انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ایک نفسیات مشترک طور موجود رہتی ہے — فخر اور نفرت۔ فخر کا جذبہ اپنے لیے، اورنفرت کا جذبہ دوسروں کے لیے۔ ہرآدمی اِنھیں دو احساسات کے درمیان جیتاہے اور اِنھیں دو احساسات کے درمیان مرجاتاہے۔
یہ دونوں جذبات اتنے قوی ہیں کہ فخر کا اگر صرف ایک ذرہ اسے مل جائے تواس کو لے کروہ اپنے فخر کا گنبد کھڑا کردیتا ہے۔ اِس طرح اگر اُس کو نفرت کا ایک ذرہ مل جائے تو اُس کو لے کر وہ دوسروں کو نفرت کا موضوع بنا لیتاہے۔ یہ دونوں جذبے اتنا زیادہ عام ہیں کہ اُس کو انسان کا عالمی مزاج کہاجاسکتاہے۔
اِس مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر آدمی اپنے بارے میں فخر کی نفسیات میں جیتا ہے، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں۔ یہ دونوں جذبات دھیرے دھیرے انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ اُس کو اِس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر صورتِ حال میں یہ چیزیں اپنے آپ اس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر صورتِ حال اپنے آپ اُ س کو اپنے لیے فخر کی غذا دینے والی بن جاتی ہے۔
اِس طرح ہر صورتِ حال اپنے آپ اُس کو دوسروں کے بارے میں نفرت کی غذا دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ نفسیاتی عمل آدمی کے اندر اِس طرح مسلسل طورپر جاری رہتا ہے کہ اِس میں اس کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے۔
یہ برائی آدمی کے اندر سوچے بغیر اپنے آپ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب اُس کو ختم کرنا ہو تو آدمی کو سوچ کر اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہ اِس معاملے کا سب سے زیادہ نازک پہلو ہے۔ اِس معاملے میں کوئی شخص اپنی اصلاح اُسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ وہ شعوری طورپر اس کو دریافت کرلے، وہ شعوری طورپر اپنے اوپر اصلاح کا عمل کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے: وإن مّن أہل الکتاب إلاَّ لیؤمننّ بہ قبل موتہ (النساء:
اِس آیت میں ایک متعین حوالہ (particular reference) کی روشنی میں ایک عمومی (general) بات کہی گئی ہے، وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک سچائی کا انکار کرتا رہتا ہے، لیکن اپنے آخری زمانے میں جب کہ وہ اپنی موت کے قریب پہنچ جاتا ہے،اُس وقت وہ محسوس کرتا ہے کہ میرا انکار درست نہ تھا۔ آخر وقت میںاُس کا دل اُس بات کو داخلی طور پر مان لیتا ہے جس کا وہ اپنی پوری زندگی میں انکار کرتا رہا۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ سچائی اپنی حقیقت کے اعتبارسے ہر آدمی کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کی صداقت کو محسوس کرتارہتا ہے۔ لیکن جوانی کی عمرمیں اس کو اپنے اوپر اتنا زیادہ اعتماد رہتا ہے کہ وہ سچائی کے معاملے پر غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ سمجھتا رہتا ہے کہ میرا راستہ درست راستہ ہے۔ وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے سچائی کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
لیکن جب اُس پر بڑھاپا آتا ہے، جب وہ ذہنی اور جسمانی کم زوری کا شکار ہوجاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ جلد ہی میری موت آنے والی ہے، اُس وقت حالات کے اثر سے اس کے اندر نظر ثانی کا مزاج پیداہوجاتاہے۔ اس کی دبی ہوئی فطرت ابھر آتی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ سچائی وہی تھی جس کا میں انکار کرتا رہا، لیکن عزتِ نفس (self-respect)کا خیال اس کو اس سے روک دیتا ہے کہ وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ رشید کوثر فاروقی (وفات: 2007 ) نے اپنے ایک شعر میں اِس حقیقت کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے:
زیست کا راز کھلا، گردشِ ایام کے بعد اِس کہانی کا تو آغاز تھا، انجام کے بعد
واپس اوپر جائیں
آج کل مسلمانوں میں ہر جگہ اسلام کی دھوم ہے۔ مشرق سے مغرب تک ہر جگہ دین کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر اِن ہنگامہ خیز سرگرمیوں میں وہی چیز غائب ہے جو دین کی اصل ہے، یعنی اللہ کا خوف جس کو قرآن اور حدیث میں تقویٰ کہاگیا ہے۔
آج کل مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اگر اُنھیں قیامت کی خبر دی جائے تو وہ ایسا جواب دیں گے، جیسے کہ انھیں قیامت کے آنے کاکوئی ڈر نہیں، اس لیے کہ ان کو ’’شفیع المذنبین‘‘ کا وسیلہ حاصل ہے۔ قیامت اگر آئی بھی تو وہ صرف دوسروں کے لیے ہوگی، نہ کہ مسلمانوں کے لیے۔
مسلمانوں کو قیامت سے ڈرائیے تو اُن میں سے کوئی شخص کہے گا کہ ابھی قیامت کہاں، ابھی تو مسیح نازل نہیں ہوئے۔ ابھی تو مہدی نہیں آئے۔ ابھی تو دجال ظاہر نہیں ہوا۔ کوئی کہے گا کہ حدیث میں آیا ہے: مَن مات فقد قامت قیامتہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی قیامت تو ہر روز آرہی ہے۔ اِسی طرح ایک دن اجتماعی قیامت بھی آجائے گی، پھر اس کے بارے میں فکر مند ہونے کے کیا معنیٰ۔ کوئی کہے گا کہ دنیا اور آخرت کی تمام سعادتیں مسلمانوں کے لیے لکھ دی گئی ہیں، پھر ایسی حالت میں قیامت سے ڈرنے کی کیا ضرورت، وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعثتُ أنا والساعۃ جمیعًا (مسند احمد، جلد 5، صفحہ
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک لذت طلب حیوان (pleasure-seeking animal) ہے۔ لذت ایک انوکھی صفت ہے جو صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔ انسان کے اندر ہر قسم کی لذتوں کی بے پناہ طلب موجود ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں کسی بھی عورت یا مرد کی خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ ہر ایک کے ساتھ یہ ہوتاہے کہ وہ کامل فُل فِل مینٹ (fulfilment) کے حصول کے بغیر مرکر اِس دنیا سے چلا جاتاہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، خواہ وہ عام انسان ہو یا کوئی بادشاہ۔
انسان کی لذتوں کی فہرست بہت لمبی ہے— لذتِ فکر، لذتِ بصارت، لذت سماعت، لذتِ ذائقہ، لذتِ لمس، لذتِ گفتگو، لذتِ رفاقت، لذتِ مطالعہ، لذتِ دریافت، لذتِ مسرت، وغیرہ۔ اِن تمام لذتوں کی طلب انسان کے اندر بے پناہ حد تک موجود ہے، لیکن موجودہ دنیا میں انسان اپنی اِن لذتوں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔ وہ اِسی کی تلاش میں رہتا ہے، مگر بہت جلد اس کو موت آجاتی ہے۔ موجودہ دنیا میں اُس کو احساسِ لذت کا تجربہ تو ہوتا ہے، لیکن تکمیلِ لذت کا تجربہ اس کو حاصل نہیں ہوتا۔
ایک ملحدفلسفی نے جنت کو ’’خوش خیالی‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جنت انسانی تمناؤں کی خوب صورت تخئیل (beautiful idealization of human wishes) ہے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ جنت انسان کی خوب صورت تمناؤں کا پوری طرح وقوع میں آنا (beautiful actualization of human wishes) ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لفظی تلاوت(recitation) کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ اِس لیے ہے کہ پڑھنے والا اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کی آیتوں پر غور کرے اور اُس سے وہ نصیحت حاصل کرے جو آیتوں کے اندر چھپی ہوئی ہے۔
عقل کی اہمیت کے بارے میں پیغمبر اسلام ﷺکی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اِن میں سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: لکلّ شییٔ دِعامۃ، ودعامۃ المؤمن عقلہ ( مسند الحارث للہیثمی، رقم الحدیث: 840 ) یعنی ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے، اور مومن کا ستون اس کی عقل ہے۔
اِس معاملے کی وضاحت ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ظاہرہے اور ایک اس کا باطن ہے (لکل آیۃ منہا ظہر وبطن)۔
قرآن کی آیتوں کا ظاہری مفہوم تو اس کی آیتوں کے ترجمے سے معلوم ہوجاتا ہے، لیکن آیتوں کا جو باطن، یعنی اس کا جو گہرا مفہوم ہے، وہ صرف عقل کے استعمال کے ذریعے ہی معلوم ہوتاہے۔ عقل کے ذریعے آدمی الفاظ پر مزید غور وفکر کرتا ہے۔ اِس غور وفکر کے ذریعے وہ آیتوں کے اندر چھپے ہوئے گہرے معانی تک پہنچتا ہے۔ قرآن کی یہ گہری معرفت ہی آدمی کے اندر اعلیٰ ایمانی کیفیت پیدا کرتی ہے— عقل کے استعمال کے بغیر کسی آدمی کو جو دین حاصل ہوتا ہے، وہ دین کا چھلکا ہے اور عقل کے استعمال کے بعد کسی آدمی کو جو دین حاصل ہوتاہے، وہ دین کا مغز ہے۔
واپس اوپر جائیں
اعلیٰ معرفت بلا شبہہ کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔یہ دراصل اعلیٰ معرفت ہے جو انسان کو حیوان سے ممیّز کرتی ہے۔ اعلیٰ معرفت کو حاصل کرنا، اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ کسی اور چیز کو حاصل کرنا۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی اس کی قیمت ادا کرے۔ ضروری قیمت ادا کئے بغیر اِس دنیا میں کوئی چیز کسی کو نہیں ملتی، اور اِسی طرح اعلیٰ معرفت بھی۔
اعلیٰ معرفت کے حصول کی قیمت کیا ہے، وہ صرف ایک ہے— معرفت کو اپنی زندگی میں اوّلین درجہ دینا اور بقیہ تمام چیزوں کو ثانوی بنادینا۔ جو عورت یا مرد یہ قیمت اداکریں، وہ ضرور اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچیں گے۔ اور جو لوگ یہ قیمت ادا نہ کریں، وہ کسی بھی حال میں اعلیٰ معرفت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے، خواہ کسی اور اعتبار سے انھوں نے کتنا ہی زیادہ عمل کیاہو۔
اصل یہ ہے کہ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں، جب کہ آدمی اپنے آپ کو دو تقاضوں کے درمیان پاتا ہے، دین کا تقاضا اور دنیا کا تقاضا۔ ایسے موقع پر آدمی اگر یہ کرے کہ وہ دین کے تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے دنیوی تقاضے کی طرف جھک جائے، تو ایک بار ایسا کرنا بھی آدمی کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔
اِس طرح شیطان کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ آدمی کے سفرِ معرفت کو روک کر اس کو پیچھے کی طرف دھکیل دے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِس طرح بیان کی گئی ہے:
’’جو لوگ ڈر رکھتے ہیں، جب کبھی اُنھیں کوئی شیطانی خیال چھو جاتاہے تو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں، اور پھر اُسی وقت اُن کو سوجھ آجاتی ہے۔ اور جو شیطان کے بھائی ہیں، وہ اُن کو گم راہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں، پھر وہ کمی نہیں کرتے۔‘‘ (الأعراف: 201-202 )
حقیقت یہ ہے کہ معرفت کا سفر ایک مسلسل سفر ہے۔ ایک دن کے لیے بھی اگر آدمی نے اپنے سفرِ معرفت کو روکا تو وہ سالوں کے لیے پیچھے چلا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
گورنمنٹ سروس میں ایک ضابطہ ہے جس کو بریک اِن سروس (break in service) کہاجاتا ہے۔ اگر آپ گورنمنٹ سروس میں ہوں اور آپ بیس سال تک سروس کرتے رہیں، اِس کے بعد اچانک آپ بلا سبب اور بلا اجازت ڈیوٹی پر نہ آئیں تو آپ کی ساری سینئرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی۔ آپ پیچھے لوٹ کر دوبارہ وہاں پہنچ جائیں گے،جہاں سے آپ نے سروس شروع کی تھی۔ اِس معاملے کو اصطلاح میں بریک ان سروس کہاجاتا ہے۔
یہی معاملہ معرفت (realization of God) کے سفرکا بھی ہے۔ اگر آپ معرفت کا سفر شروع کریں اور ایک مدت تک آپ مسلسل اُس پر چلتے رہیں، پھر آپ ایک عذر (excuse) لے کر وقتی طورپر معرفت کے سفر کو روک دیں، تو یہ رکنا صرف ایک وقتی رکنا نہ ہوگا، بلکہ وہ بریک اِن معرفت کے ہم معنیٰ بن جائے گا، یعنی آپ پیچھے لوٹ کر دوبارہ اُس ابتدائی مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے آپ نے اپنا سفرِ معرفت شروع کیا تھا۔
آدمی پر حقیقت کھلتی ہے اور وہ معرفت کا مسافر بن جاتاہے، پھر درمیان میں کچھ غیر متعلق تقاضے پیش آتے ہیں جن کو عذر بنا کر آدمی اپنے سفرِ معرفت کو روک دیتا ہے۔ مثلاً خاندانی تقاضا، مادّی منفعت کا تقاضا، ذاتی رجحان کا تقاضا، وغیرہ۔
ایسے موقع پر آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس قسم کے کسی تقاضے کو ہر گز اپنے لیے عذر نہ بنائے۔ وہ دوسرے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے معرفت کے سفر کو جاری رکھے۔ ایسا ہی شخص منزل تک پہنچے گا۔ اور جس آدمی نے کسی غیر متعلق تقاضے کو لے کر اس کو اپنے لیے عذر بنا لیا تو وہ اُس کے لیے بریک اِن معرفت کا واقعہ بن جائے گا۔
یہ ایک نہایت سنگین معاملہ ہے۔ معرفتِ حق کے مسافر کو ایسی غلطی کبھی نہیں کرنا چاہیے، ورنہ وہ ایسے نقصان سے دوچار ہوگا جس کی تلافی دوبارہ ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
پچھلے تقریباً پانچ سو سال سے کائنات کا سائنسی مطالعہ جاری ہے۔ اِس مطالعے میں بڑے بڑے دماغ شامل رہے ہیں۔ آخری بات جہاں یہ سائنسی مطالعہ پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسان کے لیے اُس کو اپنے احاطے میں لانا بظاہر ناممکن ہے۔ تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق، انسان کا علم بہ مشکل کائنات کے صرف پانچ فی صد حصے تک پہنچا ہے۔ اِس پانچ فی صد حصے کے معاملے میں بھی انسانی علم کی محدودیت کا یہ عالم ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ ہم جتنا دریافت کرپاتے ہیں، اُس سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ دریافت شدہ چیزیں بھی ابھی تک غیردریافت شدہ چیزوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان رہے ہیں:
We are knowing more and more about less and less.
خدا کے بارے میں جاننا خالق (Creator) کے بارے میں جاننا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ابھی تک انسان خالق کی تخلیق (creation) کے بارے میں بھی صرف چند فی صد جان سکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کا یہ مطالبہ کرنا کہ خالق کے بارے میں ہم کو قطعی معلومات دو، سرتاسر ایک غیر علمی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک تخلیق کے بارے میں پورا علم حاصل نہ کرسکا تو وہ خالق کے بارے میں پورا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
تخلیق کا وجود زمان ومکان(space and time) کے اندر ہے، اور خالق کا وجود ماورائے زمان ومکان(beyond space and time) سے تعلق رکھتا ہے، پھر جو انسان اتنا محدود ہو کہ وہ زمان ومکان کے اندر کی چیزوں کا بھی احاطہ نہ کرسکے، وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقت کو اپنے احاطے میں کس طرح لا سکتا ہے— حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان خدا کو صرف عجز کی سطح پر دریافت کرسکتا ہے، نہ کہ علم کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں
پوری انسانی تاریخ میں انسان جس سب سے بڑی فراموشی میں مبتلا رہا ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ موت کا معاملہ ہے۔اِس معاملے میں انسان کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ مشکل سے چند ایسے افراد دریافت کیے جاسکتے ہیں جو اِس معاملے میں فراموشی کا شکار نہ ہوں۔
موجودہ دنیادار الامتحان (testing ground)ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ سب کا سب سامانِ امتحان کے طورپر ملا ہوا ہے۔ موت اِس مدتِ امتحان کو ختم کرتی ہے۔ اِس لیے موت کے آتے ہی ہر انسان سے وہ تمام چیزیں اچانک چھن جائیں گی جو اُس کو یہاں امتحان کے طور پر ملی ہوئی تھی۔
موت کے بعد آدمی اچانک ایک نئی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا اپنے عمل کے نتائج پانے کی دنیا ہے۔ موت سے پہلے آدمی اگر سامانِ امتحان میں جی رہا تھا تو موت کے بعد اُس کو اپنے عمل کے نتائج کے درمیان جینا پڑے گا۔ موت سے پہلے کی زندگی عارضی زندگی ہے، یعنی بہ مشکل سو سال، لیکن موت کے بعد کی زندگی ابدی زندگی ہے، اُس کا کبھی خاتمہ ہونے والا نہیں۔
موت سے پہلے کی زندگی میںانسان کو بے شمار چیزیں ملی ہوئی ہیں۔ یہ تمام چیزیں پیدا ہوتے ہی اُس کو اپنے آپ حاصل ہوجاتی ہیں۔ اِس لیے آدمی اِن چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) طور پر لیتا رہتا ہے۔ وہ سوچ نہیں پاتا کہ یہ تمام عطیات اچانک اس سے منقطع ہوجائیںگے۔ موت کے بعد آدمی اچانک اپنے آپ کو اِس حال میں پائے گا کہ وہ بالکل تنہا اور بے سہارا ہوگیا۔
اِس سنگین حقیقت کے بارے میں سوچنا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن آدمی بے فکری کی حالت میں پڑا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اچانک مر کر اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ وہ اِس حدیث رسول کا مصداق بن جاتاہے: ما رأیتُ مثلَ النار نام ہاربہا، وما رأیت مثل الجنۃ نام طالبہا (الترمذی، کتاب صفۃ جہنم)۔
واپس اوپر جائیں
اسلوبِ کلام کی دو قسمیں ہیں— دعوتی اسلوب اور قانونی اسلوب۔ دعوتی اسلوب میں صرف بنیادی باتیں اصولی زبان میں بیان کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، قانونی اسلوب میں محدَّد اور متعین زبان (specific language) استعمال ہوتی ہے۔ قرآن اور حدیث کے درمیان یہی فرق ہے۔ قرآن میں عام طورپر دعوتی اسلوب ہے۔ اور حدیث میں دعوتی اسلوب کے علاوہ، قانونی اسلوب بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً نماز کے بارے میں قرآن میں حافظوا علی الصلوات کا لفظ آیا ہے۔ اور حدیث میں تعین کے ساتھ الصلوات الخمس (صحیح البخاری، کتاب الإیمان) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
قرآن میں دین کے تمام اصول (principles) بیان کیے گئے ہیں، لیکن قرآن میں کسی بھی اصول کو محدّد اسلوب میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنانے کا ذکرہے، لیکن قرآن سے معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو یہ پیغمبری کب دی گئی۔ قرآن میں ہجرت کا حکم موجود ہے، لیکن مکہ میں دعوتی کام کس طرح ہوا اور مدینہ میں دعوتی کام کس طرح ہوا، اس کی کوئی تفصیل قرآن میں موجود نہیں۔ قرآن میں فتحِ مبین (الفتح: 1 ) کا ذکر ہے، لیکن قرآن میں فتحِ مبین کی متعین تفصیل موجود نہیں۔ قرآن میں بتایاگیا ہے کہ لوگ فوج درفوج خدا کے دین میں داخل ہوں گے (النصر:2 ) لیکن تعینات کی زبان میں اس کا کوئی ذکر قرآن میں موجود نہیں، وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کی تفصیل صرف حدیث سے معلوم ہوتی ہے، نہ کہ قرآن سے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو صرف عبادتِ الٰہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے (الذاریات:
یہی معاملہ نماز کا ہے۔ قرآن میں نماز کا بنیادی حکم موجود ہے، مثلاً أقم الصلاۃ لذکری (طٰہٰ:
اِس پہلو سے قرآن کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ نماز کے تمام بنیادی اَجزا قرآن میں مذکور ہیں۔ مثلاً قرأت (الإسراء:
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز کا حکم استنباطی طورپر قرآن میں موجود ہے۔ یہ حکم قرآن کی سورہ نمبر 2 کی اِس آیت میں ملتا ہے: حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطیٰ (البقرۃ:
آیت کے الفاظ کے مطابق، اُس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ — تم نمازوں کی پابندی کرو، اور اُس نماز کی پابندی کرو جو اِن نمازوں کے درمیان میں آتی ہے۔ اب اگر صلوات سے صرف تین نمازیں مراد لی جائیں تو ایسی صورت میں ان کی کوئی درمیانی نماز نہیں بنے گی، کیوں کہ تین نمازوں کی صورت میں ایک طرف ایک نماز ہوگی اور دوسری طرف دو نماز۔ ایسی حالت میں ممکن صورت صرف یہ ہے کہ صلوات سے چار نمازیں مراد لی جائیں۔ اِس سے چار نماز مراد لینے کی صورت میں ایسا ممکن ہوجاتا ہے کہ اُن میںایک اور نماز اِس طرح شامل کی جائے کہ وہ بیچ کی نماز بن جائے۔ ایسی صورت میں بیچ کی نماز کے ایک طرف دو نماز ہوتی ہے، اور دوسری طرف بھی دو نماز— اِس طرح مجموعی طورپر کل پانچ نمازیں بن جاتی ہیں۔ ذیل میں اِس کا نقشہ ملاحظہ ہو:
نماز نماز نماز
نماز نماز نماز نماز
قرآن کی اِس آیت کی یہ تشریح ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتی ہے۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ظہر کی نماز پڑھی۔ اور پھر آپ نے فرمایا: إنّ قبلہا صلاتین وبعدہا صلاتین (کتاب الصلاۃ، باب فی وقت صلاۃ العصر، رقم الحدیث
عشاء فجر ظہر عصر مغرب
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر، فقد باء بہ أحدہما (کتاب الأدب، باب مَن أکفر أخاہ) یعنی جب ایک شخص اپنے بھائی کے بارے میں کہے کہ اے کافر، تو یہ قول دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گا۔ یعنی مخاطب اگر کافر نہ ہو، تو خود قائل خدا کے نزدیک کافر ہوجائے گا۔
صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے تحت، اِس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے امام النووی نے لکھا ہے کہ : واعلم أن مذہب أہل الحق أنہ لا یُکفّر أحد من أہل القبلۃ بذنب (شرح النووی ، جلد1، صفحہ 150) یعنی اہلِ حق کا یہ مسلک ہے کہ کسی بھی گناہ پر اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کی ہر گز تکفیر نہیں کی جائے گی، یعنی جو شخص کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑے، اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو کافر قرار دینا صرف خدا کا کام ہے، وہ کسی انسان کا کام نہیں۔ ایمان اور کفر دونوں کا تحقق نیت پر ہوتا ہے، اور نیت کا علم خدا کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اِس لیے یہ صرف خدا کا کام ہے کہ وہ کسی کے بارے میں کافر یا مومن ہونے کا فیصلہ فرمائے۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی کو غلطی پر دیکھے تو وہ اس کو دل سوزی کے ساتھ تبلیغ اور نصیحت کرے، وہ اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ تکفیر گویا کہ خدا کے دائرے میں داخل ہونا ہے، اور خدا کے دائرے میںداخل ہونے کا حق کسی کو بھی نہیں۔
جو شخص دوسرے کو کافر بتائے، وہ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہا ہے کہ میرے سینے میں لرزاں اور ترساں قلب نہیں۔ جو آدمی حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرتا ہو، وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ کسی کے بارے میں کفر کا اعلان کرے، جب کہ یہ قطعی اندیشہ ہے کہ اگر مخاطب کافر نہ ہو تو خود کہنے والا شخص خدا کے نزدیک کافر قرار پاجائے گا۔ کوئی بھی اللہ سے ڈرنے والا انسان یہ خطرناک رِسک (risk) لینے کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت مقدام بن معدیکرب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا أحبّ الرجلُ أخاہ فلیخبرہ أنہ یحبّہ (أبو داؤد، کتاب الأدب؛ الترمذی، کتاب الزہد) یعنی جب کسی شخص کو اپنے بھائی سے محبت ہو تو وہ اُس کو بتادے کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے۔
اِس حدیث رسول میں محبت سے مراد مخلصانہ محبت یا حقیقی محبت ہے، نہ کہ منافقانہ محبت۔ مخلصانہ محبت ایک قابلِ اجر عمل ہے، جب کہ منافقانہ محبت صرف ایک گناہ کا عمل۔ منافقانہ محبت کا اظہار آدمی کو مزید گنہ گار بناتا ہے، وہ اس کو اجر کا مستحق نہیں بناتا۔
مخلصانہ محبت یا حقیقی محبت ایک عظیم دینی عمل ہے۔ مخلصانہ محبت کوئی آسان کام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ذاتی بنیاد پر دو آدمیوں کے درمیان محبت ہو تو وہ بہت جلد ٹوٹ جاتی ہے۔ مخلصانہ محبت وہ ہے جو خدا کے لیے ہو، اور جب دو آدمیوں کے درمیان خدا کے لیے محبت ہو تو وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے، وہ کبھی ٹوٹنے والی نہیں۔
اِس حدیث میں محبت سے مراد محبت اور اُس کے تمام لوازم ہیں۔ مثلاً اعتراف، وغیرہ۔ محبت یا لوازِم محبت کو بتانے کی حکمت یہ ہے کہ اِس سے دو افراد کے درمیان مثبت تعلق قائم ہوتاہے۔ اگر محبت یا لوازمِ محبت کو نہ بتایا جائے تو اِس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، اور غلط فہمی جب دیر تک باقی رہے تو وہ پختہ ہوجاتی ہے اور قلبی محبت کے باوجود دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف منفی نفسیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
منافقانہ طورپر اظہارِ محبت یا اظہارِ اعتراف جتنا زیادہ برا ہے، مخلصانہ طورپر اظہارِ محبت یا اظہارِاعتراف اتنا ہی زیادہ ضروری ہے۔ اِس مسئلے کی اہمیت شرعی نہیں، بلکہ نفسیاتی ہے۔ یہ اجتماعی زندگی کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ دل کی حالت کا علم صرف خدا کو ہوتا ہے۔ انسان کسی کے دل کو نہیں پڑھ سکتا، وہ صرف بتانے کے بعد ہی اس کو جانتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، با ب إن اللہ یؤیّد الدین) یعنی اللہ بے شک اِس دین کی تائید فاجر شخص کے ذریعے بھی کرے گا۔
اِس حدیث کا تعلق سادہ طورپر صرف دینِ اسلام سے نہیںہے۔ اِس حدیث میں در اصل فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ یہ قانون ابدی بھی ہے اور ہر ایک کے لیے عام بھی۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے اِس دنیا کا نظام باہمی انحصار(interdependence) کے اصول پر قائم کیا ہے۔ اِس دنیا میں ہر انسان بالواسطہ یا براہِ راست طورپر دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا ہے۔ جب بھی کوئی شخص ایک کام کرتا ہے تو اس میں یقینی طورپر دوسروں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں ہر کامیابی کا تعلق مشترک عمل سے ہوتاہے، خواہ وہ دینی کامیابی ہو یا دنیوی کامیابی۔
فطرت کا یہ نظام اِس لیے ہے، تاکہ لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے اعتراف کا جذبہ پیدا ہو، تاکہ لوگ ایک دوسرے کو اپنا خیر خواہ سمجھیں، تاکہ پوری دنیا ایک بڑے خاندان کے مانند ہوجائے، تاکہ ہر ایک دوسرے کو اپنے بھائی اور بہن کے روپ میںدیکھنے لگے۔
باہمی تعاون کے اِس عالمی نظام کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کا اعتراف نہیں۔ اِس کا بنیادی سبب لوگوں کی فخر پسندی (pride) ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ فخر میں جی رہے ہیں۔ فخر کے جذبے کی تسکین صرف اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی یہ سمجھے کہ جو کچھ اُس کو ملا ہے، وہ اس کی اپنی ذاتی صلاحیت کی بنیاد پر ملا ہے۔ فخر کا جذبہ اپنی تسکین کے لیے سارا کریڈٹ خود لینا چاہتا ہے۔ اِس بنا پر وہ دوسروں کا اعتراف نہیں کر پاتا۔ یہ رویہ سرتاسر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس سے غیر حقیقت پسندانہ (unrealistic) مزاج پیدا ہوتا ہے، اور غیر حقیقت پسندانہ مزاج سے زیادہ تباہ کن کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ابلیس نے تخلیقِ آدم کے وقت اپنے اِس منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ وہ نسلِ انسانی کی بڑی تعداد کو گم راہی میں ڈال دے گا (الإسراء:
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، ہر انسان کے ساتھ غیر مرئی طور پر (invisibly) ایک شیطان لگاہوا ہے۔ وہ ہر وقت اور ہر موقع پر آدمی کے اندر اپنے منصوبے کے مطابق، بے اعترافی کا مزاج پیدا کرتا رہتا ہے۔ شیطان کا یہ منصوبہ پوری تاریخ میں کامیاب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ اُن کے اندر بے اعترافی کا مزاج (non-appreciating nature) پیدا ہو گیا ہے۔ ہرایک کا یہ حال ہے کہ اگر ننانوے فی صد مثبت بات ہو اور کوئی ایک منفی بات ہو تو لوگ مثبت پہلوؤں کو چھوڑ کر ایک منفی بات کولے لیں گے اور فوراً دوسرے کے بارے میں منفی نفسیات کا شکار ہوجائیں گے۔
یہ ہر انسان کی زندگی کا وہ پہلو ہے جہاں اُس کو سب سے زیادہ الرٹ(alert) رہنا چاہئے۔ جب بھی کسی موقع پر دوسروں کے بارے میں منفی خیال آئے تو فوراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ شیطان کا بہکاوا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ فوراً اپنی ارادی طاقت (will-power) کو عمل میں لاتے ہوئے اُس کو مکمل طورپر اپنے دماغ سے نکال دے۔
اعتراف ایک ملکوتی مزاج ہے، اور بے اعترافی ایک شیطانی مزاج۔ اعتراف سے آدمی کے اندر تواضع (modesty) کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اور بے اعترافی سے اِس کے برعکس غیر متواضع مزاج پیدا ہوتا ہے۔ آدمی ہر لمحہ اِن دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک رویہ اختیار کرنے سے وہ متواضع انسان بن جاتا ہے، جو کسی انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ اور دوسرا رویہ اختیار کرنے سے وہ ایک غیر متواضع انسان بن جاتا ہے، جوکسی انسان کے لیے سب سے بُری صفت ہے۔
واپس اوپر جائیں
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ جب کوئی شخص رد عمل کی نفسیات کے تحت سوچے تو ہمیشہ اس کی سوچ انتہا پسندانہ سوچ بن جاتی ہے۔ ایسا انسان کبھی معتدل انداز میں نہیں سوچ سکتا:
Thinking out of reaction, always takes the form of extremist thinking.
اِس معاملے کی مثالیں مذہب اور غیر مذہب دونوں دائروں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ معاملہ اتنا زیادہ عام ہے کہ شاید اِس میں کوئی استثناء (exception) نہیں۔
مثلاً ترکی میں جب 1923 میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو اُس کو ہمارے علماء اور ہمارے رہنماؤں نے الغائِ خلافت کا نام دیاتھا، یعنی خلافت کے سیاسی ادارے کو ایبالش (abolish) کرنا۔ یہ رد عمل کا کلمہ تھا۔ چناں چہ اِس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے متشددانہ تحریک چل پڑی۔
اِس کے برعکس، اگر اس کو سقوطِ خلافت کا نام دیا جاتا، یعنی خلافت کا ختم ہوجانا تو ایسا نہ ہوتا۔ اِسی طرح اسلام کو جب شریعت کے نفاذ کا معاملہ بتایا جاتا ہے تو وہ رد عمل کی نفسیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ چناں چہ اس کے نتیجے میں مسلح جہاد شروع ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر شریعت کی پیروی کا لفظ بولا جائے تو اس سے متشددانہ تحریک نہیں ابھرے گی۔
رد عمل کی سوچ دوسروں کے رویّے کو دیکھ کر جوابی طور پر ابھرتی ہے۔ اِس لیے اس میں ہمیشہ منفی محرک موجود رہتا ہے، جو اس کو تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت سوچ کے تحت جو ذہن بنتا ہے، وہ ہمیشہ خود احتسابی (self-introspection) کا ذہن ہوتا ہے۔ اس میں اپنی اصلاح آپ کا جذبہ ابھرتا ہے، نہ کہ دوسروں کے خلاف تشدد کا جذبہ۔اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ — جیسی سوچ، ویسا عمل۔ سوچ اگر درست ہوگی تو عمل بھی درست ہوگا۔ اور اگر سوچ غلط ہو تو عمل بھی غلط ہو کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک شخص نے کسی کے بارے میں کچھ شکایت کی بات کی۔ میںنے کہا کہ شکایت قاتلِ روحانیت ہے۔ شکایت اتنی زیادہ بری چیز ہے کہ آپ کو مطلقاً اُس سے دور رہنا چاہیے۔ انھوںنے کہا کہ شکایت سے مطلقاً کیسے بچاجاسکتا ہے، کیوں کہ شکایت کے اسباب اِس دنیا میں ہمیشہ پیش آتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہی تو آپ کا امتحان ہے کہ آپ شکایت کے باوجود بے شکایت بن کر اِس دنیا میں رہیں،منفی تجربات کے باوجود آپ مثبت نفسیات میں جینا سیکھیں۔یہی اِس دنیا میں انسان کا امتحانی پرچہ (test-paper) ہے۔ ہرایک کو اِس امتحان سے گزر نا ہے۔ اِس امتحان میں کامیاب ہونے والا ہی کامیاب ہے، اور اِس امتحان میں ناکام ہونے والا ہی ناکام۔ مزید یہ کہ یہ ناکامی بھی ابدی ہے، اور یہ کامیابی بھی ابدی۔
شکایت کوئی سادہ چیز نہیں۔ شکایت کے ساتھ ناشکری جڑی ہوئی ہے۔ جس دل میں شکایت ہوگی، وہ شکر کے جذبات سے محروم ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ شکایت گندگی کے مانند ہے۔ گندگی کی ایک بوند پانی کے پورے ٹب کو گندا کردیتی ہے۔ اِسی طرح شکایت کی تھوڑی مقدار بھی شکر کی نفسیات سے آدمی کو محروم کردیتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اتنا زیادہ حساس ہو کہ وہ کسی بھی حال میں شکر کا ایروژن (erosion) گوارا نہ کرسکے۔ وہ شکایت کی باتوں کو نظرانداز کرتا رہے، تاکہ اس کے شاکرانہ مزاج میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔
اِس مہلک برائی سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے آغاز ہی میں اُس کا خاتمہ کردینا— تھوڑی سی شکایت کو بھی اتنا گھٹائیے، اتنا گھٹائیے کہ اس کو زیرو کے درجے تک پہنچا دیجئے۔ اور شکر کی تھوڑی سی بات کو بھی اتنا بڑھائیے، اتنا بڑھائیے کہ اس کو صد فی صد تک پہنچا دیجئے۔ یہی واحد تدبیر ہے جس کے ذریعے آپ اپنی شخصیت کو ایسا بنا سکتے ہیں کہ آپ کے اندر صرف شکر ہی شکر ہو، ناشکری کا ایک ذرہ بھی آپ کی شخصیت کے اندر باقی نہ رہے۔ شکر کے احساس میںجینے والوں کے لیے ابدی جنت ہے، اور ناشکری کے احساس میں جینے والوں کے لیے ابدی جہنم۔
واپس اوپر جائیں
Two Great Intellectual Revolutions
مذہبی نقطۂ نظر سے انسانی تاریخ میں دو بڑے فکری انقلابات پیش آئے ہیں۔ ایک انقلاب وہ ہے جو اپنی آخری صورت میں ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ اِس انقلاب کے ہیرو وہ لوگ تھے جن کو اسلامی تاریخ میں ’اصحابِ رسول‘ کہاجاتا ہے۔ دوسرا فکری انقلاب لانے والوں کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اصحاب رسول نے شرک (polytheism) کے فکری غلبہ کو ختم کیا تھا اور توحید (monotheism) کے بند دروازوں کو کھولا تھا۔ اخوانِ رسول کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں الحاد کے فکری غلبہ کو ختم کرکے دوبارہ توحید کو اس کا غالب مقام عطا کریں۔
امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو خصوصی تاریخی درجہ حاصل ہے— اصحابِ رسول، اور اخوانِ رسول۔ یہ دونوں پُراسر ار الفاظ نہیں ہیں اور نہ کسی پر اسرار فضیلت کی بنا پر اُن کویہ امتیازی درجہ عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں گروہ اسلام کی تاریخ میں دو بڑے کارنامے انجام دیں گے۔ اِسی کارنامے کی بناپر وہ بڑا درجہ پائیں گے— اصحابِ رسول کے کارنامے کا تعلق، اسلام کے دورِ اول سے ہے، اور اخوانِ رسول وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دورِ آخر میں اپنا کارنامہ انجام دیںگے۔
اصل یہ ہے کہ تاریخ کے دو دور ہیں۔ پہلا، دورِ شرک اور دوسرا، دورِ الحاد۔ قدیم بادشاہت کے زمانے میں شرک کو ریاستی مذہب (state religion) کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اِس بنا پر قدیم زمانے میں مذہبی جبر (religious persecution) کے حالات پیدا ہوئے۔ اصحابِ رسول نے یہ کیا کہ غیرمعمولی جدوجہد اور قربانی کے ذریعے شرک کا رشتہ سیاسی اقتدار سے منقطع کردیا اور اِس طرح شرک کو مکمل طورپر ایک بے زور عقیدہ بنا دیا، اصحابِ رسول کا یہی وہ غیر معمولی عمل تھا جس کی بنا پر دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا دور آیا اور شرک محض ایک بے زور شخصی عقیدہ بن کر رہ گیا۔
بعد کے زمانے میں ایک نیا فتنہ پیداہوا جس کو سائنسی الحاد کہاجاسکتا ہے۔ الحاد (atheism) ہمیشہ سے دنیا میں پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ملحد مفکرین کو یہ موقع ملا کہ وہ بظاہر سائنسی دلائل کے ذریعے الحاد کو نئی طاقت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ مثال کے طورپر ڈارون ازم (Darwinism) کو الحاد کی حمایت میں سائنسی دلیل کے طورپر پیش کرنا۔
موجودہ زمانے کا سائنسی الحاد اصلاً سائنسی الحاد نہیں ہے، بلکہ وہ مغالطہ آمیز قسم کے بظاہر سائنسی دلائل کی بنیاد پر الحادی فکر کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ اب اُن لوگوں کو اخوانِ رسول کا درجہ ملے گا جو اِس فریب کا پردہ چاک کریں اور الحاد کا رشتہ مفروضہ دلائل سے منقطع کردیں، اور اِس طرح الحاد کو بے دلیل اور علمی اعتبار سے بے وزن بنا دیں۔
پچھلے دور میںاصحابِ رسول نے جو کارنامہ انجام دیا، اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں سال کے عمل کے دوران مخصوص تاریخی حالات پیدا کیے تھے۔ یہ تاریخی حالات وہ مواقع تھے جن کو اصحاب رسول نے سمجھا اور اُن کو دانش مندانہ طورپر استعمال کرکے مطلوب انقلاب برپا کیا۔ اِسی طرح بعد کے زمانے میں اخوانِ رسول کے ذریعے جو فکری انقلاب واقع ہوگا، اس کے لیے ضروری مواقع بھی خدا کی طرف سے پیدا کیے جانے والے ہیں۔ اخوانِ رسول کا کام بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دور میں پیدا ہونے والے مواقع کو سمجھیں اوراُن کو دانش مندانہ طورپر استعمال کرکے اُس تاریخی عمل کو انجام دیں جس کو ظہور میں لانا اُن کے لیے مقدر کیاگیا ہے۔ ذیل میں دوسرے دور کے حالات کا مختصر طورپر ذکر کیا جاتاہے۔
جدید الحاد
الحاد (atheism) کوئی نیا ظاہرہ نہیں۔ قدیم زمانے میں بھی کسی نہ کسی صورت میں الحادی فکر پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن قدیم زمانے میں الحاد کے لیے کوئی فکری بنیاد (rational base) موجود نہ تھی۔اِس لیے قدیم زمانے میں الحاد کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہوسکا۔
موجودہ زمانے میں جب سائنسی تحقیقات سامنے آئیں تو دورِ جدید کے ملحدین نے محسوس کیا کہ وہ سائنسی تحقیقات کو اپنے حق میں ایک علمی ثبوت کے طورپر استعمال کرسکتے ہیں۔ اِس طرح وہ فلسفہ وجود میں آیا جس کو سائنسی فلسفہ (scientific philosophy) کہاجاتا ہے۔ سائنسی فلسفہ کیا ہے۔ سائنسی فلسفہ دراصل مبنی بر سائنس الحاد (science-based atheism) کا دوسرانام ہے۔ اِس طرح بیسویں صدی عیسوی میں بہت سے فلسفی اٹھے جنھوں نے سائنسی تحقیقات کو ملحدانہ فلسفے کے حق میں استعمال کیا۔ اِس طرح وہ جدید الحاد وجود میں آیا جس کو سائنسی الحاد کہاجاسکتاہے۔ اِس موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ بطور مثال یہاں صرف ایک کتاب کا نام درج کیا جاتا ہے:
Julian Huxley, Religion Without Revelation (1967)
سائنسی الحاد، خالص منطقی اعتبار سے، ایک غیر علمی الحاد ہے۔ سائنسی الحاد کے داعیوں نے غیرعلمی طورپر سائنسی حقیقتوں کو اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ چناں چہ اِسی زمانے میں ایک اور طبقہ پیدا ہوا جو نسبتاً زیادہ سنجیدہ تھا۔ وہ سائنسی حقائق کے غیر علمی استعمال کے خلاف تھا۔ اِس دوسرے طبقے نے کوشش کی کہ سائنسی حقائق کو اس کے صحیح تناظر (perspective) میں پیش کیا جائے۔ یہ دوسرا طبقہ اپنے اعلان کی حد تک مذہبی نہیں تھا، وہ بظاہر سیکولر تھا۔ لیکن اُس نے یہ اہم کام انجام دیا کہ اس نے جدید ملحدین کو خالص علمی اعتبار سے مکمل طورپر رد کردیا۔ اِس معاملے کے چند خاص پہلو ہیں۔
1 - اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جدید سائنس (physical science) نے اپنا میدان تمام تر مادّی اشیاء کی تحقیق کو بنایا۔ اِس کے نتیجے میں بڑی بڑی مادی حقیقتیں دریافت ہوئیں اور مادی نظریات قائم ہوئے۔ اِس صورتِ حال کو استعمال کرتے ہوئے جدید ملحدین نے یہ کیا کہ انھوں نے سچائی کی مادّی تعبیر (material interpretation of truth) کا نظریہ وضع کیا۔ انھوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ حقیقت وہی ہے جو مادی اصطلاحوں میں بیان کی جاسکے، جو چیز مادی اصطلاحوں میں بیان نہ کی جاسکے، وہ حقیقت بھی نہیں۔ اِس نظریے کے رد میں کئی مفکرین نے قیمتی کتابیں لکھیں۔ بطور مثال ایک کتاب کا نام یہ ہے:
Bertrand Russell, Human Knowledge (1948)
2 - اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ فزیکل سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جوواقعات ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے کوئی سبب (cause)کارفرما ہوتا ہے۔ مثلاً پانی کو گرم کرنے سے اسٹیم کا وجود میں آنا۔ سائنس کے اس پہلو کو لے کر وہ الحاد موافق نظریہ وضع کیاگیا جس کو اصولِ تعلیل (principle of causation) کہاجاتا ہے۔ اِس نظریے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہماری دنیا میں جو واقعات وجود میں آتے ہیں، وہ کسی مادی سبب کا نتیجہ ہوتے ہیں، نہ کہ کسی خالق کی کارفرمائی کا نتیجہ۔ اِس نظریہ کی تردید میں متعدد قیمتی کتابیں لکھی گئیں۔ مثال کے طورپر اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہاں درج کیا جاتا ہے:
James Jeans, The Mysterious Universe (1930)
3 - اِس معاملے میں غالباً سب سے زیادہ گم راہ کن رول چارلس ڈارون (وفات:1882 ) کا ہے۔ اس نے حیاتیاتی نمونوں کے مطالعے کے دوران یہ پایا کہ مختلف حیاتیاتی نمونوں کے درمیان مشابہت (similarity) پائی جاتی ہے۔ اِس کو لے کر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ تمام ذی حیات اشیاء ایک ہی مشترک اصل سے نکلی ہیں۔ یہ تصور نظریۂ ارتقا(theory of evolution) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نظریہ جدید دور میں بہت زیادہ پھیلا۔ اس کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں، یہاں تک کہ جدید علمی حلقے میں اس کو عمومی مقبولیت (general acceptance) حاصل ہوگئی۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ نظریہ تمام تر علمی مغالطے پر قائم ہے۔ چناں چہ اس کے بارے میں سیکولر علماء نے تحقیق کی اور اِس نظریے کی تردید میں متعدد قیمتی کتابیں شائع ہوئیں۔ مثال کے طورپر اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے:
Arnold Lunn, Revolt Against Reason (1951)
دورِ جدید کے یہ اہلِ علم جن کو ہم نے سیکولر اہلِ علم کہا ہے، انھوںنے بہت بڑا تائیدی رول انجام دیا ہے۔ قدیم زمانے میں بہت سے لوگوں نے عظیم تائیدی رول انجام دیا تھا۔ انھوں نے وہ مواقع پیدا کیے تھے جن کو استعمال کرکے اصحابِ رسول نے شرک کے رد اور توحید کے اثبات کا تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اِسی طرح موجودہ زمانے کے مذکورہ سیکولر اہلِ علم نے ایک عظیم تائیدی رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے وہ مواقع پیدا کیے ہیں جن کو استعمال کرکے دوبارہ الحاد کے رد اور توحید کے اثبات کا مطلوب عمل انجام دیا جاسکے۔ بعد میں اٹھنے والے جس گر وہ کو حدیث میںاخوانِ رسول کہاگیا ہے، اُس کا کام غالباً یہی ہوگا کہ وہ جدید مواقع کو پہچانے اوران کو دانش مندانہ استعمال کے ذریعے دوبارہ الحاد کی تردید اور توحید کے اثبات کا مطلوب کارنامہ انجام دے۔
سائنس، الحاد کی تردید
جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، قدیم زمانے میں یہ مطلوب تھا کہ شرک کو رد کرکے توحید کا اثبات کیا جائے۔ یہ کارنامہ اصحابِ رسول نے اپنی کامل صورت میں ساتویں صدی عیسوی میں انجام دیا۔ انھوںنے اپنے زمانے میں پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process) کا مؤثر آغاز کیا۔ یہ عمل جاری رہا، یہاں تک کہ شرک، نظریاتی بنیاد (ideological base) سے محروم ہوگیا۔ اب وہ صرف ایک بے روح رسم کے طورپر کچھ توہم پسند لوگوں میں باقی ہے، عملی اعتبار سے وہ ایک زندہ قوت کے طورپر کہیں موجود نہیں۔
یہی معاملہ الحاد کا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں الحاد بظاہر سائنسی دلائل کے زور پر ابھرا تھا۔ لیکن جلد ہی خود سیکولر حلقے میں ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے عملی طورپر الحاد کی بظاہر اِس سائنسی بنیاد کو ڈھا دیا اور حقیقت کے اعتبار سے الحاد کو ایک بے دلیل نظریے کی حیثیت دے دی۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں دوبارہ امکانی طورپر وہ موافق حالات پیدا ہوئے ہیں جن کو لے کر کچھ لوگ الحاد کو مکمل طورپر رد کردیں اور اس کے بجائے توحید کو ایک ثابت شدہ نظریہ بنادیں، اور اِس طرح وہ اُس رول کو انجام دیں جس کو اخوانِ رسول کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔
یہ حالات پیدا ہوچکے تھے اور میں اکثر ان کے بارے میں غور کرتا تھا۔ آخر کار 1963 میں ایک واقعہ پیش آیا جو میرے لیے گویا کہ ایک رہنما واقعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس واقعے کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ کے آغاز میں اس طرح کیا ہے:
’’ستمبر 1963 کی
God Arises
یہ گویا کتاب کا نام تھا جو اچانک میرے ذہن میں وارد ہوا۔ اس سے پہلے کبھی یہ فقرہ میرے ذہن میں نہیں آیا تھا، حتی کہ کتاب کے نام کی حیثیت سے اس کی معنویت بھی اُس وقت پوری طرح واضح نہ تھی۔ شام کو عصرکی نماز کے بعد میں حسب معمول لکھنؤ کی نریندر دیو لائبریری گیا جو ندوہ کے قریب دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ وہاں ویبسٹر کی لغت میں لفظ Arises کے استعمال دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ بائبل کی ایک آیت میں استعمال ہوا ہے۔ پورا فقرہ یہ ہے:
Let God arise, let His enemies be scattered.
Let them also that hate Him flee before Him.
As smoke is driven away, so drive them away;
As wax melteth before the fire, so let
the wicked perish at the presence of God
(Psalm 68: 1-2)
’’خدا اٹھے، اس کے دشمن تتر بتر ہوں۔ وہ جو اس کا کینہ رکھتے ہیں، اس کے حضور سے بھاگیں، جس طرح دھواں پراگندہ ہوتا ہے، اسی طرح تو انھیں پراگندہ کر۔ جس طرح موم آگ پر پگھلتا ہے، شریر خدا کے حضور فنا ہوں‘‘۔
یہ میرے لیے ایک انسپریشن (inspiration) تھا۔ یہ گویا ایک قسم کا الہامی تجربہ تھا جو مسجد کے اندر اذان اور اقامت کے درمیان پیش آیا۔ اِس پر غور کرنے کے بعد میںنے سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ ہے، تاکہ میں پیدا شدہ جدید علمی مواقع کا جائزہ لوں اوراُن کو الحاد کی تردید اور توحیدکے علمی اثبات کے لیے استعمال کروں۔ یہ گویا سیکولر اہلِ علم کے پیدا کردہ علمی امکانات کو اسلامائزکرنا تھا۔ اور جدید دور میں اظہارِ دین کے اُس علمی واقعے کو بروئے کار لانا تھا جس کے امکانات وقوع میں آچکے ہیں، لیکن ابھی ان کو استعمال نہ کیا جاسکا۔
اِس موضوع پر میں پہلے بھی کام کر رہا تھا۔ لیکن مذکورہ تجربے کے بعد میرے شعور میں ایک نئی بیداری آئی اور میں اِس قابل ہوگیا کہ زیادہ حوصلے کے ساتھ اِس علمی خدمت کو انجام دوں۔ آخر کار، طویل کوشش کے بعد وہ کتاب وجود میں آئی جو مذکورہ تجربے کی روشنی میں گاڈ ارائزز (God Arises) کے نام سے 1985 میں شائع ہوئی۔ اِس سے پہلے یہ کتاب اردو اور عربی زبان میں چھپ چکی تھی۔ لیکن مذکورہ انگریزی ایڈیشن مزید اضافے کے ساتھ اس کا زیادہ جامع ایڈیشن تھا۔
اِس کے بعد یہی موضوع (modern challenges to Islam) میرا مستقل موضوع بن گیا۔ اس کے بعدمضامین اور کتابوں کی شکل میں میری سیکڑوں کوششیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئیں۔ میری اِن تمام تحریروں کا موضوع مشترک طورپر صرف ایک تھا، اور وہ اسلام اور عصری تحدیات تھا۔ بعد کے زمانے میںبراہِ راست یا بالواسطہ طورپر یہی میری زندگی کا مستقل موضوع بن گیا۔
واپس اوپر جائیں
عباسی دورمیں مسلمانوں کے اندر دینی زوال آیا۔اس زمانہ میں مسلمانوں کا یہ حال ہوا کہ کچھ رسمی اعمال ا ور مخصوص وضع قطع دینداری کی علامت بن گئے۔
اسی زمانہ میں قُصّاص (story tellers) پیدا ہوئے۔ وہ ان رسمی اعمال کے پراسرار فضائل پر خود ساختہ کہانیاں لوگوں کو سنانے لگے۔ اس طرح لوگ اس رسمی دین داری پر مزید پختہ ہوگئے۔ اپنا محاسبہ (introspection) کرنے کا جذبہ ختم ہوگیا۔
موجودہ زمانہ میں یہی خرابی مزید اضافہ کے ساتھ ظہورمیںآئی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے ان رسمی اعمال کو دین داری سمجھ لیا۔ دوبارہ ان کے درمیان ایسی شخصیتیں اور ایسی جماعتیں پیدا ہوئی ہیں جو ان رسمی اعمال کے فضائل کے بارے میں لوگوں کو پر اسرار قسم کے قصے کہانی سنارہے ہیں۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے اندر محاسبہ کا مزاج تو پیدا نہیں کرتے، البتہ فضیلت کی کہانیوں کے ذریعے وہ ان کے اندر یہ فرضی یقین پیدا کررہے ہیں کہ تمھاری رسمی دین داری ہی اصل دین داری ہے۔ اور اسی کے ذریعہ تم خدا کی نصرتوں کو حاصل کروگے اور آخر کار جنت میں پہنچ جاؤگے۔
یہ بلا شبہہ گم راہی ہے۔ جو لوگ اس گم راہی سے بے خبر ہیں، وہ اندھے پن کا شکار ہیں اور جو لوگ اس سے باخبر ہیں لیکن وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں، وہ حدیث کے الفاظ میں ’’گونگے شیطان‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اصلاح امت کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ مسلمانوں کو اس تباہ کن غلط فہمی سے باہر لایا جائے۔
پچھلی امتیں جس بگاڑ کا شکار ہوئیں، اُس بگاڑ کو قرآن میں امانی (البقرۃ:
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا عام مزاج یہ ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر زیر محاصرہ (under seige) ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تمام قومیں مسلمانوں کی مخالف ہیں۔ تمام قوموں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کر رکھی ہے۔ تمام قومیں متفقہ طور پر یہ چاہتی ہیں کہ مسلمان دوبارہ ابھرنے نہ پائیں، چناں چہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
یہ سوچ سرتاسر ایک بے بنیاد سوچ ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی حقیقت نہیں۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خود خالق کے نقشے کے مطابق، مسابقت (competition) اور چیلنج پر قائم ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے بناپر کوئی آگے بڑھتا ہے اورکوئی پیچھے ہوجاتاہے، کوئی پانے والا بنتا ہے اور کوئی کھونے والا۔یہ نظام اِس لیے ہے تاکہ زندگی کی سرگرمیاں جاری رہیں، تاکہ ہر فرد اور ہر گروہ کو عمل کا محرک (incentive) ملتا رہے۔
فطرت کے اِس نظام کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ اپنی کوشش کے ذریعے آگے بڑھ جاتا ہے اور وہ دوسرے گروہ کو پیچھے چھوڑ دیتاہے۔ ایسی حالت میں پچھڑے ہوئے گروہ کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے، وہ کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کے لیے اپنی ساری توانائی خرچ کردے۔ زندگی کو چیلنج سمجھنا آدمی کو نیا جذبۂ عمل دیتا ہے۔ اِس کے برعکس، سازش اور دشمنی کا نظریہ آدمی کو منفی نفسیات میں مبتلا کرکے اس کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے ڈال دیتا ہے۔
موجودہ زمانے کیمسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں چیلنج کو محاصرہ سمجھ لیا۔ انھوںنے ایک مثبت واقعے کو خالص منفی رخ دے دیا۔ مسلمانوں کی یہی غلط سوچ ہے جس کی اصلاح میں ان کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ زمانے کے مسلمان زوال کا شکار ہوئے ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ عروج تک پہنچ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں انقلاب پسند مسلمانوں کا ایک عمومی نعرہ وہ ہے جس کو شریعتِ محمدی کا نفاذ کہاجاتا ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک خود ساختہ نعرہ ہے۔ اِس کی تائید قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی۔ اِس کے برحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث میں کوئی حکم اِس طرح کے الفاظ میں آیاہو: نفِّذ شریعۃَ محمد( شریعتِ محمدی کو نافذ کرو) اور جب قرآن اور حدیث میں کوئی حکم اِس طرح کے الفاظ میں نہ آیا ہو تو اس کی بنیاد پر سیاست چلانا بلا شبہہ ایک مُبتدعانہ سیاست ہے، وہ کوئی اسلامی کام نہیں۔
نفاذِ شریعت کا تصور کوئی سادہ تصور نہیں، یہ اسلام کے اندر ایک بہت بڑی برائی داخل کرنے کے ہم معنی ہے۔ اِس تصور نے اسلام کو بزور نفاذ (forceful implementation) کا موضوع بنادیا ہے، حالاں کہ اسلام اپنی حقیقت کے اعتبارسے اختیارانہ پیروی کا نام ہے۔’’نفاذِشریعت‘‘ ایک خوب صورت لفظ ہے، لیکن عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ تخریب کاری ہے، اور صرف تخریب کاری۔
اسلام کو جب اختیارانہ پیروی کے اعتبار سے لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرد کے اندر مثبت ذہن پیدا ہوتا ہے، سماج کے اندر تعمیری قدریں فروغ پاتی ہیں، اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں امن قائم ہوتا ہے، وغیرہ۔ اِس کے برعکس، جب اسلام کو بزور نفاذ کا موضوع بنا دیا جائے تو اس کے نتیجے میں لازمی طور پر انتہا پسندی (extremism) کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سماج میں رواداری (tolerance) کا مزاج ختم ہو جاتا ہے۔
اِس کے نتیجے میں پہلے لوگوں کے اندر شدت پسندی آتی ہے۔ جب شدت پسندی سے مقصد حاصل نہ ہو تو مسلّح ٹکراؤ شروع ہوجاتا ہے، اور جب وہ بھی ناکافی ہو تو اس کے بعد وہ آخری برائی پیدا ہوجاتی ہے جس کو خود کش بم باری (suicide bombing) کہاجاتا ہے۔ اور خود کش بم باری بلاشبہہ وہ برائی ہے جس کے بعد برائی کا کوئی اور درجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ریڑھ کی ہڈی انسان کے جسم کا ایک کم زور حصہ ہے۔ ریڑھ کے نیچے کا حصہ بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے اور وہ تکلیف شروع ہوجاتی ہے جس کو پیٹھ کا درد (backache) کہاجاتاہے۔ نظریۂ ارتقاء کے حامی اِس کو ارتقائی عمل سے جوڑتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان ابتداء ً چوپائے کی شکل میں تھا، جیسا کہ گھوڑا ہوتاہے۔پھر اُس نے پیچھے کے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی، یہاںتک کہ وہ انسان کی صورت میں ایک سیدھا حیوان بن گیا۔ اب اس کے پچھلے پاؤں بدستور پاؤں رہے، اور اگلے دونوں پاؤں ہاتھ کی مانند ہوگئے۔ سیدھا حیوان بننے کے بعد اس کا سارا بوجھ ریڑھ کی ہڈی پر آگیا۔ یہی سبب ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کا نچلا حصہ نہایت آسانی سے تکلیف کا شکا رہوجاتا ہے۔
یہ سر تا سر ایک مغالطہ ہے۔ چار پیروں والے حیوان کا دو پیروں والا حیوان بن جانا صرف ایک غیرثابت شدہ قیاس ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف قدیم زمانے کے انسان کو نہیں ہوتی تھی، یہ صرف موجودہ زمانے کے انسان کا مسئلہ ہے۔ موجودہ زمانے کا انسان کمفرٹ کلچر (comfort culture) میں جیتا ہے۔ اِس قسم کی بیماریاں اِسی کمفرٹ کلچر کا نتیجہ ہیں، اس کا نظریہ ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں۔
Backache is a common health problem
With reference to the Backache is a common health problem ‘Talking back’ (TOI, June 13) by Jug Suraiya, backache is indeed one of the most common complaint that people suffer from at some stage in their lives. The most common causes behind the problem are poor posture, improper lifting or bending. A sedentary lifestyle with little or no exercise and overexertion of the body can be harmful too. One explanation for the vulnerability of the lower back is that it is one of the weakest parts in the human body, having evolved from walking on fours to walking upright. This unique evolutionary adaptation is a relatively recent change. As a result, the stresses acting upon the vertebral column are unique in many respects and result in a variety of problems that are peculiar to the human species. A proper posture can go a long way towards providing relief from backaches. (Subhash Kaura, The Times of India, New Delhi, June 15, 2009)
واپس اوپر جائیں
کائنات کی عمر تقریباً
From primitive age to modern civilization.
From traditional framework of mind to scientific framework of mind.
From imperfect world to a perfect world.
انسانی تاریخ کا ابتدائی دور تہذیبی ارتقاء کا دور ہے۔ وہ آدم اور حوا کے بعدشروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔
قدیم زمانے میں انسان کے پاس سوچنے کا جو فریم ورک تھا، وہ روایتی فریم ورک تھا۔اِس میں دھیرے دھیرے ترقی ہوئی، یہاں تک کہ جدید سائنس (modern science)کا دورآیا اور انسان کو سوچنے کے لیے سائنٹفک فریم ورک حاصل ہوگیا۔
موجودہ دنیا میں وہ تمام مادّی چیزیں موجود ہیں جن کو انسان چاہتا ہے۔ لیکن موجودہ دنیا کی کوئی بھی چیز معیاری چیز نہیں۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے معیار پسند (idealist) ہے، لیکن موجودہ دنیا اُس کی نسبت سے ایک غیر معیاری دنیا ہے۔ یہ تضاد آخر کار ختم ہوگا۔
اِس معیاری دنیا کے بننے کا وقت اب بہت قریب آچکا ہے۔ مگر اِس معیاری دنیا میں صرف منتخب افراد کو جگہ ملے گی۔ موجودہ دنیا میں جن لوگوں نے اپنی اہلیت ثابت کی ہوگی، اُن کو منتخب کرکے اگلی معیاری دنیا میں بسا دیاجائے گا۔ باقی لو گ عالمی کوڑے خانے میں ڈال دیے جائیں گے، پہلا گروہ ابدی راحتوں کی دنیا میں جگہ پائے گا، اور دوسرا گروہ ابدی محرومی کی دنیا میں۔
واپس اوپر جائیں
مسلم رہنماؤں کے درمیان عرصے سے یہ تحریک چل رہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب (syllabus) بدلا جائے۔ یہ اصل مسئلے کا صرف کم تر اندازہ ہے۔ دینی مدارس میں بلا شبہہ اصلاح کی ضرورت ہے، لیکن اِس ضرورت کا تعلق اصلاً اصلاحِ نصاب سے نہیں ہے، بلکہ اصلاحِ ماحول سے ہے۔ موجودہ حالت میں خواہ مدارس کا نصاب بدل دیا جائے یا اس کو باقی رکھا جائے، دونوں صورتوں میں یقینی طورپر مطلوب نتیجہ نکلنے والا نہیں۔
دینی مدارس کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہاں کا نصاب قابلِ تبدیلی ہے، دینی مدارس کا اصل مسئلہ وہاں کا قدامت پرستانہ ماحول ہے جس کو بدلنا ضروری ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ دینی مدارس میں مکمل طورپر جمود (stagnation) کی فضا قائم ہے۔ اِن مدارس میںآزادانہ سوچ کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتاہے۔ ہر مدرسے کہ کچھ مقدس اکابر ہیں۔ اِن اکابر کے خلاف سوچنا لوگوں کے نزدیک جرمِ عظیم کا درجہ رکھتا ہے۔ مدارس کا یہی جامد ماحول مدارس کے جدید رول کی ادائیگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک اِس ماحول کو بدلا نہ جائے، مدارس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ دورِ جدید میں اپنا مطلوب رول ادا کرسکیں گے۔
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے لکھا تھا کہ ہمارے مدارس میں مُتون پڑھائے جاتے ہیں، فنون نہیں پڑھائے جاتے۔ یہ ایک صحیح بات تھی۔ اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں اساتذہ اور طلبا کی سوچ تمام تر کچھ کتابوں اور ان کتابوں کے مصنفین پر مُرتکز رہتی ہے۔ وہ اِنھیں چند کتابوں کو علم سمجھتے ہیں اور ان کے مصنفین کو علماء کا درجہ دیتے ہیں۔ اِس سے طلبا اور اساتذہ کے اندر بند ذہن پیدا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر ہمارے مدارس میں فنون پڑھا جائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موضوعات (subjects) زیر بحث آنے لگیں گے۔اِس طرح غور وفکر کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہوجائے گا۔ اس طرح سوچ کا دائرہ چند مخصوص علماء تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ کسی موضوع پر دوسرے اہلِ علم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی غور وبحث کے دائرے میں آجائے گا۔ اس طرح لوگوں کے ذہن کھلیں گے۔ لوگوں کا ذہنی ارتقاء ہوگا۔ لوگوں کے اندر تقلید کے بجائے اجتہاد کی صلاحیت ترقی کرے گی۔ ہر آدمی شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ چاہنے لگے گا کہ پچھلے لوگ جو کام کرچکے ہیں، میں اُن سے آگے جاؤں، میں علمی ارتقاء کی مزید منزلیں طے کروں۔
اِس معاملے کی ایک مثال مولانا شبلی نعمانی کی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نہ صرف یہ کہ ایک اچھے عالم تھے، بلکہ وہ ایک فعال آدمی تھے۔ وہ اظہارِ خیال کی آزادی کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ وہ جہاں بھی رہتے تھے، وہاں وہ لوگوں کے اندر یہ اسپرٹ پیدا کرتے تھے کہ وہ کھلے ذہن کے تحت سوچیں اور کھلے ذہن کے تحت رائے قائم کریں اور دورِ جدید کے لحاظ سے اعلیٰ قابلیت پیدا کریں۔ اِس سلسلے میں وہ انگریزی زبان سیکھنے پر بھی زور دیا کرتے تھے۔
اِس کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ مولانا شبلی کے قیامِ ندوہ (1905-1913) کے زمانے میں وہاں ایک زندہ علمی ماحول پیدا ہوگیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ مولانا شبلی نعمانی کے زمانے میں کئی اعلیٰ علمی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً مولاناسید سلیمان ندوی (وفات:1953 ) ، مولانا ابو الکلام آزاد (وفات: 1958)، مولانا عبدالباری ندوی (وفات:1976 )، مولانا عبد الماجد دریادبادی (وفات: 1977 ) ، وغیرہ۔
تعلیم کے سلسلے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں— نصاب، اور اساتذہ۔ کسی تعلیمی ادارے میں بلاشبہہ نصاب کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نصاب سے بھی زیادہ اہمیت اساتذہ کی ہے۔ نصاب کی حیثیت عملاً ایک ذریعہ کی ہے۔ تاہم اِس ذریعہ کا جو استعمال کرتاہے، وہ استاذ ہے۔ استاذ اگر لائق اور فعال ہو تو وہ کسی بھی نصاب کو استعمال کرکے طلبا کے اندر مطلوب روح پیدا کرسکتا ہے، اور اگر استاد لائق اور فعال نہ ہو تو اچھے سے اچھا نصاب بھی عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
آج کل عام طورپر یہ حال ہے کہ ہر گھر میںایک طرف اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کی تعریف کی جاتی ہے، اُن کا ذکر ہمیشہ مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب بھی دوسروں کا چرچا کیا جاتا ہے تو وہ تنقیص کے انداز میں ہوتا ہے۔
اپنوں کے بارے میں مثبت باتوں کا چرچا اور دوسروں کے بارے میں منفی باتوں کا چرچا، یہ کلچر اـتنا زیادہ عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اِس سے خالی ہو۔
گھر کے اندر سماج کے شہری بنتے ہیں، لیکن مذکورہ کلچر نے گھر کو اِس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے اچھے شہری سپلائی کرے۔ ہر گھر میںایسے عورت اور ایسے مرد بن کر تیار ہورہے ہیں جو اپنوں کے بارے میں مثبت رائے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جن کو اپنوں سے محبت ہے اور دوسروں سے نفرت ، جو اپنوں کے بارے میں روادار (tolerant) ہیں اور دوسروں کے بارے میںوہ غیر روادار(intolerant) بنے ہوئے ہیں، جن کے اندر اپنوں کو دینے کا ذہن ہے اور دوسروں سے صرف لینے کا ذہن، جو اپنوں کو برتر سمجھتے ہیںاور دوسروں کو کم تر، جو اپنوں کی ترقی پر خوش ہوتے ہیںاور دوسروں کی ترقی دیکھ کر اُنھیں کوئی خوشی نہیں ہوتی، جو اپنوں کی تکلیف سے فکر مند ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر انھیں کوئی فکر مندی لاحق نہیں ہوتی، وغیرہ۔
اِس صورتِ حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب سماجی اقدار (social values) کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک ہی چیز ہے جو ہر ایک کا واحد کنسرن (sole concern) بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ذاتی مفاد(self-interest) ۔ اِس صورتِ حال نے ہر ایک کو خود غرض اور استحصال پسند بنا دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ اِس کی اصلاح جلسوں اور تقریروں کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس کی اصلاح کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گھر والے اپنے گھر کے ماحول کو درست کریں۔گھر کے ماحول کو درست کئے بغیر اِس سنگین صورتِ حال کی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift) ۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر
دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔
اِسی اعتراف (acknowledgment) کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔
موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرن (sole concern) ہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کئے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی (lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
آج جس شخص سے ملاقات کیجئے، وہ اپنے بچوں کے مستقبل (future) کے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ ۔یعنی سب سے زیادہ گھاٹے میںوہ شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کھو دے۔
اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں: حبّک الشییٔ یعمی ویُصمّ۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) 1856 میں آسٹریا (سنٹرل یورپ) میں پیداہوا، اور 1939 میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ نفسیات کا عالم (psychologist)تھا۔
سگمنڈ فرائڈ اپنے ایک غلط نظریے کی وجہ سے کافی بدنام ہوا۔ اُس کا نظریہ یہ تھا کہ — نفسیاتی پیچیدگیاں ابتدائی دورکے جذباتی صدمات کا نتیجہ ہوتی ہیں، وہ دبی ہوئی صنفی توانائی کا اظہار ہیں:
…Symptoms were caused by early trauma, and were expressions of repressed sexual energy.
تاہم فرائڈ کی بعض تحقیقات سبق آموز ہیں۔ اُن میں سے ایک اُس کا یہ قول ہے کہ —زندگی کا ہر بحران امکانی طورپر انسانی شخصیت کے مثبت پہلو کو متحرک کرنے کا سبب بنتاہے:
Every crisis is potentially a stimulus to the positive side of the personality.
یہ فطرت کے نظام کا ایک اہم پہلو ہے۔ خدا کے تخلیقی نظام کے تحت، ایساہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں جب کوئی غیر مطلوب واقعہ پیش آتا ہے تو وہ ایک مطلوب نتیجے کا سبب بن جاتاہے۔
اِس کے بعد آدمی کے اندر نیا شوق، نیا ولولہ اور نیا جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے۔ آدمی کا ذہن زیادہ بیدار ہو کر زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر بحران آدمی کی زندگی میںایک نیا امکان کھول دیتا ہے، ہر ناکامی آدمی کے لیے ایک نئی کامیابی کا سبب بن جاتی ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت حال میںمایوس نہ ہو، وہ ہر رکاوٹ کو اپنے لیے ترقی کا نیا زینہ سمجھے، وہ مسئلہ (problem) کو ایک چیلنج سمجھے، نہ کہ صرف ایک مسئلہ۔مسئلے کو صرف مسئلہ سمجھنا آدمی کو مایوسی کی طرف لے جاتاہے، اور مسئلے کو چیلنج سمجھنا آدمی کے لیے نیا دروازہ کھولنے کا سبب بنتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اگر آپ چند آدمی کے ساتھ کسی مقام پر بیٹھے ہیں۔ قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے۔ اذان کی آواز سن کر اگر آپ خاموشی کے ساتھ اٹھیں اور مسجد کی طرف تنہا روانہ ہوجائیں تو یہ انفرادی آداب کا معاملہ ہے۔ ایسے موقع پر اس طرح خاموشی کے ساتھ چلے جانے کی نوعیت دوسری ہے۔
اس کے برعکس، اگر آپ ایک ادارہ کے باقاعدہ رکن ہوںاور آپ کی یہ ذمہ داری ہو کہ آپ وہاں روزانہ وقت پر آئیں اور مقرر ذمہ داریوں کو پابندی کے ساتھ ادا کریں۔ اس دوسری صورت میں اگر آپ اپنے ادارے سے اچانک اٹھ کر بغیر کچھ کہے ہوئے روانہ ہوجائیں۔ بعد کو معلوم ہو کہ آپ اپنے کسی نجی کام سے 10 دن کے لئے چلے گئے تھے تو اس طریقہ کا تعلق اجتماعی آداب سے ہے۔ اور اجتماعی آداب کی نسبت سے یہ طریقہ سخت قابلِ اعتراض ہے۔
عام طورپر لوگ انفرادی آداب کے معاملہ میں کافی معلومات رکھتے ہیں، لیکن اجتماعی آداب کے معاملہ میں لوگوں کو بہت کم باتیں معلوم ہیں۔ انفرادی آداب کے بارے میں لوگوں کا شعور جتنا بیدار رہتا ہے، اجتماعی آداب کے بارے میں لوگ اتنا ہی زیادہ بے شعوری میں مبتلا ہیں۔
انفرادی آداب اور اجتماعی آداب میں یہ فرق ہے کہ انفرادی آداب ذاتی محرک کے تحت ہوتا ہے۔ ہر آدمی اپنی ذات کے بارے میں حساس ہوتا ہے، اِس لیے وہ انفرادی آداب کے معاملے کو جلد سمجھ لیتا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں شامل کرلیتا ہے۔ لیکن اجتماعی آداب کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔
اجتماعی آداب کے معاملے میں آپ کو دوسروں کے احساسات کو جاننا ہوتا ہے، اجتماعی آداب کے معاملے میں آپ کو اپنے سے باہر کی دنیا کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ اجتماعی آداب کے معاملے میں کسی انسان کو زیادہ حساس اور زیادہ با شعور ہونا چاہیے، ورنہ وہ اِس معاملے میں بے شعوری کا شکار ہوجائے گا اور ایسی غلطیاں کرے گا جو اجتماعی شریعت کے اعتبار سے قابلِ معافی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
یکم جون 2009 کو مسٹر ایس کے سیف الدین (مدراس) سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔انھوںنے نصیحت کے لئے کہا۔ میںنے ان کی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
’’پر سکون زندگی کا راز کم پر راضی ہونا ہے نہ کہ زیادہ کی تلاش میں رہنا۔ کم کی حد ہے لیکن زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے ایسا ہوتا ہے کہ کم پر راضی ہونے والے کو پرسکون زندگی ملتی ہے۔ لیکن زیادہ کی تلاش کرنے والا کبھی پر سکون زندگی حاصل نہیںکرپاتا‘‘۔
مذہب کی اصطلاح (religious term)میںکم پر راضی ہونے کا نام قناعت ہے اور زیادہ کی تلاش میں رہنے کا نام حرص۔ انھیں دو لفظوں میں زندگی کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔ جو آدمی اس حقیقت کو جان لے، و ہی عارف ہے۔ او رجو آدمی ا س حقیقت سے بے خبر رہے، وہی وہ انسان ہے جس کو معرفت حاصل نہیں ہوئی۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی خواہشیں لامحدود ہیں، لیکن موجودہ دنیا ہر اعتبار سے محدود ہے۔ محدود دنیا میں لامحدود خواہشات کی تکمیل نہیں ہوسکتی، اس لئے جو لوگ موجودہ دنیا میں اپنی خواہشات کو لامحدود طورپر پورا کرنا چاہیں، وہ ہمیشہ بے اطمینانی کا شکار رہیں گے۔
طلب اور مطلوب کے درمیان فرق ہی کا نام بے اطمینانی ہے۔ جو لوگ اپنی طلب کو محدود نہ کریں، ان کے لئے یہی مقدر ہے کہ وہ ہمیشہ بے اطمینانی میں مبتلا رہیں اور اسی حال میں مرجائیں ۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی حقیقت واقعہ کو تسلیم کرے، اور حرص کے طریقہ کو ناممکن سمجھ کر قناعت کے طریقہ کو اختیار کرلے۔ قناعت حقیقت پسندانہ رویہ کا دوسرا نام ہے، اور حرص غیر حقیقت پسندانہ رویہ کا دوسرا نام— قناعت کا طریقہ فطرت کے قانون سے موافقت کرنے کا نام ہے، اِس کے مقابلے میں، حرص فطرت کے قانون سے عدم موافقت کا نام۔
واپس اوپر جائیں
ایک باپ نے اپنی بیٹی کی شادی دور کے مقام پر کی۔ یہ بیٹی اپنے میکہ میں اس طرح رکھی گئی تھی کہ اس نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے والدین کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ بیٹی خوش رہے۔ اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ مگر باپ جانتا تھا کہ سسرال میں ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اس نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب تم جہاں جارہی ہو، وہ تمھارے لئے ایک مختلف دنیا ہوگی۔ میکہ میں تم کو جو آرام ملا، سسرال میں تم اس کی امید نہ رکھنا۔
باپ نے اپنی سمجھ کے مطابق، یہ مشورہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت دیا۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بدخواہی کامشورہ تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میںہمیشہ منفی ذہن کے تحت رہے۔ وہ ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہے۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتی رہے کہ میرے میکہ کے لوگ بہت اچھے تھے اور میری سسرال کے لوگ بہت برے ہیں۔ میکہ والوں کے لئے اس کے دل میں جھوٹی محبت اور سسرال والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی شکایت بھر جائے۔ ساری زندگی وہ اس احساس میں جئے کہ میری شادی غلط ہوگئی۔ وہ ہمیشہ میکہ والوں کو اچھا سمجھے اور سسرال والوں کو ہمیشہ برا سمجھتی رہے۔
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے حق میںاسی قسم کی فرضی خیر خواہی کرتے ہیں جو عملاً بیٹی کے لئے صرف ایک مستقل بد خواہی بن جاتی ہے۔ بیٹی اپنے میکہ کی کنڈیشننگ کی بنا پر خود سے کبھی اس معاملہ کو سمجھ نہیں پاتی۔ اور ماں باپ کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی کنڈیشننگ کو مزید پختہ کردیتے ہیں، وہ اس کی کنڈیشننگ کا خاتمہ نہیںکرتے۔
صحیح یہ ہے کہ باپ یا تو اپنی بیٹی کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا سلوک نہ کرے، یا کم ازکم یہ کرے کہ وہ اپنی بیٹی سے بوقتِ رخصت کہہ دے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ غیر فطری طریقہ تھا، فطری طریقہ وہی ہے جس سے تم کو سسرال میں سابقہ پیش آئے گا۔
واپس اوپر جائیں
سوال
عرض یہ ہے کہ ایک بار میں دہلی میں آپ کے پاس آیاتھا۔اُس وقت آپ نے مجھ کو یہ حدیث سنائی تھی: مَنْ صَمَتَ نَجَا۔ یعنی جو چپ رہا اور جس نے بولنے سے پہلے سوچا، وہ کامیاب رہا۔ آپ نے میری ڈائری میں لکھوایا تھا کہ اِس حدیث کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی بنائیں تو آپ کامیاب رہیں گے۔ عرض یہ ہے کہ اِس حدیث کے مطابق، زندگی بنانے کا مطلب کیا ہے، براہِ کرم، مطلع فرمائیں۔ (جواد الحق مظاہری، ہری دوار)
جواب
اِس حدیث میں چپ رہنے کا مطلب کامل معنوں میں چپ رہنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے کم بولنا۔ جو آدمی کم بولے، اس کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوتے ہیں— ایک، یہ کہ وہ زیادہ سوچتا ہے۔ کم بولنے کا دوسرا پہلو زیادہ سوچنا ہے۔ جب آدمی بولتا ہے تو اُس وقت وہ سوچ نہیں پاتا۔ اِسی لیے کسی نے بالکل درست طور پر کہا ہے:
When I am speaking, I am not thinking.
کم بولنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ دوسروں کی بات سنے، وہ دوسروں سے سیکھے، وہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کم بولنا کوئی سادہ بات نہیں۔ کم بولنا پورے معنوں میں، ایک طریقِ زندگی ہے۔ جو آدمی کم بولنے کے طریقِ زندگی کو اختیار کرے، وہ ضرور اعلیٰ کامیابی حاصل کرے گا۔
سوال
آپ کی باتیں بہت اچھی ہیں، مگر اس وجہ سے نہیں کہ آپ اعمال کو آخرت کے ساتھ جوڑتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ان کی افادیت اِسی دنیا میں ہے۔ آخرت سے متعلق تمام تر باتیں ظنی ہیں اوروہ صرف ظنی ہی ہوسکتی ہیں۔ آخرت کو قطعیت کے ساتھ ثابت ہی نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً حدیث میں ہے کہ میری امت کے
جواب
1 - خالص سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو اِس دنیا میں تمام علوم ’’ظنی‘‘ ہیں۔ سائنس کے مطابق، اِس دنیا میں ہماری واقفیت صرف امکان (probability) تک پہنچ سکتی ہے، نہ کہ حتمیت (certainty) تک۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو صرف علمِ قلیل (الإسراء:
2 - حدیث میں مذکورہ
واپس اوپر جائیں
1 - یکم ستمبر کے انقلاب کی یادگار کے طور پر لیبیا ایمبیسی کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام یکم ستمبر 2009 کی شام کو نئی دہلی کے ہوٹل (Hayatt Regency Hotel) کے بال روم میں ہوا۔ اس کی دعوت پر سی پی ایس کی ٹیم کے تین افراد ن اس میں شرکت کی۔ یہاں مختلف ممالک کے سفرا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود تھے۔انھوں نے ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
2 - پازیٹیو تھنکرس فورم (بنگلور) کے تعاون سے گل برگہ (کرناٹک) کے حلقۂ الرسالہ سے وابستہ افراد نے ستمبر 2009 میں چند دعوتی پروگرام کئے۔ یہ پروگرام گل برگہ کے حسب ذیل مقامات پر کئے گئے— فنکشن ہال، میڈیل کالج، کمپیوٹر کالج، انجنیئرنگ کالج، آیورویدک کالج ۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات سے دعوتی خطاب کیا اور بڑے پیمانے پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ مطالعے کے لیے دیا ۔
3 - کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (اٹلی) کے سالانہ پروگرام کے طورپر پولینڈ کے شہر کریکو (Cracow) میں
4 - بعد سلام عرض ہے کہ ناچیز کو آپ کا بھیجا ہوا ماہ نامہ الرسالہ پابندی کے ساتھ موصول ہورہاہے۔ میں اس کو ایک ہی نشست میں پڑھ لیتا ہوں۔بلاشبہہ الرسالہ سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے، اس کی کہیں نظیر نہیں۔ ماہ نامہ کے ہر صفحے میں ایک حیرت انگیز اور ایمان افروز سبق ہر مومن کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یقینا پوری دنیاکے مسلمانوں کے لئے اصلاحی اور ذہنی تعمیر کا یہ ایک واحدذریعہ ہے۔ میں اس دعوتی مشن چلانے والے عالم کو لاکھوں سلام کرتا ہوں اور جب تک حیات باقی رہے گی، ان کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔میری دیرینہ خواہش ہے کہ آپ کے ہفتہ وار کلاس میں کبھی شرکت کروں۔ میں آپ کا اپنا ہندستانی فوجی ہوں۔ اس وقت دہلی چھاؤنی میں مقیم ہوں۔ خدا کے فضل سے پروموشن کے مقابلاتی امتحان میں کامیاب ہوگیاہوں۔ مستقبل قریب میں چند ماہ کے cadre courseمیں جاؤں گا، پھر warrant officer کے رینک لگ جائیں گے۔ گھر کے سب خورد و کلاں آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔ (محمدآفاق عالم، دہلی چھاؤنی)
5 - الرسالہ جولائی 2009 ء کا شمارہ دیکھا۔ یہ شمارہ گجرات کے سفرنامہ پر مشتمل ہے جو بصیرت افروز ہے۔ اس شمارے کی خاص بات مولانا محمد ذکوان ندوی کی تحریر ’’تاثراتِ سفر‘‘ ہے، جو مجھے بہت خوب لگی اور اس کی ہر بات میرے قلب و ذہن میں اُتر گئی ہے۔میںنے اِس تحریر کو تین بار پڑھا۔ میرے لئے یہ تحریر اس وجہ سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ بعض لوگ عموماً یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ الرسالہ کوئی علمی پرچہ نہیں ہے ، اس کی ہر تحریر میں اکابرین پر تنقید ہوتی ہے جس کی وجہ سے علماء اس کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ مگر یہ بصیرت افروز تحریر اُن کے اِس مغالطہ انگیز پروپیگنڈے کی مکمل تردید ہے۔ اِس تحریر سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ اہلِ علم کے یہاں الرسالہ اور خود حضرت مولانا کی کیا قدر ومنزلت ہے اور وہ مولانا کی تحریروں سے کس قدر استفادہ کر رہے ہیں۔ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ علماء پورے عالم اسلام میں معتبر اور اعتدال پسند مانے جاتے ہیں اور جب ندوہ میں علماء اور اساتذہ کا الرسالہ کے تئیں یہ حال ہو تو یہ اِس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ دوسرے علماء بھی الرسالہ کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھتے اور اس سے استفادہ کرتے ہوں گے۔ اس تحریر کے مطالعہ کے بعد مجھ کو مولانا عبد الباری ندوی کی اِس بات سے مکمل اتفاق ہوگیا ہے کہ ’’مولانا وحید الدین خاں جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں‘‘ بلا شبہہ یہ بات سو فی صد درست ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم اسلام کی شہرت یافتہ شخصیت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بھی الرسالہ اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کی علمی وفکری صلاحیتوں کے معترف تھے اور وہ اس سلسلہ میں مثبت رائے رکھتے تھے۔ الرسالہ ستمبر 1995 ’’ یکساں سول کوڈ ‘‘کے عنوان سے خصوصی شمارے کے طورپر شائع ہوا تو اس شمارے کے حوالے سے ہندوستان کی اہم شخصیات کے متعدد خطوط الرسالہ ،اپریل 1996 میں شائع ہوئے تھے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ کوئی عام پرچہ نہیں ہے ،بلکہ یہ اپنی نوعیت کا واحد پرچہ ہے اور ہر اعتبار سے اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا باعث اور استفادہ کے لائق ہے۔ چناں چہ ان اہم خطوط میں سے یہاں مولاناسیدابو الحسن علی ندوی کے خط کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے جس سے الرسالہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
’’ فاضل گرامی ومحب سامی، مولانا وحیدالدین خاں صاحب وفقہ اللہ لما یحب ویرضیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اُمید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ الرسالہ بابت ستمبر 1995 چند دن ہوئے ملا۔ اس میںآپ کا فاضلانہ مضمون ’’یکساں سول کوڈ‘‘ مطالعہ میںآیا۔ ہمارے علم میں یہ پہلا فاضلانہ اورمبصرانہ مضمون ہے جس میں یونی فارم سول کوڈ کا عالمانہ، مبصرانہ جائزہ لیاگیا ہے، اور تقابلی مطالعہ، ماہرین فن اور قانون سازوں کے بیانات و تجزیہ کی روشنی میں اس کی سطحیت اور عدم ضرورت ثابت کی گئی ہے۔ آپ ہماری طرف سے اس پر دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔ اگر اس کو الگ الرسالہ کی صورت میں شائع کردیں اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو جائے تو بہت مفید ہوگا۔ انگریزی ترجمہ ماہرین قانون اور سپریم کورٹ کے ججوں کو بھیجا جاسکتاہے۔ اُمید ہے کہ آپ سنجیدگی سے اس پر غور فرمائیں گے اور عجلت سے کام لیں گے۔ ہم نے یہ نمبر محفوظ کرلیا ہے۔ وہ ایک مرجع اور ماخذ کی حیثیت سے کام دے گا۔ اُمید ہے کہ مزاج ہر طرح بعافیت ہوگا ۔ والسلام، طالب دعا ابو الحسن علی ندوی، 20 اگست 1995 ‘‘
کچھ لوگوں کو اس بات پر اشکال ہے کہ مولانا اپنے معاصر علماء کی علمی ودینی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے ہیںاور اگر کسی معروف عالم دین کا انتقال ہوجائے تو وہ دوسطر بھی الرسالہ میںنہیں لکھتے ،مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات اور صریح الزام ہے۔ اس الزام کے رد میں یہاں طوالت کے خوف سے میں دوبارہ اول الذکرشخصیت کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔جب مولانا ابو الحسن علی ندوی کا
’’مولانا ابو الحسن علی ندوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے اندر بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات موجود تھیں۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے کہا تھا کہ یورپ میں جو کام اکادمی کرتی ہے وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتاہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی اسی قول کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے، مگر انھوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا‘‘ (الرسالہ، مارچ 2000 ء صفحہ
’’تاثرات سفر‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی گئی زیر نظرتحریر نے جو نہایت اہم معلومات فراہم کی ہے، وہ یہ ہے کہ اہل علم حضرات مولانا کی تحریروں خاص طورپرالرسالہ کو بڑی پابندی سے استفادہ کی غرض سے پڑھتے ہیں۔ اور اس سچائی کو ، خواہ وہ اس کا اظہار کریں یا نہ کریں اپنی جگہ تمام علماء یہ مانتے ہیںکہ مولانا فکری اعتبار سے موجودہ دورکے ممتاز اور مستند عالم دین اور قائد ملت ہیں اور انھوںنے جس طرح کی دینی ، علمی، اصلاحی، تعمیری اور فکری خدمات انجام دیں اور اسلام کو از سرِ نو دریافت کے طورپر نئی نسل کے سامنے رکھا اور اسے یہ احساس دلایا کہ اسلام کوئی فرسودہ اور ناقابلِ عمل مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل آج کی چیزہے، وہ صرف انھیں کا حصہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے اس سلسلے میں عصری اسلوب میں ایسا طاقت ور لٹریچر تیار کیا ہے جو ہر اعتبار سے قابلِ استفادہ اور آنے والے علماء کے لئے دین کی تبلیغ کے سلسلے میں قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے(غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر،
6 - امریکا کی جیل میں اصلاحی کام کرنے والے ادارے کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ ادارے کی فرمائش پر اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ ہدیۃً بھیج دیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں ادارے کا خط درج ذیل ہے:
I volunteer at for the Philadelphia Prison Systems on State Road in Philadelphia, PA. Once a month I visit young teenagers from the age of 15-17. The majority of the young men I speak with say they are Muslims but do not have a Quran. I ordered (5) Qurans last week through Amazon (The Holy Qurna ISBN 81-7808-141-6) and I saw that they came from www.goodwordbooks.com. I would like to order 25 more to give to the students I visit. Thank you (Sister Deborah Saunders, Philadelphia, USA)
7 - امریکا سے ایک خط موصول ہوا۔ حسب فرمائش ان کے پتے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ روانہ کردیا گیا ہے۔ یہاں خط کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے:
Do you have any materials for free to offer to Muslim inmates in prison? I am a prison chaplain at Marion Correctional Institution in Marion, NC. We have a large and devout Muslim community here. (Chaplain Sehested, Philadelphia, USA)
8 - چیپلنس سروسز (امریکا) کی طرف سے قرآن کے انگریزی ترجمہ کے سلسلے میں ایک خط ملا۔ ادارے کو قرآن کی 200 کاپیاں ہدیۃً بھیج دی گئی ہیں۔ اِس سلسلے میں ادارے کے منیجر کا خط یہاں درج کیا جاتا ہے:
We received the 200 copies of the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan. Thank you so very much! we will certainly use these resources not only with our patients and their families, but also as a valuable source of information and healing to the chaplains and hospital staff. You have no idea how comforting it is to our Muslim patients to be able to give them a Quran for them to keep. And now, you have sent us enough Qurans to give to our patients at all three of the hospitals we serve in Berkeley and Oakland, California. Thank you again for your generosity, and may it return to you tenfold! (Karla Droste, office manager, Chaplaincy Services)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.