قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: یٰاأیہا الذین آمنوا إن تتّقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً (
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا صحیح فہم کسی آدمی کو اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس کو اللہ کی معرفت اتنی گہرائی کے ساتھ حاصل ہو کہ وہ اللہ سے ڈرنے لگے، وہ اللہ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط (mindful) بن جائے۔ جب آپ کسی معاملے کی علمی تشریح کریں تو اُس میں ڈر شامل نہیں ہوتا۔ آپ کی نفسیات یہ نہیں ہوتی کہ اگر میں نے غلط تشریح کردی تو میں سخت طورپر خدا کی پکڑ میں آجاؤں گا۔ لیکن جب آپ کے اندر متقیانہ ذہن پیدا ہوجائے تو آپ کا احساس یہ ہوتا ہے کہ میں اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ میں کسی دینی امر کا مفہوم اِس طرح بیان کروں جو ادنیٰ درجے میں بھی حق سے ہٹا ہوا ہو:
I can not afford slightest deviation from the right meaning.
مذکورہ آیت میں فرقان کا لفظ آیا ہے۔ فرقان کے لفظ میں فرق کا مفہوم مبالغے کے ساتھ شامل ہے۔ اِس کا مطلب ہے دو چیزوں کے درمیان فرق (differentiate) کرنے کی گہری صلاحیت (الفصل بین الشیئین)۔ اِس صلاحیت کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی علمی بنیاد پر فرق کرنا جانتا ہو۔ لیکن یہ صرف ایک ابتدائی بنیاد ہے۔ فرق کرنے کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر داخلی بصیرت کے درجے میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ اِسی کا نام فرقان ہے۔ ایسے آدمی کے لیے دین کی صحیح تشریح کرنے کا معاملہ ذاتی نجات کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ دین کی ایسی تشریح کرے جو آخر کار اللہ کے سامنے رد(reject) ہوجانے والی ہو۔ جو آدمی دین کی تشریح میں محتاط ہو، وہ لازمی طورپر دینی عمل میں بھی آخری حد تک محتاط ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانے میں جب یہود پر سیاسی زوال آیا تو اُن کے اندر یہ مزاج پیداہوا کہ وہ لڑکر دوبارہ اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔ اُس وقت، بائبل کے بیان کے مطابق، یہود کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا— بادشاہ اور اس کی والدہ سے کہو کہ عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Say to the king and to the queen mother, “Humble yourselves; sit down, for your rule shall collapse, the crown of your glory.” (Jeremiah 13: 18)
یہاں یہود کی مثال کی صورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قوموں پر عروج کے بعد زوال آتا ہے، سیاسی بالادستی کے بعد انھیں سیاسی زیردستی کا تجربہ پیش آتا ہے۔ یہ معاملہ قانونِ فطرت کے تحت پیش آتا ہے۔ اُس وقت قوم کو چاہیے کہ وہ اِس تبدیلی کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اُس وقت اِس تبدیلی کو تسلیم نہ کرنا اپنے آپ کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ سیاسی اقتدار (political power)کسی گروہ کی قومی اجارہ داری (monopoly)نہیں۔ سیاسی اقتدار کا حصول اس کی ضروری اہلیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قوم کے اندر جب تک صلاحیت پائی جائے، سیاسی اقتدار بھی اُس کو حاصل رہے گا۔ صلاحیت کے فقدان کے بعد سیاسی اقتدار بھی اس سے چھن جائے گا۔ جب ایسا ہو تو قوم کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اپنے اندر ضروری صلاحیت پیدا کرے، نہ کہ وہ فریق ثانی کے خلاف بے فائدہ جنگ چھیڑ دے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ما بقوم میں تغیر ہمیشہ مابأنفس میں تغیر کا نتیجہ ہوتا ہے (
واپس اوپر جائیں
ایک مفسر قرآن سے پوچھا گیا کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ — سرگزشتِ انذار۔ یہ بات جزئی طور پر درست ہے، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن سرگزشتِ دعوت ہے۔ انسانی تاریخ میں پیغمبروں کے ذریعے دعوتِ دین کا جو کام ہوا، قرآن اس کی براہِ راست یا بالواسطہ سرگزشت کا مجموعہ ہے۔ دعوت کا کام اصلاً خدائی پیغام کی پیغام رسانی کا کام ہے۔ مگر اس کام کی انجام دہی کے لیے خصوصی تائید ضروری ہے۔ اِس تائید کے تین بڑے دور ہیں:
1 - تائید دین بذریعہ معجزہ۔ 2 - تائید ِ دین بذریعہ سکینہ۔
3 - تائید ِ دین بذریعہ مذہبی آزادی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خدا کے جو پیغمبر آئے، اُن کی تائید اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے کی۔ ہر پیغمبر کو اپنے زمانے کے حالات کے اعتبار سے معجزہ دیاگیا۔ قرآن کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس قسم کا حسّی معجزہ نہیں دیاگیا (
سکینہ سے مراد سکونِ قلب (tranquility) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دعوت کے راستے میں غیر معمولی قسم کے شدائد کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوک، بائیکاٹ، جلاوطنی، قتال، وغیرہ۔ یہ شدائد اتنے زیادہ سخت تھے کہ عام انسان اُن کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو خصوصی طورپر سکونِ قلب عطا کیا، جس کو خدائی سکون (divine calm) کہاجاسکتا ہے۔ اِسی خصوصی تائید کی بنا پر پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر اپنے مشن کی تکمیل کرسکے۔
تیسری تائید وہ ہے جو موجودہ زمانے کے اہلِ ایمان کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ مذہبی آزادی (religious freedom) کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے جو موجودہ زمانے میں عالمی طورپر حاصل ہوا ہے۔ اب دعوت کا کام کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر آزادانہ طورپر انجام دیاجاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
فقہاء کا یہ ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کے مصادر (sources) چار ہیں — قرآن، سنت، اجماع، قیاس، مگر یہ درست نہیں۔ یہ نظریہ تمام تر ذاتی قیاس کی بنیاد پر بنایاگیا ہے۔ قرآن اور سنت کی بنیاد پر اگر مصادرِ شریعت کو متعین کیا جائے تو وہ صرف تین ہوں گے۔ پہلا دو مصدر تو واضح طورپر قرآن اور سنت ہے۔ جہاں تک تیسرے مصدر کا تعلق ہے، اس کے لیے قرآن میں استنباط (
عام طورپر فقہاء نے اجماع (consensus) کو شریعت کا ایک مستقل مصدر قرار دیا ہے، مگر یہ یقینی طورپر ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ شریعت کا مستقل مصدر صرف کوئی نصِ قطعی ہوسکتا ہے۔ نص قطعی کی غیر موجودگی میں کسی چیز کو شریعت کا مستقل مصدر قرار دینا، یقینی طورپر ایک بے بنیاد بات ہے۔ اجماع کی بلاشبہہ ایک اہمیت ہے، لیکن وہ اہمیت صرف یہ ہے کہ کسی خاص موقع پر اجماع کسی پیش آمدہ مسئلے کا ایک عملی حل ہوتاہے۔ یہ حل یقینی طورپر ایک وقتی حل ہوتا ہے، نہ کہ شریعت کا ابدی مصدر۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک بے حداہم بات ہے۔ ضرورت ہے کہ اہلِ علم اِس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور پورے معاملے پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوبارہ اس مسئلے کی ایسی تشریح کریں جو ایک طرف قرآن وسنت کے نصوص کے مطابق ہو۔ اور دوسری طرف اُس میں دورِ جدیدکے بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے لیے قابلِ عمل رہنمائی موجودہو۔ آج کی ایک ضرورت یہ ہے کہ اسلام کے تعلق (relevance) کو جدید دور کی نسبت سے ثابت کیا جائے، اور یہ کام مذکورہ معاملے کی تشریح کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے بہت سے فکری مسائل کا حل اِس معاملے کی تشریحِ نو سے منسلک ہے۔
واپس اوپر جائیں
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ ألم نشرح لک صدرک(
قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہر گز کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مثلاً قرآن کی سورہ المومنون میں بتایا گیا ہے کہ : وجعلنا من الماء کلَّ شیٔ حیّ (
اِسی طرح قرآن کی سورہ یاسین میں یہ آیت ہے: وکلٌّ فی فلک یسبحون (
قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے، قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الحج میں ارشاد ہوا ہے: الذین إن مکّنّاہم فی الأرض أقاموا الصلوٰۃ، واٰتوا الزکاۃَ، وأمروا بالمعروف، ونہوا عن المنکر، وللہ عاقبۃ الأمور(
قرآن کی اِس آیت میں اہلِ اسلام کی اُس حالت کا بیان ہے جس کو سیاسی اقتدار کہاجاتا ہے۔ لیکن اِس آیت کے مطابق، یہ لوگ سیاسی اقتدار پاکر جو کام انجام دیں گے، وہ عین وہی کام ہے جس کو وہ سیاسی اقتدار سے پہلے بھی انجام دے رہے تھے، یعنی نماز کی اقامت، زکات کو ادا کرنا اور لوگوں کو برائی سے روکنا اور انھیں بھلائی کی تلقین کرنا۔ یہ سب وہی کام ہیں جو ہر مومن اقتدار کے بغیر بھی انجام دیتا ہے اور انھیں کاموں کو اُسے اقتدار پانے کے بعد بھی کرنے کے لیے بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے مطابق، سیاسی اقتدار کا وہ مقصد نہیں ہے جس کو کہ کچھ لوگ نہایت جوش کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یعنی غریبی ہٹانا، اقتصادی استحصال کو ختم کرنا، سماج کے اندر مادی خوش حالی لانا، آئڈیل نظام قائم کرنا، وغیرہ۔ موجودہ زمانے کے کچھ سیاست پسند مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کو ایک متبادل نظام (alternative system) دیتا ہے۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (
موجودہ زمانے میں کچھ سیکولر مفکرین نے کہا کہ اشتراکیت(Communism) سرمایہ دارانہ نظام کا بدل (alternative) ہے۔ اِسی طرح کچھ سیکولر مفکرین نے کہا کہ جمہوریت، بادشاہی نظام کا بدل ہے۔ اِسی کی نقل میں کچھ مسلم مفکرین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام سیکولر نظام کا ایک بدل ہے، وہ دنیا کو متبادل سیاسی اور معاشی نظام پیش کرتا ہے۔ مگر اِس تصور کا ماخذ قرآن نہیںہے، بلکہ اس کا ماخذصرف اہلِ زمانہ کی تقلید ہے، اِس سے زیادہ اس کی کوئی اور حقیقت نہیں۔
واپس اوپر جائیں
عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أربع مَن کن فیہ کان منافقا خالصاً۔ ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدَعَہا: إذا ئتُمِنَ خانَ، وإذا حدّث کذب، وإذا عاہد غدر، وإذا خاصم فجرَ (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق) یعنی چار خصلتیں ہیں جس کے اندر وہ خصلتیں ہوں، وہ خالص منافق ہے۔ اور جس شخص کے اندر اُن میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے، اُس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے— جب اس کو امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وہ عہد کرے تو وہ اُس عہد سے پھر جائے، اور جب نزاع پیدا ہو تو وہ جھگڑنے لگے۔
اِس حدیث میں منافق کے کردار کو بتایا گیا ہے۔ منافق انسان وہ ہے جو عدم تقویٰ کی بنا پر حق اور ناحق کے معاملے میں غیر حساس (insensitive) ہوجائے۔ ایسا انسان ایک بے اصول انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر مسئولیت (accountability) کا احساس باقی نہیں رہتا۔ اس کی روش ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہے، نہ کہ اصولِ حق کے تابع۔ اخلاقی معیار کی اہمیت اس کے اندر سے ختم ہوجاتی ہے، وغیرہ۔
اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کو کوئی امانت سونپی جائے تو وہ نہایت آسانی سے اس کے معاملے میں خیانت کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ جب وہ بات کرتاہے تو اپنے آپ کو سچ بولنے کا پابند نہیں سمجھتا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ ایسی بات کہہ دیتا ہے جو حقیقت واقعہ کے خلاف ہو۔ ایسا آدمی عہد کا پابند نہیں ہوتا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ عہد کرنے کے باوجود اُس عہد کو توڑ دیتا ہے۔
اِسی طرح ایسے انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے اس کا اختلاف یا نزاع ہوجائے تو وہ اس کے معاملے میں انصاف پر قائم نہیں رہتا۔ وہ علمی گفتگو کے بجائے الزام تراشی کی زبان بولنا شروع کردیتا ہے۔ سنجیدہ تبادلۂ خیال کے بجائے، وہ جھگڑے کا انداز اختیار کرلیتا ہے۔ گفتگو کو دلائل تک محدود رکھنے کے بجائے، وہ زیر تنقید شخص کی نیت پر حملہ کردیتاہے۔ علمی تجزیہ (analysis) کے بجائے، وہ منفی ریمارک (negative remark) دینا شروع کردیتا ہے۔ حقائق کے حوالے سے بات کرنے کے بجائے، وہ قیاسات کے حوالے سے بات کرنا شروع کر دیتاہے۔ معاملے کو اصول تک محدود رکھنے کے بجائے، وہ مفروضات کے حوالے سیگفتگو کرنا شروع کردیتاہے۔ اصولی بنیاد پر بحث کرنے کے بجائے، وہ ذاتی نوعیت کی چیزوں سے بحث شروع کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ فریقِ ثانی کی طرف ایسی بات منسوب کرنے لگتاہے جو کہ اُس نے کبھی نہ کہی ہو۔ وہ اپنے موقف کی حمایت میں ایسی باتیں بولنے لگتاہے جو صرف سنی سنائی ہوتی ہیں، اُن کی کوئی اصل نہیں ہوتی، وغیرہ۔
منافق کی جن خصلتوں کا ذکر مذکورہ حدیثِ رسول میں کیاگیاہے، وہ بے حد سنگین خصلتیں ہیں۔ اِن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ اِن خصلتوں کے حامل ہوں، اُن کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے۔ ایسا آدمی اُس عظیم نعمت اسے محروم ہوجاتا ہے جس کو اسٹرانگ شخصیت (strong personality) کہاجاتاہے۔
اِس خصلت کا مزید نقصان یہ ہوتاہے کہ ایسے آدمی کو فرشتوں کی صحبت نہیں ملتی۔ اس کو ربانی الہامات (divine inspirations) نہیں پہنچتے۔ وہ اعلیٰ معرفت کی غذا نہیں پاتا۔ خدا سے اس کار بط قائم نہیں ہوتا۔ ایسے آدمی کا ذہنی ارتقا (intellectual development) رک جاتا ہے۔ وہ تزکیہ کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایمان کی روشنی اس کے داخل تک نہیں پہنچتی۔
کمزور شخصیت والا آدمی ہمیشہ شیطان کے زیر اثر رہتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں، اسٹرانگ شخصیت والے آدمی کے ساتھ وہ ملکوتی تجربہ گزرتا ہے جس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: إن الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکۃ أن لا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الحدیدمیں امت کے عروج وزوال کا قانون بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں دو متعلق آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ’’کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے اور اُس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اُس کے مردہ ہونے کے بعد۔ ہم نے تمھارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو‘‘۔ (
اِن آیات میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کے مفسرین میں سے غالباً کوئی بھی اس مفہوم کو واضح نہ کرسکا۔ مثال کے طورپر سید قطب (وفات:1966 ) نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھاہے: ولا بدّ من الیقظۃ الدائمۃ کی لا یصیبہ التبلّد والقساوۃ (فی ظلال القرآن، جلد 6، صفحہ 3489) یعنی لازم ہے کہ قلب دائمی طورپر بیدار رہے، تاکہ اس کے اندر سستی اور بے حسی نہ پیدا ہو۔ یہ تفسیر بلا شبہہ خلافِ فطرت ہے۔ اِس تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ امت پر دورِ زوال نہ آنے پائے، حالاں کہ دورِ زوال کا آنا ایک فطری تقاضا ہے، کوئی بھی امت اس سے مستثنیٰ نہیں، نہ یہود اور نہ مسلمان۔اِن آیتوں میں دراصل فطرت کے اُس قانون کو بتایا گیا ہے جس کو ڈی جنریشن (degeneration) کہاجاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں قساوت کی وہی کمزوری پوری طرح آجائے گی جو اِس سے پہلے یہود کے اندر آچکی ہے۔ اِس کے بعد تمثیل کی زبان میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب ایسا ہو تو علمائِ امت کو کیا کرنا چاہیے۔ ان کو وہی کرنا چاہیے جو کسان اپنی بنجر زمین پر کرتا ہے۔ وہ پہلے زمین کو تیار کرتا ہے، اس کے بعد وہ اس میں بیج ڈالتا ہے۔ اِسی طرح علماء اور مصلحین کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ پہلے امت کے اندر شعوری بیداری لائیں اور اس کے بعد عملی پروگرام کا نفاذ کریں۔ زوال کے بعد یہی صحیح نقطہ آغاز (starting point) ہے۔
شعوری بیداری کے بغیر عملی پروگرام کا نفاذ کبھی نتیجہ خیز (result-oriented)نہیں ہوسکتا۔ شعوری بیداری کیا ہے۔ شعوری بیداری کا مطلب ہے — امت کے افراد کے لیے اسلام کو اُن کی ری ڈسکوری (re-discovery) بنانا، ان کے اندر فکری انقلاب لانا، ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات کو اِس طرح پیش کرنا جو اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، جو اُن کی بے حسی (قساوت) کو دوبارہ حساسیت میں تبدیل کردے۔
مثال کے طورپر مسلمانوں کی موجودہ نسلوں میں عام طورپر زوال کی وہی حالت طاری ہوچکی ہے جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں کیاگیا ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب بنیادی طورپر یہ ہے کہ موجودہ زمانہ عقل (reason) کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے کا انسان کسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتاہے جب کہ وہ اس کو ریزن آؤٹ (reason out) کرسکے۔ اِس کے بغیر وہ اُس بات کا عصری ریلیونس (contemporary relevance) دریافت نہیں کر پاتا، اِس لیے وہ زندہ شعور کے ساتھ اُس کو اخذ (grasp)بھی نہیں کرپاتا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب روایتی اسلوب میں تھیں، جب کہ موجودہ ذہن سائنٹفک ذہن ہے۔ اِس بنا پر قدیم روایتی لٹریچر جدید ذہن کو اپیل نہیں کرتا۔ ایسا لٹریچر جدید ذہن کو ایک غیر متعلق لٹریچر نظر آتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے فکری زوال کا اصل سبب یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم دنیا میں سیکڑوں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، لیکن وہ زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ امت نہ بنا سکیں۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اِن تحریکوں نے مسلمانوں کو روایتی اسلوب میں خطاب کیا، وہ عصری اسلوب میں اُن کو خطاب نہ کرسکیں۔ انھوں نے ذہنی انقلاب کے بغیر امت کے سامنے عملی پروگرام پیش کردیا۔ اِس قسم کا طریقِ کار یقینی طور پر بے نتیجہ ہونے والا تھا، کیوں کہ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی رکھنا (putting the cart before the horse) کا معاملہ تھا۔ فطری قانون کے مطابق، اِس طریقِ کار کے لیے یہی مقدر تھا کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں
کعبہ کو تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے مکہ میں بنایا تھا۔ اُس وقت کعبہ مستطیل (rectangle) صورت میں تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قریش مکہ نے کعبہ کی نئی تعمیر کی۔ اُس وقت انھوں نے کعبہ کی لمبائی کو کم کرکے اس کو مربّع (square) صورت میں تعمیر کیا۔ کعبہ اِس مربع صورت میں آج تک موجود ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اہلیہ عائشہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کعبہ کی عمارت کو دوبارہ میں ابراہیمی بنیاد پر بناؤں، مگر آپ اِس سے باز رہے، کیوں کہ عملی اسباب کے تحت اب ایسا ہونا ممکن نہ تھا (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانہا)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس واقعے سے ایک اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ تاریخ کے پہیے کو دوبارہ الٹی طرف نہیں چلایا جاسکتا:
The wheel of history cannot be put in the reverse gear.
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس پیغمبرانہ واقعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ تاریخ کا سفر ہمیشہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی طرف ہوتا ہے۔
تاریخ میں یو ٹرن (U turn) لینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو مستقبل سے حال کی طرف اور حال سے ماضی کی طرف جاری کردے۔ تاریخ کے معاملے میں موجود صورت حال (statusquo) کو مان کر منصوبہ بنایا جاتا ہے، نہ کہ اس کا انکار کرکے۔
کعبہ کی تاریخ اِس معاملے کی ایک مثال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کے اِس قانون کو تسلیم کرتے ہوئے سابق ابراہیمی بنیاد پر کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد کو عبد اللہ بن زبیر (وفات:
بیسویں صدی کے ربع اول میں خلافت تحریک، بیسویں صدی کے نصف ثانی میں فلسطینی تحریک، بیسویں صدی کے نصف آخر میں کشمیری تحریک اور اِس قسم کی دوسری تحریکیں اِسی کا ثبوت ہیں۔ اِن تحریکوں کے لیڈروں نے تاریخ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش کی، مگر تاریخ کا فیصلہ نہیں بدلا، البتہ نادانی کی اِس سیاست نے مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ کردیا۔
وہ لمحہ جب کہ تاریخ کا فیصلہ ہورہا ہو، اُس وقت آپ اپنی دانش مندانہ پالیسی کے ذریعے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، لیکن جب فیصلہ ہوگیا تو اُس کے بعد فیصلے کو بدلنے کی کوشش کرنا عملاً خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مولانا جلال الدین رومی (وفات: 1273ء) نے اپنی مشہور ’’مثنوی‘‘ جس زمانے میں لکھی، وہ تمثیلی اسلوب کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے میں عام طورپر یہی اسلوب رائج تھا، یعنی اپنی بات کو فرضی مثالوں اور فرضی کہانیوں کی زبان میں بیان کرنا۔ اِسی زمانی اثر کے تحت، مولانا رومی نے اپنی مثنوی تمثیلی اسلوب کے تحت لکھی۔ تمثیلی ادب کا یہ اسلوب نیوٹن (وفات: 1727ء) کے ظہور کے بعد ختم ہوگیا۔ موجودہ زمانے میں تمثیل کا اسلوب ایک غیر علمی اسلوب سمجھا جاتا ہے، علمی اعتبار سے وہ کوئی معتبر اسلوب نہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ وہ عہد کی اِس تبدیلی سے بے بہرہ رہے اور اِس بنا پر قدیم زمانے میں مثنوی مولانا روم جس طرح اُن کے یہاں عمومی طورپر رائج تھی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں بھی وہ ان کے درمیان رائج رہی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں جدید علمی اسلوب فروغ نہ پاسکا۔ چناں چہ آج بھی اُن کی تقریروتحریر میں مثنوی مولانا روم کے اشعار اِس طرح نقل کئے جاتے ہیں جیسے کہ وہ ایک مستند علمی بیان کی حیثیت رکھتے ہوں۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اسلوبِ کلام کا براہِ راست تعلق متکلم کے طرزِ فکر سے ہے۔ متکلم اگر فرضی کہانیوں اور غیر واقعی مثالوں کے ذریعے اپنی بات کہنے کا عادی ہو تو اس کی سوچ بھی اِسی قسم کی غیرواقعی سوچ بن جائے گی۔ وہ مفروضات اور یقینیات میں فرق نہ کرسکے گا۔ وہ خیالی تمثیلات کی بنیاد پر ایک بات کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اُس نے جو بات کہی ہے، وہ حقائق کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے اندر مبنی بر حقیقت تفکیر (realistic approach) کا ارتقا نہ ہوسکے گا۔ وہ شاعرانہ تخئیل اور مبنی بر حقیقت تفکیرکے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے گا۔
اِس طرزِ فکر کا مزید نقصان یہ ہوگا کہ ایسا آدمی زندگی کے معاملات میں حقیقت پسندانہ رائے قائم نہ کرسکے گا۔ اس کی منصوبہ بندی جذبات پر مبنی ہوگی، نہ کہ عقل و خرد کی بنیاد پر۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کا کیس فکر اور عمل دونوں اعتبار سے صرف تباہی کا کیس بن کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
تنقید (criticism) کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھا جائے اور پھر اس کے اصل نقطۂ نظر کو لے کر اس پر تنقید کی جائے۔ یہ تنقید کا صحیح اور علمی طریقہ ہے۔تنقید کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اُس سے خود ساختہ طور پر ایک مفہوم نکالا جائے اور اِسی خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقید شخص کی طرف منسوب کرکے اُس پر تنقید کی جائے۔ یہ دوسرا طریقہ تنقید کا غلط اور غیر علمی طریقہ ہے۔
موجودہ زمانے میں، تنقید کا یہ دوسرا طریقہ بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تنقید کو حقوقِ انسانی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تنقید کرنا، اُن کا ذاتی حق ہے۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ تنقید بلا شبہہ ہر انسان کا حق ہے، لیکن یہ کسی بھی شخص کا حق نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کے کلام سے ایک خود ساختہ مفہوم نکالے اور اِس خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقیدشخص کی طرف منسوب کرکے وہ اس پر پُرشور تنقید شروع کردے۔
تنقید دراصل علمی تجزیہ (scientific analysis) کا دوسرا نام ہے۔ تنقید حقیقتاً وہی ہے جو علمی تجزیہ کے اسلوب میں کی جائے۔ جو تنقید علمی تجزیہ سے خالی ہو، وہ بلا شبہہ عیب جوئی اور الزام تراشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تنقید علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے، اور شرعی اعتبار سے بلاشبہہ ایسی تنقید ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
علمی تجزیہ طرفین کے لیے مفید ہے، ناقد کے لیے بھی اور زیر تنقید شخص کے لیے بھی۔ علمی تنقید کے ذریعے ناقد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیرِ بحث موضوع کا ازسرِ نو مطالعہ کرے۔ اِسی طرح زیر تنقید شخص کو اُس سے یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی رائے کا از سرِ نو جائزہ لے۔ اِس کے برعکس، غیر علمی تنقید اِس طرح کے کسی مثبت فائدے سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے —علمی تنقید ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ غیرعلمی تنقید صرف آدمی کے ذہنی انحطاط کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں
حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ کے دعوتی مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ وہاں الرسالہ مطبوعات کے ذریعے دعوتی کام کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دین دار مسلمان سے اِس سلسلے میں ان کی بات ہوتی تھی۔ مذکورہ مسلمان، الرسالہ مطبوعات کے سخت خلاف تھے۔ انھوںنے اِس مسئلے پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچا۔ اِس کے بعد ایک بات ان کی سمجھ میں آئی۔ وہ مذکورہ دین دار مسلمان سے ملے اور ان سے کہا کہ یہاں کچھ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ وہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے لیے آپ کوئی ایسی کتاب بتائے جو جدید اسلوب میں لکھی گئی ہو اور وہ ان کے ذہن کو مطمئن کرے۔ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے ایسی کسی کتاب کا علم نہیں۔ پھر انھوںنے اُن کو الرسالہ مطبوعات میں سے ’’اسلام اور عصر حاضر‘‘ مطالعے کے لیے دی۔ اِس کتاب کو پڑھ کر مذکورہ دین دار مسلمان بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اِس ادارے کی اور کتابیں ہمیں پڑھنے کے لیے دیجئے۔
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ الرسالہ مشن کے مذکورہ ممبر ایک مسلم لائبریری میں گئے۔ وہاں انھوں نے لائبریری کے ذمے دار سے کہا کہ آپ دوسرے اداروں کی کتابیں اپنے یہاں رکھتے ہیں، آپ کو چاہیے کہ آپ الرسالہ مطبوعات کو بھی اپنے یہاں رکھیں۔ ناظمِ کتب خانہ نے اِس مشورے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے والی کون سی کتابیں آپ کے کتب خانے میں ہیں۔ ناظم کتب خانہ نے کہا کہ ایسی کوئی کتاب ہمارے کتب خانے میں نہیں ہے۔ اِس کے بعد انھوں نے الرسالہ مطبوعات میں سے بعض کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دیں۔ اس کو پڑھ کر ناظمِ کتب خانہ کی رائے بدل گئی۔ انھوں نے کہا کہ جدید ذہن کے لیے یہ کتابیں بہت مفید ہیں، اور پھر اپنے کتب خانے میں الرسالہ کی تمام مطبوعات کو رکھنے کا فیصلہ کرلیا — اِسی کا نام حکیمانہ اسلوب ہے۔ کامیاب دعوتی عمل کے لیے حکیمانہ اسلوب بے حد ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ کے مشہور برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا ایک بیان اخبارات میں آیا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ — جنت یا زندگی بعد موت کا کوئی وجود نہیں، یہ سب پریوں کی کہانی ہے:
There is no heaven or afterlife, that is a fairy story. (The Times of India, N. Delhi, May 17, 2011, p. 19)
یہ سائنس داں کی زبان سے ایک غیر سائنسی بیان ہے۔ ایک شخص جو جنت کو نہ مانتا ہو، وہ سائنسی زبان میں صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ معلوم طبیعی قوانین کے مطابق، یہاں جنت کا کوئی وجود نہیں:
According to the known physical laws, Paradise has no existence.
مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سائنس کے جدید ترین مطالعے کے مطابق، کائنات کے مادّے کا صرف 5 فی صد حصہ ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ کائنات کا بقیہ
Probably, Paradise has no physical existence.
سائنس (science) مطالعے کا ایک خصوصی طریقہ ہے۔ سائنس کی رسائی صرف اُن حقائق تک ہوتی ہے جو اس کی دور بین (telescope) یا خورد بین (microscope) کے مشاہدے میں آتے ہوں۔ جب خود سائنسی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ممکن طورپر کائنات کے قابلِ مشاہدہ مادّے کا زیادہ بڑا حصہ موجودہ سائنسی آلات کے مطابق، قابلِ مشاہدہ نہیں۔ ایسی حالت میں، سائنس کے حوالے سے یہ کہنا بلا شبہہ ایک غیر سائنسی بیان ہے کہ — کائنات میں جنت کا کوئی وجود نہیں۔قدیم زمانے میں علمی بیان کی کوئی محدّد تعریف موجود نہ تھی، مگر موجودہ زمانے میں علمی بیان صرف اُس کو کہاجاتا ہے جو محدَّد زبان (specific language) میں ہو۔ اِس علمی تعریف کا لحاظ یقینا سائنس داں کو بھی کرنا ہے اور غیر سائنس داں کو بھی۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے کیس کو اگر ایک لفظ میں بتانا ہو تو وہ غالباً اسلامی رومانیت (Islamic romanticism) ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِسی اسلامی رومانیت میں جی رہے ہیں— ماضی میں گزری ہوئی مسلم شخصیتوں کی کہانیاں، کشف وکرامات کے قصے، جہاد کے واقعات، مفروضہ معیاری نظام، وغیرہ۔ اِنھیں چیزوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ذہن بنایا ہے۔ ان کی ہر مجلس میں اِس طرح کی باتوں کا چرچا ہوتاہے۔ ہر مسلمان یہ سوچتا ہے کہ قدیم پُرفخر سیاسی دور کس طرح دوبارہ واپس لایا جائے۔
اِس اسلامی رومانیت کی سب سے زیادہ تباہ کن مثال سیاسی رومانیت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے بہت سی سیاسی لڑائیاں چھیڑیں۔ یہ سیاسی لڑائیاں مختلف ملکوں میں وہاں کے اقتدار کے خلاف لڑی گئیں۔ اِن لڑائیوں کے دوران مسلمانوں میں عجیب وغریب قسم کی پراسرار کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں۔ہر لڑائی میں پر اسرار طورپر فتح کی داستانیں پھیلائی جاتی رہیں، مگر آخر میں معلوم ہوا کہ ہر لڑائی یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کی تباہی پر ختم ہونے والی تھی۔
یہ اسلامی رومانیت آج بھی مختلف صورتوں میں جاری ہے، مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی اور اُن ملکوں میں بھی جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں۔ اِسی رومانیت کو قرآن میںامانی (
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ خوش فہمی کے اِس مزاج کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ ختم ہوگئی ہے، وہ مفروضات میں جیتے ہیں،وہ تصوراتی دنیا میں اپنی خیالی دنیا تعمیر کرتے رہتے ہیں، وہ توہماتی عقائد کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ یہ غیر حقیقت پسندانہ مزاج دنیا کے اعتبار سے بھی ہلاکت خیز ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی ہلاکت خیز۔
واپس اوپر جائیں
اتحاد یا تضامن (unity) ہماری ایک اہم ضرورت ہے۔ پرنٹنگ پریس کے جدید دور میں غالباً سب سے زیادہ جس موضوع پر لکھا گیا ہے، وہ اتحاد ہے، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد موجود نہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں نے مذہب کے حوالے سے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر ساری کوششوں کے باوجود ملت کے اندر اتحاد پیدا نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاد ایک عملی ضرورت ہے، اور پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے شعور ہی سے اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔
مذہب کے معاملے میں یکسانیت کبھی ممکن نہیں۔ مذہب کے پہلو سے ہمیشہ لوگوں میں اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ اختلاف رہے گا۔ اِس لیے جب بھی مذہب کے حوالے سے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اُس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ اختلاف میں مزید اضافہ ہوجائے، جیسا کہ بالفعل پیش آیا ہے۔ اتحاد کی بنیاد صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اِس عملی ضرورت کا گہرا شعور پیدا ہوجائے کہ اتحاد کے بغیر قرآن کے الفاظ میں، ان کی ہوا اکھڑ جائے گی (
United we stand, divided we fall.
اتحاد کا واحد عملی فارمولا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اختلاف ایک فطری ظاہرہ ہے، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اِس لیے اختلاف کے باوجود مل کر رہنا سیکھو۔ اتحاد کے معاملے میں یہ چیز نقطۂ اتحاد نہیں بن سکتی کہ سب کی سوچ ایک ہوجائے۔ البتہ ایک اور چیز سب کے لیے نقطۂ اتحاد بن سکتی ہے، اور وہ مشترک مفاد (mutual interest) ہے۔ اتحاد ایک عملی ضرورت ہے اور اس کو عملی ضرورت کے حوالے ہی سے قائم کیا جاسکتا ہے۔ اِسی اصول کا نام ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) ہے۔ اور اِس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی ہی واحد قابلِ عمل فارمولے کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلم رہنما ہر جگہ سیاست کے ہنگامے جاری کئے ہوئے ہیں۔جہاںبھی کچھ مسلمان ہیں، وہاں اِس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر یہ تمام سیاسی ہنگامے مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں۔ اِس کا مشترک سبب یہ ہے کہ یہ تمام مسلم رہنما ناممکن کی سیاست چلا رہے ہیں، یعنی ایک ایسی چیز کے نام پر سیاست جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔ ایسی سیاست کا نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
موجودہ زمانے میں اِس قسم کی سیاست ہر مسلم علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے — فلسطین میں یہ نعرہ کہ فلسطین پر یہودی قبضے کو ختم کرو اور وہاں دوبارہ عرب حکومت قائم کرو۔ اِسی طرح کشمیر میں یہ سیاست کہ وہاں سے انڈیا کا غلبہ ختم کیا جائے اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے۔ اِسی طرح سنکیانگ (چین) اور فلپائن جیسے مقامات پر یہ مطالبہ کہ یہاں دوبارہ مسلم رول قائم کرو، جیسا کہ وہ پہلے وہاں قائم تھا، وغیرہ۔اِس قسم کی ہر سیاست ناممکن کی سیاست ہے۔ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ ہر گزملنے والا نہیں۔ اِس قسم کی ناممکن سیاست کا واحد انجام یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ بھی چھن جائے اور مزید کچھ حاصل نہ ہو۔ ناممکن کی سیاست عقل کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔ سیاست کے معاملے میں عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اس کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ جہاں مثبت نتیجہ ملنے کی امید نہ ہو، وہاں ملے ہوئے پر قناعت کرنا ہے، نہ کہ نہ ملے ہوئے کے لیے لڑائی چھیڑنا۔ ناممکن کی سیاست ہمیشہ صرف لیڈروں کے لیے مفید ہوتی ہے، عوام کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ناممکن کی سیاست لیڈر کے لیے استحصال (exploitation) کی سیاست ہے اور عوام کے لیے صرف نادانی کی سیاست۔ ناممکن کی سیاست کے لیے کم سے کم جو لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ خود کشی کی سیاست ہے۔ خود کشی سے کم کوئی لفظ اِس تباہ کن سیاست کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں۔ مزید یہ کہ ناممکن کی سیاست صرف ایک فرد کی خود کشی نہیں ہے، بلکہ وہ پوری قوم کی خود کشی ہے۔
واپس اوپر جائیں
آج کل ’’عظمت‘‘ کے نام پر ہر جگہ شان دار کانفرنس ہورہی ہیں— عظمت اسلام کانفرنس، عظمتِ قرآن کانفرنس، عظمتِ رسول کانفرنس، عظمتِ صحابہ کانفرنس، وغیرہ۔ عظمت کے نام پر آج کل اِس قسم کی کانفرنسوں کی بہت زیادہ دھوم ہے۔ اِن مختلف کانفرنسوں کا اگر ایک مشترک نام دینا ہو تو وہ صرف ایک ہوگا، اور وہ ہے عظمتِ خویش کانفرنس۔ اِس قسم کی تمام کانفرنسیں دراصل دین کے نام پر اپنے دنیوی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ عین وہی برائی ہے جس سے یہود کو اِن الفاظ میں منع کیاگیا تھا: ولا تشتروا باٰیاتی ثمناً قلیلاً (
دورِ زوال میں یہود کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ دین کے نام پر دنیا حاصل کرنے لگے۔ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، آج یہی حال موجودہ مسلمانوں کا ہوچکا ہے۔ موجودہ مسلمانوں کے یہاں دین کے نام پر بڑے بڑے نمائشی کام ہورہے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سے، اُن کا نشانہ صرف یہ ہوتا ہے کہ دین کے نام پر دنیوی مقصد کو حاصل کیا جائے۔ مثلاً دولت، شہرت، عزت، عہدہ، اقتدار، وغیرہ۔
حدیث میں آیا ہے کہ قدیم اہلِ کتاب
واپس اوپر جائیں
مسلم دنیا کے ایک مشہور عرب عالم کو ہندستان بلایا گیا۔ یہاں تین دن کے اندر اُن کے مختلف پروگرام ہوئے، دہلی میں بھی اور دہلی سے باہر بھی۔ اِن پروگراموں میں دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ، اطراف کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
مذکورہ عرب عالم کا خصوصی پروگرام
یہ عنوان مذکورہ تقریر کا خلاصہ ہے۔مگر اِس تقریر میں مسلمانوں کے لیے کسی متعین راہِ عمل کی نشان دہی موجود نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان پچھلے دو سو سال سے قرآن اور تعلیماتِ رسول کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں۔ ہر مسجد، ہر مدرسہ، ہر مسلم ادارہ، ہر مسلم اسٹیج پر اِسی کا چرچا ہے۔ ایسی حالت میں، اصل سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسول میں مسلمانوں کے مسائل کا حل موجود ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسول کے نام پر زبردست سرگرمیوں کے باوجود کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
دو سوسال پہلے جس طرح مسلم رہنما ساری دنیا میں سازش اور ظلم کی بات کرتے تھے، آج بھی تمام مسلم رہنما ظلم اور سازش کی شکایت کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل کام ماضی کی مسلم سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ ہے، اور جب اِن سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اِن مسلم رہنماؤں نے قرآن اور سنت کے نام پر پُرجوش تقریریں کیں، لیکن وہ صحیح راہِ عمل کی نشان دہی نہ کرسکے۔ یہصحیح راہِ عمل ہے — مسائل (problems) کا چرچا کرنے کے بجائے مواقع (opportunities) کو دریافت کرنا اور دانش مندی کے ساتھ اِن مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔
واپس اوپر جائیں
Road to God
کہا جاتا ہے کہ حجری دور (stone age) میں ایک بار ایسا ہوا کہ دو آدمی کسی بات پر غصہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسری کے طرف پتھر پھینکنے لگے۔ اتفاق سے ایک شخص کا پتھر دوسرے شخص کے پتھر سے ٹکرا گیا۔ اُس وقت دو پتھر کے ٹکرانے سے اسپارکنگ (sparking) ہوئی۔ پتھر سے ایک چنگاری نکلی۔ اِس چنگاری کو دیکھ کر دونوں آدمی اپنا غصہ بھول گئے۔ دونوں آدمی اپنے اپنے پتھر کو لے کر اس کو دیکھنے لگے، تاکہ وہ چنگاری کا راز دریافت کریں۔
کہا جاتا ہے کہ یہی وہ واقعہ ہے جہاں سے سچائی کی تلاش کا آغاز ہوا۔ لوگ اِس سوال پر غور کرنے لگے کہ کیا یہاں انسان اور مادہ (matter) کے سوا کوئی اور طاقت موجود ہے۔ یہ سوال دھیرے دھیرے خدا کے تصور تک پہنچا۔ یہ سیکولر مفکرین کا نظریہ ہے۔ مگر اسلام کا تصور یہ ہے کہ پہلے انسان (آدم) ہی سے خالق کے وجود کا تصور انسان کے علم میں آچکا تھا۔ پتھر کے ٹکرانے کا واقعہ اگر درست ہو تو یہ فطرت کے قانون کو تلاش کرنے کا آغاز تھا، نہ کہ خدا کو تلاش کرنے کا آغاز۔ ہر پیغمبر نے یہی بتایا کہ اِس عالمِ موجودات کا ایک خدا ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ اُسی خدا کو اپنا معبود بنائے اور اُسی کی عبادت کرے۔
قرآن اِس پیغمبرانہ الہام کا ایک محفوظ ومستندمجموعہ ہے۔ قرآن کی سورہ الذاریات میں انسان کے مقصد تخلیق کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وما خلقت الجن والانس إلا لیعبدون (
خدا کی معرفت کیا ہے۔ خدا اِس کائنات کا خالق ہے۔ اُس کی معرفت یہ ہے کہ تخلیق میں خالق کو دریافت (discover) کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق اپنے آپ میں خالق کا مکمل تعارف ہے۔ ہمیشہ انسان تخلیق میں خالق کو دیکھتا رہاہے۔ موجودہ زمانے میں نیچر کے بارے میں سائنس کی دریافتوں نے تعارف کے اِس دائرے کو ہزاروں گنا زیادہ حد تک بڑھا دیا ہے۔
یہاں اس سلسلے میں ایک بنیادی پہلو کا ذکر کیا جاتا ہے۔اِس بنیادی پہلو کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ اندیشہ ہے کہ خدا کے بارے میں انسان کا مطالعہ اس کو یقین کے بجائے کنفیوژن تک پہنچا دے، وہ خدا کی طرف سفر کرتے ہوئے کسی غیر خدا کی منزل تک پہنچ جائے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کے حوالے سے خدا کے وجود (existence of God) کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً:
Nature and Science Speaks about God
The Evidence of God in an Expanding Universe
اللہ یتجلی فی عصر العلم (انگریزی سے ترجمہ)
مگر سائنس کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ سائنس کامل علم کا نام نہیں۔ سائنس اپنی دریافتوں کے باوجود جہاں تک پہنچی ہے یا پہنچ سکتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر صرف جزئی علم دے سکے۔ اِس حقیقت کو جے این سلیون (JN Sullivan) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
حقیقت یہ ہے کہ خدا کی دریافت کا سفر بنیادی طورپر دو مرحلوں میں طے ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جو عقلی غوروفکر اور سائنسی معلومات کے ذریعے طے ہوتا ہے۔ یہ ذریعہ بلا شبہہ نہایت اعلیٰ ذریعہ ہے۔ لیکن وہ اپنے آخری درجے میں بھی ایک مسافرِ حق کو جہاں پہنچاتا ہے، وہ صرف احتمال (probability) ہے، یعنی— امکانی طورپر یہاں ایک خدا کا وجود ہے:
Probably there is a God.
یہاں احتمال (probability) سے مراد سادہ طور پر صرف احتمال نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد اعلیٰ عقلی احتمال ہے۔ اعلیٰ عقلی احتمال کو دوسرے لفظوں میں شِبہہِ یقین (semi-conviction) کہاجاسکتا ہے۔ احتمال کا یہ مقام وہ مقام ہے جہاں آدمی شک (doubt) کے لمبے راستے کو طے کرکے آخر کار پہنچتا ہے۔ یہ احتمال دراصل درمیان کا ایک مقام ہے۔ اس کے پیچھے کی طرف شک ہوتا ہے اور آگے کی طرف یقین۔ مگر یہ احتمال اتنا زیادہ قوی ہوتا ہے کہ اب شک کی طرف دوبارہ واپسی اس کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ آگے یقین (conviction) کی طرف بڑھے۔
ایسا ایک آدمی جب پیچھے کی طرف راستہ بند پاکر آگے کی طرف جانا چاہتا ہے تو آگے کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہی اس کو ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر وجدان (intuition) کی سطح پر معرفت کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جس علم کا ادراک اب تک مجھے خارجی معلومات (external data) کے ذریعے ہو رہا تھا، اُس علمی معرفت تک اب میری براہِ راست رسائی ہوگئی ہے۔ جس علم کو اِس سے پہلے میں اپنی خارجی بصارت (objective observation) کے ذریعے جاننے کی کوشش کررہا تھا، وہ علم اب میرے لیے داخلی بصیرت (inner perception) کا حصہ بن گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عقلی غور وفکر کی حد خلا (vacuum) پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بعد فوراً دریافت کا ایک نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ وجدان کا دروازہ ہے۔
آدمی کے اندر بیک وقت دو صفتیں ہیں — عقل (reason)، اور وجدان (intuition) ۔ عقل کسی مجہول چیز کا نام نہیں۔ اِسی طرح وجدان بھی کسی مجہول چیز کا نام نہیں۔ باعتبار واقعہ دونوں ہی مسلّمہ حقائق پر مبنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عقل خارجی حقائق کی بنیاد پر کام کرتی ہے، جب کہ وجدان براہِ راست طور پر داخلی حقیقت سے جڑا ہوا ہے۔ عقل جس چیز کو خارجی شواہد کے ذریعے معلوم کرتی ہے، وجدان اُسی چیز کو داخلی فطرت کے ذریعے جان لیتا ہے۔ عقل کا سفر زمان ومکان (time & space) تک محدود ہے، لیکن وجدان کا سفر زمان ومکان سے باہر (beyond time & space) تک وسیع ہے۔
احتمال سے یقین تک پہنچنے کا یہ معاملہ کسی خوش فہمی (wishful thinking) پر مبنی نہیں، وہ تمام تر علم کے اوپر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص پوری سنجیدگی کے ساتھ احتمال کے درجے تک پہنچتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسا فطری واقعہ ہوتا ہے جو اُس انسان کے ساتھ لازماً پیش آتا ہے جو حقیقی معنوں میں احتمال کے مقام تک پہنچ گیا ہو۔
یہاں یہ سوال ہے کہ وجدان کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کو کیوں کر مستند علم سمجھا جائے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جس آدمی کے اوپر وجدان کا یہ دروازہ کھل جائے، وہ اپنی داخلی بصیرت کے تحت ایسی باتوں کو جاننے لگتا ہے جس کا علم اُس کو پہلے حاصل نہ تھا۔ بعد کو خارجی حقائق بالواسطہ طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُس کو اپنے وجدان کے ذریعے جو علم حاصل ہوا تھا، وہ ایک حقیقی علم تھا، وہ کوئی فرضی واہمہ نہ تھا۔ راقم الحروف کو ذاتی طورپر بار بار اِس کا تجربہ ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی طریقہ (sientific method) کو مستند طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی چیز کودریافت (discover) کرنے کے لیے سائنس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ — پہلے مفروضہ، اس کے بعد مشاہدہ، اور پھر تصدیق:
Hypothesis, Observation, Verification
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ایک سوچنے والے دماغ میں ایک تصوراتی مفروضہ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ متعلق شواہد کی تحقیق کرتا ہے۔ اگر یہ شواہد اس کے مفروضہ کی تصدیق کریں تو اس کے بعد اس کا مفروضہ ایک مسلّمہ حقیقت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ وجدان کے ذریعہ دریافت ہونے والی حقیقت کا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوتاہے کہ پہلے ایک سچے متلاشی (true seeker) کے دماغ میں ایک تصور آتا ہے۔ اِس کے بعد وہ متعلقہ حوالوں (relevant reference) کی روشنی میں اس کی مزید تحقیق کرتاہے، یہاں تک کہ ثابت ہوجاتاہے کہ اس کا مفروضہ درست تھا۔
راقم الحروف کو اپنی تلاش کے دوران بار بار ایسے تجربات پیش آئے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صوفیا کے حلقے میں ایک قول کا حدیثِ قدسی کی حیثیت سے بہت چرچا ہے۔ وہ قول یہ ہے: کنتُ کنزاً مخفیا، فأحببتُ أن اُعرف، فخلقتُ خلقاً، فبی عرفونی (کشف الخفاء، 2/1011 ) یعنی میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پھر میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں، پھر میں نے ایک مخلوق (انسان) کو پیدا کیا، پھر انسان نے مجھ کو پہچانا۔
میرا بے آمیز وجدان کہتا تھا کہ یہ قول بالکل درست ہے۔ یہ معرفت کے معاملے کی بالکل صحیح تعبیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اِس روایت کی کوئی قابلِ اعتماد سند موجود نہیں۔ اِس لیے علما عام طور پر اِس کو مستند نہیں مانتے۔ تاہم میں اس کی تحقیق کرتا رہا۔ چناں چہ میں اِس دریافت تک پہنچا کہ خود قرآن میں اِس تصور کی اصل موجود ہے۔ قرآن کی سورہ الذاریات میں یہ آیت آئی ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (
اِس مثال میں، میرے وجدان نے مجھ کو ایک علم تک پہنچایا، وہ یہ کہ اس کی اصل خود قرآن میں موجود ہے۔ اِس کے بعد میںنے مزید غور کیا تو میں اِس دریافت تک پہنچا کہ مذکورہ قول دراصل ایک تفسیری قول ہے جس کو قائل نے آیتِ قرآنی کی رعایت سے، حدیثِ قدسی کی زبان میں بیان کردیا۔ اِس قول کے الفاظ اگر بدل دئے جائیں اور اس کو ایک تفسیری قول کی شکل دے دی جائے تو وہ اِس طرح ہوگا: کان اللہ کنزاً مخفیا، فأحبّ أن یُعرف، فخلق الخلق۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک سچے متلاشی کا وجدان، عقلی بنیاد سے بھی زیادہ مضبوط بنیاد ہے۔ عقلی بنیاد آدمی کو صرف فنی سطح کے ظاہری علم تک پہنچاتی ہے، لیکن ایک سچے متلاشی کا وجدان مزید اضافے کے ساتھ حقیقت شناسی (realization of truth) کی سطح پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وہ سطح ہے جب کہ ایک ترقی یافتہ ذہن ادراکِ حقیقت کی ایک ایسی سطح پر کھڑا ہوجاتا ہے جہاں سے وہ حقیقت کو براہِ راست دیکھ سکے، وہ اِس درجے تک پہنچ جائے کہ وہ حقیقت کو کسی دلیل کے بغیر پہچاننے لگے۔
اِس معاملے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وجدان کی سطح پر جو یقین حاصل ہوتا ہے، وہ ہمیشہ بڑھتا رہتاہے۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ کوئی غیر حقیقی چیز کبھی اضافہ پذیر نہیں ہوتی۔ واہمہ اور حقیقی وجدان میں یہ فرق ہے کہ واہمہ ہمیشہ بے ثبات ہوتا ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر آدمی کو متاثر کرتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر کسی شخص کی رسائی حقیقی وجدان تک ہوجائے تو اُس پر کبھی زوال نہیںآتا۔ حقیقی وجدان ہمیشہ ترقی کرتارہتا ہے، اس کے یقین کا سفر کبھی ختم نہیںہوتا، وہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
واہمہ ایک مجہول چیز ہے، اس کی کوئی شعوری بنیاد نہیں۔ اِس کے برعکس، وجدان پوری طرح شعور پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجدان خود شعور کا ایک اعلیٰ درجہ ہے۔ وہ شعور کی تکمیل ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو اس کا داخلی احساس خود بتا دے گا کہ کون سی بات صرف واہمہ ہے اور کون سی بات وجدانی علم سے تعلق رکھتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عقل اور وجدان دونوں تلاش کی منزلیں ہیں۔ آدمی کی عقل اُس کو وجدان تک پہنچاتی ہے اور وجدان اس کو حقیقت کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا دیتا ہے۔ جو آدمی اِس اعلیٰ مرتبے تک پہنچتا ہے، اس کے لیے عقل اور وجدان کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل مکمل طور پر وجدان ہوتی ہے، اور اس کا وجدان مکمل طورپر عقل۔ یہی وہ مقام ہے جس کو معرفتِ حق کا اعلیٰ درجہ کہاجاتا ہے۔
تاہم عقلی دریافت اور وجدانی دریافت میں یہ فرق ہے کہ عقلی دریافت ایک موضوعی دریافت (objective discovery) ہے۔ اِس کے مقابلے میں، وجدانی دریافت کی حیثیت ایک داخلی دریافت (subjective discovery) کی ہے۔ اِس بنا پر دونوں دریافتوں کے درمیان بظاہر یہ فرق باقی رہتا ہے کہ عقلی دریافت ایک قابلِ مظاہرہ (demonstrable) دریافت ہے۔ اِس کے مقابلے میں، وجدانی دریافت خارجی طورپر قابلِ مظاہرہ نہیں۔مگر یہ فرق کوئی حتمی فرق نہیں۔ جہاں تک صاحبِ وجدان کا معاملہ ہے، اس کے اپنے لیے دونوں قسم کی دریافتیں یکساں طورپر قابلِ یقین ہوتی ہیں، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ ایک چیز کو وہ پیشانی کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور دوسری چیز کا مشاہدہ وہ دماغ کی آنکھ سے کرتا ہے۔
تاہم یہ فرق آخری فرق نہیں۔ ایک شخص جس کو حقیقی معنوں میں وجدانی دریافت ہو، وہ اِس کے نتیجے میں عام انسان سے واضح طورپر مختلف (different) بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کا بولنا، اس کا سلوک، اس کے اخلاق، اس کے آداب واطوار، ہر چیز دوسرے انسانوں سے اتنا زیادہ مختلف ہوجاتے ہیںکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک مختلف انسان (man with a difference) بن جاتاہے۔ اس کی شخصیت کا یہ فرق اہلِ نظر کے لیے وہی درجہ رکھتا ہے جس کو عقل اور منطق کی زبان میں دلیل کہاجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت نظام الدین اولیاء (وفات:1325 ء) کے ملفوظات میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک مجلس میں کہا کہ خیر وشر دونوں کا خالق اللہ ہے۔ جس کو جو کچھ پہنچتا ہے، اسی کی مشیت سے پہنچتا ہے۔ اِس کے بعد انھوں نے مشہور ایرانی صوفی ابو سعید ابو الخیر (وفات:
’’فرمود کہ ہم چنیں است ولے آں می بینم کہ کدام بد بخت را نامزد این کار کردہ اند‘‘۔ یعنی یہ بات ایسی ہی ہے، لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ خدا نے کس بد نصیب کو اِس کام کے لیے نامزد کیا ہے۔ (فوائد الفوائد، صفحہ
یہ واقعہ حسن جواب کی ایک مثال ہے۔ اِسی بات کو قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (
Bear patiently with what they say, and ignore them politely.
اگر مخاطب سنجیدہ ہے اور وہ بات کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو دلیل کی زبان میں سمجھائیے، اور اگر آپ محسوس کریں کہ مخاطب سمجھنے کے موڈ میں نہیں ہے تو اس کو حسنِ جواب سے ٹال دیجئے۔ یہی ’ہجر ِ جمیل‘ ہے۔ یہ دعوتی عمل کا اہم اصول ہے۔
داعی کو چاہیے کہ وہ مذکورہ دونوں قسم کے انسانوں میں فرق کرے، ورنہ وہ غیر ضروری طورپر لوگوں سے الجھ جائے گا اور اپنے وقت اور اپنی توانائی کو ضائع کرے گا۔ بعض اوقات حسنِ جواب اُس سے زیادہ اہم ہوتا ہے جتنا کہ باقاعدہ قسم کا علمی جواب۔
واپس اوپر جائیں
ایک خبر کے مطابق، ذہنی تناؤ (mental tension) کا علاج شاک تھیریپی کے ذریعے معلوم کیا گیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ— ہلکی برقی رو خارج کرنے والا ایک آلہ سونے کے دوران استعمال کیا جائے تو اس سے ذہنی تناؤ اور مایوسی کی کیفیت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ سیل فون (cell phone)کے سائز کا یہ آلہ سوتے وقت ماتھے سے لگا دیا جاتا ہے۔ اس میں پیدا ہونے والی برقی رو اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ اِس سے نیند خراب نہیںہوتی ہے۔ رات بھر خارج ہونے والی برقی رو انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے، جس سے منفی کیفیات اور ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے۔ (پندرہ روزہ ’’مستقبل‘‘ نئی دہلی، دسمبر 2010 ، صفحہ 6 )
مگر یہ صحیح نہیں۔ ذہنی تناؤ ایک فکری مسئلہ ہے اور فکری مسئلہ کو صرف فکری تدبیر کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، کوئی ٹکنکل تدبیر اِس معاملے میں کار آمد نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی تناؤ کوئی واقعی مسئلہ نہیں، وہ صرف غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ اپنی سوچ کو درست کر لیجئے، اِس کے بعد آپ کو ذہنی تناؤ کی شکایت نہ ہوگی۔
سوچ کی درستگی کیا ہے۔ وہ ہے اپنی سوچ کو عالمِ خارجی کے مطابق بنانا۔ جس صورت ِ حال کو آپ بدل نہیں سکتے، اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرلینا، اِس حقیقت کو مان لینا کہ آپ دنیا کو بدل نہیں سکتے، اِس لیے آپ کو چاہیے کہ خود اپنے آپ کو بدل لیں۔
حقیقت پسندی یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند (idealist) بنیں، اور خارجی دنیا کے معاملے میں آپ پریکٹکل (practical) بن جائیں۔ یہی دانش مندی (wisdom) کا تقاضا ہے۔ ذہنی تناؤ دراصل یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی معیار اور خارجی واقعہ کے درمیان مفاہمت (adjustment) دریافت نہ کرسکے— ذہنی تناؤ کا حل صرف فکری تھریپی (intellecutal therapy) کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ ٹکنکل تھریپی (technical therapy) کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں
مدر ٹریسا، مقدونیہ (یورپ) میں 1910 میں پیدا ہوئیں اور 1997کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سماجی خدمات پر ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کو 1979 میں نوبل پرائز دیاگیا۔ لیکن مدر ٹریسا کے بارے میں ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ — وہ ذہنی کرب کی حالت میں مریں:
She died in agony.
یہی تقریباً تمام مصلحین (reformers) کا حال ہوا ہے۔ انھوںنے اپنے اصلاحی کام کا آغاز امیدوں کے ساتھ کیا، لیکن جب ان کا آخر وقت آیا تو ہر ایک صرف ناامیدی کی موت مرا۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر مصلح خارجی لوگوں کی اصلاح کو اپنا نشانہ بناتا ہے، اور جب خارجی لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطلوب اصلاح کے لیے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر ہر شخص کامیاب ہوگا، کوئی بھی شخص مایوسی میں مبتلا نہ ہوگا۔
خارجی اصلاح کو نشانہ بنانا، اپنے آپ میں درست ہے، لیکن آئڈیل معنوں میں خارج کی اصلاح کبھی نہیں ہوتی۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ دوسرے لوگ کسی انسان کے قبضے میں نہیں ہوتے، لیکن آدمی کی اپنی ذات یقینی طور پر اس کے قبضے میں ہے۔ ہر آدمی کو اپنی ذات پر کامل اختیار حاصل ہے۔ ایسی حالت میں اصلاح کے لیے اپنی ذات کو نشانہ بنانا، قابلِ حصول کو نشانہ بناناہے، اور قابلِ حصول نشانے کو اپنا نشانہ بنانے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
اگر آپ دوسروں کو نہ بچا سکیں تو اپنے آپ کو بچائیے، اپنے آپ کو منفی نفسیات سے مکمل طورپر محفوظ رکھیے، اپنے اندر مثبت شخصیت کی تشکیل کیجئے۔ اگر آپ اپنی ذات کے اوپر کامیاب ہوگئے تو آپ دوسروں کے اوپر بھی ضرور کامیابی حاصل کرلیں گے۔
واپس اوپر جائیں
خواجہ الطاف حسین حالی (وفات:1914 ) نے اپنی ایک نظم میں ہندستان کو خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے: تونے اے غارت گرِ اقوام واکّال الامم
اکّال کا لفظ آکِل کا مبالغہ ہے۔ اکّال کے معنی ہیں — بہت زیادہ کھانے والا (glutton) ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کا مسلم معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جس کو اکّال الرجال کہنا چاہیے، یعنی شخصیتوں کو کھاجانے والا، اعلیٰ قابلیت کے افراد کو تباہ کردینے والا۔
پچھلے دو سوسال کا زمانہ ایک بالکل نیا زمانہ تھا۔ اِس زمانے میں مسلم شخصیتوں کے لیے کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ جدید دور کو سمجھیں اور جدید تقاضے کے مطابق، لوگوں کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کریں۔ مگر پورے دو سو سال میں کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آتا جس نے دورِ جدید کی نسبت سے حقیقی معنوں میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہو۔ یہ بلاشبہہ مسلم تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
موجودہ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر نہایت اعلیٰ صلاحیت والے افراد پیدا کئے، عربوں میں بھی اور غیر عربوں میں بھی۔ مگر یہ افراد دورِ جدید کا مطلوب کام نہ کرسکے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا مسلم معاشرہ پوری طرح زوال کا شکار ہوچکا تھا۔ اِس زوال یافتہ معاشرے میں جو افراد پیدا ہوئے، وہ اِس فارسی شعر کا مصداق بن گئے کہ — جو چیز نمک کی کان میں جاتی ہے، وہ خود بھی نمک بن جاتی ہے: ہر چیز کہ درکانِ نمک رفت، نمک شد
ڈاکٹر اقبال نے شاعری کو چھوڑ کر علم کے میدان میں کام کرنا چاہا تھا، مگر اُن کے احباب نے ان کو شاعری میں مشغول کردیا۔ یہی دورِ جدید میں تمام باصلاحیت افراد کا حال ہوا ہے۔ کوئی معاشرہ کے اثر سے ادب اور شاعری میں مشغول ہوگیا، کوئی نام نہاد ملی مسائل میں الجھ گیا، کوئی مسلمانوں کی سیاسی رومانیت کا شکار ہوگیا، کوئی مسلمانوں کی فخرپسندانہ نفسیات کو غذا دینے لگا۔ غرض ہر ایک زوال یافتہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بن گیا، بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کو اِس زوال سے نکالنے کی کوئی حقیقی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں
برادرمحترم محمد حسن جو ہر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کے خط کے ساتھ آپ کی کتاب ’’خطابِ نو‘‘ (صفحات
آپ نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ: ’’اگر’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمان بیدار ہوتا ہے کسی بڑی ٹریجڈی کے بعد، تو کیا ایسا اب بھی ہو نہیں چکا‘‘۔ آپ کا یہ جملہ دراصل فطرت کے ایک قانون کو بیان کرتا ہے۔ موجودہ دنیا کو پیداکرنے والے نے اُس کا نظام جس اصول پر قائم کیا ہے، اُس کو مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975 ) نے بجا طورپر چیلنج- رسپانس میکانزم (challenge-response mechanism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
آرنلڈ ٹائن بی کے مطابق، اگر قوم باشعور ہو تو وہ پیش آمدہ چیلنج کا مثبت جواب (positive response) دیتی ہے۔ اِس طرح اس کی تخلیقیت (creativity) میں اضافہ ہوتا ہے۔ چیلنج اُس کے لیے ترقی کا زینہ (stepping stone) بن جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جس قوم کے رہنماؤں نے اس کو بے شعور بنا رکھا ہو، وہ پیش آمدہ چیلنج کا صرف منفی جواب (negative response) دے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خدا کی اس دنیا میں صرف ایک احتجاجی گروپ(protestant group) بن کر رہ جائے۔ ایسی قوم خدا کے لیے بھی غیر مطلوب ہے، اور انسانوں کے لیے بھی غیر مطلوب۔
نئی دہلی،
وحید الدین
واپس اوپر جائیں
سوال
ماہ نامہ الرسالہ (جون 2007 ) میں مسیح کی آمد ثانی سے مراد، مسیح کے رول کی آمد ثانی بتایا گیا ہے۔ براہِ کرم، اِس معاملے کو واضح فرمائیں۔(حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ)۔
جواب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کے بیانات دو قسم کے ہیں— ایک، محکمات۔ دوسرے، متشابہات (
متشابہ اسلوب سے وہی اسلوبِ بیان مراد ہے جس کو فنِ تعلیم میں ڈسکوری متھڈ (discovery method) کہا جاتا ہے، یعنی مسئلہ کو غیر واضح صورت میں طالبِ علم کے سامنے رکھ دینا اور طالب علم کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ اپنی قوتِ فکر کو استعمال کرکے غیر واضح مسئلے کو واضح صورت میں دریافت کرے۔
مسیح کی آمد ثانی کو بیان کرنے کے لیے قرآن اور حدیث میں یہی متشابہ اسلوب اختیار کیاگیا ہے، قرآن میں اشارات کی زبان میں، اور حدیث میں نسبتاً صراحت کی زبان میں۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ الانعام میں 18 نبیوں، بشمول حضرت مسیح، کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے: أولئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (
قرآن کی سورہ الصف میں یہ اشارہ نام کی صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ چناں چہ فرمایا کہ : ’’اے ایمان والو، تم اللہ کے مدد گار بنو جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا، کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ پس بنی اسر ائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگوں نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی، اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں، مدد کی۔ پس وہ غالب ہو گئے‘‘۔ (
قرآن کی اِس آیت میں اہلِ اسلام کو خطاب کیاگیا ہے۔ اُن سے کہاگیا ہے کہ تم اللہ کی نصرت کرنے والے بنو جس طرح تم سے پہلے عیسیٰ کے حواری، اللہ کی نصرت کرنے والے بنے تھے۔ آیت میں مزید یہ بتایا گیا ہے کہ نصرتِ الٰہی کا یہی پیٹرن تمھارے لیے فتح وکامیابی کا ذریعہ ہوگا۔ اِس سے مراد تاریخِ انسانی کا بعد کا زمانہ ہے، یعنی بعد کے زمانے میں مسیحی ماڈل فتح وکامیابی کا ذریعہ بن جائے گا۔
مسیحی ماڈل عین وہی ماڈل ہے جس کا نمونہ ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں ملتا ہے۔ مکی دور میں رسول اور اصحاب رسول نے اپنے خلاف کئے جانے والے تشدد کے جواب میں یک طرفہ صبر کا ثبوت دیا ۔ اِس اعتبار سے مسیحی ماڈل اور پیغمبر اسلام کا مکی ماڈل دونوں ہم معنی الفاظ ہیں، مگر چوں کہ یہ اندیشہ تھا کہ بعد کے زمانے کے مسلمان مکی ماڈل کی اہمیت سے غافل ہوجائیں گے، اِس لیے اِس دعوتی ماڈل کو قرآن میں مسیحی ماڈل کے حوالے سے بیان کیاگیا۔ کیوں کہ حضرت مسیح کی زندگی میں صرف مکی ماڈل ہے، اُن کے یہاں مدنی ماڈل سرے سے موجود نہیں۔
مسیحی ماڈل یا مکی ماڈل سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اُس سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں دعوت کا پرامن طریقہ (peaceful method of dawah) کہا جاسکتا ہے۔ مسیح کے حوالے سے اِس ماڈل کو بیان کرنا صرف تقریبِ فہم کے لیے ہے، نہ کہ حصر کے لیے۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں مدعو کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار ہوتا تھا، حتی کہ بشرطِ استطاعت، تشدد اور قتال کی نوبت آجاتی تھی۔ ’’مدنی دور‘‘ دراصل اِسی دورِ تشدد کی ایک علامت ہے۔ مدنی دور میں رسول اور اصحابِ رسول نے قتال کے جواب میں قتال کے ذریعہ اپنا دفاع کیا۔ مگر یہ قتال بلاشبہہ ایک زمانی ظاہر ہ تھا، نہ کہ مستقل معنوں میں پیغمبرانہ طریقِ کار کا ظاہرہ۔
اسلامی تاریخ کے بعد کے زمانے میں یہ ہونے والا تھا کہ عالمی حالات میںتبدیلی کے نتیجے میں قتال کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن جائے۔ حالات میں ایسا انقلاب آئے کہ پُرامن طریقِ کار پوری طرح نہ صرف ممکن ہوجائے، بلکہ وہ واحد موثر طریقے کی حیثیت اختیار کرلے۔ صرف پُرامن دعوت کے ذریعے وہ سب کچھ قابلِ حصول بن جائے جو قدیم زمانے میں صرف جنگ وقتال کے ذریعے قابلِ حصول سمجھا جاتا تھا۔
پُرامن طریقِ دعوت کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مکی دور میں پوری طرح موجود ہے۔ مگر حالات کے تقاضے کے تحت ایساہوا کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر اسلام کو دفاعی طورپر جنگ میں حصہ لینا پڑا۔ اِس طرح پیغمبر اسلام کی زندگی میں دونوں طرح کی مثالیں شامل ہوگئیں ۔ اب ضرورت تھی کہ بعد کے زمانے کی نسبت سے، پرامن طریقِ کار کو ممیَّز طورپر (distinctively) بیان کیاجائے۔ دراصل یہی مقصد ہے جس کے لیے مسیح کی آمد ثانی (second coming of Christ) کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ مسیح کی آمد ثانی سے مراد دراصل مسیحی ماڈل کی آمد ثانی ہے۔ یہ بات دراصل دورِ آخر کے تبدیل شدہ حالات کی نسبت سے کہی گئی ہے۔ اِس میں دراصل داعی کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ کے بعد کے زمانے میں مسلح طریقِ کار سے کامل پرہیز کرے، دعوت کے لیے وہ صرف پرامن طریقِ کار کو استعمال کرے جو کہ دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے واحد موثر طریقہ بن جائے گا۔
حدیث میں مستقبل کے جس واقعے کو مسیح کی آمد ثانی کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، اُس واقعے کو بالفاظِ دیگر، مکی ماڈل کی آمد ثانی کہاجاسکتا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے، پہلے بیان اور دوسرے بیان میں کوئی فرق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ قرآن میں جن انبیا کا ذکر ہے، اُن میں سے ہر ایک مختلف حالات میں آیا۔ ہر ایک نے اپنے زمانی حالات کے اعتبار سے، ایک طریقہ اختیار کیا۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: لکلّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجا(
حضرت مسیح نے اپنے حالات کے لحاظ سے خالص پُرامن دعوتی عمل کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس اعتبار سے حضرت مسیح پرامن دعوتی عمل کے لیے ایک امتیازی ماڈل بن گئے۔ تاریخی طورپر ان کے ماڈل میں پرامن طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ شامل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دور کے حالات میں پرامن دعوتی عمل کے لیے مسیحی ماڈل کو بطور حوالہ (reference) استعمال کیا گیا۔
سوال
اسلام میں ترکِ دنیا کا تصور کیا ہے، تزکیہ سے اس کاکیا ربط ہے، نیزدنیا سے تعلق کی نوعیت کیا ہے، براہِ کرم، اِس کو واضح فرمائیں (شارق حسین، دہلی)
جواب
دنیا سے تعلق کی تین صورتیں ہیں— دنیا میں ملوث ہونا، دنیا کو ترک کرنا، دنیا کو اعلیٰ مقصد کے لئے استعمال کرنا۔پہلی صورت، دنیا میں پوری طرح ملوث ہونا ہے۔ اس کو دنیا پرستی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی چیزوں ہی کو اپنا مقصود بنا لیں، جو اپنی تمام صلاحیتیں دنیا کو پانے کے لیے وقف کردیں، جو دنیا کی کامیابی کو کامیابی سمجھیں اور دنیا کی ناکامی کو ناکامی۔ قرآن کے مطابق، یہ پورے معنوں میں بھٹکے ہوئے لوگ ہیں (
اس معاملے میں دوسری قسم وہ ہے جس کو ترکِ دنیا کہا جاتا ہے، یعنی دنیا کے لوگوں سے اور دنیا کی چیزوں سے کنارہ کشی کرکے الگ تھلگ زندگی گزارنا۔ یہ لوگ بطور خود اس کو بہتر سمجھتے ہیں، مگر یہ صرف غلو (extremism) ہے اور غلو اسلام میں نہیں ہے (لاغلوَّ فی الإسلام)۔
تیسری صورت ہے —دنیا کو اعلیٰ ربانی مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ دنیا سے تعلق کی یہی صورت درست ہے اور یہی اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔
ترکِ دنیا، ترکِ دعوت ہے۔ دنیا کیا ہے ، دنیا خدا کی تخلیق ہے۔ اور جو چیز خدا کی تخلیق ہو، وہ اصلاً برائی نہیں ہوسکتی۔ حدیث میںآیا ہے: إن الدنیا خُلقت لکم، وأنکم خُلقتم للآخرۃ (تخریج الإحیاء للعراقی، 3/252 )۔ اس حدیث سے دنیا کی صحیح نوعیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کا راستہ دنیا سے ہو کر گزرتا ہے۔ دنیا کی چیزوں کا صحیح استعمال ہی تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
سوال
سوال یہ ہے کہ جب ہم سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت سے ہیں، ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں،تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نے الگ الگ فرقے اور مسلک بنا لئے ہیں۔ (ایس امین باشا، کرناٹک)
جواب
مسلمانوں میں مسلک کی بنیاد پر جو مختلف گروہ ہیں، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ، سلفی، یہ تمام گروہ بعد کے زمانے میں بنے ہیں۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ گروہ موجود نہ تھے۔ جو گروہ بندی دورِ اول میں نہ ہو اور بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہو، وہ اپنے آپ میں قابل رد ہے۔ یہ مختلف گروہ فقہی مسلک کی بنیاد پر بنے ہیں، لیکن کوئی بھی گروہ کسی بنیادی اختلاف کے تحت نہیں بنا ہے، بلکہ وہ صرف جزئیات میں اختلاف کے تحت بنا ہے۔ یہ جزئی اختلافات بے اصل نہیں ہیں، وہ خود صحابہ کے درمیان موجود تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں اِن جزئیات کی بنا پر الگ الگ گروہ نہیں بنے، مگر بعد کے زمانے میں انھیں جزئیات کو لے کر الگ الگ گروہ بن گئے۔
اِس فرق کا سبب جزئیات میں غلو (extremism) ہے۔صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ تصور تھاکہ جزئیات میں توسع ہے، یعنی اُن میں سے جس پر چاہو، عمل کرسکتے ہو، تم ہدایت پر رہو گے (بأیہم اقتدیتم اہتدیتم)۔ لیکن عباسی دور کے فقہاء نے جزئیات کے معاملے میں غلو کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ہر ایک درست نہیںہوسکتا، ایک درست ہوگا تو دوسرا غلط ہوگا۔ انھوں نے غیر ضروری بحثوں کے ذریعے تعدّد میں توحّد پیدا کرنے کی کوشش کی، یعنی کئی کو ایک بنانا۔ جزئیات میں اِسی غلو یا تشدد کی بنا پر مختلف فقہی گروہ بن گئے۔
قرآن اور حدیث میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ غلو اسلام میں نہیں ہے۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان، صحابہ اور تابعین کے دور کی طرف لوٹیں۔ وہ اِس اصول کو مان لیں کہ یہ مختلف فقہی مسالک مبتدعانہ طورپر وجود میں آئے ہیں۔ وہ قابلِ ترک ہیں، نہ کہ قابل پیروی۔
سوال
نصاب زکوٰۃ کے تعلق سے قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائِ کرام وائمہ دین کے فتویٰ سے مندرجہ ذیل سوال کی عامۃ المسلمین کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تصریح فرما کر مشکور فرمائیں:
1 - نصاب زکوٰۃ کا تعین 7.5 تولہ سونا یا
اب تک علماء کرام
الف: 7.5 تولہ سونا کی قیمت کو نصاب کیوں نہ مانا جائے۔
ب: 7.5 تولہ سونا اور
2 - شافعی مسلک میں استعمالی زیورات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں، جب کہ حنفی مسلک میں استعمالی زیورات پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ موجودہ دور میں عام مسلمان کو نہ تو مسالک کا علم ہے اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتاہے۔ اس لئے شافعی مسلک کو اختیار کرنے میں کیا قباحت ہے۔
3 - لڑکی کو بوقت نکاح اس کے والدین اور شوہر کی طرف سے زیورات جہیز یا تحفہ میں دئے جاتے ہیںاور وہ صاحب نصاب ہوجاتی ہے۔لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کسی آمدنی کے ذریعہ کا مالک نہیں بنایا جاتا۔ شوہر بیوی کے سرمایہ کی زکوٰۃ کیوں دے۔ اور اگر شوہر کی آمدنی زکوٰۃ ادا کرنے کی متحمل ہو تو ایسی حالت میںکیا کیا جائے۔
الف: متوسط کلاس میں زیورپشت درپشت چلتا ہے۔ اگر زیور فروخت کرکے زکوٰۃ دی جاتی ہے تو وہ روپیہ ایک سال میں ہی خرچ ہوجائے گا اور فیملی مفلس ہوجائے گی، نیز اپنے بچوں کی شادی کے وقت مقروض ۔ اِن حالات میں شرعی احکامات کیا ہیں۔
4 - متوسط طبقہ میں مشترکہ خاندانی نظام قائم ہے۔ شادی شدہ جوڑے کے پاس نصاب کے مطابق زیور ہے، لیکن آمدنی بہت قلیل ہے۔ ضروریات زندگی کا بار بھی والدین کے ذمہ ہے۔ اس صورت میں کیا کفالت کرنے والے ان کی زکوٰۃ بھی ادا کریں یا یہ جوڑا زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔
5 - علی کے پاس نصاب کے مطابق کیش تھا۔ اس نے قسط اسکیم کے تحت مکان؍زمین ؍کار خرید لی اور وہ کئی سال کے لئے زکوٰۃ سے بری ہوگیا۔ دوسری طرف حسین کے پاس بھی روپیہ ہے، لیکن وہ یک مشت قیمت دے کر مکان؍زمین؍کار خریدنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ ہر سال کچھ رقم پس انداز کرتا ہے۔ کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا وہ علی کی طرح زکوٰۃ سے بری۔(شجاع الدین، علی گڑھ)
جواب
عرض ہے کہ مذکورہ قسم کے مسائل میں محتاط طریقہ یہ ہے کہ آپ کو مروّجہ مسالک میں سے جس مسلک پر اطمینان ہو، آپ اُس پر عمل کریں۔ بالفرض آپ کو کسی مسلک پر اطمینان نہ ہو تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ذاتی طورپر اپنی دریافت کے مطابق عمل کریں۔ اِس معاملے کو بحث کا موضوع بنانا صرف اختلاف میں اضافہ کرے گا، اور اسلام میں ہر وہ اقدام غلط ہے جو اختلاف میں اضافے کا سبب بنے (الخلاف شر) ۔ وہ اصلاح، اصلاح نہیںجس کا نتیجہ مزید اختلاف کی صورت میں نکلنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں
1 - امام حرم مکی ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کی آمد (مارچ 2011) کے موقع پر دہلی (رام لیلا میدان،جامع مسجد) میں مختلف مقامات بڑے اجتماعات ہوئے۔ سی پی ایس کے ممبران نے اِس موقع پر لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ خاص طور پر سی پی ایس کے دو ممبران مسٹر رامش صدیقی (نئی دہلی) اور ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور) نے امام حرم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران امام حرم نے بتایا کہ اس وقت صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں اُن کے زیر مطالعہ ہیں: الإسلام یتحدی اور التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم۔
2 - سہارن پور (یوپی )کے جے وی جین (J.V. Jain) کالج کے ہال میں
3 - سی پی ایس کے تحت چلائے جانے والے القرآن مشن (Al-Quran Mission)سے وابستہ مسٹر علی (کلکتہ) نے مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں افریقہ اور برازیل (ساؤتھ امریکا) کا سفر کیا۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
4 - نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں
The Story is the Distance Between You and the Truth
یہاں ایک اسٹوری بک کے مجموعہ (Teaching Stories) کا افتتاح کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
5 - مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں کولمبو انٹرنیشنل اسکول (سری لنکا) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس (ممبئی) سے وابستہ مسٹر ہارون شیخ نے لوگوں تک قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر پہنچایا۔ یہاں دوسرے ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اِن لوگوں نے خوشی کے ساتھ قرآن کو حاصل کیا۔
6 - سہارن پور (یوپی) کے حلقہ سی پی ایس نے
7 - الحکمہ فاؤنڈیشن (نئی دہلی) کے تحت
8 - سہارن پور(یوپی) کے نیشنل میڈیکل کالج کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر3 اپریل 2011 کو مقامی لوگوں کے علاوہ، یوپی گورنمنٹ کے منسٹر اور ایجوکیشنل ڈپارٹمنٹ کے دیگر نمائندوں کو قرآن کاانگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح 10 اپریل 2011 کو مذکورہ کالج میں ڈاکٹر ہینی مین ڈے کے موقع پر بھی آئے ہوئے مہمانوں کو کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسلم خان کی طرف سے قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
9 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے 5 اپریل 2011 کو نئی دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس دہلی اور دیگر مقامات کے افراد شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں فطرت کے ماحول میں ایک تربیتی خطاب کیا۔ گارڈن میں مغرب کی نمازِ باجماعت کے ساتھ یہ پروگرام ختم ہوا۔
10 - سہارن پور (یوپی) کے ’’پیس ہال‘‘ میں
آکسفورڈ سنٹر آف اسلامک اسٹڈیز (Oxford Centre of Islamic Studies) ۔
مارک فیلڈ سنٹر، لیسٹر (Markfield Centre, Leicester) ۔
ایس او ایس، لندن یونی ورسٹی (School of Oriental and African Studies)
Peace and spirituality are two phases of a single coin— peace is external culture of spirituality, and spirituality is internal culture of peace.
سنتِ رسول، ختم نبوت، آزادیٔ فکر اور اسلام (
عورت دورِ جدید میں، توکل علی اللہ، اسلام اور مساوات (20 اپریل 2011 )
دعوت الی اللہ، طلاق اسلام میں، اسلامی جہاد کیا ہے (3 مئی 2011 )
18 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی ٹیم نے 10 مئی 2010 کو دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام کیا۔ یہ ٹیم کے افراد کے لیے ایک تربیتی پروگرام تھا۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے ٹیم کی دعوتی ذمے داری کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی۔
19 - نئی دہلی کے ایم سی سی ایس (Media Content & Communications Services) ٹی وی چینل کے نمائندہ مسٹر روی کانت نے
20. Mr. Sajid Anwar, Roorki, Uttra Khand: Recently I was on a business trip to Europe. This journey was utilized for Dawah purpose. I visited 3 countries – Belgium, Iceland and Germany during 28th March to 2nd April, 2011. During the travel, I gave the Quran, The prophet of Peace and other dawah literature to many people, mainly technical experts, there. The people accepted with thanks. Comments of some of the recipients are as below:
ک I can not attend the meeting in the evening as today in the morning I have got a copy of the Quran which I have to read. (Prof Valdimer, Iceland)
ک I was planning to buy Quran for long. Thanks for presenting. I will definitely read this and other books and send you my comments. (Mr. Thor, Director, Iceland)
ک After reading the chapter “Negative Thinking Alien to Islam” of The Prophet of Peace, she commented – Truly nice, excellent!. So clearly explained without any ambiguity. (Ms. Shifa Modak, England)
1- I wanted to thank Maulana Wahiduddin Khan for his tireless effort to address us first as human beings then as religious creatures. (Joseph Salomonsen, lecturer Comparative Religion, Norway)
2- I found a book written by Maulana Wahiduddin Khan in my house. It was in the library, and someone else must have been reading it. Anyway, now I am reading it. It's called - The Reality of Life. I've already read bits of it, and really like it. Maulana speaks with so much practical wisdom. (Gaurja Prashar, Jesus and Mary College, Delhi University)
ک غالباً 1985 کی بات ہے۔ مجھے الرسالہ کا پہلا شمارہ اپنے ایک ساتھی نور الاسلام خاں کے ذریعے انجینئرنگ کالج کے ہوسٹل میں ملا۔ میں نے جب الرسالہ کی ورق گردانی شروع کی تو ’’درخت‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے ایک مضمون نے مجھ کو بے حد متاثر کیا۔ اِس میں ایک اہم سبق یہ تھا کہ ہمیں درخت کی طرح کاربن ڈائی آکسائڈ لے کر دوسروں کو آکسیجن مہیا کرنا چاہئے۔ بعد میں میری زندگی تقریباً اسی اصول پر چلتی رہی اور اِس طرح نہ صرف میری خاندانی زندگی، بلکہ سوشل لائف بھی مستحکم رہی۔ کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے دوران الرسالہ نے ہمیں کم از کم ذہنی طورپر زندہ رکھا۔ صاحب الرسالہ نے 1975 میں اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ میں لکھا تھا کہ: ’’میرے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ میں نے سچائی کو کم ازکم فکری طور پر دریافت کرلیا۔ اب شاید میں یہ کہتے ہوئے مرسکتا ہوں کہ : ’’میرے بعد آنے والے کو پچھلی سیڑھیاں نہیں بنانی پڑیں گی‘‘ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صاحب الرسالہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور اب اِس دعوتی مہم کی کامیابی کا انحصار تمام تر ہماری انفرادی کوششوں پر ہے، کیوں کہ صاحب الرسالہ نے اپنا حق ادا کردیا۔ ایسے لٹریچر کی فراہمی جو کسی بھی انسان کو اپنے نیچر کی آواز محسوس ہوتی ہے، ایسے لٹریچر کی فراہمی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آج کی چیز ہے۔ سائنٹفک اسلوب میں دعوتی لٹریچر کی فراہمی یقینا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے لئے پوری انسانیت صاحب الرسالہ کی احسان مند ہے۔(انجینئر الطاف حسین شاہ،کشمیر)
ک میں بچپن سے تلاشِ حق میں سرگرداں تھا۔ میرے کالج کے تین سال اِس طرح گزرے کہ بے چینی اور بے قراری کے عالم میں رونا میرا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن بک اسٹال پر میری نظر ماہ نامہ الرسالہ پر پڑی۔ الرسالہ کو ہاتھ میں لیا اور اس کے مضامین دیکھے تو اچانک مجھ پر یہ احساس غالب ہوا کہ خدا نے میرے لئے ہدایت اور روشنی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد میں نے الرسالہ کی ایجنسی لی۔ کیوں کہ میں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ الرسالہ سے وابستہ ہونے کا مطلب الرسالہ کی دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ الرسالہ سے پہلے، شاعری اور افسانہ کی طرف میرا رجحان تھا۔ اب میں شاعری بھی بھول گیا اور افسانہ بھی۔ الرسالہ سے پہلے میں بحث و تکرار کا عادی تھا۔ الرسالہ نے مجھے الفاظ سے نکال کر معنی کی دنیا میں پہنچا دیا۔ الرسالہ فکر کیا ہے۔ الرسالہ فکر دراصل پیغمبرانہ مشن کی صحیح ترین تعبیر اورتشریح ہے جو عقل وفطرت کے ناقابلِ تردید دلائل اور شواہد پر مشتمل ہے۔ اِس تعبیر اور تشریح کی بنیاد قرآن وحدیث اور سیرتِ رسول ہے۔ فکرِ الرسالہ، قرآن کے مرکزی تصور، توحید، رسالت، آخرت اور دعوت کی تفسیر ہے۔الرسالہ فکر کے اجزائے ترکیبی ہیں— سچائی کی تلاش، بے آمیز حق کی دریافت، معرفتِ خداوندی، عجز، تزکیۂ نفس اور دعوت الی اللہ۔ ان مرحلوں سے گزرے بغیر کوئی بھی شخص حقیقی معنوں میں خدا والا نہیں بن سکتا۔سچائی کیا ہے۔ ایک سوال کانام نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سوالوں کے مجموعے کا نام ہے۔ الرسالہ فکر اِن تمام سوالوں کا جواب ہے۔ الرسالہ فکر آدمی کے ذہن سے تمام پردوں کو ہٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ آدمی ظاہری دنیا میں، باطنی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔فکر الرسالہ ربانی حکمت اور ایمانی بصیرت کا خزانہ ہے جس میں دنیا کی حقیقی کامیابی اور آخرت کی حقیقی کامیابی کے راز پوشیدہ ہیں۔ الرسالہ فکرآدمی کے جینے کی سطح کو بدل دیتا ہے۔ وہ آدمی کو حقیقی اور لازوال خدا سے ملاتا ہے۔ اس گہرے تعلق باللہ کی علامت کے طورپرآدمی کو عینِ خاشع، یعنی گریہ والی آنکھ حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے بارے میں صاحبِ الرسالہ کا ایک قول یہ ہے: ’’اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتا ہے۔ مگر اللہ کے لئے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے لئے یہ مقدر ہے کہ اُس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔
مجھے الرسالہ کے آتشیں الفاظ میں صاحبِ الرسالہ کے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ اتنے اعلیٰ الفاظ میں کلام کرنا ایک سچے داعیِ حق اور عارف باللہ کے سوا کسی اور کے لئے ممکن نہیں۔ کیا آپ الرسالہ کے مضامین میں اُن آتشیں کیفیات کو محسوس کررہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ الرسالہ بے پناہ دردوغم میں پگھل رہا ہے۔ کیا آپ الرسالہ کے اوراق میں جا بجا اُن لاتعداد بھونچالوں کی شدت محسوس کررہے ہیں جو صاحبِ الرسالہ کے سینے میں امنڈ رہے ہیں۔ خدا نے ہمارے لئے مشکل ترین کام کو آسان ترین بنایا ہے۔ خدا نے دورِ جدید میں مولانا وحید الدین خاں صاحب سے تجدید واحیائِ دین کا کام لیا ہے۔ ان کے ذریعے قرآن وحدیث اور اُس سے متعلق انتہائی طاقتور لٹریچر وجود میں آگیاہے، جو دنیا کے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔داعیانِ حق کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اس لٹریچر کو حق سے غافل یا حق سے بے خبر بندگانِ خدا تک پہنچا دیں، تاکہ ہم خدا کی بارگاہ میں بری الذمہ ہوں اور لوگوں کے لئے عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہمارے لئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اِس خدائی کام کو اپنا ذاتی مسئلہ بنائیں، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہم اس کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیں۔ اگر ہمارا یہ واقعی فیصلہ ہے تو ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آج تک ہم اِس دعوتی مہم میں اپنی آمدنی کا کتنا حصہ خرچ کرچکے ہیں۔ اگر ہمارا جواب نفی میںہو، تو آج سے ہمیں شعوری طورپر یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنی آمدنی اور وسائل کا کتنا حصہ اس خدائی کام کے لئے وقف کرنے کو تیار ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ’’کرنے‘‘ کی قیمت ہے، نہ کہ صرف ’’کہنے‘‘ کی۔ (نذیر الاسلام، کشمیر)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.