1 - 30-31 مئی 2009 کوتولہ مولہ (گاندریل) کشمیر میں ’’کھیربھوانی‘‘ کا سالانہ میلہ منعقد ہوا۔ حلقہ الرسالہ کشمیر کی طرف سے وہاں غیر مسلموں کے درمیان تقریباً 300 انگریزی اور ہندی ترجمہ قرآن کی کاپیاں اور دیگر دعوتی لٹریچر مفت تقسیم کیاگیا ۔ مقامی ہندوؤں (کشمیری پنڈتوں) کے علاوہ، ڈی سی اور ایس پی گاندریل نے اِس دعوتی کام کو کافی سراہا۔ پروفیسر شاد حسین، ڈاکٹر طلعت قیوم، ڈاکٹر عابد پانڈے، حاجی غلام قادر، وغیرہ نے اِس دعوتی کام میں اہم رول ادا کیا۔
2 - نئی دہلی کے مرکزی چرچ (Cathedral) کے وسیع لان میں
3 - حکومت شارجہ (عرب امارات) کی جانب سے
9 - دوحہ (قطر) میں
10 - نئی دہلی کے پرگتی میدان میں 30 جنوری تا 7 فروری 2010 کو ایک انٹرنیشنل بُک فیئر لگایا گیا۔ یہاں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کے دو اسٹال تھے۔ یہ بک فیئربھی ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا۔مذکورہ تینوں بک فیئر میں اسٹال کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔
4 -نئی دہلی کے ٹی وی چینل (Time Now) کی ٹیم نے
5 - ہندی روزنامہ ’’امر اجالا‘‘ (نوئڈیا) کے نمائندہ ڈاکٹر گووند سنگھ نے
6 - امریکا کی جارج ٹاؤن یونی ورسٹی (Georgetown University) میں ایک رسرچ ہوئی ہے، جو کتابی صورت میں شائع ہوگئی ہے۔ یہ ریسرچ
Maulana Wahiduddin Khan has been called ‘Islam’s Spiritual ambassador to the world’. Khan aims to teach about Islam as a spiritual way of life, an approach that is popular among Indian, both Muslim and non-Muslim. He established the Islamic centre in Delhi in 1970, and has written over 200 books since. (p.
اس کی رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا (
7 - زی سلام (Zee TV) کے اسٹوڈیو میں
8 - نئی دہلی کے ٹریول پیشن (Travel Passion) کی طرف سے 7 جنوری 2010 کو امریکا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروپ اسلامی مرکز میںآیا۔ اِس گروپ کے قائد مسٹر ورون گاندھی (گاندھی جی کے پوتے) تھے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی نے ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ تقریر کے بعد مسٹر ورون گاندھی نے مائک پر کہا کہ آج میں نے اسلام کے بارے میں اتنا زیادہ سیکھا ہے جو میںنے اپنی
Dear Center for Peace and Spirituality Team, I would like to thank you for extending the invitation for Arun and Tushar Gandhi as well as the American delegation to come enjoy an evening lecture at the Center for Peace and Spirituality in New Delhi by Maulana Wahiddudin Khan. I would also like to express my gratitude for the gifts of Maulana Wahiduddin Khan’s copy of The Quran in which I am in the middle of reading and “The Prophet of Peace.” After listening to his lecture I was very interested to hear the distinction he was making in the interpretation relative to the Quran’s position on terrorism, jihad, and misconceptions about Islam’s early history. This is fascinating and a message that we are interested in. (Lynnea Bylund, S. California, USA)
راج گھاٹ (نئی دہلی) میں مراری باپو (گجرات) کا ایک پروگرام 3 فروری 2010 کو ہوا۔ اِس پروگرام میں تقریباً پانچ ہزار ہندو موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور امن اور اسلام کے موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے وہاں اسلامی لٹریچر پر مشتمل ایک اسٹال لگایاگیا۔ یہاں سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ مطالعے کے لیے بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ لوگوں نے اس کو نہایت شوق سے لیا۔ یہاں کئی ہندوؤں نے کہا کہ آج ہم پہلی بار قرآن کو دیکھ رہے ہیں۔
دہلی یونی ورسٹی میں 6 فروری 2010کو ایک سمپوزیم ہوا۔ یہ سمپوزیم ایم وی کالج کی طرف سے یونی ورسٹی کے اے این باسو آڈیٹوریم میں کیاگیا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Human Unity: Inter Faith Dialogue
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
جنوری 2010 کا الرسالہ اپنی تمام تر تجلیوں کے ساتھ فردوس نظر ہوا۔ آپ کا رسالہ دنیائے صحافت کا ایک منفرد رسالہ ہے جو ا پنی مثال آپ ہے۔ مختار اشرف لائبریری کے قارئین ’’الرسالہ‘‘ کو بہت شوق سے پڑھتے ہیںحال یہ ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا جاتا ہے، اسے تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تقریباً 300 قارئین کی جانب سے آپ کو مبارک باد (عابر قالین آباد، مختار اشرف لائبریری، کچھوچھہ، امبیڈکر نگر، یوپی)
گڈورڈ بکس اور سی پی ایس کی طرف سے دوسرے ممالک کے علاوہ، یورپ اور امریکا کے ممالک میں مختلف مقامات پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانے پر بھیجا جارہا ہے۔ حال ہی میں کینڈا کے ایک مسیحی اسکول (Hamilton School) میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بھیجا گیا۔ اِس سلسلے میں اسکول کے ایک ذمے دار کا خط موصول ہوا جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
I just wanted to let you know that the Qurans, DVDs and booklets have all successfully arrived at my school. After opening the package and begining to stamp the materials with school information, the materials generated a fair bit of discissions and interest amongst my students (I teach a significant number of Muslim students) which bodes well for their use in our World Religions course. Thanks again for all of your assistance. It is greatly appreciated. (Don Bennie, Canada)
انگریزی زبان کے معروف صحافی اور مصنف خشونت سنگھ نے صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمہ قرآن کو سب سے بہتر ترجمہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اصل الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
Maulana Wahiduddin Khan sent me two of his latest publications: A New translation of The Quran (Goodword) and The Prophet of Peace: Teachings of the Prophet Mohammed (Penguin). I have great respect for Wahiduddin Khan as a scholar of Islam who interprets his faith for the modern generation and at the same time points out follies of Mullah-minded Muslims for ever pronouncing fatwas on non-issues and calling for jihad against anyone they do not approve of. Among the many honours conferred on him was one by Virender Trehen’s Foundation for Amity and National Solidarity. I have a few translations of the Quran in English including Pickthall’s and Amir Ali’s — the first recognised as lyrically the most readable, and the second, as the most accurate. I spent a few hours reading Wahiduddin’s renderings of my favourite passages, particularly the last short suras which are in lyrical prose. All I can say is I found them more readable than any translations I had read earlier. I recommend it to Muslims and non-Muslims alike. (Hindustan Times, January 10, 2010, p. 18)
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اللہ نے انسان کو ہر اعتبار سے ایک کامل وجود دیا، لیکن انسان کو کسی بھی اعتبار سے ذاتی اختیار حاصل نہیں۔ انسان مکمل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ اِس عجز کی تلافی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں اِس عجز کی تلافی بقدر ضرورت کی گئی ہے، جس کا اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (ابر اہیم:
اِسی حقیقت کی دریافت سب سے بڑی معرفت ہے۔ قادرِ مطلق خدا کے مقابلے میں، اپنے عجزِتام کو شعوری طورپر دریافت کرنا، یہی معرفت کاآغاز ہے۔ اِس دریافت کے بغیر کسی انسان کے اوپر معرفت کا دروازہ نہیں کھلتا— معرفت سے بہرہ مند لوگوں کے لیے جنت ہے، اور معرفت سے بے بہرہ لوگوں کے لیے جہنم۔
واپس اوپر جائیں
عورت اور مرد دونوں میں یہ کمزوری بہت عام ہے کہ وہ مثبت تجربے کے وقت اعتراف کا کلمہ نہیں بولتے، لیکن اگر اُنھیں کوئی منفی تجربہ ہو تو وہ فوراً بے اعترافی کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس کا جواب قرآن کی سورہ نمبر
اصل یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اپنے لیے استحقاق کا ایک درجہ مان لیتے ہیں۔ یہ درجہ ہمیشہ اپنے بارے میں برتر اندازہ(overestimation) پر قائم ہوتاہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب اُن کو دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا اِس لیے ہوا کہ میںاُس کا مستحق تھا، میرے ساتھ ایساہونا ہی چاہیے تھا۔
اِس کے برعکس، جب وہ ایک نعمت سے محروم ہوجاتے ہیںتو وہ اپنے مزاج کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک چیز جس کا میں مستحق تھا، وہ مجھ کو نہیں ملی۔ اِس طرح، دونوں حالتوں میں ان کا رویہ غلط ہوجاتا ہے۔ پانے کے موقع پر وہ بے اعترافی کا شکار ہوجاتے ہیں اور نہ پانے کے موقع پر وہ شکایت کرنے لگتے ہیں۔
صحیح یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی چیز ملے تو اُس کے اندر شکر کی نفسیات پیدا ہو اور اس کا اظہار وہ اعتراف کے کلمات کے ساتھ کرے، اور جب اس کو محرومی کا تجربہ ہو تو وہ صبر کرے اور مزید اضافے کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ یہی اِس معاملے میں ایک خدا پرست انسان کا طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 3 میںیہ آیت آئی ہے: کلّ نفس ذائقۃ الموت (آل عمران:
اِس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ — موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو مبنی برخواہش سوچ کو ڈھانے والی ہے، اور مبنی بر حقیقت سوچ کو پیدا کرنے والی ہے:
Remember death much. It demolishes desire-based thinking, and produces reality-based thinking.
لذت (pleasure) کو وسیع معنی میں لیاجائے تو اِس میں انسان کی تمام سرگرمیاں شامل ہوجاتی ہیں۔ ہر کام جو آدمی کرتا ہے، وہ اِسی لیے کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اس کو لذت مل رہی ہوتی ہے۔ معلوم مادی لذتوں کے علاوہ، وہ تمام چیزیں بھی اِس فہرست میں شامل ہیں جو بظاہر غیر مادی نظر آتی ہیں۔ مثلاً عزت، شہرت، اقتدار، اسٹیج، سماجی رتبہ، مقبولیت، عوامی استقبال، وغیرہ۔ غرض تمام مادی اور غیر مادی چیزیں اِس فہرستِ لذت میں شامل ہیں۔ اگر لذت نہ ملے تو آدمی کوئی کام نہیں کرے گا۔
اِس طرح موت کا احساس آدمی کو آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند بنا دیتا ہے۔ وہ کسی ایسی چیز کواپنا ہدف نہیںبنا سکتا جو آج ملے اور کل کے دن وہ مکمل طورپر اُس سے چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی حیثیت کسی عورت یا مرد کے لیے سب سے بڑے معلم (teacher) کی ہے۔ موت کا تصور آدمی کے اندر انقلاب پیدا کردینے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک بار میں ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہوئے ایک ائر پورٹ پر اترا۔ میںاور دوسرے اکثر مسافر ضروری مراحل سے گزرتے ہوئے باہر آگئے، لیکن چند مسافر ایسے تھے جن کو ائر پورٹ پر روک لیاگیا۔ اُن سے کہا گیا کہ آپ لوگ یہاں ٹھہریے، آپ لوگوں کی خصوصی چیکنگ ہوگی۔ ان افراد کے بارے میں کوئی خفیہ اطلاع ملی تھی، جس کی وجہ سے ائر پورٹ کے عملہ نے اُن کے ساتھ ایسا کیا۔ ائر پورٹ پر یہ منظر دیکھ کر مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آئی۔ وہ آیت یہ تھی: وقفوہم، إنہم مسئولون (الصّافات:
غور کیجئے تو زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان جس زمین پر آباد ہے، وہ اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل گھوم رہی ہے۔ گویا کہ ہم ایک ایسے ہوائی جہاز پر سوار ہیں جو تیزرفتاری کے ساتھ ایک ا ئر پورٹ کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ ائر پورٹ آخرت کا ائر پورٹ ہے۔ ایک وقت آئے گا، جب کہ تمام انسان آخرت کے ائر پورٹ پر اتار دئے جائیں گے۔یہاں یہ واقعہ ہوگا کہ کچھ لوگوں سے کہا جائے گا کہ تم یہاں ٹھہرو، تم سے ابھی پوچھ گچھ ہونے والی ہے۔ دوسری طرف، کچھ ایسے خوش نصیب لوگ ہوں گے جن کا استقبال فرشتے یہ کہہ کر کریں گے: سلام علیکم، طبتم، فادخلوہا خالدین (الزمر:
یہ صورتِ حال سارے انسانوں کے ساتھ پیش آنے والی ہے۔ دنیا کے سفروں کا وقت مقرر رہتا ہے، لیکن آخرت کے اس سفر کا وقت مقرر نہیں۔ کسی بھی لمحہ انسان کے اوپر وہ وقت آسکتا ہے، جب کہ زندگی کا جہاز آخرت کے ائر پورٹ پر اتر جائے اور پھر وہاں کچھ لوگ پوچھ گچھ کے لیے روک لئے جائیں اور کچھ لوگوں کو فرشتے خوش آمدید کہتے ہوئے جنت میں داخل کردیں۔ بلاشبہہ یہی وہ سب سے بڑی بات ہے جس پر ہر عورت اور مرد کو سوچنا چاہئے، اور جس کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہیے۔ آنے والاوقت اعلان کے بغیر کسی بھی وقت آجائے گا اور پھر کسی کے لیے یہ موقع نہ ہوگاکہ وہ لوٹ کر دوبارہ پیچھے کی طرف جاسکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اِس لیے اتاری کہ اہلِ عقل اس کی آیتوں پر غور کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں (ص:
اِس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ قرآن کی سورہ نمبر 2 میں بتایاگیا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنے کہ بعد جنت میں بسایا تھا، لیکن آدم نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ اِس کے نتیجے میں وہ گنہ گار ہوگئے۔ اِس کے بعد قرآن میں یہ آیت آئی ہے: فتلقّی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ، إنہ ہو التواب الرحیم (البقرۃ:
اگر آپ اِس آیت کو صرف تلاوت کے طورپر نہ پڑھیں، بلکہ اُس پر غور کریں تو آپ کے دل میں فوراً یہ سوال پیدا ہوگاکہ وہ کلماتِ دعا کیا تھے جو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم کو ملے۔ یہ کلماتِ دعااتنے موثر تھے کہ اس کو ادا کرنے کے بعد آدم کا گناہ معاف ہوگیا اور وہ دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائے۔
جب آپ اِس طرح غور کریں گے تو آپ پر کھلے گا کہ اِس الہامی دعاء کے کلمات اگرچہ یہاں مذکور نہیں ہیں، لیکن وہ قرآن میں دوسرے مقام پر بتادئے گئے ہیں۔ یہ دوسرا حوالہ ہم کو قرآن کی سورہ نمبر 7 میں اِن الفاظ کے ساتھ ملتا ہے: ربّنا ظلمنا أنفسنا، وإن لم تغفر لنا وترحمنا، لنکونن من الخاسرین (الأعراف:
واپس اوپر جائیں
انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی عنایات کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ عنایتیں بنیادی طورپر دو قسم کی ہیں۔ اُن میں سے ایک کو قرآن میں احسنِ تقویم (التین:4 ) کہاگیا ہے۔ اور دوسری عنایت کے لیے قرآن کی اِس آیت میں اشارہ ہے: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (إبراہیم:
احسنِ تقویم کو دوسری جگہ صورتِ احسن (الزمر:
دوسرا انتظام وہ ہے جو انسانی وجود کے باہر خارجی دنیامیں کیا گیا ہے۔ مثلاً روشنی اور حرارت کا نظام، ہوا کانظام، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، پانی اور بارش کا نظام، زراعت کا نظام، وغیرہ۔یہ خارجی نظامات انسانی زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ نظامات اگر جزئی یا کلی طورپر معطل ہوجائیں تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
مذکورہ تقسیم میں دوسرے نظام کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح پہلے نظام کو آرگن سپورٹ سسٹم (organ support system) کہا جاسکتا ہے۔ اِنھیں دونوں انتظامات پر انسان کی زندگی قائم ہے۔
اِن دونوں انتظامات کو گہرائی کے ساتھ جاننا، آدمی کے لیے معرفت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں شکر کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اِس سے آدمی کے اندر تمام مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تواضع، سنجیدگی، اعترافِ حق، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم سے جب یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا تو اچانک وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد ان کو سخت ندامت ہوئی اور انھوں نے اللہ سے معافی کی دعاء کی۔ اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: فتلقّی آدم من ربّہ کلمات فتاب علیہ، إنہ ہو التواب الرحیم (البقرۃ:
اِس آیت میں تلقّی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تلقّی کے لفظی معنی ہیں ملنا (to receive)، یعنی آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات اخذ کئے ، پھر اس کے مطابق، دعاء کی تو اللہ نے ان کی دعاء کو قبول فرمایا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ اِس تلقّی کی صورت کیا تھی۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے آواز دے کر آدم کو بتایا، یا کوئی فرشتہ آیا اور اس نے انھیں اِن کلمات کی تلقین کی۔یہاں اِس قسم کا مفہوم لینا درست نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ الہام (inspiration) کا ایک معاملہ تھا۔ اِسی طرح کے معاملے کی بابت امام مالک بن انس نے کہا ہے: نورٌ یُلقیٰ فی قلب المؤمن۔یعنی یہ ایک روشنی ہے جو مومن کے دل میں ڈالی جاتی ہے۔ جب کسی بندے پر شدید انابت طاری ہوتی ہے، وہ گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دیتا ہے، اُس وقت نفسیات کی سطح پر اس کے اوپر ربّانی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ یہ کیفیات کچھ خاص الفاظ میں ڈھل جاتی ہیں۔ اِسی کو ربانی دعا کہاجاتا ہے۔اس قسم کی ربانی دعا ء اپنے آپ میں قبولیت کی پیشگی خبر ہوتی ہے۔
اِس قسم کی ربانی دعاء کی توفیق کس کو ملتی ہے۔ یہ توفیق اُس شخص کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو کامل عبدیت کے مقام پر پہنچائے، جو اِس حقیقت کو کامل سطح پر دریافت کرے کہ وہ پانے والا ہے اور خدا دینے والا۔ اِس قسم کا گہرا احساس جب آدمی کے اوپر طاری ہو تو وہ ایک ایسا لمحہ ہوتاہے جب کہ بندے کا خصوصی تعلق اللہ سے قائم ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کی زبان سے ذکر ودعاء کے الہامی الفاظ نکلنے لگتے ہیں۔ اِسی کا نام ربانی دعاء ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 3 کی ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس، تأمرون بالمعروف، وتنہون عن المنکر، وتؤمنون باللّٰہ (آل عمران: 110 ) یعنی تم بہترین گروہ ہو، جس کو لوگوں کے واسطے نکالا گیا ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآن کی اِس آیت میں، خیر امت کا مطلب خیر الامم یا افضل الامم نہیں ہے۔ قرآن کے یہ الفاظ دراصل امت کی مسئولیت (responsibility) کو بتاتے ہیں۔ اِس مسئولیت کی طرف اشارہ ’النّاس‘ کے لفظ میں پایا جاتا ہے، یعنی لتکونوا شہداء علی الناس (البقرۃ:
لیکن امتِ محمدی کسی جامد گروہ کا نام نہیں ہے۔ دوسرے انسانی گروہوں کی طرح، امت محمدی میں بھی موت وحیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِس طرح ایسا ہوتا ہے کہ ایک نسل اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی جگہ دوسری نسل آجاتی ہے۔ اِس طرح توالد و تناسل کے ذریعے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امت کی حیثیت حکماً تو ہمیشہ یکساں طورپر باقی رہتی ہے، لیکن امت کے افراد ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً صحابہ کے گروہ کے بعد تابعین کا گروہ، تابعین کے گروہ کے بعد تبع تابعین کا گروہ، اور تبع تابعین کے گروہ کے بعد ہر دور کے دوسرے مسلم گروہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر مسلم گروہ (صحابہ) کی تربیت براہ راست کی تھی۔ اِس پیغمبرانہ تربیت کو قرآن میں تزکیہ (البقرۃ:
’خیر أمّۃ ‘سے مراد امت کی نمائندہ حیثیت ہے۔ ’للناس‘ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اِس امت کا خارجی نشانہ شہادت علی الناس ہے۔ ’تأمرون بالمعروف، وتنہون عن المنکر‘ کے الفاظ میں، داخلی تربیت کے نظام کو بتایاگیا ہے۔ ’تؤمنون باللہ‘ سے مراد امت کے افرادمیں زندہ ایمان کو مسلسل طورپر باقی رکھنا ہے۔ یہی نظام امت کو، خیر امت کی حالت پر باقی رکھنے کی ضمانت ہے۔ امت کے اندر اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام باقی نہ رہے تو اللہ کے نزدیک امت کی حیثیت العیاذ باللہ، ملعون امت کی بن جائے گی، نہ کہ خیر امت کی۔ یہ انتباہ خود قرآن اور حدیث میں واضح طورپر دیاگیا ہے۔
اِس معاملے کی سنگینی ایک حدیثِ رسول سے معلوم ہوتی ہے۔ یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ الترمذی کے الفاظ یہ ہیں: لما وقعتْ بنو إسرائیل فی المعاصی نہتہم علمائہم فلم ینتہوا، فجالسوہم فی مجالسہم، واٰکلوہم وشاربوہم، فضرب اللہ قلوبَ بعضہم ببعض، فلعنہم علی لسان داؤد وعیسی ابن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ قال: فجلس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان متکئاً، فقال : لا، والذی نفسی بیدہ حتی تأطروہم أطْراً (کتاب التفسیر) یعنی جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑ گئے، اُن کے علماء نے ان کو روکا، مگر وہ نہیں رکے۔ پھر علماء ان کی مجلسوں میں بیٹھے۔ انھوںنے ان کے ساتھ کھایا اور ان کے ساتھ پیا، پھر اللہ نے لوگوں کے دلوںکو ایک دوسرے سے متاثر کردیا۔ چناں چہ اللہ نے داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔ یہی بات قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے (ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ المائدۃ:
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: کلاّ، واللہ لتأمرنّ بالمعروف ولتنہونّ عن المنکر، ولتأخذنّ علی یدی الظالم، ولتأطرنّہ علی الحق أطْراً، ولتقصرنّہ علی الحق قصْراً، أو لیضربنّ اللہ بقلوب بعضکم علی بعض، ثمّ لیلعننّکم کما لعنہم (أبو داؤد، کتاب الملاحم) یعنی ہر گز نہیں، تم کو ضرور (آپس میں) معروف کا حکم دینا ہوگا اور تم کو ضرور ( آپس میں) منکر سے روکنا ہوگا، تم کو ضرور (آپس میں) ظالم کے ہاتھ کو پکڑنا ہوگا، تم کو ضرور اُسے حق کی طرف موڑنا ہوگا، تم کو ضرور اُس کو حق کی طرف لوٹانا ہوگا، ورنہ اللہ ضرور تمھارے دلوں کو ایک دوسرے سے متاثر کردے گا، پھر تم پر وہ اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح اُس نے اِس سے پہلے یہود پر لعنت کی۔
لعنت کوئی پر اسرار لفظ نہیں۔ لعنت سے مراد ہے— امت کے خیر کی حیثیت کا چھن جانا، یعنی جب تک امت کے افراد، خاص طورپر اس کے علماء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کو واقعی طورپر زندہ رکھیںگے، اُس وقت تک امت خیر پر باقی رہے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل حقیقی طورپر جاری نہ رہے تو اُس وقت امت کے خیر کی حیثیت لازماً چھن جائے گی۔ اور خیر کی حیثیت کے چھن جانے ہی کا دوسرا نام لعنت ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد صرف کچھ جزئی چیزیں نہیں ہیں۔ مثلاً کسی مسلمان کا پاجامہ ٹخنے سے نیچا ہو تو آپ کہیں کہ اپنا پاجامہ ٹخنے سے اوپر کرو، کسی مسلمان کی داڑھی چھوٹی ہو تو آپ کہیں کہ اپنی داڑھی بڑھاؤ، کسی مسلمان کے سر پر ٹوپی نہ ہو تو آپ کہیں کہ اپنے سر پر ٹوپی رکھو، وغیرہ۔ اِس قسم کی باتیں شریعت سے زیادہ مسلم کلچر کا حصہ ہیں، اور مسلم کلچر کا تحفظ اپنی حیثیت کے اعتبار سے، صرف ایک قومی کام ہے۔ اِس قسم کی باتوں سے ہر گز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہیں ہوتا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک اصولی کام ہے۔ اس کا تعلق شریعت کے اصولی معاملات سے ہے۔ جزئی معاملات یا کلچرل شناخت کے معاملات میں امر ونہی کرنے سے اس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر پچھلے کئی سو سال کے دوران جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، اس میں دعوت الی اللہ کو حذف کردیا گیا، اور علماء اِس غلطی کی تصحیح کے لیے نہیں اٹھے۔ پچھلے تقریباً دوسو سال سے علماء، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، مسلح جہاد میں مشغول ہیں، اور علماء کی کسی جماعت نے یہ فتوی نہیں دیا کہ مسلح جہاد حکومت کا کام ہے، نہ کہ علماء کا کام۔ مسلم ملکوں میں مختلف جماعتیں اپنے ملک کی حکومتوں کے خلاف ’’خروج‘‘ کی تحریکیں چلا رہی ہیں، لیکن علماء کی کسی جماعت نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ قائم شدہ مسلم حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
موجودہ زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان غیر مسلم قوموں کے خلاف نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہیں، مگر علماء کی کسی جماعت نے کھلے طور پریہ اعلان نہیں کیا کہ غیر مسلم قومیں ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، اور مدعو سے نفرت کرنا جائز نہیں۔ بعد کی صدیوں میں کچھ لوگوں نے غیر مسلم علاقوں کے بارے میں مبتدعانہ طورپر یہ اعلان کیا کہ وہ دار الکفر یا دار الحرب ہیں، لیکن علماء کی کسی جماعت نے ایسا نہیں کیا کہ وہ اِس تصور کو کھلے طورپر غلط بتائیں اور یہ کہیں کہ ساری دنیا دار الانسان یا دار الدعوہ ہے، کوئی بھی علاقہ نہ دار الکفر ہے اور نہ دار الحرب۔
نہی عن المنکر یا تناہی عن المنکر کوئی پر اسرار لفظ نہیں۔ یہ عین اُسی چیز کا نام ہے جس کو عام زبان میں، نقد یا تنقید (criticism) کہاجاتا ہے۔ اِسی صفت کو حدیث میں المؤمن مراٰۃ المؤمن (أبوداؤد، کتاب الأدب) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینہ کسی تحفظ (reservation) کے بغیر بے کم وکاست آپ کے چہرے کو دکھا دیتا ہے۔ اِسی طرح مومن کو ایسا ہوناچاہیے کہ وہ دوسرے مومن کے بارے میں کھلے طورپر اظہار خیال کرے۔ وہ کھلے طورپر اپنی نصیحت دوسرے کو پہنچا دے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب کہ مسلم معاشرے میں تنقید کو برا نہ مانا جائے، بلکہ تنقید کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیاجائے۔
کسی مسلم معاشرے میں اگر کھلی تنقید کا ماحول نہ ہو تو یہ ایک سنگین خطرے کی علامت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دین کے بارے میں بے حسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ سنانے والے مفاد پرستی میں مبتلا ہیں، اور سننے والے خود پرستی میں جی رہے ہیں۔ کسی معاشرے میں نہی عن المنکر یا تناہی عن المنکر کے ماحول کا ختم ہوجانا اِس بات کی علامت ہے کہ وہ معاشرہ ایسے افراد سے خالی ہوگیا ہے جو خدا کے لیے تڑپے، جو خدا کے دین کی پامالی پر بے قرار ہو۔ مزید یہ کہ معاشرہ ایسے افراد سے بھی خالی ہوگیا ہے جو تنقید سننے کے بعد یہ کہہ سکیںکہ: میں غلطی پر تھا۔ایسا معاشرہ دینی اعتبار سے، ایک مردہ معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ گویا کہ زندوں کی بستی نہیں، بلکہ وہ مردوں کا قبرستان ہے۔ جب کوئی معاشرہ اِس حالت تک پہنچ جائے تو اس کے اوپر سے خدا کی نصرت اٹھ جاتی ہے۔ خدا کی نصرت سے اِسی محرومی کو قرآن اور حدیث میں لعنت کہاگیا ہے۔
’تؤمنون باللہ‘ —اللہ پر زندہ ایمان رکھنا، اللہ پر زندہ یقین کا مسلسل طورپر ذہن میں باقی رہنا، یہی ایمان باللہ ہے۔ اور اِس قسم کا ایمان باللہ ہی اِس بات کی ضمانت ہے کہ امت اپنی مطلوب حالت پر مسلسل باقی رہے۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت کے اندر مسئولیت کا احساس تازہ رہے گا۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت شہادت علی الناس کے فرض کی ادائیگی میں مسلسل طورپر سر گرم رہے گی۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت کے افراد ایک دوسرے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ مطلوب انداز میں انجام دیتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر زندہ ایمان تمام فرائض کی حسنِ ادائیگی کی یقینی ضمانت ہے۔
قرآن میںاللہ کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ:کل یوم ہو فی شأن (الرحمن:
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 3 میں بتایا گیا ہے کہ یہود سے اللہ تعالی نے عہد (میثاق) لیا۔ اِس عہد میں اُن کو یہ تاکیدی حکم دیاگیا تھا کہ: لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ(آل عمران:
اِس آیت میں یہود کے بارے میں جس حکم کا ذکر کیاگیا ہے، وہ خود یہود کی اصلاح کا حکم نہیں ہے، اس سے مراد غیر یہود کو وہ ہدایت پہنچانا ہے جو یہود کو اُن کے پیغمبروں کے ذریعے دی گئی تھی۔یہ عین وہی حکم تھا جس کو امتِ محمدی کی نسبت سے، شہادت علی الناس (البقرۃ:
اِس تقرری کے عہد کا ذکر بائبل میں موجود ہے۔ مثلاً بائبل کی کتاب یسعیاہ میں یہود کے بارے میںہے کہ— تم میرے گواہ ہو:You are My witness (Isaiah 43: 10) ۔جیوش انسائکلوپیڈیا میں اِس حقیقت کو حسب ذیل الفاظ میںواضح طورپر بیان کیاگیا ہے: بنی اسرائیل کوخصوصی طورپر یہ ذمے داری تفویض کی گئی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے خدا کی توحید کا اعلان کریں:
Upon Israel specially devolved the duty of proclaiming God’s unity
شہادت علی الناس کی یہی ذمے داری اب امتِ محمدی کے اوپر ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں کتمان سے مراد کتاب کو یہود سے چھپانا نہیں ہے، بلکہ اس کو غیر یہود سے چھپانا ہے۔ یہی معاملہ امتِ محمدی کا ہے۔ امت محمدی اگر ایسا کرے کہ وہ خود قرآن کو پڑھے اور پڑھائے، لیکن وہ قرآن کو غیرمسلموں تک نہ پہنچائے تو یہ اس کے لیے قرآن کے کتمان کے ہم معنی ہوگا۔اِس قسم کا کتمان جس طرح یہود کے لیے خدا کے نزدیک اپنی اصل حیثیت کو کھونے کے ہم معنی تھا، اِسی طرح یہ کتمان امتِ محمدی کے لیے بھی اس کی اصل حیثیت کو کھونے کے ہم معنی ثابت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
انسان کو اِس دنیا میں جو جسم ملا ہے، وہ ایک مکمل نوعیت کا زندہ کارخانہ ہے۔ اِس میں بیک وقت بہت سے نظام کام کررہے ہیں— سوچنے کا نظام، دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، ہضم کا نظام، حرکتِ قلب کا نظام، سانس لینے کا نظام، اعضاء کو متحرک کرنے کا نظام، وغیرہ۔
یہ تمام نظام نہایت متوافق طورپر عمل کرتے ہیں تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی انسان ایک زندہ وجود کے طورپر دنیا میںاپنا کام کرے۔
مثلاً نظامِ حافظہ اگر کام نہ کرے تو آدمی کو کوئی بات یاد نہیں رہتی ، نظامِ بصارت کام نہ کرے تو آدمی اندھا ہوجاتا ہے، نظامِ سماعت کام نہ کرے تو آدمی کو کچھ سنائی نہیں دیتا، نظامِ نطق کام نہ کرے تو آدمی گونگا ہو جاتا ہے، نظام ہضم کام نہ کرے تو آدمی کی صحت خراب ہوجاتی ہے، نظامِ حرکت کام نہ کرے تو آدمی اپاہج بن جاتا ہے۔ نظامِ تنفس کام نہ کرے تو آدمی کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور اگر نظامِ قلب کام نہ کرے تو آدمی کے لیے زندہ رہنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے، وغیرہ۔
موت اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان کے وجود کے مختلف نظام کسی اور کے قبضۂ اختیار میں ہیں۔ وہ جب تک چاہے، انسان کو زندہ رکھے اور جب چاہے، انسان پر موت طاری کردے۔ ہر روز دنیامیں موت کے تقریباً ایک لاکھ واقعات ہوتے ہیں جو انسان کو یہ سب سے بڑی خبر سنا رہے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی سب سے بڑی خبر ہے جس کا شعوری علم کسی زندہ انسان کو نہیں۔
واپس اوپر جائیں
عبد اللہ بن ابی مُلیکہ کہتے ہیں کہ اُن سے بیان کیا ذکوان نے جو کہ حضرت عائشہ کے دربان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس آئے اور انھوں نے حضرت عائشہ سے ملنے کی اجازت چاہی۔ میں حضرت عائشہ کے پاس گیا۔ اُس وقت ان کے بھتیجے عبد اللہ بن عبد الرحمن ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ عبد اللہ بن عباس آئے ہیں اور وہ آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ان کے بھتیجے ان کی طرف جھکے اور کہا کہ یہ عبد اللہ بن عباس ہیں۔ حضرت عائشہ اُس وقت موت کے قریب تھیں۔ انھوںنے کہا کہ چھوڑو ابن عباس کو۔ انھوں نے کہا کہ اے میری ماں، ابن عباس آپ کی اولاد کے صالحین میں سے ہیں۔ وہ آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو ان کو اجازت دے دو۔ پھر میں نے عبد اللہ بن عباس کو اندر داخل کیا۔ وہ بیٹھے اور کہا: آپ کو بشارت ہو، کیوں کہ آپ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب سے ملاقات میں اب اتنی ہی دوری ہے کہ روح آپ کے جسم سے نکل جائے۔ آپ، رسول اللہ صلی اللہ کی ازواج میں سب سے زیادہ محبوب تھیں اور رسول اللہ صرف پاک روح سے محبت کرسکتے تھے۔ ابواء کی رات میں آپ کا ہار گر گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے رات کو روانہ ہوئے، یہاںتک کہ منزل پر صبح کی۔ اُس وقت لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت (المائدۃ: 6 ) اتاری۔ یہ آپ کے سبب سے ہوا۔ اِس طرح امت کے لیے رخصت کا حکم اترا۔ اور آپ کے لیے ساتویں آسمان سے برأت لے کر جبریل امین اترے۔ چناں چہ ہر مسجد میں صبح و شام آپ کا ذکر ہونے لگا اور وہ آیتیں پڑھی جانے لگیں۔ اِس کو سن کر حضرت عائشہ نے کہا: دعْنی منک یا ابن عباس، فوا الذی نفسی بیدہ، لوددتُ أنّی کنت نسیاً منسیًّا (اے ابن عباس، مجھ کو چھوڑو۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تو یہ چاہتی ہوں کہ میں بھولی بسری بن جاؤں (الطبقات الکبری لابن سعد، جلد 8 ،صفحہ
واپس اوپر جائیں
انسان کے جسم میں بہت سے آرگن (organ) ہیں۔ اِن تمام آرگن کے درست طورپر چلنے سے انسان زندہ رہتا ہے، اور جب یہ آرگن کام نہ کریں تو انسان مرجاتا ہے۔ اِنھیں میں سے ایک آرگن وہ ہے جس کو دل (heart) کہاجاتا ہے۔ دل ایک عجیب آرگن ہے جو گردشِ خون کے نظام کو جسم کے اندر جاری رکھتا ہے:
Organ that serves as a pump to circulate the blood.
دل ایک بے حد پیچیدہ نظام ہے۔ وہ رُکے بغیر مسلسل حرکت کرتاہے۔ اِس حرکت کی رفتار عمر کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بالغ آدمی کے دل کی حرکت اوسطاً 80 بار فی منٹ ہوتی ہے:
The average adult rate is 80 per minute.
دل کی یہ مسلسل حرکت فطری نظام کے تحت آٹومیٹک طورپر رات دن جاری رہتی ہے۔ اگر ایساہو کہ آدمی کو خود اپنے ہاتھ سے اس کو پمپ کرنا پڑے تو زندگی ناممکن ہوجائے۔ اِس کے بعد آدمی کے لیے کسی اور کام کا وقت ہی نہیں رہے گا، حتی کہ وہ رات کے وقت سو بھی نہیں سکے گا، کیوںکہ زندگی کو باقی رکھنے کے لیے رات کے وقت بھی پمپ کرنے کے اِس کام کو جاری رکھنا ہے۔
اس طرح ان گنت فطری نظام ہیں جو انسانی جسم کے اندر اور انسانی جسم کے باہر مسلسل کام کرتے ہیں، اس کے بعد ہی اِس زمین پر انسان جیسی مخلوق کا وجود ممکن ہوتا ہے۔ یہ انتظامات اتنے زیادہ ہیں کہ آدمی اُن کو گن بھی نہیں سکتا۔
اگر آدمی گہرائی کے ساتھ سوچے تو ہر وقت وہ شکر کے احساس میں جینے لگے۔ وہ کامل طورپر غرور اور سرکشی کی نفسیات سے خالی ہوجائے۔ وہ مکمل طورپر ایک متواضع (modest) انسان بن جائے۔ وہ بے اعترافی جیسی چیزوں کا تحمل نہ کرسکے۔ یہی معرفت ہے۔ اسی معرفت کا شعور انسان کو وہ مطلوب انسان بناتا ہے جس کو قرآن میں ربانی انسان کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
میںنے غور کیا کہ موت کے بارے میں یہ نیا شعور میرے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اصل یہ ہے کہ ہم لوگ 6بھائی بہن تھے۔ چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے سوا تمام بھائی بہن مرچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اِس احساس سے مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ میرے بھائی اور بہن کل تک اِسی دنیا میںتھے جہاں کہ میں ہوں، لیکن اب وہ ایک ایک کرکے مرچکے ہیں، یہاں تک کہ 6بہن بھائیوں میں اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ وہ لوگ اِس دنیا سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ اب نہ وہ مجھ سے مل سکتے ہیں اور نہ میں اُن سے مل سکتا۔ موت نے مجھ کو اپنے تمام بھائی بہنوں سے ابدی طورپر جدا کردیا۔
موت کیا ہے۔ موت ایک جبری انخلا (compulsory expulsion) کا معاملہ ہے۔ موجودہ زندگی میں ہر آدمی اپنے لیے ایک دنیا بناتا ہے— گھر، جائداد، بزنس، اولاد، تعلقات، شہرت، عوامی حلقہ، عہدہ، سماجی پوزیشن، وغیرہ۔ اِن تمام چیزوں کی بنیاد پر ہر آدمی کی اپنی ایک چھوٹی یا بڑی دنیا ہوتی ہے، جس کے اندر وہ اپنے صبح و شام گزارتا ہے۔ وہ اس کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔ لیکن اچانک موت کا وقت آجاتا ہے اور فرشتے اس کو جبری طورپر موجودہ دنیا سے نکال کر اُس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کے پاس اپنے ذاتی وجود کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا— موت کے واقعے کو صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس حقیقت کا زندہ شعور رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں
ذہنی افق (intellectual horizon) کے کئی درجے یا کئی سطحیں ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ افق بالائے افق کا معاملہ ہے۔ اعلیٰ حقیقتوں کا ادراک صرف وہ افراد کرسکتے ہیں جو اعلیٰ ذہنی افق کے مالک ہوں۔ کم تر ذہنی افق کے لوگ اعلیٰ حقیقتوں سے آشنا نہیں ہوسکتے۔یہی معاملہ ایمان کا ہے۔
اِس سلسلے میں کچھ صحابہ کی مثال قابلِ ذکر ہے جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ مثلاً عمر بن الخطاب (وفات:
ایمان باللہ کا ابتدائی درجہ وہ ہے جو کلمۂ شہادت ادا کرنے کے بعد کسی آدمی کو حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن ایمان باللہ ایک اضافہ پذیر چیز ہے۔ چناں چہ قرآن میں ایمان کو پودے سے تشبیہہ دی گئی ہے جو مسلسل بڑھتا رہتا ہے (إبراہیم:
واپس اوپر جائیں
گرہن (eclipse) ایک فلکیاتی ظاہرہ ہے۔ اکلپس (eclipse) کا لفظ قدیم یونانی زبان کے لفظ (ékleipsis) سے ماخوذ ہے۔ خلا میں گرہن کے مختلف واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن معروف طورپر دو قسم کے گرہن کو گرہن کہا جاتا ہے۔ ایک سورج گرہن (Solar eclipse) اور دوسرا چاند گرہن (Lunar eclipse) ۔ عام طورپر سورج گرہن سال میں دوبار یا تین بار ہوتاہے اور چاندگرہن سال میں دو بار واقع ہوتا ہے۔ چاند گرہن چند گھنٹوں تک رہتا ہے، جب کہ کامل سورج گرہن کچھ منٹ تک رہتا ہے:
A lunar elicpse lasts for a few hours, whereas a total solar eclipse lasts for only a few minutes at any given place.
گرہن کا یہ واقعہ محکم فلکیاتی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت پہلے ان کی قطعی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر 2010 میں
گرہن کیا ہے۔ گرہن دراصل سایہ پڑ جانے کا دوسرا نام ہے۔ گردش کے دوران جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان آجائے تو سورج اس آڑ کی بنا پر جزئی یا کلّی طورپر دکھائی نہیں دے گا۔ اِسی کا نام سورج گرہن ہے۔ اور جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان آجائے تو چاند پر جزئی یا کلی طورپر زمین کا سایہ پڑجائے گا۔ اِسی کا نام چاند گرہن ہے:
Eclipse: In astronomy, partial or complete obscuring of one celestial body by another as viewed from a fixed point. Solar eclipses occur when shadow of Moon falls on Earth, which happens two or three times per year. Lunar eclipses occur when shadow of Earth falls on Moon; at most two seen per year.
قدیم زمانے میں گرہن کے بارے میں عجیب قسم کے توہماتی عقائد قائم تھے۔ مثلاً کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آسمان میں ایک بہت بڑا اژدہا ہے، وہ کبھی غصہ ہو کر چاند کو نگل لیتاہے، اس وقت چاندگرہن پڑتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین پر جب کسی بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی کا نام سورج گرہن ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کے توہماتی تصورات ہزاروں سال تک قوموں میں رائج تھے، یہاں تک کہ دور بین (telescope) ایجاد ہوئی۔ گلیلیو نے پہلی بار 1609 میں دور بین کے ذریعہ سیاراتی نظام (planetary system) کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بین کو ترقی ہوئی اور مزید مشاہدات کئے گئے۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا تعلق مذکورہ قسم کے توہماتی تصورات سے نہیں ہے، یہ تمام تر ایک فلکیاتی مظہر ہے۔وہ صرف اس لئے واقع ہوتا ہے کہ گردش کے دوران دو خلائی اجسام (celestial bodies) کے درمیان تیسرا جسم آجاتا ہے۔ اس کی بنا پر وہاں ایک آڑ قائم ہوجاتی ہے۔ اسی آڑ کی بنا پر پیش آنے والے واقعہ کا نام گرہن ہے۔
قدیم زمانے میں گرہن صرف ایک توہماتی (superstitious)واقعہ بنا ہوا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی مشاہدہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ سادہ نوعیت کا ایک خلائی واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں کوئی پُراسراریت شامل نہیں۔ گرہن کے موضوع پر موجودہ زمانے میں کثیر تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
Eclipses of the Sun and Moon (1937) by Sir F.W. Dyson
Eclipse Phenomena in Astronomy (1969) by F. Link
Eclipses in the Second Millennium BC (1954) by G. Van Bergh
گرہن کی تاریخ کا پہلا دور وہ ہے جب کہ اس معاملے میں توہماتی عقائد کا رواج تھا۔ گرہن کا دوسرا دور موجودہ زمانے میں دور بین کی ایجاد (1608) کے بعد شروع ہوا۔ گرہن کی تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جو اسلام کے ذریعہ انسان کے علم میں آیا، وہ یہ کہ گرہن کا تعلق نہ توہمات سے ہے اور نہ وہ صرف ایک مادی نوعیت کا فلکیاتی واقعہ ہے، بلکہ وہ خالقِ کائنات کے باشعور تخلیقی نظام کا ایک حصہ ہے۔ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر ہے، وہ انسان کے لیے خداوند ِ عالم کا ایک تعارف ہے، گرہن خاموش زبان میں خدا کی حکیمانہ تخلیق کا اعلان کررہا ہے۔
ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10 ہجری
’’چاند گرہن اور سورج گرہن خدا کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں‘‘— یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل اس معاملے کے اصل معنوی پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن جس طرح ہوتا ہے، اس پر غور کیا جائے تو وہ آدمی کے لئے خدا کی دریافت کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سادہ طورپر فلکیاتی نشانی کے بجائے، زیادہ گہرے معنوں میں خدائی نشانی ثابت ہوگا۔
چاند گرہن یا سورج گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہے، اس کے پیچھے خالقِ کائنات کی معجزانہ صنّاعی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، گرہن اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ تین خلائی اجسام، زمین، چاند، سورج،گردش کرتے ہوئے ایک سیدھ میں آجائیں۔ تینوں کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چاند کو اگر سرسوں کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اس کے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر ہوگی اور سورج ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔
یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والا ان کو یکساں سائز میں دیکھنے لگے۔ جب تینوں کے درمیان چاند ہو تو سورج گرہن واقع ہوگا۔ اور جب ان کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن واقع ہوگا۔ یہ وسیع خلا میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ کا معاملہ ہے:
It is a unique well- calculated positioning of three moving bodies, highly inequal in size, in the vast space.
گرہن (eclipse) اُس وقت واقع ہوتا ہے جب کہ وسیع خلا کے تین اَجرام، زمین، چاند، سورج، انتہائی متناسب دوری کے ساتھ بالکل ایک سیدھ میں آجائیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت ناک ظاہرہ ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا بریٹنکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ — ایک انتہائی غیر معمولی توافق کی بنا پر سورج اور چاند کا سائز اور دوری ایسے ہو جاتے ہیں کہ زمین سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے گویا کہ دونوں بالکل برابر ہوں:
By a remarkable coincidence, the sizes and distances of the Sun and Moon are such that they appear as very nearly the same angular size as the earth. (EPB 6/189)
گرہن کے اِس عجیب واقعے کو مقالہ نگار نے محض اتفاق (coincidence) قرار دیا ہے۔ مگر یہ بالکل غیر منطقی بات ہے۔ اِس قسم کا نادر اتفاق اولاً تو ممکن نہیںاور بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو وہ بمشکل ایک بار ہوسکتا ہے، لیکن فلکیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ گرہن کا یہ واقعہ لاکھوں برس سے اِسی طرح پابندی (regularity)کے ساتھ ہر سال پیش آرہا ہے۔ اِس قسم کی کامل باضابطگی ہر گز اتفاقاً نہیں ہوسکتی۔ یقینی طورپر وہ ایک قادرِ مطلق ہستی کی مسلسل کار فرمائی کے باعث ہی ممکن ہے۔ اتفاق کا لفظ اِس حیرت ناک فلکیاتی ظاہرے کی توجیہہ کے لیے آخری حد تک ناکافی ہے۔
گرہن، خلا میں پیش آنے والے اُن بے شمار معجزاتی واقعات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: ذلک تقدیر العزیز العلیم (یٰس:
That is the dispostion of the Almighty, the All Knowing.
وسیع خلا میں بے شمار اجزا ہیں۔ یہ تمام اجزا مکمل طورپر خداوند ِ عالم کے کنٹرول میں ہیں۔ سیاروں اور ستاروں کی گردش انتہائی حد تک خدا کے مقرر ضابطہ کی پابندی میں ہوتی ہے۔ شمسی نظام اِسی کا ایک نمونہ ہے جس کے اندر ہماری زمین واقع ہے۔ یہ نظام اپنی خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اِس کائنات کا ایک قادرِ مطلق خدا ہے جو وسیع خلا میں اُن پر کامل کنٹرول کئے ہوئے ہے۔
اِنھیں معجزاتی واقعات میں سے ایک گرہن کا واقعہ ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن ہمارے قریبی مشاہدے کی چیزیں ہیں۔ لوگ اُس کو عجوبہ کے طورپر یا زیادہ سے زیادہ ایک فلکیاتی کورس کے طورپر دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے۔ اِسی لیے اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب گرہن واقع ہو تو لوگ خدا کی عبادت کریں۔ اِس عبادت کو صلاۃِ کُسوف اور صلاۃِ خُسوف کہاجاتا ہے۔ گرہن کے وقت خدا کی عبادت کرنا اِس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک خدائی ظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔
واپس اوپر جائیں
اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان (آدم) کو پیدا کیا تو اُن کو جنت میں آباد کیا۔ پوری جنت ان کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ لیکن وہاںایک درخت تھا جو اس سے مستثنی تھا۔ اُن کو ہدایت دی گئی کہ وہ اِس درخت کے پاس نہ جائیں اور اِس کا پھل نہ کھائیں۔ لیکن وہ اس ہدایت پر قائم نہ رہ سکے اور جنت کے اُس شجرِ ممنوعہ کا پھل کھالیا۔ اِس کے بعد وہ جنت سے نکال دئے گئے۔
شجرِ ممنوعہ ( forbidden tree) کا تعلق صرف ایک مخصوص درخت سے نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سورس آف ڈسٹریکشن (source of distraction) کا نام ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو ہر دور کا ایک شجرِ ممنوعہ ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے کا بھی ایک شجرِ ممنوعہ ہے، اور وہ وہی چیز ہے جس کو موبائل (mobile) کہاجاتاہے۔
آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر آدمی کی جیب میںموبائل ہوتا ہے۔ اس کا ذہن مسلسل طورپر اِسی موبائل میں مشغول رہتا ہے۔ وہ مجلس میں ہو یا مسجد میں ہو، وہ کسی جلسے میں ہو یا حالت ِ سفر میں ہو، ہر جگہ اور ہر وقت وہ اپنے موبائل میں مشغول رہتا ہے۔ اِس طرح موبائل موجودہ زمانے میں ڈسٹریکشن (distraction)کا سب سے بڑاسبب بن گیا ہے۔ لوگ موبائل کے ذریعے سطحی باتوں میں مشغول رہتے ہیں، گہری باتوں کے بارے میں سوچنے کا اُن کے پاس وقت ہی نہیں۔ اِس موبائل کلچر نے تمام عورتوں اور مردوں کو معرفت سے محروم کردیا ہے۔ معاملات میں گہری سوچ سے وہ آشنا نہیں، وہ تجزیہ (analysis) کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
کسی بھی شخص سے بات کیجئے تو وہ گہری عقل کی کوئی بات نہیں کہہ پائے گا۔ ہر آدمی کا ذہن کنفیوژن کا جنگل بناہوا ہے۔ ہر آدمی بے شعوری کی حالت میں جی رہا ہے۔ زندگی ہمارے لیے ایک نہایت قیمتی موقع ہے، لیکن لوگ اِس موقع کے اعلیٰ استعمال سے محروم ہو رہے ہیں۔ اور موجودہ زمانے میں اِس کا سب سے بڑا سبب بلا شبہہ موبائل ہے۔ اِس عموم میں اگر کوئی استثناء ہے تو وہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔
واپس اوپر جائیں
8 فروری 2010 کو نئی دہلی میں ایک تعلیم یافتہ نو مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام یہ ہے: عبد الواحد (Abdul Wahid Pederson)۔ وہ ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن (Copenhagen) میں رہتے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات اکتوبر 2009 میں دوحہ (قطر) کی انٹرنیشنل کانفرنس میں ہوئی تھی۔ 8 فروری 2010 کی ملاقات میں انھوں نے ہمارے یہاں کا مطبوعہ اسلامی لٹریچر لیا، تاکہ وہ اس کو ڈنمارک کے لوگوں تک پہنچائیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ عرصے سے میری تمنا تھی کہ ڈنمارک کے اُس کارٹونسٹ کو سیرت کے موضوع پر ایک کتاب پہنچائی جائے جس کا ایک کارٹون ڈنمارک کے ایک اخبار میں چھپا تھا۔ انھوںنے کہا کہ مجھے اِس سے اتفاق ہے۔ پھر میں نے ان کو سیرتِ رسول کے موضوع پر اپنی تازہ مطبوعہ کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ (The Prophet of Peace) کے دو نسخے دئے جو حال میں انٹرنیشنل اشاعتی ادارہ پنگوئن بکس (Penguin Books) نے شائع کی ہے۔ انھوںنے کہا کہ میں ان شاء اللہ قرآن کا انگریزی ترجمہ اور یہ کتاب دستی طورپر مذکورہ کارٹونسٹ تک پہنچاؤں گا۔مسٹر عبدالواحد نے بتایا کہ کار ٹون کو لے کرمسلم دنیا میں جو احتجاج کیا گیا، اُس سے باہر کے مسلمانوں میں یہ ذہن بنا کہ ڈنمارک کے لوگ اسلام کے مخالف ہیں، مگر یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ ڈنمارک کے لوگ بہت سادہ مزاج کے ہوتے ہیں۔ وہاں تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے اور وہاں کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
احتجاج اور مظاہرے کا طریقہ بلاشبہہ ایک غیر اسلامی طریقہ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اگر کارٹون جیسا کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کو دعوت کے ایک موقع کے طورپر لیا جائے اور لوگوں تک اسلام کا مثبت پیغام پہنچایا جائے۔ اِسی کو قرآن میں اعراض (avoidance) کہاگیا ہے۔ اعراض کی پالیسی کے بغیر دعوت کاکام موثر طورپر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت کے عمل میںاعراض کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے، جتنا کہ خود دعوت کی اہمیت۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ ہدایت دی کہ تم لوگ سیاسی بگاڑ کے مسئلے کو لے کر حکمرانوں سے ہر گز ٹکراؤ نہ کرنا۔ اِس سلسلے میں حضرت ثوبان بن یجدد کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: إذا وُضع السیف فی أمّتی، لم یُرفع عنہا إلی یوم القیامۃ (رواہ احمد وابو داؤد، بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5406 )یعنی جب میری امت کے اندر تلوار داخل کی جائے گی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہیں جائے گی۔
اِس حدیث میں سادہ طورپر صرف ایک اخلاقی تعلیم نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک نہایت گہری سیاسی حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اگر چہ اِس حکمت کو پوری تاریخ میں کوئی شخص دریافت نہ کرسکا۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ امت کے اندر حضرت عثمان کے زمانے میں تلوار داخل ہوئی تو اب تک وہ امت سے رفع نہ ہوسکی۔
جن مسلمانوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا، انھوں نے کیوں ایسا کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کو حضرت عثمان آئڈیل سیاست کے معیار پر کم دکھائی دئے۔ مگر یہ معاملہ حضرت عثمان پر نہیں رکا۔ اس کے بعد دوبارہ سیاسی معیار کو لے کر حضرت علی کو شہید کردیاگیا، اِسی معیار کی بنیاد پر لوگوں نے حضرت معاویہ سے جنگ کی، اِسی معیار کی بنیاد پر حضرت حسین کا ٹکراؤ یزید کے ساتھ پیش آیا، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیامیں کوئی بھی سیاسی نظام آئڈیل نہیںہوسکتا۔ سیاسی نظام کے معاملے میں ہمارے لیے صرف ایک ہی ممکن انتخاب ہے، وہ یہ کہ سیاسی نظام کو آئڈیل سے نہ ناپیں، بلکہ آئڈیل سے کم (less than ideal) پر راضی ہوجائیں۔ ایسا نہ کیا جائے تو ایک حکمراں کو ہٹانے کے بعد جو دوسرا حکمراں آئے گا، وہ بھی لوگوں کو آئیڈیل سے کم دکھائی دے گا، اِس طرح نئے حکمراں سے دوبارہ لڑائی شروع ہو جائے گی اور پھر وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اِس معاملے میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کا طریقہ اختیار کرو، اور موجودہ حکمراں پر راضی رہتے ہوئے غیر سیاسی دائرے میں تعمیر اور ترقی کا کام جاری رکھو۔
واپس اوپر جائیں
انسان کو امن (peace) کی ضروت ہے اور انصاف (justice) کی ضرورت۔ بہتر سماج کے قیام کے لیے دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں کو کس طرح حاصل کیا جائے۔ عام تصور یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے انصاف دیا جائے، اس کے بعد وہ اپنے آپ امن کے مطابق رہنے لگیں گے۔ مگر یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں کسی کو کوئی چیز صرف فطرت کے قانون کی پیروی کرکے مل سکتی ہے۔ فطرت کے نظام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اِس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔فطرت کے نظام کے مطابق، امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ مواقع (opportunities) کو کھولتا ہے۔ اور انصاف کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ اِن مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ امن کا تعلق خارجی مواقع سے ہے، اور انصاف کا تعلق خود اپنی جدوجہد سے۔ تاریخ میں جب بھی کسی کو امن اور انصاف ملا ہے، اِسی فطری اصول کی پیروی کے ذریعے ملا ہے۔ اِس اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اِس دنیا میں کبھی نہ امن ملا ہے اور نہ انصاف۔
جب بھی کوئی گروہ انصاف سے محروم ہو تو اس کا سبب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انصاف کو پانے کے لیے اپنا حصہ ادا نہیں کیا۔ اگر آپ کا یہ احساس ہو کہ آپ انصاف سے محروم ہیں تو براہِ راست انصاف کے لیے لڑائی نہ چھیڑیئے، بلکہ یک طرفہ طورپر صبر کی پالیسی اختیار کرکے امن قائم کیجئے۔ امن کے قائم کرتے ہی یہ ہوگا کہ مواقع اور امکانات کے تمام راستے آپ کے لیے کھل جائیں گے۔ آپ کے لئے یہ ممکن ہوجائے گا کہ آپ اِن مواقع اوراِن امکانات کو استعمال کرتے ہوئے حصولِ انصاف کی نتیجہ خیز جدوجہد شروع کردیں۔ یہی اِس دنیا میں حکمتِ حیات ہے۔ جو شخص یا گروہ اِس دنیا میں کچھ پانا چاہتا ہے، اُس کو سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ وہ یک طرفہ طورپر ٹکراؤ کا طریقہ ختم کردے، اور پھر ذاتی تعمیر کے ذریعے انصاف کے حصول کی جدوجہد کرے— موجودہ دنیا میں امن پہلا قدم ہے اور انصاف دوسرا قدم۔ جو لوگ پہلا قدم نہ اٹھائیں، اُن کے لیے دوسرا قدم اِس دنیا میں مقدر نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ آج کل والدین عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ اِس کا ذمے دار وہ سب سے زیادہ ٹی وی کو بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی وی نے ان کے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ انھوںنے پوچھا کہ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
میںنے کہا کہ یہ سارا معاملہ اگر ٹی وی کا معاملہ ہے تو والدین کیوں اپنے گھر میں ٹی وی رکھتے ہیں۔ بچے خود خرید کر ٹی وی نہیں لاتے۔ یہ والدین ہیں جو بچوں کو خوش کرنے کے لیے ٹی وی لاکر اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل ذمے دار خود والدین ہیں، نہ کہ بچے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب لاڈ پیار (pampering) ہے۔ والدین کا نظریہ اپنے بچوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے۔ بچے جب تک چھوٹے ہیں، ان کی خواہش کھانے اور کپڑے جیسی چیزوں تک محدود رہتی ہے۔ اِس لیے چھوٹی عمر میں والدین اپنے نظریے کی غلطی سمجھ نہیں پاتے ، لیکن جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو اُن کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ دوستی اور آؤٹنگ اور کلب اور لو افیئر (love affair)جیسی چیزوں کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو والدین روک ٹوک کرتے ہیں، مگر بچے ان کی روک ٹوک کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بلاشبہہ خود والدین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
چھوٹی عمر میں والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ میری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ بالغ ہونے کے بعد اِس مزاج نے مزید ترقی کی۔ اب وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُن چیزوں کی طرف جانے لگے جو والدین کو پسند نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ’’میری خواہش سب کچھ ہے‘‘کا مزاج بچوں کے اندر کس نے پیدا کیا، یہ خود والدین نے اپنے لاڈ پیار سے پیدا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے نام پر دشمنی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک نائجیریا نژاد مسلم نوجوان عمر فاروق عبد المطلب (عمر
ٹائمس آف انڈیا (
I imagine how the great jihad will take place, how the Muslims will win, insha’ Allah (God willing) and rule the whole world, and establish the greatest empire once again! (The Times of India, New Delhi. p.
یہ صرف نائجیریا کے ایک مسلم نوجوان کی بات نہیں ہے، بلکہ شعوری یا غیر شعوری طورپر، ساری دنیا کے مسلمانوں کی سوچ یہی ہے۔ ہر مسلمان کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کی یاد میں جیتا ہے اور اُس کو دوبارہ واپس لانا چاہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ مسلمان اِس کے لیے عملی جہاد کررہے ہیں اور کچھ مسلمان فکری جہاد۔ مگر یہ زمانۂ حاضر سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
آج اسلام اور مسلمانوں کو جو عظیم مواقع حاصل ہیں، وہ پچھلی تمام مسلم سلطنتوں کے زمانے میں کبھی موجود نہ تھے۔ مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ اِس معاملے کو بمعنیٰ سلطان (in terms of Sultan) سوچتے ہیں۔ اگر وہ اِس معاملے کو بمعنی مواقع (in terms of opportunities) سوچیں تو اچانک وہ دریافت کریں گے کہ جس ایمپائر کو دوبارہ قائم کرنے کا وہ خواب دیکھ رہے ہیں، وہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں بالفعل قائم ہوچکا ہے۔ اِس معاملے میں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنی سوچ کو بدلیں، نہ یہ کہ وہ مفروضہ سیاسی حریفوںسے بے فائدہ ٹکراؤ جاری رکھیں۔اِس قسم کے ٹکراؤ کا کوئی مثبت نتیجہ نہ پہلے نکلا ہے، اور نہ آئندہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں
سیارۂ ارض کی سطح پر جو زرخیز مٹی (soil) پائی جاتی ہے، اس قسم کی زرخیز مٹی کسی بھی دوسرے سیارے پر موجود نہیں۔ یہ زرخیز مٹی مختلف اسباب سے کم ہورہی ہے اور اس کے اندر پیداوار کی صلاحیت گھٹتی جارہی ہے۔ اِس موضوع پر سائنٹفک رسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حالت اگر باقی رہے، تو اگلے 60 برس کے اندر زمین کی زرخیزی ختم ہوجائے گی۔ اِس رپورٹ کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(6 فروری 2010 ) میں چھپا ہے۔ اِس رپورٹ کا ایک حصہ یہ ہے:
Fertile soil is being lost faster than it can be replenished and will eventually lead to the “topsoil bank” becoming empty, researchers told an Australian conference. They said farming soil could run out within 60 years, leading to a catastrophic food crisis and drastically higher prices for consumers, reports the Telegraph. Chronic soil mismanagement and over farming causing erosion, climate change and increasing populations were to blame for the dramatic global decline in suitable farming soil, the scientists said. An estimated 75 million tons of soil is lost annually with more than 80% of the world’s farming land “moderately or severely eroded.” John Crawford, professor of Sustainable Agriculture at the University of Sydney, who presented the study, said: “It could be as little as 60 years and that is a scary figure because it is not obvious that we have time to reverse decline and still meet future demands for food.” The Telegraph quoted Crawford as saying. (The Times of India, New Delhi. February 6, 2010)
اِس طرح کی رپورٹیں سائنٹفک کمیونٹی کی طرف سے باربار آرہی ہیں— میٹھے پانی کے ذخیرے سمندروں میں جاکر دوبارہ کھاری پانی بن رہے ہیں، فضا کی آلودگی (pollution) میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، خلاصہ یہ کہ وہ تمام اسباب جو انسان کی بقا کے لیے ضروری تھے، وہ شدید طورپر درہم برہم ہورہے ہیں۔ یہ واقعات اِس بات کی کھلی علامت ہیں کہ قیامت بہت قریب آگئی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی انسان کے لیے آخری صدی ہے، اس کے بعد انسان کی نسل بائیسویں صدی میں داخل ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مولانا سعید احمد اکبرآبادی (وفات: 1982 ) اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔ وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بخوبی دست گاہ رکھتے تھے۔ اُن کا ایک واقعہ ماہ نامہ معارف (جنوری، 2010 ،صفحہ
کون ہوں، کیا ہوں، کہاں ہوں، سب حقیقت کھل گئی تو نے وہ ٹھوکر لگائی، چشم ِ عبرت کھل گئی
مولانا سید سلیمان ندوی کا یہ مشورہ بلاشبہہ ایک صحیح مشورہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ تحریری کام کی دو قسمیں ہیں— ایک، وہ جس کو فکشن (fiction) کہاجاتا ہے۔ اور دوسرا، وہ جس کو نان فکشن (non-fiction) کہا جاتا ہے۔ شاعری وغیرہ، فکشن کے دائرے کی چیزیں ہیں۔ اِس قسم کی تحریریں حقیقۃً صرف ذہنی تفریح کا سامان ہوتی ہیں، تعمیری اعتبار سے اُن کی کوئی اہمیت نہیں۔
نان فکشن میں تمام علمی موضوعات آتے ہیں۔ مثلاً تاریخ اور سائنس، وغیرہ۔ کسی تعلیم یافتہ آدمی کے لیے اصل کرنے کا کام یہی ہے کہ وہ نان فکشن کے دائرے کو اپنا میدانِ مطالعہ بنائے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی علمی موضوع کو منتخب کرکے اس کا گہرا مطالعہ کرے اور اس پر مقالات یا کتابیں لکھے— انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے اعلیٰ مقصد کا انتخاب کرے، وہ اعلیٰ مقصد سے کم تر کسی چیز میںاپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں
خدا نے جس منصوبے کے تحت، انسان کو پیدا کیا ہے، اس کے مطابق، انسان کی زندگی دو دوروں (periods)میں بٹی ہوئی ہے۔ اِن میں سے ایک کو دنیا کہا جاتا ہے، اور دوسرے کو آخرت۔ اِس طرح، ہر انسان کو دو تقاضوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ ایک تقاضاتعمیر دنیا کا ہوتا ہے اور دوسرا تقاضا تعمیر آخرت کا تقاضا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اِن دونوں تقاضوں کے درمیان کس طرح موافقت پیدا کی جائے، زندگی کا وہ نقشہ کیا ہے جس میں دونوں تقاضوں کی رعایت موجود ہو۔ اِس کا قابلِ عمل فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہے— دنیا کے معاملے میں قناعت، اور آخرت کے معاملے میں عدم قناعت۔
انسان کے لیے اپنی موجودہ ساخت کے اعتبارسے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں تقاضوں کو یکساں درجہ دے۔ وہ دنیا کی چیزوں میں بھی بھر پور توجہ دے، اور آخرت کے معاملے میں بھی بھر پور توجہ دے۔ اِس قسم کی برابری کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں عملی طور پر صرف یہ ہوسکتا ہے کہ انسان اِس معاملے میں ترجیح (priority) کا طریقہ اختیار کرے، یعنی وہ دونوں میں سے ایک کو اوّلین (primary) اہمیت دے، اور دوسرے کو وہ ثانوی (secondary) درجے میں رکھے۔
اِس فارمولے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کے معاملے میں قناعت (contentment) کا طریقہ اختیار کرے، اور آخرت کے معاملے میںعدم قناعت (discontentment) کا طریقہ، یعنی دنیا کی چیزوں کے معاملے میں اُس کا مزاج یہ ہو کہ جو کچھ آخرت کا نقصان کیے بغیر مل جائے، اُس کو وہ کافی سمجھے۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ اور اپنی زیادہ سے زیادہ توانائی وہ اس کے حصول میں لگا دے— دنیا کے معاملے میںوہ کم پر راضی ہوجائے، اور آخرت کے معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ کے لیے کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اِس دنیا میں پہلا کام یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دریافت کرے۔ وہ جانے کہ میںکون ہوں، میں اِس دنیا میں کس لیے آیا ہوں، میری زندگی کی منزل کیا ہے، میری کامیابی کیا ہے اور میری ناکامی کیا— یہی وہ دریافت ہے جہاں سے زندگی کے حقیقی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علی بن ابی طالب کا ایک قول ہے: قیمۃ المرء ما یُحسِنہ، یعنی کسی انسان کی قیمت اُس کے اُس عمل میں ہے جس کو وہ ممتاز طورپر انجام دے:
The value of a person lies in excellence.
اصل یہ ہے کہ ہر انسان کا ایک ’’مایحسنہ‘‘ ہوتا ہے۔ ہر انسان فطری طورپر کوئی ایسی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے جس میں وہ خصوصی ملکہ رکھتاہو۔ آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ فطرت کے دئے ہوئے اپنے اِس خصوصی عطیہ (ما یحسنہ) کو دریافت کرے اور پھر اس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ اِس دنیا میں کسی کے لیے اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر لوگ زیادہ بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے ’’مایحسنہ‘‘ کو دریافت نہیں کر پاتے۔ وہ اپنے آپ کو ایسے کام میںلگا دیتے ہیں جس کے لیے وہ پیدا نہیں کئے گئے تھے اور پھر ساری زندگی وہ مایوسی (despair)کا شکار رہتے ہیں اور آخر کار اِسی حال میں مرجاتے ہیں۔
خالق (Creator)نے ہر انسان کو کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر عام طورپر یہ حال ہے کہ لوگ اِسی بڑے کام کو نہیں کرپاتے۔ وہ چھوٹی کامیابی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور بڑی کامیابی تک پہنچنے سے وہ قاصر رہتے ہیں۔
اِس المیہ (tragedy)سے بچنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو اپنا بے رحمانہ محاسبہ (merciless introspection) کرنے کے لیے تیار ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔انھوںنے کہا کہ میں مستقل طورپر منفی احساس میں مبتلا رہتا ہوں۔ اِس کا علاج کیا ہے۔ میں نے اِس کا متعین سبب پوچھا۔ انھوںنے کہا کہ مثال کے طورپر میرے گھر میں ٹی وی چلتا ہے۔ میں ایک عالم آدمی ہوں اور ٹی وی کو برا سمجھتا ہوں۔ میں اُن کو منع کرتاہوں، لیکن گھر والے میری بات نہیںسنتے۔ ایسی حالت میں میں کیا کروں۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کی صورتِ حال میں اسلام کا فارمولا یہ ہے— اگر تم دوسروں کو نہ بچا سکو، تو تم اپنے آپ کو بچاؤ۔ اِسی کا نام صبر ہے۔ صبر کوئی بزدلی کی بات نہیں، صبر زندگی کی ایک عظیم حکمت ہے۔ اجتماعی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ اپنے مزاج کے خلاف ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر تم پُر امن طورپر دوسروں کی اصلاح کرسکو تو تم دوسروں کی اصلاح کرو۔ اور اگرایسا کرنا تمھارے لیے ممکن نہ ہو تو تم خوداپنے آپ کو اُس برائی سے بچاؤ۔ اِسی کا نام صبر ہے۔
منفی احساس میں مبتلا ہونا کوئی سادہ بات نہیں، یہ نفسیاتی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسے موقع پر دوسروں کے خلاف تشدد کرنا جتنا برا ہے، اتنا ہی برا یہ بھی ہے کہ آدمی منفی احساس میں مبتلا رہے۔ پہلا طریقہ اگر دوسروں کے خلاف ظلم ہے، تو دوسرا طریقہ خود اپنے خلاف ظلم۔ اور دونوں ہی طریقے بلا شبہہ یکساں طورپر غیر مطلوب طریقے ہیں۔
موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو آزادی دی ہے۔ قیامت تک کسی کی آزادی ختم ہونے والی نہیں، اِس لیے قیامت تک برائی کا کلی خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف ایک ہی ممکن صورت ہے، وہ یہ کہ وہ امن اور خیر خواہی کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اور جب وہ دیکھے کہ لوگ اصلاح قبول کرنے والے نہیں ہیں، اُس وقت وہ وہی کرے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: علیک بنفسک، ودَعْ عنک العوام ( أبوداؤد، کتاب الملاحم، باب الأمر والنہی) یعنی اپنے آپ کو بچاؤ اور لوگوں کے معاملے کو اللہ کے حوالے کردو ۔
واپس اوپر جائیں
سوال
ماہ اکتوبر(2009) کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ویسے تو آپ کی ہر تحریر مبنی بر حقیقت اور گہرے درد میں ڈوبی ہوتی ہے، لیکن مذکورہ شمارہ میں جو کچھ آپ نے مسئلہ فلسطین پر سپرد قرطاس کیا ہے، میں اس سے کُلی طورپر اتفاق کرتا ہوں۔ یہ حقیقت دراصل بہت لوگوں کے گوشہائے قلب و دماغ میں ہے، مگر اندیشۂ مخالفت، خوفِ بدنامی، اتہام والزام کا ڈر اظہار سے مانع ہے۔ مجھے دل کی گہرائیوں سے سلام کرنے کو جی چاہتا ہے آپ کے عزیمت بھرے اور شجاعتِ اظہار سے پُر قلم کو۔ ہوسکتا ہے بہت سے تنگ دماغوں اور مزاج ِ شریعت سے ناآشنا لوگوں کے لئے یہ بات ناقابلِ قبول بلکہ ایمان و اسلام کے منافی ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو بات آپ نے رقم فرمائی ہے، وہ نصوص ثابتہ اور تاریخ سے واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے۔ قُدس اور فلسطین کا مسئلہ جو ساری امتِ اسلامیہ کے لیے سوہانِ روح بن چکا ہے، اس کی افزائش میں انا کا بہت دخل ہے۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اگر سوچا جائے تو یہ بات صاف طورپر سمجھ میں آجاتی ہے۔ میری تو تمنا اور خواہش ہے کہ اس مسئلہ کو صرف الرسالہ تک ہی محدود نہ کردیا جائے بلکہ عالمی مسلم اور یہودی رہنماؤں کے سامنے اس بات کو پُرامن حل کے طورپر پیش کیا جائے۔ انٹرنیشنل لیول پر اس بات کو رکھا جائے، اور مسئلہ کے اس غیرمتشددانہ حل کو پیش کیا جائے تاکہ اہل عقل اس قندیل کی روشنی میں مستقبل کی راہوں کا تعین کرسکیں۔ امید کہ آپ اس بات کی طرف توجہ دیں گے۔ محترم، اس پورے مضمون میں ایک سوال میرے دل میں کھٹکتا رہاکہ آپ نے صفحہ نمبر
جواب
1 - مسجد اقصیٰ کے بارے میں مسلم تاریخوں میں جو بات کہی گئی ہے، وہ میرے علم میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخی کتابوں کے علاوہ، جو دیگر تاریخی ریکارڈ ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک کے بیان کو اصل مانیں اور دوسرے بیان کی تاویل کریں۔ میںنے اِس معاملے میں، مسلم مورخین کے بیان کو تاویل کے خانے میں ڈالا ہے اور دوسرے تاریخی ریکارڈ کو اصل قرار دیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ابن خلدون (وفات:1406 ء) سے پہلے، مسلم تاریخ نگاروں کے یہاں عام طورپر علمی ذوق کا رواج نہ تھا۔ وہ خالص تاریخی واقعات کے ساتھ مروّجہ قصہ کہانیوں کو بھی اس میں شامل کردیتے تھے۔ اِس لیے اُس زمانے میں لکھی ہوئی تاریخوں پر کلّی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
2 - مسجد اقصی کے بارے میں جو بات میں نے لکھی ہے، وہ بظاہر عمومی تصور کے خلاف ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اِس رائے کی اصل دوسرے مسلم محققین کے یہاں بھی موجود ہے۔ مثال کے طورپر عبد اللہ بن احمد النسفی (وفات: 1310 ء) نے اپنی تفسیر ’’مدارک التنزیل‘‘ میں سورہ الاسراء کی آیت نمبر 1 کے تحت مسجد اقصی کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ہو بیت المقدس، لأنہ لم یکن حینئذ وراء ہ مسجد (جلد 2، صفحہ
محمد بن احمدالانصاری القرطبی (وفات: 1273 ء)نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر
قاضی محمد ثناء اللہ العثمانی (وفات: 1810 ء) نے اپنی تفسیر ’’التفسیر المظہری‘‘ میں سورہ الاسراء کی اِس آیت کے تحت مسجد اقصی کی تشریح میں یہ الفاظ لکھے ہیں: المسجد الأقصی، یعنی البیت المقدس سُمّی أقصی لبُعدہ من المسجد الحرام، ولم یکن حینئذ ورائہ مسجد (جلد 5 ، صفحہ
مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ء) نے اپنی انگریزی تفسیر ’’تفسیر القرآن‘‘ میں سورہ الاسراء کی اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ —یہاں لفظ مسجد سے مراد جگہ (site) ہے، نہ کہ مسجد کی کوئی عمارت:
Masjid: properly denotes the site, not the building of a mosque (Vol. 3, p. 2)
اِس معاملے کی مزید تفصیل الرسالہ کے شمارہ، دسمبر 2009 میں صفحہ
3 - آپ نے لکھا ہے کہ اِس مسئلے کو صرف الرسالہ تک محدود نہ کردیا جائے، بلکہ عالمی سطح کے مسلم اور یہودی رہنماؤں کے سامنے اِس بات کو ایک پر امن حل کے طورپر پیش کیا جائے، تاکہ اہلِ عقل اس کی روشنی میں مستقبل کی راہوں کا تعین کرسکیں۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کام بالفعل ہورہا ہے۔
How to Establish Peace in the Holy Land— Ten Point Program
یہ پمفلٹ بڑے پیمانے پر کانفرنس کے شرکاء اور مقامی لوگوں کو دیا گیا۔اِس پمفلٹ کو سی پی ایس کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھا جاسکتا ہے۔
سوال
الحمد للہ میں ’’الرسالہ‘‘ کا مطالعہ گذشتہ دو سالوں سے کررہا ہوں۔ الرسالہ کے ہر مضمون سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میں خود الرسالہ پڑھتا ہوں، بلکہ اپنے دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں، کیوں کہ الرسالہ میں اسلامی تعلیمات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کر ے۔ میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جومسلسل الرسالہ کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے، لیکن دورانِ مطالعہ کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ چند موضوع پر آپ کے افکار متضاد ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے ذکر کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ مگر گذشتہ دو ماہ (جنوری اور فروری 2009) کے الرسالہ میں ایک ہی موضوع پر دو مختلف آراء نے مجھے مجبور کیا کہ اِس طرف آپ کی توجہ مبذول کروں۔جنوری اور فروری 2009 کے الرسالہ کو راقم نے پورا پڑھا ۔ جنوری کے شمارہ میں ’’ظاہری تبدیلی، حقیقی تبدیلی‘‘ کے زیرِ عنوان آپ نے امریکی میگزین ٹائم (
اِسی موضوع پر فروری 2009کے ’’الرسالہ‘‘ میں آپ رقم طراز ہیںکہ ’’واقعہ بتاتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں وہائٹ پریزیڈینٹ کی جگہ ایک بلیک پریزیڈنٹ آگیا ہے۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ براک اوباما نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ امریکا میں تبدیلی آگئی۔ میں کہوں گا کہ دنیا میں تبدیلی آگئی‘‘(قبرص کا سفر، صفحہ
جنوری 2009 کے ہی شمارہ میںآپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’لوگ ظاہری تبدیلی کو حقیقی تبدیلی سمجھ لیتے ہیں۔ پانچ سال تک براک اوباما اس طرح پُر شور الفاظ بولتے رہیں گے، یہاں تک کہ جب پانچ سال پر ان کا دورِ صدارت ختم ہوگا تو معلوم ہوگا کہ حقیقی معنوں میں کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا، جس کو تبدیلی (change) کہاجاسکے، امریکا کے اصل مسائل بدستور موجود ہیں، بلکہ اُن میں مزید اضافہ ہوگیا‘‘ (صفحہ
جواب
آپ کا خط مورخہ 30 مارچ 2009 ملا۔ آپ الرسالہ کو مسلسل اپنے مطالعے میںرکھیں اور ہر شمارے کو کئی بار پڑھیں۔ ان شاء اللہ آپ کے تمام شبہات دور ہوجائیں گے۔
مذکورہ دونوں مضامین میںکوئی تضاد نہیںہے۔ اصل یہ ہے کہ دونوں بیان دو پہلوؤں کے اعتبار سے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ سماجی اور اقتصادی اعتبار سے امریکا میںکوئی تبدیلی نہیںآئی۔ لیکن صدارتی انتخاب بتاتا ہے کہ امریکا میںایک نیا رجحان ضرور پیدا ہوا ہے، ورنہ وہاںایک بلیک شخص کو صدر کے لیے منتخب نہ کیا جاتا۔ ہر معاملے کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ کبھی ایک پہلو کے اعتبار سے بات کہی جاتی ہے اور کبھی دوسرے پہلو کے اعتبار سے۔ اِس قسم کی مثالیں قرآن اور حدیث میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً قرآن میں اہلِ ضلالت کے لیے ایک جگہ اعمیٰ (الإسراء:
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.