قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک آیت ہے جس کو عام طورپر آیت الکرسی کہاجاتا ہے۔ اِس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم میںسے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جو وہ چاہے۔ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمینوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ تھکتا نہیں ہے اُن کے تھامنے سے۔ اور وہی ہے بلند مرتبہ، عظمتوں والا (
بلاغت کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر کسی حقیقت کو کامل صحت کے ساتھ بیان کردیا جائے تو ایسا بیان اپنے آپ میں کافی ہوجاتا ہے، اس کے بعد اِس بیان کو مدلل کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ مثلاً دوپہر کے وقت اگر کھلے آسمان میں سورج چمک رہا ہو تو یہ کہنا کافی ہے کہ سورج نکلا ہوا ہے۔ اِس کے بعد اِس بیان کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہ ہوگی۔
سورج کی مثال ایک حسّی مثال ہے۔ یہی معاملہ غیر حسّی حقیقتوں کا بھی ہے۔ اگر کسی غیر حسی حقیقت کو کوئی شخص پوری طرح دریافت کرلے اور پھر اس کو کامل صحت کے ساتھ الفاظ میں بیان کردے تو ایسا بیان اپنے آپ میں ایک مدلل بیان بن جائے گا۔ یہی معاملہ قرآن کی مذکورہ آیت کا ہے جس کو آیت الکرسی کہاجاتا ہے۔آیت الکرسی میں خداوند ذوالجلال کی جن صفتوں کو الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ان میں صحتِ بیان اتنا زیادہ کمال درجے میں پایا جاتا ہے کہ اگر اس میں مزید وضاحت شامل کی جائے تو وہ اصل بیان کو کم تر کرنے کے ہم معنی بن جائے گی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ آیت الکرسی کو یاد کرکے بار بار اس کو دہرائے۔ وہ محسوس کرے گا کہ وہ ایک ایسے کلام کو دہرا رہا ہے جو معروف قسم کے مدلل کلام سے بھی زیادہ مدلل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت الکرسی ایک ایسا کلام ہے جس کو تشریح کے بغیر پڑھنا چاہیے۔ اُس میں کسی تشریح کا اضافہ صرف اس کی عظمت کو گھٹانے والا ثابت ہوگا، نہ کہ اس کی عظمت کو بڑھانے والا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بار بار یہ تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی تسبیح کرے۔ اِس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں۔ مثلاً تحمید، تمجید، تقدیس ، وغیرہ۔ اِن سب کا خلاصہ ایک ہے، اور وہ ہے اعتراف (acknowledgement) انسان کی نسبت سے جس چیز کو اعتراف کہاجاتا ہے، اسی کو اللہ کی نسبت سے تسبیح وتحمید کہاگیا ہے۔ تسبیح وتحمید کے الفاظ دراصل اعتراف ہی کی منزّہ تعبیریں ہیں۔ پھر اِن سب کا خلاصہ صرف ایک ہے، اور وہ گلوری فکیشن (glorification) ہے، یعنی اللہ کی عظمت وکبریائی کا بندے کی زبان سے اظہار۔
خدا اور بندے کے درمیان جو نسبت ہے، وہ دینے والے اور پانے والے کی نسبت ہے۔ بندے کے پاس اللہ کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ واحد چیز جس کو ایک بندہ اپنے رب کے سامنے پیش کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کو اس کی حیثیتِ واقعی کے ساتھ دریافت کرے۔ اِسی دریافت کا نام معرفت (realization) ہے۔ جب کوئی بندہ جہاد فی اللہ کرتا ہے، یعنی اللہ کے معاملے میں انتہائی حد تک غوروفکر، اُس وقت اللہ کی توفیق سے اُس پر حقیقت خداوندی کا انکشاف ہوتا ہے۔ وہ کامل یقین کے درجے میں اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اِس کے بعد اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال آجاتا ہے۔ وہ اندرونی طوفان کے ذریعے اللہ کا اعلیٰ اعتراف کرنے والے الفاظ بولنے لگتا ہے۔ یہ گویا معرفتِ داخلی کا خارجی الفاظ میں ڈھل جانا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں تسبیح وتحمید جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔کسی انسان کا اِس طرح اللہ کو دریافت کرنا کوئی آسان با ت نہیں۔ یہ مخلوق کا اپنے خالق کو دریافت کرنا ہے، یہ طالب کا اپنے مطلوب کو دریافت کرلینا ہے، یہ عاجز ِ مطلق کا قادرِ مطلق کو دریافت کرلینا ہے۔ اِس دریافت کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ ایک انسان اپنے رب کو اس کی حیثیتِ واقعی کے ساتھ دریافت کرلیتا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہو جاتاہے کہ وہ دیکھے بغیر اللہ کو دیکھے، وہ دوری کے باوجود اللہ کی قربت کا تجربہ کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ العنکبوت میںایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے— جو لوگ اللہ میں جہادکریں گے، ان کو اللہ ضرور اپنے راستے دکھائے گا(
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں جہاد سے مراد جہادِ فکری ہے، یعنی اللہ کے بارے میں سوچنا، اللہ کے بارے میں تفکر اور تدبر کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا، مسلسل مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے اپنے ایمان میں اضافہ کرتے رہنا، وغیرہ۔
دین کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے۔ یعنی مخلوقات میں غور وفکر کے ذریعے خالق کو پہچاننے کی کوشش کرنا، کلام الٰہی کا مطالعہ کرکے اس سے مسلسل ذہنی غذا حاصل کرنا، اپنے روز مرہ کے تجربات کو ربانی بصیرت میں ڈھالنا، وغیرہ۔ اِس قسم کا غور وفکر کامل یکسوئی کے ذریعے ہوتا ہے، اور کامل یکسوئی (concentration) بلاشبہہ ایک عظیم جہاد ہے۔
’’ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھائیں گے‘‘ اِس سے مراد ہدایت کے راستے ہیں، یعنی ایسے لوگوں کا ذہن زیادہ سے زیادہ کھلے گا، ان کے ندر نئی سوچ جاگے گی، ان پر معرفتِ خداوندی کے نئے نئے پہلو واضح ہوںگے۔ جس طرح اللہ کی ذات لامحدود ہے، اسی طرح اس کی معرفت بھی لامحدود ہے۔ اِس لامحدود معرفت کی توفیق انھیں لوگوں کو ملتی ہے جو تفکر اور تدبر کے ذریعے اللہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔ اِسی فکری جہاد کو اِس آیت میں جہاد فی اللہ کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنما أخاف علی أمتی الأئمۃَ المُضَلِّین، وإذا وُضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (أبو داؤد والترمذی، بحوالہ: مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث :5394 ) یعنی میںاپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ گم راہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہ جائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی کے اندر یہ تلوار حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں داخل ہوئی۔ یہ معاملہ گمراہ کن لیڈروں کے ذریعہ پیش آیا اور عملاً وہ آج تک مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا اصل ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں یہی ماڈل امت کے درمیان جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ اب امت کے اندر غیردعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔
دعوتی ماڈل پر امن مشن کا ماڈل ہے۔ اِس ماڈل میں مثبت سوچ ہوتی ہے، تعمیری سرگرمیاں ہوتی ہیں، تمام سرگرمیاں دعوت کے مرکزی تصور کے تحت تشکیل پاتی ہیں، ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اختلاف کوگفت وشنید (negotiation) کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
غیر دعوتی ماڈل کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اس میں نفرت اور تشدد اور ٹکراؤ جیسی چیزیں فروغ پاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد امت میں غیر دعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔ اس کے بعد امت کے اندر کوئی ایسی طاقت ور شخصیت نہیں ابھری جو غیر دعوتی ماڈل کو ختم کرے اور امت کے اندر دوبارہ دعوتی ماڈل کو رائج کرے۔ یہی امتِ مسلمہ کا اصل المیہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس المیہ کو دورکرکے امت کو دوبارہ دعوتی ماڈل پر لایاجائے۔ اِس کے بغیر امت کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ النساء میں ایک اجتماعی حکم بیان کیاگیا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: پس تیرے رب کی قسم، وہ کبھی ایمان والے نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے باہمی جھگڑے میں تم کو حَکَم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلہ تم کرو، اُس پر وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور وہ اس کو خوشی سے قبول کرلیں(
قرآن کی اِس آیت کا ایک شانِ نزول بیان کیا جاتاہے، مگر اِس آیت میں ایک وقتی واقعہ کے حوالے سے ایک ابدی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اجتماعی نزاعات کا فیصلہ کس طرح کیا جائے، اجتماعی نزاعات کو کس اصول کے تحت ختم کیا جائے۔ وہ اصول یہ ہے کہ تمام متعلقہ فریق عدالت کے فیصلے کو بلا شرط مان لیں، نزاعی معاملے کو حل کرنے کے لیے اِس کے سوا کوئی اور قابلِ عمل صورت نہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اجتماعی نزاعات عام طورپر باہمی گفت وشنید سے ختم نہیں ہوتے، پھر اس کو کس طرح ختم کیاجائے۔ اس کا آخری طریقہ یہ ہے کہ تمام لوگ نزاعی معاملے میں عدالت کے فیصلے کو مان لیں جو کہ قانونی طورپر ایک مسلّمہ ادارہ (legally accepted institution) کی حیثیت رکھتا ہے۔ عدالت ایک ایسا ادارہ ہے جو کسی سماج میں دستوری اور قانونی بنیاد پر قائم کیا جاتاہے۔ اِس بنا پر کسی سماج میں عدالت کو لوگوں کے درمیان ایک مستند حیثیت ہوجاتی ہے۔ اب نزاع کے ہر فریق کو چاہیے کہ وہ عدالت کی اِس مسلّمہ حیثیت کو مانتے ہوئے اس کے فیصلے کو بلا شرط قبول کرلے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف۔
کسی سماج میں نزاع کا مستقل طورپر باقی رہنا، اُس کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے۔ کسی سماج میں نزاع اگر دیر تک باقی رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس سماج میں صحت مند ماحول کا خاتمہ ہوجائے گا، جب کہ صحت مند ماحول کے بغیر تعمیر وترقی کا کوئی کام مطلوب انداز میں ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں واحد قابل عمل صورت یہ ہے کہ عدالت کو قولِ فیصل کا درجہ دے دیا جائے۔ اِس طریقے کا ایک مزید فائدہ یہ ہے کہ اِس میں کسی فریق کا وقار مجروح نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں
کسی بات کو بطور عقیدہ ماننا ہو تو صرف یہ دیکھنا کافی ہوگا کہ اصولاً وہ بات درست ہے یا نہیں۔ اگر وہ بات اصولی اعتبار سے درست ہے، تو آپ کو حق ہے کہ آپ اس کو اپنا عقیدہ بنائیں۔ عقیدے کا تعلق آدمی کی اپنی ذات سے ہوتا ہے، دوسروں کی تصدیق یا موافقت اس کے لیے ضروری نہیں۔
لیکن عملی اقدام (practical step) کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عملی اقدام کی صورت میں آپ تنہا نہیں ہوتے، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ کوئی عملی اقدام کرتے ہوئے آپ کو لازماً یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کے اقدام کا نتیجہ (result) کیا ہوگا۔
اگر آپ کے اقدام کا مثبت نتیجہ (positive result)نکلنے والا ہو تو آپ اقدام کرسکتے ہیں، لیکن اگر حالات بتاتے ہوں کہ آپ کے اقدام کا نتیجہ منفی (negative)صورت میں نکلے گا تو آپ پر فرض ہوگا کہ آپ ہر گز ایسا اقدام نہ کریں۔ ایسی حالت میں، اصول کا حوالہ دے کر اقدام کرنا، بلا شبہہ باطل ہے، مذہبی شریعت میں بھی اور سیکولر شریعت میں بھی۔ عملی اقدام کی صورت میں نتیجہ (result)معیار ہے، نہ کہ اصولی طورپر اس کا درست ہونا۔
یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: مِن حُسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ (الترمذی، کتاب الزہد) یعنی آدمی کا حسنِ اسلام یہ ہے کہ وہ اُس عمل کو ترک کردے جو بے نتیجہ ثابت ہونے والا ہو۔
گویا کہ جس طرح عمل مطلوب ہے، اُسی طرح ترکِ عمل بھی مطلوب ہے۔ اِس معاملے میں جو چیز فیصلہ کن ہے، وہ نتیجہ (result) ہے، یعنی جس عملی اقدام کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلنے والا ہو،اس کو اختیار کیا جائے گا۔ اور جس عملی اقدام کا نتیجہ منفی صورت میں نکلنے والا ہو، اس کو ہر گز اختیار نہیں کیا جائے گا۔ مثلاً یک طرفہ ہلاکت، مسائل میں مزید اضافہ، امن کی فضا کی بربادی، باہمی تعلقات کا بگاڑ، مواقع(opportunities) کا غیر استعمال شدہ حالت میںپڑا رہ جانا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: إنّ الاسلام بدأ غریباً وسیعود غریباً کما بدأ فطوبیٰ للغرباء (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أن الاسلام بدأ غریبا) یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی (stranger) تھا۔ وہ دوبارہ اجنبی ہوجائے گا، جیساکہ وہ پہلے تھا، تو اجنبیوں کو مبارک ہو۔
بعد کے زمانے میں اسلام کے اجنبی ہونے کی یہ پیشین گوئی مسلمانوں کی نسبت سے ہے، یعنی اسلام خود مسلمانوں کے درمیان اجنبی ہوجائے گا۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد نفسِ اسلام نہیں ہے، بلکہ اسلام کاکوئی بنیادی جز ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ بنیادی جز کیا ہے۔
غور کیجئے تو بعد کی مسلم نسلوں میں ہمیشہ اسلام بظاہر موجود رہا ہے اور آج بھی وہ موجو د ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی مسلم نسلوں میں اور آج کی مسلم نسلوں میں بھی تمام اسلامی مظاہر موجود ہیں۔ان کے درمیان کلمۂ ایمان موجود ہے، نماز اور روزہ موجود ہے، زکوۃ اور عمرہ اور حج موجود ہے، قرآن کی تلاوت موجود ہے، دینی تعلیم کے ادارے موجود ہیں، مسجدیں اور مدرسے موجود ہیں، اسلام کے نام پر جہاد موجود ہے، ذکر واذکار کی محفلیں موجود ہیں، دین کے نام پر نقل وحرکت موجود ہے، ہزاروں کی تعداد میں اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں بھی موجود ہیں، مسلمانوں کے اپنے دعوے کے مطابق، اسلامی سیاست اور اسلامی حکومت بھی موجود ہے، ساری دنیا میں بڑی بڑی شخصیتیں بھی موجود ہیں جن کی شناخت اسلام کے حوالے سے ہوتی ہے، اسلام کے نام پر جان ومال کی قربانی دینے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کو خود مسلمانوں نے اِس قسم کے ٹائٹل دے رکھے ہیں— مفکر اسلام، مجاہد اسلام، قائد اسلام، حکیم الاسلام، سیف الاسلام، حجۃالاسلام، مجدداسلام، شیر ِ اسلام، وغیرہ۔
لیکن غور کیجئے تو اسلام کی صرف ایک بنیادی تعلیم ایسی ہے جو مسلمانوں کے درمیان موجود نہیں، یہ دعوت الی اللہ ہے۔ دعوت الی اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن تھا۔ رسول اور اصحاب رسول نے اپنی ساری توانائی اِسی ایک مشن پر خرچ کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) دعوت تھا۔ اِس کا ایک اظہار قرآن کی اِس آیت سے ہوتاہے: لعلک باخع نفسک أن لا یکونوا مؤمنین (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس معاملے میں صحابہ کی تربیت کس طرح کی تھی اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر کیسا مزاج بنا تھا، اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتاہے۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی بن ابی طالب کو ایک مہم پر روانہ کیا۔ روانگی کے وقت آپ نے اُن کو جو نصیحت کی، ایک روایت کے مطابق، اُس کے الفاظ یہ تھے: یا علی، لأن یہدی اللہ علی یدیک رجلاً، خیر لک مما طلعت علیہ الشمس (المستدرک علی الصحیحن للحاکم، 3/690 ) یعنی اے علی یاد رکھو، اگر اللہ تمھارے ذریعے سے ایک انسان کو ہدایت دے دے تو وہ تمھارے لیے اُن تمام چیزوں سے بہتر ہے جن کے اوپر سورج طلوع ہوتا ہے، یعنی تمام دنیا ومافیہا سے زیادہ بہتر۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی انداز میں اپنے اصحاب کو تربیت دی تھی۔ آپ ہر موقع پر اُنھیں دعوت الی اللہ کی اہمیت بتاتے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پُرامن دعوت، اصحاب رسول کا سب سے بڑا کنسرن بن گیا۔ ان کے لیے دعوت کے سوا، دوسری تمام چیزیں اضافی (relative) بن گئیں۔ دعوت ہی ایک ایسا کام تھا جو اُن کے لیے حقیقی کام کی حیثیت رکھتا تھا۔
رسول اور اصحاب ِ رسول اور تابعین کے دو رکو اسلام کی تاریخ میں قرون مشہود لہا بالخیر کہاجاتا ہے۔ اِس ابتدائی زمانے میں تمام صحابہ کا واحدنشانۂ عمل یہی تھا۔ نبوت کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ اِس کے بعد مسلسل دعوتی کوشش کے نتیجے میں 20 سال کے عرصے میں عرب کے تقریباً تمام لوگ اپنے سابقہ مذاہب کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔ جب عرب میںدعوت کا کام مکمل ہوگیا تو حجۃ الوداع (10 ہجری) کے بعد اصحاب رسول عرب سے نکل کر آس پاس کے ملکوں میں پھیل گئے اور اپنی دعوتی ذمے داریوں کو بیرونی علاقوں میں انجام دینے لگے، دعوت کا یہ کام کم وبیش بنو امیہ کے دور اقتدار (661- 750) تک جاری رہا۔
750 عیسوی سے تاریخ بدلتی ہے۔ اِسی سال بنو عباس نے ایرانیوں کی مدد سے اپنی سلطنت قائم کی۔ عباسی دور ہی وہ دور ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر سے دعوتی شعور کا خاتمہ ہوگیا۔ عباسی دور میں مختلف قسم کی غیر معمولی ترقیاں ہوئیں، لیکن جہاں تک دعوتی عمل کا تعلق ہے، وہ اس دور میں تقریباً مفقود ہوگیا۔ اسلام کی اپنی فطری کشش کی بنا پر اگر چہ ہر زمانے میں لوگ اسلام قبول کرتے رہے، لیکن ایک باقاعدہ شعور کی حیثیت سے دعوت کا وجود باقی نہ رہا۔
عباسی دور ہی میں اسلام کے مختلف موضوعات پر وہ تمام کتابیں لکھی گئیں جن کو اسلام کا کلاسیکل لٹریچر سمجھا جاتاہے، مگر اِن تمام کتابوں میں واحد باب جو حذف ہوگیا، وہ دعوت کا باب تھا۔ اِن کتابوں میں اسلام کے تقریباً تمام ممکن موضوعات پر بحث موجود ہے، لیکن حیرت انگیز طورپر اُن میں دعوت کا باب موجود نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اِن مصنفین نے دعوت کے کام کو عملاً منسوخ قرار دے دیا ہو۔
عباسی دور میں جو پیٹرن (pattern)قائم ہوا، وہی پیٹرن دنیا کے تمام مسلمانوں کے اندر گویا کہ واحد مستند پیٹرن بن گیا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی صدیوں میں کثیر تعداد میں قرآن کی تفسیریں لکھی گئیں، مگر اِن تفسیروں میں سے کوئی تفسیر دعوتی اسلوب پر نہیں لکھی گئی۔ احادیثِ رسول کی تدوین ہوئی تو ان میں ہر قسم کے ابواب قائم ہوئے، لیکن دعوت کا باب حدیث کی کتابوں میں موجود نہیں۔ یہی حال فقہ کا ہوا۔ فقہ کی کتابوں میںہر قسم کے ابواب موجود ہیں، مگر دعوت وتبلیغ کا باب فقہ کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔
اِسی طرح سیرت کی کتابیں مغازی کے پیٹرن پر لکھی گئیں۔ اسلامی تاریخ پر لکھی جانے والی کتابیں اِس انداز پر لکھی گئیں کہ وہ عملاً سیاسی اسلام کی تاریخ بن گئیں، حتی کہ مورخ ابن خلدون (وفات:1406 ء) نے غیر سیاسی نہج پر اسلام کی تاریخ لکھنا چاہی، مگر وہ اِس مقصد میںکامیاب نہ ہوسکا۔ کیوں کہ اس کے زمانے میں ایسی کتاب لکھنے کے لیے ضروری تاریخی مواد (data) ہی موجود نہ تھا۔اِسی طرح بعد کے زمانے میں اسلام کی تشریح پر جو مشہور کتابیں لکھی گئیں ہیں، وہ بھی عملاً دعوت کے ابواب سے خالی ہیں۔ مثلاً الغزالی کی احیاء علوم الدین، ابن قیم کی اعلام الموقعین، شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ اور اِس قسم کی دوسری کتابیں جو عربی یا کسی اور زبان میں لکھی گئیں، وہ سب اِس دعوتی تصور (concept)کے فقدان کی کھلی ہوئی مثالیں ہیں۔
آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارھویں صدی عیسوی تک یہی صورتِ حال باقی رہی۔ اِس کے بعد انیسویں صدی میں مغربی قومیں نئی طاقتوں کے ساتھ اٹھیں۔ انھوںنے مسلمانوں کے سیاسی دبدبے کا خاتمہ کردیا۔ دھیرے دھیرے مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر ختم ہوگیا، البتہ چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں باقی رہیں جو اب بھی
اِس کے بعد مسلم سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ دور زیادہ واضح طورپر سید جمال الدین افغانی کے زمانے میں انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور بیسویں صدی کے آخر تک جاری رہا۔ اِس زمانے میں مسلمانوں کی کوشش یہ تھی کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم کریں۔ یہ کام مفروضہ سیاسی غاصبین کے خلاف جہاد بالسیف کی صورت میں شروع ہوا، مگر وہ اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہا۔ اِس ناکامی کے دو بڑے علامتی واقعات ہیں— فلسطین میںعربوں کے مسلح جہاد کی مکمل ناکامی، اِسی طرح کشمیر میں مسلح جہاد کی مکمل ناکامی۔
مسلح جہاد کی اِس ناکامی کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان پورے معاملے کا از سرِ نو جائزہ لیتے۔ وہ اپنی کمی کو دریافت کرتے اور نئی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کی منصوبہ بندی کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں کے مفکرین نے اِس کے بجائے یہ کیا کہ انھوںنے اسلام کی پورے معنوں میں سیاسی تعبیر کرڈالی۔ اِس سے پہلے مسلمانوں کا مسلح جہاد صرف عملی معنوں میں ایک سیاسی جہاد کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اسلام کی سیاسی تعبیر کے بعد وہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ کا ایک مسئلہ بن گیا، یعنی ہر حال میں انھیں اپنی سیاسی لڑائی لڑنا ہے، خواہ اِس کا نتیجہ یک طرفہ تباہی کے سوا کچھ اور نہ ہو۔
اسلام کی سیاسی تعبیر ایک خطرنک قسم کے غلو(extremism) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہی وہ انتہا پسندانہ تعبیر ہے جس کے بطن سے وہ ظاہرہ برآمدہوا ہے جس کو آج کل خود کش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے، یعنی جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاک کرکے دشمن کو کچھ نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔ اسلام کی سیاسی تعبیر نے پہلے یہ کیا کہ مسلمانوں کے لیے دوسری اقوام کو اُن کا حریف بنا دیا۔ اِس کے بعد مسلمان دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگے، وہ متشددانہ کارروائی کے ذریعے دشمن کو مغلوب کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی تقریر وتحریر، ان کی انتخابی کارروائیاں (electoral activities)، اُن کے مسلح حملے اپنے مفروضہ دشمن پر انھیں کامیابی نہیں دے رہے ہیں تو وہ مایوسی کی آخری حد تک پہنچ کر خود کش بمباری کرنے لگے۔
عباسی دور میں جب دعوت کا تصور پس پشت چلا گیا اور مسلمانوں میں سیاسی توسیع کا ذہن پیدا ہوگیا تو یہ اسلامی تاریخ میں گویا کہ پہلا انحراف (derailment) تھا۔ اس کے بعد جب بیسویں صدی عیسوی میں اسلام کی سیاسی تعبیر کی گئی تو یہ کامل طورپر دعوتی ذہن کے خاتمہ کے ہم معنی تھا۔بیسیوں صدی میں اسلام کی جو سیاسی تعبیر کی گئی، اس کے دو خاص چیمپین تھے — عرب دنیا میں سید قطب مصری، اور بر صغیر ہند میں سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ اِس کے علاوہ، ثانوی درجے میں اِس سیاسی تعبیر کے کچھ اور موجدین ہیں۔ مثلاً آیت اللہ الخمینی، اسامہ بن لادن، وغیرہ۔
کسی شخص کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی انسان کی نیت پر حملہ کرے یا فتویٰ کی زبان میں اس کے عند اللہ مقبول یا غیرمقبول ہونے کا اعلان کرے۔ لیکن عملی نتیجہ کے اعتبار سے، یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی سیاسی تعبیر دجالی فتنے سے کم نہیں۔ اِس عظیم فتنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر اسلام کو اسلام کے نام پر کیا جانے لگا— داعی کے لیے اس کا مدعو نفرت کا موضوع بن گیا، تشدد کو ایک مقدس عمل کا درجہ حاصل ہوگیا، خود کش بم باری مسلم انتہا پسندوں کے لیے جنت میںفی الفور داخلے کا ذریعہ قرار پائی، خدا رخی اسلام عملاً سیاست رخی اسلام بن گیا، کمیونسٹ اخلاقیات کو اسلامائز کرکے اس کو اسلام میں داخل کرلیا گیا، لوگوں کی جنت کے حریص بننے والے، لوگوں کی ہلاکت کے حریص بن گئے، نفرت اورتشدد کے پروپیگنڈے کا یہ نتیجہ ہوا کہ دعوت کے اعلیٰ مواقع کو استعمال کرنا ممکن نہ رہا، مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) مکمل طورپر ختم ہوگئی، وغیرہ۔
مذکورہ جائز ہ بتاتا ہے کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں جو چیز اجنبی بن گئی، وہ اسلام کا دعوتی پہلو تھا۔اکیسویں صدی میں یہ صورتِ حال اپنے نقطۂ انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اسلام کے اس اجنبی پہلو کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اہل اسلام کو دوبا رہ تیار کیا جائے کہ وہ دعوت کے نشانے کو اپنا نشانہ بنائیں۔ وہ دوبارہ اُس دعوتی عمل کو زندہ کریں جو دنیا کی تمام قیمتی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی لوگ اُس اعلیٰ خدائی مبارک باد کے مستحق قرار پائیںگے جس کا ذکر مذکورہ حدیث رسول میں کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 90میں ارشاد ہوا ہے: لقد خلقنا الإنسان فی کبد (البلد :4 ) یعنی اللہ نے انسان کو مشقت (toil) میں پیدا کیا۔
قرآ ن کی اِس آیت میں مشقت (کبَد)کا لفظ منفی مفہوم (negative sense) میں نہیں آیا ہے، بلکہ وہ مثبت مفہوم (positive sense) میں آیا ہے۔اِس اعتبار سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اِس سے مراد جدو جہد (struggle) ہے۔
یعنی موجودہ دنیا میں انسان ایسی حالت میں رہتا ہے کہ اس کو زندگی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، وہ سخت محنت کے کورس سے گزرتا ہے۔ یہ انسانی شخصیت کی مثبت تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ —سہولت نہیں، بلکہ کوشش ، آسانی نہیں ، بلکہ مشکل وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that make men.
انسان ابتدائی طور پر خام لوہا(ore) کے مانند ہے۔ لوہے سے مشین بنتی ہے، لیکن اس کے لیے لمبا عمل (process) درکار ہوتاہے۔ خام لوہے کو آگ کی بھٹی سے گزرنا ہوتا ہے، اس کے بعد وہ اسٹیل بنتا ہے، پھر مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد وہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان امکانی طورپر اعلیٰ صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے سخت مراحل سے گزرے۔ اِنھیں مراحل کے درمیان اس کا ذہنی ارتقاء ہوتا ہے، اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو پختگی (maturity) کہا جاتاہے۔ زندگی کے سخت مراحل سے گزرے بغیر کوئی شخص اعلیٰ انسان نہیں بنتا۔اِس دنیا میں ہر مشکل ایک چیلنج (challenge)ہے۔ یہ دراصل چیلنج ہی ہے جس کا سامنا کرنے کے بعد انسان اعلیٰ ترقی کے درجے تک پہنچتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ) نے قرآن کی آیت: فاذکرونی، أذکرکم (البقرۃ:
’’ابوبکر جصّاص رازی (وفات: 370 ھ) نے ذکر سے مراد لیا ہے — آیاتِ الٰہی اور ان کی عظمت وقدرت کا تفکّر، اور اِسی کو سارے اذکار سے افضل اور ان کی اصل قرار دیا ہے (وذکرہ بالفکر فی دلائلہ وآیاتہ وقدرتہ وعظمتہ۔ وہو أفضل سائر وجوہ الذکر مبنیۃ علیہ وتابعۃ لہ‘‘ (أحکام القرآن1/112 )۔
اصل یہ ہے کہ اللہ کی ذات کا تصور ہم موجودہ دنیا میں صرف اللہ کی صفات کے اُن مظاہر کے ذریعے کرتے ہیں جو ہمارے وجود میں اور کائنات میں ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ اِن مظاہرِ فطرت میں تدبر کرنے سے ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ذکر، اللہ کے اسمِ ذات کی لفظی تکرار کا نام نہیںہے۔ ذکر یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی مظاہر میں غور کیا جائے، تخلیقی کمالات کے ذریعے اللہ کی عظمت کو دریافت کیا جائے۔ یہی ذکر ہے اور اِسی ذکر کے ذریعے کسی انسان کو اللہ کی اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم خدا کی ذات کا مشاہدہ نہیں کرسکتے، البتہ ہم خدا کی تخلیقات میں ضرور اس کی جھلک کو دیکھ سکتے ہیں۔ تخلیقاتِ الٰہی میں اِسی غور وفکر کا نام ذکر ہے، اور اِسی کے ذریعے کسی انسان کو وہ اعلیٰ درجۂ ایمان نصیب ہوتا ہے جس کو معرفت کہا گیا ہے۔
ذاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرنے کی کوشش انسان کو یا تو وجد (ecstacy)تک پہنچاتی ہے، یا کنفیوژن (confusion) تک، اور یہ دونوں ہی بلاشبہہ غیر مطلوب ہیں— اِس معاملے میںاصل مطلوب چیز وہی معرفتِ ربانی (divine realization) ہے جو تدبر اور تفکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اِس منزل تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ بإذن اللہ، واللہ مع الصابرین (
یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کی طاقت فرد سے ہوتی ہے، جماعت الگ سے کوئی چیز نہیں۔ جماعت افراد کا مجموعہ ہے۔ جیسے افراد ہوں گے، ویسی جماعت ہوگی۔ اِس کی ایک مثال اینٹ سے بنی ہوئی بلڈنگ ہے۔ بلڈنگ کی مضبوطی خود بلڈنگ کے اندر نہیں ہوتی، بلکہ بلڈنگ کی مضبوطی کا تعلق اینٹ سے ہے۔ اینٹیں اگر مضبوط ہوں تو بلڈنگ بھی مضبوط ہو گی۔ اور اینٹیں اگر مضبوط نہ ہوں تو بلڈنگ بھی مضبوط نہیں ہوسکتی۔ یہی معاملہ گروہ یا جماعت کا ہے۔ جماعت کی طاقت عددی معنوں میں اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے میں نہیں ہے، بلکہ وہ اس کے افراد میں ہے۔
ایک جماعت بظاہر بڑی جماعت ہے، لیکن اس کے افراد زیادہ باشعور نہیں، اس کے افراد کے اندر اتحاد کی اسپرٹ نہیں، اس کے افراد کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں، اس کے افراد کے اندر مقصد کے لیے قربانی کا جذبہ نہیں، اس کے افراد کے اندر صبر وتحمل کی صفت نہیں، وغیرہ۔ ایسا گروہ عددی اعتبار سے بظاہر بڑا ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے کمزور ہے۔
اِس کے مقابلے میں ایک اور گروہ کو لیجئے۔ تعداد کے اعتبار سے بظاہر وہ چھوٹا ہے، لیکن اس کے افراد کے اندر شعوری پختگی موجود ہے، اس کے افراد اختلاف کے باوجود متحد رہنا جانتے ہیں، وہ قربانی کے وقت قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں، وہ جذباتیت اور رد عمل کی نفسیات سے بچے ہوئے ہیں، وہ ہر حال میں اپنے سردار کی اطاعت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں— ایسا گروہ بظاہر چھوٹا ہونے کے باوجود ایک طاقت ور گروہ ہے۔ چناں چہ ایسا ایک چھوٹا گروہ مقابلے کے میدان میں زیادہ بڑے گروہ پر غالب آجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
رابندر ناتھ ٹیگور (وفات:1941 ) مشہور بنگالی مصنف ہیں۔ ان کو 1913 میں لٹریچر کا نوبل پرائز ملا۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے —ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی۔ انتِم (آخری) گیت جومیں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گا سکا۔
ٹیگور نے یہ بات اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں کہی تھی۔ لیکن یہ بات حمدِ الٰہی کے بارے میں زیادہ درست طور پر صادق آتی ہے۔ ایک مومن جب خدا کو دریافت کرتاہے تو وہ بے اختیارانہ طور پر یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ خدا کی حمد بیان کرے، وہ خدا کی عظمت کے نغمے گائے۔ لیکن اس کی عمر پوری ہوجاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی عظمت کا بیان گویا ایک ان کہی عظمت (untold glory) ہو کر رہ گیا ہے۔
قرآن میں مومن کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہیں : الحمد للہ ربّ العالمین۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہی حمد دوبارہ آخرت میں بیان کی جائے گی(وقیل الحمد للّٰہ رب العالمین) دونوں میں کیا فرق ہے۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں محدودیت (limitations) کی بنا پر ایک مومن صرف ابتدائی حمد بیان کرتا ہے۔ آخرت کی لامحدود دنیا میں مومن کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ خدا کی انتہائی حمد بیان کرسکے۔ موجودہ زندگی میں شخصیتوں کا اوردنیوی موضوعات کا چرچا ہوتا ہے۔ آخرت میں صرف ایک اللہ کی حمد اور کبریائی کا چرچا ہوگا۔ یہ ایک ابدی چرچا ہوگا جو ہمیشہ نئے نئے پہلوؤں کے اعتبار سے جاری رہے گا، وہ کبھی ختم نہ ہوسکے گا۔ اُس وقت مومن کو محسوس ہوگا کہ نئے حالات نے اس کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ اللہ کی ان کہی عظمت (untold glory) کو بیان کرے اور ابدی طورپر اس کو بیان کرتا رہے۔ موجودہ زندگی گویا کہ اِسی ربانی صلاحیت کو پیدا کرنے کی تربیت گاہ ہے۔آخرت میں خدا کی بے پایاں حمد کو بیان کرنا، بلاشبہہ ایک عظیم ترین سعادت ہے۔ یہ سعادت صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو موت سے پہلے کی زندگی میں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرچکے ہوں۔
واپس اوپر جائیں
غیر نزاعی معاملے میں اصول کا اعتبار کافی ہے، لیکن جو معاملہ دو فریق کے درمیان نزاعی ہو، اس کی نوعیت یکسر مختلف ہوجاتی ہے۔ نزاعی معاملے میں ہمیشہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کو دیکھا جائے گا، نہ کہ صرف یہ کہ اصول کا تقاضا کیاہے۔
غیر نزاعی معاملہ میں اصول کو اختیار کرنا قابل عمل ہوتا ہے، لیکن جب کوئی معاملہ نزاعی معاملہ ہو تو اُس وقت اس کے سوا او رکوئی صورت نہیں کہ عملی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اقدام کیا جائے۔ بصورت دیگر، آپ کا اقدام معاملے کو صرف بگاڑے گا، وہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہوگا۔
زندگی میں پریکٹکل وزڈم کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پریکٹکل وزڈم کا مطلب ہے— عملی حقائق (practical realities) کا اعتبار کرتے ہوئے فیصلہ کرنا۔ مثلاً ایک نزاعی معاملہ ہے، اس میں بظاہر قانون آپ کے ساتھ ہے، حقوقِ انسانی کے تصورات بھی آپ کی موافقت میں ہیں، اپنے ذاتی خیال کے مطابق، آپ اپنے کو برحق سمجھتے ہیں، لیکن اِن سب کے باوجود عملی صورتِ حال آپ کی موافقت میں نہیں ہے۔ عملی صورتِ حال بتاتی ہے کہ اگر آپ نے اقدام کیا تو نتیجہ امید کے خلاف نکلے گا۔ اس کے بعدنفرت اور تشدد میںاضافہ ہوگا۔ کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا اور مزید مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ ایسی حالت میں اصولی تقاضے کو نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ عملی تقاضے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔
بیش تر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ صرف اصولی پہلو کو دیکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اقدام کردیتے ہیں۔ اس کے بعد جب الٹا نتیجہ برآمد ہوتاہے تو وہ ایک نئی بے فائدہ مہم شروع کردیتے ہیں، یعنی شکایت کی مہم، احتجاج کی مہم، جلسوں اور جلوس کی مہم، مطالبات کی مہم، وغیرہ۔
اِس قسم کی منفی مہم کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ مسئلے کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتاہے۔ پہلے اگر معاملہ محدود درجے میں تھا تو اب معاملہ لامحدود درجہ تک پہنچ کرنا قابلِ حل بن جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر حمید اللہ حمید ایم اے کشمیری، القرآن مشن (نئی دہلی) سے وابستہ ہیں۔ انھوںنے ٹیلی فون پر بتایا کہ
اگر آدمی کے اندر دعوتی ذہن موجود ہو تو وہ اِس قسم کے ہر موقع کو دعوت کے لیے استعمال کرے گا، وہ ایسے موقع پر اللہ کے بندوں کو اللہ کے کلام کا تحفہ پیش کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر آدمی کا ذہن دعوتی طرز فکر سے خالی ہو تو اس کو ایسا ہر دعوتی موقع محض ’’سیاست‘‘ کا ایک اسٹیج معلوم ہوگا۔ ایسے موقع پر دوسروں کو دینے کے لیے اس کے پاس صرف نفرت کا تحفہ ہوگا، نہ کہ محبت کا تحفہ۔(مولانا محمد ذکوان ندوی)
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کے علاوہ ایک اور غیر مرئی مخلوق (invisible being) ہے جس کو جن یا شیطان کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، شیطان ہمارا دشمن ہے اور تزئین کے ذریعے وہ ہم کو بہکاتا رہتا ہے۔ یہ بات قرآن میں بار بار مختلف اندازسے بتائی گئی ہے۔
موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں جس کو شیطان کہاگیا ہے، وہ انسان کے علاوہ کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا۔ یہ دراصل استعارہ (metaphor) کی زبان ہے۔اس سے مراد خود انسان کے اپنے دماغ کا منفی حصہ (negative part) ہے۔ یہ انسان کے خود اپنے دماغ کی ایک فیکلٹی ہے جس کو شیطان کہاگیا ہے۔ انسان خود اپنے دماغ کے منفی حصے سے متاثر ہوتا ہے۔ انسان کے باہر کوئی اور نہیں جو اس کو بہکاکر غلط راستے پر ڈال دے۔
اِس دعوے کے ثبوت کے لیے دو میں سے کوئی ایک بنیاد ہونی چاہیے —سائنس کی تحقیق، یا قرآن کا بیان۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، اِس معاملے میں سائنس کوئی بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع سائنس کے مطالعے کا موضوع ہی نہیں۔ اِس معاملے میں کوئی شخص اگر سائنس کا نام لے تو یہ صرف اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ سائنس سے بالکل بے خبر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں کوئی فیصلہ صرف قرآن کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے، اور قرآن کا بیان مذکورہ نظریے کے تائید نہیں کرتا۔ قرآن کی سورہ الحجر میںواضح طورپر بتایا گیا ہے کہ جنات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے پہلے نارِ سموم (
یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن جس شیطان کا ذکر کر رہا ہے، اس کی تخلیق انسان سے پہلے ہوچکی تھی۔ مذکورہ تصور کے مطابق، انسان کو بہکانے والا عنصر انسان کے ساتھ ساتھ پیدا ہوا، جب کہ قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، انسان کو بہکانے والا عنصر انسان کی پیدائش سے پہلے وجود میں آچکا تھا۔
واپس اوپر جائیں
لوگ مظلوم کی طاقت کو جانتے ہیں، لیکن لوگ عاجز کی طاقت کو نہیں جانتے، حالاں کہ عاجز کی طاقت مظلوم کی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے کہ— مظلوم کی آہ سے بچو، کیوں کہ جب وہ دعا کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے اجابت خود اُس کے استقبال کے لیے دوڑ پڑتی ہے:
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن اجابت از درِ حق بہر استقبال می آید
مگر مظلومیت سے بھی زیادہ بڑی حقیقت عجز ہے۔ اگر کوئی شخص واقعی طورپر اپنے عجز کو دریافت کرے، وہ واقعی طورپر اس کا ادراک کرلے کہ خدائے قادرِ مطلق کے مقابلے میں وہ سر تا سر ایک عاجز انسان ہے، تو اس کی زبان سے دعا کا ایساکلمہ نکلے گا جس کا تحمل زمین و آسمان بھی نہیں کرسکیں گے۔ وہ کلمہ یہ ہے — خدایا، تو نے مجھے عاجز انسان کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اب تو ایسا نہیں کرسکتا کہ تو میرے بارے میںغیر جانب دار (indifferent) ہوجائے۔
عجز کیا ہے۔ عجز حقیقتِ انسانی کی دریافت ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی خالق کی نسبت سے، اپنی حیثیتِ واقعی کو دریافت کرلے۔ عجز سادہ طور پر مسکینی کا نام نہیں، عجز اکتشافِ حقیقت کا نام ہے۔عجز اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ عجز خدا کے سامنے سب سے بڑی سفارش ہے۔ عجز کا مطلب اپنے آپ کو عبدیت کے مقام پر کھڑا کرنا ہے، اور بلاشبہہ عبدیت سے بڑا کو ئی مقام نہیں۔
قرآن کی سورہ العلق میں ارشاد ہوا ہے: واسجد واقترب (
یہ ایک حقیقت ہے کہ کبر (arrogance) آدمی کو خداسے دور کر دیتا ہے، اور اس کے مقابلے میں عجز (helplessness) آدمی کو خدا سے قریب کردینے والا ہے— کبر (arrogance)اللہ سے دوری کا ذریعہ ہے، اور عجز (helplessness)اللہ سے قربت کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں
اگر آپ کے بینک اکاؤنٹ میں صرف دس ہزار روپئے موجود ہیں اور آپ پچاس ہزار روپئے کا چیک لکھ کر کسی کو دے دیں تو ایسا چیک ڈڈ چیک (dud cheque) کہاجائے گا، وہ بینک سے کیش نہ ہوسکے گا۔ کیوںکہ اِس چیک کے برابر رقم آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود نہیں۔
یہی معاملہ استدلال کا ہے۔ جب آپ اپنے کسی دعوے پر استدلال قائم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ اُس کے حق میں ایک تسلیم شدہ بنائِ استدلال پیشگی طور پر موجود ہو۔
جس استدلال کی پشت پر اِس قسم کی مسلّمہ استدلالی بنیاد موجود نہ ہو، وہ استدلال ایک غیرمعقول استدلال (invalid argument) قرار پائے گا، وہ علمی اعتبار سے قابلِ قبول نہ ہوگا۔ اِسی حقیقت کو علماء نے ’’بنائِ فاسد علی الفاسد‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
اِس معاملے کی ایک مثال لیجئے۔ کچھ لوگ جو فلسفیانہ طرزِ فکر سے متاثر تھے، انھوںنے یہ کہہ دیا کہ جنت اور جہنم اَحوال ہیں، مقامات نہیں:
Heaven and hell are states, not localities.
اِس استدلال کی پشت پر ضروری بنائِ استدلال موجود نہیں۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، وہ اِس معاملے میں کوئی بنیاد (scientific base) فراہم نہیں کرتی۔
اِس کے بعد دوسری بنائِ استدلال (rational base)وہ ہے جو وحیِ خداوندی (divine revelation)میں پائی جائے۔ قرآن وحی خداوندی کا مستند (authentic)مجموعہ ہے، مگر قرآن کے کسی بیان سے اِس کی تائید نہیں ہوتی۔
اِس کے برعکس، قرآن بتاتا ہے کہ جنت ویسی ہی ایک دنیا ہوگی، جیسی کہ ہماری موجودہ دنیا (
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب سوشل ورک میں مشغول ہیں۔انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اُن لوگوں کی مدد کی جائے جو ٹوٹے ہوئے دل (broken hearts) کے ساتھ دنیا میں جی رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمت کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ پھر انھوں نے یہ شعر پڑھا:
دل بدست آورد کہ حجِ اکبر است از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
میں نے کہا کہ ایک حدیثِ قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم (حلیۃ الأولیاء، جلد 2، صفحہ
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیش کش کی کہ ان کو فراخی کی زندگی حاصل ہوجائے۔ آپ نے فرمایا کہ اے میرے رب نہیں، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ کبھی مجھ کو بھوک کا تجربہ ہو، تاکہ میں تیرے سامنے گڑگڑاؤں۔ اور کبھی مجھ کو شکم سیری کا تجربہ ہو، تاکہ میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں (لا یاربّ، ولکن أشبع یوماً وأجوع یوماً۔ فإذا جعتُ تضرّعتُ إلیک وذکرتک، وإذا شبعتُ حمدتک وشکرتک)
صحیح طریقہ یہ ہے کہ دنیا کے معاملے میں لوگوں کو محنت کے راستے پر لایا جائے، اور آخرت کے معاملے میں ان کو جنت اور جہنم کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے— یہی طریقہ اللہ کے تخلیقی پلان (creation plan)کے مطابق ہے۔
واپس اوپر جائیں
جنت، انسان کی آخری منزل ہے، اور موجودہ دنیا میں انسان کا واحد نشانہ (goal) یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اُس شخصیت کی تعمیر کرے جو جنت میں بسائے جانے کے قابل ہو۔ ایمان، عبادت، اخلاقیات(moral values) ، دعوت الی اللہ، سب کا اصل مقصد یہی ہے۔ یہی واحد معیار ہے جس پر تمام دینی سرگرمیوں کو جانچنا چاہئے۔
جنت کسی شخص کو اِس لیے نہیں ملے گی کہ اُس نے مفروضہ اکابر کا دامن تھام رکھا تھا، یا اُس کو خدا کے برگزیدہ بندوں کی سفارش حاصل ہوگئی، یا وہ کسی ایسے گروہ میں شامل تھا جس کے بارے میںاس نے فرض کررکھا تھا کہ یہ اللہ کا خاص گروہ ہے، وغیرہ۔ اِس طرح کے پراسرار عقائد کا کوئی بھی تعلق جنت کے حصول سے نہیں ہے۔ جو لوگ اِس طرح کی بات سوچتے ہیں، وہ جنت کی تصغیر کرتے ہیں۔ اُن کو نہ جنت کا علم ہے اور نہ خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) کا علم۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بے حد نفیس اورکامل دنیا بنائی ہے۔ اِسی دنیا کا نام جنت ہے۔ موت سے پہلے کی زندگی اِس لیے ہے کہ امتحان سے گزار کر اُن لوگوں کو منتخب کیا جائے جو جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ قیامت سے پہلے کی اِس دنیا میں یہی انتخابی عمل جاری ہے۔ جب اللہ کے علم کے مطابق، یہ انتخابی عمل پوراہوجائے گا تو اس کے فوراً بعد قیامت آجائے گی۔
جنتی شخصیت کی تعمیر کیا ہے، اِس سے مراد وہ انسان ہے جو اپنے کامل عجز اور اللہ کی کامل قدرت کو دریافت کرے، جو اللہ کی معرفت میں جینے والا بن جائے، جو اپنے اندر اِس ذہن کی تعمیر کرے کہ ساری کائنات اُس کے لیے خدائے برتر کا تعارف بن جائے، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے محبت کے جذبات سب سے زیادہ خدا سے وابستہ ہوجائیں اور اس کے خوف کے جذبات کا مرکز صرف ایک اللہ بن جائے، جس کا حال یہ ہو کہ وہ سب سے زیادہ جنت کا طالب ہو اور سب سے زیادہ جہنم سے ڈرنے والا ہو۔یہی وہ انسان ہے جو جنت کی ابدی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں ہوا۔ اُس وقت ساری دنیا میں بادشاہت کا رواج تھا۔اُس زمانے کی انسایت حاکم اور رعایا، راجا اور پرجا میں بٹی ہوئی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نہ کوئی حاکم ہے اور نہ کوئی محکوم، سارے انسان برابر ہیں۔ انسانوں کے درمیان اِس قسم کی تقسیم غیرفطری تقسیم ہے۔ اِسی طرح سفید فام اور سیاہ فام دونوں یکساں طورپر انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسانی زندگی میں اس قسم کا انقلاب اچانک نہیں آتا، وہ ایک تاریخی عمل (historical process) کے روپ میں آتا ہے۔ اسلام نے پہلی بار اِس عمل کو تاریخ میں جاری کیا، پھر دھیرے دھیرے وہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں دو تاریخی مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے
دوسرا واقعہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب کا ہے۔ حضرت عمرکی خلافت
اِس واقعے کے بعد وہ قبطی مصر سے روانہ ہو کر مدینہ پہنچا اور خلیفہ عمر بن الخطاب سے اِس معاملے کی شکایت کی۔ خلیفہ دوم حضرت عمر نے اپنے ایک خاص آدمی کو مصر بھیج کر گورنر اور ان کے بیٹے دونوں کو مدینہ بلوایا۔ جب وہ دونوں مدینہ آگئے تو معاملے کی تحقیق کے بعد حضرت عمر نے مذکورہ قبطی کے ہاتھ میں ایک کوڑا دیا اور کہا کہ جس نے تم کو مارا ہے، تم بھی اس کو مارو۔ چناںچہ اس نے محمد بن عمرو کو مارنا شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے انھیں زخمی کردیا—اِن واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح اسلام نے انسانی برابری کے تصور کو عملاً تاریخ میں رائج کیا۔
قرآن کی سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ —اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ (
یہ ایک تاریخی اعلان تھا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان امتیاز کی تمام صورتیں مصنوعی اور غیر فطری ہیں۔ جب تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں تو ایک اور دوسرے کے درمیان امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔ اِسی بات کو ایک حدیث میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الخلق عیال اللہ (البیہقی، رقم الحدیث: 6947 ) یعنی تمام انسان ایک خدا کی فیملی ہیں۔
اس حقیقت کی تصدیق موجودہ زمانے میں سائنس کے ذریعے ہو چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں خالص سائنسی رسرچ کے ذریعے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام انسان ایک ہی جدِّ اعلیٰ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا کہ تمام انسان ایک ہی خونی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ تمام عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے بلڈ بردرس (blood brothers) اور بلڈ سسٹرس (blood sisters) کی حیثیت رکھتے ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب ’’تعمیر انسانیت‘‘ ، صفحہ
اسلامی شریعت میں حقوق العباد یاایک انسان کے اوپر دوسرے انسان کے فرائض کے سلسلے میں تفصیلی احکام دئے گئے ہیں۔ اسلام کے مطابق، جس طرح انسان کے اوپر اس کے خالق کا حق ہے، اُسی طرح ایک انسان کے اوپر دوسرے انسان کا بھی حق ہے۔ جو انسان خدا کی عبادت کرے، لیکن وہ انسانوں کے حقوق ادا نہ کرے، اس کی عبادت قبول نہ ہوگی۔ اسلام میں سچے مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی نسبت سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے والا ہو۔ اِس معاملے میں، اسلام کے احکام اتنے زیادہ سخت ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ — خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔
اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچا مسلم وہ ہے جس کی زبان سے اور جس کے ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مسلمان اپنے سماج کا ایک پر امن ممبر ہوتا ہے۔ وہ اپنے سماج میںایک بے مسئلہ انسان (no-problem person) کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنے سماج میں ایک دینے والے (giver)انسان کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے، نہ کہ صرف لینے والے(taker) انسان کی حیثیت سے۔
اسلام میں جان کا احترام اتنا زیادہ ہے کہ کسی انسان کے ناحق قتل کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے کہ —جو شخص کسی انسان کو قتل کرے، بغیر اِس کے اس نے کسی انسان کو قتل کیا ہو، یا اس نے زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا، اور جس شخص نے ایک شخص کو بچالیا توگویا اُس نے سارے انسانوں کو بچا لیا (
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام ایک ایسا سماج بنانا چاہتا ہے جس میں ہر انسان دوسرے انسان کے لیے آخری حد تک بے ضرر (harmless) بنا ہوا ہو، جس میں ہر انسان دوسرے انسان کے خون کو اتنا ہی محترم سمجھے، جتنا کہ وہ خود اپنے خون کو محترم سمجھتا ہے۔ اسلام ایسا سماج بنانا چاہتا ہے جس میں ہر انسان دوسرے انسان کو اُسی طرح زندہ رہنے کا حق دے جس طرح وہ خود اپنے لیے زندہ رہنے کا حق سمجھتا ہے۔ اسلام کے مطابق، سچا انسانی سماج وہ ہے جس میں ہر عورت اور مرد کو یکساں طور پر جینے کا حق حاصل ہو۔
اسلام کے مطابق، انسانی سماج کی تعمیر کے دو بنیادی اصول ہیں— توحید، اور عدل۔ یہ دونوں اصول انسانی سماج کے لیے دو بنیادی رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس سماج میں یہ دو بنیادی اصول پائے جائیں، وہ سماج اعلیٰ انسانی سماج ہوگا، اور جس سماج میں یہ دو بنیادی اصول نہ پائے جائیں، وہ سماج ایک قسم کا حیوانی سماج ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی انسانی سماج۔
توحید (oneness of God) کا مطلب ہے— خدا کو ایک ماننا۔ یہ ماننا کہ ایک ہی خدا ہے، اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ یہی خدا تمام موجودات کا خالق ہے، یہی خدا تمام کائنات کا انتظام کررہا ہے۔ خدا کے سوا جو کچھ ہے، وہ سب اِسی ایک خدا کی مخلوق ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو فرد اور سماج دونوں کو زندگی گزارنے کی درست نظریاتی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خدا کا تصورانسانی سماج کی صحیح شیرازہ بندی کرتا ہے، خدا کا تصور نہ ہو تو انسانی سماج جنگل کا سماج بن جائے۔
اس سلسلے میں دوسری چیز وہ ہے جس کو عدل (justice) کہا جاتا ہے۔ قرآن کی سورہ الرحمن میں ارشاد ہوا ہے کہ — انصاف کے ساتھ سیدھی ترازو تولو اور تول میں نہ گھٹاؤ (
ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دوسرے انسان کو اس کا پورا حق ادا کرے۔ اِس منصفانہ روش کا تعلق جس طرح مال اور جائداد جیسی چیزوں سے ہے، اسی طرح اس کا تعلق اخلاقی معاملات سے بھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے وہی چاہے جو وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے، وہ دوسروں کے بارے میں کوئی بیان دے تو اس کا بیان ٹھیک ٹھیک اصل واقعہ سے مطابقت رکھتا ہو، وہ دوسروں کے بارے میں جب کوئی رائے قائم کرے تو اس میں وہ نہ کوئی کمی کرے اور نہ کوئی زیادتی، وہ دوسروں کے بارے میں جب کوئی رپورٹ دے تو اس کی رپورٹ یک طرفہ نہ ہو، بلکہ اس میں دونوں فریق کی پوزیشن کو ٹھیک ویسا ہی بیان کیا گیا ہو، جیسا کہ وہ حقیقۃً ہے — عدل وانصاف پر مبنی یہی وہ سماج ہے جس کو اسلامی سماج کہاجاتاہے۔
اس سلسلے میں ایک سوال یہ ہے کہ انسانی سماج کی تشکیل پر امن بنیادوں پر کس طرح کی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق (differences) پائے جاتے ہیں— مذہب کا فرق، کلچر کا فرق، رواج کا فرق، انٹرسٹ کا فرق، وغیرہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اِس فرق کو مٹایانہیں جاسکتا۔ یہ تمام فرق اتفاق کی بنیاد پر نہیں ہیں، بلکہ وہ فطرت کی بنیاد پر ہیں۔ اِس لیے ان کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اِس کے حل کے لیے اسلام میں ایک سادہ طریقہ بتایا گیاہے، اور وہ ہے: لکم دینکم، ولی دین(
Follow one and respect all
یہی واحد فارمولا ہے جس سے کسی سماج میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے، ایک فرقے کے سماج میں بھی اور مختلف فرقوں کے سماج میں بھی۔ گویا اختلاف کے باوجود متحد ہونا یہی مذکورہ مسئلہ کا واحد حل ہے اور اِسی میں انسانی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ لیکن امتحان (test) کی مصلحت کے تحت اس کے اوپر بظاہر قدرت کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اِس پردے کو پھاڑے اور بظاہر عاجز نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے عجز کو دریافت کرے۔ یہ دریافت بلاشبہہ سب سے بڑی دریافت ہے۔ اِسی دریافت میں انسان کی تمام سعادتوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
عجز (helplessness)کی دریافت کسی انسان کے لیے اس کی عظیم ترین دریافت (greatest discovery)ہے۔ یہ دریافت اس کو ذکر و دعا کے اعلیٰ مواقع عطا کرتی ہے۔ یہ دریافت اس کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ یہ کہہ سکے کہ — خدایا، تو نے انسان کو عجز کے ساتھ پیدا کیا۔ ساری قدرت تیری طرف، اور سارا عجز انسان کی طرف۔ ایسی حالت میں، تو انسان کے معاملے میں غیرجانب دار (indifferent) نہیں ہوسکتا۔ یہ تیری شانِ خداوندی کے خلاف ہے کہ تیرے اور انسان کے درمیان، عجز اور غیر جانب داری (indifference) کا تعلق ہو۔ ضروری ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان محر وم (deprived)اور معطی(giver) کا تعلق ہو۔ یہی تعلق خدائے رحمان اور رحیم کی شان کے مطابق ہے۔
یہی وہ دعا ہے جس کو حدیث میں اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا بتایا گیا ہے۔جب کوئی بندہ حقیقی معنوں میں یہ کہے کہ — خدایا، تو نے مجھ کو ایک عاجز انسان کی حیثیت سے پیدا کیا تو اب تو میرے معاملے میں غیر جانب دار (indifferent) نہیں ہوسکتا۔
جب کوئی بندہ اِس طرح خدا کو پکارے تو خدا کی رحمت روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرکے اس کی طرف آجاتی ہے۔ شاعر نے جو بات مظلوم کی نسبت سے کہی تھی، وہ عاجز کی نسبت سے زیادہ درست ہے، یعنی اجابت (قبولیت) کا خود دعا کا استقبال کرنے کے لیے آجانا:
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے بادشاہت کا سیاسی نظام قائم تھا۔ بادشاہت کے نظام میں ایک شخص کی حیثیت حاکم کی ہوتی ہے اور بقیہ تمام لوگوں کی حیثیت محکوم کی۔ اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں سلطنت کا جو نظام قائم ہوا، وہ بھی عملاً اِسی ماڈل کے مطابق تھا، یعنی شخصی اقتدار کا ماڈل۔ بعد کے مسلمانوں کا ذہن اِسی لمبی تاریخ کے نتیجے میں بنا۔
اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر میں فرانسیسی انقلاب (French Revolution) آیا۔ اِس کے بعد دنیا میں جمہوری نظام قائم ہوا۔ بادشاہت اور جمہوریت کے فرق کو ایک لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ —بادشاہت کا نظام شخصی اجارہ داری کا نظام ہے، اور جمہوریت کا نظام اجتماعی حصہ داری کا نظام۔ بادشاہت کے نظام میں دئے بغیر مل سکتا تھا، لیکن جمہوریت کا نظام اِس اصول پر قائم ہے کہ اگر تم اپنا حصہ لینا چاہتے ہو تو دوسروں کو بھی اُن کا حصہ ادا کرو۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمانے کے اِس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ وہ اپنے قدیم ذہن(mindset) کے ساتھ جدید دور میں رہنا چاہتے ہیں اور ایسا ہونا ہر گز ممکن نہیں۔ اِس کی ایک مثال وہ ظاہرہ ہے جس کو مسلم جذبات کا مجروح ہونا بتایا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ اظہارِ خیال کی آزادی کا زمانہ ہے۔ مسلمان خود تو اِس آزادی کو بھر پور طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن دوسروں کو وہ ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ جن باتوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، وہ دراصل آزادی کے حق کا استعمال ہوتا ہے۔ مسلمان اگر خود اپنے لیے آزادی کے حق کا استعمال چاہتے ہیں تو اُنھیں دوسروں کو بھی آزادی کے استعمال کا حق دینا ہوگا۔ اِس معاملے میں وہ خود اپنی طرف سے کوئی شرط عائد نہیں کرسکتے۔ اِس معاملے میں وہی شرط قابل قبول ہوگی جو عالمی اصول (international norm) کے مطابق ہو۔ مسلمان اگر اِس اصول کو نہ مانیں تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک بے اثر احتجاجی گروہ (protestant group) بن کر رہ جائیں گے، جیسا کہ عملاً وہ آج بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
یہ ایک عام رواج ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اس کے بارے میں رسائل و جرائد میں مضامین شائع کیے جاتے ہیں، اس کی یاد میں تعریفی مضامین چھپتے ہیں، اس کی یاد میں شان دارجلسے کئے جاتے ہیں۔ اِن سب میں یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کے کارنامے اور اس کی عظمتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ سخت مغالطہ انگیزی (misleading) کا ذریعے ہے۔
کسی کی موت پر جواصل واقعہ پیش آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مرنے والا اپنی عظمت کے تمام نشانات کو اچانک چھوڑ دیتا ہے۔ موت اس کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ بالکل تنہا اور بے سروسامان ہوتا ہے۔ حال (present) کے لحاظ سے مرنے والے کا اصل پہلو یہی ہوتاہے۔ لیکن تمام لکھنے اور بولنے والے، مرنے والے کے حال کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، وہ صرف اس کے ماضی (past) کو لے کر اس کی دنیوی بڑائیاں بیان کرتے ہیں، حالاں کہ مرنے والا عملاً اپنے اِس ماضی سے مکمل طورپر منقطع ہوچکا ہوتا ہے۔
موت کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے لیے انقطاعِ کلّی (total detachment) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ موت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے پہلے موقع (first chance) کو کھودیا، اور جہاں تک دوسرے موقع (second chance)کا سوال ہے، وہ کبھی کسی کو ملنے والا نہیں۔ ہر مرنے والا دراصل زندگی کے اِس سنگین پہلو کو یاددلاتا ہے۔ لیکن یہی وہ پہلو ہے جس کا تذکرہ نہ تحریروں میں کیا جاتا ہے اور نہ تقریروں میں۔
مرنے والے کے فضائل وکمال کو پڑھ کر یا سن کر بظاہر یہ تاثر قائم ہوتاہے کہ وہ آج بھی اِنھیں فضائل کا حامل ہے، حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ مقررین اور محررین جس انسان کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ایک تاریخ ساز انسان تھا، عین ممکن ہے کہ اس وقت خود مرنے والے کا حال یہ ہو کہ وہ ایک بے تاریخ انسان بن کر حسرت وبے بسی کے عالم میں پڑا ہو۔
واپس اوپر جائیں
حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اگر نفسیات کی اصطلاح میں بیان کریں، تو اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کی نفسیاتی حقیقت ایک ہے، اور وہ ہے دوسرے کو اس کا واقعی درجہ دینا۔ خدا کی نسبت سے اِس عمل کا نام شکر (gratefulness) ہے، اور انسان کی نسبت سے اِس عمل کا نام اعتراف (acknowledgement) ہے۔ جس انسان کے اندر یہ دونوں خصوصیات (qualities) پائی جائیں، وہی انسان مکمل انسان ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ دونوں خصوصیات کم پائی جائیں، وہ ایک نامکمل انسان ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ خصوصیات سرے سے موجود نہ ہوں، وہ انسان نہیں ہے، بلکہ وہ غیر انسان ہے، خواہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے وہ کتنا ہی اچھا انسان دکھائی دیتا ہو۔
خدا اور انسان کا تعلق یہ ہے کہ خدا خالق ہے اور انسان مخلوق، خدا دینے والا ہے اور اانسان پانے والا، خدا مالک ہے اور انسان اس کا ماتحت۔ جو انسان اِن پہلوؤں کو شعوری طورپر دریافت کرے اور اِ س دریافت کے مطابق، اپنی زندگی گزارے، وہ حقوق اللہ کے معیار پر پورا اترا۔ یہی وہ انسان ہے جس کو خدا اپنے مزید انعامات سے نوازے گا۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی حیوان (social animal) ہے۔ ایک انسان پیدا ہوتے ہی دوسرے انسانوں سے جڑ جاتا ہے۔ اِن تعلقات کے دوران اس کے اوپر دوسروں کی نسبت سے، مختلف قسم کی ذمے داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ جو انسان اِن ذمے داریوں کو حقیقی طورپر پہچانے اور عملی طورپر ان کا اعتراف کرے، وہ حقوق العباد کے معیار پر پورا اترا۔ یہی وہ انسان ہے جس کو جنت کے معیاری معاشرے میں رہنے کا موقع دیا جائے گا۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کے معاملے میں اصل چیز شعوری ادراک اور قلبی احساس ہے۔ یہی وہ صفت (quality)ہے جو خارجی زندگی میں ظاہر ہوتی ہے تو اس کو شریعت کی زبان میں عملِ صالح کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اکثر لوگ اعتدال اور توسط کی بات کرتے ہیں، مگر معروف معنوں میں،اعتدال اور توسط اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے معاملات میں صرف دو نقطۂ نظر ہیں— معیاری نقطۂ نظر، اور عملی نقطہ نظر۔ جہاں تک ’’معتدل نقطۂ نظر‘‘ کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔
معیاری نقطۂ نظر (idealism) وہ ہے جو خالص اصول پر مبنی ہو، جو ابدی طورپر ایک ہی مستند اصول کے طور پر قائم رہے۔ مثلاً سچ بولنا ایک ابدی اصول ہے، اصول کے اعتبار سے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔ عملی نقطہ نظر (pragmatism) سے مراد وہ طریقہ ہے جس میں نتائج کو ملحوظ رکھا گیا ہو، جو خالص اصول پر مبنی نہ ہو، بلکہ وہ عملی پہلوؤں کی رعایت پر مبنی ہو۔
زندگی کے معاملات میں کوئی موقف اختیار کرنے کے لیے اعتدال اور توسط کوئی معیار (yardstick) نہیں ہے۔ یہ معیار صرف دو ہے— ایک، یہ کہ خالص اصولی طورپر جو نقطہ نظر درست ہو، اس کو اختیار کرنا۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) ہے۔ خالص ذاتی معاملات میں آئڈیل ازم پوری طرح قابلِ عمل ہوتا ہے۔ اِس لیے جہاں خالص ذاتی معاملہ ہو، وہاں آدمی کو وہی کرنا چاہیے جو آئڈیل ازم کا تقاضا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں معاملہ ففٹی ففٹی ہوجاتا ہے، یعنی پچاس فی صد آدمی کی اپنی سوچ، اور پچاس فی صد دوسرے متعلق افراد کی سوچ۔ عملی نقطۂ نظر (pragmatism)کا لفظ زندگی کے اِسی دوسرے دائرے کے بارے میں بولا جاتا ہے۔
اِس دوسرے دائرے کے بارے میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ آدمی قابلِ عمل اور ناقابلِ عمل کے درمیان فرق کرے۔ حالات کے اعتبار سے جو موقف قابلِ عمل ہو، اس کو اختیار کیاجائے اور حالات کے اعتبار سے جو موقف قابلِ عمل نہ ہو، اس کو ترک کردیا جائے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں ہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ اصلاح کے بجائے فساد پیدا ہوجائے اور غیر ضروری طورپر کوئی نیا ناقابلِ حل مسئلہ وقوع میں آجائے۔
واپس اوپر جائیں
جدید اسلوب کسی مبتدعانہ اسلوب کا نام نہیں ہے۔یہ دراصل وہی چیز ہے جس کو دیوبند کے مشہور عالمِ دین مولانا قاری محمد طیب قاسمی (وفات: 1983 ء) نے اپنے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا تھا — مسائل قدیم ہوں، دلائل جدید ہوں۔
جدید اسلوب صرف اسلوبِ کلام کی نسبت سے جدید ہوتا ہے، ورنہ جہاں تک اصل بات کا تعلق ہے، وہ اتنا ہی قدیم ہوتا ہے جتنا کہ قدیم اسلوب میں کہی ہوئی بات۔
مثال کے طورپر قرآن کی سورہ النساء میںآیا ہے کہ مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں (
اِس قسم کے کئی مردوں اور عورتوں سے میری گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ قوام کا مطلب وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں باس (boss) کہا جاتا ہے۔ باس ازم (bossism) کے اصول کو عملاً تمام لوگوں نے تسلیم کیا ہے۔ اسکول میں پرنسپل، یونی ورسٹی میں وائس چانسلر، کمپنی میں ڈائریکٹر، حکومت میں وزیر اعظم، وغیرہ سب کے سب اپنے ادارے کے باس ہوتے ہیں۔
باس (boss)کے بغیر کوئی بھی تنظیم یا ادارہ کامیابی کے ساتھ چلایا نہیں جاسکتا۔ گھر بھی ایک ادارہ ہے۔ یہاں بھی ایک باس کی ضرورت ہے۔ اِس گھریلو باس کو قرآن میں قوام کہا گیاہے۔ میری اِس بات کو سن کر ایسے تمام لوگ مطمئن ہوگئے۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید اسلوب کیا ہے۔ جدید اسلوب یہ ہے کہ اصل تعلیم میں کوئی تغیر کئے بغیر نئے الفاظ کے ذریعے اس کو جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم (understandable) بنایا جائے۔ یہ ایک زمانی ضرورت ہے۔ یہ زمانی ضر ورت ہر دور میں اور ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
خدا پر عقیدہ انسان کو اِس دنیا میں سب سے بڑا سہارا دیتا ہے۔ خدا پر عقیدہ، اعتماد (conviction) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک فارسی شاعر نے بجا طور پر کہا ہے:
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است۔
یعنی مسئلہ اگر بڑا ہے تو مسئلے کو حل کرنے والا اُس سے بھی زیادہ بڑا ہے:
If the problem is strong, the problem solver is stronger.
موجودہ دنیا مسائل کی دنیا ہے۔ یہاں ہر عورت اور مرد کو بار بار مسائل پیش آتے ہیں۔بار بار ایسی صورتِ حال پیش آتی ہے جہاں آدمی اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتا ہے۔
سفرِ حیات کے درمیان بار بار آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے کا راستہ بند ہے۔ بار بار انسان اِس منفی احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ اس کے وسائل وذرائع کی آخری حد آگئی، خود اپنے بل پر اس کے لیے اب اپنے مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں رہا، وغیرہ۔
جس آدمی کا خدا پر عقیدہ نہ ہو، وہ ایسے موقع پر مایوسی (despair) کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ دل برداشتہ ہو کر بیٹھ جاتاہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کے اندر آگے بڑھنے کی ہمت نہیں۔ ایسی حالت میں پہنچ کر آدمی ٹنشن (tension) میں جینے لگتا ہے، اور ٹنشن اپنے آپ میں ساری بیماریوں کی جڑ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹنشن سے زیادہ بڑا کوئی مسئلہ انسان کے لیے نہیں۔
لیکن جس آدمی کو خدا کے اوپر سچا یقین (conviction)ہو، وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ اُس کو ہر صورتِ حال میں یہ یقین رہتا ہے کہ اس کا خدا ضرور اس کی مدد کرے گا۔
ایسا آدمی کامل یقین (conviction)کے ساتھ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا خدا ضرور اس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچالے گا، اس کا خدا اُس وقت بھی ضرور اس کا ساتھ دے گا جب کہ دوسرے لوگ اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہوں۔
واپس اوپر جائیں
ہر انسان سب سے زیادہ فکر مند اس بات کے لیے رہتا ہے کہ اس کا بیٹا زیادہ سے زیادہ ترقی کرے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے بیٹے کو اپنی ذات کی توسیع (expansion) سمجھتا ہے۔ وہ بیٹے کی ترقی میں اپنے تشنۂ تکمیل خواب (unfulfilled dream) کو پورا ہوتا ہوا دیکھتا ہے، وہ بیٹے کی بڑائی کو خود اپنی بڑائی کے ہم معنی سمجھتا ہے۔
یہ صرف بیٹے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کا بھی ہے۔ لوگ پر جوش طورپر اپنے اکابر (bigs) کی بڑائی بیان کرتے ہیں، کیوں کہ اکابر کی بڑائی میں اُنھیں اپنی بڑائی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ اپنی قومی تاریخ کی عظمت بیان کرتے ہیں۔ اِس کا سبب بھی یہی ہے کہ اُنھیں اپنی قومی عظمت میں خود اپنی عظمت (glory) کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ لوگ اپنی فیملی کے عیب کو چھپاتے ہیں اور اس کی خوبی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، کیوں کہ انھیں اپنی فیملی کی بڑائی میں خود اپنی بڑائی دکھائی دیتی ہے، وغیرہ۔
یہ مزاج عین وہی چیز ہے جس کو شرکِ خفی کہا جاتا ہے۔ دین میں سب سے بُری چیز شرک ہے، یعنی اللہ کی ذات وصفات میں کسی اور کو شریک کرنا۔ مثلاً کسی کو اللہ کا بیٹا سمجھنا، یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے۔ اِسی طرح کسی کو ذاتی اختیار کا مالک سمجھنا، یہ اللہ کی صفات میں شرک کرنا ہے۔ یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر ناقابلِ معافی جرم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
شرکِ خفی کی ایک قسم وہ ہے جب کہ اللہ کے سوا کسی اور کو مستقل حیثیت سے بڑا سمجھ لیا جائے اور اس سے گہرا جذباتی تعلق قائم کرلیا جائے۔ اس کی بڑائی بیان کرکے آدمی خوش ہو اور اس کے خلاف تنقید سن کر وہ ناراض ہوجائے۔
کسی غیرخدا کے ساتھ اِس قسم کی جذباتی وابستگی بلا شبہہ شرکِ خفی کی حیثیت رکھتی ہے، اور شرکِ خفی اپنی شناعت کے اعتبار سے شرکِ جلی سے کم نہیں۔
واپس اوپر جائیں
جاپان کی ایک مثل ہے کہ — ہر دن کوئی نئی بات دریافت (discover) کرو، خواہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کا نیا طریقہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مثل مادّی دریافتوں کے بارے میں ہے۔
یہی اصول زیادہ بڑے پیمانے پر معرفت (realization)اور روحانیت (spirituality)کے معاملے پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ روحانیت اور معرفت کوئی جامد چیز نہیں۔ وہ درخت کی مانند ایک مسلسل ترقی پذیرچیز (growing entity)ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ انسانی دماغ کے باہر جو حقائق کی دنیا (universe of facts) ہے، وہ بھی لامحدود ہے۔
ایسی حالت میں جو آدمی اپنے ذہن کو مسلسل طورپر بیدار رکھے ا ور یکسوئی کے ساتھ غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر دن بلکہ ہر لمحہ نئی حقیقتوں کو دریافت کرتا رہے گا۔ اس کے لیے دریافتوں کا خزانہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
جس طرح مادی خوراک جسم کی غذا ہے، اُسی طرح روحانی دریافتیں معرفت کی غذا ہیں۔ مسلسل مادی خوراک جسم کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اِس طرح مسلسل روحانی دریافتیں کسی انسان کے لیے معرفت اور روحانیت کی زندگی اور ارتقا کی ضمانت ہیں۔
یہ دریافت گویا کہ ایک فکری پراسس (intellectual process) ہے۔ اِس پراسس کو مسلسل طورپر جاری رکھنے کی شرطیں صرف دو ہیں — غور وفکر کرنا، اور اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچانا۔
جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں پائی جائیں، وہ ضرور دریافتوں والا انسان بن جائے گا۔ اس کے بعد کوئی بھی چیز اس کو نئی نئی دریافتوں تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔
دریافت روح کی زندگی ہے، دریافت ذہن کے لیے ذریعۂ ارتقا ہے۔ دریافت کسی انسان کو مکمل انسان بناتی ہے۔ دریافت کے بغیر کوئی انسان ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔
واپس اوپر جائیں
سوال
1 - ایک مرتبہ دہلی میں آپ کی مجلس میں میں نے یہ سوال کیا تھا کہ احادیث کے اخذو ترک میں آپ کا کیا اصول ہے، تو آپ نے بتایا تھا کہ اس معاملے میں میرا وہی اصول ہے جو محدثین کا اصول ہے۔ موضوع روایات کے تعلق سے آپ نے یہ کہا تھا کہ اس باب میں میں علامہ ابن الجوزی کا مسلک رکھتا ہوں، یعنی سختی کے ساتھ موضوع احادیث کو ترک کرنا۔ میںنے مزید پوچھا تھا کہ کیا بطور استشہاد موضوع احادیث لی جاسکتی ہیں، تو آپ نے سختی کے ساتھ منع کیا تھا۔
یہاں پوچھنا یہ ہے کہ آپ نے جامعہ دارالسلام، عمر آباد کے حالیہ دورہ (جون 2010 ) میں ایک دن ’’معرفت الہیہ‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اس جملہ سے بات شروع کی تھی: کنتُ کنزاً مخفیاً فأحببتُ أن أعرف۔ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے، مگر اس کی اصل قرآن میں موجود ہے: وما خلقتُ الجنّ والإنس إلا لیعبدون (
کنت کنزاً لا أعرف فأحببت أن أعرف فخلقت خلقاً فعرفتہم بی فعرفونی۔ قال ابن تیمیہ: إنہ لیس من کلام النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ولا یعرف لہ سند صحیح ولا ضعیف وتبعہ الزرکشی وشیخنا (ابن حجر) قالہ السخاوی فی کتابہ المقاصد الحسنۃ 1/174 ؛ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألبانی (1/156) : حدیث لا أصل لہ؛ تذکرۃ الموضوعات للفتنی (1/11)۔اس تحقیق سے معلوم ہوتاہے کہ اس حدیث کی کوئی سند ہی نہیں ہے جس بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ۔ اس لیے اس میدان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ موضوع حدیث ہے۔ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اور بھی قابلِ قبول سند ہے۔ اگر ہے تو معلوم کرائیے۔ ہو سکتا ہے آپ کثیر المطالعہ ہیں، کہیں آپ کی نظر سے یہ حدیث مقبول سند کے ساتھ گزری ہو۔ بڑی مہربانی ہوگی اگر معلوم کرادیں، یا اگر آپ کا مدعا سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو تو اس کی بھی وضاحت کردیں۔
2 - دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ آپ نے اپنی تفسیر تذکیر القرآن، سورہ اعراف آیت نمبر
آپ اکثر یہ ذکر کرتے رہتے ہیں کہ تقریر ہویاتحریر یا کوئی بھی بحث، ہمارا انداز ’’علمی‘‘ نہیں ہوا کرتاہے۔ ’’علمی انداز‘‘ کیا چیز ہے۔ گزارش ہے کہ وہ ’’علمی انداز‘‘ کیا ہے، اس کی وضاحت فرمائیں، تاکہ ہم اس بنیاد پر اپنی تقریر وتحریر اور بحث وگفتگو کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اچھے سے اچھا بدلہ عطا فرمائے۔ (فرہاد احمد سلفی، عمر آباد،تمل ناڈو)
جواب
1 - ’’کنتُ کنزاً مخفیاً‘‘ کے مذکورہ قول کے متعلق میرا خیال ہے کہ اگرچہ بظاہر وہ حدیثِ قدسی کی زبان میں ہے، لیکن وہ سورہ الذاریات کی آیت
2 - مسخ کے بارے میں جو بات تذکیر القرآن میں ہے، وہ میری انفرادی رائے نہیں ہے، بلکہ دوسرے علماء اور مفسرین نے بھی اس کی تشریح اِس انداز میں کی ہے، جیسا کہ تذکیر القرآن میں اس کا حوالہ موجود ہے۔ آپ نے جو اشکال ظاہر کیا ہے، وہ ایک غیر ضروری اشکال ہے۔ اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ آپ نے اس کو بالکل حتمی معنوں میں لے لیا۔ اِس طرح کی چیزیں کبھی حتمی معنیٰ میں نہیں ہوتیں۔ مثال کے طورپر قرآن میں کچھ لوگوں کے بارے میں آیا ہے کہ: ’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے، پس وہ پتھر کی مانند سخت ہوگئے یا اُس سے بھی زیادہ سخت‘‘(
3 - ’’علمی اسلوب‘‘ کا لفظ دراصل ’’سائنٹفک اسلوب‘‘ کا ترجمہ ہے۔ جدید سائنس سے پہلے استدلال کا علمی معیار مقرر نہیں ہوا تھا، مگر موجودہ زمانے میں علمی استدلال کا ایک واضح معیار مقرر ہوگیا ہے۔ مثلاً آپ کا ایک بیان اگر ایک ثابت شدہ بنیاد پر قائم ہو تو وہ ایک علمی بیان ہوگا، ورنہ وہ علمی بیان نہ ہوگا۔ اِس کی ایک معروف مثال یہ ہے کہ عباسی دور میں جب حدیثیں جمع کی گئیں تو معلوم ہوا کہ طریقہ عبادت کے بارے میں صحابہ کے درمیان کچھ فرق یا کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ کس فرق کو لیا جائے اور کس فرق کو نہ لیا جائے۔ یہاں علماء فقہ نے ترجیح (preference) کا اصول وضع کیا۔ یعنی ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقے کو غیر مرجوح قرار دینا۔
یہ ایک غیر علمی طریقہ تھا، کیوں کہ اِس اصول کے حق میں ذاتی قیاس کے سوا کوئی ثابت شدہ بنیاد موجود نہ تھی۔ اِس کے برعکس، حدیث میںآیا ہے کہ : أصحابی کالنجوم، فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم(کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ
علمی اسلوب کے معاملے کو اگر آپ زیادہ تفصیل کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں تو زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ راقم الحروف کی کتابیں پڑھیں۔ ان شاء اللہ یہ مسئلہ آپ پر واضح ہو جائے گا۔
سوال
میں برسہا برس سے ماہ نامہ’’الرسالہ‘‘ خرید کر اپنی اوّلین فرصت میں اس کو پڑھتا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل الرسالہ میں شائع شدہ آپ کی ایک تحریر نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا: ’’کسی مسئلہ کو حل نہ کرنا بھی ایک حل ہے۔ ‘‘ یہ کیا معمّہ ہے۔ خاکسار اس کی وضاحت کے لیے درخواست گزار ہے ۔ (ایم عبد الحکیم، حیدرآباد)
جواب
مذکورہ قول سے مراد وہی تدبیر ہے جس کو دوسرے الفاظ میں عملی حکمت (practical wisdom) کہاجاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ سامنے آتا ہے تو فوری طورپر اس کا حل بھی موجود رہتا ہے۔ مثلاً ایک بس چھوٹ جانے کے بعد دوسری بس سے اپنا سفر جاری رکھنا۔ اِس طرح کے مواقع پر ضروری ہوتا ہے کہ مسئلے کا فوری طورپر ایک ممکن حل تلاش کیا جائے۔
لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور فوری طورپر اس کا حل موجود نہیں ہوتا۔ فوری طور پر کسی طریقے کو مسئلے کے حل کے نام پر اختیار کرنے میں شدید اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ حل نہ ہو اور مزید بہت سے مسائل پیدا ہوجائیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہوتی ہے کہ مسئلے کو علی حالہ چھوڑ دیا جائے اور ممکن دائرے میں اپنی کوشش جاری رکھی جائے۔ اِس دوسرے طریقے کا فائدہ فوری طورپر نہیں نکلتا، لیکن مستقبل کے مثبت نتائج بتاتے ہیں کہ یہی طریقہ زیادہ درست تھا۔ گویا کہ مذکورہ اصول سے مراد تدریجی عمل (gradual process) ہے ، نہ کہ سرے سے عمل نہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں
1 - نئی دہلی کے یو این آئی ٹیلی ویژن کی ٹیم نے
2 - جموں وکشمیر کے حلقہ الرسالہ سے وابستہ افراد، خاص طورپر مسٹر احمد شناس، مسٹر فاروق مضطر اور مسٹر حمید اللہ حمید (بیروہ، کشمیر) نے وہاں ’’القرآن مشن‘‘ کو لانچ کیا۔ اس سلسلے میں وہاں مختلف پروگرام کیے۔ اس پروگرام میں سہارن پور سے ڈاکٹر محمد اسلم خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شرکت کی۔ انھوں نے وہاں امن اور اسلام،اور دعوت الی اللہ کے موضوع پر کئی لیکچر دیے۔ یہاں پروگرام کی تاریخ اور مقام درج کیا جاتاہے:
ک 6 جون 2010، جموں وکشمیر یونی ورسٹی ک 8 جون 2010، اپنا گھر (بیروہ، کشمیر)
ک 9 جون 2010 ، لا ء ڈگری کالج، سری نگر ک 10 جون 2010 ، بیروہ گرلس ڈگری کالج
ک 10 جون 2010 دارالعلوم نور الحرمین (پٹن، کشمیر)
اِن پروگراموں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے حلقے نے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا۔ اسی طرح مختلف اداروں اور لائبریروں کو مطبوعات الرسالہ کا ایک ایک سیٹ دیاگیا۔
3 - سہارن پور (یوپی) کی سی پی ایس ٹیم نے مسٹر پی کے چوہان (Executive officer, Ministry of HRD) اور سوامی دیوانند کی دعوت پر 18جون 2010 اور 4جولائی 2010 کے درمیان ہری دوار کا سفر کیا۔ یہ ایک دعوتی سفر تھا۔ سوامی دیوانند جی آج کل تذکیر القرآن (ہندی) کا مطالعہ کررہے ہیں۔ انھوں نے سی پی ایس کے ممبران کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ: CPS team is the super team of God realization
اس موقع پر حاضرین اور گروکل یونی ورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کودعوتی لٹریچر اور قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیاگیا جس کو انھوں نے بے حد شوق سے قبول کیا۔
4 - چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی (میرٹھ، یوپی) میں
Islam & Peace
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے یونی ورسٹی کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس میرٹھ کے حلقے کی طرف سے یونی ورسٹی کی مرکزی لائبریری میں صدر اسلامی مرکز کی تمام مطبوعات پر مشتمل ایک بک کارنر (book corner) قائم کیا گیا۔ یونی ورسٹی کے اندر سی پی
ایس کی طرف سے ایک اسٹال لگایا گیا۔ یہاں سے یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کو دعوتی لٹریچر کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے میرٹھ کے حلقہ الرسالہ کے اجتماع میں مختلف خطابات کیے۔
5 - لیہہ (لداخ، جموں کشمیر) کے علاقے میں جولائی 2010 کے پہلے ہفتے میں الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ مقامی افراد نے بڑے پیمانے پر وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم افراد اور ٹورسٹس کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ خاص طورپر ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔
6 - امریکا میں صدر اسلامی مرکز کا ٹیلی کانفرنس کے ذریعے
7 -تحصیل نکور (سہارن پور) کے جین دھرم شالہ میں سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم کی طرف سے
8 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر اور تبّت ہاؤس (نئی دہلی) کی طرف سے
Spiritual Ecology
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور ’’اسلام اور ماحولیات‘‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں
9 - یکم اگست 2010 کو دوردرشن (نئی دہلی) کے انگریزی چینل پر ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ پروگرام دور درشن کے آڈی ٹوریم میں کیا گیا۔ اِس میں ٹاپ کے لوگوں نے شرکت کی۔ یہ ڈسکشن ’’کشمیر اور دہشت گردی کا مسئلہ‘‘ کے موضوع پر تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے شرکا کو ’’پرافٹ آف پیس‘‘ اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
10 - بمبئی میں حلقہ الرسالہ سے وابستہ افراد کی ماہانہ میٹنگ ہر مہینہ کے پہلے اتوار کو تین بجے حسب ذیل مقام پر ہوتی ہے:
Glow Pharma,
Koldongri CHS, Parsi Wada Bus Stop
Sahar Road, Andheri, East Mumbai
میٹنگ سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے حسب ذیل ساتھیوں سے رابطہ قائم کریں:
ہارون شیخ: 9821590195 ، محبوب بھائی : 9619163993
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.