قرآن کی سورہ البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والے، اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں (
Strong affection, deep emotional attachment.
اللہ کے ساتھ یہ گہرا قلبی میلان اُس انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے جو اللہ کے اعلیٰ انعامات کو شعوری طور پر دریافت کرے۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا جب کہ اس کا کوئی وجود نہ تھا (
اِس طرح کے بے شمار انعامات ہیں جو اللہ نے انسان کو عطا کیے ہیں۔ جب آدمی اِن بے شمار انعاماتِ الٰہی کو سوچتا ہے تو ا س کے اندر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں حبِّ شدید (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوا ہے: لئن شکرتم لأزیدنکم (
حقیقی شکر سب سے بڑا عمل ہے۔ شکر تمام عبادات کا خلاصہ ہے۔ جو آدمی دنیا کی زندگی میں حقیقی معنوں میں شکر گزاری کا ثبوت دے، وہ آخرت میں دوبارہ خدا کی نعمتوں سے سرفراز کیاجائے گا۔ حقیقی شکر کسی آدمی کو جنت کا مستحق بناتا ہے۔ جنت میں صرف اعلیٰ روحیں داخل کی جائیں گی، اور اعلیٰ روح وہ ہے جو حمد اور شکر کی کیفیات سے بنی ہو۔ اِس اعلیٰ روح کو جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے گا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت والے جب جنت میں داخل کر دئے جائیں گے تو وہ کہیں گے: الحمد للہ الذی أذہب عنا الحزَن(
دنیا کی زندگی میں ہر آدمی کا ایک لمحۂ حزن یا زمانۂ حزَن ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ اس حزن (sorrow)سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ جو آدمی اپنے اِس زمانہ حزن کو اور پھر زمانہ فرحت کو دریافت کرے اور پھر وہ یہ کہہ اٹھے کہ خدایا، تونے دنیا میں میرے حزن کو دور کردیا، اِسی طرح تو آخرت میں میرے حزن کو دور کردے۔ جوآدمی سچے احساس کے ساتھ یہ بات کہے تو یہ بات اس کے لیے ان شاء اللہ جنت میں داخلے کا ٹکٹ بن جائے گی۔ دنیا کی نعمتوں کا اعتراف اس کو آخرت کی نعمتوں کا مستحق بنادے گا۔
اِس قسم کا قول کوئی سادہ قول نہیں۔ اِس کے لیے گہری شعوری بیداری درکار ہے۔ جوآدمی اپنے اندر اِس قسم کی شعوری بیداری پیدا کرے، اُسی کے دل سے اِس قسم کے کلمات نکلتے ہیں جو اس کے لیے جنت میں داخلے کا استحقاق بن جائیں۔ گہری شعوری بیداری کے بغیر کسی شخص کو یہ توفیق ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاعراف میں ارشاد ہوا ہے: وإن یروا سبیلَ الرُّشدِ لا یتخذوہ سبیلاً، وإن یروا سبیل الغیِّ یتخذوہ سبیلاً (
اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا تعلق کسی خاص قوم سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اہلِ کتاب گروہ کی حالتِ زوال سے ہے۔ جب کوئی قوم یا امت اِس حال کو پہنچتی ہے تو اس کے اندر زوال یافتہ نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ اُس کا ذہن وہی بن جاتا ہے جس کا ذکر مذکورہ آیت میں کیاگیا۔
ایسی قوم غیر حقیقت پسندانہ افکار وخیالات میں جینے لگتی ہے۔ اس بنا پر ایسے لوگ اس کے درمیان مقبول ہوجاتے ہیں جو ہائی پروفائل(high profile) میں بولتے ہوں، لو پروفائل (low profile) میں بولنے والا آدمی ان کے درمیان مقبول نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ خود احتسابی (introspection) کو پسند نہیں کرتے، البتہ دوسروں کے خلاف بولنا ان کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ پر امن کام ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اِ س کے برعکس، تشدد اور ٹکراؤ کی باتیں ان کو بہت اپیل کرتی ہیں۔ دوسروں کا خیر خواہ ہونااُن کے لیے اجنبی بن جاتا ہے۔ وہ اُن لوگوں کی باتوں کو بہت شوق سے سنتے ہیں جو انھیں دوسروں کے ظلم اور سازش کی کہانیاں سنائیں۔ ان کو عمل اور جدوجہد سے رغبت نہیں ہوتی، اِس لیے وہ مطالباتی نعروں کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں، وغیرہ۔
یہ سب زوال یافتہ نفسیات کے مظاہر ہیں۔ جو قوم بھی زوال کی حالت کو پہنچ جائے، اس کا انجام یہی ہوگا، خواہ وہ یہود ہوں یا مسلمان۔ زوال یافتہ نفسیات لوگوں کے اندر بے عملی اور جذباتیت کا مزاج پیدا کردیتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو رُشد (ہدایت) کی بات اپیل نہیں کرتی، البتہ غیّ (گمراہی) کی بات کی طرف وہ تیزی سے دوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی خدا کی رحمتوں میں حصہ پانے والے نہیں۔ ایسی قوم کی اصلاح کا آغاز صرف یہ ہے کہ اس کے اندر اپنی حالت پر نظر ثانی کا مزاج پیدا کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الحجر میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: فاصدع بما تُؤمر وأعرض عن المشرکین۔ إنا کفیناک المستہزئین (
قرآن میں بتائی ہوئی یہ شرطیں دو ہیں —ایک، کسی کمی یا بیشی کے بغیر پیغمبرانہ دعوت پر کھڑا ہونا۔ دوسرے، مخالفین کی منفی باتوں سے مکمل طورپر اعراض کرنا۔ داعی اگر یہ دوشرطیں پوری کردے تو بلاشبہہ وہ مذکورہ نصرتِ الٰہی کا مستحق بن جائے گا۔
نصرت کا یہ معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب حق کو اُس کی خالص صورت میں پیش کیا جائے تو لوگوں کو وہ اُن کی فطرت کے عین مطابق نظر آتا ہے۔ لوگوں کا خوداپنا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ یہ بلاشبہہ سچائی ہے۔ ایسی حالت میں، داعی اگر مخالفین سے نہ الجھے تو گویا کہ وہ مخاطَبین کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی آواز کو کسی رکاوٹ کے بغیر سنتے رہیں۔ اِس طرح یہ ہوتا ہے کہ داعی جو جواب لوگوں کو دینا چاہتا ہے، وہ زیادہ بہتر طورپر مخاطبین کی خود اپنی فطرت کی طرف سے اُن کو مل جاتا ہے۔ یہی مطلب ہے اِس کا کہ —اگر تم اعراض کرو تو اللہ تمھاری طرف سے استہزا کرنے والوں کے لیے کافی ہوجائے گا۔ یہ داعی کے لیے اُس کے مشن کے سلسلے میں ایک ایسی یقین دہانی (assurance) ہے جس سے بڑی یقین دہانی بلاشبہہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ میںارشاد ہوا ہے: وقالوا کونو ہوداً أو نصاریٰ تہتدوا، قل بل ملّۃ إبراہیم حنیفاً، وما کان من المشرکین (
قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کوئی امت جب اپنے دورِ زوال (de-generation) میں پہنچتی ہے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ ایسی امت ہدایت (guidance) کو گروہ (community) سے وابستہ کردیتی ہے، نہ کہ اصولی تعلیمات سے۔ یہود ونصاریٰ کا یہی حال اپنے دورِ زوال میں ہوا۔ انھوں نے گروہ کو دین کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ ان کا عقیدہ یہ ہو گیا کہ وہ ایک نجات یافتہ گروہ ہیں، ہدایت کا معیار یہ ہے کہ آدمی اُن کے گروہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ مذکورہ آیت میں ملتِ ابراہیم سے مراد دین ابراہیم ہے۔ گویا کہ یہاں تقابل گروہی ہدایت اور اصولی ہدایت کے درمیان کیاگیا ہے۔
اِس اصول کا تعلق صرف قدیم امتوں، یہودونصاریٰ، سے نہیں ہے، بلکہ بعد کی امت، مسلم امت، بھی یکساں طورپر اس کی مخاطب ہے۔ مسلم امت اگر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لے کہ مسلمان اور اسلام دونوں ایک ہیں۔ وہ یہ عقیدہ بنالے کہ صرف گروہی اعتبار سے جو لوگ مسلم جماعت میں شامل ہیں، وہ اپنے آپ ہدایت پر ہیں اور اُن کے لیے نجات یقینی ہے تو یہ عقیدہ بھی اتنا ہی زیادہ غلط ہوگا جتنا کہ یہودیوں اور مسیحیوں کا عقیدہ۔
خدا کا دین ہمیشہ اصول پر قائم ہوتا ہے، یعنی اللہ سے شدید محبت اور اللہ سے شدید خوف۔ جو لوگ اپنی زندگی میں اِس اصول کو پوری طرح اختیار کریں، وہ خدا کے یہاں ہدایت یاب قرار پائیںگے۔ کسی نسلی جماعت یا کلچرل گروہ سے وابستہ ہونا ہدایت یاب ہونے کا ثبوت نہیں۔ ہدایت کا یہی معیار (criterion)ماضی کے لیے بھی ہے اور ہدایت کا یہی معیارحال کے لیے بھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ ص میں بتایا گیا ہے کہ: کتاب أنزلناہ إلیک مبارک لیدبَّروا اٰیاتہ ولیتذکر أولو الألباب (
اِس آیت میں تدبر سے مراد تفکر ہے۔ تفکر کیا ہے، تفکر دراصل عقل کو استعمال کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اپنی عقل کو کھلا رکھو، کیوں کہ عقلی غور وفکر کے ذریعے ہی کسی کو قرآن سے معنوی نصیحت ملتی ہے، نہ کہ محض لفظی تلاوت سے۔
اِس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کی تلاوت کرے تو اُس وقت وہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تلاوت کرے۔ اسی طرح جب وہ نماز میں قرآن کا کوئی حصہ پڑھے تو وہاں بھی وہ اپنی عقل و فہم کو کھلا رکھتے ہوئیقرآن کی تلاوت کرے۔
کوئی شخص جب اِس طرح قرآن کی تلاوت کرے گا تو بار بار ایسا ہوگا کہ قرآن کی کوئی آیت یا قرآن کا کو ئی لفظ اس کی عقل کو اسٹرائک (strike) کرے گا۔ ایسے موقع پر آدمی کو چاہیے کہ وہ ٹھہر کر اُس پر غور کرے۔ اِس طرح اس کو قرآن سے نصیحت کی غذا ملتی رہے گی۔
مثال کے طورپر قرآن کو پڑھتے ہوئے یہ آیت آپ کے سامنے آئی: فأثابہم اللہ بما قالوا جنات تجری من تحتہا الأنہار (
اس کے بعد آپ نے سوچا کہ دونوں آیتوں میں مطابقت کیا ہے ۔ پھر غور کرنے کے بعد آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ حدیث میں جس ’’قول‘‘ کا ذکر آیا ہے، اس کی تشریح قرآن سے ہوتی ہے، یعنی حدیث میں جس قول پر جنت کا وعدہ کیاگیا ہے، اُس سے مراد قولِ معرفت ہے، نہ کہ محض لفظی قول۔ یہی وہ چیز ہے جس کو تدبر اورتفکر (contemplation) کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
یہود ونصاریٰ اپنے دورِ زوال میں جن برائیوں میں مبتلا ہوئے، اُن میں سے ایک برائی وہ ہے جس کو قرآن میں مُضاہاۃ (
مضاہاۃ کی ایک صورت وہ ہے جس کو مذہبی مضاہاۃ (religious imitation) کہا جاسکتا ہے۔ بدعت کے تمام طریقے اِسی مذہبی مضاہاۃ کی فہرست میں شامل ہیں۔ بدعت، مجرد بدعت کانام نہیں ہے۔ بدعت در اصل یہ ہے کہ غیر دینی طریقے کو دینی نام دے کر اُس کو اختیار کرلیا جائے۔
موجودہ زمانے میں مضاہاۃ کی ایک اور قسم بہت بڑے پیمانے پر ظاہر ہوئی ہے۔ اس کو سیاسی مضاہاۃ (political imitation) کہاجاسکتا ہے، یعنی سیکولر پارٹیوں اور سیکولر تحریکوں کے طریقے کو اسلامی نام دے کر اس کو اسلامی عمل کے طور پر اختیار کرلینا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے احتجاج (protest) کے طریقے کو بہت بڑے پیمانے پر اختیار کر لیا ہے۔ یہ بلا شبہہ سیاسی بدعت یا سیاسی مضاہاۃ ہے۔ مثلاً اسلامی مسائل کے نام پر احتجاجی بیانات، احتجاجی مظاہرے، احتجاجی کانفرنسیں، احتجاجی ریلی، احتجاجی دھرنا، احتجاجی نعرے، وغیرہ۔
احتجاج (protest) بلاشبہہ سیکولرزم کا طریقہ ہے، وہ اسلام کا طریقہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مقدس کعبہ کو عملاً بت خانہ بنا دیا گیا تھا، مگر آپ نے اُس پر احتجاج نہیںکیا۔ اِسی طرح تیرہ سالہ مکی دور میں رسول اور اصحابِ رسول پر ہر قسم کے مظالم کئے گئے، لیکن آپ نے اِس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ دار الندوہ میںآپ کے خلاف بائکاٹ کی تجویزپاس کی گئی، مگر آپ نے اس کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کیاگیا، لیکن آپ نے اس پر احتجاج نہیں کیا، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج (protest) اپنے آپ میں سر تاسر ایک غیراسلامی طریقہ ہے۔ احتجاج کو خوب صورت نام دے کر اس کو اسلامی نہیں بنایا جاسکتا۔ مثلاً پُر امن احتجاج، دینی احتجاج، اپنے حق کے لیے احتجاج، حکمراں کے ظلم کے خلاف احتجاج، پیغمبر کی شان میں گستاخی کے خلاف احتجاج، عبادت خانے کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج، اسلام کی توہین کے خلاف احتجاج، وغیرہ۔
اِس مضاہاۃ یا مشابہتِ غیر کی نفسیات کیا ہے۔اِس کا جواب قرآن کی اِس آیت میں ملتا ہے: تشابہت قلوبہم (
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مضاہاۃ کی دونوں قسمیں مکمل طور پر آچکی ہیں، مذہبی مضاہاۃ بھی اور سیاسی مضاہاۃ بھی۔ مسلمانوں کے اندر طرح طرح کی جو مبتدعانہ رسمیں ہیں، وہ سب اِس مذہبی مضاہاۃ کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً جنم اشٹمی کی جگہ میلاد النبی، ہنومان چالیسہ کی جگہ قرآن خوانی، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ملی سیاست کے نام سے جو سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں، وہ سب کی سب بلا استثنا سیاسی مضاہاۃ کا نتیجہ ہیں۔ ملی سیاست یا اسلامی سیاست کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے بہت بڑے پیمانے پر غیر اسلام کو اسلامائز کررکھا ہے۔
یہ نام نہاد اسلامی سیاست اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہودی سیاست ہے۔ اس کا کوئی فائدہ مسلمانوں کو نہ دنیا میں ملنے والا ہے اور نہ آخرت میں۔ مسلمانوں کے کرنے کا کام دعوت ہے، نہ کہ سیاست۔ مسلمان جب تک مضاہاۃکے یہودی طریقے کو چھوڑ کر دعوت کا طریقہ اختیار نہ کریں، اُس وقت تک وہ خدا کی رحمت سے محروم رہیں گے، دعوت الی اللہ کے بغیر ان کو ہر گز خداکی نصرت ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
یہود نے اپنے دورِ زوال میں جو روش اختیار کی تھی، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: من الذین ہادُوا یحرّفون الکلم عن مواضعہ (
اس آیت کی تشریح مفسر القرطبی نے اِن الفاظ میں کی ہے: یتأوّلونہ علی غیر تأویلہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاق (context) کو بدل کر کلامِ الٰہی کی تشریح کرتے ہیں۔
اِس معاملے کی ایک مثال اصولی نجات کو گروہی نجات کے ہم معنیٰ بنانا ہے ۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے: وقالوا کونوا ہوداً أونصاریٰ تہتدوا، قل بل ملّۃَ إبراہیم حنیفاً (
یہ دراصل دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ جب کسی اہلِ کتاب گروہ پر زوال آتا ہے تو اُس کا حال یہی ہوجاتا ہے۔ وہ خدائی مذہب کو اپنی قومی خواہشوں پر ڈھال لیتا ہے۔ وہ خدائی مذہب کی ایسی تاویل کرتا ہے جو اس کے قومی مزاج کے مطابق ہو۔
یہی حال موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا ہوا ہے۔ انھوں نے خود ساختہ تاویل (interpretation)کے ذریعے اصولی نجات کو گروہی نجات کے ہم معنی بنا لیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اسلام عملاً قومی اسلام (communalized Islam) بن گیا ہے۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو ایسے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جو اُن کی ملی خواہشوں کے مطابق ہوں۔ اِس قسم کا خود ساختہ مذہب اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہونے والا نہیں، نہ یہودیوں سے اور نہ مسلمانوں سے۔
واپس اوپر جائیں
خلیفہ ثانی عمر فاروق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ یرفع بہذا القرآن أقواما ویضع بہ آخرین ( الدارمی، رقم الحدیث: 3365 ) یعنی اللہ اِس قرآن کے ذریعے ایک قوم کو اٹھاتا ہے اور اُسی کے ذریعے وہ دوسری قوم کو گراتا ہے۔ یہ اصول امتِ مسلمہ کی ابتدائی تاریخ میں پوری طرح ایک واقعہ بن چکا ہے۔ مورخین نے عام طور پر اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مثال کے طورپر پروفیسر فلپ ہٹی (وفات:1978 ) نے اپنی کتاب تاریخ عرب (The History of the Arabs) میں تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل کے قبولِ اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ — مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی، جہاں اُن کی تلوار ناکام ہوچکی تھی:
The religion of Muslims has conquered, where their arms had failed.
قرآن ایک آئڈیالوجی کی کتاب (book of ideology) ہے۔ اس کے مقابلے میں، تلوار مادی طاقت کی علامت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تلوار کے مقابلے میں قرآن زیادہ طاقت ور ہے۔ تلوارکی فتح، مفتوح کے خاتمہ کی قیمت پر ہوتی ہے، جب کہ قرآن آدمی کے دل ودماغ کو مسخر کرکے اس کو آپ کا ساتھی بنا دیتا ہے۔ تلوار کی فتح صرف میدانِ جنگ کی فتح ہے، اور قرآن کی فتح خود انسان کی فتح ، اور جب انسان فتح ہوجائے تو گویا سب کچھ فتح ہوگیا۔
قرآن، خدا کا محفوظ ہدایت نامہ ہے۔ قرآن آدمی کی فطرت کو ایڈریس کرتا ہے۔ قرآن آدمی کی تلاش کا جواب ہے۔ قرآن آدمی کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز بتاتا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن صرف ایک نظریاتی کتاب نہیں، بلکہ اس کی پشت پر ایک واقعاتی تاریخ موجود ہے جو اس کی تسخیری طاقت کی تصدیق کرتی ہے۔ قرآن نظریہ بھی ہے اور تاریخ بھی۔ اِن باتوں نے قرآن کو ابدی طور پر ایک ناقابلِ تسخیر کتاب بنا دیا ہے۔جو لوگ قرآن کی دعوت کو لے کر اٹھیں، اُن کے لیے کسی اور طاقت کی ضرورت نہیں۔ قرآن اپنے آپ میںاُن کی تمام دعوتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کافی ہے۔ قرآن فاتحِ انسان بھی ہے اور فاتحِ عالم بھی۔
واپس اوپر جائیں
جہاد کیا ہے۔ جہاد کے لفظی معنی کوشش (struggle) کے ہیں۔ اِس میںمبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ کوشش کرنا۔ قرآن اور حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا لفظ تقریباً اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس معنی میں آج کل مشن (mission) کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مشن کا مطلب ہے — کسی تعمیری مقصد کے لیے سنجیدہ جدوجہد:
Dedicated effort towards a constructive goal.
قرآن میں اِس سلسلے میں یہ آیت آئی ہے: وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ، ہو اجتباکم (
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آ ئی ہے: الجہاد ماضٍ منذ بعثنی اللہ إلی أن یقاتل آخر أمتی الدجال، لا یبطلہ جَور جائر ولا عدل عادلٍ( سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 2532 )
اِس روایت کے مطابق، جہاد سے مراد ایک ایسا عمل ہے جو عادل حکمراں کے زمانے میں بھی جاری رہے۔ ایسا عمل صرف پُرامن دعوتی مشن ہوسکتا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق، دجال سے جو مقابلہ ہوگا، وہ بھی اسلحہ کے ذریعہ نہیں، بلکہ حجت (argument) کے ذریعہ ہوگا(إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم)۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد پرامن دعوتی مشن کا نام ہے۔ دوسری کوئی چیز اس کا صرف اضافی جز (relative part) ہے، نہ کہ حقیقی جز۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمان مختلف ملکوں میں مسلّح تحریکیں چلا رہے ہیں۔ یہ تمام تحریکیں غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) کے تحت چلائی جارہی ہیں۔ ایسے افراد کو غیر ریاستی ایکٹر (non-state actors) کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مسلح تحریکوں کے جواز کے لیے ابن تیمیہ کے فتوے کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے زمانے میں تاتاری جارحیت کا مسئلہ پیداہوا تو ابن تیمیہ نے فتوی ٰ دیا کہ مسلمان اُن کے خلاف لڑیں۔اِسی طرح ہم اپنے زمانے کی جارح طاقتوں سے لڑ رہے ہیں۔یہ حوالہ غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ ابن تیمیہ (وفات:
حقیقت یہ ہے کہ جارح کے خلاف مسلح دفاع صرف ریاست کا کام ہے، وہ عوام کا کام نہیں (الرحیل للإمام)۔ ابن تیمیہ نے اُس وقت کے سلطان سے تاتای جارحیت کا دفاع کرنے کے لیے کہا تھا۔انھوںنے یہ نہیں کہا تھا کہ عوام بذاتِ خود لڑنا شروع کردیں، جیساکہ موجودہ زمانے کے مسلمان کررہے ہیں۔ اسلام میں غیر ریاستی تنظیموں کو صرف پر امن جدوجہد کا حق ہے، مسلح جدوجہد کا حق ہر گز اُن کو حاصل نہیں۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے اور یہی ابن تیمیہ کا موقف بھی۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں احیائِ اسلام سے کیا مراد ہے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو قدیم روایتی زمین کے مقابلے میں جدید سائنسی زمین پر کھڑا کیا جائے، تاکہ اسلام آج کے ذہن کے لیے قابلِ فہم ہوسکے، وہ لوگوں کو عصر حاضر سے ریلیونٹ (relevant) نظر آئے۔
موجودہ زمانے میں اسلام کے احیاء کے لیے جو کام مطلوب ہے، اُس کام کو بنیادی طورپر حسب ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
1 ۔ مبنی بر ذہن روحانیت(mind-based spirituality)
2 ۔ مبنی بر عقل استدلال (reason-based argument)
3۔ مبنی بر امن عمل(peace-based activism)
مبنی بر ذہن روحانیت سے مراد یہ ہے کہ روحانیت یا تزکیہ کو مراقبہ (meditation) کے بجائے فکر وتدبر پر قائم کرنا۔مراقبہ قلب کو مرکز بنا کر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، تدبر عقلی غور وفکر کی سطح پر انجام دیا جاتا ہے۔ اس لیے قرآن میں تفکر اور تدبر پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے۔
مبنی برعقل استدلال سے مراد وہی چیز ہے جس کو سائنسی استدلال کہا جاتا ہے، یعنی قیاسات وتمثیلات کے بجائے معلوم حقائق کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنا۔ یہی موجودہ زمانے میں استدلال کا علمی طور پر مسلّم طریقہ ہے۔مبنی برامن عمل کا مطلب ہے تشدد سے مکمل طورپر بچتے ہوئے صرف پر امن ذرائع (peaceful means)سے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنا۔ یہی موجودہ زمانے میں مقصد کے حصول کا زیادہ موثر طریقہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلّح طریقہ تخریب کے لیے کارگر ہوسکتاہے، مگر تعمیر کے لیے وہ کارگر نہیں۔اِس معاملے کی تفصیل کے لیے ہمارے یہاں کی مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ مثلاً انسان کی منزل، مذہب اور سائنس، امنِ عالم اور پیغمبر امن (Prophet of Peace) ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
تعدیل (equation) کے اعتبار سے، مسلم تاریخ کے تین دور ہیں — پہلا دور وہ ہے جو رسول اور اصحاب رسول کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ مسلمانوں نے دنیا میں اپنا ایمپائر بنا لیا تھا۔ یہ دور آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ تیسرا دور وہ ہے جس کو نوآبادیاتی دور (Colonial Period)کہاجاتا ہے۔ یہ دور اٹھارھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ یہ دور بیسویں صدی کے وسط میں عملاً ختم ہوگیا، لیکن نفسیاتی اعتبار سے، موجودہ زمانے کے مسلمان اب بھی اسی کے اثرات کے تحت جی رہے ہیں۔
مسلم تاریخ کے پہلے دور میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان جو تعدیل (equation) تھی، وہ داعی- مدعو کی تعدیل تھی۔ اِس دور میں مسلمان مثبت نفسیات میں جیتے تھے۔ دوسری قومیں ان کے لیے خیر خواہی (نُصح) کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ دوسرے دور میں یہ تعدیل بدل گئی۔ اب مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان حاکم -محکوم کی تعدیل قائم ہوئی۔ اِس تعدیل کے دور میں مسلمان احساسِ برتری کا شکار ہوگئے، وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگے۔ مسلم تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جب کہ نو آبادیاتی طاقتوں نے مسلمانوں کے سیاسی ایمپائر کا خاتمہ کردیا۔ اب مسلمانوں کے درمیان تعدیل کا تیسرا دور آیا۔ اب مسلمان اپنے آپ کو مظلوم اور دوسری قوموں کو ظالم سمجھنے لگے۔
اِس تیسرے دور کی آمد پر مسلمان عام طو رپر منفی نفسیات کا شکار ہوگئے۔ اِس د ور میں مسلمانوں کے اندر تلخی اور شکایت اور احتجاج (protest) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ یہ مزاج بڑھتے بڑھـتے اُس انتہا پسندانہ رد عمل تک پہنچ گیا جس کو تشدد (violence) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اِسی تیسرے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ دور، دوسرے لفظوں میں، نفسیاتی خودکشی (psychological suicide)کا دور ہے۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اِس مہلک نفسیات سے باہر نکالا جائے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ ہر زمانے کے انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچتا رہے (
یہی امتِ محمدی کی اصل ذمے داری ہے۔ امتِ محمدی کا اللہ کی نظر میں امتِ محمدی قرار پانا، اِسی پر موقوف ہے کہ پیغام رسانی کا یہ کام کسی وقفے کے بغیر ہر دورِ تاریخ میں جاری رہے۔ پیغامِ نبوت کے اِس تبلیغِ عام کے مشن میںامتِ محمدی کے ہر فرد کو شریک ہونا ہے، حتی کہ اگر کوئی شخص علم نہ رکھتا ہو تو وہ قرآن کے چھپے ہوئے ترجمے حاصل کرکے اُسے لوگوں تک پہنچائے۔ ملت کے کسی فرد کا امتِ محمدی کا فرد ہونا، اِسی دعوتی کام کی ادائیگی پر موقوف ہے۔ جو لوگ اِس دعوتی کام کو انجام نہ دیں، وہ بلا شبہہ ایک انتہائی سنگین خطرہ مول لے رہے ہیں، وہ یہ کہ حشر کے میدان میںاُن سے یہ کہہ دیاجائے کہ تم امتِ محمدی سے الگ ہوجاؤ، امت محمدی سے تمھارا تعلق نہیں۔امتِ محمدی کا فرد ہونے کے لیے جو چیز لازمی ہے، وہ خود ساختہ محمدی عشق نہیں ہے، بلکہ محمدی مشن میں اپنے آپ کو شریک کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہمارے مشن کے ایک صاحب جو دعوتی کام کرتے ہیں، انھوں نے پوچھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک شخص تک دعوت پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص دعوت کو قبول کرنے والا نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ دعوت کا فارمولا یہ ہے — جہاں دعوت کے مواقع ہوں، وہاں دعوہ ورک (Dawah work) ، اور جہاں بظاہر دعوت کے مواقع دکھائی نہ دیں، وہاں دعا ورک (Dua work)
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کا کوئی ذاتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور مسئلے کے حل کے لیے خدا سے دعا کرتے ہیں، لیکن دعوتی کام (Dawah work) کے معاملے میں وہ دعا کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ حالاں کہ دعا کا تعلق جس طرح دوسری تمام چیزوں سے ہے، اُسی طرح اس کا تعلق دعوت سے بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا، دعوت کے لیے لازمی جز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دعا کے بغیر دعوت کا کام موثر طورپر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
دعا کا تعلق صرف مدعو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق داعی سے بھی ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ مسلسل طورپر خود اپنے لیے دعا کرتا رہے۔ وہ اللہ سے برابر موثر دعوت کی توفیق مانگتا رہے۔ وہ بار بار اِس کے لیے دعا کرتا رہے کہ اللہ اس کے لیے ایسے اسباب مہیا کردے جس کے ذریعے وہ دعوت کاکام زیادہ بہتر طورپر انجام دے سکے۔
یہی معاملہ مدعو کا ہے۔ داعی اپنے مدعو کا بہت زیادہ خیر خواہ ہوتا ہے۔ خیر خواہی کا یہ جذبہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مدعو کے حق میں برابر دعا کرتا رہے۔ دعوت کو قبول کرنا ہمیشہ اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے۔ اللہ کی توفیق ہی سے کسی انسان کا دل حق کو قبول کرنے کے لیے کھلتا ہے۔ اللہ کی توفیق ہی سے کسی کی کنڈیشننگ ٹوٹتی ہے۔ اللہ کی توفیق ہی سے یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص دعوت پر سنجیدگی سے غور کرے۔ یہ تمام چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ داعی ہمیشہ اپنے مدعو کے لیے اللہ سے دعا کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
پچھلے سو سال کے درمیان مسلمانوں نے مختلف ملکوںمیں بہت سی سیاسی تحریکیں چلائیں۔ اِن تمام تحریکوں کو اگرایک نام دینا ہو تو وہ یہ ہوگا — مطالباتی سیاست، یعنی اپنے حقوق (rights) کو حاصل کرنے کے لیے مطالبہ (demand) اور احتجاج (protest) کی بنیاد پر عوامی تحریکیں چلانا، خواہ پر امن انداز میں یا تشدد کے انداز میں۔ اِن مطالباتی تحریکوں سے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو کوئی مثبت فائدہ نہیں ہوا، البتہ اِس کے نتیجے میں اُن کو ایسے نقصانات ہوئے جن کی تلافی بظاہر ممکن نہیں۔
مطالباتی سیاست، فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیا میںکسی فرد یا قوم کو جو کچھ ملتا ہے، وہ صرف استحقاق (deservation) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ مطالبہ اور شکایت اور احتجاج جیسی تحریکوں کے ذریعے اِس دنیا میں کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔ اِس قسم کی کوئی تحریک صرف اپنے نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے، نہ کہ نقصان کو دور کرنے کے ہم معنیٰ۔
دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ مطالباتی سیاست نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو ایک عظیم نعمت سے محروم کردیا۔ یہ نعمت دعا ہے، یعنی حقیقی جذبۂ طلب کے تحت پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ سے مانگنا۔ مطالباتی سیاست اِس قسم کی دعا کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے(
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا کیس ایک لفظ میں یہ ہے کہ —وہ خدا میں جینے والے نہیں بنے، وہ غیر خدا میں جی رہے ہیں۔ یہی واحد وجہ ہے جس نے تمام مسلمانوں کو منفی سوچ (negative thinking) میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں منفی سوچ اتنی زیادہ عام ہے کہ مشکل ہی سے اس میں کسی عورت یا مرد کا استثنا نظر آئے گا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا لکھنا اور بولنا، سب کا سب ان کی منفی سوچ کا اظہار ہے۔
منفی سوچ کا سبب کیا ہے۔ منفی سوچ دراصل شکایت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کسی نہ کسی کے خلاف شکایت کا جذبہ لئے ہوئے ہے —فلاں نے زمین پر قبضہ کرلیا، فلاں نے اپنی فوجیں مسلم ملک میں اتار دیں، فلاں نے اسلام کی بے حرمتی کردی، فلاں نے ہم کو انصاف نہیں دیا، فلاں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، وغیرہ۔ہر مسلمان اِس قسم کی شکایتوں میں جیتا ہے۔ اِنھیں شکایتوں نے ہر مسلمان کو منفی سوچ میں مبتلا کردیا ہے۔ مگر منفی سوچ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ منفی سوچ کا مطلب دراصل یہ ہے کہ —انسان نے کسی اور چیز کو وہ اہمیت دے دی جو اہمیت اُسے خدا کو دینا چاہیے:
Making one's concern something else other than God.
خدا کو پانا سب سے بڑی چیز کو پانا ہے۔ جس آدمی کو خدا کی دریافت (discovery) ہوجائے، اس کی سوچ اتنی زیادہ بلند ہوجاتی ہے کہ ہر دوسری چیز اس کی نظر میں حقیر بن جاتی ہے۔ کسی چیز کا کھونا یا پانا دونوں اس کی نظر میں یکساں ہوجاتے ہیں۔ وہ اِس نفسیات میں جینے لگتا ہے کہ — تم جو چیز چاہو مجھ سے چھین لو، لیکن تم خدا کو مجھ سے نہیں چھین سکتے:
You can take away from me whatever you want to, but you cannot take God away from me!
یہ نفسیات ایک مومن کو انتہائی حد تک مثبت سوچ (positive thnking) والا انسان بنا دیتی ہے۔ کسی کے خلاف نفرت کا ایک ذرہ بھی اس کے اندر باقی نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں
یوپی بورڈ کے انٹر میڈیٹ امتحانات(مارچ 2010) میں 10 طلبا نے ٹاپ کیا ہے۔ ٹاپ کرنے والے اِن طلبا میں دو مسلمان طالب علم ہیں۔ اُن کے نام یہ ہیں — انشا سیفی، محمد حسن سلمانی۔ (روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی،
ہمارے رہنما یہ کہتے تھے مسلمانوں کے لیے تعلیم گاہوں میں رزرویشن (reservation) ضروری ہے۔ رزرویشن کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ لیکن تجربہ بتارہا ہے کہ ترقی کے لیے رزرویشن سے زیادہ یقینی ذریعہ محنت ہے۔ 1947 کے بعد تمام مسلم رہنما، مسلم نوجوانوں کو یہ بتا رہے تھے کہ انڈیا اُن کے لیے ایک پرابلم کنٹری (problem country) ہے۔ تقریباً 50 سال تک مسلمان اِس منفی ذہن میں مبتلا رہے۔ اب مسلمانوں نے حالات کے تحت یہ دریافت کرلیا ہے کہ انڈیا میں اُن کے لیے ہر قسم کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ اِس دریافت نے اب مسلمانوں کے اندر نیا جوش پیدا کردیا ہے۔ وہ کوشش کرکے ہر میدان میں تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی کرنے کی خواہش ہر انسان کے اندر فطری طورپر موجود رہتی ہے۔ اگر انسان کو غلط رہنمائی کرکے مایوسی میں مبتلا نہ کیاجائے، تو وہ خود اپنے فطری جذبے کے تحت کوشش کے راستے پر چل پڑے گا اور محنت کرکے وہ کامیابی تک پہنچ جائے گا۔
سب سے بڑی رہنمائی یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے ماحول کے بارے میں مایوسی کا جذبہ نہ پیدا کیا جائے۔ اِس قسم کی قیادت جھوٹی قیادت ہے۔ سچی قیادت وہ ہے جو انسان کے اندر امید پیدا کرے،جو حوصلہ بڑھانے والی باتیں کرے، جو مسائل (problems) کے بجائے مواقع (opportunities) کی نشان دہی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس صرف مایوسی پیدا کرنے والی خبریں ہوں، اُس پر فرض ہے کہ وہ چپ رہے— خدا کی اِس دنیا میں بولنے کا حق صرف اُس آدمی کو ہے جو لوگوں کو امید کی روشنی دکھائے۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتاہے۔ یہی ماحول ہر آدمی کا ذہن بناتا ہے۔ ذہنی تاثر پذیری کے اِسی عمل کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتاہے۔ یہی بلا استثنا ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ ہر آدمی کا ذہن کنڈیشنڈ ذہن (conditioned mind) ہے۔ یہی ہر آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ کنڈیشننگ ہر آدمی کو فطرت سے ہٹا دیتی ہے۔ اِس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ ہر آدمی کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرکے اس کو فطرت کی طرف واپس لایا جائے۔
اِس ڈی کنڈیشننگ کا صرف ایک طریقہ ہے، اوروہ محاسبہ (introspection) ہے، یعنی سخت انداز میں مسلسل طورپر اپنی اصلاح کا عمل جاری رکھنا۔ کسی آدمی کی یہ اصلاح دو طریقے سے ہوتی ہے — یا تو وہ دوسرے شخص کی سخت تنقید کو برداشت کرے، یعنی خارجی ہیمرنگ (hammering) کو کھلے ذہن کے ساتھ قبول کرے۔ وہ برا مانے بغیر دوسرے شخص کی سخت تنقید کو سن کر اپنے آپ پر نظر ثانی (reassessment) کا عمل کرے۔
اس ڈی کنڈیشننگ کا دوسرا طریقہ وہ ہے جس کو شدید خود احتسابی (self-hammering) کہاجاسکتا ہے، یعنی آدمی اپنے آپ کو دشمن جیسی نظر سے دیکھے۔ وہ ہر صبح وشام اپنا جائزہ لیتا رہے، وہ اپنی ہر غلطی کو شدت کے ساتھ محسوس کرے اور اس کو لے کر اپنا سخت محاسبہ کرے، وہ اپنے اوپر بے رحمانہ تنقید (merciless hammering) کرتا رہے، کسی معاملے میں وہ ہر گز اپنے آپ کو رعایت نہ دے، وہ دوسرے کو الزام دینے کے بجائے ہمیشہ خود اپنے آپ کو ملزم ٹھہرائے، وہ اپنے بارے میں اتنا سخت ناقد بن جائے جیسے کہ وہ اپنا ذبیحہ کررہا ہے۔
ڈی کنڈیشننگ کے یہی دو ممکن طریقے ہیں— آدمی یا تو دوسرے کی بے رحمانہ تنقید کو برداشت کرے، یا وہ خود اپنا بے رحم ناقد بن جائے۔ جو آدمی دوسروں سے میٹھی بات سننا چاہے اور خود ہمیشہ اپنی رعایت کرتا رہے، ایسا آدمی ہمیشہ کنڈیشننگ میں جئے گا، اس کی کبھی ڈی کنڈیشننگ ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر محمد اقبال (وفات: 1938 ) بر صغیر ہند کے عظیم مسلم مفکر مانے جاتے ہیں۔ انھوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں کئی باتیں لکھی ہیں۔ اُن کاایک مصرعہ یہ ہے:
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہود کی جو صفات آئی ہیں، اُن میں سے ایک ہے —اپنے کو مظلوم بتا کر دوسروں کے ظلم پر احتجاج کرنا۔ یہ بلاشبہہ یہود کی صفت ہے۔ اِس مزاج سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِسی یہودی مزاج کا شکار ہیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود کے اندر جب دینی بگاڑ آیاتو انھوں نے دعوتی ذمے داری کو چھوڑ دیا (
مگر یہودی علماء اور قائدین(religious leaders) نے یہ کیا کہ ایسے تمام واقعات کو انھوں نے خدائی تنبیہہ کے بجائے انسانی ظلم کے خانے میں ڈال دیا۔ یہودی لٹریچر اِس قسم کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ اِس پر یہودی علماء نے کثرت سے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلاً:
Hasidic Tales of the Holocausts, by Eliach Y, New York, 1982
یہودی علماء کی اِس روش کی بنا پر ایسا ہوا کہ جن واقعات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اُن سے متنبہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کریں، اِس کے بجائے انھو ںنے یہ کیا کہ اِن واقعات کو کچھ انسانوں کی طرف منسوب کرکے انھوں نے اُن لوگوںکے خلاف شکایت (complaint) اور احتجاج (protest) کا ایک پورا کلچر چلا دیا۔ یہ شکایتی کلچر اتنا بڑھا کہ لغت (dictionary) میں باقاعدہ ایسے الفاظ شامل ہوگئے جو یہود کے اوپر دوسروں کے ظلم کو بتانے کے لیے وضع ہوئے تھے۔ گویا کہ ظلمِ یہود کی ایک مستقل ڈکشنری تیار ہوگئی، ظلم یہود کا اتنا زیادہ چرچا ہوا کہ وہ لٹریچر کا ایک جز بن گیا۔
یہودی لٹریچر کا مطالعہ کرکے اُن الفاظ واصطلاحات کو معلوم کیا جاسکتا ہے جو کثرتِ استعمال سے لٹریچر کا جز بن گئے، حتی کہ وہ ڈکشنری میں شامل ہوگئے۔ اِن میںسے کچھ الفاظ یہ ہیں:
Pogrom: Organized killing of Jews
Holocaust: Killing of millions of Jews by the Nazis,
Diaspora: Dispersion of the Jews after the Babylonian exile,
Ghetto: Jewish Slum outside the city as a sign of discrimination.
حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمان یہود کے طریقے کی پیروی کریں گے۔ (لتتبعن شبراً بشبرٍ وذراعاً بذراعٍ)۔ یہ اتباعِ یہود صرف سحروعملیات جیسی چیزوں میں نہیں ہوگا، بلکہ وہ مذکورہ قسم کی سنتِ یہود کے بارے میں بھی ہوگا۔ یہود میں یہ خرابیاں زوال (degeneration) کے نتیجے میں آئی تھیں۔ یہی خرابیاں دوبارہ زوال کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے اندر بھی یقینی طورپر پیداہوں گی۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ خرابی عمومی طورپر پیدا ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں آخری حد تک اِ س کا شکار ہوچکے ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تقریباً تمام لکھنے اور بولنے والے صرف ایک کام کررہے ہیں، اور وہ ہے اپنے مسائل کا الزام دوسروں پر عائد کرکے ان کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کرنا۔ ہر ایک کو مسلم مسائل کے پیچھے ’’اغیار‘‘ کی سازش اور دشمنی دکھائی دیتی ہے۔
یہ بلا شبہہ یہودی روش ہے۔ صحیح یہ ہے کہ مسلمان اِس روش سے توبہ کریں، وہ خود اپنے اوپر نظر ثانی کریں۔ وہ اِس صورتِ حال کو خدا کا انتباہ (warning) قراردے کر خود اپنی کمیوں اور کمزوریوں کو دریافت کریں اور ساری توجہ خود اپنی اصلاح پر لگا دیں، نہ کہ مفروضہ ظالموں کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے وہ خدا کے غضب میں مزید اضافہ کریں۔ اِس کے بغیر اُن کے حالات ہر گز بدلنے والے نہیں۔
خدائی انتباہ کے معاملے کو مفروضہ دشمنوں کی طرف منسوب کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک واقعہ کو غلط طورپر کسی اور سے منسوب کرنا ہے۔ اِس قسم کا مزاج کسی فرد یا قوم کو بہت بڑا فکری نقصان پہنچاتا ہے، اور وہ ہے معاملات کے صحیح تجزیہ (analysis) سے محرومی۔ کامیاب منصوبہ بندی ہمیشہ صحیح تجزیہ پر مبنی ہوتی ہے۔ جب صحیح تجزیہ نہ ہو تو کامیاب منصوبہ بندی بھی عملاً ناممکن ہوجاتی ہے۔
مثال کے طورپر 1948 میں بال فور کمیشن (Balfour Commission) کے تحت، فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی۔ فلسطین کا تقریباً نصف حصہ یہود کو ملا، اور تقریباً نصف حصہ عرب مسلمانوں کو دیاگیا۔ بظاہر یہ واقعہ انسان کے ذریعہ پیش آیا، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ اُسی قسم کا ایک خدائی معاملہ تھا جو اِس سے پہلے اِسی ارضِ فلسطین میں یہود کے ساتھ پیش آیا تھا۔ دونوں کے درمیان ظاہری صورت کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے، اُن کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
ماضی میں یہود کے ساتھ جب ایسا واقعہ پیش آیا تو انھوںنے اس کو خدائی واقعہ کے بجائے انسانی واقعہ سمجھا۔ انھوں نے یہ کیا کہ متعلق انسانوں کو اپنا دشمن قرار دے دیا، وہ اُن کے خلاف منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہوگئے۔ جو واقعہ اُن سے خدا کی طرف رجوع کا تقاضا کررہا تھا، وہ اُن کے غیر حقیقی رسپانس کے نتیجے میں اُن کے لیے خدا سے مزید دوری کا سبب بن گیا۔
ٹھیک یہی معاملہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ 1948 کے بعد مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں نے وہی غیر حقیقی رسپانس دیا جو اِس سے پہلے یہود نے دیا تھا۔ ذاتی محاسبہ کے بجائے انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے یہود اور یہود کے مفروضہ حلیفوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ اِس کا نتیجہ فطری طور پر برعکس صورت میں نکلا۔ 1948 میں جو کچھ اُنھیں ملا تھا، 60 برس سے زیادہ مدت کی غیر معمولی قربانیوں کے باوجود انھوں نے اس کو بھی کھو دیا۔ آج تحریکِ فلسطین اپنے آپ کو ایک ایسے مقام پر پارہی ہے جہاں اس کے پاس مایوسی اور محرومی کے سوا اور کوئی سرمایہ نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تعداد ایک بلین سے زیادہ ہے۔
اِس قسم کی تمام باتیں بلا شبہہ سنتِ یہود کی پیروی ہیں۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے خدا کے دین کو دین ِ مہجور (
یہ تمام چیزیں مسلمانوں کے زوال کی کھلی علامت ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہور ہا ہے، وہ سب اُن کے اِسی زوال کی بنا پر خدا کی تنبیہات ہیں، نہ کہ انسانوں کا ظلم۔ مگر مسلمان اِن واقعات کو انسانوں کی طرف منسوب کرکے ان کے خلاف چیخ وپکار میں مشغول ہیں۔ مسلمانوں پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اِس منفی روش کو مکمل طور پرختم کردیں۔ وہ دوسروں سے نفرت کو چھوڑ دیں اور خود اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کریں، یہی مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ اِس کے سوا دوسری ہر چیز صرف اُن کی تباہی میں اضافہ کرے گی، وہ ان کی فلاح کا سبب بننے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
امریکی صحافی الون ٹافلر (Alvin Toffler) کی ایک مشہور کتاب ہے۔ اس کا نام یہ ہے — فیوچر شاک:Future Shock
یہ کتاب پہلی بار 1970 میں چھپی۔ اب تک اس کے 5 ملین سے زیادہ نسخے ساری دنیا میں فروخت ہوچکے ہیں، نیز دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
الون ٹافلر نے اپنی کتاب میں ایک سیمنار (seminar)کا واقعہ لکھا ہے۔ اِس سیمنار میں کنارے کی سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ جب سب لوگ بول چکے تو آخر میں وہ آدمی اٹھا۔ اس نے کہا — میرا نام چارلس اسٹین ہے۔ میں تمام عمر سوئی کے ایک کارخانے میں کام کرتا رہا ہوں۔ میری عمر
My name is Charles Stein. I am a needle worker all my life. I am seventy-seven years old, and I want to get what I did not get in my youth. I want to know about the future. I want to die an educated man. (page 427)
گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو مذکورہ آدمی کا مسئلہ حقیقۃً معرفت یا ادراکِ حقیقت تھا، نہ کہ سادہ طورپر صرف ایجوکیشن۔ گویا کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میں ایک صاحبِ معرفت انسان (realized man) کی حیثیت سے مرنا چاہتا ہوں۔
یہی ہر انسان کی نفسیات ہے۔ ہر انسان اِس نفسیات میں جی رہا ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک نہ کرسکا۔ گویا کہ ہر انسان اِس تلاش میں ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ سچائی کیا ہے۔
ہر انسان معرفت کی تلاش میں ہے۔ خوش قسمت انسان وہ ہے جو معرفت کو پالے۔ اُس پر موت آئے تواِس حال میں آئے کہ وہ ایک صاحبِ معرفت انسان بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم رہنما نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا— میرا مقصد عصرِ حاضر کے اعتبار سے، افرادِ کار کی تیاری ہے۔ اِس جلسے میں ایک مسلم نوجوان موجود تھا۔ بعدکو یہ نوجوان مذکورہ مسلم رہنما سے ملا۔ اس نے کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ مجھ کو آپ اپنے مطلوب انسان کی حیثیت سے تیار کیجئے، مگر مذکورہ مسلم رہنما نے نوجوان کی اِس پیش کش پر دھیان نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ —تم تو صرف ایک شخص ہو۔ جب اِس طرح کے کئی لوگ اکھٹا ہوجائیں گے، اُس وقت میں افراد کی تیاری کے بارے میں اپنا پروگرام شروع کروں گا۔موجودہ زمانے میں بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ وہ عصر حاضر کے اعتبار سے، افرادِ کار تیار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اِن میں سے کوئی شخص مطلوب انداز میںیہ کام نہ کرسکا۔ مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ اِس کا سبب کیا ہے۔ یہ تمام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ بھیڑ (crowd) کے سامنے تقریریں کرکے افرادِ کار تیار کریں، حالاں کہ افرادِ کار کی تیاری بھیڑ کو خطاب کرنے سے نہیں ہوتی۔ اُس کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہے— فرد پر فوکس کرنا، فرد کی نسبت سے سوچنا اور فرد کی نسبت سے تربیت کا پروگرام بنانا۔اصل یہ ہے کہ رہنما سب سے پہلے افراد کے ذہن کو بخوبی طورپر سمجھنے کی کوشش کرے، وہ افراد کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو تیار کرے۔ رہنما جب اِس طرح اپنے آپ کو تیار کر کے بولے گا تو اس کی زبان قولِ بلیغ (
اِس کے برعکس، جو لوگ بھیڑ کو لے کر سوچتے ہیں، جو اپنے آس پاس بھیڑ دیکھنا چاہتے ہیں، اُن کا طرزِ خطاب فطری طورپر جذباتی ہوجاتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر ایسی بات بولنے لگتے ہیں جو بھیڑ کو خوش کرے۔ اِس عوامی طرزِ خطاب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا ذہنی ارتقا رک جاتا ہے، اور جس آدمی کا خود اپنا ذہنی ارتقا رک جائے، وہ ہر گز افرادِ کار کی تیاری کا عمل انجام نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر مسٹر سلمان تاثیر (عمر
اِس طرح کسی فرد کا کسی شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنا بلا شبہہ اسلام میں حرام ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ناموسِ رسالت کا قانون ایک بے بنیاد قانون ہے۔ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ فعل کرے جس کو سب وشتم کہا جاتا ہے، تب بھی اس کا جواب دلیل سے دیا جائے گا، نہ کہ گولی سے۔ بالفرض اگر ایسا کوئی قانون ہو، تب بھی شاتمِ کے خلاف کوئی عام آدمی کارروائی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ وہ ایسے شاتم کے معاملے میں عدالت سے رجوع کرے اور پھر باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بعد عدالت جو فیصلہ کرے، اس کے مطابق، اس پر عمل کیا جائے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ شتمِ رسول (blasphemy) کے نام پر اِسی قسم کے رد عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، کہیں جلوس اور مظاہرے کی صورت میں اور کہیں شاتم کو قتل کرنے کی صورت میں۔ اس کے نتیجے میں مفروضہ شتم تو بند نہیں ہوا، البتہ اسلام بہت زیادہ بدنام ہوگیا۔ جو لوگ کسی کو شاتمِ رسول قرار دے کر اُس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، وہ خود شاتم سے بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی حال میں خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
سزا کا تعلق خدا سے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں داعی الی اللہ (
اِن آیات کو اس کے سببِ نزول کے اعتبار سے دیکھئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ داعی کو اپنی ساری توجہ دعوت کے کام میں لگانا چاہیے۔ اِس کے بعد اگر ایسا ہوتا ہے کہ مدعو گروہ کی طرف سے منفی رد عمل سامنے آتا ہے، وہ داعی کا مذاق اڑاتے ہیں، وہ داعی کا سب وشتم کرتے ہیں، وہ داعی کو لوگوں کی نظر میں گھٹانے کے لیے توہین واستہزا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ایسی حالت میں داعی کو چاہیے کہ وہ رد عمل کی نفسیات سے بچتے ہوئے یک طرفہ اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ اپنی دعوت کو مزید مدلل کرنے کی کوشش کرے، حتی کہ وہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے اپنے رب سے دعا کرے۔ وہ کہے کہ خدایا، تو اِن مخالفین کو میرا ساتھی بنادے، تو ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لے۔ اِس کے بعد جہاں تک استہزا کرنے والوں کے استہزا کا معاملہ ہے، وہ اس کو پوری طرح خدا پر چھوڑ دے۔ داعی کا کام صرف پر امن دعوت ہے، اس کا کام لوگوں کو سزا دینا نہیں(
سب وشتم کی حیثیت در اصل آزادی کے غلط استعمال کی ہے۔ سب وشتم کی حیثیت جرم مستوجبِ سزا (cognizable offense) کی نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ شاتم کو پُرامن نصیحت کی جائے گی، اُس کو مجرم قرار دے کر اس کو جسمانی سزا نہیں دی جائے گی۔ اِس معاملے میں نصیحت کا تعلق داعی سے ہے اور سزا کا تعلق خدا سے۔ داعی اگر شاتم کو سزا دینے کی کوشش کرے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہتا ہے، اور ایسا کرنا بلا شبہہ ایک سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
عفوودرگزر کا حکم
قرآن کی سورہ الجاثیہ میں ایک آیت آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: قل للذین آمنوا، یغفروا للذین لا یرجون أیّام اللہ، لیجزیَ قوماً بما کانوا یکسبون (
قرآن کی اِس آیت کی تشریح میں مفسر القرطبی نے لکھا ہے: نزلت الآیۃ بسبب أن رجلاً من قریش شتمَ عمر بن الخطاب، فہمّ أن یبطش بہ (تفسیر القرطبی 16/161 ) یعنی یہ آیت اِس واقعے کے بعد اتری کہ قریش کے ایک آدمی نے عمر بن الخطاب کا سب وشتم کیا۔ عمر نے چاہا کہ وہ اس کو پکڑیں اور ماریں۔ اِس موقع پر قرآن میں یہ ہدایت اتری۔
قرآن کی اِس آیت سے اور اِس قسم کی دوسری آیتوں سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ سب وشتم کا معاملہ قانونی سزا (legal punishment) کا معاملہ نہیں ہے۔ کوئی شخص نعوذ باللہ، خدا کا استہزاء کرے، وہ صحابہ کا استہزا کرے، وہ قرآن کا استہزا کرے، تو اِس بنیاد پر اُس کو قانونی مجرم قرار دے کر قانونی سزا نہیں دی جائے گی۔ اِس معاملے میں سزا کا تعلق تمام تر اللہ سے ہے۔ اللہ اپنے علم کے مطابق، ایسے لوگوں کو جو سزا دینا چاہے گا، وہ سزا دے گا۔ ایسے معاملے میں کسی شخص کو سزا دینا اسلام کی حمایت کے نام پر اسلام کے ساتھ بدترین عداوت کے ہم معنیٰ ہے۔
سب وشتم کے معاملے میں مسلمانوں کو جو کرنا ہے، وہ یہ کہ وہ ایسے شخص کے لیے دعا کریں، وہ اُس سے مل کر اُس کو نصیحت کریں، وہ اس کو دلائل کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کریں، وہ اس کی اصلاح کی پر امن جدوجہدکریں، وہ اس کو جسمانی سزا دینے کا کام اپنے ذمے نہ لیں۔ مومن کی حیثیت اِس دنیا میں داعی کی ہے، نہ کہ داروغہ (
شتم اور ارتداد
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں شتمِ رسول کی سزا قتل ہے۔ اِسی طرح یہ سمجھا جاتاہے کہ اسلام میں ارتداد (apostasy) کی سزا قتل ہے۔ شتم اور ارتداد کی اِس سزا کو حد (legal punishment) کادرجہ دیا جاتاہے اور سمجھا جاتا ہے کہ شاتم یا مرتَد کو بطور حد قتل کیا جائے گا (یُقتل حدًّا)۔
یہ قانون اسلام کے بعد کی تاریخ میں عباسی دور (750-1258ء) کے فقہاء نے بنایا، مگر اصل اسلامی ماخذ میں اِس قسم کا کوئی حکم موجود نہیں ۔ اِس لیے عین جائز ہے کہ اس حکم کو کالعدم سمجھا جائے اور اس کو غیر اسلامی قرار دے کر رد کردیا جائے۔
اسلامی تاریخ کے مکی دور میں جو اہلِ ایمان ہجرت کرکے حبش (Abyssinia) گئے تھے، اُن میں سے ایک شخص کا نام عبید اللہ بن جحش تھا۔ حبش ایک عیسائی ملک تھا۔ وہاں جاکر عبید اللہ بن جحش عیسائی مذہب سے متاثر ہوئے اور اعلان کے ساتھ اسلام کو چھوڑ دیا۔ یہ واضح طورپر ارتداد کا ایک واقعہ تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ عبید اللہ بن جحش مرتد ہوگئے ہیں، اُن کو بطورحد قتل کردو۔ اِس واقعے سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعتِ محمدی میں ارتداد کی سزا قتل نہیں ہے۔ اِسی طرح مدینہ میں ایک شخص تھا۔ اس کا نام عبد اللہ بن اُبی تھا۔ یہ شخص کھلے طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شتم کرتا تھا، لیکن رسول اللہ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی نے شتم رسول کے جرم کا ارتکاب کیا ہے، اِس لیے اس کو بطور حد قتل کردو۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں سماجی جرم (social crime) پر سزا ہے، اسلام میں اعتقادی جرم (ideological crime)پر کوئی سزا نہیں۔شاتم اور مرتد کے لیے تبلیغ ونصیحت ہے، نہ کہ قتل کا حکم۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں مسلم تنظیمیں اور مسلم ادارے جگہ جگہ تحفظِ ختمِ نبوت کے نام سے جلسے کررہے ہیں۔ اِن موقعوں پر مسلمانوں کی بھیڑ اکھٹا ہوتی ہے، مقررین پر جوش تقریریں کرتے ہیں۔ وہاں یہ اعلان کیاجاتاہے کہ ہم ہر قیمت پر ختمِ نبوت کا تحفظ کریں گے۔مگر اِس قسم کے جلسے اور تقریریں سراسر بے معنی ہیں۔ ان کا تعلق نہ اسلام سے ہے اور نہ عقل سے۔
قرآن میں اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ خاتم النبیین کی حفاظت فرمائے گا (
کارِ نبوت سے مراد وہی کام ہے جس کو قرآن میں تبلیغ ما انزل اللہ (
اصل یہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، لیکن پیغام نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب مسلمانوں کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ نعت خوانی کریں، یا گستاخِ رسول کو قتل کریں، یا تحفظ ختم نبوت کے جلسے کریں۔ یہ سب غیر متعلق کام ہے، اصل کام یہ ہے کہ تمام انسانوں تک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن کو پہنچایا جائے، ہر زمانے کے لوگوں کو اس کے پیغام سے باخبر کیا جائے— تحفظ، خدا کا کام ہے اور دعوت اہلِ اسلام کا کام۔
واپس اوپر جائیں
سماجی زندگی میں اعتماد (trust) کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ کسی آدمی کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد بن جائے۔ اِس قسم کا اعتماد کسی کو بہت دیر میں حاصل ہوتا ہے۔ لمبے تجربات کے بعد ہی کسی شخص کو یہ درجہ ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں ایک قابلِ اعتماد انسان بن سکے۔
کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ جھوٹ بول کر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی میں کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ بڑی کامیابی ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ دھوکا ایک بار کام آسکتا ہے، لیکن سچائی ہزار بار کام آتی ہے۔ دھوکے کی حد ہے، مگر سچائی کی کوئی حد نہیں۔
جو لوگ خوش نما باتیں کرکے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ بہت جلد لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ آخر کار اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے، لوگ اُن سے معاملہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں، لوگوں کو ان کی باتوں پر یقین نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ چند بار کچھ حاصل کرلیتے ہیں، لیکن بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اُن سے کٹ جاتے ہیں۔ لوگوں کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اِن سے دور رہو۔
کامیابی کیا ہے۔ کامیابی ہمیشہ دوسروں کی قیمت پر ہوتی ہے۔ مثبت بنیاد پر دوسروں سے فائدہ اٹھانے ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ لیکن دوسروں سے فائدہ اٹھانا، صرف اُس کے لیے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ دوسروں سے فائدہ لینا ہمیشہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ ایک دوطرفہ (bilateral)معاملہ ہے۔ جو آدمی دوسروں کو کوئی حقیقی فائدہ نہ پہنچائے اور یک طرفہ طورپر خود دوسروں سے فائدہ لینا چاہے، اس کے لیے اِس دنیا میں صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ کبھی کامیابی اور ترقی (success)حاصل نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
انڈیا میں سول سروس کے امتحانات میں سب سے بڑا امتحان آئی اے ایس (IAS) سمجھتا جاتا ہے۔ یہ وہی امتحان ہے جس کو 1947 سے پہلے آئی سی ایس (ICS) کہاجاتا تھا۔ 2010 میں پورے انڈیا سے چار لاکھ امیدوار اِس امتحان میں شریک ہوئے۔ مئی 2010 میں اِس کا رزلٹ شائع ہوا ہے۔ اِس کے مطابق، آئی اے ایس کے اِس امتحان میں کشمیر کے ایک مسلم نوجوان ڈاکٹر شاہ فیصل (
اِس کہانی کا ایک سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہ فیصل کے والد غلام رسول شاہ کپواڑہ کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ اسکول کے ایک ٹیچر تھے۔ ایک بار کچھ ملٹنٹ وہاں آئے اور ان کے گھر میں ٹھہرنے کی فرمائش کی۔ غلام رسول شاہ نے ان کو اپنے گھر میںٹھہرانے سے انکار کردیا۔ اِس پر ملٹنٹ غصہ ہو گئے اور انھوں نے غلام رسول شاہ کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
اِس کے بعد حالات کے دباؤ کے تحت ڈاکٹر شاہ فیصل کی فیملی گاؤں چھوڑکر سری نگر آگئی۔یہاں ان کے لیے، ان کی ماں کے الفاظ میں، ایک ہی آپشن تھا، اور وہ تھا سخت محنت اور یکسوئی (hard work and dedication) ۔ شاہ فیصل کے باپ کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا، اُس نے ان کو عمل کا ایک نیا محرک(incentive) دے دیا۔ وہ زیادہ سنجیدہ اور زیادہ محنتی بن گئے۔ باپ کی ناگہانی موت نے اُن کو ایک نئی زندگی دے دی۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (7مئی 2010 ) کے رپورٹر نے درست طور پر لکھا ہے کہ — یہ دراصل ایک المیہ تھا جس نے شاہ فیصل کے خاندان کے لیے وسیع تر دنیا کی طرف ایک کھڑکی کھول دی:
It was the tragedy that opened a window to the wider world for the family (p. 1)
آدمی اگر مایوس نہ ہو تو ہر محرومی اس کے لیے ایک نئی یافت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
افراد کی زندگی میں اور قوموں کی زندگی میں بار بار ایسے معاملات پیش آتے ہیں جن کے مقابلے میں ایک سے زیادہ روش کو اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نزاع (controversy) کے موقع پر یہ فیصلہ لینا کہ اس کے مقابلے کے لیے پُرامن طریقِ کار اختیار کیا جائے یا پرتشدد طریقِ کار، معاملہ کو یک طرفہ بنیاد پر ختم کردیا جائے، یا اس کو دوطرفہ بنیاد پر ختم کیا جائے، خاموشی اختیار کرلی جائے، یا فعّال رول ادا کیا جائے، صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے، یا ٹکراؤ کا طریقہ، معاملے کو ہر قیمت پر فوراً ختم کردیا جائے یا ا س کے مقابلے میں کوئی لمبی کارروائی کی جائے، وغیرہ۔
ہر ایسے موقع پر دو قسم کے مشیر (advisors)سامنے آتے ہیں— صحیح مشورہ دینے والے اور غلط مشورہ دینے والے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ صاحبِ معاملہ شخص اکثر غلط مشورے کو لے لیتا ہے اور صحیح مشورے کو چھوڑ دیتا ہے۔ اِس کی مثالیں ماضی میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور حال میں بھی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ انسان اپنے معاملات میں صحیح مشورے کو قبول نہیں کرپاتا، وہ اکثر غلط مشورے کو مان لیتاہے۔ اس کا نتیجہ بعد کو نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو آدمی کے اوپر جذبات غالب آجاتے ہیں، وہ خالص عقلی (rational)انداز میں نہیں سوچ پاتا۔ اِس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اُس وقت صحیح مشورے کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتا، وہ جذبات کے زیر اثر، غلط مشورے کو لے لیتا ہے، اگر چہ بعد کو اس کا نتیجہ مزید نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑے۔ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اپنے متاثر ذہن کی بنا پر اُس کے بارے میں صحیح رائے نہیں قائم کرپاتا۔ مگر جو شخص معاملے سے الگ ہے، وہ اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے اور صحیح رائے دے سکے۔ ایسی حالت میںصاحبِ معاملہ کو چاہیے کہ دوسرا شخص اگر سنجیدہ ہے تو وہ اُس کی رائے پر دھیان دے اور اگر بے لاگ جائزے میں اس کی رائے درست نظر آئے تو وہ اس کو قبول کرلے۔
واپس اوپر جائیں
ایک عوامی مثل ہے — عقل بڑی کہ بھینس۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ گاؤں میں رہنے والا ایک جاہل آدمی جب بھینس کو دیکھتا ہے تو وہ اس کو ایک بھاری بھرکم چیز نظر آتی ہے۔ وہ بھینس کو بڑی چیز سمجھ لیتا ہے۔ عقل (wisdom) کی اہمیت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ ظاہری علم کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ بھینس ایک بڑی چیز ہے۔ اِس کے مقابلے میں عقل محض ایک چھوٹی چیز۔
یہ محض گاؤں کے ایک جاہل آدمی کی بات نہیں، یہی شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ لوگوں کی بات بھی ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کو بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی بلڈنگوں میں قائم ہونے والے ادارے کو بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ جس اجتماع میں عوام کی بھیڑ اکھٹا ہو جائے، اس کو وہ بڑا اجتماع سمجھتے ہیں۔ جس آدمی کے پاس شان دار مکان ہو اور اس کے گیٹ کے باہر کاریں کھڑی ہوئی ہوں، وہ اس کو بڑا آدمی سمجھ لیتے ہیں۔ جواخبار میں چھپے اور ٹی وی میں نظر آئے، اس کو وہ بڑی شخصیات (celebrities) میں شمار کرنے لگتے ہیں۔ جو آدمی اسٹیج پر پُرجوش خطابت کرے اور جس کو سن کر سامعین تالیاں بجائیں، اس کو لوگ بڑا مقرر سمجھ لیتے ہیں۔ جو آدمی سڑک پر چلے تو اس کے پیچھے گاڑیوں کا کارواں(motorcade) چل رہا ہو، اس کو وہ معزز انسان سمجھ لیتے ہیں، وغیرہ۔
یہ ایک عمومی کمزوری ہے۔ یہی کمزوری کسی بڑے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بڑا کام ہمیشہ چھوٹے آغاز (humble beginning) سے شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ چھوٹے آغاز کی اہمیت کو نہ جانیں، ان کے درمیان کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔
بڑے کام کے لیے ہمیشہ لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب چھوٹے آغاز کے لیے لوگ اپنا تعاون (co-operation) نہ دیں تو اُن کے درمیان بڑے کام کا آغاز ہی نہیں ہوسکتا۔ اِس قسم کا مزاج کسی بڑے کام کے لیے ایک مستقل رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن روایات میںآتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر وہی بگاڑ پیدا ہوجائے گا جو پچھلے اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) کے اندر پیدا ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے تو پھر ایسا کس طرح ممکن ہے کہ امت کے اندر وہی بگاڑ پیداہوجائے جو سابق اہلِ کتاب کے اندر پیداہوا تھا (حافظ ابو الحکم محمد دانیال، پٹنہ، بہار)
جواب
یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے (
کچھ لوگوں نے غلط طورپر یہ نظریہ بنایا ہے کہ جس طرح دین ایک محفوظ دین ہے، اُسی طرح مسلم امت بھی ایک محفوظ امت ہے۔ مگر یہ ایک خود ساختہ نظریہ ہے، اِس کی کوئی اصل قرآن اور حدیث میں موجود نہیں۔ مثال کے طورپر امت کی محفوظیت کا نظریہ اِس روایت سے نکالا جاتا ہے کہ: إنَّ أمتی لاتجتمع علی الضلالۃ ( ذخیرۃ الحفاظ للقیسرانی، 1/364 ) مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ امت کی اکثریت ضلالت سے محفوظ رہے گی۔ یہ حدیث افراد کی نسبت سے ہے، نہ کہ مجموعہ کی نسبت سے، یعنی امت کے عام بگاڑ کے زمانے میں بھی کچھ ایسے افراد ہوں گے جوعمومی بگاڑ کے زمانے میں بھی ہدایت پر قائم رہیں گے۔ اِسی لیے ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: أن تستجمعوا کلُّکم علی الضلالۃ(مسند إسحاق بن راہوَیہ، رقم الحدیث:
سوال
عرض ہے کہ ہندستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کو ان کی سیاسی زندگی میں قرآن اور حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے براہِ کرم، واضح فرمائیں۔(محمد یحییٰ ارسلانی قاسمی، پالم کالونی، نئی دہلی)
جواب
اس معاملے میں قرآن اور حدیث کی رہنمائی یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ہندستان کے مسلمان بلکہ ساری دنیا کے مسلمان سیاست کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور وہ صرف غیر سیاسی دائرے میں کام کریں۔ مثلاً تعلیم، دعوت، تجارت اور تعمیر، وغیرہ۔ کام کا تعین ہمیشہ حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ کسی مفروضہ معیار کے اعتبار سے۔ حالات کا لحاظ کئے بغیر کسی مفروضہ معیار کو لے کر جو کام شروع کیا جائے، وہ صرف بے نتیجہ ٹکراؤ پیدا کرے گا، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ اپنے سیاسی ذہن کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں۔ چوں کہ حالات موافق نہیں ہیں، اِس لیے اِن سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں اُن کو جو چیز ملی ہے، وہ صرف یہ ہے — شکایت، احتجاج، نفرت، منفی سوچ اور تشدد، وغیرہ۔ اِس طرح کی تمام چیزیں صرف یک طرفہ طورپر مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہیں، وہ اُن کو کوئی مثبت نتیجہ دینے والی نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قدیم مکہ میں سیاسی اقتدار کی پیش کش کی گئی۔ مکہ کے معاصر سرداروں نے آپ سے کہا: إن ترید مُلکاً، ملّکناک علینا (اگر آپ اقتدار چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اقتدار دینے کے لیے تیار ہیں) آپ نے اِس سیاسی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم ( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، 1/296 ) یعنی میں تمھارے اوپر اقتدار کا طالب نہیں: I seek not sovereignty over you.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کے مکی حالات کے اعتبار سے یہ فیصلہ کیا۔ آج کل کی زبان میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ آپ نے سیاسی عمل (political activism) کے بجائے دعوتی عمل (dawah activism) کا طریقہ اختیار فرمایا۔ اس اعتبار سے، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ — آپ نے نتیجے کو سامنے رکھ کر اپنا منصوبہ بنایا، نہ کہ مفروضہ معیار کو سامنے رکھ کر۔
اِس معاملے میں دوسری مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے۔ اگر مسلمانوں کا یہ خیال ہو کہ اُن کے لیے موجودہ حالات میں سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے، کیوں کہ یہ جمہوری دور ہے اور جمہوری دور میں اگر کوئی گروہ ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہو تو وہ پولٹکل ایلینیشن (political alienation) میں مبتلا ہوجائے گا، یعنی ایسا گروہ سیاسی اعتبار سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گا۔ اِس دوسری حالت میں اُن کے لیے سنتِ یوسفی کا نمونہ موجود ہے۔ سنتِ یوسفی جیل میں جانے کا نام نہیں ہے، بلکہ سنتِ یوسفی دراصل سیاسی مصالحت (political adjustment) کا نام ہے۔ قرآن کے مطابق، حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ وہ شراب پیتا تھا۔ ملک میں اِسی مشرک بادشاہ کا قانون نافذ تھا۔ اِس کے باوجود حضرت یوسف نے مصالحت کا انداز اختیار کرتے ہوئے بادشاہ کے سیاسی نظام میں شرکت قبول کرلی۔ سیاست کا یہ طریقہ موجودہ زمانے میں ہر مسلمان کے لیے کھلا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سنت میں اُن کے لیے واضح سیاسی رہنمائی موجود نہیں۔ اصل یہ ہے کہ وہ اپنے فخر پسندانہ مزاج کی بنا پر سیاسی سرکشی کو سیاست سمجھتے ہیں، اور چوں کہ کسی ملک میں ان کے لیے سیاسی سرکشی کے مواقع حاصل نہیں، اِس لیے وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن اور سنت میں ان کے لیے سیاسی رہنمائی موجود نہیں۔ اِس معاملے میں اصل مسئلہ مسلمانوں کے خود ساختہ سیاسی شاکلہ (political framework) کو توڑنا ہے۔ موجودہ سیاسی شاکلہ کی موجودگی میں قرآن اور سنت کی رہنمائی مسلمانوں کی سمجھ میں آنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
1 - نئی دہلی میں
Glory be to God, all the things are turning out very well beyond imagination and the distribution is in full swing.
2 - نئی دہلی کے اسلامک کلچرل سنٹر میں اردو پریس کلب (نئی دہلی) کی طرف سے
How to Promote Nationalism
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس سیمنار (seminar)میں شرکت کی اور موضوع پر
In present age, nationhood is based on homeland.
مگر اِس بیان سے مسلمانوں کا ذہن بدل نہ سکا، کیوں کہ مسلم علماء نے یہ کہہ دیا کہ مولانا مدنی نے جو کچھ کہا، وہ انشا نہ تھی، بلکہ خبر تھی۔ ضرورت ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کے ذہن کی اصلاح کی جائے، ورنہ مسلمان ہر ملک میں غیر وفادار بن کر رہ جائیں گے۔
3 - الرسالہ مشن سے وابستہ ایک ساتھی نے امام حرم مکی شیخ عبد الرحمن السدیس سے ایک خصوصی پروگرام کے دوران مکہ میں ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ملاقات کے وقت انھوں نے دیکھا کہ امام حرم کے مطالعے کی میز پر صدر اسلامی مرکز کی کتاب الإسلام یتحدی رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھی نے امام صاحب سے پوچھا کہ آپ شیخ وحید الدین کو جانتے ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ شیخ وحیدالدین دورِ جدید کے عظیم داعی اور مفکر ہیں، ان سے کون ناواقف ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دعوتِ اسلامی کے احیاء اور اسلام اور دورِ جدید کی نسبت سے شیخ وحید الدین نے جو کام کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک تجدیدی کام ہے۔ ہمارے ساتھی نے ان کوبتایا کہ شیخ وحید الدین کی تفسیر کا عربی ایڈیشن مصر سے شائع ہوچکا ہے۔ اِس سلسلے میں تذکیر القرآن (عربی) کا ایک سیٹ امام حرم کو صدر اسلامی مرکز کی طرف سے حسب ذیل خط کے ساتھ (
إلی فضیلۃ الشیخ د؍عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ
فیطیب لی أن أرفق طیہ نسخۃ من ’’التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم‘‘ (3 مجلدات) وہو أہم وأضخم ما نقل إلی العربیۃ من مؤلفاتی أخیراً. وقد قام بترجمتہ من لغۃ الأردو الأخ أبوصالح أنیس لقمان الندوی وتولی تقدیمہ ونشرہ الأستاذ د؍عبد الحلیم عویس من دار الوفاء القاہریۃ منذ حوالی سنۃ ونصف.
وإذا کان کتابی ’’الإسلام یتحدی‘‘ موجہاً إلی العقل المعاصر عامۃ لإثبات أحقیۃ مبادیٔ الإسلام وخلود رسالتہ فی مواجہۃ تیارات الفکر العلمانی الحدیث؛ فإننی حاولت من خلال تفسیری المتواضع ہذا أن أذکّر المسلمین خاصۃ وہم أمناء علی کتاب اللّٰہ برسالتہم ومسؤولیتہم تجاہہ. ومن ثم یدور ہذا التفسیر حول نقطۃٍ مرکزیۃ ہی ’’الدعوۃ‘‘ والتی تجدونہا مناسبۃ فی کل سطر من سطورہ. فالقرآن الکریم ہو کتاب ’’الدعوۃ إلی اللہ‘‘ أولاً وأخیراً. والامۃ الإسلامیۃ ہی قبل کل شـیئ وبعد کل شیئ’’أمۃ دعوۃ‘‘ وبالتالی علیہا أن تلتمس کل الطرق الحکیمۃ والسلمیۃ المتاحۃ وکل الأسالیب المعاصرۃ والفعالۃ لأجل تبلیغ دعوۃ القرآن إلی البشریۃ جمعاء.
وإننی إذ أہدی ہذا الکتاب إلی فضیلتکم؛ راجیاً أن یحظی بحسن القبول عندکم؛ أسأل اللّٰہ تعالی أن یوفقنا جمیعاً إلی السعی الحثیث الجاد لإدخال کلمتہ إلی کل بیت ’’مدر أو وبر‘‘؛ کما ورد فی حدیث مسند الإمام أحمد. (أخوکم فی اللہ وحید الدین خان)
4 - حکومتِ شارجہ (عرب امارات) کی جانب سے شارجہ ایکسپو سنٹر میں
5 -یکم نومبر 2010 کو مولانا مکرم حسین قاسمی اور مولانا محمد ذکوان ندوی نے لکھنؤ کے ایک عقدِ نکاح میں شرکت کی۔ یہاں انھوں نے لوگوں کو ماہ نامہ الرسالہ اور دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔اس موقع پر بہرائچ (یوپی) کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ جیوتی وسترالے کے مالک مسٹر شرما نے قرآن کو دیکھ کر اپنی غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ — لمبے عرصے سے میں قرآن کو پڑھنا چاہتا تھا، مگر اب تک میں اس کو حاصل نہ کرسکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب میں ضرور قرآن کو پڑھوں گا۔
6 -دور درشن (نئی دہلی) کے اردو ٹی وی چینل کی ٹیم نے 10 نومبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو حج اور قربانی کے موضوع پر تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔
7 - نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) کے کمیونٹی سنٹر میں
8 - وائی ایم سی اے (Young Men’s Christian Association) کی طرف سے
9 - خان مارکیٹ (نئی دہلی) میں
10 - نئی دہلی کے سینٹ ایگنلس فادر اسکول (St. Agnel’s Father School) میں
Maulana Wahiduddin Khan is a role model for India.
اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف کرسچن اسکولوں کے پرنسپل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور مسیحی افراد شریک تھے۔ان لوگوں کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
Basic Human Values in Islam
صدر اسلامی مرکز نے انگریزی زبان میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف اسکولوں کے پرنسپل نے شرکت کی۔ یہاں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
International Seminar on Guru Granth Sahab.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں اسلام کے تعارف پر ایک تقریر کی۔ اِس سیمنار میں سِکھ کمیونٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی طرف سے ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
18 - ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) میں مسلسل صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں قارئین کے تاثرات سی پی ایس کو موصول ہوتے ہیں۔ یہاں اُن میں سے دو تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
I have gone through the ‘Speaking Tree’ column of Times of India with the caption ‘Big Birds of the Storm’ (TOI, Dec.
ک Thank you very much for such a beautiful article! Today what I learned from this article was very inspiring for me.Many people tried to explain me how to maintain calmness, but I could not maintain, and this article ('Big Birds of the Storm) did such a work that none ever did anytime! This article was really very good and very inspiring, I will really forward this article (Big Birds of the Storm) to schools and colleges. (Sagar Agarwal, Delhi)
19 - قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کے درمیان پھیلایا جارہا ہے۔ لوگ خوشی کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں اُن میں سے چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
ک I feel so indebted for the great gift I have been waiting, The Quran I just received today at midday, may God bless you abundantly and your team for this great mission, I was not able to read Quran as many I came across were in either Arabic or Roman but now I can read on my own. I am so happy. (Hillary Olola, Homabay, Nairobi, Kenya)
ک I have a great regard for the religion of Islam and particularly, for Maulana Wahiduddin Khan, who interprets the Holy Quran, the Sahih Hadith & the life of the Prophet Muhammad in the most simple and practical manner. (Srinivasan Balakrishnan, Jamshedpur, Jharkhand)
ک I truly believe that Maulana Wahiduddin Khan's understanding of Islam is wonderful and truly beneficial, he is one of the reasons that I have fell in love with Islam all over again. He will most definitely be one of the scholars I continue to read, and if his methodology was firmly promoted all over the world, I believe that many of those Muslims with ideological political agendas can come to see the truth of Islam and Prophet Message, insha Allah. I love Maulana Wahiduddin Khan's understanding of the ahl-Kitab and the respect he shows for other religions. May Allah continue to bless Maulana Wahiduddin Khan and I look forward to becoming a student of his teachings and methodologies. Maulana Wahiduddin Khan’s understanding of true Islam is what the world needs! (Mike Westerfield, Panama, Florida, USA)
ک Maulana Wahiduddin Khan is one of the Islamic scholars that caused Islam to be presented in the modern era. The sole reason behind this is that he presented Islam in a logical and scholarly way. (Muhammad Bilal, Pakistan)
20 - سی پی ایس کی طرف سے مختلف لائبریریوں کو اسلامی کتابیں بھیجی جارہی ہیں۔ لوگ اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول کرکے اپنی لائبریری میں جگہ دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہاں ایک خط نقل کیا جارہا ہے:
ک Thank you very much for sending us a set of books from the Centre for Peace and Spirituality International, authored by Maulana Wahiduddin Khan. After the customary review by the Library Book Selection committee, it will be added to our library for utilization of our readers. It is indeed a pleasure to add such well-written books to our library. (Br. Vidyachitanya, Ramakrishna Mission Library, New Delhi)
Dr. Abdussabour Shahin (1928-2010)
While hastily turning the pages of the Kuwaiti magazine Al-Mujtama‘ last week, a familiar face stopped me - it was the image of my and millions’ dear teacher Dr Abdussabour Shahin, but the news printed along the photograph was shocking: he died on 26 September 2010 and was buried in Cairo next day after the funeral prayer at his beloved ‘Amr Ibn Al-‘Aas mosque, Egypt’s first mosque built after the Islamic conquest. He had delivered Friday sermons in this very mosque for years until stopped by the authorities. Dr Abdussabour was one of the greatest names in the contemporary Middle East - a teacher, philosopher and linguist. Author of over 70 books, some multi-volume, he was a familiar face on Arabic channels and in Islamic conferences. He was professor of linguistics in Cairo University’s Darul Uloom College and taught in a number of Arabic universities on deputation. He was elected to the Majlis Shoura, the upper house of Egyptian parliament. But the exceptional honour he received was to be the Imam Jumu‘ah of ‘Amr ibn Al-‘Aas mosque where great personalities, like Shaikh Muhammad Al-Ghazali, had traditionally delivered the Friday sermon attended by tens of thousands of people who used to travel to that mosque from various corners of Cairo and nearby Giza. He was a master of French language too and translated many books of the Algerian thinker Malek Bennabi as well as the epoch-making book of Abdullah Draz on morals in Islam. I consider him my real teacher in life. Although I studied in Darul Uloom, but he did not teach me there as he taught in the Arabic department while I was in the department of Islamic history. I had wanted to translated my father’s book, Ilm-e Jadeed ka challenge’ (God Arises) and asked the great ‘alim Shaikh Abdullatif Draz who was a former Vice Chancellor of Al-Azhar and treated me like his son. His suggestion was to go to Dr Abdussabour Shahin as he was the best person for this job. He at once phoned Dr Shahin who, in turn, readily agreed. This was in the early days of 1968. Next, I went to see him with the translation of a few pages of the book. He did not like the translation but liked the content. His disapproval of my translation was repeated again and again and I used to tell him that next day I will bring a better translation. His pet reply was: ‘No, it will be the same again’. Then he used to ask me to explain to him reading the original and he himself used to write those lines. Thus, we continued this onerous task for perhaps eight or nine months with barely a page or so completed in a day. I
used to go to him every evening by trolley bus all the way from Abbasia to his flat on the Qasr al-'Aini Street - a distance of may be 45 minutes each way, spend two-three hours with him and then return to my hostel by around midnight. Thus the book was completed. He soon went to teach in Kuwait University and took the manuscript with him. Soon, the book was published in best possible way titled Al-Islam Yatahadda which made waves in the Arab world and still continues to do four decades later. It helped thwart the secular and westernization onslaught and paved the way for Islamic revival in the Middle East. I soon left Cairo for Libya and from there moved to UK but kept in touch with my teacher who taught me what Arabic is. If I know any amount of Arabic writing, perhaps the best in the Subcontinent, the credit goes to him alone. He was very particular about words and expressions. He was a brave, fearless and highly eloquent Muslim thinker who did not shy away from expressing himself in most difficult situations. I last saw him last year in Makkah during the Dialogue Conference held by King Abdullah. He looked frail, yet attentive and loving as ever. He embraced me, saying ‘‘Habibi’’ - my dear… That was the last time I saw him. May Allah fill his grave with light and award him for his services to Islam and Muslims who will remember him for long. (by Dr. Zafarul Islam Khan, The Milli Gazette, New Delhi, 1-15 Novermber 2010, .
واپس اوپر جائیں
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.