قرآن کی سورہ نمبر 3 میںاہلِ جنت کے تذکرے کے تحت ارشاد ہوا ہے: فالّذین ہاجروا وأخرجوا من دیارہم وأوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقُتلوا لأکفرنّ عنہم سیّآتہم ولأدخلنہم جنّٰت تجری من تحتہا الأنہار، ثواباً من عند اللّٰہ، واللّٰہ عندہ حسنُ الثواب (آل عمران:
اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ ماضی کے صیغے میں ہے، وہ مستقبل کے صیغے میں نہیں ہے، یعنی اِس کامطلب یہ نہیں ہے کہ آئندہ قیامت تک جنت میں جانے والے صرف وہ لوگ ہوں گے جو ہجرت کریں، جو اپنے وطن سے نکالے جائیں، جن کو ستایا جائے، جو لڑیں اور مارے جائیں۔ یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان کی سرگزشت ہے، وہ ہر دور کے اہلِ ایمان کا معاملہ نہیں۔ اِس آیت میں معاصر اہلِ ایمان کی صفات بتائی گئی ہیں، نہ کہ مطلق معنوں میںہر دور کے اہلِ ایمان کی صفات۔
اصل یہ ہے کہ اسلام میں جن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہیں۔ لیکن ہجرت اور اخراجِ وطن اور ایذا رسانی اور قتال جیسی چیزیں عملی نوعیت کی چیزوں کا کوئی ابدی نقشہ نہیں ہوتا۔ مثلاً موجودہ زمانے میں جب کہ حالات بدل چکے ہیں، اہلِ ایمان کے ساتھ ہر قسم کے واقعات پیش آئیں گے، لیکن عملی اعتبار سے اُن کی شکلیں مختلف ہوں گی۔ آیت میں جن چیزوں کا ذکر ہے، آئندہ بھی اہلِ ایمان کی زندگی میں اُن کا اعادہ ہوتا رہے گا، تاہم یہ اعادہ معناً ہوگا، نہ کہ شکلاً۔اِس قسم کی آیتیں حالات کے اعتبار سے دوبارہ منطبق (apply) ہوتی رہیں گی۔ اُن کی ابدیت انطباق کے اعتبار سے ہے، نہ کہ ظاہری الفاظ کے اعتبار سے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں یہود کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: ضُربت علیہم الذلۃ أین ما ثُقفوا إلا بحبل من اللہ وحَبْل من الناس (اٰل عمران:
قرآن کی اِس آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہے اورنہ اُس کا تعلق صرف یہود سے ہے۔ اُس کا تعلق مسلمانوں سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ یہود سے۔ اِس آیت میں دراصل یہود کے حوالے سے فطرت کے ایک قانون کو بیان کیا گیا ہے۔وہ قانون یہ ہے کہ کسی اہلِ کتاب گروہ کے اندر اگر صحیح اسپرٹ زندہ ہو تو وہ خدا کی کتاب سے اپنی زندگی کے لیے رہنمائی حاصل کرے گا۔ اور اگر اس کے اندر صحیح اسپرٹ باقی نہ رہے، تو وہ انسان کے قائم کیے ہوئے نظام میں اپنے معاملات کا حل تلاش کرے گا۔
یہ بات موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج کل ہندستان کے ہر شہر میں مسلمانوں کے جلسے ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کے رہنما اخباری بیانات دے رہے ہیں۔ اِن جلسوں اور تقریروں میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہم کو جمہوری حقوق سے محروم کردیا گیا۔ دستور کے مطابق، شہریوں کے لیے جو جمہوری حقوق ہیں، وہ ہم کو دیے جائیں۔ یہ ’’حبلُ الناس‘‘ کے ذریعے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔ اگر اِن لوگوں کے اندر صحیح اسپرٹ زندہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کو قرآن کی آیت (المائدۃ:
خدا کے نزدیک محبوب قوم وہ ہے جو خدا کی کتاب کو اپنی زندگی کے لیے رہنما بنائے، اور خداکے نزدیک مبغوض قوم وہ ہے جو خدا کی کتاب کے علاوہ اپنے لیے رہنمائی تلاش کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت جندب بن عبد اللہ البَجَلی سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: کنّا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونحن فتیان حَزاوِرۃ، فتعلّمنا الإیمان قبل أن نتعلّم القرآن، ثم تعلّمنا القرآن فازددنا بہ إیماناً (ابن ماجہ، مقدمہ؛ حیاۃ الصحابہ،
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو جاننے کا اصل ذریعہ قرآن ہے۔ لیکن قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن کے مطابق ذہن ہونا ضروری ہے۔ دورِ اول کے مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہتے تھے تو ہر موقع پر آپ اُنھیں نصیحت کی کوئی بات بتاتے تھے۔ اِس طرح صحبت کے ذریعے اُن کی ذہن سازی ہوتی رہتی تھی۔ اِس کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ جب وہ قرآن کو پڑھیں تو وہ قر آن کو اس کی اصل اسپرٹ کے ساتھ سمجھتے جائیں، قرآن اُن کے ذہن میں پوری طرح بیٹھتا چلا جائے۔
جیسا کہ معلوم ہے، صحابہ کی مادری زبان وہی تھی جو قرآن کی زبان ہے، یعنی عربی زبان۔اِس کے باوجود یہ ضرورت پیش آئی کہ پہلے اُن کا ذہن بنایا جائے، اِس کے بعد اُن کو قرآن سکھایا جائے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے صرف قرآن کی زبان جاننا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اُس کے ساتھ لازمی طورپر یہ بھی ضروری ہے کہ قاری کے اندر مطلوب ذہن موجود ہو۔
واپس اوپر جائیں
روایات میں آیا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت اُبی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیا آپ کبھی کانٹے دار جھاڑیوں والے راستے سے گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ پھر آپ نے اُس وقت کیا کیا۔ عمر فاروق نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور کانٹوں سے بچتا ہوا گزر گیا (شمّرتُ واجتہدتُ)۔ ابی ابن کعب نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے (قال: فذالک التقویٰ)۔
اِس روایت سے تقویٰ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ تقویٰ دراصل یہ ہے کہ آدمی اِس دنیا میں ہر قسم کے فتنوں سے بچتاہوا گزر جائے۔ تقویٰ کو ایک لفظ میں محتاط طریقہ (cautious approach) کہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں ہر وقت مختلف قسم کی ترغیبات (temptations) ہوتی ہیں، مختلف قسم کے چھوٹے یا بڑے فتنے پائے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں، تقویٰ کی روش یہ ہے کہ آدمی اُن سے بچتا ہوا گزرے، وہ ہر موقع پر پرہیزگارانہ طریقہ، یا محتاط طریقہ اختیار کرے۔
تقویٰ کی اِس روش پر قائم رہنے کے لیے دو چیزیں بہت زیادہ ضروری ہیں— سنجیدگی اور محاسبہ،یعنی چیزوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا اور ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا۔ یہی دونوں صفتیں اِس بات کی ضامن ہیں کہ آدمی تقویٰ کے راستے پر قائم رہے گا، وہ غیر متقیانہ روش اختیار کرنے سے بچا رہے گا۔
تقویٰ کسی ظاہری وضع قطع کا نام نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ تقویٰ کا تعلق دل سے ہے (التقویٰ ہٰہنا، و یُشیر إلیٰ صدرہ۔ صحیح مسلم، کتاب البرّ) جو آدمی گہرائی کے ساتھ معاملات پر غور کرے گا، وہی تقویٰ کی روش پر قائم رہے گا۔ تقویٰ حقیقت میں ایک داخلی کیفیت کا نام ہے۔ داخلی طورپر اگر آدمی متقی نہ ہو تو کوئی بھی خارجی فارم خدا کے نزدیک اُس کو متقی کا درجہ نہیں دے سکتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ: إنّ اللہ لا ینظر إلی أجسامکم ولا إلی صُورکم، ولٰکن ینظر إلی قلوبکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب تحریم ظلم المسلم)۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی کتابوں صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ، اورمسند احمد میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عن أبی أیوب الأنصاری أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لایحلّ لرجل أن یہجر أخاہ فوق ثلاث لیال، یلتقیان فیُعرض ہٰذا ویُعرض ہٰذا، وخیرہما الّذی یبدأ بالسلام (کتاب الأدب، باب الہجرۃ) یعنی ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ ے رہے۔ دونوں ملیں اور پھر وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر لیں۔ دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
انسانی تعلقات میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے۔ دونوں کے درمیان ناگواری بڑھتی ہے، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے ترکِ تعلق کرلیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملنا اور سلام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ طریقہ اسلامی شریعت میں جائز نہیں۔ ایسا کرنے والے لوگ سخت گنہ گار ہیں، وہ خدا کے یہاں اِس کے لیے پکڑے جائیں گے۔
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر دونوں کے درمیان تلخی کا سبب غلط فہمی ہے تو غلط فہمی کو دور کرکے تعلق کو درست کرلیا جائے۔ اور اگر ایک آدمی دوسرے کے بارے میں یہ سمجھے کہ وہ بددیانت ہے تو ایسی حالت میں اُس کے لیے صرف یہ جائز ہے کہ وہ اُس سے مزید کوئی عملی معاملہ نہ کرے۔ لیکن جہاں تک ظاہری تعلق یا سلام وکلام کی بات ہے، وہ بدستور جاری رہنا چاہیے۔
اِس طرح کے معاملات میںآدمی کو چاہیے کہ وہ سماجی تعلق کو بدستور برقرار رکھے۔ اِس کے آگے کا جو معاملہ ہے، وہ اُس کو خدا کے حوالے کردے۔ اِس طرح کے معاملے میں کسی سے سلام وکلام بند کرنا شکایت کو نفرت تک پہنچانا ہے، اور شکایت کو نفرت تک پہنچانا کسی کے لیے جائز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ابلیس، انسان کا دشمن ہے۔ لیکن ابلیس کویہ اختیار نہیں کہ وہ انسان کے خلاف کوئی جارحانہ (agressive) کارروائی کرے۔ابلیس کے بس میں صرف ایک چیز ہے، اور وہ ہے انسان کے ذہن میں وسوسہ ڈالنا، انسان کو فکری اعتبارسے بہکانا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے خلاف ابلیس کی کارروائیاں ہمیشہ ذہنی سطح(intellectual level) پر ہوتی ہیں، نہ کہ جسمانی سطح (physical level) پر۔ ابلیس کے فتنوں سے بچنے کے لیے انسان کو ذہنی تحفظ کی ضرورت ہے، نہ کہ جسمانی تحفظ کی۔
شیطان کی وسوسہ اندازی کا طریقہ کیا ہے، اس کو قرآن میں تزئین اعمال (الحجر:
قرآن کے مطابق، ابلیس نے آدم کی تخلیق کے وقت کہا تھا کہ میں تمام انسانی نسل کو بہکاؤں گا۔ میں تمام انسانوں کے ذہن کو اپنی تزئین کے ذریعے متاثر کرکے اُنھیں ایسا بنادوں گا کہ وہ غلط استدلال کو صحیح استدلال کے روپ میں دیکھیں گے:
I will make people see false argument as valid argument.
شیطان کی طرف سے فکری گم راہی کا یہ عمل پوری انسانی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ گھریلو زندگی سے لے کر باہر کی زندگی تک ہر جگہ اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کے اعتبار سے برائی میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کی تبریر (justification) کے لیے وہ خوب صورت الفاظ پالیتے ہیں۔ وہ اپنے منفی عمل کو مثبت الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے تخریبی کام کے لیے تعمیری الفاظ پالیتے ہیں۔ وہ اپنی انسان دشمن سرگرمیوں کو انسان دوست سرگرمیوں کا عنوان دے دیتے ہیں۔ اِسی کا نام تزئین ہے، اور یہ تزئین ہمیشہ ابلیس کی مدد سے انجام پاتی ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو انسانوں کی اکثریت نے اپنے دشمن کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی کے ایک پروفیسر نے کہا کہ آپ لوگ قرآن کو خطا سے بَری (infallible) کتاب سمجھتے ہیں۔ یہ بات ہمارے جیسے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔جدید ذہن کسی کتاب کے بارے میں اِس قسم کا عقیدہ نہیں رکھ سکتا۔ موجودہ زمانہ سائنٹفک سوچ کا زمانہ ہے۔ کوئی عقیدہ جو سائنٹفک فریم ورک کے مطابق نہ ہو، اُس کو آج کا انسان تسلیم نہیں کرے گا۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ کوئی بات جو اپنی نوعیت میں پُر اسرار ہو، وہ جدید ذہن کی سمجھ میں نہیںآتی۔ ایسی بات کو وہ توہم (superstition) کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ایسے لوگوں کے لیے اِس حقیقت کو کس طرح قابلِ فہم بنایاجائے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے اندر لاریب فیہ کی صفت رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب کے ذہن کو سمجھنے کے بعد میں نے اُن سے کہا کہ اِس معاملے پر آپ دوسرے انداز سے غور کریں تو یہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔میںنے خود اپنے تجربات کو بتاتے ہوئے اُن سے کہا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو عقلی جانچ (scrutiny) کے معیار پر پورا اترتا ہے:
Quran stands rational scrutiny.
اِس کے بعد میںنے کہا کہ خود قرآن میں اِس کتاب کی صداقت کا جو معیار بتایا گیا ہے، وہ عقلی معیار ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے کہ قرآن میں کوئی اختلاف (النساء:
واپس اوپر جائیں
آرین مذاہب میں وحدتِ وجود (monism) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کے مطابق، خدا کا اپنا کوئی فارم نہیں ہے۔ وہ ایک نراکار خدا (formless God) ہے۔ اِس تصور کے مطابق، خدا کی اپنی کوئی الگ ہستی نہیں ہے۔ دنیا میں جو چیزیں دکھائی دیتی ہیں، وہ سب کی سب اِسی بے وجود خدا کا وجودی اظہار ہیں۔ یہ تصور دراصل ایک فلسفیانہ تصور ہے۔ فلاسفہ عام طورپر اِسی معنیٰ میں خدا کو مانتے رہے ہیں۔ وہ خدا کو اسپرٹ (spirit) یا آئیڈیا (idea) جیسے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ یہی فلسفیانہ تصور آرین مذاہب میںایک عقیدے کے طورپر شامل ہوگیا۔
خدا کا یہ غیر وجودی تصور محض ایک بے بنیاد قیاس (speculation) ہے۔ حقیقی معنوںمیں اس کی کوئی استدلالی بنیاد موجود نہیں۔ پہلی بات یہ کہ تخلیق کی صورت میں ہم جس کائنات کا تجربہ کرتے ہیں، وہ پورے معنوں میںایک فارم (form) ہے۔
یہ کہنا ایک غیر منطقی بات ہے کہ ایک خدا جو محض ایک اسپرٹ یا آئڈیا تھا، جس کی اپنی کوئی ہستی نہ تھی، اس نے اتنے بے شمار قسم کے فارم پیدا کردیے۔ خدا وہی ہے جس کے اندر تخلیق کی صفت پائی جاتی ہو، اور اسپرٹ یا آئڈیامیں تخلیق کی صفت سرے سے موجود نہیں۔ اِس لیے یہ نظریہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے:
Prima facie it stands rejected.
سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، اس کی تمام چیزیں ایٹم سے مرکب ہیں۔ اس کو لے کر کہا جاتا ہے کہ سائنس کے مطالعے سے کائنات میںوحدت (oneness) کا ثبوت ملتا ہے، یعنی تمام مادی چیزوں میں استثناء کے باوجود یکسانیت (unifortmity amids exception)مگر یہ استدلال درست نہیں۔ کائنات میں مادّی اجزا کے اعتبار سے ضرور وحدت ہے، لیکن اِن مادی اجزا کی ترکیب سے جو چیز بنی، اس کے اندر غیر معمولی ڈزائن (design) موجود ہے، اور ڈزائن صرف ایک ذہن کی تخلیق ہوتی ہے، نہ کہ کسی بے فارم اسپرٹ کی تخلیق۔
واپس اوپر جائیں
ایک مومن وہ ہے جو رُٹین کی دین داری سے بنتا ہے۔ یہ وہ مومن ہے جس نے کلمہ پڑھا ہو، جو مقرر عبادتیں کرے، جو اخلاق ا ور معاملات میں شریعت کا پابند ہو،جو مومنانہ وضع قطع اختیار کرے۔ اِس قسم کی دین داری رٹین کی دین داری ہے۔ یہ دین داری بھی بلاشبہہ مطلوب ہے، لیکن اِس قسم کی دین داری سے وہ مومن نہیں بنتا جس کو اعلیٰ مومن کہاجاتا ہے۔ اعلیٰ مومن کیسے بنتا ہے، اس کو اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز (وفات:
یہ انقلابی واقعہ کیسے پیش آیا، اِس کو برین اسٹارمنگ (brainstorming) کے نظریے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ آدمی کو جب کوئی سخت جھٹکا لگتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک بھونچال آجاتا ہے۔ اس کے دماغ کے تمام امکانات جاگ اٹھتے ہیں۔ پہلے اگر وہ انسان تھا تو اب وہ سُپر انسان بن جاتا ہے۔ اُس کے اندر انتہائی شدید قسم کا محاسبہ (introspection) جاگ اٹھتاہے۔ اس کا خوفِ خدا اپنی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ ذہنی بھونچال اس کے ایمان کو بڑھاتاہے۔ اِس کے بعد اس کے اندر وہ بے قراری پیدا ہوتی ہے جو اس کو ایمانی ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ وہ خدا سے قربت کا اعلیٰ تجربہ کرتاہے۔ وہ تقویٰ کے بلند ترین مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ رٹین کی دین داری سے کسی آدمی کے اندر ایمانی انفجار پیدا نہیں ہوتا، اِس لیے رٹین کی دین داری سے کسی کو اعلیٰ ایمان کا تجربہ بھی نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانے میں انسان صرف برہنہ آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔ اُس وقت آسمان کے بارے میں انسان کا تصور بہت محدود تھا۔ برہنہ آنکھ سے صرف یہ نظر آتا تھا کہ آسمان میںتقریباً پانچ ہزار چھوٹے چھوٹے ستارے موجود ہیں۔ اِس کے بعد اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642 ) نے 1609 میں پہلی بار دوربین کے ذریعے آسمان کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ آسمان کے ستارے اپنے سائز اور تعداد کے اعتبار سے اُس سے بہت زیادہ ہیں جتنا کہ وہ خالی آنکھ سے دکھائی دیتے تھے۔گلیلیو کی دور بین ابتدائی دور کی بہت چھوٹی دور بین تھی۔ اِس کے بعد اِس فن میں کافی ترقی ہوئی۔
کیلی فورنیا (امریکا) میں پیلومر پہاڑی (Mount Palomar) کے اوپر 1949 میںایک بڑی دوربین نصب کی گئی جس کا ڈائی میٹر (diameter) 200 انچ تھا۔ اِس دور بین کے ذریعے ممکن ہوگیا کہ بہت زیادہ دور تک آسمانی اجرام کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ اِس کے بعد 1990 میں امریکا نے ہبل ٹیلی اسکوپ (Hubble Telescope) تیار کیا۔ ہبل ٹیلی اسکوپ زمینی دور بین نہیں تھی، وہ ایک سیاراتی دور بین تھی۔ وہ زمین سے تقریباً 400 میل اوپر جاکر مسلسل خلا میں گھوم رہی ہے۔ اس میں مخصوص قسم کی دور بین اور کیمرہ لگا ہوا ہے۔ یہ نظام خلا سے حاصل شدہ معلومات اور تصاویر زمینی اسٹیشن پر مسلسل بھیجتا رہتا ہے۔ ہبل ٹیلی اسکوپ نے خلا کے بارے میں انسان کے مشاہدے کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔
یہ مادّی مشاہدے کی بات ہے۔ جس طرح مادی معرفت کے بارے میں انسانی مشاہدے کے مختلف درجات ہیں، اِسی طرح خدا کے بارے میں بھی انسانی معرفت کے مختلف درجات ہیں۔ کسی انسان کو جس درجے کی خدائی معرفت ہوگی، اُسی درجے کا ایمان اس کو حاصل ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی معرفت کے درجات کو بڑھائے، وہ مسلسل اِس کی کوشش کرتا رہے۔ جس طرح خدا کی تجلیات کی کوئی حدنہیں، اِسی طرح معرفتِ خداوندی کی بھی کوئی حد نہیں، کسی آدمی کو جس درجے کی معرفت حاصل ہوگی، اُسی اعتبار سے آخرت کی جنت میں اس کا درجہ مقرر کیا جائے گا، نہ اُس سے کم اور نہ اُس سے زیادہ۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی جانتا ہے کہ اس کی زندگی کی تعمیر میں اس کے والدین کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اِس اعتبار سے، ہر آدمی اپنے والدین کی تعریف کرتا رہتا ہے۔ لیکن ایسے عورت اور مرد نہیں ملتے جو یہ جانتے ہوں کہ ان کی زندگی کی تعمیر میں پوری انسانیت کا حصہ ہے۔ اِس معاملے میں والدین کا حصہ اگر ایک فی صد ہے تو انسانیت ِ عامہ کا حصہ نناوے فی صد۔ لیکن کوئی شخص نہ اِس حقیقت کو جانتا ہے اور نہ وہ اس کا اعتراف کرتا ہے۔
مثلاً جب آپ ایک روٹی کھاتے ہیں تو اس کے حصول میں آپ کے والدین کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہوتا ہے۔ اور انسانیتِ عامہ کا حصہ اس کے حصول میںننانوے فی صد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہزاروں سال کے لمبے تہذیبی عمل کے بعد یہ ممکن ہوا ہے کہ ایک انسان موجودہ صورتِ حال میں روٹی کو دریافت کرے اور اس کو اپنی غذا بنائے۔ یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کا ہے۔ مثلاً کپڑا اور مکان اور سواری اور مشین اور صنعت، وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ جو چیزیں انسان کو ملی ہوئی ہیں، اُن کا ایک حصہ وہ ہے جو براہِ راست عطیہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور دوسرا حصہ وہ ہے جس کی حیثیت بالواسطہ عطیہ کی ہے۔ براہِ راست عطیہ آئس برگ کے ٹپ (tip) کے مانند ہے اور بالواسطہ عطیہ آئی برگ (iceberg)کے مانند۔ بالواسطہ عطیہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن وہ اپنی مقدار کے اعتبار سے، براہِ راست عطیہ سے بہت زیادہ ہے۔ لوگ صرف ظاہری عطیہ کو جانتے ہیں۔ اِس لیے وہ بہت کم شکر یا اعتراف کرپاتے ہیں۔ اگر وہ بالواسطہ عطیہ کو جان لیں تو ان کا شکر و اعتراف بہت زیادہ بڑھ جائے ۔ وہ سارے انسانوں سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرنے لگیں جو محبت وہ اپنے ماں باپ سے کرتے ہیں۔
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت شکر ِ کثیر اور اعترافِ کثیر ہے۔ لیکن جو انسان مذکورہ حقیقت سے بے خبر ہو، وہ شکر ِ کثیر کی عبادت سے بھی محروم رہے گا اور اعترافِ کثیر کی عبادت سے بھی۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میںلوگوں کو دیکھئے تو ہر عورت اور ہر مرد مشغول (busy)نظر آئیں گے۔ لوگوں کی یہ مشغولیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی اور بات سننے کے لیے فرصت نہیں۔ لوگوں کے پاس اپنے وقت اور اپنے پیسے کا ایک ہی استعمال ہے، یہ کہ وہ اپنے وقت اور اپنے پیسے کو اپنی مطلوب منزل تک پہنچنے کے لیے پوری طرح لگا دیں۔
لوگوں کی یہ مشغولیت کس کام کے لیے ہے، وہ کام صرف ایک ہے— اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا، اپنے دنیوی مستقبل کی تعمیر کرنا۔ لیکن موت اس نظریۂ حیات کی تردید ہے۔ ہر آدمی کا آخری انجام یہ ہے کہ وہ بہت جلد مرجاتا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا کو مکمل طورپر چھوڑ دیتا ہے ۔ اب وہ تنہا ایک ایسے عالم کی طرف چلا جاتا ہے، جہاں کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔
ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ پیداہونے کے بعد جب وہ موجودہ دنیا میںآتے ہیں تو وہ بھی اُسی طرح دنیوی اصطلاحوں میں سوچنے لگتے ہیں، جس طرح اُن کے آس پاس کے لوگ سوچ رہے ہیں۔ وہ بھی اُنھیں مادّی کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں جن میںاُن سے پہلے کے لوگ مشغول چلے آرہے تھے۔ اِسی صورت حال کا یہ نتیجہ ہے کہ مادّی سوچ ، تاریخی تسلسل کا حصہ بن گئی ہے۔ مادی سوچ اِس طرح کلچرل روایت میں شامل ہوگئی ہے کہ اِس سے الگ ہو کر سوچنا بظاہر کسی عورت یا مرد کے لیے ممکن نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان کو حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہ کرنا ہے کہ وہ اس تاریخی تسلسل سے باہر آکر سوچے۔ وہ رواجی کلچر سے الگ ہو کر حقیقت کی بنیاد پر اپنی رائے بنائے۔ جو لوگ ایسا کریں، وہ فوراً یہ دریافت کرلیں گے کہ اصل معاملہ تعمیر دنیا کا نہیں، بلکہ اصل معاملہ تیاریٔ آخرت کا معاملہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں، موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کی تیاری کرے۔ وہ اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ وہ موت کے بعدآنے والے ابدی دورِ حیات میںکامیاب انسان قرار پاسکے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے درمیان جس اخلاقی برائی کا بہت زیادہ رواج ہے، اُن میں سے ایک جھوٹی خیرخواہی ہے۔ جھوٹی خیر خواہی سے مراد باتوں کی خیر خواہی ہے، یعنی خوب صورت الفاظ بول کر لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنا۔ سچی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ عملی اعتبار سے دوسرے کے کام آنے کی کوشش کریں۔ اِس کے مقابلے میں جھوٹی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ خوب صورت باتیں کریں، جب کہ عملی اعتبار سے آپ دوسرے کے لیے کچھ نہ کرنے والے ہوں۔
مجھے اپنی لمبی زندگی میں جھوٹی خیر خواہی کا بار بار تجربہ ہواہے۔ مثلاً 1983 سے پہلے میں پرانی دلّی میں رہتا تھا۔ وہاں ایک صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آتے تھے۔ وہ مجھ سے اکثر یہ کہتے ـتھے کہ آپ کے لیے پرانی دلی میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ آپ تو نئی دہلی کی کسی کالونی میں گھر لے لیجئے۔ میںنے کہا کہ آپ خود نئی دہلی کی کسی کالونی میں ایک گھر خرید کر مجھے دے دیجئے، میںآج ہی وہاں چلا جاتا ہوں۔ اِس کے بعد انھوںنے کہنا چھوڑ دیا۔ اِسی طرح ایک صاحب مجھ سے اکثر یہ کہتے تھے کہ آپ کا مشن بہت زیادہ اہم ہے۔ آپ اپنا ایک ٹی وی چینل قائم کیجئے، تاکہ بڑے پیمانے پر اس کی اشاعت ہوسکے۔ میں نے کہا کہ آپ اس کے لیے مطلوب سرمایہ فراہم کردیجئے۔ میں ٹی وی چینل قائم کردیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔
جھوٹی خیر خواہی کا یہ طریقہ اتنا عام ہے کہ تقریباً ہر شخص کو بار بار اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ اِسی جھوٹی خیر خواہی کو انگریزی میں زبانی ہمدردی (lip service) کہاجاتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اگر کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہو تو وہ کرے اوراگر وہ عملی طورپر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، تب بھی وہ ایک کام کرسکتا ہے اور وہ خدا سے دعا ہے۔ جو آدمی نہ عملی خیر خواہی کرے اور نہ خدا سے دعا کرے، البتہ خوش نما الفاظ بول کر خیر خواہی کا اظہار کرے، وہ بدترین منافقت میں مبتلا ہے، اور منافقت سے زیادہ بری اِس دنیا میں اور کوئی چیز نہیں۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے میں خیر خواہی کا یہی عمومی معیار بن گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ 610ء میں آپ کو پیغمبری ملی۔ اِس کے بعد
This division is in term of place of work, and not in term of nature of work.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حیثیت یہ تھی کہ آپ داعی الی اللہ تھے (الأحزاب:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب 610 ء میں نبوت ملی تو اُس وقت بھی آپ کا مشن دعوت تھا جس کو قرآن میںانذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ آپ مکہ کے اجتماعات میں جاتے اور لوگوں سے کہتے: أیہا الناس، قولوا لا إلہ إلاّ اللہ، تفلحوا (اے لوگو، لا الٰہ الا اللہ کہو، تم فلاح پاؤگے)۔
قریش مکہ اُس وقت آپ کے دشمن ہوچکے تھے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے یک طرفہ طورپر جارحانہ اقدام کرکے آپ کو الجھانے کی کوشش کی، لیکن آپ مختلف تدبیروں کے ذریعے ہمیشہ جنگ کو اوائڈ کرتے رہے۔ صرف تین بار مجبورانہ طورپر اصحابِ رسول اور قریش مکہ کے درمیان ٹکراؤ پیش آیا، بد رمیں اور احد میںاور حُنین میں۔ لیکن آپ کی حکمتِ اعراض کی بنا پر تینوں بار صرف آدھے آدھے دن کی لڑائی ہوئی۔ ایسی حالت میں اِن جنگوں کو جنگ کے بجائے جھڑپیں (skirmishes) کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔جنگ سے اعراض کی یہ پالیسی آپ نے اِسی لیے اختیار فرمائی، تاکہ دعوت کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
مخالفین کی جارحیت کے نتیجے میں آپ کی زندگی میں کچھ جنگی واقعات پیش آئے، لیکن اُس وقت بھی آپ کا کنسرن (concern)تمام تر دعوت الی اللہ ہوتا تھا۔ مثلاً ایک جنگی مہم پر روانہ کرتے ہوئے آپ نے علی بن ابی طالب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ کسی ایک انسان کو تمھارے ذریعے سے ہدایت دے دے تو یہ تمھارے لیے اُن تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے (لأن یہدی اللہ علی یَدیک رجلاً ، خیرٌ لک مما طلعت علیہ الشمس۔ المستدرک للحاکم، 3/690 )۔
اِن جنگی حالات میں بھی محدود طورپر دعوت کا کام جاری تھا، آپ نے چاہا کہ دعوت کا عمل زیادہ کھلے طورپر اور زیادہ وسیع طورپر جاری رہے۔ اِس مقصد کے لیے آپ نے یہ منصوبہ بنایا کہ قریش سے بات چیت کرکے اُن سے امن کا معاہدہ کرلیا جائے۔ چناں چہ حدیبیہ کے مقام پر دونوں گروہوں کے درمیان گفتگو شروع ہوئی۔ یہ گفتگو تقریباً دو ہفتے تک جاری رہی۔ قریش کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ہم معاہدۂ امن کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اِس کے لیے آپ کو یک طرفہ طورپر ہماری شرطوں کو ماننا ہوگا۔ بظاہر یہ نابرابری کا معاہدہ تھا۔ لیکن آپ نے فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان لیا، اِس لیے کہ جنگی حالات ختم ہوجائیں اور دعوت کا عمل کھلے طورپر جاری ہوجائے۔
حدیبیہ کا امن معاہدہ بظاہر پسپائی کا معاہدہ تھا۔ لیکن جب یہ معاہدہ مکمل ہوا تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر
جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، اِس کے بعد جو دعوتی عمل کیاگیا، اُس کے نتیجے میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوگئے۔ معاہدۂ حدیبیہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف چودہ سو افراد موجود تھے، لیکن دو سال کے اندر جب آپ نے دوبارہ مکہ کی طرف مارچ کیا توآپ کے ساتھیوں کی تعداد دس ہزارہو چکی تھی۔ چناں چہ کسی ٹکراؤ کے بغیر خالص پُرامن انداز میں مکہ میں اسلام کا غلبہ قائم ہوگیا۔ غلبہ کے باوجود آپ نے قدیم مخالفین کے ساتھ کوئی منفی برتاؤ نہیں کیا۔ آپ کے اِس پر امن رویّے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ کے تمام لوگ پر امن طورپر اسلام میں داخل ہوگئے۔
مکہ والوں کی طرف سے جب مزاحمت ختم ہوگئی تو آپ نے اس کے بعد کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ آپ نے قدیم مخالفین کو ’’سبق سکھانے کے لیے‘‘ کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ اِس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ عرب کے اطراف میں آباد قبائل کے درمیان خاموشی کے ساتھ توحید کا پیغام پھیلانا شروع کردیا۔ یہ منصوبہ بندی نہایت کامیاب ہوئی۔ قبائل کی طرف سے برابر اُن کے وفود مدینہ آنے لگے۔ آپ نے اِن وفود کے ساتھ نہایت نرمی کا معاملہ فرمایا۔ آپ نے نہایت آسان شرائط کے ساتھ ان سے امن کا معاہدہ کرلیا۔ اِس طرح آپ نے تمام عرب قبائل کو امن کے معاہدات میں شامل کرلیا۔ اِس معاہداتی طریقِ کار کے درمیان پرامن دعوت کا عمل بھی برابر جاری رہا، یہاں تک کہ سارا عرب اسلام کے دائرے میں آگیا۔
اپنی عمر کے آخری حصے میں پیغمبر اسلام ﷺنے حج کا سفر کیا اور حج ادا فرمایا جس کو حجۃ الوداع کہاجاتا ہے۔ اُس وقت آپ کے اصحاب ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں عرفات کے میدان میں موجود تھے۔ آپ نے اُنھیں اپنا آخری پیغام دیا۔ اِس پیغام میںآپ نے نہ جنگ کی کوئی بات کی اور نہ حکومت کی۔ آپ نے اُنھیں پُرامن دعوت کا مشن عطا فرمایا۔ آپ نے کہا کہ اللہ نے مجھے سارے انسانوں کے لیے بھیجا ہے، اِس لیے تم میرے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچا دو (إن اللہ بعثنی کافۃً للناس، فأدّوا عنی)۔
اِس کے بعد آپ کے تمام اصحاب دعوت الی اللہ کی پُرامن اشاعت کے کام میں لگ گئے۔ انھوںنے اُس وقت کی آباد دنیا کے بڑے حصے میں اسلام کے پیغام کو پھیلا دیا۔
واپس اوپر جائیں
اخلاق یا اخلاقیات کا تعلق اُس انسانی موضوع سے ہے جس میںیہ بتایا جاتا ہے کہ سماجی زندگی میں رہتے ہوئے کسی انسان کے لیے کون سا رویہ درست ہے اور کون سا رویہ درست نہیں:
Morality: Principles of right and wrong in conduct.
افراد کے اندر اچھا اخلاق ہونا کسی سماج کو اچھا سماج بناتا ہے۔ اور افراد کے اندر برا اخلاق ہونا کسی سماج کو برا سماج بنا دیتا ہے۔ اخلاق دراصل، داخلی احساس کا خارجی اظہار ہے۔ داخلی سطح پر کوئی انسان جیسا ہوگا، اُس کا اثر اس کے خارجی برتاؤ پر پڑے گا۔ اخلاقی اصلاح کا کام داخلی اصلاح سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ صرف خارجی احکام دینے سے۔
اخلاق کے دو معیار ہیں—ایک ہے، اُس کا کم سے کم (minimum) معیار۔ اور دوسرا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ (maximum) معیار۔ کسی انسان کے بارے میں یہ جاننے کے لیے کہ وہ اخلاق کی کس سطح پر ہے، اِنھیں دونوں معیاروں کی روشنی میں اس کو جانچا جائے گا۔ یہی دونوں معیار ہیں جو کسی انسان کی اخلاقی سطح کا تعین کرتے ہیں۔
اچھے اخلاق کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے درمیان اِس طرح رہے کہ وہ اُن کے لیے مکمل طورپر ایک بے مسئلہ انسان (no-problem person) بن جائے۔ وہ دوسروں کے لیے کسی قسم کی ناگواری(nuisance) پیدا نہ کرے۔ اس کا کوئی رویہ دوسروں کے لیے بے جا مداخلت نہ بنے۔ اخلاق کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے سچا خیر خواہ(true well-wisher) بن جائے۔ اس کے دل میں دوسروں کے لیے وہی شفقت ہو جو اس کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہوتی ہے۔وہ دوسروں کے لیے وہی اچھی زندگی چاہے جو اچھی زندگی وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے۔ وہ ہر موقع پر دوسروں کا مددگار بننے کے لیے تیار ہو۔ اُس کے دل میں دوسروں کے لیے صرف مثبت جذبات ہوں، اس کا دل دوسروں کے لیے ہر قسم کے منفی احساس سے پوری طرح خالی ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کے سابق صدر جارج بش اپنے آخری دورِ صدارت میںعراق گئے، وہاں4 دسمبر 2008کو بغداد میںایک پریس کانفرنس تھی۔ اِس موقع پر ایک عراقی صحافی منتظر الزیدی نے اپنا جوتا نکال کر جارج بش کی طرف پھینکا۔ اِس واقعے پر سارا مسلم ورلڈ جھوم اٹھا۔ ایک عرب دولت مند نے اِس صحافی کو ایک ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا، وغیرہ۔ اِس واقعے کے بعد مسلم دنیا میں ایک نیا احتجاجی کلچر چل پڑا جس کو جوتا کلچر کہاجاسکتا ہے۔ ایک مسلم اخبار نے جوتا پھینکنے کے اِن مناظر کی تصویریں چھاپی ہیں اور اُس پر یہ عنوان قائم کیا ہے:
Shoes that made history.
موجودہ زمانے کے مسلمان منفی سوچ میں جی رہے ہیں۔ مذکورہ واقعہ اِس منفی سوچ کا ایک انتہائی بدنما مظاہرہ ہے۔ اِس جوتا کلچر کا صرف یہ نتیجہ ہوا کہ اس نے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر بگاڑ دی۔ اِس لیے اس کا صحیح عنوان یہ ہونا چاہیے:
Shoes that distorted the image of Islam.
جوتا پھینکنے کا یہ کلچر اپنی حقیقت کے اعتبار سے دوسروں پر جوتا پھینکنا نہیں ہے، بلکہ وہ خود اپنے آپ پر جوتا پھینکنا ہے۔ ایسا کرکے مسلمان دوسروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو ایکسپوز (expose) کررہے ہیں۔ یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے پاس دوسروں کے لیے صرف نفرت کا سرمایہ ہے۔ یہ بلا شبہہ وہی نفسیات ہے جس کا مظاہرہ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے کیا تھا۔ جو لوگ انسان کے خلاف اِس قسم کی نفرت آمیز نفسیات میں مبتلا ہوں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے اِس عمل سے کس کی پیروی کررہے ہیں۔اِس طرح کے افعال بلاشبہہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والے ہیں۔ وہ کسی کو خدا کی رحمت کامستحق بنانے والے نہیں۔ سچا مومن وہ ہے جو انسان سے محبت کرے۔ جو لوگ انسان سے نفرت کریں، وہ سچے مومن نہیں۔ جوتا کلچر انسانی شرافت کے بھی خلاف ہے اور ایمان اور اسلام کے بھی خلاف۔
واپس اوپر جائیں
کچھ مسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ نہایت جوش میں تھے اور ’’غیر قوم‘‘ کے ظلم کی شکایت بیان کررہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم کو اِس ظلم کے خلاف کچھ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اِس معاملے میں آپ کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ آپ اُس کو ظلم سمجھنا چھوڑ دیں۔ آپ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے خود اپنے آپ پر نظر ثانی کریں۔
میں نے کہا کہ آپ سب نوجوان لوگ ہیں۔ اگر میں آپ کو مارنے لگوں تو آپ کیا کریں گے۔ آپ میرے اوپر جوابی حملہ کریں گے اور مار کر چلے جائیں گے۔ اب اگر میں لوگوں سے یہ کہوں کہ کچھ مسلم نوجوان میرے پاس آئے تھے، وہ مجھ کو مار کر بھاگ گئے، تو یہ جھوٹ ہوگا۔ کیوںکہ اصل حقیقت یہ ہوگی کہ میںنے آپ کو مارا، اس کے بعد آپ نے جوابی طور پر مجھ کو مارا۔ ایسی حالت میں اصلی قصور وار میںہوں۔ اگر میں اپنی بات نہ کہوں اور آپ نے جو کچھ کیا، میں صرف اُس کو دہراؤں تو یہ اصل واقعے کے نصف حصے کو دہرانا ہوگا۔ یہ کہانی کے نصف اول (first half) کو چھوڑ کر اس کے نصف ثانی (second half) کا چرچا کرنا ہوگا، اور اِس طرح نصف ثانی کا چرچا کرنا، عقل کے بھی خلاف ہے، اور اسلام کے بھی خلاف۔
موجودہ زمانے کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ اِسی کے مطابق لکھتے اور بولتے ہیں۔ وہ نصف ثانی کی سیاست چلارہے ہیں۔ اِس قسم کی سیاست اور صحافت، یا اِس قسم کا جلسہ اور جلوس بلا شبہہ لغو بھی ہے اور غیر مفید بھی۔ عقل اور شریعت کے اعتبار سے وہ ایک مجرمانہ کام کی حیثیت رکھتا ہے، اور نتیجے کے اعتبار سے وہ سرتاسر بے فائدہ کام ہے۔ اس قسم کی نصف ثانی کی سیاست کاکوئی مثبت نتیجہ اِس دنیا میں نکلنے والا نہیں۔ مزید یہ کہ آخرت کے اعتبار سے وہ ایک گناہ کا کام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں وہ تطفیف (المطففین:1 ) ہے۔ اور قرآن کے مطابق، جو لوگ تطفیف کا عمل کریں، اُن کے لیے قانونِ الٰہی میں صرف وَیل مقدر ہے، نہ کہ کوئی خیر۔
واپس اوپر جائیں
شور(noise) ایک مسئلہ ہے۔ شور ایک برائی ہے۔ شور ایک کثافت ہے۔ مو جودہ زمانے میں جن چیزوں کو کثافت سمجھا جاتا ہے، اُن میں سے ایک شور کی کثافت (noise pollution) بھی ہے۔ شور اُسی طرح تباہی پیدا کرتا ہیجسطرح کوئی بم دھماکہ (bomb explosion) تباہی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ شور کے دھماکے اور بم کے دھماکے میںصرف ظاہری فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے اِن دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میں شور کا مسئلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے— لاؤڈ اسپیکر کا شور، جلسوں اور نعروں کا شور، مشینوں کا شور، گاڑیوں کا شور، ہارن کا شور، ریڈیو اور موبائل کاشور، وغیرہ۔قدیم زمانے میں گدھے کو شور کرنے والا حیوان سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانے میںانسان اُس سے ہزار گنا زیادہ شور کرنے والا حیوان بن گیا ہے۔
شور کوئی سادہ چیز نہیں۔ شور کسی انسان کو فرشتوں کی صحبت سے محروم کردیتا ہے۔ اور جو انسان فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ نہایت آسانی کے ساتھ شیطانوں کا ہم نشیں بن جاتا ہے۔ فرشتے وہ نہ دکھائی دینے والی طاقت ہیں جو کسی عورت یا مرد کو برائی سے بچاتے ہیں۔ فرشتوں کی صحبت کسی انسان کو جنتی شخصیت بناتی ہے۔ جو انسان فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ لازمی طورپر جہنمی شخصیت بن کر رہ جائے گا۔ ایسے لوگوں کو جنت کی خوشبو کبھی نصیب نہ ہوگی۔
جنت وہ معیاری دنیا ہے جہاں شور نہ ہوگا۔ شور اور جنت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسی حالت میں جو لوگ شور کلچر(noise culture) کو اختیار کریں، وہ گویا کہ اپنے آپ کو جنت کے لیے غیر مستحق بنا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا صرف ایک انجام ہے، وہ یہ کہ ایسے لوگوں کو جہنم کے پُرشور مسکنِ شیاطین (pandemonium) میں ڈال دیا جائے، جہاں وہ ابدی طورپر شور وغوغا کی عذاب گاہ میں پڑے رہیں اور کبھی اُس سے نکل نہ سکیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث میں آیا ہے کہ کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کی نفرت اور جس کی محبت صرف خدا کے لیے ہوجائے (سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ)۔ غیر دعوتی ذہن کا سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ لوگوں کے لیے نفرت اور محبت کا معیار (criterion)بدل جاتا ہے۔ ایمان کے نام سے وہ خود ایمان ہی سے محروم ہوجاتے ہیں۔
جس آدمی کے اندر داعیانہ ذہن ہو، وہ اپنے آپ کو داعی کی نظر سے دیکھے گا اوردوسروں کو مدعو کی نظر سے۔ دوسروں سے اس کے تعلق کی بنیاد دعوتی مصلحت ہوگی، نہ کہ کوئی اور مصلحت۔ مثلاً انگریز جب برصغیر ہند میں آئے تو دعوتی ذہن کا تقاضا تھا کہ اُن کو مدعوکی نظر سے دیکھا جائے۔ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے اندر خیر خواہی کا ذہن پیدا ہوتا ۔ لیکن انھوں نے انگریز کو دشمن کی نظر سے دیکھا، کیوں کہ انھوں نے مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔ اِس بنا پر وہ مسلمانوں کے لیے نفرت کا موضوع بن گئے۔ اُن کا حال یہ ہوگیا کہ جو آدمی انگریزوں سے نفرت کی بات نہ کرے، وہ اُن کی نظر میں دشمن کا ساتھی بن گیا۔ وہ اُس سے بھی اُسی طرح نفرت کرنے لگے جس طرح وہ انگریزسے نفرت کرتے تھے۔
یہی معاملہ عرب دنیا میں پیش آیا۔ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں جب یہودی تارکین وطن (Jews in diaspora)فلسطین میں آئے تو وہ عربوں کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگر عرب اُن کو مدعو کی نظر سے دیکھتے تو ان کے اندر اپنے مدعو کے لیے خیر خواہی کا جذبہ پیداہوتا۔ لیکن اِن عربوں نے یہود کو دشمن کی نظر سے دیکھا، اِس لیے وہ یہود سے نفرت کرنے لگے، اور اِسی کے ساتھ وہ اُس شخص سے بھی نفرت کرنے لگے جو یہود کے بارے میں نفرت کی بولی نہ بولے۔
یہی معاملہ آزادی کے بعد ہندستان میںپیش آیا۔ یہاں ایسا ہوا کہ 1949 میں ہندوؤں نے ایودھیا کی مشہور بابری مسجد کے اندر بت رکھ دیا۔ اِس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نزاع پیدا ہوئی۔ یہ نزاع بڑھتی رہی، یہاں تک کہ 1992 میں کچھ انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو ڈھا دیا اور اس کی جگہ عارضی مندر بنا دیا۔ اگر مسلمان، ہندوؤں کو اپنا مدعو سمجھتے تو اُن کے اندر منفی رد عمل کی نفسیات نہ پیدا ہوتی۔ لیکن انھوں نے ہندوؤں کو دشمن قرار دے کر اُن سے نفرت کرنا شروع کردیا۔ اب مسلمانوں کا معیار یہ بن گیا کہ جو شخص ہندوؤں کے خلاف نفرت کی بولی نہ بولے، وہ بھی اُسی طرح قابلِ نفرت ہے جس طرح کہ ہندو ان کے نزدیک قابل نفرت بنے ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں جو سب سے بڑی برائی پیدا ہوئی ہے، وہ یہی غیر داعیانہ ذہن ہے۔ اِس غیر داعیانہ ذہن کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ ان کی نفرت اور محبت کا معیار بدل گیا۔ وہ قومی بنیادپر کسی کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔ وہ اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اُس سے نفرت کریں۔ جو شخص اُن کے مفروضہ دشمن سے نفرت نہ کرے، یا نفرت کی بولی نہ بولے، وہ ان کی نظر میں اتنا ہی مبغوض ہوجاتا ہے جتنا کہ ان کا مفروضہ دشمن ان کے لیے مبغوض بنا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے کے علماء کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اِس غیرداعیانہ ذہن کو ختم کرنے کے لیے اپنی ساری کوشش لگا دیں۔ ان کے فتوے، ان کی تقریریں، اُن کی تحریریں، اُن کے پروگرام، ان کی مجالس کی گفتگو، سب کی سب اِسی ایک برائی کی اصلاح پر مرتکز ہوجائیں۔ برائی کی یہی وہ قسم ہے جس کے بعد، قرآن کے الفاظ میں انسان کے اعمال حبط ہوجاتے ہیں۔ بظاہر وہ دینی عمل کرتا ہے، لیکن اس کو خدا کی نصرت حاصل نہیںہوتی۔
مسلمان کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا کام کرے۔ دعوت الی اللہ کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مدعو کی زیادتیوں پر صبر کیا جائے۔ صبر کے بغیر دعوتی کام کی انجام دہی ممکن نہیں۔ قرآن میں داعی کی زبان سے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: ولنصبرنّ علیٰ ما اٰذیتمونا (إبراہیم:
واپس اوپر جائیں
مفکر(thinker) کے لفظی معنیٰ ہیں— غور وفکر کرنے والا۔ اصطلاحی اعتبار سے مفکر کا ایک خاص مفہوم بن گیا ہے۔ اِس سے مراد وہ شخص ہے جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچے، جس کے اندر مربوط فکر(coherent thinking) کی صلاحیت ہو۔ ایک مغربی اسکالر نے مفکر کی تعریف اِس طرح کی ہے— مفکر وہ ہے جو متفرق حقیقتوں کو داخلی طور پر ہم آہنگ کُل (inter-related whole) بنا سکے۔
جرمن سائنس داں آئن سٹائن (وفات: 1955 ) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ:
Einstein was one of the greatest thinkers of the 20th century.
یعنی آئن سٹائن بیسویں صدی کا ایک عظیم ترین مفکر تھا۔اِس کا مطلب یہ تھا کہ آئن سٹائن نے زمان و مکان (time and space) یا حقائقِ کون کی ایسی سائنسی تعبیر پیش کی جس میں عالمِ کائنات کے متفرق واقعات ایک ہم آہنگ کل کا حصہ نظر آنے لگے۔
یہی اصول اسلامی مفکر کے معاملے میں بھی صادق آتا ہے۔ اسلامی مفکر وہ نہیںہے جو ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو، جو ٹکراؤ کی باتیں کرے، جو نفرت اور سازش اور دشمنی کی اصطلاح میں سوچتا ہو۔ اسلامی مفکر وہ ہے جو اسلام کو ابدی تناظر میں دیکھ سکے، جو انسانی واقعات کو ایک ایسے ہم آہنگ کل میں تبدیل کرسکے جو لوگوں کے اندر مثبت فکر (positive thinking) پیدا کرنے والا ہو، جو تاریخ بشری کی کلّی تعبیر کرے، جو اسلام کو ایک تسلسل کے روپ میں دیکھے، جس میں تہذیب انسانی خود اسلام کا ایک پراسس (process) دکھائی دینے لگے، جو اسلام کو ایک ایسی تعبیر عطا کرے جس میں ماضی بھی پُرامید ہو اور حال بھی پر امید اور مستقبل بھی پر امید—مفکر صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جس کے اندر اعلیٰ سطح کی مثبت فکر پائی جائے، منفی سوچ (negative thinking) والے آدمی کا کیس منفی رد عمل کا کیس ہے، نہ کہ مثبت معنوں میں مفکرانہ شخصیت کا کیس۔
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) کے خلاف ہیں اور اپنے نتیجے کے اعتبار سے اس کو ایک فتنہ بتاتے ہیں ۔ لیکن آپ نے خود اسلام کی جو تشریح کی ہے، وہ بھی ایک دوسرا فتنہ ہے۔ کیوں کہ آپ کی تعبیر ’’راہبانہ تعبیر‘‘ ہے، اور راہبانہ تعبیر بلاشبہہ اسلام کی درست تعبیر نہیں۔یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلط تقابل (wrong comparison) کس طرح، صحیح رائے قائم کرنے میں مانع بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر فکری گم راہیاں غلط تقابل کے ذریعے وجود میں آتی ہیں۔ صحیح تفکیر (right thinking) نام ہے، صحیح تقابل (right comparison) کا، اور غلط تفکیر نام ہے، غلط تقابل کا۔
میں نہ راہب ہوں اور نہ راہبانہ بات کرتاہوں۔ میرا جو ماننا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جو احکام آئے ہیں، وہ بجائے خود اپنی اپنی جگہ پر مطلوب احکام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی مطلوبیت کی دو صورتیں ہیں، اور اِس بنا پر اِن احکام کی دو قسمیں بن جاتی ہیں۔ اِن احکام کا ایک حصہ وہ ہے جو اسلام کا حقیقی حصہ (real part) ہے۔ اُس کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اسلام کے اضافی حصہ (relative part) کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلا حصہ مطلقاً اور ہر حال میں مطلوب ہے، اور دوسرا حصہ حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتا ہے۔ فرد(individual) سے متعلق احکام کا تعلق پہلے حصے سے ہے، اور اجتماع (society) سے متعلق احکام کا تعلق دوسرے حصے سے۔
اِس فرق کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، یہ بے حد سنگین معاملہ ہے۔ فرد کی سطح پر احکام کا نفاذ آپ اپنے ارادے سے کرسکتے ہیں، لیکن اجتماع کی سطح پر احکام کا نفاذ اجتماع کی موافقت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں جو لوگ اسلام کو ایک مکمل نظام کی صورت میں دیکھیں، اُن کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option)رہ جاتا ہے— یا تو وہ مسلسل لڑتے رہیں، یااپنے اعلان کردہ نشانے کے خلاف، موجودہ نظام سے سمجھوتہ کرکے منافقت کی زندگی گزاریں۔
واپس اوپر جائیں
ماسٹر عبد الوحید سہارن پوری دہلی کے علاقہ یمنا وہار میں
یہ صرف ایک شخص کا واقعہ نہیں، یہی ہر عورت اور ہر مرد کا واقعہ ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی سفر میں ہے۔اس کے ذہن میںایک منزل ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی مطلوب منزل کی طرف جارہا ہوں۔ مگر ہر ایک کے لیے مقدر ہے کہ وہ اِس دنیا میں صرف ’’
یہی اِس دنیا میں آنے والے ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہر زندہ انسان پر وہ وقت آنے والا ہے جب کہ اس کی سانس بند ہوجائے، جب اُس کے چلتے ہوئے قدم رک جائیں، جب وہ سوچنے کے قابل نہ رہے، جب کہ اس کی آنکھ اور اس کے کان اپنا کام کرنا بند کردیں، جب کہ وہ اپنا تمام اثاثہ چھوڑکر بالکل تنہا اگلے دورِ حیات میں داخل ہوجائے۔
یہی وہ سنگین حقیقت ہے جس کو ہر عورت اور ہر مرد کو سب سے زیادہ جاننا چاہیے۔ یہی وہ انجام ہے جس کی ہر ایک کو سب سے زیادہ تیاری کرنا چاہیے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کے بارے میں ہر ایک کو سب سے زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے۔ جو لوگ اِس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں، وہی وہ لوگ ہیں جو آخر کار کامیاب ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں
دہلی میں ایک مسلمان کی موت ہوئی۔ نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعدان کو ایک مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے بتایا کہ وہ اس نماز میں شریک تھے۔ نماز شروع ہونے والی تھی تو ان کے پاس کھڑے ہوئے ایک مسلمان نے پوچھا— فرض کی نیت کروں یا سنت کی نیت کروں۔ انھوں نے کہا کہ خود اپنی نمازِ جنازہ کی نیت کرو۔ اُس آدمی کو حیرانی ہوئی۔ بعد کو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ کسی کے مرنے پر جنازہ کی نماز پڑھنا محض ایک رسم نہیں، وہ ایک سنگین حقیقت کی یاد دہانی ہے،یہ حقیقت کہ مرنے والے کی جس طرح موت ہوئی ہے، اُسی طرح میری موت بھی ہونے والی ہے۔ با جماعت نمازِ جنازہ دراصل اِسی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سچی نماز جنازہ اُسی انسان کی ہے جو دوسرے کی موت میں اپنی موت کو یاد کرے۔ وہ سوچے کہ آج جو کچھ مرنے والے کے ساتھ پیش آیا ہے، وہی خود میرے ساتھ پیش آنے والا ہے۔ موت کو دیکھ کر جو آدمی اس طرح سوچے، وہ جب جنازہ کی نماز کے لئے کھڑا ہوگا تو اس کا احساس یہ ہوگا کہ میںخود اپنے جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہوں۔ جو کچھ دوسرے کے ساتھ آج پیش آیا ہے، وہی میرے ساتھ کل پیش آنے والا ہے۔
موت کسی ایک انسان کا معاملہ نہیں، موت کا واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ لازمی طورپر پیش آنے والا ہے۔ مزید یہ کہ موت کسی سے پوچھ کر نہیں آتی، موت اچانک آجاتی ہے۔ اور موت جب آجاتی ہے تو کوئی بھی انسان اس کو واپس کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، ایک انسان کے لئے بھی اور دوسرے انسان کے لیے بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنی موت کو یاد کرے، جو شخص اتنا زیادہ غافل ہو کہ دوسرے کی موت کو دیکھ کر بھی اس کو اپنی موت یاد نہ آئے، وہ گویا کہ بے حس پتھر ہے۔ وہ بظاہر انسان ہے، لیکن وہ انسانی صفات سے اُسی طرح خالی ہے جس طرح پتھر کا کوئی مجسمہ انسانی صفات سے خالی ہوتا ہے۔ موت کو یاد کرنا حساس (sensitive)انسان کی صفت ہے، اور موت کو یاد نہ کرنا بے حس (insensitive) انسان کی صفت ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسکول میں طالب علموں کا امتحان ہورہا تھا۔ طلبہ میز پر جھکے ہوئے اپنا اپنا سوال حل کررہے تھے، یہاںتک کہ امتحان کا مقرر وقت پورا ہوگیا۔ فوراً ہی امتحان حال میں موجودذمّے داروں کی طرف سے اعلان کیا گیا — لکھنا بند کرو، وقت ختم ہوگیا:
Stop writing, time is over.
یہ معاملہ جو امتحان ہال میں پیش آیا، وہی وسیع تر زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد ایک بڑے امتحان ہال میں ہیں۔ یہاں ہر ایک اپنا اپنا امتحان دے رہا ہے۔ہر ایک کی ایک مدت مقرر ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی خدا کا فرشتہ آتا ہے اور خاموش زبان میں اعلان کرتا ہے کہ تمھارے عمل کا وقت ختم ہوگیا۔ اب تم کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد اپنے خالق ومالک کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔ تعلیمی امتحان کا معاملہ جو ہر طالب علم کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ ایک مثال ہے جس سے ہر عورت اور ہر مرد وسیع تر معنوں میں زندگی کے امتحان کے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ زندگی حالتِ امتحان کا نام ہے، اورموت اِس کا نام ہے کہ آدمی کو اپنے عمل کا انجام پانے کے لیے اگلی دنیا میں بھیج دیا جائے۔ موت سے قبل کی زندگی دراصل امتحان کا دور ہے اور موت کے بعد کی زندگی امتحان کا رزلٹ نکلنے کا دور۔ جو شخص امتحانی دورِ حیات میں ہوش مندی کے ساتھ زندگی گزارے گا، وہی اگلے دورِ حیات میں بہتر انجام کو پائے گا۔ جو لوگ اِس معاملے میں غافل ثابت ہوں، اُن کو بعدکے دورِ حیات میں حسرت اورمایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
امتحان ہال کے اندر ایک طالب علم جس نفسیات کے ساتھ رہتا ہے، اُسی نفسیات کے ساتھ ہم کو اپنی پوری زندگی میں رہنا ہے۔ ہر ایک کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دیے ہوئے پرچے کو درست طور پر حل کرے، تاکہ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اُس کا رزلٹ سامنے آئے تو وہ اُس کے لیے کامیابی کی خوش خبری ہو، نہ کہ ناکامی کا اعلان۔
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر شہزاد علی میرٹھ (یوپی) کے رہنے والے تھے۔ 6 فروری 2009 کو تقریباً
انسان کو ایک صحت مند جسم ملا ہوا ہے۔ انسان کو پیدا ہونے کے بعد یہ صحت مند جسم بظاہر اپنے آپ مل جاتا ہے، اِس لیے وہ اُس کو فار گرانٹیڈ(for granted) طور پر لے لیتا ہے۔ وہ کبھی سوچتا نہیں کہ یہ صحت مند جسم سرتاسر خدا کا عطیہ ہے۔ اِس عطیہ کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے خدا کے آگے جھک جانا چاہیے۔ یہی معاملہ عمر کا ہے۔ آدمی جب تک زندہ ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ زندگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ وہ کبھی اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی بھول ہے۔
یہی ہر عورت اور ہر مرد کا امتحان (test) ہے۔ کامیاب شخص وہ ہے جو زندگی سے زیادہ موت کے بارے میں سوچے، جو ہر ملی ہوئی چیز کو خداوند ِ عالم کا عطیہ سمجھے۔ یہی وہ انسان ہے جو امتحان میںکامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جو انسان خدا کا اعتراف نہ کرے اور موت کو بھلائے ہوئے ہو، وہی وہ شخص ہے جو ا متحان میں ناکام ہوگیا۔ پہلے انسان کے لیے ابدی جنت ہے اور دوسرے انسان کے لیے ابدی جہنم ۔
واپس اوپر جائیں
آج کل عام طورپر یہ رواج ہے کہ جب کوئی بڑا شخص مرتا ہے تو تعزیت کے نام پر جلسے کیے جاتے ہیں اور تعزیتی بیانات اخباروں میں چھپوائے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بلا شبہہ ایک بدعت ہے۔ اِس قسم کی تعزیت کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض ایک مظاہرہ ہے، نہ کہ کوئی اسلامی عمل۔ اِس طریقے کے بدعت ہونے کا یقینی ثبوت یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میںتعزیتی دھوم کا ایسا کوئی واقعہ ثابت نہیں۔
موت کے بارے میں اسلام کا طریقہ کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ دوسرے کی موت کو دیکھ کر اپنی موت کو یاد کیا جائے، اور اپنی تنہائیوں میں خدا سے اپنے لیے اور مرنے والے کے لیے دعائیں کی جائیں۔ موت کا واقعہ خدا کی طرف سے ایک یاددہانی ہے، یہ یاددہانی کہ جس طرح ایک شخص کی موت ہوئی ہے، اُسی طرح دوسرے تمام مردوں اور عورتوں کی موت واقع ہوگی۔ موت کے واقعے کو اِسی یاد دہانی کے اعتبار سے لینا چاہیے،نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ دوسرے تمام طریقے جو آج کل مسلمانوں میں رائج ہیں، وہ سب کے سب بدعت ہیں، اور بدعت بلاشبہہ صرف ایک ضلالت ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی فعل۔ کسی بڑے انسان کی موت کے بعد جو تعزیتی جلسے کیے جاتے ہیں، یا تعزیتی بیانات جاری ہوتے ہیں، اُن میں صرف مرنے والے کا تعریفی تذکرہ کیاجاتا ہے، نہ کہ موت کا تذکرہ۔ حالاں کہ ایسے موقع پر اصل ضرورت یہ ہے کہ موت کو یاد کیا جائے۔ موت کے بارے میں اپنے شعور کو زندہ کیا جائے۔ موت کے بعد پیش آنے والے حساب و کتاب کو سوچ کر خدا سے دعائیں کی جائیں۔
موت کا مطلب مرنے والے کے لیے یہ ہے کہ وہ عمل کی دنیا سے نکل کر جزا کی دنیا میں چلا گیا۔ وہ اپنے خالق کے سامنے حساب وکتاب کے لیے کھڑا کردیاگیا۔ جہاںتک زندہ رہنے والوں کا معاملہ ہے، موت اُن کے لیے ایک سنگین یاد دہانی (reminder) ہے۔ ان کو یہ سوچ کر اور زیادہ سرگرم ہوجانا ہے کہ عمل کی دنیا سے نکلنے اور جزا کی دنیا میں داخل ہونے کا وقت بہت قریب آگیا۔
واپس اوپر جائیں
حیاتیاتی ارتقاء (evolution)کا نظریہ برٹش عالمِ طبیعیات (naturalist) چارلس ڈارون (Charles Darwin) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ڈارون 1809 میں پیدا ہوا، اور 1882 میں اس کی وفات ہوئی۔ 2009 میںاس کی پیدائش پر دو سو سال پورے ہوگئے۔ اِس نسبت سے 2009 میں ڈارون کا اور اس کے نظریے کا کافی چرچا کیا گیا۔ ڈارون سے پہلے فرانسیسی عالمِ طبیعیات لا مارک (Jean Baptiste Lamarck) وغیرہ نے بھی ابتدائی صورت میں ارتقاء کا نظریہ پیش کیا تھا۔ لیکن ڈارون نے اِس نظریے کو زیادہ منظم انداز میں پیش کیا۔
نظریۂ ارتقاء کیا ہے۔ اِس سے مراد یہ نظریہ ہے کہ — نباتات اور حیوانات کی تمام انواع ایک ابتدائی صورت سے ترقی کرکے اپنی موجودہ حالت تک پہنچیں ہیں۔ یہ ارتقاء نسل درنسل تبدیلیوں کے وراثتی انتقال کے ذریعے ہوا:
Evolution: Theory that all species of animals and plants developed from earlier forms by hereditary transmission of slight variations in genetic composition to successive generations.
چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع(The Origin of Species) میںلکھا تھا کہ خدا (God) نے پہلی بار زندگی کی ابتدائی صورت ایک خلیہ والے (single-cellular) امیبا کی شکل میں پیدا کی۔ اس کے بعد اپنے آپ تبدیلیوں (mutations) اور فطری انتخاب(natural selection) اور بقائِ اصلح (survival of the fittest) کے ذریعے مختلف انواعِ حیات بنتی چلی گئیں، یہاںتک کہ آخر میں انسان جیسی ترقی یافتہ مخلوق وجود میں آئی۔ یہ سب کچھ ارتقائی عمل (evolutionary process) کے ذریعے خود بخود پیش آیا۔ ڈارون نے اپنی کتاب میں خالقِ اوّل کے طور پر خدا کا نام لیا تھا، لیکن بعد کو نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے درمیان، خدا کا نام مکمل طورپر حذف ہوگیا۔
ارتقائی سفر کا یہ پورا عمل موجودہ زمین پر پیش آیا تھا۔ لیکن بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ موجودہ قسم کے ارتقائی عمل کا ہماری زمین پر پیش آنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔مثال کے طورپر زمین کی عمر اُس سے بہت زیادہ کم ہے جو مذکورہ قسم کے ارتقائی عمل کے لیے درکار ہے۔
نظریہ ارتقاء یہ فرض کرتا ہے کہ ایک نوعِ حیات سے دوسری نوعِ حیات کا وجود میں آنا، حیاتیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ مثلاً بکری کے اندر نسل درنسل بے شمار تبدیلیاں وجود میں آئیں، یہاں تک کہ اِن تبدیلیوں کے جمع ہونے سے بکری کی آخری نسل میں زرافہ جیسا حیوان پیدا ہوگیا۔ یہ لمبا سفر ان گنت تبدیلیوں کے ذریعے ہوا۔ایک ریاضی داں پروفیسر پاچو(Patau) نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ کسی نوعِ حیات میں ایک بہت معمولی قسم کی مفروضہ تبدیلی کو وجود میں لانے کے لیے ایک ملین نسلیں درکار ہوں گی:
Even a minor change in any species would take one million generations to be completed.
لیکن حیاتیاتی تبدیلیوں (mutations) کا یہ عمل اگر بالفرض وقوع میں آسکے، تب بھی اِس طویل حیاتیاتی عمل کا موجودہ زمین (planet earth)پر وقوع میں آنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ زمین کی عمر اِس طرح کے طویل عمل کے لیے سراسر ناکافی ہے۔ چارلس ڈارون کے زمانے میں زمین کی عمر معلوم نہ تھی۔مگر اب ٹکنالوجی کی ترقی کے بعد زمین کی عمر قطعی طورپر معلوم ہوچکی ہے۔
ارضیاتی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین ابتدائی طورپر دو بلین سال پہلے وجود میں آئی۔ اُس وقت وہ نہایت گرم تھی۔ اِس کے بعد زمین ٹھنڈی ہوئی اور پانی وجود میں آیا۔ ارضیاتی تحقیق (geological studies) کے مطابق، ایک بلین
بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں جب زمین کی عمر دریافت کی گئی تو ارتقاء پسند علماء کو محسوس ہوا کہ اُن کا نظریہ موجودہ زمین کی نسبت سے قابلِ عمل ہی نہیں ہے۔ اب انھوںنے قدیم نظریۂ ارتقاء میں ایک اور تصور کا اضافہ کیا۔ انھوںنے یہ نظریہ قائم کیا کہ زندگی کی ابتدائی صورت زمین کے سوا کسی اور سیارہ (planet) پر ظہور میں آئی، پھر وہاں سے سفر کرکے وہ زمین پر پہنچی اور زندگی کا اگلا ترقیاتی عمل موجودہ زمین پر پیش آیا۔ اس نظریے کو اصطلاحی طورپر پَینس پرمیا (panspermia) کہاجاتا ہے۔
اِس کے بعد ایک نئی دوڑ شروع ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد خلائی سائنس (space science) کا زمانہ آگیا۔ اِسی کے ساتھ الیکٹرانک دور بینیں ایجاد ہوگئیں۔ چناں چہ ایسے خلائی راکٹ بنائے گئے جن پر طاقت ور الیکٹرانک دور بینیں نصب تھیں۔ یہ راکٹ زمین سے اوپر خلا میں بھیجے گئے۔ زمین سے کافی بلندی پر گردش کرتے ہوئے انھوںنے کائنات کے بعید ترین حصوںکے فوٹو لیے اور اُن کو زمین پر بھیجا۔ اِن تصویروں کو کمپیوٹر پر محفوظ کرلیا گیا۔ مگر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری زمین کے سوا کہیں بھی کوئی دوسرا سیارہ ایسا موجود نہیں ہے جہاں زندگی جیسی چیز نشو ونما پاسکے۔ اِس طرح پینس پرمیا کا نظریہ عملی طورپر ختم ہوگیا۔
اب یہ سوال تھا کہ زمین کی محدودیت کے اندر مفروضہ ارتقائی عمل کس طرح وقوع میں آیا۔ اِس سوال کو حل کرنے کے لیے دوبارہ ایک نئی تحقیق شروع ہوئی۔ اِس تحقیق میں کئی اعلیٰ سائنس داں شامل تھے۔ اب اِس تحقیق کے نتائج امریکا کے مشہور جنرل نیچر (Nature) میںشائع کیے گئے ہیں۔ اِس تحقیق کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
ارتقاء کے بارے میں نئی رسرچ ارتقاء کے اصل سوالات کو حل نہیں کرتی۔ وہ صرف یہ کرتی ہے کہ نظریہ ارتقاء کی توجیہہ کے لیے ایک نیا ٹکنکل لفظ (technical term) دیتی ہے۔ ارتقاء کا روایتی تصور تبدیلیوں (mutations) کے اصول پر قائم تھا، یعنی نسل درنسل چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے جمع ہونے سے ایک نوع کا دوسری نوع کی صورت اختیار کرلینا۔ کلاسکل تبدیلی (classical mutation) کا نظریہ اِس سوال کا جواب نہیں دیتا تھا کہ خود یہ تبدیلی کیسے واقع ہوتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی رسرچ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ بے شمار تبدیلیاں تدریجی (gradual) طورپر اپنے آپ ہوسکتی ہیں۔
نئی ریسرچ نے صرف یہ کیا ہے کہ اُس نے آتش فشانی انشقاق (volcanic eruption) پر قیاس کرتے ہوئے وہ نظریہ وضع کیا جس کو انھوںنے جنینیاتی تبدیلی (genetic change) کا نام دیا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلی تدریجی انداز میں نہیں ہوئی، بلکہ انفجاری انداز میں ہوئی:
These are like volcanoes in the genome, blowing out pieces of DNA.
تاہم اِس نئی رسرچ کے بعد بھی اصل مسئلہ بدستور باقی ہے۔ یہ رسرچ مفروضہ طورپر جو کچھ بتاتی ہے، وہ صرف تبدیلیوں کے وقوع کی مفروضہ توجیہہ ہے، نہ کہ اِس بات کی توجیہہ کہ زمین کی محدود مدت میںبے شمار تبدیلیاں کیسے وقوع میںآئیں۔ ہماری زمین کی محدود مدت کی نسبت سے یہ نئی ’’تحقیق‘‘ بھی اتنا ہی ناکافی ہے، جتنا کہ قدیم کلاسکل توجیہہ۔
نظریہ ارتقاء کا یہ دعویٰ ہے کہ واحد الخلیہ (single cellular) امیبا میںتبدیلیاں ہوئیں، اِس کے بعد وہ کثیر الخلیہ(multi-cellular) حیوان بن گیا۔ مچھلی کے اندر تبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ چڑیا بن گئی۔ بکری کے اندر تبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ زرافہ بن گئی۔ بلی کے اندرتبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ شیر بن گئی۔ بندر کے اندر تبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ انسان بن گیا۔
مذکورہ نئی تحقیق صرف یہ کرتی ہے کہ وہ اِن تبدیلیوں کو تدریجی نوعیت کی تبدیلی قراردینے کے بجائے اُن کو انفجاری نوعیت کی تبدیلی بتاتی ہے۔ مگر اِس نئی ’’تحقیق‘‘ کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتاہے کہ ان گنت تبدیلیوں (countless changes) کے اِس عمل کے لیے جو بے حد لمبی مدت درکار ہے، موجودہ سیارۂ ارض پر ان کا وقوع میں آنا ممکن نہیں۔ کیوںکہ سیارۂ ارض کی عمر معلوم طورپر اُس سے بہت زیادہ کم ہے جو کہ اِن مفروضہ تبدیلیوں کے لیے درکار ہے۔
اِس ’’تحقیق‘‘میں ارتقائی عمل کے لیے درکار مطلوب مدت کے مسئلے کو اِس طرح حل کیا گیا ہے کہ یہ فرض کرلیاگیا کہ حیاتیاتی ارتقاء بذریعہ انفجار(explosion) پیش آیا ہے۔ محققین نے اِس معاملے کو آتش فشانی انشقاق(volcanic eruption) پر قیاس کیا ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ جس طرح ایک آتش فشانی پہاڑ اچانک پھٹتا ہے اور اس کے اندر سے لاوا (lava) کی صورت میں ایک نئی چیز نکل آتی ہے، اُسی طرح انفجار کے ذریعے زندگی کی مختلف صورتیں ایک کے بعد ایک نکلتی چلی گئیں۔
اِس ارتقائی انشقاق (evolutionary eruption) کا مطلب یہ ہے کہ — واحد الخلیہ نوع میں انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک کثیر الخلیہ نوع وجود میں آگئی۔ مچھلی کے اندر انشقاق ہوا، اِس کے بعد اچانک چڑیا وجود میں آگئی۔بکری کے اندر انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک زرافہ وجود میں آگیا۔ بلّی کے اندر انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک شیر وجود میں آگیا۔ بندر کے اندر انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک انسان وجود میں آگیا، وغیرہ۔
انشقاق (eruption) کا یہ نظریہ کسی حقیقی سائنسی دریافت پر مبنی نہیں ہے۔ وہ دوبارہ اُسی طرح غیر متعلق قیاسات (irrelevant suppositions) پر مبنی ہے، جیسا کہ ڈارون نے اِسی طرح کے غیر متعلق قیاسات پر بنا رکھتے ہوئے ابتدائی طورپر اپنا نظریۂ ارتقاء وضع کیا تھا۔
نظریہ ارتقاء میں بے شمار قسم کی گم شدہ کڑیاں (missing links) موجود تھیں، تاہم اِن گم شدہ کڑیوں کو قیاسی طورپر فرض کرتے ہوئے ارتقاء کا نظریہ تسلیم کرلیا گیا۔ یہی معاملہ جدید تحقیق کا بھی ہے۔ اِس تحقیق میں بھی بے شمار قسم کی نامعلوم کڑیاں ہیں، لیکن اِن نا معلوم کڑیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے محض قیاس کی بنیاد پر یہ جدید نظریہ وضع کرلیا گیا۔
ارتقاء کا نظریہ یہ فرض کرتا ہے کہ انواعِ حیات میں مسلسل تغیرات ہوئے ہیں۔ یہ تغیرات ماحول کے تعامل سے وجود میں آتے ہیں، یا آئے ہیں۔ اِس ارتقائی اصول کو موافقت (adaptation) کہاجاتا ہے۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اِس موافقت کے نتیجے میں جو تغیرات پیش آتے ہیں، وہ نسل درنسل جمع ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
موافقت (adaptation) کے اِس مفروضہ نظریے کے حق میں کوئی دلیل یا مثال موجود نہیں۔ البتہ کچھ غیر متعلق مثالیں پیش کی جاتی ہیں، مگر یہ مثالیں مغالطے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ایک مشہور مثال پتنگا (moth) کی ہے۔ مشاہدے سے معلوم ہوا کہ جو پتنگے سبز درختوں اور پودوں کے درمیان رہتے ہیں، وہ ہرے(green) ہوجاتے ہیں، اور جو پتنگے پتھریلے علاقوں میں رہتے ہیں، اُن کا رنگ پتھریلا رنگ بن جاتا ہے۔
اِس مثال سے ارتقاء کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ جو چیز اِس سے ثابت ہوتی ہے، وہ یہ کہ خارجی ماحول ظاہری رنگ پر اثر انداز ہوتا ہے، جیسا کہ سرد ممالک میں رہنے والے لوگ اکثر سفید فام ہوتے ہیں اور گرم ممالک میں رہنے والے لوگ اکثر سیاہ فام۔ مگرنظریہ ارتقاء کے ضمن میں جو اصل بحث ہے، وہ جسم کے خارجی رنگ (colour) میں تبدیلی کی نہیں ہے، بلکہ نوع(species) میں تبدیلی کی ہے، اور پتنگے کی مثال سے نوع میں تبدیلی کا اصول ثابت نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ 1859 میں بھی ایک غیر سائنسی نظریہ تھا، جب کہ چارلس ڈارون کی کتاب اصل الانواع (The Origin of Species) پہلی بار چھپی اور 2009 میں بھی وہ اتنا ہی غیر سائنسی ہے، جب کہ امریکی جنرل نیچر(Nature) میں کچھ امریکی پروفیسروں کے ’’نتائجِ تحقیق‘‘ شائع ہوئے ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ حیاتیاتی ارتقاء کے نظریے کو موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ طبقے میں عمومی قبولیت (general acceptance) حاصل ہوچکا ہے، مگر واقعات بتاتے ہیں کہ اِس نظریے کی یہ مقبولیت اِس لیے نہیں ہوئی ہے کہ سائنسی طورپر وہ ثابت ہوگیا ہے۔ اس کا سبب یقینی طورپر صرف یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ زندگی کی تشریح خدا کے بغیر کرنا چاہتا ہے۔ جدید طبقے کو یہ نظر آتا ہے کہ نظریۂ ارتقاء کی صورت میں اس کو ایک ورک ایبل نظریہ (workable theory) حاصل ہوگیا ہے۔ اِس کے سوا کوئی بھی حقیقی علمی بنیاد نظریہ ارتقاء کے حق میں موجود نہیں ۔
نظریۂ ارتقاء اور مذہب
نظریہ ارتقاء کے ابتدائی زمانے میں مسیحی چرچ اُس کا سخت مخالف بن گیا تھا۔ مگر اب غالباً حالات کے دباؤ کے تحت، مسیحی چرچ نے نظریۂ ارتقاء کی واقعیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ اِس سلسلے میں میڈیا میں جو رپورٹیں آئی ہیں، اُن کا ایک حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
The Vatican has admitted that Charles Darwin’s theory of evolution should not have been dismissed and claimed it is compatible with the Christian view of creation. According to the Telegraph, Archbishop Gianfranco Ravasi, the head of the pontifical Council for Culture, said while the church had been hostile to Darwin’s theory in the past, the idea of evolution could be traced to St Augustine and St Thomas Aquinas. Father Giuseppe Tanzella-Nitti of the Pontifical Santa Croce University in Rome, added that 4th century theologian St Augustine had “never heard the term evolution, but knew that big fish eat smaller fish” and forms of life had been transformed “slowly over time”. (The Times of India, New Delhi, February 12, 2009, p. 19)
نظریۂ ارتقاء کے بارے میں اِس قسم کی رائے کااظہارکچھ مسلم اہلِ علم نے بھی کیا ہے۔ مثلاً الجزائر کے شیخ ندیم الجِسر (قصۃ العلم بین الفلسفۃ والعلم والقرآن)، اور پاکستان کے ڈاکٹر محمد رفیع الدین (قرآن اور علمِ جدید) وغیرہ۔ اِن لوگوں کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ خدا کے انکار کے ہم معنیٰ نہیں ہے، کیوں کہ وہ زندگی کو ابتداء ً وجود میں لانے کے لیے خدا کو سببِ اول(first cause) کے طورپر مانتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر زندگی کی مختلف انواع مفروضہ ارتقائی طریقے کے مطابق، وجود میں آئیں، تب بھی ان کو ابتدائی طورپر وجود میں لانے والا ایک خدا (God) تھا۔
لیکن یہ توجیہہ درست نہیں۔ مذہبی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا کی حیثیت صرف ’’سببِ اول‘‘ کی نہیں ہے، بلکہ خدا مسلسل طورپر ہماری زندگی میں شامل ہے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق، خدا مسلسل طورپر کائنات کو کنٹرول کررہا ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان تعلق ایک مسلسل تعلق ہے جو بلاانقطاع ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ پھر یہ کہ خدا محاسب اور مُجازی ہے۔ قیامت کے دن خدا مالک ِ یوم الدین کی حیثیت سے تمام انسانوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ خدا کی یہ تمام حیثیتیں، نظریہ ارتقاء میں حذف ہوجاتی ہیں۔ ایسی حالت میں حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ مذہبی اعتبار سے کبھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
خدا اور بندے کے درمیان جو تعلق مطلوب ہے، وہ ایک زندہ تعلق ہے۔ وہ ذکر اور دعاء اور عبادت اور تفکر اور تدبر اور توسّم کے ذریعے ہر وقت اور ہر لمحہ قائم رہتا ہے۔ انسان ہر لمحہ خدا سے مانگتا ہے، اور ہر لمحہ وہ خدا کی طرف سے پاتا ہے۔ انسان جس طرح وجود میں آنے کے لیے خدا کا محتاج ہے، اُسی طرح وہ اپنی بقاکے لیے بھی مکمل طورپر خدا کا محتاج ہے۔ خدا اگر ایک لمحے کے لیے انسان کو نظر انداز کردے تو انسان تباہ ہو کر رہ جائے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نہ صرف خالق (creator) ہے، بلکہ وہ رازق اور قیوم (sustainer) بھی ہے۔ ایسی حالت میںنظریہ ارتقاء عملاً خدا کی نفی ہے، نہ کہ خدا کی تصدیق۔
واپس اوپر جائیں
ایک شخص جب پیدا ہوتاہے تو وہ اپنے گھر میں اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کے ساتھ رہتا ہے۔ اپنے گھر کے اندر اس کو عزت ملتی ہے۔ گھر کے لوگ اس کی ہر ضرورت کو پورا کرتے رہتے ہیں۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے درمیان ہے جو یک طرفہ طورپر اس کے خیر خواہ ہیں۔ گھر کے اندر اس کو ہر چیز اپنی دکھائی دیتی ہے، بغیر اِس کے کہ اُس نے ان چیزوں کی قیمت ادا کی ہو۔
لیکن یہ تجربہ کسی انسان کے لیے صرف ایک وقتی تجربہ ہوتا ہے۔ جب وہ بڑا ہو کر گھر سے نکلتا ہے اور باہر کی دنیا میں آتاہے تو یہ باہر کی دنیا اُس کے لیے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اُس کا گھر اس کو اپنی دنیا نظر آتی تھی، لیکن باہر کا ماحول اس کو غیر کی دنیا نظر آنے لگتی ہے۔ یہ دوطرفہ تجربہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں پیش آتا ہے۔ ہر عورت اور مرد پر لازم ہے کہ وہ زندگی کی اِس حقیقت کو سمجھے، تاکہ وہ اپنے آپ کو ناکامی سے بچا سکے۔
اصل یہ ہے کہ گھر کی دنیا خون کے رشتوں کی دنیا ہے۔ گھر کی دنیا میں آدمی کو خونی رشتہ (blood relationship) کی بنیاد پر جگہ ملتی ہے۔ لیکن باہر کی دنیا میں آتے ہی یہ تعلق پوری طرح ختم ہوجاتاہے۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی اپنے اندر وہ اہلیت (ability) پیدا کرے جو اس کو باہر کی دنیا میں کام آنے والی ہو۔
گھر سے باہر کی دنیا میں کسی عورت یا مرد کو جس بنیاد پر عزت کا مقام ملتا ہے، وہ صرف دو ہے— آدمی یا تو دوسروں کے لیے نفع بخش (giver person) بن جائے، یا وہ اِس طرح رہے کہ وہ دوسروں کے لیے بے مسئلہ انسان (no-problem person) بن گیا ہو۔ وہ یا تو دوسروں کے لیے ایک دینے والا انسان ہو، یا وہ دوسروں کے لیے مکمل طورپر ایک بے ضرر انسان ہو۔
یہی دو چیزیں دنیا میں کامیابی کا راز ہیں، اِس کے سوا کوئی تیسری چیز نہیں جو دنیا میں آدمی کو باعزت زندگی دینے والی ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم لڑکی اپنے ماں باپ کی اکیلی اولاد تھی۔اس کے والدین نے دھوم کے ساتھ اس کی شادی کی۔ اس کے بعد وہ رخصت ہو کر اپنی سسرال گئی۔ اس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔ مگر دو سال کے بعد وہ اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس واپس آگئی۔ اُس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ میرا شوہر نہایت سخت مزاج ہے، اس کے ساتھ میرا نباہ نہیں ہوسکتا۔
لڑکی کے والدین نے اس سے زیادہ پوچھ گچھ (scrutiny) نہیں کی، جو کچھ لڑکی نے کہا، اس کو انھوں نے درست مان لیا۔ انھوں نے کہا کہ بیٹی، تم فکر نہ کرو۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ تم یہاں آرام کے ساتھ رہو، تم کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میںنے لڑکی سے پوچھ گچھ کی، تاکہ اصل حقیقت معلوم ہوسکے۔ لڑکی نے بتایا کہ میرا شوہر ہر معاملے میں سختی کرتاہے۔ میںنے مثال پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرا شوہر مجھ کو شاپنگ کے لیے نہیں لے جاتا، وہ آؤٹنگ (outing) کا پروگرام نہیں بناتا۔ میںنے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شاپنگ کا مطلب پیسے کا ضیاع (waste of money) ہے، اور آؤٹنگ کا مطلب وقت کا ضیاع(waste of time) ہے۔ آپ کا شوہر بہت اچھا کرتاہے کہ وہ آپ کو ایسی بے فائدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔
ماں باپ نے لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ محبت کا واقعہ تھا اور شوہر نے جو کچھ کیا، وہ خیرخواہی کا واقعہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت کے مقابلے میں، خیر خواہی زیادہ بڑی چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ اِس فرق کو نہیں جانتے۔ اِس لیے وہ محبت کرنے والے کو اپنا ہمدرد سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ اصل ہمدرد وہ ہے جو آپ کے ساتھ سچی خیر خواہی کرے۔
محبت صرف ایک جذباتی چیز ہے، جب کہ خیر خواہی ایک خالص عقلی رویہ ہے۔ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے جس کو اپنی زندگی میںایک سچا خیر خواہ مل جائے۔
واپس اوپر جائیں
زندگی ہم وار راستے پر سفر کرنے کا نام نہیں۔ زندگی میں ہمیشہ وہ ناموافق صورتِ حال پیش آتی ہے جس کو بحران (crisis) کہا جاتا ہے۔ زندگی میں بحران سے بچنا ممکن نہیں۔ اِس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کے آرٹ کو جاننا۔ انسان کو عقل اِسی لیے دی گئی ہے کہ وہ اِس آرٹ کو جانے اور اس کو استعمال کرے۔
زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو بحران کوئی برائی نہیں، بحران ہر آدمی کے لیے ایک مفید تجربہ ہے۔ ہر بحران آدمی کے لیے کامیابی کا نیا موقع کھولتا ہے۔ اِس معاملے میں صحیح فارمولا صرف ایک ہے— بحران کو ایک نئے موقع میں تبدیل کردو:
Turn the crisis into an opportunity.
انسان کو جو عقل دی گئی ہے، اس کے اندر بے پناہ امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ عام حالات میں یہ امکانات سوئے ہوئے رہتے ہیں، معتدل حالات میں یہ امکانات کبھی نہیں جاگتے۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ انسان کی زندگی میں بحران پیدا ہو، تاکہ اس کا ذہن جاگے، تاکہ اُس کی عقلی صلاحیتیں بیدار ہو کر زیادہ بڑے بڑے کام کرسکیں۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور چیلنج کا مقابلہ کرنا ہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کے لیے ترقی کے دروازے کھولتاہے۔
بحران ہمیشہ فطرت کے نظام کے تحت پیش آتا ہے۔ اِس لیے کسی مفروضہ دشمن کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنا ایک غیر متعلق بات ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب اس کی زندگی میںکوئی بحران پیش آئے تو وہ شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ وہ اپنی عقلی صلاحیتوں کو متحرک کرنے کی کوشش کرے۔ اِس کے بعدوہ دیکھے گا کہ بحران اس کے لیے ترقی کا نیا زینہ بن گیا ہے۔
یہ اصول فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی، ذاتی زندگی میں بھی کامیابی کا یہی راز ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی کامیابی کا یہی راز۔
واپس اوپر جائیں
پھر سے سوچئے— یہ زندگی کا ایک اصول ہے۔ زندگی میں بار بار ایسا ہوتاہے کہ حالات بدل جاتے ہیں،اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں، کوشش کا مطلوب نتیجہ نہیں نکلتا۔ یہ صورت حال ہمیشہ انسانی زندگی میں قائم رہتی ہے۔ اِس لیے انسان کو بار بار یہ کرنا پڑتا ہے کہ و ہ پھر سے سوچے۔ وہ معاملات میں نظرِ ثانی (reassessment)کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ نتیجے کو دیکھ کر دوبارہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ پھر سے سوچنے کا یہ عمل اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس کو اختیار نہ کرنا، انسان کو صرف تباہی میں ڈالنے کا سبب بن جاتا ہے۔
پھر سے سوچنے کے اصول کا تعلق فرد سے بھی ہے اور اجتماعی زندگی سے بھی۔ ایک فرد کو بھی یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے فکر وعمل کا بار بار محاسبہ کرتا رہے۔ وہ اپنی زندگی میںتصحیح (correction)کا عمل جاری رکھے۔ وہ مسلسل نظر ثانی کے ذریعے اپنی سوچ کو بھی درست کرتا رہے اور اپنے عمل کو بھی نتیجہ خیز رخ پر جاری رکھے۔
اِس عمل کو دوسرے الفاظ میں چیک اور بیلنس (check and balance) کہاجاسکتا ہے، یعنی معاملات کو غیر متعصبانہ انداز میں چیک کرتے رہنا، اور دوبارہ اس کو درست رخ پر لے جانا۔ موجودہ دنیا میں حقیقی کامیابی کے لیے یہ طریقہ لازمی طورپر ضروری ہے۔ اِس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو مسلسل طورپر اپنی زندگی میں اِس طریقے کو اپنائے ہوئے ہوں۔ جو فرد یا قوم اِس اصول کو نظر انداز کرے، اُس کے حصے میں یقینی طور پر ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آئے گا۔ ایسے لوگ اگر اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کو دیں اور اُن کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان اٹھائیں تو یہ ایک نادانی کے اوپر دوسری نادانی کا اضافہ ہوگا۔ حقیقی صورتِ حال میں اِس سے کوئی تبدیلی واقع ہونے والی نہیں۔
ٹریفک میں جس طرح یوٹرن (U-turn) کا اصول ہے، ٹھیک اُسی طرح زندگی میں پھر سے سوچنے کا اصول ہے۔ پھر سے سوچنا گویا اپنے فکر و عمل کے معاملے میں یو ٹرن لینا ہے۔ سفر جتنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ زندگی کی گاڑی اگر غلط رخ پر چل پڑے تو آپ اپنی گاڑی کو روک کر دوبارہ اس کو صحیح رخ کی طرف لوٹا دیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
آدمی خشوع خضوع کے ساتھ جب اللہ سے دعا کرتا ہے تو یہ کیفیات صرف کچھ وقت کے لئے طاری ہوتی ہیں۔ کیا اِس کے علاوہ عام حالت میں آدمی دیگر مسنون دعاؤں کوپڑھ سکتا ہے۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں (محبوب خان، جے پور، راجستھان)
جواب
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دعائیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، وہ بلاشبہہ نہایت قیمتی ہیں۔ وہ اِس قابل ہیں کہ اُن کو اپنے ذکر ودعاء میں شامل کیا جائے۔ لیکن اِن دعاؤں کو اُسی طرح کرنا ہے، جس طرح اُن کو خود پیغمبر اسلام نے کیا تھا، نہ کہ کسی اور طریقے سے۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسنون دعائیں اپنے الفاظ کے اعتبار سے پُراسرار طورپر مؤثر ہیں۔ اِن الفاظ کو صحتِ تلفظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کرنا ہی مسنون انداز میں دعاء کرنا ہے۔ مگر ایسا خیال درست نہیں۔ پیغمبر اسلام کا معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپ نے آج کل کے مسلمانوں کی طرح اِن دعائیہ الفاظ کو یاد کرلیا تھا اور اُن کو محض لفظی طور پر دہراتے رہتے تھے۔ اِس کے برعکس، آپ کی دعاء یہ تھی کہ آپ کے دل میں کچھ ربانی احساسات طاری ہوئے۔ آپ نے جب اِن احساسات کو ظاہر کرنا چاہا تو وہ دعائیہ الفاظ کی صورت میں ڈھل گئے۔ یہی آج بھی ہونا چاہیے۔ آج بھی مسنون دعاء یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کی یاد سے کچھ اعلیٰ کیفیات پیدا ہوں، اور وہ اپنی اِن کیفیات کو مسنون دعاء کی صورت میں اپنی زبان سے ادا کرے۔مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺکے لیے عربی زبان اُن کی مادری زبان تھی۔ اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آپ کی دعائیں اصلاً مادری زبان میں نکلی ہوئی دعائیں ہیں، نہ کہ سادہ طورپر صرف عربی زبان میں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ کیفیات ہمیشہ اپنی مادری زبان میںظاہر ہوتی ہیں۔ اِس لیے اگر کسی شخص پر اعلیٰ ربانی کیفیات طاری ہوں اور وہ اپنی مادری زبان میں اُسی قسم کے احساسات کا اظہار کرے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئے تھے، اگر کوئی شخص اِس طرح اپنی مادری زبان میں دعاء کرے تو وہ بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے مسنون دعاء کے زمرے میں شمار ہوگی۔
سوال
راقم آج کل ’’تذکیر القرآن‘‘ کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہے ۔الرسالہ کو پڑھ کر مختصراً یہ محسوس ہوا کہ آپ ایک انسان کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معاملات میں ہر صورت میں خود ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور ہر مسئلے کوافہام و تفہیم سے حل کرنے کا درس دیتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کہ فریقین باہمی رضامندی سے مسئلہ فساد کو مٹانے کی نیت رکھتے ہوں اور زور آور کم زورکی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ (سید غلام احمد بخاری، بیروہ، کشمیر)
جواب
میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ میںنے اپنے ذاتی خیال کے طورپر نہیں لکھا ہے، بلکہ خدا کے مقرر کردہ قانونِ فطرت کے حوالے سے لکھا ہے۔ ہم جس دنیا میں ہیں، اُس دنیا کو خدا نے بنایا ہے۔ یہ خود خدا ہے جس نے اِس دنیا کے لیے قوانین مقرر کیے ہیں۔ ہمارے لیے کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم خدا کے قانون کو دریافت کریں اور اُس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
قرآن کا مطالعہ کیجئے تو قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ کوئی اجتماعی مسئلہ پیش آئے تو آدمی کو سب سے پہلے خود اپنی غلطی کو دریافت کرنا چاہئے۔ اپنی غلطی کو دریافت کرکے اس کی اصلاح کرنا، یہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ تمھارے اوپر جو مصیبت بھی آتی ہے، وہ صرف تمھارے اپنے کیے کا نتیجہ ہوتی ہے (الشوریٰ: 30 )۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم صبرکرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی (آل عمران:120 )۔
اِس قسم کی آیتوں اور حدیثوں پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ شکایت اور احتجاج کا ذہن سرتاسر ایک غیر فطری ذہن ہے۔ شکایت اور احتجاج پر مبنی تحریکوں سے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔ کیوں کہ ایسی تحریکیں خدا کے نقشے کے خلاف ہیں۔ ہمارے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی روش پر نظر ثانی کریں۔ داخلی محنت اور پُرامن تدبیر کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا جو طریقہ ہے، وہ صرف ایک خود ساختہ طریقہ ہے، اور ایسے خود ساختہ طریقوں سے خدا کی مدد ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
1 - وشویُوا کیندر ( نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میں
Seminar on Youth and Peace Initiative
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس سیمنار میںشرکت کی، اور اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریرکے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوںنے مہمانانِ خصوصی اور حاضرین کو مطالعے کے لیے قرآن کا نیا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
2 - جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے انصاری آڈی ٹوریم میں
Global Congress on World’s Religions, After September 11, An Asian Perspective.
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ اس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد وہاں موجود تھے۔ انھوںنے حاضرین کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر دیا۔ انھوںنے کنیڈا سے آئے ہوئے مہمانوں کو دعوتی لٹریچر کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کا نیا انگریزی ترجمہ قرآن دیا۔ جامعہ کے طلبا نے بڑے پیمانے پر ہمارے ساتھیوں سے اردو اور انگریزی زبان میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر حاصل کیا۔
3 - قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (نئی دہلی) کی طرف سے
4 - بھاؤ نگر (گجرات) میں
5 - نئی دہلی کے میٹری کالج (Maitrey College) کے ہال میں 10 فروری 2009 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کے خطاب کے لیے کیا گیا۔ پروگرام کا موضوعIslam and Terrorism تھا۔
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس پروگرام میں شرکت کی اور قرآن اور حدیث کی روشنی میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ سی پی ایس کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوںنے حاضرین کو مطالعے کے لیے اسلامی لٹریچر دیا۔ یہ لڑکیوں کا ایک کالج ہے۔ پورا ہال طالبات اور ٹیچروں سے بھرا ہوا تھا۔ سامعین نے ہمارے ساتھیوں سے قرآن کی کاپیاں حاصل کیں۔ قرآن کے نسخے ختم ہو جانے پر انھوںنے اپنے پتے لکھ کردیے اور کہا کہ اِس پتے پر آپ ہم کو قرآن کی کاپیاں بھجوادیں۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔
6 - نظام الدین ویسٹ ایسوسی ایشن (نئی دہلی) کے ہال میں
7 - شری ستیہ سائی سیوا آرگنائزیشن (نئی دہلی) کی طرف سے
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس کے صدرمیئر چیف مارشل این سی سوری تھے۔ انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں مائک سے یہ اعلان کیا کہ آپ لوگ قرآن کو پڑھ کر اسلام کے بارے میں کوئی رائے قائم کریں۔ اِس اعلان کے بعد حاضرین نے سی پی ایس کے افراد سے قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کیا۔ اِس کے علاوہ، ان لوگوں کو مطالعے کے لیے اسلامی لٹریچر دیاگیا۔
8 - آل انڈیا امام آرگنائزیشن (نئی دہلی) کی طرف سے 7 مارچ 2009 کو غالب اکیڈمی (نئی دہلی) میںایک کانفرنس ہوئی۔ اِس کانفرنس کا موضوع یہ تھا— کل ہند تنظیم ائمہ مساجد کانفرنس
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز کسی وجہ سے اس میں شرکت نہ کرسکے۔ تاہم الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ افراد اِس پروگرام میں شریک ہوئے اور انھوںنے مہمانانِ خصوصی اور ائمہ حضرات کو تذکیر القرآن (اردو) کا ایک ایک نسخہ بطور ہدیہ دیا۔ اِس کے ساتھ انھوںنے شرکاء کو مطالعے کے لیے اردو اور ہندی میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر دیا۔ مثلاً — مقصد حیات، اور ستیہ کی کھوج، وغیرہ۔ حاضرین نے اس کو شوق سے لیا۔
9 - ایک خط: میں بہت دن سے سوچ رہا تھا کہ الرسالہ مشن سے متعلق اپنے تاثرات آپ کو تحریر کروں۔ میںالرسالہ کا سال 1991 سے قاری ہوں۔ آپ کی کتابوں کا خاصہ ذخیرہ میرے پاس موجود ہے۔ ابھی حال ہی میں میں نے ایک مسجد سیٹ اور دوسرا مدرسہ سیٹ منگوا کر لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیا ہے۔ الرسالہ کے ایک ایک سال کی فائل مجلدکروا کر دار العلوم کو بھیج دیتا ہوں۔الرسالہ پوری عالم انسانیت کا رہبر ہے۔ اِس کا ہر مضمون بلکہ ایک ایک حرف علم اور معرفت سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ ہر پڑھنے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کرتا ہے، عالم، عابد، ادیب، شاعر، تاریخ داں، سائنس داں اور وہ دانش ور جو سنجیدہ ذہن رکھتے ہوں، اُن سب کے لیے اِس کا ہر مضمون عبرت و نصیحت لئے ہوئے قرآن اور حدیث کے دلائل پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس میں حالات حاضرہ کو خاص طور سے بتایا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے طالب علم اور دانش ور سائنسی باتوں سے متاثر ہیں۔ وہ قرآن اور حدیث کی باتوں کو سائنسی دلائل سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ اِن باتوں کو آپ الرسالہ اور دیگر تصنیفات میں بخوبی طور پر استدلال کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
الرسالہ ماہ ستمبر 2008 کا ایک مضمون (قیامت کے دروازے پر) کئی بار پڑھا۔ آپ نے بہت بہترین اور استدلالی شکل میں دنیا کے حالات اور زندگی کے خطرات کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ہر انسان کے غور وفکر کرنے کی چیز ہے۔اس میں Global Warming ، Life Support System اور Moral Support System کا تذکرہ کرتے ہوئے بیش قیمت باتیں انسانی بقا کے لئے بتائی گئی ہیں۔ یہ پوری عالم انسانیت کے لئے ایک Warning ہے۔ ( ابرار حسین قریشی، دھار، مدھیہ پردیش)
10 - شانتی سندیش کیندر (سورت، گجرات) سے صدر اسلامی مرکز کی اردو کتابوں کے گجراتی زبان میں ترجمے کا کام شروع ہوگیا ہے۔ اِس کے تحت گجراتی زبان میں صدر اسلامی مرکز کے کئی کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ مثلاً ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘ ‘گجراتی زبان میں ’’جاگ مانو جاگ‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ اپریل 2009 سے ماہ نامہ الرسالہ کا گجراتی ایڈیشن ’’شانتی سندیش‘‘ کے نام سے جاری ہوگیا ہے۔ پتہ حسب ذیل ہے:
Shanti Sandesh Kendra
Maharaja Chambers, Near Maharaja Cinema
Salawatpur, Surat, Gujrat
Tel. 09228195972, 0261-2366080
Goodword Books
1, Nizamuddin West Market
New Delhi-110 013
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.