قرآن کی سورہ نمبر 2 میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان کو سب سے زیادہ محبت اللہ سے ہوتی ہے (والّذین اٰمنوا أشد حبّاً للہ۔ البقرۃ:
محبت دراصل قلبی تعلق کا نام ہے۔ گہری قلبی کیفیت کے ساتھ جب آپ کو کسی سے غیر معمولی تعلق قائم ہوجائے تو اسی کا نام محبت ہے۔ اِس پہلو سے، صرف خدائے واحد اِس کا مستحق ہے کہ ایک بندہ اُس سے شدید محبت کرے ۔ خدا کی نسبت سے محبت، خدا کی نعمتوں کے اعلیٰ اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ اِس قسم کی محبت کا حق بلاشبہہ صرف خدا کو ہے، اُس کے سوا کسی اور کو نہیں۔
محبت کی دو قسمیں ہیں— حقیقی محبت (real love) ، اور اِضافی محبت (relative love) ۔ دنیا کی زندگی میں مختلف اسباب سے ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے، حتی کہ ایک گھر اور ایک حیوان سے بھی۔ لیکن اِس قسم کی محبتیں انسان کے مرتے ہی فوراً ختم ہوجاتی ہیں۔ اِس لیے اِس قسم کی تمام محبتیں اضافی محبتیں ہیں۔ وہ وقتی اسباب سے پیدا ہوتی ہیں اور اسباب کے ختم ہوتے ہی وہ اچانک ختم ہوجاتی ہیں۔اِس کے مقابلے میں، خدا کی محبت حقیقی محبت ہے۔ وہ حقیقی اسباب سے پیدا ہوتی ہے اور جب وہ کسی انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ ابدی طورپر باقی رہتی ہے، موت اُس کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ خدا نے انسان کو وجود بخشا، خدا نے انسان کو اِس دنیا میں رہنے کے لیے ایک بے حد موافق زمین دی، خدا نے انسان کے لیے اعلیٰ درجے کا لائف سپورٹ سسٹم قائم کیا، اِس طرح کی ان گنت چیزیں جو اِس دنیا میں انسان کو ملی ہوئی ہیں، ان کو دینے والا صرف خدا ہے، کوئی بھی دوسرا شخص اِن عطیات میں خدا کا شریک نہیں۔ یہ احساس جب کامل اعتراف میں ڈھل جائے تو اِسی کا نام محبتِ خداوندی ہے۔
واپس اوپر جائیں
معرفت اِس دنیا کی سب سے بڑی یافت ہے۔ مگر میرا احساس ہے کہ پوری تاریخ میں معرفت کے بارے میں لوگوں کو ایک شدید مغالطہ ہوا ہے۔ انسان کو جب اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے، تو یہ اُس کے لیے ایک ناقابلِ بیان تجربہ ہوتا ہے۔ انسانی زبان میںاس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اِس معرفت کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خدا کے اتنا قریب آگیا ہے جیسے کہ اس کی ہستی خدا کی ہستی میں شامل ہوگئی ہے۔
تاہم یہ تمام تر ایک نفسیاتی تجربہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے شدید غلط فہمی کی بنا پر اِس تجربہ کو وجودی قربت (physical nearness) ، یا وجودی اتحاد (physical emergence) کے معنٰی میں لے لیا۔ اِسی سے وحدتِ وجود (monism) کا نظریہ پیداہوا۔ نفسیاتی قربت کی حد تک یہ حقیقتِ اعلیٰ کے ادراک کی بات تھی، لیکن وحدتِ وجود کے نظریے کی صورت میںوہ سرتاپا ایک باطل چیز بن گئی۔ اِس مشکل کو حل کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی نے وحدت ِ شہود کا نظریہ ایجاد کیا۔ اِسی طرح ابنِ عربی نے کہا:
العبدُ عبدٌ، وإن ترقّٰی والربُّ ربٌّ، وإن تنزّل
مگر میرے نزدیک، یہ دونوں باتیں صرف کنفیوژن (confusion) کا کیس ہیں، وہ اصل معاملے کی حقیقی توضیح نہیں۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ خدا نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کی فطرت میں ربانی شعور پیوست کردیا ہے۔ وہ انسان کے لاشعور میں مسلسل موجود رہتاہے۔ اِسی لا شعور کو شعور میں لانے کا نام معرفت ہے۔ یہ صرف ایک دریافت ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی بھی قسم کی کوئی مماثلت نہیں۔ معرفت کا معاملہ تمام تر دریافت کا معاملہ ہے۔ معرفت ایک خارجی حقیقت کی شعوری دریافت ہے۔ تاہم یہ دریافت سائنسی دریافت کی طرح محض ایک ٹکنکل دریافت نہیں۔ یہ دریافت آدمی کو حقیقت کے سمندر میں غرق کردیتی ہے۔ اِسی نفسیاتی معاملے کی غلط توجیہہ کے نتیجے میں وحدتِ وجود (monism) یا ادوئت واد کا نظریہ پیدا ہوا۔
واپس اوپر جائیں
فتحِ مکہ (8 ہجری) سے پہلے مدینہ کے حالات اچھے نہ تھے۔ چناں چہ رات کے وقت صحابہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرہ داری کرتے تھے۔ ایک رات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبہ سے اپنا سر باہر نکالا اور کہا: انصرفوا أیہاالناس، فقد عصمنی اللہ(الترمذی، کتاب التفسیر) یعنی اے لوگو، واپس جاؤ۔ اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات قرآن کی ایک آیت کی بنیاد پر فرمائی تھی جو غالباً اُسی رات کو اتری تھی۔ وہ آیت یہ ہے: یا أیہا الرسول بلّغ ما أنزل إلیک من ربّک، وإن لم تفعل فما بلّغتَ رسالتہ، واللہ یعصمک من الناس (المائدۃ:
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ’عصمت من الناس‘ کا راز ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ میں چھپا ہوا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ یہ وعدہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شخصی طورپر نہ تھا، یہ آپ کی امت کے ہر اُس فرد یا اُس گروہ کے بارے میں ہے جو خالص پیغمبرانہ نمونے کے مطابق، دعوت اور تبلیغ کا کام کرے۔ سچے داعیوں کے لیے یہ ایک ابدی وعدہ ہے، وہ کسی خاص زمانے تک محدود نہیں۔
دعوتِ حق کے کام کو قرآن میںاللہ تعالیٰ کی نصرت بتایا گیاہے (الصف:
واپس اوپر جائیں
مکی دور میں جب قرآن اترنا شروع ہوا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اُس زمانے میں ایسا ہوا کہ فرشتہ جبریل، قرآن کا کوئی حصہ لے کر آئے اور انھوں نے اس کو آپ کے سامنے پڑھا۔ اُس وقت آپ نے یہ کیا کہ آپ سنے ہوئے الفاظ کو درمیان میں دہرانے لگے، تاکہ آپ اُس کو بھول نہ جائیں۔قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا تعلق صرف پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جبریل اِس بات کو الگ سے پیغمبر اسلام کو بتادیتے۔ قرآن میں یہ بات اس لیے شامل کی گئی، تاکہ اِس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو آدابِ کلام کی تعلیم دی جاسکے۔ اِس اعتبار سے، قرآن کی اِس آیت کا تعلق عمومی طورپر آدابِ کلام سے ہے، نہ کہ صرف پیغمبر اسلام کی ذات سے۔
اِس آیت سے کلام کا صحیح طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جب کوئی شخص ایک بات کہے، تو دوسرا آدمی پوری طرح خاموش ہو کر اُس کی بات کو سنے ۔ سننے والے کو ہر گز ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بیچ میں بولنے لگے۔
اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ گفتگو کے دوران بیچ میں بار بار بولتے ہیں۔ یہ طریقہ آداب کلام کے خلاف ہے۔ نیز اُس کا یہ نقصان ہے کہ سننے والا، کہنے والے کی بات کو پوری طرح نہ پکڑے۔ اِس طرح گفتگو کا اصل فائدہ حاصل نہ ہو۔ باہمی گفتگو کا مقصد اِفہام و تفہیم، یا ڈائلاگ اور لرننگ (learning)ہوتا ہے۔ گفتگو کے دوران بولنے سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اِس کا فائدہ نہ سننے والے کو ملتا ہے اور نہ کہنے والے کو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اور فرعون (شاہِ مصر) نے یوسف سے کہا: چوں کہ خدانے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے، اِس لیے تیری مانند دانش ور اور عقل مند کوئی نہیں۔ سو، تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا:
Then Pharaoh said to Joseph, “Inasmuch as God has shown you all this, there is no one as discerning and wise as you.You shall be over my house, and all my people shall be ruled according to your word; only in regard to the throne, will I be greater than you”. (Genesis 41:39-40)
حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کا جو بادشاہ تھا، وہ ایک حقیقت پسند آدمی تھا۔ عام بادشاہوں کی طرف وہ جارحانہ مزاج کا انسان نہ تھا۔ چناں چہ وہ راضی ہوگیا کہ تخت کا مالک میں رہوں، لیکن اُمورِ سلطنت کو حضرت یوسف انجام دیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کی اِس پیش کَش کو قبول کرلیا۔ بادشاہ کے برائے نام اقتدار کے تحت، وہ اپنا پیغمبرانہ مشن چلاتے رہے۔
قرآن کے مطابق، ہر پیغمبر کا عمل ہمارے لیے یکساں طورپر درست نمونے کی حیثیت رکھتاہے (الأنعام: 90)۔ اِس بنا پر حضرت یوسف کا نمونہ بھی ہمارے لیے اتنا ہی قابلِ اتّباع ہے،جتنا کہ پیغمبراسلام یا اورکسی پیغمبر کا نمونہ۔ یہ نمونہ اِس اصول پر مبنی ہے کہ اگر سیاسی حاکم اصل مشن میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے تو اُس سے ٹکراؤ نہیںکیا جائے گا۔ بلکہ اُس کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، اپنے مثبت اور تعمیری کام کی منصوبہ بندی (planning) کی جائے گی۔
حضرت یوسف کو یہ موقع اِس لیے ملا تھا کہ ان کا مُعاصر بادشاہ حقیقت پسندآدمی تھا۔ موجودہ زمانے میں اب یہ معاملہ کسی کے شخصی مزاج کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ یوسفی اصول اب عالمی طورپر تسلیم شدہ اصول (universally accepted principle) کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔
اب اس دورِآزادی میںتمام حکم رانوں نے یہ مان لیا ہے کہ وہ اپنے مخصوص سیاسی دائرے کے باہر کسی معاملے میں تعرّض نہیں کریں گے۔ لوگوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ جس طرح چاہیں، اپنے امور کی تنظیم کریں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے خلاف تشدد کا کوئی فعل نہیں کریں گے۔
حضرت یوسف کے زمانے میں جو چیز استثنائی موقع کی حیثیت رکھتی تھی، وہ اب عمومی موقع کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ اِس موقع کو دعوتِ حق کے لیے استعمال کرنا، پیغمبر کے طریقے کی پیروی ہے۔ اور اِس کے خلاف عمل کرنا، پیغمبر کے طریقے سے انحراف (deviation) کے ہم معنیٰ ہے۔
مذکورہ یوسفی اُسوہ کی مثال خود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں موجود ہے۔ پیغمبراسلام اپنی نبوت کے ابتدائی زمانے میں جب مکہ میں تھے تو اُس وقت آپ کو مکہ میں سیاسی اقتدار حاصل نہ تھا۔ مکہ کے قبائلی پارلیامنٹ دار الندوہ میں مشرک قبائل کو غلبہ حاصل تھا۔
رسول اللہ ﷺنے دار الندوہ پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مکہ میں سیاسی اقتدار یا دار الندوہ پر قبضہ کیے بغیر دعوت کے جو مواقع آپ کو حاصل تھے، اس کو آپ استعمال کرتے رہے۔ مزید یہ کہ اُس زمانے میں مشرکین کی طرف سے آپ کو اقتدار کی پیش کش کی گئی، لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا اور فرمایا: ما أطلب الملک علیکم۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت پر قبضے کے بغیر اگر مجھے دعوتی مواقع حاصل ہیں تو وہی میرے لیے کافی ہیں، مجھے تمھارے اوپر حاکم بننے کی ضرورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صرف خدا کی یاد سے انسان کو اطمنانِ قلب حاصل ہوتا ہے (الرعد:
قرآن اور حدیث کے اِن دونوں حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسرت (happiness) اور اطمنان، دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں، موجودہ دنیا میں کسی کو اطمنانِ قلب تو حاصل ہوسکتا ہے، لیکن مادّی معنوں میں پر مسرت زندگی کا حصول یہاںممکن نہیں۔ مسرت کا تعلق، مادی راحت کی چیزوں سے ہے۔ اِس کے مقابلے میں، اطمنان ایک ذہنی حالت کانام ہے۔ موجودہ امتحان کی دنیامیں کسی کو وہ تمام مادی سازوسامان نہیں مل سکتا جس کو پر مسرت زندگی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، البتہ ذہنی اعتبار سے اُس داخلی کیفیت کا حصول ممکن ہے جس کو اطمنان کہاگیاہے۔
مادّی سازوسامان کا بقدر شوق ملنا، اِس لیے ممکن نہیں کہ موجودہ دنیا اِس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔ موجودہ دنیا امتحان اور آزمائش کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں وہی سامان اکھٹا کیے گئے ہیں جو امتحان کی مصلحت کے اعتبار سے ضروری ہیں۔ اِس لیے موجودہ دنیا میں پر مسرت زندگی کی تعمیر ایک ایسا کام ہے جس کی گنجائش خالق کے تخلیقی پلان میں نہیں، اور جو چیز خالق کے تخلیقی پلان میں نہ ہو، اُس کا حصول موجودہ دنیا میں کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔
اطمنانِ قلب کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اطمنانِ قلب کے حصول کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ آدمی ملی ہوئی صورتِ حال پر راضی ہوجائے۔ اِسی کا نام قناعت(content) ہے۔ اگر آدمی کے اندر قناعت کا مزاج پیدا ہوجائے، تو کسی بھی حال میں ، وہ کامل اعتدال کے ساـتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ اِسی لیے حدیث میں مومن کی مثال مسافر سے دی گئی ہے (کُن فی الدنیا کأنّک غریب، أوعابرُ سبیل۔صحیح البخاری، کتاب الرقاق)۔
مسافر اپنے آپ کو سفر کی حالت میں سمجھتا ہے، اِس لیے وہ سفر کے وقت، یا سواری میں بیٹھ کر اطمنان کے ساتھ اپنا سفر طے کرتا ہے۔ کیوں کہ اس کو پیشگی طورپر یہ معلوم رہتا ہے کہ سفر میں اس کو گھر جیسا آرام نہیںمل سکتا۔ مسافر آدمی جب ایک سواری میں بیٹھاہو، تو وہ یہ امید نہیں رکھتا کہ اس کو گھر والی سہولتیں حاصل ہوجائیں گی۔ یہی سوچ آدمی کو سفر میں مطمئن رکھتی ہے۔ اِس کے برعکس، اگر وہ سواری کے اندر گھر والی سہولتوں کی امید رکھے، تو وہ پورے سفر میں پریشانیوں سے دوچار رہے گا۔ اِسی حقیقت پسندانہ سوچ کا نام قناعت ہے، اور قناعت کی سوچ ہی اِس دنیا میں اطمنان کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔
موجودہ زمانے میں ایک مسئلہ بہت زیادہ عام ہے۔ اِس مسئلے کو اسٹریس(stress) یا ٹنشن (tension) کہاجاتاہے۔ دنیا بھرمیںایسے ادارے کھُلے ہوئے ہیں جو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کے نام پر بڑے بڑے بزنس چلا رہے ہیں، مگر ڈی اسٹریسنگ کا یہ پورا کام صرف مسئلہ (problem) کے نام پر تجارت کرنا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں مسئلے کوحل کرنا۔
ڈی اسٹریسنگ کا واحد ممکن ذریعہ قناعت(content) ہے۔ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صورتِ موجودہ پر دل سے راضی ہوجائے۔ اور صورتِ موجودہ پر دل سے راضی ہوجانا ہی آدمی کو اِس دنیا میں اطمنان اور سکون کی زندگی عطا کرسکتا ہے۔ اِس کے سوا، اِس دنیا میں اطمنان اور سکون کے حاصل کرنے کا اورکوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یدخل الجنّۃ أقوامٌ أفئدتہم مثل أفئدۃِ الطّیر(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ؛ مسند احمد، جلد2، صفحہ
چڑیا ایک حیوان ہے، مگر چڑیا کے اندر ایک ایسی استثنائی صفت ہوتی ہے جو کسی دوسرے حیوان میں نہیں، وہ یہ کہ چڑیا نفرت اور انتقام (revenge)کے جذبات سے خالی ہوتی ہے۔ تمام دوسرے جانور دفاعی طورپر حملہ کرنے کا مزاج رکھتے ہیں، لیکن چڑیا اِس مزاج سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے۔ آپ چڑیا کو دیکھئے تو وہ اپنی شکل ہی سے معصومیت کا پیکر دکھائی دے گی۔ اِس لیے کبوتر (pigeon) کو امن کی علامت (symbol of peace) قرار دیا گیا ہے۔
حدیث کے مطابق، یہی جنّتی صفت اُس انسان سے مطلوب ہے جو جنت کا طالب ہو۔ جنتی انسان وہ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے مکمل طورپر خالی ہو، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ چڑیا کے اندر یہ مثبت صفت جبلّت (instinct) کے طورپر ہوتی ہے اور جنتی انسان کے اندر یہ مثبت صفت آزادانہ شعور کے تحت۔
جنّتی انسان وہ ہے جو اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ اس کا دل نفرت اور انتقام جیسی چیزوں سے مکمل طورپر خالی ہوجائے، جو غصے کو پی جانے والا ہو، جو منفی ردّ عمل کا مزاج نہ رکھتا ہو، جو نفرت کے باوجود محبت کرنے والا انسان ہو، جو کسی امید کے بغیر لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جو لوگوں کے درمیان اِس طرح رہے، جیسے کہ سب لوگ اُس کے بھائی اور بہن ہیں، جو شیطان سے بھاگے اور فرشتوں کو اپنا ہم نشین بنائے، جو شکایتوں کو صبر کے خانے میں ڈال دے، جو دوسروں کا حق ادا کرے اور اپنا حق خدا سے مانگے— یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو کسی انسان کو جنت میں داخلے کا مستحق بنائیں گی۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدنیا ملعونۃٌ، ملعونٌ ما فیہا إلاّ ذکر اللہ، وما والاہ، وعالماً ومتعلما (ابن ماجہ، کتاب الزّہد؛ الترمذی، کتاب الزہد) یعنی دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا کے اندر ہے، وہ سب ملعون ہے، سواذکراللہ کے اور وہ چیز جو اُس کے قریب ہو، اور عالم اور طالبِ علم۔
دنیا اور ذکر اللہ دونوں ایک دوسرے الگ نہیں ہیں۔ یادِ الٰہی کے لیے دنیا کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا لینا، یہی وہ چیز ہے جس کو اِس حدیث میں ذکر اللہ کہاگیا ہے۔ اگر یہ یاد اللہ کے نام کے ساتھ ہو تووہ براہِ راست ذکر ہے۔ اور اگر نام کے بغیر اللہ کو یاد کیا جائے تو وہ بالواسطہ ذکر۔ اِسی طرح، وہ عالم اور وہ طالبِ علم خدا کے نزدیک مطلوب عالم اور طالبِ علم ہیں جو اپنے علم کو ذکر ِ الٰہی کا ذریعہ بنائیں۔
دنیا یا دنیا کی چیزوں کا خالق بھی اللہ ہے۔ اِس لیے دنیا فی نفسہ ملعون نہیں ہوسکتی۔ یہ دراصل دنیا کا استعمال ہے جو اس کو ملعون یا غیر ملعون بناتا ہے۔ جو شخص دنیا کو پاکر خدا کو بھول جائے، اس کے لیے دنیا ملعون کا درجہ رکھتی ہے۔ اور جس شخص کے لیے دنیا کو پانا یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے، اُس کے لیے دنیا رحمت اور سعادت کی چیز ثابت ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزمائش (test) کے لیے بنائی گئی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں آزمائشی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ پرچے اِس لیے ہیں، تاکہ ناکام ہونے والوں اور کامیاب ہونے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔
جس شخص نے دنیا کی چیزوں سے یادِ خداوندی کی غذا لی وہ اِس آزمائش میں کامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جس آدمی کے لیے دنیا کی چیزیں خالق سے دوری اور فراموشی کا سبب بن گئیں، وہی وہ انسان ہے جو آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ اِس طرح، دنیا بہ اعتبارِ استعمال، کسی کے لیے ذریعۂ لعنت ہے اور کسی کے لیے ذریعۂ رحمت۔
واپس اوپر جائیں
مشہور صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: إنکم فی زمانٍ کثیرٌ علماؤہ، قلیلٌ خطباؤہ، وإن بعدکم زمانا کثیرٌ خطباؤہ، والعلماء فیہ قلیل (رواہ البخاری فی الأدب المفرد) یعنی آج تم ایک ایسے زمانے میں ہو، جب کہ امت میں علما ء بہت ہیں اور خطبا ء کم ہیں۔ تمھارے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ امت میں خطبا ء زیادہ ہوں گے اور علماء کم ہوں گے۔
اِس قول میںعلماء سے مر اد حقیقی اہلِ علم ہیں، اور خطباء سے مراد عوامی انداز میںبولنے والے مقررین ہیں۔ بعد کے زمانے سے مراد اسٹیج اور میڈیا کا زمانہ ہے۔
یہ بعد کا زمانہ آج پوری طرح ہمارے سامنے آچکا ہے۔ قدیم زمانے میں، جب کہ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ جدید قسم کا اسٹیج بنا تھا، اُس وقت تقریر و خطابت میں کوئی کشش موجود نہ تھی۔ اُس وقت کے حالات میں لوگ زیادہ تر علمی مطالعہ اور علمی کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ اِس بنا پر قدیم زمانے میں یہ ممکن تھا کہ بڑے بڑے اہلِ علم پیدا ہوں۔
موجودہ زمانے میں، اسٹیج اور میڈیا کے ظہور نے صورتِ حال کو بالکل بدل دیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ آدمی پُر جوش تقریریں کرکے اسٹیج پر نمایاں ہو۔ اخباروں میںاس کی تصویریں چھپیں۔ ٹی وی کے پروگراموں میںاس کا شان دار مظاہرہ ہو، وغیرہ۔
اِس طرح کی چیزوں نے آج کے ذہین لوگوں کو علم سے بے رغبت کردیا ہے۔ اسٹیج اور میڈیا میں نمایاں ہونا، اُن کے لیے زیادہ پرکشش بن گیا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو صحابی رسول نے پیشین گوئی کے انداز میں بیان کیا۔
علم والا آدمی سوچ کر بولتا ہے اور خطابت والا آدمی سوچے سمجھے بغیر اپنی تقریر شروع کردیتا ہے۔ اِس فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ علم والا آدمی مُصلح کا درجہ پاتا ہے، اور خطابت والا آدمی مفسد کا درجہ۔مستقبل کی تعمیر کے لیے، ہمیشہ اہلِ علم درکار ہوتے ہیں، نہ کہ اہلِ خطابت۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدأ الإسلام غریباً وسیعود کما بدأ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا۔بعد کے زمانے میں اسلام دوبارہ اجنبی ہوجائے گا۔
اِس معاملے کی ایک مثال حکمتِ حُدیبیہ ہے۔ قرآن میں حکمت ِ حدیبیہ کو فتحِ مبین (الفتح:1 ) کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ مگر دورِ نبوت کے بعد دوبارہ حکمتِ حدیبیہ کو دہرایا نہیں گیا، پوری مسلم تاریخ حکمتِ حدیبیہ کی دوسری مثال سے خالی ہے۔ حدیث کے مطابق، اِس کا سبب یہ ہے کہ اسلام خود مسلمانوں کے درمیان اجنبی ہو کر رہ گیا۔
حکمتِ حدیبیہ کیا ہے۔ حکمتِ حدیبیہ یہ ہے کہ مخالفین سے یک طرفہ صلح کرکے حالات کو معتدل بنانا اور پھر مواقع(opportunities) کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔ یہ بلاشبہہ ایک فاتحانہ حکمت ہے۔ مگر اِس فاتحانہ حکمت کو استعمال کرنے کے لیے آدمی کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے، بظاہر وقتی ہزیمت کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اپنے جذبات کو دبا کر خالص عقلی فیصلہ لینا پڑتا ہے، اِس بنا پر حکمتِ حدیبیہ کو اختیار کرنا ایک قربانی کا عمل بن جاتا ہے۔ لوگ اِس قربانی کو دے نہیں پاتے، اِس لیے وہ حکمت حدیبیہ کو استعمال بھی نہیں کر پاتے۔
موجودہ زمانے میں لوگ حکمتِ حدیبیہ سے اتنے زیادہ بے خبر ہوچکے ہیں کہ اگرآج حکمتِ حدیبیہ کی بات کی جائے تو لوگ اس کو بزدلی اور پسپائی کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ لوگوں کی اِسی بے خبری کا نتیجہ ہے کہ حدیبیہ جیسا فتحِ مبین کا واقعہ تاریخ میں دوبارہ دہرایا نہ جاسکا۔ لوگ غیر ضروری طورپر لڑکر اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں۔ حالاں کہ عین اُسی وقت، حکمتِ حدیبیہ اُن کے لیے زندگی کا پیغام دے رہی ہے۔ فتحِ مبین کا امکان ہوتے ہوئے، وہ شکستِ مبین کو قبول کیے ہوئے ہیں— کیسے عجیب ہوں گے وہ مسلمان جن کے درمیان خود اسلام اجنبی ہو کر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں ہر آدمی کیریر پرسن (career person) بنا ہوا ہے۔ ہر آدمی یہ کررہا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک کیریر کو چنتا ہے۔ مثلاً انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، ٹیچر، بزنس مینیجر، وغیرہ۔ ہر آدمی یہ کررہا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ کیریر کے مطابق، تعلیم حاصل کرتا ہے۔ وہ اس کی ٹریننگ لیتا ہے اور پھر اس کے مطابق، جاب (job) حاصل کرکے، اپنی پوری زندگی اُس میں لگا دیتا ہے۔ ہر عورت اور مردکیریرازم (careerism) کے اِس طریقے پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ مرکر اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
یہ دنیوی معنیٰ میں شخصیت کی تعمیر ہے۔ اِسی طرح، آخرت کے اعتبار سے بھی یہ مطلوب ہے کہ ہر آدمی اپنے اندر وہ شخصیت بنائے جو آخرت کی دنیا میں کام آنے والی ہو۔
اِس دوسری قسم کی شخصیت کی خصوصیات کیا ہیں۔ایسے انسان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی زندگی کا آغاز تلاشِ حق (truth seeking)سے ہوا ہو، اور پھر ذاتی جستجو کے ذریعے وہ حقیقت اعلیٰ کو دریافت کرلے۔ ایسی شخصیت کو ربانی شخصیت کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت کی دریافت ہی ربانی شخصیت کی تعمیر کا آغاز ہے۔ جس انسان نے دریافت (discovery) کے درجے میں حقیقت کو نہیں پایا، اس کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کا آغاز بھی نہیں ہوگا۔
ربانی شخصیت کا دوسرا سب سے بڑا جُز یہ ہے کہ وہ کامل معنوں میں ایک مثبت شخصیت ہو، وہ ہرقسم کے منفی احساسات (negative thoughts)سے پوری طرح خالی ہو۔ آخرت کی دنیا میں منفی شخصیت رکھنے والے انسان کا کوئی مقام نہیں۔
اِس کے بعد جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ وہ اپنی دریافت کے مطابق، اپنی زندگی کی ترجیحات (priorities) قائم کرے۔ اِس معاملے میں وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ بنائے، خواہ بظاہر وہ عذر کتنا ہی زیادہ اہم کیوں نہ ہو— ایسا ہی انسان ربانی انسان ہے، اور یہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو آخرت کی ابدی جنتوں میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم خطیب نے پُر جوش طورپر کہا کہ قرآن، سارا کا سارا، نعتِ نبوی ہے۔ اِس طرح ہر ایک اپنے ذہن کے مطابق، قرآن کے بارے میں کلام کررہا ہے۔ قرآن کے بارے میں لوگوں کے خیالات بڑے عجیب ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمیں کسی تفسیر کی ضرورت نہیں، بقدر ضرورت عربی زبان جاننا، قرآن کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے، ہمیں حدیث سے رہ نمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ قرآن فہمی کا اصل راز یہ ہے کہ اُس کے نظم (order) کو سمجھا جائے۔ آیتوں اور سورتوں کے درمیان نظم کو جاننا ہی قرآن فہمی کی سب سے بڑی کلید ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جاہلی دور کے عرب شعرا کے کلام کا گہرا مطالعہ کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو نہیں سمجھ سکتا۔ کسی کاکہنا ہے کہ قرآن اتنی زیادہ با برکت کتاب ہے کہ اس کا ایک نسخہ گھر میں رکھنا ہی اس کی سعادتوں میں حصے دار بننے کے لیے کافی ہے۔ ایک ہندو اسکالر نے کہا کہ میں جب قرآن کو پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں گیتا کو پڑھ رہا ہوں، اور جب گیتا کو پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں قرآن کو پڑھ رہا ہوں۔ ایک مسیحی اسکالر نے کہا کہ قرآن تو عیسیٰ مسیح کی عظمت بتانے کے لیے اترا تھا۔ آپ دیکھئے، قرآن میں محمد اور احمد کا لفظ صرف 5بار آیا ہے، اور عیسی مسیح کے الفاظ
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اِن تمام قسم کے لوگوں میں ایک صفت مشترک طورپر پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ آپ کا نقطہ نظر قرآن کی کس آیت سے معلوم ہوتاہے، تو اِن میں سے کوئی بھی اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن کی کوئی آیت بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک، اپنے نظریے کو نہایت جوش کے ساتھ بیان کرے گا، لیکن جب اُس سے پوچھا جائے کہ اپنے نظریے کی تائید میں قرآن کا حوالہ بتاؤ، تو وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرے گا، لیکن قرآن کی کوئی آیت اپنے نظریے کی تائید میں پیش نہ کرسکے گا— یہ سب غیر سنجیدگی کی باتیں ہیں اور جو لوگ غیر سنجیدگی میں مبتلا ہوں، وہ کبھی قرآن کو سمجھ نہیں سکتے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے، یعنی ایک خدا کو سب کچھ سمجھنا۔ بقیہ تمام چیزیں اِسی عقیدے کے ساتھ جُڑی ہوئی ہیں۔ عبادت، اخلاق، معاملات، سب کا سرچشمہ یہی عقیدۂ توحید ہے۔ ایک لفظ میں، اسلامی زندگی ، خدا رخی زندگی (God-oriented life) کا نام ہے۔
اسلام میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اِن نمازوں کے دوران تقریباً تین سو بار اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ، بعض نمازوں کے بعد خصوصی تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ اِس میں بھی بار بار اللہ اکبر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ گویا کہ چوبیس گھنٹے کی پوری مدت میںایک مسلمان جس بات کا سب سے زیادہ ذکر کرتا ہے، وہ اللہ اکبر ہے۔
اللہ اکبر کا مطلب ہے— خدا سب سے بڑا ہے۔ اِس طرح، اللہ اکبر میںایک اور چیز اپنے آپ پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ خدا کے سوا جو انسان ہیں، وہ سب کے سب برابر ہیں۔ ان میں سے نہ کوئی انسان بڑا ہے اور نہ کوئی چھوٹا:
God is great, and all men and women are equals.
یہ عقیدہ کوئی سادہ عقیدہ نہیں۔ تمام بہترین انسانی اقدار (human values) اِسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب سب برابر ہیں، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ سب یکساں طورپر اِس قابل ہیں کہ ان کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے۔ سب کو یکساں طورپر عزت واحترام کا مستحق سمجھا جائے۔ اپنے اور غیر کے درمیان فرق کئے بغیر، ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔
ایک خاندان کے اندر جہاں خونی رشتہ (blood relation) سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، وہاں خود بخود سب کے درمیان برابری کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح، تمام عورت اور مرد ایک وسیع تر فیملی کے ممبر ہیں۔ اِس بڑے خاندان میں بھی وہی برابری مطلوب ہے جو چھوٹے خاندان کے درمیان پائی جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
اِس دنیا کی ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ شمسی نظام (solar system) اتنا زیادہ مکمل ہے کہ اس سے بہتر کوئی اور شمسی نظام سوچا نہیں جاسکتا۔ ہماری زمین اپنے بے شمار اجزا کے ساتھ کامل معیار کا آخری نمونہ ہے۔ ہماری دنیا میں جو لائف سپورٹ سسٹم ہے، اُس سے بہتر لائف سپورٹ سسٹم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اِسی طرح، پہاڑ، دریا، درخت، حیوانات اور انسان، سب اپنے آخری معیاری ماڈل پر ہیں، حتی کہ گھاس کا جو ماڈل ہے، وہ بھی اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کوئی آرٹسٹ کبھی گھاس کا اِس سے بہتر ماڈل نہیں بنا سکتا۔یہی معاملہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کا ہے۔ یہ تخلیقی نقشہ بھی اپنے آخری کمال کی حد تک معیاری نقشہ ہے، حتی کہ اِس سے بہتر تخلیقی نقشے کا تصور ممکن نہیں۔
انسان کو خدا نے احسنِ تقویم کی صورت میں پیدا کیا، پھر موجودہ زمین پر اس کو عارضی طورپر ٹسٹ کے لیے رکھا اور یہ مقدر کیا کہ موت کے بعد کی ابدی دنیا میں ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق، سزا یا انعام دیا جائے۔ اِسی کا نام تخلیقی نقشہ ہے۔ انسان جیسی مخلوق کے لیے بلا شبہہ یہ اعلیٰ ترین تخلیقی نقشہ ہے۔ اِس سے بہتر تخلیقی نقشے کا تصور یقینی طورپر ممکن نہیں۔
مثلاً انسان اپنے اندر بہت سی خواہشات (desires) رکھتا ہے۔ یہ خواہشات انسان کے دماغ میں ایک حسین تصور کے طورپر بسی ہوئی ہیں۔ ہر عورت اور مرد چاہتے ہیں کہ اُنھیں ایک ایسی دنیا ملے، جہاں ان کی تمام خواہشیں کسی روک ٹوک کے بغیر پوری ہوں۔ فلسفیوں اور مفکروں نے زندگی کے جتنے نقشے بنائے ہیں، اُن میں انسان کی اِن خواہشوں کی تکمیل (fulfilment) ممکن نہیں۔ مثلاً آواگون کا نظریہ اور اِفادی نظریہ، وغیرہ۔ آخرت کے نظریے کی صورت میں جو تخلیقی نقشہ سامنے آتا ہے، اُس میں آخری معیاری درجے میںاِن خواہشوں کی تکمیل کا سامان موجود ہے۔ نظریۂ آخرت کا یہ پہلو اِس بات کا آخری ثبوت ہے کہ وہی زندگی کا حقیقی نظریہ ہے۔ اِس کے سوا جو نظریات ہیں، وہ سب فرضی قیاسات ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی اپنی ساری توانائی خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماتا ہے، صرف اِس لیے تاکہ وہ جہنم کا مہنگا ٹکٹ خرید سکے— یہ جملہ اکثر نہایت درد کے ساتھ میری زبان سے نکل جاتا ہے۔
آج کل کے لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنا سارا وقت اوراپنی ساری طاقت پیسہ کمانے میں لگائے ہوئے ہیں۔ اُن کو رات دن بس ایک ہی دُھن لگی رہتی ہے، وہ یہ کہ کس طرح وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر
آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر لوگ اور نام نہاد مذہبی لوگ، دونوں ایک ہی چیز کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اوروہ ہے ہر ممکن ذرائع سے زیادہ سے زیادہ دولت کمانا۔
پھر اِس دولت کا استعمال بھی صرف ایک ہے اور وہ ہے اپنی مادّی خوش حالی میںاضافہ کرنا۔ مکان اور سواری اور کپڑے جیسی چیزوں میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرنا۔ اگر کوئی شخص بظاہر مذہبی ہے، تو وہ صرف رسمی معنوں میں مذہبی ہے۔ مقصد ِ زندگی کے اعتبار سے ہر ایک کا نشانہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے مادّی ترقی۔
ہر آدمی کی زندگی ایک تلخ انجام پر ختم ہورہی ہے اوروہ ہے تمام مادّی ترقیوں کو چھوڑ کر اِس دنیا سے چلا جانا۔ یہ بے حد سنگین صورتِ حال ہے۔ اِس میں دنیا کے تقریباً تمام لوگ مبتلا ہیں۔ اپنے خیال کے مطابق، وہ ترقی کی طرف جارہے ہیں، مگر موت ہرایک کو بتارہی ہے کہ تمھارا سفر صرف تباہی کے گڑھے کی طرف تھا، نہ کہ ترقی کی منزل کی طرف۔
کیسا عجیب ہے انسان کا یہ انجام کہ وہ اپنے بہترین وقت اور اپنی بہترین توانائی کو خرچ کرکے لتروُن الجحیم (التکاثر: 6 ) کا مصداق بن رہا ہے، یعنی جنت کا خواب دیکھنے والا، آخر کار اپنے آپ کو جہنم کے گڑھے میں گرا ہوا پائے۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر رجت ملہوترا نے بتایا کہ انھوںنے ٹیلی فون پر مسٹر شہزاد سے بات کی۔ مسٹر شہزاد کی عمر تقریباً چالیس سال ہے۔ وہ میرٹھ کے رہنے والے ہیں۔ وہ الرسالہ مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ اِس وقت اُن کو ایک شدید بیماری لاحق ہے۔ اِس بیماری کی وجہ سے اُن کا نظامِ ہضم بڑی حد تک معطل ہوچکا ہے۔ مسٹرشہزادنے ٹیلی فون پر بتایا کہ کچھ لوگ میرے پاس عیادت کے لیے آئے تھے۔ میںنے ان سے کہا کہ عیادت کا ثواب آپ کو صرف اُس وقت ملے گا، جب کہ آپ مجھ کو دیکھ کر حقیقی معنو ں میں الحمد للہ کہہ سکیں۔آپ جانتے ہیں کہ میرا حال یہ ہے کہ پانی پینا بھی میرے لیے مشکل ہے۔ اگر آدھی روٹی کھالوں تو وہ گھنٹوں ہضم نہیں ہوتی۔ ہضم کا قدرتی نظام اپنا کام نہیں کررہا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ ہم پانی پی سکتے ہیں، ہم کھانا کھاسکتے ہیں، پانی اور کھانا ہمارے پیٹ کے اندر داخل ہو کر ہضم ہوجاتا ہے۔ یہ بات جو آپ کو حاصل ہے، وہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اِس کا شکر ادا کرنے کے لیے انسانی زبان میں الفاظ موجود نہیں۔
شہزاد صاحب آج کل صاحبِ فراش ہیں۔ اِس سے پہلے وہ نہایت سرگرمی کے ساتھ دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے ہیں۔ ہفتے میں ایک دن وہ باقاعدہ طورپر الرسالہ مطبوعات کو لوگوں تک پہنچانے میں صرف کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ایک ہندو ڈاکٹر کے یہاں گئے۔ وہ اُن سے مل کر ان کو ہمارے یہاں کا چھپا ہواانگریزی لٹریچر دینا چاہتے تھے۔ کلینک کے کارکن نے اُن کو منع کردیا۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بہت مصروف ہیں، آپ اُن سے مل نہیں سکتے۔ وہاں کا قاعدہ یہ تھا کہ مریض پہلے وزیٹنگ فیس کے طور پر سوروپئے جمع کرواتا تھا۔ اس کے بعد وہ لائن میںکھڑا ہوکر ڈاکٹر تک پہنچتا تھا۔ شہزاد صاحب نے یہ کیا کہ وزٹنگ فیس جمع کرکے وہ لائن میںکھڑے ہوگئے۔ جب ان کی باری آئی اور وہ ڈاکٹر تک پہنچے تو انھوںنے ڈاکٹر سے کہا کہ مجھے کوئی بیماری نہیں۔ میںصرف آپ کو یہ چند لٹریچر دینا چاہتا تھا۔ یہاں کے قاعدے کے مطابق، چوں کہ میں مریضوں کی لائن میںکھڑے ہوئے بغیر آپ تک نہیں پہنچ سکتاتھا۔ اِس لیے میںنے یہ طریقہ اختیار کیا۔ یہ سن کر مذکورہ ہندو ڈاکٹر بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے خوشی سے لٹریچر لے لیا اور کہا کہ آئندہ آپ جب بھی چاہیں، پیشگی اپائنٹ مینٹ کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
جہاد اور قتال دونوں ہم معنٰی الفاظ نہیں۔ جہاد کا مطلب پُر امن جدوجہد ہے، اور قتال کا لفظ جنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم جہاد کا لفظ توسیعی طورپر کبھی جنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جہاد بہ معنی قتال کی کچھ لازمی شرطیں ہیں۔ اِن شرطوں کے بغیر کیا ہوا عمل، اسلامی شریعت کے مطابق، جہاد نہیں۔
1 - جہاد بہ معنٰی قتال کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ خارجی حملے کے وقت بہ طور دفاع ہوتا ہے۔ یہ دفاعی جنگ صرف ایک قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے، عام لوگوں کو کسی بھی عذر کی بنا پر اِس کا حق نہیں۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں (NGOs) کے لیے صرف پر امن کوشش ہے، نہ کہ مسلح کارروائی۔
2 - اسلام میں سرّی جنگ (secret war) جائز نہیں۔ اگر کوئی مسلم حکومت کسی کے خلاف دفاعی جنگ کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو اس کو اعلان کرنا ہوگا۔ اعلان کے بغیر، دفاعی جنگ جائز نہیں۔
3 - اگر کوئی مسلم گروہ کسی ملک کے اندر رہتا ہے اور حالات کے مطابق، وہ مسلح جنگ کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کو سب سے پہلے اُس ملک سے ہجرت کرنا ہوگا۔ ملک کے اندر رہتے ہوئے کسی قسم کی مسلح کارروائی اسلام میں جائز نہیں۔
4 - ایک جائز جنگ میں بھی صرف مقاتِل (combatant) کو مارا جاسکتا ہے، غیر مقاتِل (non-combatant)کو مارنا جائز نہیں۔
5 - اسلام میں صرف حملہ آور (agressor) کے خلاف جنگ ہے، دشمن کے خلاف جنگ نہیں۔ دشمن کے مقابلے میں صرف پُرامن ڈائلاگ ہے، نہ کہ مسلح کارروائی۔
6 - اسلامی تعلیمات کے مطابق، اسلام میں جنگ کی حیثیت عموم (rule) کی نہیں، اسلام میں جنگ کی حیثیت صرف ایک استثنا(exception) کی ہے۔ اسلام میں کرنے کا اصل کام پُر امن دعوت ہے۔ اگر جنگ کی صورتِ حال پیش آئے، تب بھی ساری کوشش اُس سے اعراض کے لیے کی جائے گی، نہ کہ فوراً لڑائی چھیڑ دینے کی۔اسلام کی تمام تعلیمات، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، امن کے اصول پر مبنی ہیں، نہ کہ جنگ کے اصول پر۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کی اسپرٹ کو ایک لفظ میں، اللہ اکبر اسپرٹ کہہ سکتے ہیں۔ اسلام کی سب سے بڑی عبادت نماز ہے، جو رات دن میں پانچ بار ادا کی جاتی ہے۔ نوافل کی صورت میں جو نمازیں پڑھی جاتی ہیں، وہ اِن کے علاوہ ہیں۔ اِن نمازوں میں اور اذان و اقامت میںاللہ اکبر کا لفظ روزانہ تقریباً تین سوبار دہرایا جاتا ہے۔
اللہ اکبر کا مطلب ہے— اللہ بڑا ہے۔ اِس میںاپنے آپ یہ بات شامل (implicit) ہے کہ میں بڑا نہیں ہوں۔ اِس طرح ہر صاحبِ ایمان روزانہ بار بار اِس بات کو اپنے ذہن میں تازہ کرتاہے کہ بڑائی صرف ایک خدا کے لیے ہے، میرے لیے کوئی بڑائی نہیں۔ باجماعت نماز اِسی حقیقت کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ باجماعت نماز میں یہ ہوتاہے کہ تمام اہلِ ایمان اپنے درمیان سے ایک شخص کو آگے بڑھا کر سب اس کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ اکبر اسپرٹ کے اظہار کی ایک اجتماعی صورت ہے۔
اللہ اکبر کا مقصد دراصل آدمی کے اندر تواضع(modesty) کی اسپرٹ پیدا کرنا ہے۔ تواضع کی اسپرٹ حقیقی معنوں میں جب آدمی کے اندر پیدا ہوجاتی ہے، تو وہ کسی حد پر نہیں رکتی، یہ اسپرٹ جس طرح خدا کے سامنے ظاہر ہوتی ہے، اُسی طرح وہ انسان کے مقابلے میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اہلِ ایمان کی پہچان یہ ہے کہ اللہ اکبر کی اسپرٹ، یا تواضع کی اسپرٹ ان کی عملی زندگی میں پوری طرح شامل ہوجائے۔
اللہ اکبر کی اسپرٹ والے لوگ کبھی انانیت اور کبر کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ وہ ہر گز وہ کام نہیں کریں گے جس کو ’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا‘‘ کہاجاتا ہے۔ دوسروں کی ماتحتی قبول کرنا ان کو ایک عبادتی فعل معلوم ہوگا۔ ان کی روح کو خود جھکنے میں خوشی ہوگی، نہ کہ دوسروں کو اپنے آگے جھکانے میں۔ وہ اپنی غلطی کا فوراً اعتراف کرلیںگے۔ وہ قیادت کے شوق سے آخری حد تک خالی ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں
جس زمانہ میں برطانیہ کی حکومت ساری دنیا میں چھائی ہوئی تھی، اس زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ برطانیہ کا بادشاہ بھیس بدل کر اپنی مملکت کو دیکھنے کے لیے نکلا۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ برطانی فوج کے ایک افسر کے دفتر میں گیا۔ اس نے انگریز افسر سے پوچھا کہ ٹپس برگ کا راستہ کدھر سے جاتا ہے۔ افسر بگڑ گیا۔ اس نے کہا تم ٹپس برگ کا راستہ کسی سے بھی پوچھ سکتے تھے۔ اس کے لیے تمھیں میرے دفتر میںآنے کی کیا ضرورت تھی۔ نووارد نے کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ اس نے کہا کیا تم کوئی فوجی افسر ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم کیپٹن ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم کرنل ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم جنرل ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم فیلڈ مارشل ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑا ہوں۔ اب فوجی افسر بولا: کیا تم بادشاہ ہو۔ نووارد نے کہا کہ ہاں۔ فوجی افسر یہ سن کر کانپ اٹھا۔ وہ فوراً کھڑاہوگیا۔ اس نے اپنی جیب سے ریوالور نکالا اور کہا کہ لو، اس سے مجھے شوٹ کردو۔ میں نے اپنے بادشاہ کی توہین کی ہے۔ اس لیے میری سزا یہی ہے کہ مجھے گولی ماردی جائے۔
بادشاہ نے کہا کہ تم میری فوج کے ایک لائق افسر ہو اس لیے میں تم کو گولی نہیں ماروں گا۔ میںتم کو ایک اور سزا دیتا ہوں وہ سزا یہ ہے کہ آج سے تم ایسا کرو کہ جب بھی تم کسی انسان سے کوئی معاملہ کرو تو یہ سوچ لو کہ تمھارا بادشاہ تمھارے سامنے کھڑا ہے۔فوجی افسر نے اس کو پکڑ لیا۔ اس کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔ وہ آخر عمر تک نہایت محتاط زندگی گزارتا رہا، یہاں تک کہ اسی حا ل میں مر گیا۔
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا اور انسان کا ہے۔ انسان طرح طرح کی سرکشی کرتاہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خدا کو اپنے سے دور سمجھتا ہے۔ اگر وہ جان لے کہ خدا عین اس کے قریب موجود ہے۔ وہ اس کو ہر لمحہ دیکھ رہا ہے تو اچانک اس کی سوچ میں ایک انقلاب آجائے۔ وہ اپنے ہر قول اور ہر فعل میںآخری حد تک محتاط روش اختیار کرلے۔
واپس اوپر جائیں
ایک بار مجھے ایک شہر میںایک پروگرام میںشرکت کے لیے بلایا گیا۔ واپسی میں پروگرام کے ناظم نے مجھے ایک بند لفافہ دیا۔ میںنے اِس لفافے کو لے کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور واپس چلا آیا۔ اُس وقت ایک صاحب وہاں موجود تھے۔ انھوںنے مجھ سے اِس لفافے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ بہ طورِ خود انھوںنے قیاس کرلیا کہ اِس لفافے میں دس ہزار روپئے تھے۔ اپنے قیاس کو لے کر انھوںنے دوسروںسے اِس کا چرچا بھی شروع کردیا۔
بعد کو میرے پاس ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے بتایا کہ فلاں صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اُس وقت وہاں موجود تھے۔ انھوںنے اپنی آنکھوںسے دیکھا کہ مجھ کو ناظمِ پروگرام نے دس ہزار روپئے کا لفافہ دیا۔ انھوںنے لوگوں سے کہاکہ— اِس زمانے میں مولویوں کو بہت اچھا کاروبار مل گیا ہے۔ ایک تقریر کرو اور دس ہزار روپئے لے لو۔
میں نے انھیں بتایا کہ اس لفافے میں دس ہزار روپئے نہیں، بلکہ پانچ ہزار روپئے تھے۔ اس میں پچاس پچاس روپئے کے نوٹ تھے، اِس لیے لفافہ موٹا دکائی دے رہا تھا اور اِس بنا پر انھوںنے اُس کو دس ہزار روپئے سمجھ لیا۔ پھر میںنے بتایا کہ یہ روپیہ میرا نہیں تھا، وہ دہلی کے ایک صاحب کا تھا، جنھوں نے ناظمِ پروگرام کے کہنے پر مجھ کو مذکورہ سفر کے لیے جہاز کا رٹرن ٹکٹ خرید کردیا تھا جس کی قیمت پانچ ہزار روپئے تھی۔ یہ ایک امانت تھی جس کو مجھے اُن صاحب کو پورا کا پورا ادا کرنا تھا۔ چناں چہ دہلی واپسی کے بعد میں نے فوراً مذکورہ صاحب کو بلا کر وہ پوری رقم ان کے حوالے کردی۔ مزید میںنے مذکورہ صاحب سے ایک تحریر لی، جس میں انھوںنے لکھا تھا کہ وہ پوری رقم میری تھی اور مجھ کو واپس مل گئی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلط فہمی کس طرح پیدا ہوتی ہے، وہ اکثر خود ساختہ قیاس کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ تحقیق کے بغیر محض قیاس اور گمان کی بنا پر کسی کے خلاف بری رائے نہ قائم کرے۔ اِس قسم کی رائے زنی بلا شبہہ ایک ایسا گناہ ہے جس پر خدا کے یہاں سخت پکڑ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
مولانا مناظر احسن گیلانی (وفات:1956 ) ایک بار دارالمصنفین (اعظم گڑھ) آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953 ) یہاں رہا کرتے تھے۔ انھوںنے اپنی ذاتی محنت سے بہت سی اہم کتابیں تصنیف کی تھیں۔ اِس کاذکر کرتے ہوئے مولانا گیلانی نے کہا— یورپ میں جو کام اکادمی کرتی ہے، ہندستان میںاُس کو اک آدمی کرتا ہے۔ میں کہوں گا کہ قدیم حالات میں کوئی ایک شخص بھی بڑا کام کرسکتا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں کوئی بڑا کام کرنے کے لیے ٹیم ورک لازمی طورپر ضروری ہوگیا ہے۔
موجودہ زمانے میں علم کا جو اعلیٰ معیار قائم ہوا ہے، اُس اعلیٰ معیار پر کوئی بڑا علمی کام ایک فرد انجام نہیں دے سکتا، اُس کو انجام دینے کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں تمام بڑے بڑے علمی کام ٹیم کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ مسلمان موجودہ زمانے میں وقت کے اعلیٰ علمی معیار پر کوئی کتاب تیار نہ کرسکے۔ اُس کا سبب یہی ہے کہ اُن کے یہاں ابھی تک ایک فرد کتاب لکھتا ہے، اکیڈمک ورک(academic work) کا ابھی تک مسلمانوں کے یہاں رواج نہیں۔
اِس معاملے میں ایک سبق آموز مثال قرآن کے انگریزی ترجمے کی ہے۔ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں، قرآن کے بہت سے انگریزی ترجمے کیے گئے ہیں۔ اکثر انگریزی ترجمے ہمارے یہاں موجود ہیں۔ یہ تمام ترجمے شخصی کوشش کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں۔ میں عرصہ دراز سے قرآن کے انگریزی ترجمے دیکھتا رہا ہوں۔ میںنے پایا ہے کہ ہر ترجمے میں دو بنیادی کمی پائی جاتی ہے۔ ایک، یہ کہ بہت سے مقامات پر ترجمے غلط کیے گئے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ اِن ترجموں میں وضوح (clarity) بہت کم ہے۔ قرآن کی خاص صفت یہ ہے کہ اس کے اندر کمال درجے میںوضوح پایا جاتا ہے۔ لیکن اِن انگریزی ترجموں میں قرآن کی یہی اہم صفت بڑی حد تک موجود نہیں۔
قرآن کے موجودہ انگریزی ترجموں میںاِس کمی کا احساس مجھ کو بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یہ احساس مجھ کو ستاتا تھا کہ وقت کی بین اقوامی زبان میں خدا کی کتاب کا صحیح اورموثر ترجمہ موجود نہیں۔ میںاِس کام کو وقت کے مسلمّہ معیار پر کرنا چاہتا تھا۔ اِس کے لیے میںنے بہت سے اہلِ علم کو متوجہ کرنا چاہا، مگر کوئی اِس کے لیے تیا ر نہ ہوا۔آخر کار میںنے فیصلہ کیا کہ میںخود اِس کام کی ذمے داری لوں اور ٹیم ورک کے ذریعے قرآن کا مطلوب انگریزی ترجمہ تیار کرنے کی کوشش کروں۔
پچھلے تقریباً بیس سال سے میں اور میرے ساتھی خاموشی کے ساتھ اِس کام میںاپنی کوشش صرف کرتے رہے ہیں۔ میرے سوا، کئی لوگ مثلاً ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ثانی اثنین خاں وغیرہ اِس مشکل کام میںڈیڈی کیشن کے ساتھ مشغول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ تیار ہوچکا ہے اور اب اُس کا د وسرا ایڈیشن چھپ رہا ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ پورے معنوں میں ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ اِس کے ذریعے پہلی بار قرآن کا ایک ایسا انگریزی ترجمہ وجود میں آیا ہے جو ان شاء اللہ درست بھی ہے اور وضوح (clarity) اُس کے اندر پوری طرح پایا جاتاہے۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر گھر میں پہنچ جائے گا۔ میرا احساس یہ ہے کہ اِس حدیث میں کلمۂ اسلام سے مراد کلام الٰہی (Word of God) ہے، یعنی قرآن۔ اِس حدیث میں جس واقعے کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اُس کا تعلق پرنٹنگ پریس کے زمانے سے ہے۔ یہ صرف موجودہ پریس کے زمانے میں ممکن ہوا ہے کہ قرآن کے مطبوعہ نسخے تمام دنیا کے ہر گھر میں پہنچا دیئے جائیں۔ اب جب کہ اللہ کی توفیق سے، وقت کی بین اقوامی زبان میں قرآن کا صحیح ترجمہ وجود میںآچکا ہے، پوری ملت کا یہ فرض ہے کہ وہ متحدہ کوشش کے ذریعے قرآن کے اِس نسخے کو سارے عالم تک پہنچا دے، وہ اُس کو دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل کردے۔
میرا احساس ہے کہ اِس طرح قرآن کا ساری دنیا میں، ہر گھر اور ہر مقام میں، پہنچ جانا اتمامِ حجت کا آخری واقعہ ہوگا۔ انسانی تاریخ غالباً اپنے آخری دور میں پہنچ چکی ہے۔ اِس آخری دور میں جو سب سے بڑا دعوتی کام انجام پانا ہے، وہ بلاشبہہ یہی ہے کہ خدا کا کلام خدا کے تمام بندوں تک ان کی قابلِ فہم زبان میں پہنچا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
انڈیا کے ایک شہر میں ہندوؤں کا مذہبی جلوس نکلا۔ اپنے رواج کے مطابق، وہ ایک دوسرے پر رنگ (گُلال) ڈال رہے تھے۔ راستے میںایک مسجد پڑی۔ چناں چہ مسجدکی بیرونی دیوار پر بھی گلال کے چھیٹے پڑ گئے۔ وہاں کچھ مسلم نوجوان تھے۔ وہ اِس پر غصہ ہوگئے۔ انھوں نے جلوس نکالنے والوںپر اعتراض کیا، پھر دونوں کے درمیان اشتعال انگیز تکرار (heated exchange) ہوئی۔ اس کے بعد لڑائی شروع ہوگئی۔ آخر میں فرقہ وارنہ فساد بھڑک اٹھا۔ اِس فساد میں اُس مقام کے مسلمانوں کو زبردست جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
اِس کے بعد جگہ جگہ مسلمانوں کے جلسے ہوئے۔ مقرر ین کی بڑی تعداد مسجدوں اور مدرسوں سے نکل کر اسٹیج پر آگئی۔ ان کی پُر جوش تقریروں کا خلاصہ صرف ایک تھا—مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔ انتظامیہ مسلمانوں کے اوپر زیادتی کررہی ہے۔ مسلمانوں کو محاصرہ(seige) کی حالت میں پہنچا دیا گیا ہے، وغیرہ۔
اب دوسری مثال لیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کی مسجد کے اندر ایک مشر ک بدو داخل ہوا۔ اُس نے نجاست کے ذریعے مسجد کو گندا کردیا۔ اِس پر کچھ صحابہ غصہ ہوئے۔ لیکن پیغمبر اسلام نے صحابہ سے کہا کہ غصہ نہ کرو، بلکہ پانی لے کر اُس مقام پر بہادو۔ وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ اِس پیغمبرانہ سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس مشرک بدو نے اسلام قبول کرلیا (صحیح البخاری)
مذکورہ مسلمانوں کا طریقہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ اور دوسرا طریقہ پیغمبرانہ طریقہ۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جاہلیت کے طریقوں کی وجہ سے مختلف قسم کی مصیبتوں کا شکار ہیں۔ اِس کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمان جاہلیت کے طریقے کوچھوڑیں، اور پیغمبر کے نمونے کے مطابق، صحیح دینی طریقہ اختیار کریں۔ اِس معاملے میں اصل کام اپنی غلطی کی اصلاح کرنا ہے، نہ کہ فریقِ ثانی کے خلاف چیخ وپکارکرنا۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں مختلف رہ نماؤں نے بڑے بڑے ادارے بنائے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ اِن اداروں میںاپنے نوجوانوں کو تربیت دے کر ایک نئی نسل بنا سکیں گے۔ مگر یہ تمام خواب منتشر ہو کر رہ گئے۔ کوئی بھی ادارہ مطلوب نئی نسل کو وجود میں لانے کا ذریعہ نہ بن سکا۔ ایسا صرف اِس لیے ہوا کہ یہ منصوبہ غیر فطری تھا، اور کوئی بھی غیر فطری منصوبہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب ہونے والا نہیں۔
تعلیم کی دو قسمیں ہیں— فارمل ایجوکیشن (formal education) ، اور اِنفارمل ایجوکیشن (informal education) ۔ فارمل ایجوکیشن وہ ہے جو وقت کے منظّم اداروں میں باقاعدہ نصاب کے تحت دی جاتی ہے۔ اِنفارمل ایجوکیشن سے مراد تعلیم کے وہ غیر رسمی ذرائع ہیں جو ادارے سے باہر اپنا کام کرتے ہیں۔ مثلاً لٹریچر اور تربیت بذریعہ صحبت، وغیرہ۔
صحیح یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن کو تعلیم برائے تعلیم (education for the sake of education) کے اصول پر چلایا جائے۔ اور جہاںتک ذہن سازی یا افراد سازی کا معاملہ ہے، اُس کو اِنفارمل ایجوکیشن کے ذریعے انجام دیا جائے، ایجوکیشن کے یہ دونوں ذرائع ہر اعتبار سے، ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ الگ الگ رکھ کر ہی اُن کو بخوبی طورپر انجام دیا جاسکتا ہے۔ اگر دونوں کو یک جا کردیا جائے تو دونوں میں سے کسی ایک کے بھی تقاضے پورے نہ ہوں گے، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں میں سے کسی ایک کا بھی مطلوب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔موجودہ زمانے میں اِنفارمل ایجوکیشن کے ذرائع بہت بڑھ گئے ہیں۔ لیکن اِن بڑھے ہوئے ذرائع کا استعمال ذہن سازی یا افراد سازی کے لیے نہ ہوسکا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ کام صرف اُس وقت انجام پاتا ہے، جب کہ ایک اعلیٰ صلاحیت کا انسان ایک قربانی دے، وہ یہ کہ وہ شہرت اور قیادت کے اسٹیج کو چھوڑ دے اور ایک مقام پر بیٹھ کر اپنے آپ کو ہمہ تن افراد سازی کے خاموش کام میںلگا دے۔ موجودہ زمانے کے رہ نماؤں نے یہ قربانی نہیںدی، اِس لیے اِنفارمل ایجوکیشن کا کام بھی اعلی امکانات کے باوجود موثر طورپر انجام نہ پاسکا۔
واپس اوپر جائیں
ایک باپ کو اپنے بیٹے سے بہت تعلق تھا۔ باپ کے ذہن میںکام کا ایک آئڈیل تصور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اُس آئڈیل کام کے لیے تیار کرے۔ اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُس کی امیدیں تمام تر اپنے بیٹے سے وابستہ ہوگئیں۔ جب بیٹا بڑا ہوگیا اور اس کی تعلیم مکمل ہوگئی تو باپ نے چاہا کہ اس کا بیٹا اس کے پسندیدہ کام میں لگے۔ لیکن بیٹے نے انکار کردیا۔ باپ نے بہت کچھ کہا، لیکن بیٹے کی سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹے نے آخری طورپر اپنے باپ سے کہہ دیا— بیٹا جب بڑا ہوجاتا ہے تو وہ خود اپنی عقل سے کام کرتا ہے۔
بیٹے کا یہ جواب سُن کر باپ کو اتنی مایوسی ہوئی کہ وہ نفسیاتی مریض بن گیا۔ اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں باپ کی غلطی تھی، نہ کہ بیٹے کی غلطی۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہر بچہ عقل وشعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں جب وہ ناپختہ (immature) ہوتا ہے، اُس وقت وہ باپ اور ماں کی بات کو سنتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کا شعور پختہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عقل سے آزادانہ فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے والدین کی سوچ غیر فطری ہے، وہ کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔
والدین کو چوں کہ اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ محبت کے جذبے کے تحت، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں خوش فکر (wishful) بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے ایسی امیدیں قائم کرلیتے ہیں جو قانونِ فطرت کے خلاف ہوتی ہے۔
اِس خوش فکری (wishful thinking) میں تقریباً ہر باپ مبتلا رہتا ہے۔ اِس قسم کی خوش فکری اِس دنیا میں کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسند بنیں، تاکہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
واپس اوپر جائیں
ایک سینئر مسلم تاجر سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو خدا نے پنچانوے سال کی عمر دی، یعنی تقریباً ایک صدی۔ اِس لمبی زندگی میں آپ نے کیا سیکھا اورکیا تجربہ کیا۔ اِس سوال کے بعد وہ دومنٹ چپ رہے۔ اس کے بعد انھوںنے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا— کوئی تجربہ نہیں۔ بس پیداہوئے۔ بڑے ہوئے تو بزنس میں لگ گئے۔ شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچوں کو سیٹل (settle) کیا۔ اب آخر عمر میں بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں، اور موت کا انتظار کررہے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہی ہر گھر کی کہانی ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی تمام محبتوں کا مرکز بناتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، مگر آخر میںہر ایک کا یہ حال ہوتا ہے کہ بچے غیر وفادار نکلتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی آزاد زندگی بنا لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ماں باپ کی خدمت ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ بچوں کی ترقی کو ماں باپ اِس حسرت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ جس پیڑ کو ہم نے محنت کرکے اگایا تھا، اُس پیڑ کا سایہ اُنھیں حاصل نہیں ہوا۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے (بَرَّ صَدیقَہ وجَفا أباہ۔ التّرمذی، کتاب الفتن)۔ یہ حدیثِ رسول، موجودہ زمانے پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عمومی طورپر ایسا ہی ہورہا ہے۔ اِس واقعے کا سب سے زیادہ برا حصہ اُن لوگوں کو مل رہا ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔
مزید یہ کہ ایسے ماں باپ اُس حدیث کا مصداق ہیں جس میںکہاگیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أذہب اٰخرتہ بدنیا غیرہ۔ ابن ماجۃ، کتاب الفتن)۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں نبوت عطا ہوئی۔ اُس وقت آپ مکہ کے قریب حرا پہاڑ کے ایک غار میں تھے۔ پہلی وحی کے بعد آپ پر جو دوسری وحی اتری، وہ قرآن کی سورہ نمبر
اِن آیتوں میںاخلاق کے آداب نہیں بتائے گئے ہیں، بلکہ دعوت کے آداب بتائے گئے ہیں۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ اٹھو اور لوگوں کو توحید کی دعوت دو، لوگوں کے سامنے خدا کی بڑائی بیان کرو، لوگوں کی برائیوں سے اعراض کرتے ہوئے تمام مواقعِ دعوت کواستعمال کرو۔
دعوت کے مقصد کے لیے داعی کو لوگوں کے درمیان جانا پڑتا ہے۔ قدیم مکہ میںکعبہ وہ جگہ تھی، جہاں لوگ اکھٹا ہوتے تھے۔ اِسی مقصد کے لیے وہاں ہر قبیلے کے بتوں کو رکھ دیاگیا تھا۔ اُس وقت کعبہ کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ وہاں تمام عرب قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے، اور دوسرا یہ کہ اِنھیں بتوں کی وجہ سے وہاں لوگوں کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ ایسی حالت میں رسول اللہ کو یہ حکمت بتائی گئی کہ بتوں کی موجودگی کے مسئلے کو نظر انداز کرو اور وہاں کے اجتماع کو دعوت کے لیے استعمال کرو۔ اِس حکمت کو ایک لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— مسائل کو نظر انداز کرو اور دعوت کے مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problems and avail the opportunities.
یہ حکمت صرف قدیم مکی دور کے لیے نہ تھی، بلکہ وہ آج کے زمانے میں بھی پوری طرح مطلوب ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دعوت کے لیے انسانوں کا اجتماع (gathering) درکار ہے۔ یہ اجتماع صرف دعوت کے لیے نہیں ہوسکتا، وہ لوگوں کے اپنے مقاصد کے لیے ہوگا۔ جیسا کہ کعبہ میںبتوں کی پرستش کے لیے ہوتا تھا۔ ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اجتماع اور مقصد ِ اجتماع، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔ داعی کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اکھٹا ہونے والے لوگ بطور خود کس مقصد کے لیے اکھٹا ہوئے ہیں۔ اُس کو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں کچھ لوگ اکھٹا ہیں اور یہ اکھٹا ہونے والے لوگ اُسی مخصوص مقام پر ملیں گے، نہ کہ کسی دوسرے مقام پر۔
قدیم مکہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم یہ کرتے تھے کہ وہ تقریباً روزانہ کعبہ میں جاتے اور وہاں اکھٹا ہونے والے لوگوں کو قرآن کی آیتیں سنا کراُنھیں دعوت کا پیغام دیتے۔ اِس سنتِ نبوی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمع ہونے والے لوگ اگر بالفرض رُجز (گندگی) کے لیے جمع ہوئے ہوں، تب بھی داعی کو چاہیے کہ وہ رجز کے پہلو کو نظر انداز کرے اور مقامِ اجتماع کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں دعوہ ورک کرے۔ داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہیے:
Save yourself, and do Dawah work
اجتماع ہمیشہ تاریخی روایات کے تحت ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں ہمیشہ لمبی روایت کے نتیجے میںموضوعِ اجتماع بن جاتی ہیں۔ اِس لیے لوگ اِن روایتی عنوانات کے تحت اکھٹا ہوتے ہیں۔ مثلاً نکاح، ولیمہ، خاندانی تقریبات، اداروں کے سالانہ جلسے، تعزیتی اور تہنیتی تقریبات، مشہور شخصیات کے نام پر اجتماعات، جماعتوں اور پارٹیوں کے فنکشن، مختلف قسم کے تہوار اور جشن، میلہ اور عُرس، وغیرہ۔اِس قسم کے اجتماعات مختلف مقاصد کے تحت کیے جاتے ہیں، مگر اِس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہاں کثیر تعداد میں عورت اور مرد اکھٹا ہوتے ہیں۔ گویا کہ مقصد ِ اجتماع خواہ کچھ بھی ہو، لیکن ہر اجتماع داعی کو ایک قابلِ خطاب مجمع (audience) فراہم کرتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اعراض کے اصول کو اختیار کرے، یعنی وہ غیر مطلوب پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے، صرف مطلوب دعوتی پہلو کو دیکھے اور اِن مواقع میں شریک ہو کر دعوتی مقصد کے لیے اس کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔
مشہور قول ہے: خذ ما صَفا وَ دَع ما کدِر (پسندیدہ چیز کو لے لو اور ناپسندیدہ چیزکو چھوڑ دو)۔ یہ قول مذکورہ دعوتی حکمت کوبتاتا ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے جمع ہونے کے مقام پر اگر ناپسندیدگی کے کچھ اسباب ہوں تو اُن کو نظر انداز کرو اور اس کے پسندیدہ پہلو، یعنی دعوتی موقع کو اصلاح و تبلیغ کے لیے استعمال کرو۔ یہ حکمت، دعوت کی توسیع واشاعت کے لیے بے حد کار آمد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس حکمت کو اختیار کیے بغیر دعوتِ حق کی عمومی توسیع کا کام انجام دینا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ ایسا ہورہا ہے کہ کچھ انتہا پسندمسلمان خود ساختہ تصورِ شہادت (استشہاد) کے تحت، خود کُش بم باری (suicide bombing) کررہے ہیں۔ وہ مفروضہ دشمن کو نقصان پہنچا نے کے لیے اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں۔ یہ بلا شبہہ خود کشی کا فعل ہے جو اسلام میں ثابت شدہ طورپر حرام ہے، اور حرام موت کا انجام یقینی طور پر جہنم ہے۔ عجیب بات ہے کہ مسلم رہ نما اِس حرام فعل کی کھلی مذمت نہیںکرتے، بلکہ عرب علماء استشہاد (طلب شہادت) کے خود ساختہ تصور کے تحت اس کو جائز ٹھیرا رہے ہیں۔
اِس معاملے پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ مشرقی یوپی میںایک مسلمان تھے۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے، لیکن وہ اچھی تقریر کرنا جانتے تھے۔ انھوں نے اپنے لیے کسبِ معاش کا یہ طریقہ نکالا کہ وہ جہاں دیکھتے کہ لوگ مسجد بنوانا چاہتے ہیں، وہ اُن سے کہتے کہ تم لوگ مجھ کو مسجد کے لیے چندہ کرنے کا ٹھیکہ دے دو۔ میں مسجد کی تعمیر کے لیے سارا پیسہ لاؤں گا، اُس میں پچاس فی صد میرا ہوگا اور پچاس فی صد تمھارا ہوگا۔ اِس طرح کا معاملہ کرکے وہ نکلتے۔ وہ جگہ جگہ مسلمانوں کا اجتماع کرتے۔ وہاں وہ پُر جوش تقریریں کرکے لوگوں کو مسجدکی تعمیر پر ابھارتے۔
حدیث کی مختلف کتابوں میں تعمیرمسجد کے بارے میں ایک روایت آئی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: من بنی للّٰہ مسجداً، بنی اللہ لہ بیتاً فی الجنۃ۔ (بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث،
موجودہ زمانے میں خود کش بم باری کے واقعات کثرت سے ہورہے ہیں۔ اِن خبروں کو سُن کر میںنے کہا کہ موجودہ مسلمانوں نے اِس معاملے میں نیا طریقہ نکالا ہے۔ پہلے اگر فارمولا یہ تھا کہ— کود جھما جھم جنت میں، تو اب لوگوں کا فارمولا یہ ہوگیا ہے کہ — کود جھما جھم دوزخ میں۔
یہ انتہا پسندانہ ذہن مسلمانوں کے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اِس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ دشمنی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے بعض سیاسی اسباب کی بنا پر تمام انسانوں کو اپنا دشمن سمجھ لیا ہے۔ وہ ہر ایک سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ آدمی جب دشمنی اور نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے تو وہ اپنے مفروضہ دشمن کے مقابلے میں اندھے پن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بڑھی ہوئی نفرت کی بنا پر اس کا ذہن یہ ہوجاتا ہے کہ مجھے اِس دشمن کو ہلاک کرنا ہے، خواہ اُس کے نتیجے میں خود میں بھی ہلاک ہوجاؤں۔
یہ وہ نفسیات ہے جس کو قرآن میں شیطان کی طرف منسوب کیاگیا ہے۔ قرآن میں شیطان کو انسان کا ازلی دشمن بتایاگیاہے: إن الشیطان للإنسان عدوّ مبین (یوسف: 5 ) ۔ قرآن کے مطابق، اللہ تعالی نے شیطان سے کہا کہ ایسا کرنے کی بنا پر تم کو جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اِس علم کے باوجود شیطان کی عداوتی سرگرمی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پوری تاریخ میں انسان کے خلاف شیطان کی یہ دشمنانہ سرگرمیاں مسلسل طور پر جاری رہی ہیں۔ قرآن کے اِس حوالے سے معلوم ہوتاہے کہ دشمنی کی نفسیات اتنی زیادہ بُری چیز ہے کہ ایسے لوگ ہر حال میں اپنے مفروضہ دشمن کو نقصان پہنچانا چاہیں گے، خواہ اِس کے نتیجے میں خود اُن کو جہنم کی آگ میں ڈھکیل دیا جائے۔
قرآن کا یہ حوالہ اُن لوگوں کے لیے ایک انتباہ ہے جو دوسری قوموں کے خلاف دشمنی اور نفرت میں اتنا زیادہ مغلوب ہوگئے ہیں کہ وہ خود کش بم باری کی حد تک جاکر اُنھیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، حالاں کہ خود کشی کا مطلب حرام موت مرنا ہے، اور حرام موت کا انجام بلا شبہہ جہنم کی آگ ہے۔ جو لوگ اِس بھیانک عمل میں مبتلا ہیں اور جو لوگ اُس کی کھلی مذمت نہیں کرتے، دونوں کو اِس سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کہیں اِس خدائی وارننگ کا مصداق نہ بن جائیں: لأملئن جہنّم منک وممّن تبعک منہم أجمعین (ص:
دشمنی اور نفرت کے جذبات سے مغلوب ہوکر خود کش بم باری کرنا گویا کہ جان بوجھ کر جہنم کی طرف چھلانگ لگانا ہے۔ یہ بے حد سنگین معاملہ ہے، خود کش بم باری کرنے والوں کے لیے بھی اور جو لوگ اِس پر کھلی نکیر نہ کریں، اُن کے لیے بھی۔
واپس اوپر جائیں
دہلی کے ایک صاحب نے بتایا کہ اُن کی بیش تر عمر دہلی میں گزری۔ وہ باہر کی دنیا سے بالکل بے خبر تھے، پھر ایک بار ان کو یورپ جانے کا موقع ملا۔ وہاں انھوں نے مغربی دنیا کو دیکھا۔ واپسی کے بعد اُن سے میری ملاقات ہوئی تو میںنے اُن سے کہا کہ اپنے سفر کا کوئی تجربہ بتائیے۔ انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا تجربہ یہ ہے کہ میں سفر سے پہلے ایک کوکون (cocoon) میں جیتا تھا۔ اپنے محدود خول کے باہر کی دنیا کے بارے میں میری کوئی واقفیت نہ تھی، لیکن اِس سفر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے محدود خول کے باہر بہت بڑی دنیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ سفر نہ ہوتا تو میں اندھیرے میں جیتا اور اندھیرے میں مرجاتا۔
اِس محدودیت کی دو قسمیں ہیں— ایک، وہ جس کو جغرافی کوکون (geographical cocoon) کہاجاسکتا ہے۔ اور دوسرا وہ ہے جس کو فکری کوکون (intellectual cocoon) کہنا درست ہوگا۔ جغرافی کوکون یہ ہے کہ آدمی جہاں پیدا ہوا ہے، وہیں وہ رہے۔ وہیں کے بارے میں وہ جانے۔ وہیں کے ماحول میں اس کی تربیت ہو۔ ایسا آدمی صرف اپنے محدود وطن کے بارے میں جانے گا۔ لیکن وسیع تر دنیا کے بارے میں وہ بالکل بے خبر رہے گا۔
ذہنی کوکون میں وہ لوگ مبتلا رہتے ہیں جو کسی سبب سے اپنی ذات میں جینے لگیں۔ مثلاً شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہوجائے۔ وہ اپنی فیملی کو سب سے اونچی فیملی سمجھنے لگیں، اپنی قوم اور اپنی تاریخ کو وہ اپنے لیے فخر کا سرمایہ بنالیں۔ اِس قسم کے لوگ ہمیشہ محدود فکری کی برائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، اُن کو مختلف ملکوں میں سفر کرنے کا موقع ملے، وہ میڈیا میں نظر آئیں، تب بھی وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر اپنے ہی خول میں جئیں گے، وہ بدستور فکری محدودیت کا شکار رہیں گے۔ اُن کی اپنی ذات سے باہر بہت سی چیزیں ہوں گی جس کو وہ اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں، لیکن کوئی بھی چیز ان کی ذہنی محدودیت کو ختم کرنے والی ثابت نہ ہوگی۔ وہ اپنے فکری خول میں جئیںگے اور اِسی فکری خول کے ساتھ مرکر اِس دنیا سے چلے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
دنیا میں برائی ہر زمانے میں پائی جاتی رہی ہے، مگر موجودہ زمانے میں ایک نئی بات ظاہر ہوئی ہے جو شاید اِس سے پہلے کبھی دنیا میں موجود نہ تھی، وہ ہے برائی کو جائز ٹھہرانے کے لیے اس کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرنا۔ اِس کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ جنسی برائی کو موجودہ زمانے میں ایک نیا لفظ مل گیا ہے، اور وہ سیکس انڈسٹری (sex industry) ہے۔جنسی برائی کو سیکس انڈسٹری کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی دوسری صنعتوں کی طرح ایک صنعت ہے اور کسی کو حق نہیں کہ وہ اُس پر اعتراض کرے۔
اِس طرح کی ایک مثال نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Girl to auction virginity on radio show.
ایک
“I don’t have a moral dilemma with it. We live in a captalist society. Why should not I be allowed to capitalize on my virginity? I understand, some people may condemn me. But I think, this is empowering. I’m using what I have to better myself,” she added.
جدید تہذیب کا یہ مزاج اُس حدیث کا مصداق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ: إذا لم تستحی فاصنع ما شئت(صحیح البخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء) یعنی جب تمھارے اندر حیا نہ ہو تو تم جو چاہو کرو۔
واپس اوپر جائیں
سیکولر نظریے کے مطابق، دنیا کی تاریخ چار بڑے اَدوار پر مشتمل ہے— بگ بینگ کا واقعہ، مادّی ترقیات، تہذیب کی ترقی، خاتمۂ تاریخ:
Big Bang, material development, civilizational development, abrupt end.
سیکولر نظریے کے مطابق، تقریباً پندرہ بلین سال پہلے بگ بینگ کے ذریعے موجودہ کائنات کا آغاز ہوا۔ اِس کے بعد لمبے ارتقائی عمل کے ذریعے موجودہ مادّی دنیا بنی۔ انسان کے ظہور کے بعد تہذیبی ترقی شروع ہوئی۔ اکیسویں صدی عیسوی میں گلوبل وارمنگ(global warming)کا ناقابلِ حل مسئلہ سامنے آگیا۔ اور اب تمام سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری دنیا میں جو طبیعی تغیرات ہورہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ 2050 سے پہلے ہی اِس دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔
موجودہ دنیا کی یہ سیکولر تصویر ناقابلِ فہم حد تک عجیب ہے۔ سیکولر نظریہ بتاتا ہے کہ پچھلے پندرہبلین سال سے ہماری دنیا میں مسلسل طور پر بامعنٰی ارتقا جاری رہا ہے، یہاں تک کہ موجودہ کائنات بنی، جو انتہائی حدتک بامعنی کائنات تھی۔ اب گلوبل وارمنگ کے ذریعے اگر دنیا کسی مزید مستقبل کے بغیر آخری طورپر فنا ہوجائے تو یہ ایک بامعنی آغاز کا ایک بے معنٰی انجام ہوگا، جو بلاشبہہ عقلی طورپر ناقابلِ فہم ہے۔مثال کے طورپر نظریۂ ارتقا یہ کہتا ہے کہ انواعِ حیات کے درمیان بقائے اصلح(survival of the fittest) کا عمل جاری رہا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق، اِسی ارتقائی عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ انسان جیسی ایک اعلیٰ نوع وجود میں آئی۔ اب یہ سرتاسر ایک غیر عقلی (irrational)بات ہے کہ بقائے اصلح کا عمل اپنے آخر میںصرف ایک معکوس انجام پر ختم ہوجائے:
It is unthinkable that the survival of the fittest may lead to the extinction of the fittest.
خود فطرت کا قانون یہ تقاضا کرتا ہے کہ کائناتی پراسس اپنے آخر میں ایک بہتر دنیا کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک دانش مند نے داخلی حکمت اور خارجی حکمت کو بتاتے ہوئے کہاہے— دوسروں کے بارے میں جاننا، دانش مندی ہے۔ اور اپنے بارے میں جاننا، ذہنی بیداری:
Knowing others is wisdom; knowing the self is enlightenment.
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے لیے دو قسم کی تیاری درکار ہوتی ہے، اپنے اعتبار سے اور دوسروں کے اعتبار سے۔ یہ دونوں ہی تیاری یکساں طورپر ضروری ہے۔ کسی ایک میں تیار ہونا اور دوسرے میں تیار نہ ہونا، آدمی کے لیے کافی نہیں۔
دوسروں کے بارے میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی دوسروں سے وہی امید کرے جو باعتبار حقیقت ممکن ہے۔اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ امید (over expectation) ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں امید قائم کرتے ہوئے، آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کو پوری طرح الگ رکھے اور صرف امرِ واقعہ کی بنیاد پر امید قائم کرے۔
جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے، اِس معاملے میں آدمی کو چاہیے کہ وہ آخری امکان تک جائے۔ وہ آخری حد تک اپنے آپ کو دریافت کرے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو استعمال کرنے کی کوشش کرے، دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسندی (realism)مطلوب ہے، اور اپنے معاملے میں معیار پسندی(idealism) ۔
ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا— اپنے گھر کے اندر آپ آیڈیلسٹ (idealist) بنئے، اور گھر سے باہر نکلتے ہی پریکٹکل (practical) بن جائیے۔
اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھانا، ایک مشکل کام ہے۔ اِس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھائیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسند (realist) ہو اور اپنے معاملے میں معیار پسند(idealist)۔ جس آدمی کے اندر اِس کے برعکس مزاج ہو، وہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
ایک پرانا مثل ہے—ایک چُپ ہزار بلا ٹالتی ہے۔ یہ مثل تقریباً ہر زبان میں مختلف الفاظ میں موجود ہے۔ اِس لحاظ سے تمام لوگ اِس مثل کو جانتے ہیں، مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اِس مثل کو عملاً اپنی زندگی میں استعمال کریں۔ جاننے میںاور عمل میں اِس فرق کا سبب کیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب کوئی عورت یا مرد اِس مثل کو سنتا ہے یا پڑھتا ہے، اُس وقت وہ معتدل ذہن (normal mind) کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن جب اُس کے استعمال کا وقت آتا ہے تو اُس وقت وہ غیرمعتدل ذہن (abnormal mind) کی حالت میں ہوجاتا ہے۔ اِس کے عملی استعمال کا وقت وہ ہوتا ہے، جب کہ کوئی آدمی بھڑکا کر اُس کو غصہ دلادے، وہ اس کے خلاف نازیبا کلمات بول دے۔ اُس وقت یہ ہوتا ہے کہ سننے والا بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے جس کی بنا پر لوگ جانتے ہوئے بھی چپ کی پالیسی کو اختیار نہیں کرپاتے۔ چپ رہنے سے بات وہیں کی وہیں ختم ہوسکتی تھی، لیکن بولنے کا طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے بات بڑھتی ہے اور بریک ڈاؤن (break down) کی نوبت آجاتی ہے، ایک وقتی چیز مستقل خرابی کا سبب بن جاتی ہے۔
اشتعال کے موقع پر چپ رہنا سب سے زیادہ کامیاب پالیسی ہے۔ اشتعال کے موقع پر نہ بولنا فتنے کے دروازے کو بند کردیتاہے، اور اشتعال کے موقع پر بولنا فتنے کا دروازہ کھول دیتا ہے، ایسا دروازہ جو پھر کبھی بند نہیںہوتا۔ اشتعال کے موقع پر بولنے سے بات بڑھتی ہے، اور اشتعال کے موقع پر نہ بولنے سے بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الفتنۃ نائمۃٌ لعن اللہ مَن أیقظہا (کنز العُمّال، رقم الحدیث: 30891) یعنی فتنہ سویا ہوا ہے،اُس شخص پر لعنت ہے جو اِس سوئے ہوئے فتنے کو جگائے۔ ہر آدمی اپنے اندر منفی نفسیات لیے ہوئے ہے۔ اگر آپ چپ رہیں تو یہ منفی نفسیات دبی رہے گی۔ لیکن اگر آپ بول دیں تو یہ منفی نفسیات جاگ اٹھے گی اور پھر اس کے وہ برے نتائج نکلیں گے جس کا پیشگی اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب جو بزنس کرتے ہیں، انھوںنے کہا کہ موجودہ آمدنی (income) سے میرا کام نہیں چلتا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ بینک سے قرض(loan) لے کر اپنے کاروبار کو بڑھاؤں۔ اِس معاملے میںآپ کی کیا رائے ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ سے اتفاق نہیں۔ اِس وقت آپ اپنی آمدنی بڑھانے کے ذہن سے سوچ رہے ہیں۔ اِس کے بجائے، آپ اپنے خرچ کو گھٹانے کی بات سوچئے۔ کیوں کہ خرچ کو گھٹانا بھی آمدنی کو بڑھانا ہے۔آپ یہ کیجیے کہ آپ اپنے گھر کے اخراجات کو گھٹائیے۔ اِس طرح، آپ اپنی موجودہ آمدنی ہی میں اپنے گھر کو چلانے کے قابل ہوجائیں گے۔
ایک طرف آپ یہ کریں اور دوسری طرف، آپ زیادہ سے زیادہ محنت کرکے اپنے کاروبار کو بڑھائیں۔ جلد ہی آپ محسوس کریں گے کہ جو مقصد آپ بینک کے قرض کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ بینک کے قرض کے بغیر حاصل ہوگیا ہے۔اِسی طریقے کا نام منصوبہ بند انداز میںکام کرنا ہے۔ منصوبہ بند انداز میں کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک طرف، اپنے موجود ذرائع کو دیکھے۔ اور جب بھی وہ کوئی نیا اقدام کرے تو وہ نتیجے کو دیکھ کر کرے، نہ کہ صرف اپنے شوق کو دیکھ کر۔ منصوبہ بندی (planning) دراصل ذرائع اور امکان کے درمیان تناسب تلاش کرنے کا نام ہے، نہ کہ ذرائع کا لحاظ کیے بغیر محض شوق کے تحت چھلانگ لگانے کا نام۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا لحاظ کیے بغیر اپنے خرچ کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ اِس بنا پر وہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ کبھی قرض لیتے ہیں، کبھی کوئی بے اصولی کا کام کرتے ہیں، کبھی غلط طریقے سے کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں تباہ کن ہیں۔ اگر آپ سادہ زندگی اختیار کریں، اپنے اخراجات کو محدود رکھیں، ضرورت کے مطابق خرچ کریں، نہ کہ شوق اور نمائش کے لیے خرچ کرنے لگیں— جو شخص اِن باتوں کا لحاظ رکھے گا، وہ کبھی غیر ضروری پریشانی کا شکار نہیں ہوگا۔ اُس کے مسائل فطری مسائل ہوں گے، نہ کہ غیر فطری مسائل۔
واپس اوپر جائیں
حیدرآباد کے ایک مسلم تاجر نے بتایا کہ ایک صاحب سے ان کی پارٹنر شپ تھی۔کچھ عرصہ بعد دونوں کے درمیان شکایتیں پیدا ہوئیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہ پارٹنر شپ اب چل نہیں سکتی۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنے پارٹنر سے کہا کہ میری رائے ہے کہ اب یہ پارٹنر شپ ختم کردی جائے ۔ آپ الگ اپنا کام کریں اور میں الگ اپنا کام کروں۔پارٹنر نے پوچھا کہ اُس کا طریقہ کیا ہوگا۔ مسلم تاجر نے کہا کہ اِس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ اِس معاملے کا پورا اختیار میںآپ کو دیتا ہوں۔ میری طرف سے کوئی شرط نہیںہے۔ آپ جس طرح چاہیں، کاروبار کو دونوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ جو چاہیں آپ لے لیں، اور جو چاہیں مجھ کو دے دیں۔پارٹنر نے کہا کہ میں فوری طورپر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ مجھ کو د و دن سوچنے کا موقع دیجیے۔ اس کے بعد میں آپ کو اپنی رائے بتاؤں گا۔ دو دن کے بعد پارٹنر نے مذکورہ تاجر سے ملاقات کی۔ اُس نے کہا کہ غور کرنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ سے اچھا کوئی اور شریکِ تجارت مجھے نہیں مل سکتا۔ اِس لیے میںاپنے اختلاف کو یک طرفہ طورپر ختم کرتاہوں۔ میں آپ کو پورا حق دیتا ہوں کہ آپ جس طرح چاہیں، کاروبار کو چلائیں۔ ہماری اور آپ کی پارٹنر شپ اِسی طرح باقی رہے گی اور جہاں تک اختیار کا تعلق ہے، آپ کو ہر قسم کے فیصلے کا اختیار حاصل رہے گا۔
مذکورہ مسلم تاجر ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اِس واقعے کو کئی سال ہوچکے ہیں اور ہماری پارٹنر شپ نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ ہم دونوں کے درمیان نہ کوئی شکایت ہے اور نہ کوئی بد گمانی۔ اِس فیصلے کے بعد کاروبار میں کئی گنا زیادہ ترقی ہوئی ہے اور دونوں پارٹنر پہلے سے زیادہ خوش ہیں— نزاعی معاملے کو ختم کرنے کا یہی سب سے اچھا طریقہ ہے۔ نزاع کے وقت جب ایک شخص یک طرفہ طورپر پیچھے ہٹ جائے تو وہ فریقِ ثانی کے اندر معقولیت کو جگا دیتا ہے۔ وہ فریقِ ثانی کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کردیتا ہے۔ اور جب طرفین کے درمیان معقولیت اور حقیقت پسندی کی فضا قائم ہوجائے تومسئلہ اِس طرح ختم ہوجاتا ہے، جیسے کہ اُس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔
واپس اوپر جائیں
سوال
میں تدریسی پیشے سے منسلک ہوںاور الحمد للہ دین کی سمجھ بنیادی طورپر رکھتا ہوں۔ میری پریشانی یہ ہے کہ کبھی تو دل میں ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو دین سے قریب کرنے کی کوشش کروں، لیکن پھر قوم کی بے رخی اور ان کو برائی کے دلدل میں پھنسا ہوادیکھتا ہوں اور ان کی بہانہ بازی دیکھتا ہوں تو پھر ان سے بات تک نہ کرنے اور کوئی کام نہ کرنے کی بات دل میں آجاتی ہے۔ مہربانی فرما کر اپنے مشورے سے مجھے نوازیں کہ میںاپنوں کے درمیان اصلاح کا کام کس طرح کروں۔
چوں کہ میں سرکاری ملازم ہوں اس لیے غیر مسلم اساتذہ سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ کچھ مذہب کے متعلق خیالات کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، لیکن میرے پاس کوئی لٹریچر ان حضرات کو اسلام کی معلومات دینے والا نہیں ہے۔ اگر آپ کچھ ارسال کرسکیں تو میںآپ کا شکر گزار ہوں گا۔ میں منتظر ہوں کہ آپ میری رہ نمائی فرمائیں (غلام فرید، ایوت محل، مہاراشٹر)۔
جواب
دعوت واصلاح کا کام ایک ذمّے داری ہے۔ وہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میںکیا جاتا ہے۔ اہلِ ایمان کے لیے لازمی طور پر ضروریہے کہ وہ پیغمبر کے ذریعے ملے ہوئے خدائی پیغام کو اُس کے بندوں تک پہنچائیں۔ اِس معاملے میں نتیجہ (result) کا پہلو ایک اضافی (relative) پہلو ہے۔ دعوت و اصلاح کے عمل کا مطلوب نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، ہر حال میں دعوت و اصلاح کا کام جاری رکھنا ہے، اُس وقت تک جب تک کہ موت نہ آجائے۔
دعوت واصلاح کا کام صرف مدعو کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ خود داعی کے اعتبار سے ہے۔ دعوت واصلاح کے کام میں ہمیشہ مختلف قسم کے تجربات ہوتے ہیں۔ یہ تجربات داعی کی شخصیت کی تعمیر کے لیے انتہائی حد تک اہم ہیں۔ اِن تجربات کے بغیر داعی کے اندر مطلوب شخصیت نہیں بن سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مدعو کی طرف سے مثبت جواب (positive response) نہ ملے، تب بھی دعوتی عمل کا یہ فائدہ بہر حال حاصل ہوتا ہے کہ داعی کی اپنی شخصیت مسلسل طورپر ترقی کا سفر طے کرتی رہتی ہے، آپ قرآن کو اِس پہلو سے پڑھیں تو آپ واضح طورپر اِس حقیقت کو دریافت کرلیں گے۔
سوال
میں نے پہلا خط آپ کی جانب لکھا تھا۔ اس کا جواب مجھے ’الرسالہ‘ میں مل گیا۔ اُمید ہے کہ آپ آگے بھی ہماری رہ نمائی فرمائیں گے۔ حال ہی میں ایک درسگاہ میں ایک اجتماع کا انعقاد ہوا جو ہمارے پاس ہی واقع ہے۔ مجھے اللہ نے وہاںجانے کی توفیق عطا فرمائی۔ وہاں ایک مقرر نے جو مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، آپ کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر لوگوں کو بہت سی باتوں سے واقف کرایا۔ میں بہت متاثر ہوا۔ جب بھی کسی سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو اکثر آپ کی کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دیتا رہتا ہوں۔ میری دلی تمنّا ہے کہ دنیا بھر میں امن وامان قائم ہو اور ہمارے علماء آپ کی طرح سوچنے لگیں اور دین کی اصل صورت لوگوں تک پہنچائیں۔ لوگوں میں جو ذہن پیدا ہوا ہے، وہ ہمارے علماء ہی کی دین ہے ۔ ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ ہمارے دلوں میں علماء کااحترام ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہماری سوچ بھی ویسی ہوجاتی ہے۔
چند دن پہلے میں اپنے ایک دوست سے بات کررہا تھا تو جواب میں وہ بولنے لگے کہ آپ نے بات اچھی کی، لیکن آپ دین کے معاملے میں زیادہ ڈیپ(deep) ہورہے ہیں اور اگر آگے بھی ایسا چلتا رہا تو اللہ ہی آپ کا نگہبان ہے۔ آپ کو ایک رہبر کی ضرورت ہے۔ میں سمجھ گیا کہ رہبر سے ان کی مراد کیا ہے کیوں کہ یہاں پر عام لوگوں کا یہی عقیدہ ہے۔میںبات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ خط کہ ذریعے یا کتاب کے ذریعے میرے اندر ایک زندہ شعور پیدا ہو۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور آپ کی تحریروں میں اثر دے اور ہمارے دلوں میں خلوص دے تاکہ ہم جو پڑھیں یا سنیں ،وہ ہمارے دلوں میں اتر جائے (شکیل احمدملک، سری نگر، کشمیر)۔
جواب
آپ کے ساتھی کا یہ کہنا کہ آپ دین کے معاملے میں زیادہ ’’ڈیپ‘‘ میں کیوں جارہے ہیں، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک نہایت خطرناک بھول ہے جس میں موجودہ زمانے کے بیش تر مسلمان مبتلا ہیں۔ آج کل اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی دنیوی ترقی کے معاملے میں تو ’’ڈیپ‘‘ میں جاتے ہیں، لیکن آخرت کے معاملے میں وہ صرف کچھ رسمی اعمال کو کافی سمجھے ہوئے ہیں۔یہ ایک دہرا معیار ہے۔ اِسی دہرا معیار کا دوسرا نام منافقت ہے، اورمنافقت کسی آدمی کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ خدا کی رحمت کا مستحق۔
اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح بات یہ ہے کہ آدمی اپنی دنیا کے معاملے میں سادگی پر قانع ہو۔ وہ صرف ضروری حد تک اپنے آپ کو دنیا کی چیزوں میںمشغول کرے۔ اِس کے بعد جہاں تک دین کا اور آخرت کا معاملہ ہے، وہ اُس میں پوری طرح ڈیپ میںجائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ گہرائی کے ساتھ دین اور آخرت کے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس کے بغیر کسی کو آخرت کی جنت ملنے والی نہیں۔
جنت کی قیمت کچھ رسمی اعمال نہیں ہیں۔ جنت میں صرف وہ انسان داخل کیا جائے گا جس نے اپنا تزکیہ کیا ہو۔ تزکیہ کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ تزکیہ ذہنی عمل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ آدمی جب خدا کی کتاب کو تدبر کے ساتھ پڑھتا ہے، وہ جب اپنا محاسبہ کرتا ہے، وہ خشوع والی عبادت انجام دیتاہے، وہ خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کرتا ہے تو اس کے اندر ایک مزکّٰی شخصیت (purified personlity) بنتی ہے۔ یہی مزکّیٰ انسان وہ انسان ہے جس کو آخرت میں جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔ امانی یا خوش فہمی (wishful-thinking) کے ذریعے کسی کو جنت ملنے والی نہیں۔
سوال
انسان نے اپنی تاریخ کے روزِ اول سے ہی رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے مذہب، خدا اور دیوی دیوتاؤں کے نام پر معصوم جانوروں کا بے رحمانہ قتل (قربانی) کارِ ثواب تصور کرلیا تھا جس کے باعث ان بے زبان و بے قصور حیوانات کا بے دریغ قتل (قربانی) ایک عوامی روایت بن گئی تھی۔ ان حالا ت میں خدا کی اس بے زبان مخلوق کے اس بے رحمانہ قتل کے خلاف بھگوان مہابیر اورراج کمار سدھارتھ (گوتم بدھ) نے ایک درد بھری آواز اٹھائی۔ انھوں نے انسان کی روح کو یہ بھی احساس کرایا تھا کہ خدا کی اس غیر انسانی مخلوق میں بھی انسان کی طرح ہی روح وجان اور جذبۂ احساس موجود ہے اور ان کے قتل کے وقت انھیں بھی انسان کی طرح تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ مہابیر سوامی نے تو اہنسا کو ہی سب سے مقدس روحانیت قرار دیا ہے۔ مہارشی دیا نند سرسوتی نے ہندو دھرم کے گرنتھوں میں موجود بلی پرتھا (رسم قربانی) کو وید،مذہب اور روحانیت کے خلاف اور قابل ترک ثابت کیا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں بلی پرتھا (رسم قربانی) آج ہندو فرقوں میںاپنے آخر پر ہے۔ لیکن مسلم سماج میں آج بھی جانور کی قربانی کو مذہبی فرض مانا جاتا ہے۔ خصوصاً عید الاضحی کے موقع پر عید قرباں منائی جاتی ہے۔ اس میں بے زبان ومعصوم جانوروں کو بڑی بے دردی وبے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے۔براہِ کرم، اس معاملے کی وضاحت فرمائیں(رنگی لال آریہ (ایڈوکیٹ) ، سہارن پور)۔
جواب
آپ نے ’’قتلِ حیوان‘‘ کے حوالے سے گوتم بدھ اور مہابیر کی جس تعلیم کا ذکر کیا ہے اور اُس کے مقابلے میں اسلام پر جو تبصرہ فرمایا ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل غیر سائنسی دور اور سائنسی دور کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ سائنسی دور سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ قتل کا لفظ تو صرف حیوان اور انسان سے تعلق رکھتا ہے، اور جہاں تک دوسری چیزوں کا تعلق ہے، اُن پر قتل کا لفظ چسپاں نہیں ہوتا۔ مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات نے بتایا ہے کہ حیوان اور انسان کے علاوہ، دوسری چیز وں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے۔ مثلاً پانی اور دودھ اور سبزی اور پھل، وغیرہ۔ اِس لحاظ سے دیکھئے تو موجودہ سائنسی زمانے میں گوتم بدھ اور مہابیر کی تعلیمات غیر متعلق (irrelevant) ہوچکی ہیں۔ آج اگر گوتم بدھ اور مہابیر زندہ ہوتے اور وہ خوردبین (microscope) کے ذریعے پانی اور دودھ اور سبزی اور پھل کو دیکھتے تو بلاشبہہ وہ اعلان کردیتے کہ ہم غلطی پر تھے۔ سائنسی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ وہی بات درست ہے جو بہت پہلے اسلام میںبتائی گئی تھی۔
واپس اوپر جائیں
1 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں
Basic Human Values in Islam.
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ عنوان پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوں نے حاضرین کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر دیا۔
2 - نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا کی جانب سے گڑ گاؤں ہریانہ میں
3 - رام لیلا گراؤنڈ (دہلی) کے وسیع میدان میں
4 - تل ابیب (Tel Aviv) میں قیامِ امن کے لیے ایک ادارہ قائم ہے۔اِس ادارے کا نام پیریز سنٹر فارپیس(Peres Centre for Peace) ہے۔ اُس کے بانی مسٹر شمعون پیریز ہیں۔ اِس ادارے کے تحت، تل ابیب میں ایک انٹرنیشنل پیس کانفرنس ہوئی۔ اِس میں تقریباً 50ملکوں کے ممتاز افراد شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس
5 - پی ٹی آئی (نئی دہلی) کے نمائندہ سبھاش کمار یادو نے
6 - ایک خط: ’’میں الرسالہ کامطالعہ1988 سے کررہا ہوں۔الرسالہ کے مطالعہ سے مجھے بہت فائدہ ہوا ۔ میرے علم میں اضافہ ہوا۔ الرسالہ کا مطالعہ میرے لیے روحانی غذا بن گیا۔ میںالرسالہ خود بھی پڑھتا ہوں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتا ہوں۔ میں نے محکمہ تعلیم میں بطور مدرس گورنمنٹ سروس کی ہے۔ پانچ سال پہلے سروس سے سبک دوش ہوچکا ہوں۔ جب میں ہائی اسکول میں تھا ، اسکول کا تمام اسٹاف، مسلم غیر مسلم ،بڑے شوق سے الرسالہ کا مطالعہ کرتا تھا۔ میں نے چاہا کہ الرسالہ خاص وعام تک پہنچاؤں۔ گزشتہ سال اسلامی مرکزمیں ایک سال کا زرِ تعاون ارسال کرکے بیس افراد کے نام میں نے الرسالہ جاری کرایا ہے جس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ اِس سال اِن بیس افراد نے خود ہی زرِ تعاون اسلامی مرکز میں ارسال کرکے الرسالہ جاری کرایا ۔ اِس سال میں نے بیس گورنمنٹ ادارے جن میں کالج، ہائر سکنڈری اسکول اور ہائی اسکول، مختلف اضلاع سے منتخب کیے۔ ایک سال کا زرِ تعاون اسلامی مرکز میں ارسال کرکے اِن اداروں میںالر سالہ جاری کرایا۔ میں الرسالہ سے تقریباً بیس سال سے جڑا ہوں۔ آپ سے حوصلہ افزائی چاہتا ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی دین کا کام کرتا رہوں گا۔ اللہ آپ کی عمر طویل کرے‘‘ (حاجی عبد القیوم، جموں وکشمیر،
7. I was very impressed with your monthly Al-Risala. Your knowledge helped me very much in understanding various facts of life. I want to read your literature more and more. I like to read only those books which contain both Islamic and scientific knowledge. I have found all the things which I like to read in your book. (Tariq Ahmad, Kashmir)
8. I am delighted and overwhelmed to find Al Risala on line, as I am living outside India. After a long time I got the opportunity to read wonderful “Tazkeer” in a very lucid manner, in a straight forward language which goes direct to the heart, of course, without bypassing the brain. The best thing is the statements are supported by Quran and Hadeeth, which gives the feeling of authenticity on the topic. May Allah grant Maulana great reward for such a noble deed. (Dr. Saif, KSA)
8. Now since almost all of written material by Maulana Wahiduddin Khan is online. For example, Al Risala, books & booklets (Urdu, English and Arabic), Audio lectures and Tazkirul Quran, What you have to do is give your
friends and relatives the website address www.alrisala.org . If anyone doesn't have internet facility at home he can go to a library and read the material. What you and your friends can do is, print out some of the articles from website and gather in a mosque or any other place and read them out and discuss. Also one of you can download Maulana’s lectures and download it on an audio CD and gather at one place to listen and discuss. You can continue doing this for months and years. There is enough material on the Web. Also you can download and print the new Al-Risala monthly (Urdu) or the new Spiritual Message monthly magazine in English every month and study and discuss. (Khaja Kaleemuddin, Al Risala Forum International, USA)
10 - نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا کی جانب سے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں
Indian Muslims: A Positivie Outlook
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.