قرآن کی سورہ نمبر 4 میں قانونِ وراثت کے ذیل میں ایک آیت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ’’اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتے دار اور یتیم اور محتاج تو اُن کو کچھ دے دو اُس میں سے اور کہہ دو اُن کو معقول بات‘‘۔ (النساء:8 )
اِس کا مطلب یہ ہے کہ تقسیم میراث کے وقت اگر خاندان کے ایسے افراد وہاں آجائیں جن کو ازروئے قانون میراث میں حصہ نہیں پہنچتا تو ان کو بھی ترکہ کے سامان میں سے کچھ دے دو، ان کو محروم نہ لوٹاؤ۔ بظاہر یہ میراث کی ایک آیت ہے، لیکن اِس میں دعا کے لیے ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) ملتا ہے۔ایک مومن جب اِس آیت کو پڑھے گا تو وہ تڑپ اٹھے گا۔ وہ کہے گا کہ خدایا، یہی معاملہ میرا جنت کی نسبت سے ہے۔ میرے پاس کوئی بھی ایسا عمل نہیںجو مجھ کو جنت کا مستحق بنائے۔ لیکن میراث کی اِس آیت میں تونے یہ اصول بتایا ہے کہ تقسیم میراث کے وقت اگر کچھ ایسے افرادِ خانہ وہاں آجائیں جو ازروئے قانون اس میں حصہ پانے کے مستحق نہ ہوں، تب بھی ازراہِ شفقت اُن کو ترکہ کے سامان میں سے کچھ دے دو۔
قرآن کی اِس آیت میں ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم تسکین (solace) کا سامان موجود ہے۔ اِس آیت کو لے کر ایک بندۂ مومن کہہ سکتا ہے کہ —خدایا، میں آخری حد تک ایک بے مایہ انسان ہوں، لیکن قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تیری رحمت اتنی وسیع ہے کہ وہ غیر مستحق انسانوں تک بھی پہنچتی ہے۔ خدایا، تیری یہی رحمت میرے لیے امید کا سہارا ہے۔ تیرے اپنے قائم کردہ اِس اصول کے حوالے سے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ عدم استحقاق کے باوجود تو مجھ کو اپنی رحمتوں میں حصے دار بنادے۔ میرے جیسے غیر مستحق کو بھی تو اُس جنت میں جگہ دے دے جو صرف مستحق افراد کے لیے بنائی گئی ہے۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ قانون شریعت کے مطابق، میں جنت کا مستحق نہیں، لیکن قانونِ رحمت کے مطابق، تو مجھ کو اپنی جنت میں داخل کردے۔
واپس اوپر جائیں
سب سے بڑی دعا وہ ہے جو ایک حقیقی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کے حوالے سے کی جائے، موت اِسی قسم کا ایک بہت بڑا پوائنٹ آف ریفرینس ہے۔ اگر کوئی شخص اس پوائنٹ آف ریفرنس کو دریافت کرلے تو وہ ایک ایسی دعا کرسکتا ہے جس کو حدیث میں اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا بتایاگیا ہے۔ موت کیا ہے۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ وہ موجودہ زمین پر رہائش کا خاتمہ ہے۔ موجودہ زمین پر انسان کے لیے وہ سب کچھ مہیا کیاگیا ہے جس کی اسے بحیثیت انسان ضرورت ہے۔ موت جب آتی ہے تو یہ ہوتا ہے کہ اچانک مرنے والے کو موجودہ سیارۂ ارض سے محروم کردیا جاتا ہے۔ لیکن سیارۂ ارض پر جو کچھ انسان کو ملا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کے اپنے کسب (earning) کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر اللہ کے یک طرفہ عطیہ کا نتیجہ ہے۔ آدمی ملی ہوئی چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) طور پر لیتا رہتا ہے، اس لئے وہ اِس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے۔ اگر آدمی دنیا میں ملی ہوئی چیزوں کو عطیۂ الٰہی کی حیثیت سے دریافت کرلے تو یہ دریافت اس کے لئے ایک عظیم پوائنٹ آف ریفرنس بن جائے گی ۔
جس انسان کو شعوری طورپر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے، وہ پکار اٹھے گا کہ خدایا، موت سے پہلے کی زندگی میں بھی میں کامل طورپرعاجز تھا، لیکن تونے اپنی رحمت سے بلا استحقاق مجھے یک طرفہ طورپر تمام چیزیں دے دیں، موت کے بعدکی زندگی میں بھی دوبارہ میں اپنے آپ کو کامل طور پر عجز کی حالت میں پاؤں گا۔ خدایا، جس طرح تونے موت سے پہلے کی زندگی میں میرے عجز کی کامل تلافی فرمائی، اسی طرح تو موت کے بعد کی زندگی میں بھی میرے عجز کی کامل تلافی فرما، مجھے وہ تمام چیزیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دے جو تو نے موت سے پہلے کی زندگی میں مجھے عطا کی تھیں۔
اِس پوائنٹ آف ریفرنس کے ساتھ نجاتِ آخرت کی دعا کرنا، بلاشبہہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا ہے، جس کی قبولیت کی بشارت دی گئی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس اسمِ اعظم کے حوالے سے دعا کرنے کی توفیق پائیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر6 میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر کے منکرین نے کہا کہ اگر اللہ کو اپنا پیغام ہمارے پاس بھیجنا تھا تو وہ فرشتے کے ذریعے اپنا پیغام بھیجتا، تاکہ ہمیں اس کی حیثیت کے بارے میں شبہہ نہ ہو اور ہم کسی اشتباہ کے بغیر اس کا اقرار کرلیں۔ اِس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ فرشتے کو پیغمبر کی حیثیت سے بھیجتا تو اُس کو بھی انسان بنا کر بھیجتا اور: وللبسنا علیہم ما یلبسون (الأنعام: 9 ) یعنی ہم پھر بھی اُن کو اُسی شبہہ میں ڈال دیتے جس شبہہ میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں، اِس آیت میں دراصل اللہ کے عام قانونِ التباس کو بتایا گیا ہے۔ اللہ نے انسان کوچوں کہ آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے، اِس لیے اِس دنیا میں ہمیشہ ہر معاملے کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر (element of doubt) موجود رہتا ہے۔
یہ موجودہ دنیاکے لیے ایک عام قانون ہے کہ یہاں ہر واقعے کے ساتھ شبہہ کا ایک عنصر شامل رہے۔ اِس دنیا میں ہدایت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جواپنے شعور کو متحرک کر کے شبہہ کے پردے کو پھاڑے، اور شبہہ کے باوجود حقیقت کو کامل یقین کے ساتھ دریافت کرسکے۔
قانونِ التباس کا یہ معاملہ تمام پیغمبروں کے ساتھ موجود تھا۔ اِسی طرح یہ معاملہ قیامت تک ہمیشہ باقی رہے گا۔ جب بھی کوئی داعی، سچا مصلح اور سچا مجدد اٹھے گا تو اس کی شخصیت کے ساتھ لازماً شبہہ کا یہ عنصر شامل رہے گا، حتی کہ آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے مہدی اور مسیح کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مہدی اور مسیح کی شخصیت کے ساتھ بھی شبہہ کے اسباب لازماً موجود رہیں گے۔
پیغمبر کی طرح مہدی اور مسیح کو بھی وہی لوگ پہچانیں گے اور اُن کا ساتھ دیں گے جو شبہہ کے پردے کو پھاڑنے کی نادر صلاحیت رکھتے ہوں۔ اِس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ یہاں کوئی اعلیٰ سعادت صرف اُس شخص کو ملے جو شبہات سے بلند ہو کر سچائی کو پہچانے اور یقین کے ساتھ اس کا مکمل ساتھ دے سکے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزمائش (test) کے لیے بنائی گئی ہے۔ اِس بنا پر یہاں حقیقتوں کو دو اور دو چار کی طرح نہیں کھولا گیا ہے۔ یہاں ہر حقیقت کے ساتھ شبہہ کا عنصر (element of doubt) موجود ہے۔ یہ اصول پیغمبر کے زمانے میں بھی تھا اور وہ آئندہ بھی قیامت تک باقی رہے گا۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے دجّال اور مہدی اور مسیح کا ظہور ہوگا۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا معاملہ مذکورہ قانونِ عام سے مستثنیٰ نہیں۔
اِس قانونِ عام کے مطابق، ایسا ہر گز نہیںہوگا کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا ظہور اِس طرح برہنہ انداز میں ہو کہ لوگ کسی شبہہ یا کسی مغالطہ کے بغیر اُن کو جان لیں اور فوراً اُن کے معاملے میں اپنے مطلوب رویّے کو اختیار کرلیں۔ دجال اور مہدی اور مسیح کے ساتھ یقینی طورپر اُسی طرح شبہہ کا عنصر موجود رہے گا، جس طرح وہ اِس سے پہلے پیغمبروں کے ساتھ موجود تھا۔
حدیث میں بیان کردہ علامتیںبتاتی ہیں کہ قیامت اب بہت قریب ہے۔ اِس اعتبار سے غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا ظہور ہوچکا ہے۔
ضرورت ہے کہ لوگ اِس معاملے میں کامل سنجیدگی کے ساتھ متجسس (curious) بنیں اور اپنے ایمانی تقاضوں کو پورا کریں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ تاریخ کا کاؤنٹ ڈاؤن (countdown) اپنی آخری گنتی پر پہنچ جائے اور فرشتہ اسرافیل قیامت کا صور پھونک دے۔
جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد کسی کے لیے نہ توبہ کا وقت ہوگا اور نہ اعتراف کا۔ صورِ اسرافیل سے پہلے تمام حقیقتیں شبہہ کے پردے میں ہیں، صورِ اسرافیل اِس پردے کو پھاڑ دے گا اور اس کے بعد تمام حقیقتیں عیاناً سامنے آجائیں گی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر فطری طورپر دو انتہائی طاقت ور جذبہ رکھا گیا ہے — استعجاب (awe) کا جذبہ، اور رحم(mercy) کا جذبہ۔ صحیح یہ ہے کہ اِن دونوں قسم کے جذبات کو اس کے اصل مقام پر رکھا جائے۔ کسی اور چیز کو ان جذبات کا مرکز نہ بنایا جائے۔ استعجاب کے جذبے کا صحیح استعمال یہ ہے کہ اس کو صرف اللہ واحد کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ اِسی کا نام توحید ہے۔ اِس جذبے کا مرکز کسی غیر اللہ کو بنانا شرک ہے، اور شرک ایک ناقابل معافی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا کہ شرک نام ہے ایک صحیح جذبے کے غلط استعمال کا:
Wrong association of right sentiment.
یہی معاملہ جذبۂ رحم کا بھی ہے۔ انسان کے اندر گہرا جذبۂ رحم دعوتی مقصد سے رکھا گیا ہے، یعنی آخرت کے عذاب سے انسان کو بچانے کی کوشش کرنا۔موجودہ زمانے میں سوشل ورک بہت زیادہ بڑھ گیاہے۔ یہ سوشل ورک کیا ہے۔ یہ سوشل ورک انسان کو دنیوی تکلیف (worldly suffering) سے بچانے کا نام ہے۔ یہ رحم کے فطری جذبے کو دنیا کی طرف موڑ دینا ہے۔ انسان کے اندر رحم کا شدید جذبہ اِس لیے رکھاگیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو آخرت کی تکلیف (other worldly suffering) سے بچانے کی کوشش کرے، لیکن موجودہ زمانے میں رحم کے فطری جذبے کو صرف دنیوی تکلیف (this worldly suffering) کی طرف موڑ دیاگیا ہے۔ ضرورت مند کی بقدر ضرورت مدد کرنا بھی بلاشبہہ ایک قابلِ اجر کام ہے۔ لیکن مدر ٹریسا کی طرح اس کو اپنا مشن بنانا، ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ حاجت مند کی حاجت براری ایک مطلوب کام ہے، لیکن اس کو زندگی کا واحد مشن بنا لینا کوئی مطلوب کام نہیں۔ مومن کا اصل مشن دعوہ ورک ہے، نہ کہ سوشل ورک۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ذر غفاری کی ایک روایت کے مطابق، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر الدجال أخوف علی أمتی (مسند احمد، جلد5، صفحہ
اِس حدیث میں ’’ائمۃ‘‘ سے مراد بعد کے دور کے مسلم علماء اور مسلم قائدین ہیں۔ اُن کے زیادہ خطرناک ہونے کا سبب یہ ہے کہ ایک اور حدیث کے مطابق، دجال کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہوا ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الفتن) یعنی دجال کی گم راہی اتنی زیادہ نمایاں ہوگی کہ سمجھنے والا اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ لے۔لیکن مسلم رہنما اور مسلم قائدین کی غلط رہنمائی کو سمجھنا سخت مشکل کام ہوگا۔ یہ لوگ اسلام اور ملتِ اسلام کے نام سے لکھیں گے اور بولیں گے، وہ بظاہر اپنی بات کے حق میں اسلام کے حوالے دیں گے۔ اِس بنا پر عام لوگ ان کی باتوں کا تجزیہ نہ کرسکیں گے اور ان کو برحق سمجھ کر وہ ان کا ساتھ دینے لگیں گے۔
برائی کی دو قسمیں ہیں — ایک ہے، کھلی برائی (naked evil) ، اور دوسری قسم وہ ہے جس کو مبرّر برائی (justified evil) کہا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم کی برائی کوآدمی معمولی غور وفکر سے جان لیتا ہے، لیکن دوسری قسم کی برائی کوجاننا ایک مشکل کام ہے۔ دوسری قسم کی برائی کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو بہت زیادہ سنجیدہ ہو، جواپنے ذہن کے اعتبار سے سخت محتاط ہو، جو کسی چیز کو ماننے سے پہلے اس کا تجزیہ اور تحقیق کرے ، جو چیزوں کو غیر متعصبانہ ذہن سے دیکھتا ہو، جو اپنے جذبات کو الگ کرکے خالص عقلی بنیاد پر باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے، جو کسی خبر کو اُس وقت تک نہ مانے جب تک وہ غیر جانب دارانہ اسکروٹنی (scrutiny) سے درست ثابت نہ ہو جائے۔ اِس لیے دجال کے شر سے بچنا ممکن ہے، لیکن گمراہ قائدین کے شر سے بچنا سخت مشکل کام ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: دعوۃ المرء المسلم لأخیہ بظہر الغیب مستجابۃ، عند رأسہ ملک موکَّل، کلّما دعا لأخیہ بخیر، قال الملک الموکّل بہ آمین ولک بمثل (کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب) یعنی آدمی جب اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اُس کے لیے دعاء کرتا ہے تو ایسی دعاء قبول ہوتی ہے۔ اس کے پاس ایک فرشتہ موجود رہتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر کی دعاء کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تمھاری دعاء قبول ہو اور اسی کے مثل تمھارے لیے بھی۔
دوسرے کی غیر موجودگی میں اس کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ، ہمیشہ انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتا ہے۔ انسان کے لیے سچی خیر خواہی ایک عظیم عبادت ہے۔
جب بھی کسی آدمی کے اندر دوسرے انسان کے لیے سچی خیر خواہی کاجذبہ ابھرے اور وہ اُس انسان کی غیر موجودگی میں اس کے لیے اللہ سے دعاء کرے، تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ ایسی دعا کبھی ضائع نہیں جاتی۔
لیکن کوئی بھی دعاء سنت اللہ کو منسوخ کرنے والی نہیں بن سکتی۔ دعاء کی قبولیت ہمیشہ سنت اللہ کے مطابق ہوتی ہے۔ جہاں تک دعاء کرنے والے کی ذات کا تعلق ہے، اس کو اپنے جذبۂ خیر خواہی کی بنا پر ضرور ثواب ملے گا۔لیکن جس شخص کے لیے دعاء کی گئی ہے، اُس کے لیے دعاء کی قبولیت اِس پر منحصر ہے کہ وہ شخص واقعۃً خود اپنے اندر اِس کا کتنا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
اللہ کی سنت کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا کہ دوسرا شخص خود اپنی ذات میں قبولیت کا استحقاق نہ رکھتا ہو، اِس کے باوجود اس کو دعاء کا فائدہ حاصل ہوجائے۔ کسی کے لیے دعاء کرنا بلاشبہہ ایک عبادت ہے۔ لیکن کسی کے حق میں دعاء کا قبول ہونا خالص ایک خدائی معاملہ ہے۔ یہ صرف اللہ کو معلوم ہے کہ ذاتی استحقاق کے اعتبار سے کون اِس کا اہل ہے اور کون اِس کا اہل نہیں۔
واپس اوپر جائیں
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہود کا اصل فریضہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے اُس سچائی کا اعلان کریں جو اُنھیں ان کے پیغمبروں کے ذریعے دی گئی ہے۔بائبل (یسعیاہ) میں یہود کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے— خداوند فرماتا ہے، تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا:
“You are my witnesses” says the Lord, “and My servant, whom I have chosen”. (Isaiah: 43: 10)
بائبل کی اِس آیت میں ’’برگزیدہ گروہ‘‘ (chosen people) کا لفظ یہود کے لیے اعزاز کا ٹائٹل (title of honour) کے طور پر نہیں تھا، بلکہ وہ ٹائٹل آف ڈیوٹی (title of duty) کے طورپر تھا۔ اُن کو اللہ نے اِس لیے چنا تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں اور آخرت میں اس کا انعام پائیں۔ لیکن یہود نے یہ کیا کہ انھوں نے دعوت کی ذمے داری کو چھوڑ دیا اور فخر کے طور پر یہ کہتے رہے کہ ہم خدا کے برگزیدہ گروہ ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اِسی یہودی سنت کا اتباع کررہے ہیں۔ قرآن میں امتِ محمدی کے لیے خیرِ امت (آل عمران:110 ) کا لفظ آیا ہے، اور ان کی ذمے داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ہر زمانے میں قوموں کے سامنے خدا کے دین کی گواہی دیں (البقرۃ:
یہ صورتِ حال بے حدتشویشناک ہے۔ قرآن میں صاف صاف یہ اعلان کیاگیا ہے کہ کسی گروہ کے ساتھ اللہ کا کوئی خصوصی رشتہ نہیں۔ چناں چہ فرمایا کہ: نہ مسلمان کی آرزوؤں پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو کوئی بھی برا کرے گا، وہ اس کا بدلہ پائے گا (النساء:
واپس اوپر جائیں
قیامت سے پہلے آخری زمانے میں ایک دور آئے گا جس کو حدیث میں فتنۂ دہیماء کہاگیا ہے۔ فتنۂ دہیماء سے مراد: الفتنۃ السوداء المظلمۃ ہے، یعنی مکمل تاریکی کا فتنہ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو فکری تاریکی (intellectual darkness) کہا جاسکتا ہے۔ فتنۂ دہیماء سے مراد قیامت سے پہلے کا وہ زمانہ ہے جب کہ اشاعتی ذرائع کی کثرت کے نتیجے میںمختلف قسم سے افکار کا جنگل اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔
اِس نازک دور میں اللہ کی سنت کے مطابق، کسی بندۂ خدا کے ذریعے کامل سچائی ظاہر ہوگی۔ بہت سے لوگ جو اِس کامل سچائی کو دلائل کی روشنی میں جانچیں گے، وہ نظری طورپر جان لیں گے کہ یہی خدائی سچائی ہے۔ لیکن خدائی سچائی ہمیشہ انسانوں میں سے کسی انسان کے ذریعے ظاہرہوتی ہے۔ اس لیے نظری اعتراف کے باوجود اُس میں شبہہ کا ایک عنصر (element of doubt) ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ یہ صورتِ حال اہلِ ایمان کے لیے ایک نازک امتحان کا سبب بن جاتی ہے۔
اِس صورتِ حال میں اہلِ ایمان کے لیے بظاہر دو موقف ہوتے ہیں— ایک، یہ کہ وہ نظری اعتراف کے باوجود عملی طورپر غیر جانب داری (indifference) کا رویہ اختیا رکرلیں۔ دوسرا، یہ کہ وہ اجتہاد کریں اور اپنے اجتہاد کے مطابق، جو سچائی ظاہر ہوئی ہے، بھر پور طور پر وہ اس کے ساتھی بن جائیں۔ خالص شرعی اعتبار سے، پہلا موقف اختیار کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ اِس طرح کی صورتِ حال میںغیر جانب داری کا موقف ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے، یقینی طورپر وہ کوئی جائز موقف نہیں۔
اِس طرح کی صورتِ حال میں درست موقف یہی ہے کہ اہلِ ایمان اجتہاد کرتے ہوئے شبہہ کے پر دے کو پھاڑیں اور دوڑ کر سچائی کا ساتھ دیں۔ یہ وہ موقع ہے جب کہ اجتہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اگر آدمی کا اجتہاد درست تھا تو حدیث کے مطابق، اُس کو اللہ تعالیٰ کے یہاں دوہرا اجر ملے گا۔ اور اگر بالفرض اُس نے اجتہادی خطا کی ہے، تب بھی اس کے لیے ایک اجر کی بشارت ہے (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام، باب أجر الحاکم)۔ اجتہادی خطا پر بھی اجر کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کے موقع پر غیر جانب دارانہ رویہ سرے سے جائز ہی نہیں۔ ایسے موقع پر آدمی کو ہر حال میں اجتہادی فیصلہ کرنا ہے، خواہ اس کے لیے اجتہادی خطا کا رِسک (risk) کیوں نہ موجود ہو۔
اِس سلسلے میں ایک متعلق روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: إذا اقترب الزّمان لم تکد رؤیا المؤمن تکذب (کتاب التعبیر، باب القید فی المنام) یعنی جب (قیامت کا) زمانہ قریب آئے تو مومن کا خواب جھوٹا خواب نہیں ہوگا۔
اِس حدیث کی شرح میں ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے کہ: إن المراد بالزمان المذکور زمان المہدیّ (فتح الباری 12/223 ) یعنی اس روایت میں جس زمانے کا ذکر ہے، اُس سے مراد مہدی کا زمانہ ہے۔ اِسی طرح سنن الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں اِس روایت کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: قالوا: یرید بہ زمن خروج المہدیّ(
اصل یہ ہے کہ مہدی کا زمانہ فتنۂ دہیماء کا زمانہ ہوگا۔ اُس زمانے میں افکار کی کثرت کے نتیجے میں حقائق مشتبہ ہوجائیں گے۔ تمام لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ ایسی حالت میں مہدی کے ظہور کے باوجود لوگوں کے لیے مہدی پر یقین کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لوگ دیکھیں گے کہ مہدی جو بات کہہ رہا ہے، وہ پوری طرح مبنی برحق ہے۔ لیکن مہدی عام انسان جیسا ایک انسان ہوگا، اِس بنا پر لوگوں کے لیے شبہہ کا ایک عنصر باقی رہے گا۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید رؤیائِ صادقہ (سچے خواب) کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق، جن لوگوں کے اندر سچی تلاش کا جذبہ ہوگا، اُن کو مہدی کی نسبت سے تائیدی خواب دکھائے جائیں گے۔ یہ خواب گویا کہ مہدی کے حق میں تائید ِ مزید (additional support) کے ہم معنی ہوں گے۔ ایسے خوابوں کو دیکھنے والے اہلِ ایمان یہ یقین کرلیںگے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں مہدی کے لفظ سے کی گئی ہے، اور پھر وہ دل سے اس کے ساتھی بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسانی تاریخ کے دو دور ہیں— قیامت سے پہلے کا دور، اور قیامت کے بعد کا دور۔ قرآن اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت جب قریب آجائے گی تو کچھ کھلی کھلی علامتیں (signs) ظاہر ہوں گی، یہ اِس بات کا اعلان ہو گا کہ انسانی تاریخ کے پہلے دور کا خاتمہ قریب آگیا ہے۔ اِن علامتوں میں سے ایک علامت وہ ہے جس کے لئے قرآن اور حدیث میں دُخان، یعنی دھواں (smoke) کا لفظ آیا ہے، اِس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے: فارتقب یوم تأتی السماء بدخان مبین۔ یغشی الناس، ہذا عذاب ألیم (الدخان:
Watch out for the Day when the sky brings forth plainly visible clouds of smoke. That will envelop the people. This will be a painful punishment. (
اپریل 2010 میں یورپ میں جو واقعہ پیش آیا، وہ غالباً اسی پیشین گوئی کے مطابق تھا۔
یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ آئس لینڈ کا آتش فشانی انفجار وہی دخان تھا جس کی پیشین گوئی قرآن اور حدیث میں بہت پہلے کی گئی تھی۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ غالباً دوسرے نشانات جو حدیث میں بتائے گئے ہیں،وہ ظاہر ہوچکے ہیں۔ دخان کا معاملہ غالباً آخری نشانی سے پہلے کی نشانی (last but one) کا معاملہ ہے اس کے بعد جو نشانی ظاہر ہونے والی ہے، وہ غالباً سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا ہے۔ اس کے بعد غالباً آخری واقعہ ہوگا ، یعنی فرشتہ اسرافیل کا صور پھونکنا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہذا عذاب ألیم۔ یہاں عذاب سے مراد غالباً قیامت کا عذاب نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے لیے قرآن (السجدۃ:
واپس اوپر جائیں
اصحابِ رسول دراصل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان تھے۔ اصحابِ رسول کو قرآن میں خیر ِ امت (آلِ عمران: 110 ) کہاگیا ہے۔ اصحابِ رسول امتیازی اوصاف کے حامل تھے۔ ان کی صفتیں قرآن میں مختلف مقامات پر آئی ہیں۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہاں نقل کی جاتی ہے: محمد رسول اللہ، والذین معہ أشداء علی الکفار رحماء بینہم، تراہم رکّعاً سُجّداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا، سیماہم فی وجوہہم من اثرالسجود، ذلک مثلہم فی التوراۃ۔ ومثلہم فی الإنجیل کزرع أخرج شطأہ فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علی سوقہ، یعجب الزّراع لیغیظ بہم الکفّار، وعد اللہ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات منہم مغفرۃ وأجراً عظیماً (الفتح:
محمد، اللہ کے رسول ہیں۔ جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم ان کو رکوع میں اور سجدہ میں دیکھوگے۔ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے، سجدہ کے اثر سے۔ ان کی یہ مثال تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اُس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹا ہوا اور پھر وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا۔ وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے، تاکہ اُن سے منکروں کو جلائے۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے اُن کے لیے معافی کا اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں اصحابِ رسول کے امتیازی اوصاف کو دو تاریخی پیشین گوئیوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک پیشین گوئی وہ جو تورات میں آئی ہے، اور دوسری پیشین گوئی وہ ہے جس کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔ تورات میں اصحابِ رسول کا پیشگی ذکر اِن الفاظ میں آیا ہے: وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا :
He came with ten thousands of saints (Deuteronomy 33:2)
بائبل کے اِس حوالے کے مطابق، اصحابِ رسول قدسی کردار (saintly character) کے حامل تھے۔ اصحاب رسول کی یہ قدسی صفات مذکورہ قرآنی آیت کے مطابق، حسب ذیل ہیں:
والذین معہ
اِن صفات میں پہلی صفت وہ ہے جس کی طرف ’’معہ‘‘ کے لفظ میں اشارہ کیاگیا ہے، یعنی پیغمبر اسلام ﷺکا ساتھ دینے والے۔ یہ ساتھ انھوںنے کب دیا تھا۔ انھوںنے پیغمبر اسلام کا یہ ساتھ اُس وقت دیا تھا، جب کہ آپ کی ذات کے ساتھ ابھی تاریخی عظمت جمع نہیں ہوئی تھی۔ انھوںنے پیغمبر اسلام کو خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر پہچانا، انھوں نے بظاہر ایک معمولی شخصیت کو غیر معمولی شخصیت کے روپ میں دریافت کیا، انھوں نے تاریخی اعتراف (historical recognition) کے درجے تک پہنچنے سے پہلے آپ کی حیثیت کا اعتراف کیا، انھوں نے دورِ عظمت سے پہلے پیغمبر کو اس وقت پہچانا، جب کہ اُس کی ذات ہر قسم کی ظاہری عظمت سے پوری طرح خالی تھی، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب کو خدا کے نمائندہ کی حیثیت سے دریافت کرکے اُس کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردیا، اصحاب رسول نے ساعتِ عُسرت (التوبۃ:
أشداء علی الکفار
اصحابِ رسول کی دوسری صفت کو قرآن میں ’’أشداء علی الکفار‘‘ کے لفظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اہلِ کفر پر شدید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل کے مقابلے میں غیر اثر پذیر (unyielding) کردار کے حامل تھے، مروّجہ افکار، ان کو متزلزل نہیں کرسکتے تھے، وقت کی غالب تہذیب اُن کو مرعوب کرنے والی نہ تھی، مفادات کا نظام ان کو اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ اصحابِ رسول کی دریافتِ حقیقت اتنی زیادہ گہری تھی کہ وہی اُن کی پوری شخصیت کا واحد غالب عنصر بن گئی۔
رحماء بینہم
اصحابِ رسول کی تیسری صفت کو قرآن میں ’’رحماء بینہم‘‘کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی آپس میں ایک دوسرے کے لیے آخری حد تک ہمدرد اور خیر خواہ ہونا۔ اِس صفت کی غیر معمولی اہمیت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اِس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ اصحابِ رسول کے درمیان وہ تمام اختلافات (differences) موجود تھے جو ہر انسانی گروہ کے درمیان فطری طورپر پائے جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ بنیانِ مرصوص (الصّف: 4 ) کی طرح باہم متحد رہے، انھوں نے اِس صلاحیت کا ثبوت دیا کہ وہ اختلاف کے باوجود آپس میں متحد ہوسکتے ہیں، وہ شکایتوں کے باوجود ایک دوسرے کے خیرخواہ بن سکتے ہیں، وہ منفی اسباب کے باوجود اپنے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ اصحابِ رسول کی یہی صفت تھی جس کی بنا پر وہ توحید پر مبنی وہ انقلاب لاسکے جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔
تراہم رکعاً سجداً
اصحابِ رسول کی چوتھی صفت کو ’’تراہم رکعاً سجداً‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ رسول کامل طورپر اللہ کے آگے جھکے ہوئے تھے، ان کے اندر کامل درجے میں خود سپردگی کا مزاج پیدا ہوگیا تھا، اللہ کی کبریائی کی معرفت ان کو اتنے بڑے درجے میں حاصل ہوئی تھی، جب کہ انسان شعوری طورپر اللہ کی قدرتِ کاملہ کا ادراک کرلیتا ہے اور اس کے اندر اپنے عاجزِ مطلق ہونے کا شعور اِس طرح پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اللہ کے آگے جھک جاتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں اللہ کی بڑائی کے سوا کوئی اور بڑائی باقی نہیں رہتی، اس کا واحدکنسرن (sole concern) اللہ وحدہ لاشریک بن جاتا ہے۔ یہی توحید ِ کامل ہے، اور اصحابِ رسول اِس توحید ِ کامل میں آخری درجے پر پہنچے ہوئے تھے۔
یبتغون فضلاً من اللّٰہ ورضواناً
اصحابِ رسول کی پانچویں صفت وہ ہے جس کو قرآن میں ’’یبتغون فضلاً من اللّٰہ ورضواناً‘‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ رسول کی معرفت نے اُن کے اندر اللہ کی ذات پر کامل یقین پیدا کردیا تھا، وہ اللہ پر کامل اعتماد (confidence) والے بن گئے تھے، وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ دینے والا بھی اللہ ہے اور چھیننے والا بھی اللہ، کامیابی کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ناکامی کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں۔ وہ ہر دوسری چیز سے زیادہ اللہ پر بھروسہ کرنے والے بن گئے تھے، اُن کی امیدیں اور آرزوئیں تمام تر اللہ پر منحصر ہوگئی تھیں۔
سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود
اصحابِ رسول کی چھٹی صفت کو قرآن میں ’’سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصحابِ رسول کی دریافتِ حقیقت نے اُن کے اندر آخری حد تک وہ صفات پیدا کردیں تھیں جن کو سنجیدگی (sincerity) اور تقویٰ اور تواضع (modesty) کہاجاتا ہے۔ یہی کمالِ انسانیت کی پہچان ہے، یہی وہ صفات ہیں جو کسی انسان (man) کو سپر انسان(super man) بناتی ہیں۔ اِن صفات کی حامل شخصیت کو ربانی شخصیت (divine personality) کہا جاتا ہے۔ اصحابِ رسول بلاشبہہ اِن صفات میں کمال درجے پر تھے۔
اِس کے بعد اصحابِ رسول کی اُس خصوصیت کو بیان کیاگیا ہے جس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیح کی زبان سے اِن الفاظ میں آیا ہے: ’’اُس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اُس رائی کے دانے کی مانند ہے جس کو کسی آدمی نے لے کراپنے کھیت میں بودیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے، مگر وہ جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آکر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں‘‘:
Another parable He put forth to them, saying: “The kingdom of heaven is like a mustard seed, which a man took and sowed in his field, which indeed is the least of all the seeds, but when it is grown, it is greater than the herbs and becomes a tree, so that the birds of the air come and nest in its branches”. (Mathew 13: 31-32)
اصحابِ رسول کی جو صفت تورات میں مختصراً اور قرآن میں تفصیلاً بیان کی گئی ہے، اُس کا تعلق اصحابِ رسول کی انفرادی خصوصیات سے ہے۔ یہ اعلیٰ خصوصیتیں ہر صحابی کے اندر کامل درجے میں پائی جاتی تھیں۔ اِن خصوصیات نے ہر صحابی کو، ایک مستشرق کے الفاظ میں، ہیرو (hero) بنا دیا تھا۔
اصحابِ رسول کی دوسری صفت جو انجیل اور قرآن دونوں میںآئی ہے، وہ تمثیل کی صورت میں اُس اجتماعی انقلاب کو بتاتی ہے جو اصحابِ رسول کے ذریعے برپا ہوا تھا۔ یہ تمثیل ایک درخت کی صورت میں ہے۔ اِس درخت کا بیج پیغمبر اسلام کی پیدائش سے ڈھائی ہزار سال پہلے صحرائے عرب میں لگایا گیا تھا۔ اس کا آغاز حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی قربانیوں کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ پودا نسل درنسل بڑھتا رہا۔
اصحابِ رسول اِسی تاریخی نسل کا اگلا حصہ تھے۔ اصحابِ رسول نے غیر معمولی قربانی کے ذریعے یہ کیا کہ انھوں نے توحید کے نظریے کو فکری انقلاب کے دور تک پہنچا دیا۔ اِس فکری انقلاب کے بعد تاریخ بشری میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ بعد کی عالمی تبدیلیاں اِسی انقلابی عمل کا نتیجہ تھیں۔ فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین (وفات: 1935 ) نے اِس انقلابی واقعے کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے — اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا، تاریخ کے روایتی دور کا کامل خاتمہ ہوگیا:
Islam changed the face of the globe, the traditional order of history was overthrown.
یعجب الزرّاع
’’یعجب الزرّاع‘‘کے لفظ میں ایک تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے پہلے کی جو دعوتی تاریخ ہے، اُس میں بار بار ایسا ہوا کہ خدا کے داعیوں نے دعوت کا بیج ڈالا، لیکن وہ بڑھ کر ایک شاداب درخت نہ بن سکا۔ یہ واقعہ پہلی بار اصحابِ رسول کے ذریعے پیش آیا۔ دعوت کے عمل میں یہ ارتقا سارے زمین وآسمان کے لیے بے پناہ مسرت کا باعث تھا،جو دعوتِ توحید کو ایک شاداب باغ کی صورت میں دیکھنے کے لیے ہزاروں سال سے اس کا انتظار کررہے تھے۔
لیغیظ بہم الکفار
’’لیغیظ بہم الکفار‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل جو حق کا فروغ دیکھنا نہیں چاہتے تھے، اُن کے لیے حق کے فروغ کا یہ عظیم واقعہ بے پناہ مایوسی کا سبب بن گیا۔ ان کی ہزاروں سال کی خوشیاں خاک میں مل کر رہ گئیں۔ ان کا یہ حوصلہ آخری طورپر ختم ہوگیا کہ وہ حق کو ہمیشہ مغلوب رکھیں گے اور اس کو کبھی ابھرنے کا موقع نہ دیں گے۔ اِس مایوسی میں دونوں گروہ یکساں طورپر شریک تھے، باطل پرست انسان بھی، اور ابلیس کا دشمنِ حق قافلہ بھی، حق کی یہ کامیابی دونوں ہی کے لیے ان کے منصوبوں کے خاتمہ کے ہم معنی بن گئی۔
ایمان اور عمل صالح
مذکورہ آیت میں آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ— اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ یہ بشارت براہِ راست طورپر اصحابِ رسول کے لیے ہے اور بالواسطہ طورپر قیامت تک کے اُن تمام لوگوں کے لیے ہے جو اصحابِ رسول کے رول کو دریافت کریں اور بعد کے زمانوں میں اس کا تسلسل جاری رکھیں۔ تسلسل کو جاری رکھنے کا یہ عمل کوئی سادہ عمل نہیں ۔ اِس کے لیے ایسے افراد درکار ہیں جن کے اندر تخلیقی فکر ہو اور جن کے اندر مجددانہ صلاحیت ہو۔ بعد کی نسلوں میں جو لوگ ایمان اور عملِ صالح کی اِس اعلیٰ صلاحیت کا ثبوت دیں گے، وہ سب مذکورہ قرآنی بشارت میں شامل ہوتے چلے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
دعوتِ حق کی تاریخ میں دو گروہ کا خاص رول ہے۔ حدیث میں اِن کو اصحابِ رسول، اور اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ان کو العصابۃ فرسٹ اور العصابہ سکنڈ کہاجاسکتا ہے۔ العصابہ فرسٹ (اصحابِ رسول) وہ لوگ تھے جن پر وہ لمبی تاریخ منتہی ہوئی تھی جو حضرت ہاجرہ سے شروع ہوئی اور حضرت محمد پر ختم ہوئی۔ العصابہ سکنڈ (اخوان رسول) وہ لوگ ہوں گے جن پر بعد کی وہ تاریخ منتہی ہوئی ہو جو اسلامی انقلاب کے بعد ساتویں صدی عیسوی سے شروع ہوئی اور بیسویں صدی عیسوی میں ختم ہوئی:
The first al-Isaba was that of Ashab-e-Rasool. They were the culmination of 2500 years of previous history. The second Al-Isaba will be that of Ikhwan-e-Rasool. They will be the culmination of more than 1000 years of later history.
اصل یہ ہے کہ ہر بڑا واقعہ ایک نیا پراسس (process) شروع کرتا ہے۔ یہ پراسس اپنے فطری کورس سے گزرتے ہوئے اپنی انتہا (culmination) تک پہنچتا ہے۔ جو نسلیں اِس پر اسس کے تحت بنیں، جو اِس پراسس کا آخری نتیجہ بن کر ظاہر ہوں، وہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہاجائے گا کہ ان کے اوپر بعد کی تاریخ منتہی ہوئی ہے۔
اِس معاملے کی ایک سیکولر مثال مغربی قومیں ہیں۔ مغرب میں چودھویں صدی عیسوی میں نشأۃ ثانیہ کے بعد ایک پراسس شروع ہواجس کی انتہا بیسویں صدی کا آخر تھا۔ اِس قسم کا پراسس تاریخِ دعوت میں دوبارہ جاری ہوا ہے۔ پہلے پراسس کی انتہا، العصابہ فرسٹ ہیں، اور دوسرے پراسس کی انتہا، العصابہ سکنڈ ہوں گے۔ اصحابِ رسول کے بارے میں حضرت عمر فاروق نے کہا تھا: من سرّہ أن یکون من ہذہ الأمۃ، فلیؤدّ شرط اللّٰہ فیہا۔ یہی معاملہ اخوان رسول کا بھی ہے۔ جو لوگ اس کی شرط پورا کریں گے، وہ اخوانِ رسول کا حصہ قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
بیسویں صدی عیسوی میں انسانی تلاش وجودِ خدا کے موضوع پر مرتکز ہوتی تھی، مگر بیسویں صدی کے خاتمے کے ساتھ ہی اِ س دور کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اکیسویں صدی میں انسانی تلاش کا مرکزی نقطہ خود انسان کا وجود ہے۔ اب سارے غور وفکر کا موضوع انسان بن چکا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے اِس تبدیلی کو جاننا بے حد ضروری ہے۔
وجودِ خدا کی نسبت سے ، انسان کا علم کس آخری منزل تک پہنچا ہے، اِس موضوع پر ماہ نامہ الرسالہ میں مختلف مضامین آچکے ہیں۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو ’’سائنس سے معرفت تک‘‘ (الرسالہ، اگست2009 ) ۔ اب یہ موضوع اصولی طورپر ایک طے شدہ موضوع (settled subject) کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ عملاً اب وہ ماضی کا سبجکٹ ہے، نہ کہ حال کا سبجکٹ۔
اکیسویں صدی کے اہلِ علم اور اہلِ فکر جس سنگین مسئلے سے دوچار ہیں، اس کا تعلق خود انسان کے اپنے وجود سے ہے۔ آج ساری دنیا میں جس موضوع پر سوچا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ— گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے جو زمین پر قائم شدہ لائف سپورٹ کے فطری نظام کو تیزی سے تباہ کررہا ہے۔ مسلّح تحریکوں کے ظاہرہ کا خاتمہ کس طرح کیا جائے جو امنِ عالم کے لیے ایک سنگین چیلنج بنا ہوا ہے، آزادی کے بے قید تصور کو کس طرح قابو میں لایا جائے جس نے دنیا کو عملاً انارکی کا جنگل بنادیا ہے، اسلحہ کی تجارت پر کس طرح کنٹرول کیا جائے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا میں خطرناک ہتھیاراسی طرح خریدے جاسکتے ہیں جس طرح شاپنگ سنٹر میں عام کنزیومر گڈس (consumer goods) ، وغیرہ۔
اِسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے ادارے نے دو کتابیں خصوصی اہتمام کے ساتھ چھاپی ہیں۔ ایک، قرآن کا انگریزی ترجمہ۔ اور دوسرے، پرافٹ آف پیس (The Prophet of Peace)۔ ضرورت ہے کہ اِن دونوں کتابوں کو عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو واٹر مینج مینٹ کہاجاسکتا ہے، یعنی پانی کو انتہائی کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کرنا۔ مدینہ کا واقعہ ہے۔ پیغمبر اسلامﷺنے ایک صحابی سعد کو وضوکرتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے سعد، یہ کیسا اسراف ہے۔ انھوں نے کہا کیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، اگر چہ تم ایک بہتے ہوئے دریا کے کنارے ہو: وإن کنت علی نہر جار(مسند احمد، 4/221)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ پانی نہیں تو زندگی بھی نہیں۔ عبد الرحیم خان خاناں نے بجا طورپر کہاتھا:
رحِمَن پانی راکھیو ، بِن پانی سب سُون!
دنیا میں ایک ارب 40 مربع کلومیٹر پانی ہے۔ اس کا
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کسی برننگ اشو (burning issue)کو لے کر ایک کانفرنس کیجئے اور اُس میں بڑے بڑے لوگوں کو اسٹیج پر بلائیے۔ آپ کی کانفرنس میں لوگ بڑی تعداد میں آئیں گے اور پھر آپ کو موقع ملے گا کہ آپ زیادہ وسیع پیمانے پر اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں۔ آپ کا موجودہ کام فرد پر مبنی کام ہے۔ اِس بنا پر عوام کی بھیڑ آپ کے ساتھ شامل نہیں ہوتی۔
میںنے کہا کہ دعوہ مشن کا نشانہ متلاشی (seeker) انسان ہوتا ہے، نہ کہ بھیڑ یا بڑی بڑی شخصیتیں۔ متلاشی انسان کے لیے سچائی اس کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ بڑی شخصیتوں کے لیے سچائی ان کی ضرورت نہیں ہوتی، اِس لیے یہ لوگ اس کی طرف راغب بھی نہیں ہوتے۔ دعوہ مشن دراصل متلاشی انسان کی تلاش کا دوسرا نام ہے:
Dawah mission is a hunting process to find out the seekers.
قرآن کی سورہ نمبر 80(عبس) میں اس حقیقت کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ ایک بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مکہ کے کچھ سردار موجود تھے۔ آپ اُن سے گفتگو کررہے تھے۔ اِس دوران ایک صاحب آگئے، وہ نابینا تھے۔ ان کا نام عبد اللہ بن ام مکتوم تھا۔ رسول اللہ نے ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ اِس پر یہ سورہ اتری۔ اِس واقعے کے بعد رسول اللہ کا یہ حال ہوا کہ جب عبد اللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس آتے تو آپ اُن کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے اور فرماتے: مرحباً بمن عاتبنی فیہ ربّی (القرطبی، جلد 19، صفحہ
دعوت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر انسان کے لیے ہوتی ہے، لیکن دعوت کا خصوصی نشانہ متلاشی افراد ہوتے ہیں۔ یہی وہ افراد ہیں جن کے اندر نفسیاتِ تجسس پائی جاتی ہے اور جن افراد کے اندر نفسیاتِ تجسس ہو، وہی دعوت پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اور آگے بڑھ کر اس کو قبول کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
توحید کا عقیدہ اسلام میں اساسی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ توحید کے موضوع پر عربی اور دوسری زبانوں میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو پڑھیں تو اُن میں آپ کو غرض و غایت کے اعتبار سے، اِس طرح کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے: علمِ توحید سب سے افضل علم ہے۔ معاذ بن جبل کی مشہور روایت میں توحید کے عقیدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلیت دی تھی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ توحید کا علم سب سے افضل علم ہے، وغیرہ۔
علمِ توحید بلاشبہہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔لیکن عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اہمیت اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ ایک افضل علم ہے۔ علمی اعتبار سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ایک اساسی علم ہے۔ اساسی علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر بقیہ اسلامی اعمال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ توحید کی اساس نہیں تو بقیہ اعمال بھی نہیں۔
توحید محض ایک روایتی عقیدے کا نام نہیں۔ توحید دراصل عظیم ترین فکری انقلاب ہے جو عظیم ترین فکری دریافت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ توحید یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے دریافت کرے۔ اللہ جو پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، اس کی دریافت جب کسی انسان کو ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال پیدا ہوجاتاہے۔ اس کے اندر معرفت کا سمندر ایک طوفان بن کر داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں ایک کامل نوعیت کی تبدیلی آجاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ ایک نیا انسان بن جاتاہے۔ اِسی نئے انسان کا نام مؤحد انسان ہے۔
اسلامی دعوت کے کام کا آغاز یہ ہے کہ انسان کے اندر عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ایک فکری انقلاب برپا کیا جائے۔ اِس فکری انقلاب کے بعدہی ایک انسان موحد انسان بنتا ہے، اور جب اِس انقلابی فکر کے حامل بہت سے افراد پیدا ہوجائیں تو اُن کے مجموعے سے وہ معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کو اسلامی معاشرہ کہاجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کے لیے نظام (system) کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح بیسویں صدی عیسوی میں کچھ مسلم رہنماؤں نے ایجاد کی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات:1762 ) نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ’’فکُّ کلِّ نظام‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن اس جملے میں یقینی طورپر نظام سے مراد اسلامی نظام نہیں ہے۔ اِس میں لفظ ’نظام‘ کو اس کے عمومی معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی تصور کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
گفتند جہانِ ما، آیا بتومی سازد گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
اسلام کی تعبیر نظام سے کرنا کوئی سادہ بات نہیں، یہ دراصل ایک سنگین انحراف کے ہم معنی ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا اتباع جس طرح عقیدہ اور عبادت اور اخلاق کے معاملے میں کرنا ہے، اسی طرح اس کا اتباع قانون اور سیاست کے معاملے میں بھی لازماً کرنا ہے۔ مگر یہ بریکٹ کوئی سادہ بریکٹ نہیں۔ کیوں کہ عقیدہ اور عبادت اور اخلاق کے معاملے میں اسلام کا اتباع ایک شخص صرف اپنے ذاتی فیصلے کے تحت کرسکتا ہے۔ لیکن قانون اور سیاسی اقتدار کے معاملے میں اسلام کا اتباع اول دن ہی سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ کیوں کہ سیاسی اقتدار ہمیشہ کسی کے ہاتھ میں ہوتاہے، اور اسلام کو ’’کامل نظام‘‘ کے طور پر نافذ کرنے والوں کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ سیاسی حاکموں کو اقتدار سے بے دخل کریں اور ان کی جگہ مسلم اقتدار کو قائم کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی نظامی تعبیر، اسلام کی متشددانہ تعبیر کا خوب صورت نام ہے۔ اِس تعبیر کے لازمی نتیجے کے طورپر یہ ہوتا ہے کہ مفروضہ باطل پسندوں کے خلاف نفرت کا مزاج بنتا ہے، اُن کے خلاف تشدد کا کلچر وجود میں آتا ہے، دوسروں کے خلاف جارحیت کی فضا قائم ہوتی ہے اور آخر کا یہ معاملہ خود کش بم باری (suicide bombing) تک پہنچ جاتا ہے۔ اسلام کی نظامی تعبیر میں انتہا پسندی، نفرت، ٹکراؤاور تشدد اِس طرح شامل ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں
دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انسان کے لیے اپنی خیر خواہی کا اظہار ہے۔ داعی وہی شخص بن سکتا ہے جس کے دل میںانسان کے لیے کامل خیر خواہی پائی جائے۔ یہ خیر خواہی یک طرفہ خیر خواہی ہوتی ہے۔ جو داعی، انسان کے لیے یک طرفہ خیر خواہ نہ ہو، وہ کچھ اور ہوسکتا ہے، مگر وہ داعی نہیںہوسکتا۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔
انسان کے حق میں اپنی یک طرفہ خیر خواہی کو برقرار رکھنے کے لیے انسان کو مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیش آمدہ افکار اور واقعات کی ایسی توجیہہ تلاش کرے جو اُس کو کامل طورپر منفی سوچ سے بچائے اور اس کی مثبت مزاجی (positivity) کو مسلسل طورپر برقرار رکھے۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانے میں نوآبادیات (colonialism) کا زمانہ آیا۔ اُس زمانے میں سید جمال الدین افغانی (وفات:1897 ) موجود تھے۔ وہ اِس ظاہرے کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے۔ چناں چہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے مسلم علماء اور رہنما منفی سوچ کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اِس طرح وہ داعی کے رول کے لیے نا اہل بن گئے۔
یہی معاملہ دوسرے تمام پہلوؤں سے ہوا ہے۔ موجودہ زمانے میں وطن پر مبنی قومیت (land-based nationality) کا نظریہ پیدا ہوا تو ڈاکٹر محمد اقبال (وفات:1938 ) اس کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے اور منفی رد عمل کے طورپر انھوںنے یہ اعلان کیا کہ:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
اِسی طرح موجودہ زمانے میں جدید جمہوریت (democracy) کا سیاسی نظریہ پیدا ہوا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (وفات:1979 ) اس کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے اور اس کو لادینی جمہوریت قرار دے کر اُس کے مخالف بن گئے۔ اِس طرح اپنی اِس منفی سوچ کی بنا پر وہ جدید جمہوری دور میں داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
اِسی طرح مصر میں جمال عبد الناصر (وفات: (1970 کی قیادت میں سیکولربعث پارٹی حکمراں بن گئی۔ سید قطب (وفات: 1966 ) اِس ظاہرے کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے۔ اپنے منفی ذہن کی بنا پر انھوںنے اس کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ اِس طرح وہ جدید سیکولر دور میں داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
اِسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا سپر پاور بن کر ابھرا۔ اس نے دوسرے ملکوں میں مداخلت کی سیاست شروع کی تو ساری دنیا کے مسلم ذہن اس کے مقابلے میں منفی رد عمل کا شکار ہوگئے، وہ اِس جدید ظاہرے کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام مسلمانوں نے امریکا کو اسلام کا دشمن نمبر ایک (عدو الإسلام رقم واحد) سمجھ لیا۔ اِس طرح وہ جدید دور میں داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہے، وغیرہ۔
داعی کو دوسرے انسانوں کے درمیان دعوت الی اللہ کا کام کرنا پڑتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام مکمل خیر خواہی کی بنیاد پر انجام پاتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں ہر فرد اور ہر گروہ کو آزدی حاصل ہے۔ اِس بنا پر لوگوں کی طرف سے بار بار ایسے قول اور فعل کا مظاہرہ ہوتا ہے جو داعی کے اندر منفی ذہن پیدا کردے۔ یہ صورتِ حال ہمیشہ پیش آتی ہے۔ اِس میں کسی دور یا کسی گروہ کا کوئی استثناء نہیں۔
اِس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ داعی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ ہر ناخوش گوار واقعے کی فوری طورپر مثبت توجیہہ تلاش کرلے اور اِس طرح وہ اپنے مثبت ذہن کو مسلسل طورپر باقی رکھے۔ داعی کی شخصیت کامل طورپر ایک مثبت شخصیت ہوتی ہے۔ داعی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اس کی مثبت شخصیت میں ادنیٰ ایروژن (erosion) پیدا ہو۔
حق کی دعوت کسی اعلان (announcement) کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ مدعو کے حق میں خیرخواہی کے اظہار کا نام ہے۔ یہ خیر خواہی کامل اور غیر مشروط درجے میںہونی چاہیے۔ خیر خواہی میں ادنی کمی بھی داعی کو اِس کے لیے نااہل بنادیتی ہے کہ وہ دعوتِ حق کا مطلوب رول ادا کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے یہودیوں کی سب سے بڑی تحریک وہ ہے جس کو صہیونیت (Zionism) کہاجاتا ہے۔ یہ تحریک 1897 میں شروع ہوئی۔ اس کا مقصد تھا — فلسطین میں دوبارہ یہودی ریاست قائم کرنا:
Zionism: Political and cultural movement seeking to re-establish Jewish national state in Palestine.
دوسرے لفظوں میں یہ کہ صہیونیت، زمین مرکزی سیاست (land-based politics) کا دوسرا نام ہے۔ موجودہ زمانے کے یہودی اپنی تمام طاقت، اپنا تمام سر مایہ، اپنے تمام وسائل اِس سیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، اِسی یہودی اُسوہ کا اتباع کررہے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سرگرمی براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر اِسی مبنی برزمین سیاست (land-based politics) کا نمونہ ہے۔ ہر جگہ کے مسلمانوں نے اِسی قسم کی تحریک چلائی کہ وہ زمین کے ایک خطے پر قبضہ کریں اور وہاں اپنی حکومت قائم کریں۔ پاکستان، فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، اراکان، فلپائن، سنکیانگ، وغیرہ۔ ساری دنیا کے مسلمان اِس مبنی بر زمین سیاست میں یا تو عملاً شریک ہیں، یا وہ اِس انداز میں سوچتے ہیں، یا اپنی تقریر اور تحریر میں اِسی کا چرچا کرتے ہیں۔
یہ بلاشبہہ یہودی طریقہ کا اتباع ہے۔ اِس قسم کے قومی اور سیاسی جھگڑے، خواہ وہ اسلام کے نام پر کئے جائیں، لیکن وہ اسلام نہیں۔ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی سیاست ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی کی سرگرمیاں ہیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اِس قسم کی قومی اور سیاسی سرگرمی کو مطلق طورپر ترک کردیں، وہ اپنے ملی عمل کی ازسرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ اِس قسم کی قومی سیاست کا کوئی مثبت انجام نہ اب تک برآمد ہوا ہے اور نہ آئندہ برآمد ہونے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں
جب اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان (آدم)کو پیدا کیا تو اُس وقت دو اور مخلوق، جنات اور فرشتے، موجود تھے۔ اللہ نے دونوں سے کہا کہ تم انسان کے آگے جھک جاؤ۔ فرشتے جھک گئے، لیکن جن کا سردار ابلیس نہیں جھکا۔ یہ ایک مظاہرہ تھا۔ اِس کے ذریعے انسان کو بتایا گیا کہ ماننے کا مزاج ملکوتی مزاج ہے اور نہ ماننے کا مزاج شیطانی مزاج۔ کسی کی بڑائی کا اعتراف کرکے آدمی فرشتوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور بڑائی کا اعتراف نہ کرنے سے وہ شیطان کی جماعت کا ممبر بن جاتا ہے۔
آغازِ تخلیق میں ابلیس نے کہا تھا کہ میں تمام انسانوں کو بہکاؤں گا، یہاں تک کہ وہ میرے راستے پر چلنے لگیں گے۔ ابلیس کا یہ اعلان بہت زیادہ سنگین ہے۔ وہ اِس دنیا میں کسی انسان کے لیے صحیح اور غلط کا معیار بتا رہا ہے۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانچے اور دیکھے کہ وہ اپنی زندگی میں فرشتوں کے راستے پر چل رہا ہے، یا ابلیس کے راستے پر۔
خالق نے اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنایا ہے کہ لوگوں کے درمیان برابری نہیں ہے۔ مختلف پہلوؤں سے لوگوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، کوئی کم ہے او رکوئی زیادہ۔ یہ صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے لیے آزمائش ہے۔اِس دنیا میں ہر ایک کا سابقہ کہیں نہ کہیں کسی ایسے انسان سے پیش آتا ہے جو کسی پہلو سے اس کے مقابلے میں بڑائی رکھتا ہو۔ یہ بڑائی خدا کی دی ہوئی ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ ایسے ہر موقع پر وہ کھلے طورپر دوسرے انسان کا اعتراف کرے۔ یہ اعتراف اُس کے لیے سب سے بڑی نیکی کے ہم معنیٰ ہے۔
بڑائی کے انکار کی دو صورتیں ہیں— ایک یہ کہ براہِ راست طورپر اس کا انکار کیا جائے۔ دوسرا طریقہ بالواسطہ انکار کاطریقہ ہے، یعنی ایک ایسی بات کہنا جس سے بالواسطہ طورپر دوسرے انسان کی بڑائی کی نفی ہوتی ہو۔ یہ دونوں طریقے یکساں طورپر برے طریقے ہیں، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
اردو زبان کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب (وفات:1869 ) نے کہا تھا:
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
غالب نے اِس کو شاعرانہ انداز میں کہا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فطری قانون ہے۔ زندگی میں جب کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو وہ مزید حرکت کا سبب بن جاتی ہے۔
مثال کے طورپر سواریوں کے سفر کے لیے جو سڑک بنائی جاتی ہے، وہ شیشہ کی طرح بالکل ہموار نہیں ہوتی، بلکہ اس کی سطح پر ناہمواریاں ہوتی ہیں۔
اگر یہ ناہمواریاں نہ ہوں تو سڑک پر سواریاں نہ دوڑ سکیں۔ اِسی لیے سڑک اِس طرح بنائی جاتی ہے کہ اس کی سطح پر مسلسل مزاحمت یا فرکشن موجود ہو:
Road suface is made uneven to create friction.
کامیابی کا یہ اصول جس طرح مادی سفر کے لیے ہے، اِسی طرح وہ ذہنی سفر کے لیے بھی ہے۔ سڑک کے سفر کے لیے اس کو فرکشن (friction) کہاجاتا ہے، اور ذہنی سفر کے معاملے میں اِسی کا نام فکری چیلنج (intellectual challenge) ہے۔
مزاحمت کے بغیر سڑک کی سطح پر سواریاں دوڑ نہیں سکتیں۔ اِسی طرح فکری چیلنج کے بغیر ذہنی ارتقا کا سفر بھی کامیابی کے ساتھ جاری نہیں ہوسکتا۔
فکری چیلنج انسان کے ذہنی کو متحرک کرتا ہے، وہ سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کردیتا ہے۔ فکری چیلنج آدمی کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
فکری چیلنج ہی کا نتیجہ ہے کہ آدمی نئی باتوں کو دریافت کرتا ہے۔ فکری چیلنج اِس بات کا ضامن ہے کہ آدمی کا ذہنی سفر ہمیشہ جاری ہے، وہ کبھی جمود کا شکار نہ ہو۔ اِس فکری چیلنج کا تعلق خالص ذہنی ترقیوں سے بھی ہوتا ہے اور اُن ترقیوں سے بھی جن کو مادی ترقی کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
1947 سے پہلے ہندستان میں برٹش راج تھا۔ وہ دو سو سال تک قائم رہا۔ اُس زمانے میںایک تعلیم یافتہ مسلمان تھے۔ وہ اُس وقت ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ بظاہر اُن کو تمام دُنیوی چیزیں ملی ہوئی تھیں۔
اُن کے یہاں تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ اُن کا نام انھوںنے فرحت اور راحت اور عشرت رکھا۔ اِس واقعے کو لے کر ایک شاعر نے اُن کے بارے میں یہ شعر کہا تھا:
فرحت و راحت وعشرت ہمہ فرماں بردار
مگر یہ صورت حال دیر تک قائم نہیں رہی ۔ اگست 1947 میں ملک کی تقسیم ہوئی۔ اِس کے بعد ان کا خاندان بکھر گیا۔ وہ لوگ مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے۔ یہ پریشانی پھر کبھی ختم نہ ہوسکی۔ خاندان کا ہر فرد مایوسی کا شکار ہو کر مرگیا۔
یہی اِس دنیا میں کم و بیش ہر عورت اور ہر مرد کا حال ہے۔ انسان ہر قسم کی خواہشوں سے بھر ہوا ہے۔ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کرکے کامل مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان اپنے آپ میں مجسم مسرت (pleasure incarnate) ہے۔
لیکن اِسی کے ساتھ دوسری سنگین حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اِس دنیا میں اپنی مسرتوں کی تکمیل نہیں کرپاتا۔ ہر شخص مسرت کی تلاش میں سرگرم رہتاہے، لیکن ہر شخص مسرت کو حاصل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق نے انسان کو مسرت کا متلاشی بنایا، لیکن خالق نے موجودہ دنیا میں مسرت کے حصول کا موقع اُس کے لیے نہیں رکھا۔
انسان کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موجودہ دنیا میں خواہش (desire) کا تجربہ کرے، اور خواہشوں پر کنٹرول کرکے اس کی تکمیل (fulfillment) کے لیے وہ موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا کا انتظار کرے— اِسی دریافت کا نام کامیابی ہے، اور اِسی دریافت سے محرومی کا نام ناکامی۔
واپس اوپر جائیں
مرد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایگوئسٹ(egoist) ہوتا ہے۔ عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اموشنل (emotional) ہوتی ہے۔ یہ دونوں صفتیں پیدائشی صفتیں ہیں۔ اِن کو بدلنا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔ اگر آپ اِس حقیقت کو جان لیں تو آپ کے لیے عورت اور مرد دونوں کے ساتھ معاملہ(deal) کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس کا مختصر فارمولا یہ ہے کہ مرد کے ایگو کو ٹچ (touch) نہ کیجئے، اور عورت کے اموشن (emotion) سے نہ ٹکرائیے۔ یہی فارمولا خاندانی زندگی میں بھی کار آمد ہے اور سماجی زندگی میں بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں معاملات ہمیشہ ٹکراؤ کی بنا پر بگڑتے ہیں۔ ٹکراؤ سے اعراض کرنا ہی پُرعافیت زندگی کا واحد کامیاب فارمولا ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور فارمولا عملی طورپر اِس دنیا میں ممکن نہیں۔ اِس فارمولے کو ایک لفظ میں ٹکراؤ مینج مینٹ (conflict management) کہاجاسکتا ہے۔
ٹکراؤ سے اعراض کرنا، صرف ایک اخلاقی معاملہ نہیں، یہ خود اپنی تعمیر (self development) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جب آپ ٹکراؤ سے بچتے ہیں تو نتیجے کے اعتبار سے اِس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا وقت بچایا، آپ نے اپنی توانائی بچائی، آپ نے اپنا مال بچایا، آپ نے اپنے آپ کو اِس قابل بنایا کہ کسی وقفے کے بغیر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھیں۔ آپ غیر ضروری طورپر ذہنی تناؤ (tension) کا شکار نہیں ہوئے، آپ نے اپنے ذہن کو کامل طور پر مثبت سوچ کے لیے فارغ رکھا، وغیرہ۔
کامیاب زندگی پچاس فی صد خود اپنے استعمال کا نام ہے، اور بچاس فی صد دوسروں سے موافقت (adjustment) کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک اٹل فطری قانون ہے، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔ کامیابی کے لیے دونوں ہی چیزیں یکساں طورپر ضروری ہیں۔
جو انسان اِس تقسیم پر راضی نہ ہو، اس کو اپنے لیے ایک اور دنیا کی تخلیق کرنا چاہئے، کیوں کہ موجودہ دنیا میں اِس کے سوا زندگی کی کوئی اور صورت ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
گل برگا (کرناٹک) کے ایک صاحب نے اپنے ایک خط (10 فروری 2010 ) میں اپنا ایک واقعہ لکھا ہے۔ یہ واقعہ انھیں کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ایک غلط پروپیگنڈے کی بنا پر مجھ کو تین ماہ سروس سے معطل ہونا پڑا۔ لیکن اِس دوران نہایت صبر واستقلال کے ساتھ غیر ضروری باتوںسے اعراض کرتے ہوئے بلا طلبِ حجت یک طرفہ طورپر’’میں غلطی پر تھا‘‘ کے مشورے پررجوع بکار ہوا۔ اِس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ مجھ کو سروس سے برخاست کرنے کے لیے جو طریقے اپنائے گئے تھے، وہ بالکل ناکام ثابت ہوئے، اور میں پہلے سے زیادہ مضبوط طورپر اپنی جگہ واپس آگیا۔ یہ بلاشبہہ الرسالہ کی فکری پالیسی کا نتیجہ تھا‘‘۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نزاعی مسائل کا حل کیا ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ صبر کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خاموش ہوجائیں اور صرف دعاء کریں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد آپ کا مسئلہ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہوگیا ہے۔
نزاع کے موقع پر جب ردعمل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کے اندر ضد اور انانیت جاگ پڑتی ہے۔ اِس طرح مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
اِس کے برعکس، اگر آپ خاموشی اختیار کرلیں اور دعاء کریں تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ فریقِ ثانی کا ضمیر جاگ اٹھے گا۔ اِس کے بعد وہ معاملے پر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچنے لگے گا، یہاں تک کہ عین ممکن ہے کہ اس کو خود اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اعلان کے ساتھ یا بلا اعلان خود ہی معاملے کو ختم کردے۔
صبر کا طریقہ فرشتے کو آپ کا مددگار بنا دیتا ہے۔ اِس کے برعکس ، جب آپ بے صبری کا طریقہ اختیار کریں تو شیطان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ معاملے کو زیادہ سے زیادہ بگاڑے، یہاں تک کہ آپ کو تباہی کے کنارے پہنچادے۔ جوآدمی اِس راز کو سمجھ لے، وہ کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
ڈسپلن (discipline) کا مطلب انضباط ہے۔ ڈسپلن کو ایک لفظ میں انضباطی کردار (controlled behaviour)کہہ سکتے ہیں۔ڈسپلن کا تعلق دراصل اجتماعی زندگی سے ہے۔ سادہ طورپر کہہ سکتے ہیں کہ ڈسپلن کا مطلب ہے— عملی زندگی میں دوسروں کی رعایت کرنا۔
زندگی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی صرف اپنے آپ کو جانے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق، زندگی گزارے۔ اُس کے اندر دوسروں کی پروا کرنے کا مزاج نہ ہو۔ ایسی زندگی ڈسپلن کے خلاف زندگی ہے۔اِس کے برعکس، دوسرا انسان وہ ہے جو دوسروں کی رعایت کرنا جانتا ہو، جو اپنی گفتگو اور اپنے سلوک میں ہمیشہ یہ دھیان رکھے کہ دوسروں کے اوپر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ اس کی کسی بات پر دوسرا شخص ناگواری کا اظہار کرے تو وہ فوراً اپنی غلطی کو مانتے ہوئے اپنی اصلاح کرے— یہ ڈسپلن کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔
ڈسپلن کوئی سادہ چیز نہیں۔ ڈسپلن دراصل کائناتی اخلاق کا دوسرا نام ہے۔ وسیع خلا میں سیارے اور ستارے مسلسل طورپر حرکت کرتے ہیں، لیکن اُن میں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا، جنگل میں مختلف قسم کے جانور رہتے ہیں، لیکن ہر ایک اپنی جبلّت (instinct)کی کامل طور پر پابندی کرتا ہے۔ یہی وہ پابند کردار ہے جس کو انسانی زندگی کے اعتبار سے ڈسپلن کہا جاتا ہے۔
یہ ڈسپلن بے حد ضرور ی ہے۔ یہ آدمی کی شرافت کی پہچان ہے۔ یہ کسی آدمی کی بلند اخلاقی کو بتاتا ہے۔ ڈسپلن کے ساتھ جینے والا انسان ہی دراصل کامل معنوں میں انسان ہے۔ جو شخص ڈسپلن سے خالی ہو، وہ گویا کہ اعلیٰ انسانی اخلاق سے خالی ہے۔ یہ ڈسپلن کسی کے اندر خا رجی ضوابط سے نہیںپیدا ہوتا، وہ آدمی کے داخلی احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ ڈسپلن کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے معاون بنے، اور ڈسپلن کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے لیے زحمت (nuisance) پیدا کرنے کاباعث نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
میں آپ کے قول وفکر سے بہت متاثر رہا ہوں۔ یہ اِس بنا پر کہ میں نے آپ کی تحریرکی ہوئی باتیں آپ کے ماہنامہ الرسالہ میں پڑھی ہیں۔ میں نے آپ کی بتائی ہوئی اچھی باتیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں نے پایا ہے کہ میرے اطراف کے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کے بارے میںاچھی رائے نہیں رکھتے۔ جب میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو وہ مجھے کوئی قابلِ قبول وجہ نہیں بتاسکے۔ صرف سنی سنائی باتوں کا ایسے لوگ ذکر کرتے ہیں۔ میں ان سے کہتا رہا ہوں کہ وہ خود اپنا کوئی ذاتی تجربہ یا مشاہدہ بتائیں تو وہ بتانے سے قاصر رہے ہیں۔ اس طرح میں ان کو نظر انداز کرکے خاموشی سے تعمیری سوچ اور کام میں لگا رہا ہوں۔
میرا ایک مشاہدہ آپ کے بارے میں ایسا ہوا ہے جو میری سمجھ سے غیر مناسب ہے اور آپ جیسی شخصیت سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔کل کے اخبار (The Hindu, Aug. 7, 2009) میں آپ آڈوانی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ’’میرا وطن میری زندگی‘‘ کے Release Function میں شامل ہیں۔ ایک طرح سے یہ اُس شخصیت کا endorsement ہے جس کی لکھی ہوئی یہ کتاب ہے۔ اس مصنف کی جو قدریں (values) ہیں، وہ اس کے قول اور اُس سے زیادہ اس کے عمل اور کردار سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کے بارے میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
میرا تجربہ ہے اور دانش مندوں کی کہاوت ہے کہ خود غرض اور ظالم کی دوستی فائدہ مند نہیں ہوتی، خواہ وہ ظالم آپ پر مہربان ہو۔ ایسے لوگوں کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کرنا چاہئے۔ اگر کسی وجہ سے ایسی دعوت قبول کرنا بھی پڑے تو ایسے موقع پر اپنی بات پوری وضاحت اور مضبوطی سے کہنا چاہیے۔ تاکہ negative values کا endorsement نہ ہونے پائے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اِس معاملہ میں آپ وضاحت کریں اور میری غلط فہمی دور کریں۔ (ایم اے صدیقی ، کان پور)
جواب
اصل یہ ہے کہ کسی واقعہ کو دیکھنے کے دو زاویے(angles) ہوتے ہیں ۔ ایک، مثبت زاویہ اور دوسرا منفی زاویہ۔ ایک واقعہ مثبت زاویہ سے دیکھنے میں صحیح واقعہ نظر آئے گا۔ اسی واقعہ کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو وہ منفی واقعہ بن جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صلح حدیبیہ پیش آیا۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمر فاروق نے منفی زاویہ سے دیکھا تو ان کو وہ پسپائی کا ایک واقعہ نظر آیا۔ انھوں نے کہا کہ: لم نعطی الدنیۃ فی دیننا(الأوسط فی السنن، رقم الحدیث:
آپ کی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے مذکورہ اجتماع میں میری شرکت کو دوستی کے زاویہ سے دیکھا اور اس کو صاحب کتاب کاendorsement سمجھ لیا۔ آپ کے لیے صحیح یہ تھا کہ آپ اس کو دعوت کے زاویہ سے دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ مذکورہ اجتماع میں میری شرکت ایک صحیح اور باعثِ ثواب معاملہ تھا ۔ جو شخص بھی ،ماہ نامہ الرسالہ اور اس کا خبر نامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ مذکورہ واقعہ کوئی استثنائی واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ بہت سے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ تھا۔
میں اور میرے ساتھی دعوت الی اللہ کا مشن چلارہے ہیں۔ یہ مشن ایک مبنی بر لٹریچر مشن ہے۔ ہم مسلسل یہ کررہے ہیںکہ انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر ہونے والے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں۔ وہاں ہم لوگوں کے درمیان اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم ہر مذہب اور ہر گروہ اور ہر پارٹی کے اجتماعات میں جاتے ہیں۔ اگر ہم آپ کے بیان کردہ زاویے سے چیزوں کو دیکھیں تو ہم دعوت کے مواقع (opportunities) کو استعمال نہ کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں گناہ گار ثابت ہوںگے۔
ہمارایہ طریقہ پیغمبر کی سنت کے عین مطابق ہے۔ حضرت یوسف نے قدیم مصر میں وہاں کے بادشاہ کے ایڈمنسٹریشن میں ایک ذمّہ دارانہ عہدہ قبول کیا، حالاں کہ یہ بادشاہ ایک مشرک بادشاہ تھا۔ حضرت یوسف اگر اس معاملہ کو (شرک) کے زاویے سے دیکھتے تو وہ بادشاہ کے ایڈمنسٹریشن میں شرکت نہ کرتے۔ مگر آپ نے اس کو اپنے دعوتی مشن کی حیثیت سے دیکھا اور قبول کرلیا۔
اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ اپنی نبوت کے ابتدائی زمانہ میں
ہم نے اپنے دعوتی مشن میں اسی پیغمبرانہ طریقہ کو اختیار کیاہے۔ ہم لوگوں کو دشمن اور دوست کے اعتبار سے نہیں دیکھتے۔ ہم ہر انسان کو صرف انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ہر عورت اور ہر مرد کو ہم حق کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم ہر اجتماعی موقع پر جاتے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن کا ترجمہ او ردوسری اسلامی کتابیں ہوتی ہیں ان کو ہم ایک ایک شخص تک پہنچاتے ہیں۔مذکورہ اجتماع میں پورے انڈیا کے تقریباً تمام ٹاپ کے کٹر ہندو لیڈر موجود تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر اُن لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ الناس أعداء ما جہلو کی مثال ہے۔ جو لوگ دعوت کے فرض سے غافل ہیں، جو یہ نہیں سمجھتے کہ مسلمان کا دوسرے انسانوں سے تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے ،وہ اس معاملے میں غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔وہ انسانوں کو دوست اور دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ کسی کو اپنا اور کسی کو غیر سمجھتے ہیں۔ وہ کسی سے محبت کرتے ہیں ا ور کسی سے نفرت۔ ایسے لوگ ایک داعی کی پوزیشن کو سمجھ نہیں پاتے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ ہمارے بارے میں کسی انگریزی یا ہندی اخبار میں ایک خبر پڑھ کر رائے نہ بنائیں بلکہ خود ہماری تحریروں کو پڑھ کر ہمارے بارے میں رائے بنائیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی مذکورہ قسم کی غلط فہمی نہیں ہوگی۔
سوال
قرآن کی تین آیتوں کے بارے میں استفسار مطلوب ہے۔ براہِ کرم، جواب دے کر ممنون فرمائیں:
1 - ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اقتدار دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جما دے گا، جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں‘‘ (النور:
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت فی الارض کا وعدہ ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی انعام ہے جو ایمان اور عمل صالح کے حقیقی تقاضوں کو پورا کریں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے نہ صرف بڑے حصے پر بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں مسلمان آباد ہیں اور ان کی حکمرانی بھی ہے، اُس پر ان عالمی طاقتوں کا قبضہ اور غلبہ ہے جو حقیقۃً ایمان اور عمل صالح سے محروم ہیں،بلکہ بعض ممالک ایسے بھی ہے جیسے روس، چین، جاپان، وغیرہ نہ صرف ایمان اور عمل صالح سے تہی دامن ہیں، بلکہ وہ خدا کے وجود کے بھی قائل نہیں ہیں۔ لیکن اس کے برعکس خود کو صاحب ایمان بتانے والے لوگ موجودہ دور میں ان عالمی طاقتوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہیں اور وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کے محتاج اور دست نگر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر خلافت فی الارض محض خدائی انعام ہے اور یہ انھیں لوگوں کو ملنے والا ہے جو ایمان اور عمل صالح کی روش کو اختیار کریں تو پھر جو قومیں سرے سے ایمان اور عمل صالح کے تصور سے عاری ہیں، ان کو استحکام کس بنیاد پر ملا ہوا ہے ۔
2 - قرآن میں ایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ان کو سونے کے وقت، پھر وہ ان کو روک لیتا ہے جن کی موت کا فیصلہ کرچکا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے رہا کردیتا ہے، بے شک ا س میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں‘‘ (الزمر:
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کی موت اس کی نیند کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لئے موت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ رات کو جب سوئے گا تو اگلے دن وہ نہیں اٹھے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نیند کی حالت میں کسی کی موت کا واقعہ ہونا بہت ہی شاذ ونادر ہے۔ عام طورپر لوگوں کی موت جاگتے ہوئے آتی ہے۔ اس کے علاوہ حادثات وغیرہ بھی زیادہ تر دن میں ہی ہوتے ہیں۔آیت کا صحیح مفہوم جاننے کے لئے میں آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
3 - قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہواہے: ألم تروا کیف خلق اللہ سبع سموات طباقا (نوح:
سوال یہ ہے کہ جب سات آسمان تہ بہ تہ نظر نہیں آتے تو پھر اس کو مخاطب کس طرح تسلیم کرے گا۔ کیوں کہ سات آسمانوں کو تہ بہ تہ دیکھنا نہ صاحب ایمان کے لیے ممکن ہے اور نہ منکرین حق کے لیے ۔ تاہم اگر اس رویت سے رویت ِ عینی مراد لی جائے تو پھر اس کوعمومی طورپر سمجھنا مشکل ہے۔لیکن اگر اس سے رویت قلبی مراد لی جائے اور اسلوب بیان کو محاورات عرب پر محمول کیا جائے تو اس آیت کو دلیل بنا کر پیش کرنے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ تقریباً دو سوسال سے فلکیات سے متعلق ہونے والی تحقیقات کے باوجود ابھی ہم اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ تاہم اگر چہ پچھلی چند دہائیوں میں فلکی طبیعات کے سلسلے میں چند انتہائی دلچسپ دریافتیں ضرور ہوئی ہیں اور ان سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہوئی ہے۔مگر جس زمانے میں یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، اس زمانے میں سائنسی تحقیقات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اس صورت حال میں قرآن کے اولین مخاطب کے لیے سات آسمانوں کا تہ بتہ ہونا کیسے سمجھ میں آسکتا تھا اور وہ ان کو دلیل کے طورپر کیسے دیکھ یا جان سکتے تھے۔ جب کہ موجودہ دور میں بھی کسی آدمی کے لئے راست انداز میں سات آسمانوں کا مشاہدہ اور نظارہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ میں قرآن کی اِس آیت کا مفہوم آپ سے جاننا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنے جواب سے ضرور نوازیں گے (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر)
جواب
1 - خلافتِ ارضی کسی گروہ کا حق (right) نہیں ہے، نہ مسلم گروہ کا اور نہ غیر مسلم گروہ کا۔ خلافتِ ارضی کا فیصلہ اللہ کی ایک سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ سنت اصلاً تعمیر ِ دنیا کے اصول پر قائم ہے۔ جس گروہ کے اندر مقابلۃً تعمیر دنیا کی زیادہ صلاحیت ہو، اس کو زمین کی خلافت عطا کی جاتی ہے۔ کسی مفسد گروہ کے لیے کبھی خلافتِ ارضی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اگر دنیا میں دوگروہ ہوں اور دونوں تعمیر ِ دنیا کی تقریباً یکساںصلاحیت رکھتے ہوں، تو اُس گروہ کو ترجیح دی جائے گی جو تعمیر دنیا کے ساتھ ایمان کی صفت اپنے اندر رکھتا ہو، بصورتِ دیگر خلافت ِ ارضی کا فیصلہ غیر مومنین کے لیے کردیا جائے گا۔ موجودہ زمانے میں جن گروہوں کو خلافتِ ارضی حاصل ہے، ان کے بارے میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ مقابلۃً تعمیر دنیا کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
جہاں تک موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا معاملہ ہے، وہ نہ صرف یہ کہ تعمیر ِ دنیا کی صلاحیت سے محروم ہیں، بلکہ وہ اپنے ایمانی زوال کی آخری حد پرپہنچ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں اقبال کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے:
تیرے محیط میں کہیں، گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
واضح ہو کہ عمل صالح سے مراد صرف عبادتی عمل نہیں ہے۔ اس میں وہ چیز بھی شامل ہے جس کے لیے ہم نے تعمیر دنیا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شخصی نجات کے لیے ایمان اور اخلاص کافی ہے، لیکن خلافتِ ارضی کا فیصلہ صرف ایمان اور اخلاص کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کا فیصلہ اُس عملِ صالح کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس میں دنیا کی مثبت تعمیر لازمی طورپر شامل ہو۔
2 - سورہ الزمر میں موت کے وقت وفات کی بات معروف معنی میں موت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ شِبہہِ موت کے معنی میں ہے۔ اِس آیت کا مطلب دراصل یہ ہے کہ جس طرح نیند کی حالت میں روزانہ تم کو موت کا جزئی تجربہ ہوتا ہے، اُسی طرح آخر کار وہ دن آئے گا، جب کہ تم کو موت کا کلّی تجربہ ہوگا۔ اِس آیت کا مقصد نیند کی حقیقت بتانا نہیں ہے، بلکہ ایک مثال کے ذریعے موت کو قابلِ فہم بنانا ہے۔یہی اسلوب حدیث میں بھی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملی تو مکہ میں آپ نے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا تھا: واللہ لتموتنّ کما تنامون، ولتبعثن کما تستیقظون ( أنساب الأشراف للبلاذری، رقم الحدیث: 50 ) یعنی خدا کی قسم، تمھیں مرنا ہے جس طرح تم سوتے ہو، اور پھر تم کو دوبارہ اٹھنا ہے جس طرح تم جاگتے ہو۔
اصل یہ ہے کہ اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بطور تمثیل ہے، نہ کہ بطور تبیین۔ اِس میں نیند کو موت سے تشبیہہ دی گئی ہے اور بعث بعد الموت کو بیداری کی مثال کے ذریعے قابلِ فہم بنایا گیا ہے۔ گویا کہ نیند ایک جزئی موت ہے، اور جزئی موت کی مثال سے کلی موت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
3 - سورہ نوح کی مذکورہ آیت کے بارے میں عرض ہے کہ اِس کے دو پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ سماوات کی دنیا سات طبقوں میں تقسیم ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ بے حد وسیع ہے، یہاں تک کہ کوئی شخص اس کی وسعت کا کامل اندازہ نہیں کرسکتا۔
جہاں تک تعداد کی زبان میں سماوات کے سات ہونے کا معاملہ ہے، وہ ابھی تک غیر معلوم ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، کیوں کہ ساری ترقی کے باوجود انسان، کائنات کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ مثال کے طورپر جدید تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وسیع کائنات کا
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کائنات بے حد وسیع ہے۔ اِس وسعت کا علم آج بھی انسان کو حاصل نہیں۔ مذکورہ آیت میں جو چیز بنائِ استدلال ہے، وہ سات کی گنتی نہیں ہے، بلکہ وہ کائنات کی وسعت ہے۔ یہ لامحدود وسعت ثابت کرتی ہے کہ اس کا خالق ایک انتہائی عظیم ہستی ہے۔ وہ بے پناہ قدرت اور طاقت کا حامل ہے۔ گنتی کے پہلو کو دوسری بہت سی غیر معلوم چیزوں کی طرح ایک غیر معلوم چیز مان لیا جائے تو خالق کی عظمت وقدرت کے ثبوت کے لیے سماوات کا ظاہرہ بالکل کافی ہے۔
سوال
آپ نے ’’دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب‘‘ کے عنوان سے ماہ نامہ الرسالہ میں بار بار لکھا ہے۔ الرسالہ فرور ی 2010 میں ’’اسلام کے نام پر غیر اسلام‘‘ کے عنوان سے جو مضمون ہے، اس میں آپ نے اِن اصطلاحات پر کافی اچھی روشنی ڈالی ہے۔الرسالہ دسمبر 2003 اور اپریل 2005 میں بھی اس موضوع پر آپ نے بحث کی ہے۔ ان مضامین نے میرے ذہن پر نہایت مثبت اثر ڈالا ہے۔ آپ کے مطابق، یہ اصطلاحیں سیاسی بدعت اور اجتہادی خطا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مگر آپ کا یہ جملہ ’’اِس لئے صحیح اسلامی نظریہ کے مطابق، صرف دو اصطلاحیں درست ہیں— دار الاسلام اور دار الدعوہ‘‘ (امن عالم، صفحہ
سوال یہ ہے کہ دار الاسلام کی اصطلاح اگر ایک سیاسی بدعت ہے تو پھر آپ کا یہ لکھنا کہ دارالاسلام کی اصطلاح درست ہے، کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ (رستم علی، پٹنہ، بہار)
جواب
دار الاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحات کو بطور فقہی اصطلاحات مان لیا گیا ہے۔ مجھے اِس اصطلاح سازی سے اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس قسم کی اصطلاح بعد کو عباسی دور میں اختیار کی گئی ۔ اِس سے پہلے صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اِس قسم کی قانونی اصطلاحات کا کوئی وجود نہ تھا۔
جہاں تک دار الانسان یا دار الدعوہ کا تعلق ہے، اُس کو میںنے متبادل فقہی اصطلاح کے طورپر تحریر نہیں کیا ہے۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر اِس معاملے میں اصطلاح بنانا ہو تو قرآن اور حدیث کی روشنی میں دار الانسان اور دار الدعوہ جیسی اصطلاح بنانا درست ہوسکتا ہے۔میں نے اِس معاملے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ موجودہ ممالک حکماً دار الانسان اور دار الدعوہ ہیں۔ میں نے یہ الفاظ اِس معاملے میں مسلمانوں کی ذمہ داری کو بتانے کے لیے استعمال کئے ہیں، نہ کہ فقہی معنوں میں اصطلاح سازی کے لیے۔
واپس اوپر جائیں
1 - نئی دہلی کے سی این بی سی ٹی وی (CNBC) کے انگریزی چینل میں 4 مارچ 2010 کی شام کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کے اینکرمسٹر کرن تھاپر تھے۔ اس کے دعوتی پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ مشہور آرٹسٹ فدا حسین کے حالیہ واقعہ کی روشنی میں اس کا موضوع یہ تھا:
Freedom of Expression and Religious Sentiments
صدر اسلامی مرکز نے اسلام کی روشنی میں موضوع پراظہار خیال کیا۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں مکمل آزادیٔ رائے ہے۔ اگر کسی بات سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو وہ دلیل سے اس کو رد کرے نہ کہ اظہار خیال پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرے۔ اختتامی ریمارک میں اینکر مسٹر کرن تھاپر نے صدر اسلامی مرکز کے بارے میں کہا:
Maulana sahab, you are truely the Voltaire of India.
2 - الجامعۃ المصطفی (قُم، ایران) انٹرنیشنل یونی ورسٹی کی طرف سے
Co-existence between Islam and Indian Religions
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے حاضرین کو مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
3 - ابو ظبی (عرب امارات) میں
4 - دبئی (عرب امارات) میں
5 -جاپانی ایمبسی کے فرسٹ سکریٹری مسٹر تکاشی ساتو (Takashi Garcia Sato) 7 اپریل 2010 کو اسلامی مرکز میں آئے۔ یہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ گفتگو کا موضوع ’’ہندستانی مسلمانوں کے مسائل ‘‘ تھا۔ اِس موقع پر مسٹر تکاشی کو صدر اسلامی مرکز کی دوسری کتابوں کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6 - رابطہ عالم اسلامی کے ایک ذمے دار الدکتور سعد بن علی الشہرانی (المدیر التنفیذی للملتقی العالمی للعلماء والمفکرین المسلمین)
7 -گڑ گاؤں میں
8- I would like to thank you and CPS for sending translation of the Holy Quran. I received it on Saturday April 17, 2010. Maulana Waheeduddin Khan is one of the greatest Islamic scholars of the world. And his books are a source of great inspiration of thinking and beacon of guid ance for the Muslim world. I am sure this book, too, will be another pillar in the cap of Waheeduddin Khan for its clarity and facility of language. Thank you again for this holy gift. (Mahammad Bilal, Mardan, Pakistan)
صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن انڈیا اور انڈیا کے باہر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کا اندازہ حسب ذیل خطوط سے لگایا جاسکتا ہے:
9- I am writing from Kentucky, USA.We need 5000 English only Quran from your company to be distributed mostly to soldiers here. One of our members Dr. Adnan Sidiqqi’s brother Saleem Sidiqqi from Canada has given your reference for ordering the books at minimum cost.
Alhamdulillah, as confirmed earlier, the Qurans were well distributed at a dawah event to non-Muslims. (Raza Malik, USA)
10- We a group of local Muslims (based in Northampton, UK), made up of reverts and born Muslim brothers and sisters, engaged in dawah through raising awareness of Islam, Our activities at present involve holding seminars and talks at various locations i.e. schools, colleges, community events and mainstream local council events. As part of this initiative we present our guests with a gift pack containing a copy of the Quran in English and various dawah leaflets.I require another 500 copies of the translation by Maulana Wahiduddin Khan for another similar dawah event in March 2010. (Sr Shefa, Northampton, UK)
مذکورہ لوگوں کو قرآن کے انگریزی ترجمے کی مطلوبہ کاپیاں روانہ کردی گئی ہیں۔
Dawah Meet 2010
اِس دوروزہ دعوہ میٹ میں الرسالہ مشن سے وابستہ منتخب افراد شریک ہوئے۔ ان کی تعداد تقریباً 80 تھی۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کی تین تقریریں ہوئیں۔ اِس کے علاوہ لوگوں کو یہ موقع دیاگیا کہ دعوت کی نسبت سے وہ اپنے احساسات اور تجربات بیان کریں۔ یہ پروگرام غیر معمولی طورپر موثر تھا۔ اکثر لوگ روتے ہوئے دیکھے گئے۔ اِس پروگرام کا ایک خاص جز یہ تھا کہ لوگوں کے مشورے کے تحت صدر اسلامی مرکز نے ایک نئے دعوتی شعبہ کا افتتاح کیا۔ اس کا باقاعدہ نام ’’القرآن مشن‘‘ ہے۔ القرآن مشن کی اپنی ویب سائٹ ہے۔ القرآن مشن خصوصی طورپر اُس کام کے لیے قائم کیاگیا ہے جس کو حدیث میں ’’ادخالِ کلمہ‘‘ کہا گیا ہے، یعنی تمام انسانوں تک خدا کے کلام کو پہنچانا:
Global dissemination of the word of God (Quran)
Al-Quran Mission
The Quran is the only preserved text of the divine message for the guidance of mankind. Every book has its objective and the objective of the Quran is to make man aware of the Creation plan of God. That is, to tell man why God created this world; what the purpose is of settling man on earth; what is required from man in his pre-death life span, and what he is going to confront after death. The purpose of the Quran is to make man aware of this reality, thus serving to guide man on his entire journey through life into the after-life.
The Prophet of Islam observed that, before Doomsday, the Word of God would enter all homes, big or small. According to the divine plan, it is, therefore, destined that God’s Word will reach all mankind, so that all human beings may become aware before the onset of Doomsday as to what God’s creation plan was for man. Al-Quran Mission is the realization of this hadith. This Mission was launched by Maulana Wahiduddin Khan, President of the Islamic Centre, at the India International Centre, in New Delhi , on April 2, 2010. Al-Quran Mission is the mission of Idkhal-e-Quran, i.e. to have the Quran enter every home.
Idkhal-e-Quran is the responsibility of each and every Muslim. This duty has been assigned to the Muslims by the Prophet Muhammad himself:
“Allah has sent me as His messenger for all mankind. So do not differ with one another. And spread in the land and communicate my message to people inhabiting other places besides Arabia .” – Seerat Ibn Hisham 4/279
Since there is no other prophet who is to come to the world after the Prophet Muhammad, it is obligatory for all Muslims, as members of the Prophet’s Ummah, to perform this task. Our very eligibility to the Ummat-e-Muhammadi depends upon it.
In present times, the progress of communications has made it possible for the Word of God to reach all men and women inhabiting the globe. Al-Quran Mission has been launched for this very purpose. Our aim is to fulfill this prediction of God's Word entering all homes with the help of print and the electronic media until finally the Quran becomes a book known to all the people inhabiting this earth.
Those who want to participate in this divine mission may send us their name, complete address, phone/mobile number and email address
to:
CPS International
1, Nizamuddin West Market, New Delhi-110013, India
or email it to us at: [email protected]
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.