1 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 جون 2009 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک گھنٹے کی تقریر کی۔تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے ممبران نے حاضرین کو مطالعے کے لیے اسلامی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ حاضرین میںموجود مسٹر ایل وی چھناپّن کو جب قرآن کا ترجمہ دیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایسا لگتاہے، جیسے میں نے خدا کا ہاتھ پکڑ لیا ہے۔
2 - نئی دہلی کے ایف اے این ایس (Foundation for Amity and National Solidarity) کی طرف سے
3 - صدر اسلامی مرکز نے نئی دہلی میں صدر جمہوریہ ہند مسز پرتبھا پاٹل سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات
4 - نئی دہلی کے فکّی(FICCI) آڈی ٹوریم میں 6 اگست 2009 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام مسٹر لال کرشن آڈوانی کی خود نوشت سوانح حیات ’’میرا وطن، میری زندگی‘‘ کے اردو ترجمہ کے رسمِ اجرا کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی صدارت میں ہوا۔ کتاب کا رسمِ اجرا مسٹر ایم جے اکبر نے کیا۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی صدارتی تقریر میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ میرا مشن انڈیا کو ’’اسپریچول سپرپاور‘‘ بنانا ہے۔ صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے بعد مسٹر آڈ وانی کی تقریر تھی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج میں نے پہلی بار ’’اسپریچول سپر پاور‘‘ کا لفظ مولانا صاحب کی زبان سے سنا ہے۔ اِس سے ہم کو حوصلہ ملا ہے۔ مولانا صاحب نے آج ہم کو ہمارا لکش دے دیا ۔ اِس پروگرام میں بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ عہدے داران موجود تھے۔ اِس پروگرام میں بڑی تعداد میں مسلم رہنما اور علماء بھی شریک تھے۔ سی پی ایس کی طرف سے تمام حاضرین خاص طور پر مسٹر آڈوانی کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ انھوں نے بہت خوشی کے ساتھ اس کو لیا اور کہا کہ میں ضرور اِس کو پڑھوں گا۔
5 - چنمئی مشن (لودھی روڈ، نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میں 8 اگست2009 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام ’’لائف پازیٹیو میگزین‘‘ کی طرف سے کیاگیا تھا۔ یہ ایک تعزیتی پروگرام تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ اور قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلام کے تصورِ موت وحیات پر روشنی ڈالی ۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6- Thanks for the permission. The Holy Quran is indeed principled way of Managing & Leading life, wish I had read it earlier. In my opinion majority of people are ignorant about the Prophet’s teaching & Goodword’s efforts to spread genuine knowledge by translating it into English is commendable. If people read this, there will be great appreciation & understanding of Islamic principles. The costing of “the the Quran pocket book” is reasonable & affordable by masses & we shall devote space to complete range of Islamic learnings/teachings at www.learningratnas.com (Prabhjot Singh Sood, New Delhi)
7 - سُناری (نیپال) میں قرآن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔ اس کی درخواست پر صدر اسلامی مرکز کی منتخب کتابوں کا ایک سیٹ اور دعوتی لٹریچر سی پی ایس کی طرف سے ادارے کو دیاگیا۔ کتابیں موصول ہونے پر ادارے کی طرف سے مولانا شمیم احمد فلاحی نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سی پی ایس کی طرف سے بہت ساری کتابیں موصول ہوئیں جو اِس تنظیم کے لیے دعوت و تبلیغ کی راہ میں بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ ذمے دارانِ ادارہ اِس گراں قدر مخلصانہ تعاون کے لیے سی پی ایس کے بے حد شکر گزار ہیں‘‘۔
8 - نومبر 2008 میں صدر اسلامی مرکز نے قبرص (Cyprus) کا سفر کیا تھا۔ اِس سلسلے میں وہاں کے متعدد اسلامی اداروں کے ذمے داران سے ملاقات ہوئی۔ سفر سے واپسی کے بعد قبرص کی مختلف مساجد اور وہاں کے اسلامی اداروں کے نام بذریعہ ڈاک دعوتی لٹریچر بھیج دیاگیا ہے۔
9 - لوگوں کے اندر دعوتی ترغیب پیدا کرنے کے لیے الرسالہ میں مفت دعوتی لٹریچر فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اِس سلسلے میں بڑی تعداد میں لوگوں کے خطوط موصول ہوئے۔ سی پی ایس کی طرف سے ان حضرات کو مطبوعہ دعوتی میٹریل روانہ کردیاگیا ہے۔ اِس سلسلے میں ادارے کے نام کئی خطوط موصول ہوئے۔ یہاں ایک قابلِ ذکر خط نقل کیا جاتا ہے: ’’محترم، میں الرسالہ کا ایک قدیم قاری ہوں۔ اگرچہ الرسالہ میں مفت دعوتی لٹریچر فراہم کرنے کا اعلان کیاگیا ہے، لیکن مجھے شرم آتی ہے کہ میں خدا کا کام مفت میں فراہم کردہ لٹریچر کے ذریعہ کروں۔ ہم اپنے کام کے لیے تو پیسہ خرچ کریں اور خدا کے کام کے لیے مفت کریڈٹ کے امیدوار ہوں۔ میں اپنا آرڈر بھیج رہا ہوں۔ میں دعوتی لٹریچر کو خرید کر اس کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا(مہتاب عالم، دھام پور)
10 - ماہ نامہ الرسالہ کا تازہ شمارہ باصرہ نواز ہوا۔ جذباتیت اور انتہاپسندی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ الرسالہ اس پہلو سے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اِس ناچیز کے نام آپ نے الرسالہ جاری فرمایا، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ (خورشید احمد فلاحی، محمد اسماعیل فلاحی، جامعۃ الفلاح، بلریا گنج اعظم گڑھ)
’’نئی دہلی سے اردو اور انگریزی زبان میں اشاعت شدہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کا ماہ نامہ الرسالہ، ان کی دعوتی اور سائنسی اسلوب میں لکھی ہوئی کتابوں کوبین الاقوامی شہرت ہورہی ہے۔ ان کتابوں کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور مختلف مسلم ملکوں کے اسکول، کالجوںمیں اس کو شامل نصاب کیا گیاہے ۔ بی بی سی میںالرسالہ اردو باقاعدہ پڑھا جاتاہے‘‘۔(محمد افاض الدین ندوی، آسام)
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، وہ ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستے کی اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا، پس تم میں سے جو کوئی اِس مہینے کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے‘‘۔ (البقرۃ:
Freedom at Midnight
اِس کتاب کی تیاری کے لیے دونوں صحافی وقتی طورپر دنیا سے کٹ گئے۔ چناں چہ ایک انٹرویو میں انھوںنے کہا تھا کہ —ہم نے راہب جیسی زندگی گزاری، پھر ہم نے ’’نصف شب کی آزادی‘‘ تیار کی:
We lived like hermits, and we produced Freedom at Midnight.
نزولِ قرآن کے مہینے میں روزے کو فرض کرنے کا مقصد یہی ہے۔ روزے کے مہینے میں یہ مطلوب ہے کہ اہلِ ایمان دنیا سے صرف بقدر ضرورت تعلق رکھیں۔ وہ گویا وقتی طورپر راہبانہ زندگی اختیار کرلیں جس کی آخری صورت معتکف ہوجانا ہے۔ رمضان کے مہینے میں یہ مطلوب ہے کہ اہلِ ایمان اپنی خواہشات پر کنٹرول کریں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنا وقت بچائیں، وہ قرآن کا مطالعہ کریں، وہ قرآن کے مضامین پر غوروفکر کریں، وہ تراویح کی صورت میں حالتِ نماز میں قرآن کو سنیں۔ اِس طرح وہ سال میں کم ازکم ایک مہینہ خصوصی طورپر قرآن کے مطالعہ اور غور وفکر میں گزاریں۔ اِس مہینہ میں وہ صرف قرآن میں جئیں اور قرآن کو اپنے ذہنی اور روحانی ارتقاء کا ذریعہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میںاہلِ ایمان سے کہا گیا ہے کہ تم لوگ نماز سے مدد لو (البقرۃ:
اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں بار بار انسان کے ساتھ ایسے معاملات پیش آتے ہیں جن میں وہ اپنے آپ کو عاجز (helpless) محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ ہر عورت اور ہر مرد کا ایک عام تجربہ ہے۔ اِس میں کسی کا بھی کوئی استثناء نہیں— نماز اِسی مسئلے کا ایک کامیاب حل ہے۔
جب کسی آدمی کے اوپر ایسے حالات آتے ہیں تو عام طورپر لوگ دو میں سے کسی ایک ردّ عمل کا اظہار کرتے ہیں— کچھ لوگ ظاہری حالات کو دیکھ کر ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اُس مہلک ذہنی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کو ٹنشن (tension) کہا جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو مفروضہ طورپر کسی غیرِ خدا کو اپنا حاجت روا اور دست گیر سمجھ لیتا ہے اور وہ بے فائدہ طورپر اس کی طرف دوڑنا شروع کردیتا ہے۔
اِس نازک صورتِ حال سے بچنے کے لیے ایک ہی درست اور قابلِ اعتماد طریقہ ہے، اور وہ دعا اور ذکر اور نماز کا طریقہ ہے۔ اِس طرح کے موقع پر جب ایک بندہ وضو کرکے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور دو رکعت یا اس سے زیادہ نماز ادا کرکے خدا سے دعا کرتا ہے تو یقینی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں سکون آجاتا ہے، اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے اپنے حقیقی کارساز کو پالیا ہے، اس کو پیش آمدہ حالات میں اعتماد کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے ایک مضبوط بنیاد حاصل ہوگئی ہے— نماز ایک عبادت بھی ہے، اور مشکل حالات میں سکون حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔ اِس اعتبار سے نماز کو ہرعورت اور مرد کے لیے ایک نفسیاتی سہارا کہاجاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
تبارک کا لفظی مطلب ہے— بہت زیادہ برکت والا۔ یہ لفظ قرآن میں 9 بار آیا ہے۔ یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتا ہے (وہی کلمۃ لم تستعمل إلاّ للہ وحدہ)۔ تبارک کا لفظ ’برکۃ‘ سے مشتق ہے۔ یہ تفاعل کے وزن پر برکۃ کا مبالغہ ہے۔ برکۃ کے معنی حضرت عبد اللہ بن عباس نے اِن الفاظ میں بیان کیے ہیں: الکثرۃ فی کلّ خیر (لسان العرب 10/396 ) یعنی ہر قسم کے خیر کی کثرت۔
تبارک کا مطلب ہے— ہر پہلو سے اور ہر چیز میںکمالِ خیر کا حامل ہونا۔ مثلاً قرآن میں ہے: فتبارک اللہ أحسن الخالقین (المؤمنون:
انسان کو جو جسم دیاگیا ہے، وہ ہر اعتبار سے ایک بہترین جسم ہے۔ اِس دنیا میں جو لائف سپورٹ سسٹم پایا جاتا ہے، وہ انسان کی تمام ضرورتوں کو آخری حد تک پورا کرنے والا ہے۔ سولر سسٹم اور کہکشائوں کا نظام اپنی ساری وسعتوں کے باوجود پوری طرح خالی از نقص (zero-defect) صفات کا حامل ہے۔ نباتات، جمادات اور حیوانات کی وسیع دنیا اپنے تمام تنوعات کے باوجود ہر پہلو سے کمالِ خیر کے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اللہ اپنی ذات میں خیرِ کامل ہے۔ اُسی سے خیر وبرکت کاتمام فیضان لوگوں تک پہنچتا ہے۔ یہ سب انسان کے لیے ایک عظیم رحمت (blessing) ہے۔ وہ اِس لیے ہے کہ انسان ان کو دیکھ کر خدا کی بے پایاں عظمت وقدرت کا تعارف حاصل کرے۔ وہ خدا سے سب سے زیادہ محبت کرنے لگے، اور خدا کے بارے میں اس کے اندر خشیت کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوں۔ یہی ایمان ہے، اور خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا اِسی ایمان کی کائناتی تربیت گاہ۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جنتی کردار پایا جاتا ہو۔ مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ ساری تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جو جنتی کردار کے حامل ہوں۔ ایسی حالت میں جنت تو صرف ایک سونی جگہ ہوگی، نہ کہ رونقوں سے بھری ہوئی جگہ۔
میںنے کہا کہ جنت کی سب سے بڑی رونق خود خداوند ِ ذو الجلال کی ذات ہے۔ خدا کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ آسمان اور زمین کا نور ہے (النور:
We will be able to feel continuously the presence of God.
اِس کے علاوہ، جنت میں خدا کے فرشتے بے شمار تعداد میں موجود ہوں گے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میںآنے والے پیغمبر جنت کے ممتاز افراد کی حیثیت سے وہاں موجود ہوںگے۔ اِس کے علاوہ، پوری تاریخ میں پیدا ہونے والی تمام صالح عورتیں اور تمام صالح مرد وہاں اکھٹا کیے جائیںگے۔ اِس طرح وہ بے شمار بچے وہاں بسائے جائیں گے جو معصومیت کی عمر میں مر گئے۔ یہ بچے جنت کی خصوصی رونق ہوںگے۔ غالباً اِنھیں کے بارے میں قرآن میں آیا ہے: ویطوف علیہم ولدان مخلّدون، إذا رأیتہم حسبتہم لؤلؤاً منثوراً (الدھر: 19 ) یعنی ان کے پاس پھر رہے ہوں گے ایسے بچے جو ہمیشہ بچے ہی رہیں گے۔ تم اُنھیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دئے گئے ہیں۔
جس جنت میں اتنی زیادہ رونقیں اور اتنی زیادہ پر کیف سرگرمیاں موجود ہوں، وہ جنت ایک سونیجنت کیسے ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت ایک انتہائی پررونق جگہ ہوگی۔ چناں چہ حدیث میں جنت کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: فیہا ما لا عین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علیٰ قلب بشر (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ)۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 5 کی ایک آیت یہ ہے: یٰأیہا الرسول بلّغ ما أنزل إلیک من ربّک، وإن لم تفعل فما بلغتَ رسالتہ، واللہ یعصمک من الناس (المائدۃ:
O Messenger, deliver what has been revealed to you from your Lord; and if you do it not, then you have not delivered His message, and God will protect you from the peoples.
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ذمے داری یہ تھی کہ وہ دعوت الی اللہ کے کام کو مکمل طورپر انجام دیں۔ اِسی کام کی انجام دہی پر اُن کے لیے دوسروں کے مقابلے میں کامل حفاظت کا وعدہ تھا۔ پیغمبر اسلام کے بعد اب یہی حیثیت آپ کی امت کی ہے۔ آپ کی امت کی بھی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر دور میں دعوت الی اللہ کے کام کو انجام دے۔ اِس کام کی انجام دہی پر اس کو لوگوں کے مقابلے میں خدا کی حفاظت حاصل ہوگی۔ اور اگر وہ اِس ذمے داری کو انجام نہ دے تو خدا کی حفاظت بھی اس کو ملنے والی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امتِ محمدی کا امتِ محمدی ہونا اُسی وقت متحقق ہوتاہے، جب کہ وہ دعوت الی اللہ کے کام کو درست طور پر انجام دے۔
قرآن کی یہ آیت واضح طورپر بتاتی ہے کہ دعوت الی اللہ امت محمدی کی ذمے داری ہے، اور لوگوں کے مقابلے میں اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کی ذمے داری۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کوئی بھی دوسرا عمل امتِ محمدی کی حفاظت کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ اگر کسی وقت امت یہ محسوس کرے کہ وہ دوسری قوموںکے مقابلے میں غیر محفوظ ہوگئی ہے تو اس کو دوسروں کے خلاف احتجاج (protest) کرنے کے بجائے خود اپنے حال پر غور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کی غیر محفوظیت کا سبب متعین طورپر یہ ہوگا کہ اس نے دعوت الی اللہ کے کام کو چھوڑ دیا تھا۔
واپس اوپر جائیں
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو اِس طرح دریافت کرے کہ وہ اُس سے ڈرنے والا بن جائے۔ خدا کا خوف بلا شبہہ کسی کے دین دار ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ خوفِ خدا کی پہچان کیا ہے، اس کو کتاب اللہ کے مطالعے سے جانا جاسکتا ہے۔ اِس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: ولا یجرمنّکم شنئٰان قوم علیٰ ألا تعدلوا، اعدلوا ہو أقرب للتقویٰ (المائدۃ: 8 ) یعنی کسی گروہ کی دشمنی تم کو اِس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔
اخلاقی اعتبار سے انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں— ایک، معتدل حالت۔ اور دوسری، غیر معتدل حالت۔ معتدل حالت میں ہر انسان با اخلاق ہی ہوتا ہے۔ معتدل حالت کسی آدمی کے صاحبِ تقویٰ ہونے کی پہچان نہیں ہوسکتی۔ صاحبِ تقویٰ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی غیر معتدل حالت میں کس قسم کی روش کا اظہار کرتاہے۔ایک صورت وہ ہے جب کہ آدمی کے ساتھ آپ کے دوستانہ تعلقات ہوں۔ ایسے حالات آپ کے تقویٰ کا امتحان نہیں ہوتے۔ تقویٰ کے امتحان کا وقت وہ ہے جب کہ آدمی کے ساتھ آپ کی اَن بن ہوجائے، جب کہ آدمی آپ کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ کرے جو آپ کے لیے شکایت کا باعث بن جائے۔ جب آدمی کی کسی روش پر آپ مشتعل ہوجائیں، یہی وقت دراصل کسی شخص کے تقویٰ کے امتحان کا وقت ہوتا ہے۔
جو آدمی اختلاف کے وقت اعتدال پر قائم رہے، جو دشمنی کے وقت انصاف کی بولی بولے، جو منفی تجربے کے وقت بھی مثبت ردّ عمل کا اظہار کرے، وہی متقی انسان ہے۔ وہی وہ انسان ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر بسا ہوا ہے۔ یہ ڈر اُس کے لیے اِس بات کا ضامن بن گیا ہو کہ وہ ہر حال میں تقویٰ کی روش پر قائم رہے، کسی کا ناروا سلوک اُس کو تقویٰ کی روش سے ہٹانے نہ پائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو اللہ کے یہاں متقی انسانوں میں شامل کیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میںاللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اِس دنیا میں اہلِ ایمان کی ضرور مدد کرتاہے۔ اِس سلسلے میں ایک آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلاً (النساء:
اِس آیت میں ’’کافر‘‘ سے مراد کوئی کافر قوم نہیں ہے۔اِسی طرح سے مومن سے مراد کوئی مومن قوم نہیں ہے۔ اِس آیت میں کافر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا کفرقانونِ الٰہی کے مطابق متحقَّق (established) ہوچکاہو۔ اِسی طرح مومن سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ایمان قانونِ الٰہی کے مطابق متحقق ہوچکا ہو۔ جن گروہوں کے اوپر یہ تحقُّق نہ ہوا ہو، وہ اِس آیت کا مصداق نہیں بن سکتے۔کسی گروہ کے لیے کفر کا تحقق اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُس کو خدا کا پیغام تمام ضروری شرطوں کے ساتھ پہنچایا جائے، یہاں تک کہ اُن کے لیے خدا کا دین ایک معلوم واقعہ بن جائے۔ اِسی طرح اِس آیت میں مومن گروہ سے مراد وہ گروہ ہے جو صبر کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان رہے، جو ملک اور مال جیسی چیزوں کے لیے لوگوں سے نزاع نہ کرے، دوسرے گروہوں سے ان کا ٹکراؤ کسی بھی دنیوی مقصد کے لیے پیش نہ آئے، وغیرہ۔
یہ مدد اہلِ ایمان کے لیے صرف اُس وقت آتی ہے جب کہ اہلِ ایمان یک طرفہ طورپر مظلوم ہوں، اور اہلِ باطل یک طرفہ طورپر ظالم۔ جب بھی ایسا ہو کہ کچھ لوگ اپنے بارے میںمومن اورمسلم ہونے کا دعویٰ کریں، اِس کے باوجود وہ اہلِ کفر سے مغلوب ہوجائیں، تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ ایمان اور اسلام کا دعویٰ کرنے والے لوگ اپنے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔ خدا کا وعدہ بلا شبہہ سچا ہے، لیکن وہ صرف اُن اہلِ ایمان کے لیے مقدر ہے جو خود بھی سچے مومن ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ جب بھی ایسا ہو کہ اہلِ کفر کے مقابلے میں اہلِ ایمان مغلوبیت کا شکار ہورہے ہوں تو اُس وقت اہلِ ایمان کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ایسے موقع پر اہلِ کفر کے خلاف شکایتوں کا طوفان کھڑا کرنا صرف اپنے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ اُس کو گھٹانے والا۔
واپس اوپر جائیں
دین میں صرف قرآن کی حیثیت حجت (authoritative source) کی ہے، یا حدیث ِ رسول بھی دین میں یکساں درجے میںحجت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک خالص قانونی مسئلہ ہے۔ عملی اعتبار سے جس چیز کی اہمیت ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اسلام کی روح زندہ ہو۔ دین پر عمل کرنے کی تڑپ اس کے اندر پیداہوگئی ہو۔ اللہ سے محبت اور اللہ کا خوف اس کے دل میں بھر پور طورپر جاگزیں ہوگیا ہو۔ جن لوگوں کے اندر اسلام کی یہ اسپرٹ پیدا ہوجائے، وہ کسی قانونی فتوے کے بغیر پوری طرح اسلام کو اختیار کرلیں گے، اور جن لوگوں کے اندر اسلام کی روح بیدا رنہ ہوئی ہو، ان کے لیے کوئی بھی قانونی فتویٰ عملی بیداری کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ایک شخص قرآن کو دین میں حجت مانتا ہو، لیکن اس کے اندر دین کی اسپرٹ موجود نہ ہو تو وہ خود قرآن کے احکام پر بھی عمل نہیں کرے گا۔قرآن کے بارے میں وہ بڑی بڑی بحثیں کرے گا، لیکن اس کی حقیقی زندگی قرآن کی تعلیمات سے خالی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اصل مسئلہ حدیث کی حجیت کو منطقی طورپر ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ حدیث کی دینی اہمیت اور افادیت کو آدمی کے دل میںاس طرح اتار دیا جائے کہ وہ اُس سے انحراف کا تحمل نہ کرسکے۔جب کوئی شخص حدیث کو پڑھتا ہے تو وہ اِس ذہن کے ساتھ اس کو نہیں پڑھتا کہ حدیث خالص قانونی اعتبار سے دین میں حجت ہے، یا نہیں، بلکہ عملاً یہ ہوتا ہے کہ مطالعۂ حدیث کے وقت اس کی ساری توجہ حدیث کے متن (text) پر ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اصل ضرورت یہ ہے کہ آدمی کا شعور اتنا زیادہ بیدار ہو کہ وہ حدیث کے متن میں اس کی بے پناہ افادیت کو اخذ کرنے لگے، حدیث کو پڑھتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہو کہ اس کو معانی کا اتھاہ خزانہ حاصل ہوگیا ہے۔ جب ایساہوگا تو حدیث کی معنویت اس کی پوری شخصیت پر چھا جائے گی۔ ایسی حالت میں اصل ضرورت حدیث کی نوعیت کے بارے میں قانونی یا فقہی بحثوں کی نہیں ہے، بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ ذہن پیدا کردیا جائے جو حدیث کی بے پناہ دینی افادیت کو سمجھنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning) کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھئے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی سورہ نمبر
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی سورہ نمبر
واپس اوپر جائیں
اکثر والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بچوں کی دینی تربیت کے لیے کیا کیا جائے۔ میرا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے— بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کیجئے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب خارجی ماحول نہیں ہے، بلکہ گھر کا داخلی ماحول ہے۔ گھر کا داخلی ماحول کون بناتا ہے، یہ والدین ہیں جو گھر کا داخلی ماحول بناتے ہیں۔ جب تک گھر کے داخلی ماحول کو حقیقی معنوں میں دینی، یعنی آخرت پسندانہ ماحول نہ بنایا جائے، بچوں کے اندر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھرکے اندر ہر قسم کی راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادّی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوںکا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔
والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادّہ پرستی کا کارخانہ بنادیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر مادّہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے میں ایک اردو شاعر نے کہا تھا— رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
مگر یہ صرف ایک خوش خیالی ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ ’’ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا‘‘ ہے۔ موجودہ زمانے کے والدین ایک طرف، اپنے بچوں کو ’’مادّی ہاتھی‘‘ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ چاہتے ہیں کہ اِس ہاتھی کی دم میں دین کی پتنگ باندھ دی جائے۔ مگر ایسی پتنگ کا حال صرف یہ ہونے والا ہے کہ ہاتھی ایک بار اپنی دم کو جھٹکا دے اور یہ پتنگ اُڑ کر بہت دور چلی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو دین دار، یعنی آخرت پسند بنانا چاہتے ہیں تو وہ اُس کی قیمت ادا کریں، ورنہ وہ فرضی طورپر اِس قسم کی منافقانہ بات کرنا بھی چھوڑ دیں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے جب مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہا: إنْ ترید مُلکاً ملّکناک علینا (اگر تم حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر حاکم بنانے کے لیے تیار ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم (میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز (starting point) حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of mind) کرنا ہے۔
اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points) پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا:
Change in personality, statusquoism in system.
اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میںاضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
فرد کے اندر ذہنی تبدیلی سے تحریک کاآغاز کرنے کی صورت میں فی الفور تحریک کو مثبت آغاز مل جاتا ہے۔ لیکن سسٹم سے آغاز کرنے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آخر کار تحریک ایک بند گلی (blind alley) میں پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے آگے بھی اندھیرا۔
واپس اوپر جائیں
کسی عورت یا مرد کو سب سے زیادہ محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے۔ یہ محبت کسی دلیل یا منطق(logic) کے زور پر نہیں ہوتی۔ وہ مکمل طورپر داخلی شعور کے تحت ہوتی ہے۔ اگر یہ داخلی شعور موجود نہ ہو تو کوئی بھی شخص اپنی ماں سے محبت کا تعلق قائم نہیں کرسکتا۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا کا ہے، جو کہ ہمارا خالق اور مالک ہے۔
خدا کا وجود بلاشبہہ ایک حقیقت ہے، لیکن خدا ہم کو اپنی مادّی آنکھوں کے ذریعے دکھائی نہیں دیتا۔ اِسی طرح عقلی اور منطقی دلائل بھی خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے صرف جزئی حد تک کافی ہیں۔ خدا کے بارے میں کوئی بھی عقلی یا منطقی دلیل آدمی کو صرف امکان (probability) کی حد تک پہنچاتی ہے، نہ کہ یقین (conviction) کی حد تک۔یہ خالق کی ایک عظیم رحمت ہے کہ اس نے اپنے شعور کو انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا۔ خدا کو پہچاننا انسان کے لیے ویسا ہی ایک حتمی معاملہ بن گیا ہے، جیسا کہ اپنی ماں کو پہچاننا اور اس کے ساتھ خصوصی محبت کا تعلق قائم کرنا۔ یہ فطری شعور ہر ایک کے لیے ایک داخلی جبر (inner compulsion) کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ داخلی شعور انسان کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، بلکہ سب سے بڑی نعمت۔ کیوں کہ انسان کی فطرت میں اگر یہ جبری شعور نہ ہوتا تو صرف عقلی یا منطقی استدلال اس کے لیے اطمینان کا سبب نہیں بن سکتا تھا۔ ایسی حالت میںاگر آدمی خدا کومانتا بھی تو وہ کامل یقین کے درجے میں اس کونہیں مان سکتا تھا۔فطری شعور کی غیر موجودگی میں شاید کوئی بھی شخص خدا کا سچا مومن نہ بنتا۔ اِس معاملے میں صرف پیغمبروں کا استثناء ہو سکتا تھا جن کو خدا نے براہِ راست مشاہدے کے ذریعے ایمان کا تجربہ کرادیا ہے۔
انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرسکے۔ ایسی حالت میں اگر صرف منطقی طورپر خدا کو پہچاننا ہوتو وہ انسان کے لیے بہت بڑا رِسک (risk) ہوتا ۔ یہ خالق کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو اِس سنگین رسک سے بچا لیا۔
واپس اوپر جائیں
عام لوگ انسان کو دشمن اور دوست میں تقسیم کرتے ہیں، لیکن داعی کے ذہن میں یہ تقسیم نہیں ہوتی۔ داعی کی نظر میں ہر انسان صرف انسان ہوتاہے، خواہ وہ بہ ظاہر اپنا ہو یا غیر۔ داعی کے رویّے کو ایک لفظ میں، انسان دوست (human-friendly) رویہ کہہ سکتے ہیں۔
عام انسان کا مزاج یہ ہوتاہے کہ— دشمن سے بائیکاٹ کرو، دشمن کو بدنام کرو، دشمن سے انتقام لو، دشمن کو ذلیل کرنے کی کوشش کرو، دشمن کے لیے بد دعائیں کرو، دشمن کی کردار کشی کرو، دشمن کو سبق سکھاؤ، وغیرہ۔ یہ طریقہ داعیانہ اسپرٹ کے خلاف ہے۔ جولوگ اس قسم کا مزاج رکھتے ہوں، وہ کبھی خدا کے دین کے داعی نہیں بن سکتے۔اس کے برعکس، داعی کا مزاج مکمل طورپر مثبت مزاج ہوتا ہے۔ داعی کی نظر میں ہر ایک اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بہ ظاہر کوئی شخص دشمنی کرے تب بھی داعی کے اندر اس کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ داعی کا ذہن یہ ہوتاہے کہ— دشمن کے ساتھ ناصحانہ روش اختیار کرو، اچھے سلوک کے ذریعے دشمن کو اپنا دوست بناؤ، اپنی تنہائیوں میں دشمن کے لیے دعائیں کرو، دشمن سے محبت کرو، دشمن کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہو، دشمن کو اپنے جیسا ایک انسان سمجھو، ہر حال میں دشمن کے خیر خواہ بنے رہو، دشمن کی ہلاکت کا متمنی ہونے کے بجائے اُس کو خدا کی ابدی رحمتوں میں حصے دار بنانے کی کوشش کرو۔ اِس معاملے میں داعیانہ کردار کیا ہے، اس کو ایک شاعر نے پیغمبر کے حوالے سے بجا طور پر اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
راہ میں جس نے کانٹے بچھائے، گالی دی، پتھر برسائے
اُس پر چھڑکی پیار کی شبنم، صلی اللہ علیہ وسلم
دعوت کے عمل کے لیے داعیانہ کردار ضروری ہے۔ جو شخص داعی کا کریڈٹ لینا چاہتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرے۔ داعیانہ کردار کے بغیر داعی بننے کی کوشش کرنا، قرآن کے الفاظ میں، بن کئے پر کریڈٹ لینے کے ہم معنیٰ ہے (یحبّون أن یُحمدوا بما لم یفعلوا)۔ خدا کی اِس دنیا میں ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ خدا کے یہاں حقیقی عمل پر کریڈٹ ملتاہے، نہ کہ فرضی دعوے پر۔
واپس اوپر جائیں
دعوت اہلِ ایمان کی ایک لازمی ذمے داری ہے۔ دعوت سے مراد غیر مسلم افراد تک دینِ حق کا پیغام پہنچانا ہے۔ اسلام کا اِشاعتی کام مسلمانوں کے درمیان بھی کرناہے اور غیر مسلموں کے درمیان بھی۔ مسلمانوںکے درمیان جو کام کیا جائے، اس کا نام اصلاح ہے، اور غیر مسلموں کے درمیان جو کام کیا جائے، اس کا نام دعوت الی اللہ۔
جو لوگ مسلمانوں کی اصلاح کا کام کریں، اُن کو مسجدوں میںاور مدرسوں میں اور مسلم اجتماعات میں افراد مل جاتے ہیں۔ وہ وہاں اسلام کا اشاعتی کام کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ غیر مسلموں کے درمیان اسلام کا اشاعتی کام کرنا چاہتے ہیں، وہ کیا کریں۔ اُن کے جو مخاطبین ہیں، وہ ان کو مسجد میں یا مدرسے میں یا مسلم تقریبات میںنہیں مل سکتے۔ غیر مسلم افراد تو صرف اپنے مواقعِ اجتماع میں ملیںگے، نہ کہ مسلمانوں کے مواقعِ اجتماع میں۔
دعوت کے اِس تقاضے کا واحد حل یہ ہے کہ داعی، غیر مسلموں کے اپنے اجتماعات میں جائے اور وہاں وہ ممکن دائرے میںاپنا دعوتی کام کرے۔ لیکن یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ غیر مسلم اپنے اجتماعات ہماری شرطوں پر نہیں کرسکتے۔ یہ یقینی ہے کہ غیر مسلم اپنے جو اجتماعات کریں گے، وہ خود اپنی روایت اور اپنے کلچر کے مطابق کریں گے۔ ایسی حالت میں غیر مسلموں کے مواقعِ اجتماعات کو دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرنا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اسلام کے اُس اصول کو اختیار کیا جائے جس کو قرآن میں اعراض (avoidance) کہاگیا ہے (الأعراف:
واپس اوپر جائیں
اسلام فطرت کا دین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے قوانین وہی ہیں جو فطرت کے قوانین ہیں۔ سائنس میں جس چیز کو لاز آف نیچر (laws of nature) کہاجاتا ہے، اُس کو اسلام میںالفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: یدبّر الامر یفصّل الآیات (الرعد: 2 ) ۔
اِسی معاملے کی ایک مثال دانت کی صفائی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ حدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں اِس موضوع پر حدیثیں موجود ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: السّواک مطہرۃ للفم، مَرضاۃ للرب (صحیح البخاری، کتاب الصوم) یعنی مسواک دانت کی صفائی کا ذریعہ ہے، اور خدا کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایک روایت میں آپ نے فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں شامل ہیں، اُن میںسے ایک مسواک ہے۔ اِس سلسلے میں ایک امریکی یونی ورسٹی میں ریسر چ کی گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا ہے کہ دانت کی صفائی کا تعلق انسان کی پوری صحت سے ہے۔ اِس سے نہ صرف منہ کی صفائی ہوتی ہے، بلکہ وہ ہر اعتبار سے انسان کی صحت کے لیے مفید ہے۔ مسواک کی عادت انسان کو دل کے امراض اور فالج سے بچاتی ہے۔ اس کا حافظہ دیر تک باقی رہتا ہے، وغیرہ۔
Keep Mouth Clean
Keeping your teeth brushed and flossed can help preserve memory, say researchers. The study at West Virginia University has found a link between gum disease and memory loss. “Older people might want to know there’s more reason to keep their mouths clean— to brush and floss— than ever,” said Richard Crout, an expert on gum disease and associate dean for research in the WVU School of Dentistry. “You’ll not only be more likely to keep your teeth, but you’ll also reduce your risk of heart attack, stroke and memory loss. “This could have great implications for health of our aging populations,” Crout said. “With rates of Alzheimer’s skyrocketing, imagine the benefits of knowing that keeping the mouth free of infection could cut down on cases of dementia,”, he added.
(The Times of India, New Delhi, June 22, 2009)
واپس اوپر جائیں
Realism Returns to Palestine
فلسطین کی جدید تاریخ 1948 سے شروع ہو تی ہے، جب کہ بال فور ڈکلریشن (Balfour Declaration) کے تحت فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی۔یہ واقعہ برٹش ایمپائر کے زمانے میں ہوا۔ اِس تقسیم کے تحت جو ہوا، وہ یہ کہ سرزمینِ فلسطین کا تقریباً ایک تہائی حصہ یہود کو آبادکاری (settlement) کے لیے دیا گیا، جو کہ اُس وقت بیرونی علاقوں میں بسے ہوئے تھے۔ اور فلسطین کا تقریباً دو تہائی رقبہ عربوں کے حصے میں آیا، جو کہ پہلے سے وہاں موجود تھے۔
یہود کو یہ حق پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران محدود کوٹا سسٹم (limited quota system) کے تحت دیاگیا تھا۔ بعد کو اسرائیل کی جو توسیع عمل میں آئی، وہ بال فور ڈکلریشن کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ یقینی طور پر وہ عربوں کی اپنی غلط پالیسی کا نتیجہ تھی۔ مثلاً سوئز کمپنی کا پٹّہ (lease) جو 1968 میںاپنے آپ ختم ہورہا تھا، اُس کو 1956 میں یک طرفہ طورپر ختم کردینا۔ فطری طورپر اِس کے نہایت گمبھیر نتائج برآمد ہوئے ۔ اِسی طرح فلسطینی عربوں کا اپنی زمینوں کو زیادہ بڑی قیمت پاکر یہودیوں کے ہاتھ بیچ دینا، وغیرہ۔
یہود،یابنی اسرائیل
یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں۔یہ دراصل حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب سے نسبت رکھنے والے لوگ ہیں۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ عبرانی زبان میں اسرائیل کے معنی ہیں: اللہ کا بندہ، جیسا کہ اسماعیل کے معنی ہیں: اللہ کا سننا۔
حضرت ابراہیم کا زمانہ تقریباً چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے— اسماعیل اور اسحاق۔ اسماعیل، آپ کے بڑے بیٹے تھے، جو ہاجرہ کے بطن سے تھے۔ اور اسحاق آپ کے چھوٹے بیٹے ـتھے، جو آپ کی دوسری بیوی سارہ کے بطن سے تھے۔ حضرت ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب میں آباد کیا۔ اور اپنے دوسرے بیٹے اسحاق کو خدا کے حکم سے فلسطین کے علاقے میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب تھے، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ اِنھیں کی نسل بنی اسرائیل (Children of Israel) کہلائی۔ اپنے آبائی تعلق کی بنا پر، فلسطین، بنی اسرائیل کا وطن قرار پایا، جیسا کہ اِسی طرح کے آبائی تعلق کی بنا پر عرب، بنو اسماعیل کا وطن مانا جاتا ہے۔
یہودی مذہب ایک نسلی مذہب ہے۔ یہودی مذہب میں کنورژن (conversion) کا کوئی تصور نہیں۔ اِس لیے آج جتنے یہودی دنیا میں پائے جاتے ہیں، وہ سب کے سب براہِ راست طورپر حضرت یعقوب (اسرائیل) کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس نسبت کی بنا پر تمام یہودیوں کا مشترک وطن فلسطین ہے، جیسا کہ ان کے مورثِ اعلیٰ اسحاق اور یعقوب کا وطن فلسطین تھا۔ بنو اسماعیل کا وطن عرب قرار پانا، اور بنو اسحاق (بنی اسرائیل) کا وطن فلسطین قرار پانا، دونوں کا تقرر حضرت ابراہیم نے کیا، جو کہ براہِ راست خداکے حکم کے تحت تھا۔
قدیم زمانہ مذہبی معاملات میں عدم رواداری (intolerance) کا زمانہ تھا۔ یہود کو بار بار اِس طرح کے ناخوش گوار تجربات پیش آئے۔ چناں چہ ان کی ایک تعداد فلسطین چھوڑ کر باہر جاتی رہی۔ یہی یہودی تارکینِ وطن ہیں جن کو یہودی ڈائس پورا (Jews in diaspora) کہا جاتا ہے۔ ڈائس پورا کا مطلب ہے— وہ یہودی تارکینِ وطن، جو فلسطین کے باہر آباد ہوں:
Diaspora: Jews who lived outside of Palestine.
بالفور ڈکلریشن کے تحت، فلسطین واپسی کا فیصلہ اِنھیں ڈائس پورا میں رہنے والے یہودیوں کی بابت تھا۔
1948میں جب بیرونی علاقوں میں رہنے والے یہودیوںکی ایک تعداد فلسطین واپس آئی، تو اُس وقت عربوں کی طرف سے ان کے خلاف سخت قسم کے منفی ردّ عمل کا اظہار ہوا۔ عربوں کی سب سے بڑی تنظیم الاخوان المسلمون دراصل یہود کے خلاف منفی جذبات کے زیر اثر بنی۔ اُس وقت عرب رہ نماؤں کا یہ نعرہ تھا: سنرمیہم فی البحر (ہم ان یہودیوں کو سمندر میںدھکیل دیں گے)۔ تمام عرب اور غیرعرب مسلم رہ نما یہودیوں کے خلاف سر گرم ہوگئے، یہاں تک کہ پوری مسلم دنیا مخالفِ یہود جذبات سے بھر گئی۔ ہر قسم کے تشدد حتی کہ خود کُش بم باری کو یہودیوں کے خلاف جائز قرار دے دیا گیا۔ مگر یہودکے خلاف تمام سرگرمیاں کاؤنٹر پروڈکٹیو(counter productive)ثابت ہوئیں۔ اِن سرگرمیوں کا نقصان براہِ راست طورپر عربوں کے حصے میں آیا، اور بالواسطہ طورپر تمام دنیا کے مسلمانوں کے حصے میں۔
عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی یہ مخالفِ یہود پالیسی واضح طورپر اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی۔ بال فور ڈکلریشن کے تحت، فلسطین کی تقسیم، یہودی تارکینِ وطن (Jews in diaspora) کے لیے اپنے وطن کی طرف واپسی کے ہم معنیٰ تھی۔ یہ بات واضح طورپر قرآن کی تعلیم کے عین مطابق تھی۔ قرآن کی سورہ نمبر 5 میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں یہود سے کہاگیا تھا: یا قوم ادخلوا الأرض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم (المائدۃ:
O my people, enter the holy land which God has assigned to you (
یہ یہود کون تھے۔ یہ وہ یہودتھے جو اُس وقت سینا کے علاقے میں ڈائس پورا کے حیثیت سے رہ رہے تھے۔ اِس آیت میں ارضِ مقدس سے مراد فلسطین ہے۔ اِس آیت کا خطاب حضرت موسیٰ کے ہم عصر یہودی ڈائس پورا سے تھا ، جو فلسطین کے باہر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ’’جس کو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تمھاری یہ واپسی خدائی قانون، بہ الفاظِ دیگر، فطرت کے قانون کے عین مطابق ہوگی۔ کیوں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، کسی بھی تارکِ وطن گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے اصل آبائی وطن کی طرف واپس چلاجائے۔
حضرت موسیٰ کے ساتھ جو بنی اسرائیل تھے، وہ کون تھے۔ وہ سب کے سب تارکینِ وطن کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، حضرت ابراہیم نے اپنے خاندان کی ایک شاخ کو فلسطین کے علاقے میں آباد کیاتھا۔ اِنھیں میں حضرت یوسف پیدا ہوئے، جو حضرت یعقوب کے بیٹے تھے۔ حضرت یوسف کے ساتھ ایسے حالات پیش آئے کہ وہ مصر پہنچ گئے۔ اُس زمانے میں وہاں جس بادشاہ کی حکومت تھی، وہ حضرت یوسف پر مہربان ہوگیا اور اُن کو اپنی حکومت میں ایک بڑا عہدہ دے دیا۔
پھر حضرت یوسف کو جب مصر میں استحکام حاصل ہوا، تو انھوںنے اپنے اہل خاندان، بشمول اپنے والد حضرت یعقوب، سے کہا کہ آپ لوگ فلسطین چھوڑ کر مصر آجائیں۔ اِس طرح یہ لوگ مصر جاکر وہاں آباد ہوئے۔ وہاں ان کی نسل کافی بڑھی، یہاں تک کہ وہ مصر کی ایک با اثر قوم بن گئے۔
حضرت یوسف کے بعد مصر میں سیاسی انقلاب آیا، اور قدیم بادشاہ (Hyksos Kings) کے بجائے ایک نیا خاندان، مصر کا حکم راں بن گیا جس نے فرعون (Pharaoh) کو اپنے خاندانی لقب کے طورپر اختیار کیا۔ فرعون کی اِسی حکومت کے زمانے میں بنی اسرائیل پر مظالم شروع ہوئے، یہاںتک کہ حضرت موسیٰ پیدا ہوئے اور وہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر صحرائے سینا میں لے گئے۔ یہ بنی اسرائیل کے سفر کا پہلا مرحلہ تھا۔ اُن کے سفر کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ وہ دوبارہ اپنے آبائی وطن (فلسطین) میں داخل ہو جائیں اور وہاں جاکر آباد ہوں۔
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جن بیرونی یہودیوں کی واپسی کا منصوبہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت بنایاگیا تھا، وہ قدیم یہودی ڈائس پورا سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے بعد بال فور ڈکلریشن کے تحت، جن بیرونی یہودیوں کی واپسی کا منصوبہ بنا، وہ جدید یہودی ڈائس پورا سے تعلق رکھتا ہے۔
قبلۂ اوّل کی بازیابی کا مسئلہ
عام طورپر مسلمان، فلسطین کے موجودہ مسئلے کو، قبلۂ اوّل کی بازیابی کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب مدینہ میں ایک مسجد (مسجد ِنبوی) تعمیر کی، اور اس میں نماز باجماعت قائم کی، تو اُس وقت آپ نے یہودی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے مسجد ِاقصیٰ کو اپنا قبلہ قرار دیا۔ یہ صورتِ حال تقریباً
یہ نظریہ سر تاسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کا تعلق، قبلۂ اوّل سے نہیں ہے۔ قرآن میں مسجد ِ اقصیٰ کا ذکر معروف معنوں میں، کسی مسجد کے نام کے طورپر نہیں آیا ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے معنٰی: دور کی مسجد (farthest place of worship) کے ہیں۔ اِس کو دور کی مسجد اِس لیے کہاگیا کہ وہ مکہ سے
اِس یہودی عبادت گاہ (ہیکل) کو حضرت سلیمان نے
مسجد اقصیٰ کیمپس میں ایک اور عمارت ہے، جس کو قُبّۃ الصَّخرۃ (Dome of Rock) کہاجاتا ہے۔ یہاں قدیم زمانے سے یہودیوں کا مقدس صخرہ (چٹان) واقع تھا۔ اِسی صخرہ کے اوپر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے
مسجدِ اقصیٰ کو فلسطینی جدوجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان عام طورپر، مسجد اقصیٰ کو ’’قبلۂ اوّل‘‘ سمجھتے ہیں، حالاں کہ قبلۂ اوّل کاکوئی تعلق، مسجد اقصیٰ سے نہیں۔ قبلۂ اوّل اگر کوئی ہوسکتا ہے، تو وہ قبۃ الصخرہ (بیت المقدس) ہے، نہ کہ مسجد اقصیٰ۔ مزید یہ کہ پیغمبر اسلام جب مکہ میں تھے، تو آپ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ ہجرت کے بعد آپ نے تقریباً
اِس حقیقت کی روشنی میں دیکھیے تو ’’قبلۂ اول کی بازیابی‘‘ کا لفظ سرتا سر بے اصل ہے۔ اگر اِس مفروضہ بازیابی کو مسجد اقصیٰ سے منسوب کیا جائے تو مسجد ِاقصیٰ کبھی بھی پیغمبر اسلام کا قبلہ نہ تھی۔ ہجرت (
بالفور ڈکلیریشن کے تحت 1948 میں جب یہودی باہر سے آکر فلسطین میں بسنے لگے، تو اُس وقت عربوں کی طرف سے صرف ایک ردّ عمل سامنے آیا، اور وہ مسلح جہاد کا ردّ عمل تھا۔ عرب ممالک نے فلسطینیوں کو بہت بڑے پیمانے پر مالی امداد دینا شروع کیا۔ یہودی ریاست کے خلاف متشددانہ کارروائیوں کے ذریعے یہ کوشش کی جانے لگی کہ اس کا بالکل خاتمہ کردیا جائے۔ لیکن عربوں کو اپنے اِس متشددانہ منصوبے میں کوئی کامیابی حاصل نہیںہوئی۔
یہ بلا شبہہ عرب رہ نماؤں کی غلطی تھی۔ یہ عرب رہ نما اگر اسلامی تاریخ سے سبق لیتے، تو اُن کو معلوم ہوتا کہ ان کے لیے ایک اور زیادہ بہتر انتخاب (better choice) موجود ہے۔ وہ یہ کہ وہ اِن آنے والے یہودیوں کا ایک پڑوسی کی حیثیت سے استقبال کریں اور فلسطین کے ڈیولپ مینٹ میں ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ یہ یہودی زیادہ تر مغربی ملکوں سے آئے تھے۔ ان کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی۔ وہ جدید علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ عربوں کے لیے ترقیاتی عمل میںبہترین پارٹنر بن سکتے تھے۔ مگر جذباتیت کے طوفان میںعرب رہ نما معاملے کے اِس مثبت پہلو کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
حالاں کہ اسلام کی تاریخ میں مسلم اور یہود کے درمیان اِس تعاون (collaboration) کی نہایت اعلیٰ مثال موجود تھی۔ بعد کے زمانے میں جب بڑی بڑی مسلم حکومتیں قائم ہوئیں، تو اُس زمانے میں مسلمانوں نے ایک نیا کام شروع کیا— قدیم علمی کتابیں جو یونانی اور دوسری زبانوں میں تھیں، اُن کا ترجمہ عربی زبان میں کرنا، اِس مقصد کے لیے مختلف ملکوں سے غیر عربی کتابیں بڑی تعداد میں منگائی گئیں۔ اِسی واقعے کو خواجہ الطاف حسین حالی (وفات: 1914) نے اپنی مسدّس میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر چلے آتے تھے مصر ویوناں کے دفتر
اِس مقصد کے لیے عباسی دورِ حکومت میں بغداد میں بہت بڑا دارالترجمہ قائم ہوا جس کو بیت الحکمت (
اِس واقعے کا اعتراف عام طورپر مغربی مؤرخین نے کیا ہے۔ مثال کے طور پر رابرٹ بریفالٹ (وفات: 1948 ) نے اِس معاملے میں عربوں کے رول کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ— یہ بہت زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ عربوں کے بغیر جدید صنعتی تہذیب سرے سے پیدا ہی نہ ہوتی:
It is highly probable that but for the Arabs, modern industrial civilization would never have arisen at all. (Robert Briffault, Making of Humanity, p. 190)
علم وتحقیق کے میدان میں عربوں نے یہ عظیم کارنامہ کس طرح انجام دیا، جب کہ اِس سے پہلے اِس قسم کے کسی علمی کارنامے کی روایت عربوں کے یہاں موجود نہیں تھی۔ جواب یہ ہے کہ یہ کارنامہ انھوںنے تعاون (collaboration) کی طاقت سے انجام دیا۔ اُس زمانے کے عربوں نے عراق اور مصر اور اسپین میں علم وتحقیق کے جو ادارے بنائے، اُس میں انھوںنے مسیحی اسکالر اور یہودی اسکالر کی خدمات بڑے پیمانے پر حاصل کیں۔ اِن اداروں میں عرب علماء اور غیر عرب اسکالر مل کر کام کرتے تھے۔ اِس تعاون کا نتیجہ وہ شان دار علمی تاریخ ہے، جو قرونِ وسطی کے زمانے میں بنی، اور جس کی بنیاد پر مغربی یورپ نے مزید اعلیٰ ترقی حاصل کی(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو— پروفیسر فلپ کے ہٹی کی کتاب: تاریخِ عرب (History of the Arabs) ۔
1948 کے بعد یہی امکان دوبارہ فلسطینیوں کے لیے پیدا ہوا تھا، لیکن جذبات سے مغلوب، عرب رہ نماؤں نے غلط رہ نمائی کرکے ان کو تعاون کے بجائے ٹکراؤ کے راستے پر ڈال دیا۔ ایک عظیم تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔اِس امکانی تاریخ کا ایک چھوٹا سا نمونہ عربوں کے زیر اقتدار فلسطین، اور یہود کے زیر اقتدار فلسطین کا تقابل کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہود کے زیر اقتدار فلسطین کا یہ حال ہے کہ جہاں 1948 میں خشک صحرا دکھائی دیتا تھا، وہاں آج زراعت اور باغ بانی (horticulture) کی سرسبز دنیا نظر آتی ہے۔ اِس کے برعکس، فلسطین کا جو حصہ عربوں کے زیر اقتدار ہے، وہاں اب بھی پس ماندگی کی وہی حالت ہے جو 1948 میں وہاں پائی جاتی تھی۔
فلسطین کے لوگ اپنے نادان عرب رہ نماؤں کی رہ نمائی میں ایک بے نتیجہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ پہلے اُن کا نشانہ یہ تھا کہ وہ فلسطین کو1948 سے پہلے کی حالت پر لے جائیں۔ اب ان کا نشانہ فلسطین کو 1967 سے پہلے کی حالت کی طرف لے جانا ہے۔ یہ دونوں نشانے بلاشبہہ ناممکن ہیں۔ یہ تاریخ کے سفرکو پیچھے کی طرف لوٹانے کے ہم معنی ہے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا کبھی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ فلسطینیوں کے لیے پہلا انتخاب یہ تھا کہ وہ 1948 کے اسٹیٹس کو (statusquo) پر راضی ہوجائیں۔ اب ان کے لیے دوسرا ممکن انتخاب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو موجودہ اسٹیٹس کو پر راضی کر لیں۔ اگر انھوںنے اِس دوسرے انتخاب کو بھی کھودیا، تو اس کے بعد کوئی تیسرا انتخاب ان کے لیے کبھی پیش آنے والا نہیں۔ اب تیسرا انتخاب ان کے لیے صرف تباہی اور بربادی کا انتخاب ہے، نہ کہ زندگی اور کامیابی کا انتخاب۔
اسٹیٹس کو ازم (statusquoism) کا مطلب ہے— حالتِ موجودہ کو تبدیلی کے بغیر مان لینا۔ یہ کوئی کم زوری کی بات نہیں، یہ ایک اعلیٰ قسم کی دانش مندانہ پالیسی کا نام ہے۔ فطرت کے نظام کے مطابق، اِس دنیا میں ہمیشہ اور ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی نزاعی مسئلہ موجود رہتا ہے۔ اِسی کے ساتھ خود نظامِ فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر صورتِ حال میںکام کرنے کے مواقع بھی موجود ہوں۔ ایسی حالت میںنتیجہ خیز پالیسی (result-oriented policy) یہ ہے کہ آدمی مسائل (problems) کو نظر انداز کرے اور مواقع(opportunities) کو استعمال کرے۔ نزاعی مسائل سے الجھنا ہمیشہ اِس قیمت پرہوتا ہے کہ مسائل تو ختم نہ ہوں، لیکن قیمتی مواقع استعمال ہونے سے رہ جائیں۔
فلسطین میں عرب رہ نما لمبی مدت سے کھوئی ہوئی زمین (land) کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے دیکھئے تو اُن کی ساری کوششیں اور قربانیاں سرتاسر رائگاں ہوگئیں۔ وہ اپنے نشانے کے مطابق، زمین (land) تو حاصل نہ کرسکے، البتہ یہ نقصان اُن کے حصے میںآیا کہ وہ قیمتی مواقع کو استعمال (avail) کرنے سے محروم رہے۔
موجودہ زمانہ گلوبلائزیشن کا زمانہ ہے۔ قدیم زرعی دور میں ساری اہمیت زمین کی ہوا کرتی تھی، مگر جدید کمیونکیشن کے زمانے میں زمین ایک ثانوی اہمیت کی چیز بن گئی ہے۔ اب ساری اہمیت مواقع کی ہے، جو گلوبلائزیشن کے نتیجے میںہر شخص کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ اب ایک شخص بظاہر ایک محدود جگہ پر رہتے ہوئے بھی ساری دنیا کے مواقع کو اپنے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ ایسی حالت میں زمین (land) کے حصول کے لیے لڑنا، ایک قسم کی خلافِ زمانہ روش (anachronism) ہے، جو کبھی کسی کے لیے مثبت نتیجہ پیدا کرنے کا ذریعہ نہیںبن سکتی۔
فلسطین کی موجودہ صورتِ حال ایک بحران (crisis) کی صورتِ حال ہے۔ یہ صورتِ حال نہ عربوں کے لیے مفید ہے اور نہ اسرائیل کے لیے مفید۔دونوں کے بہترین مفاد میںیہ بات ہے کہ دونوں معتدل ذہن کے ساتھ مسئلے پر غور کریں اور صورتِ حال کو نارمل بنانے کے لیے کوئی نیا فیصلہ لیں۔ تاہم اِس معاملے میں دونوں فریق کو حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ کوئی ایسی شرط جو دونوں فریقوں کے لیے یکساں طورپر قابلِ قبول نہ ہو، وہ صرف ایک خیالی شرط ہوگی، نہ کہ حقیقت پسندانہ شرط۔
میری فہم کے مطابق، اِس معاملے کا قابلِ عمل حل صرف ایک ہے، وہ یہ کہ عرب حضرات اپنی طرف سے ہر قسم کے تشدد کو کامل طورپر چھوڑ دیں۔ یہ ایک لازمی شرط ہے۔ اِس شرط کو پورا کیے بغیر مسئلے کے حل کی بات کرنا، ایک خیالی دنیا میںسفر کرنا ہے، اورایسا سفر کبھی واقعہ نہیں بنتا۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس کو بھی ایک لازمی شرط کو پورا کرنا ہوگا، وہ یہ کہ اسرائیل، فلسطین میںمقیم عربوں کو وہی حقوق دے، جو اسرائیلی دستور کے رُو سے، اس کے حدود میںرہنے والے باشندوں کو حاصل ہیں۔یعنی عرب لوگ اسرائیل کے خلاف اپنے تشدد کو کامل طورپر چھوڑ دیں، اور اسرائیل اپنے دستور اور حقوقِ انسانی (human rights) کے عالمی اصول کے مطابق، فلسطینی عربوںکو مساوی بنیاد پر اُن کے تمام ضروری حقوق دے دے۔ یہ دو باتیں اگر اصولی طورپر مان لی جائیں، تو ان کی بنیاد پر پُر امن باہمی گفت وشنید (negotiation) کے ذریعے ایک عملی نظام بنایا جاسکتاہے۔
عام طورپر زمین برائے امن (land for peace) کی بات کی جاتی ہے، یعنی زمین دو اورامن لو۔ مگر اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر میںاِس تجویز کو قطعی طورپر ناقابلِ عمل سمجھتا ہوں۔ اِس معاملے میںجوچیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف حقوق برائے امن (right for peace) ہے، یہی اِس معاملے میںواحد قابلِ عمل فارمولا ہے۔ اِس فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اِس کو ماننے کی صورت میں عربوں کو فوری طورپر ایک نقطۂ آغاز (starting point) مل جائے گا۔ اِس وقت فلسطینی تحریک ایک بند گلی (blind alley) میں پھنسی ہوئی ہے۔ مذکورہ تجویز کو اختیار کرنے کی صورت میں یہ ڈیڈ لاک (deadlock) فوری طورپر ختم ہوجائے گا، اور عربوں کو یہ کھُلا موقع مل جائے گا کہ وہ ترقی کی شاہ راہ پر اپنا سفر شروع کردیں۔
فلسطین کے معاملے میں تمام دنیا کے مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں، ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں، وہ یہ کہ اسرائیل قبضہ کی ہوئی زمین کو واپس کرے، تو فلسطینی اپنی متشددانہ کارروائیوں کو بند کردیں گے۔ اِس تجویز کو السّلام مع العدل (peace with justice) کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، بے شمار کوششوں کے باوجود یہ تجویز عمل میں نہ آسکی۔ اِس ناکامی کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ یہ فارمولا ایک غیر حقیقت پسندانہ فارمولا ہے، اور کوئی غیر حقیقت پسندانہ فارمولا، حقائق کی اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ دنیا فطرت کے اٹل قوانین پر چل رہی ہے۔ اِس دنیا میں وہی فارمولا کامیاب ہوسکتاہے، جس کو فطرت کے قوانین کی حمایت حاصل ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، عدل (justice) امن (peace) کا حصہ نہیں عدل کو امن کے ساتھ بریکٹ کرنا، گریمر کے اعتبار سے درست ہوسکتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ہر گز درست نہیں۔ کیوں کہ عدل جب بھی کسی کو ملتا ہے، وہ خود اپنی محنت سے ملتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ امن کے قیام سے کسی کو عدل حاصل ہوجائے۔
اصل یہ ہے کہ امن کے قیام سے جو چیز حاصل ہوتی ہے، وہ صرف مواقع کار ہیں۔ امن کسی شخص، یا گروہ کے لیے مواقع کا دروازہ کھولتا ہے۔ عدل کے حصول کا کام اِس کے بعد شروع ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ کھلے ہوئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے لیے مطلوب عدل حاصل کیا جائے۔
خدا کے فضل سے میںنے تین بار فلسطین کا سفر کیا ہے۔ پہلی بار اگست 1995 میں، دوسری بار اکتوبر 1997 میں اور تیسری بار اکتوبر 2008 میں۔ اِس طرح میں یہ کہہ سکتاہوں کہ مجھے فلسطین کو براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اِس کے علاوہ بہت سے فلسطینی مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی ہے، دہلی کے اندر اور دہلی کے باہر۔ فلسطین کے بارے میں، میں نے بہت سی کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ اپنے تجربات کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فلسطینی قوم ایک زندہ قوم ہے۔ فلسطینی لوگ عام طورپر اعلیٰ صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ ’’علم اور جسم‘‘ دونوں میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ایسے جغرافی علاقے میں پرورش پاتے ہیں، جس کے بارے میں، قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: الّذی بارکنا حولہ (الإسراء: 1 ) یعنی جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے:
The environs of which, We have blessed.
فلسطینی لوگ اپنے ممتاز فطری اوصاف کی بنا پر بہت بڑے بڑے کام کرسکتے ہیں، وہ ہر میدان میں اعلیٰ ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دورِ جدید کا یہ ایک انوکھا المیہ ہے کہ فلسطین کی یہ بالقوہ صلاحیت (potential) اُن کے حق میں بالفعل (actual) واقعہ نہ بن سکی۔
اِس المیہ کا واحد سبب یہ ہے کہ فلسطین کے لیڈروں نے فلسطینیوں کو نفرت اور تشدد کے راستے پر ڈال دیا۔ انھوںنے غلط طورپر زمین (land) کو سب کچھ سمجھ لیا۔ وہ زمین کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ اُن کو معلوم نہیں کہ ایک فلسطینی کی زندگی اُس زمینی خطّہ سے ہزاروں گُنا زیادہ قیمتی ہے، جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فلسطینی، جدید امکانات سے باخبر ہوتے، تو یقینا وہ جان لیتے کہ اِن امکانات کو استعمال کرکے وہ نہ صرف فلسطین کی سطح پر، بلکہ عالمی سطح پر بڑی بڑی ترقیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ پُرامن عمل اور متشددانہ عمل کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر قانونِ فطرت کا معاملہ ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، پُرامن عمل انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتا ہے۔ جو گروہ ایسا کرے کہ وہ پُرامن ذرائع تک محدود رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری کرے، ایسا گروہ، فطرت کے قانون کے مطابق، دن بدن تخلیقی گروہ (creative group) بنتا چلا جائے گا۔ اِس کے برعکس، جو گروہ نفرت اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے، وہ فطرت کے قانون کے مطابق، دن بدن غیر تخلیقی گروہ (uncreative) بنتا چلا جائے گا۔
یہ فطرت کا اٹل قانون ہے۔ اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔ پُر امن طریقِ کار ہمیشہ کسی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔ اِس کے برعکس، نفرت اور تشدد کا طریقہ ہمیشہ غیر تخلیقیت کی طرف لے جاتاہے۔ کوئی بھی دوسرا عمل اِس نقصان کی تلافی نہیںبن سکتا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں تمام کامیابیاں تخلیقی گروہ کے لیے مقدّر ہیں، اور تمام ناکامیاں غیر تخلیقی گروہ کے لیے۔
قضیۂ فلسطین کا حل
ابو سعید الخدری الانصاری (وفات:
اِس حدیث رسول میں پیشگی طورپر یہ بتایا گیا ہے کہ تاریخ کے آخری زمانے میں ایک اہم واقعہ ہوگا۔ یہ واقعہ بیت المقدس (فلسطین) کے حوالے سے پیش آئے گا۔ یہ واقعہ اِس بات کی علامت ہوگا کہ قیامت بہت قریب آچکی ہے۔ ’’زمین اپنی برکتیں نکال دے گی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں مواقع (opportunities) کی بہت زیادہ کثرت ہوجائے گی۔ اِن مواقع کو استعمال کرکے یہ ممکن ہوجائے گا کہ دنیا میں امن کی عمومی فضا قائم کی جاسکے۔
اِس حدیثِ رسول کی روشنی میں بیت المقدس، یا فلسطین کے مسئلے پر غور کیجیے۔ فلسطین کا مسئلہ اپنی موجودہ صورت میں، بیسویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا۔ ابتدائی طورپر یہ مسئلہ عربوں کا ایک قومی، یا جغرافی مسئلہ تھا۔ لیکن تمام مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کے لیے اس کو اسلامی مسئلے کی حیثیت سے نمایاں کیاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو تحریکیں اٹھیں، وہ تقریباً سب کی سب، بر اہِ راست یا بالواسطہ طورپر، فلسطین کے مسئلے کا رد عمل تھیں— الاخوان المسلمون، حماس، القاعدہ، تحریک طالبان، وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
اِس قسم کی مسلم تحریکیں جوموجودہ زمانے میں مختلف علاقوں میںاُٹھیں، ان کے مجموعے کو صحوۃ إسلامیۃ (Islamic Ressurgence) کہاجاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تحریکیں صحوۃ فلسطینیۃ(Palestinian Ressurgence) ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ اِن تحریکوں میں براہِ راست طور پر شامل ہے، یا بالواسطہ طورپر۔
فلسطین کا مسئلہ اپنی فعّال صورت میں 1948 میں شروع ہوا۔ اِس کے بعد تمام دنیا کے مسلم رہ نما منفی رد عمل میں مبتلا ہوگئے۔ مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تشدد کی تحریکیں چل پڑیں۔ اِس نفرت اور تشدد کا پہلا نشانہ اسرائیل تھا اور اس کے بعد برطانیہ اس کا نشانہ بن گیا، کیوں کہ برطانیہ (Biritish Empire) نے بال فور ڈکلریشن کے تحت، اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ اس کے بعد نفرت اور تشدد کا یہ مسلم سیلاب امریکا (U.S.A.) کے خلاف متحرک ہوگیا، کیوں کہ امریکا، فلسطین کے اِشو پراسرائیل کی سرپرستی کرنے لگا تھا۔ اِس کے بعد مسلمانوں کے منفی جذبات کا رخ انڈیا جیسے ملکوں تک پھیل گیا جو اسرائیل سے مصالحت کا تعلق قائم کیے ہوئے تھے، یہاں تک کہ منفی جذبات سے بھرے ہوئے یہ مسلمان خود مسلم حکومتوں کے خلاف ہوگئے، کیوں کہ مسلم حکومتیں اسرائیل کے خلاف وہ انتہائی اقدامات نہیں کررہی تھیں جو مسلمان اُن سے چاہتے تھے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ’’ارض‘‘ ظلم و جور سے بھر دی جائے گی اور پھر اس کو قسط اور عدل سے بھرا جائے گا۔ یہ ایک تعبیری اسلوب ہے۔ اِس سے مراد یہی مذکورہ صورتِ حال ہے۔ موجودہ زمانے میںعملاً یہی پیش آیا ہے کہ ارضِ فلسطین کے حوالے سے ، ساری دنیا کے مسلمان نفرت اور تشدد میںمبتلا ہوگئے۔ اِسی نفرت اور تشدد کو ’’ظلم اور جور‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حدیث کے مطابق، جو ہونا ہے، وہ یہ کہ ’’ارض‘‘ کو قسط اورعدل سے بھر دیا جائے۔ یہ امن کی تعبیر ہے۔ اِس حدیث میں قسط اور عدل سے مراد امن پر مبنی معتدل فضا ہے جو مسلمانوں کے لیے دعوت کے مواقع کو کھولنے والی ہے۔اسلام کا سب سے بڑا کنسرن (concern) دعوت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ نفرت اور تشدد کا ماحول دعوت کے دروازوں کو بند کردیتا ہے، اور امن اور معتدل تعلقات کا ماحول دعوت کے دروازوں کو کھولنے والا ہے۔
حدیث میں جس واقعے کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اس کا تعلق نہ جنگ سے ہے اور نہ حکومت سے، یعنی اس مطلوب کے حصول کے لیے نہ تو جنگ کی جائے گی اور نہ وہ حکومت کی طاقت سے قائم ہوگا۔ یہ پورا معاملہ ایک نظریاتی معاملہ ہوگا، یعنی ایک منفی آئڈیالوجی دنیا میں نفرت اور تشدد کے حالات پیدا کرے گی۔ اِس کے مقابلے میں ایک مثبت آئڈیالوجی ابھرے گی، جو دنیا میں امن اور اعتدال کا ماحول قائم کرے گی۔
موجودہ زمانے میںفلسطین کا مسئلہ ساری مسلم دنیا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر نفرت اور تشدد کا عمومی ماحول پیداہوا۔ اس کا اصل سبب بلا شبہہ فلسطین کا مسئلہ تھا۔ ایسی حالت میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا ایک ایسا حل تلاش کیا جائے جو نفرت اور تشدد کے موجودہ ماحول کو ختم کرسکتاہو۔ یہ حل عربوں یا مسلمانوں کی امنگوں(aspirations) کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ یہ حل لازمی طورپر مبنی بر حقیقت فارمولے ہی کے ذریعہ ہوسکتاہے۔ اس معاملے میں عادلانہ حل صرف وہ ہے جو امن قائم کرنے والا ہو، نہ کہ لوگوں کے جذبات کو تسکین دینے والا۔ اِسی بنیادی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کامذکورہ بالا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اِس تجزیے کی روشنی میںاِس مسئلے کا جو قابلِ عمل منصفانہ حل ممکن ہے، اس کو ذیل میںدرج کیا جاتاہے۔
اِس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی طرف سے اِس معاملے میںاب تک جو باتیں کہی جاتی رہی ہیں، اُس میں ہمیشہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلسطین کا اِشو، ظالم اور مظلوم کا اشو ہے، یعنی اسرائیل یک طرفہ طورپر ظالم ہے، اور عرب یک طرفہ طور پر مظلوم۔ مسئلے کا بے لاگ جائزہ بتاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک غیر حقیقی تقسیم ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اِس معاملے میں عرب اور اسرائیل، دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ دونوں میں سے کسی کا کیس بھی عدل اور معقولیت پر مبنی کیس نہیں ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر جو الزام دیتے ہیں، وہ خود اُس میں برابری کے درجے میں شریک ہیں۔ خالص اصول کی روشنی میں، دونوں میں سے کسی کا کیس بھی موجودہ حالت میں، حق پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں اِس سلسلے میںمختصر طورپر چند متعلق پہلوؤں کاذکر کیا جاتا ہے۔
1 - انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یہود کے درمیان ایک تحریک اٹھی جس کو صہیونی تحریک (Zionism) کہاجاتا ہے۔ صہیون (Zion) دراصل یروشلم میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے۔ اِس پہاڑی کو یہودی لوگ مقدس مانتے ہیں اور اس کو وہ یہودی قومیت کا مرکزی نشان سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر ہرزل (Theodor Herzl) کی قیادت میں 1890 میں صہیونی تحریک شروع ہوئی۔ اِس کا پہلا انٹرنیشنل اجلاس 1897 میں سوئزر لینڈ کے شہر باسل (Basel) میں ہوا۔ صہیونی تحریک کا مقصد یہ تھا کہ یہودی ڈائس پورا (Jews in diaspora) کو فلسطین واپس لانا، اور یہاں ان کی نیشنل اسٹیٹ قائم کرنا۔ اِس تحریک کے نتیجے میں بال فور کمیشن قائم ہوا، اور اس کی سفارش کے مطابق، 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
عرب رہ نماؤں نے متفقہ طورپر یہودی ڈائس پورا کی فلسطین واپسی کی مخالفت کی۔ یہ مخالفت اِس حد تک پہنچی کہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف متشددانہ جہاد شروع کردیا۔ یہ مخالفانہ تحریک بڑھتی رہی۔ ساری دنیا کا مسلم پریس، اور ساری دنیا کا مسلم مائنڈ عمومی طورپر اِس سے متاثر ہوگیا۔ کوئی بھی قابلِ ذکر مسلمان نہ تھاجو یہ کہے کہ یہودی ڈائس پورا کو فلسطین آنے کا حق ہے، جس طرح تمام تارکین وطن کو اپنے وطن واپس آنے کا حق ہوتا ہے۔
دوسری طرف، یہودیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ فلسطین میںجو عرب آباد تھے، ان کی بڑی تعداد اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین چھوڑ کر باہر چلی گئی۔ یہ لوگ عرب ڈائس پورا (Arabs in diaspora) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن عربوں کو بھی اُسی طرح اپنے وطن واپس آنے کا حق ہے، جس طرح یہودیوں کو اپنے وطن واپس آنے کا حق تھا۔ لیکن یہودی، عربوں کے اِس حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اِس طرح اِس معاملے میں دونوں گروہ مشترک طورپر ایک ہی غلطی کا شکار ہیں۔ عرب رہ نما، یہودی ڈائس پورا کو واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اِسی طرح یہودی رہ نما، عرب ڈائس پورا کو واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اب جو فریق یہ چاہتا ہو کہ اس کو اس کا یہ جائز حق ملے، اس کو سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے سابقہ موقف کی غلطی کا کھلا اعتراف کرے اور پھر دل سے فریقِ ثانی کو اِس معاملے میں اس کا حق دینے پر راضی ہوجائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس طرح کے متنازعہ معاملے میں دوسرے کا حق تسلیم کرنے ہی سے اپنا حق ملتا ہے۔ اگر آپ دوسرے کا حق تسلیم نہ کریں، تو آپ کو اپنا حق بھی ملنے والا نہیں۔
2 - 1948 میں بال فور ڈکلریشن کے مطابق، اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، تو اُس وقت یہود کو فلسطین کا نصف سے کم حصہ ملا تھا۔ بال فور تقسیم کے مطابق، عربوں کے پاس فلسطین کا نصف سے زیادہ حصہ تھا، جس میں یروشلم بھی شامل تھا۔ اسرائیل کا موجودہ توسیعی رقبہ 1967 کی عرب- اسرائیل جنگ کے بعد بنا ہے۔ اِس لحاظ سے بین اقوامی اصول کے مطابق، اسرائیل کی جائز حدودوہی ہیں جو 1948 میںاس کو حاصل تھیں۔ موجودہ توسیعی رقبہ، اسرائیل کا جائز حصہ نہیں۔ 1948 میں قائم ہونے والا اسرائیل، بین اقوامی طورپر ایک مسلّمہ ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ موجودہ توسیعی رقبہ، اسرائیل کے لیے غیر قانونی قبضہ (illegal occupation) کی حیثیت رکھتا ہے۔
عرب قیادت یہ مطالبہ کررہی ہے کہ اسرائیل اپنی 1967 کی حد پر واپس چلا جائے۔ عربوں کا یہ مطالبہ خالص اصولی اعتبار سے درست ہے، مگر عملی طورپر وہ ممکن نہیں۔کیوں کہ عرب رہ نما خود بھی اِس سے پہلے 1956 میں وہی فعل کرچکے ہیں جس کا ارتکاب، اسرائیل کی طرف سے 1967 میں ہوا۔ اِس لیے ’البادی أظلم‘ کے اصول کے مطابق، اِس بحرانی صورتِ حال کو پیدا کرنے کی زیادہ بڑی ذمے داری عرب قیادت پر آتی ہے۔ ایسی حالت میں عرب اور اسرائیل، دونوں کے درمیان کوئی حقیقی فرق نہیں۔ جب دونوں فریق یکساں طورپر ایک ہی غلطی کا شکار ہوں، تو کوئی ایک فریق دوسرے فریق کو ذمے دار ٹھہرانے کا حق کھو دیتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، اِسی نوعیت کی ایک سنگین غلطی وہ تھی جو اِس سے پہلے خود عرب قیادت سوئز کے معاملے میں کرچکی ہے۔ سوئز نہر (Suez Canal)ایک مصنوعی نہر ہے جو میڈی ٹیرینین (Mediterranean) کو ریڈ سی (Red Sea) سے ملاتی ہے۔ یہ نہر یورپین کمپنیوں نے (1859-69) بنائی تھی۔ پھر حکومتِ مصر نے اس کو برٹش اور فرنچ کمپنی (Suez Canal Co.) کو
لیکن عرب رہ نما اُس زمانے میںرومانوی جوش کا شکار تھے۔ اِس ماحول میںیہ ہوا کہ مصر کے سابق صدر جمال عبد الناصر(وفات: 1970 ) نے 1956 میں یک طرفہ طورپر اِس معاہدے کو ختم کردیا اور یورپین کمپنی کو بے دخل کرکے نہر سوئز کو حکومتِ مصر کے براہِ راست قبضے میں لے لیا۔
اِس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوا کہ برطانیہ اور فرانس دونوں سخت برہم ہوگئے۔ انھوںنے مصر کے خلاف انتقامی کارروائی کا منصوبہ بنایا۔ برطانیہ اور فرانس نے اس معاملے میں خاموشی کے ساتھ اسرائیل کی مدد کی اور اسرائیل کے ذریعے مصر پر 1967 میں باقاعدہ حملہ کرادیا۔ 1967 کی اِس جنگ میں مصر کو زبردست شکست ہوئی۔ اس کے بعد اسرائیل نے اپنا رقبہ تقریباً پانچ گنا حد تک بڑھا لیا۔
نہر سوئز کے معاملے میں حکومتِ مصر کی یہ کارروائی بین اقوامی قانون کے سر تا سر خلاف تھی۔عرب قیادت اگر صرف بارہ سال انتظار کرتی، تو 1968 میں نہر سوئز اس کو اپنے آپ مل جاتی، جس طرح ہانگ کانگ پٹہ کے تحت، حکومتِ برطانیہ کے قبضے میں تھا۔ لیکن چین نے اِس معاملے میں پیشگی طورپر قبضے کی کارروائی نہیںکی، بلکہ معاہدے کی مدت کے ختم ہونے کا انتظار کیا، چناں چہ 1997 میں جب یہ معاہدہ ختم ہوا تو فطری طورپر ہانگ کانگ، چین کو واپس مل گیا۔
1956 میں صدر جمال عبد الناصر کا نہر سوئز پر قبضہ کرنا کوئی شخصی فعل نہ تھا، بلکہ تمام عرب قیادت اِس میں شریک تھی۔ اِس واقعے نے عرب قیادت اور اسرائیل دونوں کو ایک سطح پر کھڑا کردیا ہے۔ عرب قیادت مطالبہ کررہی ہے کہ اسرائیل نے 1967 میں فلسطین کی مزید زمین پر ناجائز قبضہ (illegal occupation) کرلیاہے۔حالاں کہ خود عرب قیادت نے 1956 میں اِسی طرح نہرسوئز پر ناجائز قبضہ (illegal occupation) کرلیا تھا۔
خالص انصاف کی رُو سے دیکھا جائے، تو معاہدے کی خلاف ورزی، یا ناجائز قبضے کے معاملے میں عرب قیادت اور اسرائیل، دونوں ایک ہی فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب دو فریق یکساں طورپر ایک ہی غلطی کا شکار ہوں، تو کسی ایک فریق کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ دوسرے فریق کو مجرم ٹھہرائے، جب کہ وہ خود بھی اُسی جرم میں مبتلا ہو۔
اگر کوئی ایک فریق یہ چاہتا ہو کہ وہ دوسرے فریق کی غلطی کی اصلاح کرے، تو مطالبہ کرنے والے فریق کو سب سے پہلے خود اپنی غلطی کا کھلے طورپر اعتراف کرنا چاہیے۔ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کیے بغیر، دوسرے کی غلطی کا اعلان کرنا ایک مضحکہ خیر کارروائی ہے، وہ نہ کوئی درست کام ہے اور نہ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے والا ہے۔
3 - عرب رہ نما، بلکہ تمام مسلم رہ نما مسلسل طورپر یہ کہتے رہے ہیں کہ اسرائیل ایک ظالم ریاست ہے۔ وہ فلسطینی عربوں کے اوپر بم برساتا ہے۔ اسرائیلی فوج ان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناتی ہے، مگر عین اُسی وقت خود عرب اور غیر عرب مسلمان تشدد کا یہی فعل کررہے ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیل کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، بلکہ وہ جس کو اسرائیل کا حلیف دیکھتے ہیں، اس کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، حتی کہ جہاں ان کے لیے بم اور گولی کا موقع نہیں ہوتا، وہاں وہ خود کش بم باری کے ذریعے ان کو جان اور مال کی ہلاکت میں مبتلا کررہے ہیں۔ مسلم رہ نما، عرب اور غیر عرب دونوں، اسرائیل کے تشدد کا تو خوب تذکرہ کرتے ہیں، لیکن وہ کبھی عربوں اور مسلمانوں کے تشدد کی مذمت نہیںکرتے۔
اِس صورتِ حال نے مسلم قیادت اور اسرائیل دونوں کو ایک سطح پر کھڑا کردیا ہے۔ دونوں یکساں طورپر دہشت اور تشدد پھیلانے کے ذمے دار ہیں۔ ایسی حالت میں دونوں نے اپنے آپ کو دوسرے فریق کے خلاف بولنے سے اخلاقی طورپر محروم کرلیاہے۔ اب اگر دونوں میں سے کوئی فریق، دوسرے کو پُر امن بنانا چاہتا ہے، تو سب سے پہلے اس کو خود پر امن بننا پڑے گا۔ اور اِس معاملے میں پرامن بننے کی پہلی شرط یہ ہے کہ خود اپنے لوگوں کے دہشت اور تشدد کی کھلی مذمت کی جائے۔ اپنے لوگوں کی غلطی پر خاموش رہنا، اور دوسرے لوگوں کی طرف سے اُسی قسم کی غلطی پر بولنا، ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ خدا کی اِس دنیا میں نکلنے والا نہیں۔
خلاصہ
اوپر کے تجزیے سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ فلسطین کے معاملے میں عرب اور اسرائیل کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ اُن میں سے ایک فریق یک طرفہ طورپر ظالم ہے اور دوسرا فریق یک طرفہ طورپر مظلوم۔ اِس معاملے میں صحیح تقسیم یہ ہے کہ اصولی طورپر دونوں فریق یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک فریق جس فعل کاالزام دوسرے فریق کو دے رہا ہے، وہ خود بھی ٹھیک اُسی فعل میں مبتلا ہے۔
ایسی حالت میں فلسطین میں امن کا قیام اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ دونوں فریق حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کریں، اور اس معاملے میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق سے جو کچھ لینا چاہتا ہے، وہ خود بھی دوسرے فریق کو وہی چیز دینے کے لیے تیار ہو۔ یہ بلا شبہہ لینے اور دینے (give and take) کا معاملہ ہے۔ اِس معاملے میں یہی واحد مبنی بر حقیقت پالیسی ہے۔ کوئی دوسرا فارمولا اِس معاملے میں ہر گز قابلِ عمل نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک شہر کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب کو گھر کی ضرورت تھی۔ چھوٹا فلیٹ خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے تھے، لیکن بڑا فلیٹ خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہ تھے۔ بینکوں کے شرائط کے مطابق، ان کو ہاؤس لون (house loan) بھی نہیں مل سکتا تھا۔ ان کے ایک تاجر دوست نے کہا کہ تم کسی مہاجن سے مہاجنی سود پر قرض لے لو، میں جلد ہی مہاجن کا پیسہ ادا کردوں گا۔
مذکورہ صاحب نے مہاجنی سود پر قرض لے کر فلیٹ خرید لیا۔مہاجنی سود کی شرح بینک کی شرح سے بہت زیادہ تھی۔ قرض لیتے ہی وہ سود کے جال میں پھنس گئے۔ ان کے تاجر دوست نے یہ کہہ کر پیسہ دینے سے انکار کردیا کہ میرے کاروبار میں گھاٹا ہوگیا ہے، اِس لیے اب میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا۔ مذکورہ صاحب کے لیے یہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ سخت قسم کے ٹنشن (tension) کا شکار ہوگئے۔دوسرے کے بل پر اقدام کرنے کا یہ طریقہ ہمارے سماج میں بہت عام ہے۔ عوام وخواص دونوں اِس میں مبتلا ہیں۔ مگر اِس قسم کا ہر اقدام بلا شبہہ ایک مہلک اقدام ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے ہر اقدام سے کامل طور پر بچے۔ وہ اپنے کام کی منصوبہ بندی خود اپنے دستیاب وسائل کی بنیاد پر کرے، وہ دوسروں کے بھروسے پر کبھی کوئی منصوبہ نہ بنائے۔ دوسرے کے بل پر اقدام ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو(counter-productive) ثابت ہوتاہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اِس معاملے میں کسی کا کوئی استثناء نہیں، حتی کہ سپر پاور کا بھی نہیں۔ جو شخص یا جو ادارہ بھی یہ طریقہ اختیار کرے گا، وہ مزید مسائل کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ صحیح یہ ہے کہ آپ خود اپنے وسائل کی بنیاد پر کام کریں۔ اگر آپ کے وسائل کم ہوں تو آپ کو اس میں اپنی محنت کا اضافہ کرنا چاہیے۔ کم وسائل والا شخص اگر دوسرے کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے کوئی اقدام کرے تو یقینی ہے کہ وہ جلد یا بد یر اُس کے برے نتائج کا شکار ہوجائے گا۔ دوسرے کے بھروسے پر اقدام ایک ایسی چھلانگ ہے جو آپ کو گڑھے کے سوا کہیں اور گرانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک انگریزی رائٹر نے زندگی کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اِس میں اس نے کامیاب زندگی کا راز بتایا ہے۔ موضوع کی نسبت سے اس نے کتاب کا نام رکھا ہے— نہیں کہنا سیکھئے:
Learn to say No
یہ بے حد اہم بات ہے۔ اجتماعی زندگی میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ہاں یا نہیں کہنا پڑتا ہے۔ ایک آدمی اگر لوگوں سے صرف ہاں کہنا جانے تو وہ اپنی ساری زندگی میں غیر ضروری مسائل کا شکار بنا رہے گا۔ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہ ہوگا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ خود اپنے سوچے سمجھے ذہن کے تحت فیصلہ کرے۔ وہ جانے کہ اس کو کس معاملے میں پڑنا ہے اور کس معاملے میں نہیں پڑنا ہے۔ وہ دوسروں سے ہاں کہنے کے ساتھ، نہیں کہنا بھی جانے۔ وہ اقرار کی زبان بولنے کے ساتھ انکار کی زبان بولنا بھی جانتا ہو۔
اِس معاملے کی ایک مثال قرض ہے۔ عربی زبان کا ایک مثل ہے: القرض مِقراض المحبۃ (قرض محبت کی قینچی ہے)۔ اجتماعی زندگی میں بار بار ایساہوتاہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے قرض مانگتاہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ بہت کم ایسے افراد ہیں جو قرض کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کرتے ہوں۔ ایسی حالت میں قرض دینے کا نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ فریقین کے درمیان تلخیاں بڑھتی ہیں اور محبت کا تعلق دشمنی کے تعلق میں بدل جاتا ہے۔ ایسی حالت میں پُر عافیت طریقہ یہ ہے کہ کسی کو قرض نہ دیا جائے۔ واپسی کی شرط کے بغیر کسی کی مدد کرنا درست ہے، لیکن واپسی کی امید کے ساتھ کسی کو رقم دینا موجودہ زمانے میں عملی اعتبار سے درست نہیں۔
نہیں کہنا کوئی سختی کا معاملہ نہیں ہے، یہ دراصل بااصول انسان کا طریقہ ہے۔ با اصول انسان کے لیے اِس دنیا میں کوئی اور طریقہ عملی طور پر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
حضرت عمر فاروق کے زمانۂ خلافت کا واقعہ ہے۔ ایک بار حضرت عمر حج کے لیے مکہ گئے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھی خاتون کعبہ کا طواف کررہی ہے۔ وہ اتنی معذور تھی کہ بیٹھ کر اور گھسٹ گھسٹ کر چل رہی تھی۔ وہ دوسروں کے لئے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ حضرت عمر نے اُس کو دیکھ کر کہا: کاش، آپ اپنے گھر پر بیٹھتیں (لو قعدتِ فی بیتک)۔ یہ صرف ایک انفرادی واقعہ نہیں، اِس سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔اصل یہ ہے کہ زندگی کے دو الگ الگ دائرے ہیں— ایک ہے، حیاتِ انفرادی۔ اور دوسرا ہے، حیاتِ اجتماعی۔ انفرادی دائرے میں آدمی کا معاملہ اس کی اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ انفرادی دائرے میںآدمی خواہ جس طرح بھی رہے، اس کا اثر کسی دوسرے انسان تک نہیں پہنچتا۔ وہ اپنی کسی روش سے دوسروں کے لیے مسئلہ (problem) نہیں بنتا۔
مگر حیات ِ اجتماعی کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ حیاتِ اجتماعی میںایک آدمی دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی ہر روش براہِ راست یا بالواسطہ طورپر دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ وہ خواہ قصداً دوسروں کو تکلیف دینا نہ چاہے، لیکن جب وہ ایک عمل کرتا ہے تو اس کے نتیجے کے طور پر بہر حال ایسا ہوتا ہے کہ اس کے عمل کے اثرات بلا اعلان دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایسی حالت میں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے انفرادی عمل اور اپنے اجتماعی عمل میں فرق کرے۔ جب وہ اکیلا ہو اور صرف اپنی ذات کی سطح پر کوئی عمل کررہا ہو تو اُس وقت وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھے۔ لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کے درمیان ہو تو وہ اپنے عمل سے پہلے یہ سوچے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوگا۔ اگر اس کا عمل دوسروں کے لیے مسئلہ پیدا کرنے والا ہو تو وہ ایسے عمل سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ اپنے عمل کو اِس طرح انجام دے کہ دوسرے لوگ اس کے نقصان سے محفوظ رہیں۔ موجودہ کمیونکیشن کے زمانے میں یہ احتیاط صرف قریبی پڑوسی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دور کے پڑوسی سے بھی ہوگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ میں معاشی مسئلے سے دوچار ہوں اور اپنی آمدنی بڑھانا چاہتا ہوں۔ مجھے اضافۂ رزق کی کوئی دعا بتائیے۔ میںنے کہا کہ دوسرے لوگوں کی طرح، آپ کا مسئلہ بھی آمدنی میں کمی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ خرچ میں زیادتی کا مسئلہ ہے۔ میرا قیاس ہے کہ آپ غیر ضروری طورپر اپنا خرچ بڑھائے ہوئے ہیں۔ اِس بنا پر آپ مصنوعی طورپر معاشی مسئلے کا شکار ہوگئے ہیں۔ آپ صرف یہ کیجئے کہ آپ اپنے خرچ کو گھٹائیے، اس کے بعد آپ کی آمدنی اپنے آپ بڑھ جائے گی۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ میرا معاملہ ایسا ہی ہے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ آمدنی خواہ کم ہو یا زیادہ، عام طورپر لوگ معاشی مسئلے کا شکار رہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے خرچ کو انتظامی حد (manageable limit) کے اندر نہیں رکھتے۔ وہ اپنی عادتوں کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ صرف اپنی آمدنی کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ آمدنی بڑھنے کے ساتھ اُن کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے اور مالی تنگی کا مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے۔ یہ معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے صرف بے شعوری کا معاملہ ہے، وہ معاشی تنگی یا آمدنی کی کمی کا معاملہ نہیں۔ ایسے حالات میں آدمی کو چاہیے کو وہ اپنے شعور کو بڑھائے، نہ کہ اپنی آمدنی کو بڑھانے کی بے فائدہ کوشش کرتا رہے۔
معاش کے مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے سادگی اور قناعت۔ سادگی آپ کو غیر ضروری خرچ سے بچاتی ہے۔ اور قناعت آپ کو ہر حال میں سکون عطاکرتی ہے۔ مزید یہ کہ سادگی اور قناعت با مقصد انسان کا طریقہ ہے۔ جس آدمی کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصد ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ سادگی اور قناعت کا طریقہ اختیار کرے، ورنہ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مقصد کے لیے کام نہ کرسکے گا۔ وہ دل سے چاہے گا کہ میں با مقصد زندگی گزاروں، لیکن عملاً یہ ہوگا کہ وہ بے مقصد زندگی گزارے گا، اورپھر اِسی حال میں مر جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
سوال
I would like to seek Maulana Wahiduddin Khan’s guidance about a great issue which has been raised by the “Quantum Physics”. Quantum Physics proves that “All matters are connected” and as such there is existence of real physical world (concept of wahdatul-wujud, being conceived by Muslim Sufis also). At present day, Thomas Campbell, Amit Goswami, Deepak Chopra have come up with different scientific proofs of unity of being in the universe. I want Maulana Wahiduddin Khan to present Islamic viewpoint on “Wahdatul Wujood”. (Faisal, Sharjah)
جواب
آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ کچھ مذہبی لوگ کوانٹم فزکس (Quantum Physics) کے سائنسی نظریے سے وحدتِ وجود (monism) کا مذہبی نظریہ نکالتے ہیں۔ مگر یہ صرف ایک مغالطہ (fallacy) ہے۔ کوانٹم فزکس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو وہ یہ کہ عالمِ مادّی (material world) میں وحدت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تخلیق کے مختلف مظاہر میں وحدت پائی جاتی ہے۔ مگر اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک ہیں۔ جو لوگ اِس سے پہلے اپنے مفروضہ قیاس کے تحت، خالق اور مخلوق کو ایک سمجھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ فرض کرلیاکہ کوانٹم فزکس اُن کے وحدتِ وجود کے نظریے کی سائنسی تصدیق ہے۔ مگر علمی اعتبار سے، یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔
کوانٹم فزکس سے یہ ثابت نہیںہوتا کہ خالق اور مخلوق میں وحدت ہے، بلکہ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مادّی معنوں میں جو عالمِ وجود ہے، اس میں وحدت پائی جاتی ہے۔ مثلاً کوانٹم فزکس نے مادّہ (matter) اور توانائی (energy) کی ثنویت (duality) کو نظری طورپر ختم کردیا ہے۔ مگر کوانٹم تھیوری یا کسی اور تھیوری سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عالمِ مادّی اپنا خالق آپ ہے، یا سب کچھ ایک خالق کا خود اپنا ظہور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوانٹم فزکس کے بعد بھی یہ سوال بدستور باقی رہتا ہے کہ عالمِ موجودات کو کس نے پیدا کیا۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے خالق ایک مستقل بالذات ہستی ہے۔ یہ خالق، مخلوقات سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے۔ یہی خالق ہے جس نے اپنے منصوبے کے تحت عالمِ وجود کی تخلیق کی ہے۔
اِس معاملے کا ایک اور پہلو (aspect) یہ ہے کہ کوانٹم فزکس نے بالواسطہ طورپر ایک خدا کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ کیوں کہ عالم موجودات میں جو کامل وحدت (harmony)پائی جاتی ہے، وہ ایک قادرِ مطلق خدا کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔
سوال
آپ نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ رمضان ’شہر القرآن‘ ہے، یعنی رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ آپ نے کہا کہ اِس سے مراد قرآن کی تلاوت کرنا یا قرآن کو ختم کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد قرآن کا مطالعہ کرنا ہے۔ آپ نے کہا کہ تراویح بھی اِسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ تراویح کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کو حالتِ نماز میں سنا جائے اور اس پر غور کیا جائے۔ یہاں یہ سوال ہے کہ جو لوگ عربی زبان نہ جانتے ہوں، وہ تراویح میں قرآن کو کیسے سمجھیں گے (پروفیسر نجمہ صدیقی، نئی دہلی)
جواب
اِس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ امام صاحب پیشگی طورپر نمازیوں کو یہ بتادیں کہ آج وہ قرآن کا کون سا حصہ تراویح میں پڑھیں گے۔ اس کے بعد نمازی یہ کریں کہ وہ قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھ کر مسجد میں آئیں۔ اِس طرح زیر تلاوت قرآن کا مفہوم سمجھنا اُن کے لیے آسان ہوجائے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تراویح سے پہلے یا تراویح کے بعد قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھ کر لوگوں کو سنا دیا جائے جو اُس دن تراویح میںپڑھا جانے والا ہے۔
واضح ہو کہ قرآن کا مجموعۂ الفاظ (vocabulary) عام کتابوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایک شخص معمولی کوشش سے اپنے اندر یہ استعداد پیدا کرسکتا ہے کہ وہ قرآن کے بنیادی مفہوم کو سن کر یا پڑھ کر سمجھ سکے۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وما خلقتُ الجنّ والإنس إلاّ لیعبدون (الذاریات:
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.