زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں— ایک، با اصول زندگی اور دوسرے، بے اصول زندگی۔ بااصول زندگی یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کچھ اصولوں کے تابع ہو، وہ جو کچھ کرے، اپنے مقرر اصول کے تحت کرے، وہ کسی حال میں اپنے اصول سے انحراف نہ کرے، اس کی زندگی معلوم اصولوں کی بنیاد پر گزر رہی ہو۔ ایسا انسان قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل بن جاتا ہے۔ جو لوگ قابلِ پیشین گوئی کردار کے حامل ہوں، وہی در اصل انسان کہے جانے کے مستحق ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کی زندگی کا کوئی سوچا سمجھا اصول نہ ہو۔ وہ موقع کے لحاظ سے کبھی ایک طریقے کو اختیار کریں اور کبھی دوسرے طریقے کو۔ ان کا ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے ذاتی فائدہ۔ ان کی زندگی اپنے دنیوی فوائد کی بنیاد پر چل رہی ہو، نہ کہ کسی بالاتر اصول کی بنیاد پر۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو مذہبی زبان میں منافق کہاجاتا ہے، اور سیکولرزبان میں ان کو ابن الوقت (opportunist) کا نام دیا جاتا ہے۔
با اصول زندگی دوسرے لفظوں میں، باکردار زندگی ہے۔ اِس کے برعکس، بے اصول زندگی کا دوسرا نام بے کردار زندگی ہے۔ باکردار انسان وہ ہے جس کی زندگی معلوم اصولوں کے تحت گزر رہی ہو۔ اس کے مقابلے میں، بے کردار انسان وہ ہے جس کی زندگی معلوم یا متعین اصولوں کی پابند نہ ہو۔
باکردار انسان اصول (principles) اور اقدار (values) کے بارے میں نہایت حساس ہوتا ہے۔ وہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتاکہ وہ اپنے مقرر اصول سے ادنی انحراف کرے۔ اِس کے مقابلے میں، بے کردار آدمی وہ ہے جس کا کوئی مقرر اصول نہ ہو۔ وہ اپنے مفاد او ر اپنی خواہشات کے تحت زندگی گزارے۔
بااصول زندگی ہی اِس دنیا میںانسانی زندگی ہے۔ بے اصول زندگی ایک قسم کی حیوانی زندگی ہے۔ دونوں قسم کے انسانوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ اُن میں سے ایک ابدی جنت کا انعام پاتا ہے اور دوسرا ابدی جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کے مطابق، مقبول عمل وہ ہے جو خالص رضوان اللہ (الحدید:
اللہ کی رضا (goodwill) کے لیے کام کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب آپ کوئی کام کریں تو آپ اپنے منہ سے یہ الفاظ بول دیں کہ — میں اللہ کی رضا کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔ یہ رضاء الٰہی کی تصغیر ہے۔ رضائِ الٰہی یا رضوانِ الٰہی ایک گہری اسپرٹ کا نام ہے۔ یہ اسپرٹ لمبے عمل کے نتیجے میں کسی کے اندر پیدا ہوتی ہے اور جو شخص اِس زندہ اسپرٹ کے تحت کام کرے، اُس کا عمل رضائِ الٰہی کے مطابق کیا جانے والاعمل ہے۔ جو کام اِس اسپرٹ سے خالی ہو، وہ گویا کہ پلاسٹک کا پھول ہے۔ پلاسٹک کا پھول دیکھنے میں بظاہر پھول نظر آتا ہے، لیکن اس کو کبھی حقیقی پھول کا درجہ نہیں ملتا۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک بندۂ خداکے اندر تلاش کا جذبہ (seeking spirit) پیدا ہوتا ہے تو وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سچائی کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، وہ خدا کی کتاب کو پڑھتا ہے، حدیثِ رسول کا مطالعہ کرتا ہے، تخلیقاتِ خدا وندی میں غور وفکر کرتا ہے، وہ ہر قسم کے تعصبات سے خالی ہو کر یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ سچائی کیا ہے۔ آخر کار اس کے اوپر سچائی پوری طرح کھل جاتی ہے۔ یہی دریافت وہ مقام ہے جہاں سے رضائے الٰہی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
اِس دریافت کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ بدل جاتی ہے۔ وہ اپنے رات دن کے لمحات میں اِسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ آخر کار، اس کی زندگی کا ایک فوکس (focus) بن جاتا ہے۔ یہ فوکس اللہ کی رضا ہوتی ہے۔ وہ دل وجان سے یہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو۔ وہ اپنے رب کی رحمتوں کا مستحق بنے۔ قیامت کے دن و ہ عرشِ الٰہی کے سائے میں جگہ پائے۔ جو کام اِس اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے، وہی رضائِ الٰہی کے مطابق، کیا جانے والا کام ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمر
قرآن کے اِن الفاظ پر غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع کلمہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو اللہ رب العالمین کی وہ معرفت حاصل نہیں ہوئی جو ہمارے دل ودماغ کو بدل دے، جو ہمیں اللہ کے آگے جھکنے پر مجبور کردے، جو خود ایمانی تقاضے کے تحت ہم کو ایسا بنا دے کہ ہم اُس نظامِ عبادت میں شامل ہوجائیں جس میں اللہ کے بندے مل کر اللہ کے لیے نماز ادا کررہے تھے اور نماز کو اپنی روزانہ کی زندگی کا ایک لازمی جز بنائے ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ نماز معرفتِ خداوندی کا عملی اظہار ہے۔ جب ایک بندے کو اپنے خالق کی دریافت ہوتی ہے تو وہ بے تابانہ طورپر اُس کے آگے جھک جاتا ہے، وہ اس کے آگے سجدے میں گر جاتا ہے، جو کہ اِس بات کی علامت ہے کہ بندے نے اپنے پورے وجود کو اللہ کے حوالے کردیا ہے۔
نماز کی اعلیٰ صورت یہ ہے کہ وہ خشوع کی نماز ہو۔ اگر کسی کو بالفرض خشوع کی نماز حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کی کوشش اور دعا کرتے ہوئے اُس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پھر بھی مقرر اوقات پر رُٹین (routine) کی نماز پڑھتا رہے، تاکہ فرشتوں کے ذریعے موجودہ دنیا میں جو تصویر کشی ہورہی ہے، اس میں اگر اس کی صلاۃِ خشوع درج نہ ہو تو کم از کم اس کی رٹین کی نمازفرشتوں کے ریکارڈ میں آجائے۔ رٹین کی نماز اِس بات کا اعتراف ہے کہ— خدایا، میں خشوع کی نماز نہ پڑھ سکا۔تو اپنی رحمت سے میری رٹین کی نماز کو قبولیت کا درجہ دے دے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 8 میں ارشاد ہوا ہے: یا أیہا الذین اٰمنوا، إن تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً (الأنفال:
Believers, If you fear God, He will grant you a criterion (to judge between right and wrong)
اِس آیت میں فرقان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فرقان کا لفظ فرق کا مبالغہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے بہت زیادہ فرق کرنا۔ فرق دوچیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنے کا نام ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں، فرق کے معنیٰ دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا بتایا گیا ہے: الفرق: الفصل بین الشیئین (10/301) ۔
تقویٰ سے آدمی کے اندر فرقان پیدا ہوتا ہے۔ تقویٰ کسی قسم کی متقیانہ وضع کا نام نہیں ہے، تقویٰ دراصل اللہ کے ساتھ شدتِ خوف کا نام ہے۔ جس آدمی کے اندر شدتِ خوف پیدا ہو جائے، وہ ایک کٹ ٹو سائز انسان (man cut to size) بن جائے گا۔ ایسے آدمی کے اندر ہر قسم کے متعصبانہ فکر (biased thinking) کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ کامل طورپر خالی الذہن ہو کر چیزوں کو ویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ واقعۃً وہ ہیں۔ جس آدمی کے اندر اس قسم کا خالص فکر پیدا ہوجائے، اس کو لازمی طورپر فرقان حاصل ہوجائے گا، وہ چیزوں کو بے آمیز شکل میں دیکھے گا، وہ جذبات سے ہٹ کر رائے قا ئم کرے گا۔ تقویٰ آدمی کی کنڈیشننگ کو توڑ دیتا ہے۔ آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چیزوں کو ربانی شاکلہ سے دیکھ سکے، وہ کامل طورپر حقیقت پسندانہ انداز میں رائے قائم کرسکے، وہ رد عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہوجائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے اندر فرقان کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلا شبہہ یہ سب سے بڑی نعمت ہے کہ کسی آدمی کوفرقان کی صلاحیت مل جائے— تقویٰ سے کسی آدمی کو فرقان ملتاہے، اور فرقان سے آدمی کو وہ نادر صفت حاصل ہوتی ہے جس کو اعلیٰ بصیرت کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اکثر واعظین، قرآن کی تلاوت کے ثواب کو جوش وخروش کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مثلاً وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ: مَن قرأ حرفاً من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر أمثالہا (الترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن) یعنی جس نے خدا کی کتاب کا ایک حرف پڑھا تو اس کے لیے اس پر ایک نیکی ہے، اور ہر نیکی دس گناثواب کے برابر ہے۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کے ایک حرف کو صرف زبان سے ادا کردینے کی بناپر کسی آدمی کو ایسا ثواب ملے گا۔ بلاغت کے معلوم اصول کے مطابق، اِس میں ایک کیفیاتی (qualitative) واقعے کو کمیاتی (quantitative) اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ فلاں شخص اخلاص کا پہاڑ ہے۔ یہ حقیقت اس وقت واضح ہوجاتی ہے، جب کہ اِس حدیث کو دوسری روایت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے۔قرآن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ : القرآن یفسر بعضہ بعضا (قرآن کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے)۔ یہی اصول حدیث کے بارے میں بھی درست ہے، یعنی الحدیث یفسر بعضہ بعضا (ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے)۔ حدیث کی روایت کو سمجھنے کے لیے اِس اصول کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔
حدیث میںایک طرف مذکورہ روایت آئی ہے، اور دوسری طرف حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا خیرَ فی قرأۃ لا تدبرَ فیہا (الدارمی، مقدمۃ) یعنی قرآن کی ایسی قرأت میں کوئی خیر نہیں جس میں تدبر نہ ہو۔قرآن کو جب بھی پڑھا جائے گا، اس کے الفاظ کی مدد سے اس کو پڑھا جائے گا۔ لیکن الفاظ بذاتِ خود مطلوب نہیں ہوتے۔ ہر لفظ کا ایک مفہوم ہوتا ہے اور لفظ کو اِس لیے ادا کیا جاتا ہے، تاکہ قاری اس کے مفہوم تک پہنچ سکے۔ الفاظ، معانی تک پہنچنے کا دروازہ ہیں۔ اِس بنا پر الفاظ کی بے حد اہمیت ہے، لیکن الفاظ کی اہمیت وسیلہ کے اعتبار سے ہے، نہ کہ مقصود کے اعتبار سے۔ مثلاً ایک قاری جب حمد کا لفظ بولتاہے تو اس کا مقصد صرف ح م د نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مراد وہ مفہوم ہوتا ہے جو حمد کے لفظ میں چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کل أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الأذان؛ صحیح مسلم، أبو داؤد، ابن ماجہ: کتاب الطہارۃ؛ الترمذی، کتاب الدعوات) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر اللہ کا ذکرکرتے تھے۔
اِس روایت کو اکثر مجدثین نے ابوابِ طہارت کے تحت نقل کیا ہے۔ مگر اِس روایت کا مسائلِ عبادت سے کوئی تعلق نہیں۔ اِسی طرح کچھ لوگوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ باربار آدمی کی زبان سے بسم اللہ، الحمد للہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ اور اِسی طرح کے دوسرے مقرر کلمات نکلتے رہیں، مگر یہ شرح بھی اِس حدیث کی حقیقی معنویت کو بیان نہیں کرتی۔
اصل یہ ہے کہ ذکر اور دعا صاحبِ معرفت انسان کے تخلیقی کلمات ہیں۔ انسان کی زندگی میں بار بار مختلف قسم کے مواقع یا اَحیان (occasions) پیش آتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر سوچنے کی اور توسّم کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ پالے گا کہ اِن مواقع پر خدا کی یاد کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہے۔آدمی اِن مواقع کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر اُن کو اعلیٰ درجے کی کیفیتِ ذکر اور کیفیتِ دعا میں تبدیل کرسکتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہی بات پائی تھی۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یا اللہ سے دعا فرماتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ذکر اور دعا کچھ یاد کئے ہوئے الفاظ کو دہرانے کا نام نہیں، ذکر اور دعا یہ ہے کہ مختلف مواقع اور مختلف حالات آدمی کے لیے اللہ کو یاد دلانے والے (reminder) بن جائیں، ہر واقعے اور ہر تجربے کو وہ اللہ سے رلیٹ (relate) کرکے دیکھ سکے، ہر تجربے میں اس کو خدا کی خدائی کا کوئی پہلو نظر آجائے۔ اِس طرح کے شعوری احساس کے تحت جو الفاظ آدمی کی زبان پر جاری ہوجائیں، اُنھیں کا نام ذکر اور دعا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت صحیحین میں الفاظ میں آئی ہے: عن أبی سعید قال: قال رسول اللہ ﷺ إن اللہ تعالیٰ یقول لأہل الجنۃ: یا أہل الجنّۃ، فیقولون: لبّیک ربّنا وسعدیک، والخیر کلّہ فی یدیک۔ فیقول: ہل رضیتم۔ فیقولون: وما لنا لا نرضی یار بّ، وقد أعطیتنا ما لم تعط أحداً من خلقک۔ فیقول: ألا أعطیکم أفضل من ذلک۔ فیقولون: یا ربّ، وأیّ شییٔ أفضل من ذلک۔ فیقول: أحلُّ علیکم رضوانی فلا أسخط علیکم بعدہ أبداً (بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے کہے گا کہ اے اہلِ جنت، وہ کہیں گے اے ہمارے رب لبیک وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تم راضی ہو۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، حالاں کہ تو نے ہم کو وہ چیز عطا فرمائی جو مخلوقات میں سے کسی دوسرے کو نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا میں تم کو اس سے بھی زیادہ افضل چیز نہ دوں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، وہ کیا چیز ہے جو اس سے افضل ہے۔ اللہ فرمائے گا، میں تمھارے لیے اپنی رضا کو واجب کرتاہوں، اِس کے بعد اب میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔
جنت بلا شبہہ تمام نعمتوں کا مجموعہ ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں اور تمنائیں کامل درجے میں پوری ہوںگی۔ جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہ یہ محسوس کریں گے کہ اُنھیں تمام مسرتیں اپنی حقیقی صورت میں حاصل ہوگئیں ہیں۔ لیکن امکانی طورپر ایک اندیشہ اُن کے لیے پھر بھی موجود رہے گا، وہ یہ کہ جنت ان کو اللہ کے عطیہ کے طور پر ملی ہے، وہ خود اُس کے خالق نہیں ہیں۔ اللہ اگر چاہے تو جنت کو اُن سے چھین بھی سکتا ہے۔ مذکورہ حدیث اِسی اندیشے کا جواب ہے۔جب خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ابدی رضا کا اعلان کردیا جائے گا تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت اب ہمیشہ کے لیے ان کی قیام گاہ بن چکی ہے، وہ ان سے کبھی چھینی جانے والی نہیں۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی خوشی ہوگی جو اہلِ جنت کو حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت میں امتِ محمدی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں وہ زوال کا شکار ہوگی۔ اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: لتتبعنّ سنن من کان قبلکم، شبراً شبراً وذراعاً ذراعاً، حتی لو دخلوا جُحر ضبّ تبعتموہم(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام ) یعنی تم ضرور پچھلی امتوں (یہود ونصاری) کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے۔
یہ حدیث سادہ طور پر صرف ایک پراسرار پیشین گوئی نہیں ہے، بلکہ اُس میں ایک قانونِ فطرت کا اظہار کیاگیا ہے۔یہ قانونِ فطرت وہی ہے جس کو ڈی جنریشن (degeneration) کہاجاتا ہے۔ جس طرح افراد کا جسمانی ڈی جنریشن (physical degeneration) ہوتا ہے، اُسی طرح قوموں کا روحانی ڈی جنریشن (spiritual degeneration) لازمی طورپر ہوتا ہے۔ اِس میں کسی امت کا کوئی استثناء نہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہود ونصاری کے اندر بعد کے زمانے میں جو ڈی جنریشن (زوال) آیا تھا، وہ سب موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کے اندر پوری طرح آچکا ہے۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں۔ مثلاً امت مسلمہ کے لیے قرآن میں خیر امت (آل عمران:110 ) کا لفظ آیا ہے۔ اس کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے ٹائٹل آف آنر (title of honor) کا درجہ دے دیا، حالاں کہ وہ اُن کے لیے صرف ٹائٹل آف ڈیوٹی (title of duty) تھا۔ اِسی طرح ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے معرفت (المائدۃ:
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اِس فتح کے لیے قرآن میں صرف فتح (النصر:1 ) کا لفظ آیا ہے۔ دوسری طرف 6 ہجری میں مخالفین کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر ایک امن معاہدہ ہوا۔ اِس کے لیے قرآن میں فتحِ مبین (الفتح:1 ) کا لفظ آیا ہے۔ اِن دونوں کے درمیان تقابل (comparison)سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
سورہ النصر میں جس فتح کا ذکر ہے، وہ جدید اصطلاح کے مطابق، ایک سیاسی فتح تھی۔ اِس کے برعکس، سورہ الفتح میں جس واقعے کو فتحِ مبین کہاگیا ہے، وہ کوئی سیاسی فتح نہ تھی۔ اِس موقع پر جو واقعہ پیش آیا ، وہ صرف یہ تھا کہ فریقین کے درمیان حالتِ جنگ کو ختم کرکے حالت امن کو قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ گویا کہ یہ ایک جنگ بندی (cease fire) کا معاہدہ تھا، جو سیاسی حقوق کی دست برداری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
اِس سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق، امن کا قیام زیادہ بڑی چیز ہے۔ سیاسی فتح اگر صرف فتح ہے تو امن کا قیام فتحِ عظیم۔ دونوں کے درمیان یہ فرق کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی فتح کسی کو صرف انتظامی بالادستی عطا کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، امن کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مواقعِ کار کھل جاتے ہیں، اور مواقع کار کا کھلنا، ہر قسم کے امکانات کا کھل جانا ہے۔
فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتّاب بن اَسید (وفات:610 ھ) کو مکہ میں بطور عامل مقرر کیا۔ اِس کے مقابلے میں، حدیبیہ کے موقع پر جو معاہدۂ امن ہوا، اس کے بعد جو مواقع کار کھلے، ان مواقع کو رسول اور اصحابِ رسول نے دعوت وتبلیغ کے لیے استعمال کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف چند سال کے اندر سارا عرب اسلامائز ہوگیا۔ اِس واقعے سے ایک عظیم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ سیاسی غلبہ صرف ایک محدود غلبہ ہے۔ اس کے مقابلے میں، مواقع کار کا کھلنا، ایک لامحدود غلبہ کے ہم معنیٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں امتِ محمدی کے بارے میں بطور پیشین گوئی آیا ہے کہ : لتتبعن سنن من کان قبلکم، شبراً بشبر، وذراعاً بذراعٍ، حتی ولو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموہ (مسنداحمد، جلد 3، صفحہ
اِس اتباع میں عام طوپر چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیا جاتا ہے۔ مثلاً تعویذ، گنڈا وغیرہ۔ لیکن اس معاملے میں زیادہ بڑا اتباع وہ ہے جو قومی پالیسی کے سلسلے میں پیش آئے۔
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہود پر جب زوال آیا اور ان کا اقتدار باقی نہیں رہا تو اُس وقت انھوںنے جو سیاست اختیار کی، اس پر تنقید کرتے ہوئے ان کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا کہ — عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Humble yourselves. The crown of your glory has been taken away from you (Jeremiah 13:18)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیاسی اقتدار باقی نہ رہے تو قوم کو اپنی تعمیر ِ نو کا آغاز، متواضع آغاز (humble beginning) سے کرنا چاہئے، نہ کہ پُر فخر آغاز (prideful beginning)سے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے عین اِسی ممنوعہ روش کو دہرایا ہے۔ موجودہ زمانے میں جب مغل ایمپائر اور عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے اپنے عمل کا آغاز جہاد اور حکومت اور خلافت کی تحریکوں سے کیا، حالاں کہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان پیچھے جائیں اور ابتدائی مرحلے سے اپنے عمل کا آغاز کریں۔
نقطۂ آغاز کے تعین میں اِسی غلطی کا یہ انجام ہوا ہے کہ بے شمار قربانیوں کے باوجود ان کی کوششیں یکسر رائیگاں ہو کر رہ گئیں ہیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ میں جب صنعتی ترقی ہوئی تو مسلم ملکوں کے بہت سے لوگ اپنے وطن سے ہجرت کرکے ترقی یافتہ ملکوں میں گئے۔ ایسے مہاجرمسلمانوں کی مجموعی تعداد تقریباً
اِس قسم کا ڈائس پورا مسلم دنیا میں بڑے پیمانہ پر دوبار ہوا ہے۔ پہلی بار ساتویں صدی عیسوی میں اور دوسری بار بیسویں صدی عیسوی میں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے اصحاب سے کہا تھا کہ اللہ نے مجھے تمام انسانوں کے لئے بھیجا۔ اس لئے تم میرے پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچا دو۔ اس کے بعد اصحاب رسول کی بڑی تعداد عرب سے نکل کر مختلف ملکوں میں پھیل گئی۔
حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت قرار پائے گی۔ اور جس آدمی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو تو اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی: إنما الأعمال بالنیۃ، وإنما لکل امریٔ ما نوی۔ فمن کانت ہجرتہ إلی اللّٰہ ورسولہ فہجرتہ إلی اللہ ورسولہ۔ ومن کانت ہجرتہ إلی دنیا یصیبہا... فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ (صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب إنما الأعمال بالنیّۃ) اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کی ہجرت دعوت الی اللہ کے لئے تھی۔ اس لئے ان کو دعوت الی اللہ کا ثواب ملے گا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی ہجرت حصولِ دنیا کے لئے ہے، اس لیے ان کو صرف دنیا ملے گی، آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں۔
دوسرے لفظوں میں اصحابِ رسول دینے والے (giver) بن کر باہر گئے تھے۔موجودہ زمانہ کے مسلمان، لینے والے (taker) بن کر باہر کے ملکوں میں گئے ہیں۔ اب اگر یہ ہجرت کرنے والے مسلمان صحابہ والا انعام اللہ کے یہاں پانا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی ہجرت کو اسلامائز کرنا ہوگا، یعنی وہ ان ملکوں میں داعی بن کر رہیں، نہ کہ صرف حیوانِ کا سب (earning animal) بن کر۔
واپس اوپر جائیں
کچھ لوگ دعوت کاکام کررہے ہیں۔ لیکن وہ اپنا دعوتی کام نچلے طبقے کے لوگوں میں انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی دعوت کا صحیح اسلوب ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں وہ قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: فقال الملأ الذین کفروا من قومہ مانراک إلاّ بشراً مثلنا، وما نراک اتبعک إلا الذین ہم أراذلنا بادی الرأی (ہود:
اِس سلسلے میں دوسرا حوالہ حدیث سے دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب ملنے کے بعد ہرقل اور ابوسفیان کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا، اس کا ایک حصہ یہ تھا: قال: فأشراف الناس یتبعونہ أم ضعفائہم۔ قلتُ: بل ضعفائہم(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی) اِس روایت میں ’ضعفاء‘ کا لفظ متبعین کو بتانے کے لیے آیا ہے، نہ کہ مخاطبین کو بتانے کے لیے۔ اِس لیے یہ دلیل بھی مذکورہ دعوے کا ثبوت نہیں بن سکتی۔ اِس دعوے کا علمی تجزیہ اس کو سرتاسر غلط ثابت کرتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کا خطاب اصلاً قوم کے خواص سے ہوتا ہے۔ ہر پیغمبر کے براہِ راست مخاطب قوم کے خواص تھے، لیکن خواص کے طبقے کے اکثر لوگ اپنے دنیوی مفادات کی بنا پر پیغمبر کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قرآن کے بیان کے مطابق، پیغمبر کی دعوت کی صداقت کو اُن کا دل مان لیتا ہے، لیکن ظلم اور علو کی بنا پر وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں (النمل:
واپس اوپر جائیں
تمام مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک آنے والا آئے گا اور وہ ایک خصوصی رول ادا کرے گا۔ یہی تعلیم اسلام میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی اِس کے اشارات موجود ہیں، مثلاً خروجِ دابّہ وغیرہ، اورحدیث میں اِس کو صراحتاً بتایا گیا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں اِس سلسلے میں تین لفظ استعمال کئے گئے ہیں— رجلِ مومن، مہدی، مسیح۔
بظاہر یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔یہ طریقہ قرآنی اسلوب کے عین مطابق ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کئی لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً عبد (
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کی پہچان صرف ایک ہوگی، اور وہ اس کا استثنائی رول (exceptional role) ہے۔ لوگوں سے یہ مطلوب ہوگا کہ وہ اعلان کا انتظار نہ کریں، بلکہ وہ رول کو دیکھ کر بطور خود آنے والے کو پہچانیں اور اس کا ساتھ دیں۔ جو لوگ اِس بصیرت کا ثبوت نہ دے سکیں، وہ تاریخ کے اِس آخری امتحان میں بلاشبہہ ناکام قرار پائیں گے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، حدیث کی روایتوں میں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے شخص کے لیے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں—رجلِ مومن، مہدی اور مسیح۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں کا رول ایک ہی بتایا گیا ہے، اور وہ ہے دجال کو قتل کرنا۔ اِس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ تینوں سے مراد ایک ہی شخصیت ہے، ورنہ حدیث میں تینوں کے لیے الگ الگ رول بیان کئے جاتے ۔
دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اِس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس قتل سے مراد استدلالی قتل ہے، نہ کہ جسمانی قتل۔ صحیح مسلم میں اِس سلسلے میں جو لفظ آیا ہے، وہ ’’حجیج‘‘ ہے۔ حجیج کا مطلب ہے —حجت اور دلیل کے ذریعے غالب آنے والا:
One who overcomes in the argument.
دجال کے لفظی معنیٰ ہیں—بہت زیادہ فریب دینے والا(great deceiver) ۔ حقیقت یہ ہے کہ دجال پرفریب نظریات کے ذریعے لوگوں کو مسحور کرے گا، وہ باطل کو خوش نما بنا کر پیش کرے گا۔ یہ دراصل اُسی چیز کی ایک مبالغہ آمیز صورت ہوگی جس کو شیطان کے حوالے سے قرآن میں تزئین (
دجال کا نظریاتی فتنہ تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ اس لیے استدلال کی سطح پر اس کا خاتمہ کرنا بھی تاریخ کا ایک انتہائی عظیم واقعہ ہوگا۔ اِسی بات کو صحیح مسلم (کتاب الفتن) کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ اِس حدیث میں واضح طورپر شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے۔ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہاں شہادت سے مراد گواہی (witness) ہے، یعنی دلائلِ ربانی کے ذریعے دلائلِ شیطانی کو آخری حد تک باطل ثابت کرنا۔
’’عظیم ترین شہادت‘‘ کے لفظ میں ایک اہم حقیقت کا اشارہ موجود ہے، وہ یہ کہ آنے والے کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ اپنے رول کے اعتبار سے ایک استثنا (exception) ہوگا۔ وہ ایک ایسا رول انجام دے گاجو پورے زمانے کے اعتبار سے ایک استثنائی رول ہوگا، اور یہی استثنا اس کی پہچان ہوگی۔ رجلِ مومن کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی معرفت استثنائی درجے کی معرفت ہوگی۔ مہدی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وقت کے تمام سوالات میں وہ استثنائی طورپر درست رہنمائی دینے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ مسیح کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وہ رأفت اور رحمت (
آنے والے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایات آئی ہیں۔ اِن میں سے اکثر روایتیں تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ قدیم زمانے میںاِسی اسلوب کا عام رواج تھا۔ چناں چہ خاتم النبیین (محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب) کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بائبل میں آئی ہیں، وہ بھی تمثیل کی زبان میں ہیں۔ یہی اسلوب دور آخر میں ظاہر ہونے والے کے لیے حدیث کی کتابوں میں اختیار کیا گیا ہے۔
اِس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قیامت سے پہلے موجودہ دنیا میں جو واقعات پیش آنے والے ہیں، وہ پر اسرار انداز میں پیش نہیں آئیںگے، بلکہ وہ معلوم اسباب کی صورت میں پیش آئیں گے۔ امتحان کی اِس دنیا میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، یہ سنت کبھی کسی کے لیے ختم ہونے والی نہیں۔
معاصر اہلِ ایمان کی ذمے داری
حدیث میں، آنے والے کی نسبت سے، یہ الفاظ آئے ہیں: وجب علیٰ کلّ مؤمن نصرہ وإجابتہ (أبوداؤد، کتاب المہدی) یعنی ہر مومن پر یہ واجب ہوگا کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہے اور اس کا ساتھ دے۔ اِس حدیث رسول سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا جب آئے گا تو اُس وقت معاصر (contemporary)اہلِ ایمان کی ذمے داری کیا ہوگی۔ وہ ذمے داری یہ ہوگی کہ وہ اس کو پہچانیں اور اس کے مشن میں بھر پور طور پر اس کا ساتھ دیں۔
واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں، لیکن اِن روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا، اور نہ یہ کہاگیا ہے کہ اس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اس کا اعتراف کریں۔ اِس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے کا رول اگر چہ اپنے زمانے کے اعتبار سے عملاً وہی رول ہوگا جو پیغمبر کا رول ہوتا ہے، لیکن یہ مشابہت بااعتبار رول ہوگی، نہ کہ باعتبار اعلان۔
جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے، اُن کی ذمے داری یہ نہیں ہوگی کہ وہ شخصی تعیین کے ساتھ اپنے اعتراف کا اعلان کریں۔ شخصی تعیین کے ساتھ اعتراف صرف پیغمبر کے لیے مخصوص ہے، غیر پیغمبر کے لیے اِس قسم کا شخصی اعتراف درست نہیں۔ البتہ معاصرین کی یہ لازمی ذمے داری ہوگی کہ وہ آنے والے کو پہچانیں، وہ اس کے لیے دعائیں کریں، اور عملی اعتبار سے وہ پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا اقترب الزمان لم تکد رؤیا المؤمن تکذب (صحیح البخاری، کتاب التعبیر) یعنی جب قیامت قریب آجائے گی ، تو اُس وقت جو مومن ہوگا، وہ سچا خواب دیکھنے لگے گا۔
اِس حدیث رسول پرغور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اِس کا تعلق اُس شخص سے ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا۔ چوں کہ اِس شخص کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا کہ جبریل آکر اس کو بتائیں کہ تمھیں آنے والے شخص ہو، اور نہ معاصرین پر یہ فرض ہوگا کہ وہ اعلان کے ساتھ اس کا اقرار کریں۔ آنے والے شخص کی واحد پہچان اس کااستثنائی رول ہوگا۔ اِسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت سے اُس کے لیے ایک اضافی مدد (additional support) کا انتظام کرے گا۔ یہ انتظام سچے خواب کی صورت میں ہوگا۔ آنے والے کے معاصرین کثرت سے ایسے خواب دیکھیں گے جو اُس کو یقین دلائیں گے کہ آنے والا شخص وہی ہے جس کو انھوں نے خواب میں دیکھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے، مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: عن ابی أمامۃ الباہلی، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لینتقضنّ عری الإسلام عروۃ عروۃ فکلما انتقضت عروۃ تشبّث الناس بالتی تلیہا (مسند احمد، رقم الحدیث: 21583 ) یعنی حضرت ابوامامہ الباہلی کہتے ہیں کہ ضرور ایسا ہوگا کہ اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹ جائیں، جب کوئی کڑی (عُروۃ) ٹوٹے گی تو اس کے بعد جو چیز آئے گی، لوگ اس پر قائم ہوجائیں گے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی میں دراصل زوال کے عمومی قانون کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری امتوں کی طرح مسلمانوں پر بھی زوال آجائے گا۔ اس کے بعد وہ اسلام کی خصوصیات کو ایک ایک کرکے چھوڑتے جائیں گے۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ پھر بھی موجود رہیں گے، لیکن اسلام کی اصل خصوصیات ان میں باقی نہ رہیں گی، اسلام کی اصل تعلیمات کے نام پر وہ بطور خود اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیار کرلیں گے اور اس خود ساختہ مذہب پر قائم ہو کر وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم اسلام پر قائم ہیں۔ یہاں مختصر طورپر اس معاملہ کا ایک تاریخی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
1 - باہمی قتال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اسلام کا پہلا عروہ جو ٹوٹا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر کی سخت ممانعت کے باوجود ان کے درمیان آپس کی جنگ شروع ہوگئی، اس کا آغاز تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے آخری زمانہ میں ہوا، اس وقت مسلم امت میں صحابہ کی تعداد کم اور غیر صحابہ کی تعداد زیادہ ہوچکی تھی، ان لوگوں نے ایک سیاسی شکایت کو لے کر حضرت عثمان کے خلاف قاتلانہ حملہ کیا، اس وقت حضرت عثمان نے یک طرفہ صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ وہ پیغمبر اسلام کی وصیت کے مطابق، آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے (کن کخیر ابنی آدم) بن گئے۔ اس طرح سے یہ ہوا کہ یہ معاملہ دوطرفہ قتال تک نہیں پہنچا، بلکہ وہ یک طرفہ کارروائی پر ختم ہوگیا۔
تاہم حضرت عثمان کی یہ تدبیر وقتی ثابت ہوئی، اس کے بعد علی ابن ابی طالب اور معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں باہمی قتال مزید شدت کے ساتھ ابھرا۔ وہ صرف اس وقت رُکا جب کہ دونوں فریق میں سے ایک کا خاتمہ ہوگیا۔
2 - حکمراں کے خلاف خروج
اسلام کا دوسرا عروہ جو بعد کی تاریخ میں ٹوٹا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید تاکید کے باوجود، مصلحین نے اپنے زمانہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کاآغاز کردیا، یہ خروج حسین ابن علی سے شروع ہوا، اور پھر وہ پوری تاریخ میں مختلف شکلوں میں جاری رہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت صراحت کے ساتھ اپنی امت کو یہ حکم دیا تھا کہ لوگ مسلم حکمرانوں کے خلاف ہر گز خروج (مسلح بغاوت) نہ کرنا، تم اپنی کوششیں غیر سیاسی دائرہ تک محدود رکھنا، اور کسی بھی شکایت کو لے کر حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرنا، مگر امت کے رہنماؤں نے مسلسل طورپر اس کی خلاف ورزی کی۔ بدقسمتی سے یہ خلاف ورزی اب تک جاری ہے۔
3 - فقہی اختلافات
اسلام کے عروۃ کے ٹوٹنے کا تیسرا واقعہ غالباً وہ تھا جو کہ فقہی اختلافات کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ سلم نے واضح طورپر فرمایا تھا کہ: أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم ( جامع بیان العلم وفضلہ
4 - دعوت کا باب حذف
پیغمبر اسلام کی اصل حیثیت یہ تھی کہ وہ داعی اور مبلغ تھے، آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ اور انذار و تبشیر کا نمونہ تھی، لیکن بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو مسلمان مختلف اسباب سے دعوت کا سبق بھول چکے تھے۔ چناں چہ تدوینِ علوم کے زمانہ میں اسلام کا چوتھاعروہ یعنی دعوت مکمل طورپر حذف ہوگیا۔ اس زمانہ میں حدیث کی جو کتابیں مدوّن کی گئیں، وہ دعوت کے ابواب سے خالی تھیں ۔ اسی طرح اسلامی فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی دعوت وتبلیغ کا باب موجود نہ تھا۔ اسی طرح قرآن کی جو تفسیریں عربی زبان میں لکھی گئیں، وہ سب کی سب غیر دعوتی اسلوب پر لکھی گئیں۔ اسی طرح اسلام کی جو تاریخ لکھی گئی، وہ بھی سیاسی پیٹرن پر تھیں نہ کہ دعوتی پیٹرن پر۔ یہی تقر یباً اس پورے کلا سیکل لٹریچر کامعاملہ ہے جو بعد کے زمانہ میں عربی زبان میں مرتب کیا گیا۔
5 - تدبر کے بجائے مراقبہ
اسلام کا پانچواں عروہ جو بعد کے زمانہ میں ٹوٹا، وہ تفکر وتدبر تھا۔ یہ کام زیادہ تر مسلم صوفیاء کے ذریعہ انجام پایا۔ اصل اسلام میں تزکیہ اور روحانیت کی بنیاد تمام تر تفکر وتدبر پر قائم تھی، لیکن صوفیاء نے دوسروں کی تقلید (مضاہاۃ) میں یہ کیا کہ مراقبہ (meditation) پر اسلامی روحانیت کی بنیاد رکھ دی۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ بنیاد تھی۔ اس کا عظیم نقصان یہ ہوا کہ اہلِ اسلام اُس معرفت سے محروم ہوگئے جو اصحابِ رسول کا امتیازی وصف تھا۔ معرفت بلاشبہہ مؤمن کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ معرفت کا حصول تدبر سے ہوتاہے جس کا ذریعہ عقلی غور وفکر ہے، مگر صوفیاء نے عقلی غور وفکر کو حذف کرکے قلب پر توجہ کو معرفت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا، جب کہ قلب میں سرے سے معرفت کا سامان موجود ہی نہ تھا۔ اس طرح بعد کے زمانہ میں پوری امت اعلیٰ معرفت سے محروم ہوکر رہ گئی۔
6 - غیر ریاستی جہاد
اسلام میں اس قسم کے نقصان کی چھٹی مثال وہ ہے جو انیسویں صدی میں تو آبادیاتی دور میں سامنے آئی۔ یہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلح جنگ کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے خلاف جنگ، فرانس کے خلاف جنگ، اسرائیل کے خلاف جنگ وغیرہ، یہ تمام جنگیں اسلام کے ایک عروۃ کو توڑنے کے ہم معنی تھیں، وہ یہ کہ جہاد (بمعنی قتال) صرف باقاعدہ قائم شدہ اسٹیٹ کا کام تھا، وہ عوام کی ذمہ داری نہیں(الرّحیل للإمام)۔ لیکن موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں نے عام طور پر اسلام کے اس عروۃ کو توڑنے میں حصہ لیا، کچھ لوگوں نے قولی اعتبار سے اور کچھ لوگوں نے عملی اعتبار سے۔ پچھلے تقریباً دو سو سال سے مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ مسلح جہاد میں مشغول ہیں۔ مگر یہ جہادزیادہ تر آزاد مسلم تنظیمیں (NGOs) کررہی ہیں ، نہ کہ باقاعدہ طورپر قائم شدہ مسلم حکومتیں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم تنظیموں کو صرف پُر امن دائرہ میں کام کرنے کا حق ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر ان کو ہر گز یہ اجازت نہیں کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، مگر تحلیلِ حرام کا یہ کام موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانہ پر ہوا، اور تادمِ تحریر (20 اپریل 2010) وہ بدستور جاری ہے۔ اسلام کے اس عروہ کو توڑنے کا جو نقصان اہلِ اسلام کو پہنچا ہے، وہ بلاشبہہ تمام دوسرے نقصانوں سے زیادہ بڑے نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔
7 - انسان کو دشمن قرار دینا
اسلام کی تعلیم کے مطابق، تمام انسان صرف انسان ہیں، تمام دنیا دار الانسان کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو یکساں طورپر بھائی اور بہن سمجھیں، وہ تمام انسانوں کے لئے یکساں طورپر خیر خواہ بنیں، وہ تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام، مثبت انداز ہیں پہنچائیں۔ لیکن بعد کے دور میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عروہ کو توڑ دیا۔ عباسی دور کے فقہاء نے دنیا کو بطور خود دار الحرب اور دار الکفر اور دارالاسلام میں بانٹ دیا، حالاں کہ اس درجہ بندی کا کوئی ماخذ قرآن اور سنت میں موجود نہ تھا۔ یہ غلطی آج تک مزید اضافہ کے ساتھ جاری ہے، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے تمام دنیا عملاً کو دارالانسان کے بجائے دارِ اعداء بنا رکھا ہے۔ وہ خود ساختہ عذر لے کر انسان سے نفرت کرنے لگے، حالاں کہ انسان سے نفرت کرنا اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔
8 - مبنی بر نظام تشریح
اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق، اسلام کا نشانہ فرد (individual) ہے۔ فرد کی سوچ کو بدلنا، فرد کو ربّانی انسان بنانا، فرد کا تزکیہ کرنا۔ مگر بعد کے زمانہ میں اسلام کا یہ عروہ بھی توڑ دیا گیا۔ اب اجتماعی نظام کو بنیاد بنا کر اسلام کی تشریح وتعبیر کی جانے لگی، یہ بلاشبہہ اسلام میں ایک انحراف تھا۔ جب آپ فرد کے اندر فکری تبدیلی لانے کو اپنا نشانہ بنائیں تو اس سے کوئی برائی نہیں پیدا ہوتی، لیکن جب آپ اجتماعی نظام یا سسٹم (system) کے بدلنے کو اپنا نشانہ بنائیں تو فوراً یہ ہوتا ہے کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، اور اس کے فطری نتیجہ کے طور پر طبقاتی جنگ (class war) شروع ہوجاتی ہے۔ ایک طرف حاکم طبقہ ہوتا ہے اور دوسری طرف غیر حاکم طبقہ۔ غیر حاکم طبقہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور حاکم طبقہ اقتدار کو اپنے پاس محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح ایک ایسی تباہ کن جنگ چھڑ جاتی ہے جو صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب کہ دونوں میں سے ایک فریق دوسرے فریق کو فنا کردے۔
9 - رجال کو معیار بنانا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنّۃ نبیہ (مؤطأ، النہی عن القول بالقدر ) یعنی میں تمھارے اندر دو بنیادی چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک تم ان کو پکڑے رہوگے، تم گمراہ نہ ہوگے۔ یہ دو چیزیں ہیں— خدا کی کتاب، اور اس کے رسول کی سنت۔ یہ بلاشبہہ اسلام کا ایک اہم عروہ تھا، لیکن بعد کے زمانہ میں یہ عروہ عملاً بالکل توڑ دیا گیا۔ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کے دین کا ماخذ اصلاً قرآن اورسنت نہیں رہا، بلکہ ان کے اکابر ان کے دین کا ماخذ بن گئے۔ اس تبدیلی نے اصل اسلام کو عملاً ایک معطّل دین بنا دیا ہے۔ اب تقریباً تمام مسلمان دین کے نام پر خود اپنے اکابر کے مذہب پر قائم ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں لوگوں کے سامنے قرآن اورسنت کا حوالہ دیجئے تو ان کو زیادہ اہم معلوم نہ ہوگا،لیکن اگر ان کے اپنے اکابر کے اقوال وآراء کا حوالہ دیجئے تو وہ فوراً اس کو قبول کرلیں گے۔ وہ اِس آیت قرآن کے مصداق بن جائیں گے: إذا ہم یستبشرون ( الزمر:
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے ان کے دین کا ماخذ قرآن اورسنت نہیں ہے، بلکہ عملاً ان کے اپنے اکابر ان کے لئے ان کے دین کا ماخذ ہیں۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کا عین وہی حال ہوا ہے جس کو قرآن میں یہود کا شیوہ بتایا گیا ہے: اتخذوا أحبارہم ورہبانہم أربابا من دون اللہ (التوبۃ:
آخری بات
مذکورہ روایت میں ایک لفظ تشبّث استعمال ہوا ہے، تشبث کے لفظی معنی ہیں چمٹنا (to cling) روایت میں بتایا گیا ہے کہ جب اسلام کا ایک حکم ٹوٹے گا اور اس کی جگہ دوسری صورت آجائے گی تو لوگ اس دوسری صورت پر قائم ہوجائیں گے۔ جیسا کہ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب میری امت میں تلوار داخل ہوگی تو وہ پھر اس سے اٹھائی نہ جاسکے گی (إذا وضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہا إلی یوم القیامۃ) ایسا کیوں ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی قوم میں کوئی روایت (tradition)لمبی مدت کے بعد قائم ہوتی ہے، اور جب ایک روایت ٹوٹ جائے تو دوبارہ ان تاریخی اسباب کو یکجا کرنا سخت مشکل ہوجاتا ہے، جن کے تحت وہ روایت قائم ہوئی تھی۔ اس لئے کوئی روایت ٹوٹنے کے بعد عملاً قائم نہیں ہوتی۔کسی نے بجا طور پر کہا ہے کہ —ایک چھوٹی سی روایت بنانے کے لیے بہت لمبی تاریخ درکار ہوتی ہے:
It requires a lot of history to make a little tradition.
اسلام کی تاریخ میں یہ اصول واقعہ بن چکا ہے- جو حکم ایک بار توڑ دیا گیا، و ہ دوبارہ پہلے کی طرح قائم نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کے غیر دانش مند رہنماؤں نے جذباتی سیاست کے تحت بار بارروایتوں کو توڑ ڈالا، چناں چہ اب امتِ مسلمہ تمام صالح روایات سے کٹی ہوئی ایک قوم بن چکی ہے۔ اس کے مہلک نتائج کا علم ہر ایک کو ہے، لیکن وہ مزید نادانی یہ کررہے ہیں کہ وہ اس کو ’’اغیار کی سازش‘‘ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ اپنی غلطی کو مان کر ان روایتوں کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
واپس اوپر جائیں
بیسویں صدی کے آخر تک تمام دنیا کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ عرب سے لے کر عجم تک ہرجگہ صرف ایک آواز گونجتی تھی، اور وہ جہاد کی آواز تھی۔ کچھ مسلمان عملاً مسلح جہاد میں مشغول تھے اور کچھ مسلمان جہادی بولی بولتے تھے۔ عرب دنیا میں عرب شاعر الزرکلی (وفات:1976 ) کا یہ شعر گونجتا تھا:
ہات صلاح الدین ثانیۃً فینا جدّدی حِطِّین أو شبہ حطّینا
برصغیر ہند کے رہنما بھی سب کے سب اِسی قسم کی بولی بولتے تھے۔ انھوں نے مسلم مسائل کے حل کے لیے ’’فلسفۂ اِضرار‘‘ دریافت کیا۔ وہ جوش کے ساتھ یہ شعر پڑھتے تھے:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
یہی سوچ اُن مسلمانوں کی تھی جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر نام نہاد مجاہدین کی تبریر (justify) کرتے تھے کہ ظالموں کو سبق سکھانے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا:
We have to teach them a lesson
یہ صورتِ حال بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک ہر جگہ باقی رہی۔ ہر جگہ کے لکھنے اور بولنے والے مسلمان کسی نہ کسی الفاظ میں اِس طرح کی بات لکھتے تھے یا بولتے تھے۔ بیسویں صدی کا مسلم میڈیا اِس قسم کی باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ذہن صرف اُن لوگوں کا نہیں تھا جو صحافت یا اسٹیج کی سرگرمیوں میں نمایاں ہوتے ہیں، بلکہ یہی ذہن ان لوگوں کا بھی تھا جو بظاہر صحافت اور اسٹیج سے دور ہیں۔ اُن سے بھی گفتگو کیجئے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اُسی تلخی اور شکایت میں جی رہے ہیں جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہیں۔ گویا کہ کچھ لوگ اگر ایکٹیو جہاد (active jihad) میں سرگرم تھے، تو دوسرے لوگ پیسیو جہاد (passive jihad) میں سرگرم۔
یہ صورت حال اتفاقی نہ تھی۔ پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اُس میں سب کچھ تھا، مگر اُس میں دو چیز مکمل طورپر حذف تھی اور وہ ہے دعوت اور امن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہوگیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہوگئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ امن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے استثنائی طورپر دعوت اور امن کی اہمیت کھولی۔ 1947میں انڈیا کی آزادی کے بعد میں نے اللہ کی توفیق سے یہ کام شروع کیا۔ دسمبر 1950 میں، میں اعظم گڑھ میں تھا۔ اُس وقت وہاں سبزی منڈی ہال میں ایک نمائش (exhibition) لگائی گئی۔ میں نے مرحوم یوسف آرٹسٹ اور دوسرے ساتھیوں کی مدد سے وہاں پہلی بار اسلامی کتابوں کا ایک بک اسٹال لگایا۔ اس بک اسٹال کے اوپر لال رنگ کے روشن حروف میں ایک سائن بورڈ لگایا گیا جو اتنا بڑا تھا کہ وہ گیٹ سے دکھائی دیتا تھا۔اِس سائن بورڈ پر قرآن کی آیت: واللہ یدعو إلی دار السلام (یونس :
And God calls to the home of peace (
اِس آیت میں بیک وقت دو باتیں کہی گئی ہیں — دعوت اور امن۔
اِس کے بعد میں اپنے طورپر دعوتی کام کرتا رہا۔
On the Threshold of a New Era
اللہ کی توفیق سے یہ کام بلا انقطاع جاری رہا۔ اِس مقصد کے لیے میں نے 1950 میں ادارہ اشاعتِ اسلام قائم کیا۔ اس کے بعد 1970میں اسلامک سنٹر کے نام سے نئی دہلی میں ایک دعوتی مرکز قائم کیا۔ 2001میں سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی (سی پی ایس انٹرنیشنل) کا قیام عمل میں آیا۔
بیسویں صدی کے آخر تک یہ حال تھا کہ لوگ اِس کام کو ون مین شو (one man show) کہتے تھے۔ تاہم اللہ کی توفیق سے یہ کام مسلسل جاری رہا۔ اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں سیکڑوں کتابیں تیار ہو کر ہر جگہ پھیلیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے مسلسل یہ پیغام لوگوں کے سامنے آتا رہا۔ اِسی کے ساتھ بار بار مجھے بین اقوامی کانفرنسوں میں نیز ملک کے اندر ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ہر جگہ میں نے اِس مشن کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔
تاہم لوگ اپنی کنڈیشننگ کی بنا پر اِس پیغام کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے تھے۔میری آواز ابتداء ً لوگوں کی نظر میں عرصے تک تقریباً اجنبی بنی رہی۔ مثال کے طورپر 1965 کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کا ایک اردو جریدہ، جو اُس وقت ہندستانی مسلمانوں کے درمیان مقبول ترین جریدہ تھا، اُس نے میرے مضامین کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ’’آپ کے مضامین ہمارے جریدے میں کھپ نہیں رہے ہیں‘‘۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مذکورہ جریدہ احتجاجی اسلوب پر نکالا گیا تھا۔ اِس کے مقابلے میں، میرے مضامین تعمیری اسلوب پر لکھئے گئے تھے۔ اِس فرق کی بنا پر میرے مضامین مذکورہ جریدے کے لیے ناقابلِ قبول بن گئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کا ہفت روزہ جریدہ ’’الدعوۃ‘‘جو قاہرہ سے نکلتا تھا اور عرب دنیا میں بے حد مقبول تھا، اُس میں میرے خلاف ایک مضمون شائع ہوا جس میں میرے دعوتی مشن کو نئی قادیانیت (قادیانیّۃ جدیدۃ) بتایا گیا تھا۔مذکورہ جریدہ الاخوان المسلمون کے نقطۂ نظر کا ترجمان تھا جو مسلح جہاد کے ذریعے مقاصدِ ملت کاحصول چاہتے تھے، اِس لیے اِس جریدے کو میرا نقطۂ نظر سمجھ میں نہ آیا جو پُرامن دعوت کے اصول پر قائم ہے۔ تاہم اکیسویں صدی کے آتے ہی صورتِ حال یکسر بدل گئی۔ آج تمام دنیا کے مسلمان امن کی اور دعوت کی بات کررہے ہیں، جگہ جگہ امن اور دعوت کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔ مثال کے طورپر میڈرڈ (اسپین) میں جولائی 2008 کو سعودی حکومت کے تحت ’’بین اقوامی امن کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، اور دسمبر 2008میں مکہ میں ’’بین اقوامی دعوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا، وغیرہ۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ آج ساری دنیا کے مسلمانوں میں دعوت اور امن کی باتیں ہورہی ہیں۔ سیکولر مسلمان اور مذہبی مسلمان دونوں اپنے اپنے انداز میں اِسی قسم کی بات کہہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی عیسوی میں یہ نئی صورتِ حال اللہ کی توفیق سے ہمارے مشن کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کسی بھی بڑے واقعے کے ظہور میں کچھ معاون اسباب کام کرتے ہیں۔ یہی ہمارے مشن کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق، ہجرت کے پانچ سال پہلے اوس ا ور خزرج کے درمیان پیش آنے والی جنگِ بُعاث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لیے ایک مددگار واقعہ کی حیثیت رکھتی تھی (کان یوم بُعاث یوماً قدّمہ اللہ لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔ جنگ بُعاث میں مدینہ کے بڑے بڑے سردار ہلاک ہوگئے۔ اِس کے بعد وہاں مقاومت (resistance) کرنے والے لیڈر باقی نہ رہے۔ (فتح الباری، جلد 7، صفحہ
آخری زمانے کے جس دور امن کی پیشین گوئی حدیث میں گئی ـتھی، وہ دورِ امن اب پوری طرح آچکا ہے۔ اب ہماری ذمے داری یہ ہے کہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دیں، یہاں تک کہ حدیث کے الفاظ میں، اسلام کا کلمہ (کلمۃ الإسلام) دنیا کے تمام چھوٹے اور بڑے گھروں میں داخل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
کیا مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی ہونا چاہیے، یہ سوال گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پولٹکل پارٹی سے پہلے، پولٹکل تیاری ضروری ہوتی ہے۔ پولٹکل تیاری سے پہلے، پولٹکل پارٹی بنانا ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص نے پروفیشنل ٹریننگ نہ لی ہو، اِس کے باوجود وہ جاب مارکیٹ میں چھلانگ لگا دے۔
مسلمانوں کے نام نہاد رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے کی مدت میں وہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی تربیت نہیں کرتے، البتہ جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو وہ فوراً اسٹیج کی تقریروں کے ذریعہ یہ اعلان کرنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک علاحدہ سیاسی پارٹی ہونا چاہیے۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ترجیح (political priority) کو جانیں۔ پولٹکل پارٹی بنانا یقینی طورپر موجودہ حالت میں مسلمانوں کی سیاسی ترجیح نہیں۔
اِس معاملے میں سب سے پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ 1947 سے پہلے اور 1947 کے بعد مسلمانوں کی کئی سیاسی پارٹیاں بنائی گئیں، مگر جلسہ جلوس کی دھوم کے باوجود اُن کا کوئی مثبت نتیجہ مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔ مثال کے طورپر 1964 میںآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بنائی گئی۔ وہ کم از کم جزئی معنی میں ایک پولٹکل پارٹی تھی۔ اِس کے بعد1968میں آل انڈیا مسلم مجلس بنائی گئی جو کہ پورے معنوں میں ایک پولٹکل پارٹی تھی۔ اِن دونوں جماعتوں نے پالٹکس میں عملی حصہ لیا، مگرجہاں تک مثبت نتیجے کا تعلق ہے، اس کا کچھ بھی فائدہ مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔
اصل یہ ہے کہ پولٹکل پارٹی سے پہلے ہمیشہ اس کے موافق پولٹکل بنیاد (political base) درکار ہوتی ہے۔ بنیاد کے بغیر عمارت نہیں، اِسی طرح پولٹکل بنیاد کے بغیر پولٹکل پارٹی بھی نہیں۔ پولٹکل بنیاد کیا ہے، اس کو یہاں مختصر طور پر بیان کیاجاتا ہے۔
1 - پولٹکل بنیاد (political base) کے معاملے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ملت کے افراد کے اندر سیاسی شعور موجود ہو۔ کہاجاتا ہے کہ — سیاست ممکنات کا کھیل ہے:
Politics is the art of the possible.
اِس کے مطابق، ملت کے افراد سیاسی اعتبار سے اتنا زیادہ باشعور ہوں کہ وہ جانیں کہ سیاسی تدبیروں سے کیاچیز قابل حصول ہوتی ہے اور کیا چیز قابل حصول نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کے بارے میں مسلسل تجربات کے مطابق، یقینی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے عوام اور خواص دونوں سیاسی شعور سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ مسلم خواص، سیاست کے اعتبار سے صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اسٹیج سے جذباتی تقریریں کریں۔ اور مسلم عوام صرف یہ جانتے ہیںکہ وہ اِس قسم کی تقریروں پر تالیاں بجائیں۔ حقیقت پسندانہ سیاست سے مسلم خواص بھی بے خبر ہیں اور مسلم عوام بھی۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی بنانے کا فائدہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ میڈیا میں کچھ وقتی چرچا ہو اور کچھ غیر قائد قسم کے مسلمانوں کو مسلم قائدین کا ٹائٹل مل جائے۔ موجودہ حالت میں اِس سے زیادہ کسی اور فائدے کی امید رکھنا، فرضی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔
2 - اِس سلسلے میں دوسری اہم چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی اعتبار سے کامل اتحاد پایا جاتاہو۔موجودہ حالت میں یہ اتحاد بالکل مفقود ہے۔ اِس کی ایک سنگین مثال یہ ہے کہ موجودہ ہندستان کے کئی حلقۂ انتخاب میں مسلمان تقریباً اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہر الیکشن میں یہ دیکھا جاتاہے کہ اِن حلقوں میں بہت کم کوئی مسلم نمائندہ کامیاب ہو کر آتا ہے۔ اِس کی سادہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ اِن حلقوں میں کئی مسلمان امیدوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے ووٹ بٹ جاتے ہیں۔ ایسے کسی حلقے میں اگر صرف ایک مسلم امیدوار کھڑا ہوتو اس کی جیت یقینی ہے، لیکن جب کئی مسلم امیدوار کھڑے ہوجاتے ہیں توووٹ بٹ جانے کی وجہ سے سب کے سب ہار جاتے ہیں، اور کسی ایسی پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے جس کو مسلمانوں نے بطور خود اپنا دشمن قرار دے رکھا تھا۔ سروے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ پارلیامنٹ کے تقریباً ایک سو حلقوں میں مسلمان الیکشن میں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن اپنی اِسی سیاسی بے شعوری کی بنا پر وہ اِس موقع (opportunity) سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور پارلیامنٹ میں ان کی تعداد ہمیشہ واقعی تعداد سے بہت کم رہتی ہے۔
3 - صحافت کو سیاست کا چوتھا ستون (fourth estate) بتایا جاتا ہے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ چوتھا ستون عملاً موجود ہی نہیں۔ مسلمانوں کے جو اخبارات ہیں، ان کی اشاعت اتنی زیادہ محدود ہوتی ہے کہ وہ مسلّمہ صحافتی معیار کے مطابق، قابل ذکر ہی نہیں۔ جب کہ مشہور مقولہ ہے کہ— جس قوم کی صحافت نہیں، اُس قوم کی سیاست بھی نہیں۔
اِس صحافتی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کوئی اخبار محض اپنی قیمت ِ فروخت پر نہیں چل سکتا ، وہ صنعتی اشتہارات کے ذریعے چلتا ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اُن کے پاس اعلیٰ صنعت موجود نہیں۔ اِس لیے اُن کے پاس وہ بڑے تجارتی ادارے بھی موجود نہیں جو قیمتی اشتہارت کے ذریعے اخبارات کو فیڈ (feed) کرسکتے ہوں۔ مسلمانوں کی اِسی کمزوری کی بنا پر اُن کے اخبارات زرد صحافت (yellow journalism) کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ اُن کا انحصار زیادہ تر قیمتِ فروخت پر ہوتا ہے، اِس لیے وہ سنسنی خیز خبریں چھاپتے ہیں، تاکہ وہ صنعتی اشتہارات کی اِس کمی کو پورا کرسکیں۔
4 - مسلمان جب بھی علاحدہ پولٹکل پارٹی کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف اپنی کمیونٹی کے محدود مسائل کے ذہن کی بنا پر کرتے ہیں۔ مثلاً فرقہ وارانہ فساد، ملازمتوں میں امتیاز، وغیرہ۔جمہوریت کے دور میں اس قسم کے محدود موضوعات کو لے کر کوئی کامیاب سیاسی پارٹی نہیں بنائی جاسکتی ۔ کامیاب سیاسی پارٹی صرف وہ گروہ بنا سکتا ہے جس کے اندر قومی سوچ (national thinking) ہو، جو پورے ملک کے مسائل کو لے کر سوچ سکتا ہو۔ جمہوریت کے زمانے میں کمیونٹی کے مسائل بھی صرف وسیع تر قومی تناظر میں رکھ کر حل کئے جاسکتے ہیں، اِس کے بغیر نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمان جس چیز کو سیاست سمجھتے ہیں، وہ صرف گھیٹو سیاست (ghetto politics) کا ایک خود ساختہ ایڈیشن ہے۔ اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ہر روز مسلمانوں کے جلسے جگہ جگہ ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ جلسے ہمیشہ کمیونٹی کے اِشو کو لے کر ہوتے ہیں، نہ کہ ملکی اشو کو لے کر۔ اِس قسم کا ذہن رکھنے والے لوگ سیاسی پارٹی بنانے کے لیے قطعاً نااہل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں مسلمانوں کے درمیان بار بار اِس طرح کی تحریکیں اٹھائی گئیں، لیکن عملاً وہ سب کی سب ناکام ہو کر رہ گئیں۔
5 - سیاسی پارٹی بنانا کوئی سادہ بات نہیں۔ عملی اعتبار سے یہ سیاست کے دنگل میں چھلانگ لگانے کے ہم معنیٰ ہے۔ سیاسی پارٹی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک ایسے میدانِ مقابلہ میں داخل ہوگئے، جہاں ہر قدم پر ایک سیاسی حریف کھڑا ہوا ہے، ہر قدم پر ایک ایسا موقع پرست لیڈر موجود ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کی ہار میں اُس کی جیت کا راز چھپا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں نہ پہلے ایسا کوئی دانش مند لیڈر موجود تھا اور نہ اب کوئی ایسا دانش مند لیڈر موجود ہے جو اِس راز کو سمجھ سکے۔ ہمارے تمام لیڈر صرف دوسروں کے خلاف شکایت کی زبان بولنا جانتے ہیں، حالاں کہ کامیاب سیاسی لیڈر وہ ہے جو شکایتوں کے جنگل میں اپنا راستہ نکالنے کا فن جانتا ہو۔
مسلمانوں کے درمیان اِس قسم کے لیڈر کا فقدان ہے، اور اگر ایسا کوئی لیڈر موجود ہو تو یقینی طورپر وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ مختلف اسباب سے، موجودہ زمانے کے مسلمان اتنازیادہ جذباتی ہوچکے ہیں کہ وہ کسی حقیقت پسند لیڈر کی بات نہ سمجھیں گے اور نہ وہ اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایسی حالت میں پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر جدید معیار پر سیاسی شعور پیدا کیا جائے۔ سیاسی شعور سے پہلے سیاسی اقدام کرنا، سیاسی خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
1947 سے پہلے کی سیاست میں انڈیا کے دوبڑے علماء نے دو الگ الگ موقف اختیار کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی تحریک پاکستان کے خلاف تھے، اور مولانا اشرف علی تھانوی تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ اِس کی توجیہہ کرتے ہوئے ایک ہندستانی عالم نے لکھا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں سے ایک کو قیامِ پاکستان کا حامی بنا دیا تھا، تاکہ آگے چل کر اُس ملک کا قبلہ درست رکھنے اور وہاں حقیقی اور مکمل اسلام کے نفاذ کے لیے کام کرنے کا دروازہ علماء اور دینی قیادت کے لیے کھلا رہے۔ اور دوسرے کو تقسیم ملک کا مخالف بنا کر ایسے امکانات پیدا کردئے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی جان ومال اور اُن کے دینی وجود اور ملی تشخص کے تحفظ کے میدان میں یہاں کے علماء اپنا فرض ادا کرسکیں۔ جو کچھ ہوا، اللہ ہی کے فیصلے اور قضا وقدر کے نتیجے میں ہوا‘‘ ۔( مئی 2010 )
اس معاملے کو اگر اللہ کے فیصلے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دونوں علماء اجتہادی خطا کے مرتکب ہوئے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کو دشمن قرار دیا اور اُن کے خلاف سیاسی جنگ چھیڑ دی۔ یہ بلاشبہہ درست نہ تھا، کیوں کہ انگریز ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی اور اِس قسم کے دوسرے علماء بلا شبہہ ایک ایسی غلطی میں مبتلا ہوئے جس کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اس کو اجتہادی خطا قرار دیا جائے۔یہی معاملہ مولانااشرف علی تھانوی کا بھی ہے۔ پاکستانی لیڈروں نے ہندو کو حریف قوم قرار دیا اور ان کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کو چاہیے تھا کہ وہ اِس تحریک کی حمایت کرنے کے بجائے یہ اعلان کریں کہ ہندو ہمارے لیے مدعو کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کو حریف قوم کا درجہ دینا اور ان کے خلاف سیاسی لڑائی چھیڑنا درست نہیں۔ دونوں عالموں نے جو کچھ کیا، وہ صرف اُن کا اپنا ذاتی فعل تھا، اللہ کی سنت یا اللہ کے فیصلے سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔ اِس معاملے کو اگر یہ حیثیت دی جائے کہ وہ اِن علماء کی اجتہادی خطا تھی تو اِس سے کوئی اصولِ اسلام مجروح نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس کو اللہ کا فیصلہ قرار دیا جائے تو بلاشبہہ اُس سے اصولِ اسلام مجروح ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں کے ایک لیڈر مسٹر اصغر چودھری کا ایک سبق آموز بیان اخبار میں آیا ہے۔ وہ بروکلین کے پاکستانی امریکن مرچنٹ ایسوسی ایشن (Brooklyn's Pakistani American Merchant Association) کے چیئر مین ہیں۔ انھوں نے کہا کہ
Pakistanis are posing as Indians in the US to escape discrimination. A lot of Pakistanis can not get jobs after 9/11 and now it is even worse. They are now pretending that they are Indian so that they may get a job. (p.
دوسری طرف ایک پاکستانی مسلمان نے مذکورہ بیان پر غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ —میں دہشت گرد کہلانا پسند کروں گا، مگر میں انڈین کہلانا پسند نہیں کروں گا:
I will rather be called a terrorist than an Indian.
اِن دونوں نقطۂ نظر میں سے پہلا نقطۂ نظر مصلحت پر مبنی ہے، اور دوسرا نقطۂ نظر نفرت پر مبنی۔ مگر اِن دونوں میں سے کوئی نقطۂ نظر بھی اسلام پر مبنی نہیں۔ اسلام میں نہ مصلحت پرستی ہے اور نہ نفرت۔ اسلام کا طریقہ اصول پر مبنی طریقہ ہے۔ اسلام کا طریقہ امن اور انصاف اور انسانی خیر خواہی پر مبنی ہے۔ یہ ابدی اصول ہیں، کسی بھی عذر کی بنا پر ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی اصل کمزوری یہ ہے کہ وہ یا تو نفرت کے تحت سوچنا جانتے ہیں، یا مصلحت کے تحت۔ اسلامی طریقہ اصول کے تحت سوچنا ہے، مگر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو اِس تیسرے طریقے کی مطلق خبر نہیں۔
واپس اوپر جائیں
اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) موجودہ زمانے کا ایک ممتاز برٹش سائنس داں ہے۔ کائنات کے طویل مطالعے کے بعد اس نے کہا کہ میرا ریاضیاتی ذہن یہ بتاتا ہے کہ زمین کے ماورا بھی انسان کے مانند کوئی ذہین وجود ہونا چاہیے۔ اِس وجود کو اس نے اجنبی زندگی (Alien life) کا نام دیا ہے۔ اِس معاملے میں اسٹفن ہاکنگ کی سادہ منطق یہ ہے کہ ہماری کائنات میں تقریباً ایک سو بلین کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں کئی سو ملین ستارے ہیں۔ اتنی بڑی کائنات میں یہ بات ناقابلِ قیاس ہے کہ صرف زمین وہ واحد سیارہ ہو جہاں زندگی کا ارتقا ہوا ہے ۔ میرے ریاضیاتی ذہن کے مطابق، ستاروں کی یہ عظیم تعداد ہی اِس نظریے کو پوری طرح معقول ماننے کے لیے کافی ہے:
Hawking has suggested that extraterrestrials are almost certain to exist. Hawking’s logic on aliens is, for him, unusually simple. The universe has 100 billion galaxies, each containing hundreds of millions of stars. In such a big place, Earth is unlikely to be the only planet where life has evolved. “To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational”, (The Times of India, New Delhi, April 26, 2010, p.
سیارۂ زمین پر ذہین وجود کا ہونا، اولاً جس چیز کو ثابت کرتا ہے، وہ استثنا (exception) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ کیا ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے ارتقا (evolution) کے مفروضہ نظریے کو توجیہہ کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر زیادہ معقول بات یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ، مداخلت (intervention) کی بنیاد پر کی جائے۔ کیوں کہ مداخلت اپنے آپ میں ثابت ہے، اور جب مداخلت کو مان لیا جائے تو خالق کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔موجودہ زمانے میں بہت سی نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ نئی حقیقتیں خالق کے وجود کو ثابت کررہی تھی، لیکن ارتقائی مفروضے کے تحت ان کو ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دے دیاگیا۔ مگر یہ محض ایک قیاس ہے، اور ایک قیاس سے دوسرے قیاس کو ثابت کرنا، بلا شبہہ ایک غیر منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ بظاہر وہ مایوسی کا شکار تھے۔انھوں نے کہا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور اپنی تعمیر کا منصوبہ ایک انسان کو کس طرح بنانا چاہیے۔
میںنے کہا کہ اِس معاملے میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ خود اپنی ذات کا مطالعہ کرکے اپنے فطری امکانات (potentials) کو دریافت کریں، اور اس کے بعد حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ذریعے اس کو استعمال کریں۔
میں نے اپنے تجربے میں پایا ہے کہ بیش تر لوگ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ مایوسی کے احساس میں جیتے ہیں اور مایوسی میں مرجاتے ہیں۔ اِس المیہ کا بنیادی سبب کیا ہے۔ وہ سبب یہی ہے کہ بیش تر لوگ اپنی زندگی کے لیے صحیح نقطۂ آغاز نہیں پاتے، اور جب آپ صحیح نقطۂ آغاز کو نہ پائیں تو آپ کی تمام سرگرمیاں آپ کے مطلوب کے اعتبار سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
احساسِ ناکامی کیا ہے، یہ دراصل اپنے کم تر استعمال (under-utilization) کا نتیجہ ہے، جو شعوری یا غیر شعوری طورپر ہر انسان کو لاحق رہتا ہے۔ جب آپ اپنی امکانیات کو استعمال نہ کرسکیں تو آپ کو برابر یہ احساس ستاتا رہے گا کہ آپ جس چیز کو پانا چاہتے تھے، اس کو آپ نہ پاسکے۔ اِسی کا نام احساسِ مایوسی ہے۔ اِس احساس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جانے بغیر زندگی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ جو لوگ اِس غلطی کا شکار ہوں، اُن کودوبارہ درست نقطۂ آغاز صرف اُس وقت ملے گا جب کہ وہ یہ اعتراف کریں کہ میں غلطی پر تھا۔
زندگی کی تعمیر کا پہلا مرحلہ دریافت سے شروع ہوتا ہے۔ اور اگر آدمی دریافت میں ناکام ہوجائے تو اس کے بعد زندگی کا اگلا منصوبہ اپنی غلطی کے اعتراف سے شروع ہوگا۔ جوآدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، وہ کبھی اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی نہ کرسکے گا، اس کا ماضی بھی ناکام رہے گا اور اس کا مستقبل بھی ناکام۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ دیر تک میرے پاس رہے۔ جب وہ جانے لگے تو انھوںنے مجھ سے کہا کہ مجھ کو کوئی نصیحت کیجئے۔ میں نے اُن سے ان کی ڈائری مانگی۔ انھوںنے کہا کہ میرے پاس ڈائری نہیں ہے۔ پھر میں نے ایک کاغذ پر یہ نصیحت لکھ کر انھیں دے دی— اپنے آپ کو غیر ضرور ی کلام سے بچائیے:
Save yourself from unnecessary talk.
اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ غیر ضروری باتیں کرتے ہیں۔ غیر ضروری باتیں کرنے والوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ جب وہ بولنا شروع کریں گے تووہ بولتے ہی رہیں گے، وہ خود سے چپ نہیں ہوں گے، جب تک آپ مداخلت کرکے اُنھیں چپ ہونے پرمجبور نہ کردیں۔
ایسا کیوںہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے دماغ میں بے شمار باتیں بھری ہوئی ہیں۔ جب آدمی بولتا ہے تو یہ تمام باتیں اس کے حافظے میں آنے لگتی ہیں۔
ایسی حالت میں منضبط کلام صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو باتوں کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرنا جانتا ہو۔ وہ کسی بات کے غیر متعلق (irrelevant)پہلوؤں کو الگ کردے اور صرف متعلق (relevant) پہلو کو گفتگو کے وقت اپنے سامنے رکھے۔ وہ خود سوچ کر یہ جان لے کہ سننے والا اصلاً کس بات کو سننا چاہتا ہے۔
بیش تر لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی، اِس لیے وہ گفتگو اور تقریر دونوں میں لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں اور سننے والا کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیںاور اُن کا نقطہ نظر کیا ہے۔
بولنے سے پہلے سوچئے، پیشگی طورپر یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ موقع کی نسبت سے آپ کو کیا بات کہنا ہے اور کیا بات نہیں کہنا ہے، بولئے کم اور سنئے زیادہ — یہی وہ صفت ہے جو آپ کو غیر ضروری کلام (unnecessary talk) سے محفوظ رکھے گی۔
واپس اوپر جائیں
طرزِ فکر کی ایک قسم وہ ہے جس کو ثُنائی طرزِ فکر (dichotomous thinking)کہا جاتا ہے، یعنی صرف دو کے درمیان سوچنا۔ مثلاً سیا ہ اور سفید (black & white) کے درمیان سوچنا۔ یہ طرزِ فکر انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ آدمی پہلے ایک انتہا کو لے کر سوچتا ہے اور جب وہ اُس سے غیرمطمئن ہوتا ہے تو اس کے بعد وہ دوسری انتہا کی طرف چلا جاتا ہے۔ مگر یہ طرز فکر درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ دو کے درمیان ایک تیسرا آپشن (third option) بھی موجود ہوتا ہے اور اکثرحالات میں اِسی طرح کا آپشن درست ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے بار بار یہ غلطی کی ہے۔ مثلاً نو آبادیاتی زمانے میں کچھ مسلمان انگریزوں کے دشمن ہوگئے اور وہ انگریز کی ہر بات کو غلط سمجھنے لگے۔ اس کے برعکس، کچھ اور لوگ انگریز کے زبردست مقلد بن گئے اور انگریزی کلچر اختیار کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے۔ یہ ثنائی طرز فکر تھا، حالاں کہ اُن کے لیے ایک تیسرا آپشن بھی موجود تھا۔ وہ یہ کہ وہ انگریز کو مدعو سمجھیں اور اُن کو پرامن انداز میں اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
یہی معاملہ خواتین کا ہے۔ خواتین کے معاملے میں مسلمانوں کا مذہبی طبقہ صرف دو صورتوں کو جانتا ہے۔ یا تو اُنھیں روایتی خول میں بند رکھنا یا فیشن کی دنیا میں آزاد چھوڑدینا۔ مگر یہاں ایک تھرڈ آپشن بھی موجود ہے، وہ یہ کہ عورت اپنی نسوانیت کو باقی رکھتے ہوئے تعمیر ِ انسانیت کے مشن میں اپنا حصہ ادا کرے۔ اِس تعمیری رول کو ادا کرنے کے لیے چند چیز یںضروری ہیں—اچھی تعلیم، شعوری ارتقاء، حالاتِ زمانہ کے مطابق ان کی تربیت، اپنے حدود کو جانتے ہوئے اجتماعی کام میں حصہ لینا، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق نے جس طرح مرد کو کارِ خاص کے لیے پیدا کیا ہے، اُسی طرح اس نے عورت کو کارِ خاص کے لیے پیدا کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں اپنے اپنے رول کو جانیں اور فطری حدود کے اندر رہتے ہوئے اُس کارِ خاص کو انجام دیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب’’عورت معمارِ انسانیت‘‘)
واپس اوپر جائیں
سوال
ماہ نامہ الرسالہ (جون 2007 ) کے شمارے میں ’’مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک مضمون نگاہ سے گزرا۔ اِس سلسلے میں دو سوال پیش خدمت ہیں۔ ایک یہ کہ اِس تعبیر کے استعمال کرنے کی کیا حکمت پیش آئی۔ دوسرے یہ کہ قرآن (الأحزاب:
جواب
1 - آپ نے غالباً اصل مضمون کو زیادہ غور کے ساتھ نہیں پڑھا، ورنہ آپ کو اِس قسم کا اشکال پیش نہ آتا۔ اگر آپ مضمون کو غور سے پڑھیں تو آپ پر کھل جائے گا کہ مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی کا مطلب دوسرے لفظوں میں مکی ماڈل کی آمدِ ثانی ہے۔ مذکورہ مضمون میں جس چیز کو مسیحی ماڈل کہاگیا ہے، وہ خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پوری طرح موجود ہے۔ مکی دور میں آپ نے خود اِسی اصول کے مطابق عمل فرمایا ہے۔ مضمون میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ اِس تصور کو زیادہ ممیَّز (distinguished) کرنے کے لیے اس کو مسیحی ماڈل کا نام دے دیا گیا ہے، تاکہ وہ جدید ذہن کے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوسکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ مشن کے دو دور ہیں — مکی دور، اور مدنی دور۔ مکی دور پُرامن دعوت کا دور ہے۔ اِس کے مقابلے میں مدنی دور کو جہاد اور قتال کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ دونوں ادوار بلا شبہہ اسلام میں مستند ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں حالات میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب جنگ وقتال کے بغیر تمام دعوتی کام انجام دئے جاسکتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ توحید کا مشن دوبارہ مکی دور کی طرف واپس آگیا ہے، یعنی پُرامن دعوتی دور کی طرف۔ یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس کو مذکورہ مضمون میں مسیحی ماڈل کی واپسی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ تعبیر غیر متعلق نہیں ہے۔ ہمارے علماء اور مسلمان عام طور پر یہ مانتے ہیںکہ قیامت سے پہلے مسیح کی ’’آمد ثانی‘‘ ہونے والی ہے۔ جس واقعہ کو لوگ مسیح کی آمد ثانی (second coming) کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، اُسی کو اِس مضمون میں مسیحی ماڈل کی آمد ثانی کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی مسیح کی آمد ثانی کا مقصد گویا کہ مکی دور کی تجدید ثانی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف الفاظ کے فرق کا معاملہ ہے، ورنہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔
2 - میں نے اپنے مضمون میں کوئی نئی بات نہیں کہی ہے۔ میں نے صرف قرآن کی مذکورہ آیت کی تشریح کی ہے۔ میں نے صرف اِس سوال کا جواب دیا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں کیوں اسوۂ حسنہ کا لفظ آیا ہے، قرآن میں اسوۂ کاملہ کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ جب خود قرآن میں کاملہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا، تو ہم کو بہر حال اس کی کوئی توجیہہ ڈھونڈنی ہوگی۔ اور خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی دوسری توجیہہ ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں یکساں نظری اصول تو ہمیشہ موجود رہتا ہے، مگر یکساں عملی ماڈل کبھی موجود نہیں ہوتا۔اصل یہ ہے کہ اسوہ یا ماڈل ایک عملی نمونہ کا نام ہے، اور عملی نمونہ کبھی بھی غیر متغیر یا ابدی نہیں ہوتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کی نسبت سے طے ہوتا ہے، نہ کہ کسی آئڈیل نظریے کی نسبت سے۔
غور کیجئے تو خود رسول اور اصحاب رسول کے زمانے ہی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طورپر خلافت کے معاملے کو لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو نام لے کر خلیفہ نام زد نہیں کیا۔ مگر خلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے اِس کے برعکس، نام لے کر خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب کو نام زد کیا۔ اس کے بعد خلیفۂ ثانی نے اِس کی پیروی نہیں کی، بلکہ انھوں نے ایک اور طریقہ اختیار کیا، اور وہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے 6 افراد کا ایک بورڈ مقرر کرنا تھا۔
فقہاء کا یہ متفقہ اصول ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی احکام کا تعین کسی واحد نظری معیار کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے حالات کی رعایت سے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کامل ماڈل کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جو غیر فطری بھی ہے اور غیر عملی بھی اور نتیجۃً غیر اسلامی بھی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب’’مطالعہ سیرت‘‘ کا مقالہ ’’اسوۂ حسنہ‘‘، صفحہ 141-150 )
سوال
مئی 2010 کے شمارے میں ’’دابّہ‘‘ کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ اِس سے مراد وہ انسان ہے جو آخری زمانے میں حق کا اعلان کرے گا، جب کہ اِس سے پہلے الرسالہ میں آپ نے دابہ کو جدید کمیونکیشن بتایا ہے۔ ایسی حالت میں سوال یہ ہے کہ کس رائے کو لیا جائے، پہلی رائے کو یا دوسری رائے کو۔ براہِ کرم، اِس کنفیوژن کو دور فرمائیں (ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
جواب
دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر
واپس اوپر جائیں
1 - حیدرآباد (دکن) کی یونی ورسٹی (English & Foreign Languages University) میں
Indo-Yemen Cultural Mutuality.
اِس کانفرنس میں انڈیا کے علاوہ مغربی ممالک سے بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر پروفیسر شاد حسین (کشمیر) نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے حاضرین کو مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ دئے۔
2 - ہندی روزنامہ ’’ہندستان‘‘ کی طرف سے
3 - یکم مئی 2010 کی شام کو G-10 (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) میں سی پی ایس کے افراد پر مشتمل ایک پروگرام ہوا۔ یہاں مغرب کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ نماز کے بعد صدر اسلامی مرکز نے ایک تربیتی خطاب کیا۔ اِس خطاب میں جو باتیں کہی گئیں، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ سی پی ایس کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی میں خاص طورپر پانچ چیزوں کو شامل کریں— سادگی، انٹریکشن، انٹلکچول ایکسچینج، تواضع، کسی ایک وقت لازمی طورپر گھر والوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانا۔ عشاء کی باجماعت نماز کے بعد یہ پروگرام ختم ہوا۔
4 - ایران کی راجدھانی تہران کے معروف مقا م ’’مصلیٰ بزرگ امام خمینی‘‘ پر
5 - زی سلام ٹی وی چینل (نوئڈا) کی اسٹوڈیو میں 18 مئی 2010 کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اِس ڈسکشن کا موضوع یہ تھا:
سیکولر تہذیب میں اسلامی اقدار کا فروغ
اِس موقع پر اسٹاف کے لوگوں کو سی پی ایس کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6 - ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسیز (بمبئی) کی رسرچ اسکالر مز بھونیت کور نے 19 مئی 2010 کو صدراسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Mediated Muslim Identity
یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔ انٹرویور کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا جس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
7 - امریکن ایمبسی (نئی دہلی) کے ایک وفد نے
8 - امریکن ایمبسی (نئی دہلی) سے مسٹر جیسن (Jason A. Barrett) اپنی ٹیم کے ساتھ
9 - میواڑ یونی ورسٹی (غازی آباد) میں
Islam its Teachings and its contribution to the Society.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک گھنٹہ تقریرکی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہاں مسٹر رجت ملہوترا نے سی پی ایس کے متعلق اپنے تاثرات بیان کئے۔ اِس یونی ورسٹی میں ڈھائی ہزار طلبا اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
10 - صدر اسلامی مرکز کی انگریزی زبان میں حسب ذیل دو کتابیں شائع ہوئی ہیں:
Jihad, Peace & Islam (Rupa & Co.), The Prophet of Peace (Penguin Books)
اول الذکر کتاب کو پروفیسر یوگندر سکند (Yoginder Sikand) نے ترجمہ کرکے ایڈٹ کیا ہے۔ یہ کتاب صدر اسلامی مرکز کے مختلف مضامین کے ترجمہ پرمشتمل ہے۔
واپس اوپر جائیں
القرآن مشن کے تحت ملک اور بیرون ملک میں بڑے پیمانے پر ’ادخالِ قرآن‘ کا کام جاری ہے۔ ادخالِ قرآن کا یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پرانجام دیا جارہا ہے۔ القرآن مشن کے تحت، دنیا کے مختلف نمائندہ افراد اور تنظیموں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بذریعہ ڈاک روانہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً یکم مئی 2010 کو مشہور برٹش سائنس داں پروفیسر اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کو قرآن کا انگریزی ترجمہ بھیجا گیا۔
The Speaking Tree Supplement of Times of India dated Sunday May 16th 2010 carried a review of translation of The Quran by Maulana Wahiduddin Khan. Stating that this translation is, “Simple and direct and reaches out to a large audience, Muslims as well as non Muslims”, they have aptly entitled it as “Not Lost in Translation”. The review further states, “The Maulana writes that the Quran is the word of God and it is the duty of believers to communicate the message of the Quran to all human beings so that they may know the reality of life.” After the review the Al Quran Mission at Delhi has received hundreds of requests for “Free Quran” through the website. Some of the comments from mainly non-Muslims are as follows:
ک Thank you for sending me The Quran, which I never expected. How nice it would be if other organisations too distribute their sacred books in simple language freely to the interested. I am a cosmopolitan from Hindu back-ground and I will definitely read and try to understand “Quran”. (V.B.Swamy, Bangalore)
ک Though born in a hindu family. I am deeply influenced by Islamic thoughts and Islam. Serving Muslim society through various means directly and indirectly. (Mahesh Bajaj, Mumbai)
ک I love reading articles authored by Maulana on Muslin religion . They are secular and not orthodox type. (Krishan Kumar Agarwal, Ghaziabad)
ک I will be grateful for a copy of the holy book. I am a secular person willing to imbibe all that is offered by any and all religions. (Anindya Chowdhury, Gurgaon)
ک I want to congratulate you for translating The Quran so that every one can understand this holy book. My age is about 80 years and I will be really greatful to have such kind of book. (I. D. Garg, Ghaziabad)
ک Like to study your whole literature. I hope your literature will help me to better understand the philosophy of Islam. Thanking you for your honourable service. (Deepak Bisht, Ghaziabad)
ک We have small group of spiritual minded retired people, meet every thursday and discuss GITA and many other spiritual literature. We are secular in our attitude and have open mind . We would love to read QURAN. I request you to supply 5 copies of this great book on GOD by VPP. I will take the delivery, I assure you. (Dr. Krishan Agarwal, Ghaziabad)
ک This is in reference to information in TOI regarding the availability of free translation of “Quran”, my father wishes to go through the holy pages, if you can please send the same free copy, he will be highly pleased. (Prarina)
ک I am a Hindu by birth and for a while I was an atheist. I have been searching for God all my life, yet I have not found God. I wish to explore the Quran with the hope that I will find God. (Raymond Papiah, S. Africa)
ک I am learning about Islam at school and I would like a copy of the Quran so I can gain a more in-depth comprehension of the religion. (Kate Mitchell, Australia)
ک Thank you for sending me The Quran, which I never expected. When I approached through internet, I learnt that it was not available. So, I am pleasantly surprised when I received it by courier service. I am a cosmopolitan from Hindu back ground and I will definitely read and try to understand “Quran”. Thank you again for your kind gesture. With warm regards and best wishes.(V.B.Swamy, Bangalore)
Responses of the people who are distributing this Quran in their areas:
Bangalore: Have been receiving a few acknowledgements over phone. Feel wonderful doing this project. I keep checking my mail every few minutes to see if we have received more requests. May Allah take the CPS Mission to the entire world, feel truly blessed being a part of this. (Sarah Fatima)
Mumbai: It is the biggest grace of God that we are associated with this mission and are part of the dawah empire. May Allah keep all of us a part of the empire and mission till our last breath, Ameen! (Sajid Anwar, Mumbai)
More and more people are getting involved in Al Quran Mission and these are the types of response that they are receiving for the English translation of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan.
Al-Quran Mission
محترم بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت 2 اپریل 2010 کو صدر اسلامی مرکز مولانا وحید الدین خاں صاحب نے القرآن مشن (Al Quran Mission) کا افتتاح کیا۔ یہ افتتاح نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں دو روزہ دعوتی اجتماع (Dawah Meet) میں کیاگیا۔ القرآن مشن کا مقصد ’ادخالِ کلمہ‘ ہے، یعنی ہر گھر میں خدا کے کلام کو پہنچانا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت سے پہلے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اسلام کا کلمہ (قرآن) داخل ہوجائے گا۔ القرآن مشن کا مقصد اِسی پیغمبرانہ پیشین گوئی کو واقعہ بنانا ہے۔
قرآن اِس زمین پر واحد محفوظ خدائی کلام ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ابدی ہدایت نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدائی اسکیم کے مطابق، یہ امر مقدر ہوچکا ہے کہ قیامت سے پہلے تمام انسانوں تک، اُن کی اپنی قابلِ فہم زبان میں، خدا کا کلام پہنچ جائے، تاکہ کوئی بھی عورت یا مرد خدا کے تخلیقی پلان سے بے خبر نہ رہے۔
موجودہ زمانے میں جدید کمیونی کیشن نے اِس بات کو پوری طرح ممکن بنا دیا ہے کہ کُرۂ ارض پر بسنے والے تمام مردوں اور عورتوں کو خدا کا کلام پہنچایا جاسکے۔ القرآن مشن اِسی دعوتی نشانے کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ اِس کا مقصد یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے ’ادخالِ کلمہ‘ کی پیغمبرانہ پیشین گوئی کو واقعہ بنایا جائے، تاکہ زمین پر بسنے والے تمام لوگ قرآن کے خدائی پیغام سے باخبر ہوسکیں۔ جو لوگ اِس ربانی مشن میں شریک ہو کر ہمارا تعاون کرنا چاہتے ہیں، اُن سے گزارش ہے کہ وہ اِس سلسلے میں القرآن مشن سے رابطہ کرکے اپنا مکمل پتہ، ٹیلی فون نمبر اور ای میل روانہ کریں، نیز اِس بات کو واضح فرمائیں کہ آپ القرآن مشن میں شامل ہو کر کس طرح اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
ثانی اثنین خاں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1, Nizamuddin West Market, New Delhi-110013
Email: [email protected]
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.