حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ
حیاتیاتی ارتقاء (evolution)کا نظریہ برٹش عالمِ طبیعیات (naturalist) چارلس ڈارون (Charles Darwin) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ڈارون 1809 میں پیدا ہوا، اور 1882 میں اس کی وفات ہوئی۔ 2009 میںاس کی پیدائش پر دو سو سال پورے ہوگئے۔ اِس نسبت سے 2009 میں ڈارون کا اور اس کے نظریے کا کافی چرچا کیا گیا۔ ڈارون سے پہلے فرانسیسی عالمِ طبیعیات لا مارک (Jean Baptiste Lamarck) وغیرہ نے بھی ابتدائی صورت میں ارتقاء کا نظریہ پیش کیا تھا۔ لیکن ڈارون نے اِس نظریے کو زیادہ منظم انداز میں پیش کیا۔
نظریۂ ارتقاء کیا ہے۔ اِس سے مراد یہ نظریہ ہے کہ — نباتات اور حیوانات کی تمام انواع ایک ابتدائی صورت سے ترقی کرکے اپنی موجودہ حالت تک پہنچیں ہیں۔ یہ ارتقاء نسل درنسل تبدیلیوں کے وراثتی انتقال کے ذریعے ہوا:
Evolution: Theory that all species of animals and plants developed from earlier forms by hereditary transmission of slight variations in genetic composition to successive generations.
چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع(The Origin of Species) میںلکھا تھا کہ خدا (God) نے پہلی بار زندگی کی ابتدائی صورت ایک خلیہ والے (single-cellular) امیبا کی شکل میں پیدا کی۔ اس کے بعد اپنے آپ تبدیلیوں (mutations) اور فطری انتخاب(natural selection) اور بقائِ اصلح (survival of the fittest) کے ذریعے مختلف انواعِ حیات بنتی چلی گئیں، یہاںتک کہ آخر میں انسان جیسی ترقی یافتہ مخلوق وجود میں آئی۔ یہ سب کچھ ارتقائی عمل (evolutionary process) کے ذریعے خود بخود پیش آیا۔ ڈارون نے اپنی کتاب میں خالقِ اوّل کے طور پر خدا کا نام لیا تھا، لیکن بعد کو نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے درمیان، خدا کا نام مکمل طورپر حذف ہوگیا۔
ارتقائی سفر کا یہ پورا عمل موجودہ زمین پر پیش آیا تھا۔ لیکن بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ موجودہ قسم کے ارتقائی عمل کا ہماری زمین پر پیش آنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔مثال کے طورپر زمین کی عمر اُس سے بہت زیادہ کم ہے جو مذکورہ قسم کے ارتقائی عمل کے لیے درکار ہے۔
نظریہ ارتقاء یہ فرض کرتا ہے کہ ایک نوعِ حیات سے دوسری نوعِ حیات کا وجود میں آنا، حیاتیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ مثلاً بکری کے اندر نسل درنسل بے شمار تبدیلیاں وجود میں آئیں، یہاں تک کہ اِن تبدیلیوں کے جمع ہونے سے بکری کی آخری نسل میں زرافہ جیسا حیوان پیدا ہوگیا۔ یہ لمبا سفر ان گنت تبدیلیوں کے ذریعے ہوا۔ایک ریاضی داں پروفیسر پاچو(Patau) نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ کسی نوعِ حیات میں ایک بہت معمولی قسم کی مفروضہ تبدیلی کو وجود میں لانے کے لیے ایک ملین نسلیں درکار ہوں گی:
Even a minor change in any species would take one million generations to be completed.
لیکن حیاتیاتی تبدیلیوں (mutations) کا یہ عمل اگر بالفرض وقوع میں آسکے، تب بھی اِس طویل حیاتیاتی عمل کا موجودہ زمین (planet earth)پر وقوع میں آنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ زمین کی عمر اِس طرح کے طویل عمل کے لیے سراسر ناکافی ہے۔ چارلس ڈارون کے زمانے میں زمین کی عمر معلوم نہ تھی۔مگر اب ٹکنالوجی کی ترقی کے بعد زمین کی عمر قطعی طورپر معلوم ہوچکی ہے۔
ارضیاتی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین ابتدائی طورپر دو بلین سال پہلے وجود میں آئی۔ اُس وقت وہ نہایت گرم تھی۔ اِس کے بعد زمین ٹھنڈی ہوئی اور پانی وجود میں آیا۔ ارضیاتی تحقیق (geological studies) کے مطابق، ایک بلین 23 کرور سال پہلے زمین ٹھنڈی ہوکر اِس قابل ہوئی کہ زندگی جیسی چیز اُس کے اوپر وجود میں آسکے۔ اب اگر ڈارون ازم کے مفروضہ کے مطابق، انسان اور دوسری انواع حیات ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں آئی ہیں تو زمین کی مذکورہ عمر ایسے عمل کے لیے انتہائی حد تک ناکافی ہے۔ ایک بلین 23 کرور سال کے اندر اِس قسم کے ارتقائی عمل کی تکمیل سرے سے ممکن ہی نہیں۔
بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں جب زمین کی عمر دریافت کی گئی تو ارتقاء پسند علماء کو محسوس ہوا کہ اُن کا نظریہ موجودہ زمین کی نسبت سے قابلِ عمل ہی نہیں ہے۔ اب انھوںنے قدیم نظریۂ ارتقاء میں ایک اور تصور کا اضافہ کیا۔ انھوںنے یہ نظریہ قائم کیا کہ زندگی کی ابتدائی صورت زمین کے سوا کسی اور سیارہ (planet) پر ظہور میں آئی، پھر وہاں سے سفر کرکے وہ زمین پر پہنچی اور زندگی کا اگلا ترقیاتی عمل موجودہ زمین پر پیش آیا۔ اس نظریے کو اصطلاحی طورپر پَینس پرمیا (panspermia) کہاجاتا ہے۔
اِس کے بعد ایک نئی دوڑ شروع ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد خلائی سائنس (space science) کا زمانہ آگیا۔ اِسی کے ساتھ الیکٹرانک دور بینیں ایجاد ہوگئیں۔ چناں چہ ایسے خلائی راکٹ بنائے گئے جن پر طاقت ور الیکٹرانک دور بینیں نصب تھیں۔ یہ راکٹ زمین سے اوپر خلا میں بھیجے گئے۔ زمین سے کافی بلندی پر گردش کرتے ہوئے انھوںنے کائنات کے بعید ترین حصوںکے فوٹو لیے اور اُن کو زمین پر بھیجا۔ اِن تصویروں کو کمپیوٹر پر محفوظ کرلیا گیا۔ مگر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری زمین کے سوا کہیں بھی کوئی دوسرا سیارہ ایسا موجود نہیں ہے جہاں زندگی جیسی چیز نشو ونما پاسکے۔ اِس طرح پینس پرمیا کا نظریہ عملی طورپر ختم ہوگیا۔
اب یہ سوال تھا کہ زمین کی محدودیت کے اندر مفروضہ ارتقائی عمل کس طرح وقوع میں آیا۔ اِس سوال کو حل کرنے کے لیے دوبارہ ایک نئی تحقیق شروع ہوئی۔ اِس تحقیق میں کئی اعلیٰ سائنس داں شامل تھے۔ اب اِس تحقیق کے نتائج امریکا کے مشہور جنرل نیچر (Nature) میںشائع کیے گئے ہیں۔ اِس تحقیق کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا ( 13 فروری 2009 ) میںدیکھا جاسکتا ہے۔ نظریۂ ارتقاء کے بارے میں اِس قسم کی تحقیق جرمنی اور کینیڈا، وغیرہ میں بھی ہوئی۔ اِس تحقیق کے نتائج مجلہ سائنس (Science) کے شمارہ 13 فروری 2009 میں شائع ہوئے ہیں۔
ارتقاء کے بارے میں نئی رسرچ ارتقاء کے اصل سوالات کو حل نہیں کرتی۔ وہ صرف یہ کرتی ہے کہ نظریہ ارتقاء کی توجیہہ کے لیے ایک نیا ٹکنکل لفظ (technical term) دیتی ہے۔ ارتقاء کا روایتی تصور تبدیلیوں (mutations) کے اصول پر قائم تھا، یعنی نسل درنسل چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے جمع ہونے سے ایک نوع کا دوسری نوع کی صورت اختیار کرلینا۔ کلاسکل تبدیلی (classical mutation) کا نظریہ اِس سوال کا جواب نہیں دیتا تھا کہ خود یہ تبدیلی کیسے واقع ہوتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی رسرچ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ بے شمار تبدیلیاں تدریجی (gradual) طورپر اپنے آپ ہوسکتی ہیں۔
نئی ریسرچ نے صرف یہ کیا ہے کہ اُس نے آتش فشانی انشقاق (volcanic eruption) پر قیاس کرتے ہوئے وہ نظریہ وضع کیا جس کو انھوںنے جنینیاتی تبدیلی (genetic change) کا نام دیا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلی تدریجی انداز میں نہیں ہوئی، بلکہ انفجاری انداز میں ہوئی:
These are like volcanoes in the genome, blowing out pieces of DNA.
تاہم اِس نئی رسرچ کے بعد بھی اصل مسئلہ بدستور باقی ہے۔ یہ رسرچ مفروضہ طورپر جو کچھ بتاتی ہے، وہ صرف تبدیلیوں کے وقوع کی مفروضہ توجیہہ ہے، نہ کہ اِس بات کی توجیہہ کہ زمین کی محدود مدت میںبے شمار تبدیلیاں کیسے وقوع میںآئیں۔ ہماری زمین کی محدود مدت کی نسبت سے یہ نئی ’’تحقیق‘‘ بھی اتنا ہی ناکافی ہے، جتنا کہ قدیم کلاسکل توجیہہ۔
نظریہ ارتقاء کا یہ دعویٰ ہے کہ واحد الخلیہ (single cellular) امیبا میںتبدیلیاں ہوئیں، اِس کے بعد وہ کثیر الخلیہ(multi-cellular) حیوان بن گیا۔ مچھلی کے اندر تبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ چڑیا بن گئی۔ بکری کے اندر تبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ زرافہ بن گئی۔ بلی کے اندرتبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ شیر بن گئی۔ بندر کے اندر تبدیلیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ انسان بن گیا۔
مذکورہ نئی تحقیق صرف یہ کرتی ہے کہ وہ اِن تبدیلیوں کو تدریجی نوعیت کی تبدیلی قراردینے کے بجائے اُن کو انفجاری نوعیت کی تبدیلی بتاتی ہے۔ مگر اِس نئی ’’تحقیق‘‘ کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتاہے کہ ان گنت تبدیلیوں (countless changes) کے اِس عمل کے لیے جو بے حد لمبی مدت درکار ہے، موجودہ سیارۂ ارض پر ان کا وقوع میں آنا ممکن نہیں۔ کیوںکہ سیارۂ ارض کی عمر معلوم طورپر اُس سے بہت زیادہ کم ہے جو کہ اِن مفروضہ تبدیلیوں کے لیے درکار ہے۔
اِس ’’تحقیق‘‘میں ارتقائی عمل کے لیے درکار مطلوب مدت کے مسئلے کو اِس طرح حل کیا گیا ہے کہ یہ فرض کرلیاگیا کہ حیاتیاتی ارتقاء بذریعہ انفجار(explosion) پیش آیا ہے۔ محققین نے اِس معاملے کو آتش فشانی انشقاق(volcanic eruption) پر قیاس کیا ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ جس طرح ایک آتش فشانی پہاڑ اچانک پھٹتا ہے اور اس کے اندر سے لاوا (lava) کی صورت میں ایک نئی چیز نکل آتی ہے، اُسی طرح انفجار کے ذریعے زندگی کی مختلف صورتیں ایک کے بعد ایک نکلتی چلی گئیں۔
اِس ارتقائی انشقاق (evolutionary eruption) کا مطلب یہ ہے کہ — واحد الخلیہ نوع میں انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک کثیر الخلیہ نوع وجود میں آگئی۔ مچھلی کے اندر انشقاق ہوا، اِس کے بعد اچانک چڑیا وجود میں آگئی۔بکری کے اندر انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک زرافہ وجود میں آگیا۔ بلّی کے اندر انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک شیر وجود میں آگیا۔ بندر کے اندر انشقاق ہوا، اس کے بعد اچانک انسان وجود میں آگیا، وغیرہ۔
انشقاق (eruption) کا یہ نظریہ کسی حقیقی سائنسی دریافت پر مبنی نہیں ہے۔ وہ دوبارہ اُسی طرح غیر متعلق قیاسات (irrelevant suppositions) پر مبنی ہے، جیسا کہ ڈارون نے اِسی طرح کے غیر متعلق قیاسات پر بنا رکھتے ہوئے ابتدائی طورپر اپنا نظریۂ ارتقاء وضع کیا تھا۔
نظریہ ارتقاء میں بے شمار قسم کی گم شدہ کڑیاں (missing links) موجود تھیں، تاہم اِن گم شدہ کڑیوں کو قیاسی طورپر فرض کرتے ہوئے ارتقاء کا نظریہ تسلیم کرلیا گیا۔ یہی معاملہ جدید تحقیق کا بھی ہے۔ اِس تحقیق میں بھی بے شمار قسم کی نامعلوم کڑیاں ہیں، لیکن اِن نا معلوم کڑیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے محض قیاس کی بنیاد پر یہ جدید نظریہ وضع کرلیا گیا۔
ارتقاء کا نظریہ یہ فرض کرتا ہے کہ انواعِ حیات میں مسلسل تغیرات ہوئے ہیں۔ یہ تغیرات ماحول کے تعامل سے وجود میں آتے ہیں، یا آئے ہیں۔ اِس ارتقائی اصول کو موافقت (adaptation) کہاجاتا ہے۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اِس موافقت کے نتیجے میں جو تغیرات پیش آتے ہیں، وہ نسل درنسل جمع ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
موافقت (adaptation) کے اِس مفروضہ نظریے کے حق میں کوئی دلیل یا مثال موجود نہیں۔ البتہ کچھ غیر متعلق مثالیں پیش کی جاتی ہیں، مگر یہ مثالیں مغالطے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ایک مشہور مثال پتنگا (moth) کی ہے۔ مشاہدے سے معلوم ہوا کہ جو پتنگے سبز درختوں اور پودوں کے درمیان رہتے ہیں، وہ ہرے(green) ہوجاتے ہیں، اور جو پتنگے پتھریلے علاقوں میں رہتے ہیں، اُن کا رنگ پتھریلا رنگ بن جاتا ہے۔
اِس مثال سے ارتقاء کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ جو چیز اِس سے ثابت ہوتی ہے، وہ یہ کہ خارجی ماحول ظاہری رنگ پر اثر انداز ہوتا ہے، جیسا کہ سرد ممالک میں رہنے والے لوگ اکثر سفید فام ہوتے ہیں اور گرم ممالک میں رہنے والے لوگ اکثر سیاہ فام۔ مگرنظریہ ارتقاء کے ضمن میں جو اصل بحث ہے، وہ جسم کے خارجی رنگ (colour) میں تبدیلی کی نہیں ہے، بلکہ نوع(species) میں تبدیلی کی ہے، اور پتنگے کی مثال سے نوع میں تبدیلی کا اصول ثابت نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ 1859 میں بھی ایک غیر سائنسی نظریہ تھا، جب کہ چارلس ڈارون کی کتاب اصل الانواع (The Origin of Species) پہلی بار چھپی اور 2009 میں بھی وہ اتنا ہی غیر سائنسی ہے، جب کہ امریکی جنرل نیچر(Nature) میں کچھ امریکی پروفیسروں کے ’’نتائجِ تحقیق‘‘ شائع ہوئے ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ حیاتیاتی ارتقاء کے نظریے کو موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ طبقے میں عمومی قبولیت (general acceptance) حاصل ہوچکا ہے، مگر واقعات بتاتے ہیں کہ اِس نظریے کی یہ مقبولیت اِس لیے نہیں ہوئی ہے کہ سائنسی طورپر وہ ثابت ہوگیا ہے۔ اس کا سبب یقینی طورپر صرف یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ زندگی کی تشریح خدا کے بغیر کرنا چاہتا ہے۔ جدید طبقے کو یہ نظر آتا ہے کہ نظریۂ ارتقاء کی صورت میں اس کو ایک ورک ایبل نظریہ (workable theory) حاصل ہوگیا ہے۔ اِس کے سوا کوئی بھی حقیقی علمی بنیاد نظریہ ارتقاء کے حق میں موجود نہیں ۔
نظریۂ ارتقاء اور مذہب
نظریہ ارتقاء کے ابتدائی زمانے میں مسیحی چرچ اُس کا سخت مخالف بن گیا تھا۔ مگر اب غالباً حالات کے دباؤ کے تحت، مسیحی چرچ نے نظریۂ ارتقاء کی واقعیت کو تسلیم کرلیا ہے۔ اِس سلسلے میں میڈیا میں جو رپورٹیں آئی ہیں، اُن کا ایک حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
The Vatican has admitted that Charles Darwin’s theory of evolution should not have been dismissed and claimed it is compatible with the Christian view of creation. According to the Telegraph, Archbishop Gianfranco Ravasi, the head of the pontifical Council for Culture, said while the church had been hostile to Darwin’s theory in the past, the idea of evolution could be traced to St Augustine and St Thomas Aquinas. Father Giuseppe Tanzella-Nitti of the Pontifical Santa Croce University in Rome, added that 4th century theologian St Augustine had “never heard the term evolution, but knew that big fish eat smaller fish” and forms of life had been transformed “slowly over time”. (The Times of India, New Delhi, February 12, 2009, p. 19)
نظریۂ ارتقاء کے بارے میں اِس قسم کی رائے کااظہارکچھ مسلم اہلِ علم نے بھی کیا ہے۔ مثلاً الجزائر کے شیخ ندیم الجِسر (قصۃ العلم بین الفلسفۃ والعلم والقرآن)، اور پاکستان کے ڈاکٹر محمد رفیع الدین (قرآن اور علمِ جدید) وغیرہ۔ اِن لوگوں کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ خدا کے انکار کے ہم معنیٰ نہیں ہے، کیوں کہ وہ زندگی کو ابتداء ً وجود میں لانے کے لیے خدا کو سببِ اول(first cause) کے طورپر مانتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر زندگی کی مختلف انواع مفروضہ ارتقائی طریقے کے مطابق، وجود میں آئیں، تب بھی ان کو ابتدائی طورپر وجود میں لانے والا ایک خدا (God) تھا۔
لیکن یہ توجیہہ درست نہیں۔ مذہبی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا کی حیثیت صرف ’’سببِ اول‘‘ کی نہیں ہے، بلکہ خدا مسلسل طورپر ہماری زندگی میں شامل ہے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق، خدا مسلسل طورپر کائنات کو کنٹرول کررہا ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان تعلق ایک مسلسل تعلق ہے جو بلاانقطاع ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ پھر یہ کہ خدا محاسب اور مُجازی ہے۔ قیامت کے دن خدا مالک ِ یوم الدین کی حیثیت سے تمام انسانوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ خدا کی یہ تمام حیثیتیں، نظریہ ارتقاء میں حذف ہوجاتی ہیں۔ ایسی حالت میں حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ مذہبی اعتبار سے کبھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
خدا اور بندے کے درمیان جو تعلق مطلوب ہے، وہ ایک زندہ تعلق ہے۔ وہ ذکر اور دعاء اور عبادت اور تفکر اور تدبر اور توسّم کے ذریعے ہر وقت اور ہر لمحہ قائم رہتا ہے۔ انسان ہر لمحہ خدا سے مانگتا ہے، اور ہر لمحہ وہ خدا کی طرف سے پاتا ہے۔ انسان جس طرح وجود میں آنے کے لیے خدا کا محتاج ہے، اُسی طرح وہ اپنی بقاکے لیے بھی مکمل طورپر خدا کا محتاج ہے۔ خدا اگر ایک لمحے کے لیے انسان کو نظر انداز کردے تو انسان تباہ ہو کر رہ جائے۔ مذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نہ صرف خالق (creator) ہے، بلکہ وہ رازق اور قیوم (sustainer) بھی ہے۔ ایسی حالت میںنظریہ ارتقاء عملاً خدا کی نفی ہے، نہ کہ خدا کی تصدیق۔
واپس اوپر جائیں