قرآن کی سورہ نمبر
اِس آیت میں قلب سے مراد معروف معنوں میں دل نہیں ہے، بلکہ شعور ہے۔ سلیم یا سلامت کا مطلب ہوتا ہے— بَری ہونا۔ ضحّاک بن مُزاحم تابعی (وفات:
اصل یہ ہے کہ ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر ماحول کے اثر سے اُس کی فطرت گرد آلود ہوتی رہتی ہے۔ اِن خارجی اثرات سے پاک کرکے فطرت کواس کی اصل حالت پر قائم کرنے کا نام محاسبہیا ڈی کنڈیشننگ ہے۔ یہی بے لاگ محاسبہ اِس بات کا ضامن ہے کہ آدمی صحیح فطرت یا قلبِ سلیم کا حامل ہو۔ اور جو لوگ ایسا کرسکیں، وہی وہ لوگ ہیں جو قلب سلیم کے ساتھ خدا کے یہاں پہنچیں گے اور آخرت میں جنت کی ابدی دنیا میں داخلے کے مستحق قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
بنگلور کا واقعہ ہے۔ ایک ہندو نوجوان کی بعض عادتوں سے اُس کا باپ سخت ناراض ہوگیا۔ اُس نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ ایک عرصے تک وہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ آخر کار، اس کی ملاقات ڈاکٹراحمد سلطان (وفات: 1999 ) سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا باپ تم کو دوبارہ قبول کرلے تو اس کی صرف ایک صورت ہے۔ تم خاموشی سے اپنے گھر جاؤ، اوروہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ جب دروازہ کھلے اور تمھارا باپ تمھارے سامنے آئے تو تم فوراً ہی باپ کے پیروں پر گر پڑو، اور کہو کہ باپ، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ کو معاف کردے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا۔ جب لڑکا روتے ہوئے اپنے باپ کہ پیروں پر گر پڑا تو باپ بھی رونے لگا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگالیا اور اس کو معاف کرکے دوبارہ اپنے گھر میں داخل کرلیا۔
سجدہ بلاتشبیہہ اِسی قسم کی ایک حالت ہے۔ سجدہ کوئی رسمی فعل نہیں ۔ حقیقی سجدہ یہ ہے کہ ایک بندہ شدتِ احساس سے بے چین ہوجائے اور بے تابانہ طور پر وہ اپنا سر زمین پر رکھ دے۔ ایسا سجدہ گویا کہ اپنے رب کے قدموں میں سررکھنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ ایسا سجدہ تسلیم ورضا کی آخری صورت ہے۔ جب کوئی بندہ اِس طرح اپنے آپ کو آخری حد تک خدا کے آگے سرینڈر (surrender) کردے تو خدا کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس کو معاف فرما کر اُسے اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
انسانی فکر اور انسانی عمل دونوں کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں— ایک ہے عجلت کا انداز، اور دوسرا ہے بردباری کا انداز:
To proceed hurriedly, To proceed unhurriedly
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک صفت وہ رکھی گئی ہے جس کو حساسیت (sensitivity) کہاجاتا ہے۔ یہ حساسیت ایک استثنائی نوعیت کی قیمتی صفت ہے۔ لیکن ہر دوسری صفت کی طرح، اِس صفت کا بھی پلس پوائنٹ (plus point) اور مائنس پوائنٹ(minus point) ہے۔ اِس صفت کا پلس پوائنٹ مثال کے طورپر حیا ہے۔ اِسی طرح، عجلت اِس صفت کا ایک مائنس پوائنٹ ہے۔ یہ دراصل حساسیت ہے جس کی وجہ سے آدمی عجلت پسند بن جاتا ہے۔
حساسیت، خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر حساسیت نہ ہو تو آدمی حیوان کے مانند ہوجائے گا۔ بُرائی کو برائی سمجھنے کا مزاج اس کے اندر سے ختم ہوجائے گا۔ عجلت کا مزاج اِسی حساسیت کا ایک منفی نتیجہ ہے۔ آدمی کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے اور فوری طورپر ایک رائے بنا لیتا ہے، یا فوری طورپر وہ کوئی اقدام کردیتا ہے۔ فکر یا عمل میںاِس قسم کا عاجلانہ انداز اِسی حساسیت کا ایک غیر مطلوب اظہار ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عجلت پسندی کے مزاج کو عقل کے تابع بنائے۔ وہ ایسا کرے کہ بولنے اور کرنے سے پہلے سوچے۔ وہ سوچنے کے بعد کوئی بات کہے اور سوچنے کے بعد کوئی عمل کرے۔ عجلت پسندی کو قابو میں رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے— عجلت پسندی کا مزاج تو ختم نہیں ہوسکتا، البتہ عقل کے تابع رکھ کر اس کو مفید بنایا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ اِس کے مطابق، آپ نے فرمایا: خلق اللہ آدم علیٰ صورتہ (صحیح البخاری، کتاب الإستئذان؛ صحیح مسلم، کتاب البر، کتاب الجنۃ؛مسند احمد، جلد 2 ،صفحہ
انسان پوری کائنات میں ایک استثنائی مخلوق ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کو ایک جامع شخصیت (personality) عطا ہوئی ہے۔ انسان سوچتا ہے، انسان دیکھتا ہے، انسان سنتا ہے، انسان منصوبہ بند عمل کرتا ہے، انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعہ چیزوں سے انجوائے کرسکتاہے۔ اِس قسم کی استثنائی خصوصیات ہیں جو پوری کائنات میں صرف انسان کا حصہ ہیں۔
انسان کو یہ استثنائی عطیات اِس لیے دیے گئے ہیں کہ وہ استثنائی عمل کا ثبوت دے۔ یہ استثنائی عمل خالق کی شعوری معرفت ہے۔ اِس طرح خداوند ِ ذوالجلال نے انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ معرفت کے درجے میں خدا کو دریافت کرے۔ وہ غیب کی حالت میں خدا کو دیکھے۔ وہ اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کے آگے بے اختیار کرلے۔ مجبوری کے بغیر وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے سرینڈر کردے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنا ذہنی ارتقا کرے، وہ ذاتی دریافت کے درجے میں سچائی کو پائے۔ وہ سجدۂ معرفت کی سطح پر خدا کے آگے جھک جائے۔ وہ پورے عالمِ فطرت کو اپنی روحانی غذا بنالے۔ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا اِس طرح کرے کہ وہ خداوند ِ ذو الجلال کے پڑوس میں جگہ پانے کا مستحق بن جائے— جوآدمی اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت (personality) نہ بناسکے، وہ صرف انسان نما حیوان ہے، اس کی کوئی قیمت خدا کے یہاں نہیں۔
واپس اوپر جائیں
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یَسِّروا ولا تعسِّرُوا، وبشِّروا ولاتُنَفِّرُوا (صحیح البخاری، کتاب العلم) یعنی تم لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو،تم لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کرو۔ تم لوگوں کو خوش خبری دو، تم لوگوں کو متنفر نہ کرو۔
اِس حدیثِ رسول میں دراصل انسانی رعایت کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان کے ساتھ آخری حد تک رعایت کا معاملہ کیا جائے۔قول یا عمل ، کسی میں بھی شدت کا انداز اختیار نہ کیا جائے۔
اِس رعایت کا مطلب لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاح کے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (starting point)اختیار کیا جائے۔ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعمال کے ظاہری پہلوؤں کے بارے میں رعایت کا معاملہ کیا جائے اور زیادہ زور اور تاکید اعمال کے داخلی پہلوؤں پر دیا جائے۔ کیوںکہ ظواہر کی اصلاح سے داخلی اصلاح نہیںہوتی، بلکہ اِس کے برعکس، داخلی اصلاح سے ظواہر کی اصلاح ہوتی ہے۔
رعایت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو دین پر عمل کرنا، زیادہ مشکل نہیںمعلوم ہوتا ۔ وہ متوحش ہوئے بغیر دینی اعمال کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آدمی کے داخل کی اصلاح ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کے ظواہر بھی دین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ رعایت دراصل حکیمانہ طریقِ کار کا دوسرا نام ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقی اصلاح ہمیشہ حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ غیر حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے۔مُصلح کا طریقہ ہمیشہ رعایت کا ہونا چاہیے۔ مصلح کا سارا زور اِس پر ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر جذبۂ عمل پیدا کرے۔ عمل کا جذبہ پیدا ہوتے ہی آدمی وہ کام خود کرنے لگتا ہے جس کو شدت پسند مصلح ناکام طورپر انجام دینا چاہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
صحیح مسلم اور مسند احمد میں ایک حدیث آئی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن جابر، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إنّ إبلیس یضع عرشہ علی الماء، ثم یبعث سَرایاہ یفتنون الناس، فأدناہم منہ منزلۃ أعظمہم فتنۃ۔ یجیٔ أحدہم فیقول: فعلت کذا وکذا۔ فیقول: ماصنعتَ شیئا۔ قال: ثم یجییٔ أحدہم فیقول: ما ترکتہ حتی فرّقت بینہ وبین امرأتہ۔ قال فیدنیہ منہ، ویقول: نعم، أنتَ۔ قال الأعمش: اُراہ قال ’’فیلتزمہ‘‘، (رواہ مسلم بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابلیس اپنا تخت پانی (سمندر) کے اوپر بچھاتا ہے، پھر وہ دستوں کی شکل میںاپنے ساتھیوں کو بھیجتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو فتنے میں ڈالیں۔ ابلیس کے نزدیک درجے کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جس نے لوگوں کو زیادہ بڑے فتنے میں ڈالا ہو۔ ہر ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے یہ کیا اور میںنے وہ کیا۔ ابلیس کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر اُن میں سے ایک آتا ہے اورکہتا ہے کہ میں ایک شخص کے پاس پہنچا اور میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق ڈال دی۔ بس ابلیس اس کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ ہاں تم نے کام کیا۔ اعمش نے کہا کہ ابلیس اس کو اپنے سینے سے چمٹا لیتا ہے۔
اِس حدیث میں ایک اہم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ سماجی زندگی کا یونٹ گھر ہوتا ہے۔ اور گھر اِس طرح بنتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت شوہر اور بیوی کی حیثیت سے ایک گھر میں رہنا شروع کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق پڑ جائے تو گویا کہ سماجی عمارت کی ایک اینٹ کم زور پڑ گئی۔ قدیم زمانے میں یہ بُرائی صرف ایک محدود برائی تھی، مگر جدید تہذیب نے اُس کو ایک عالمی برائی کی حیثیت دے دی ہے۔ آج اجڑے ہوئے گھر (broken homes) کا ظاہرہ ایک عالمی ظاہرہ بن چکا ہے جس نے سماجی زندگی کو جنگل کی زندگی بنا دیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اگر آپ لذیذ کھانا کھائیں اور اس کو کھا کر الحمد للہ کہیں تو یہ حیوانی درجے کا شکر ہے۔ کیوں کہ یہ مشاہدہ اور ذائقہ پر مبنی ہے، اور مشاہدہ اور ذائقہ کے درجے کا شکر صرف حیوانی درجے کا شکر ہے، وہ اعلیٰ انسانی درجے کا شکر نہیں۔
انسان کے درجے کا شکر یہ ہے کہ جب کھانا آپ کے سامنے آئے تو اس کو دیکھ کر خدا کا پورا تخلیقی نظام آپ کو یاد آجائے۔ آپ سوچیں کہ یہ تمام غذائی چیزیں پہلے غیر غذائی چیزیں تھیں۔ خدا نے ایک برتر عمل (process) کے ذریعے ایک عظیم واقعہ برپا کیا، وہ تھا غیر غذا (non-food)کو غذا (food) میں تبدیل کرنا۔ اِس طرح ایک کائناتی عمل کے ذریعے یہ تمام غذائی چیزیں وجود میںآئیں۔
پھر آپ یہ سوچیںکہ یہ غذائی چیزیں اپنی ابتدائی صورت میں میرے لیے توانائی (energy) کا ذریعہ نہیں ہوسکتی تھیں۔ چناں چہ خدا نے مزید یہ کیا کہ اُس نے میرے جسم کے اندر ایک پیچیدہ قسم کا نظام ہضم (digestive system) رکھ دیا۔ یہ نظامِ ہضم ایک خود کار نظام ہے۔ جب میں کوئی چیز کھاتا ہوں تو یہ نظام ہضم اِن غذائی چیزوں کو حیرت انگیز طورپر زندہ خلیات(living cells) میں تبدیل کردیتا ہے، پھر یہ زندہ خلیات میرے جسم میں گوشت اور خون جیسی چیزوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر آپ کے اندر شکر کا ایسا احساس امنڈے، جس کو الفاظ میں ظاہر کرنے کے لیے آپ اپنے آپ کو عاجز پاتے ہوں۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی شکر کیا ہے اور حیوانی شکر کیا۔ اگر آپ کے اندر صرف حیوانی درجے کا شکر ہے توآپ ہمیشہ ناشکری کے احساس میں جئیں گے۔ شکر کے اعلیٰ احساس میں جینے کے لیے انسانی درجے کا جذبۂ شکر درکار ہے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ کم پائی جاتی ہے(وقلیل من عبادی الشکور)۔انسان سے اللہ تعالیٰ کو جو شکر مطلوب ہے، وہ انسانی درجے کا شکر ہے۔ صرف حیوانی درجے کا شکر انسان جیسی مخلوق سے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
خدا اورانسان کے درمیان جو نسبت ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ خدا کُل ہے اور انسان اس کا جُز ہے۔ خدا سمندر ہے اور انسان اس کا ایک قطرہ ہے۔ اِس قسم کی تمام نسبتیں سر تا سر بے بنیاد ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ خدااور انسان کے درمیان ’’ہے ‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کی نسبت ہے۔ خدا سب کچھ ہے اور انسان اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ خدا، واجب الوجود (self-existing) ہے، اور انسان مکمل طور پر اور ہر اعتبار سے خدا کے حکم سے وجود میں آنے والی صرف ایک مخلوق۔
انسان کی صفت یہ ہے کہ وہ ایک صاحبِ شعور مخلوق ہے۔ انسان کے ذریعے اس کائنات میںشعوری عجز کا واقعہ وجود میں آتا ہے، اور بلا شبہہ اِس سے بڑا کوئی دوسرا واقعہ نہیں۔ یہی انسان کی اصل قیمت ہے۔ انسان وہ نادر مخلوق ہے، جو اِس کائنات میں شعورِ قدرت کے مقابلے میں شعورِ عجز کی دوسری انتہا (extent) بناتا ہے۔ وہ کائنات کے صفحے پر ’’عدد‘‘ کے مقابلے میں ’’صفر‘‘ کا ہندسہ تحریر کرتا ہے۔ وہ خداوندی انا کے مقابلے میں اپنے بے انا ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
یہی شعورِ عجز انسان کا سب سے بڑا سرمایہ (asset) ہے۔ یہی کسی انسان کے لیے اس کی سب سے بڑی دریافت (discovery) ہے۔ جب کوئی عورت یا مرد عجز کی زبان بولیں، تو انھوںنے اپنی زبان کا صحیح استعمال کیا۔ اِس کے مقابلے میں جو عورت یا مرد فخر اور سرکشی اور خونمائی اور گھمنڈ اور اظہار برتری کی زبان بولیں، تو انھوںنے اپنی زبان کا غلط استعمال کیا۔ اِس دنیا میں صرف اُس انسان کو جینے کا حق ہے جو اِس کی قیمت ادا کرے، اور یہ قیمت عجز ہے۔ عجز کی قیمت ادا کیے بغیر اِس دنیا میں رہنا بلا شبہہ ایک جُرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
عجز دراصل حقیقت شناسی کی اعلیٰ ترین صورت کا نام ہے۔ عجز کوئی مجبورانہ چیز نہیں، عجز دراصل وہ مثبت کیفیت ہے جو حقیقت ِ اعلیٰ کے اختیارانہ اعتراف سے پیدا ہوتی ہے۔ عجز کوئی انفعالی کیفیت نہیں، وہ تمام فعّال کیفیات سے زیادہ بڑی فعّال کیفیت ہے۔
واپس اوپر جائیں
دسمبر 2003 میں اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر راقم الحروف نے بھی اُس میں شرکت کی۔ اِس کانفرنس میں امریکا کے ایک سینئر پروفیسر آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں ایک متلاشی ٔ حق(truth seeker) تھا۔ میں آئڈنٹٹی کرائسس (identity crisis) کے مسئلے سے دوچار تھا، پھر میں نے قرآن کو پڑھا ۔ میںنے قرآن میں اپنی آئڈنٹٹی کو دریافت کرلیا:
I have discovered my identity in the Quran.
یہ معاملہ صرف ایک شخص کا نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر عورت اور مرد آئڈنٹٹی کرائسس (identity crisis)کے مسئلے سے دوچار رہتے ہیں، کوئی شعوری طورپر کوئی غیر شعوری طور پر۔ مگر بیش تر لوگ اِس دریافت سے محروم رہتے ہیں۔ لوگوں کاٹنشن میں مبتلا ہونا، اِسی بنا پر ہوتا ہے۔ ہر آدمی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی آئڈنٹٹی کو جانے، لیکن اِس معرفت میں ناکامی اُس کو ٹنشن میں مبتلا کردیتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی عورت یا مرد جب پیدا ہوکر اِس دنیا میں آتے ہیں، تو فطری طورپر اُن کے ذہن میں اِس قسم کے سوالات ابھرنے لگتے ہیں— میں کون ہوں۔ میںکیسے بن گیا۔ میری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ موت کیا ہے، اور موت کے بعد کیا۔ میں کہاں سے آیا ہوں اور مجھے کہاں جانا ہے، وغیرہ۔ اِنھیں سوالات کا نام آئڈنٹٹی کی تلاش ہے۔ برطانی سائنس داں سر جیمزجینز (وفات: 1946 ) نے دیکھا کہ بظاہر دنیا میںاِن سوالات کا جواب موجود نہیں، چناں چہ اس نے اپنی کتاب— پُراسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں لکھا ہے کہ — بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے نہیں بنائی گئی تھی:
Man has strayed into a world that was not made for him.
واپس اوپر جائیں
ایک بیرونی سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہوٹل کے کمرہ میں ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ اس وقت وہ ایک رسٹ واچ پہنے ہوئے تھے۔ انھوںنے بیزاری کے ساتھ گھڑی کو اتارا اور اس کو میز پر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھڑی ٹھیک کام نہیں کرتی، وہ چلتے چلتے رک جاتی ہے۔ میںنے پوچھا تو انھوںنے بتایا کہ یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ میںنے مزید پوچھا تو انھوںنے کہا کہ ابھی حال میں کسی نے ان کو جلد ہی یہ گھڑی تحفہ میں دی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کویت میں بھی تحفہ دینے والوں کا یہی مزاج ہے۔ انھوںنے کہا کہ تحفہ کے معاملے میں ہر جگہ کے لوگوں کا مزاج ایک ہی ہے، یعنی ایسی چیز دینا جو کار آمد ہونے سے زیادہ نمائشی ہو۔
تحفہ کے بارے میں یہ شکایت میں نے بہت سے لوگوں سے سنی ہے۔ میں ذاتی طورپر اس قسم کے تحفہ کو ایک گناہ کا فعل سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ایسا تحفہ تبذیر (فضول خرچی) کے ہم معنی ہے۔ اور تبذیر کو قرآن میں ایک شیطانی عمل کہاگیا ہے (الإسراء:
حدیث میں آیا ہے کہ: تہادوا تحابّوا (الأدب المفرد للبخاری) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو، اس سے آپس میں محبت بڑھے گی۔ اِس حدیث کے مطابق، صحیح ہدیہ وہ ہے جو آپس میں سچی محبت بڑھائے۔ جو ہدیہ محبت پیدا کرنے کے بجائے آپس میں کدورت پیدا کرے، جس سے ایک دوسرے کے بارے میں رائے خراب ہوجائے، ایسا ہدیہ بلاشبہہ ہدیہ کی ضد ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی ہدیہ۔
تحفہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، نمائشی تحفہ اور دوسرے، حقیقی ضرورت کا تحفہ۔ عام طورپر لوگ نمائشی تحفہ دیتے ہیں۔ ایسے تحفہ میں پیسہ تو خرچ ہوجاتا ہے، لیکن وہ تحفہ کسی آدمی کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی یا تو حقیقی تحفہ دے، یا وہ سرے سے کوئی تحفہ نہ دے۔ نمائشی تحفہ دینا ہر گز سنتِ رسول کی پیروی نہیں ہے۔ نمائشی تحفہ دینا صرف ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔
واپس اوپر جائیں
دعوت پُرامن تبلیغ کا نام ہے۔ اِس کے برعکس، اقدام یہ ہے کہ کسی کے خلاف عملی کارروائی کی جائے، اِس فرق کی بنا پر دونوں کی نوعیت بالکل بدل جاتی ہے۔ پُر امن دعوت کا کام ہر حال میں کیا جائے گا، خواہ لوگ اس کو قبول کریں یا نہ کریں، لیکن عملی اقدام کے معاملے میں اس کے نتیجہ (result) پر غور کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اگر نتیجہ نکلنے والا ہو تو یہ اقدام کیا جائے گا اور اگر نتیجہ نکلنے والا نہ ہو تو عملی اقدام سے کامل پرہیز کیاجائے گا۔
دعوت کا انحصار تمام تر داعی کی اپنی ذات پر ہوتا ہے۔ داعی کا اپنا ارادہ کافی ہے کہ دعوت کے عمل کو انجام دیا جائے۔ اگر داعی حقیقی طورپر اپنی دعوتی ذمے داری ادا کردے تو اس کو کامیاب سمجھا جائے گا، خواہ مدعو گروہ نے اُس کی دعوت کو قبول کیا ہو یا نہ کیا ہو۔
عملی اقدام کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ عملی اقدام میں ایسا ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کے ساتھ مقابلہ اور ٹکراؤ پیش آتا ہے۔ اِس بنا پر، عملی اقدام دو گروہوں کے درمیان طاقت آزمائی (power struggle) کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ ایک فریق دوسرے فریق کو زیر کرنے کے لیے اپنے ذرائع کو استعمال کرنے لگتا ہے۔ یہ مقابلہ آرائی اکثر فساد اور تشدد اور جنگ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ عملی اقدام، اکثر حالات میں کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔
اِس فرق کی بنا پر ہر فرد یا گروہ کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو پرامن دعوت تک محدود رکھے، وہ ہر گز عملی اقدام نہ کرے۔ عملی اقدام بطور دفاعی کارروائی تو جائز ہوسکتا ہے، لیکن دفاعی صورتِ حال کے بغیر اقدام سرے سے جائز نہیں۔ اِس اصول کی خلاف ورزی کسی بھی حال میں، کسی بھی فرد یا گروہ کے لیے درست نہیں— پُرامن فکری کوشش ہر حال میں کی جاسکتی ہے، لیکن عملی اقدام صرف اُس وقت کیا جائے گا، جب کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہونے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں
انسان جب رحمِ مادر (womb) کے خول میں ہوتا ہے، تو اس کو اُس وقت خول کے باہر کی دنیا کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا۔ اِس خول کے باہر ایک پوری دنیا موجود ہوتی ہے، لیکن بچے کو اِس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ خود انسان کا بھی ہے۔ انسان کی تمام معلومات زمان و مکان (time and space) کے اندر تک محدود ہوتی ہیں۔ وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا۔
برٹش فلسفی جان اسٹوارٹ مِل (وفات: 1873 ) جب نوجوانی کی عمر میں تھا، اُس وقت اس کے باپ جیمس مل (وفات: 1836 ) نے اُس سے کہا کہ خدا کا عقیدہ ایک غیر عقلی عقیدہ ہے۔ کیوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ خدا نے انسان کو پیدا کیا، تو سوال یہ ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا:
If God created man, who created God.
یہ بات جان اسٹوارٹ مل نے اپنی آٹو بائگریفی میں لکھی ۔ اِس کے بعد اِس بات کو برٹرنڈرسل (وفات: 1970) اور جولین ہکسلے (وفات: 1975 ) جیسے فلاسفہ دہرانے لگے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ جیمس مل کے تقریباً سو سال بعد 1916 میں البرٹ آئن اسٹائن (وفات: 1955 ) نے نظریۂ اضافیت (theory of relativity) پیش کیا۔ اِس نظریے کے تحت آئن اسٹائن نے دکھایا کہ اِس دنیا میں انسان کا ہر علم اضافی(relative) ہے، نہ کہ حقیقی (real) ۔آئن اسٹائن نے ثابت کیا کہ انسان کے پاس کوئی مطلق فریم آف ریفرنس موجود نہیں:
No absolute frame of reference exists.
جیمس مل کے زمانے میں انسان کا علم ایک سائنٹفک خول (scientific womb) کے اندر محدود تھا۔ آئن اسٹائن نے سوسال بعد انسان کو اِس خول کی موجودگی کی خبر دی۔ ایسی حالت میں اب انسان کے لیے عقلی رویہ صرف یہ ہے کہ وہ بالاتر حقائق کے بارے میں اپنی علمی محدودیت (limitations) کا اعتراف کرے، نہ کہ وہ اُن کے بارے میں یقین کے ساتھ علمی بیانات دینے لگے۔
واپس اوپر جائیں
ایک آدمی ایک معاشی کام شروع کرتا ہے۔ اُس میں اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پیسے کی طاقت سے اس کے سب کام بننے لگتے ہیں۔ وہ اپنے لیے ایک گھر چاہتا ہے تو وہ ایک اچھا گھر بنا لیتا ہے۔ وہ اپنے لئے ایک سواری چاہتا ہے تو اس کو بازار سے ایک اچھی سواری مل جاتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم چاہتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ یہ مقصد بھی اس نے حاصل کرلیا۔ غرض، دنیوی اعتبار سے وہ پورے معنوں میں ایک کامیاب انسان بن جاتا ہے۔
یہ تجربہ آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ اِس دنیا میں پیسہ سب کچھ ہے۔ پیسہ کماؤ اور ہر چیز حاصل کرلو۔ اِسی مزاج کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا— اے زر، تو خدا نہیں۔ لیکن خدا کی قسم، تو عیب کو چھپانے والا ہے اور حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے:
اے زر، تو خدا نۂ ولیکن بہ خدا ستّارِ عیوب وقاضیُ الحاجاتی
دوسری طرف، وہ انسان ہے جو خدا سے ڈرتا ہے، جو خدا پرستی کی زندگی اختیار کرتا ہے، جو آخرت کو اپنی منزلِ مقصود بناتا ہے۔ ایسا شخص بھی ایک دنیا کی تعمیر کرتاہے۔ یہ خود اپنی شخصیت کی تعمیر ہے، جو انسان کے داخل میں ہوتی ہے۔وہ مادّی چیزوں کی طرح لوگوں کو دکھا ئی نہیں دیتی، لیکن بلاشبہہ دنیا کی تعمیر سے زیادہ بڑا کام اپنی شخصیت کی تعمیرہے۔
دنیا کی تعمیر، موت سے پہلے کی زندگی میں ہوتی ہے اور موت کے وقت وہ اِس دنیا میں رہ جاتی ہے۔ موت کے وقت جب آدمی اپنی زندگی کا اگلا سفر کرتا ہے تو وہ دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز اپنے ساتھ نہیں لے جاتا۔اِس کے برعکس، جو آدمی اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، وہ ابدی طورپر اس کے ساتھ رہتی ہے۔ ایسا آدمی جب مرتا ہے تو وہ اپنی اِس شخصیت کے ساتھ اگلے دورِ حیات میں داخل ہوتاہے۔ یہ ربانی شخصیت اس کے لیے جنت میں داخلے کا اجازت نامہ ہوتی ہے۔ اپنی اِس شخصیت کی بنا پر وہ جنت میں اپنے لئے ابدی مقام حاصل کرلیتا ہے، اور اِس سے بڑی کوئی کامیابی کسی انسان کے لیے نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب کو میںنے دیکھا کہ ان کا وزن کافی بڑھا ہوا ہے۔ میںنے اُن سے کہا کہ آپ شاید کھانے پینے میں احتیاط نہیں کرتے۔ اِس لیے آپ کا وزن بڑھ گیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ نہیں، میںتو روٹی اور سبزی اور روٹی اور دال جیسا سادہ کھانا کھاتا ہوں۔ لیکن جب میں نے اسکروٹنی (scrutiny) کی، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر میں تو سادہ کھانا کھاتے ہیں، لیکن جب وہ باہر نکلتے ہیں تو اکثر وہ جنک فوڈ(junk food) کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسا تقریباً روزانہ ہوتاہے۔
یہ بھی ایک جھوٹ ہے اور اِس قسم کے جھوٹ میںاکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو بالکل برہنہ جھوٹ بولیں، لیکن مذکورہ قسم کا جھوٹ تقریباً تمام لوگ بولتے ہیں، حالاں کہ کذبِ جلی اگر گناہ ہے، تو کذبِ خفی بھی بلاشبہہ ایک گناہ ہے۔ د ونوں میں درجہ کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ یہی وہ نفسیات ہے جس کی بنا پر لوگ کذبِ خفی کی برائی میں مبتلا رہتے ہیں، وہ صاف انداز میں بات نہیں کرتے۔ وہ ٹوسٹ(twist) کرکے بولتے ہیں۔ کسی سوال کا جواب وہ اِس انداز میں دیتے ہیں کہ ان کی کم زوری چھپی رہے، وہ لوگوں کے علم میں نہ آئے۔
کذبِ خفی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اُس سے آدمی کے اندر کم زور شخصیت (weak personality) بنتی ہے۔ کم زور شخصیت اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہی چیز ہے جس کو مذہب کی زبان میں منافقت کہاجاتاہے، اور منافقت بلا شبہہ انسان کے لیے ایک سخت تباہ کن چیز ہے۔
آدمی کو صرف یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کھلے کھلے حرام سے بچائے۔ اِس نوعیت کا پرہیز تو ایک حیوان بھی کرتاہے۔ انسان کو اِس سے اوپر اٹھنا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ نہ صرف حرام چیزوں سے بچے، بلکہ وہ ایسی چیزوں سے بھی مکمل پرہیز کرے جس سے اس کے اندر کم زور شخصیت کی پرورش ہوتی ہو۔
واپس اوپر جائیں
موت ہر انسان کے لیے ایک غیر مطلوب واقعہ ہے۔آدمی لمبی مدت تک جینا چاہتا ہے، مگر وہ اچانک ایک دن مرجاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدمی سفر میں تھا، وہ زیادہ دور تک جانا چاہتا تھا، مگر منزل پر پہنچنے سے پہلے موت نے یک طرفہ فیصلے کے تحت، اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہ ہر عورت اور ہر مرد کا سوال ہے۔ ہر ایک یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیوں کر ایسا ہوتاہے۔ زندگی کیا ہے اورموت کیا۔ کیوں ایسا ہے کہ آدمی زیادہ دن تک جینا چاہتا ہے، مگر اس کو درمیان ہی میں اس کی مرضی کے بغیر، موت کے فیصلے کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
جب ہم اِس معاملے پر غور کرتے ہیں تو ہم کو سب سے پہلا سُراغ (clue) ڈی این اے (DNA) کی جدید دریافت میںملتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر انسان کے اندر اس کا ڈی این اے بھی موجود ہوتا ہے۔ہر انسان کا ڈی این اے گویا کہ اس کی شخصیت کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔اِس ڈی این اے کو ڈی کوڈ (decode) کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہماری بڑی سے بڑی انسائیکلو پیڈیا سے بھی سیکڑوں گنا زیادہ بڑا ہے۔ ہر انسان کے ڈی این اے میں اس کی شخصیت (personality) کے تمام چھوٹے اور بڑے پہلو موجود ہیں۔
مگر عجیب بات ہے کہ ڈی این اے انسانی شخصیت کے صرف ایک پہلو کے اندراج سے خالی ہے۔ کسی انسان کے ڈی این اے کا مطالعہ کرکے، اس کے بارے میں ہر بات کو معلوم کیا جاسکتا ہو، مگر صرف ایک بات کو معلوم کرنا ممکن نہیں، اوروہ یہ کہ کسی انسان کی موت کب واقع ہوگی۔ یہ فطرت کی طرف سے اِس بات کا اعلان ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے اعتبار سے ایک نہ مرنے والی مخلوق ہے۔ انسان کے لیے مسلسل زندگی ہے، حقیقی معنوں میں اس کی شخصیت پر موت وارد ہونے والی نہیں۔
اب یہاں انسانی شخصیت کے ایک اور پہلو کو شامل کرلیجیے، وہ یہ کہ تمام ذی حیات چیزوں میں صرف انسان ہے جو کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ تمام حیوانات صرف آج (today) میں جیتے ہیں، کسی حیوان کا کوئی کل نہیں۔ اپنے محدود شعور کے اعتبار سے حیواناتمیں سے ہر ایک کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آج میں پیدا ہوئے ا ور آج ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر انسان استثنائی طورپر ایک ایسی مخلوق ہے جو واضح طور پر کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔
اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ایک پہلو کو شامل کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر آدمی جو اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ ان گنت تمناؤں (ambitions) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں۔ اِس اعتبار سے، ہر آدمی نامکمل تمناؤں(unfulfilled desires) کا کیس ہے۔ کائنات کے عام نظام کو دیکھیے تو یہ واقعہ بالکل بے جوڑ ہے۔ اِس وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو اِس مسئلے سے دوچار ہے، انسان کے سواکوئی بھی دوسری مخلوق اِس مسئلے سے دوچار نہیں۔
یہ صورتِ حال بتارہی ہے کہ اِس مسئلے کا جواب ہونا چاہیے۔ انسان کی تمناؤں کو اُسی طرح فل فل مینٹ ملنا چاہیے جس طرح دوسری مخلوقات کو ملا ہوا ہے۔یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا کے بعد ایک اوردنیا آنے والی ہے، یعنی وہ دنیا جہاں انسان اپنی تمناؤں کی کامل تسکین پاسکے۔
اِس طرح اِس معاملے کا ایک اور پہلو بہت زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ انسان کے اندر فطری طورپر انصاف (justice) کا ذہن پایا جاتا ہے۔ انسان فطری طورپر یہ چاہتا ہے کہ اِس دنیا میں عدل کے ساتھ فیصلہ ہو۔ نیک لوگوں کو ان کی نیکی کا پورا بدلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو ان کی برائی کی سزا دی جائے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ یہ تقاضا بھی چاہتا ہے کہ ایک دنیا آئے، جہاں عدل کا یہ تقاضا پورا ہو۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
مذکورہ سوالات کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو آخرت(hereafter) کا نظریہ بالکل حقیقی نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ آخرت کے نظریے کو ماننے کی صورت میں آدمی کو ہر سوال کا مکمل جواب مل جاتا ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ پر درست ہوجاتی ہے:
Every thing falls into place.
واپس اوپر جائیں
آج کل مسلمان مختلف مقامات پر متشددانہ کارروائی میں مبتلا ہیں۔ جب اُن کو اِس سے روکا جائے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا حکم ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ اُس حدیثِ رسول کو پیش کرتے ہیں جس میںاہلِ ایمان کو تغییر ِ منکَرکا حکم دیاگیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: مَن رأی منکم منکراً فلْیغیّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اور اگر وہ اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے، اور یہ سب سے زیادہ کم زور ایمان ہے۔دوسری روایت میں اِس حدیث کا پہلا ٹکڑا اِن الفاظ میں آیا ہے: مَن رأی منکراً فاستطاع أن یغیّرہ بیدہ فلیغیّرہ بیدہ (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم) یعنی جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ روایت کے بقیہ الفاظ مشترک ہیں۔
اِس حدیث کو عام طورپر تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتاہے، حالاں کہ حدیث میں اِس کا ذکر نہیں ہے۔ اِس حدیث میں منکر کو عملاً بدل دینے، یا عملاً بدل دینے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف بولنے کا ذکر کیاگیا ہے، نہ کہ منکر کو دیکھ کر لوگوں کے اوپر تشدد کرنے کا، یا خود کُش بم باری (suicide bombing) کا۔ اِس حدیث سے متشددانہ کارروائیوں کا جواز ہر گز نہیں نکلتا۔
اِس روایت میں منکر کی تغییر کا لفظ آیا ہے۔ تغییر کے معنی عربی زبان میں بدل دینے (replacement) کے ہیں، یعنی منکَر کی حالت کو بدل کر غیر منکر کی حالت قائم کرنا۔ اِس حدیث میںاصلاحِ حال کا حکم ہے، نہ کہ تخریب اور فساد کا۔
عربی زبان کے مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں تغییر کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے— غیّرہ: حوّلہ وبدّلہ کأنہ جعلہ غیر ما کان (
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ جہاد کے نام پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔یہ ’’مقدس تشدد‘‘ مسلم رہ نماؤں کی قیادت میں انجام پارہا ہے۔ اِس فعل میںتقریباً تمام امت شریک ہے۔ اِس لیے کہ جو لوگ براہِ راست اس میں شریک نہیں ہیں، وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، اُن کی یہ خاموشی بالواسطہ شرکت کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، پوری امت کو اِس عمل میں شریک مانا جائے گا، کچھ لوگوں کو براہِ راست طورپر، اور بقیہ لوگوں کو بالواسطہ طورپر۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس متشددانہ عمل کا کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اِس عمل کا ہر جگہ صرف ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہے، اور وہ تخریب ہے، نہ کہ تعمیر۔ ایسی حالت میں بلا شبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشددانہ کارروائیاں اور جو کچھ ہوں، لیکن وہ تغییر ِ منکر کا عمل ہر گز نہیں۔ تغییر ِ منکر یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت ِ حال کو بدل کر اس کی جگہ پسندیدہ صورتِ حال قائم کرے۔ اِس کے برعکس، ایک ایسی کوشش جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہو، وہ یقینی طورپر تخریب اور فساد ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
کسی غیر مطلوب صورتِ حال کو دیکھ کر اس کے خلاف منفی رد عمل ظاہر کرنا، صرف فساد کا ایک عمل ہے، وہ تغیر منکر نہیں۔ تغیر منکر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے۔ وہ حالات کی اصلاح کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے۔ اصلاحِ حال کا طریقہ یہ ہے کہ غیر متاثر ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے اور پھر تعمیری منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس کے خلاف کریں، وہ بلاشبہہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔
واپس اوپر جائیں
اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے، مسلمان داعی ہیں اور دوسری تمام اقوام اُن کی مدعو، یعنی مسلمان خدا کے امین ہیں اور اُن کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اِس امانت کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اِسی فرض کی ادائیگی میںاُن کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک خدائی ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ مسلمان اپنی اِس ذمے داری کو صرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس کو اپنی زندگی میں بھر پور طور پر استعمال کریں۔ داعی کی ذمّے داری صرف داعیانہ کردار کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے، داعیانہ کردا ر کے بغیر دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی عورت کے لیے مادرانہ شفقت کے بغیر ماں کی ذمّے داری کو ادا کرنا۔
قرآن کے الفاظ میں، دعوت کا آغازنُصح (الأعراف:
موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے ناخوش گوار تجربات ہوتے رہتے ہیں، ایک کی کوئی بات دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام کو بدلنا ہرگز کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں، داعی کے اندر اپنے مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ صرف اُس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کے اصول پر قائم ہو۔ لوگوں کے ساتھ اُس کی روش دوسروں کے عمل کے زیر اثر نہ بنے، بلکہ وہ اُس کے اپنے سوچے سمجھے اصول کے تحت بنی ہو۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
مسلمان داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں۔ داعیانہ شریعت میں، شکایت اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان جس قوم کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں گے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مدعو قوم ہوگی۔ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مدعو قوم کے ساتھ حریف قوم جیسا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کوہر حال میں اور ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق کو برقرار رکھنا ہے۔ کیوں کہ معتدل تعلقات کے ماحول ہی میں دعوت الی اللہ کا کام ہوسکتا ہے۔ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا کام انجام دینا ممکن ہی نہیں۔
قرآن کی سورہ نمبر
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ مگر جوچیز ختم ہوئی، وہ نبوت ہے، نہ کہ کارِ نوبت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبرکے دعوتی مشن کی بات ہے، وہ ہمیشہ اور ہر قوم کے درمیان جاری رہے گا۔ پیغمبر کے دعوتی مشن میں، بقدر استطاعت، اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتی عمل ہر فردِ مسلم کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے (البقرۃ:
واپس اوپر جائیں
دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust) کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد(mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option) کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس معاملے میں، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے، البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے یہ ایڈجسٹ مینٹ (adjustment) صرف مفاد (interest) کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔
مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیر مسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر (peaceful) پُر امن انداز میں جاری رہے۔
محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میںاجر عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔
مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر لازماًایڈ جسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency) کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔
اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میںاخلاص کا کوئی درجہ نہیں۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں۔
واپس اوپر جائیں
جنت خوشیوں اور راحتوں کی ایک ناقابلِ قیاس دنیا ہے۔ جنت صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو ناقابلِ قیاس کردار کی قیمت دے کر، اس کا استحقاق ثابت کردیں۔ جنت، ابدی خدا کے پڑوس میںابدی سیٹحاصل کرنے کا نام ہے (القمر:
جنت کی ناقابلِ قیاس سیٹ کو پانے کے لیے انسان کو ناقابلِ قیاس عمل کا ثبوت دینا ہے۔ اس کے لیے ضروریہے کہ آدمی ناقابلِ مشاہدہ (unobservable) کو قابلِ مشاہدہ (observable) بنا سکے۔ وہ زمان و مکان (time and space) کے اندررہتے ہوئے، زمان ومکان کے باہر دیکھنے والی نگاہ پیدا کرے۔ وہ الفاظ کے تاریک جنگل میں معانی کی روشنی کو پاسکے۔ وہ خواہشوں کے سمندر میں رہتے ہوئے، اپنے آپ کو اِس سمندر میں ڈوبنے سے بچائے۔ وہ انانیت (egoism) کا پہاڑ ہوتے ہوئے، اپنے آپ کو بے انا (egoless) بنا سکے۔ وہ بدخواہ لوگوں کی بھیڑ میں رہتے ہوئے، اپنے آپ کو لوگوں کا خیر خواہ (well wisher) بنائے۔ وہ ایک کم زور انسان ہوتے ہوئے، ایک طاقت ور انسان کا رول ادا کرے۔ وہ کامل آزادی کا مالک ہوتے ہوئے، اختیارانہ طورپر اپنے آپ کو سرینڈر کردے۔ وہ نہ بولے ہوئے الفاظ کو سنے، اورنہ دکھائی دینے والی حقیقت کا اعتراف کرے۔ وہ جھوٹ سے بھری ہوئی دنیا میں سچ بولنے کا ثبوت دے۔ وہ بددیانتی (dishonesty) کے ماحول میں، دیانت داری (honesty) کے رویہ پر قائم رہے۔
خدا کے فرشتے دن رات سرگرم ہیں کہ وہ اُن لوگوں کی فہرست تیار کریں جو آخرت میںخدا کی جنت میںداخلے کے مستحق قرار پائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اعلیٰ معرفت نے ان کو اِس قابل بنایا کہ انھوںنے ہر دوسری چیز سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن (supreme concern) بنا لیا۔ جن کا حال یہ تھا کہ ان کے شوقِ جنت نے ان کے لیے دنیا کی ہر پر کشش چیز کو بے کشش بنا دیا۔ خدا کی عظمت (glory of God)کے احساس نے جن کے اندر سے فخر (pride)اور بڑائی کے تمام جذبات کو مٹا دیا۔ خدا کی پکڑ کے اندیشے نے جن کا یہ حال کیا کہ لذتوں کے درمیان رہتے ہوئے، لذتوں سے محظوظ ہونا ان کے لیے ممکن نہ رہا۔ جن کا حال یہ ہوا کہ جو آوازیں دوسروں کے لیے قابلِ سماعت آوازیں تھیں، وہ ان کے لیے ناقابلِ سماعت آوازیں بن گئیں۔ جن کو دنیا کی ترقی اور دنیا کی محرومی، دونوں یکساں طورپر بے معنیٰ نظر آنے لگیں۔ جن کا حال یہ تھا کہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے بجائے، ان کے لیے یہ کہنا زیادہ محبوب بن گیا کہ — میںغلطی پر تھا:
I was wrong
جنت ایک حقیقی مقام ہے۔ وہ حقیقی اوصاف کی قیمت ہی پر کسی کو حاصل ہوگی۔ جنت میں وہ انسان بسائے جائیں گے جو ربانی اوصاف کے حامل ہوں۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو اِن ربانی اوصاف کا حامل بنائیں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت میں بسائے جانے کے قابل ٹھیریں گے۔ جنت کسی کو پُراسرار اسباب کے تحت نہیں ملے گی، بلکہ وہ کامل طورپر معلوم اسباب کے تحت ملے گی۔ اور وہ معلوم اسباب یہی ہیں کہ موجودہ دنیا میں آدمی اپنے آپ کو اِن ربانی اوصاف کا حامل بنائے۔ جنت سچے انسانوں کی کالونی ہے۔ موجودہ دنیا میں انھیں سچے انسانوں کا انتخاب (recruitment) کیا جارہا ہے۔ موجودہ دنیا کی زندگی میں جو لوگ کامل طور پر سچے انسان ثابت ہوں، وہی جنت کی ابدی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ٹھیریں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود (بنی اسرائیل) کے لیے پیشگی طورپر دو وعدہ (appointed time) مقرر فرمایا تھا (الإسراء: 4)۔ حضرت ابراہیم کے ذریعے نافذ ہونے والے خدائی منصوبے کے مطابق، یہود کا وطن ارضِ فلسطین قرار پایا ۔ اِس کے بعد ان کی لمبی تاریخ کے دوران یہ مقدر تھا کہ اُن کے ساتھ دوبار یہ واقعہ پیش آئے گا کہ وہ اپنے وطن فلسطین سے نکل کر بیرونی علاقوں میں منتشر ہوجائیں گے اور پھر اپنے وطن فلسطین کی طرف دوبارہ واپس آئیںگے۔ گویا کہ یہود کی نسل دوبار ڈائس پورا (diaspora) کی صورت اختیار کرے گی اور پھر وہ اپنے وطن کی طرف واپس آئے گی۔
حضرت یوسف کے زمانے میں بنی اسرائیل، کنعان (فلسطین) سے ہجرت کرکے مصر گئے۔ اُس وقت اُن کی تعداد 70 تھی (پیدائش:
اب سوال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ دوسرا وعدہ کب پورا ہوا، یا کب پورا ہوگا۔ اِس معاملے میں قرآن کی ایک آیت سے رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر
بنی اسرائیل (یہود) کے ساتھ یہ دوسرا وعدہ کب پورا ہوا، جب کہ وہ فلسطین میں دوبارہ واپس آئے۔ اِس دوسرے وعدہ (وعد الآخرۃ) سے مراد غالباً وہی واقعہ ہے جو بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پیش آیا۔ بال فور ڈکلریشن (Balfour Declaration)کے تحت 1948 میں یہودی تارکینِ وطن (Jews in diaspora) کی واپسی اپنے وطن فلسطین کی طرف شروع ہوئی اور آخر کار فلسطین کے نصف حصے میں ریاستِ اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
پہلی واپسی کا مقصد یہ تھا کہ یہود کو دوبارہ اُن کابھولا ہوا خدائی سبق یاد دلایا جائے۔ اِس طرح وہ دوبارہ فلسطین میں اِس لیے اکھٹا کیے گئے ہیں کہ اُنھیں خدا کا پیغامِ حق پہنچایا جائے، تاکہ اُن میں جو سعید روحیں ہیں، وہ حق کو قبول کرکے خدا کی ابدی رحمت کی مستحق بنیں۔ اور جو لوگ بھٹکے ہوئے ہیں، اُن کو ایکسپوز (expose) کیا جاسکے۔ حدیث میں نزولِ مسیح کے زمانے میں جس قتل یہود کا ذکر ہے، اُس سے مراد جسمانی قتل نہیں، بلکہ اس سے مراد یہودکو ایکسپوز کرنا ہے، تاکہ قیامت سے پہلے یہ واضح ہوجائے کہ وہ حق پر قائم تھے، یا وہ حق کو چھوڑ کر حق سے دو رچلے گئے تھے۔
اِن واقعات کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہود کا اجتماع جو 1948میںاسرائیل کے اندر ہوا، وہ خدائی منصوبے کے عین مطابق تھا۔ اب یہ مطلوب تھا کہ امتِ مسلمہ اُن کو مدعو کے روپ میں دیکھے اور ناصحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اُنھیں حق کا پیغام پہنچائے۔ یہ یہود کے اوپر آخری اتمامِ حجت ہوگا۔ اِس کے بعد اگلا مرحلہ قیامت کا مرحلہ ہوگا۔ یہ مرحلہ خداوند ِ ذوالجلال کے سامنے حاضر ہونے کا مرحلہ ہوگا، یہود کے لیے اور امتِ مسلمہ کے لیے اور ساری دنیا کے لیے ۔
عرب- اسرائیل ٹکراؤ جو 1948 میں شروع ہوا، اُس کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ 60 سال کے خونی تصادم کے باوجود اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، بلکہ عملاً وہ صرف کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوا ہے۔ جہاد کے نام پر کی جانی والی اِس جنگ کا یہ معکوس نتیجہ کیوں برآمد ہوا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ جہاد اعداء اللہ کے خلاف ہوتا ہے۔ عرب -اسرائیل جنگ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی دشمن کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ وہ حقیقت (reality) کے خلاف جنگ ہے۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقت کے خلاف لڑکر کوئی بھی شخص یا گروہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
بائبل کے بیان کے مطابق، فلسطین یہود کے لیے ارضِ موعود (promised land) ہے (استثناء
اِسی طرح قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قربِ قیامت سے پہلے یہودی تارکینِ وطن دوسری بار مختلف ملکوں سے سمٹ کر فلسطین واپس آئیںگے۔ یہ واقعہ بطور پیشین گوئی قرآن کی سورہ نمبر
یہودی تارکینِ وطن کو دوبارہ فلسطین میں بسنے کا موقع دینا ایک عظیم واقعہ تھا۔ اِس کا تقاضا تھا کہ یہودی، خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ان کی دیرینہ قومی آرزو کو پورا کیا۔ دوسری طرف، ان کے پڑوسی مسلمانوں کا فرض تھا کہ وہ یہود کو دعوتِ حق کا مخاطب بنائیں، وہ ان کوسچائی کا پیغام دیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں دونوں ہی گروہ ناکام ثابت ہوئے۔ نہ یہود نے خداوند ِ ذوالجلال کا شکر ادا کیا، اور نہ مسلمانوں نے اپنی دعوتی ذمے داری کو انجام دیا۔ اِس اعتبار سے دونوں کا کیس بالکل ایک ہے۔ چناںچہ دونوں ہی فریق خدا کی نصرت سے محروم رہ گئے، یہودبھی اور مسلمان بھی۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ دنیا میں آدمی ہر وقت اپنے قریبی حالات میں گھرا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں صحیح سوچ کا مالک صرف وہ شخص بنے گا جو اپنے اندر بلند فکری (high thinking) کی صفت پیدا کرے، وہ اپنے قریبی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے، وہ غیر متاثر ذہن کے تحت معاملات پر رائے قائم کرے۔ اِس طرزِ فکر کا فارمولا صرف ایک ہے— اپنی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچنا:
To think beyond the limit.
آدمی ہمیشہ کچھ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اس کو بار بار ناخوش گوار قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن ناخوش گوار تجربات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر بطور ردّ عمل طرح طرح کے غیر حقیقی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد، نفرت، انتقام، احساسِ برتری، یا احساسِ کم تری، وغیرہ۔ ہر آدمی اِسی قسم کے منفی احساسات کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ یہ احساسات جو ہمیشہ رد عمل کی نفسیات کے تحت پیدا ہوتے ہیں، وہ انسان کو غیر حقیقت پسندانہ سوچ میں مبتلا کردیتے ہیں۔وہ فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ کر غیر فطری راستے پر چلنے لگتا ہے۔
اِس دنیا میں کامیابی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے، وہ متاثر ذہن کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے۔ وہ اپنے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو غیر متعصبانہ ذہن، یا تخلیقی فکر (creative thinking) کہاجاتاہے۔ ایسا ہی انسان اِس دنیا میں درست انداز میں سوچے گا اور اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی کرے گا اورآخر کار کامیابی کی منزل تک پہنچے گا۔
بلند فکری کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ بلند فکری میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ڈسٹریکشن (distraction) ہے، یعنی ذہن کا مختلف سمتوں میں منتشر ہوجانا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کوہر قسم کے ذہنی انتشار سے بچائے، تاکہ وہ اپنے اندر صحتِ فکر کو قائم رکھ سکے۔ یہ دراصل صحتِ فکر ہی ہے جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
مشہور امریکی پروفیسر جیرڈ ڈائمنڈ (Jared Diamond) کی پیدائش 1937 میں ہوئی۔ انھوں نے مختلف علوم پر ڈگریاں لیں۔ وہ ایک درجن زبانیں جانتے ہیں۔ ان کا ایک بامعنیٰ قول اِن الفاظ میں نقل کیا گیا ہے— واحد سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ دریافت نہیں کر پاتے کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے:
The single most important problem is our misguided focus on identifying the single most important problem! (The Times of India, New Delhi, July 6, 2008, p.
یہ بات بالکل درست ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ اصل مسئلے کی پہچان کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ غیر حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (unrealistic approach) ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ عام طور پر وہ جذباتیت یا تعصب، وغیرہ کا شکار رہتے ہیں۔ اِس بنا پر وہ بے آمیزانداز میں سوچ نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں کا حال اُس انسان جیسا ہوتا ہے جس کی آنکھ پر رنگین عینک لگی ہوئی ہو اور وہ اپنی اِسی رنگین عینک سے باہر کی چیزوں کو دیکھے۔ایسا آدمی چیزوں کو اپنے رنگین شیشہ کی نسبت سے دیکھے گا، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کی نسبت سے۔ اِس دنیا میں غلط عمل ہمیشہ اِسی قسم کے غلط مشاہدے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
جب آپ اصل مسئلے کو دریافت نہ کرسکیںتو اس کے بعد آپ اپنے مسئلے کے حل کی جو تدبیر کریں گے، وہ یقینی طورپر ناکام ہوجائے گی۔ آپ کا حال اُس شکاری جیسا ہوگا جو اپنے اصل نشانہ (target) کو صحیح طورپر متعین کیے بغیر اپنی بندوق چلا دے۔
جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ وہ اپنے مسئلے کو صحیح طورپر حل کرسکے، اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اصل مسئلے کی شناخت کرے۔ اور پھر اس کے حل کے لیے ٹھیک مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی کرے۔ اِس کے بغیر مسئلے کے حل کی جوبھی تدبیر کی جائے گی، وہ یقینی طورپر ناکام ثابت ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
ایک عالم سے گفتگو ہوئی۔ میںنے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: استفتِ قلبک (اپنے دل سے پوچھ لو)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دین کے تقاضے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ قرآن اور حدیث کے علاوہ ہے، اور وہ کامن سنس (common sense)ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اِس لیے جو چیز فطری تقاضے کے مطابق ہو، وہ بھی اسلام میں داخل سمجھی جائے گی۔ مثال کے طورپر ہر شخص اپنے ماںباپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کو دین کے مطابق سمجھتا ہے۔ حالاں کہ قرآن اورحدیث میں کہیں بھی لفظی طور پر یہ لکھا ہوا موجود نہیں ہے کہ— اپنے ماں باپ سے محبت کرو۔
انھوں نے میری بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ماں باپ سے محبت کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے، پھر انھوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وقضیٰ ربک أن لا تعبدوا إلاّ إیّاہ وبالوالدین إحساناً (الإسراء:
منطقی استدلال کیا ہے۔ منطقی استدلال (logical argument) دراصل درست ریزننگ (correct reasoning) کا نام ہے۔ یعنی وہ استدلال جو حقائق پر مبنی ہو۔ جس میں متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے فرق کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جائے۔ ایسا استدلال جو مخاطب کے مسلّمہ پر مبنی ہو، نہ کہ کسی یک طرفہ مفروضے پر، جس کی بنیاد قطعی امور پر ہو، نہ کہ ظنی امور پر، جو جذباتی طرزِ فکر سے بالکل پاک ہو، جس میں کامل موضوعی فکر(objective thinking) پائی جائے۔ ایسے ہی استدلال کا نام منطقی استدلال ہے۔ اور منطقی استدلال ہی دراصل درست استدلال (correct reasoning)کا درجہ رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر اے اور مسٹر بی کے درمیان ایک پراپرٹی کے بارے میں نزاع ہوئی۔ مسٹر اے کا کہنا تھا کہ یہ پراپرٹی ان کی ہے اور مسٹر بی نے غلط کارروائی کرکے اُس پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ دونوں کے درمیان کافی بات چیت ہوئی، لیکن مسٹر بی اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار مسٹر اے نے مسٹر بی سے کہا کہ اگر آپ خدا کی کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر یہ کہہ دیں کہ یہ پراپرٹی آپ کی ہے، تو میں آپ کے دعوے کو مان لوں گا اور پراپرٹی پر آپ کا قبضہ تسلیم کرلوں گا۔ مسٹر بی نے اِس کے جواب میں کہا — اِس میں خدا کہاں سے آگیا:
How does God come into the picture.
موجودہ زمانے میں یہی تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ ہر ایک اپنی مرضی کے مطابق، جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے، اور جب اس کو خدا سے ڈرایا جائے تو وہ زبانِ حال یا زبانِ قال سے کہہ دیتا ہے کہ — اِس میں خدا کہاں سے آگیا۔
یہ معاملہ صرف عوام کا نہیں ہے، بلکہ خواص بھی اِسی میں مبتلا ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں جب طبیعی سائنس میں ترقی ہوئی اور فطرت کے قوانین دریافت کیے گئے، تو جدید تعلیم یافتہ طبقے نے عام طور پر، خدا کو کائنات سے خارج کردیا۔ انھوںنے کہا جب سارے واقعات فطرت کے قوانین کے تحت ہورہے ہیں، تو پھر کائنات کی توجیہہ کے لیے خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔
خدا اِس دنیا کا خالق اورمالک ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ساری تاریخ میں انسان، خدا کووہ اہمیت نہ دے سکا جو اہمیت اس کو دینا چاہیے تھا۔ انسان کا اپنا وجود مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ مال اور اولاد کی صورت میںجو کچھ بھی اس کے پاس ہے، وہ خدا کا دیا ہوا ہے۔ روشی اور آکسیجن اورغذا اور پانی جیسی ان گنت چیزیں انسان کو مسلسل طورپر حاصل رہتی ہیں۔ اِن چیزوں کا دینے والا بھی صرف خدا ہے۔ مگر اِس سب سے بڑی حقیقت کا پوری تاریخ میں سب سے کم اعتراف کیا گیا ہے۔ انسان کے پاس خدا کو دینے کے لیے صرف ایک ہی چیز تھی اور وہ تھا اس کا اعتراف، مگر انسان اِسی واحد چیز کو دینے میں ناکام ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں
ایک انگریز شاعر نے ایک نظم لکھی ہے۔ اِس نظم میں بطور خود ایک مفروضہ دنیا کا خوب صورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اِس مفروضہ دنیا کے ماحول میں مسرت ہی مسرت (happiness)ہے۔ اِس نظم کی ایک لائن یہ ہے— ہر طرف اہتزاز ہی اہتزاز:
Thrill, thrill, all the way
یہ ایک شاعرانہ مفروضہ ہے۔ ایسی کوئی دنیا حقیقت میں یہاںموجود نہیں۔ خالق نے اِس دنیا کو برائے امتحان بنایا ہے، نہ کہ برائے اہتزاز۔ قرآن کی سورہ نمبر 90 میں بتایاگیا ہے کہ خدا نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے (البلد:4 )۔ ایسی حالت میں، اِس دنیا میں مسرتوں سے بھری ہوئی زندگی حاصل کرنا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہ دنیا کبھی مسائل سے خالی نہیں ہوسکتی۔ اِس لیے اِس دنیا کے بارے میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ— ہر طرف مشقت ہی مشقت:
Trouble, trouble, all the way
ایسی حالت میں یہ صرف نادانی ہوگی کہ آدمی اِس دنیا میں اپنے لیے خوشیوں اور راحتوں کا ایک محل بنانے کی کوشش کرے، کیوں کہ یہاں ایسا محل بننے والا ہی نہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اِس معاملے میں حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ پیشگی طورپر یہ یقین کرے کہ اِس دنیا میں اس کو مسائل کے جنگل میںزندگی گزارنا ہے۔ آدمی کو یہاں بے مسائل کی دنیا بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اُس کو مسائل کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنے کا فن سیکھنا چاہیے:
Man has to learn the art of problem management.
ایڈجسٹ کرنے سے انسان کا ذہنی ارتقا ہوتا ہے۔اِس طرح اس کے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔اِس کے ذریعے وہ انسانیتِ اعلیٰ کے مقام پر پہنچنے کے قابل بنتا ہے— زندگی ممکن کے دائرے میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کا نام ہے، نہ کہ ناممکنات کے دائرے میں احمقانہ چھلانگ لگانے کا۔
واپس اوپر جائیں
ایک فرانسیسی مفکر ڈونوائے(Le Comte Donoy) کی ایک کتاب ہے جس کا نام قسمت ِ انسانی (Human Destiny) ہے۔ اِس کتاب میںمصنف نے انسان کے ماضی اور حال سے بحث کی ہے۔ لیکن کتاب کے قاری کو آخر میںکنفیوژن کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ اِس موضوع پر اور بھی بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھیں ہیں، لیکن یہ تمام کتابیں اپنے قاری کو کنفیوژن کے سوا کچھ اور نہیں دیتیں۔وہ آدمی کو کسی مثبت نتیجے تک پہنچانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
اِس کا سبب غالباً یہ ہے کہ انسان کی زندگی میںبہ یک وقت دو متضاد چیزیں پائی جاتی ہیں— جبر، اور اختیار۔ فلاسفہ یہ کرتے ہیں کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک کو مرکزی خیال بنا کر اس کے تحت، انسان کی پوری زندگی کی تشریح کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ عملاً ممکن نہیں۔ جب یہ لوگ جبر کے پہلو کو لے کر تشریح کرتے ہیں تو اختیار کا پہلو چھوٹ جاتا ہے۔ اور جب وہ اختیار کے پہلو کو لے کر تشریح کرنا چاہتے ہیں تو جبر کا پہلو چھوٹ جاتا ہے۔ اِس بنا پر اُن کی فکر میںتضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ اور تضاد فکری کا لازمی نتیجہ صرف کنفیوژن (confusion)ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کا معاملہ دو پہلوؤں کے درمیان ہے— عمل کے اعتبار سے آزادی، اور انجام کیاعتبار سے مجبوری۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی وہ ایک لازمی قانون فطرت سے بندھ جاتا ہے۔ اِس قانون سے باہر جانا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
انسان پیداہوتے ہی ایک ابدی مخلوق بن جاتا ہے۔ پیدائش سے موت تک کی ایک محدود مدت تک وہ عمل کرنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ اِس کے لیے آازاد نہیںکہ وہ اپنے آپ کو مرنے سے روک سکے۔ وہ محدود مدت تک عمل کرنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ اپنے عمل کے انجام سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔ موت سے پہلے کی زندگی میںوہ آزاد ہے کہ جو چاہے، کرے۔ مگر موت کے بعد کی زندگی میں وہ اپنے آپ کو اپنے عمل کے انجام سے بچانے پر قادر نہیں۔
واپس اوپر جائیں
جو لوگ جسمانی اعتبار سے معذور ہوجاتے ہیں، اُن کو پہلے صرف معذور (disabled) کہاجاتا تھا۔ اِس کے بعد، اِس قسم کے لوگوں کے لیے ایک نیا لفظ استعمال ہونے لگا۔ یہ لفظ تھا— فزیکلی چیلینجڈ(physically challenged) یعنی وہ شخص جو جسمانی معذوری کی بنا پر چیلنج سے دو چار ہو۔ اب یہ لفظ بھی متروک ہو رہا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرنٹلی ایبلڈ(differently abled) کہا جانے لگا ہے، یعنی وہ شخص جو بہ ظاہر معذوری کے باوجود کسی دوسرے پہلو سے لیاقت کا حامل ہو۔
اِس تبدیلی کا سبب یہ ہے کہ تجربے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کسی جسمانی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں، وہ پورے معنوں میں معذور نہیں ہوجاتے، بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک اعتبارسے معذور ہونے کے بعد اُن کے اندر ایک اور اعتبار سے لیاقت (ability) پیدا ہوجاتی ہے۔ اِس لیاقت کو استعمال کرکے، وہ سماج کا مفید حصہ بن سکتے ہیں۔
امریکا میںمعذور افراد کے بارے میں ایک رسرچ ہوئی ہے۔ یہ رسرچ امریکا کے ایک جرنل (BMC Neuroscience) میں چھپی ہے۔ اُس کا خلاصہ ٹائمس آف انڈیا (20 اگست، 2008 ) میں حسب ذیل عنوان کے تحت شائع ہوا ہے— انسان آواز کو دیکھ سکتا ہے، اور روشنی کو سن سکتا ہے:
Humans can see sound, hear light.
اِس رسرچ میں بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص اندھا ہوجائے، تو اس کے سننے کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ کوئی شخص بہرا ہوجائے، تو اس کے دیکھنے کی طاقت زیادہ ہوجاتی ہے اور اگر کوئی شخص اندھا اور بہرا دونوں ہوجائے، تو اُس کی چھونے کی طاقت (قوتِ لامسہ) میںاضافہ ہوجاتا ہے:
Sensory cell can process an alternative sensation. Where eyesight is poor, the ears take up the slack and stimulate the visual system. This may explain how blind people develop such advanced hearing skills and, similarly, why the deaf often possess superior sight. (p.
واپس اوپر جائیں
چارلی چپلن(Charlie Chaplin) ایک برٹش فلم اسٹار تھا۔ اس کی پیدائش 1889 میں ہوئی۔ اور
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک نفسیاتی ڈاکٹر (psychiatrist) کے پاس ایک شخص آیا۔ اُس نے کہا کہ میں بہت زیادہ افسردہ رہتا ہوں، آپ مجھ کو کوئی ایسی تدبیر بتائیے کہ میں خوش رہ سکوں۔ ڈاکٹرنے کہا کہ تم چارلی چپلن کا شو دیکھا کرو۔ آنے والے نے کہا کہ میںہی تو چارلی چپلن ہوں۔ میںدوسروں کو ہنساتا ہوں، لیکن میرا دل اندر سے روتاہے۔
چارلی چپلن ایک کامیڈین (comedian) تھا، مگر جب موت کاوقت قریب آیا، تو وہ اپنی نفسیات کے اعتبار سے ایک ٹریجڈین (tragidian) بن چکا تھا۔ وہ شخص جو دوسروں کو ہنساتاتھا، اس نے اپنی حالت پر ایک بار اِن الفاظ میں تبصرہ کیا کہ— میں بارش میں چلنا پسند کرتا ہوں، تاکہ کوئی میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کو نہ دیکھ سکے:
I always like to walk in the rain, so that no one can see me crying.
یہی اِس دنیا میں ہر عورت اورمرد کی کہانی ہے۔ لوگ مصنوعی طورپر ہنستے ہیں، لیکن اندر سے انھیں کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ لوگ مصنوعی طور پر اپنی کامیابی کے قصے بیان کرتے ہیں، لیکن اندر سے وہ شکست خوردہ نفسیات میں مبتلا رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کے لیے بھی خوشی اور راحت نہیں۔ خوشی اور راحت صرف آخرت میں ہے جو موت کے بعد آنے والے دورِ حیات میں صرف خدا پرست عورتوں اور مردوں کو حاصل ہوگی۔بنانے والے نے موجودہ دنیا کو عمل کے لیے بنایا ہے۔ یہاں صرف عمل برائے مسرت (happiness) ممکن ہے، نہ کہ خود مسرت کا حصول۔
واپس اوپر جائیں
ذہانت ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ ذہانت ایک عظیم فتنہ بھی ہے۔ جو آدمی زیادہ ذہین ہو، اُس کے اندر بہت جلد اپنے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، برتری کا احساس (superiority) پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس احساسِ برتری کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کا اعتراف نہیںکرپاتا۔ اِس بے اعترافی کی مختلف صورتیں ہیں۔
اِس بے اعترافی کی بنا پر بعض افراد کایہ حال ہوتا ہے کہ اُن سے کوئی بات کہی جائے تو فوراً وہ اس کے لیے اپنا کوئی ذاتی حوالہ ڈھنڈ لیں گے۔ وہ کہیں گے کہ میںنے بھی فلاں موقع پر یہ بات کہی تھی۔ کچھ افراد اپنے اِس مزاج کی بنا پر ایسا کرتے ہیں کہ جب اُن سے کوئی بات کہی جائے تو وہ فوراً اُس کو کاٹ دیںگے اور پھر اُسی بات کو خود اپنے لفظوں میں بیان کریں گے۔ اِسی طرح بعض افراد پوری بات کو نظر انداز کرکے ایک شوشہ نکال لیں گے، اور پھر وہ اِس شوشے پر اِس طرح تقریر کریںگے، جیسے کہ یہی شوشہ اصل ہے اور بقیہ باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک اور قسم اُن افراد کی ہے جن کے سامنے کچھ باتیں کہی جائیں تو وہ اُس کو مثبت ذہن کے ساتھ نہیں سنیںگے۔ اُن کا ذہن اِس تلاش میں رہے گا کہ مختلف باتوں میںسے وہ کوئی ایک بات ڈھونڈ لیں جس میں بظاہر کوئی کم زور پہلو موجود ہو، اور پھر اِسی ایک بات کو لے کر وہ بقیہ کہی ہوئی تمام باتوں کو رد کردیں گے۔
اِس مزاج کا یہ نقصان ذہین آدمی کے حصے میں آتا ہے کہ اس کا ذہنی ارتقا صرف محدود طورپر ہوتاہے، وسیع تر انداز میں اس کا ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔ جو چیزیں اُس کے لیے ذاتی انٹرسٹ کی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً اپنا جاب (job) یا اپنے بچوں کا مستقبل، اس طرح کے معاملے میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسے معاملے میںاس کا ذہن اچھی طرح کام کرتا ہے۔ بقیہ معاملات میں وہ سنجیدہ نہیں ہوتا، اِس لیے بقیہ اعتبار سے اس کا ذہنی ارتقا بھی نہیں ہوتا۔ اِس طرح عملاً وہ ایک ذہین بے وقوف، یا بے وقوف ذہین بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
شادی بظاہر ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے وہ دو مختلف کلچر کے درمیان ہوتی ہے۔ اِس حقیقت کو والدین نہیں سمجھتے۔ وہ شادی کے صرف دوسرے پہلوؤں کو جانتے ہیں، اور اِن دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے اپنے لڑکی کی شادی کردیتے ہیں۔ بعد کو جب کلچرل فرق کی بنا پر زوجین کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں، تب بھی وہ اصل راز کو دریافت نہیں کرپاتے۔ دونوں فریق صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو برا بتاتے رہتے ہیں۔ نتیجۃً بیش تر شادیوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ— وقتی طور پر دھوم کے ساتھ شادی، اور پھر ہمیشہ کے لیے تلخ زندگی۔
لندن سے میرے پاس ایک مسلم خاتون کا ٹیلی فون آیا۔ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔ اِس کے بعد ان کی شادی ایک ایسے مسلم نوجوان سے ہوئی جس کی پیدائش لندن میں ہوئی تھی۔ خاتون نے ٹیلی فون پر بتایا کہ اُن کی شادی کو کئی سال ہوچکے ہیں، لیکن اُنھیں پُر مسرت ازدواجی زندگی حاصل نہ ہوسکی۔ گفتگو کے دوران میں نے اُن سے صرف دو سوال کیے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے شوہر کردار (character)کے اعتبار سے کیسے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کردار کے اعتبار سے وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ دوسرا سوال میں نے یہ کیا کہ آپ کے شوہر نے کبھی ایسا کہا کہ تم زیادہ بولتی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، ایسا تو وہ اکثر کہتے رہتے ہیں۔
اِس کے بعد میں نے کہا کہ آپ کے مسئلے کی جڑ صرف ایک ہے۔ آپ پاکستانی کلچر کے مطابق، زیادہ بولنے والی شخصیت (outspoken person) ہیں، اور آپ کا شوہر برٹش کلچر کے مطابق، کم بولنے والا شخص (underspoken person) ہے۔ یہی فرق آپ کے شوہر کے اندر باربار جھلاّہٹ (irritation)پیدا کرتا ہوگا۔ اِسی چیز نے آپ کی ازدواجی زندگی کو تلخ بنا دیا ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ اپنے آپ کو بدلیے اور بہت کم بولنے کی عادت ڈالیے۔ اِس کے بعد مذکورہ خاتون نے ایسا ہی کیا اور ان کی زندگی ایک خوش گوار زندگی بن گئی۔
واپس اوپر جائیں
اسی زمانہ میں میں نے ماہ نامہ الرسالہ میں ایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کو بھی اسی قسم کے تجارتی تعصب کا سامنا تھا۔ جاپان نے اس کا مقابلہ اس طرح کیا کہ اپنی فیکٹریوں میں زیرو ڈفکٹ (zero defect) کا اصول رائج کردیا، یعنی ایسے سامان بنانا جو نقص (defect)سے صد فی صد پاک ہوں۔ اس معیار کو حاصل کرنے کے بعد دنیا کے لیے ناممکن ہوگیا کہ وہ جاپان کو نظر انداز کرے۔میں نے اس بات کو پکڑ لیا اور محنت کرکے اپنے سامانوں کو زیروڈفکٹ کے اصول پر تیار کرنے لگا۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے کامیابی ہوئی اور اب یہ حال ہے کہ 20 سال پہلے کا مزدور آج ایک بڑا اکسپورٹر بنا ہوا ہے۔
موجودہ دنیا چیلنج کی دنیا ہے۔ ایسی حالت میں کامیابی کار از یہ ہے کہ جب بھی کسی آدمی کے ساتھ اس قسم کی کوئی ناموافق صورت حال پیش آئے تو وہ اس کو شکایت اور تعصب کے طور پرنہ لے بلکہ وہ یہ سوچے کہ اس کا موثر مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔دنیا میں جس طرح ناموافق حالات ہیں، اسی طرح یہاںموافق حالات بھی بہت زیادہ ہیں۔ جو آدمی بھی کھلے ذہن کے تحت سوچے گا، وہ ضرور ناموافق پہلو کے اندر موافق پہلو کو تلاش کرلے گا۔ اور اس طرح اس کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ اس کی زندگی کا سفر کسی رکاوٹ سے دوچار نہ ہو، اس کا سفر مسلسل جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں
آدمی جب کوئی کام بار بار کرے اور برابر کرتا رہے، تووہ دھیرے دھیرے اس کی زندگی کا ایک ایسا حصہ بن جاتا ہے کہ آدمی اس کو اپنی ضرورت سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اس کے بغیر اس کا کام ہی چلنے والا نہیں۔ مگراس قسم کی چیزیں آدمی کی عادت ہوتی ہیں، وہ اس کی ضرورت نہیں ہوتیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ عادت اور ضرورت میں فرق کرے۔ ضرورت والی چیز کو تو ضرور وہ اپنی زندگی میں شامل کرے، مگر جو چیز اپنی حقیقت کے اعتبار سے صرف ایک عادت کا درجہ رکھتی ہو، اس کو وہ ہرگز اپنی زندگی کا حصہ نہ بننے دے۔
ضرورت اس چیز کا نام ہے جس کے بغیر زندگی کی بقا ناممکن ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس، عادت وہ چیز ہے جس کا تعلق آرام یا نمائش سے ہے۔ اس طرح کی چیز کو اگر چھوڑ دیا جائے تو اس سے آدمی کی زندگی میں کوئی حقیقی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا۔
مجھے اپنی زندگی میں اس قسم کے کئی تجربے ہوئے۔ مثلاً گھر کے رواج کے مطابق، میں شیروانی کا عادی ہوگیا تھا۔ چناںچہ شیروانی پہنے بغیر باہر جانا ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے میں پورا کپڑا نہیں پہنے ہوئے ہوں۔ مگر بعد کو جب مجھ کو شعور آیا تو میںنے شیروانی پہننا چھوڑ دیا۔ دھیرے دھیرے یہ حال ہوگیا کہ اب مجھ کوشیروانی یاد بھی نہیں۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ شیروانی میرے لیے صرف ایک عادت تھی، وہ میری ضرورت نہیں تھی۔ اِسی طرح کے اورکئی تجربے مجھے اپنی ذاتی زندگی میں پیش آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک ذاتی مزاج کا معاملہ ہے، وہ خدا کی پیدا کردہ فطرت کا تقاضا نہیں۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے شعور کو اتنا بیدار کرے کہ وہ ضرورت اور عادت میں فرق کرسکے۔ اس کے بعد وہ عادت والی چیزوں کو چھوڑ دے اور ضرورت والی چیزوں کو اپنی زندگی میں باقی رکھے۔ زندگی کی تعمیر میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ جو لوگ اس کا لحاظ نہ رکھیں، وہ کبھی اپنی زندگی کی اعلیٰ تعمیر نہیں کرسکتے۔
واپس اوپر جائیں
ایک قدیم ہندی مثل ہے کہ — بَل تو اپنا بَل۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو کام کرے، وہ خود اپنی طاقت کی بنیاد پر کرے۔ دوسروں کی طاقت کے بھروسے پر کام کرنا، ایک ایسا تجربہ ہے جوباربار ناکام ہوا ہے۔ اب اِس قسم کے تجربے کو دہرانا، کسی عقل مند آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے۔ وہ بزنس کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس سرمایہ کم تھا۔ اپنے محدود سرمائے سے وہ صرف چھوٹا بزنس کرسکتے تھے۔ انھوں نے بڑے بزنس کے شوق میں بینک سے قرض لے لیا، یا کسی کو اپنا پارٹنر (partner)بنا لیا۔ چند سال کے بعد وہ پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ آخر کار اُن کا بزنس ناکامی کے ساتھ ختم ہوگیا۔
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی محنت اور اپنے سرمائے پر بھروسہ کرے۔ اپنی محنت اور اپنے سرمائے سے اگر وہ صرف چھوٹا کاروبار کرسکتا ہے، تو اُس کو چاہیے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر اپنا کام شروع کرے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئے ترقی کے مقام تک پہنچے۔ یہی کام کا فطری طریقہ ہے۔ اِس کے برعکس، دوسرا طریقہ چھلانگ (jump)کا طریقہ ہے، اور چھلانگ کا طریقہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
چھوٹے چھوٹے چشموں سے مل کر دریا بنتا ہے۔ دھیرے دھیرے بڑھ کر ایک پودا درخت بنتا ہے۔ ذرہ ذرہ کے ملنے سے پہاڑ وجود میں آتے ہیں۔ یہی وہ فطری طریقہ (natural course) ہے جس سے اِس دنیا میں کوئی بڑا واقعہ وجود میں آتا ہے۔ انسان کو بھی اِسی فطری طریقے کی پیروی کرنا ہے۔ اِس دنیا میں کسی اور طریقے کو اختیار کرکے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ یہی فرد کی کامیابی کا اصول ہے، اور یہی قوم کی کامیابی کا اصول بھی۔ اپنی ذاتی طاقت کے بعد جو چیز آدمی کے کام آتی ہے، وہ فطرت کا نظام ہے، نہ کہ کسی دوست یا پارٹنر کی مدد — اِس دنیا میں آدمی کا واحد مدد گار فطرت کا نظام ہے، نہ کہ کسی دوسرے انسان کا تعاون۔
واپس اوپر جائیں
سوال
الرسالہ، ستمبر 2008 میں آپ نے ’’معرفت حدیث، معرفتِ قرآن‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کثرتِ مطالعہ اور کثرتِ دعا کی ضرورت ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے، کثرتِ مطالعہ کے بجائے کثرتِ دعوت الی اللہ، اور دعا ہے۔ کیوں کہ صحابہ کو کثرتِ مطالعہ حاصل نہیںتھا۔ دن کو دعوت اور رات کو دعا سے اُن کو اللہ نے معرفتِ حدیث ومعرفتِ قرآن کا حصہ عطا فرمایا تھا۔
میں صرف اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے آپ کو یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ میںآپ کا ہم فکر ہوں، ہم خیال ہوں۔ الرسالہ کے علاوہ، کوئی دوسرا مجلّہ پابندی سے نہیں پڑھتا۔ (حکیم محمدصفدر شریف عمری، تمل ناڈو)۔
جواب
دین کا ایک ظاہری علم ہے۔ یہ علم قرآن اور حدیث کے سادہ مطالعے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ دین کے علم کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق دین کی گہری معرفت سے ہے۔ یہ معرفت غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اِس غور وفکر کی مختلف قسمیں ہیں۔ مثلاً محاسبۂ خویش ایک غوروفکر ہے۔ کائنات کا مشاہدہ ایک غور وفکر ہے۔ قرآن اور حدیث کا تحقیقی مطالعہ ایک غورفکر ہے۔دعوت الی اللہ کے دوران اپنی عقل کو متحرک رکھنا ایک غور وفکر ہے۔ کتابوں کا مطالعہ بھی غور وفکر کی ایک صورت ہے۔ غور وفکر کے اِس عمل میںاللہ سے مدد چاہنے کا نام دعا ہے۔ دعا کا تعلق ہر دوسرے عمل سے ہے اور اِسی طرح معرفت سے بھی۔
اصحابِ رسول بظاہر کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ اُس زمانے میں آج کی طرح مطبوعہ کتابیں موجود نہیں تھیں۔ لیکن حقیقت ِ مطالعہ اُن کی زندگی میں پوری طرح شامل تھی، اور وہ ہے تفکر، تدبر، تذکر اور توسم، وغیرہ۔ اصحابِ رسول کا ذہن مسلسل طورپر اِن چیزوں میں مشغول رہتا تھا۔ مزید یہ کہ ان کے اندر سیکھنے کی طلب بے پناہ حد تک پائی جاتی تھی۔ وہ یہ صلاحیت رکھتے ـتھے کہ چیزوں کو غیر متعصبانہ ذہن کے ساتھ دیکھیں اور بے لاگ طورپر اس کے بارے میں رائے قائم کرسکیں۔ یہی چیزیں مطالعے کا حاصل ہیں، اور اِس معنیٰ میں ہر صحابی پوری طرح ایک صاحب ِ مطالعہ انسان تھا۔
سوال
اکثر لوگ اور علماء کہتے ہیں کہ علمِ نجوم سیکھنا گناہ ہے۔ یہ کس حد تک درست ہے۔ جب کہ حدیث میں آیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اُس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ کون سا علم ہے۔ علم بہر حال علم ہے۔ وہ علم جو عوامی فلاح وبہبود کے لئے موثر اور فائدہ مند ثابت ہو۔ چوں کہ علمِ نجوم بھی ایک علم ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اِس سوال کا جواب ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔(مولوی ایم ایس بابا تاج، کپواڑہ ، کشمیر)
جواب
علماء نے علوم کی دو قسمیں کی ہیں— علومِ عالیہ، اور علومِ آلیہ۔ علومِ عالیہ سے مراد شریعت کا علم ہے، اور علومِ آلیہ سے مراد وہ علوم ہیں جو معاون علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علمِ نجوم اپنی نوعیت کے اعتبار سے، علومِ آلیہ میں شامل ہے۔ اصولی طورپر وہ ایک جائز علم ہے۔ لیکن علمِ نجوم کے دو دور ہیں۔ ایک قبل از سائنس، اور دوسرا بعد از سائنس۔ سائنس کے ظہور سے پہلے جو علمِ نجوم دنیا میں رائج تھا، وہ تمام تر توہمات(superstitions) پر مبنی تھا۔ یہ قدیم علمِ نجوم بلا شبہہ ایک غیر مطلوب علم تھا، عقلی اعتبارسے بھی اور اسلامی اعتبار سے بھی۔آج اگر کوئی شخص قدیم علمِ نجوم میں مشغول ہو تو وہ صرف ایک لغو کام میں مشغول ہونے کے ہم معنیٰ ہوگا۔ اور قرآن میں اہلِ ایمان کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں۔ (المؤمنون: 3 )
موجودہ زمانے میں علمِ نجوم (astrology) سائنسی اعتبار سے ایک متروک علم بن چکا ہے۔ اب اِس معاملے میں جس علم کا رواج ہے، وہ علمِ فلکیات (astronomy) ہے۔ جدید علمِ فلکیات ایک خالص سائنسی علم ہے، اور مسلمانوں کو بلاشبہہ اِس علم میں درک حاصل کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ پورے معنوں میں علومِ آلیہ میں شامل ہے۔
علومِ عالیہ یعنی شرعی علوم کی اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے ہمیں خدا کی معرفت اور دین کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں، علومِ آلیہ کی اہمیت یہ ہے کہ وہ موجودہ دنیا میں زندگی کی تعمیر وتشکیل کے لیے مدد گار علم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اہلِ ایمان کے لیے دونوں کا حصول ضروری ہے۔
سوال
قرآن کی سورہ الصافات کی آیت نمبر8 میں شیطان کے مارنے کی بابت تذکرہ آیاہے۔ یہاں شیطان کو مارنے سے کیا مراد ہے۔ تذکیر القرآن صفحہ 1223پر اس کی تشریح درج ہے۔ مگر بار بار اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی میں اس کی حقیقت کو بھیجنے سے قاصر رہا۔(شاہ عمران حسن، نئی دہلی)
جواب
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم کی دو قسمیں ہیں— محکمات، اور متشابہات (آل عمران: 7) محکمات سے مراد وہ علم ہے جس میں ضروری معلومات (data) قابلِ حصول ہوں اور اِس بنا پر ان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا ممکن ہو۔ علم کی اِس قسم کے بارے میں غور وفکر کرنا ایک مطلوب چیز ہے اور اس سے ذہنی ارتقا ہوتا ہے۔
متشابہات سے مراد وہ علم ہے جس میں ضروری معلومات قابلِ حصول نہ ہوں۔ ایسے علمی شعبے میں ہمارے لیے صرف یہ ممکن ہے کہ ہم علمِ قلیل (الإسراء:
واپس اوپر جائیں
1 - لوک سبھا ٹی وی (نئی دہلی) کے تحت 3 دسمبر 2008 کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ ڈسکشن لوک سبھا لائبریری(Lok Sabha Secretariat, Parliament Library) کیبلڈنگ میں ہوا۔ اِس ڈسکشن میں میرے علاوہ، تین اور پینلسٹ موجود تھے۔ ڈسکشن کا موضوع ٹررازم تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوں نے حاضرین کو اسلامی لٹریچر دیا اور ان سے انٹریکشن کیا۔
2 - ہندی میگزین (نئی دہلی) کے نمائندہ نے 4 دسمبر2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع بمبئی ٹرراٹیک تھا۔ سوالات کے دوران بتایاگیا کہ ٹررازم کے لیے اسلام میںکوئی جگہ نہیں۔ جو مسلمان ٹررازم میںشامل ہیں، وہ اسلام کے نام پر ایک ایسا کام کررہے ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی یہ ایکٹوٹی مکمل طورپر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
3 - سہارا ٹی وی (نوئڈا) کے اسٹوڈیومیں 4 دسمبر 2008 کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ ڈسکشن بمبئی کے حالیہ بم دھماکے سے متعلق تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ یہ صرف ایک مذموم فعل ہے، اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جو لوگ اسلام کے نام پر اسلام کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا یہ فعل کررہے ہیں، اُنھیں چاہیے کہ وہ فوراً اس کو ترک کردیں۔
4 - ترکی کے ٹی وی چینل سہان انٹرنیشنل نیوز ایجنسی (Cihan International News Agency) کے نمائندہ مسٹر عثمان(Osman Unalan) نے 6 دسمبر 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع بمبئی کا حالیہ بم دھماکہ تھا۔ انٹرویو کے دوران سوالات کی وضاحت کی گئی۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ ترکی میں اِس انٹرویو کو انگریزی کے علاوہ، وہاں کی مقامی زبان میں نشر کیا جائے گا۔
5 - سائی سنٹر(نئی دہلی) میں
Basic Human Values in Islam
اِس بار کے پروگرام میں کیندریہ ودیالیہ کے پرنسپل حضرات کے بجائے مختلف سرکاری افسران شریک تھے۔ یہ افسران ایجوکیشن کے ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ ایک گھنٹہ کی تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اس کے بعد لوگوں کو اسلامی لٹریچر برائے مطالعہ دیا گیا۔
6 - نئی دہلی کے ای ٹی وی نیوز(ETV New) کے نمائندہ مسٹر پرشانت (Prashant) نے
7 - ٹائمس آف انڈیا (
l I fully agree that today the face of Islam is marred by the wrong ideology developed by a handful of Muslim scholars which has permeated into the psyche of Muslims in general. (Khaja Kaleemuddin, USA)
l It is high time that people like Maulana united to spread the true message of Islam, whatever it is and also explain what exactly ‘Jihad’ means, and whether it is relevant in today’s world. (Vijayalakshmi, Chennai)
l No sensible person, in my opinion, can disagree with Maulana’s views regarding ‘peace vs. terrorism’ and how to promote the former and combat the latter. His insightful article may be adopted as a “Peace Manifesto” for the 21st century by all the peace-activists of the world. It has convincingly shown the right way to make the UNESCO’s lofty vision: “Since the wars begin in the minds of men; it is in the minds of men that the defences of peace must be constructed” (Anis Luqman Nadwi, UAE)
l I fully agree with Maulana; terrorism is an ideology and it has to be countered at an ideological level. We need people with missionary zeal to take this message of peace all across the world. (S. Fakhir Shah, Pakistan)
l The Maulana is an authority not only on the history of Islamic Civilisation but also well versed in Islamic Jurisprudence and I bow my head in reverence to this article. (Mohd. Shahid Ansari, Lucknow)
l I am quite happy and proud that Maulana Wahiduddin Khan has clarified “there is no room for violence in Islam”. I hope this helps reduce any misgivings among practitioners of other religions or would be “Jehadi terrorists”. (Gopala Rao, New Delhi)
l Dear Maulana, greetings from America. Your recent article in the Indian press is to be commended for its courage. I imagine it is going to get some people riled up. It has clarity, spiritual maturity and an all embracing humanity, while remaining respectful of Islam. (Mantoshe Singh Devji, USA)
8 - سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ (نئی دہلی) کی طرف سے
Spirituality in Daily Life
صدر اسلامی مرکز نے اِس موضوع پر ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ خطاب کے بعد حاضرین کو انگریزی میںچھپا ہوا اسلامی لٹریچر برائے مطالعہ دیاگیا۔ حاضرین میںاعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اورمسلم بڑی تعداد میں موجود تھے۔
9 - مسٹر پرویز (Parvis Ghassem Fachandi) امریکا کی پرنسٹون یونی ورسٹی (نیو جرسی) میں انتھراپالوجی کی پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق جرمنی کی ایک مسلم فیملی سے ہے۔ 19 دسمبر2008 کو وہ اسلامی مرکز(نئی دہلی) میں آئے اور صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران انھوں نے انڈین کلچر اور ہندو مسلم تعلقات کے موضوع پر ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ مسٹر پرویز کو مطالعے کے لیے حسب ذیل کتابیں دی گئیں:
Indian Muslims, The True Jihad, God Arises, The Ideology of Peace
10 - انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) کے مین آڈی ٹوریم میں 19 دسمبر 2008 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا موضوع یہ تھا:Muslims Initiative Against Terrorism
یہ پروگرام آئی ایم آر سی (Indian Muslims’ Monitoring Research and Response Centre) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے کچھ ممبران نے اس میں شرکت کی اور حاضرین کو ماہ نامہ الرسالہ کے علاوہ، اردو اور انگریزی میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر دیا۔
1. I am highly influenced with the Islam and the Quran, and at the same time the honesty and humble attitude of Mr S. Imran Hasan. I wish for their success by their noble deed of spreading the Islam alongwith message peace. (Dr. Surinder Singh Sodhi, Jammu)
2. I am extremely pleased to see Goodword Books stall and obliged to get free fifts of many books from stal. (Dr Karan, President RWAG, Jammu)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.