بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اکیسویں صدی عیسوی انسانی تاریخ کے خاتمہ کے آغاز کی صدی ہے۔ اب انسان کو غالباً زیادہ لمبی مہلت ملنے والی نہیں۔ اب مستقبل قریب میںجو چیز انسان کے سامنے آنے والی ہے، وہ صرف قیامت ہے، نہ کہ موجودہ دنیاکی مزید توسیع۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت اُس وقت آئے گی جب کہ دنیا میں کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے ۔ اللہ اللہ کہنے سے مراد صرف اللہ کا لفظ زبان سے بولنا نہیںہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی اللہ سے ڈرنے والا نہ رہے۔ جب لوگوںکے دل اللہ کے خوف سے خالی ہوجائیں، جب اللہ ان کی زندگی میں ان کے کنسرن(concern)کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔ جب اُس قسم کے انسان دنیا میں باقی نہ رہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے توان کے دل اللہ کی پکڑ کے اندیشے سے دہل اٹھتے ہیں( الذین إذا ذُکر اللّٰہ وجلت قلوبہم)۔
موجودہ زمانہ بلا شبہہ ایسا ہی زمانہ ہے۔ آج خدا کی دنیا میں کوئی ایک بھی انسان ایسا نظر نہیںآتا جو حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرنے والا ہو، نہ مسلمانوں میںاور نہ غیر مسلموں میں۔
جس عورت اور مرد کو دیکھئے وہ بے خوفی کی تصویر نظرآئے گا۔ حتی کہ اگر اس کے سامنے خوف خدا کی بات کی جائے تو وہ اس کو اپنے لئے ایک غیر متعلق (irrelevant) بات سمجھے گا۔ اِس معاملے کی ایک علامت یہ ہے کہ آج کے انسان سے جب یہ کہا جائے کہ قیامت قریب آگئی تو وہ اس کو غیر اہم سمجھ کر کہہ دے گا: ’’ہنوز قیامت دور است‘‘۔ ابھی قیامت کہاں آنے والی ہے۔ کوئی اس کو اِس طرح نظر انداز کرے گا جیسے کہ وہ کوئی قابلِ غور بات ہی نہیں۔پہلے زمانے میں اہلِ ایمان کا یہ حال تھا کہ آندھی آجاتی تھی تو وہ ڈر جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی۔ آج کے مدعیانِ اسلام کا یہ حال ہے گلوبل وارمنگ کی صورت میں نیچر مسلسل اذان دے رہی ہے، اِس کے باوجود کوئی اِس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنے والا نہیں۔ شاید لوگ اُس وقت جاگیں گے جب کہ قیامت آچکی ہوگی، لیکن اُس وقت کا جاگنا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ایمان کے لیے ’باخع‘ (الشعراء:3) بن گئے تھے۔ اِسی طرح قرآن میں آیا ہے کہ آپ، لوگوں کے ایمان کے لیے متاسّف رہتے تھے (الکہف:6 )، یعنی آپ درد وغم کی حد تک اِس بات کے حریص بنے ہوئے تھے کہ لوگ ایمان لائیں۔اِسی بات کو دوسرے مقام پر حضرت نوح کے حوالے سے اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں نے رات اور دن اپنی قوم کو دعوت دی‘‘ (نوح: 5 ) ۔
اصل یہ ہے کہ ایمان کے تقاضے بنیادی طورپر دو ہیں— عبادت، اور دعوت۔ یہ دونوں تقاضے مومن کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ مومن کی زندگی میں دونوں تقاضے مسلسل طورپر جاری رہتے ہیں، رات کے اوقات میں بھی اوردن کے اوقات میں بھی۔لیکن عمومی اعتبار سے اُن کے درمیان ایک تقسیم بن جاتی ہے۔ دن کا زیادہ وقت دعوت میں گزرتا ہے، اور رات کا زیادہ وقت عبادت میں۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں اِسی حقیقت کو بیان کیاگیا ہے۔ پیغمبر کی زندگی کا یہ پہلو تمام اہلِ ایمان کے لیے ایک نمونہ ہے۔ اُنھیں بھی یہی کرنا ہے کہ وہ اپنے دن کے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ دعوت اور اصلاح کے کام میں گزاردیں، اور رات کے وقت ضرورت کے مطابق آرام کے بعد ذکر اور عبادت اور تلاوتِ قرآن میں مصروف رہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطابق، سب سے بڑی نیکی صدق ہے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں صدق پر قائم رہیں گے، اُن کے لیے بشارت ہے کہ وہ جنت کی صورت میں اُس کا انعام پائیںگے (المائدۃ:
The righteous shall inherit the land, and dwell in it forever (Psalm 37: 29)
المفرداتمیں صدق کے معنیٰ یہ بتائے گئے ہیں کہ آدمی کے قول اور ضمیر میں، یا اس کے قول اور عمل میں کامل مطابقت ہو (مطابقۃ القول الضمیر والمخبر عنہ معاً)۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے صدق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:’’صدق کی اصل حقیقت کسی شے کا بالکل مطابقِ واقعہ ہونا ہے۔ اس کی روح پختگی اور ٹھوس پن ہے۔ نیزے کی گرہیں دیکھنے میں جیسی مضبوط ظاہر ہورہی ہیں، آزمائش میں بھی وہ ویسی ہی مضبوط ثابت ہوں تو ایسے نیزے کو عربی میں ’صادق الکعوب‘ کہیں گے۔ زبان، دل سے ہم آہنگ ہو، عمل اور قول میں مطابقت ہو، ظاہر اور باطن ہم رنگ ہوں، یہ باتیں صدق کے مظاہر میں سے ہیں، اور انسانی زندگی کا سارا ظاہر وباطن اِنھیں سے روشن ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی ساری معنویت ختم ہوکر رہ جائے‘‘۔ (تدبر ِقرآن، جلد1 ، صفحہ
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو پورے معنوںمیں ایک سچا انسان ہو۔ ایسے لوگ آخرت میں سچائی کی سیٹ پر کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کریں گے (القمر:
واپس اوپر جائیں
جہادکے لفظی معنیٰ پُر امن جدوجہد(peaceful struggle) کے ہیں۔ یہ پر امن جدوجہد دعوت الی اللہ کے ذریعے ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن میںآیا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً (الفرقان:
جہاد اپنے توسیعی مفہوم میں قتال (war) کے معنی میں آتاہے۔ اِس دوسرے معنی میں جب جہاد کا لفظ آئے تو اس سے مراد وقتی نوعیت کا مدافعانہ قتال ہوگا۔ جہاد بہ معنی قتال کو ایک مسلسل عمل کے طورپر نہیں لیا جاسکتا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ رسول اللہ کی زندگی میں بار بار ایسے مواقع آئے، جب کہ فریقِ ثانی آپ کو قتال میں الجھانا چاہتا تھا، مگر آپ نے ہر ایسے موقع پر قتال سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ مثلاً ہجرت کے وقت، خندق کے وقت، حدیبیہ کے وقت، وغیرہ۔
مذکورہ اصول کی روشنی میں احادیثِ جہاد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں جہاد کا لفظ جہاں دعوت کے لیے استعمال ہوا ہے، اگر وہاں جنگ کے ساتھ تخصیص کا قرینہ موجود نہ ہو تو اس کو پر امن دعوتی عمل کے معنی میں لیا جائے گا، جس کے لیے یہ مطلوب ہے کہ وہ مسلسل طورپر امت کے اندر جاری رہے۔ اور جہاں اُس سے قتال کی تخصیص ثابت ہوتی ہو، وہاں اُس سے مراد وقتی نوعیت کی دفاعی جنگ ہوگی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: اعلموا أن الجنّۃ تحت ظلال السیوف (صحیح البخاری، کتاب الجہاد)۔ جہاد بہ معنی قتال اگر مستقل طورپر مطلوب ہوتا تو اس کے بارے میں حدیث میں یہ الفاظ نہ ہوتے: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، وسَلوا اللہ العافیۃ(صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
یہ دونوں دعائیں اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہم معنیٰ ہیں۔ پہلی دعا عام مومن کے الفاظ میں کی ہوئی دعا ہے، اور دوسری دعا پیغمبرانہ سطح پر ایک نبی کی زبان سے نکلی ہوئی دعا۔
یہ دونوں دعائیں دراصل موت کی نسبت سے مومنانہ جذبات کا اظہار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن پر جب موت کا لمحہ آئے تو اس کا احساس مذکورہ قسم کی دعامیں ڈھل جائے۔ اس وقت مومن کا احساس یہ ہونا چاہیے کہ — جب اہل ِ دنیا سے میرا ساتھ چھوٹے تو مجھے خداوند ِذوالجلال کی قربت حاصل ہوجائے۔ مجھے انسانوں کی مجلس سے اٹھنا پڑے تو مجھے فرشتوں کی مجلس میں شامل ہونا نصیب ہوجائے۔ جب موت مجھے اپنے لوگوں سے منقطع کردے تو میں اکیلا نہ ہوجاؤں، بلکہ مجھے اعلیٰ تر مجلس میں خدا کی معیت کی نعمت حاصل ہوجائے۔ میرا سفرِ موت میرے لیے رفاقتِ ادنیٰ سے رفاقتِ اعلیٰ کی طرف سفر بن جائے۔مذکورہ دعا کی حیثیت محض دعائیہ الفاظ کی نہیں ہے۔ وہ سچے مومن کی داخلی تڑپ کا لفظی اظہار ہے۔ ایک سچے مومن کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ موجودہ مرحلۂ حیات کے مقابلے میں اگلا مرحلۂ حیات اس کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہو۔ موجودہ دارالامتحان میں اس کو خدا کی جو نعمتیں عارضی طورپر ملی ہوئی ہیں، وہ نعمتیں اس کو موت کے بعد کی دنیا میں زیادہ اعلیٰ طورپر خدا کے ابدی انعامات کی صورت میں عطا ہو جائیں۔ موت میرے لئے ناقص دنیا (imperfect world) سے نکل کر ، کامل دنیا (perfect world) میں داخلے کا ذریعہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی کتابوں میںاہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الویل کلّ الویل، لمن ترک عیالہ بخیرٍ، وقدِم علی ربہ بشَرّ(مسند الشہاب القضاعی،جلد 2، صفحہ
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: یُؤتیٰ برجلٍ یومَ القیامۃ فیقال: أکلَ عیالہ حسناتہ ( تفسیر القرطبی، جلد 18 صفحہ
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کم زوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment) کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔
یہ بلاشبہہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ) مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں صرف اُس شخص کو ہدایت ملتی ہے جو خدا کے قانونِ ہدایت کے مطابق، اِس کا طالب ہو۔ اور پھر صحیح طریقے کے مطابق، اس کو پانے کی کوشش کرے۔ اِس مقرر کورس کے اختیار کیے بغیر امتحان کی اِس دنیا میں کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
یہی بات ایک حدیثِ قدسی میں اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: یا عبادی، کلّکم ضال إلا مَن ہدیتُہ، فاستہدونی أہدکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والأدب، باب تحریم الظّلم)۔ یعنی اے میرے بندو، سن لوکہ تم سب بھٹکے ہوئے ہو، سوا اُس شخص کے جس کو میں ہدایت دوں۔ پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میںتم کوہدایت دوں گا۔ اِس حدیث قدسی میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ اِس دنیا میں ہدایت کو پانا صرف اُس شخص کے لیے ممکن ہے جو خالق کی طرف سے مقرر کیے ہوئے طریقے کے مطابق، اُس کا طالب بنے۔ اِس کے سوا کوئی اور راستہ ہدایت کی منزل تک پہنچانے والا نہیں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا دماغ دیاہے جو اپنے اندر غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِنھیں میں سے ایک صلاحیت وہ ہے جس کو حافظہ (memory) کہاجاتا ہے۔ حافظے کے اندر لامحدود طورپر یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی یا پڑھی ہوئی چیز کو اپنے اندر محفوظ کرلے ۔ کوئی بھی چیز جو ایک بار انسان کے حافظے میں پڑ گئی، وہ پھر کبھی اُس سے محو نہیں ہوتی، خواہ آدمی بہ ظاہر اس کو بھول گیا ہو۔ ذہن میں چیزوں کے محفوظ ہونے کا یہ معاملہ انسان کے بچپن سے شروع ہوتا ہے اور اس کی آخری عمر تک بلا انقطاع جاری رہتاہے۔
اِس حافظے کی بنا پر انسان کا دماغ افکار کا جنگل (jungle of thoughts) بن جاتا ہے۔ ہدایت کا تعلق صحیح طرزِ فکر سے ہے، نہ کہ افکار کے اِس جنگل میں گم ہوجانے سے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اندر صحیح طرزِ فکر (right-thinking) کیسے پیداکرے۔ اِس کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنے اندر وہ صفت پیدا کرے جس کو آرٹ آف سارٹنگ آؤٹ (art of sorting out) کہا جاتا ہے، یعنی مختلف قسم کی معلومات کو چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کرنا،صحیح اور غلط میں فرق کرنا، متعلق (relevant) اور غیر متعلق(irrelevant) کو ایک دوسرے سے الگ کرنا، کسی چیز کو غلط زاویہ (wrong angle) سے نہ دیکھ کر اس کو صحیح زاویہ (right angle) سے دیکھنا۔ منطقی (logical) اور غیرمنطقی (illogical) بات کے درمیان تمیز کرنا، وغیرہ۔
معلومات کے درمیان چھاٹنے (sorting-out) کا یہ عمل کسی آدمی کے لیے اِس بات کی ضمانت ہے کہ وہ غلط رائے قائم کرنے سے بچے اور درست رائے تک پہنچ جائے۔ یہ مسئلہ ہر عورت اور ہر مرد کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کو لازمی طورپر اپنے ذہن میں یہ عمل (process) جاری کرنا ہے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ معلومات کے جنگل میں رہتے ہوئے صحیح طرزِ فکر کو اختیار کرسکے۔
افکار کو سارٹ آؤٹ (sortout) کرنے کے اِس عمل کا دوسرا نام ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کے انتہائی سنجیدہ عمل کے ذریعے ہی اس کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ بنیادی طورپر اِس عمل کے دو طریقے ہیں، یعنی یا تو خود اپنی کوشش سے اس کو انجام دینا، یا دوسروں کو اِس کا موقع دینا کہ وہ اِس عمل میں آپ کی مدد کریں۔ پہلی قسم کا طریقہ محاسبہ (introspection) کا طریقہ ہے۔ اور دوسری قسم کے طریقے کو تنقید (criticism) کہا جاسکتا ہے۔
یہ دونوں قسم کا عمل اُسی وقت مفید ہوسکتا ہے، جب کہ اُس کو پوری شدت کے ساتھ اور بے رحمانہ اندازمیں کیاجائے۔ اِس بے رحمانہ محاسبہ کو دوسرے لفظوں میں، داخلی ہیمرنگ (internal hammering) کہاجاسکتا ہے۔ اور اِس بے رحمانہ تنقید کو دوسرے لفظوں میں، خارجی ہیمرنگ (external hammering) کہا جاسکتا ہے۔ جو عورت اور مرد اپنی حقیقی اصلاح کا طالب ہو، اس کے لیے اِس بے رحمانہ عمل کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔ اِس معاملے میں تیسرے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی افکار کے جنگل میں بھٹکتا رہے اور پھر اسی حال میں مرجائے۔ اِس ہیمرنگ کو قبول کرنا اپنے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی ہے، اور اس ہیمرنگ کو قبول نہ کرنا اپنے ساتھ سب سے بڑی دشمنی۔
خالقِ فطرت نے موجودہ دنیا میں ہماری مدد کے لیے ایک انتظام یہ کیا ہے کہ ہر غیر مرئی (invisible) چیز کے لیے مرئی (visible) نمونے قائم کردیے ہیں۔ اِس معاملے کا ایک اظہار، خالق نے چیونٹی (ant) کی صورت میں کیا ہے۔ چیونٹی بہ ظاہر ایک بہت چھو ٹی مخلوق ہے، لیکن وہ ہمارے لیے ایک نہایت سبق آموز عمل کرتی ہے۔ چیونٹی کا معاملہ یہ ہے کہ شکر (sugar) اس کی خوراک ہے، لیکن نمک (salt) اس کی خوراک نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں کہ نمک کے ڈھیر کے ساتھ شکر ملا کر رکھ دیں، تو اگر چہ بہ ظاہر نمک اور شکر دونوں کا رنگ ایک ہوگا، لیکن چیونٹی جب وہاں آئے گی تو وہ اِس ڈھیر میں سے صرف شکر کو لے گی اور نمک کو وہ پوری طرح چھوڑ دے گی۔ چیونٹی یہ عمل بے خطا انداز میں کرتی ہے۔ چیونٹی کبھی اِس معاملے میں ایسا نہیں کرتی کہ وہ نمک کو لے لے اور شکر کو چھوڑ دے، یا ان کے درمیان تفریق کیے بغیر ایسا کرے کہ وہ کچھ مقدار نمک سے لے اور کچھ مقدار شکرسے لے لے۔
یہ چیونٹی کی مثال ہے۔ انسان کو بھی یہی نمونہ اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی حساسیت (sensitivity) کو جگائے، وہ اپنے شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنے لگے۔ وہ ایسا کرے کہ جو چیز درست ہے، اُس کو لے اور جو چیز درست نہیںہے، اس کو چھانٹ کر الگ کردے۔ کسی عورت یا مرد کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز صحیح طرزِ فکر (right thinking) ہے اور مذکورہ عمل کو انجام دیے بغیر کوئی شخص صحیح طرزِ فکر کا حامل نہیں بن سکتا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، صحیح طرزِ فکر کے حامل انسان کے پاس ایک روشنی ہوتی ہے جو ہروقت اس کی رہ نمائی کرتی رہتی ہے اور جس کے پاس صحیح طرز ِ فکر نہ ہو، وہ گویا کہ ایک ایسے اندھیرے میں بھٹک رہا ہے، جس سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں (الأنعام:
واپس اوپر جائیں
جنت کا عقیدہ سادہ طورپر صرف ایک عقیدہ نہیں ہے، وہ پورے معنوں میں ایک نظریہ حیات ہے۔ جنت کے عقیدہ کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ جنت کی اہمیت کو صرف اُس وقت سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ اس کو انسان کی پوری زندگی سے جوڑ کر دیکھا جائے۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ایک متلاشی ٔ جنت حیوان (paradise-seeking animal) ہے۔ انسان کی پوری فطرت ایک ایسی دنیا چاہتی ہے جو اُس کے لیے آئڈیل دنیا (ideal world) ہو، جہاں اُس کو تمام چیزیں معیاری درجے میں حاصل ہوں۔ اِسی کا نام جنت ہے۔ اور اِس جنت کا حصول ہر عورت اور ہر مرد کا مشترک خواب ہے۔
انسان کی موجودہ حالت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ تمام انسان آخری حد تک مادّی چیزوں کے حریص بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ دولت اور زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب اِسی لیے ہے کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنی فطرت میں چھپی ہوئی جنت کو وہ اِس دنیا میں واقعہ بنا سکے۔ مگر یہاں ایک حقیقت اُس کے لیے مستقل رکاوٹ ہے۔ موجودہ دنیا اپنے اسباب کے اعتبار سے ایک غیر معیاری دنیا (imperfect world)ہے۔ اِس قسم کی غیر معیاری دنیا میں، معیاری جنت کی تعمیر سرے سے ممکن ہی نہیں۔
امکان اور واقعہ کے درمیان یہی تضاد اِس دنیا کی تمام برائیوں کا اصل سبب ہے۔ اِسی بنا پر لوگ مستقل طورپر ذہنی تناؤ (tension) میںجیتے ہیں، اِسی بنا پر لوگ تشدد پسند بن جاتے ہیں، اِسی بنا پر لوگ جھنجھلاہٹ (frustration) کا شکار رہتے ہیں۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے اندر اِس حقیقت کا شعور پیدا کیا جائے کہ جنت کسی کو صرف اگلی دنیا میں مل سکتی ہے، نہ کہ موجودہ دنیا میں۔ جنت کا عقیدہ آدمی کو حقیقت پسند بنانا ہے، اور حقیقت پسندی ہی تمام کامیابیوں کا واحد راز ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان جب پیدا ہو کر موجودہ دنیا میں آتا ہے تو یہ اس کی پہلی زندگی ہوتی ہے۔ یہاں اُس کی طلب کے بغیر اس کے لیے سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ یہاں وہ پاتاہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کو ایک پُرمحبت خاندان مل گیا۔ اُس کو ایک ایسی دنیا مل گئی جو انتہائی حدتک اس کے لیے ایک موافق دنیا تھی۔ اس کو ایک مکمل قسم کا لائف سپورٹ سسٹم (life support system)حاصل ہوگیا جس کے بغیر اس کے لیے زندگی ممکن نہ ہوتی۔ یہ ساری چیزیں اُس کو یک طرفہ طورپر حاصل ہوتی ہیں۔ خواہ وہ اُس کو شعوری طورپر محسوس کرے، یا وہ اس کو شعوری طورپر محسوس نہ کرے۔
اِس طرح ایک محدود مدت گزارنے کے بعد آدمی مرجاتا ہے۔ موت کا یہ واقعہ اس کے لیے ایک نئے سفر کا معاملہ ہوتاہے۔ موت کے بعد آدمی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے، جہاں دوبارہ وہ اکیلا ہوتا ہے۔ اب بھی وہ پہلے کی طرح ایک زندہ اور حسّاس وجود ہوتا ہے، لیکن پچھلی دنیا میں ملی ہوئی تمام چیزیں اُس سے چھوٹ جاتی ہیں۔ اب وہ پھر اِس کا محتاج ہوتاہے کہ دوبارہ اس کو تمام چیزیں از سرِ نو حاصل ہوجائیں، تاکہ وہ عافیت اور سکون کی زندگی گزار سکے۔
انسان کو پہلی زندگی کاتجربہ اِس لیے کرایا جاتا ہے کہ اُس کے دل سے یہ دعاء نکلے کہ —اے میرے رب، تو نے جس طرح پہلی زندگی میں میری ضرورت کی تمام چیزیں کسی استحقاق کے بغیر مجھے دے دی تھیں، اُسی طرح دوسری زندگی میں بھی تو مجھے میری ضرورت کی تمام چیزیںمزید اضافے کے ساتھ دے دے۔ پہلی زندگی میں میں نے تیرے عطیات کا جو ابتدائی تجربہ کیا تھا، دوسری زندگی میں تو اُس کو انتہائی صورت میں میرے لیے مقدر کردے۔ پہلی زندگی میں تونے جوکچھ مجھے دیا، وہ بھی غیر مستحق ہونے کے باوجود مجھے دیاتھا، دوسری زندگی میں بھی تو غیر مستحق ہونے کے باوجود تمام چیزیں مجھ کو عطا کردے۔ پہلی زندگی میرے لیے تیری نعمتوں کا آغاز تھا، دوسری زندگی میں تو میرے لیے اِن نعمتوں کا اِتمام فرمادے۔
واپس اوپر جائیں
ایک شخص کی عمر
بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے۔ اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے کے بعد آنے والی کم زوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی چونک اُٹھے۔ وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔
لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ صرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سائنس کیا ہے۔ سائنس دراصل منظم علم کا نام ہے۔ سائنس سے مراد وہ علم ہے جس میں کائنات کا مطالعہ موضوعی طورپر ثابت شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جائے:
Science: The systematized knowledge of nature and the physical world.
کائنات کی حقیقت کے بارے میں انسان ہمیشہ غور وفکر کرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے روایتی عقائد کی روشنی میں، اس کے بعد فلسفیانہ طرزِ فکر کی روشنی میں، اور آخر میں سائنس کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں۔
طبیعیاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی تبدیلیاں پیش آئی ہیں۔ اوّل، برٹش سائنس داں نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ مادّہ ہے۔ اِس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس داں آئن سٹائن کا نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ توانائی ہے۔ اور اب آخر میں ہم امریکن سائنس داں ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں، جب کہ سائنس دانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ شعور ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طورپر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب کہ فلسفہ مادّیت سے گزر کر روحانیت تک پہنچ گیا ہے:
In the realm of the physical science, we have had three major paradigm shifts in the last four centuries. First, we had the Newtonian hypothesis that matter was the basic building block of the universe. In the early twentieth century, this gave way to the Einsteinian paradigm of energy being the basic building block. And the latest is the David Bohm era when more and more scientists are accepting consciousness to be the basic building block. These shifts have had inevitable consequences for the New Age philosophy, which has moved away from the philosophy of crass materialism to that of spirituality.
وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے ، اُس کا آغاز تقریباً پانچ سوسال پہلے مغربی یورپ میں ہوا۔ دھیرے دھیرے عمومی طورپر یہ تاثر بن گیاکہ سائنس حقیقت کو جاننے کا سبب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ جو بات سائنس سے ثابت ہوجائے، وہی حقیقت ہے، جو بات سائنسی اصولوں کے ذریعے ثابت نہ ہو، وہ حقیقت بھی نہیں۔
ابتدائی صدیوں میں سائنس خالص مادّی علم کے ہم معنی بن گئی ۔ چوں کہ مذہبی حقیقتیں مادی معیارِ استدلال پر بظاہر ثابت نہیںہوتی تھیں، اِس لیے مذہبی حقیقتوں کو غیر علمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن علم کا دریا مسلسل آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب کہ خود سائنس مادی علم کے بجائے عملاً غیرمادّی علم کے ہم معنی بن گئی۔
پچھلی صدیوں کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس کے ارتقا کے ذریعے پہلی بار استدلال کی ایک ایسی علمی بنیاد وجود میں آئی جو عالمی طورپر مسلّمہ علمی استدلال کی حیثیت رکھتی تھی، پھر اِس میں مزید ارتقا ہوا، اور آخر کار سائنس ایک ایسا علم بن گیا جو مسلّمہ عقلی بنیاد پر یہ ثابت کررہا تھا کہ کائنات ایک بالاترشعور کی کارفرمائی ہے۔ ایک سائنس داں نے کہا کہ — کائنات کا مادّہ ایک ذہن ہے:
The stuff of the world is mind-stuff. (Eddington)
جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کار فرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طورپر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتاہے۔ کائنات میںاَن گنت چیزیں ہیں۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اِس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
خدا کے پیغمبروں نے اپنے معاصرین کو جو نشانیاں دکھائیں، اُن کو عام طور پر معجزہ کہاجاتا ہے، مگر یہ اسلامی تعبیر نہیں۔ اِن پیغمبرانہ واقعات کو قرآن اور حدیث میں معجزہ (miracle) کا نام نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ان کو آیت (sign) کہا گیا ہے۔ معجزہ (miracle) کہنا گویا کہ ایسے کسی واقعے کو پیغمبرانہ ظاہرہ (prophetic phenomenon) قرار دینا ہے، جب کہ ایسے کسی واقعے کو آیت (sign) کہنا اس کو فطری ظاہرہ (natural phenomenon) بتانا ہے۔
حضرت موسیٰ ایک پیغمبر تھے۔ وہ قدیم مصر میں پیدا ہوئے۔ پندرھویں صدی قبل مسیح میں ان کا مقابلہ اُس وقت کے مصری بادشاہ فرعون (Pharaoh II) سے ہوا۔ بادشاہ کے مطالبے پر حضرت موسیٰ نے اپنی ایک نشانی دکھائی۔ وہ نشانی یہ تھی کہ انھوںنے اپنا عصا زمین پر ڈالا، تو وہ سانپ بن کر زمین پر چلنے لگا۔ اِس واقعے کو بہت سے لوگوں نے دیکھا۔ کچھ لوگ اس سے متاثر ہوئے اور وہ حضرت موسیٰ کے دین پر ایمان لائے۔
یہ واقعہ صرف حضرت موسیٰ کے معاصرین (contemporaries) کے لیے نہ تھا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک چشم کُشا نشانی (eye-opening sign) کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اس کے اندر ایک عظیم سبق تھا۔ حضرت موسی ٰ نے دراصل لوگوں کو خدا کے ایک ابدی اور عمومی قانون کا مشاہدہ کرایا۔ یہ قانون کنورژن کا قانون (law of conversion) تھا۔ حضرت موسیٰ نے خدا کی مدد سے لکڑی کے ایک ٹکڑے کو سانپ کی شکل میں تبدیل کرکے دکھایا کہ اِسی طرح عالمِ فطرت کی ہر چیز تبدیلی (conversion) کے ذریعے ایک صورت سے دوسری صورت اختیار کررہی ہے۔ حضرت موسیٰ نے لوگوں کو جس واقعے کا مشاہدہ کرایا، وہ دراصل کنورژن کا یہی عمومی قانون تھا:
Conversion: The act of changing something from one form to another form.
کنورژن کے اِس فطری اصول کا حوالہ خود قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر
حضرت موسیٰ سولھویں صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور پندرھویں صدی قبل مسیح میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ زمانہ جدید سائنس سے پہلے کا زمانہ (pre-scientific period) تھا۔ اُس وقت اِس قسم کی نشانی صرف خدا کی خصوصی مداخلت (intervention) کے ذریعے ہی لوگوں کو دکھائی جاسکتی تھی۔ جدید سائنس کے ظہور نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ فطرت کے اِس واقعے کو خودانسانی علم کے ذریعے دریافت کیا جاسکے۔ مستقبل میں پیش آنے والے اِس سائنسی انقلاب کو پیشگی طورپر قرآن میں بتا دیاگیا تھا (حٰمٓ السّجدۃ:
کائنات میں مختلف اور متنوع قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ تمام چیزیں کنورژن کے اصول پر وجود میں آئی ہیں، یعنی ایک چیز کا بدل کر دوسری چیز کی صورت اختیار کرلینا۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں یہ ہوا کہ ایک چیز جو سانپ نہیں تھی، وہ سانپ بن گئی۔ یعنی نا سرپنٹ (non-serpent) سرپنٹ میں تبدیل ہوگیا۔ یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر چیز کا ہے۔ یہاں غیر آب (non-water) آب (water) میں تبدیل ہورہا ہے۔اِسی طرح غیر ِ درخت (non-tree) درخت میں تبدیل ہورہا ہے۔ یہاں نان لائٹ (non-light) لائٹ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یہاں نان انرجی (non-energy) انرجی کی صورت اختیار کررہی ہے۔ یہاں نان آکسیجن (non-oxygen) آکسیجن میں تبدیل ہورہا ہے، وغیرہ۔
فطرت کے نظام میں کنورژن کا یہ قانون نہایت اہم ہے۔ وہ خدا کے وجود کو اور اس کی ربوبیت کو ثابت کررہا ہے۔ اِس معاملے میں کنورژن کا مطلب ہے مداخلت(intervention) ۔ چیزوں کا بہ طریقِ کنورژن وجود میں آنا، اِس معاملے میں مداخلت کو ثابت کرتا ہے۔ اور جب مداخلت کا فعل ثابت ہوجائے تو مداخلت کرنے والا اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
Conversion proves intervention, and when intervention is proved, intervenor is also proved, and God is only the other name of this intervenor.
واپس اوپر جائیں
سائنس کیا ہے۔ سائنس کے لفظی معنی علم (knowledge) کے ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں سائنس سے مراد وہ شعبۂ علم ہے جس میں منضبط انداز میںعالمِ فطرت کا مطالعہ کیا جاتا ہے:
Science: The systematized knowledge of nature and the physical world.
سائنسی علوم میں مطالعے کی بنیاد علم الحساب (mathematics) ہوتا ہے ۔ اِس بنا پر اِن علوم میں قطعی نتائج تک پہنچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اِس لیے سائنسی علوم کو علومِ قطعیہ (exact sciences) کہاجاتا ہے۔ سائنس داں اِس شعبۂ علم کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ اِس میں اپنے آپ کو مشغول کرتاہے۔ علومِ قطعیہ میں اِس مشغولیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائنس داں کے اندر قطعی طرزِ فکر (exact thinking)پیدا ہوجاتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس دانوں کا ذہن ادیبوں اور شاعروں سے بالکل مختلف ہوتاہے۔ سائنس داں اپنی فکر کے اعتبار سے بے حد حقیقت پسند ہوتا ہے۔ اپنے میدانِ مطالعہ کی بنا پر سائنس داں کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ خیالی انداز میں سوچے، وہ ثابت شدہ حقیقت کا انکار کردے۔ سائنسی مطالعہ ایک سائنس داںکوکامل طورپر ایک سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔
بہت سے اہلِ علم نے اِس معاملے کا مطالعہ مذہب کے زاویۂ نظر سے کیا ہے۔ انھوںنے پایا ہے کہ تمام سائنس داں کسی نہ کسی طورپر اپنے اندر وہ احساس پاتے تھے جس کو مذہبی احساس (religious feeling)کہاجاتا ہے۔ اِس سلسلے میں یہاں دو کتابوںکے نام لکھے جاتے ہیں:
Einstein and Religion, by Max Jammer
The God Delusion, by Richard Dawkins
اِس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی سائنس داں جب فطرت کا مطالعہ کرتا ہے، تو وہ نہایت گہرائی کے ساتھ اِس حقیقت کا ادراک کرتا ہے کہ فطرت کے نظام میں کامل درجے کی معنویت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔سائنس داں کو فطرت کے اِس نظام کے اندر ایک پُراسرارقسم کی طاقت کار فرما نظر آتی ہے۔وہ اپنے آپ کو اِس پوزیشن میںنہیں پاتا کہ وہ اس کی توجیہہ کرسکے۔ اس کے باوجود وہ اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اِس پُراسرار احساس کو مشہور جرمن سائنس داں آئن اسٹائن (وفات: 1955 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— ایک شخص جو فطرت کا مطالعہ کرے، اُس کا سب سے زیادہ خوب صورت تجربہ یہ ہوتاہے کہ فطرت میں گہری پُراسراریت ہے۔ تم مشکل سے کوئی ایسا آدمی پاؤگے جو گہراسائنسی ذہن رکھتا ہو، پھر بھی وہ مذہبی احساسات سے خالی ہو:
The most beautiful experience one may enjoy is a ‘sense of mystery; you will hardly find one among the profounder sort of scientific minds without a ‘religious feeling’ (The Times of India, New Delhi, April 5, 2008, p. 20. Quoted by, Andrew Whitaker, Professor of Physics at Queen’s University, Belfast, Ireland.)
سائنس داں فطرت میں اپنے اِس تجربے کو کاسمک ریلیجن (cosmic religion) سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاہم سائنس داں عام طورپر خدا (God) کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ شخصی خدا (personal God) کے تصور کو ماننا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ شخصی خدا کے ساتھ اتھارٹی (authority) کا تصور جڑا ہوا ہے، اور اتھارٹی کے ساتھ انعام اور سزا (reward and punishment) کا تصور، اور یہ وہ چیز ہے جس کو کوئی سائنس داں، یا جدید ذہن ماننے کے لیے تیار نہیں۔
سائنس داں فطرت کے مطالعہ کے دوران ایک حیرت انگیز قسم کے پُراسرار احساس سے دوچار ہوتاہے۔ اِس کو ایک احساسِ استعجاب (sense of awe) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہی احساس کسی سائنس داں کے لیے سب سے بڑی داخلی طاقت ہوتا ہے۔ آئن اسٹائن کے ایک سوانح نگار نے اس کے بارے میںیہ الفاظ لکھے ہیں— آئن اسٹائن اِس کو کاسمک ریلیجن کہتا ہے۔ فطرت کے نظام میں حیران کُن انضباط کی موجودگی، سائنس داں کے لیے ایک ایسا سوال بنی ہوئی ہے جو اُس کو مذہب جیسی ایک سوچ کی طرف لے جاتی ہے:
He called it ‘cosmic religion’ and it was a sense of awe at the nobility and marvelous order which are reflected in nature and in the world of thought. He believed that throughout history, the greatest religious geniuses have followed cosmic religion, and that exploring this order in the laws of science was the motivation for the most celebrated scientists such as Newton and Kepler. Without this feeling of confidence in order and simplicity, science, he felt degenerated into uninspired empiricism.
سائنس، نیچر کے مطالعے کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں سائنس خدا کی تخلیق کا مطالعہ کرتی ہے۔ اِس مطالعے میں فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ تخلیقی قوانین میںخالق کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ سائنس داں کا موضوع اگرچہ فطرت کے قوانین کا مطالعہ ہے، لیکن فطرت کو اس کے فاطر سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس لیے فطرت کے مطالعے کا بالواسطہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائنس داں، فطرت کی دریافت کے ساتھ فاطر کے بہت قریب آجاتا ہے۔
تقریباً تمام سائنس دانوں نے بالواسطہ انداز میں خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ سرآیزاک نیوٹن (وفات: 1727 ) اور کپلر (وفات: 1630 ) نے اس ہستی کو آرڈر(order) کا نام دیا ہے۔ اس کے بعد اسپنوزا (وفات: 1677 ) اور آئن اسٹائن (وفات: 1955 ) نے اس کو کاسمک اسپرٹ(cosmic spirit) بتایا۔ اس کے بعد سر آرتھر ایڈنگٹن (وفات: 1944 ) اور سرجیمز جینز (وفات: 1946 ) نے اس کو ریاضیاتی مائنڈ (mathematical mind) کا نام دیا۔
تاہم غالباً کسی بھی سائنس داں نے اِس خالق کا اعتراف خدا یاپرسنل گاڈ(personal God) کے الفاظ میں نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سائنس دانوں نے خدا کے وجود کا اعتراف بالواسطہ انداز میں توضرور کیا، لیکن براہِ راست انداز میں خدا کے وجود کا کھلا اعتراف ابھی تک سائنٹفک کمیونٹی کی طرف سے نہیں آیا۔
سائنس کے دوبڑے شعبے ہیں— نظریاتی سائنس (theoretical science) اور عملی سائنس (practical science) ۔ خدا کا موضوع نظریاتی سائنس سے تعلق رکھتا ہے۔اِس معاملے میں بد قسمتی سے ایسا ہوا کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں پہنچ کر نظریاتی سائنس میں تحقیق کا کام تقریباً ختم ہوگیا۔ اب صرف انطباقی سائنس (applied science) کے میدان میں تحقیق کا کام ہونے لگا۔کیوں کہ انطباقی سائنس میں مادّی مفاد(material interest) بہت زیادہ شامل ہوگیا۔
نظریاتی سائنس کے میدان میں مزید بڑا کام کرنے کے لیے نہایت اعلیٰ دماغ درکار ہے۔ صرف ڈگری یافتہ لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ موجودہ زمانے میں اِس قسم کا بڑا سائنسی دماغ صرف ایک ہے، اور وہ برطانیہ کا اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے نظریاتی سائنس کے میدان میں عملاً بھی کچھ بڑے کام کیے ہیں۔ مثلاً سنگل اسٹرنگ تھیوری (Single String Theory) جو توحید کے نظریے کو اصولی طور پر ثابت کرتی ہے۔ لیکن نظریاتی سائنس کے میدان میں کام کرنے کے لیے اعلیٰ سائنس دانوں کی ایک پوری جماعت درکار ہے۔ اور بدقسمتی سے آج ایسی جماعت موجود نہیں۔
جدید سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ تدریجی طورپر سائنس اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سائنس داں کائنات میں دماغ (mind) جیسے کسی عنصر کی کار فرمائی تسلیم کرتے ہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ دماغ کو ماننا بالواسطہ طورپر خدا کو ماننے کے ہم معنیٰ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اِس بالواسطہ سائنس کو براہِ راست سائنسی اقرار کے درجے تک پہنچایا جائے۔ یہ بلاشبہہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا علمی اور فکری کام ہے۔ یہ کام کوئی اعلیٰ سائنسی دماغ ہی کرسکتا ہے۔ یہ کام صرف وہ شخص انجام دے گا جو اعلیٰ ریاضیات (higher mathematics) کی زبان میں اس کو انجام دے سکتا ہو۔ شاید یہ کام ڈاکٹر عبد السلام (وفات: 1996 ) انجام دے سکتے تھے، جن کو 1979 میں سائنس کا نوبل پرائز ملا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے تعصبانہ مزاج کی بنا پر یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔
واپس اوپر جائیں
روزی کمانا ہر آدمی کی ایک ضرورت ہے۔ لوگ مختلف کام کرکے اپنے لیے روزی حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً سروس، بزنس، زراعت، وغیرہ۔ یہ تمام طریقے روزی کمانے کے جائز طریقے ہیں۔ آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ اِن ذرائع میں سے جس ذریعے کو چاہے، اختیار کرے۔
لیکن روزی کمانے کا ایک طریقہ جائز ہے اور دوسرا طریقہ ناجائز۔ جائز وہ ہے جو امانت داری (honesty) کا طریقہ ہے، اورناجائز طریقہ وہ ہے جو خیانت (dishonesty) کا طریقہ ہے۔ اِس معاملے میں شریعت میں سخت تاکید آئی ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ صرف جائز طریقے سے اپنی روزی کمائے، وہ کبھی ناجائز طریقے کا استعمال نہ کرے۔
مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان ضرورت (need) کی حد پر قائم نہیں رہتا، وہ حرص (greed) کا شکار ہوجاتاہے۔ اِس حرص کی سب سے زیادہ بری شکل وہ ہے جب کہ آدمی حلال روزی کو حرام روزی بنا کر استعمال کرے۔ مثلاً سروس کرنا، لیکن ڈیوٹی کو درست طورپر انجام نہ دینا، بزنس کرنا اور کسٹمر کو دھوکہ دے کر پیسہ کمانا، وغیرہ۔ اِس قسم کی عادتوں کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی حلال روزی کو حرام روزی بنا کر استعمال کررہا ہے۔ اُس کو جائز رزق ملا تھا، لیکن اُس نے غیر ضروری طورپر اُس کو اپنے لیے ناجائز رزق بنا لیا۔
یہ معاملہ بے حد سنگین معاملہ ہے۔ اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ بڑھی ہوئی حرص کی بنا پر اپنی حلال روزی کو اپنے لیے حرام روزی بنا لیتے ہیں۔ اِس کے بعد خوب صورت باتیں کرکے وہ اپنی غلطی کو چھپاتے ہیں۔ وہ جھوٹ بول کر اپنی کم زوری پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں۔ وہ بے اصولی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور اِسی کے ساتھ خوب صورت الفاظ کے ذریعے وہ اپنے کو بااصول ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ اُن کا یہ طریقہ برائی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ ایسے لوگ خواہ انسانوں کے سامنے اچھے بنے رہیں، لیکن خدا کی نظر میں وہ نہایت مبغوض انسان ہیں، آخرت میں وہ سخت سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
کائنات میں بے شمار الگ الگ چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن کائنات کا ایک عجیب ظاہرہ یہ ہے کہ اس میں عمومی طور پر یکسانیت(uniformity) نہیںہے، بلکہ اُس کے ہر حصے میںاستثناء ات (exceptions) پائے جاتے ہیں۔ کائنات کی یہ استثنائی مثالیں اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اِس کائنات کا ایک عظیم خالق ہے۔ استثناء (exception) ذہین مداخلت (intelligent intervention) کا ثبوت ہے اور ذہنی مداخلت ایک ذہین خالق (intelligent Creator) کا ثبوت ہے۔
مثلاً وسیع کائنات میں شمسی نظام (solar system) ایک استناء ہے۔ شمی نظام میں سیارۂ ارض (planet earth) ایک استثناء ہے۔ زمین کا انتہائی متناسب سائز ایک استثناء ہے۔ زمین کی اپنے محور (axis) پر گردش ایک استثناء ہے۔ زمین پر لائف سپورٹ سسٹم(life support system) ایک استثناء ہے۔ زمین پر زندگی ایک استثناء ہے۔ زمین پر انسان ایک استثناء ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کے مختلف استثناء جو ہماری دنیا میں پائے جاتے ہیں، وہ سادہ طورپر صرف استثناء نہیںہیں، بلکہ وہ انتہائی حد تک بامعنی استثناء (meaningful exception) ہیں۔ وسیع کائنات میں اِس قسم کے با معنٰی استثناء ات یقینی طور پر اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اِس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اُس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اِس کائنات کو بنایا ہے۔ اُس نے جہاں چاہا، چیزوں میںیکسانیت (uniformity) کا طریقہ اختیار کیا، اور جہاں چاہا، کسی چیز کو دوسری چیزوں سے ممیّز اور مستثنیٰ بنادیا۔
مثلاً زندہ اجسام کے ڈھانچے میں باہم یکسانیت (uniformity) پائی جاتی ہے، لیکن اِسی کے ساتھ ہر ایک کا جنیٹک کوڈ (genetic code) ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے سے مشابہہ ہیں، لیکن ہر ایک کے انگوٹھے کا نشان (thumb impression) ایک دوسرے سے الگ ہے۔ یکسانیت کے درمیان یہ استثناء یقینی طور پر ایک ذہین تخلیق (intelligent creation) کا ثبوت ہے، نہ کہ اندھے اتفاقات کا نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں
پروگرام کے مطابق مشہور جرنلسٹ مسٹر خشونت سنگھ (پیدائش 1915 ) کو ان کی خدمات پر اوارڈ دیاگیا۔ یہ اوارڈ لوک سبھا کے اسپیکر مسٹر سوم ناتھ چٹر جی کے ذریعہ دیاگیا۔ اِس موقع پر مسٹرشندے نے کہا کہ مسٹر خوشونت سنگھ کا نظریۂ حیات یہ ہے کہ— زندگی کی اچھی چیزوں سے انجوائے کرو:
Enjoy the good things in life.
اِس موقع پر ان کی دعوت پر راقم الحروف نے اس میں شرکت کی۔ الرسالہ مشن کے تقریباً 10 افراد بھی میرے ساتھ وہاں گئے۔ ان لوگوں نے انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی لٹریچر تمام لوگوں کو دیا۔ ان میں وہ پمفلٹ بھی شامل تھا جو ریلٹی آف لائف (Reality of Life) کے نام سے شائع کیاگیا ہے۔ اِس پمفلٹ میں زندگی کا بالکل برعکس نظریہ پیش کیاگیا تھا۔ اس دوسرے نظریہ کو مختصر طورپر ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— زندگی میںاچھے کام کرو:
Do good things in life.
اِس پروگرام کے چیف گیسٹ مسٹر خوشونت سنگھ تھے۔ ان کی عمر تقریباً
Enjoy good things in life only to become so weak that you are unable to enjoy at all.
اِس وقت مذکورہ پمفلٹ (Reality of Life) خوشونت سنگھ سمیت تمام لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ پمفلٹ خاموش زبان میں برعکس طورپر لوگوں کو یہ پیغام دے رہا تھا— زندگی میں اچھے کام کرو، تاکہ تم موت کے بعد کی ابدی دنیا میں زندگی کی خوشیوں کو پاسکو:
Do good things in life so that you may enjoy life eternally in the world hereafter.
ہر زمانے میں انسانوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی رہی ہے کہ موجودہ دنیا اُس کے لیے ٹھیک ویسی ہی ہے جیسے کہ جانور کے لیے سرسبز چراہ گاہ ، یعنی کھاؤ پیو اور خوش رہو، اِس سے زیادہ تمھاری کوئی اور ذمے داری نہیں۔
تاریخ کے تمام زمانوں میں بیش تر لوگ اِسی قسم کی سوچ میں مبتلا رہے ہیں۔ ہر زمانے کے لوگ مختلف انداز میں اپنی اِس سوچ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طورپر شہنشاہ بابر (وفات: 1530) نے کہا تھا کہ — بابر عیش کرلو، کیوں کہ یہ موقع دوبارہ ملنے والا نہیں:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اِس دنیا میں کوئی بھی شخص عیش و عشرت کی مطلوب زندگی حاصل نہ کرسکا۔ ہر آدمی کا انجام صرف یہ ہوا کہ وہ موہوم آرزؤں میں جیے اور پھر ناکامی کی موت مر کر اِس دنیا سے چلا جائے۔
زندگی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کو دریافت کرے اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ خود ساختہ طورپر زندگی کی ایک منزل مقرر کرنا اور اس کے مطابق جینے کی کوشش کرنا کسی کے لیے بھی قابلِ عمل نہیں، نہ عام انسان کے لیے اور نہ نام نہاد قسم کے بڑے انسانوں کے لیے۔ اِس معاملے میں چھوٹے انسان اور بڑے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
البرٹ آئن سٹائن(Albert Einstein) بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس داں مانا جاتا ہے۔ وہ 1879 میں جرمنی میںپیدا ہوا، اور 1955 میں امریکا میںاس کی وفات ہوئی۔ 1921 میں اس کو فزکس کا نوبل پرائز دیاگیا۔
البرٹ آئن سٹائن نے عالمِ مادّی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اُس نے اپنے مطالعے میں پایا کہ کائنات ایک بے حد بامعنیٰ وجود ہے۔ اُس کے ہر پہلو میں اتھاہ حکمتیں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ حکمت ومعنویت کائنات میں کہاں سے آئی۔ آئن سٹائن نے کائنات کی بے پایاں حکمت کو دریافت کیا، لیکن اُس کے حکیم کو وہ دریافت نہ کرسکا۔ اُس نے تعجب کے ساتھ کہا — کائنات کے بارے میں سب سے زیادہ حسین تجربہ جو ہم کو ہوتا ہے، وہ پُراسراریت کا تجربہ ہے:
The most beautiful experience we can have is the mysterious.
البرٹ آئن سٹائن کا ایک دوسرا قول اِس معاملے میں یہ ہے— فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم واقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے قابلِ فہم ہے:
The most incomprehensible fact about nature is that it is comprehensible.
سائنس داں کو یہ مشکل کیوں پیش آئی، اِس لیے کہ کائنات کی معنویت (meaning) کو تو اُس کے دماغ نے دریافت کیا، لیکن اِس معنوی نظام کے خالق کو وہ دریافت نہ کرسکا۔ اس بنا پر وہ تعجب کے ساتھ کہتا ہے کہ جب کائنات کی معنویت انسان کے لیے قابلِ مشاہدہ ہے تو اس کے لیے وہ ہستی کیوں ناقابلِ مشاہدہ ہے جس نے کائنات میں اِس معنویت کو پیدا کیا ہے، جب حکمت موجود ہے تو آخر اس کا حکیم کہاں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خدا کے عقیدے کے بغیر کائنات بے معنیٰ بن جاتی ہے۔ یہ صرف خدا کا عقیدہ ہے جو کائنات کی معنویت کو انسان کے لیے قابلِ فہم بناتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
6 اپریل 2009 کو ا ٹلی کے وسطی علاقہ(L' Aquila) میں زلزلہ آیا۔ رپورٹ کے مطابق، اِس زلزلے میں ایک سو سے زیادہ آدمی مر گئے اور تقریباً پچاس ہزار آدمی بے گھر ہوگئے۔ زلزلہ والے علاقے کے ایک شخص نے اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا کہ — بم دھماکے جیسی آواز سن کر میں اٹھ گیا۔ ہم بمشکل اُس سے بھاگ کر باہر آئے۔ ہر چیز ہل رہی تھی۔ فرنیچر گررہے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ میںنے کبھی ایسی کوئی چیز اپنی زندگی میں دیکھی ہو:
I woke up hearing what sounded like a bomb. We managed to escape with things falling all around us. Everything was shaking, furniture falling. I don’t remember ever seeing anything like this in my life. (The Times of India, New Delhi, April 7, 2009)
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت اچانک (suddenly) آئے گی(الأعراف:
زلزلے کا استثنائی طورپر قیامت سے مشابہ ہونا بے حد اہم ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ (earthquake) قیامت کی پیشگی اطلاع ہے۔ موجودہ زلزلہ چھوٹا زلزلہ ہے، اور آئندہ آنے والی قیامت زیادہ بڑا زلزلہ۔ اِس دنیا میں چھوٹا زلزلہ اِس لیے آتاہے، تاکہ انسان ہوش میں آجائے اور بڑے زلزلے کے لیے پیشگی طورپر تیاری کرے۔ چھوٹے زلزلے میں بظاہر کچھ لوگ بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن جب قیامت کا بڑا زلزلہ آئے گا تو کسی بھی عورت یا مرد کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو اُس سے بچا سکے۔
واپس اوپر جائیں
مولانا سید ابو الاعلی مودودی (وفات: 1979 ) کی صاحب زادی سیدہ حمیرا مودودی (پیدائش: 1945 ) کی ایک کتاب (صفحات
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو پاکستان بننے کے بعد وہاں
اِسی کا نام غلط ترجیح ہے۔ مولانا ابوالاعلی مودودی کے لیے میدانِ سیاست میں کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنا ممکن نہ تھا، مگر وہ اِس ناممکن دائرے میں سرگرم ہوگئے۔ اِس کے برعکس، اپنے گھر کے دائرے میں مثبت نتیجہ نکالنا اُن کے لیے ممکن تھا، مگر وہ اِس ممکن دائرے میں اپنے آپ کو سرگرمِ عمل نہ کرسکے۔
اِسی کا نام مفکرانہ بے بصیرتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام رہنما اِسی مفکرانہ بے بصیرتی کا شکار ہوگئے۔ موجودہ زمانے کے مشہور رہنماؤں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جس نے اِس معاملے میں بصیرت کا ثبوت دیا۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کی یہی بے بصیرتی ہے جس نے مسلم ملت کو ہر جگہ بربادی سے دوچار کررکھا ہے۔ بصیرت یہ ہے کہ آدمی نتیجہ خیز میدان میںاپنی کوشش صرف کرے۔ اور بے بصیرتی یہ ہے کہ وہ ایسے میدان میں چھلانگ لگادے، جہاں کوئی مثبت نتیجہ (positive result) نکلنے والا ہی نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانہ سادگی کا زمانہ ـتھا۔ قدیم زمانے میں ہر چیز سادہ ہوا کرتی تھی۔ سادہ انسان ہر بات کو جہری (open) انداز میںکہنا جانتاتھا۔ ایسے ماحول میںجو منافقت پیدا ہوئی، وہ بھی جہری منافقت تھی۔ قدیم زمانے کے لوگ اپنی کم زوریوں کو چھپانے کا فن نہیں جانتے تھے۔ وہ عام طورپر جہری انداز میں کلام کرتے تھے۔ قدیم زمانے کی منافقت بھی ایک معلوم واقعہ ہوتی تھی اور غیر منافقت بھی ایک معلوم واقعہ۔موجودہ زمانے کے انسان کو مہذب (civilized) انسان کہاجاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں تکلف اور تصنّع ایک آرٹ بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں برائیوں کو بھی خوش نما الفاظ میں بیان کیا جاتاہے۔ اِس زمانی صورتِ حال نے منافقت کو بھی ایک نیا انداز عطا کیا ہے۔ آج کے لوگ اِس بات کے ماہر ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بات کو خوش نما الفاظ میں چھپا سکیں۔ قدیم زمانہ اگر جہری منافقت کا زمانہ تھا تو موجودہ زمانہ سری منافقت کا زمانہ ہے۔
منافقت کوئی پُر اسرار (mysterious) چیز نہیں۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی اپنی برائی کو خوش نما الفاظ کے پردے میں چھپائے ہوئے ہو۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ ایک ایسے کام کریڈٹ لینا چاہے جس کو اُس نے انجام ہی نہیں دیا(آل عمران:
آدمی جو کام کررہا ہے، اگر وہ اُسی کا نام لے تو یہ منافقت نہ ہوگی۔ لیکن یہ بلا شبہہ منافقت ہے کہ آدمی حقیقت میں ایک کام کرے اور اپنی زبان سے وہ اُس کو کوئی اور کام بتائے۔
واپس اوپر جائیں
اسلامی تحریک کا اصول یہ ہے کہ ٹکراؤ سے کامل پرہیز کرتے ہوئے اپنا مشن چلایا جائے۔ اِس پالیسی کو دو لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— پولٹکل اسٹیٹس کوازم، نان پولٹکل ایکٹوزم:
Political statusquoism, non-political activism.
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اقتدار سے ٹکراؤ نہ کرنا اور غیر سیاسی دائرے میں جو مواقع ہیں، اُن کو بھر پور استعمال کرنا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں یہی طریقہ اختیار فرمایا۔ اِسی طریقے کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کو ہر اعتبار سے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس طریقے کو دوسرے لفظوں میں، حکیمانہ طریقِ کار کہاجاسکتا ہے۔
اِس طریقِ کار کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو فوراً ہی اپنے عمل کے لیے ایک نقطۂ آغاز (starting point) مل جاتا ہے۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوجاتاہے کہ آدمی اپنی توانائی کو بے نتیجہ کاموں میں ضائع نہ کرے، وہ اپنی پوری توانائی کو صرف نتیجہ خیز کاموںمیں صرف کرے، وہ تمام موجود امکانات کو اپنے مشن کے حق میں استعمال کرسکے۔
یہ طریقِ کار اِس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی کے اندر مکمل طورپر مثبت ذہن باقی رہے، وہ کسی بھی مرحلے میں منفی سوچ (negative thinking) کاشکار نہ بنے۔ وہ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھے۔ اُس کو ہر دنیا اپنی دنیا نظر آئے۔ ہر صورتِ حال کو وہ اپنے لیے موافق صورتِ حال سمجھے۔ شکایت اور احتجاج (protest) سے اُس کا ذہن مکمل طورپر پاک ہو۔
یہ طریق کار (method)دراصل وہی ہے جس کو تدریجی طریقِ کار (gradual method) کہاجاتاہے، یعنی فطری انداز سے ماحول میں تبدیلی لانا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں تدریجی طریقِ کار ہی نتیجہ خیز طریقِ کار ہے۔ اِس کے سوا جو طریقے ہیں، وہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والے ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
آج کل ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، وہ ایمپاور مینٹ(empowerment) کا لفظ ہے۔ایمپاورمینٹ کا مطلب وہی ہے جس کو عربی زبان میں تمکین کہتے ہیں، یعنی طاقت ور بنانا۔ این جی او (NGOs) سے وابستہ لوگ اکثر اِس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً:
Women empowerment, rural empowerment, Muslims empowerment, etc.
اِس قسم کے ایمپاورمینٹ کی جزئی افادیت ہوسکتی ہے، لیکن زیادہ اہم ایمپاورمینٹ، انٹلکچول ایمپاورمینٹ (intellectual empowerment) ہے، یعنی لوگوں کو فکری طاقت دینا، اُن کے اندر معاملہ فہمی کی صلاحیت پیدا کرنا، ان کے اندر آرٹ آف تھنکنگ (art of thinking) پیدا کرنا، ان کو اِس قابل بنانا کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھیں، وہ درست منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کام کریں۔ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا، فارمل ایجوکیشن کے معنوںمیں بھی، اور انفارمل ایجوکیشن کے معنوں میں بھی۔
لوگوں کے اندر سب سے زیادہ کمی یہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ صحیح طرزِ فکر کیا ہے اور غلط طرزِ فکر کیا۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عام طورپر لوگ شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ اپنی غلط سوچ اور اپنے غلط عمل کی قیمت ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی سازش اور ظلم کی بنا پر ایسا ہورہا ہے۔
اِسی بنا پر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جہاں چپ رہنا چاہیے، وہاں وہ بولتے ہیں۔ جہاں اقدام نہ کرنا چاہیے، وہاں وہ چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ جہاں ایڈجسٹ کرنا چاہیے، وہاں وہ لڑنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جن لوگوں سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہئے، اُن کو وہ اپنا دشمن سمجھ کر اُن سے دور ہوجاتے ہیں۔ وہ خود ساختہ طورپر دوسروں کو اپنا ’’غیر‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ اِس دنیا میں ہرشخص اپنا ہے، کوئی بھی کسی کے لیے غیر نہیں۔ اِسی بنا پر لوگ صبر وتحمل کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، حالاں کہ اِس دنیا میں کامیابی کا سب سے زیادہ کار گر فارمولا وہی ہے جس کو صبر وتحمل کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
پاکستان کی فوج اور افغانستان کے طالبان کے درمیان اِس وقت سخت جنگ جاری ہے۔ روزانہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں، حالاں کہ یہ دونوں فریق مسلمان ہیں۔ دونوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم اسلامی قانون کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اُس حدیثِ رسول کو یاد دلاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے قریب دو مسلم فریقوں کے درمیان جنگ ہوگی، جب کہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا (لا تقوم الساعۃ حتی تقتتل فئتان عظیمتان من المسلمین، دعوا ہما واحدۃ۔ مسند الحُمیدی، رقم الحدیث:
پاکستان کی فوج نے افغانی طالبان کے خلاف جو لڑائی چھیڑی ہے، اُس کا نام انھوں نے آپریشن راہِ راست (Direct Action) رکھا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے 1946 میں پاکستانی قیادت نے ہندوؤں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کیا تھا۔ اب پاکستانی قیادت نے خود مسلمانوں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن شروع کردیا ہے۔پاکستان کے ملٹری چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ — ہم یہاں جو لڑائی لڑ رہے ہیں، اُس میں اور روایتی لڑائی میں بہت فرق ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے:
There is a difference between conventional war and the present one. In the ongoing war, it is difficult to identify friends or foes. (The Times of India, New Delhi. June 16, 2009)
اِس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ ایک طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں: ویُلقیٰ بین الناس التناکُر، فلایکاد أحدٌ أن یعرف أحداً(مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ
پاکستانی فوج اور افغانی طالبان کے درمیان جو سنگین صورتِ حال قائم ہے، وہ کسی بیرونی طاقت کی ’’سازش‘‘ کی بنا پر نہیں ہے، وہ تمام تر مسلم لیڈروں کی خود اپنی بھیانک غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ اِن میں سے دو مبیّنہ غلطیوں کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
1 - پاکستانی قیادت کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنے مفروضہ کشمیری جہاد کے لیے غیر فوجی طالبان کو مسلّح کیا۔ یہ بلا شبہہ ایک غیر اسلامی فعل تھا، کیوںکہ اسلام میں اسلحے کا استعمال صرف باقاعدہ فوج کے لیے جائز ہے، غیر فوجی افراد یا تنظیموں (NGOs)کے لیے اسلحے کا استعمال جائز نہیں۔ اب پاکستان میں جو باہمی تشدد ہورہا ہے، وہ اِسی بھیانک غلطی کی قیمت ہے۔ تقریباً یقینی ہے کہ آپریشن راہِ راست سے موجودہ متشددانہ صورتِ حال کا خاتمہ ہونے والا نہیں۔
2 - دوسری بھیانک غلطی وہ ہے جو اسلام کی سیاسی تعبیر کا نتیجہ ہے۔ پاکستان اور طالبان دونوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر کو اپنا رکھا ہے۔ سیاسی تعبیر کا نقصان یہ ہے کہ اسلام اتباع (following) کے بجائے نفاذ (enforcement) کا موضوع بن جاتاہے۔ اِس سیاسی تعبیر کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلے پاکستان اور افغانستان میں سیاسی غلو (political extremism) آیا۔ اِس کے بعد فطری طورپر ٹکراؤ کی سیاست شروع ہوئی، اور آخر میں یہ ذہن پیداہوا کہ طاقت کے زور پر اسلامی قانون کو نافذ کیا جائے۔ چناں چہ طالبان کا نعرہ ہے— شریعت یا شہادت۔
پاکستان اور افغانستان دونوں جس نازک صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس کا حل کیا ہے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ وہی ہے جس کو شریعت کی زبان میں توبہ کہا جاتا ہے، یعنی اپنی غلطی کا کھلا اعتراف اور تشدد کی روش کوچھوڑ کر امن کی بنیادوں پر اپنے عمل کی ازسرِ نو منصوبہ بندی۔ جس طرح خالص دینی معاملات میں اصلاح کا آغاز توبہ سے ہوتا ہے، اُسی طرح قومی اور سیاسی زندگی میں بھی کوئی نیا بہتر آغاز رجوع و اعتراف کے ذریعے ہوتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو مانے بغیر مستقبل کی کامیاب منصوبہ بندی ممکن نہیںہوتی، اور پاکستان اِس معاملے میں کوئی استثناء نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ آپ ہمیشہ دعوت پر زور دیتے ہیں۔ آپ کا یہ اندازیک رُخا انداز (one-sided approach) ہے۔ملت کے اور بہت سے مسائل ہیں۔ مثلاً تعلیم، سیاست اور اقتصادیات،وغیرہ۔ آپ کو مجموعی انداز (holistic approach) اختیار کرنا چاہیے۔ آپ کو کو شش کرنا چاہیے کہ ہماری ملت مجموعی انداز میں ہر اعتبار سے ترقی کرے۔
یہ طرزِ فکر موجودہ زمانے میں بہت عام ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ غیر فطری اور غیرعملی طرزِ فکر ہے۔مجموعی ترقی بذاتِ خودایک مطلوب چیز ہے، لیکن ہر جدوجہد کا ایک نقطہ آغاز (starting point) ہوتاہے۔ نقطۂ آغاز سے شروع کرکے آپ مجموعے تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ مجموعے سے آغاز کرنا چاہیں تو آپ کہیں بھی نہیں پہنچیں گے۔ اِسی کو ایک مفکر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرا طریقہ شروع سے آغاز کرنا ہے:
My way is to begin from the beginning.
یہی فطرت کا قانون ہے۔ آپ ایک درخت اگانا چاہتے ہیں تو آپ بیج سے اس کاآغاز کرتے ہیں، نہ کہ مجموعی طور پر درخت سے۔ اِسی طرح جب آپ ایک بلڈنگ بنانا چاہتے ہیں تو اس کی تعمیر کا آغاز ایک اینٹ سے ہوتاہے، نہ کہ مجموعی طورپر پوری بلڈنگ سے۔
مسلمان کے لیے ان کی ملی جدوجہد کا آغاز دعوت الی اللہ ہے۔ دعوت الی اللہ سے آغاز کرکے بقیہ تمام چیز یں اپنے آپ حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں— فکر کی تصحیح، عمل کی اصلاح، دوسرے انسانوں سے معتدل تعلقات، تعمیر و ترقی کا مزاج، علمی بیداری، مثبت سوچ، زمانہ شناسی، عالمی طرزِ فکر، غرض دعوت الی اللہ تمام صالح اوصاف کا سرچشمہ ہے۔ لوگوں کے اندر دعوت کو زندہ کرنا، اُن کے اندر تمام خوبیوں کو زندہ کرنا ہے۔ گویا کہ دعوت ایک بیج ہے۔ اور بیج بونے کے بعد پورا درخت اپنے آپ اُگ کر تیار ہوجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
کرینا کپور انڈیاکی ایک مشہور فلم اسٹار ہیں۔ ان کو اپنی اداکاری کا معاوضہ کروروں میں ملتاہے۔ ان کے بارے میں ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
I will buy myself a home in Greece.
رپورٹ میںمزید بتایا گیا ہے کہ کرینا نے حال میں اپنا ایک ذاتی گھر بمبئی میں خریدا ہے۔ مگر انھوںنے کہا کہ میرا زیادہ وقت اسٹوڈیو میں گزرتا ہے، اس لئے میرے پاس وقت نہیں ہے کہ میںاپنے گھر میں ٹھہروں اور اس سے انجوائے کرسکوں:
But I spend most of my time in the studio. So I've no time to enjoy my new home.
موجودہ زمانے میں نئے نئے مواقع کھلے تو ہر ایک نے ان مواقع کو زیادہ دولت کمانے کے لئے استعمال کیا۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ دولت صرف زیادہ مسائل لاتی ہے۔ آدمی حاصل شدہ دولت کو انجوائے نہیں کرپاتا۔ وہ اور زیادہ اور زیادہ کے لئے اپنی ساری زندگی لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کے لئے وہ وقت آجاتاہے جب کہ وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں چلا جائے جہاں اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ حتی کہ ایسے مواقع بھی نہ ہوں جن کو استعمال کرکے دوبارہ وہ اپنے لئے ایک پر عیش زندگی کی تعمیر کرسکے۔ اس کے پیچھے بھی محرومی ہوتی ہے اور اس کے آگے بھی محرومی۔
کیسا عجیب ہے انسان کا آغاز ، اور کیسا عجیب ہے انسان کا انجام۔یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی سورہ نمبر
واپس اوپر جائیں
حیوانات میںکچھ بے ریڑھ والے (spineless) حیوان ہوتے ہیں۔ اِسی طرح انسانوں میں بعض انسان ایک ضعیف الارادہ انسان ہوتے ہیں،گویا کہ وہ بے ریڑھ والے (spineless) انسان ہیں۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے ۔ وہ بے ہمت اور بے ارادہ (without courage, or will power) شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی میںکوئی بڑا کام نہیں کرپاتے۔
حقیقی انسان وہ ہے جو مضبوط قوتِ ارادی کا مالک ہو، جو زندگی کے معاملات میںفیصلہ لے سکے، جو ہاں کے ساتھ نہیں کہنے کی طاقت رکھتا ہو، جو اپنے مقصدکی راہ میں دوسروں کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرے، ایسا ہی انسان کوئی بڑاکام کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ بڑا کام کرنے میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو آدمی کا راستہ روکنے والے ہوتے ہیں۔ ضعیف الارادہ آدمی ایسے موقع پر بے ہمت ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔اِس کے برعکس، قوی الارادہ آدمی ہر حال میں اپنا سفر جاری رکھتاہے، یہاں تک کہ وہ منزل پرپہنچ جاتا ہے۔
زندگی کے سفر میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ راستے میں کچھ منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ یہ منفی تجربات ہمیشہ وقتی ہوتے ہیں۔ جو لوگ فطرت کے اِس راز کو نہ سمجھیں، وہ منفی تجربے کو حتمی سمجھ لیتے ہیں اور اِس بنا پر وہ ہمت کھو بیٹھتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اِن تجربات کو وقتی سمجھے۔ ایسے تجربات پیش آنے کی صورت میں وہ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے۔ وہ یہ یقین کرے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، لازمی طورپر ایسا ہوتاہے کہ رکاوٹ صرف ایک درمیانی چیز بن کر رہ جائے، وہ اگلے مراحل میں اپنے آپ دور ہوتی چلی جائے۔ جو لوگ فطرت کے اِس قانون کو نہ سمجھیں، وہ ضعیف الارادہ بن جاتے ہیں، اور جو لوگ اِس راز کو سمجھ لیں، وہ مضبوط ارادے سے کام لیتے ہوئے آخر کار کامیابی کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں— مقصد کا تعین کیجئے اور اُس پر جم جائیے، یہی اِس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔
واپس اوپر جائیں
آزادی (1947) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مشرقی یوپی میںایک زمین دار خاندان تھا۔ اِس خاندان کے ایک صاحب شکار کے شوقین تھے۔ اُن کے پاس لائسنس یافتہ گن تھی۔ پاس کے جنگلوں میں وہ اکثر ہرن، وغیرہ کا شکار کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب وہ شکار کے لیے جاتے تو خاندان کے کئی لوگ اُن کے ساتھ ہوتے تھے، مگر ایک نوجوان کو وہ اپنے ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ یہ نوجوان بچپن میں یتیم ہوگیا تھا۔ وہ اُس نوجوان سے کہتے کہ تم منحوس ہو، تم ساتھ چلوگے تو کوئی شکار نہیں ملے گا۔
یہ ’’منحوس نوجوان‘‘بعد کو ایک خوش قسمت نوجوان بن گیا۔ اس کے حالات اس کو بزنس کی طرف لے گئے۔ اُس نے غیر معمولی محنت کی۔ اُس کے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی، یہاں تک کہ پورے خاندان میں وہ سب سے زیادہ دولت مند شخص بن گیا۔ اب وہ خاندان کا ایک باعزت فرد بن گیا۔ ہر طرف اس کی تعریف ہونے لگی۔ بعد کے زمانے میں خاندان کے ایک صاحب نے اس کو ایک عید کارڈ بھیجا۔ اِس عید کارڈ کے اوپر لکھا ہوا تھا— سیلف میڈ مین(self-made man) کے نام جو قطب مینار کی بلندیوں کو بھی پار کرسکتا ہے۔
اِس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک عظیم مستقبل چھپا ہوا ہوتا ہے۔ کوئی آدمی اپنی ابتدائی عمر میں بظاہر معمولی دکھائی دے تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ فی الواقع وہ ایک معمولی آدمی ہے، عین ممکن ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان ہو، یعنی اپنی ابتدائی عمر میں وہ بالقوۃ طورپر غیر معمولی انسان ہو، اور اپنی بعد کی عمر میں وہ بالفعل طورپر ایک غیر معمولی انسان بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کے ظاہر کو دیکھ کر اُس کو حقیر سمجھنا خدا کی قدرت کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنا ہے۔ اِس طرح کا کم تر اندازہ انسانیت کے خلاف بھی ہے اور ایمان کے خلاف بھی۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب بمبئی سے بھوپال آئے۔ رزرویشن کے مطابق، اُن کو بھوپال سے دہلی آنا تھا۔ وہ اتوار کی صبح کو دہلی پہنچنے والے تھے۔ اُن کا پروگرام یہ تھا کہ وہ دہلی میں اتوار کی صبح کو ساڑھے دس بجے ہونے والے سی پی ایس کی اسپریچول کلاس میں شرکت کریں گے اور اس کے بعد وہ اتوار کی شام کو واپس چلے جائیں گے۔ لیکن بھوپال میں اُن کو اپنے گھر سے ایک ٹیلی فون ملا۔ اِس میں بتایا گیا تھا کہ اُن کے ایک رشتے دار کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا ہے۔ ان کی ایک ہڈی میں فریکچر ہوگیا ہے۔ اِس خبر سے وہ اتنا زیادہ مغلوب ہوئے کہ اپنا رزرویشن بدلوا کر وہ بھوپال ہی سے بمبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔
جب وہ بمبئی پہنچے تو اُن کے مذکورہ رشتے دار اسپتال کے انٹنسیو کیئر یونٹ (ICU) میں داخل ہوچکے تھے۔ وہ رشتے داروں کی بھیڑ کے ساتھ اسپتال میں باہر کھڑے رہے۔ صرف دو دن کے بعد وہ اپنے رشتے دار سے ملاقات کرسکے۔ مذکورہ صاحب اگر حسب پروگرام دہلی آتے اور سی پی ایس کے کلاس میں شریک ہو کر واپس جاتے، تب بھی وہی ہوتاجو پروگرام بدل کر فوراً بمبئی واپس جانے کی صورت میں پیش آیا۔
اِس طرح کی صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے ساتھ اِس دنیا میں پیش آتی ہے، لیکن تقریباً تمام لوگ وہی غلطی کرتے ہیں جو مذکورہ صاحب نے کی۔ وہ حقیقی کیس اور نفسیاتی کیس کے فرق کو سمجھ نہیں پاتے۔ وہ نفسیاتی کیس کو بھی وہی درجہ دے دیتے ہیں جو حقیقی کیس کو دینا چاہیے۔ اِ س کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کی سرگرمیاں بے فائدہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔
زندگی کا ایک اہم اصول وہ ہے جس کو فرق کا اصول (principle of differentiation) کہاجاتاہے۔ دنیا میں جو معاملات پیش آتے ہیں، وہ اکثر ملے جلے ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا جانے، وہ حقیقی معاملے اور غیر حقیقی معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے۔
واپس اوپر جائیں
انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے— ایک ہلکا دھکا ایک پہاڑ کواپنی جگہ سے ہٹا سکتاہے:
A gentle push can move a mountain.
اس مقولے میںایک نہایت اہم بات بتائی گئی ہے، وہ یہ کہ معتدل انداز میں کوشش ہمیشہ بڑے بڑے نتیجے پیدا کرتی ہے، اور پُرشور قسم کے ہنگامے نتیجے کے اعتبار سے ہمیشہ بے سود ثابت ہوتے ہیں۔یہ مقولہ دراصل ایک قانونِ فطرت کو بتاتا ہے، اور قانونِ فطرت کے معاملے میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔
کسی مقصد کو حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں— ایک، ہنگامہ خیز طریقہ۔ اور دوسرا، خاموش تدبیر والا طریقہ۔ ہنگامہ خیز طریقے سے صرف وقتی شور وشر پیدا ہوتا ہے، مگر نتیجے کے اعتبارسے وہ ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس، خاموش منصوبہ اور پُر امن تدبیر کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلتاہے۔ ہنگامہ خیز تدبیر صرف نقصان میں مزید اضافہ کرتی ہے، جب کہ خاموش تدبیر کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ کسی مزیدنقصان کا باعث نہیں بنتی اور نشانے کے مطابق، اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا اٹل اصول ہے جس میں کوئی استثنا نہیں، نہ مذہبی انسان کے لیے اور نہ غیر مذہبی انسان کے لیے۔
موجودہ دنیا میں جب بھی کو ئی آدمی کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے تواُس میںاس کا اپنا حصہ صرف پچاس فی صد ہوتا ہے، بقیہ پچاس فی صد کا تعلق اُس چیزسے ہوتاہے جس کو قانونِ فطرت (law of nature) کہاجاتا ہے۔
قانونِ فطرت سے موافقت کے بغیر اِس دنیا میں کوئی شخص کامیاب نہیںہوسکتا۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ اپنے مقصد کے لیے جو کوشش کی جائے، وہ حقیقت پسندانہ انداز میں کی جائے۔ حقیقت پسندانہ انداز میں کام کرنا، فطرت سے موافقت کرکے کام کرنا ہے۔ جولوگ ایسا کریں، وہی اِس دنیا میں کامیابی کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اور جو لوگ ایسا نہ کریں، اُن کے لیے اِس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
9 مئی 2009 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں خدا کے وجود کے موضوع پر انگریزی زبان میں آپ کی ایک تقریر تھی۔ میں اِس تقریر میں شروع سے آخر تک شریک رہا۔میں نے دیکھا کہ سامعین نے خدا کے وجود پر دئے گئے سائنسی دلائل سے پورا اتفاق کیا۔تاہم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ہندو خاتون نے تقریر کے بعد مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب کی بات سے مجھ کو پورا اتفاق ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ خدا کے وجود پر سائنسی دلائل کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ خدا تو ہمارے اندر موجود ہے۔ براہِ کرام، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)
جواب
مذکورہ خاتون نے جو بات کہی، وہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ اصل یہ ہے کہ خدا کے بارے میں دو الگ الگ تصور (concept) پائے جاتے ہیں۔ ایک ہے، توحید (monotheism) ، یعنی خدا کو ایک شخصی وجود (personal God) کے طور پر ماننا۔ اور دوسرا ہے تصورِ وحدتِ وجود(monism) ، یعنی خدا کو غیرشخصی ہستی(impersonal God) کے طورپر ماننا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو کچھ دوسرے لوگ داخل میں بسا ہوا خدا (indwelling god) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
وحدتِ وجود کو سنسکرت میں اُدوئت واد کہا جاتا ہے۔ اِس تصور کے مطابق، خدا صرف ایک اسپرٹ ہے، جس طرح قوتِ کشش (gravity) ایک اسپرٹ ہے۔ وحدتِ وجود کے نظریے کو اگر چہ مسلم صوفیوں نے اختیار کرلیا، لیکن میرے نزدیک وہ سرتاسر ایک بے اصل (baseless) نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ وجود کوئی مذہبی تصور نہیں، وہ صرف ایک فلسفیانہ تصور ہے جس کو مذہب میں شامل کرلیاگیا ہے۔ اسی بنا پر ہندو مذہب میں اِس اعتبار سے سخت تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ ایک طرف وہ نِراکار خدا (formless god) کو مانتے ہیں اور دوسری طرف وہ دیوتاؤں کی مورتی بنا کر اُس کو آکار(form) کا درجہ دئے ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے میں سائنس نے کائنات کا جو مطالعہ کیا ہے، اُس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام میں ایک برتر ذہن (superior mind) کام کررہا ہے، جس کو ایک سائنس داں نے شعوری وجود (conscious being) کا نام دیا ہے۔ اِس طرح سائنس کی دریافتوں نے وحدتِ وجود کے تحت مفروضہ تصورِ خدا کی مکمل طور پر تردید کردی ہے، جس طرح اُس نے زمین مرکزی (geo-centric) شمسی نظام کی تردید کردی تھی۔ اِس کے برعکس، سائنس کی دریافتیں پورے معنوں میں عقیدۂ توحید کے تحت بیان کردہ تصورِ خدا کی علمی تصدیق بن گئی ہیں۔
سوال
موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں اسلام کی تعبیرات (interpretations) پیش کررہے ہیں۔ اِس طرح اسلام کے بہت سے تصورات بن گئے ہیں۔ اِس صورتِ حال کو دیکھ کر عام انسان سخت پریشان ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس کے تصورِ اسلام کو درست سمجھے، اور کس کے تصورِ اسلام کو نا درست۔ براہِ کرم، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری الرسالہ، سری نگر، کشمیر)
جواب
یہ سوال عام طورپر وہ لوگ کرتے ہیں جن کا مطالعہ اسلام کے بارے میں بہت کم ہوتا ہے۔ وہ مختلف لوگوں کی بات سنتے ہیں اور مختلف قسم کی کتاب اپنی مادری زبان میں پڑھتے ہیں۔اُن کے اندر تجزیہ اور محاکمہ (analysis) کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اپنی اِس کمی کی بنا پر وہ اسلام کے بارے میں کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اِس قسم کے لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے— یا تو وہ اپنی دوسری مصروفیتوں کو چھوڑ کر عربی زبان سیکھیں اور پھر براہِ راست طورپر اسلام کا تفصیلی مطالعہ کریں۔ اِس گہرے مطالعے کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچیں، اُس کو اختیار کرلیں- لیکن اگر وہ اِس قسم کے تفصیلی مطالعے کا موقع نہ رکھتے ہوں تو اُن کے لیے دوسرا انتخاب صرف یہ ہے کہ وہ کسی عالم کو اپنا رہنما بنا لیں۔ مختلف علماء میں سے جس عالم کے علم اور اخلاص پر اُن کو اعتماد ہو، وہ اُس کو پکڑ لیں۔ وہ اس کی کتابوں کو پڑھیں اور جہاں ضرورت ہو، اُس سے رجوع کریں۔ اِن دو کے سوا جو طریقہ وہ اختیار کریں گے، وہ صرف اُن کی گم راہی کو بڑھائے گا، وہ اُن کو ہدایت تک پہنچانے والا نہیں۔
عجیب بات ہے کہ اکثر لوگ اِس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ وہ مختلف علماء اور غیر علماء سے اپنے سوالات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ چوں کہ اُن کے اندر محاکمہ کی صلاحیت نہیں ہوتی، اِس لیے وہ ہمیشہ خیالات کے جنگل میں جیتے ہیں اور ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ جو آدمی کنفیوژن کا شکا رہو، وہ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہے گا، اور بے یقینی آدمی کو اِس سے محروم کردیتی ہے کہ وہ سچائی کو دریافت کرے اور اُس پر یقین کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اخبار ’’پربھات‘‘ (میرٹھ، یوپی) کا اردو ایڈیشن (صبا پربھات) نکل رہا ہے۔ یہ اخبار کے لیے گویا کہ ایک نئی پہل ہے۔ میری دعا ہے کہ اخبار کی یہ نئی پہل ہراعتبار سے کامیاب ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی اخبار کا پہلا مقصدیہ ہونا چاہیے کہ وہ وقت کے حالات کی صحیح رپورٹنگ کرے، وہ لوگوں کے اندر درست سوچ پیدا کرے۔ اخبار کسی سماج کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ’’پربھات‘‘ کا ہندی ایڈیشن اور اس کا اردو ایڈیشن دونوں اِس معیار پر پورے اتریں گے۔
اِس وقت ہمارے ہندستانی سماج کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ تعمیری سوچ ہے۔ جس سماج کے لوگوں میں تعمیری سوچ ہو، وہی لوگ اچھا سماج بناتے ہیں۔ افراد کے اندر تعمیری سوچ کے بغیر کوئی سماج اچھا سماج نہیں بن سکتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں ہمیشہ مختلف قسم کی باتیں پیش آتی ہیں، خوش گوار باتیں بھی اور ناخوش گوار باتیں بھی۔ اِس معاملے میں اخبار کا کام ایک ریفارمر (reformer)کا کام ہے۔ اخبار کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اچھی باتوں کو نمایاں کرے اور لوگوں کے اندر یہ مزاج پیدا کرے کہ اگر اُن کو اپنی زندگی میں کچھ ناگوار باتوں کا تجربہ ہو تو وہ اُن کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کریں، وہ ہر حال میں اعتدال کے اصول پر قائم رہیں۔ اِس طرح کے مزاج کو فروغ دینا ہی سب سے بڑا تعمیری کام ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اخبار ’’پربھات‘‘ صحافت کے میدان میں یہی تعمیری رول ادا کرے گا۔
نئی دہلی، 2 اپریل 2009 دعاگو
وحید الدین
واپس اوپر جائیں
1 - نئی دہلی کے انگریزی اخبار ڈی این اے (DNA) کے سینئر اسٹنٹ ایڈیٹر مسٹر پارسا (Parsa Venkateshwar Rao Jr.) نے 18 اپریل 2009 کو صدر اسلامی مرکزکا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع جِزیہ تھا۔ جزیہ کے بارے میں اسلام کا اصول بتایا گیا ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ آج کل طالبان جزیہ کا قانون جس طرح نافذ کررہے ہیں، وہ اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں۔
2 - صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمۂ قرآن Book Expo America, J. J. Center, New York میں تقسیم کیا گیا۔ یہ تقسیم تحریک ترسیل قرآن کی طرف سے عمل میں آئی۔لندن بک فیر (
3 - نئی دہلی کی ایک آئی اسپیشلسٹ(Dr. S. Mazumdar) کو قرآن کے انگریزی ترجمے کا ایک نسخہ دیا گیاتووہ بہت خوش ہوئیں ۔ انھوں نے اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا :
How lovely, I was very much wanting to have a copy of the Quran in my house.
4 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، انیکسی (نئی دہلی) میں 9 مئی 2009 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی( کے مشترک تعاون سے ہوا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کے خطاب کے لیے کیاگیا تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا: How to Discover God?
صدر اسلامی مرکز نے اِس موقع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ اِس پروگرام میںاعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور مسلم دونوں طبقے کے افراد بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ ان لوگوں کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔
5- Maulana, This is one of the examples how a group of sisters here working among themselves to educate themselves from the books written by you. This sister sends one or two page articles from one of your books from www.alrisala.org as GEM OF THE DAY as an attachment. This will go a long way in re-engineering of the minds of the people she is targeting to. This particular sister also sends articles from the “Spiritual Message” to college students so that the students share these articles through a social networking website called “Face Book”. Really this is a revolutionary step that will help in bringing a change in the people’s perception of God and Religion. I cannot stay without mentioning about sister Bushra who has strength, stamina, and dedication in successfully bringing the Saturday and Sunday Spiritual classes on Ustream Website for the benefit of the world audience. She is multi-talented person.
We, all working here and over there, need your Du’a to continue to work to convey the message of Islam, the duty entrusted to us by our beloved prophet, to the people around the world. (Kaleem, USA)
6 - صدر اسلامی مرکز سے دینی، علمی اور فکری استفادے کے لیے دنیا کے مختلف مقامات سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ مارچ 2008 سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یہ علماء کی آمد کا سلسلہ ہے۔ ہندستان کے مختلف مقامات کے علماء، خاص طورپر ساؤتھ انڈیا کے علماء برابر صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کررہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے طورپر قیام و طعام کا انتظام کرکے دہلی میں ٹھیرتے ہیں اور دن کے مختلف اوقات میں صدر اسلامی مرکز کے حلقے میں شریک ہو کر ان سے تربیت لیتے ہیں۔ یہ علماء پہلے سے مختلف دینی اور دعوتی کاموں میں شامل رہے ہیں، مگر ان کا بیان ہے کہ صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کرنے کے بعد ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ ہم نے پایا کہ اس سے پہلے ہم صرف مظاہر ِدین پر کھڑے ہوئے تھے۔ اب ہم حقیقی دین سے متعارف ہوئے ہیں۔ مزید انھوںنے کہا کہ ابتداء ً کئی مہینے تک ہم نے خالص تنقیدی انداز میں مطبوعات الرسالہ کا گہرا تقابلی مطالعہ کیا۔ ہم نے اپنے مطالعے میں پایا کہ الرسالہ کا لٹریچر قرآن اور سنت کو معیار بنا کر تیار کیا گیا ہے۔ دینی اعتبار سے اِس میں شبہہ کی کوئی گنجائش نہیںہے۔ جو فرق ہے، وہ صرف اسلوب کا فرق ہے، یعنی قرآن اور سنت کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں بیان کرنا۔ یہ حضرات الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ کو بڑے پیمانے پر دوسرے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔
7. Mualana Sahab! Thank you for your co-operation. You have given me healthy guidance through positive dose by your literature. I have got positive Islam. Before your guidance, I had been far away from Islam. I wish you may live long. (Makhmoor Alam Ranchwi, West Bengal)
8- My father is a doctor and was a member of Jamat-e-Islami in Pakistan, when he read your book “Mazhab aur Jadid Challenge” in 1990, he was inspired, and then he read and reread almost all of your books, from 1997 he started teaching us 10 to 15 verses of Quran from Tazkirul Quran daily, and this process is continuing till now I, my younger brother and my friends do dawa work in colleges, libraries and in many public areas, whenever we get a chance, the mission of building my future (akhirat) is very much important than all of my material needs. This is all done because of your Dawa Work. I regularly wait for Alrisala monthly and when I recieve it, I study it between the lines, and share it with my friends. I have discovered Islam, I have discovered Allah and I have discovered myself. Your article published in Alrisala Sep. 2008 (On the Threshhold of Doomsday) has brought revolution to many of my friend’s lives. Today I studied Alrisala Feb 2009, the trip to Cyprus, was very spiritual and intellectual. I cried and wept while reading it, because I think that almost all the people are not aware from the reality. (Salman, Pakistan)
9 - مکرمی و محترمی مولانا صاحب، آپ کے بارے میں میرے ذہن میں متضاد رائیں تھیں۔ بھلا ہو میرے سمدھی شکیل احمد خاں کا جنھوںنے ’’الرسالہ‘‘ میرے نام جاری کروادیاہے۔ الرسالہ پڑھ کر میری غلط فہمی دور ہوئی۔ الرسالہ قابل قدر مضامین سے بھر پور پرچہ ہے۔ پڑھنے کے قابل ہوتا ہے۔1973 سے امریکا میں ہوں ۔ متعدد رسائل اردو اور انگلش پڑھتا رہتا ہوں، لیکن الرسالہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ خصوصاً قبرص کاسفر (فروری 2009 )۔ اِس کے علاوہ، جون 2009 کے شمارے میں ’’حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ‘‘ بہت ہی معلوماتی مضمون ہے۔ (مقبول رضوی، شکاگو، امریکا)
10- I have looked at the new Quran translation (translated by Maulana Wahiduddin Khan). It is a good translation, and the best we have for dawah in terms of content:
ک The samll size may give the impression that this is a quick read.
ک Cost. We can more easily make this av ailable for free, such as when people walk in to our premises, at dawah tables, etc. (Shabir Ally, Canada)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.