خبرنامہ اسلامی مرکز— 190
-1 15 اگست 2008 کی شام کو گڑگاؤں کی ایک کالونی (گرین وڈ کالونی) میں ایک صاحب کے مکان پر ایک تربیتی اجتماع ہوا۔ اِس اجتماع میں الرسالہ مشن سے وابستہ افراد شریک ہوئے۔ یہ پورا پروگرام نیچر کے ماحول میں ہوا۔ پروگرام کے آخر میں تمام شرکا سے فرداً فرداً اُن کا تاثر معلوم کیاگیا۔ انھوںنے اِس دن کے پروگرام سے سیکھی ہوئی ایک ایک نئی بات بتائی۔ آخر میں عصر کی نماز باجماعت ادا کی گئی اور دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔
-2 16 اگست 2008 کی شام کو گڈورڈ (Goodword)اور سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)کی طرف سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میںایک پروگرام رکھاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کے خطاب کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ اِس کا عنوان یہ تھا— روحانی شخصیت کی تعمیر:
How to develope a spiritual personality.
اِس عنوان کے تحت، صدر اسلامی نے ایک گھنٹہ تقریر کی اور روحانی شخصیت کی تعمیر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ تقریر کے بعد آدھ گھنٹے سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ حاضرین میں ہندو اور مسلم دونوں طبقے کے لوگ موجود تھے، البتہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ہندو افراد کی اکثریت تھی۔ حاضرین میں اٹلی اور لندن اور برطانیہ کے افراد بھی شریک تھے۔ پروگرام کے اختتام پر تمام لوگوں نے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ حاضرین کے درمیان انگریزی میں چھپا ہوا خوب صورت بروشر اور پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا، اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
-3 20 اگست 2008 کو سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں ایک پروگرام تھا۔ یہ پروگرام انڈیا کے مختلف نوودیہ ودیالیہ کے پرنسپل حضرات کے لیے کیاگیا تھا۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس پروگرام میںشرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر ایک تقریر کی — اسلام میں بنیادی انسانی اقدار:
Basic Human Values in Islam
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ پروگرام کے خاتمہ پر حاضرین کے درمیان اسلامی مرکز کے تحت چھپا ہوا خوب صورت انگریزی لٹریچر تقسیم کیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
-4 اٹلی کی ایک مسیحی تنظیم (Community of St. Egidio) کے تقریبا 20 ممبر ان دہلی آئے۔ ان کی درخواست پر انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) کے کانفرنس روم نمبر 3 میں ایک خصوصی اجتماع کیاگیا۔ یہ پروگرام 23 اگست 2008 کی شام کو ہوا۔ اِس میں مذکورہ ممبران کے علاوہ، دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شریک ہوئے۔ اِس کے تحت، صدر اسلامی مرکز نے ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ پروگرام کے خاتمہ پر حاضرین کے درمیان انگریزی ترجمۂ قرآن اور اسلامی لٹریچر تقسیم کیاگیا۔
-5 نئی دہلی کے ہفت روزہ انگریزی میگزین (The Sunday Indian) کے نمائندہ مسٹر رنجیت بھوشن نے 25 اگست 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویومسلم ایکسٹریم ازم (Muslim Extremism) کے موضوع پر تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلم ایکسٹریم ازم دراصل موجودہ سیاسی حالات کا ایک ردّ عمل ہے۔ اِس میں شدت اِس لیے آئی کہ کچھ لوگوں نے اسلام کا پولٹکل انٹرپریٹیشن کرکے اس کو عقیدہ کا مسئلہ بنادیا۔ انھوںنے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ اِس کے بغیر اُن کوجنت نہیں ملے گی۔ بتایا گیا کہ ہمارا مشن خاص طورپر یہی ہے کہ اِس ایکسٹریم ازم کو نظریاتی اعتبار سے ختم کیاجائے۔
-6 نئی دہلی کے ٹی وی پی ایس بی ٹی (PSBT) کے زیر اہتمام انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 16 ستمبر 2008 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں دہلی کے اعلی تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے ۔ اِس کا موضوع ’صوفی ازم‘ (Sufism) تھا۔ اس کی دعوت پر صد اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ صوفی ازم کے دو خاص پہلو ہیں جو آج بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں— اسپریچویلٹی (spirituality)اور پیس(peace)۔ اسپریچویلٹی کا تعلق فرد سے ہے، اور پیس کا تعلق سماج سے۔
-7 نئی دہلی کے ڈی ڈی نیوز(DD News) ٹی وی نے 16 ستمبر 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر ونود کمار چودھری تھے۔ اس تفصیلی انٹرویو کا موضوع تھا— رمضان کا پیغام، اور تشدد کے بارے میں اسلام کی تعلیم۔ اِن دونوں موضوعات پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا۔
-8 ماہ نامہ الرسالہ کا شمارہ اکتوبر 2008 صومِ رمضان کے موضوع پرشائع ہوا ہے۔ اِس شمارے سے رمضان کے مختلف پہلوؤں پر چار بروشر بنائے گئے— روزہ کی حقیقت، روزہ اور قرآن ، روزہ اور اخلاق، عید الفطر اور رمضان۔ اردو زبان میں چھپے ہوئے یہ خوب صورت بروشر رمضان کے مہینے میں بڑی تعداد میںمختلف مساجد میں تقسیم کیے گئے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
-9 ایک خط : محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں پہلے دن سے الرسالہ پڑھتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے، الرسالہ کا مقصد بخوبی طورپر جانتا ہوں۔ میری زندگی میں اِس کے کئی واقعات ہیں۔ اُس میں سے ایک واقعہ جو حال میں پیش آیا، وہ آپ کو لکھ رہا ہوں۔ میری تھوڑی سی کھیتی ہے۔ آپ بھی 1975 میں وہاں آچکے ہیں۔ میری اِسی کھیتی میں ایک آدمی کئی دن سے چھپ چھپ کر اپنا جانور چَرا رہا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں وہاں پہنچ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔ میں غصے سے بے قابو ہوگیا۔ میں نے اُس آدمی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس کے ہاتھ میںایک ریڈیو تھا۔ وہ میں نے اُس کے ہاتھ سے چھین لیا اوروہاں سے اُس کو بھگا دیا۔کچھ دیر کے بعد جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو میرے دل نے کہا کہ تم نے یہ غلط کام کیا ہے۔ اب میرے سامنے وہ آدمی نہیں رہا، بلکہ خدا میرے سامنے آگیا۔ میں سوچنے لگا کہ میں تقریباً تیس سال سے الرسالہ پڑھ رہا ہوں۔ میں قرآن کو پڑھتا ہوں۔ مجھ میں اور اُس گنوار آدمی میں کیا فرق رہا۔ یہ سوچ کر میں بے چین ہوگیا۔ میںاُس آدمی کے گھر گیا۔ میںنے اُس سے معافی مانگی اور اس کا ریڈیو اس کو واپس کردیا—یہ سب الرسالہ کی مثبت تربیت کا نتیجہ تھا کہ میں نے بلا جھجھک اُس آدمی سے معافی مانگ لی اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا (کشن جے ونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، مہاراشٹر، یکم ستمبر 2008)۔
10- My heartfelt appreciation of Maulana Wahiduddin Khan’s excellent analysis of “Modern Atheism” (Al-Risala, August 2008, Page 23). In many years this is the first Urdu article on a complex subject that has provided our Urdu readers with a to-the-point analysis of the trends that are confusing Man’s intellectual horizons. Maulana Wahiduddin Saheb has covered in less than three pages the entire history of intellectual journey of different philosophical theories which in a stand alone position appeared to be an enormous truth, but in their own self analysis did not provide any logical compelling reason for that “Cause”. I will pray for the health, and longevity of Maulana Saheb. May Allah enhance his darajat and bless him with the sense of His ‘eternal knowledge’. Ameen. If you permit me, I would then give it to a respectable Urdu newspaper. The English translation would also be very helpful to that young generation of Muslim Americans that does not know Urdu. (Syed Wahajuddin Ahmed, Chicago, July 21, 2008)
11 - دہلی میں الرسالہ مشن کے بعض ساتھیوں نے دعوت کا ایک نیا تجربہ کیا۔ وہ اپنے علاقے کے قریبی بینک، میڈیکل اسٹور اور اے ٹی ایم (ATM) کے ذمے داروں سے ملے۔ انھوںنے ذمے داروں کو ہمارے یہاں سے چھپا ہوا لٹریچر پیش کیا اور کہا کہ سر، اگر آپ اجازت دیں تو ہم ’’پیس اور اسپریچولٹی‘‘ پر مشتمل یہ لٹریچر آپ کے یہاں رکھ دیں، تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے بہت خوشی سے اجازت دے دی۔ اب ہمارے ساتھیوں نے یہ کیا کہ مارکیٹ سے انھوں نے ایک خوب صورت ٹرانس پیرنٹ اسٹینڈ حاصل کیا اور اس میں بروشر اور لیفلٹس رکھ کر اُن جگہوں پر پہنچا دیا۔ یہ تجربہ بہت کامیاب ثابت ہوا۔ معلوم ہوا کہ صبح کو جو لٹریچر رکھاگیا تھا، وہ شام تک ختم ہوگیا۔ ہمارے دوسرے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ اِس دعوتی تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں۔ البتہ جو لوگ اِس کا م کو شروع کریں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کامل ذمے داری اور ڈسپلن کے ساتھ اِس کو انجام دیںاور ان مقامات کی مسلسل نگرانی کریں۔ مثلاً لٹریچر ختم ہوجانے کی صورت میں وہ اپنی ذمے داری پر دوبارہ وہاں لٹریچر پہنچائیں۔
واپس اوپر جائیں