رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد، جلد 4،صفحہ
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاّ اللہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں: إنّ صلا تی ونُسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین (الأنعام:
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح سویرے کا وقت ایک خصوصی وقت ہے۔ اُس وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ اِس طرح فرشتوں کی زیادہ بڑی تعداد، نمازی کی قرأت کی گواہ بن جاتی ہے۔ صبح کے وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ فرشتوں کا خاص کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ربانی کیفیات پیدا کریں۔ صبح کا پُرسکون وقت اِس ملکوتی عمل میں خصوصی طورپر مدد گار بن جاتا ہے۔
اِس معاملے کی ایک توسیعی صورت بھی ہے۔ مثلاً آپ نے اول وقت میں فجر کی نماز ادا کی، اور امام کی زبان سے طویل قر أت کو سنا۔ اس کے بعد تلاوتِ قرآن سے احساس کو لے کر آپ مسجد سے باہر نکلے اور کسی کھلی فضا میں گئے، جہاں سر سبز درخت ہیں اور فطرت کا ماحول ہے۔ اُس وقت جب آپ قرآن کے پیدا کردہ ذہن کو لے کر فطرت پر غور کرتے ہیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی قرآنی سوچ اور خارجی ماحول دونوں ایک ہوگئے ہیں۔ فطرت کے مناظر خاموش زبان میں گواہی دے رہے ہیں کہ قرآنی فکر کے تحت جو کچھ تم سوچ رہے ہو، بلا شبہہ وہ ایک عالمی حقیقت ہے۔
جب ایک شخص صبح کے وقت فطرت کے ماحول میںخدا کی باتوں پر غور کرتا ہے، تو اُس وقت اس کو اپنے ماحول کے اندر خدا کی موجودگی (presence of God) کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اُس پر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو حدیث میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ: خدا کی عبادت اِس طرح کرو، جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو (تعبد اللہ کأنک تراہ)۔ یہ کیفیت کوئی انسان خود سے اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا، یہ کیفیت بلا شبہہ فرشتوں کی مدد سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ داخلی سوچ کا خارجی ماحول میں مشاہدہ کرنا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ عبادت ہے، اور ایسی عبادت کا تجربہ فرشتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میںانسان کی مطلوب صفات میں سے ایک صفت سیرو سیاحت بتائی گئی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کے اِن بیانات کے مطابق، سیر و سیاحت ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ سیر اور سیاحت کے ذریعے تجربات حاصل ہوتے ہیں، اور تجربات ہر انسان کے لیے ذہنی اور روحانی ترقی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کتابوں کے مطالعے سے آدمی کو معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور تجربات کے ذریعے آدمی کی ذہنی ترقی اور روحانی بصیرت میںاضافہ ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے میں سیر وسیاحت(toursim) ایک مستقل انڈسٹری بن گئی ہے۔ لیکن یہ سیروسیاحت زیادہ تر تفریح اور آؤٹنگ (outing) کے لیے ہوتی ہے۔ قرآن کا مطلوب سفر وہ ہے جو دنیا کے واقعات سے سبق لینے کا ذریعہ بن جائے، جو آدمی کی پختگی (maturity) میں اضافہ کرنے والا ہو، جو آدمی کے اندر وہ گہرائی پیدا کرے جس کو بصیرت اور معرفت کہاجاتاہے۔
آدمی اگر سفر نہ کرے تو وہ صرف اپنے مقامی حالات سے باخبر ہوتا ہے، اس کو اپنی تربیت کے صرف محدود مواقع ملتے ہیں، لیکن جب وہ اپنے مقامی ماحول سے نکل کر باہر کی دنیا میں جاتا ہے تو اس کو اپنی تربیت کے عالمی مواقع حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس کے اندر آفاقی نظر پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مختلف قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پہلے اگر اس کا انٹریکشن (interaction) مقامی دائرے تک محدود تھا، تو سفر اس کو بین اقوامی انٹریکشن کے قابل بنا دیتا ہے۔
سفرنہ کرنے کی صورت میںآدمی محدود طورپر صرف اپنے لوگوں میں رہتا ہے۔ لیکن جب وہ سفر کرتا ہے تو اس کا ربط عام انسانوں سے قائم ہوجاتا ہے۔ اب وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی تجربات سے فائدہ اٹھائے، وہ زیادہ بہتر طورپر اپنی زندگی کی تعمیر کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
اسلامی تحریک کے دو بڑے میدان ہیں— ایک، مسلمانوں میں، اور دوسرا، غیر مسلموں میں۔ یہ دونوں ہی کام اہمیت کے حامل ہیں، لیکن دونوں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اِسی لیے قرآن میں دونوں قسم کے کاموں کے لیے دو الگ الگ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اسلامی تحریک کے لیے قرآن میں تذکیر کا لفظ آیا ہے۔ مثلاً: وذکّر فإن الذّکری تنفع المؤمنین (الذّاریات:
تذکیر کے لفظی معنیٰ ہیں— یاد دہانی (to remind) ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان کا اقرار کر کے اسلام کے حلقے میں داخل ہوچکے ہیں، اُن کو اپنے اقرار پر پورا اترنے کی یاد دہانی کرنا، ان کے اندر جب بھی کوئی عملی کمی پیدا ہو، تو ان کو نصیحت اور یاددہانی کے ذریعے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا۔ اِس قسم کا کام صرف ان لوگوں کے اوپر کیا جاتا ہے جو اپنے مومن اور مسلم ہونے کا اعلان کرچکے ہوں۔ یہی تذکیر کا مطلب ہے اور اِسی بنا پر اہلِ ایمان کے درمیان اسلامی کام کو تذکیر کہاگیا ہے۔
غیر مسلموں کے درمیان اسلامی کام کے لیے قرآن میں دعوت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کی جن جن آیتوں میں اپنی معاصر قوموں پر پیغمبرانہ عمل کا ذکر ہے، وہاں دعوت کا لفظ استعمال ہواہے، یعنی پیغمبر کا اپنے غیر مسلم مدعو کو خطاب کرنا۔ یہ دعوت کے لفظی معنی کے عین مطابق ہے۔ عربی زبان میں، دعوت کا مطلب ہے— کسی چیز کی طرف بلانا، یا پکارنا (to call, to invite) ۔
عملِ دعوت اور عملِ تذکیر کے اِس فرق کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ آدمی کنفیوژن میں رہے گا، وہ دونوں میں سے کسی کام کا حق ادا نہ کرسکے گا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
ظن کے لفظی معنیٰ گمان (supposition) کے ہیں۔ اِس آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ تمام گمان گناہ ہوتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ گمان کی دو قسم ہے۔ ایک، وہ جو گناہ ہے، دوسرا، وہ جو گناہ نہیںہے۔
گمان یا قیاس کی ایک قسم وہ ہے جس کو مثبت گمان کہہ سکتے ہیں، یعنی کسی کے بارے میں گمان یا قیاس کی بنا پر ایسی بات کہناجس کی نوعیت عیب کی نہ ہو، جس سے آدمی کے بارے میں کوئی بُری رائے قائم نہ ہوتی ہو، جو محض ایک سادہ بیان کی حیثیت رکھتا ہو، جس کو زیر تبصرہ شخص سنے تو وہ اُس کو بُرا نہ مانے۔ ایسا گمان یا قیاس شریعت میں جائز ہے۔
دوسرا گمان وہ ہے جو منفی گمان کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی کسی کے بارے میں ایسا ریمارک دینا، جس سے اُس کے اوپر کوئی الزام واقع ہوتا ہو، جس میںاس کی نیت پرحملہ کیاگیا ہو، جو کسی شخص کی کردار کشی (character assasination) کے ہم معنی ہو۔ ایسا گمان منفی گمان ہے اور وہ اسلامی شریعت میں حرام ہے۔
جس سماج میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں منفی گمان کی بنیاد پر بیان دینے لگیں، وہ سماج ایک فاسد سماج بن جائے گا۔ ایسے سماج میں مثبت قدریں (positvie values) فروغ نہیں پائیں گی۔ ایسے سماج میں برائیوں کو فروغ ملے گا، نہ کہ اچھائیوں کو۔ ایسے سماج میں ایک دوسرے پر اعتماد (trust) کرنے کا ماحول ختم ہوجائے گا، حالاں کہ صحت مند سماج کی تعمیرکے لیے اعتماد کا ماحول لازمی طور پر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک فارسی شاعر نے دو شعر میں اپنے ایک دردناک احساس کو بیان کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ— کل میںنے دیکھا کہ شیخ ایک چراغ لیے ہوئے شہر کا گشت کر رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ میںآدمیوں سے دکھی ہوں اور مجھے ایک انسان کی تلاش ہے۔ میںنے کہا کہ میںنے تلاش کیا ہے، مگر وہ نہیں ملتا۔ شیخ نے جواب دیا کہ میںاُسی کو چاہتا ہوں جو نہیں ملتا:
دی شیخ باچراغ ہمیں گشت گردِ شہر
کز مردما ملومم وانسانم آرزواست
گفتم کہ یافت می نہ شود، جُستہ ایم ما
گفت آں کہ یافت می نہ شود آنم آرزواست
مجھے نہیں معلوم کہ شاعر کو اور اُس کے زمانے کے شیخ کو کس قسم کے انسان کی تلاش تھی، تاہم میںیہ کہہ سکتاہوں کہ مجھے بھی ساری زندگی کچھ انسانوں کی تلاش رہی ہے، مگر آخر میںمعلوم ہوا کہ ایسے انسان اِس دنیا میں سب سے زیادہ کم یاب چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ وہ انسان ہیں جن سے اعلیٰ سطح کا تبادلۂ خیال (exchange) کیا جاسکے۔ میں ذاتی طورپر اپنے لیے ایکسچینج پارٹنر(exchange partner) کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں، مگر عجیب بات ہے کہ لوگ شاید ایکسچینج پارٹنر کے تصور سے بھی آشنا نہیں۔
ایکسچینج پارٹنر کون ہے۔ حقیقی معنوں میں ایکسچینج پارٹنر صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو اعلیٰ علمی ذوق رکھتا ہو، جو سچائی پر کھڑا ہواہو، جو متعصبانہ طرزِ فکر سے پاک ہو، جو تنقید اور تعریف سے اوپر اٹھا ہوا ہو، جو اعتراف کی لذت کو جانتا ہو، جو عذر کی نفسیات سے پوری طرح خالی ہو، جو نفسیاتی پیچیدگی سے آزاد ہو، جو حقیقت شناسی کی صلاحیت رکھتاہو، جو حقیقی معنوں میں متواضع(modest) ہو، جو منفی سوچ سے مکمل طورپر خالی ہو، جو عجز کی نفسیات میں جیتاہو، نہ کہ انا کی نفسیات میں، جس کے لیے معرفتِ اعلیٰ کے سوا، ہر دوسری چیز ثانوی بن جائے— ایک صاحبِ ذوق کے لیے اپنا ایک ایکسچینج پارٹنر پالینا، سب سے بڑی یافت ہے، تمام خزانوں سے بھی زیادہ بڑی یافت۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میں آپ کی تحریروں کا دل دادہ (fan) ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے میری کون سی کتابیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ کو تو میں پی گیا ہوں۔ اُس کے صفحے کے صفحے، مجھے یاد ہیں۔ پھر میںنے پوچھا کہ ’’تذکیر القرآن‘‘ آپ نے پڑھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تذکیر القرآن میرے پاس ہے اور میں کبھی کبھی اس کو پڑھتا ہوں۔
الرسالہ کے قارئین میں بہت سے لوگ ہیں جو اِس طرح کی بات کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں نے ہمارے مشن کا صرف چھلکا پایا ہے، وہ ہمارے مشن کے مغز سے واقف نہ ہوسکے۔اِسی طرح ایک صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ میںآپ کو مسلمانوں کا ڈیل کارنیگی (وفات: 1955 ) سمجھتا ہوں۔
راقم الحروف کی کتابوں میں— رازِ حیات، تعمیر ِحیات، رہ نمائے حیات، اور کتابِ زندگی جیسی کتابیں مثبت تعمیر کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ بجائے خود وہ اہم کتابیں ہیں، لیکن ہمارے مشن کا اصل پہلو ربانی ذہن کی تشکیل سے تعلق رکھتا ہے، یعنی انسان کو اِس قابل بنانا کہ وہ شعوری طورپر اپنے رب سے وابستہ ہوجائے۔ رب العالمین سے روحانی وابستگی، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کا خزانہ ہے۔
ہمارے مشن کا اصل مقصد یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کو عام کیا جائے۔ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو صحیح دینی تصور سے روشناس کیا جائے۔ اسلام کو غلط تعبیرات سے پاک کیا جائے۔ لوگوں کے اندر ربانی شعور بیدارکیا جائے، لوگوں کے اندر مثبت طرزِ فکر پیدا کیاجائے۔ لوگوں کے اندر خدا کی اعلیٰ معرفت اورآخرت رخی زندگی کا شعور لایا جائے۔ لوگوں کے اندر فکری ارتقا کا عمل جاری کیا جائے۔ لوگوں کے اندر شخصیت پرستی کے بجائے، خدا پرستانہ ذہن کی پرورش کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ دین میںاصل ماڈل پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کا ہے، وغیرہ۔ جن لوگوں نے اِس طرح ہمارے مشن کو پایا، انھیں نے مشن کو پایا، اور جن لوگوں نے اِس طرح اُس کو نہیں پایا، ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ — انھوں نے پڑھا، مگر انھوںنے نہیں پڑھا ۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِسی قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملاہوں جو اپنے آپ کو صاحبِ مطالعہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفراور حضر میں کتابیں، خاص طورپر ناولیں پڑھتے رہتے ہیں۔ وہ جوش کے ساتھ ان کتابوں کی تعریف کریں گے، لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ کوئی ایک سبق کی بات، یا بامعنیٰ بات بتائیے جو آپ نے ان کتابوں کے مطالعے سے پائی ہو تو وہ ایسی کوئی بات نہیں بتا پاتے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔ اِن لوگوں سے جب یہ کہا جائے کہ آپ کواپنے مطالعے میں کوئی حکمت کی بات اِس لیے نہیں ملی کہ آپ نے صرف تفریح کے لیے مطالعہ کیا تھا، تو وہ ہر گز اِس کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اِس بے اعترافی کا سبب کبرِ خفی ہے۔ یہی کبرِ خفی لوگوں کے ذہنی ارتقا میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کو اُس کے پیدا کرنے والے نے اِس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر متضاد صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اِس لیے کہاگیا ہے کہ انسان تضادات کا مجموعہ (mixture of opposites) ہے۔ مثلاً انسان کے اندر ایک طرف طاقت ور خواہشیں موجود ہیں، اوردوسری طرف انسان کے اندر اصول (principles) کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ انسان کی خواہشیں اُس کو سطحی قسم کی خود پرستی کی طرف کھینچتی ہیں، اور اصول کی معرفت اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ وہ اعلیٰ حقیقتوں کے لیے جیے۔
اِسی طرح ہر انسان کی زندگی دو متضاد تقاضوں کے درمیان ہوتی ہے— خواہش پرستی، اور اصول پسندی۔ خواہش پرستی کا طریقہ اختیار کرکے انسان اپنے آپ کو حیوانیت کی سطح پر گرا لیتا ہے۔ اِس کے برعکس ، اصول پسندی کی زندگی اختیار کرنے والا شخص اپنے آپ کو فرشتوں کی صف میں پہنچا دیتا ہے۔ خواہش پرستی کیا ہے۔ خواہش پرستی یہ ہے کہ آدمی سطحی جذبات کے زیر اثر زندگی گزارے۔ غصہ، انتقام، کینہ، حسد، تشدد، عدم رواداری، خود غرض، لالچ، نفرت، گھمنڈ، انانیت، بے اعترافی اور بددیانتی، وغیرہ۔ یہ سب خواہش کی مختلف صورتیں ہیں۔ سماجی زندگی میں یہ خواہش بار بار آدمی کے اندر ابھرتی ہے۔ جو لوگ اِن خواہشات کا شکار ہوجائیں، ان کی زندگی خواہش پرستی کی زندگی ہوجائے گی۔ وہ بظاہر انسان ہوتے ہوئے بہ اعتبار حقیقت، حیوان کی سطح پر زندگی گزارنے لگیں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان ایک بااصول انسان ہو۔ با اصول انسان وہ ہے جو دوسروں سے محبت کرنا جانے، جو وعدہ پورا کرنے والا ہو، جو معاملات میںہمیشہ دیانت داری برتے، جو ہر حال میں سچ بولے، جو دو عملی جیسے رویّے سے پاک ہو، جس کے اندر تواضع پائی جائے، جو دوسروں کا اعتراف کرنا جانتا ہو، جس کے اندر درگزر کرنے کی صفت ہو، جو بے غرض ہو، جس کے اندر اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کا مزاج ہو۔ ایسا انسان با اصول انسان ہے، اور بااصول انسان ہی حقیقی معنوں میں اس کا مستحق ہے کہ اس کو انسان کہا جائے۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر اے اور مسٹر بی کے درمیان ایک جائداد (property) کو لے کر نزاع ہوئی۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ جائداد میری ہے۔ دونوں مسلمان تھے۔ مسٹر اے نے مسٹر بی سے کہا کہ اگر آپ قرآن کو ہاتھ میں لے کر کہہ دیں کہ یہ جائداد میری ہے، تو میںاپنا دعویٰ واپس لے لوں گا اور جائداد پرآپ کا حق تسلیم کرلوں گا۔ مسٹر بی نے کہا— اِس معاملے کا قرآن سے کیا تعلق۔
مسٹر بی ایک مسلمان شخص تھے، پھر انھوں نے ایسا کیوں کہا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، خدا کی کتاب کو وہی درجہ دے چکے ہیں جس کو قرآن میں کتابِ مہجور (الفرقان: 30 ) کہاگیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن برائے تلاوت کتاب بن گیا ہے، نہ کہ برائے اطاعت کتاب۔ یہ ذہن موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں عام ہوچکا ہے۔ مذکورہ واقعہ اِسی ذہن کی ایک مثال ہے۔
بہت سے لوگ جو اسلام کے نام پر ادارے، یا تحریکیں چلا رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنا کام شروع کرنے سے پہلے، قرآن کو بار بار اِس نظر سے پڑھا تھا کہ قرآن کے مطابق، میرے لیے کرنے کا کام کیا ہے۔ مگر غالباً کسی نے بھی یہ جواب نہیں دیا کہ ہاں، میں نے قرآن کو بار بار اِس نظر سے پڑھا اور پھر قرآن سے مجھ کو جو روشنی ملی، اس کے مطابق، میںنے اپنا یہ کام شروع کیا۔
ایسے لوگ بہت ملیں گے جو قرآن کی تفسیر پڑھیں گے، یا عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ وہ قرآن براہِ راست سمجھ سکیں۔ لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا جو قرآن کو اپنے قول و عمل کے لیے ایک رہ نما کتاب (guide book)بنائے ہوئے ہو۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کوتاہی ہے۔ مسلمان جب تک قرآن کو اپنے لیے رہ نما کتاب نہیں بنائیں گے، اُن کا کوئی معاملہ درست ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
آدمی فل فل مینٹ(fulfilment) چاہتا ہے مگر کسی بھی شخص کو اس دنیا میں فل فل مینٹ نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسی ٹریجڈی (tragedy) ہے جس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
انسان لمبی عمر چاہتاہے، لیکن وہ بہت جلد مرجاتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اس کی خواہشیں (desires) پوری ہوں، لیکن بظاہر سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ انسان اپنے لیے ایک آئڈیل لائف چاہتا ہے، لیکن کسی بھی انسان کو اس دنیا میں آئڈیل لائف نہیں ملتی۔ آدمی امن چاہتا ہے، وہ انصاف چاہتا ہے، وہ سچے انسانوں کا پڑوس چاہتا ہے، مگر ساری کوشش کے باوجود کسی کو اس کا یہ مطلوب حاصل نہیں ہوتا۔
انسان کی اِس محرومی کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب کو ایک ایسے مقام پر ڈھونڈھ رہا ہے، جہاں اس کا ملنا ممکن ہی نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ ہوائی جہاز کے اندر اس کو واک (walk) کرنے کے لیے گارڈن مل جائے تو ایسا ہونا کبھی ممکن نہ ہوگا۔ یہی حال موجودہ دنیا کا ہے۔
اس سوال کا جواب خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) میںملتا ہے۔ خدا نے ہماری دنیا کو جوڑے (pair) کی شکل میں بنایا ہے۔ موجودہ دنیا سلکشن گراؤنڈ(selection ground) ہے اور دوسری دنیا فل فل مینٹ (fulfilment) کا مقام۔ موجودہ دنیا اس لیے ہے کہ آدمی یہاں اپنے قول و عمل سے اس بات کا ثبوت دے کہ وہ اگلی دنیا میں بسائے جانے کا اہل ہے۔ اِس طرح اہل لوگ منتخب کرکے اگلی معیاری دنیا میں بسادئے جائیں گے، جہاں وہ ابدی راحتوںمیں مستقل طورپر رہیں گے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کے مطابق، ہر آدمی کو اپنی زندگی کی تعمیر کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا ہی کسی انسان کے لیے اس کے کامیاب مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا فارمولا اس معاملے میں قابلِ انطباق (applicable) نہیں۔انسان کی تلاش کا جواب بلا شبہہ موجودہے، لیکن یہ جواب اُسی انسان کو ملے گا جو اپنی تلاش کو صحیح رخ پر جاری کرے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کے لفظی معنیٰ ہیں: سب مشن submission) )، یعنی سب مشن ٹو گاڈ۔سب مشن، دراصل انسان کی طرف سے خدا کے لیے اُس فطری رسپانس کا نام ہے جو خدا کی معرفت کے بعد انسان کے اندر پیدا ہوتاہے۔ اِسی سب مشن سے وہ زندگی بنتی ہے جس کو اسلامی زندگی کہا جاتاہے۔
خدا کی معرفت کیا ہے۔ خدا کی معرفت اُس ہستی کی معرفت ہے جس نے انسان کو پیدا کیا، جس نے انسان کے لیے وسیع کائنات میں زمین جیسا استثنائی کُرہ بنایا، جس نے انسان کو ایک ایسی شخصیت عطا کی، جیسی شخصیت وسیع کائنات میں کسی اور کو عطا نہیں ہوئی، جس نے ہماری دنیا میں وہ انوکھا سسٹم قائم کیا جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔
اُس کی یہ دریافت یہیں تک نہیں رُکتی، بلکہ وہ دریافتوں کے ایک پراسس کی صورت میں اُس کی زندگی میں شامل ہوجاتی ہے۔ اب وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو دریافت کرتاہے کہ میں آزاد نہیں ہوں، بلکہ میں خداکے حکم کے ماتحت ہوں۔ دریافت کا یہ پراسس (process)آگے بڑھتا ہے۔ وہ اُس کو بتاتا ہے کہ وہ آزادنہیںہے، بلکہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) ہے۔۔ موت اُس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ موت کے بعد ایک اور زندگی شروع ہوتی ہے جہاں وہ خدا کے سامنے حاضر ہوجاتا ہے، تاکہ خدا اس کے ابدی مستقبل کے بارے میں اپنے آخری فیصلے کا اعلان کرے۔
یہ پراسس جاری رہتاہے، یہاںتک کہ وہ دریافت کرتاہے کہ زندگی کا خاتمہ یاتو ابدی جنّت کی صورت میں ہونے والا ہے، یا ابدی جہنّم کی صورت میں۔ یہ دریافت اُس کو بے حد سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اب وہ اپنی زندگی کی نئی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اب وہ ہرچیز کو ری ڈفائن (redefine)کرتا ہے۔ پہلے اگر اُس کی سرگرمیاں خود رُخی (self-oriented)تھیں تو اب اُس کی تمام سرگرمیاں خدا رُخی (God-oriented)بن جاتی ہیں۔اِسی طرزِ حیات کا نام اسلام ہے۔
واپس اوپر جائیں
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے دنیوی معاملات میں خوب عقل لگاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سوچتے ہیں، ہر پہلو سے سمجھ کر منصوبہ بندی (planning) کرتے ہیں، لیکن دین کے معاملے میں ان کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہاں وہ سمجھتے ہیں کہ کسی حضرت کی دعا لے لو، کسی درگاہ میں چلے جاؤ، کسی بزرگ کی زیارت کرلو، تسبیح کے دانے پر کچھ الفاظ پڑھ لو، کچھ رسمی اعمال (rituals) کو دہرالو اور پھر تمام دینی معاملات خود بخود درست ہوجائیں گے۔ مگر یہ دو طرفہ طریقہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ اِس طریقے کا کوئی فائدہ کسی کو ملنے والا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس طرح دنیا کے معاملات میںاپنی عقل لگاتا ہے، اُسی طرح اس کو دین کے معاملے میں بھی اپنی عقل لگانا ہوگا۔ دین کے معاملے میں بھی اس کو اپنے شعور کی پوری طاقت استعمال کرنا ہوگا۔ اِس کے بغیر نہ کوئی شخص حقیقی معنوں میں دین دار ہوسکتا ہے اور نہ وہ جنت کا مستحق بن سکتا ہے۔
دین دار بننے کا عمل پورے معنوں میں، ایک شعوری عمل ہے۔ ہر عورت اور مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ شعوری سطح پر دین کو دریافت کرے۔ وہ دین داری کو شعوری دین داری بنائے، نہ کہ رسمی دین داری۔ وہ دین کو پورے معنوں میں، اپنے دل و دماغ کا حصہ بنائے۔ وہ اپنی دینی زندگی کو بھی اُسی طرح ایک باشعور زندگی بنائے جس طرح وہ اپنی دنیا کی زندگی کو ایک باشعور زندگی بنائے ہوئے ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔
خدا نے انسان کو جو سب سے بڑی چیز دی ہے، وہ اس کا عقل وشعور ہے۔ جو لوگ عقل وشعور کی برتر سطح پر دین کو نہ پائیں اور دین کو اختیار نہ کریں، وہ خدا کے یہاں بے دین قرار پائیں گے، خواہ رسمی سطح پر بظاہر وہ دین دار کیوں نہ بنے ہوئے ہوں۔ دین داری ایک شعوری عمل ہے، نہ کہ صرف ایک رسمی عمل۔
واپس اوپر جائیں
مدرسے کی تعلیم کے زمانے میں راقم الحروف کے ایک ساتھی تھے، مولانا انور اعظمی اصلاحی (وفات: 1968 )۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے، اور تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا اُس کا عنوان تھا—تحریک اور تعمیر ِافراد۔ اِس مضمون میںبتایا گیا تھا کہ فرد کی تعمیر، تحریکی عمل کے دوران ہوتی ہے۔ وہ اسلامی حکومت کے نظریے کو مانتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے اپنے مضمون میں دکھایا تھا کہ آدمی جب سیاسی انقلاب کے لیے سرگرم ہوتا ہے تو اِس طرح کی عملی سرگرمی کے دوران اس کی ذہنی تعمیر ہوتی ہے۔
ذہنی تعمیر کے معاملے کو عملی سرگرمی (physical activities) کے ساتھ جوڑنا، یہی ہر زمانے میں لوگوں کی سوچ رہی ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ سیاسی سرگرمی کے دوران ذہن کی تعمیر ہوتی ہے، کسی کا خیال ہے کہ سوشل سرگرمی کے دوران ذہن کی تعمیر ہوتی ہے، کوئی سمجھتا ہے کہ چلّہ دینا، فرد سازی کا یقینی ذریعہ ہے۔ اِسی طرح، صوفیا نے یہ سمجھ لیا کہ اوراد ووظائف کے ذریعے ذہن کی تعمیر ہوتی ہے، حالاں کہ اوراد ووظائف کی حیثیت صرف جسمانی عمل کی ہے، اور جسمانی عمل سے ذہنی اور فکری انقلاب پیدا نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک خاص ماحول میں پیداہوتا ہے۔ ماحول کے اثر سے ہر انسان کا ایک خاص شاکلہ (framework) بن جاتا ہے۔ فرد کی تعمیر کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ اس کے ذہنی شاکلہ کو توڑا جائے۔ اِس عمل کو ایک لفظ میں ذہن کی ری انجینئرنگ (re-engineering of mind) کہہ سکتے ہیں۔فرد سازی کا کام ذہن سازی سے شروع ہوتا ہے۔ آدمی کی سوچ کو بدلنا، اس کے زاویۂ نگاہ (angle of vision) میں تبدیلی لانا، اس کے اندر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صلاحیت پیدا کرنا، اس کو اِس قابل بنانا کہ وہ چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکے، وہ صرف ظاہری مشاہدے کی بنا پر اپنی رائے نہ بنائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی فکری صلاحیت پیدا کرنے کے بعد ہی کسی شخص کے اندر ذہنی تعمیر کا عمل شروع ہوتا ہے، اِس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک شخص آپ پر تنقید کرتا ہے، اور کوئی قابل شکایت بات کردیتا ہے۔ اب اعلیٰ اخلاقی درجہ یہ ہے کہ آپ اس کی طرف سے پیش آنے والی ناخوش گواری کو برداشت کرلیں۔ آپ اس کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ اپنے حسن سلوک کو بدستور باقی رکھیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ جب ناخوش گوار بات پیش آئی تو آپ برداشت نہ کرسکے۔ جس طرح اس نے آپ کو سخت الفاظ کہے تھے، آپ نے بھی اس کو سخت الفاظ کہہ دیے۔ یہ برابر کا معاملہ ہے اور یہ بھی اسلام میں جائز ہے (الشوریٰ:
تیسری صورت یہ ہے کہ جس آدمی سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے، اس کے خلاف آپ کے دل میں کینہ پیدا ہوگیا۔ آپ اس کو دوسروں کے سامنے بے عزت کرنے لگے۔ آپ اس کی کردار کشی اور اس پر الزام تراشی میں لگ گئے۔ آپ کی نفسیات یہ ہوگئی کہ آپ اس کو بے عزت کرکے خوش ہوں،اس کو لوگوں کے سامنے بے آبرو کرکے آپ کو لذت ملے۔ یہ تیسری صورت اسلام میں ناجائز ہے۔ ایسا کرکے آپ اپنے کو اللہ کے سامنے گنہ گار بنارہے ہیں۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ آپ صرف بے عزت کرنے پر نہ رکیں۔ بلکہ قابلِ شکایت آدمی کے خلاف تخریب کاری کے منصوبے بنائیں۔ اس کو قتل کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس کی جائداد پر قبضہ کریں۔ اس کے اثاثہ کو نقصان پہنچائیں۔ اس کے مستقبل کوتباہ کرنے پر تل جائیں۔یہ چوتھی صورت گنہ گاری پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ جوشخص اس حد تک چلا جائے، وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ اللہ سے آخری حد تک بے خوف ہوچکا ہے۔ اللہ کی پکڑ کا اس کو اتنا اندیشہ بھی نہیں جتنا کسی کو چیونٹی کے کاٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے اللہ کی رحمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔
ہر آدمی غلطی کرتا ہے۔ کوئی انسان غلطی سے پاک نہیں۔ مگر غلطی کی ایک حد ہے۔ جو شخص اپنی غلط کاری میں حد کو پار کرجائے وہ خدا کی غیرت کو چیلنج کررہا ہے۔ اور جو شخص خدا کی غیرت کو چیلنج کرے اس کا انجام نہ دنیا میں بہتر ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں۔
واپس اوپر جائیں
عام طورپر لوگوں کے اندر فخر (pride)کا مزاج ہوتا ہے— صحت پر فخر، علم پر فخر، خاندان پر فخر، تاریخ پر فخر، وغیرہ۔ عام تصور یہ ہے کہ فخر کا احساس بہت ضروری ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر عزتِ نفس (self-respect)، خو د اعتمادی اور حوصلہ جیسی مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔
لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اگر کوئی چیز فخر کے لیے نہ ہو تو وہ احساسِ کم تری کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے اندر لوگوں سے دب کر رہنے کا مزاج پیدا ہوجائے گا۔ وہ اونچی فکر کے ساتھ لوگوں کے درمیان نہ رہ سکے گا۔
مگر فخر کے جواز کی یہ توجیہات درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر ایک اخلاقی برائی ہے۔ فخر کوئی علاحدہ صفت نہیں، فخر کے ساتھ دوسری کئی چیزیں لازمی طورپر جڑی ہوئی ہیں۔ مثلاً فخر کے ساتھ خود پرستی آتی ہے، فخر کے ساتھ احساسِ برتری آتا ہے، فخر دھیرے دھیرے غرور (arrogance)کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ فخر در اصل اُسی برائی کا ایک خوب صورت نام ہے جس کو ابلیس نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: أنا خیرٌ منہ (الأعراف:
I am better than he (
فخر کسی مجرد صفت کا نام نہیں، فخر ایک تقابلی (comparative) صفت کا نام ہے۔ فخر ہمیشہ کسی کے مقابلے میں پیدا ہوتا ہے۔فخر کرنے والے کے اندر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ احساس رہتا ہے کہ — میںدوسروں سے بہتر ہوں۔
یہ احساس عین وہی چیز ہے جس کا ذکر قرآن میں ابلیس کی نسبت سے کیا گیا ہے۔ فخر کرنے والاآدمی شیطان کے زیر اثر آجاتا ہے۔ ایسا انسان دھیرے دھیرے غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بلا شبہہ اس دنیا میں غرور سے زیادہ بُری کوئی چیز نہیں۔ فخر اور غرور میں صرف لفظ کا فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی کے ذہن میںایک خوب صورت دنیا بسی ہوئی ہے، ایک ایسی دنیا جو کامل ہو، جو معیاری ہو، جہاں اس کی تمام آرزوئیں پوری ہوسکیں۔ یہی ذہنی تصور ہر آدمی کے لیے اس کے عمل کا سب سے بڑا محرک ہے۔ ہر عورت اور مرد اس کو حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی پوری زندگی اور اپنی ساری طاقت اِس کے راستے میں لگا دیتے ہیں، لیکن آخرمیں یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔ ہر آدمی اپنی زندگی اعلیٰ حوصلے کے ساتھ شروع کرتا ہے، لیکن ہر آدمی اِس احساس کے ساتھ مرجاتا ہے کہ وہ ساری کوشش کے باوجوداپنی مطلوب دنیا کو پانے میں ناکام رہا۔
یہی پوری انسانیت کی تاریخ ہے۔ اِس میں کسی عورت یا کسی مرد کا کوئی استثنا نہیں۔ یہ انسانیت کا سب سے بڑا سوال ہے۔ کیوںایسا ہے کہ لوگ امیدوں اور حوصلوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، لیکن وہ محرومی کے احساسات کو لے کرمرجاتے ہیں۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو خوب صورت دنیا بسی ہوئی ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، جنت کی دنیا ہے۔ اور جنت کسی کو موت کے بعد آنے والے مرحلۂ حیات میں ملے گی، نہ کہ موت سے پہلے والے مرحلۂ حیات میں۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب جنت کو موجودہ دنیا ہی میں پالے، مگر جنت کا حصول موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔
اِس معاملے میں انسان اور جنت کی مثال مچھلی اورپانی جیسی ہے۔ مچھلی کو سکون صرف پانی کے اندر ملتا ہے، پانی کے باہر نہیں۔ اِسی طرح انسان کو صرف جنت میں سکون ملے گا، جنت کے باہر اس کو سکون، یا فل فل مینٹ (fulfilment) ملنے والا نہیں۔
جنت کی تلاش دراصل مستقبل کی تلاش کا دوسرا نام ہے، اور مستقبل صرف مستقبل میںملتا ہے، وہ کسی کو حال میںملنے والا نہیں۔انسان کو اگر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے تو وہ موجودہ دنیا کو مطلوب جنت کی تیاری کی جگہ سمجھے گا، نہ کہ خود مطلوب جنت کو پانے کی جگہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی اِس آیت میں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ہم ان کو زمین میں غلبہ دیں تو وہ فلاں فلاں کام کریں گے۔ اِس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے مسلمانو، تم جہاد کرکے زمین میں سیاسی غلبہ حاصل کرو، تاکہ تم اسلامی احکام پر مبنی نظام قائم کرو۔ قرآن کی اِس آیت سے سیاسی انقلاب کا نصب العین نکالنا، واضح طورپر ایک بے اصل تفسیر ہے، اس کا اِس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔
احکامِ شریعت کے معاملے میں قرآنی اصول تکلیف بقدرِ وسع (البقرۃ:
شریعت کے کچھ احکام وہ ہیں جن کا تعلق افراد سے ہے، اور کچھ احکام وہ ہیں جن کا تعلق معاشرے سے۔ ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملے میں شریعت کے احکام کو پوری طرح اختیار کرے۔ تاہم جہاں تک اجتماعی احکام، یا معاشرتی احکام کا تعلق ہے، اُن کا معاملہ معاشرے کی داخلی صورتِ حال پر موقوف ہے۔ معاشرہ اگر قبولیت (acceptance) کے لیے تیار ہو، تو اس کے اندر اجتماعی احکام نافذ ہوں گے، اور اگر معاشرہ قبولیت کے لیے تیار نہ ہو، تو اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے انتظار کیا جائے گا۔ یہ انتظار اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ معاشرے کے اندر قبولیتِ احکام کا مزاج پیدا نہ ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآ ن کی اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر سیاسی اقتدار کی حیثیت امر ِموعود کی ہے، نہ کہ امرِ مقصود کی۔ مسلمانوں کے لیے اپنے عمل کا نشانہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان اور عملِ صالح کی صفات پیدا کریں، وہ اپنی ساری توجہ اِسی داخلی نشانے پر لگادیں۔
جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالی سے ہے۔ زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اس کا فیصلہ کیا ہو(آل عمران:
اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظام کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں ۔
قرآن اور حدیث کے مطابق، اسلام میں امرِ مقصود، یا نشانۂ مطلوب، ایمان اور عملِ صالح اور دعوت الی اللہ ہے۔ اِس کے سوا جو چیزیں ہیں، وہ سب امرِ موعود سے تعلق رکھتی ہیں، یعنی وہ خدا کے فیصلے سے کسی کو ملیں گی، نہ کہ ان کو نشانہ بنا کر ان کے لیے براہِ راست کوشش کرنے سے۔ اسلام کی پوری تاریخ اِس سنت الٰہی کی تصدیق کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
Dawah Activism, Political Status quoism
قرآن کی سورہ نمبر
اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک، اسلام کا وہ حصہ جس کا تعلق فکر اور عقیدہ سے ہے۔ اس کو اسلام کی آئڈیا لوجی کہاجاسکتا ہے۔ اسلام کادوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق اِس آئڈیا لوجی کی بنیاد پر بننے والے عملی ڈھانچے سے ہے۔ مثلاً اسلام کا ا جتماعی اور سیاسی نظام۔
نظریاتی معنوں میں، اسلام کی آئڈیالوجی کی بات کی جائے تو دوسروں کے ساتھ کوئی ٹکراؤ پیش نہیں آتا، لیکن اجتماعی اور سیاسی نقشے کا تعلق براہِ راست طورپر دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اِس نقشے کو اُس وقت عمل میں لایا جاسکتا ہے، جب کہ دوسرے لوگوں کے اندر اس کی قبولیت (acceptance) پیدا ہوجائے۔ اگر دوسرے لوگوں کے اندر قبولیت پیدا نہ ہوئی ہو، تو اجتماعی نقشے کو بدلنے کی کوشش صرف ٹکراؤ پیدا کرے گی۔اور اِس قسم کا ٹکراؤ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
ایسی حالت میں حکیمانہ طریقہ صرف یہ ہے کہ عملی نقشے کو علی حالہ باقی رکھتے ہوئے پُرامن دعوتی جدوجہد کی جائے۔ پیغمبرانہ نمونے کے مطابق، یہی اسلامی کام کا صحیح طریقہ ہے۔کسی عمل کی قدر وقیمت کامعیار اس کا نتیجہ ہے، نہ کہ نظریہ۔ ایک کام نظریاتی طورپر اچھا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلنے والا ہو تو نظریاتی حسن کے باوجود ایسے کام کو نہیں کیا جائے گا۔ یہی عمل کا واحد دانش مندانہ طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
جنگِ بدر (
اِس آیت کا ایک تعلق وقتی حالات کے اعتبارسے ہے، اور دوسرے اعتبار سے اِس میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے، ایک ایسا قانون جس کا تعلق تمام اجتماعی معاملات سے ہے۔ مثلاً فتح وشکست، سیاسی اقتدار کا ملنا اور نہ ملنا، امیری اور غریبی، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان (testing ground) ہے۔ اِس دنیا میں کسی کو جو چیز ملتی ہے، وہ پرچۂ امتحان (test paper) کے طور پر ملتی ہے، نہ کہ رحمت اور انعام کے طورپر۔ یہی معاملہ سیاسی اقتدار کا ہے۔ سیاسی اقتدار بھی ایک پرچۂ امتحان ہے۔ کسی گروہ کو سیاسی اقتدار کا ملنا ہمیشہ امتحان کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ انعامِ خداوندی کے طورپر۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار پر کسی گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوتی۔ خدا کو ہر ایک کی آزمائش کرنا ہے، اِس لیے خدا، سیاسی اقتدار کبھی ایک گروہ کو دیتا ہے اورکبھی دوسرے گروہ کو۔ایسی حالت میں اگر ایسا ہو کہ کسی گروہ کو سیاسی اقتدار ملا اور پھر وہ اُس سے چھن گیا، تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ خدا نے پہلے سیاسی اقتدار کے ذریعے میرا امتحان لیا تھا اوراب اُس نے کسی دوسرے گروہ کے امتحان کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی اقتدار کے چھننے پر شکایت یا احتجاج کرنا صرف اِس بات کا ثبوت دینا ہے کہ میںامتحان میںناکام ہوگیا۔
موجودہ دنیا میں صحیح زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر چیز کو امتحان کا پرچہ سمجھے۔ وہ کسی حالت کو نہ تو انعام سمجھے اور نہ سزا۔ زندگی کا یہی تصور خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق ہے۔ اِسی میں دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 8 میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا کہ: قاتلوہم حتیّٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کُلُّہ للّٰہ (الأنفال:
آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر(religious persecution) ہے۔ قدیم زمانے میں ہر جگہ بادشاہی نظام قائم تھا۔ بادشاہوں نے یہ مذہبی اصول اختیار کررکھا تھا کہ اسٹیٹ کا جو مذہب ہو، وہی ملک کے تمام باشندوں کا مذہب ہو۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ کے مذہب کے سوا کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، ریاست سے بغاوت کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جاتا تھا جس کو تاریخ میں مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کہاجاتا ہے۔ اِسی بنا پر یہ عمومی مثل بن گئی تھی کہ : الناسُ علیٰ دین مُلوکہم ۔
مذہب کو اسٹیٹ کا معاملہ قرار دینے کا یہ طریقہ خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھا۔ خداکے تخلیقی پلان (creation plan) کے مطابق، موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو آزادی ہے کہ وہ جس دین کو چاہے اختیار کرے۔ یہی بات قرآن کی اِس آیت میںکہی گئی ہے: لا إکراہَ فی الدین (البقرۃ:
واقعات بتاتے ہیں کہ تاریخ میں دوبار ایسا ہوا کہ مذہب کو اسٹیٹ کے ماتحت شعبہ قرار دے دیا گیا۔ پہلی بار قدیم بادشاہت کے زمانے میں، اور دوسری بار جدید کمیونسٹ ایمپائر کے زمانے میں۔ یہ دونوں نظام، خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھے۔ اس لیے خدا نے ایسے حالات پیدا کیے کہ ان دونوں نظاموں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ قدیم بادشاہت کے تحت قائم ہونے والے نظام کو دورِ اول کے اہلِ اسلام کے ذریعہ ختم کیا گیا تھا، اور جدید کمیونسٹ ایمپائر کے نظام کو ختم کرنے کے لیے امریکا کو ذریعہ بنایا گیا۔ یہ ایک خدائی انتقام تھا کہ تشدد کا استعمال کیے بغیر کمیونسٹ ایمپائر کا خاتمہ ہوگیا۔
اب ساری دنیا میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ہر ملک میں کامل معنوں میں، مذہبی آزادی (religious freedom) حاصل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے چارٹر کے تحت، تمام ملکوں نے اجتماعی طورپر مذہبی آزادی کا حق ہر ایک کے لیے تسلیم کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر ملک کے دستور میں، بشمول ہندستان، مذہبی آزادی کا حق ہر عورت اور مرد کو مکمل طورپر عطا کیاگیا ہے۔
اس عالمی تبدیلی کے بعد اب جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اس ملی ہوئی آزادی کو بھر پور طورپر استعمال کیا جائے اور خدا کے دین کو ساری دنیا میں ہر چھوٹے اور بڑے گھر کے اندر پہنچا دیا جائے، جیسا کہ حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے (لایبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدَرٍ ولا وبَرٍ إلا أدخلہ اللّٰہ کلمۃَ الإسلام)۔
قرآن کے مطابق، خدا نے انسان کو ابتلا کے لیے پیدا کیا ہے(الملک: 2) ، یعنی دنیا میں انسان کو بسا کر اس کو کامل آزادی دی گئی ہے، تاکہ وہ جس طرح چاہے رہے اور پھر اپنے عمل کے مطابق، آخرت میں سزا اور انعام پائے۔ قرآن، تخلیق کے اِسی خدائی نقشے کی تفصیل ہے۔
موجودہ دنیا میں فتنہ کی حالت (مذہبی جبر کی حالت) خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف ہے۔ وہ خدا کے فطری نظام میں مداخلت ہے۔ خدا اپنی دنیا میں اِس قسم کی مداخلت کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ ضرور اس کو ختم کردے گا، کبھی ایک انسانی گروہ کے ذریعے اور کبھی دوسرے انسانی گروہ کے ذریعے۔ یہ معاملہ خدائی آپریشن کا معاملہ ہے۔ اِس قسم کا آپریشن فرشتوں کے ذریعے انجام نہیں دیا جاتا، بلکہ اسباب و علل کا پردہ باقی رکھتے ہوئے، اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ دونوں واقعات اِسی کی تاریخی مثالیں ہیں۔
واپس اوپر جائیں
اِس دنیا میں معیاری فرد کا بننا ممکن ہے، لیکن معیاری سماج کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ کوئی آدمی اپنے ذاتی فیصلے کے تحت، اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔ ایک انسان کے بننے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کے اندر انفرادی قوتِ ارادی(will power) پیدا ہوجائے، لیکن پورے سماج کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ قوتِ ارادی ایک فرد کے اندر ہوتی ہے، پورے سماج کے اندر اجتماعی قوتِ ارادی (collective will) صرف ایک خیالی تصور ہے، عملی طورپر اس کا کوئی وجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخ میںبار بار ایسے افراد پیدا ہوئے جو اپنی ذات کے اعتبار سے معیاری کردار کے حامل تھے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پورا سماج، یا پورا اجتماعی نظام اپنے کردار کے اعتبار سے، معیاری سماج یا معیاری نظام بن جائے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
خدا نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، ہر عورت اور ہر مرد کو مکمل آزادی عطا فرمائی ہے۔ کوئی بھی شخص یا حکومت اِس آزادی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ آزادی کا مطلب ہے— ایک سے زیادہ اختیار (options) کا ممکن ہونا۔ اِس اختیار کی بنا پر ہمیشہ ایسا ہوگا کہ کچھ افراد آزادی کا صحیح استعمال کریں گے اور کچھ افراد آزادی کا غلط استعمال کریں گے۔ یہی واقعہ پورے سماج کی سطح پر معیاری نظام قائم کرنے کو عملاً ناممکن بنا دیتا ہے۔
اِسی بنا پر ایسا ہے کہ اسلام میں فرد کو عمل کا نشانہ قرار دیا گیاہے، نہ کہ سماج کو۔ افراد اگر بڑی تعداد میں اصلاح یافتہ ہوجائیں، تو اِس کا اثر سماج تک بھی پہنچے گا۔ اِس معاملے کی مثالیں تاریخ میں کثرت سے موجود ہیں، اسلامی سماج میں بھی اور سیکولر سماج میں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ معیاری سماج، آخرت کی دنیا میں بنے گا، نہ کہ موجودہ دنیا میں۔موجودہ دنیا میں معیاری سماج بنانے کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ لوگوں سے ان کی آزادی سلب کرلی جائے۔ اور ایسا صرف اس وقت ہوگا جب کہ خدا کے حکم سے فرشتہ اسرافیل قیامت کا صور پھونک دے۔
واپس اوپر جائیں
سیاست (politics) کا لفظ عام طورپر اُن سرگرمیوں کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی مقام پر اجتماعی طاقت کے حصول کے لیے کی جائیں۔ چوں کہ اجتماعی طاقت پر ہمیشہ کسی فرد یا گروہ کا قبضہ ہوتاہے، اِس لیے سیاسی عمل میں اُس کے شروع ہی سے ٹکراؤ کا تصور شامل ہوجاتا ہے، یعنی قابض گروہ کو ہٹا کر اس کی جگہ خود قبضہ حاصل کرنا۔
سیاست کے اِس تصور کی بناپر عام طورپر تبدیلی کی سیاست (politics of change) کو سیاست سمجھا جاتاہے۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ بڑی سیاست وہ ہے عدم تبدیلی کی سیاست (plitics of no-change) کے اصول پر قائم ہے۔
تبدیلی کی سیاست میں یہ ہوتا ہے کہ ایک منفی نشانہ (negative target) آدمی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اور مثبت نشانہ (positive target) اُس وقت تک کے لیے موخر ہوجاتا ہے، جب تک کہ منفی نشانہ راستے سے ہٹ نہ جائے۔ تبدیلی کی یہ سیاست آدمی کو دوچیزوں کا تحفہ دیتی ہے— منفی سوچ، اور تخریبی عمل۔ انسان اِنھیںدو چیزوں میں گھرا رہتا ہے اور موجود مواقع کو استعمال کیے بغیر وہ ناکامی کے احساس کے ساتھ مرجاتا ہے۔
اِس کے مقابلے میں عدم تبدیلی کی سیاست، اوّل سے آخر تک، کامیابی کی سیاست ہے۔ وہ آدمی کو مثبت سوچ دیتی ہے۔ وہ آدمی کو تعمیری نشانہ عطا کرتی ہے۔ وہ آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو بے فائدہ سرگرمیوں سے بچائے اور مکمل طورپر نتیجہ خیز عمل میں اپنے آپ کو لگا دے— تبدیلی کی سیاست کا نشانہ تخریبِ غیر ہوتا ہے، اورعدم تبدیلی کی سیاست کا نشانہ تعمیر ِ خویش۔
عدم تبدیلی کا مطلب بے تبدیلی نہیں ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ حالتِ موجودہ سے عملی ٹکراؤ کیے بغیر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالتِ موجودہ سے ٹکراؤ اکثر حالات میں صرف اپنے وقت اور اپنی طاقت کے ضیاع کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ ایسا عمل اپنے نتیجے کے اعتبار سے بے عملی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب جو جاہل اور غریب عوام میں کام کرتے ہیں، انھوںنے کہا کہ میںبہت سالوں سے اِس طبقے میں کام کررہا ہوں۔ میںنے پایا کہ یہ لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جھوٹ ہی ان کا کلچر ہے۔ میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ آخر کار میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ دفاع کے طورپر جھوٹ بولتے ہیں۔ اِس طبقے کا کوئی شخص جب ایک غلطی کرتاہے اور اس کا آقا اُس سے باز پُرس کرتا ہے، تو وہ اپنی کم زوری کی بنا پر محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی اور انداز سے اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اِس لیے وہ فوراً جھوٹ بول دیتا ہے اورکہتا ہے کہ میںنے ایسا نہیںکیا۔
کم زور دفاع کا یہ طریقہ صرف جاہل عوام کی اجارہ داری نہیں، وہ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی عام طورپر پایا جاتاہے۔ اِس معاملے کا ایک تجربہ مجھے ذاتی طورپر پیش آیا۔میںتقریباً پچاس سال سے ایک مشن چلا رہا ہوں بعض لوگوں کو کسی سبب سے مجھ سے اختلاف ہوگیا۔ انھوں نے تقریر اور تحریر کے ذریعے میرے خلاف زبردست مہم شروع کردی۔ آپ اِن لوگوں کی تقریروں اور تحریروں کو پڑھیے، آپ پائیں گے کہ اِن میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جس نے علمی دلائل کے ذریعے، راقم الحروف کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کیا ہو۔ اِن میں سے ہر ایک صرف ایک کام کررہا ہے، اوروہ ہے کوئی منفی شوشہ نکال کر مجھ کو اور میرے مشن کو بدنام کرنا۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ کم زور دفاع کاایک معاملہ ہے۔ یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ دلیل کے میدان میں وہ شکست کھاچکے ہیں۔ خالص علمی دلائل کے ذریعے وہ میرے نقطۂنظر کو غلط ثابت نہیں کرسکتے، اِس لیے وہ عیب زنی اور الزام تراشی کے ذریعے مجھ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ نہ صرف غیرمتقیانہ ہے، بلکہ وہ علمی ذوق کے اعتبار سے نہایت پست طریقہ ہے۔ یہ دفاع کے نام پر خود اپنی شکست کااعلان کرنا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کسی شخص کے پاس اپنے دشمن کو مارنے کے لیے اگر بم ہو، تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ کنکری سے اپنے دشمن کو مارنے لگے۔ یہی معاملہ تنقید کا ہے۔ ایک ناقد کے پاس اگر علمی دلیل ہو، تو یہ ممکن نہیں کہ وہ عیب زنی اورالزام تراشی کے ذریعے اپنے حریف کا مقابلہ کرے۔ ایسا آدمی لازمی طورپر علمی دلائل کے ذریعے تنقید کرے گا۔ اِس لیے جو لوگ ہمارے مشن کے خلاف الزام تراشی کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کے پاس علمی دلائل موجود نہیں ہیں۔ اگر ان کے پاس علمی دلائل موجود ہوتے، تووہ ہر گز کم زور دفاع کا موجودہ طریقہ اختیار نہ کرتے۔
اِسی طرح کی ایک مثال موجودہ زمانے کے مسلم علماء کے یہاں ملتی ہے۔ یہ علماء کچھ لوگوں کو گُم راہ، یا بددین سمجھتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف تقریر اور تحریر کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔مثلاً منکرینِ حدیث، منکرینِ ختم نبوت، وغیرہ۔ مسلم علماء اِن ’’منکرین‘‘ کے خلاف کتابیں چھاپتے ہیں اور جلسے کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں، مگر یہ سب میرے نزدیک کم زور دفاع کی مثالیں ہیں۔ اِس طرح کے لفظی ہنگاموں، یا مخالفانہ فتویٰ شائع کرنے سے ’’منکر‘‘ گروہوں کا نہ اب تک کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ آئندہ اِس سے ان کا کوئی نقصان ہوگا۔
اصل کام یہ ہے کہ اِن ’’منکرین‘‘ کے نظریے کا گہرا مطالعہ کرکے، اُن کے اُس نظریے کو سمجھا جائے جس کے اوپر انھوںنے اپنی بنیاد کھڑی کی ہے اور پھر علمی دلائل کے ذریعے اِس نظریے کا باطل ہوناثابت کیا جائے۔ علماء کا موجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک کم زور دفاع ہے، اور کم زور دفاع کا یقینی طورپر کوئی فائدہ نہیں۔ کم زور دفاع خود اپنی کم زوری کا اعلان ہے، نہ کہ دوسرے کی تردید یا دفاع۔
مقابلے کی اِس دنیا میں آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (choice) ہے— صبر یا حقیقی دفاع۔ آدمی یا تو نتیجہ خیز دفاع کرے، اور اگر وہ نتیجہ خیز دفاع کی پوزیشن میں نہ ہو تو وہ صبر کرلے۔ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ اگر آدمی نزاعی معاملے میں یک طرفہ طورپر صبر کرے، تو حالات خود بخود اس کی طرف سے خاموش دفاع کرنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میںبے نتیجہ دفاع کرنا، فطرت کے عمل کو روکنے کے ہم معنیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے نتیجہ دفاع صرف ایک نادانی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی دفاعی عمل۔
واپس اوپر جائیں
امرناتھ شرائن بورڈ کی زمین کو لے کر جموں وکشمیر میںجولائی 2008 میں ایجی ٹیشن (agitation) شروع ہوا۔ ایک مہینے سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود، اب تک وہ شدید طورپر جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں، مسلم انتہا پسند (Muslim extremists) گروپ نے یہ ایجی ٹیشن چلایا تھا۔ اب دوسرے مرحلے میں، ہندوانتہا پسند (Hindu extremists)گروپ یہ ایجی ٹیشن چلا رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ریاست کے باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ریل اور روڈ کے تمام راستے بند ہیں۔ ضروری اشیا کی آمدو رفت نہیں ہورہی ہے۔ تجارتی سرگرمیاں منقطع ہیں۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کو ناقابلِ برداشت قسم کے انسانی مسائل کا سامنا ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے، آزادی ہے، سیکولرازم ہے، یہاں ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے کوشش کرے۔ لیکن اِس کوشش کی کچھ شرطیں ہیں۔ اِن شرطوں کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے، تو ملک میں فساد پھیلے گا اور جمہوریت ایک قسم کی انارکی (anarchy) بن جائے گی۔ وہ شرط یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر گروہ یہ تسلیم کرے کہ ہر حق سے اوپر ملک کا حق ہے۔ملک کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر کسی کو بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا جائز نہیں۔
اپنے حقوق (rights) کے لیے کوشش کی جائز صورت صرف یہ ہے کہ اُس کو امن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے۔ جو لوگ امن اور قانون کو توڑ کر اپنی تحریک چلائیں، اُن کو ملک کا خیر خواہ (well-wisher) نہیں کہا جاسکتا۔
جموں کے علاقے میں، امرناتھ یاترا کو زیادہ منظم انداز میں انجام دینے کے لیے امرناتھ شرائن بورڈنے گورنمنٹ سے سوایکڑ (800 کنال) کی ایک زمین حاصل کی۔یہ زمین پہلے سے امرناتھ یاتریوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اب اُس کو مزید بہتر بنانے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ امرناتھ شرائن بورڈمیں کچھ ممبر، ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ اور کچھ ممبر، ریاست جموں وکشمیر کے باہر سے اُس میں شامل کئے گئے تھے۔اِس کو لے کر کشمیر کے مسلمانوں نے اعتراض کیا۔ انھوںنے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں صرف ریاست کے باشندے خرید وفروخت کرسکتے ہیں۔ دستورِ ہند کی دفعہ 370 کے مطابق، ریاست کے باہر کا کوئی آدمی یہاں پراپرٹی خریدنے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ ایک دستوری معاملہ تھا۔ اور دستوری معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے صحیح جگہ انڈیا کا سپریم کورٹ ہے۔ اِن کشمیری مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں اور خالص قانونی انداز سے اپنا کیس پیش کرکے، وہاں سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مگر حریت کانفرنس کی کال پر کشمیر کے مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور انھوںنے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ اِس کے بعد کشمیر میں سنگین صورتِ حال پیدا ہوئی، یہاں تک کہ ریاست کی کولیشن گورنمنٹ ٹوٹ گئی۔ آخر کار یہ ہوا کہ ریاست کے گورنر نے لینڈ کے سابقہ سودے کو منسوخ کردیا۔
اب ریاست کے مسلمانوں نے فتح کی خوشیاں منائیں۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ فتح بلاشبہہ شکست سے بھی بد تر تھی۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ ہندو انتہا پسند گروپ کو موقع مل گیا۔ وہ بھی سڑکوں پر آگئے اور انھوں نے ایک نیا ایجی ٹیشن شروع کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ لینڈ کی یہ منسوخی ایک سیاسی منسوخی ہے۔ ایسا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اب وہ ایک نیا مطالبہ لے کر اٹھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ لینڈ کی ڈیلنگ کو بحال کیا جائے اور اس کو امرناتھ شرائن بورڈ کے قبضے میں دے دیا جائے، یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور اِس میں حکومت کو کوئی دخل نہیں دینا چاہیے۔
یہ دوسرا ایجی ٹیشن، پہلے ایجی ٹیشن سے بھی زیادہ شدید تھا۔ تادمِ تحریر یہ دوسرا ایجی ٹیشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق، جان ومال کا شدید نقصان ہورہا ہے۔ ریاست کے باشندے ناقابلِ برداشت قسم کی مشکلات کا شکار ہیں۔ ذمہ دار افراد کی کوششوں کے باوجود بظاہر حالات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
راقم الحروف کے نزدیک، اِس معاملے میں پہلی غلطی کشمیر کے مسلم لیڈروں کی تھی۔ اُن کو جاننا چاہیے تھا کہ دستورِ ہند کا معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے دائرے میں آتا ہے۔ کسی شخص یا گروہ کو اگر کوئی دستوری اعتراض ہے، تو اُس کو اپنا معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے لے جانا چاہیے۔ کشمیری لیڈر اپنا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں لے گئے، بلکہ وہ اُس کو لے کر پُر جوش طورپر سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ موجودہ صورتِ حال اِسی کی ایک قیمت ہے جس کو کشمیر کے مسلمان ادا کررہے ہیں۔
جہاں تک میں جانتا ہوں، جموں کی متنازعہ زمین بہت پہلے سے امرناتھ کے یاتریوں کے لیے استعمال ہورہی تھی۔ عملاً وہ پہلے بھی امرناتھ شرائن بورڈ کے استعمال میں تھی۔ نئی بات صرف یہ ہوئی تھی کہ اِس انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے اس کو قانونی شکل دے دی گئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے مسلمانوں کو اِس معاملے میں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اُنھیں دل سے راضی ہوجانا چاہیے کہ وہ زمین بدستور، امرناتھ یاتریوں کے لیے استعمال ہوتی رہے، جیسا کہ وہ پہلے استعمال ہورہی تھی۔
اِس زمین کو زیادہ بہتر طورپر یاتریوں کے استعمال میں لانا، کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت، اِس پر راضی ہوجانا چاہیے۔ اِس زمین کو قانونی شکل دینے کے لیے اگرکچھ فنی یا ٹکنکل رکاوٹیں ہیں، تو اُن کو دور کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دونوں فریق کو چاہیے کہ وہ باہمی طورپر پُر امن گفتگو کے ذریعہ اِن فنی رکاوٹوں کو دور کردیں، تاکہ اِس معاملے میں ڈیڈلاک ختم ہوجائے اور مذکورہ زمین امرناتھ یاتریوں کے لیے خوش گوار ماحول میں استعمال ہونے لگے، جیسا کہ وہ ماضی قدیم سے استعمال ہورہی تھی۔
دونوں فریقوں کو اِس معاملے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ ملک اور ملک کے دستور کو اعلیٰ مقام دیں۔ وہ اپنی کوشش کو پُر امن دائرے تک محدود رکھیں، وہ کسی حال میں تشدد یا قانون شکنی کا طریقہ نہ اختیار کریں، وہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ کریں جس کے نتیجے میں کشمیری باشندوں کے حقوق پامال ہونے لگیں اور ملک کا وقار مجروح ہو (9 اگست2008 ) ۔
واپس اوپر جائیں
جمہوری دور میں جو نئی چیزیں دنیا میں آئیں، اُن میں سے ایک وہ ہے جس کو اپوزیشن کی پالٹکس (politics of opposition) کہا جاتا ہے، یعنی حکومت کو بدلنے کے لیے اس کے خلاف سیاسی تحریک چلانا۔ موجودہ زمانے میں ’’اسلام پسندوں‘‘ نے اسلام کے نام پر اِسی سیاسی طریقِ کار کو اپنایا۔ اِس میں وہ انتہاپسندی، بلکہ تشدد کی حد تک پہنچ گئے۔ اِس طرح، اسلام پسند جماعتوں اور حکم رانوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کے بعد حکم رانوں نے انتہا پسند لیڈروں کو گرفتار کرکے اُنھیں جیل میں ڈال دیا۔ اِس طرح کے واقعات کو یہ اسلام پسند لوگ ’’سنتِ یوسفی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
یہ بلاشبہہ، سنتِ یوسفی کے لفظ کا غلط استعمال ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک غیر سیاسی نوعیت کی غلط فہمی کے تحت، وقت کے حکم راں نے جیل میںڈالا تھا، کسی قسم کی سیاسی اپوزیشن تحریک کے نتیجے میں ایسا نہیں ہوا تھا، جب کہ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ زمانے کے نام نہاد اسلام پسند، سیاسی اپوزیشن کے نتیجے میں جیل میں ڈالے گئے۔
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کا مصری حکم راں ایک مشرک تھا، مگر حضرت یوسف نے کبھی اِس مشرک حکم راں کے خلاف کوئی سیاسی تحریک نہیں چلائی۔ اِس کے برعکس، حضرت یوسف نے یہ کیا کہ مشرک بادشاہ کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، انھوں نے ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا۔ جدید اصطلاح کے اعتبار سے اِس عہدے کو وزارتِ غذا کا عہدہ کہاجاسکتا ہے۔
ایسی حالت میں حقیقی سنتِ یوسفی یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی سیاسی اپوزیشن کی تحریک کو غیر پیغمبرانہ تحریک قرار دیں اور حضرت یوسف کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے وہ وقت کے حکم راں کے ساتھ تعاون کا اندازاختیار کریں، وہ سیاسی ٹکراؤ سے کامل پرہیز کرتے ہوئے اپنے دینی عمل کا نقشہ بنائیں— سنتِ یوسفی، حکم راں کے ساتھ تعاون کرنے کا نام ہے، نہ کہ حکم راں کے ساتھ سیاسی ٹکراؤ کرنے کا نام۔
واپس اوپر جائیں
جارج بش جونئر کی صدارت میں امریکا نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ مبصرین کے اندازہ کے مطابق، امریکا کے لیے یہ جنگ ایک تباہ کن جنگ ثابت ہوئی۔ اِس جنگ میں براہِ راست طورپر امریکا کے تین ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے۔ اِس کے علاوہ، بالواسطہ خرچ کی مقدار دو ٹریلین ڈالر تھی، یعنی مجموعی طورپر پانچ ٹریلین ڈالر۔ اِس جنگ پر بہت سی کتابیں چھپی ہیں، ان میں سے ایک کتاب یہ ہے:
The Three Trillion Dollar War by: The True Cost of the Iraq Conflict. by Joseph Stiglitz, Linda Bilmes.
اِس کتاب پر مسٹر ایم کے بھندرا کمار(M.K. Bhandra Kumar) نے تبصرہ کیا ہے۔ یہ تبصرہ، انگریزی اخبار ہندو (The Hindu) کے شمارہ
An Unaffordable War
تبصرہ نگار نے اپنے مضمون کو اِن الفاظ پر ختم کیا ہے— بلاشبہہ بش ایڈمنسٹریشن اِس جنگ کے فوائد کا اندازہ کرنے میں غلطی پر تھا۔ اِس سے بھی زیادہ تباہ کن بات امریکی شہریوں کے لیے یہ ہے کہ عمداً اِس جنگ کا کم تر اندازہ کیا گیا، تاکہ اس کو ایک قابلِ عمل جنگ کی صورت میں ظاہر کیا جاسکے:
No doubt, the Bush administration was wrong about the benifits of this war, but even more disastrous for the American citizen is that it wilfully underestimated the cost of the war so as to make it appear a doable war. (p.
امریکا کے پاس دنیا کا سب سے بڑا تھنک تینک (think tank) ہے۔ وہ سب سے زیادہ دولت مند ملک ہے۔ اس کی فوجی طاقت بھی سب سے زیادہ ہے۔ لیکن جنگ اس کو مطلوب نتیجہ نہ دے سکی۔ یہ واقعہ آخری طورپر یہ اِس عوامی خیال کو بے بنیاد (baseless)ثابت کررہا ہے کہ — جنگیں اقتصادیات کے لیے مفید ہیں:
Wars are good for the economy.
واپس اوپر جائیں
جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill) انیسویں صدی عیسوی کا مشہور انگلش فلاسفر ہے۔ وہ 1806 میں پیدا ہوا، اور 1873 میں اس کی وفات ہوئی۔ فرد (individual)کے مقابلے میں اجتماع (society) کی آزادی (liberty) کا تصور سب سے پہلے اُس نے باقاعدہ صورت میں پیش کیا۔ اِس سلسلے میں اس کی حسب ذیل کتاب بہت مشہور ہوئی:
Essay on Liberty (1859)
اِس کے بعد اِ س موضوع پر بہت زیادہ لکھا گیا اوراس کی حمایت میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، مغربی دنیا میں بھی اور مشرقی دنیا میں بھی، یہاں تک کہ عمومی طورپر یہ مان لیا گیا کہ فرد کی آزادی اُس کے لیے خیر اعلیٰ (summum bonum) کی حیثیت رکھتی ہے۔
فردکی آزادی بلا شبہہ ایک اچھی چیز ہے، لیکن آزادی کو خیر اعلیٰ سمجھ لینا، سخت تباہ کن ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان بیک وقت دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک طرف، خالق کا قائم کردہ فطرت کا نظام، اور دوسری طرف، انسانوں پر مشتمل سماجی نظام۔ فرد پر لازم ہے کہ وہ اِن دونوں سے موافقت کرکے زندگی گزارے۔ اِس کے سوا کوئی اور طرزِ زندگی یہاں ممکن نہیں۔ فطرت کے نظام سے عدم موافت کا نتیجہ اپنی ہلاکت ہے، اور اجتماعی نظام سے عدم موافقت کا نتیجہ سماجی اِباحیت (social permissiveness) ۔ اور فرد کی آزادی کے یہ دونوں نتیجے تباہ کن حدتک ناقابلِ عمل ہیں۔
فرد کے لیے مطلق آزادی کا تصور بلاشبہہ تباہ کن ہے۔ البتہ محدود آزادی کا تصور ایک صحت بخش تصور ہے، وہ انسان کی ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔اِس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، لیکن سماجی زندگی میں بے قید آزادی قابلِ عمل نہیں۔ سماجی زندگی میں جو چیز ممکن ہے، وہ محدود آزادی ہے، نہ کہ بے قید آزادی۔ بے قید آزادی کا نتیجہ انارکی (anarchy) ہے، اور محدود آزادی کا نتیجہ صحت مند ترقی۔
واپس اوپر جائیں
ٹاٹا انڈسٹری کے چئرمین مسٹر رتن ٹاٹا (
نئی دہلی (پرگتی میدان) میںاِس کار کی نمائش کی گئی تو اس کو دیکھنے کے لیے بہت بڑی بھیڑ اکھٹا ہوگئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسر رتن ٹاٹا نے بظاہر بے شمار نئے لوگوں کے لیے سستی کار کی شکل میں ایک پُر مسرت تحفہ دیا، لیکن خود رتن ٹاٹا کو روحانی خوشی حاصل نہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (
I am in a very lonely phase of my life (p. 1)
یہ کوئی انفرادی مثال نہیں۔ یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی ساری توانائی مادّی چیزوں کے حصول میں لگادیتے ہیں۔ جو اِس طرح رہتے ہیں گویا کہ زندگی کا مقصد مادی ترقی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگ جب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچتے ہیں، تو اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر مادی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اُن کو اندرونی خوشی حاصل نہیں۔ وہ اِسی طرح جیتے ہیں ، یہاں تک کہ مایوسی (despair) کی حالت میں مرجاتے ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی روح کے لیے سب سے زیادہ ربّانی غذا کی ضرورت ہے۔ صرف مادی غذا انسان کی فطرت کو ایڈریس نہیں کرتی۔ بظاہر خوش خوراکی کے باوجود اس کی داخلی شخصیت، روحانی فاقہ (spiritual starvation) میں مبتلا رہتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (الرّعد:
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ اکثر آرٹ آف کرائسس مینج منٹ (art of crisis management) کی بات کرتے ہیں۔ یہ نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ ہر آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر آدمی کبھی نہ کبھی کرائسس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر سوا ل یہ ہے کہ اِس کا کارگرفارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اِس کا کارگر فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی کرائسس پیش آئے، تو اس کو خدا کے حوالے کردیا جائے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بابت، صحابیٔ رسول، حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا: الخیر فیما وقع،یعنی جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی خدا کی طرف سے سمجھے اور اس پر راضی ہوجائے۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی مقولے میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے کہ:
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است
یعنی دشمن اگر قوی ہے، تو نگہبان اس سے بھی زیادہ قوی ہے:
If enemy is strong, the savier is stronger.
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ پیش آتا ہے، وہ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ منفی رسپانس (negative response) دیتا ہے، یا مثبت رسپانس (positive response) ۔ حالات کا اہتمام خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ یا تو ایک قسم کا رسپانس دے کر کریڈٹ (credit) پاتا ہے، یا دوسرے قسم کا رسپانس دے کر اپنے آپ کو ڈس کریڈٹ (discredit) کرلیتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے بارے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے صبری سے بچائے اور بہتر انجام کے لیے خدا سے دعا کرتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں صبر بھی ایک عمل ہے اور دعا بھی ایک عمل۔
واپس اوپر جائیں
جاپانی اخبار یومیوری(Yomiuri) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Nasa May buy spacecraft from Japan.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا سائنسی ادارہ ناسا (NASA) ، جاپان کے خلائی ادارہ (Japan's Space Agency) سے خلائی جہاز (spacecraft) خریدنے والا ہے۔ امریکا کو اپنے خلائی اسٹیشن میں خوراک اور دیگر ضروری سامان بھیجنے کے لیے ایک بار بردار راکیٹ کی ضرورت ہے۔ جاپان اِس امریکی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے:
Nasa has began unofficial negotiations with Japan’s space agency on purchasing units of an unmanned cargo transfer spacecraft as the successor to its space shuttles, the Yomiuri newspaper said on Sunday. Such a deal would be the biggest in Japan’s 50 years space development history, the paper added. Behind the move is Nasa’s concern that the retirement of its space shuttles in 2010 will make it difficult for US to deliver water, food and materials for scientific experiments to the International Space Station, the paper said. (p. 19)
دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں امریکا نے 1945 میں جاپان کے دو بڑے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا۔ اِس کے نتیجے میں جاپان کی صنعت تباہ ہوگئی۔ جاپان نے امریکا کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی، بلکہ ماضی کو بھلا کر، وہ دوبارہ اپنی تعمیر میںلگ گیا۔ اُس نے اپنی ساری طاقت ایجوکیشن اور انڈسٹری میںلگا دی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان چالیس سال کے اندر اقتصادی سپرپاور (economic superpower) بن گیا۔ پہلے امریکا کو اسپیس سائنس میںبرتری حاصل تھی، مگر جاپان اب اِس میدان میں اتنا زیادہ ترقی کرچکا ہے کہ اب وہ خود امریکا کو خلائی جہاز فراہم کررہا ہے— یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخریب کے مقابلے میں تعمیر کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
مہابھارت میں ارجن کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ اُن میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ ارجن ایک راج کمار تھے ۔ وہ اپنے چار بھائیوں کے ساتھ ایک گرو سے تیر اندازی کا فن سیکھ رہے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد گرو نے چاہا کہ وہ اپنے شاگردوں کا امتحان لیں۔ انھوںنے مٹی کی ایک چڑیا بنائی۔اِس چڑیا کو انھوںنے ایک درخت کے اوپر رکھ دیا۔ پھر انھوںنے ہر ایک سے کہا کہ چڑیا کی آنکھ پر نشانہ لگاؤ۔
گرو نے پہلے، دوسرے بھائیوں سے پوچھا کہ تم کو اوپر کیا چیز دکھائی دے رہی ہے۔ ہر ایک نے کئی چیزیں بتائیں۔ مثلاً درخت، پتی، شاخ، چڑیا، وغیرہ۔ گرو نے اِن سب شاگردوں کو فیل کردیا۔ اِس کے بعد انھوں نے ارجن سے کہا کہ تم نشانہ لگاؤ۔ پھر انھوںنے ارجن سے پوچھا کہ تم کو اوپرکیا دکھائی دے رہا ہے۔ ارجن نے کہا کہ چڑیا کی آنکھ۔ ہر بار جب گرو نے سوال کیا تو انھوں نے یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد گرو نے ارجن کو امتحان میں پاس کردیا اور کہا کہ — لکش کو پانے کے لیے، لکش ہی پر سارا دھیان کیندرت کرنا چاہیے۔
کسی مقصد میںکامیابی کے لیے یہ اصول بہت ضروری ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو ذہنی ارتکاز (concentration) کہاجاتا ہے، یعنی یہ صلاحیت کہ آدمی اپنی تمام توجہ اور کوشش کوایک نشانے پر لگا سکے، وہ دوسری چیزوں پر سوچنا بند کردے:
Concentration: The ability to direct all your effort and attentionon one thing, without thinking of other things.
کسی مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے ذہن کو ایک نشانے پر لگا دے۔ اِس کے بغیر اِس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی، خواہ وہ دنیوی مقصد کا معاملہ ہو یا اُخروی مقصد کا معاملہ۔یہی وہ واحد قیمت ہے جو کسی مقصد کے حصول کے لیے درکار ہوتی ہے۔ جو آدمی اِس قیمت کو دینے کے لیے تیار نہ ہو، اس کو مقصد کے حصول کی تمنا بھی نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مقام سے دو نوجوان دہلی آئے— مسٹر اے اور مسٹر بی۔ یہ لوگ کئی سال سے دہلی میں رہتے ہیں۔ میری ملاقات مسٹر اے سے ہوئی۔ انھوں نے خود اپنی تو بہت تعریف کی، لیکن انھوں نے مسٹر بی کو کنڈم کیا۔ انھوںنے کہا کہ مسٹر بی اگرچہ میرے ہم وطن ہیں، لیکن وہ ایک سست آدمی ہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں، لیکن وہ یہاں کوئی ترقی نہ کرسکے۔
میں ذاتی طورپر مسٹر بی کو جانتا ہوں۔ انھوںنے دہلی آکر یہاں ایک تعلیمی ادارے سے ایم اے کیا۔ اِس کے بعد انھوںنے چھوٹے پیمانے سے ایک بزنس شروع کیا۔
اب انھوں نے دہلی میں اپنا ذاتی گھر بنا لیا ہے۔ یہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، وہ ایک متواضع (modest) انسان ہیں۔ میںنے انھیں کبھی بڑی بڑی باتیں کرتے ہوئے نہیں پایا۔
اِس کے مقابلے میں مسٹر اے کا حال یہ ہے کہ وہ دہلی میں ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ وہ ابھی تک یہاں کوئی مستقل جاب (job) حاصل نہ کرسکے۔ میں نے سوچا کہ اِس فرق کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ مسٹر اے اپنے کو اونچا سمجھتے ہیں اور مسٹر بی کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے خود ساختہ طورپر بڑائی کا ایک معیار (criterion) بنا لیا ہے۔ وہ یہ کہ مسٹر بی نے ایم اے کرنے کے بعد آگے تعلیم جاری نہیں رکھی۔ اِس کے برعکس، مسٹر اے نے مزید تعلیم جاری رکھی اور لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ چناں چہ ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا ہے، جب کہ مسٹر بی کے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھا جاتا ۔
اِسی کا نام خود ساختہ معیار ہے۔ کامیابی کا حقیقی معیار یہ ہے کہ آدمی کے اندر تواضع(modesty) ہو۔ وہ ضروری حد تک تعلیم حاصل کرے اور اپنے لیے ایک خود کفیل زندگی بنا سکے۔ مگر خود ساختہ معیار، ضروری کو غیر ضروری اور حقیقی کو غیر حقیقی بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اِس دنیا میںکامیاب زندگی کے دو اہم اصول ہیں— یا تودوسروں کے لیے نفع بخش (useful) انسان بنئے، یا دوسروں کے لیے بے مسئلہ انسان (no problem person) بن جائیے۔ اِس دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کے یہی دو اصول ہیں، اِن کے سوا کوئی تیسرا اصول نہیں۔ اگر کوئی تیسرا اصول ہے تو وہ ہلاکت ہے، نہ کہ کامیابی۔
ایک شخص جب دوسروں کے لیے نفع بخش بنتا ہے تو وہ دوسروں کی نظر میں محبوب بن جاتاہے۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ وہ دینے والے کا احسان مانے، وہ فائدہ پہنچانے والے کا اعتراف کرے۔ جو اُس کے کام آئے، اس کا دل اُس کے لیے جھک جائے۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے نفع بخش بنتا ہے تو وہ فطرت کی اِس سطح پر دوسرے انسان کا مطلوب شخص (wanted person)بن جاتا ہے۔
اِس نفع بخشی کا تعلق صرف بڑی بڑی چیزوں سے نہیں، کسی کو چھوٹی چیز دے کر بھی آپ اس کا دل جیت سکتے ہیں، اور اگر آپ کے پاس کچھ بھی دوسروں کو دینے کے لیے نہ ہو تو آپ صرف اتنا کیجئے کہ آپ دوسروں سے میٹھا بول بولیے، آپ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کیجیے، دوسروں کے حق میں خدا سے دعا کیجئے، یہ سب چیزیں بھی نفع بخشی کا درجہ رکھتی ہیں۔
اگر آپ دوسروں کے لیے کچھ بھی نہ کرسکیں ، تب بھی آپ کے لیے ایک کام ہر حال میں ممکن ہوتا ہے، وہ یہ کہ آپ دوسروں کے لیے بے مسئلہ انسان (no problem person) بن جائیے۔ اگر آپ دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو آپ دوسروں کو نقصان بھی نہ پہنچائیے۔ آپ اِس کا اہتمام کیجئے کہ آپ اپنے ساتھی یا اپنے پڑوسی کے لیے کسی بھی اعتبار سے ناگواری (nuisance) کا سبب نہ بنیں۔ اگر آپ صرف اتنا کریں کہ اپنے کام سے کام رکھیں اور دوسروں کے کام میں دخل نہ دیں، تب بھی آپ دوسروں کے لیے باعث رحمت بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
عرض ہے کہ میں ازدواجی زندگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہوں۔ مجھ کو اپنی بیوی کی طرف سے مسلسل شکایت رہتی ہے۔ وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا ذہنی معیار بہت پست ہے۔ اِس لیے گھر میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے میں سخت قسم کے ذہنی تناؤ میںمبتلا ہوں۔ براہِ مہربانی، میرے اِس مسئلے کا کوئی حل تجویز فرمائیں (ایک قاری الرسالہ، جموں و کشمیر)۔
جواب
آپ جس ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں، اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اِس کا سبب خود اپنے اندر ڈھونڈنا۔ اب تک آپ اس کا سبب فریقِ ثانی کے اندر ڈھونڈتے رہے۔ اب آپ یہ کیجیے کہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیے اور خود اپنے آپ کو بدلیے۔ آپ کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے، اِس کے سوا کوئی اور ممکن حل موجود نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میںجب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، تو وہ فوراً یہ کرتا ہے کہ خود اپنے ذہنی معیار کے مطابق، اُس کا حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ مگر جب اس کے خود ساختہ فارمولے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو وہ فریقِ ثانی کو الزام دینے لگتا ہے۔ اس کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں تو صحیح ہوں، یہ دراصل دوسرا فریق ہے جو مسئلہ پیدا کررہا ہے۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) کا طریقہ ہے، مگر اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ —یہاں آئڈیل ازم کبھی حاصل نہیں ہوتا:
Idealism can not be achieved in this world.
آپ کے لیے ذہنی تناؤ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ پریکٹکل طریقہ ہے، یعنی یہ دیکھنا کہ موجودہ صورتِ حال میں عملی طورپر کیا ممکن ہے، نہ یہ کہ معیاری اعتبار سے کیا ہونا چاہئے۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔ اور ہر مسئلہ صرف حکمت کے ذریعے حل ہوتا ہے۔
پریکٹکل طریقہ اختیار کرنے کا مطلب پسپا ہونا یا شکست قبول کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مقصد اپنے لیے فرصتِ عمل تلاش کرناہے۔ ذہنی تناؤ کے ساتھ کوئی شخص، مواقع کو استعمال (avail) نہیں کرسکتا۔ اِس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی یک طرفہ طورپر ایڈجسٹ کرلے، تاکہ وہ مواقع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرنے کے قابل ہوسکے۔
ذہنی تناؤ ایک قسم کی نفسیاتی خود کُشی ہے۔ ذہنی تناؤ ہمیشہ کسی خارجی سبب سے پیداہوتاہے۔ اور آدمی اُس سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ کو اس کی سزا دینے لگتا ہے۔ ایسی نادانی آپ کیوں کریں۔ اس خود اختیارکردہ سزا سے بچنے کی آسان تدبیر یہ ہے کہ آدمی آئڈیل ازم کو چھوڑ دے، وہ پریکٹکل بن جائے۔ وہ اُس فارمولے کو اختیار کرے جس کو ایک شخص نے مثال کی صورت میں اِس طرح بیان کیا ہے: ’’اگر تم چوکور ہو، اور تم کسی گول خانے پڑجاؤ تواپنے آپ کو گول بنالو‘‘۔ یہ شکست کا فارمولا نہیں ہے، بلکہ وہ فتح کا فارمولا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
سوال
میں کافی عرصے سے مستقل طورپر آپ کے مؤقر علمی اور دعوتی مجلہ ماہ نامہ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میں نے ہر لحاظ سے الرسالہ کو مفید اورچشم کشا پایا ہے۔مدرسہ کے دیگر اساتذہ بھی الرسالہ سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔ ادارے کے بہت سے نزاعی امور کو حل کرنے میں بھی الرسالہ نے ہمیں خالص عملی رہ نمائی دی اور کئی نازک مسائل نہایت احسن طریقے سے حل ہوگئے۔ تاہم ایک چیز جو مجھے آپ سے عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ بسا اوقات آپ ایک انگریزی عبارت نقل کرتے ہیں، مگراس کا ترجمہ درج نہیں ہوتا۔ اِس سے پوری بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر آپ ہر انگریزی عبارت کا ترجمہ بھی تحریر فرمادیں تو ہم جیسے لوگوں کے لیے الرسالہ سے مزید استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا (مولانا محمد شاہد قاسمی، ہریانہ)۔
جواب
ماہ نامہ الرسالہ میںانگریزی عبارتیں بھی ہوتی ہیں اور قرآن اورحدیث کے حوالے بھی۔ اکثر ان کا ترجمہ ساتھ ساتھ موجود رہتا ہے، مگر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا بھول کر نہیں ہوتا، بلکہ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو چاہیے کہ وہ اِس مقصد کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، الرسالہ ایک مشن ہے۔ مشن لازمی طورپر انٹریکشن (interaction) چاہتا ہے۔ بعض اوقات ترجمہ نہ دینے کا مقصد قارئین کے لیے انٹریکشن کے اِنھیں مواقع کو پیداکرنا ہے۔ مثلاً جب الرسالہ میںکوئی انگریزی لفظ یا انگریزی جملے ہوں اوران کا ترجمہ وہاں موجود نہ ہو، تو غیر انگریزی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر آس پا س کے کسی انگریزی داں آدمی سے ملے، اور اُس کے ذریعے سے انگریزی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح، قارئین الرسالہ کی ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوگی اورنتیجۃً ایسی ملاقات مشن کی توسیع کا ذریعہ بن جائے گی۔
اِسی طرح، جب کبھی الرسالہ میں قرآن اور حدیث کا کوئی حوالہ ہو اور وہاں اس کا ترجمہ موجود نہ ہو، تو غیر عربی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر قریب کے کسی عالم سے ملے۔ وہ اُس عالم کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ الرسالہ کے قارئین کا تعلق علما سے بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ان کو بہت سے دینی فوائد حاصل ہوں گے۔
الرسالہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اِس کے قارئین کا عمومی انٹریکشن بڑھے، جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں کا تعلق علما سے قائم ہو، اور اِسی طرح، علما کاتعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں سے قائم ہو۔ اِس طرح، دونوں کے اجتماع سے دینی اور دعوتی فوائد کے علاوہ، ان کے لیے ذہنی ارتقا کا دروازہ کھلے اور وہ زیادہ بہتر طورپر الرسالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں
-1 15 اگست 2008 کی شام کو گڑگاؤں کی ایک کالونی (گرین وڈ کالونی) میں ایک صاحب کے مکان پر ایک تربیتی اجتماع ہوا۔ اِس اجتماع میں الرسالہ مشن سے وابستہ افراد شریک ہوئے۔ یہ پورا پروگرام نیچر کے ماحول میں ہوا۔ پروگرام کے آخر میں تمام شرکا سے فرداً فرداً اُن کا تاثر معلوم کیاگیا۔ انھوںنے اِس دن کے پروگرام سے سیکھی ہوئی ایک ایک نئی بات بتائی۔ آخر میں عصر کی نماز باجماعت ادا کی گئی اور دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔
-2 16 اگست 2008 کی شام کو گڈورڈ (Goodword)اور سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)کی طرف سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میںایک پروگرام رکھاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کے خطاب کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ اِس کا عنوان یہ تھا— روحانی شخصیت کی تعمیر:
How to develope a spiritual personality.
اِس عنوان کے تحت، صدر اسلامی نے ایک گھنٹہ تقریر کی اور روحانی شخصیت کی تعمیر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ تقریر کے بعد آدھ گھنٹے سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ حاضرین میں ہندو اور مسلم دونوں طبقے کے لوگ موجود تھے، البتہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ہندو افراد کی اکثریت تھی۔ حاضرین میں اٹلی اور لندن اور برطانیہ کے افراد بھی شریک تھے۔ پروگرام کے اختتام پر تمام لوگوں نے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ حاضرین کے درمیان انگریزی میں چھپا ہوا خوب صورت بروشر اور پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا، اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
-3 20 اگست 2008 کو سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں ایک پروگرام تھا۔ یہ پروگرام انڈیا کے مختلف نوودیہ ودیالیہ کے پرنسپل حضرات کے لیے کیاگیا تھا۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس پروگرام میںشرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر ایک تقریر کی — اسلام میں بنیادی انسانی اقدار:
Basic Human Values in Islam
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ پروگرام کے خاتمہ پر حاضرین کے درمیان اسلامی مرکز کے تحت چھپا ہوا خوب صورت انگریزی لٹریچر تقسیم کیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
-4 اٹلی کی ایک مسیحی تنظیم (Community of St. Egidio) کے تقریبا 20 ممبر ان دہلی آئے۔ ان کی درخواست پر انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) کے کانفرنس روم نمبر 3 میں ایک خصوصی اجتماع کیاگیا۔ یہ پروگرام
-5 نئی دہلی کے ہفت روزہ انگریزی میگزین (The Sunday Indian) کے نمائندہ مسٹر رنجیت بھوشن نے
-6 نئی دہلی کے ٹی وی پی ایس بی ٹی (PSBT) کے زیر اہتمام انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں
-7 نئی دہلی کے ڈی ڈی نیوز(DD News) ٹی وی نے
-8 ماہ نامہ الرسالہ کا شمارہ اکتوبر 2008 صومِ رمضان کے موضوع پرشائع ہوا ہے۔ اِس شمارے سے رمضان کے مختلف پہلوؤں پر چار بروشر بنائے گئے— روزہ کی حقیقت، روزہ اور قرآن ، روزہ اور اخلاق، عید الفطر اور رمضان۔ اردو زبان میں چھپے ہوئے یہ خوب صورت بروشر رمضان کے مہینے میں بڑی تعداد میںمختلف مساجد میں تقسیم کیے گئے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
-9 ایک خط : محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں پہلے دن سے الرسالہ پڑھتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے، الرسالہ کا مقصد بخوبی طورپر جانتا ہوں۔ میری زندگی میں اِس کے کئی واقعات ہیں۔ اُس میں سے ایک واقعہ جو حال میں پیش آیا، وہ آپ کو لکھ رہا ہوں۔ میری تھوڑی سی کھیتی ہے۔ آپ بھی 1975 میں وہاں آچکے ہیں۔ میری اِسی کھیتی میں ایک آدمی کئی دن سے چھپ چھپ کر اپنا جانور چَرا رہا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں وہاں پہنچ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔ میں غصے سے بے قابو ہوگیا۔ میں نے اُس آدمی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس کے ہاتھ میںایک ریڈیو تھا۔ وہ میں نے اُس کے ہاتھ سے چھین لیا اوروہاں سے اُس کو بھگا دیا۔کچھ دیر کے بعد جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو میرے دل نے کہا کہ تم نے یہ غلط کام کیا ہے۔ اب میرے سامنے وہ آدمی نہیں رہا، بلکہ خدا میرے سامنے آگیا۔ میں سوچنے لگا کہ میں تقریباً تیس سال سے الرسالہ پڑھ رہا ہوں۔ میں قرآن کو پڑھتا ہوں۔ مجھ میں اور اُس گنوار آدمی میں کیا فرق رہا۔ یہ سوچ کر میں بے چین ہوگیا۔ میںاُس آدمی کے گھر گیا۔ میںنے اُس سے معافی مانگی اور اس کا ریڈیو اس کو واپس کردیا—یہ سب الرسالہ کی مثبت تربیت کا نتیجہ تھا کہ میں نے بلا جھجھک اُس آدمی سے معافی مانگ لی اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا (کشن جے ونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، مہاراشٹر، یکم ستمبر 2008)۔
10- My heartfelt appreciation of Maulana Wahiduddin Khan’s excellent analysis of “Modern Atheism” (Al-Risala, August 2008, Page 23). In many years this is the first Urdu article on a complex subject that has provided our Urdu readers with a to-the-point analysis of the trends that are confusing Man’s intellectual horizons. Maulana Wahiduddin Saheb has covered in less than three pages the entire history of intellectual journey of different philosophical theories which in a stand alone position appeared to be an enormous truth, but in their own self analysis did not provide any logical compelling reason for that “Cause”. I will pray for the health, and longevity of Maulana Saheb. May Allah enhance his darajat and bless him with the sense of His ‘eternal knowledge’. Ameen. If you permit me, I would then give it to a respectable Urdu newspaper. The English translation would also be very helpful to that young generation of Muslim Americans that does not know Urdu. (Syed Wahajuddin Ahmed, Chicago, July 21, 2008)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.