1 - جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں یکم تا 9 اگست 2009 ایک بک فئر لگایا گیا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ اِس اسٹال پر کافی وزٹرس آئے ۔ یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
2 - انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) نے
3 - سرودھرم سنسد (نئی دہلی) کی طرف سے
4 - رمضان 1430 ہجری کے آخری جمعہ (18 ستمبر 2009) کو الرسالہ مشن سے وابستہ افراد نے دہلی اوراطراف کی مسجدوں کے علاوہ یوپی، بہار اور دیگر صوبوں میں رمضان کے موضوع پر اردو میں چھپے ہوئے بروشر تقسیم کئے۔ رمضان کے مہینے میں سی پی ایس کی طرف سے مختلف مساجدمیں ’’تذکیر القرآن‘‘ پہنچایا گیا۔ خاص طور پر پٹنہ اور پھلواری شریف (بہار) کی تقریباً 100 مساجد میں وہاں کے ساتھیوں نے تذکیر القرآن پہنچایا۔
5 - شری ستیہ سائی سیوا سمیتی کی طرف سے 19 ستمبر 2009 کو ’’روزہ اور عید الفطر‘‘ کے موضوع پر نوئیڈا کے سائی سنٹر (سیکٹر
6 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں
Basic Human Values in Islam
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بنیادی اقدارِ انسانی کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر انڈیا کے مختلف مقامات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو پرنسپل موجود تھے۔ سی پی ایس کی طرف سے اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ پروگرام کے بعد ایک پرنسپل نے کھڑے ہو کر اِس ترجمہ قرآن کے لیے سی پی ایس کا شکریہ اداکیا۔ جنرل چھبر نے پرنسپل حضرات سے پرجوش طورپر کہا کہ —اِس کو پڑھیے اور دوسروں تک پھیلائیے۔
7 - بحرین کے ایگزی بیشن سنٹر (مناما) میں 30 ستمبر تا 9 اکتوبر 2009 ایک انٹرنیشنل بک فئر لگایا گیا۔ اِس بک فئر کوبحرین کے اخبار الایّام نے اسپانسر کیا تھا۔ یہاں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ اِس موقع پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ میڈیا نے اس کو نمایاں طورپر کور (cover)کیا۔
8 - سی پی ایس کی طرف سے بڑے پیمانے پر غیر مسلم حضرات تک قرآن کے انگریزی ترجمہ پہنچانے کا کام جاری ہے۔ ہمارے ساتھی مختلف مذاہب کے نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں اور دیگر عالمی شخصیات سے رابطہ کرکے انھیں قرآن پہنچارہے ہیں۔ مثلاً یکم اکتوبر 2009 کوانڈیا کے مشہور سائنٹسٹ ڈاکٹر سوامی ناتھن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح نیوجرسی (امریکا) کی خاتون ایسٹرڈ (Astrid Thoening) کو ان کے سو سالہ یومِ پیدائش کے موقع پر بذریعہ ڈاک انگریزی قرآن کا ایک نسخہ روانہ کیاگیا۔
9 - نئی دہلی کے تھنکرس فورم (Thinkers' Forum on Peace and Non-Violence) کی طرف سے یکم اکتوبر 2009 کو ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار یو این ڈی پی بلڈنگ (لودھی اسٹیٹ، نئی دہلی) کے یو این کانفرنس ہال میں کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Challenges to Peace and Coexistence: The Option of Non-violence
انگریزی زبان میں صدر اسلامی مرکز کی آدھ گھنٹے کی تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ حاضرین میں ہندو اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجودتھے۔ انھوں نے شکریہ کے ساتھ قرآن کے نسخے حاصل کیے۔ کئی لوگوں نے قرآن کی تین تین کاپیاں لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ نسخے ہم اپنے ساتھیوں کو دیں گے۔
10 - انڈین بدھسٹ سوسائٹی (ISBS) کی طرف سے کشمیر یونی ورسٹی میں
I love to read the Quran, as it is so much in the news.
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد، جلد 4،صفحہ
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللّٰہُ أکْبَرُ اللّٰہُ أکْبَرُ، لاَ إلٰہَ إلاّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أکْبَرُ، اللّٰہُ أکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں: إنّ صلا تی ونُسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین (الأنعام:
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یأتی علی الناس زمانٌ یحجّ أغنیاء الناس للنزاہۃ، وأوساطہم للتّجارۃ، وقرّاؤہم للرّیاء والسُمعۃ، وفقراء ہم للمسئلۃ (کنز العُمّال، رقم الحدیث: 12363 ) یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ مال دار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے، اور اُن کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔
یہ حدیث بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ اُن کا حج اِس حدیثِ رسول کا مصداق تونہیں بن گیا ہے۔ مال دار لوگ سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی اسپرٹ ہے ، یا سیر و تفریح (outing) کی اسپرٹ۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علماء غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں، یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اِسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے، یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔
اِس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ امت پر جب زوال آئے گا تو اُس وقت لوگوں کا حال کیا ہوگا۔ دورِ عروج میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ دین کا روحانی پہلو غالب رہتا ہے اور اس کا مادّی پہلو دبا ہوا ہوتا ہے۔ دورِ زوال میں برعکس طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کا روحانی پہلو دب جاتا ہے اور اس کا مادّی پہلو ہر طرف نمایاں ہوجاتا ہے۔ پہلے دور میں، تقویٰ کی حیثیت اصل کی ہوتی ہے اور مادّی چیزیں صرف ضرورت کے درجے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، دورِزوال میں مادی چیزیں اصل بن جاتی ہیں اور کچھ ظاہری اور نمائشی چیزوں کا نام تقویٰ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ بھی۔
واپس اوپر جائیں
حج اور عید اضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مخصوص دن میں خدا کے نام پر جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی عام زندگی سے کوئی علاحدہ چیز نہیں، اس کا تعلق انسان کی تمام زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ قربانی کی اسپرٹ کے ساتھ دنیا میں رہیں۔ قربانی کی اسپرٹ تمام اسلامی اعمال کا خلاصہ ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: وما خلقتُ الجنّ والإنس إلاّ لیعبدون (الذّاریات:
اِس حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے تصورِ عبادت کے مطابق، انسان کے لیے زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ انسان، خدا کی ہستی کو اِس طرح دریافت کرے کہ اُس کو ہر لمحہ خدا کی موجودگی (presence) کا احساس ہونے لگے۔
اس کا شعور اِس معاملے میں اتنا بیدار ہو جائے کہ اس کو ایسا محسوس ہونے لگے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اس کی پوری زندگی کو خدائی رنگ میںرنگ دے۔ اس کے ہر قول اور ہر عمل سے ایسا محسوس ہونے لگے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے، جیسے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، خدا کی براہِ راست نگرانی کے تحت کررہا ہے۔ اِسی زندہ شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا نام عبادت ہے۔ یہ درجہ کسی آدمی کو صرف اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنالیا ہو۔
واپس اوپر جائیں
عبادت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ ان میں سے پانچ چیزیں بنیادی عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمسٍ: شہادۃ أن لا إلٰہ إلااللہ وأنّ محمداً عبد ہ ورسولہ، وإقام الصلوۃ، وإیتاء الزکوۃ، والحج، وصوم رمضان (متفق علیہ) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔اِس بات کی گواہی دینا کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور حج پورا کرنا،اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہ گویا کہ پانچ ستون (pillars) ہیں جن کے اوپر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت ایک دکھائی دینے والی چیز ہے۔اِس حدیث میں عمارتی ڈھانچے کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح ستونوں کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی، اسی طرح ان پانچ ارکان کے بغیر اسلام کا قیام بھی نہیںہوتا۔ اسلام کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ ستونوں کو زندگی میں قائم کیا جائے۔
اسلام کے ان پانچ ارکان کی ایک اسپرٹ ہے، اور ایک اس کا فارم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل اہمیت ہمیشہ اسپرٹ کی ہوتی ہے، لیکن فارم بھی یقینی طورپر ضروری ہے۔ جس طرح جسم کے بغیر روح نہیں، اسی طرح فارم کے بغیر اسلام بھی نہیں۔ اِس معاملے میں بھی اسپرٹ کا اہتمام بہت ضروری ہے، لیکن یہ اہتمام فارم کے ساتھ ہوسکتاہے، فارم کے بغیر نہیں۔
کلمۂ توحید
ان ارکان میں سے پہلا رکن کلمۂ توحید ہے۔ اس کلمہ کا ایک فارم ہے اور اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اس کا فارم یہ ہے کہ آپ عربی کے مذکورہ الفاظ (کلمۂ شہادت) کو اپنی زبان سے ادا کریں ۔ کلمہ کی اسپرٹ معرفت ہے، یعنی خدا کو دریافت کے درجے میں پالینا۔ کلمۂ توحید کی وہی ادائیگی معتبر ہے جو معرفت کی بنیاد پر ہو۔ معرفت کے بغیر کلمہ پڑھنا صرف کچھ عربی الفاظ کا تلفّظ ہے، وہ حقیقی معنی میں کلمۂ توحید نہیں۔
یونان کے قدیم فلسفی ارشمیدس (Archimedes) کو یہ جستجو تھی کہ کشتی پانی کے اوپر کیسے تیرتی ہے۔ وہ اس کی تلاش میںتھا۔ ایک دن وہ پانی کے حوض میں لیٹا ہوا نہا رہا تھا۔ اچانک اس کو فطرت کے اس قانون کی دریافت ہوئی جس کو بائنسی (law of buoyancy) کہاجاتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر اہتزاز(thrill) کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وہ اچانک حوض سے نکلا۔ اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ: میں نے پالیا، میں نے پالیا(Eureka, Eureka) ۔
اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلمہ کی ادائیگی کیا ہے۔ کلمۂ توحید کی ادائیگی دراصل داخلی معرفت کا ایک خارجی اظہار ہے۔ یہ حکم بلا شبہہ اسلام کے ارکان میں اولین اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ اہمیت اس کی داخلی معرفت کی بنا پر ہے، نہ کہ صرف لسانی تلفظ کی بنا پر۔
نماز
اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ دوسرے ارکان کی طرح نماز کا بھی ایک فارم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فارم قیام اور رکوع اور سجود پر مبنی ہے۔ اسی کے ساتھ نماز کی ایک اسپرٹ ہے، وہ اسپرٹ سرنڈر (surrender) ہے، یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردینا۔ خدا کو کامل معنوں میں اپنا مرکز ِ توجہ بنا لینا۔ پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کرلینا۔اِسی اسپرٹ کادوسرا نام قرآن میں ذکر ِ کثیر (الأحزاب:
آدمی جب دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر وہ چیز پیدا ہونا چاہیے جس کو قرآن میںتوسّم (الحجر:
روزہ
اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رُکن روزہ ہے۔ روزہ کا فارم یہ ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ وہ اپنے دن کو بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارے۔ روزہ کی اسپرٹ صبر ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ : ہو شہر الصبر(رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے)۔
صبر (patience) کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سلف ڈسپلن (self-discipline) کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہو۔ وہ اپنی انا کو گھمنڈ نہ بننے دے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سماجی زندگی میں جب اس کو کوئی شاک (shock) لگے تو وہ اس شاک کو اپنے اوپر سہے، وہ اس کو دسرے تک پہنچنے نہ دے۔
نماز کے فارم کے ساتھ جب یہ اسپرٹ شامل ہوجائے تب کسی آدمی کی نماز حقیقی نماز بنے گی، ورنہ حدیثِ رسول کی زبان میں، اس سے کہہ دیا جائے گا کہ : ارجع فصلّ فإنّک لم تصلِّ ( صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
زکوٰۃ
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا فارم یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی کے ایک حصے سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے، اور اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کے حکم کے مطابق، وہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے۔ یہ زکوٰۃ کا فارم ہے۔ زکوٰۃ کی اسپرٹ انسان کی خیر خواہی ہے، یعنی تمام انسانوں کو اپنا سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں انسان دوست رویہ (human-friendly behaviour) اختیار کرنا۔ صرف اپنے لیے جینے کے بجائے، ساری انسانیت کے لیے جینا۔ آدمی اگر زکوٰۃ کی رقم دے دے، لیکن دل سے وہ انسانوں کا خیر خواہ نہ بنے تو اس کی زکوٰۃ ادھوری زکوٰۃ مانی جائے گی۔ ایسے آدمی کی زکوٰۃ پورے معنوںمیں زکوٰۃ نہیں ہوگی۔
حج
اسلامی ارکان میںسے پانچواں رکن حج ہے۔ حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ شرعی اصطلاح میں، حج سے مراد وہ عبادتی سفر ہے جس میں آدمی اپنے وطن سے نکل کر مکہ (عرب) جاتا ہے اور وہاں ماہِ ذو الحجّہ کی مقرر تاریخوںمیں حج کے مراسم ادا کرتاہے اور خدا کے نام پر جانور کو قربان کرتا ہے۔ یہ حج کا فارم ہے ۔ حج کی اسپرٹ قربانی (sacrifice) ہے۔ حج کا فارم اور حج کی اسپرٹ دونوں جب کسی کی زندگی میںاکھٹا ہوں تو وہ حج کی عبادت کرنے والا قرار پاتاہے۔
حج کے دوران منٰی کے مقام پر تمام حاجی، جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ انھیں تاریخوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مسلمان عید اضحی مناتے ہیں۔ عید اضحی گویا کہ حجکی عبادت میںایک قسم کی جُزئی شرکت ہے۔ عید اضحی کے ذریعے تمام دنیا کے مسلمان مکہ میں کئے جانے والے حج کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں (ما ہذہ الأضاحی یا رسول اللہ)۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے (سنۃ أبیکم إبراہیم) اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے زمانے میں جو قربانی دی جاتی ہے، وہ اُس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم نے قائم کیا تھا۔
اِس لیے حج اور قربانی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو سے پیغمبر ِ خدا، حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے۔ اِس مطالعے سے نہ صرف یہ ہوگا کہ ہم کوحج اور قربانی کا تاریخی پس منظر معلوم ہوگا، بلکہ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوجائے گا۔ حج یا عیداضحی میں قربانی دراصل حضرت ابراہیم کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم کی زندگی کی روشنی میں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اِس آیت میں ذِبح عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا، اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اِس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میں آباد کر دیا گیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسبابِ حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اِس لیے اس کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیاگیا ۔
یہ عظیم قربانی، اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ تھا، جس کو فرزند ِ ابراہیم (اسماعیل) کے ذریعے عرب کے صحرا میں عمل میں لایا گیا۔ قرآن (إبراہیم:
ہاجرہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ اُن سے ایک اولاد پیدا ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت، حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اوراُن کے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جاکر بسا دیا جو اُس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارہ میں قرآن میںمختصرطورپر یہ حوالہ ملتا ہے:
’’اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے۔ اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا، مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور اُن کو پھلوں کی روز ی عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں‘‘۔ (إبراہیم :
ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تاکہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہوسکے۔ پھر ابراہیم، ہاجرہ اور اُن کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے ۔ اُس وقت ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اُس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاجرہ اُن کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم، ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم علیہ السلام سے یہ بات کئی بار کہی اور ابراہیم نے ہاجرہ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا (إذن لا یُضَیِّعُنَا)۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو اُنہوں نے اپنا رخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی کہ: اے ہمارے رب، میںنے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا، یہاں تک کہ آپ دعا کرتے ہوئے لفظ یشکرون تک پہنچے۔
ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں۔ یہاںتک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی۔ انھوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر وہ مجبور ہو کر نکلیں۔ انھوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا۔ چناںچہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں۔ وادی کو پار کرکے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اُس پر کھڑے ہو کر اُنہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح اُنھوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں۔ اُنہوں نے ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔ پھر سُننا چاہا تو وہی آواز سُنی۔ اُنہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کرسکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین پرمارا، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کو حوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اُس کے گرد مینڈ کھینچنے لگیں۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشک میں بھرتیں۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اُتنا ہی زیادہ اُبلتا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہاجرہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں، یا آپ نے یہ فرمایا کہ اگر وہ چلّو بھر کرپانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اُس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اُس وقت گھر (کعبہ) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاںتک کہ جُرہُم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کدا کے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ اُنھوں نے وہاںایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا۔ اُنہوں نے ایک یا دو آدمی کو خبر لینے کے لیے وہاں بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اورلوگوں کو پانی کی خبر دی۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں۔ اُنہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بُلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ اُن سے محبت کرنے لگے تو اُنہوں نے اپنی ایک لڑکی سے اُن کا نکاح کردیا۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کا نکاح ہوچکا تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ اُنہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے اُن کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے اُس سے اُن کے گزر بسر اور حالت کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ ہم بہت زیادہ تنگی میں ہیں۔ اُس نے ابراہیم سے شکایت کی۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنا اور اُن سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنھوں نے کچھ محسوس کرلیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ ایک بوڑھا شخص اس اس صورت کا آیا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے بارہ میں پوچھا، میں نے اُن کو بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گزرکیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا اُنہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے ۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنھوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے نکاح کرلیا۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قدر اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اورکشادگی کی حالت میں ہیں۔ اُس نے اللہ عزّوجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ گوشت۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اُس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ، تو اُن کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاںاناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ اُن کو موافق نہ آئے۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنااور میری طرف سے اُن کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ پس جب اسماعیل آئے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کے بزرگ آئے تھے اور اُس نے آنے والے کی تعریف کی۔ اُنہوں نے مجھ سے آپ کے بارہ میں پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے دوبارہ ہمارے گزر بسر کے بارہ میں پوچھا۔ میںنے اُنھیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انھوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ اُنھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔ پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ پس انھوںنے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اُسے کر ڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کروگے۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت اُن دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر (حجر اسود) لائے اور اُس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اُس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پتھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے کہ —اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس وہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے ارد گرد یہ کہتے ہوئے چکر لگاتے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘۔
صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتّخذ اللہ ابراہیم خلیلاً
(رقم الحدیث : 3364 )
ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابراہیم 1985ق م میں عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے
حضرت ابر اہیم سے پہلے، مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن ان تمام پیغمبروں کے ساتھ یکساں طورپر یہ ہوا کہ لوگ ان کا انکار کرتے رہے۔ انھوںنے پیغمبروں کا استقبال استہزا( یٰسٓ: 30 )کے ساتھ کیا۔
حضرت ابراہیم کے اوپر پیغمبر کی تاریخ کا ایک دور ختم ہوگیا۔ اب ضرورت تھی کہ دعوت الی اللہ کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس منصوبہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا انتخاب کیا۔ چناںچہ حضرت ابراہیم عراق سے نکلے اور مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے آخر کار وہاں پہنچے جہاں آج مکہ آباد ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، آپ کا یہ سفر فرشتہ جبرئیل کی رہنمائی میںطے ہوا۔
واپس اوپر جائیں
اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے ہیں۔ اس خواب کے مطابق، حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن یہ ایک تمثیلی خواب تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اب خدائی منصوبہ کے مطابق، اپنے بیٹے کو توحید کے مشن کے لیے وقف (dedicate) کردو، ایک ایسا مشن جو عرب کے بے آب وگیاہ صحرا میں شروع ہونے والا تھا۔
قرآن میںحضرت ابراہیم کے اس خواب کا ذکر سورہ نمبر
جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے ایک صحرائی مقام میں آباد کردیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اسی مقام پر بعد کو حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے اسماعیل نے کعبہ کی تعمیر کی، اور حج کا نظام قائم فرمایا۔
ہاجرہ اوراسماعیل کو صحرا میں اس طرح آباد کرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا ایک نئی نسل بنانا۔ اس زمانہ کی شہری آبادیوں میں مشرکانہ کلچر مکمل طورپر چھاچکا تھا۔اس ماحول میں جو بھی پیدا ہوتا وہ مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہوجاتا۔ اس بنا پر اس کے لیے توحید کے پیغام کو سمجھنا ممکن نہ رہتا۔ متمدن شہروں سے دور صحرا میں ہاجرہ اور اسماعیل کو اس لیے بسایا گیا تاکہ یہاں فطرت کے ماحول میںان کے ذریعہ سے ایک نئی نسل تیار ہو، ایک ایسی نسل جو مشرکانہ کنڈیشننگ سے پوری طرح پاک ہو۔ تو الد وتناسل کے ذریعہ یہ کام جاری رہا یہاںتک کہ بنو اسماعیل کی قوم وجود میں آئی۔
اسی قوم کے اندر 570 ء میں پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں اللہ تعالیٰ نے نبی مقرر کیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ بنو اسماعیل کے اندر سے آپ کو وہ قیمتی افراد ملے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ ان لوگوں کو ساتھ لے کر آپ نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر انقلاب کے مرحلہ تک پہنچایا۔
حضرت ابراہیم کے ذریعہ جو عظیم دعوتی منصوبہ زیر عمل آیا، حج کی عبادت گویا اسی کاایک ریہرسل ہے۔ ذو الحجہ کے مہینہ کی مخصوص تاریخوں میں ساری دنیا کے مسلمان اکھٹا ہو کر ریہرسل کے روپ میں اس تاریخ کو دہراتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے ساتھ پیش آئی۔
اس طرح تمام دنیا کے مسلمان ہر سال اپنے اندر یہ عزم تازہ کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر کے اس نمونہ کو اپنے حالات کے مطابق، مسلسل دہراتے رہیں گے۔ ہر زمانہ میں وہ دعوت الی اللہ کے اس عمل کو مسلسل زندہ رکھیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
اس ابراہیمی عمل میں قربانی کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جس کی کامیاب ادائیگی کے لیے قربانی کی اسپرٹ ناگزیر طورپر ضروری ہے۔ اس قربانی کی اسپرٹ کو مسلسل طورپر زندہ رکھنے کے لیے حج کے زمانہ میں منیٰ میں، اورعیداضحی کی صورت میں تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے مقام پرجانور کی قربانی کرتے ہیں اور خدا کو گواہ بنا کر اس اسپرٹ کو زندہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔
حج اور عید اضحی کے موقع پر جانور کی جو قربانی کی جاتی ہے، وہ دراصل جسمانی قربانی کی صورت میں با مقصد قربانی کے عزم کے ہم معنی ہے۔ یہ دراصل داخلی اسپرٹ کا خارجی مظاہرہ ہے:
It is an external manifestation of internal spirit.
آدمی کے اندر پانچ قسم کے حواس (senses)پائے جاتے ہیں۔ نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں انسان کے تمام حواس شامل ہوں تو وہ بات انسان کے دماغ میں زیادہ گہرائی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ قربانی کی اسپرٹ کو اگر آدمی صرف مجرد شکل میں سوچے تو وہ آدمی کے دماغ میں بہت زیادہ ذہن نشین نہیں ہوگی۔ قربانی اسی کمی کی تلافی ہے۔
جب آدمی اپنے آپ کو وقف کرنے کے تحت جانور کی قربانی کرتا ہے تو اس میں عملاً اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ دماغ سے سوچتا ہے، وہ آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ کان سے سنتا ہے، وہ ہاتھ سے چھوتا ہے، وہ قربانی کے بعد اس کے ذائقے کا تجربہ بھی کرتا ہے۔ اس طرح اس معاملہ میں اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ قربانی کی اسپرٹ کو محسوس کرتا ہے، وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ قربانی کی اسپرٹ اس کے اندر بھر پور طورپر داخل ہوجائے، وہ اس کے گوشت کا اور اس کے خون کا حصہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
حج یا عید ِاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس قربانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اسپرٹ، اور دوسرے اس کی ظاہری صورت۔اسپرٹ کے اعتبار سے قربانی ایک قسم کا عہد (pledge) ہے۔ قربانی کی صورت میں عہد کا مطلب ہے عملی عہد (pledge in action) ۔ عہد کے اس طریقہ کی اہمیت کو عمومی طورپر تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یہاں اس نوعیت کی ایک مثال دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ قربانی کا مطلب کیا ہے۔ نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ ہندستان کی مشرقی سرحد پر ایک پڑوسی طاقت کی جارحیت کی وجہ سے زبردست خطرہ پیداہو گیا تھا۔ سارے ملک میں سنسنی خیزی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
اُس وقت قوم کی طرف سے جو مظاہرے ہوئے، اس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ احمد آباد کے
To give ourselves to you
مذکورہ نوجوانوں نے اپنی قربانی کا علامتی اظہار
جہاں تک قربانی کی اسپرٹ کا سوال ہے، اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیںہوسکتا۔ یہ ایک عالمی طورپر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس قسم کی اسپرٹ کے بغیر کبھی کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ البتہ جہاں تک قربانی کی شکل کا تعلق ہے، یعنی جانور کا ذبیحہ، اس پر کچھ لوگ شک و شبہہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانور کو ذبح کرنا تو ایک بے رحمی کی بات ہے، پھر ایسے ایک بے رحمی کے عمل کو ایک مقدس عبادت میں کیوں شامل کیا جاتا ہے۔
اس معاملہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی حقیقی اعتراض نہیں۔ یہ صرف ایک بے اصل بات ہے جو توہمانہ کنڈیشننگ (superstitious conditioning) کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے، اس کے پیچھے کوئی علمی بنیاد نہیں۔
واپس اوپر جائیں
کھانے پینے کے معاملے میں کچھ چیزیں انسان کے لیے حلال ہیں اور کچھ چیزیں حرام ہیں۔ حلال اور حرام کا یہ فرق کس بنیادپر قائم ہوتا ہے۔ایک طبقہ کا یہ کہنا ہے کہ اصل حرام فعل یہ ہے کہ کسی زندگی کو ہلاک کیا جائے۔ اس معاملہ میں ان کا فارمولا یہ ہے— ایک حسّاس زندگی کو مارنا حرام ہے، اور حسّاس زندگی کو نہ مارنا سب سے بڑی نیکی ہے:
Killing of a sensation is sin and vice versa.
یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ سرے سے قابل عمل ہی نہیں، جیسا کہ اس مضمون میں دوسرے مقام پر واضح کیا جائے گا ۔ زندگی کو مارنا ہمارا اختیار (option) نہیں۔ انسان جب تک زندہ ہے، وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر بے شمار زندگیوں کو ہلاک کرتا رہتا ہے۔ جو آدمی اس ’’گناہ‘‘ سے بچنا چاہے، اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار (option) ہے، یا تو وہ خود کشی کرکے اپنے آپ کو ختم کرلے، یا وہ ایک اور دنیا کی تخلیق کرے جس کے قوانین اس سے مختلف ہوں جو موجودہ دنیا کے قوانین ہیں۔
اسلام میں غذاؤں میںحلال اور حرام کا اصول بنیادی طورپر یہ ہے کہ چند مخصوص چیزوں کو اسلام میں حرام قرار دیاگیا ہے۔ ان کے علاوہ بقیہ تمام چیزیں اسلام میں جائز خوراک کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حرام اور حلال کا یہ اصول جو اسلام نے بتایا ہے، وہ فطرت کے قوانین پر مبنی ہے۔ چناں چہ آج بھی ایک محدود گروہ کو چھوڑ کر ساری دنیا حرام و حلال کے اسی اصول کا اتباع کررہی ہے۔ یہ محدود گروہ بھی صرف کہنے کے لیے اپنا نظریہ بتاتا ہے، ورنہ جہاں تک عمل کا تعلق ہے، وہ بھی بالفعل اسی فطری اصول پر قائم ہے۔ مثلاً یہ تمام لوگ عام طورپر دودھ اور دہی وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ پہلے یہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ دودھ اور دہی وغیرہ غیر حیوانی غذائیں ہیں۔ مگر اب قطعیت کے ساتھ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ سب بھی پورے معنی میں حیوانی غذائیں ہیں۔ جس آدمی کو اس بات پر شک ہو، وہ کسی بھی قریبی تجربہ گاہ (laboratory) میں جاکر خورد بین (microscope)میں دودھ اور دہی کا مشاہدہ کرے۔ ایک ہی نظر میں وہ جان لے گا کہ اس معاملہ میں حقیقت کیا ہے۔
اسلام میں حلال جانور اور حرام جانور کی جو تفریق کی گئی ہے، وہ بنیادی طورپر اس اصول پر مبنی ہے کہ لحمی غذاکھانے والے جانور حرام ہیں اور غیر لحمی غذا کھانے والے جانور حلال ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو جانور براہِ راست حیوانات کو کھا کر اپنی خوراک بناتے ہیں، ان کا گوشت انسان کے لیے باعتبار صحت موزوں نہیں ہوتا۔ دوسرے جانوروں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اندر مخصوص فطری نظام ہوتا ہے جس کے مطابق، ایسا ہوتا ہے کہ جو زرعی غذا وہ کھاتے ہیں اس کو وہ مخصوص عمل کے ذریعہ پروٹین میں تبدیل کرتے ہیں ، چناں چہ وہ ہمارے لیے صحت بخش اور زود ہضم بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
غذا انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ قدیم زمانہ میں غذا کا مطلب صرف دو ہوا کرتا تھا— ذائقہ لینا اور بھوک مٹانا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں یہ دونوں چیزیں اضافی بن چکی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ خوراک کا مقصد ہے کہ جسم کو ایسی غذا فراہم کرنا جس کو موجودہ زمانہ میں متوازن غذا(balanced diet) کہاجاتا ہے جس میں بنیادی طور پر چھ اجزا شامل ہیں:
A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts and fibre in the correct proportions.
ان اجزاء میں سے پروٹین (protein) کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ پروٹین کا ہمارے جسم کی بناوٹ میں بنیادی حصہ ہے:
Protein is the main building block of our body.
پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ لحمی غذا ہے۔ لحمی غذا سے ہم کو اعلیٰ پروٹین حاصل ہوتی ہے۔ غیر لحمی غذاؤں سے بھی کچھ پروٹین ملتی ہے لیکن وہ نسبتًا ناقص پروٹین ہوتی ہے:
Meat is the best source for high-quality protein. Plant protein is of a lower biological value.
مزید یہ کہ لحمی پروٹین اور غیر لحمی پروٹین کی تقسیم بھی صرف تقریب فہم کے لیے ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ اس لیے کہ خوردبین کی دریافت کے بعد سائنس کے میدان میں جو مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام غذائی اشیاء کے اندر بے شمار بیکٹیریا موجود رہتے ہیں جو مکمل طورپر زندہ اجسام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن غیر لحمی غذاؤں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان میں بڑی مقدار میں پروٹین ہوتا ہے مثلاً دودھ، دہی، پنیر وغیرہ، وہ سب بیکٹیریا کے ناقابلِ مشاہدہ پراسس کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ بیکٹیریا کا عمل اگر اس کے اندر نہ ہو تو کسی بھی غیر لحمی غذا سے پروٹین حاصل نہیںکیا جاسکتا۔
بیکٹیریا کو علمی زبان میں مائیکرو آرگنزم (micro-organism) کہاجاتا ہے، یعنی اجسام صغیر۔ اس کے مقابلہ میں حیوانات مثلاً بکری اور بھیڑ وغیرہ کی حیثیت میکرو آرگنزم (macro organism) کی ہے، یعنی اجسام کبیر۔ اس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ ہر آدمی عملاً لحمی غذا کھارہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نام نہاد ویجیٹیرین اس کو اجسام صغیر کی صورت میں لے رہے ہیں اور نان ویجیٹیرین لوگ اس کو اجسام کبیر کی صورت میں لے رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر انسان کا معدہ ایک عظیم مذبح (slaughter house) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس غیر مرئی مذبح میں ہر روز ملین اینڈ ملین اجسام صغیر ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا میں اجسام کبیر کے جومذبح خانے ہیں ان کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ۔
اس سارے معاملے کا تعلق خالق کے تخلیقی نظام سے ہے۔ خالق نے تخلیق کا جو نظام مقرر کیاہے، وہ یہی ہے کہ انسان کے جسم کی غذائی ضرورت زندہ اجسام (living organism) کے ذریعے پوری ہو۔ فطرت کے نقشہ کے مطابق، زندہ اجسام کو اپنے اندر داخل کیے بغیر کوئی مرد یا عورت اپنی زندگی کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ خالق کے نقشہ کے مطابق، زندہ چیزیں ہی زندہ وجود کی خوراک بنتی ہیں۔ جن چیزوں میں زندگی نہ ہو، وہ زندہ لوگوں کے لیے خوراک کی ضرورت فراہم نہیں کرسکتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (vegetarianism)اور نان ویجیٹیرین ازم (non-vegetarianism) کی اصطلاحیں صرف ادبی اصطلاحیں ہیں، وہ سائنسی اصطلاحیں نہیں۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لیے اس کے سواکوئی چوائس (choice)نہیں کہ وہ نان ویجیٹیرین بننے پر راضی ہو۔ جو آدمی خالص ویجیٹیرین بن کر زندہ رہنا چاہتا ہو، اس کو یاتو اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہوگا یا پھر اس کو ایک اور عالم تخلیق کرنا ہوگا جہاں کے قوانین موجودہ دنیا کے قوانین سے مختلف ہوں۔ ان دو کے سوا کوئی دوسرا چوائس کسی انسان کے لیے نہیں۔
واپس اوپر جائیں
فلسفہ قیاسی علوم (speculative sciences) میں سے ایک علم ہے۔ فلسفہ قدیم ترین شعبۂ علم ہے۔ دنیاکے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غور وفکر میں مشغول رہے ہیں۔ لیکن لمبی تاریخ کے باوجود فلاسفہ کا گروہ انسان کو کوئی مثبت چیز نہ دے سکا، بلکہ فلسفے نے صرف انسان کی فکری پیچیدگیوں میںاضافہ کیا۔ فارسی شاعر نے بالکل درست طور پر کہا ہے:
فلسفی سِرِّ حقیقت نہ توانست کشود گشت رازِ دگر آں راز کہ افشامی کرد
فلسفہ نے انسان کو جو چیزیں دیں، ان کو ایک لفظ میں فکری مغالطہ کہا جاسکتا ہے، یعنی ایسے قیاسات جو حقیقت واقعہ پر مبنی نہ ہوں۔ افکار کی تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
تمام فلسفیوں کی مشترک غلطی یہ رہی ہے کہ ہر ایک کے ذہن میں چیزوں کا ایک معیاری ماڈل (ideal model) بسا ہوا تھا، جو کبھی اور کسی دور میں حاصل نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فلسفیوں کا یہ ماڈل دنیا کے بارے میں خالق کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ انعام کے لیے۔ اسی امتحان کے لیے انسان کو آزادی دی گئی ہے۔ یہ امتحانی آزادی اس راہ میں رکاوٹ ہے کہ اس دنیا میں کبھی کوئی معیاری نظام بن سکے۔
معیاری نظام صرف اس وقت بن سکتا ہے جب کہ تمام لوگ بغیر استثناء اپنی آزادی کو بالکل صحیح صورت میں استعمال کریں، تاہم مختلف اسباب سے ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ اس لیے اس دنیا میں معیاری نظام کا بننا بھی کبھی ممکن نہیں۔ تاریخ کے تمام فلسفی اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فلسفی اپنے ذہنی ماڈل کے مطابق، معیاری نظام کا خواب دیکھتے رہے۔ مگر فطرت کے قانون کے مطابق، ان کا یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ یہاں بطور نمونہ چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
1 - افلاطون (Plato) قدیم یونان کا مشہور فلسفی ہے۔ اس نے
Power corrupts and abslute power corrupts absolutely.
آئڈیل ازم کا یہ فلسفیانہ تصور پوری تاریخ میں چھایا رہا ہے۔ آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج، آئڈیل نظام کا نشانہ ہمیشہ تمام فلسفیوں اور مفکروں کا خوب صورت خواب رہا ہے، مگر یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ خواب اس غلط فکری پر مبنی تھا کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل زندگی صرف جنت میں قابل حصول ہے۔ موجودہ دنیا صرف اس لیے بنی ہے کہ انسان یہاں اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کرے، تاکہ وہ مرنے کے بعد جنت کی آئڈیل دنیا میں جگہ پاسکے۔ جس طرح ایک طالب علم کو امتحان ہال کے اندر اپنا مطلوب جاب نہیں مل سکتا، اس طرح موجودہ دنیا میں کسی انسان کو آئڈیل جنت بھی ملنے والی نہیں۔
2 - انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنسی مشاہدے کا طریقہ دنیا میں رائج ہوا تو فلسفیوں کے اندر ایک نیا فکر پیدا ہوا جس کا یہ کہنا تھا کہ حقیقت وہی ہے جو قابلِ مشاہدہ (observable) ہو، جو معلوم سائنسی طریقوں کے مطابق قابل تصدیق (verifiable) ہو۔ اسی سوچ کے تحت مختلف اسکول آف تھاٹ بنے۔ مثلاً انیسویں صدی کا فرنچ فلسفی آگسٹ کامٹے(Auguste Comte) کا پازیٹیوازم (Positivism) اوربیسویں صدی کے جرمن فلاسفر رڈولف کارنیپ (Rudolf Carnap) کا لاجیکل پازی ٹیوازم وغیرہ۔
اس قسم کے مفکروں اور فلسفیوں نے تقریباً سوسال تک دنیا بھر کے ذہنوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو چیز مشاہدہ میں نہ آئے وہ حقیقت بھی نہیں۔ ان نظریات کے تحت وہ فلسفہ پیدا ہوا جس کو سائنسی الحاد(scientific atheism) کہاجاتا ہے۔ ان نظریات کے مطابق، خدا اور مذہب کا عقیدہ علمی اعتبار سے بے بنیاد ثابت ہوگیا۔
علمی حلقوں میں سائنسی الحاد پر چرچا جاری تھا کہ خود سائنس نے اس نظریے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔سائنس میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب کہ سائنس دانوں نے اس حقیقت کو دریافت کیا جس کو کوانٹم میکینکس (quantum mechanics) کہاجاتا ہے۔ اس دریافت کو عظیم ترین فکری فتح (greatest intellectual triumph) کہاجاتا ہے۔ اس سائنسی نظریہ کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ ایٹمی ذرات کو امواج (waves) سمجھا جانے لگا۔ اس سائنسی دریافت میں خاص طورپر حسب ذیل سائنس دانوں کے نام شامل ہیں:
Paul Dirac, Heisenberg, Jordan, Schrodinger, Einstein
اس سائنسی دریافت نے قدیم نیوٹانین میکینکس کو علمی طورپر قابل رد قرار دے دیا۔ اب علم کا دریا عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا، یعنی دکھائی دینے والی چیزوں کے علاوہ نہ دکھائی دینے والی چیزیں بھی علم کا موضوع بن گئیں۔
واپس اوپر جائیں
یہ ایک دور رس فکری انقلاب تھا جو بیسویں صدی کے نصف اول میں پیش آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو نظریاتی تبدیلیاں ہوئیں، ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ تھی کہ استدلال کا اصول (principle of reason) بدل گیا۔ اس فکری انقلاب سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جائز استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) ہو، یعنی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی استدلال۔ مگر اب استنباطی استدلال (inferential argument) بھی یکساں طورپر جائز استدلال بن گیا۔ جب جوہری ذرّات (subatomic particles) ناقابل مشاہدہ ہونے کے باوجود صرف استنباطی استدلال کی بنیاد پر ایک سائنسی واقعہ تسلیم کر لیے گئے تو لازمی طور پر اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ استنباطی استدلال کی بنیاد پر خدا کا استدلال بھی عین اسی طرح جائز سائنسی استدلال ہے۔
علمائِ الٰہیات خدا کے وجود پر ایک دلیل وہ دیتے تھے جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے۔ یعنی جب ڈزائن ہے تو ضروری ہے کہ اس کا ایک ڈزائنر ہو۔ اس استدلال کو پہلے ثانوی استدلال (secondary rationalism) مانا جاتا تھا۔ مگراب جدید سائنسی انقلاب کے بعد یہ استدلال بھی اسی طرح ابتدائی استدلال (primary rationalism) کی فہرست میںآچکا ہے، جیسا کہ دوسرے معروف سائنسی استدلالات۔
3 - انھیں فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کہاجاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔
یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔
اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر ارتقاء حیات کا ڈرامہ ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔
زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقاء کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔
4 - اسی قسم کا فکری مغالطہ وہ ہے جس کو ہیومنزم (Humanism) کہاجاتا ہے۔ یعنی مبنی برانسان توجیہہ کائنات(human-based explanation of universe)۔ اس فلسفہ کے تحت خدا کے عقیدہ کو حذف کرکے صرف انسان کی بنیاد پر زندگی کی توجیہہ کی جاتی ہے۔ اس نظریہ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے— سیٹ کا خدا سے ٹرانسفر ہوکر انسان کو دے دینا:
Transfer of seat from God to man.
اس نظریہ کی حمایت میں بیسویں صدی عیسوی میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ انھیں میں سے ایک کتاب وہ ہے جو انگریزفلسفی جولین ہکسلے (وفات: 1975 )نے تیار کرکے شائع کی۔ کتاب کے موضوع کے مطابق، اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man stands alone
یہ کتاب پوری کی پوری صرف دعویٰ اور قیاس پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ مثلاً اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب انسان کو وحی کی ضرورت نہیں، اب انسان کی رہنمائی کے لیے عقل بالکل کافی ہے۔ مگر اس دعوی کی تائید میں کتاب کے اندر کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ امریکی سائنس داں کریسی ماریسن (وفات: 1951 ) نے خالص علمی انداز میں اس کتاب کا جواب دیا۔ یہ کتاب جولین ہکسلے کے دعوی کو بالکل بے بنیاد ثابت کرتی ہے:
Man does not stand alone
5 - بدھ ازم کو موجودہ زمانہ میں سیکولرطبقہ کے درمیان کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کو یہ مقبولیت کسی سائنسی بنیاد پر نہیں ہوئی ہے بلکہ صرف ایک مغالطہ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ عام طور پر لوگ چیزوں کا سائنسی تجزیہ کرکے اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس بنا پر اکثر لوگ مغالطہ آمیز فکر کا شکار ہوتے ہیں۔ بدھ ازم کی موجودہ مقبولیت بھی انھیں میں سے ایک ہے۔
بدھسٹ فلسفہ کے مطابق انسان نسل درنسل ایک لمبا سفر کررہا ہے۔ اس کی آخری منزل نروان ہے۔ اس آخری منزل تک پہنچنے کا ایک حتمی کورس ہے۔ یہ علت اور سبب کا کورس ہے۔ ہر عورت یا مرد اپنے عمل کے مطابق، ایک جنم کے بعد دوسرے جنم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، کبھی اچھی حالت میں اور کبھی بری حالت میں۔ اس نظریہ کو پنر جنم کہا جاتا ہے۔ اور پھر کئی ملین سال تک یہ سفر کرتے کرتے وہ نجات (salvation) تک پہنچتے ہیں جس کو بدھ ازم میں’’ نروان‘‘ کا نام دیاگیا ہے:
They all hold in common a doctrine of Karman (efftects), the law of cause and effect, which states that what one does in this present life will have its effect in the next life. (EB/VIII: 488)
یہ فلسفہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ پنر جنم کا یہ نظریہ کہتا ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم میں کئے ہوئے کرم کے مطابق اگلے جنم میں اچھی حالت یا بری حالت میںپیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہرایک کو اپنے پچھلے جنم کا حال یاد رہنا چاہیے جس طرح جیل میں سزا پانے والے ایک قیدی کو اپنے پچھلے دنوں کا جرم یاد رہتاہے، یا ترقی پر پہنچنے والے ایک شخص کو اپنے پچھلے زمانہ کی وہ کوششیں یاد رہتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس عہدے تک پہنچا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، دنیا بھر میں بسنے والے عورتوں اور مردوں کو اپنے پچھلے جنم کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔
یہ واقعہ پنر جنم کے فلسفہ کو سراسر غیر علمی ثابت کررہا ہے۔ موجودہ زمانہ میں نفسیات کے تحت انسان کا نہایت تفصیلی مطالعہ کیاگیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یاد داشت (memory) انسان کی شخصیت (personality) کا لاینفک حصہ ہے۔ انسانی شخصیت کو اس کی یادداشت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پنر جنم کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی کی شخصیت ایک جنم سے دوسرے جنم کی طرف اس طرح سفر کرتی ہے کہ اپنے پچھلے زمانہ کے بارے میں اس کی یادداشت اس کے ساتھ موجود نہیں ہوتی۔ کسی آدمی کے اگلے جنم میں اگر اس کی پچھلی شخصیت منتقل ہوتی ہے تو اس کی یاد داشت بھی اس کے ساتھ لازماً موجود رہنی چاہیے۔ یہ واقعہ اس پورے نظریہ کو سرتاسر بے بنیاد ثابت کررہا ہے۔
قبل سائنسی دور میں فرضی قیاس کے تحت اس قسم کا نظریہ مانا جاسکتا تھا۔ لیکن سائنسی دور میں وہ بالکل ناقابل قبول ہوچکا ہے۔ جدید سائنس نے جس طرح دوسرے تمام فرضی تصورات کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے، اسی طرح پنر جنم کا تصور بھی اب بلا شبہہ بے بنیاد قرار پائے گا۔
6 - انھیں فکری مغالطوں میں سے ایک مغالطہ وہ ہے جو ویجیٹیرین ازم (vegetarianism) کے نام سے معروف ہے۔یہاں اِس معاملے کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
لوہے اور پتھر جیسی چیزیں غیر ذی روح مادہ(dead matter) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے وجود کے لیے زندہ اجسام کی ضرورت نہیں۔ مگر انسان کی حیثیت ایک زندہ وجود کی ہے۔ زندگی کی بقا کے لیے زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے اسے ہر لمحہ زندگی بخش غذاؤں کی ضرورت ہے۔ یہ غذا انسان کو سبزی اورپھل اور اناج وغیرہ کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ ان غذائی اجزا کو کھا کر پیٹ میں ڈالنا ہی کافی نہیں۔ اس کے بعد ایک اور عمل درکار ہے جس کو عمل ہضم کہاجاتا ہے۔ یہ عمل ایک پیچیدہ نظام ہضم (digestive system) کے تحت انجام پاتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ غذائی اجزاء جسم کا جزء بنتے ہیں۔ اس ہضمیاتی عمل (digestive process) میں اصل حصہ زندہ بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔ بیکٹیریا اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن وہ مکمل معنوں میں ایک زندہ وجود ہیں۔ یہ بیکٹیریا بے شمار تعداد میں انسان کے جسم میں داخل ہو کر ہضمیاتی عمل کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر بیکٹیریا کی مدد نہ ملے تو کوئی بھی غذا انسان کے لیے صحت بخش غذا نہ بن سکے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Daily piyo, healthy jiyo
یہ ایک انٹرنیشنل مشروب کا اشتہار ہے جس کو صحت بخش مشروب (pro-biotic drink) بتایا گیا ہے اور اس کا نام یاکلٹ(Yakult) ہے۔ یہ 1935 میں بنایا گیا اور 30 ملکوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اب انڈیا میں بھی اس کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
اس اشتہار میں اس کی سائنٹفک تشریح کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں مفید بیکٹیریا بہت بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو ہضم کے عمل میں بے حد معاون ہوتے ہیں، وہ مختلف پہلوؤں سے انسان کو طاقت دیتے ہیں:
Yakult is a probiotic drink that contains special beneficial bacteria, lactobacillus casie strain shirota. Every 65 ml bottle of Yakult contains over 6.5 billion friendly bacteria. Yakult's bacteria are unique and reach the intestines alive to impart various health benefits. Yakult aids digestion, builds immunity, and prevents infection.
زندگی بخش بیکٹیریا ہر آن انسان کے جسم میں مختلف طریقوں سے داخل ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ مشروب اسی عمل کو تیز تر کرنے کی ایک تدبیر ہے۔
معلوم ہوا کہ لحمی غذا انسان کے لیے اختیاری بات نہیں، وہ انسان کی مجبورانہ ضرورت ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ غذا انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس معاملہ میں ویجٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ کی تقسیم صرف ایک اعتباری تقسیم ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ کیوں کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے ہر غذا آخر کار ایک لحمی غذا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نان ویجیٹیرین فوڈ میں اس کا لحمی ہونا آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ ویجیٹیرین فوڈ میں بھی لحمی عنصر مکمل طورپر شامل رہتا ہے، اگر چہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ نان ویجیٹیرین آدمی حیوانِ کبیر (macro organism) کو اپنی غذا بناتا ہے اور نام نہاد ویجیٹیرین آدمی حیوانِ صغیر (micro organism) کو اپنی غذا بنا رہا ہے۔ بظاہر دونوں ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
جو لوگ کہتے ہیں کہ ویجیٹیرین فوڈ ہی انسان کے لیے صحیح فوڈ ہے، وہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو صرف ان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے۔ ان کے اپنے ذہن کے باہر اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، ان لوگوں کا کلمہ یہ ہے— احساس کو مارنا گناہ ہے، اس کے برعکس احساس کو زندگی دینا نیکی:
Killing of a sensation is sin and vice versa.
یہ ایک خود ساختہ فارمولا ہے اس کی کوئی بنیاد (base) نہ تو فطرت کے قانون میں ہے اور نہ سائنس کی دریافتوں میں ۔ یہ نظریہ مکمل طورپر ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ مثلاً یہ لوگ انسانی دانت کی ساخت کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ انسان کے دانت درندہ جانور سے مختلف ہیں، اِس لیے وہ سبزی خور حیوان (herbivorous) ہے، وہ گوشت خور حیوان (carnivorous) نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے دانت درندہ جانور سے مختلف نہیں بلکہ مشابہ ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ درندے جانور کے گوشت کو کچا کھاتے ہیں، اس لیے ان کے دانت مختلف بنائے گئے ہیں۔ لیکن انسان گوشت کو پکا کرکھاتا ہے، اس لیے انسان کے دانت درندہ جانور سے جزئی طور پرمشابہ تو ضرور ہیں لیکن وہ عین اس کے مطابق نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، سیارۂ زمین کا تقریباً
واضح ہو کہ اس وقت کرہ زمین کے اوپر ساتبلین سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ ایسی حالت میں زرعی خوراک کی یہ کمی صرف لحمی خوراک سے پوری کی جاسکتی ہے جیسا کہ دنیا میں ہورہا ہے۔ خالق کو یہ بات معلوم تھی۔ چناں چہ اس نے سمندروں میں نان ویجیٹیرین فوڈ کا بہت بڑا ذخیرہ رکھ دیا۔ اسی کے ساتھ خدا نے فضاؤں میں اڑنے والی چڑیاں بنائیں اور جنگلوں میں مختلف حیوانات پیدا کردیے۔ یہ سب اس لیے ہوا، تاکہ انسان زرعی خوراک کی کمی کو لحمی خوراک کے ذریعے پورا کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن (پیدائش : 1925 ) انڈیا کے مشہور زرعی سائنٹسٹ ہیں۔ وہ انڈیا میںگرین ریولیوشن (green revolution) کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار اسٹیٹس مین کے شمارہ 4 ستمبر 1967 میں سوامی ناتھن کا ایک خصوصی انٹرویو چھپا جو انھوںنے یواین آئی کے نمائندہ کو دیا تھا۔ ا س میں یہ انتباہ دیاگیا تھا کہ انڈیا کے لوگ اپنی غذائی عادتوں کی بنا پر پروٹینی فاقہ (protein hunger) کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ اس بیان میں کہاگیا تھا کہ:
’’اگلے دو دہوں میںہندستان کو بہت بڑے پیمانہ پر ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کے خطرہ کا سامنا کرنا ہوگا، اگر پروٹینی فاقہ کا مسئلہ حل نہیںہوا‘‘۔ یہ الفاظ ڈاکٹر ایم، ایم، سوامی ناتھن نے یو این آئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہے تھے جو انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔انھوںنے کہا تھا کہ متوازن غذا کا تصور اگر چہ نیا نہیں ہے، مگر دماغ کے ارتقا ء کے سلسلہ میں اس کی اہمیت ایک نئی حیاتیاتی دریافت کی ہے۔ اب یہ بات قطعی ہے کہ چار سال کی عمر میں انسانی دماغ 80 فی صدسے لے کر 90 فیصد تک اپنے پورے وزن کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر اس نازک مدت میں بچّہ کو مناسب پروٹین نہ مل رہی ہو تو دماغ اچھی طرح نشوونما نہیں پاسکتا— ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ مختلف نسلی گروہوں کے ذہنی فرق کا تقابلی مطالعہ مستقبل میںاس نقطۂ نظر سے بھی کرنا چاہیے۔اگر ناقص تغذیہ اور پروٹینی فاقہ کے مسئلہ پر جلد توجہ نہ دی گئی تو اگلے دو دہوں میں ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف متمدن قوموں کی ذہنی طاقت (intellectual power) میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن بڑھ رہا ہے۔نوجوان نسل کو پروٹینی فاقہ سے نکالنے میں اگر ہم نے جلدی نہ کی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر روز ہمارے یہاں دس لاکھ ذہنی بونے (intellectual dwarfs) وجود میں آئیں گے۔ اس کا بہت کچھ اثر ہماری نسلوں پر تو حالیہ برسوں ہی میں پڑ چکا ہوگا۔
پوچھا گیا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعہ عوام کے اندر پروٹینی شعور(protein-consciousness) پیدا کرے۔ اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کو بیدار کرے۔
غیر لحمی غذاؤں میں دالیں پروٹین حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اور حیوانی غذاؤں مثلاً دودھ میں زیادہ اعلیٰ قسم کا پروٹین پایا جاتا ہے۔ پروٹین کی ضرورت کا تخمینہ مقدار اور نوعیت دونوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ اوسط نشوونما کے لیے پروٹین کے مرکبات میں 80 قسم کے امینوایسڈ (amino acid) ہونا ضروری ہیں۔ انھوںنے کہا کہ غیر لحمی غذاؤں میں بعض قسم کے ایسڈ مثلاً لائسین (Lysine) اور میتھیونین(Methionine) کا موجود ہونا عام ہے، جب کہ جوار میں لائسین کی زیادتی اُن علاقوں میں بیماری کا سبب رہی ہے جہاں کی خاص غذا یہی اناج ہے۔
اگرچہ حیوانی غذا (دودھ) کا بڑے پیمانے پر حصول پسندیدہ چیز ہے، مگر ان کا حصول بہت مہنگا ہے۔ کیوں کہ نباتاتی غذا کو حیوانی غذا کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ قوت ضائع کرنی پڑتی ہے۔ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کے تمام حصوں سے گیہوں اور جوار کی قسمیں منگواکر جمع کی گئیں اور اس اعتبار سے ان کا تجزیہ کیاگیا کہ کس قسم میں کتنے امینو ایسڈ پائے جاتے ہیں۔ تحقیق سے ان میں دلچسپ فرق معلوم ہوا۔ ان میں پروٹین کی مقدار 7 فی صدسے لے کر
کسانوں کے اندر پروٹینی شعور پیدا کرنے کے لیے ڈاکٹر سوامی ناتھن نے یہ تجویز بتائی تھی کہ گیہوں کی خریداری کے لیے قیمتوں کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے کہ کس قسم میں کتنا پروٹین پایا جاتا ہے۔ انھوںنے بتایا کہ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ غلّہ کے بعض بازاروں میں پروٹین جانچ کی ایک سروس جاری کرے گا اور جب اطمینان بخش حقائق جمع ہوجائیں گے تو یہ معیار (criterion) تعینِ قیمت کی پالیسی میں شامل کیا جاسکے گا۔ غلّے کی مقدار کو بڑھانے اور اس کی قسم (quality) کو بہتر بنانے کے دو طرفہ کام کو نسلی طورپر اس طرح مربوط کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ فصل دینے والے اور زیادہ بہتر قسم کے اناج، باجرے اور دالوںکی کاشت کی جائے۔ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا جو خطرہ ہمیں درپیش ہے، اس کا مقابلہ کرنے کا یہ سب سے کم خرچ اور فوری طور پر قابلِ عمل طریقہ ہے‘‘۔ (اسٹیٹس مین ، دہلی ، 4 ستمبر1967)
ڈاکٹر سوامی ناتھن کے مذکورہ بیان کی اشاعت کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میںاس پر تبصرے کیے گیے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار انڈین اکسپریس (7 ستمبر 1967) نے اپنے اداریے میں جو کچھ لکھا تھا، اس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’انڈسٹری کی طرح زراعت میں بھی ہمیشہ یہ ممکن نہیںہوتا کہ ایک متحرک پالیسی کے نتائج کا شروع ہی میں اندازہ کیا جاسکے۔ اس طرح جب مرکزی حکومت نے اناج کی قیمت کے سلسلے میں تائیدی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشکل ہی سے یہ شبہہ کیا جاسکتا تھا کہ غلے کی بہتات کے باوجود پروٹینی فاقہ (protein hunger) کا مسئلہ سامنے آجائے گا— جیسا کہ انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی ہے۔ غلوں پر زیادہ اعتماد سے ایسی صورت حال پیدا ہوگی جس سے اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ناقص تغذیہ (malnutrition) میں مبتلا ہوجائیں گے۔ جو لوگ پروٹینی فاقہ سے دوچار ہوں گے، جسمانی تکلیفات کے علاوہ ان کے ذہنوں پر بھی اثرات پڑیں گے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے بیان کے مطابق، یہ ہوگا کہ بچوںکی ذہنی صلاحیت پوری طرح نشو ونما نہیں پائے گی۔ چوں کہ انسانی دماغ اپنے وزن کا 80 فی صد سے لے کر 90 فی صد تک چار سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے پورا کرلیتا ہے، اس لیے اس کمی کے نتیجے میںایک بڑا نقصان حالیہ برسوں ہی میں ہوچکا ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن(intellectual dwarfism) وجود میں آجائے گا۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے موجودہ زرعی پالیسی پر نظر ثانی ضروری ہے۔
مگر وہ حد بندیاں (limitations) بھی بہت زیادہ ہیں جن میں حکومت کو عمل کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ کہ زرعی پیداوار کو حیوانی پروٹین میں تبدیل کرنا بے حد مہنگا ہے۔ حکومت نے اگرچہ متوازن خوراک (balanced diet) اور گوشت، انڈے اور مچھلی کے زیادہ استعمال کی ایک مہم چلائی ہے، مگر اس کے باوجود عوام اپنی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے میں بہت سُست ہیں۔
عمومی طورپر بھوک کا مسئلہ جانوروں کو پالنے کی مہم چلانے میں اخراجات کا مسئلہ اور لوگوں کی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے کی مشکلات وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو زراعت کی بنیاد پر اپنی پالیسی بنانی پڑتی ہے۔ مگر مستقبل قریب کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سوامی ناتھن کی وارننگ کو نظر انداز نہ کرسکے گی۔ دُور رس نتائج کے اعتبار سے زراعتی پالیسی کی مشکلات کو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادیات نہیں بلکہ سائنس حل کرے گی۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اناج خاص طور پر گیہوں کو پروٹین سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ کھاد جو کہ پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، وہ بھی گیہوں کے اندر پروٹین کے جزو کو بڑھاتی ہے۔
تاہم یہ امر مشتبہ ہے کہ صرف غلہ کی کاشت کے طریقہ میںتبدیلی اس مسئلہ کا جواب فراہم کرے گی۔ جب تک پروٹین کی اونچی اقسام رکھنے والے گیہوں دریافت نہ ہوجائیں۔ جب تک ایسا نہ ہو گورنمنٹ کو چاہیے کہ دالوں اور حیوانی پیداوار کی اسی طرح حوصلہ افزائی کرے جس طرح وہ اناج کی حوصلہ افزائی کررہی ہے‘‘۔(انڈین اکسپریس، 7 ستمبر 1967)
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان کو اگلے بیس برسوں میں ایک نیا انتہائی بھیانک خطرہ درپیش ہے، یہ خطرہ زرعی تحقیق کے ادارہ کے ڈائریکٹر کے الفاظ میں ’’ذہنی بونا پن‘ ‘ کا خطرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آ ئندہ نسلیں بظاہر جسمانی اعتبار سے دوسروں کے برابر ہوں گی، مگر ذہنی استعداد کے اعتبار سے ہم دنیا کی دوسری متمدن قوموں سے پست ہوچکے ہوں گے۔
یہ خطرہ جو ہمیں در پیش ہے، اس کی وجہ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے الفاظ میں یہ ہے کہ ہماری غذا میں پروٹین کا جزء بہت کم ہوتا ہے، یہاں کی آبادی ایک قسم کے پروٹینی فاقہ میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔
پروٹین ایک غذائی جُز ہے جو انسانی جسم کی صحیح نشونما کے لیے ضروری ہے ۔ یہ پروٹین اپنی اعلیٰ ترین شکل میں گوشت سے حاصل ہوتا ہے۔ گوشت کا پروٹین نہ صرف قسم میں اعلیٰ ہوتا ہے، بلکہ وہ انتہائی وافر اور سستی مقدار میں دنیا کے اندر موجود ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہسٹری آف تھاٹ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ افکار کے اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دور ہیں۔ ایک قبل سائنس دور (pre-scientific era) اور دوسرا ،بعد سائنس دور (post-scientific era)۔ قبل سائنس دور میں لوگوں کو اشیا کی حقیقت معلوم نہ تھی، اس لیے محض قیاس آرائی کے تحت چیزوں کے بارے میں رائے قائم کرلی گئی۔ اس لیے قبل سائنس دور کو توہماتی دور (age of superstition) کہاجاتا ہے۔ مذکورہ اعتراض دراصل اسی قدیم دور کی ایک یادگار ہے۔ یہ اعتراض دراصل توہماتی افکار کی کنڈیشننگ کے تحت پیدا ہوا، جو روایتی طورپر اب تک چلا جارہا ہے۔
قدیم توہماتی دور میں بہت سے ایسے خیالات رائج ہوگئے جو حقیقت کے اعتبار سے بے بنیاد تھے۔ سائنسی دور آنے کے بعد ان خیالات کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مثلاً شمسی نظام کے بارے میں قدیم جیوسنٹرک (geocentric) تھیوری ختم ہوگئی اور اس کی جگہ ہیلیو سنٹرک (heliocentric) تھیوری آگئی۔ اسی طرح ماڈرن کیمسٹری کے ظہور کے بعد قدیم آلکیمی ختم ہوگئی۔ اسی طرح ماڈرن ایسٹرانمی کے ظہور کے بعد قدیم اسٹرالوجی (astrology)کا خاتمہ ہوگیا، وغیرہ۔ مذکورہ اعتراض بھی اسی نوعیت کا ایک اعتراض ہے، اور اب یقینی طورپر اس کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
گلیلیو سترھویںصدی عیسوی کا اٹیلین سائنٹسٹ تھا۔ اس نے قدیم ٹالمی کے نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا کہ زمین شمسی نظام کے سنٹر میں نہیں ہے، بلکہ زمین ایک سیارہ ہے جو سورج کے گرد مسلسل گھوم رہا ہے۔ یہ نظریہ مسیحی چرچ کے عقیدہ کے خلاف تھا۔ اس وقت مسیحی چرچ کو پورے یورپ میں غلبہ حاصل تھا۔ چناںچہ مسیحی عدالت (inquisition) میں گلیلیو کو بلایا گیا اور سماعت کرنے کے بعد اس کو سخت سزا دی گئی۔ بعد کو اس کی سزا میں تخفیف کرکے اس کو اپنے گھر میں نظر بند (house arrest) کردیاگیا۔ گلیلیو اسی حال میں 8 سال تک رہا، یہاں تک کہ 1642ء میں وہ اندھا ہوکر مر گیا۔
اس واقعہ کے تقریباً 400 سال بعد مسیحی چرچ نے اپنے عقیدہ پر نظر ثانی کی۔ اس کو محسوس ہوا کہ گلیلیو کانظریہ صحیح تھا، اور مسیحی چرچ کا عقیدہ غلط تھا۔ اس کے بعد مسیحی چرچ نے سائنٹفک کمیونٹی سے معافی مانگی اور اپنی غلطی کا اعلان کردیا۔ یہی کام ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو غلو آمیز ویجیٹیرین ازم (extremist vegetarianism) کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ یہ نظریہ اب سائنسی تحقیقات کے نتیجہ میں غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اب ان حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سابق نظریہ سے رجوع کرلیں، ورنہ ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ سائنسی دور میں بھی توہم پرست (superstitious)بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
ماہ نامہ الرسالہ، اکتوبر 2009 میں ’’فلسطین کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کو غور کے ساتھ پڑھا۔ اس میں فلسطین کی تاریخ کو بہت ہی اچھے اور معلوماتی انداز میں سلسلے وار بیان کیاگیا ہے جو قارئین کو قیمتی معلومات کے ساتھ ساتھ حقیقت سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ اِس مضمون کو پڑھ کر بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔یہاں حسب ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
1 - مسجد اقصی کے کیمپس میں صخرہ ایک چوکو رچٹان ہے۔ اِسی چٹان کو یہودی اپنے لئے مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی وہ صخرہ ہے جس پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسحاق کی قربانی پیش کی تھی۔ اسلامی تاریخ میںاس قربانی کا مقام منیٰ بتایا گیا ہے۔ یہودیوں کے اس عقیدہ اور تاریخ کی بنیاد کیا ہے۔ کیا تورات میںاس کا ذکر موجود ہے۔
2 - مسجد اقصیٰ کو آپ نے یروشلم کی یہودی عبادت گاہ (ہیکل) بتایا ہے۔ قرآن میں مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے جس کے معنی آپ نے دور کی مسجد (farthest place of worship) کے بتائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا مقام یا مسجد ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر انبیائِ سابقین کو امامت کے ساتھ نماز پڑھائی تھی۔
3 - مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے پر، اور مسجدوں کے مقابلے میں
جواب
1 - یہ ایک عقیدے کی بات ہے، نہ کہ تاریخ کی۔ مسلمان، حضرت اسماعیل کو ذبیح مانتے ہیں اور منیٰ (مکہ) کو قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس یہود، حضرت اسحاق کو ذبیح مانتے ہیں اور صخرہ (یروشلم) کو اس قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ حضرت اسحاق کے ذبیح ہونے کا ذکر یہود کے مقدس صحیفہ تورات کی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب
2 - پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امامت میں انبیائِ سابقین کی نماز کا ذکر حدیث میں آیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح، رقم الحدیث:
3 - قرآن میں مسجد اقصیٰ سے مراد مسجد کی سائٹ (site) ہے۔ حدیث میں جس اقصیٰ کا ذکر ہے، وہ حال کے اعتبار سے سائٹ کے معنی میں ہے اور مستقبل کے اعتبار سے مسقف مسجد کے معنی میں۔
جہاں تک نماز کی فضیلت کی بات ہے، اس کا تعلق مجرد طورپر صرف مقامات سے نہیں ہے، بلکہ ان مقامات کی تاریخی حیثیت سے ہے۔ مسجد حرام کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کوئی شخص مکہ جاکر مسجد حرام میں نماز ادا کرتا ہے تو اس کو اِس ابراہیمی تاریخ کی یاد آتی ہے۔ اِس بنا پر اس کی نماز میں غیر معمولی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اِنھیں بڑھی ہوئی کیفیات کی بنا پر مسجد حرام میں نماز کی اہمیت ہے، نہ کہ صرف درودیوار کے اعتبار سے۔
اِسی طرح مسجد نبوی سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وابستہ ہے۔ وہاں جب آدمی نماز، پڑھتا ہے تو اس تاریخ کی یاد آدمی کے اندر غیر معمولی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اِنھیں کیفیات کی بناپر مسجد نبوی کی نماز دوسری مساجد کی نماز سے بہت زیادہ مختلف ہوجاتی ہے۔
اِسی طرح مسجد اقصی سے اسرائیلی پیغمبروں کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کو ئی شخص مسجد اقصی میں نماز ادا کرتا ہے تو اِس تاریخ کی یاد اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ اِس طرح یہاں ادا کی ہوئی نماز دوسری مسجدوں کی نماز سے مختلف ہوجاتی ہے۔
موجودہ زمانے میں عرب علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جب تک مسجد اقصی پر یہود کا قبضہ باقی ہے، اُس وقت تک باہر کے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ سفر کرکے وہاں جائیں اور مسجد اقصی میں نماز ادا کریں۔ یہ فتویٰ بالکل بے بنیاد ہے، اس فتوے کی کوئی شرعی اہمیت نہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یروشلم کا سفر کیا اور وہاں نماز ادا کی، اُس وقت یہ جگہ رومیوں کے قبضے میں تھی۔ اگر رومیوں کے قبضہ کے باوجود مسجد اقصی کے مقام پر نماز پڑھنا جائز تھا تو یہود کے ’’قبضہ‘‘ کے وقت وہاں نماز ادا کرنا کیوں ناجائز ہوجائے گا۔ اِس قسم کے فتوے بلا شبہہ سیاسی فتوے ہیں، نہ کہ شرعی فتوے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ اسرائیلی فوجی مسلمانوں کو مسجد اقصی کے اندر جانے نہیں دیتے، وہ مسلمانوں کو اِس عظیم سعادت سے محروم کئے ہوئے ہیں کہ وہ مسجد اقصیٰ میں جاکر نماز ادا کریں۔ یہ بلاشبہہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ مسجد اقصی میں مسلمانوں کے لیے نماز اداکرنے پر اسرائیل کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ اگر پابندی ہے تو وہ سیاسی مظاہرہ کرنے پر ہے، نہ کہ وہاں نماز ادا کرنے پر۔ جو لوگ اِس قسم کی بے بنیاد باتیں کہیں، اُنھیں سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ خدا کے یہاں مقعد ِ صدق (القمر:
سوال
الرسالہ نے میری زندگی بالکل بدل دی ہے۔ میں نے الرسالہ کے مختلف مضامین کا کئی بار مطالعہ کیا۔ الرسالہ کے ذریعے مجھے زندگی کا ایک راستہ ملا، اور یہ راستہ ان شاء اللہ جنت الفردوس تک جاکرختم ہوگا۔ آپ کے مضامین میں ایک لفظ نے مجھے برابر سوچنے پر مجبور کیا ہے، وہ لفظ ہے — اعراض۔ آپ اس لفظ کا استعمال الرسالہ میں اکثر کرتے ہیں۔ کیا اعراض پر آپ کی کوئی مکمل کتاب بھی ہے۔ اگر ہاں، تو نام ضرور بتائیں (فاروق عبد اللہ، چمپارن، بہار)
جواب
اعراض (avoidance) کی اہمیت کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دقت پیش آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے غلط تصور کی بنا پر اعراض کو پسپائی کا ایک فعل سمجھتے ہیں، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعراض ایک عبادت ہے۔ اعراض کرتے ہوئے اگر آدمی کو یہ احساس ہو کہ وہ عبادت کا ایک فعل کررہا ہے تو وہ اعراض کی پالیسی کو اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول کرے گا۔ وہ کبھی اُس کے بارے میں کنفیوژن (confusion) کا شکار نہ ہوگا۔
اعراض کیا ہے۔ اعراض خدا کے فیصلے پر راضی ہونے کا دوسرا نام ہے۔ خدا نے دنیا کا نظام اِس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو کامل آزادی حاصل ہے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں انسان ٹسٹ (امتحان) کے لیے رکھا گیا ہے، اور آزادی کے بغیر کسی کا ٹسٹ نہیں لیا جاسکتا۔
اِسی آزادی کی بنا پر وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں جن میں اعراض کا حکم دیاگیا ہے— کوئی اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے، کوئی شخص اپنی بے جاروش سے ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ بھڑک اٹھیں، کوئی شخص نفرت اور تشدد کی بولی بول کر دوسروں کو بھی نفرت اور تشدد میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جہاں اعراض کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اعراض در اصل یہ ہے کہ نا خوش گوار حالات میں اپنے آپ کو ردّ عمل کی نفسیات سے بچایا جائے ، نا خوش گواریوں کے باوجود اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھا جائے۔
اعراض کی یہ روش اِس لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو منفی راہوں میں بھٹک جانے سے بچایا جائے، اور اپنے آپ کو ہر حال میں مثبت عمل پر قائم رکھا جائے۔
اعراض کا طریقہ اختیار کرنے میں مشکل پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جب اِس طرح کی صورتِ حال آتی ہے تو وہ اس کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے جوڑ کر دیکھ نہیں پاتا۔ وہ پیدا شدہ مسئلے کو صرف ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتا ہے، اِس بنا پر وہ اُس انسان کے خلاف منفی ذہن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر آدمی یہ سوچے کہ یہ مسئلہ خدا کی دی ہوئی آزادی کی بنا پر پیش آیا ہے تو فوراً اس کا ذہن معتدل ہوجائے گا۔ جس مسئلے کو وہ پہلے ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ رہا تھا، اس کو معلوم ہوگا کہ وہ خود خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق پیش آنے والا ایک مسئلہ ہے، وہ سادہ طورپر صرف کسی انسان کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.