ایک صاحب نے کہا کہ قرآن کے مطابق، حقیقی نمازوہ ہے جو خشوع (spirit) کے ساتھ ادا کی جائے (
آدمی اگر خشوع والی نماز پڑھے تو اس کو ایک اطمینان حاصل ہوگا۔ وہ خشوع والی نماز (worship with spirit) کا درجہ حاصل کرے گا۔ اِس کے مقابلے میں، اگر کوئی شخص خشوع کے بغیر نماز ادا کرتا ہے، تب بھی اس کا ایک عظیم فائدہ ہے، وہ یہ کہ وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کی نماز بے خشوع کی نماز (worship without spirit) تھی۔ ایسی نماز بھی فائدے سے خالی نہیں۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احساس کہ میں دین کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا، یہ اپنے آپ میں ایک مطلوب احساس ہے۔ آدمی کا احساس اگر یہ ہوکہ میں نے دین کے تقاضے پورے کردئے، تو اندیشہ ہے کہ اس کے اندرعُجب (pride) کا جذبہ پیدا ہو جائے، جو اس کی دین داری کو باطل کردے ۔ اِس کے برعکس، یہ احساس کہ میںنے بظاہر دین کے تقاضے تو پورے کئے، لیکن میرے اندر مطلوب اسپرٹ موجود نہ تھی۔ یہ احساس آدمی کے اندر عجز ا ور تواضع (modesty) کی کیفیت پیدا کرے گا، اور یہ ثابت ہے کہ عجز اور تواضع اپنے آپ میں ایک اعلیٰ ایمانی حالت ہے۔ عُجب کا احساس مواخذے کا سبب بن سکتا ہے، لیکن عجز وتواضع ہر حال میں آدمی کو اجر کا مستحق بناتا ہے۔
مزید یہ کہ پانچ وقت کی نماز آدمی کے لیے ایک ریمائنڈر (reminder) کی حیثیت رکھتی ہے۔ نماز ادا کرنے کے بعد آدمی اپنے اِس احساس کو تازہ کرتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اللہ کا فرماں بردار بن کر دنیا میں رہنا ہے۔ نماز اِسی قسم کی پنچ وقتہ عملی یاد دہانی ہے۔ نماز قادرِ مطلق خدا کے مقابلے میں، اپنے عجز ِتام کا علامتی اعتراف (symbolic acknowledgement) ہے۔
واپس اوپر جائیں
خدا کے وجود پر زندہ یقین سب سے زیادہ مطلوب چیز ہے، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ خدا کے وجود پر زندہ یقین نہیں کرپاتے، یہاں تک کہ کچھ لوگ اِس انتہا پسندی تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ خدا کے منکر بن جاتے ہیں۔ یہ ظاہرہ پوری انسانی تاریخ میں موجود رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔
ایسا اِس لیے ہے کہ اِس دنیا میں خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، تمام واقعات اسباب وعلل (cause and effect) کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ ہر واقعہ جو ہمارے علم میں آتا ہے، بظاہراُس کا ایک سبب دکھا ئی دیتا ہے۔ اِس بنا پر لوگ واقعہ کو اُس کے سبب کی طرف منسوب کردیتے ہیں، ظاہری مشاہدہ کی بنا پر وہ واقعات کو خدا کی طرف منسوب نہیں کر پاتے۔
یہ صورتِ حال ہمیشہ سے تاریخ میں موجود رہی ہے، مگر موجودہ زمانے میں سائنسی دریافتوں کے بعد اُس نے ایک باقاعدہ نظریہ کی صورت اختیار کرلی ہے جس کو قانونِ تعلیل (law of causation) کہاجاتاہے۔ سائنسی تحقیقات نے جب دور بینی اور خورد بینی مشاہدات کے ذریعے کائنات میں ہونے والے واقعات کے پیچھے فطری اسباب کو دریافت کیا تو یہ سمجھا جانے لگا کہ سب کچھ اسباب کے تحت ہورہا ہے۔ سائنسی دریافتوں کے حوالے سے یہ کہاجانے لگا کہ — اگر واقعات فطری اسباب کے تحت ہوتے ہیں تو وہ فوق الفطری اسباب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہی موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے شعور کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ ظاہری اسباب کے پیچھے خالق کی کارفرمائی کو دیکھ سکے۔وہ یہ دریافت کرسکے کہ اس معاملے میں اسباب محض ایک پردہ ہیں، نہ کہ اصل حقیقت۔
اِسی دریافت کا نام ایمان ہے، اور اِس دنیا میں جو لوگ اِس دریافت کا ثبوت دیں، وہی اللہ کے یہاں اِس قابل ٹھہریں گے کہ اُن کو انعام کے طورپر ابدی جنت میں داخل کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الانبیاء میں ارشاد ہوا ہے: لقد أنزلنا إلیکم کتابا فیہ ذکرکم (
راقم الحروف کو مجاہد تابعی کی اِس بات سے اتفاق ہے۔ میں نے خود ایسا کیا کہ قرآن کو بار بار پڑھ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن میں میرا ذکر کہاں ہے، یعنی قرآن کی وہ آیت کون سی ہے جس کو میں سمجھ سکتا ہوں اس میں میرا معاملہ مذکور ہے۔
آخر کار میں نے قرآن کی ایک آیت میںاپنا حوالہ پالیا۔ وہ قرآن کی سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر
We shall show them Our signs in the universe and within themselves, until it becomes clear to them that this is the Truth. (
جدید سائنس دراصل آیات ِ فطرت کا علم ہے۔ چناں چہ میں نے اِس پہلو سے دین کی خدمت کا فیصلہ کرلیا۔ میری تقریباً تمام کتابیں جدید علوم کی نسبت سے اسلام کی تشریح ہیں۔ ابتداء ً میں نے اِس پہلو سے چند پمفلٹ لکھے۔ مثلاً ’’نئے عہد کے دروازے پر‘‘ (1955)، ’’حقیقت کی تلاش‘‘ (1958)۔ اس کے بعد ایک باقاعدہ کتاب’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ (1966) کے نام سے تیار کی ۔ میری تمام کتابیں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اسی موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔میری تمام کتابوں کا ایک ہی مشترک عنوان ہے — عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر۔
واپس اوپر جائیں
دعوت الی اللہ ہر مسلمان پر اُسی طرح فرض ہے جس طرح اس کے اوپر نماز فرض ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بغیر ایک شخص مومن نہیں بنتا۔ اِسی طرح دعوت کی ادائیگی کے بغیر اس کا امتِ محمدی کا فرد ہونا متحقّق (established) نہیں ہوتا۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دعوت کو بھی اُسی طرح اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنائے جس طرح وہ نماز کو اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ سمجھتا ہے۔
قرآن کی سورہ العلق میں ارشاد ہوا ہے: علّم بالقلم (
اس کی ایک صورت یہ ہے ہر مسلمان اپنی دکان پر یا اپنے آفس میں قرآن کا ترجمہ رکھے اور وہ آنے والوں کو اُسے دیتا رہے۔ اصحابِ رسول اگرقرآن کے مقری بنے ہوئے تھے تو وہ قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor) بن جائے۔
پیغمبر کی ذمے داری یہ تھی کہ وہ قرآن کو اپنے زمانے کے لوگوں تک پہنچائے۔ اب پیغمبر کی امت کے لوگوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچائیں، وہ مسلسل طور پر بعد کی نسلوں میں پیغام رسانی کے اِس کام کو جاری رکھیں(
موجودہ زمانے میں مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سفر اور آمد ورفت کے دوران ان کی ملاقات دوسروں سے ہوتی ہے۔ اگر ہر مسلمان اپنے ساتھ قرآن کے ترجمے کی مطبوعہ کاپی رکھے تو ساری دنیا کے انسانوں تک قرآن پہنچ جائے گا۔ اِس طرح امتِ محمدی، آخرت میں خدا کے سامنے یہ کہہ سکے گی کہ —ہم نے ساری دنیا کے لوگوں تک تیری کتاب کو پہنچا دیا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے (
میں نے کہا کہ اولاد اپنے آپ میں فتنہ نہیں ہے۔ زہر اپنے آپ میں زہر ہوتا ہے، مگر اولاد کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً فتنہ کے طورپر پیدا ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتنہ بنانے کا معاملہ ہے، نہ کہ بذاتِ خود فتنہ ہونے کا معاملہ۔ والدین کا اپنا غلط مزاج اولاد کو فتنہ بنا دیتا ہے۔ والدین کے اندر اگر صالح مزاج ہو تو اُن کی اولاد اُن کے لیے فتنہ نہیں بنے گی۔
فتنہ کے لفظی معنی آزمائش (test) کے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جو چیزیں بھی دی گئی ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے ہیں۔ مال اور اولاد اور دوسری تمام چیزیں بھی امتحان کے پرچے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اِسی اصل حیثیت سے دیکھے، وہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ وہ اِس پرچۂ امتحان میں پورا اترے۔
اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کو اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے۔ دوسری دنیوی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز، خواہ وہ مال ہو یا اولاد ہو یا اقتدار، وہ اس کا اصل کنسرن (sole concern)نہ بننے پائے۔
جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا کنسرن بنالیں، وہ آخرت میں ایک محروم انسان کی حیثیت سے اٹھیں گے، جب کہ اُن کے تمام سہارے ان سے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ کہیں گے: ما أغنی عنّی مالیہ، ہلک عنی سُلطانیہ (
واپس اوپر جائیں
حضرت موسی کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر میں آباد تھے۔ وہ 1447 قبل مسیح میں حضرت موسیٰ کی قیادت میں مصر سے نکلے اور صحرائے سینا (Sinai) میں پہنچ کر وہاں آباد ہوئے۔ اُس وقت ان کی مجموعی تعداد تقریباً 20 لاکھ تھی۔ اُس وقت وہاں صحرا اور پہاڑ کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی معاشیات کے لیے ایک خصوصی انتظام کیا جس کو من وسلویٰ (
یہ خدائی انتظام اِس لیے کیا گیا ہے تاکہ صنعتی دور میں امتِ محمدی معاشیات سے فارغ ہو کر اپنے دینی رول کو ادا کرسکے۔ اِس دینی رول کے دو پہلو ہیں — ایک ہے دین کی حفاظت، اور دوسرا ہے دعوت الی اللہ کے عمل کا جاری رکھنا۔ امتِ محمدی کو اصلاً تیل کی دولت دین کی حفاظت، اور دعوت الی اللہ کے اِسی کام کے لیے دی گئی ہے۔
اِس معاملے میں امتِ محمدی سے جو مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے اُس میں سے صرف ضرورت کے بقدر لیں اور بقیہ تمام مال وہ دین کی حفاظت ودعوت کے کام میں استعمال کریں۔ من وسلویٰ کے خدائی انتظام کے ذریعے امتِ موسیٰ سے جو مطلوب تھا، وہی تیل کے انتظام کے ذریعے اب امتِ محمدی سے مطلوب ہے۔ دونوں کے درمیان ظاہری صورت کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن ذمے داری کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رُبَّ أشعث أغبرَ مدفوع بالأبواب، لو أقسم علی اللہ لأبرّہ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب) یعنی کچھ (اللہ کے بندے) ایسے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور جن کے کپڑے گرد آلود ہیں، جن کے اوپر لوگوں کے دروازے بند ہیں۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ ضرور ان کی قسم پوری کرے گا۔
اِس سے مراد کوئی مجذوب انسان نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد بامقصد انسان ہے۔ جو آدمی ربانی مقصد کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، وہ اِس مقصد میں اتنا زیادہ گم ہوجائے کہ اس کو جسمانی آرائش کی کوئی فکر نہ رہے، ربانی مقصد کے سوا جس کا کوئی اور مقصدِ حیات نہ رہے، اُس انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وہ خصوصی معاملہ ہوتا ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیاگیا ہے۔
تاہم یہ حدیث مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ اِس سے مراد مادّی چیزیں یا دنیوی مرغوبات نہیں ہیں۔ اِس قسم کی چیزیں مذکورہ انسان کا ہدف نہیںہوتیں۔ اِس لیے وہ ان کا طالب بھی نہیں بنتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو بامقصد زندگی کا تقاضا ہوتی ہیں۔ ایک بامقصد انسان جب اپنے آپ کو ربانی مقصد میں لگا دیتا ہے تو ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اپنے وسائل (resources) ناکافی ہیں اور خدا کی خصوصی مدد کے بغیر وہ اپنے مقصدی سفر کو جاری نہیں رکھ سکتا، اُس وقت وہ بے قرار دل کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے اور اپنے رب کی طرف سے اس کا مثبت جواب پاتا ہے۔
یہی وہ استثنائی معاملہ ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ہے۔ مذکورہ حدیث کسی انسان کے پراسرار (mysterious)معاملے کو نہیں بتاتی، یہ اُس انسان کے فطری معاملے کو بتاتی ہے جو ربانی مقصد میں اپنے آپ کو آخری حد تک شامل کردے، خدا کے سوا جس کے لیے کوئی اور چیز اُس کے مدعائے حیات کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری نے اس کو چار ابواب، کتاب الادب، کتاب المظالم، کتاب التوحید، کتاب التفسیر، کے تحت درج کیا ہے۔ اِس روایت کا ترجمہ یہ ہے: صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ایک آدمی (سعید بن جبیر التابعی) نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجویٰ (خدا اور بندہ کے درمیان سرگوشی) کے بارے میں کیا سنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص (حشر کے دن) اپنے رب کے پاس آئے گا، یہاں تک کہ وہ خدا سے بالکل قریب ہوجائے گا۔ اللہ اُس سے کہے گا کہ تم نے ایسا کیا اور ایسا کیا۔ وہ کہے گا کہ ہاں۔ پھر اللہ اس شخص سے کہے گا کہ تم نے ایسا اور ایسا کیا۔ وہ کہے گا کہ ہاں۔ پھر بندہ اپنے (گناہ) کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمھاری پردہ پوشی کی، اب آج میں تم کو معاف کرتا ہوں۔ (إنّی سترتُ علیک فی الدنیا، فأنا أغفرہا لک الیوم) صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب ستر المؤمن نفسہ۔
مسلم نے اِس روایت کو کتاب التوبہ کے تحت نقل کیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اُس انسان کا کیس ہے جس سے گناہ کا واقعہ ہو جائے، پھر وہ شدید طورپر توبہ اور استغفار کرے، یہ صرف قیامت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اِس دنیا میں پیش آنے والے ایک واقعے کا اخروی پہلو ہے، یعنی دنیا میں بندہ نے نہایت شدید طورپر توبہ واستغفار کا ثبوت دیا تھا، اِس بنا پر قیامت کے دن اللہ کی خصوصی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو گی اور اس کو بخشش کا پروانہ دے دیا جائے گا۔اِس روایت میں دراصل ایسے انسان کا ذکر ہے جس سے بشری تقاضے کے تحت کوئی غلطی سرزد ہوجائے، مگر اِس کے بعد وہ غفلت یا سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے، بلکہ وہ شدید قسم کے توبہ وانابت کا ثبوت دے۔ یہ توبہ وانابت صرف ایک بار بوقتِ گناہ نہ ہو، بلکہ وہ ساری عمر اللہ سے معافی کا طلب گار بنا رہے، وہ صبح وشام اللہ کی پکڑ سے ڈرتا رہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قیامت میں مذکورہ قسم کی خصوصی رحمت ومغفرت حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما رأیت مثل الجنۃ نام طالبہا (الترمذی، کتاب الجنۃ)۔ اِس حدیث رسول کا مطلب یہ ہے کہ جنت کا مستحق وہ شخص ہے جو حقیقی معنوں میںجنت کا طالب بن جائے۔ مگر انسان اتنا زیادہ غافل ہے کہ وہ جنت جیسی قیمتی چیز کا طالب نہیںبنتا اور غفلت کی نیند سوتا رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک شخص جنت کی اہمیت کو دریافت کرلے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ وہ اس کا طالب بن جائے تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آدمی دنیا کی ہر چیز میں جنت کی جھلک دیکھنے لگتاہے۔ ہر تجربہ اُس کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بن جاتا ہے، جس کے حوالے سے وہ جنت کو یاد کرے اور اللہ سے جنت کی دعا کرتا رہے۔ جنت کی دریافت سے آدمی جنت کا طالب بنتا ہے، اور جب ایک شخص حقیقی معنوںمیں جنت کا طالب بن جائے تو وہ بار بار جنت کی دعا کرتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔
مثال کے طورپر ایسا ایک طالبِ جنت، قرآن کو پڑھتے ہوئے سورہ النساء کی اِس اٰیت تک پہنچتا ہے: وإن أردتم استبدال زوجٍ مکانَ زوج واٰتیتم إحداہنّ قنطاراً فلا تأخذوا منہ شیئا (
ایک طالب جنت جب اِس آیت کو پڑھتا ہے تو اس کے اندر سوچ کا ایک طوفان جاگ اٹھتا ہے۔ اِس آیت میںاللہ تعالیٰ نے اعلیٰ اخلاق کا ایک اصول بتایا ہے، وہ یہ کہ ایک شخص ایک خاتون سے نکاح کرتا ہے۔ اِس تعلق کے دوران وہ اس کو کافی مال دے دیتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کے دماغ میں کسی وجہ سے ایک سکنڈ تھاٹ (second thought) آتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اِس پہلی بیوی کو طلاق دے دے اور دوسری خاتون سے نکاح کرلے۔ مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اِس موقع پر تم ایسا نہ کرو کہ سابقہ بیوی سے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لو۔ جو مال تم اس کو دے چکے ہو، اُس کو واپس لینا، اعلیٰ اخلاقی اصول کے خلاف ہے۔
قران کی یہ آیت بظاہر طلاق کے بارے میں ہے، لیکن اس کے اندر ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) موجود ہے۔ اِس کو لے کر ایک طالب اپنی جنت کے لیے اللہ سے دعا کرے۔ وہ یہ کہے کہ — خدایا، تونے اپنی کتاب میں یہ اصول بتایا ہے کہ دی ہوئی چیز کو واپس لینا درست نہیں۔ اِسی طرح تو نے مجھے دنیا کی زندگی میں بے شمار چیزیں عطا کیں۔ یہ چیزیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ کسی شوہر کی طرف سے اپنی بیوی کو دئے ہوئے قنطار (treasure) سے ہزاروں بلین گنا سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔ پھر کیا تو میرے ساتھ ایسا کرے گا کہ تو مجھے اپنی رحمت کا قنطار دے اور موت کے بعد کے دورِ حیات میں تو مجھ سے تمام دی ہوئی چیزیں واپس لے لے اور مجھ کو محروم کرکے چھوڑ دے۔ جس اعلیٰ اخلاقی اصول کی تعلیم تو نے انسان کو دی ہے، میں امیدکرتا ہوں کہ تو مزید اضافے کے ساتھ یہی اعلیٰ اخلاقی معاملہ میرے بارے میں کرے گا۔
قرآن کی اس آیت میں طلاق کا ایک حکم بیان کیاگیا ہے۔ قرآن میں طلاق کا مادہ
اِس مشابہت میں طالب جنت کے لیے ایک بشارت (good tiding) موجود ہے۔ وہ یہ سوچ سکتاہے کہ استبدالِ زوج کا معاملہ میرے استبدالِ مقام کے معاملے پر بھی یکساں طورپر چسپاں (apply) ہوتا ہے۔ یہاں ایک طالبِ جنت یہ امید کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کا لفظی فرق اِس لیے رکھا، تاکہ ایک طالب جنت اِس میں اپنی تصویر دیکھے اور گہری امیدوں کے ساتھ وہ اللہ سے جنت کا طالب بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن ایک کتاب دعوت ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں جب قرآن اترا تو اُس وقت قرآن ہی دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے طریقِ تبلیغ کے متعلق روایات میں آتا ہے : عرض علیہم الاسلام، وتلا علیہم القرآن (انھوں نے اُن کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کا کچھ حصہ ان کو پڑھ کر سنایا)۔
مگر عجیب بات ہے کہ بعد کے زمانے میں قرآن مسلمانوںکے درمیان کتابِ دعوت کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔ مسلمان، قرآن کا عربی متن (text) برکت کے طورپر پڑھتے رہے۔ قرآن کے جو ترجمے کئے گئے، وہ بھی یا تو ثواب کے لیے کئے گئے، یا اِس ذہن کے تحت کہ مسلمان اس کو پڑھیں گے۔ غیر مسلموں کے درمیان دعوتی اشاعت کے لیے غالباً قرآن کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔انگریزی زبان موجودہ زمانے میں انٹرنیشنل زبان سمجھی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں قرآن کے تقریباً 50 ترجمے موجود ہیں۔ مگر یہ انگریزی ترجمے مدعو فرینڈلی زبان (Mad‘u-friendly language) میں نہیں کئے گئے۔ چنانچہ غیر مسلم جب اِن ترجموں کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ عام انسان کے لیے قرآن سمجھ میں آنے والی کتاب نہیں۔
اِنھیں اسباب کی بنا پر لمبی کوشش کے بعد سی پی ایس (نئی دہلی) نے 2008 میں انگریزی زبان کا ایک نیا ترجمہ شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ ان شاء اللہ مدعو فرینڈلی زبان میں ہے۔ چناںچہ جن غیرمسلم حضرات تک یہ ترجمہ پہنچتا ہے، وہ اس کو شوق سے لیتے ہیں اور دلچسپی کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب اِدخالِ کلمۂ اسلام کا عمل ہوگا، یعنی ہر گھر میں کلمۂ اسلام پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث میںکلمۂ اسلام سے مرادخدا کی کتاب قرآن ہے۔ ادخال الکلمۃ فی کل البیوتسے مراد ادخال القرآن فی کلِ البیوتہے، یعنی ہر گھر میں قرآن کا پہنچ جانا۔ اب ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ادخالِ کلمہ کے اِس عمل میں اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتِ اسلام کا ایک ایسا طریقہ ہے جو بلاشبہہ ہر مسلمان کے لیے ممکن ہے، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ۔
واپس اوپر جائیں
عام طورپر سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کوچھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ مسئلہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث کی روایت سے ثابت نہیں۔ اِس مسئلے کے حق میں کوئی بھی نصِّ شرعی موجود نہیں۔ اِس سلسلے میںجو حوالے دئے جاتے ہیں، وہ سب کے سب استنباط پر مبنی ہیں، نہ کہ کسی نصِ قطعی پر۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے وضو کی شرط لگانا، قرآن کے احترام میں غلو کی بنا پر ہے، اور دین میں غلو کا کوئی درجہ نہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: لاغلوَّ فی الإسلام۔
اِس نقطۂ نظر کی تائید میںقرآن کی سورہ الواقعہ کی ایک آیت کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے : إنّہ لقرآن کریم ، فی کتاب مکنون، لا یمسّہ إلاّ المطہرّون۔ تنزیل من ربّ العالمین (
قرآن کی اس آیت کا کوئی تعلق وضو کے مسئلے سے نہیں۔ اِس آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی تنزیل کا عمل فرشتوں کے ذریعے ہوتا ہے، اور فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں جن کو خدا نے پیدائشی طورپر طاہر بنایا ہے۔ اِس آیت میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہ مُطَہَّر ہے، نہ کہ متوضَّأ،یعنی پاکیزہ نہ کہ باوضو۔ مطہَّرکا لفظ قرآن میںدوسرے مقام پر ازواجِ جنت کے لیے آیا ہے (
قرآن کے الفاظ کے مطابق، قرآن کو وہ مخلوق چھوتی ہے جو خود اپنی تخلیق کے اعتبار سے پاکیزہ ہے، جس کو خالق نے پیدائشی طورپر پاک بنایا ہے، یہ مخلوق بلا شبہہ فرشتے ہیں۔ وہ قرآن کو اللہ سے لیتے ہیں اور پیغمبر تک پہنچاتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ سے یہ نہیں نکلتا کہ قرآن کو اللہ سے لینے سے پہلے فرشتے وضو کرلیتے ہیں۔فرشتے اپنی اصل تخلیق کے اعتبار ہی سے مکمل طورپر پاکیزہ ہیں۔
اس سلسلے میں دوسرا استدلال اُس واقعے سے کیا جاتا ہے جو روایات میں حضرت عمر بن الخطاب کے اسلام کے بارے میں آیا ہے۔یہ ایک لمبی روایت ہے۔ اس کا ایک جز یہ ہے کہ عمر بن الخطاب کو معلوم ہوا کہ ان کی بہن فاطمہ اور ان کے شوہر سعید بن زید نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اُس وقت تک عمر بن الخطاب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ عمر بن الخطاب اپنی بہن کے گھر گئے اور دونوں کو اتنا مارا کہ وہ خون آلود ہوگئے۔ خون کو دیکھ کر عمر بن الخطاب کے اندر ندامت پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنی بہن سے کہا کہ مجھے وہ قرآن دکھاؤ جو محمد پر اترا ہے۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں: فقالت فاطمۃ: یا أخی، إنک نجس علی شرکک، وإنہ لا یمسہ إلا المطہرون۔ فقام عمر فاغتسل، فأعطتہ الصحیفۃ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر
اِس روایت سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کو چھونے سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے۔ اِس روایت سے اگر کوئی چیز نکلتی ہے تو وہ یہ کہ قرآن کو چھونے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے۔ ایسی حالت میں بیان کرنے والوں کو یہ مسئلہ بیان کرنا چاہیے کہ قرآن کو چھونے سے پہلے غسل کرو، غسل کے بغیر قرآن کو چھونا جائز نہیں۔ مزید یہ کہ اِس روایت کے مطابق، فاطمہ نے عمر بن الخطاب کے ہاتھ میں قرآن کا صحیفہ اُس وقت دیا جب کہ ابھی وہ شرک پر قائم ہونے کی بنا پر نجس تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شرک کا خاتمہ غسل سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ توبہ اور کلمۂ شہادت کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اِس واقعہ سے وضو کا مسئلہ نکالنا سر تا سر ایک غیر متعلق (irrelevant) بات کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب کا ایک اور واقعہ روایات میں اِس طرح آیا ہے۔ عمر بن الخطاب ایک بار ایک جماعت کے ساتھ تھے جو کہ ایک صحیفہ کے ذریعہ قرآن کو پڑھ رہے تھے۔ اِس درمیان عمر قضائِ حاجت کے لیے گئے، پھر وہ واپس آئے اور انھوں نے دوبارہ قرآن کو پڑھنا شروع کیا۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ آپ قرآن پڑھ رہے ہیں، حالاں کہ آپ با وضو نہیں ہیں۔ عمر بن الخطاب نے کہا: مَنْ أفتاک ہٰذا، أمُسیلمۃُ الکذاب، یعنی کس نے تم کہ یہ مسئلہ بتایا ہے، کیا مسیلمہ کذاب نے۔ اِسی طرح سے علی بن ابی طالب کے بارے میں روایت میں آیا ہے کہ وہ صحیفہ کو لے کر قرآن پڑھتے تھے، حالاں کہ وہ باوضو نہیں ہوتے تھے (موطأ امام مالک، شرح العلامۃ عبد الحی اللکنوی، کتاب الطہارۃ، باب الرجل یمس القرآن وہو جنب أو علی غیر وضو، (
حضرت عمر فاروق کا مذکورہ واقعہ یہ بتاتا ہے کہ اصحابِ رسول کے زمانے میں اِس معاملے میں کیا مزاج پایا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں کا سارا دھیان تمام تر قرآن کے معانی پر مرتکز ہوتا تھا، نہ کہ اس کے ظاہری مسائل پر۔ یہ مسئلہ کہ وضو کے بغیر قرآن چھونا جائز نہیں، یہ دراصل دورِ صحابہ کے بعد اُس زمانے میں پیدا ہوا جب کہ لوگ ظواہر کو اہمیت دینے لگے اور معنویت کا پہلو پس پشت چلا گیا۔ بعد کے زمانے میں یہ معاملہ صرف قرآن کے ساتھ پیش نہیں آیا، بلکہ دین کے تمام معاملات میں ایسا ہی ہوا۔ لوگ معنوی پہلوؤں پر زور دینے کے بجائے ظاہری مسائل پر زیادہ زور دینے لگے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو انتقالِ تاکید (shift of emphasis) کہاجاتا ہے۔ وضو کے بغیر قرآن نہ چھونے کا مسئلہ اِسی بعد کے دور کا ایک ظاہرہ ہے، وہ قرآن اور حدیث کے نصوص سے ماخوذ مسئلہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
یہ ایک صحابی ٔ رسول کی مثال ہے جو اس قسم کے ہر واقعہ کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کو اپنے بیٹے سے بہت قلبی تعلق ہے۔ نوجوانی کی عمر میں بیٹے کی وفات ہوجاتی ہے۔ اس کا دل اس حادثہ سے بے قابو ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ صحابی رسول کی مثال کو اپنے لیے ایک نمونہ بنائے اور اپنے آپ سے کہے: اگر تم اپنے بیٹے کی پرستش کرتے تھے تو تم کو معلوم ہو کہ تمھارا بیٹا مرگیا۔ اور اگر تم اللہ کی پرستش کرنے والے ہو تو تم کو جاننا چاہیے کہ اللہ زندہ ہے، اُس پر کبھی موت آنے و الی نہیں۔
انسانوں کی دو قسمیں ہیں — خدا میں جینے والے اور غیرِ خدا میں جینے والے۔ جو شخص خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا کنسرن (concern) بنائے ہوئے ہو، جو خدا کے سوا کسی اور چیز سے قلبی تعلق رکھتا ہو، وہ اُس چیز کے کھونے پر سخت پریشان ہوجائے گا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوگا جیسے کہ اس کی دنیا ختم ہوگئی۔ اُس سے وہ چیز چھن گئی جس کے سہارے پر وہ جی رہا تھا۔ ایسے لوگ خدا کے منکر ہیں، خواہ وہ اقرارِ خدا کے الفاظ اپنی زبان سے بولتے ہوں۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں خدا کا قرب حاصل ہونے والا نہیں۔
اِس کے برعکس، وہ انسان ہے جو خدا وند ِ ذو الجلال میں جیتا ہو، جس نے خدا کو اپنا سب کچھ بنا رکھا ہو، جس کی سوچ اور جس کے جذبات صرف ایک خدا سے وابستہ ہوگئے ہوں۔ ایسا انسان جب کسی چیز کو کھوتا ہے تو وہ خدا کو اور زیادہ یاد کرنے لگتا ہے۔ ہر محرومی اُس کے لیے خدا کے ساتھ مزید تعلق کا سبب بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مشہور قول ہے: حبّ الوطن من الإیمان (الدرر المنتثرۃ فی الأحادیث المشتہرۃ، للسیوطی، 1/9) یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ محدثین عام طورپر اِس قول کو حدیث رسول نہیں مانتے، وہ اِس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ علماء نے اس قول کو معنوی اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔ مثلاً آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم محمد بن عبد الرحمن شمس الدین السخاوی (وفات:1497 ء) نے اِس قول کے بارے میں لکھا ہے کہ: لم أقف علیہ، ومعناہ صحیح (المقاصد الحسنۃ، صفحہ
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ یہ قول اگر حدیثِ رسول نہ ہو تب بھی وہ حدیث ِ فطرت ہے۔ وہ انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور فطرت کا تقاضا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ حب وطن (patriotism) کو اسلام کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ اسلام جب دین فطرت (religion of nature) ہے تو فطرتِ بشری کی ہر چیز اسلام کا ایک حصہ قرار پائے گی۔
ہر انسان کو اپنی ماں سے محبت ہوتی ہے۔ ہر مسلمان اپنی ماں سے محبت کو اپنے ایمان کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ اگرچہ کوئی حدیثِ رسول اِن الفاظ میں موجود نہیں کہ: حب الأم من الإیمان (ماں سے محبت ایمان کا حصہ ہے)۔ اِسی طرح وطن سے محبت بھی بلاشبہہ ہر مسلمان کے لیے ایک ایمانی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی جس ملک میں پیدا ہوا، جہاں اُس کی پرورش ہوئی، جہاں کی ہوا میں اس نے سانس لیا، جہاں کے لوگوں سے اس کے تعلقات قائم ہوئے، جہاں اُس نے اپنی زندگی کی تعمیر کی، ایسے ملک سے محبت کرنا انسانی شرافت کا تقاضا ہے، اور اِسی طرح وہ انسان کے ایمان واسلام کا بھی تقاضا ۔
واپس اوپر جائیں
مغربی دنیا کے ایک مشہور مسلم مقرر نے وہاں کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ — ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت، خدا کے لیے وفاداری ہے:
Rebellion to a tyrant, obedience to God.
یہ جملہ اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) کے تحت بننے والے ذہن کی نمائندگی کرتا ہے۔ مسلمانوں کی جدید نسل عام طور پر، اس سیاسی تعبیر سے متاثر ہے۔ آج کی دنیا میں جگہ جگہ اسلامی انقلاب کے نام پر جو ہنگامے جاری ہیں، وہ اِسی سیاسی فکر کا نتیجہ ہیں۔
اِس قسم کی نام نہاد انقلابی سیاست ہر گز اسلامی سیاست نہیں ہے۔ اگر شدید لفظ استعمال کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ اسلام کے نام پر ایک شیطانی سیاست ہے۔ اِس سیاست کا بانی ٔ اول خود شیطان ہے۔ آج جو لوگ اِس قسم کی سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، وہ بلا شبہہ شیطان کی پیروی کررہے ہیں، نہ کہ اسلام کی پیروی۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقِ انسانی سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اُس وقت وہاں آدم کے سوا دو مخلوق اور موجود تھی — فرشتے اور جنات۔ اللہ نے حکم دیا کہ تم لوگ آدم کے آگے جھک جاؤ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کی تعمیل کی، لیکن ابلیس (جنات کا سردار) نے اللہ کے اِس حکم کو ماننے سے انکار کیا، وہ اللہ کا باغی بن گیا۔
یہ انسانی تاریخ میں ، اتھارٹی (authority)کے خلاف بغاوت کا پہلا واقعہ تھا۔ یہ سیاسی بغاوت یا پالٹکس آف اپوزیشن (politics of opposition) بلا شبہہ شیطان کی سنت ہے۔ اتھارٹی سے ٹکرائے بغیر اپنا کام کرنا، یہ ملائکہ کا طریقہ ہے۔ اور اتھارٹی سے ٹکراؤ کرکے پالٹکس آف اپوزیشن کا ہنگامہ کھڑا کرنا، شیطان کا طریقہ۔
عجیب بات ہے کہ شیطان کی یہ منفی سیاست پوری تاریخ میں مسلسل طورپر جاری رہی ہے، اہلِ ایمان کے درمیان بھی اورغیر اہلِ ایمان کے درمیان بھی۔ اِس منفی سیاست کا یہ براہِ راست نتیجہ ہے کہ انسانی تاریخ، تعمیر کی تاریخ بننے کے بجائے، تخریب کی تاریخ بن گئی۔
ایسا کیوں ہے کہ ساری تاریخ اِس قسم کی شیطانی سیاست کی تاریخ بن گئی۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ خالق نے انسان کو ایک استثنائی صلاحیت دی ہے، یعنی ایگو(ego)۔ یہ دراصل ایگو ہے جو انسان کو پوری کائنات میں ایک خصوصی درجہ عطا کرتا ہے۔ لیکن انا کے دو پہلو ہیں — پلس پوائنٹ، اور مائنس پوائنٹ۔ اجتماعی زندگی، خواہ وہ خاندانی زندگی ہو، یا خاندان سے باہر کی زندگی، اُس میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ ایسے تجربات پیش آتے ہیں کہ اس کا ایگو (انا) جاگ اٹھتا ہے۔ اِس طرح کے موقع پر اگر ایسا ہو کہ انسان اپنے آپ کو کنٹرول کرے، وہ ایگو مینجمنٹ (ego management) کا ثبوت دے، تو گویا کہ اُس نے اپنے ایگو کا صحیح استعمال کیا۔ اور اگر ایسا ہو کہ جب اس کا ایگو بھڑکے تو اس کی پوری شخصیت اُس سے متاثر ہو جائے۔ ایسی حالت میں وہ سرکشی کے راستے پر چل پڑے گا۔ یہ اس کے لیے ایگو مینجمنٹ میں ناکام ہونے کا واقعہ ہوگا۔
ایگو کا یہ واقعہ انسان کے درمیان ہر جگہ پیش آرہا ہے۔ یہی واقعہ جب سیاسی میدان میں پیش آئے تو اِسی کا نام پالٹکس آف اپوزیشن ہے، اسی کا نام پولٹکل اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہے۔ چوں کہ بیش تر لوگ ایگو مینجمنٹ کے امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں، اِس لیے پوری تاریخ میں وہ منظر دکھائی دیتا ہے جس کو سیاسی تخریب کاری (political destruction) کے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل قرآن اور حدیث میں صبر کی سیاست بتایا گیا ہے۔ صبر کی سیاست کوئی پسپائی کی سیاست نہیں ہے، صبر کی سیاست دراصل پولٹکل اسٹیٹس کو ازم (political statusquoism) کا دوسرا نام ہے، یعنی سیاسی اقتدار کے معاملے میں صورتِ موجودہ کو عملاً قبول کرنا، سیاسی اقتدار سے ٹکرائے بغیر، غیر سیاسی میدان میں موجود مواقع کو استعمال کرنا۔ یہی وہ فارمولا ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن اللہ یعطی علی الرّفق، ما لا یعطی علی العنف (صحیح مسلم،رقم الحدیث: 2593 ) یعنی اللہ عدم ٹکراؤ کے طریقِ کار پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ ٹکراؤ کے طریقِ کار پر کسی کو نہیں دیتا۔
واپس اوپر جائیں
ابو الدرداء عُویمر بن مالک الانصاری ایک معروف صحابی ہیں۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے اور
ابو الدرداء انصاری کا ایک قول ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: لا تفقہ کلَّ الفقہ حتی تمقت الناسَ فی جنب اللہ، ثم ترجع إلیٰ نفسک فتکون أشد لہا مقتاً (مصنّف ابن أبی شیبۃ، رقم الحدیث: 35726 ) یعنی تم پورے معنوں میں دانش مند نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ تمھارا یہ حال نہ ہوجائے کہ تم اللہ کے معاملے میں لوگوں کے خلاف سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرو۔ پھر تم اپنی طرف واپس آؤ تو خود اپنی اوپر اُس سے بھی زیادہ ناپسندیدگی کا اظہار کرو۔
مومن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کے اندر کوئی برائی دیکھتا ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کر پاتا، وہ اس کو اس برائی پر ٹوکتا ہے اور نہایت سخت اندا ز میں وہ اس پر تنقید کرتاہے۔ یہ دوسروں کا محاسبہ کرنے کا معاملہ ہے۔ اِسی کے ساتھ مومن کے اندر خود احتسابی (self-introspection) کا شدید جذبہ ہوتا ہے۔ بعد کو وہ سوچتا ہے کہ اگر چہ میری بات درست تھی، لیکن مجھے یہ حق نہ تھا کہ میں اپنی بات کہنے کے لیے اتنا سخت انداز اختیار کروں۔
یہ خود احتسابی اُس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اِس کی وجہ سے اس کے ذہن کے نئے گوشے کھل جاتے ہیں۔ اس کی عقل ودانش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے ذہن کے ایسے دروازے کھل جاتے ہیں جو اب تک کھلے نہ تھے۔ اِس شدید خود احتسابی کے بغیر کسی شخص کا ذہنی اور روحانی ارتقا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی آیتوں کی تفسیر میں بہت سی روایات، حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ اِن روایات کو شانِ نزول یا اسباب نزول کی روایت کہاجاتا ہے، اِن روایات کے بارے میں عام طور پر دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں — ایک ، یہ کہ یہ روایات قرآن فہمی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ دوسرے، یہ کہ یہ روایات قرآن فہمی کے معاملے میں صرف ثانوی ماخذ (secondary source) کی حیثیت رکھتی ہیں، ان روایات کو اولین ماخذ(primary source)کا درجہ حاصل نہیں۔
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ شانِ نزول یا اسبابِ نزول کی روایات ہمارے لیے مستند بیک گراؤنڈ (authentic background) فراہم کرتی ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سے معاصر حالات تھے جب کہ قرآن کا کوئی حصہ رہنمائی کے طورپر اتارا گیا۔ قرآن کا اسلوب تبیین کا اسلوب ہے۔ تفسیری روایات وہ تاریخی مواد فراہم کرتی ہیں جن کے ذریعے قرآن کی تبیین کو تعین (specification) کی زبان میں بیان کیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفسیری روایت کے بغیر قرآن کو پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پر إنا فتحنا لک فتحاً مبینا (
قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ اِس اعتبار سے، قرآن کا موجودہ اسلوب ایک دعوتی اسلوب ہے۔ اِس دعوتی اسلوب نے قرآن کے اسلوب کو ایک طوفانی اسلوب کا درجہ دے دیا ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ہے کہ قرآن جب پڑھا جاتا ہے تو سننے والے پر اس کا غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔ یہ اسلوب غالباً کسی بھی دوسری کتاب میں موجود نہیں۔ صرف حضرت مسیح کے مواعظ (exhortations) میں جزئی طورپر یہ اسلوب پایا جاتا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تفسیری روایات گویا کہ قرآن میں فنی تفصیلات کی عدم موجودگی کی تلافی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ہر عورت اور مرد اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے ہر عورت اور مرد لازمی طورپر متاثر ذہن (conditioned mind) کا کیس بن جاتا ہے، اِس غیر فطری تاثر کو ختم کرنا، یعنی کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کے اِس عمل کو ذہن کی تشکیلِ نو (re-engineering of mind) کہاجاسکتا ہے۔
تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر جگہ بہت سی سرگرمیاںجاری ہیں، لیکن بے شمار سرگرمیوں کے باوجود تزکیہ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب کیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں لوگوں کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر انجام دی جارہی ہیں، گویا کہ تمام لوگ ایک ایسے سفر میں مشغول ہیں جس کا آغاز ہی نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈی کنڈیشننگ کے بعد ہی کوئی شخص تیار ذہن (prepared mind) بنتا ہے، اور جب تک کوئی شخص تیار ذہن نہ ہو، وہ چیزوں کو متاثر ذہن کے ساتھ لیتا ہے، وہ چیزوں کو بے آمیز ذہن کے ساتھ لینے کے قابل نہیں ہوتا۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن ماحول کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں اس کی فطرت پر پردے پڑنے لگتے ہیں، ٹھیک اُسی طرح جس طرح پیاز کے اوپر تہہ بہ تہہ چھلکا۔ ڈی کنڈیشننگ تمثیل کے طورپر یہ ہے کہ پیاز کے اوپر کے چھلکے ایک ایک کرکے ہٹا دئے جائیں، یہاں تک کہ اندر کا مغز سامنے آجائے۔ اِس اعتبار سے پیاز گویا ڈی کنڈیشننگ کے عمل کی ایک مادّی تمثیل (material example) ہے۔
تزکیہ کے مقصد کے تحت کی جانے والی سرگرمیاں اُس وقت تک بے فائدہ ہیں جب تک اُس کے ساتھ لوگوں کے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ نہ کی جائے۔ سب سے بڑی چیز جس کی ڈی کنڈیشننگ کرنا ہے، وہ ہے منفی سوچ (negative thinking) کو ختم کرنا۔ تزکیہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اِسی ڈی کنڈیشننگ کا اسلامی نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
ولیم شیکسپئر (William Shakespeare) ایک انگریز ادیب تھا۔ وہ 1564 میں پیدا ہوا اور 1616 میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ شاعر اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے معروف ہے۔ شیکسپئر کا ایک قول ہے — پوری دنیا ایک اسٹیج ہے اور تمام مرد اور عورت اس کے ایکٹر اور ایکٹریس ہیں:
All the world’s a stage, and all the men and are merely players.
اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ ایک اسٹوری رائٹر (story writer) جب دنیا کو دیکھتا ہے تو پوری دنیا اس کے دماغ میں ایک بہت بڑی کہانی (story) کے روپ میں ڈھل جاتی ہے۔ ہر طرف اس کو اپنی کہانی کے کردار دکھائی دیتے ہیں۔
یہی معاملہ ایک سچے مومن کا بھی ہے۔ ایک مومن جو ہر وقت خالق کے بارے میں سوچتا ہے، وہ جب عالمِ تخلیق کو دیکھتا ہے تو پورا عالم اس کے لیے معرفت کا عالم بن جاتا ہے۔ اس کو اپنے ہر مشاہدے میں ایمان کی زندہ غذا ملنے لگتی ہے۔ ہر تجربہ (experience)اس کے لیے اس کے یقین میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔
شیکسپئر کا قول کامیاب اسٹوری رائٹر کو بتاتا ہے۔ یہی معاملہ ایک سچے مومن کا بھی ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو غور وفکر کے ذریعے خالق کو دریافت کرے۔ اس کی یہ دریافت اتنی گہری ہو کہ وہ اس کے دل ودماغ پر چھا جائے۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوگا کہ اس کو ہر طرف خالق کی جھلک دکھائی دینے لگے گی۔ وہ ہر مشاہدے میں آلاء اللہ (wonders of God)کو دیکھے گا۔ وہ ہر تجربے میں خالق کی کارفرمائی دریافت کرے گا۔ اس کے لیے پوری کائنات ربانی غذاؤں کا وسیع دستر خوان بن جائے گی۔ یہی معرفت ہے اور ایسے ہی انسانوں کو عارف باللہ کہاجاتا ہے۔ معرفت کوئی پر اسرار (mysterious) چیز نہیں۔ معرفت دراصل خدائی بنیادوں پر پیش آنے والے فکری انقلاب کا دوسرا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
بائبل کا ایک قدیم نسخہ دریافت ہوا ہے جو سترھویں صدی عیسوی میں تیار کیاگیا تھا۔ اِس نسخے میں ایک عجیب غلطی پائی جاتی ہے۔ بائبل کے ایک باب میں یہ حکم ہے کہ تم زنا نہ کرنا۔ مگر اِس نسخے میں غلطی سے یہ درج ہوگیا کہ — تم زنا کرنا:
Thou shalt commit adultery
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم آسمانی صحیفوںمیں کس طرح غلطیاں ہوئیں جس کے نتیجے میں یہ قدیم آسمانی صحیفے غیر مستند ہوگئے۔
یہ قرآن کی ایک معجزاتی صفت ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے اور اس کے بعد پوری امت نے اس کی حفاظت کا اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ قرآن کے متن (text) میں کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی غلطی شامل نہ ہوسکی۔ قرآن آج بھی اُسی طرح ایک محفوظ کتاب (preserved book) ہے، جس طرح وہ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نازل ہوا تھا:
‘Wicked Bible’, which shocked readers with the phrase ‘Thou shalt commit adultery’, is to go on public display for the first time. The notorious seventeenth century book will be displayed along with a collection of rare religious texts at Cambridge University. The exhibition will feature a 1631 edition of the Bible in which the word “not” was accidently omitted from the commandments. The books were mostly destroyed and only handful of copies survive. (The Times of India, New Delhi, Tuesday, January 18, 2011 page 19)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن اور دوسری قدیم آسمانی کتابوں میں کیا فرق ہے۔ پچھلی آسمانی کتابوں کے ساتھ کوئی ٹیم نہ بن سکی جو اُن کی حفاظت کا اہتمام کرسکے۔ قرآن کے ساتھ استثنائی طور پر ایک طاقت ور ٹیم بنی اور پھر نسل درنسل ایک طاقت ور امت اس کی حفاظت کا اہتمام کرتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابیں اپنی اصل صورت میں محفوظ نہ رہ سکیں، جب کہ قرآن اپنی اصل حالت میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔
واپس اوپر جائیں
’’امام ابو یوسف (وفات:
ایک مشہور عالم نے علماء کے ایک جلسے میں تقریر کی۔ انھوں نے نہایت جوش کے ساتھ مذکورہ واقعہ بیان کیا، جو اُن کے نزدیک طلب علم کا ثبوت تھا۔ لیکن اگر خالص قرآن اورحدیث اور اسوۂ صحابہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اُس وقت کہنے والے کو طلب آخرت کی بات کہنا چاہیے تھا۔ جب کوئی شخص بستر مرگ پر ہو تو اُس وقت یہ موقع نہیں رہتا کہ آدمی جزئی مسائل میں اپنا دماغ لگائے۔ اُس وقت اس کو صرف موت یاد آنی چاہیے اور ملنے والوں کو آخرت کی یاد دلانی چاہیے۔
بستر مرگ پر ایک مومن کی کیا کیفیت ہونی چاہیے، اس کا اندازہ صحابی ٔ رسول حضرت ابو ہریرہ کے واقعے سے ہوتا ہے۔ مسلم بن بشیر کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ اپنے مرضِ موت میں روئے۔ اُن سے پوچھاگیا کہ کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں تمھاری اِس دنیا کے لیے نہیں روتا، بلکہ میں تو اِس لیے روتا ہوں کہ میرا سفر لمبا ہے اور زادِ راہ کم ہے۔ میںنے ایک ایسے ٹیلے پر صبح کی ہے جو جنت یا جہنم کی طرف اتر رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اِن دونوں میں سے کس طرف چلایا جائے گا (أصبحتُ فی صعود مہبطۃ علی جنۃ ونار، فلا أدری إلی أیہما یسلک بی) ۔
واپس اوپر جائیں
آدمی جس دنیا میں رہتا ہے، وہاں بظاہر اس کو سب کچھ ملا ہوا ہے— موافق زمین، سورج کی روشنی، ہوا، آکسیجن، پانی، خوراک، خاندان، جماعت، اِدارے، حکومتی نظام، غرض زندگی کی مددگار وہ تمام چیزیں جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کو پیدا ہوتے ہی مل جاتی ہیں، اورپھر تمام عمر اس کو حاصل رہتی ہیں۔ اس بنا پر آدمی ان چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) طور پر لے لیتا ہے، وہ سوچ نہیں پاتا کہ یہ چیزیں کبھی اس سے چھن جائیں گی۔ لیکن ہر آدمی کے لیے مقدر ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد ا س پر موت آئے، اور تمام چیزیں اچانک اس سے چھن جائیں، آدمی اب بھی وہی ہو جو کہ موت سے پہلے تھا، لیکن زندگی کے تمام اسباب مکمل طور پر اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہوں، سب کچھ رکھنے والا آدمی، ایک لمحہ میں، بے کچھ ہو کر رہ جائے۔ یہ ایک ہونے والا واقعہ ہے، جو لازماً ہر ایک کے سامنے یقینی طور پر آئے گا، عورت کے ساتھ بھی اور مرد کے ساتھ بھی۔ یہی وہ چیز ہے جس پر سوچنے والے سب سے زیادہ سوچیں، یہی وہ چیز ہے جس کو تمام عورت اور مرد اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنائیں، یہی وہ چیز ہے جس کے تصور کو لے کر آدمی شام کو سوئے اور صبح کو جاگے۔آدمی کے لئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیسے ایسا ہو کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں دوبارہ وہ سب کچھ پالے جو موت سے پہلے کی زندگی میں اس کو ملا ہوا تھا۔ یہی ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی مسئلہ کو حل کرنے میں انسان کی کامیابی ہے، اور اسی مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہنے کا نام، ناکامیابی ہے۔ انسان کا سفر بظاہر سب کچھ سے بے کچھ کی طرف ہورہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دوبارہ کس طرح یہ ممکن ہو کہ آدمی کا سفر بے کچھ سے سب کچھ کی طرف ہوجائے۔ اس کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی خالق کے تخلیقی منصوبہ کو جانے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ یہ تخلیق کا منصوبہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی موت سے پہلے کی زندگی میں خدا کے راستے پر چلے، وہ اپنے آپ کو خدا کا مطلوب بندہ بنائے— خود رخی زندگی آدمی کو ابدی تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا رخی زندگی اس کو ابدی سعادت تک پہنچانے والی ہے۔
واپس اوپر جائیں
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے اپنے آخری زمانے میں سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک کتاب لکھنا شروع کیا۔ اِس کتاب کی تکمیل ان کے شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953 ) نے کی۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب سیرت النبی کی پہلی جلد کے آغاز میں ایک سرنامہ لکھا ہے۔ اِس سرنامہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’ایک گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین کے دربار میں اخلاص وعقیدت کی نذر لے کر آیا ہے‘‘۔
یہ سرنامہ اُس غلو کی ایک مثال ہے جو بعد کے زمانے کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین ممانعت (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2143 )کے باوجود ،اُن کے بارے میں کیا ہے۔ وہ پیغمبراسلام کے لیے ایسے الفاظ بولنے لگے جو صرف خدا کے لیے مخصوص ہیں— شہنشاہِ کونین، سرورِکائنات، وغیرہ۔ اِس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کو وہ درجہ دے دیا جو حقیقۃً رب العالمین کا درجہ ہے۔ مذکورہ سرنامہ کے الفاظ اگر بدلے جائیں اور اس کو خدا کی نسبت سے استعمال کیاجائے تو کہنے والا یہ کہے گا کہ— ایک گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین کے دربار میں مغفرت کی بھیک مانگنے آیا ہے۔
اِس معاملے کا دوسرا عظیم تر نقصان یہ ہے کہ جب آپ خالقِ کائنات کو بڑا درجہ دیں تو آپ کی فطرت اس کی تصدیق کرتی ہے اور فطرت کی تصدیق کی بنا پر حقیقی معنوں میں ایسا ہوتا ہے کہ خداوندذوالجلال آپ کی زندگی میں اپنی حقیقی عظمت کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔ لیکن جب اِس قسم کے پُر عظمت الفاظ غیرِ خدا کے لیے بولے جانے لگیں تو وہ صرف الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں، فطرت کی تصدیق حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی زندگی میں حقیقی احساس کے طورپر شامل نہیں ہوتے۔ خدا کی عظمت کے لیے بولے جانے والے الفاظ فوراً ہی اپنا حقیقی مصداق پالیتے ہیں، جب کہ غیر خدا کی عظمت کے لیے بولے جانے والے الفاظ اپنا حقیقی مصداق نہ پانے کی وجہ سے صرف الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں، اِس سے زیادہ اُن الفاظ کی اور کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
واپس اوپر جائیں
Revival of Shah Hamadan’s Mission
میر سید شہاب الدین علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) کو ریاست جموں وکشمیر میں ’’معمارِ کشمیر‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ کشمیری مسلمان عام طورپر اُن کو ’’امیرِ کبیر‘‘ کہتے ہیں۔ امیر کبیر 1379ء میں ایران سے کشمیر آئے۔ انھوںنے کشمیر میں اسلام کی تاریخ بنائی۔موجودہ کشمیر زیادہ تر، اُنھیں کی دعوتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کشمیر کے لوگ اُنھیں کے مشن پرقائم تھے۔ 1947میں بر صغیر ہند میں جو انقلاب آیا، اُس کے ردّ عمل کے طورپر کشمیر میں سیاسی تحریک اٹھی۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سیاسی تحریک اپنے نتیجے کے اعتبار سے، کشمیریوں کے لیے صرف نقصان کا باعث ثابت ہوئی۔ تاہم اِس نقصان کا ایک مثبت پہلو ہے، وہ یہ کہ سیاسی ہنگاموں کا منفی انجام کشمیریوں کے لیے ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ثابت ہوا ہے۔ کشمیری مسلمانوںمیں یہ ذہن پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی طرف لوٹیں۔ وہ دوبارہ شاہ ہمدان کی طرح پُرامن دعوت کو اپنا نشانہ بنائیں۔ اِس نئے ذہن کو شاہ ہمدان کے مشن کا اِحیاء (Revival of Shah Hamadan’s Mission) کہا جاسکتا ہے۔
میر سید علی ہمدانی ایران میں پیدا ہوئے، وہ تیمور لنگ (وفات: 1405ء) کے ہم عصر تھے۔ شاہ تیمور ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور ان کو ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب امیر کبیر کے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ تیمور لنگ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلائیں، مگر امیر کبیر نے اِس قسم کے سیاسی تصادم سے مکمل طورپر پرہیز کیا۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کو لے کر اپنے وطن ہمدان سے نکلے۔ اِس طرح، افغانستان ہوتے ہوئے یہ قافلہ 1379 ء میں کشمیر پہنچا۔
امیر کبیر کا پروگرام نہ شاہ تیمور کے خلاف رد عمل کے طورپر بنا اور نہ کشمیری مسلمانوں کے وقتی حالات سے متاثر ہو کر۔ اُس وقت کشمیر میں ایک مسلم راجہ سلطان قطب الدین کی حکومت تھی۔ اس کے اندر بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں موجود تھیں۔ امیر کبیرنے سلطان کو ناصحانہ انداز کے خطوط بھیج کر اس کو اصلاحِ حال کی طرف متوجہ کیا، تاہم آپ نے اس کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کی جگہ صالح حکمراں کو لانے کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ امیر کبیر نے ان تمام عوامل سے اوپر اٹھ کر سوچا اور خود اپنے مثبت فکر کے تحت اپنا پروگرام بنایا۔ یہ تمام تر ایک خاموش عملی پروگرام تھا۔ امیر کبیراور ان کے ساتھی ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور پُر امن طور پر وہ یہاں کے باشندوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے لگے۔ انھوں نے کشمیریوں کی زبان سیکھی، یہاں کے حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کیا، اجنبی دیس میں اپنے لیے جگہ بنانے کی مصیبتیں اٹھائیں۔ اِس طرح صبر وبرداشت کی زندگی گزارتے ہوئے انھوںنے اپنے پُرامن دعوتی مشن کو جاری رکھا۔
کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ کشمیر میں آپ لوگ شاہ ہمدان کے پُر امن دعوتی مشن کو زندہ کریں۔ شاہ ہمدان کو کشمیر میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے دعوت کو اپنا واحد مشن بنایا ۔ اُن کے زمانے میں مختلف قسم کے مسائل کشمیر میں موجود تھے، لیکن انھوں نے اِن مسائل کو نظر انداز کیا اور دعوت الی اللہ کو اپنا واحدنشانہ بنایا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں کشمیر میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
مذکورہ کشمیری مسلمان نے کہا کہ شاہ ہمدان کے زمانے میں، کشمیر میں بڑی تعداد میں غیر مسلم پائے جاتے تھے۔آج تو یہاں سب کے سب مسلمان ہیں، پھر ہم کن لوگوں کے اوپر دعوتی کام کریں۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں انٹرنیشنل دعوہ ورک کے مواقع پائے جاتے ہیں۔ انڈیا کی آرمی جو بڑی تعداد میں کشمیر میں موجود ہے، اس کا ہر فرد آپ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کشمیر ایک سیاحتی مقام ہے، اِس لیے ساری دنیا کے سیّاح (tourists) کشمیر میں مسلسل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کشمیر میں اب بھی ہندوؤں کی ایک تعداد موجود ہے، جن کو کشمیر میں پنڈت کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح یہاں کے قدیم مندروں میں ہر سال بڑی تعداد میں یاتری آتے ہیں۔یہ سارے لوگ آپ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ لوگوں کے اندر اگر دعوتی شعور پیداہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ کشمیر میں ہر طرف بڑی تعداد میں مدعو پائے جاتے ہیں۔اِسی کے ساتھ کشمیر میں دعوت کا ایک اور میدان کھلا ہواہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو جدید افکار کی بنا پر اسلام کے بارے میں ذہنی بے اطمینانی کا شکار ہوگئے۔یہ لوگ بھی آپ کے لیے قیمتی مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر مسلموں کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ اسلام کو آپ اُن کی دریافت (discovery) بنائیں، اور مسلمانوں کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ اسلام کو آپ اُن کی دریافتِ نو (re-discovery) بنائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کو ڈبل خوش قسمتی کے مواقع حاصل ہیں۔ کشمیر کو جنت نظیر کہاجاتاہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کشمیریوں کو دنیا کی جنت دے دی۔ دوسری طرف، اللہ تعالیٰ نے کشمیر میں دنیا بھر کے مدعو بھیج دئے، تاکہ کشمیر کے مسلمان دعوتی کام کرکے آخرت کی جنت بھی حاصل کریں۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دعوتی کام انتہائی حد تک آسان ہوچکا ہے۔ اسلام پرچھوٹی اور بڑی کتابیں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو اپنے ساتھ رکھئے اور ہر موقع پر اُنھیں لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیجئے۔ اِسی طرح دوسرے تمام مواقع کو اسلام کی پُرامن اشاعت کے لیے استعمال کیجئے، خاص طورپر قرآن کا ترجمہ لوگوں کو دیجئے اور اللہ کے یہاں دعوت کا انعام حاصل کیجئے— شاہ ہمدان نے دعوت کے ذریعے کشمیر میں کامیابی حاصل کی تھی، آپ دوبارہ کشمیر میں دعوت کے ذریعے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
تنقید ایک صحت مند علامت ہے۔ تنقید کا مطلب عیب زنی اور الزام تراشی نہیں، بلکہ تنقید کا مطلب ہے — دلائل کی زبان میں اپنا اختلاف بتانا یا کسی نقطۂ نظر کا منطقی تجزیہ کرنا، کسی نقطہ نظر کے حسن وقبح کو علمی انداز میں بیا ن کرنا۔
اِس قسم کی تنقید بلا شبہہ ایک صحت مند علامت ہے۔ تنقید اور تجزیہ کا ماحول مسلسل ذہنی ارتقا کا ضامن ہے۔ جہاں تنقید نہ ہو، وہاں ذہنی جمود پیدا ہوجائے گا:
No criticism leads to intellectual stagnation.
تنقید انسانوں کی پہچان کی ایک کسوٹی ہے۔ اگر آپ کسی بڑی شخصیت پر تنقید کریں اور اس کو سن کر لوگ غصہ ہوجائیں تو وہ شخصیت پرست لوگ ہیں۔ اور اگر آپ کی تنقید کو سن کر لوگ دلیل کی زبان میں اس کا تجزیہ (analysis) کریں تو وہ اصول پسند لوگ ہیں۔
صحت مند تنقید (healthy criticism) کا یہ فائدہ ہے کہ زیر بحث معاملے کے مختلف گوشے واضح ہوتے ہیں۔ لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیادہ وسیع ذہن کے ساتھ کسی معاملے پر غور کرسکیں۔
جب دو آدمی کھلے ذہن کے ساتھ آپس میں آزادانہ بتادلۂ خیال کرتے ہیں تونئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ معاملے کے نئے نئے گوشے کھلتے ہیں۔ اِس طرح طرفین کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیادہ منقح اندازمیں بات کو سمجھ سکیں۔
غیر تنقیدی ماحول گویا کہ مقلدانہ ماحول ہے۔ ایسے ماحول میں فطری طورپر ایسا ہوگا کہ لوگوں کے اندر ذہنی جمود پیدا ہوجائے گا، ان کی سوچ محدود ہو کر رہ جائے گی، اُن کے ذہنی افق میں وسعت پیدا نہ ہوسکے گی، وہ نئی حقیقتوں سے بے خبر ہو کر رہیں گے، وہ ترقی کے زیادہ اعلیٰ درجات طے کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ تنقید ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے، اور تنقید کو شجرِ ممنوعہ قرار دینا ذہنی جمود(intellectual stagnation) کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں
مولانا مرغوب الرحمن قاسمی (وفات: 2010 ) دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے۔ اپنی زندگی کے آخری تیس سال تک وہ اِس عہدے پر فائز رہے۔ اپنے کام کی نسبت سے، اُن کے تعلقات بہت سے لوگوں کے ساتھ قائم تھے۔ اِن تعلقات کے لیے مولانا مرحوم کا ایک اصول تھا۔ اِس اصول کو مولانا نور عالم خلیل امینی نے اپنے ایک مضمون میں اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اِس مسئلے میں مولانا کے ذہن میں خانے بنے ہوئے تھے اور وہ اُن میں سے ہر ایک کو اُس خانے میں رکھتے جو انھوں نے اُس کے لیے متعین کیا ہوتا تھا، اور اسی ’’درجہ بندی‘‘ کے اعتبار سے، وہ اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے‘‘۔ (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، مارچ 2011، صفحہ
یہ اصول ہر شخص کے لیے ایک قابلِ تقلید اصول ہے۔ یہ اصول آدمی کو غیر ضروری ٹنشن سے بچاتا ہے۔ ایسا آدمی غیر ضروری قسم کی شکایتوں سے محفوظ رہتاہے۔ یہ ایک عملی اصول (practical formula) ہے اور تعلقات کے معاملے میں عملی اصول ہی ہمیشہ بہتر اصول ہوتا ہے۔
لوگوں کو ایک دوسرے سے شکایتیں کیوں ہوتی ہیں، اِس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ دوسروں سے، زیادہ امید قائم کرلیتے ہیں اور جب وہ شخص ان کی زیادہ امید (over-expectation) پر پورا نہیں اترتا تو وہ اس کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔
اِس مسئلے کا سادہ حل یہ ہے کہ آپ لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آپ کسی شخص سے وہی امید رکھئے جو باعتبارِ حقیقت اُس سے رکھنا چاہیے۔ جب بھی ایسا ہو کہ ایک شخص آپ کی امید پر پورا نہ اترے تو آپ صرف یہ کیجئے کہ اس کا ’’خانہ‘‘ بدل دیجئے۔ پہلے اگر آپ نے اُس کو کٹیگری اے میں رکھا تھا، تو اب آپ اس کو کٹیگری بی یا کٹیگری سی میں ڈال دیجئے۔ اس کے بعد اُس آدمی کو لے کر آپ کے اندر نہ کوئی ٹنشن ہوگا اور نہ کوئی شکایت۔
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر طٰہ حسین (وفات:1973 ) مشہور عربی ادیب ہیں۔ وہ 1889 میں مصر میں پیداہوئے۔ انھوںنے الازہر میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد انھوں نے فرانس کی یونی ورسٹی ساربونے سے ابن خلدون کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ عربی ادب اور تاریخ پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں موجود ہیں۔
ڈاکٹر طہ حسین جب تین سال کے تھے تو وہ چیچک (chicken pox)کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور اِسی بیماری میں وہ نابینا (blind) ہوگئے۔ مگر ان کا نابینا ہونا ان کے حصولِ علم میں رکاوٹ نہیںبنا۔ غیر معمولی محنت کے ذریعے ڈاکٹر طہٰ حسین نے عربی زبان میں اتنی ترقی کی کہ وہ عمید الأدب العربی کہے جانے لگے۔
اِس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ انسان کے اندر فطری طورپر اتنا زیادہ امکانات (potentials) ہوتے ہیں کہ کوئی بھی عذر اس کو اعلیٰ ترقی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔
کسی آدمی کا اندھا ہونا بظاہر بہت بڑی معذوری ہے، لیکن تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جب کہ کسی شخص نے اندھا ہونے کے باوجود بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے کوئی عذر، عذر نہیں۔ کوئی جسمانی نقص، کوئی مالی نقصان، کوئی نامساعد صورتِ حال، کوئی اتفاقی یا غیر اتفاقی حادثہ، انسان کا راستہ روکنے والا نہیں بن سکتا۔ ہر عورت اور مرد لامحدود صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح آدمی کی اپنی ذات کے باہر جو مواقع (opportunitie) ہیں، وہ بھی لامحدود ہیں۔
انسا ن کو چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت ِحال میں مایوس نہ ہو، وہ ہر حال میں اپنا حوصلہ برقرار رکھے، وہ ہر ناکامی کو وقتی ناکامی سمجھے۔ جس شخص کے اندر اِس قسم کا عزم (determination) ہو ، کوئی بھی چیز اس کو ترقی سے روکنے والی نہیں بن سکتی۔
واپس اوپر جائیں
مولانا نور عالم خلیل امینی (استاد ادبِ عربی، دار العلوم، دیوبند) نے دیوبند کا ایک واقعہ اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:’’
حقیقت یہ ہے کہ کوئی آدمی پیدائشی طورپر برا نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی شخص مذکورہ قسم کا کام کرتا ہے تو ایسا ہمیشہ وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ آپ اگر جوابی رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ نرمی اور خیر خواہی کے ساتھ گفتگو کریں تو عین ممکن ہے کہ فریقِ ثانی کو اپنے کام پر شرمندگی ہوجائے اور وہ خود ہی اپنا رویہ بدل لے— منفی رد عمل معاملے کو بگاڑ دیتا ہے، اور مثبت ردّ عمل معاملے کو درست کردیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ اُن کو دوسروں سے شکایت تھی کہ وہ اُن کا اعتراف نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ اِس معاملے میں غلطی آپ کی ہے، دوسروں کی غلطی نہیں۔ آپ اپنے کو اپنے پوٹیشیل (potential) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ آپ کو آپ کے ایکچول (actual) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ آپ صرف یہ کیجئے کہ آپ اپنے پوٹینشیل کو ایکچول بنائیے، یعنی اپنے امکان کو واقعہ کی صورت دے دیجئے۔ اِس کے بعد آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔
یہی اکثر با صلاحیت لوگوں کا معاملہ ہوتا ہے۔ وہ غیر ضروری طورپر دوسرے لوگوں کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ دوسروں کے اندر اعتراف کا مادہ نہیں، مگر اِس طرح کے تمام معاملات میںاصل غلطی شکایت کرنے والے کی ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں اپنے امکان کو واقعہ بنانے سے ایک دن پہلے بھی لوگ کسی کا اعتراف نہیں کرتے۔ اِس دنیا میں کوئی شخص اپنی امکانی صلاحیت کے اعتبار سے تسلیم نہیں کیا جاتا، دنیا اس کو صرف اُس وقت تسلیم کرتی ہے جب کہ اس نے اپنی امکانی صلاحیت کو مسلسل جدو جہد کے ذریعے ایک کھلا واقعہ بنا دیا ہو۔ لوگ عام طورپر ظاہر بیںہوتے ہیں۔وہ امکان کو دیکھ کر رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ وہ صرف واقعہ کو دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی شکایت نہ کرے، بلکہ وہ قانونِ فطرت (law of nature) کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کرے کہ اپنی ساری طاقت اپنے امکان کو واقعہ بنانے میں لگا دے۔ جس دن ایسا ہوگا، اُس دن لوگ کسی اعلان یا مطالبہ کے بغیر آپ کا اعتراف کرلیں گے۔
آدمی کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدل نہیں سکتا۔ اُس کے لیے صرف یہ ممکن ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدل کر، دوسروں کو بدل جانے پر مجبور کردے۔ یہی فطرت کا قانون ہے، اور فطرت کے قانون میں کسی کے لیے کوئی استثنا (exception) نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
میں سی پی ایس کے دعوتی مشن سے وابستہ ہوں۔ میں غیر مسلموں کو قرآن کا ترجمہ (ہندی، انگریزی) مطالعے کے لیے دیتا ہوں۔ اِس پر بعض لوگوںنے اعتراض کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک، غیر مسلم کے لیے قرآن کا چھونا ہی جائز نہیں۔ میں اِس سلسلے میں علماء کا مسلک جاننا چاہتا ہوں ( خرم قریشی، نئی دہلی)۔
جواب
ابراہیم نخعی اپنے استاد علقمہ بن قیس (وفات:
اسی طرح بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کے لیے حیرہ کے ایک نصرانی نے ایک مصحف 70 درہم میں لکھا تھا (أن عبد الرحمن بن أبی لیلی کتب لہ نصرانی من اہل الحیرۃ مصحفاً بسبعین درہماً، مصنف عبد الرزاق، باب بیع المصحف، جلد 8، صفحہ
جولوگ مسِّ قرآن کے عمومی جواز کے قائل ہیں، ان کے استدلال کی ایک بنیاد یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہنشاہ ہرقل کے نام جو مکتوب روانہ کیا تھا، اس میںقرآن کی آیت بھی درج تھی۔ رسول اللہ کایہ مکتوب صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی میں مکمل طورپر نقل ہوا ہے۔ ہندستان کے مشہور عالم مفتی کفایت اللہ صاحب نے غیر مسلم کو ترجمہ قرآن دینا جائز بتایا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’کفایت المفتی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ مسلمانوں کے حق میں قرآن کا حکم رکھتا ہے، اور اُسے غیر مسلموں کو تبلیغ کے لیے دینا جائز ہے ۔
سوال
ایک اردو پرچے میں ایک مضمون اِس عنوان کے تحت نگاہ سے گزرا — دعوائے مہدویت اور مولانا وحیدالدین خاں۔ اِسی طرح ایک صاحب نے آپ کے بارے میں کہا کہ وہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ براہِ کرم، اِن دونوں باتوں کی وضاحت فرمائیں (سید اقبال احمد عمری، تمل ناڈو)
جواب
(1) مذکورہ مضمون میرے بارے میں ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ میںنے ہر گز اپنے بارے میں مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ میںنے جو کچھ کیا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ مہدی کے ظہور کے بارے میںجو حدیثیں آئی ہیں، اپنے فہم کے مطابق، ان کی توجیہہ کی ہے۔ یہ لوگ غالباً اپنے غیر علمی ذہن کی بنا پر توجیہہ (explanation) اور دعویٰ (claim) کا فرق نہیں سمجھتے، حالاں کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ظہورِ مہدی کے معاملے کی علمی توجیہہ کرنے کا حق بلا شبہہ اہلِ علم کو حاصل ہے، لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اِس سلسلے میں کوئی دعویٰ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی غیر سنجیدہ انسان ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ — میں مہدی ہوں، سنجیدہ انسان کبھی ایسے الفاظ بول نہیں سکتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مہدی کا رول ایک خدائی رول ہے۔ کوئی شخص خدا کی خصوصی توفیق کے ذریعے ہی مہدی کا رول ادا کرے گا۔ ایسی حالت میں مہدی کا دعویٰ کرنا، خدا کے ڈومین (domain) میں داخل ہونا ہے۔
ایک پیغمبر کو حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ — أنا النبی لا کذب (میں نبی ہوں، اِس میں کوئی جھوٹ نہیں) کیوں کہ اس کو خدا کی طرف سے فرشتے کے ذریعے براہِ راست یہ بتایا جاتا ہے کہ تم پیغمبر ہو، لیکن مہدی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ کوئی شخص خدا کی خصوصی توفیق سے، اگر مہدی کا رول ادا کرے، تب بھی اس کے پاس خدا کا فرشتہ یہ بتانے کے لیے نہیں آئے گا کہ تم مہدی ہو۔ ایسی حالت میں کسی انسان کو سرے سے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بارے میں مہدی ہونے کا دعوی کرے۔ ایسا دعوی کرنے والا اپنے خود ساختہ دعوے کی بنا پر خدا کے یہاں اپنے معاملے کو مشتبہ کرلے گا۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی شخص اپنے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ میں جنتی ہوں۔ ایسا دعویٰ کرنے والا صرف اپنی جنت کو خدا کی نظر میں مشتبہ قرار دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کا جنتی یا مہدی ہونا براہِ راست خدا کے فیصلے کا معاملہ ہے، وہ ہرگز انسان کے فیصلے کا معاملہ نہیں۔ مہدی کے معاملے میں کسی شخص کو صرف توجیہہ وتشریح کا حق حاصل ہے، اِس معاملے میں اُس کو ہر گز دعوے کا حق حاصل نہیں۔ مہدی کا دعویٰ کرنا صرف اپنے آپ کو غیر مہدی ثابت کرنا ہے، وہ ہرگز کسی کے مہدی ہونے کا ثبوت نہیں۔
(2) جو لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں، وہ بلاشبہہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو میری تحریروں میں وہ مجھ کو پہچان چکے ہوتے۔ اِس قسم کی باتیں بتاتی ہیں کہ انھوںنے میری تحریروں سے مجھ کو نہیں پہچانا۔
میرا اپنا ذاتی احساس اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں اپنے عجز اور بے مائیگی کو سوچتے ہوئے تنہائی میں، اکثر بے اختیار رونے لگتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ میرے بارے میں اگر آخرت میں یہ کہہ دیا جائے کہ تم نے جو کام کیا، وہ زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ تم نے کچھ نئی دینی باتیں دریافت کیں، جو کہ متن (text) میں لفظی طورپر موجود نہ تھیں۔ اِسی طرح اگر قیامت میں خدا یہ کہہ دے کہ تمھاری اِن باتوں کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، کیوں کہ میری عظمت وکبریائی اس کے بغیر ہی قائم ہے۔ اِسی طرح فرشتے اگر کہہ دیں کہ ہم تو ابد سے خدا کی تسبیح و تحمید میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اِسی طرح پیغمبر اگر یہ کہہ دیں کہ ہم نے پوری تاریخ میں خدائی سچائی کا اعلان کیا، جب کہ تمھاری کتابیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ اِسی طرح اصحاب رسول اگر یہ کہہ دیں کہ ہم کو اللہ کی توفیق سے، اصحاب رسول کا درجہ ملا، جب کہ ہم نے کبھی تمھارا لٹریچر پڑھا نہیں تھا۔ اِسی طرح اگر ملائکۂ جنت یہ کہہ دیں کہ ہماری فہرست میں جن اہل جنت کا ذکر ہے، اُن میں تمھارے جیسے کسی شخص کا نام درج نہیں، قیامت میںاگر ایسا ہو تو میرا کیا حال ہوگا۔
سوال
مولانا صاحب، میں نے اپ کی آن لائن کافی تقریریں سنی ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں، ہم اپنی اصلاح کا سفر کہاں سے شروع کریں۔ پاکستان کے حالات میں آپ ہماری اصلاح کے لیے کیا رہنمائی تجویز فرمائیں گے۔ (بشریٰ عامر، پاکستان)
جواب
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک منفی ملک کے طور پر وجود میںآیا۔ جس چیز کو پاکستان کے لوگ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کہتے ہیں، وہ کیا ہے۔ وہ دراصل اینٹی ہندو سوچ (anti-Hindu thinking) کا ایک خوب صورت نام ہے،اور اینٹی ہندو سوچ کا مطلب ہے—اینٹی مدعو سوچ، جو بلاشبہہ اسلام میں حرام ہے۔ پاکستان اولاً اینٹی ہندو فکر کے تحت بنا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے یہ فکر اینٹی آل فکر (anti-all thinking) بن گیا۔ پاکستان کے تمام مسائل دراصل اِسی منفی سوچ (negative thinking) کا نتیجہ ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق، اب یہ معاملہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستان میں منفی سوچ کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہے۔ مجھے امید نہیں کہ اب پاکستان منفی سوچ سے مثبت سوچ کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب پاکستان میں مثبت بنیادوں پر اجتماعی اصلاح ممکن نہیں۔ اب صرف ایک ہی چیز ممکن ہے، وہ یہ کہ افراد اپنے آپ کو اِس منفی طوفان سے بچائیں۔ سب سے پہلے آپ خود یہ کیجئے کہ آپ اپنے اندر مکمل معنوں میں مثبت ذہن کی تعمیر کریں، ایک ایسا ذہن جو منفی سوچ سے پوری طرح خالی ہو۔ اِس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ آپ افراد کی سطح پر دوسروں میں بھی مثبت سوچ والے انسان بنانے کی کوشش کریں، اور جب آپ کو ایسے کچھ ساتھی مل جائیں تو ہفتے وار اجتماع کی شکل میں اُن کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ حقیقت پسند (realist) بنیں، رومانی تصورات میں جینے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اِس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ فکرِ اقبال اور فکر مودودی کے خول سے مکمل طورپر باہر آجائیں، ورنہ آپ کے لیے کبھی بھی اپنی اصلاح ممکن نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
1 - نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب (Constitution Club) میں 9 جنوری 2011 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کو ایک جرمن ادارے نے منظم کیا تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Inter-religious Dialogue & Discussions for Harmonious Living
پروگرام میں دوسرے مقامی شرکاء کے علاوہ،
2 - ایوانِ غالب (نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میں 9 جنوری 2011 کو قرآن کانفرنس منعقد کی گئی۔ اِس کی دعوت پر سی پی ایس (نئی دہلی) کے ساتھیوں نے اِس کانفرنس میں شرکت کی اور حاضرین کو دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔
3 - جنیوا (سوئزر لینڈ) کی ایک رسرچ اسکالر مز صوفیہ (Sophie Schargo) 10 جنوری 2011 کو صدر اسلامی مرکز کے دفتر میںآئیں۔ وہ جنیوا یونی ورسٹی میں اِس موضوع پر ریسرچ کررہی ہیں:
Contradiction Between Secularism and Minorities’ Rights — Case of Muslim Women’s Rights
اُن سے ان کے زیر تحقیق موضوع کے علاوہ، اسلام کے مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ واپس جاتے ہوئے انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے بارے میں اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر رجت ملہوترا سے کہا:
If western peoples know your Maulana’s thoughts they will be astonished.
مز صوفیہ پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - نئی دہلی کے مسٹر اجمل
5 - بڈ گام (کشمیر ) کے ساتھی وہاں موجودانڈین آرمی کو مسلسل قرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچارہے ہیں۔ اِس سلسلے میں
6 - لوک سبھاٹی وی (نئی دہلی) نے 20 جنوری 2011 کو اس موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا:
Common Harmony
انٹرویو کے بعد ٹی وی کی ٹیم کے لوگوں کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
7 - سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے وسیع ہال میں
ک دعوہ میٹ جس کا اہتمام الرسالہ فورم (کشمیر )کے تعاون سے کیا گیاتھا، ایک تاریخی اجتماع تھا۔ اس دعوتی اجتماع کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کشمیریوں کو الرسالہ مشن کے داعیٔ اوّل اور اس دور کے مجدد مولانا وحید الدین خاں صاحب سے براہِ راست استفادہ کا قیمتی موقع نصیب ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا نے براہِ راست کشمیر یوں کو مخاطب کیا اور اُن کی اصل حیثیت اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ مولانا کے بقول، کشمیر میں سخت حالات کے بطن سے ایک دعوہ اکسپلوژن ہونے والا ہے۔ کشمیریوں کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس موقع کو استعمال کریں اور اس عظیم امکان کو واقعہ بنائیں۔ اس اجتماع میں مولانانے نہایت اعلیٰ پایہ کے خطابات فرمائے جن سے سامعین کے لیے کشمیر میں کام کے راستے واضح ہوگئے۔ سی پی ایس دہلی کے ممبران نے ہر پہلو سے نظم وضبط اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ میں خدا سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ ہم کواخوانِ رسول کی جماعت میں شامل فرمائے۔(نذیر الاسلام، پلوامہ، کشمیر)
ک اس طرح کی میٹنگ میں شمولیت میرے لیے ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ ’’اگر قرآن مجھے بھی ملا نہ ہوتا تو آج میں آپ کے بیچ نہ ہوتا‘‘۔ مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ الفاظ کہے تو میری انکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں کافی دیر تک اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا۔ قرآن کو اپنے غیر مسلم بھائیوں تک پہنچانے کو ہم قرآن کی توہین سمجھتے ہیں۔ اِسی منفی نفسیات نے ہم کو دعوتی مشن سے اندھیرے میں رکھا ہے۔ اِس میٹ سے ہم کوکشمیر کو حقیقی اسلامی کشمیر بنانے کا آغاز مل چکا ہے، جب پتھر کے بدلے کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں اپنے مدعوکے لیے قرآن ہوگا۔ (مجتبی حسین، سری نگر، کشمیر)
ک یہ دعوہ میٹ کشمیرکی اصل تحریک کو صحیح راستے پر لانے کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ ہمدان نے بے پناہ قربانی دے کر کشمیریوں کو جو تحریک دی تھی، واقعی اس سے انحراف ہوا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج اپنے محسن کے عظیم مشن کی تجدید کے لیے کشمیریوں کی ایک ٹیم ابھر رہی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تاریخ پھر ایک بار دہرائی جارہی ہے۔جس مشن کو شاہ ہمدان نے کشمیر میں پھیلایا، اِس میٹ کے ذریعے اب اس کے امکانات ہم پر اس قدر روشن ہوگئے ہیں کہ کشمیریوں کو اسے پوری دنیا میں پھیلانے کا موقع کھل گیاہے۔ (حمید اللہ حمید، بیروہ، کشمیر)
ک الرسالہ مشن نے جو خاص نعمت مجھے عطا کی، وہ مثبت سوچ ہے۔ پہلے میں قوم پرستی کے جذبات میں جی رہا تھا اور میں اپنے مدعو کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا ،لیکن الرسالہ نے مجھے یہ فکرعطا کی کہ تمھارا مدعو تمھیں جنت میں لے جائے گا۔ پہلے میرا مسئلہ، میری قوم کا مسئلہ تھا ،اب یہ آخرت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ الرسالہ نے مجھے نئی فکر دی، یعنی غیر مسلم بھائیوں تک اللہ کا کلام پہنچانا۔ الرسالہ مشن سے مجھے خود کی دریافت (discovery) ہوئی اور اب میں مدعو کی خیرخواہی میں جی رہا ہوں، اور اسی پر اپنا خاتمہ چاہتا ہوں۔مولانا وحید الدین خاں صاحب عصر حاضر کے امام ہیں اور ان کی فکر فطرت کی آواز ہے اوراِسی میں پوری انسانیت کی نجات ہے۔ (شفیع احمد ڈار، ہنڈوارا، کشمیر)
ک To be quite honest, I've never had such an experience in my entire life. I still remember each and every word of Maulana sahab. This conference helped me to bring a transformation in my life and freed my mind and soul from the captivity of negativity. The most striking point was "The Revival of Shah Hamadan Mission”. It created a storm within my mind and motivated me to dedicate my life for the mission. (Mohammad Ismail Bhat, Anantnag, Kashmir)
ک I appreciate you & your organizers for conducting such impressive seminars highlighting the real issues of life. (Dr. Rafi, Srinagar, J&K)
ک Muslim Students Association of the University of Carleton and the University of Ottawa in Ottawa , Canada were going to hold "Islam Awarenes Week" separately during the months of February and March, 2011. On this occasion, at their request I loaded 3000 copies of Quran in a van and drove them to Ottawa. This journey of mine became my unique experience for two reasons: One, I felt myself very special carrying God’s word as someone feels carrying a message from the ruler of his country. Second, I was spiritually immersed while driving because I was listening to motivating proceedings of Kashmir Meet being held at New Delhi. I was immensely thanking Allah for giving me such opportunity to carry his message physically and at the same time participating in Dawah meet spiritually. (Khaja Kaleemuddin, USA)
8 - سہارن پور (یوپی) میں ہمارے ساتھی دعوتی کام کررہے ہیں۔ اس کی رپورٹ حسب ذیل ہے:
مولانا کلیم صدیقی (پھلت)’جامعہ سید سلیمان ندوی اینگلو عربک اسکول ‘کا افتتاح کرنے کے لیے 5 فروری 2011 کو سہارن پور تشریف لائے۔ اس پروگرام کی صدارت مولانا رائے پوری نے کی۔ اس میں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی مٹیریل دیا گیا۔ دیگر علماء کے علاوہ مولانا کلیم صدیقی صاحب کو بھی صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
9 - حکومت ہند کی جانب سے 6 فروری 2011 کو سہارن پور میں پدم شری بھارت بھوشن کی قیادت میں ایک آل انڈیا ’یوگا سیمنار‘ منعقد ہوا۔ اس میں ہندستان کے بہت سے وزرا، آئی ایس افسر، میڈیکل سائنس داں اور یوگا گرو شامل ہوئے۔ اس میں سبھی مہمانوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
10 - فادر ڈینئل مسیح (پریسٹ، سینٹ تھامس چرچ ،سہارن پور) نے 7 فروی 2011 کوبتایا کہ وہ قرآن کے جو نسخے سی پی ایس سے لے جاتے ہیں، وہ اس کوچرچ میں ان لوگوں کودیتے ہیں جو سچ مچ خدا سے ملنے کے لئے سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ عیسائی بنانا اچھی بات ہے لیکن مولانا کی کتابیں پڑھ کر ان کا نظریہ بدل گیاہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا کو دریافت کرنا ہے تو قرآن پڑھیے۔
18 - برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کی پہلی مسلم منسٹر (Cabinet Minister)مز سعیدہ وارثی کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور پرافٹ آف پیس بذریعہ ڈاک روانہ کی گئی۔ کتابیں ملنے پر ان کے دفتر (لندن) سے
I am writing on behalf of Saeeda Baroness Warsi to thank you for the enclosed books. Baroness Warsi looks forward to reading both “The Prophet of Peace” and Maulana Wahiduddin Khan’s translation of the Holy Quran (Gulsum Aytac, Office of the Party, Co-chairman)
19 - آل انڈیا ریڈیو (اردو) پر
20 - غالب اکیڈمی (نظام الدین، نئی دہلی) میں
“I would love to have it, I don’t have one”.
“A prize no one can refuse.”
“It will be an excitement, wish you a success.”
“I would very much like to read it. In fact I have a friend who would be interested in it too, can I take another copy.”
“I got it, you gave me last year, thank you”
“We should read the Quran sometimes to know what the real Islam is, thank you”
“Thank you, excellent, I will take it home and I promise to read it”
“Thank you, it’s worth coming”
“It’s my best bargain of the afternoon.”
“It is important to know each other”
اِس سفر کے دوران گڈورڈ بکس کے نمائندے نے دو دن ترکی میں قیام کیا۔ وہاں انھوں نے زائرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا اور ایک جامع مسجد میں جہاں کثرت سے زائرین آتے ہیں، وہاں کے ذمے دار سے مل کر مسجد میں مستقل طورپر قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوانے کا انتظام کیا۔ یہاں سے غیر مسلم زائرین قرآن کا ترجمہ حاصل کرسکیں گے۔
The Quran, The Prophet of Peace and other Dawah literature were given as New Year (2011) gifts to influential and intellectual personalities of the locality. They include:
ک Two local MLAs of Uttrakhand, Mr. Suresh Jain [BJP] and Chaudhary Yashweer Singh;
ک Professors from IIT and Retd. Army officers
ک COOs of companies — Mr. R. Shelly (AIS Glass Solutions) and Mr. P S Shirodkar (Glass Tech)
ک Rev. Dr. Dayal M Lall of Roorkee Churches;
ک Principal of St. Ann’s school
The Quran is being spread through various book shops in Roorkee as well as in Dehradun. Some of the prominent shops are Cambridge Book Depot and Jain News Agency in Roorkee and The English Book Depot and Natraj Publishers in Dehradun. (Sajid Anwar)
In Europe Brother Husnu Evren and Brother Alper have taken up the responsibility to dispatch the Quran to requesters from the continent. So far many requests have been dispatched. (Sajid Anwar, Mumbai)
A new trend has been observed in the Roorkee region: people are themselves asking for Dawah literature and the Quran, (Sajid Anwar, Roorkee, Uttarakhand)
I am very happy to receive the Quran. I carefully read the book and will continue to send it’s massage to others. (Sachin Kumar, Delhi)
I am a Tunisian writer preparing at the moment a English-French-Arabic dictionary of Islam for a publishing house in Lebanon. I have used your English translation of the Quran to prepare the dictionary. In my opinion, the translation by Maulana Wahiduddin Khan is the best of all the translations. (Tarek Abdaoui, Tunisia)
I salute our esteemed Maulana Wahiduddin Khan for such an outstanding article on Blasphemy He is one of the greatest intellectual leaders of our time. (Tarannum Riyaz, Punjab).
I read the article and am really in awe of this great scholar, we are blessed to have amidst us in these trying times. (Usha Chandra, Secretary, Development Communication, India)
I have read your message “Of Strangers And Friends” in the Speaking Tree Column of The Times of India.( Jan 28, 2011) With every message I read I feel a great deal of bonding with you and the ideals for which you are devoting your life. (Naresh Garg, Delhi)
Blasphamy and the Islamic Way, Jan 10, 2011 (The Times of India)
Islam Believes in Freedom, Jan,
Of Strangers And Friends, Jan 28, 2011 (The Times of India)
Be Patient, Jan,
30 - سی پی ایس (نئی دہلی) کے ممبران کے مطبوعہ مضامین کی تفصیل حسب ذیل ہے:
Prophet Said be Realistic- Maria Khan, The Times of India, Sep. 9, 2010
Journey of Self-Discovery- Sadia Khan, The Times of India, Feb. 9, 2011
Open Heart, Open Mind- Stuthi Malhotra, The Speaking Tree, Feb. 6, 2011
Keep Your Cool- Raazia Siddiqui, The Speaking Tree, Feb.
ک مذہب اور انسانی زندگی، حجاب کا اسلامی تصور، عورت معمارِ انسانیت (یکم جنوری 2011 )
ک سادگی کی اہمیت، حب وطن اور اسلام، روز مرہ کی زندگی اور اسلام (7 جنوری 2011 )
ک اسلام اور ماڈرن کلچر، مثبت شخصیت کی تعمیر، آخرت ایک ابدی زندگی (18 جنوری 2011 )
ک خدا اور انسان، سچائی کی تلاش، کائنات میں انسان کا مقام (
ک اسوۂ رسول، رسولِ رحمت، عصر حاضر میں سیرت رسول کی معنویت (8 فروری 2011 )
ک اسلام دورِ جدید میں، تصوف اور اسلام، مسلمان اور جدید چیلنج (
ک تزکیہ نفس، مذہب اور سائنس، اسلام میں جنت کا تصور (
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.