء نا اللہ بک وان قومہ لینظمون لہ الخرز لیتوجّوہ، فانہ لیری أنک قد استلبتہ ملکاً۔ (سیرت ابن ہشام، الجزء ۳، صفحہ ۳۳۶) یعنی اے خدا کے رسول، اُس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، خدا کی قسم، اللہ آپ کو ہمارے پاس لے آیا اور اُس کی قوم کے لوگ اُس کے لیے تاج تیار کر رہے تھے تاکہ وہ اُس کو اپنا بادشاہ بنائیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ نے اُس کا مقام اُس سے چھین لیا ہے۔
یہ حسن اعراض کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ عبداللہ بن ابیّ کی شر انگیزی کا جواب سختی کے ساتھ دیا جاتا۔ صحابی نے گویا اپنے جواب میں یہ بتایا کہ اس معاملہ میں سختی کی ضرورت نہیں۔ حسن اعراض ہی اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
۴۔ اوپر ہجرجمیل کی وہ مثالیں ہیں جو سطور میں ہوتی ہیں۔ اب ایک بین السطور کی مثال لیجئے۔ جب کسی معاملہ میں ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اُس میںایک اور بات پوشیدہ ہوتی ہے جو اگر چہ زبان سے بولی نہیںجاتی مگر وہ حقیقی مطلوب کے طورپر اس میں شامل رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران قریش نے مختلف قسم کی زیادتیاں کیں۔ مثلاً ایک صحابی کو تنہا پاکر اُنہیں تیرمار کر ہلاک کردیا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے، اتنے میں قریش کے کچھ لوگ آئے اور آپ پر تیربرسانے لگے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے دس سال کا امن معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی دفعات حضرت عمر پر سخت ناگوار تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یا أبابکر ألیس برسول اللہ ، قال: بلی، قال: أولسنا بالمسلمین، قال: بلیٰ، قال: أولیسوا بالمشرکین؟ قال: بلی، قال: فعلام نعطی الدنیۃ فی دیننا؟۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ۳؍۳۲۰)۔ یعنی اے ابوبکر، کیا محمد اللہ کے رسول نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا ہم مسلمان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا وہ مشرک نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔ روایات کے مطابق، حضرت عمر نے یہی بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہی۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی زیادتیوں کے باوجود اُن کی یک طرفہ شرطوں پر دس سال کا جو امن معاہدہ کیا تھا، وہ ایک نہایت اہم اسلامی مصلحت کی بنا پر تھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ دشمن سے معاہدہ امن کرکے معتدل حالات پیدا کئے جائیں تاکہ اسلامی دعوت کا عمل موثر طورپر جاری ہوسکے۔ مگر یہ نصیحت نہ امن معاہدہ کے اندر لکھی گئی اور نہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی شدید ناگواری کے باوجود آپ نے حدیبیہ کے مقام پر اس کا اعلان کیا۔
یہ ہجر جمیل (حسن اعراض) کا دوسرا پہلو ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہمیشہ مخفی حالت میں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو لفظوں میں پانا ممکن نہیں۔ اگر اُس کو لفظوں میں لکھا یا بولا جائے تو اُس کی ساری معنویت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حالت میں لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک رویّہ درست ہے۔ یا تو وہ اتنا زیادہ ہوش مند ہوں کہ سطور کے اندر بین السطور کو پڑھ لیں۔ وہ اعلان کے بغیر اُس کی اہمیت کو دریافت کر لیں۔ جن لوگوں کے اندر اتنی ہوش مندی نہیں ہے اُن کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بصیرت پر اعتماد کریں۔ وہ صرف اعتماد اور حسن ظن کی بنا پر یہ عقیدہ رکھیں کہ اُن کے رہنما نے جو بات کہی ہے اُس کے پیچھے ضرور کوئی گہری مصلحت ہوگی۔ ہمارا کام اپنے رہنما کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس کی دیانت داری (integrity) پر شک کرنا۔
۵۔ صُلح حدیبیہ بظاہر ایک ایسی صُلح تھی جو دشمن کے مقابلہ میں دب کر کی گئی۔ مگر اس کے اندر ایک غیر اعلان شدہ مقصد چھپا ہوا تھااور وہ تھا ـــــٹکراؤ کو ایوائڈ کرکے اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا۔ اگر یہ بات معاہدہ کے متن میں لکھ دی جاتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اُسی وقت اس کا اعلان کر دیتے تو صلح کے مقاصد سرے سے فوت ہوجاتے۔ اس قسم کے مقاصد ہمیشہ اعلان کے بغیر ہوتے ہیں، نہ کہ اعلان کے ساتھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ بعد کو جب اس کا عملی نتیجہ ظاہر ہوگیا، اُس وقت لوگوں نے جانا کہ اس صلح کے اندر کتنی بڑی مصلحت چھپی ہوئی تھی۔
یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے بعد کے زمانہ میں ان الفاظ میں بیان کی: ماکان فتح اعظم فی الإسلام من فتح الحدیبیۃ، ولکن الناس یومئذٍ قصررأیہم عمّا کان بین محمد وربّہ، والعباد یعجلون واللہ لا یعجل کعجلۃ العباد حتی یبلغ الامور ما أراد۔ (حیاۃ الصحابۃ، ۱؍۱۵۷) یعنی اسلام میں حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی۔ لیکن معاہدہ کے دن لوگوں کو اس بات میں رائے قائم کرنے میں کوتاہی ہوئی جو محمد اورآپ کے رب کے درمیان تھا۔ انسان عجلت پسند ہے اور اللہ انسانوں کی طرح عجلت نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ امور کو وہاں تک پہنچادے جو وہ چاہتاہے۔
۶۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) سادہ طور پر محض ایک بچاؤ کی تدبیر نہیں، بلکہ وہ بامقصد انسان کی سوچی سمجھی ایک مستقل اخلاقی روش ہے۔ با مقصد انسان کے سامنے ایک متعین منزل ہوتی ہے، جہاں پہنچنا اُس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہوتا ہے۔ اس لیے وہ راستہ کے ہر اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے تاکہ وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر اپنی آخری منزل تک پہنچ سکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، قدیم مکہ کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ آپ پر اورآپ کے ساتھیوں پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس ترک وطن کے بعد بھی وہ آپ کے خلاف مسلسل جارحیت کرتے رہے۔
آخر کار وہ وقت آیا جب کہ پیغمبر اسلام اللہ کی مدد سے مکہ کے فاتح بن گئے۔ اب وقت تھا کہ ماضی کے ظلم کی اُنہیں سزا دی جائے۔ عام رواج کے مطابق، اُن کو قتل کردینا عین جائز تھا۔ مگر پیغمبراسلام نے اُن لوگوں کے ساـتھ ہجر جمیل کی روش اختیار کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب قریش کے یہ مجرمین آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ: اخ کریم و ابن اخ کریم۔ (آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں)۔
پیغمبر اسلام نے اس کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تمہارے بارہ میں وہی کہوں گا جو پیغمبر یوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا۔ یعنی لاتثریب علیکم الیوم (یوسف ۹۲) آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ : جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔ اس طرح آپ نے اُن تمام لوگوں کو آزادکردیا جو اس سے پہلے آپ کے خلاف کھلے دشمن بنے ہوئے تھے۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک بامقصد انسان کے عمل کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ پیغمبر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کریں۔ مکہ کے لوگوں کو شرک سے نکال کر اُنہیں خدائے واحد کاپرستار بنائیں۔ اپنے دشمن انسان کو دوست انسان میں تبدیل کرکے، توجیہہ کی بنیاد پر وہ انقلاب لائیں جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے یک طرفہ حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکّہ کے یہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ: فخرجوا کانما نشروا من القبور، فدخلوا فی الإسلام (حیاۃالصحابۃ ۱؍۱۷۵) یعنی پھر وہ لوگ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں اور وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
پیغمبر اسلام اگر اس کے برعکس اُن دشمنوں سے اُن کی ظالمانہ روش کا انتقام لیتے تو اس کے بعد یہ ہوتا کہ وہاں انتقام در انتقام کا دور چل پڑتا۔ ایک انتقام کے بعد دوسرا انتقام شروع ہوجاتا اور پھر حالات ایسا منفی رُخ اختیار کرلیتے کہ سارا تعمیری منصوبہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (alergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے ،معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اسی قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہئے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی رد عمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔
اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہیــــــــــکتّے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں دو مقام پر یہ آیت آئی ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو (وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ)۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ اس آیت کے ذریعہ رسول اور اصحاب رسول کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ مذہبی جبر کے موجودہ نظام کو توڑ دو تاکہ دنیا میں مذہبی آزادی کا ماحول قائم ہو جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کو اختیار کرنا چاہیں اُن کے راستہ میں کوئی پابندی باقی نہ رہے۔ واضح ہو کہ پیغمبر اسلام کے معاصر قوتوں نے آپ کے خلاف خود ہی بدء (التوبہ ۱۳) کا عمل کیا۔ اس طرح اُنہوں نے جارحیت کا آغاز کرکے فتنہ کے خلاف آپ کے آپریشن کو دفاعی جنگ کی صورت دے دی۔
اس آیت میںایک معلوم اور متعین مقصد کے لیے جنگ کا حکم دیا گیا تھا‘ اور وہ تھا‘ مذہبی جبر کا خاتمہ۔ اس آیت کو لے کر کسی اور مقصد کے لیے جنگ چھیڑنا درست نہ تھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں ایسا کیا گیا کہ قتالِ فتنہ کے حکم کی توسیع کرکے اُس کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک انحراف (deviation) یا گاڑی کا اپنی پٹری سے اُترنا(derailment) تھا۔ مگر ایسا ہوا‘ اور اس کا سلسلہ کسی نہ کسی عنوان سے آج تک جاری ہے۔
۱۔ اس سلسلہ میں پہلا انحراف اصحابِ رسول کی دوسری نسل(second generation) میں پیش آیا۔ اس معاملہ میں دو نام زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک الحسین بن علی (م ۶۱ھ) اور دوسرے عبد اللہ بن الزبیر (م ۷۳ھ)۔ دونوں حضرات نے اموی حکمراں یزید بن معاویہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔ دونوں حضرات نے اپنے عمل کے وجہ جواز کے طورپر یزید کے ظلم کا حوالہ دیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قتال فتنہ کا تعلق مذہبی جبر سے تھا اُس میں تصرف کرکے اُس کو اُنہوں نے سیاسی بدعنوانی (political corruption)تک وسیع کر دیا۔
قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بلا شبہہ ایک اجتہادی خطا تھی۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامﷺنے واضح طورپر یہ حکم دیا تھا کہ میرے بعد حکمرانوں کے بگاڑ کو لے کر ہر گز اُن کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی جنگوں کے وقت صحابۂ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی‘ مگر وہ ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے واضح طورپر اعلان کیا کہ بعد کے زمانہ کی یہ جنگ قتال فتنہ کے حکم سے انحراف ہے‘ نہ کہ اُس کا اتباع(صحیح البخاری‘ کتاب التفسیر)
۲۔ اس سلسلہ کا دوسرا انحراف زیادہ بڑے پیمانہ پر خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوا اور پھرتقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ انحراف مسلم حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا۔ اُنہوں نے مذہبی جبر کے خلاف جنگ کے مفہوم میں اضافہ کرکے اُس کو مسلم سلطنت کی توسیع(political expansion) کے معنیٰ میں لے لیا۔ وہ پوری دنیا میں مسلم سلطنت کی توسیع کے لیے لڑائیاں لڑتے رہے۔
قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بھی بلا شبہہ ایک انحراف تھی۔ قرآن میں امت کو جو عالمی مشن دیا گیا تھا وہ شہادت علی الناس تھا‘ نہ کہ لوگوں کے اوپر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنا۔ یہی بات پیغمبر اسلام نے حجۃ الوادع کے موقع پر اس طرح فرمائی کہ اللہ نے مجھ کو سارے انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے تم میرے لائے ہوئے پیغام کو میری طرف سے تمام دنیا والوں تک پہنچا دو (فأدوا عنی) اس اعتبار سے بعد کے دور میں مسلمانوں کا اصل کام دعوت الی اللہ تھا‘ نہ کہ اقتدار کی سیاست چلانا۔
۳۔ اس سلسلہ کا تیسرا شدید تر انحراف وہ ہے جو موجودہ زمانہ میں پیش آیا۔ یہ کچھ مسلم مفکرین کی طرف سے مذکورہ قرآنی آیت کی نام نہاد انقلابی تفسیر تھی۔ ان لوگوں نے آیت کے حکم میں خود ساختہ توسیع کرکے اُس کو قتال برائے تنفیذ احکام کے معنیٰ میں لے لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس آیت کے مطابق‘ ہر زمانہ کے مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ حکمرانوں سے جنگ کرکے اسلام کے احکام کو ہر جگہ نافذ کریں۔
قتالِ فتنہ کے حکم میں یہ توسیع ایک مہلک قسم کا انحراف ہے۔ اس نے مسلمانوں کے اندر غلط طورپر یہ ذہن پیدا کیا کہ ہرجگہ اسلامی حکومت قائم کرنا اُن کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں ہرجگہ جہاد کے نام پر تشدد ہونے لگا۔ کچھ مسلمان گن اور بم لے کر دنیا والوں پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے مسلمان جنہوں نے اس متشددانہ فعل میں عملاً شرکت نہیں کی‘ وہ بھی اس انقلابی نظریہ سے اتنا مسحور ہوئے کہ وہ اس کی ہمت نہ کرسکے کہ وہ کھُل کر اُس کی مذمت کریں اور اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کریں۔
بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری اسلام کے نام پر اس غیر اسلام کا نمونہ بن گئی۔ اس کا نتیجہ دو مہلک صورتوں میں بر آمد ہوا۔ ایک‘ اسلام کی بدنامی۔ ساری دنیا میں اسلام خلاف واقعہ طورپر نفرت اور تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ لندن کے مشہور انگریزی روزنامہ میں اسلام کے بارے میں ایک آرٹیکل چھپا جس کا عنوان یہ تھاــــــــایک مذہب‘ جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے:
A religion that sanctions violence.
دوسری خرابی یہ ہوئی کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کے حق میں جو نئے قیمتی امکانات پیدا ہوئے تھے وہ استعمال ہونے سے رہ گئے۔ مسلمان خود ساختہ جہاد کے نام سے اپنے آپ کوبے فائدہ طورپر ہلاک کرتے رہے‘ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے اسلام کا حیات بخش پیغام دوسروں تک نہ پہنچا سکے۔
اکیسویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے لیے پہلا ضروری کام اسی غلطی کی تصحیح ہے۔ کوئی بھی دوسرا کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسلام کے نام پر ہونے والے تشدّد کو فوری طور پر اور مکمل طورپر بند کردیا جائے۔ اس معاملہ میں کسی بھی عذرکو‘ خواہ وہ بظاہر کتنا ہی سنگین ہو‘ رکاوٹ نہ بنایا جائے۔ موجودہ زمانہ میں اسلام کے حقیقی احیاء کا نقطۂ آغاز یہی ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول کو ختم کرکے اہلِ اسلام سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
امن برائے امن
امن (peace) کیا ہے۔ اہلِ علم اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ امن عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ یعنی جنگ نہ ہو رہی ہو تو کہا جائے گا کہ امن قائم ہے۔ جنگ کی حالت نہ ہونے کا نام امن کی حالت ہے۔ جو لوگ اپنے کسی حق (right) کے نام پر متشددانہ جنگ کررہے ہیں‘ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ امن مع انصاف (peace with justice) کا نام امن ہے۔ جس امن سے انصاف حاصل نہ ہو وہ امن بھی نہیں۔
یہ دوسرا نظریہ ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اس طرح سوچیں اُن کو نہ کبھی امن ملے گا اور نہ کبھی انصاف۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کا مقصد مواقع(opportunities) کو حاصل کرنا ہے‘ نہ کہ انصاف کو حاصل کرنا۔ امن بجائے خود کسی کو انصاف نہیں دیتا۔ امن صرف یہ کرتا ہے کہ و ہ معتدل حالات قائم کر دیتا ہے جس میں عمل کرکے انصاف یا حق حاصل کیا جاسکے۔
موجودہ دنیا میں جب بھی کسی کو کوئی چیز ملتی ہے وہ اُس کے اپنے عمل کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے حق میں وہ معتدل حالات پیدا کردے جس میں آپ کے لیے اپنے موافق منصوبہ بندی کرنا ممکن ہوجائے۔ جنگ و تشدد کے حالات کا م کے مواقع کو برباد کرتے ہیں۔ جب کہ امن اور صلح کے حالات کام کرنے کے تمام دروازے اس طرح کھول دیتے ہیں کہ اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔
جنگ کا دور ختم
پائرس (Pyrrhus) قدیم یونان کا ایک بادشاہ تھا۔ وہ ۳۱۹ ق م میں پیدا ہوا‘ اور ۲۷۲ ق م میں اُس کی وفات ہوئی۔ ۲۷۹ ق م میں اُس کی لڑائی رومیوں (Romans) سے ہوئی۔ اس جنگ میں شاہ پائرس جیت گیا۔ مگر جب لڑائی ختم ہوئی تو اُس کی اقتصادیات اور اُس کی سیاسی اور فوجی طاقت پوری طرح تباہ ہوچکی تھی۔ اسی واقعہ سے پِرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کی اصطلاح بنی ہے‘ یعنی تباہ کن فتح۔
قدیم زمانہ میں پرک وکٹری یا تباہ کن فتح کا واقعہ بہت کم پیش آسکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں جدید ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد ہر جنگ تباہ کن جنگ بن چکی ہے۔ اب جنگ جیتنے والے اور جنگ ہارنے والے کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ اخباروں میں دونوں کی خبریں الگ الگ الفاظ میں چھپتی ہیں‘ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دونوں کا معاملہ ایک ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں ہار بھی ہارہے اور جیت بھی ہار۔
موجودہ زمانہ میں جنگ صرف خود کشی ہے‘ جنگ اب کسی مثبت مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں۔ کسی قوم سے کوئی چیز کھوئی گئی ہو تو اُس کے لیے صبر ہے‘ نہ کہ جنگ۔ کیوں کہ جنگ اب اس کے لیے محرومی پر ذلت کا اضافہ ہے۔ امن کا بدل جنگ نہیں‘ امن کا بدل گفت وشنید ہے۔
اس معاملہ کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ملتی ہے۔ پاکستان ۱۹۴۷ میں بنا۔ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔ پھر ایسے حالات پیش آئے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے پوری طرح الگ ہوگیا۔ آخر کار پاکستان نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس جغرافی محرومی پر صبر کر لیا۔ اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تووہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کی خاطر اپنے بقیہ حصہ کو بھی تباہ کرلیتا۔ جنگ کا مطلب نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ جو کچھ بچا ہے اُس کو بھی کھو دیا جائے‘ جزئی محرومی کو کلی محرومی بنا دیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ اب کسی کے لیے بھی کوئی انتخاب (option)نہیں۔ آج کی جنگ میں ہارنے والے کے لیے بھی ہار ہے اور جیتنے والے کے لیے بھی ہار۔ تاہم اس میں مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں۔ دور جدید نے اگر ایک طرف جنگ کو ناممکن بنادیاہے تو دوسری طرف جدید دور کے نتیجہ میں ایسی انقلابی تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں کہ کوئی بھی محرومی کسی کے لیے محرومی ثابت نہ ہو۔ آج کو ئی فرد یا گروہ‘ خواہ وہ کسی بھی حال میں ہو‘ از سرِ نو اپنی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ کھونے کے بعد وہ کامیابی کے نئے امکانات کو پاسکتا ہے
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن نے چھوٹے ملک اور بڑے ملک کے فرق کو مٹا دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے جدیددورنے جغرافی محدودیت کے تصور کو عملاً غیر موثر بنادیا ہے۔ جدید تبدیلیوں کے بعد اب جنگ کی حیثیت کسی صحت مند انتخاب کی نہیں رہی۔
اب جنگ سادہ طورپر صرف جنگ نہیں‘ وہ غصہ اور نفرت اور مایوسی کے تحت پیش آنے والا ایک منفی واقعہ ہے‘ نہ کہ کسی تعمیری منصوبہ بندی کا مثبت نتیجہ۔ اب جنگ صرف خود کشی کی مایوسانہ چھلانگ ہے‘ وہ کسی صحت مند ذہن کے تحت کیا ہوا مفید اقدام نہیں۔
واپس اوپر جائیں
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اسلام میں جو امتیازی درجہ ملا وہ صحبت رسول کی بنا پر تھا۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحبت کوئی پُر اسرار (mysterious)چیز ہے اور اُس کی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں اصحاب رسول کو مجرد صحبت کی بنا پر خود بخود یہ فائدہ حاصل ہوا۔ یہ نظریہ علمی طورپر درست نہیں۔ وہ اس معاملہ کی پوری توجیہہ نہیں کرتا۔ مثلاً اس نظریہ میں اس واقعہ کی توجیہہ موجودنہیں کہ مدینہ کے سیکڑوں دوسرے لوگ جو بظاہر ایمان لائے اور پیغمبر کی صحبت میں بار بار بیٹھے‘ مگر وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرسکے اور اسلام کی تاریخ میں منافق کہلائے گئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اعلیٰ ایمان حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے‘ اور وہ ہے معرفت یا ذہنی ارتقاء۔ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی کے اندر معرفت کے رُخ پر ایک تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ یہ تفکیری عمل ہی دراصل کسی مومن کے لیے اعلیٰ ایمانی درجہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
پیغمبر کی صحبت میں در اصل یہی تفکیری عمل جاری رہتا تھا۔ لوگ آپ کی باتوں کو سنتے‘ وہ آپ کی باتوں کو اپنے ذہن میں اس طرح جگہ دیتے کہ وہ اُن کے ذہن میں ہلچل پیدا کردیتا۔ اس طرح اُن کے اندر تفکیرکا عمل مسلسل ہر صبح و شام جاری رہتا۔ رسول اللہ کی صحبت اس تفکیری عمل کا ذریعہ تھی‘ اس لیے اُس کو صحبترسول سے منسوب کیا گیا۔
تاہم پیغمبر کی باتیں سادہ طورپر صرف سننا کافی نہیں۔ پیغمبر کی باتیں صرف اُس انسان کے لیے مفیدبنیںگی جو ریسیپٹیو(receptive) ہو‘ جو یکسو ہو کر سنے اور پھر نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اُس کو قبول کر سکے۔ مخلص اہل ایمان میں یہ قبولیت (receptivity) پوری طرح موجود تھی اس لیے اُن کو صحبت رسول کا فائدہ حاصل ہوا۔ منافقین کے اندر یہ قبولیت موجود نہ تھی اس لیے وہ صحبت رسول کے باوجود اُس کا فائدہ نہ پاسکے۔
صحابیت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ: من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنا بہ و مات علی ذلک فہو صحابی(جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور اس پر اس کی موت واقع ہوئی تو وہ صحابی ہے)۔ یہ تعریف صحابیت کی ایک ناقص تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحبت کا مفہوم متعین کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عملی طورپر صحبت کی صورت کیا تھی۔ وہاں ایسا نہ تھا کہ مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہوں اور صحابہ بھی بعد از ایمان آپ کی صحبت میں خاموش بیٹھ کر صرف آپ کو دیکھتے رہتے ہوں۔ آپ کی صحبت میں ہمیشہ تفکر و تدبر کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں یہ تعلیم حکمت کا ایک حلقہ ہوتا تھا۔
اس کے برعکس واقعات بتاتے ہیں کہ آپ کی صحبت ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ ان لوگوں کے سامنے نعمت رب کی تحدیث فرماتے تھے (الضحیٰ)۔ آپ حاضرین کو اُس رزق رب سے باخبر کرتے تھے جس کی توفیق آپ کو اللہ کی طرف سے دی جاتی تھی (طٰہ) آپ قرآن کی آیتوں کی تشریح فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کے سوال کا جواب دیتے تھے۔آپ وہ باتیں فرماتے تھے جس سے لوگوں کا شک یقین میں بدل جاتا تھا۔ آپ لوگوں کو ذکر و دعا اور حمد و شکر کے کلمات کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ لوگوں کو قرآن کے نازل شدہ حصّے سناتے تھے۔ آپ لوگوں کو پچھلے انبیاء اور پچھلے اہل ایمان کے پُر تاثیر واقعات کی خبر دیتے تھے‘ وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے آپ سے اس قسم کی زلزلہ خیز باتیں سنتے تھے۔ آپ کی صحبت میں لوگوں کو اس طرح فکری ہلچل کی غذا ملتی تھی۔ آپ کی صحبت مکمل معنوں میں ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ کی صحبت کا اس طرح زندگی بخش ہونا وہ اصل سبب تھا جس نے آپ کے ہم زمانہ اہل ایمان کو وہ عظیم درجہ دے دیا جس کو تاریخ میں اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ یہ فکری انقلاب کا ایک واقعہ تھا‘ نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت میں بیٹھنے کا۔
یہی معاملہ بعد کے دور کے علماء اور بزرگوں کا ہے۔ اُن میں سے کسی کی صحبت میں پُر اسرار تاثیر نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر صحبت میں بیٹھنے والوں اور وہاں کی باتیں سننے والوں کی اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ جن افراد کے اندر مادّہ قبولیت ہوگا وہ صحبت کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اور جن افراد کے اندر قبولیت کا مادّہ نہ ہوگا وہ فائدہ سے محروم رہیں گے۔ اس تشریح کی روشنی میں صحابی کی زیادہ صحیح تعریف یہ ہونا چاہئے: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور آپ کی صحبت سے استفادہ کیا اور اسی حال میںاُس کی موت ہوئی تو وہ صحابی ہے۔
عمومی صحبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی صحبت جو اکثر مسجد میں یا کسی اور مجلس میں آپ کے اصحاب کو حاصل ہوتی تھی‘ اُس کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کی مجلسوں میں اصحابِ رسول کو کس طرح ذہنی تعمیر کی خوراک ملتی رہتی تھی۔
عن ابی ذر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیف أنتم و ائمۃ من بعدی‘ یستأثرون بہذا الفیٔ‘ قلت: اَمَا والذی بعثک بالحق‘ اضع سیفی علی عاتقی‘ ثم اضرب بہ حتی القاک‘ قال: اولا ادلک علی خیر من ذلک: تصبر حتی تلقانی (سنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ بحوالہ مشکاۃ المصابیح ۲؍۱۰۹۵)
ترجمہ : ابو ذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب میرے بعد والے حکمراں آئیں گے۔ وہ فئ(اموال حکومت) کو اپنے لیے خاص کر لیں گے۔ میں نے کہا کہ اُس خدا کی قسم‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ میںتلوار کو اپنے کندھے پر رکھو ں گا اور پھر اس سے اُنہیں ماروں گا یہاں تک کہ میں آپ سے مل جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس سے زیادہ بہتر بات نہ بتاؤں۔ تم صبر کرو‘ یہاں تک کہ تم مجھ سے مل جاؤ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ اپنے اصحاب کو ایک نئی فکر ی روشنی دی۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب اپنے حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ اصلاح سیاست کے نام پر اُن سے متشددانہ ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بگاڑ کے زمانہ میںحکمرانوں سے ٹکراکر شہید ہوجانے سے زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اُن کے بگاڑ پر صبر کیا جائے‘ اور یہ سب اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب کہ انسان کی موت آجائے۔
اس حدیث میں ’’صبر‘‘ سے مراد بے عملی نہیں ہے بلکہ اُس سے مراد ایک عظیم ترین عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں سے نزاع کاطریقہ چھوڑ کر اپنے عمل کے لیے غیر نزاعی طریقہ ڈھونڈنا اور اُس پر کاربند ہوجانا۔ سیاسی نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے صبری کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں نزاع کو ایوائڈ کرتے ہوئے عمل کرنا اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی اپنے جذبات پر کنٹرول کرکے صابرانہ انداز میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
یہ ایک عظیم حکمت تھی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو تلقین فرمائی‘ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین نے اس حکمت کو سمجھا اور اُس پر بھر پور عمل کیا۔ اس کے نتیجہ میں دور اوّل میں وہ عظیم اسلامی کام انجام پایا جو مذکورہ صابرانہ سیاست کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے‘ خلفائے راشدین کے بعد فوراًسیاست میں بگاڑ آگیا۔ مسلم حکمراں شریعت کے مقرر راستے سے ہٹ گئے۔ اُس زمانہ میں اگر اہلِ ایمان اپنے حکمرانوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے تو اُس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ پہلی اور دوسری نسل کے تمام بہترین لوگ قتل کردیئے جاتے۔ ابتدائی نسل کے وہ تمام تاریخ ساز لوگ قبروں میں دفن ہوجاتے۔ اسلام کی وہ عظیم تاریخ بننے کی نوبت ہی نہ آتی جو ان لوگوں کے ذریعہ بنی۔
مثلاً ابتدائی نسل کے یہی وہ لوگ ہیں جوسیاسی ٹکراؤ کے محاذ کو چھوڑ کر پُر امن دعوت کے میدان میں سرگرم ہوگئے اور کروڑوں لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کر دیا۔ اُنہوں نے دورِ پریس سے پہلے قرآن کی حفاظت اور اشاعت کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے لاکھوں حدیثوں کو جمع کرکے اُن کی چھان بین کی اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کرکے دنیا کو علم حدیث کا قیمتی تحفہ دیا۔ اُنہوں نے فقہ کی تدوین کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال کسی اور دین میں موجود نہیں۔
اسی طرح یہی ابتدائی نسل کے لوگ ہیں جنہوں نے حکومتی بگاڑ سے صرف نظر کرکے تمام اسلامی علوم کو مدون کیا۔ مثلاً سیرت‘ تاریخ‘ عقائد وکلام‘ عربی زبان کے لغات تیار کرنا‘ نحو اور صرف اور بلاغت اور دوسرے متعلق علوم کی ترتیب و تدوین۔
دور اول کے اہل ایمان کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ہر اعتبار سے ایک محفوظ اور معتبر تاریخی دین بن گیا۔ جب کہ کسی بھی دوسرے مذہب کو یہ حیثیت حاصل نہیں۔ اور یہ تمام کارنامے صرف اس لیے انجام پائے کہ دور اول کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی دی ہوئی رہنمائی کی بنا پر یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے سیاسی بگاڑ کے مقابلہ میں متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور خدمتِ اسلام کے اُن بقیہ شعبوں میں پُر امن طورپر سر گرم عمل ہوگئے جو غیر نزاعی میدان میں اُنہیں حاصل تھا۔
توسیعی صحبت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۶ میںاللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایا ہے کہ وہ ساجدین کے درمیان تمہارے تقلّب کو دیکھ رہا ہے (الشعراء ۲۱۹) قرآن کی اس آیت میں ساجدین سے مراد مؤمنین ہیں۔ اور تقلّب کا مطلب ہے ‘ چلنا پھرنا۔ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صبح وشام کی سرگرمیاں ہیں جو آپ اہل ایمان کی اصلاح کے لیے اور اُن کے اندر دینی شعور کو بیدار کرنے کے لیے انجام دیتیتھے۔ آپ کی یہ کوششیں بھی توسیعی مفہوم میں صحبت رسول کا ایک حصہ تھیں۔ ان کوششوں کے دوران آپ مسلسل اہل ایمان کے دینی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ توسیعی صحبت کے معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں اس قسم کی ایک مثال نقل کی جاتی ہے:
عن ابی ہریرہ ان رجلاشتم أبا بکر والنبی صلی اللہ علیہ وسلم جالس فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعجب ویتبسم فلما اکثر رد علیہ بعض قولہ فغضب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقام فلحقہ ابوبکر فقال یا رسول اللہ کان یشتمنی وأنت جالس فلما رددت علیہ بعض قولہ غضبت وقمت قال انہ کان معک ملک یردعنک فلما رددت علیہ بعض قولہ وقع الشیطان فلم أکن لأقعد مع الشیطان (مسند احمد‘ ۲؍۴۳۶)
ترجمہ : ابو ہریرہ بتاتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر کے خلاف سبّ وشتم کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر متعجب ہوتے رہے اور تبسم فرماتے رہے۔ جب اُس آدمی نے بہت زیادہ سخت کلامی کی تو ابوبکر نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دے دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ گئے۔ پھر ابو بکر چل کر اُن سے ملے۔ اُنہوں نے کہا کہ ائے خدا کے رسول‘ وہ آدمی مجھ کو سبّ وشتم کر رہا تھا اور آپ بیٹھے رہے۔ پھرجب میں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے بول رہا تھا۔ پھر جب تم نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو( فرشتہ چلا گیا )اور شیطان آگیا۔ تو میں نے شیطان کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔
یہ اُس چیز کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس کو ہم نے پیغمبر کے ذریعہ ملی ہوئی شعوری بیداری کہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر دو قسم کی صفات ہوتی ہیںــــــنفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ نفس امّارہ شیطان کی علامت ہے اور نفس لوّامہ فرشتہ کی علامت۔ ایک آدمی آپ کو گالی دے اور آپ چُپ رہیں تو گالی دینے والے کا نفس لوّامہ بیدار ہو کر اندر ہی اندر اُس کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ یہ گویا آپ کی طرف سے فرشتہ کا جواب دینا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ ایسا کریں کہ سخت کلامی کے جواب میںآپ بھی سخت کلامی کریں تو دوسرے آدمی کا نفس امّارہ متحرک ہوجائے گا۔ یہ آدمی کا شیطان کے زیر اثر آجانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس تلقین کے ذریعہ صحابہ کو ایک عظیم حقیقت بتائی۔ آپ نے صحابہ کے اندر وہ فکری روشنی پیدا کی جو ہر معاملہ میں اُن کی کامیابی کی ضامن بن جائے‘ خواہ وہ معاملہ انفرادی ہویا اجتماعی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اہل ایمان کو ایک گہری سوچ عطا کی۔ آپ نے بتایا کہ ہر انسان کے اندر پیشگی طورپر دو مختلف قسم کی شخصیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک‘ تمہاری دشمن شخصیت اور دوسری‘ تمہاری دوست شخصیت۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم فریقِ ثانی کو اپنا دوست بناتے ہو یا اپنا دشمن۔ اگر تم نے فریقِ ثانی کے نفسِ امّارہ کو جگایا تو اُس کی دشمن شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔ اور اگر تم نے اُس کے نفس لوّامہ کوجگایا تو اُس کی دوست شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اس اہم حقیقت کی طرف نشان دہی فرمائی کہ اس دنیا میں کچھ نہ کرنے کا نام بھی کرنا ہے اور کچھ نہ بولنے کا نام بھی بولنا ۔ اگر ایک شخص آپ کے خلاف سبّ وشتم کررہا ہے اور آپ جواب نہیں دیتے‘ تو اس کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خاموش رہ کر زیادہ طاقتور متکلم کو بولنے کا موقع دیا۔ یعنی خدا کے فرشتہ کو۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ آپ جو کام کم موثر انداز میں انجام دیتے‘ اُس کو خدا کے فرشتہ نے زیادہ موثر انداز میں انجام دے دیا۔
واپس اوپر جائیں
ملّا علی قاری مشہور عالم اور فقیہہ ہیں۔ وہ اپنے مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ اُن کا پورا نام یہ ہے: علی بن (سلطان) محمد، نورالدین الملّا الہروی القاری۔ ملّا علی قاری ہرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وفات ۱۰۱۴ھ (۱۶۰۶ء) میں مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ (کتاب الأعلام)
ملاّ علی قاری کی ایک کتاب کانام مرقاۃ المصابیح ہے جو مشکاۃ المصابیح کی شرح میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاری کتاب الجہاد کے تحت لکھتے ہیں کہ جہاد کے لفظ میں لغوی طورپر جدوجہد اور مشقت کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ثم غلب فی الإسلام علی قتال الکفار۔ یعنی پھر جہاد کا لفظ اسلام میں اہل کفر سے جنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔
ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے اور دوسرا استعمالی مفہوم۔ یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کالفظ جہد سے نکلا ہے۔ لغوی طورپر اس کے معنیٰ کوشش کے ہیں۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ استعمال میں یہ لفظ مختلف قسم کی جدوجہد کے لیے لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اُنہی میںسے ایک جنگ بھی ہے، تاہم اس کا استعمال صرف اس جنگ کے لیے خاص ہے جو فی سبیل اللہ کی گئی ہو، ملک و مال کے لیے جو جنگ کی جائے اُس کو جہاد نہیں کہا جائے گا۔
قرآن میںاس سلسلہ میں دو مختلف لفظ استعمال کئے گئے ہیںــــــجہاد اور قتال۔ جب پُرامن جدوجہد مراد ہو تو وہاں قرآن میں جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کے ذریعہ پُر امن دعوتی جدوجہد (الفرقان ۵۲)۔ اور جب باقاعدہ جنگ مراد ہو تو وہاں قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً آل عمران ۱۲۱۔ تاہم بعد کے زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر قتال کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ جہاد کے لفظ کے اس استعمال کو اگر بالفرض درست مانا جائے تب بھی وہ جہاد کے لفظ کا ایک توسیعی استعمال ہوگا، نہ کہ اُس کا حقیقی استعمال۔
واپس اوپر جائیں
اپریل ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتہ میں مکہ میں رابطہ عالم اسلامی کی چوتھی عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس میں مختلف ملکوں کے مسلم علماء اور دانشور تقریباً پانچ سو کی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا موضوع ’’اسلام اور گلوبلائزیشن ‘‘ بتایا گیا۔ اس کانفرنس کی ایک رپورٹ لاہور کے ماہنامہ محدث (مئی ۲۰۰۲) میں دیکھی۔ اس کا ایک حصہ یہاںکسی قدر تصرف کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے :
بوسنیا کے رئیس العلماء مصطفی سیرچ نے سابق صدر بوسنیا عزت بیگووچ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوسنیا کے تلخ تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ عربوں کو اسرائیل سے صلح وآشتی کا راستہ اختیار کر لینا چاہئے ۔ دکتور یوسف القرضاوی فوراً مائیک پر آئے اور نہایت شدید الفاظ میں عزت بیگوچ کے اس نظریہ کی تردید کی۔ رپورٹ کے مطابق، بظاہر پوری کانفرنس میں کوئی شخص بھی عزت بیگوچ کی حمایت میں بولنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا (صفحہ ۵۴)۔
جس زمانہ میں عزت بیگووچ نے بوسنیا کے آزاد مسلم مملکت ہونے کا اعلان کیا اور اس کے نتیجہ میںوہاں خونی جنگ چھڑ گئی، اُس وقت ساری مسلم دنیا میں عزت بیگووچ ہیرو بن گئے۔ مگر آج یہی عزت بیگووچ جب امن اور صلح کی بات کرتے ہیں تو اب وہ مسلمانوں کے یہاں زیرو بنے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ پر غور کیجئے تو کچھ سبق آموز باتیں سامنے آئیں گی۔
۱۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان محصور ذہنیت (beseaged mentality) میں جی رہے ہیں۔ اُن کے نااہل دانشوروں اور لیڈروں نے اُنہیں یہ بتا رکھا ہے کہ وہ مظلوم ہیں اور دشمنوں کی سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ جولوگ ایسی نفسیات میں مبتلا ہوں اُن کا حال یہ ہوگا کہ وہ لڑائی کی زبان تو سمجھیں گے مگر وہ صُلح کی زبان سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
۲۔ مسٹر عزت بیگووچ نے جو پیغام بھیجا وہ ایک ادھورا پیغام تھا۔ اس بنا پر وہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا۔ عزت بیگووچ کا پیغام اپنی موجودہ شکل میں صرف مجبوری کے ہم معنیٰ ہے۔ اور کوئی بھی مسلمان مجبوری کے تحت کسی پالیسی کو اختیار کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ عزت بیگووچ کو چاہیے کہ وہ مسلح اقدام کے بجائے پُر امن اقدام کا طریقہ دریافت کریں۔ اس کے بعد لوگوں کے لیے اُن کا پیغام قابل فہم اور قابلِ قبول بن جائے گا۔
۳۔ مکہ کی مذکورہ کانفرنس کی روداد کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بولنے والے تمام مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کی بولی بولتے رہے، وہ مسائل پر تقریریں کرتے رہے۔ یہی موجودہ زمانہ میں تمام مسلم کانفرنسوں کا حال ہے۔ ہر کانفرنس میں صرف مسائل کا پُر شور تذکرہ ہوتا ہے۔ علماء اور دانشوروں کے اس مزاج نے موجودہ زمانہ کی تمام مسلم کانفرنسوں کو سراسر بے نتیجہ بنا دیا ہے۔ کانفرنس کا مقصد مواقع کار کی مثبت نشاندہی ہونا چاہئے، نہ کہ مسائل کے نام پر منفی چیخ وپکار، قرآن کے الفاظ میں، عُسر میں یُسر کی نشان دہی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کے تیرہویں سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت آپ مسائل کے جنگل سے گذر کر وہاں پہنچے تھے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے وہاں کے لوگوں کے سامنے جو پہلا خطبہ دیا وہ ابن ہشام نے اس عنوان کے ساتھ نقل کیا ہے:
أول خطبۃ خطبہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المدینۃ (رسول اللہﷺ کا پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا)۔
یہ پورا خطبہ سیرت ابن ہشام میںآج بھی موجود ہے۔ اُس کو پڑھیے تو اُس میں ایک لفظ بھی شکایت اور احتجاج کا نہیں ملے گا۔ اس پورے خطبہ کا خلاصہ اُن کے اس جملہ میں ہے: اتقوا النار و لو بشق تمرۃ (اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو)۔
عجیب بات ہے کہ اسی رسول کے امتی آج رسول کی سنت کے برعکس شکایت اور احتجاج کی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ حتیٰ کہ مکہ اور مدینہ میںبھی یہی خلاف سنت کام نہایت دھوم کے ساتھ جاری ہے۔ کوئی اللہ کا بندہ اگر اُنہیں اس روش کو ترک کرنے کی نصیحت کرے تو وہ اُس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی خلافِ سنت سرگرمیاں بلاشبہہ خدا کے غضبکو دعوت دینے والی ہیں، خواہ یہ سرگرمیاں مقدس مقامات پر کیوں نہ کی جارہی ہوں۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسانوں کا ظلم نہیںہے بلکہ وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کا انتباہ ہے۔ یہ سب مسلمانوں کو چوکنّا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے فلاح کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ توبہ کریں۔ وہ تشدد کا راستہ مکمل طورپر چھوڑیں اور امن کا راستہ مکمل طورپر اختیار کرلیں۔ اسلام یا اہل اسلام کے نام پر وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس کو امن کے دائرہ میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اس کے سوا اُن کے لیے فلاح اور کامیابی کی کوئی صورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ میںایک برائی ظاہر ہوئی ہے جس کو دہشت گردی (terrorism) کہا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو عام طورپر کنڈم کیا جاتا ہے مگر دہشت گردی کیا ہے، اس کی کوئی واضح تعریف غالباً ابھی تک سامنے نہ آسکی۔ قرآن وحدیث کے مطالعہ سے میںنے سمجھا ہے کہ دہشت گردی نام ہے، غیرحکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا(armed action by NGOs) ۔
اسلام کے متفقہ اصول کے مطابق، جنگ کا اعلان صرف ایک قائم شدہ حکومت کا کام ہے(الرحیل للإمام) وہ چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دہشت گردی کہا جاتا ہے، وہ سب کی سب غیرحکومتی تنظیموں کے مسلّح اقدام کے نتیجہ میںپیدا ہوئی ہے۔اس قسم کی مسلّح تحریک بلا شبہہ اسلام میں ناجائز ہے۔ عوام کو پُر امن انداز میں اپنی بات کہنے کا حق ہے مگر کسی بھی عذر کی بنا پر مسلّح تحریک چلانا عوام کے لئے ہر گز جائز نہیں۔
مزید یہ کہ ایک قائم شدہ حکومت کے لیے بھی جنگی اقدام کی کئی لازمی شرطیں ہیں۔ مثلاً ایک قائم شدہ حکومت بھی صرف دفاعی جنگ کر سکتی ہے، جارحانہ جنگ چھیڑنے کاحق حکومت کوبھی نہیں۔ اسی طرح ایک جائزجنگ بھی اعلان کے ساتھ لڑی جائے گی، بلا اعلان جنگ (undeclered war) کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں۔ اسی طرح ایک جائز دفاعی جنگ میںبھی حکومت صرف مقاتل (combatants) پر وار کرسکتی ہے، غیر مقاتل (non-combatants) کو مارنا یا اُن کو نقصان پہنچانا جنگ کی حالت میں بھی ہر گز جائز نہیں۔
ان حقیقتوںکو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں جنگ کی صرف ایک قسم کا جواز ہے، اور وہ دفاعی جنگ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی جنگ، مثلاً ــــجارحانہ وار، پراکسی وار، گوریلا وار اور پھر بلا اعلان وار، یہ سب کی سب اسلام میں قطعی ناجائز ہیں۔ کسی بھی عذر کی بناپر اس قسم کی جنگوں کو اسلامی جنگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مذکورہ تعریف کے مطابق، دہشت گردی کی ہر تحریک یقینی طورپر ناجائز ہے، ایسی کسی تحریک کو اسلامی جہاد کا نام دینا اُس کو جائز نہیں بناتا۔ ایسی ہر کوشش گُناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے، وہ یقینی طورپر ایسی کسی جنگ کا اسلامی جواز نہیں۔
کھُلی مذمت ضروری
قرآن و حدیث میں اہل ایمان کو جو احکام دیے گئے ہیں اُن میں سے ایک حکم وہ ہے جس کو انکار منکر کہا جاتا ہے۔ یعنی برائی کو دیکھنے کے بعد کھلے الفاظ میںاُس کی مذمت کرنا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ کسی سماج میں اگر بُرائی ہورہی ہو تو اُس کو دیکھ کر چپ رہنا ایک سنگین جرم ہے۔ کسی آدمی کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ براہِ راست طورپر بُرائی میں شریک نہیں۔ اگر وہ برائی کو دیکھنے کے باوجود چپ رہے تو وہ بالواسطہ طورپر اُس کا مجرم قرار پائے گا۔
مثلاً موجودہ زمانہ میں مسلمان جگہ جگہ جہاد کے نام پر وہ کام کر رہے ہیں جس کو ساری دنیا کا پریس دہشت گردی کے عنوان سے رپورٹ کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس معاملہ میں دنیا کے تقریباً تمام مسلمان خدا کی نظر میںمجرم ثابت ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق، ساری دنیا میںکوئی بھی قابل ذکر مسلمان نہیں جو تشدد کی اس برائی کو کھلے طورپر کنڈم کرتا ہو۔
مسلمانوں کی ایک تعداد وہ ہے جو اس متشددانہ سرگرمی کو عین اسلامی جہاد قرار دیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ خود کُش بمباری (suicide bombing) کو استشہاد (طلب شہادت) کا نام دے کر اُس کو عین درست بتاتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو مذمت کے الفاظ بولتا ہے مگر حقیقت میں وہ مذمت نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ کہیں گے کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں، اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیںدیتا۔ مگر وہ یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں فلاں مقام پر مسلمان جو متشددانہ تحریک چلا رہے ہیں وہ دہشت گردی ہے اور وہ اسلام کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں اُن کی مذمت ایک خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔مسلمانوں کا ایک اور گروہ ہے جو بظاہر نام لے کر مذمت کرتاہے مگراسی کے ساتھ وہ ایسے دفاعی الفاظ بھی بولتاہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اس دہشت گردی کی اصل ذمہ داری مسلم دشمنوں کی ہے، نہ کہ خود مسلمانوں کی۔
مذمت کے یہ طریقے یقینی طورپر غیر اسلامی ہیں۔ مذمت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کو خلاف اسلام بتایا جائے بلکہ مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اُس کو کھلے لفظوں میں رد کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کی یہی مجرمانہ خاموشی ہے جس کی بنا پر یہ ہورہا ہے کہ جہاد کے نام پر ہونے والا تشدد کسی طرح ختم نہیں ہوتا۔ اس مجرمانہ تشدد میں خود ساختہ مجاہدین اگر براہ راست شریک ہیں تو بقیہ مسلمان بالواسطہ طورپر اس میںشریک ہیں۔ اور اسلامی نقطۂ نظر سے، براہ راست شرکت اور بالواسطہ شرکت کے درمیان صرف ڈگری کا فرق ہے، اُن کے درمیان نوعیت کا کوئی فرق نہیں۔
ناکامی کا کیس
امن کی طاقت تشدد کی طاقت سے زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ امن دانش مندو ں کا طریقہ ہے اور تشدد نادانوں کا طریقہ۔ ایسی حالت میں جب کوئی شخص تشدد کرتاہے تووہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے زیادہ طاقتور طریقہ استعمال کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح ایسا آدمی اپنے متشددانہ عمل سے یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ وہ اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے معاملہ میںایک نادان آدمی ثابت ہوا، نہ کہ دانش مند آدمی۔
امن اورتشدد سادہ طورپر صرف دو طریقے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ انسانیت کے دو مختلف معیار ہیں۔ امن کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنی انسانیت کو بلند کرتا ہے اور تشدد کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنے آپ کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سے نیچے گرا لیتاہے۔
کوئی مسئلہ پیش آنے کے بعد جب ایک آدمی امن کا طریقہ اختیار کرتاہے تووہ اپنے اندر مثبت سوچ کو فروغ دیتا ہے۔ وہ اپنے اخلاقی معیار کوبلند کرتاہے۔ وہ اپنی شخصیت کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر ثابت شدہ بناتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک آدمی اپنے مسئلہ کے حل کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو انسانیت کے نچلے درجہ کی طرف لے جاتاہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر مشتبہ بنا رہا ہے۔
امن اور تشدد دونوں کسی انسان کی اصل حیثیت کی پہچان ہیں۔ ایک طریقہ اگر انسان کو انسان ثابت کرتاہے تو دوسرا طریقہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک حیوان تھا، اگر چہ ظاہری طورپر وہ ایک انسان دکھائی دے رہا تھا۔
مذہب خطرہ میںہے
نفرت اور تشدد کا ایک سبب وہ جذباتی سیاست ہے جو اس نعرہ پر چلتی ہے کہ مذہب خطرہ میںہے۔ کچھ لکھنے اور بولنے والے لوگ غلط یا مبالغہ آمیز تصویر پیش کرکے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُن کا مذہب دوسروں کی طرف سے خطرہ میں ہے۔ اب تحفظ مذہب کے نام پر جلسہ اور جلوس اورنعرے اور جھنڈے کی سیاست چل پڑتی ہے۔ یہ سیاست مذہب کو تو خطرہ سے نہیں بچاتی البتہ مذہب کو خطرہ سے بچانے کے نام پر پورے سماج کے امن کو تباہ کرکے اُس کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔
اگر مذہب خطرہ میں ہو تو ظاہر ہے کہ کوئی غیر ہوگا جو مذہب کو خطرہ میں ڈالے ہوئے ہوگا۔ اس طرح ’’مذہب خطرہ میں‘‘ جیسی سیاست ایک گروہ کے دل میں دوسرے گروہ کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے۔ پھر نفرت کی سیاست سے جب مذہب کے خلاف مفروضہ خطرہ ختم نہیں ہوتا تو اس کے بعد لوگوں کے اندر مایوسی کی سیاست شروع ہوتی ہے۔ مایوسی کی سیاست اپنی آخری تدبیر کے طورپر تشدد کی سیاست جاری کردیتی ہے۔ پھر جب تشدد کی سیاست کار گر ثابت نہیں ہوتی تو خود کُشی کی سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ جوش میں بھرے ہوئے نوجوان اپنی بڑھی ہوئی نفرت کو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کی صورت میں انڈیل دیتے ہیں۔ مذہبی خطرہ کی سیاست اپنی آخری حد پر پہنچ کر مذہبی خود کُشی کی سیاست بن جاتی ہے۔ زندگی کے نام پر اُٹھنے والے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے صرف موت کا پیغام ثابت ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تباہ کن سیاست سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ تشدد کو ایک ایسا فعل قرار دیا جائے جو ہر حال میں قابل ترک ہو۔ کوئی بھی عذر، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی بڑا ہو، تشدد کے طریقہ کو استعمال کرنے کے لیے کافی نہ سمجھا جائے۔
موجودہ دنیا اختلافات کی دنیا ہے۔ یہاں ہر آدمی مسٹر ڈفرنٹ اور ہر عورت مِزڈ فرنٹ ہے۔ اس لیے اس دنیا میں لازمی طورپر لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلافا ت پیدا ہوتے ہیں۔ یہی اختلاف جذباتی صورت اختیار کرکے لوگوں کو نفرت اورتشدد تک پہنچاتا ہے۔ اور پھر سارا سماج قبرستان کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ تم کوہر حال میں امن کے دائرہ میںکام کرنا ہے۔ کسی بھی حال میں تم کو امن کے دائرہ سے باہر نہیںجانا ہے۔ یہ ذہن اُس وقت بن سکتا ہے جب کہ لوگوں کو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے کہ اس دنیا میں کوئی کام صرف امن کے ذریعہ بنتاہے، تشدد کے ذریعہ کبھی کوئی کام بننے والا نہیں۔ تشدد صرف تخریب میںمعاون ہوتا ہے، تشدد کبھی تعمیر میں معاون نہیں ہوتا۔
’’مذہب خطرہ میں‘‘ جیسی سیاست کے ذریعہ کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ کچھ ہائی پروفائل میں بولنے والے لوگ قائد بن کر اُبھرآئیں۔ وہ وقتی طور پر لوگوں میں نمایاں ہوجائیں۔ اُن کے گرد عوام کی بھیڑ اکٹھا ہو۔ مادّی رونقیں اُنہیں حاصل ہوجائیں۔ مگر جہاں تک مذہب اوراہلِ مذہب کا تعلق ہے، اُن کے حصہ میں صرف یہ آتا ہے کہ معتدل ماحول سے محروم ہوکر وہ نفرت کے ماحول میں جینے پر مجبور ہوجائیں۔ تشدد کا شکار ہو کر وہ اپنے مستقبل کو غیر محفوظ بنالیں۔
مذکورہ قسم کی سیاست کا آخری نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ افراد ممتاز افراد (celebreties) بن کر نمایاں ہوجائیں۔ مگر یہ طریقہ مثبت معنوں میں قوم کی تعمیر نہیں کرتا اور نہ کرسکتاہے ۔ یہ طریقہ لیڈر سازی کے لیے کارآمد ہے، مگروہ ملت سازی کے لیے ہر گز کار آمد نہیں۔
انتقام سے تشدد تک
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کو دوسرے شخص سے کوئی تکلیف پہنچ جائے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے کوئی ٹھیس پہنچے تو فوراً اُن کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ فریقِ ثانی سے انتقام لینے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ کی اس وارننگ کو بھول جاتے ہیں جو ہر جگہ خاموش الفاظ میںگونج رہی ہیــــــانتقام لینے سے پہلے سوچ لو کہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا۔
چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف انتقام کی کارروائی کرتاہے۔ پھر دوسرا فریق دوبارہ پہلے فریق سے انتقام لیتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جو صرف اُس وقت ختم ہوتا ہے جب کہ دونوں اتنے تباہ ہوجائیں کہ وہ مزید انتقام لینے کے قابل نہ رہیں۔کسی فرد یا گروہ کے خلاف کوئی قابل شکایت بات پیش آئے تو اُس کا حل جوابی کارروائی نہیںہے بلکہ اُس کو درگذر کرکے آگے بڑھ جانا ہے۔ درگذر کرنے سے معاملہ پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجاتا ہے۔ اوراگر درگذر نہ کیا جائے تو نفرت اورانتقام اورتشدد کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتاہے جو کبھی ختم نہیںہوتا۔
انتقام کا رُخ دوسرے کے خلاف ہوتا ہے مگر اس کا سب سے زیادہ شکار خود انتقام لینے والا بنتا ہے۔ انتقامی پالیسی کی بھاری قیمت اُس کو یہ دینی پڑتی ہے کہ اُس کادماغ منفی سوچ کا کارخانہ بن جائے۔ وہ اپنے وسائل کواپنی تعمیر میں صرف کرنے کے بجائے اُنہیں صرف دوسرے کی تخریب میںصرف کرنے لگے۔ دوسرے فریق نے اگر آپ کو پچاس فی صدنقصان پہنچایا تھا تو آپ اپنی انتقامی کارروائی کے نتیجہ میں اپنی بقیہ پچاس فی صد طاقت کو بھی ضائع کردیتے ہیں۔
انتقام کا مطلب یہ ہے کہ قاتلانہ حملہ کے بعد کوئی شخص خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتقام ہر حال میں بُرا ہے اور انتقام نہ لیتے ہوئے معاملہ کو بھُلا دینا ہر حال میں اچھا ہے۔ انتقام لینے والا اگر آپ کا دشمن تھاتو انتقام لے کر آپ خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے دشمن آپ بن جائیں اُن کو تباہی سے کون بچا سکتاہے۔
جنگ کا زمانہ ختم
وسیع تر تقسیم میں جنگ کے دو دور ہیں۔ ایک وہ ابتدائی دور جب کہ جنگی مقابلہ کا فیصلہ تلوار کے ذریعہ ہوتا تھا۔ دوسرا دور جدید دور ہے جب کہ لڑائی میں بم کی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ دونوں دوروں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ تلوار جب چلائی جاتی تھی تو وہ صرف ایک دشمن کی گردن کو کاٹتی تھی۔ اب بم کے زمانہ میں جنگ کا مطلب یہ نہیں۔ اب جنگ کا مطلب صرف تباہی ہے۔ جو بم دشمن کے اوپر ڈالا جاتا ہے وہ مختلف پہلوؤں سے خود ڈالنے والے کے لیے بھی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ ایسی حالت میں جنگ ایک بے فائدہ عمل بن چکی ہے۔ اب جنگ ایک دیوانگی ہے، نہ کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اقدام۔
حقیقت یہ ہے کہ نئے ہتھیاروں کے ظہور کے بعد جنگ اب ایک قابلِ ترک چیز بن چکی ہے۔ جب جنگ مثبت معنوں میں بے نتیجہ ہو جائے تو ایسی حالت میں جنگ چھیڑنا ایک دیوانگی ہے، نہ کہ عقل مندی۔
زمانہ کے خلاف
موجودہ زمانہ گلوبلائیزیشن (globlisation) کا زمانہ ہے۔ ساری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی مانند ہوگئی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے توموجودہ زمانہ میںتشدد یا مسلّح جدوجہد ایک ایسی چیز بن چکی ہے جو زمانہ کے خلاف عمل (anachronism) کی حیثیت رکھتی ہے۔
موجودہ زمانہ میںجو لوگ ہتھیار کی لڑائی لڑ رہے ہیں اُن سے پوچھئے کہ وہ کیوں جنگ کررہے ہیں تو وہ بتائیں گے کہ قائم شدہ حکومت کو بدلنے کے لیے وہ جنگ کررہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک نیا نظام بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ بات صرف زمانہ سے بے خبری کانتیجہ ہے۔
موجودہ زمانہ میں ایسی تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ اب کسی کو حکومت پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر ہر وہ کام کرسکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
برداشت کی ضرورت
عدم برداشت کا نتیجہ تشدد ہے، اوربرداشت کا نتیجہ امن۔ انہی دو لفظوں میں امن اور تشدد کا خلاصہ پایا جاتا ہے۔ جس سماج میںبرداشت کی صفت ہو، اس سماج میں امن کا ماحول رہے گا۔ اور جس سماج کے لوگوں میں برداشت کا مزاج نہ ہو وہاں تشدد ہونے لگے گا۔ اور تشدد نہ تشدد کرنے والے کے لیے مفید ہے اور نہ اُن لوگوں کے لیے مفید جن کے اوپر تشدد کیا گیا ہے۔
برداشت ایک اعلیٰ اخلاقی اورانسانی صفت ہے۔ اس کے مقابلہ میںبرداشت نہ کرنا ایک حیوانی صفت ہے۔ برداشت مجبوری نہیں، برداشت ایک اعلیٰ ترین عمل ہے۔ لوگ جس مقصد کو بے برداشت طورپر حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کو برداشت کے ذریعہ زیادہ بہتر طورپر حاصل کیا جاسکتاہے۔ کوئی ناخوش گوار صورت حال پیش آنے پر آدمی جب بے برداشت ہوجائے تو وہ اپنے آپ کومقابلہ کے لیے کمزور کر لے گا۔ لیکن جب وہ ناخوش گوار صورت حال میںبرداشت کے رویّہ پر قائم رہے تو وہ اپنی ساری طاقتوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ زیادہ مؤثر طورپر پیش آمدہ صورت حال کا مقابلہ کرسکتاہے۔
ناخوش گوار صورت حال پیش آنے کے باوجود بے برداشت نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتاہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ طاقت ہوکہ وہ اپنے آپ پر کنٹرول کرسکے، وہ اتنا زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے کہ کسی کے لیے بھی اُس کو شکست دینا ممکن نہیں۔
امن کے فائدے
دنیا کے تمام اچھے کام پر امن کوشش کے ذریعہ ہوئے ہیں۔ تشدد کی طاقت سے کبھی کوئی اچھا کام نہیں ہوا۔ کوئی پُل، کوئی سڑک کبھی بھی تشدد کی طاقت سے نہیںبنے۔ سائنس کی دریافتیں اور ٹکنالوجی کی ترقیاں کبھی تشدد کی طاقت سے ظہور میں نہیں آئیں۔ تعلیم گاہیں اور تحقیق کے ادارے کبھی تشدد کی طاقت سے نہیں بنے۔ لوہے کا مشین میں ڈھلنا یا سٹی پلاننگ جیسے کام امن کے ذریعہ انجام پائے، نہ کہ تشدد کے ذریعہ۔ سماجی فلاح سے لے کر انفراسٹرکچر تک ہر کام ہمیشہ پُر امن تدبیروں کے ذریعہ تکمیل پذیر ہوئے ہیں۔
تشدد ایک تخریبی عمل ہے۔ اورایک تخریبی عمل کے ذریعہ کبھی کوئی تعمیری واقعہ ظاہر نہیںہوسکتا۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور فطرت کے قانون میں تبدیلی ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ہندستان کے ایک مسلمان تاجر ہیں۔ پہلے وہ الرسالہ کے باقاعدہ قاری تھے۔ پھر ایک مسئلہ پر اُن کو شکایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے خلاف کبھی نہیں لکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ کو ہندوؤں کی طرف سے اس کام کے لئے پیسہ ملتا ہے کہ آپ ہندو۔ مسلم معاملات میں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اس قسم کی بات کہہ کر اُنہوں نے الرسالہ کی خریداری بند کردی۔ اُنہوں نے نہ صرف الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے مخالف بن گئے۔
کئی سال بعد ۱۶ اپریل ۲۰۰۲ء کو دہلی میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ میںنے کوئی اختلافی بات کیے بغیر اُن سے کہا کہ آپ اپنی زندگی کا کوئی خاص تجربہ بتائیے۔ اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں ، مسلمان لفظ کا اگر انگلش ترجمہ کیا جائے تو وہ اِن سینسیر(insincere) ہوگا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اسی ذاتی تجربہ کی بنیاد پر اُنہوں نے اب اپنا پارٹنر ایک ہندو کو بنایا ہے۔ ہندو کی پارٹنر شپ میںان کا کاروبار کافی ترقی کررہا ہے۔
مگر عبرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ مسلم تاجر نے نجی ملاقات میں تو یہ بات کہی لیکن وہ اس بات کو اسٹیج پر کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز اُنہوں نے الرسالہ کی نسبت سے اپنی پچھلی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا یہی دہرا معیار موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے جو صاحب فہم اور صاحبِ علم افراد ہیں وہ اپنی نجی گفتگو میں ہمیشہ اسی قسم کی بات کرتے ہیں مگر وہ پبلک میں اُسے کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس دہرا معیار کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنا معاملہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کئے رہتے ہیں مگر مسلم عوام کو ذہنی گمراہی میں ڈال کر اُنہیں اُس کا انجام بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اپنا ذاتی مسئلہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کر لیتے ہیں مگر وہ عوام کو بدستور بے شعوری کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اُس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں اور کبھی ترقی نہ کرسکیں۔ مسلمانوں کے لیے صحیح انداز غیر جانبدارانہ نصیحت کا انداز ہے۔ مگر اُن میںسے کوئی نصیحت کی بولی بولنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندستان میں مسلمانوں کے حالات کو میں ۱۹۴۷ سے مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان اپنے مسئلہ کاحل قرآن میںنہیں ڈھونڈتے، وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اسلام اُن کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہے۔ اسلام اُن کا قومی کلچر ہے، وہ اُن کا دین نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ، اُن کی ملّی پالیسی قرآن سے ماخوذ نہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے بیانات، ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹیں، تعلیم یافتہ طبقہ کا اظہار خیال، یہی مسلمانوں کی ذہن سازی کے ذریعے ہیں۔ اُن کا مشترک طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو قانون اور منطق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب بھی اُنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خُدا نے اس آگ کو بجھا دیا(المائدہ ۶۴)
اس اعتبار سے دیکھئے تو دوسروں کا طریقہ آگ بھڑکانے والوں کی مذمت کرنا ہے ۔جب کہ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کا طریقہ آگ بجھانے کا ہونا چاہئے، نہ کہ ایسا طریقہ اختیار کرنا جو آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جائے۔ اس طرح کے معاملات میں قرآن کا طریقہ اصلاحِ خویش کے اصول پر قائم ہے اور دوسروں کا طریقہ احتساب غیر کے اصول پر۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر نٹور سنگھ (۷۱ سال) انڈیا کے ایک ممتاز لیڈر ہیں۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو اور ان کی جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ(study) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں ملکی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میںاپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, P.
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتاب نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے ۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اپنے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ۔وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہیــــولکل امۃ اجل فإذا جاء اجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون (الاعراف۳۴) یعنی ہر امت (اور ہر انسان) کے لیے ایک مقرر مدت ہے۔ جب اُن کی مدت پوری ہو جائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے، نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہر حال ہونے والا تھا اور وہ ٹھیک اپنے وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں۔
یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آدمی کے ساتھ اگر کوئی چیز حسب توقع پیش آئے تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسی چیز کو وہ معتدل انداز میں قبول کرلیتا ہے۔ البتہ اگر پیش آنے والا واقعہ اُس کے لیے غیر متوقع ہو تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کی قبولیت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ایک انسان موت کے حادثہ کو معمول کے واقعہ کے طورپر لیتا ہے۔ اور دوسرے انسان کے ساتھ جب موت کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسے صدمہ (shock) کا سبب بن جاتا ہے جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں
۱۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جوہوا اور ہور ہا ہے ،عین ممکن ہے کہ فرقہ پرستوں کی اس کامیابی کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی اسے دہرایا جائے۔ مسلمان ہنوز منتشر ہیں تو کیا سیاسی، سماجی ، تہذیبی، معاشی گویا ہر سطح پر یہ بات مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، اگر ہے تو ان حالات میں مسلمان اب کیا کریں۔
۲۔ گجرات یا ملک کے دیگر حصوں میں جب جب او رجہاں بھی فسادات ہوئے اور ہورہے ہیں وہاں پر فرقہ پرستوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کون دیوبندی، بریلوی، یاشیعہ اور اہل حدیث ہے بلکہ بنام ’’مسلم‘‘ سب کی جان و مال کو نقصان پہنچایا اور انہیں معاشی طورپر تباہ و برباد کیا، تو کیا اب بھی مسلکی اختلافات سے چمٹے رہنا مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اس کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔
۳۔ آج ملّت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں ملت اسلامیہ کی بقاء کیوں کر ممکن ہے؟
۴۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں سر گنے جاتے ہیں ۔اس بات کو سمجھتے ہوئے بھی ہم مسلکی اختلافات کی بنا پر بوقت الیکشن مختلف الرائے ہو کر اپنی صفوں کو کمزور اور غیروں کی صفوں کو مضبوط بنا دیتے ہیں، تو کیا یہ مفادِ ملّت کے خلاف نہیں ہے، اس سلسلہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔
۵۔ یہودونصاریٰ مسلمانوں اور اسلام کے کٹّر دشمن ہیں، قرآن واحادیث میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مگر ہمارے یہاں سب سے زیادہ اہمیت مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی کو دی جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت میں تہتر ۷۳ فرقے بننے اور ان میں سے صرف ایک کے جنت میں جانے کی پیشین گوئی ضرور کی ہے مگر باقی دیگر کو اپنی امت کہا ہے، اسلام دشمن نہیں ۔ ایسی صورت میںاسلام کے سب سے بڑے دشمن کون۔آیا وہ یہود ونصاریٰ جو کہ دنیا میں اسلام کے وجود کو ہی نہیں پسند کرتے یا پھر وہ کلمہ گو جو دیگر مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ اگر انتشار سے ملت کو نقصان ہو رہا ہے تو اسلام میں اس کا کیا حل ہے۔
۷۔ اللہ اور اس کے رسول نے اجتماعی زندگی کو پسند کیا ہے۔ ملت کو یکجا رکھنے کا کتنا احسن طریقۂ اتحاد ہمیں دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دن میں پانچ بار اور ہفتے میںایک بار اور پھر عیدین کے موقعوں پر پوری ملت اسلامیہ مسجدوں میں یکجا ہوتی ہے جہاں پر امام کے ذریعے اپنی صفوں کو سیدھا رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اگر علماء کرام اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اسے اپنا مرکز بنا کر اس اسلامی منشور پر عمل پیرا ہو جائیں تو کسی شور و غل کے بغیر پو ری ملت بقائے باہم کے لیے یکجا ہوسکتی ہے جس کا اثر یہ ہوگا کہ ملک میں فرقہ پرستوں کی ہوا اکھڑ جائے گی اور تب ہم مظلوم نہیں بلکہ بادشاہ گر ہوں گے، مگر ایسا نہیں ہے۔ آخر آپ لوگ مسجدوں سے ملت کو یکجا کرنے کی تلقین کیوں نہیں کرتے۔
۸۔ ہندستان میں ہندوؤں کے بعد مسلمان ہی سب سے بڑی قوم ہیں۔ آپ انہیں بنام مسلم باہم متحد کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتے جس سے قوم طاقتور بنے۔ مگر اس کے بجائے آپ لوگ انہیں منتشر کرنے میں پوری طاقت لگاتے ہیں، ایسا کیوں۔
۹۔ عام خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں انتشار کے لئے علماء ذمہ دار ہیں، کیا یہ سچ ہے۔
۱۰۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی اتحاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ذاتی مفادات ہیں۔ آپ کی نظر میں ذاتی مفادات پر ملی مفاد کی کیا اہمیت ہے۔
۱۱۔ آپ کے نزدیک علماء کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کس بات کو دینی چاہئے، مذہبی فرائض کی ادائیگی کو یا پھر محض دنیاوی مفاد کے لئے سیاستدانوں کا آلۂ کار بننے کو۔
۱۲۔ کیا ایک عالم کو سیاست میں حصہ لیناچاہئے۔
۱۳۔ دو مصیبتیں ہیں جس میں سے ایک چھوٹی اور دوسری بڑی ہے۔ اگر چھوٹی مصیبت کو گلے لگانے سے بڑی مصیبت سے بچا جاسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔ آیا منتشر رہ کر ملت کو بھیڑیوں کا چارہ بننے دیں یا پھر دیگر مکتب فکر کے ساتھ متحد ہو کر اس بڑی مصیبت کا مقابلہ کریں۔
۱۴۔ خلفائے راشدین کو مذہب اسلام میں بنیاد یا ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا ان کا بھی کوئی مسلک تھا۔ صحابۂ کرام کس مسلک سے وابستہ تھے۔ اگر وہ صرف اور صرف اسلامی قالب میں ڈھلے تھے تو پھر مسالک کو بنیادی حیثیت کیوں دی گئی۔کیا مسلمان صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کے دور کا مسلمان رہ کر صحیح اور سچا مسلمان نہیں کہلا سکتا ہے(صلاح الدین جوہر انصاری)
جوابات
۱۔ اس معاملہ میں کیا کریں ،کا جواب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہندستانی مسلمان اپنا الگ سیاسی محاذ بنائیں۔ وہ ملی اتحاد کے مظاہرے کریں۔ وہ احتجاج اور مطالبہ کی مہم چلائیں۔ وہ اپنی مظلومیت اور دوسروں کے ظلم کا اعلان کریں۔ وہ تقریر اور تحریر کے ہنگامے جاری کریں۔ اس قسم کی تدبیریں پچھلے ۵۵ سال کے عرصہ میں بہت بڑے پیمانہ پر عمل میں لائی گئی ہیں اور وہ مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔
اب مسلمانوں کے لیے کرنے کا صرف ایک ہی کام باقی ہے جس کا ابھی تک عملی تجربہ نہیں کیا گیا، اور وہ دعوت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کاحل ہمیشہ دعوت کے ذریعہ ہوا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میں چھپا ہوا ہے (المائدہ ۶۷) اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت مسلمانوں کے مسائل کا یقینیحل ہے۔ دعوت اپنے اندر تسخیری طاقت رکھتی ہے۔مگر دعوتی عمل کو انجام دینے کی ایک لازمی شرط ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں ، بالفاظِ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان، نفرت او رکشیدگی کو یک طرفہ اعراض کے ذریعہ مکمل طورپر ختم کر دیا جائے۔ تاکہ دونوں کے درمیان دعوت کا ماحول قائم ہو۔شکایت و احتجاج کی بات کرنا اور اسی کے ساتھ دعوت کا نام لینا ایک مسخرہ پن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں دعوتی عمل۔
۲۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ،وغیرہ کے درمیان موجودہ قسم کے مسلکی اختلافات ہر حال میں غلط ہیں۔ فسادات ہوں یا نہ ہوں، انہیں بہر حال ختم ہونا چاہئے۔ جن چھوٹے چھوٹے اختلافات پر یہ گروہ بندیاں کی گئی ہیں وہ دور اول میں بھی موجود تھے لیکن وہ گروہ بندی کا سبب نہیں بنے۔ ان انتہا پسندانہ اختلافات کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) ہے۔ یعنی اساسی باتوں پر زور دینے کے بجائے جزئی باتوں پر زور دینا۔ اس برائی کو ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔
۳۔ میرے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں کہ آج ملت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملت اسلامیہ کو خدا کا تحفظ حاصل ہے اور قیامت تک وہ بہر حال محفوظ رہے گی۔ میرے نزدیک جس چیز کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے وہ ملت اسلامیہ نہیں ہے بلکہ وہ طریقِ کار ہے جو موجودہ زمانہ میں کچھ خود ساختہ لیڈروں کی رہنمائی میںاختیارکیا گیا۔ اور وہ پُر تشدد طریقِ کار ہے۔ میرے نزدیک تقریباً دوسوسال سے مسلمان جہاد کے نام پر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ طریقِ کار اب آخری طور پر ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ اب وہ پوری طرح پُر امن طریقِ کار کو اختیار کرلیں۔ پُر تشدد طریقِ کار کو وہ مکمل طورپر چھوڑ دیں، براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی، لفظی بھی اور عملی بھی۔
۴۔ میرے نزدیک الیکشن میں علیٰحدہ سیاسی محاذ آرائی مسلمانوں کے لئے تباہ کن ہے۔ اس قسم کی جداگانہ سیاست کو اُنہیں مکمل طورپر چھوڑ دینا چاہئے۔ میرے نزدیک جداگانہ تشخص کا تعلق مذہب سے ہے۔ جہاں تک الیکشنی سیاست کا تعلق ہے، اُس کو قومی ہونا چاہئے، مسلمانوں کے لیے بھی اور دوسرے فرقوں کے لیے بھی۔
۵۔ یہ بات اُصولاً غلط ہے کہ یہودونصاریٰ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ قرآن وحدیث میں جن یہودونصاریٰ کا ذکر ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر یہود ونصاریٰ ہیں، نہ کہ ہر زمانہ کے یہود ونصاریٰ۔میرے نزدیک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن خود وہ مسلمان ہیں جو دوسری قوموں کو اسلام دشمن بتا کر مسلمانوں کے دلوں میں اُن کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں۔ اسلام کا طریقہ، اسلام دشمنوں کی نشاندہی کرنا نہیں ہے بلکہ دشمنوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرکے اُنہیں اپنا دوست بنانا ہے۔ (فصلت ۳۴)
۶۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں جو تفریق اور انتشار پایا جاتا ہے، اُس کا سبب میرے نزدیک صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے، اختلاف اور تنقید پر غیر ضروری حسّاسیت۔ اس مسئلہ کا حل اختلاف اور تنقید کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اختلاف اور تنقید کے بارے میں اپنی غیر فطری حساسیت کو ختم کرنا ہے۔ اتحاد ہمیشہ اختلاف کو برداشت کرنے سے ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانے سے۔ کیوں کہ اختلافات کا مٹنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
۷۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام کی ظاہری صورت یا فارم والا اسلام تو موجود ہے مگر اسلام کی روح ان کے اندر موجود نہیں۔ وہ بہت بڑے پیمانہ پر اور لاکھوں مسجدوں میں ہر دن نماز کی ظاہری شکل کو دہراتے ہیں مگر نماز کی اصل روح جو اتحاد ہے، وہ ان کے اندر موجود نہیں۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کیا جائے جو خَوفِ خدا اور فکر آخرت پر ہوتی ہے۔ روح کے بغیر شکل اسی طرح بے قیمت ہے جس طرح پھل کے مغز کے بغیر اس کا چھلکا۔
۸۔ جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میںمسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش ہی میں لگا ہوا ہوں۔ میرے نزدیک مسلم اتحاد جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اس طرح قائم ہوسکتا ہے کہ دلوں اور دماغوں میںروحِ اتحاد کو زندہ کیا جائے۔ اور میں یہی کام کررہا ہوں۔
۹۔ میرے نزدیک مسلمانوں کے انتشار کا سبب یہ ہے کہ اُن کے دلوں سے اللہ کا خوف نکل گیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا مقصد، دوسری قوموں کی طرح، صرف مال کمانا اور مادّی ترقی حاصل کرنا بن گیا ہے۔ یہ مزاج ہمیشہ حسد اور نفسانیت کے جذبات کی پرورش کرتا ہے۔ اور یہی موجودہ مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر پیدا ہوگیا ہے۔ اس معاملہ میں علماء اور غیر علماء کی کوئی تفریق نہیں۔
۱۰۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا گہرا جائزہ بتاتا ہے کہ اُن کے اندر اجتماعی شعور موجود نہیں۔ وہ ذاتی مقاصد کی تکمیل میں اتنا زیادہ گم ہیں کہ اجتماعی مقاصد کی اہمیت کی اُنہیں خبر ہی نہیں۔ مسلمانوں کی اس کمزوری کی اصلاح تعلیم اور شعوری بیداری کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے۔
۱۱۔ موجودہ زمانہ کے علماء دو بڑی کمزوریوں کا شکار ہیں۔ ایک تقلید، جس نے اُنہیں ذہنی جمود میں مبتلا کردیا ہے۔ اُن کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ وہ عصری تعلیم سے دور ہونے کی بنا پر زمانہ کے جدید حالات سے بالکل بے خبر ہیں۔ علماء کی ان دو کمزوریوں نے انہیں اس قابل ہی نہیں رکھا ہے کہ وہ جدید مسلم نسلوں کی کامیاب رہنمائی کر سکیں۔
۱۲۔ سیاست میں حصہ لینا کوئی غلط یا غیر شرعی بات نہیں۔ مگر موجودہ زمانہ کے علماء اپنی فکری اور علمی پس ماندگی کی بنا پر اس قابل نہیںہیں کہ وہ سیاست میںکوئی مفید کردار ادا کرسکیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانہ کے علماء نے بڑے پیمانہ پر سیاست میں عملاًحصہ لیا ہے۔ مگروہ اپنے اس سیاسی عمل سے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہ دے سکے۔
۱۳۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ غلط ہے کہ ملت بھیڑیوں کا چارہ بن رہی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ملّت خود اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کررہی ہے۔ جہاں تک اہون البلیتین کا تعلق ہے، وہ ایک مسلّمہ شرعی اصول ہے۔ حدیث میں اس کو اختیار اَعسر کے مقابلہ میں اختیار ایسر کہا گیا ہے (صحیح البخاری)۔ حسب ضرورت اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں۔
۱۴۔ فقہی مسالک کوئی دور جدید کی چیز نہیں۔ وہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میںموجود تھے۔ جو فرق ہے وہ یہ کہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں فقہی فروق کی بنیاد پر گروہی مسالک نہیں بنے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں اس قسم کے فروق کو لے کر انتہا پسندانہ گروہی مسالک بنا دیے گئے ہیں۔ اس معاملہ کو میں نے اپنی کتاب ’’تجدید دین‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اسلامی شریعت کے دوبڑے حصّے ہیں۔ ایک بنیادی احکام کا حصہ اور دوسرے ضمنی اور فروعی احکام کا حصہ ۔ بنیادی احکام سب کے سب یکساں ہیں، اُن میں کوئی فرق واختلاف نہیں۔ مگر ضمنی اور فروعی احکام میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دونوں قسم کے احکام کے درمیان یہ فرق عین فطری ہے اور وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ فروعی اختلافات کو توسع اور تنوع (diversity) پر محمول کیا جائے۔ اُن کے معاملہ میں رواداری کا انداز اختیار کیا جائے، نہ کہ شدت پسندی کا انداز۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.