قرآن کی سورہ نمبر
اِس آیت میں مہجور سے مراد متروک ہے، یعنی قرآن کو ماننے کے باوجود اُس کو ایک متروک کتاب (discarded book) بنا دینا۔ قرآن کے الفاظ پر غور کیجئے، تو اِس میں دوگروہوں کا ذکر ہے— قومِ کفر، اور قومِ رسول۔ قومِ کفر سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوںنے پیغمبر کی دعوت نہیں مانی اور آخروقت تک انکار کی روش پر قائم رہے۔ قومِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کی دعوت کو قبول کیا، مگر ان کے بعد کی نسلیں اُس پر قائم نہ رہ سکیں۔
قیامت میں پیغمبر دونوں گروہوں کے بارے میں خدا کی عدالت میں اپنا بیان دے گا۔ ایک گروہ کے بارے میں پیغمبر اپنا بیان دیتے ہوئے کہے گا کہ انھوں نے میری دعوت کو نہیں مانا، وہ اہلِ انکار کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ اِسی کے ساتھ اُن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے میری دعوت کو قبول کیا اور اِس طرح وہ اہلِ اقرار کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ لیکن ان کی بعد کی نسلیں اِس ایمانی روش پر قائم نہ رہیں۔ بظاہر وہ خدا کی کتاب کو مانتے تھے، لیکن عملاً وہ خدا کی کتاب سے بہت دور چلے گئے —جولوگ زبان سے قرآن کو مانیں، مگر عملی طورپر وہ اس کو ترک کیے ہوئے ہوں، وہی وہ لوگ ہیں جنھوںنے قرآن کو کتابِ مہجور بنادیا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
Nay, but you love the present life, and neglect the hereafter.
کوئی انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ اِس دنیا میں ہر طرف اس کے لیے مختلف قسم کے مواقع (opportunities) موجود ہیں۔ وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے کے لیے اُن کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی جانور ہری گھاس کو دیکھ کر اس کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اِن مواقع کے ذریعے وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرلے۔
یہ سب سے بڑی بھول ہے، جس میں ہر انسان مبتلا ہے۔ موجودہ دنیا کے مواقع اِس لیے نہیں ہیں کہ اُن کے ذریعے صرف وقتی قسم کے دنیوی فائدے حاصل کیے جائیں، بلکہ یہ مواقع اِس لیے ہیں، تاکہ انسان اُن کی مدد سے وہ اعلیٰ کام کرے، جو آخرت میںاُس کے لیے مفید بننے والا ہو۔ مثلاً کسی کے پاس مال ہے تو وہ اِس لیے نہیں ہے کہ وہ اُس کے ذریعے اپنی خواہشوں کو پورا کرے۔ وہ سماج کے اندر اپنے اسٹیٹس (status) کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے۔ وہ اعلیٰ معیار کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ بلکہ مال کا صحیح مصرف یہ ہے کہ — بقدر ضرورت وہ اس کو اپنے پاس رکھے، اور بقیہ مال کو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا کام۔
موجودہ دنیا عارضی ہے، اور بعد کو آنے والی دنیا ابدی۔ مگر عجیب بات ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ عارضی دنیا کی ترقی اور خوش حالی میں لگا دیتا ہے، لیکن آخرت کی ابدی زندگی کے معاملے کو وہ اِس طرح چھوڑے ہوئے ہوتا ہے، جیسے کہ وہ کبھی پیش آنے والا ہی نہیں۔دانش مند وہ ہے جو آخرت کی فکر میں جیے، اور نادان وہ ہے جو آخرت کی فکر سے غافل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے: یٓأیہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء:
دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ایمان باللّسان کے بعد اپنے ایمان کو داخلُ القلب ایمان بناؤ، وہ ایمان جو تمھاری پوری شخصیت میں شامل ہوجائے، جس طرح رنگ پانی کے اندر پوری طرح شامل ہوجاتاہے (البقرۃ:
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان، یا معرفتِ حق کے دو درجے ہیں— ابتدائی معرفت، اور اعلیٰ معرفت۔ اِسی اعتبار سے، جنت کے بھی دو بڑے درجے ہیں (الرحمن:
واپس اوپر جائیں
قرآن میںامر کی زبان میں جو احکام دیے گئے ہیں، اُن میں سے ایک حکم وہ ہے جس کے لیے ذکر ِ کثیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ حکم قرآن کی مختلف آیتوں میں ہے۔ اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذِکراً کثیراً (الأحزاب:
ذکر کے لفظی معنیٰ ہیں— یاد کرنا(to remember) ۔ یاد ایک معنوی حقیقت ہے، نہ کہ صرف ایک لفظی حقیقت۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ انسان جب کسی کو یاد کرتا ہے تو وہ اس کو الفاظ کے وسیلے سے یاد کرتاہے۔ مثلاً جب زید کو یاد کرنا ہو تو پہلے آدمی کے ذہن میں زید کا لفظ آئے گا۔ مگر یاد کے معاملے میں لفظ کی حیثیت صرف اضافی (relative) ہے، نہ کہ حقیقی (real) ۔ اِسی طرح، جب آپ زید کو یاد کریں تو آپ کے ذہن میںایک انسان کا تصور آئے گا۔ اور جب آپ خداوند ِ ذوالجلال کو یادکریں تو فطری طورپر آپ کے ذہن میں اُس عظیم ہستی کا تصور آئے گا جو سارے زمین وآسمان کا خالق اور مالک ہے، جس کے آلاء (الأعراف:
حدیث کی مختلف کتابوں میںحضرت عائشہ کی یہ روایت آئی ہے کہ: کان رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم یذکر اللہَ علیٰ کل أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب: ہل یَتَتبّعُ المؤذّن) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع (occasion) پر اللہ کو یاد کرتے تھے۔ اِس روایت کے مطابق، ذکر ِکثیر یہ ہے کہ ہر تجربہ اور مشاہدہ آدمی کے اندر خدا کی سوچ پیدا کردے، اس کے اندر خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) پیدا ہوجائے۔ پورا عالمِ کون (nature) اس کے لیے خدا کی یاد دلانے والا بن جائے۔یہ ذکر ِ کثیر کسی قسم کے تکرارِ الفاظ کا نام نہیں۔ ذکر ِکثیر کا فطری طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ زندگی کے مختلف حالات کے درمیان وہ ہر چیز میں خدا کی یاد کا تجربہ کرنے لگے، ہر چیز اس کے لیے یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
جو شخص دنیا میں خدا کی پکڑ سے ڈرا، آخرت میں وہ ڈر والی زندگی سے محفوظ رہے گا اور اپنے صالح اہل و عیال کے ساتھ جنت کی بے خوف زندگی گزارے گا۔ اِس کے برعکس حال اُن لوگوں کا ہوگا جو دنیا میں خدا سے بے خوف تھے اور آخرت کی پکڑ سے بے پروا ہو کر اپنے اہل وعیال کے درمیان مگن رہتے تھے (المطففین:
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص اگر دنیا میں صالح زندگی اختیار کرے اور اپنے آپ کو جنت کے اعلیٰ درجے کا مستحق بنائے، تو اس کی صالح ذریت کو اَپ گریڈ (upgrade) کرکے یک جا طور پر جنت کے اعلیٰ درجات میں داخل کردیا جائے گا (الطّور:
دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک، یہ کہ اپنے گھر والوں کے درمیان آخرت کا فکر مند بن کر رہنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںجنت کی بے خوف دنیا میں داخلے کا موقع ملے گا۔ اِس کے برعکس، جو لوگ اپنے گھر والوں کے درمیان اِس طرح رہیںکہ ان کو آخرت کی کوئی پروا نہ ہو، وہ خدا کی پکڑ سے بے خوف ہوکر اپنے گھر والوں کے درمیان خوش و خرم زندگی گزاریں، وہ آخرت کی دنیا میں دوبارہ خوشیوں کی زندگی سے محروم رہیں گے— جو شخص دنیا میں ڈرا، اس کو آخرت میںدوبارہ ڈرایا نہیں جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
خدا نے جب انسانِ اوّل آدم کو پیدا کیا تو اُن کو ابتداء ً ایک جنت (باغ) میں بسایا گیا۔ اُن سے کہا گیا کہ یہاںتم آزادی کے ساتھ رہو، لیکن تم فلاں درخت کے پاس نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا (البقرۃ:
تاہم جہاں تک آزمائش کا تعلق ہے، وہ بدستور باقی ہے، البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ ابتدائی جنت میں ایک شجرِ ممنوعہ تھا، جب کہ موجودہ زمین پر اشجارِ ممنوعہ کا ایک جنگل اگا ہوا ہے۔ جنت کی طرف انسان کی دوبارہ واپسی اِسی شرط پر ہوگی کہ وہ ممنوعہ درخت کا پھیل نہ کھائے۔ انسان کو اِس شرط پر پورا اترنے کے لیے بہت زیادہ محتاط (cautious) بننا ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلے اگر ایک درخت سے دور رہنا تھا، تو اب درختوں کے جنگل سے دور رہنا اس کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو جن حرام چیزوں سے بچنا ہے، ان کی ایک فہرست وہ ہے جو باقاعدہ نام کے ساتھ قرآن اور حدیث میں دے دی گئی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ایسی چیزوں کی فہرست بہت لمبی ہوگئی ہے جو انسان کو بھٹکانے والی اور اس کو صراطِ مستقیم سے دور کردینے والی ہیں۔
اِن ممنوعہ چیزوں کی کوئی کامل فہرست نہیں دی جاسکتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ نہایت ہوش مندی کے ساتھ دنیا میں رہے اور جب بھی اس کے سامنے کوئی ایسی چیز آئے جو اس کے لیے صراطِ مستقیم سے انحراف (distraction) کا ذریعہ بننے والی ہو، تو وہ اس کو پہچان لے اور اس سے کامل طورپر دور رہے۔
اِس دنیا میں ہر وہ چیز شجر ِممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے ہٹائے اور آخرت کی پکڑ سے اس کو غافل کردے۔ جو آدمی اپنا محاسب آپ بنے، وہی اِن اشجارِ ممنوعہ سے بچ سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی اِس آیت میں ’فسق‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فسق کے لفظی معنیٰ— انحراف (deviation) کے ہیں، یعنی فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ جانا۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے اوپر خدا کا عذاب کب آتا ہے۔ اُس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ سماج کے خوش حال افراد بے خوفی کا شکار ہو کر، خدا کے مقرر راستے سے ہٹ جاتے ہیں، وہ خدا کے نافرمان بن جاتے ہیں۔ اِس انحراف کا آغاز سماج کے خوش حال طبقے سے ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ عام لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ انسانی گروہ اِس بات کا جواز (justification)کھو دیتا ہے کہ اُس کو اِس زمین پر مزیدزندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ چناں چہ پیغمبروں کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد اُس کو تباہ کردیا جاتا ہے۔
یہ اصول موجودہ زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر قابلِ انطباق ہوگیاہے۔ موجودہ زمانے میں انسان کے انحراف نے ایک مکمل تہذیب کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ اب انسان نے اپنے منحرفانہ طرزِحیات کے لیے پورا ایک فلسفہ وضع کرلیا ہے۔ اِس طرح، انسان کا فسق اب اپنے آخری اور عالمی درجے تک پہنچ چکا ہے۔بظاہراب انسان نے اپنا یہ حق کھو دیا ہے کہ وہ موجودہ زمین پر مزید عرصے کے لیے باقی رہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جو تدمیر (destruction)علاقائی سطح پر ہوتی تھی، اب وہ عالمی سطح پر ہونے والی ہے، یعنی وہی وقت جس کو قرآن میں قیامت کہا گیا ہے۔ قیامت کا مطلب ہے— امتحانی دورِ حیات کا خاتمہ اور اُس دوسرے دورِ حیات کا آغاز جب کہ ہر عورت اور مرد کو اس کے عمل کے مطابق، سزا یا انعام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی 610 عیسوی میں اتری۔ اُس کے الفاظ یہ تھے: إقرأ باسم ربّک الّذی خلق (العلق: 1 ) اقرأکے لفظی معنٰی ہیں— پڑھو، لیکن اِس میں پڑھاؤ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ کیوں کہ جب آدمی سچائی کو دریافت کرتا ہے تو فطری طورپر وہ چاہتا ہے کہ اِس سچائی سے وہ دوسروں کو بھی آگاہ کرے۔ اِس اعتبار سے، اِس آیت کا مطلب ہے— پڑھو اور پڑھاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا۔ آپ، لوگوں کو اسلام کی دعوت پیش کرتے اور ان کے سامنے قرآن پڑھ کر سناتے (فعرضَ علیہم الإسلام، وقرأ علیہم القرآن)۔ گویا کہ آپ قرآن کے قاری بھی تھے اور اُس کے مقری بھی۔ ہجرت سے پہلے، صحابی ٔ رسول مصعب بن زبیر (وفات: 690 ء) دعوتی مشن کے تحت، مدینہ گئے۔ وہاں اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قرآن کو یاد رکھتے اور اُس کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے۔ چناںچہ وہ مقری کہے جانے لگے (وکان یُدعیٰ المُقرئ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیک وقت قاری بھی تھے اور مقری بھی۔
اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب یہی کام ہم کو مطبوعہ دعوتی لٹریچر کے ذریعہ کرنا ہے، ایسا دعوتی لٹریچر جو وقت کی زبان میں ہو، جو جدید ذہن کو ایڈریس کرے۔ اِس قسم کا لٹریچر، بروشر اور پمفلٹ، موجودہ زمانے میں دعوت کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کا یہ دعوتی فرض ہے کہ اُس کی جیب میں، یا اس کے بیگ میں اِس قسم کا خوب صورت چھپا ہوا لٹریچر موجودہو اور جب اُس کو کوئی شخص ملے، تو وہ فوراً اُس کواس لٹریچر کی ایک کاپی پیش کردے۔ یہ کام ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مرد کو کرنا ہے، اور ساری دنیا میں کرنا ہے۔
دعوتی فریضے کی ادائیگی کی یہ کم سے کم صورت ہے۔ مسلمان، ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں۔ اگر وہ دعوت الی اللہ کا پیغمبرانہ فریضہ ادا نہ کریں، تو دوسری کوئی بھی چیز اُن کو خدا کی پکڑ سے بچانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
رہبانیت (monasticism) کیا ہے۔ رہبانیت دراصل، خدا کی طلب میں دنیا کو چھوڑنے کا نام ہے۔ اِسی لیے ایسے افراد کو تارک الدنیا کہا جاتا ہے۔ رہبانیت کا فلسفہ یہ ہے کہ ترکِ دنیا سے خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے۔اِسی ذہن کے تحت لوگوں نے وہ طریقے ایجاد کیے جن کو تجرد اور میڈی ٹیشن اور مراقبہ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اِسی ذہن کی انتہا پسندانہ صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں چلاجائے اور وہاں وہ روحانی ورزشوں کے ذریعے خدا کی قربت تلاش کرے۔ اِسی کے اثر سے، مسلمانوں کے اندر تصوف یا صوفی ازم کا نظریہ پیدا ہوا۔
اسلام میں اِس قسم کی رہبانیت نہیں (لارَہبانیّۃَ فی الإسلام۔مسند احمد، جلد 6، صفحہ
قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے (الملک: 2 )۔ یہاں ملنا بھی آزمائش ہے اور نہ ملنا بھی آزمائش۔ اسلامی رہبانیت یہ ہے کہ آدمی کی سوچ اتنی بلند ہوجائے کہ وہ دونوں حالتوں پر یکساں طورپر راضی رہے، وہ منفی تجربات کو بھی مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے، وہ دنیا میں رہتے ہوئے مکمل طورپر آخرت کا طالب بن جائے، وہ انسانوں کے درمیان اِس طرح رہے کہ ہر چیز اُس کو خدا کی یاد دلانے والی بنی ہوئی ہو۔ ایسے افراد کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (الفجر:
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کو وہاں کا رزق دیا جائے گا تو اُس کو پاکر وہ کہیں گے کہ—یہ تو وہی ہے جو ہم کو اِس سے پہلے دنیا میں دیا گیا تھا۔ اور اُن کو جنت میں متشابہ رزق دیا جائے گا (البقرۃ:
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو دنیائیں ایک دوسرے کے مشابہ پیدا کیں۔ ایک موجودہ دنیا، اوردوسری جنت والی دنیا۔ موجودہ دنیا امتحان (test) کے لیے ہے اور اگلی دنیا انجام (reward) کے لیے۔ موجودہ دنیا ناقص ہے اور آخرت کی دنیا کامل۔ یہ غیر معیاری ہے اور وہ معیاری۔ یہ ناپائدار ہے اور وہ پائدار۔ قرآن کے الفاظ میں، یہاں خوف اور حزن ہے اور دوسری دنیا خوف اور حزن سے مکمل طورپر خالی ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بار بار یہ تجربہ ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ بظاہر یہاں موجود ہے، اِس کے باوجود وہ آدمی کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ آدمی صحت چاہتا ہے، مگر بیماری، حادثہ اور بڑھاپا اُس کی تمناؤں کی نفی کردیتے ہیں۔ آدمی لذت چاہتا ہے، مگر ہزار کوشش کے بعد جب وہ سامانِ لذت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ وہ اُس سے انجوائے نہیں کرسکتا۔ آدمی خوشیوں سے بھری ہوئی زندگی چاہتا ہے، مگر خوشیوں کے باغ میں داخل ہو کر وہ دریافت کرتا ہے کہ یہاں خوشیوں کا باغ طرح طرح کے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ آدمی کو یہاں جنت کاتعارف صرف دور سے دیا جاتا ہے۔ یہاں آدمی کو جنت کی ایک جھلک تو دکھائی جاتی ہے مگر اسی کے ساتھ اس کو یہ بتایاجاتا ہے کہ جنت تمھیںاس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ تمھارے لیے مقدر ہے کہ یہاں تم جنت کے لیے کوشش کرو اور اگلے مرحلۂ حیات میں جنت کو عملاً حاصل کرو۔ موجودہ دنیا میں آدمی سے عمل مطلوب ہے۔ اسی کے ساتھ ابتدائی جھلک کی صورت میں اُس کو دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر تم عمل میں پورے اترے تو وہ کون سی دنیا ہے جہاں تمھیں اس کے نتیجے میں داخلہ دیا جائے گا، موجودہ دنیا تعارفِ جنت کا مقام ہے اور اگلی دنیا حصولِ جنت کا مقام۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
نصوح یا ناصح کے معنی خالص کے ہیں۔ کہاجاتا ہے : ہذا عسل ناصحٌ، یعنی یہ خالص شہد ہے۔ توبۂ نصوح کا مطلب خالص توبہ یا سچی توبہ ہے۔مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ علما نے توبۂ نصوح کے
آدمی کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو اپنی گنہ گاری کا احساس ہو۔ وہ اپنے دل میں شدید طور پر شرمندہ (repentant)ہو اور پختہ عزم کے ساتھ وہ خدا کی طرف رجوع کرلے تو اسی کا نام توبۂ نصوح ہے۔
آدمی اگر حقیقی طورپر توبۂ نصوح کرے تو اس کے بعد اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ اس کی سوچ کا رخ پہلے اگر غیر اللہ کی طرف تھا تو اب وہ اللہ کی طرف ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر سنجیدہ تھا تو اب وہ سنجیدہ ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر ذمے دارانہ زندگی گزارتا تھا تو اب وہ ذمے دارانہ زندگی گزارنے لگے گا۔ پہلے اگر وہ اپنے قول و عمل میںآزاد تھا تو اب وہ اپنے قول و عمل کا سخت پابند ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت سے بے خوف تھا تو اب وہ آخرت کے اندیشے میں زندگی گزارنے لگے گا— حقیقی توبہ آدمی کو بدل دیتی ہے اور جو توبہ آدمی کو بدل ڈالے، وہی توبۂ نصوح ہے۔
واپس اوپر جائیں
روایات میں آیا ہے کہ ایک شخص، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااور یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی (متی الساعۃ)۔ آپ نے جواب دیا کہ — جب امانت ضائع کی جانے لگے تو اُس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (فإذا ضُیّعت الأمانۃ فانتظر السّاعۃ )۔ آنے والے نے پوچھا کہ امانت ضائع کیا جانا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب عہدے نا اہل لوگوں کو دیے جانے لگیں، تو اس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (إذا وُسّد الأمر إلی غیر أہلہ فانتظر الساعۃ) صحیح البخاری، کتاب العلم، باب مَن سُئل علماً۔
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میںاُس آخری دور کا ذکر ہے، جب کہ دنیا میں عمومی بگاڑ آجائے گا۔ اِسی عمومی بگاڑ کا یہ نتیجہ ہوگا کہ تمام عہدوں پر نا اہل افراد قابض ہوجائیں گے۔ وہ اپنے منصب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں گے، نہ کہ اپنی ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے۔ ایسا کب ہوگا۔ ایسا اُس وقت ہوگا جب کہ سماج میں صرف نا اہل افراد باقی رہ جائیں۔
اِس حدیث میں دراصل اُس وقت کا ذکر ہے، جب کہ عمومی بگاڑ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گا، جب کہ غلط کام کرنے والا اپنے غلط کام کو اچھا سمجھے گا، جب غلط کام کرنے والوں کو کوئی روکنے والا نہ ہوگا، جب منافقانہ باتوں کا عمومی رواج ہوجائے گا، جب غلط قسم کے لوگوں کو سماج میں غلبہ حاصل ہوجائے گا، جب لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کو جانیں گے، نہ کہ اپنی ذمہ داریوں کو۔
موجودہ زمانے میں وہ حالات پوری طرح ظاہر ہوچکے ہیں جن کو قربِ قیامت کی علامت کہاجاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ نظریاتی جواز (ideological justification) کے تحت، برائیاں کی جارہی ہیں۔ بظاہر اب اِس کا امکان ختم ہوچکا ہے کہ لوگ اپنے رویّے پر نظر ثانی کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ جب انسان کا یہ حال ہوجائے تو موجودہ زمین پر انسان کی آبادی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد جو اگلا مرحلہ ہے، وہ وہی ہے جس کو قیامت اور روزِ جزا (Day of Judgement) کہاجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ اپنے مہمان کے کھانے پینے کے لیے غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور اُس پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ یہ اسراف ہے اور وہ اپنے وقت اور مال کا ضیاع ہے، تووہ کہیں گے کہ یہ تو شریعت کی تعلیم ہے۔ شریعت میں ’اکرامِ ضیف‘ کا حکم دیا گیا ہے، اِس لیے ہم ایسا کرتے ہیں۔
مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ شریعت میں جس اکرامِ ضیف کا حکم ہے، وہ صرف بقدرِ ضرورت ہے، نہ کہ بقدرِ تکلف۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میںاکرامِ ضیف کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلْیکرم ضیفہ) ۔ مگر اکرام کا مطلب ہر گز تکلف نہیں۔ اکرام سادہ معنوں میں ایک انسانی اور اخلاقی نوعیت کی چیز ہے، نہ کہ کوئی نمائش اور تکلف کی چیز۔
مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ : نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن نتکلف للضّیف (الجامع الصغیر ، جلد 2 ، صفحہ 1159 ) یعنی رسول اللہ نے ہم کو اِس بات سے منع فرمایا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف کریں۔ اِسی طرح، ایک اورروایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أناوأتقیائُ أمّتی بُرآئُ من التکلف ( کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مہمان کی آمد کے موقع پر جوتکلف کیا جاتا ہے، وہ حقیقۃً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت موجود ہو، وہ کبھی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں
ہر انسان جو اِس دنیا میں پیدا ہوتاہے، وہ بہر حال ایک مختصر مدت کے بعد مرنے والا ہے۔ اِس کے بعد ہر عورت اور ہر مرد کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اِس کے بعد خدا ہر ایک کے ابدی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ یہ ابدی مستقبل، یا تو جنت کی صورت میں ہوگا، یا جہنم کی صورت میں۔ اِس معاملے کو نجات (salvation) کہاجاتا ہے۔
یہ نجات اُن لوگوں کو ملے گی جو خدا کے یہاں اِس حال میں پہنچیں کہ اُن کے پاس دو میں سے کوئی ایک چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہو۔وہ دو چیزیں یہ ہیں— سچا عمل، یا سچی دعا۔ سچا عمل وہ ہے جو خالص رضائِ الٰہی کے لیے کیا جائے۔ اور سچی دعا وہ ہے جو کامل عجز کی سطح پر کی گئی ہو:
The criterion of true ‘amal’ is that it is performed purely for the sake of God. And the criterion of true ‘dua’ is that it is performed with a sense of total helplessness.
سچے عمل کی توفیق اس کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو منافقت سے کامل طورپر پاک کرے، جس کے قول اور جس کے عمل میں کوئی فرق باقی نہ رہے، جو اپنے آپ کو کم زور شخصیت (weak personality) بننے سے بچائے، جس کے لیے اس کا عمل اس کی پوری شخصیت کا اظہار بن جائے۔
اِسی طرح، سچی دعا کی توفیق اُس انسان کو ملتی ہے جو اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی دے کہ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کے مقابلے میں، اپنے عجزِ کامل کو دریافت کرے۔ شعور کی اِسی سطح پر پہنچ کر کسی کو وہ دعا حاصل ہوتی ہے جس کو سچی دعا کہاجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سچی دعا اور سچا عمل دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ سچی دعا میں سچا عمل شامل ہے، اور سچا عمل ہمیشہ سچی دعا کی زمین پر پیدا ہوتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے، سچے عمل اور سچی دعا کو ایک دوسرے الگ نہیں کیا جاسکتا۔سچا عمل دراصل، حقیقی عمل کا دوسرا نام ہے۔ اور سچی دعا حقیقی دعا کا دوسرا نام۔
واپس اوپر جائیں
اعلیٰ معرفت ہمیشہ اعلیٰ سوچ(high thinking) کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ خدا کے بارے میں، خدا کے کلام کے بارے میں، خداکی تخلیقات کے بارے میں، آدمی جتنا زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچے، اتنا ہی زیادہ گہری معرفت تک وہ پہنچے گا۔ معرفت کا فامولا ایک لفظ میں یہ ہے— جتنی گہری سوچ، اتنی ہی گہری معرفت۔
قرآن میں اِس گہری سوچ کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تفکّر، تدبّر، توسم اور تعقل، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کے اندر غور وفکر کا سامان موجود ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ اگر چیزوں کو سادہ طورپر نہ لیا جائے، بلکہ اُن پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو ہر چیز آدمی کے لیے معرفت کی غذا بن جائے گی۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
برگِ درختانِ سبز، در نظرِ ہوشیار ہر ورقے دفترے است، معرفتِ کردگار
مثلاً آدمی روزانہ زمین پر چلتا ہے، مگر وہ سوچتا نہیں۔ اگر وہ سوچے تو یہ چلنا اس کے لیے معرفت کا خزانہ بن جائے۔ زمین پر چلنا بظاہر ایک سادہ بات ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ چلنے کا یہ واقعہ خالق کا ایک انوکھا معجزہ ہے۔ یہ چلنا اِس لیے ممکن ہوتاہے کہ بے شمار اسباب نہایت ہم آہنگی کے ساتھ ہماری مدد کررہے ہوتے ہیں— زمین کی بے حد متوازن قوت کشش (well balanced gravity) ، ہمارے جسم کے اوپر چاروں طرف سے ہوا کا دباؤ۔ ہواکا یہ دباؤ ہمارے جسم کے ہر مربع انچ پر تقریباً آٹھ کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اور پورے جسم پر مجموعی طور پر تقریباً 10 ہزار کلو گرام کے برابر۔ جب انسان زمین پر چلتا ہے تو اُس کو غیر منقطع طورپر مسلسل آکسیجن فراہم کیا جارہا ہوتا ہے، وسیع خلا سے سورج ہماری راہوں کو روشن کرتا رہتا ہے۔ اِس طرح کے ان گنت اسباب ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر ہمارے مدد گار بنے رہتے ہیں، تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان زمین پر چلے اور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ ہماری دنیا میںاِس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں۔ اِن چیزوں پر غوروفکر کرنا ہی اعلیٰ معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک شہر میں، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں، میںاُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجود زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔
بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآننیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآنکھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔
یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں
ایک دن میںاپنے معاصرین (contemporaries) کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ افراد جو میرے زمانے میں پیداہوئے، جن کے ساتھ میںنے زندگی کا سفر طے کیا، جن کے ساتھ میں زمین پر چلتا پھرتا رہا— مسٹر اے کو میںنے زندہ حالت میں دیکھا تھا، مگر آج وہ اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ مسٹر بی، مسٹر سی، مسٹر ڈی، مسٹر ای، سب کا یہی انجام ہوچکا ہے۔اِس طرح میں اپنے جاننے والوںمیں سے ایک ایک شخص کو یاد کرتا رہا۔ مجھے یاد آیا کہ یہ سارے لوگ اب وفات پاچکے ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے دنوں مجھے خبر ملی کہ مسٹر وائی کی بھی وفات ہوگئی۔ میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ میری زبان سے نکلا کہ —میری باری بہت قریب آگئی:
The countdown has reached the last but one number.
پھر میں نے سوچا کہ یہ معاملہ صرف میرا ذاتی معاملہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہی معاملہ ہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ ہر ایک روزانہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے آس پاس کے لوگ مرتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ ہر ایک، دور دور کے لوگوں کے بارے میں بھی اِسی طرح موت کی خبریں سنتا رہتا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کوئی شخص یہی بات خود اپنے بارے میں نہیں سوچتا۔ کوئی عورت یا مرد سنجیدگی کے ساتھ یہ غور نہیں کرتا کہ اِسی طرح میں خود بھی بہت جلد مرنے والا ہوں۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مسائل کے بارے میں تو ہر وقت سوچتا ہے،لیکن موت کے بعد کے مسائل کے بارے میں کوئی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔جاننے کے باوجود نہ جاننے کے اِس عجیب ظاہرہ کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر عورت ا ور مرد اپنے ڈی این اے (DNA) سے کنٹرول ہوتا ہے۔ آدمی اپنا ہر چھوٹا یا بڑا کام ڈی این اے کی رہ نمائی میں کرتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں تو ہر ایک کے ڈی این اے میں سب کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ مگر ایک بات کسی کے ڈی این اے میں سرے سے درج نہیں۔ اور وہ موت(death) کا معاملہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات تو ڈی این اے کے کوڈ میں درج ہیں۔ اُنھیں کی مسلسل طور پر ڈی کوڈنگ (de-coding) ہوتی رہتی ہے، مگر موت کا تعلق ڈی این اے سے نہیں۔ ہر ایک کی موت براہِ راست طورپر خالق کے حکم سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کے لیے موت کا وقت الگ الگ ہے۔ لوگوں کی موت کا کوئی یکساں وقت نہیں۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ موت کے بارے میں خود شعوری (self-consciousness)کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے۔ وہ اِس معاملے میں اپنے ڈی این اے سے باہر آکر سوچے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں آدمی موت کی حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرے گا۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں یہ ممکن ہوگا کہ وہ موت کے سنگین معاملے کو سمجھے۔ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد کے دورِ حیات کی تیاری کرے۔
انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ ڈی این اے اس ابدیت (eternity) کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر خالق نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کی طویل زندگی کو دو دوروں میں بانٹ دیا ہے— موت سے پہلے کا دورِ حیات، اور موت کے بعد کا دورِ حیات۔ اِس کری ایشن پلان کے مطابق، موت سے پہلے کا مختصر دورِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے۔ اور موت کے بعد کا طویل تر دورِ حیات ٹسٹ پیریڈ کے ریکارڈ کے مطابق، اپنے عمل کا ابدی انجام پانے کے لیے۔
اِس وقت تمام لوگ وقتی خوشی (right here, right now)کے تصور کے تحت جی رہے ہیں۔ وہ حال رخی (present-oriented) زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اگر انھیں حقیقتِ واقعہ کا شعور ہوجائے تو ان کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل جائے۔ اب آنے والادن ان کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے۔ ہر ایک مستقبل رخی(future-oriented) زندگی گزارنے لگے۔ حال رخی زندگی، تعمیر ِ دنیا کے اصول پر قائم ہے، جب کہ مستقبل رخی زندگی آخرت کے لیے تیاری کے اصول پر قائم ہوتی ہے— جو لوگ اِس حقیقت کو جان لیں، وہی کامیاب ہیں اور جو لوگ اِس حقیقت سے بے خبر رہیں، وہی ناکام۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے اندر بیک وقت دو قسم کے جذبات ہیں— دوستی کا جذبہ، اور دشمنی کا جذبہ۔ یہ دونوں جذبات فطری ہیں اور وہ ہر عورت اور مرد کے اندر پیدائشی طورپر پائے جاتے ہیں، کوئی بھی شخص اِن جذبات سے خالی نہیں۔
مگر اِن دونوں جذبات کے استعمال کا رخ الگ الگ ہے۔ دوستی کا جذبہ، انسان کے لیے ہے اور دشمنی کاجذبہ شیطان کے لیے۔ شیطان اوّل دن سے انسان کا دشمن ہے۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پیدائشی طورپر دوسرے انسانوں کا دشمن نہیں۔ یہ دراصل شیطان ہے جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتا ہے۔ شیطان کی ساری کوشش یہ ہے کہ انسان کے اندر دشمنی کے جو جذبات ہیں، وہ ان کو پھیر کر انسان کی طرف کردے۔ وہ شیطان کا دشمن بننے کے بجائے انسان کا دشمن بن جائے۔
یہی انسان کا امتحان ہے۔ جب کبھی کسی عورت یا مرد کو محسوس ہو کہ اس کے اندر کسی انسان کے لیے دشمنی کے جذبات پیدا ہورہے ہیں تو وہ اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھے اور فوراً ہی کوشش کر کے اپنے منفی احساسات کو مثبت احساس میں تبدیل کرے۔قرآن کی سورہ نمبر 5 میں بتایا گیا ہے کہ: إنما یرید الشیطان أن یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء (المائدۃ:
Satan seeks to stir up enmity and hatred among you (
دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ اِس قسم کے مواقع شیطان کو انسان کے اندر داخل ہونے کا راستہ دے دیتے ہیں۔ اب شیطان یہ کرتا ہے کہ وہ اِن شکایتی اسباب کو خوب بڑھاتا ہے، وہ شکایت کو نفرت تک پہنچا دیتا ہے اور پھر نفرت کو تشدد تک۔ انسان کو چاہیے کہ وہ شیطان کو یہ موقع نہ دے کہ وہ اِن منفی لمحات کو اپنے حق میںاستعمال کرے اور ایک انسان کو دوسرے انسان کے خلاف بھڑکا دے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کا معمول (object) بننے سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں
جنت خدا کی بنائی ہوئی ایک انوکھی دنیا ہے۔ جنت میں اعلیٰ معیار کی حد تک ہر قسم کی راحت اور خوشی موجود ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہرقسم کا فُل فِل مینٹ(fulfillment) ہمیشہ کے لیے حاصل ہوگا (حٰمٓ السجدۃ:
جنت کی یہ انوکھی دنیا کس کو ملے گی۔ جنت کی یہ دنیا موت کے بعد کی ابدی زندگی میںاس عورت یا مرد کو ملے گی جو اس کی قیمت ادا کرے۔ جنت اُس کے لیے ہے جو حقیقی معنوں میں ربانی انسان یا خدا والا انسان بن جائے، جو بظاہر خدا سے دور ہوتے ہوئے معرفت کی سطح پر خدا سے قریب ہوجائے۔ جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ آخرت کی دنیا میں خدا کا پڑوس صرف اُس شخص کو ملے گا جو آخرت سے پہلے کی دنیا میں خدا کے پڑوس میںجینے لگے۔
انسان اپنے آپ کو پیدا کئے جانے کی صورت میں دیکھتا ہے، خدا کو اُسے لم یلد ولم یولد کی صورت میں دریافت (discover) کرنا ہے۔ موجودہ دنیامیں انسان دیکھ کر چیزوں کے اوپر یقین کرتا ہے، خدا کے اوپر اس کو دیکھے بغیر یقین کرنا ہے۔ انسان مال اور اولاد جیسی چیزوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اس کو خدا کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنا ہے، جب کہ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے لگے اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرنے لگے۔
انسان آج کی چیزوں میں جیتا ہے اور وہ آج کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، جنت اُس انسان کے لیے ہے جو آج کی چیزوں سے اوپر اٹھ جائے اور صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے۔ انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بھر پور دل چسپی کا تعلق اپنے لوگوں سے رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ اس کا تعلق صرف رسمی اور ظاہری سطح پر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملنے والا نہیں۔ جنت میں داخلہ صرف وہ لوگ پائیں گے جن کا حال یہ ہوجائے کہ خدا کے سوا دوسری تمام چیزوں سے ان کا تعلق صرف دنیوی ضرورت کے طورپر ہو اور دل چسپی اور قلبی لگاؤ کے اعتبار سے ان کا تعلق تمام تر خدا سے ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
دہلی میںمیری رہائش گاہ کے پاس ایک درخت ہے۔ اس کو میں اسپریچول ٹری (spiritual tree) کہتا ہوں۔ اس کے نیچے میںدیر تک بیٹھتا ہوں۔ اس سے مجھے روحانی سکون ملتا ہے۔
برسات کے موسم سے پہلے یہ درخت بالکل سوکھ گیا تھا۔ بظاہر وہ ٹھنٹھ (stem) دکھائی دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ درخت کی عمر شاید ختم ہوگئی ہے، وہ دوبارہ شاداب ہونے والا نہیں، مگر برسات کا موسم آنے کے بعد وہ دوبارہ ہرا ہونے لگا۔ اس کی شاخوں پر ہری پتیاں نکلنے لگیں، یہاںتک کہ اگست کے آخر تک دوبارہ وہ پوری طرح ہرا بھرا ہوگیا۔اس کی شادابی مکمل طورپر لوٹ آئی۔
یہ تمثیل کے روپ میں انسان کے لیے ایک سبق ہے۔ انسان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان کی روحانی زندگی کے لیے ضرورت ہے کہ اس کو ’’پانی‘‘ ملتا رہے۔ جو انسان اس پانی سے محروم جائے، اس کی شخصیت سوکھے درخت جیسی ہو جائے گی۔
انسانی زندگی کے لیے یہ حیات بخش پانی خدائی فیضان (divine inspiration)ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ خدا وند ِذوالجلال سے مسلسل روحانی ربط قائم رکھے۔ اسی ربط سے اس کو شادابی ملے گی۔ یہ ربط کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو وہ سوکھے درخت کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔
خداوندذوالجلال سے اِس ربط کا ذریعہ ذکر ہے۔خداوند ِ ذوالجلال کو یاد کرنا کیا ہے۔ وہ کسی قسم کے اوراد کا نام نہیں ہے۔ وہ مختلف حالات میں اس کو بار بار یاد کرنا ہے۔ مثلاً مذکورہ قسم کے درخت کو آپ نے دیکھا تو اُس کے اندر آپ کو خدا کا کرشمہ نظر آیا۔ آپ نے تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ کہا کہ خدایا: تو نے جس طرح اِس درخت کو شاداب کیا ہے، اُسی طرح تو مجھے بھی شاداب کردے۔ میں ایک سوکھا ہوا درخت ہوں، تو اپنے فیضانِ رحمت سے مجھ کو ایک شاداب درخت بنا دے—اِس تجربے کا تعلق کسی ایک چیز سے نہیں، اس کا تعلق تمام چیزوں سے ہے۔ اِس دنیا کی ہر چیز میں یہی ربانی غذا موجود ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے جو اِس ربانی غذا کو لیتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صنعتی شہر کا واقعہ ہے۔ وہاں کے ایک مسلم نوجوان نے ٹکنکل ایجوکیشن حاصل کی ۔ اِس کے بعد ان کو مقامی طورپر ایک اچھا جاب (job)مل گیا۔ اِس درمیان ان کا ربط ایک دینی حلقے سے قائم ہوا۔ انھوںنے دینی کتابیں پڑھیں اور دینی شخصیتوں سے استفادہ کیا۔ وہ کافی متاثر ہوئے، یہاںتک کہ انھوںنے رو کر کہا کہ — میںنے اپنی عمر کا ایک حصہ ضائع کردیا۔ کاش، یہ دینی ماحول مجھے اور پہلے مل گیا ہوتا۔
اِس کے بعد مذکورہ نوجوان کے اندر ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ مذکورہ نوجوان کے ایک رشتے دار ایک ’’فارین‘‘ کنٹری میں رہتے تھے۔ انھوں نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ بھیج دیا اور کہا کہ تم وزٹ ویزا (visit visa) لے کر یہاں میرے پاس آجاؤ اور جاب ہنٹنگ (job hunting) کرو۔ ہوسکتا ہے، تم کو یہاں زیادہ اچھا جاب مل جائے۔ اِس کے بعد نوجوان کا ذہن بدل گیا۔ وہ پہلی فرصت میں باہر کے ملک میں جاب ہنٹنگ کے لیے چلے گئے۔
یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اس کو کسی قسم کی مادّی ترقی (worldly progress)حاصل ہوجائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلاکر مادّی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔
ایسے کسی آدمی کے سامنے جب کوئی مادّی ترقی کا موقع آتا ہے، تو وہ اس کے لیے کوئی انعام کی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام تر اس کی آزمائش (test) کے لیے ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تمام لوگ اُس کو انعام کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، تمام لوگ اِس خدائی آزمائش میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ دین داری کسی رُٹین کا نام نہیں، دین دار وہ ہے جو اِس جانچ (test) میں پورا اُترے— اپنے دین کی حفاظت کیجئے، ورنہ شیطان کسی بھی وقت اس کو اچک لے جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک مستشرق (orientalist) نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا، پھر اُس نے ایک کتاب لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے اپنے مطالعہ کا خلاصہ بتاتے ہوئے کہا کہ— ہر مذہب کاآغاز ایک آئڈیالوجی کے طور پر ہوتا ہے، لیکن بعد کی نسلوں میں وہ صرف ایک کلچر بن کر رہ جاتا ہے:
Every religion begins as an ideology, but after some generations it is reduced to a culture.
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے زمانے میں ہر مذہب کا یہی حال ہوا ہے۔ تاہم یہ صرف دوسرے مذاہب کا معاملہ نہیں، یہی معاملہ خود اسلام کے ساتھ بھی بعد کے زمانے میں پیش آیا ہے۔ اسلام اپنے متن (text) کے لحاظ سے بلاشبہ ایک محفوظ مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات آج بھی پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، موجودہ زمانے کے مسلمان عملاً مذکورہ عمومی صورتِ حال کا مصداق بن چکے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جس ’’دین‘‘ پر ہیں، وہ دراصل ایک کلچر ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں خدا کابھیجا ہوا دین۔
دین کا تعلق وحیِ الٰہی سے ہے، اور جہاں تک کلچر کا تعلق ہے، وہ جغرافی حالات کے اعتبار سے بنتا ہے۔ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام میں داخل ہوئیں، ان کا اپنا ایک علاقائی کلچر تھا۔ اِن قوموں نے جب اسلام کو اختیار کیا، تو انھوں نے اسلام کے کلمہ کو تو لے لیا، مگر اپنے کلچر کو نہیں چھوڑا۔ انھوںنے صرف یہ کیا کہ قدیم کلچر کو اسلامائز (Islamize) کرکے اُس کو کم و بیش اپنی زندگیوں میںباقی رکھا— یہ صورتِ حال تقریباً ہر جگہ پائی جاتی ہے۔
یہ احیائِ اسلام کا موضوع ہے۔ اوراِس احیاء کی ضرورت ہر ملک اور ہر علاقے میں پائی جاتی ہے۔ ایک صبر آزما کوشش ہی کے ذریعے احیائِ اسلام کے اِس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے— آج خود مسلمانوں کو اسلامائز کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ خارجی دنیا کو اسلامائز کرنے کی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء:
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ — میں پورے فخر اور شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں دینی ماحول میں پیدا کیا، اور اس نے مجھے فلاں ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع عطا فرمایا، وغیرہ۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں۔ اِس قسم کی بات بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہائی بے معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر اور شکر دونوں دو مختلف جذبات ہیں۔ جہاں فخر ہوگا، وہاں شکر نہیں ہوگا اور جہاں شکر ہوگا، وہاں فخر نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسے الفاظ بولیں، ان کے اندر فخر تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی شکر کا جذبہ ان کے اندر ہرگز موجود نہیں ہوسکتا۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خداوند ِ ذوالجلال کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ خداوند ِ ذوالجلال کی نعمت کا احساس فوراً ہی آدمی کے اندر اپنی بے مائگی کا احساس پیدا کردیتا ہے اور اپنی بے مائگی کے احساس کے بعد کوئی شخص کبھی فخر کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اِس قسم کے احساس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ’’بے کچھ‘‘ کے مقام پر پاتا ہے اور خداوندذوالجلال کو ’’سب کچھ‘‘ کے مقام پر۔ جو آدمی اس قسم کی نفسیات کا حامل ہو، اس کے لیے فخر ایک مضحکہ خیز لفظ بن جائے گا۔ ایسا آدمی سب کچھ بھول کر شکر ِ خداوندی کے اُس جذبے سے سرشار ہوجائے گا، جس کے اندر ذاتی فخر جیسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ شکر کی توفیق ہمیشہ عجز کامل کی سطح پر ہوتی ہے جس آدمی کے اندر عجز کامل کی اعلیٰ ربانی صفت نہ ہو، وہ شکر کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
فخر کے ساتھ شکر کا لفظ بولنا، بتاتا ہے کہ ایسا آدمی، امتحان کی اصطلاح میں، مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ ایسا کہنے والا شخص اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ فخر اور شکر دونوں کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ وہ نہ فخر کی نفسیات کو جانتا ہے اور نہ شکر کی نفسیات کو۔ اگر وہ دونوں کی حقیقت سے باخبر ہوتا تو وہ اِس طرح، فخر اور شکر کے متضاد الفاظ کو ایک ساتھ نہ بولتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر ہمیشہ نفیِ فخر کی زمین پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ اثباتِ فخر کی زمین پر۔
واپس اوپر جائیں
میں نے ایک مشہور مسلم اسپیکر کا انٹرویو پڑھا۔ اِس انٹرویو میں انھوںنے پُر مسرت انداز میں اپنے ایک پروگرام کا ذکر کیا تھا۔ انھوںنے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ — منتظمین نے مجھ سے بتایا تھا کہ وہ اِس پبلک لیکچر میںتین ہزار لوگوں کی شرکت کی امیدرکھتے ہیں، لیکن ماشاء اللہ، وہاں تقریباً بیس ہزار آدمی تھے جنھوں نے لیکچر میں شرکت کی:
The organizers had told me that they expected around three thousand for the public lecture, but masha allah, there were some twenty thousand who attended the lecture. (The Muslims World League Journal, April 2008, p.
عام طورپر لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ بھیڑ (crowd) کو جلسے کی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں، حالاں کہ کسی جلسے کی کامیابی کا معیار وہ نتیجہ ہے جو افراد کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ میںنے باربار اِس کا تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ بھیڑ والے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، اُن سے جب پوچھا جائے تو وہ شان دار الفاظ میں جلسے کی تعریف کریں گے، لیکن اگر اُن سے یہ سوال کیا جائے کہ تم ذاتی طورپر وہاں سے کیا پیغام لے کر لوٹے، یعنی تمھارا اپنا ٹیک اوے (take away) کیا تھا۔ اِس سوال کے جواب میں آدمی کے پاس کچھ بھی کہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ وہ بار بار جوش کے ساتھ یہ کہے گا کہ ہم کو بہت کچھ ملا، لیکن اگر پوچھا جائے کہ متعین (specific) طورپر کوئی ایک بات بتاؤ، تو وہ اِس کے جواب میں کچھ بھی نہیں بتا پاتا۔
ایسا کیوں ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ فرد کی نفسیات الگ ہوتی ہے، اور مجمع کی نفسیات الگ۔ اگر آپ ایک، یا چند آدمی سے براہِ راست طورپر کوئی بات کہیں، تو وہ آدمی اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے گا اور بات کو بخوبی طورپر پکڑے گا، لیکن جب ایک مقرر شان دار اسٹیج پر لاؤڈاسپیکر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور ایک بھیڑ کو مخاطب کرتا ہے، تو ایسے عمومی ماحول میں مقرر کی بات فضا میں بکھر جاتی ہے۔ کوئی بھی ایک شخص اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتا۔ اِس لیے اِس قسم کی بھیڑ میں کسی فرد کا مائنڈ ایڈریس نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ جب سے پریس اور اسٹیج اور میڈیا کا زمانہ آیا ہے، بڑے بڑے مقرر پیدا ہوئے۔ انھوںنے ہزاروں مواقع پر شان دار ماحول میں بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کیا ہے، لیکن نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام خطابات صفر کے درجے میں بے نتیجہ رہے۔ اِس طرح کے خطابات کے نتیجے میں چند انسان بھی بن کر تیار نہیں ہوئے۔ ایسے مقرریں کو خود تو مقبولیت حال ہوجاتی ہے، لیکن جن لوگوں کی بھیڑ کو وہ خطاب کرتے ہیں، وہ لوگ بدستور اپنی سابقہ حالت پر پڑے رہتے ہیں۔
اِسی قسم کے ایک مشہور مقرر کے بارے میں میں جانتا ہوں۔ وہ پچاس سال تک بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کرتے رہے، لیکن آخر عمر میںاُن کو محسوس ہوا کہ وہ شان دار خطابات کے باوجود چند آدمی کو بھی اپنا حقیقی ساتھی نہ بنا سکے۔ وہ بھیڑ کے اندر اپنے آپ کو تنہا پاتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں اپنے ایک قریبی ساتھی کے نام انھوں نے ایک نجی خط (personal letter) میں اپنے اِس غم انگیز احساس کا ذکر کیا اور اپنے آپ کو اِس شعر کا مصداق بتایا:
وہ محرومِ تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اپنی کوشش رائگاں دیکھے
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ بھیڑ کو ایڈریس کرنے کے بجائے، افراد کو ایڈریس کیاجائے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کے اندر حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا پولٹکل لیڈر جس کی ضرورت صرف یہ ہو کہ الیکشن کے وقتی موقع پر لوگ اس کو ووٹ دے دیں، وہ ضرور بھیڑ کو اہمیت دے سکتا ہے۔ لیکن ایک حقیقی مُصلح (reformer) کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرد فرد کی اصلاح کرکے اپنی ایک ٹیم بنائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی اصول کے مطابق، اپنی ایک ٹیم بنائی تھی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ اصحاب، یا صحابہ دراصل ٹیم کا دوسرا نام ہے۔ یہ ٹیم سازی بھی ایک عظیم سنتِ رسول ہے۔ امت کے مصلحین کو ہر زمانے میں یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی مقبولیت کی قربانی دے کر اِس قسم کی ٹیم بنائیں یہ ٹیم ہی مشن کے تسلسل کی ضامن ہے۔ بھیڑ صرف ایک وقتی نمائش ہے۔ مستقل فائدہ صرف ٹیم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا طریقہ صرف ایک سیاسی طریقہ ہے، وہ اسلام کا طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم نوجوان شاہ عمران حسن (پیدائش: 1982 ) اگست 2008 میں کشمیر گئے۔ وہاں وہ تین ہفتہ رہے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ روزانہ اپنی ڈائری لکھتے ہیں۔ وہ کشمیر سے واپس آئے تو انھوںنے مجھ کو اپنی ڈائری دکھائی۔ ان کی اِس ڈائری کا ایک اندراج یہ تھا:
’’4 اگست 2008 کی ایک رات کو میرا قیام ادارہ ’’اپنا گھر‘‘ میں تھا۔ وہاں ادارے کے ایک طالب علم جاوید احمد (19 سال) بھی موجود تھے۔ صبح کو میں بیدار ہوا تو جاوید احمد نے ماہ نامہ الرسالہ سے متعلق اپنا ایک خواب بیان کیا، جو اُنھیں کے الفاظ میں اِس طرح تھا: ’’میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی سفید داڑھی ہے۔ وہ ان پڑھ ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ — مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ ، مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ۔‘‘
اِس خواب میں مذکورہ بوڑھا آدمی گویا کہ کشمیر کی روح ہے۔ کشمیر کی روح چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جو منفی افکار میرے درمیان پھیلائے جارہے ہیں، اُن سے میں بے زار ہوں، ان کو بند کرو۔ میرے درمیان الرسالہ کو پھیلاؤ، میرے درمیان الرسالہ والے مثبت افکار کو عام کرو۔
کشمیر میں اکتوبر 1989 میں متشددانہ جہاد کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں، تادمِ تحریر جاری ہے۔ اِس نام نہاد جہاد کے دوران کشمیر میں جان و مال کا بے حساب نقصان ہوا ہے۔ اِس خود ساختہ جہاد نے کشمیر کو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔
اب کشمیر کی سلامتی کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ کشمیر میںاُن افکار کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جس کا پیغام ماہ نامہ الرسالہ میں مسلسل طورپر دیا جارہا ہے۔ اِسی میں کشمیر کے لیے زندگی ہے۔ اِس کے سوا جو کچھ ہے، وہ موت اور تباہی کے سوا کچھ اور نہیں۔ نام نہاد کشمیری تحریک سے کچھ لیڈروں کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن خود کشمیر یا کشمیری عوام کا اس میں کچھ فائدہ نہیں— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں نظر ثانی کی جائے اور جذباتیت کو چھوڑ کر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
تجربہ بتاتا ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی مسئلے پر نزاع پیدا ہوجائے ، تو آگے جانے کا راستہ ہمیشہ بند ہوجاتا ہے۔ البتہ پیچھے لوٹنے کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ایسے موقع پر آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر آدمی کے لیے صرف ایک ہی چوائس باقی رہتا ہے، اور وہ یو ٹرن (U-Turn) کا چوائس ہے، یعنی پیچھے کی طرف لوٹ جانا۔
ایسے موقع پر پیچھے کی طرف لوٹنے کا مطلب پسپائی نہیں، بلکہ یہ تدبیر کا ایک معاملہ ہے۔ یہ پیچھے ہٹ کر دوبارہ آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہے۔ عقل مند آدمی ہمیشہ ایسے موقع پر یوٹرن کا چوائس لیتا ہے۔ مثال کے طورپر 1799 میں سلطان ٹیپو اور انگریزوں کے درمیان نزاع پیدا ہوئی۔ سلطان ٹیپو نے یوٹرن کا چوائس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوریسلطنت تباہ ہوگئی۔ اِس کے برعکس، حیدرآباد کی مسلم ریاست نے اِسی طرح کی صورتِ حال میں، انگریزوں کے مقابلے میں یوٹرن کا چوائس لے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سو سال تک کامیابی کے ساتھ باقی رہی۔
عقل مند انسان وہ ہے جو نزاع کی صورتِ حال کو تجربہ کے خانے میں ڈالے۔ وہ نتیجہ (result) کی بنیاد پر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اپنے جذبات کو اپنا رہ نما نہ بنائے، بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے ۔ وہ پیچھے کی طرف مارچ کرنے کو بھی اتنا ہی اہم سمجھے، جتنا کہ اِس سے پہلے وہ آگے کی طرف مارچ کو اہم سمجھے ہوئے تھا۔
ایسا کرنے والا آج کے دن کو کھو کر، کل کے دن کو پالیتا ہے اور جو ایسا نہ کرے، وہ آج کے دن کو بھی کھوئے گا اور کل کے دن کو بھی۔ زندگی میںاکثر ایساہوتا ہے کہ پیش قدمی کا راستہ پچھلے مقام پر ہوتا ہے، مگر آدمی اُس کو اگلے مقام پر ڈھونڈنے لگتا ہے۔ حالاں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں — مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا، دانش مندی بھی ہے اور بہادری بھی۔ اس کے برعکس، مقامِ نزاع پر ٹکراؤ شروع کردینا، نہ دانش مندی ہے اور نہ بہادری۔
واپس اوپر جائیں
بہت سے لوگ جنگ اور تشدد میںمبتلا ہیں، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اُن سے کہا جائے کہ تم یہ تباہ کُن کام کیوں کررہے ہو، تو وہ یہ جواب دیں گے کہ— یہ تو ایک فطری ردّ عمل ہے۔ جب کسی گروہ کے خلاف ظلم اور نا انصافی کا واقعہ پیش آئے گا، تو اس کے اندر ضرور جوابی ردّ عمل (reaction) پیدا ہوگا۔ وہ گن اور بم استعمال کرے گا۔ یہاںتک کہ آخر کار وہ خوکُش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر ہمارے متشددانہ ردّ عمل کو ختم کرنا ہے، تو فریقِ ثانی کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ ہماری طرف سے متشددانہ کارروائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ ردّ عمل (reaction) کو ختم کرنا ہے تو پہلے عمل (action) کو ختم کیجیے۔ اِس معاملے میںیک طرفہ نصیحت سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔
ردّ عمل کا یہ فلسفہ سرتاسر غیر فطری ہے۔ ایسے لوگوں کی اصل غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عمل کا غلط معیار قائم کرلیا ہے۔ عمل کا صحیح معیار یہ ہے کہ عمل کے بعد پیش آنے والے نتیجہ (result) کو دیکھا جائے۔ صحیح عمل کی پہچان یہ ہے کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے مفید نتیجہ پیدا کرے۔ جو عمل مفید نتیجہ پیدا نہ کرے، وہ سرے سے قابلِ ترک ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عمل یا تو مفید نتیجہ پیدا کرتا ہے، یا وہ عمل کرنے والوں کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں تیسری کوئی صورت نہیں۔ عملی اقدام وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔ جو عملی اقدام نتیجہ خیز نہ ہو، وہ صرف اپنی تباہی میںاضافے کے ہم معنیٰ ہے، اور اپنی تباہی میں اضافہ کبھی کسی دانش مند کا کام نہیں ہوسکتا۔
کسی عمل کے مقابلے میں جذباتی ردّ عمل، اُس عمل کا جواب نہیں۔ عمل کا حقیقی جواب یہ ہے کہ پہلے صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، مثبت ذہن کے ساتھ نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جائے، پھر ٹکراؤ کے بجائے تعمیر کے اصول پر اپنے عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی کے اندر ایک شیطان چھپا ہوا ہے۔ یہ شیطان، نفرت کا بم (hate bomb)ہے۔ ہر آدمی امکانی طورپر نفرت کا بم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ نفرت کا یہ بم عام حالات میں، انسان کے اندر سویا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی طرح اُس کو جگا دیا جائے، تو اچانک وہ بے پناہ ہو کر بھڑک اٹھتا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
اِس صورتِ حال کا مطلب دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ ہر انسان ایک انتہائی آتش گیر (highly inflammable) مادّہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سماج میں اگر دس ہزار آدمی ہیں، تو وہ گویا کہ دس ہزار چلتے پھرتے آتش گیر مادّے کا مجموعہ ہیں۔ یہ دراصل ذاتی مفاد (personal interest) ہے جو لوگوں کو مزاجاً متشدد ہونے کے باوجود، مجبورانہ طور پر امن پسند بنائے رہتا ہے۔ ایسی صورت میں قیادت (leadership) کا کام ایک بے حد مشکل کام ہے۔ جس قائد کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کا نعرہ ہو، اُس کو ہر گز میدان میںنہیں آنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا منفی نعرہ لوگوں کو بھڑکائے گا اور آخرکار، سماج کا وہ حال ہوجائے گا، جیسے ایک مقام پر بہت سے آتش گیر مادّے ہوں اور وہ اچانک بھڑک اٹھیں۔
قائد پر لازم ہے کہ اگر اس کے پاس محبت کا نعرہ ہے، تب تو وہ اپنی تحریک لے کر سماج میں آئے۔ اور اگر اُس کے پاس صرف نفرت اور شکایت کی باتیں ہوں، تو اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اجتماعی تحریک ہر گز نہ شرو ع کرے۔ اس کے بجائے، وہ اپنے آپ کو اپنے گھر کے اندر محصور کرلے۔ یہی اس کے لیے نجات کی واحد صورت ہے۔
اجتماعی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں— مثبت تحریک، اور منفی تحریک۔ مثبت تحریک وہ ہے جو ذاتی ذمّے داری (duty) کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک صالح تحریک ہے۔ منفی تحریک وہ ہے جو حقوق طلبی اور احتجاج کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک غیر صالح تحریک ہے۔ صالح تحریک کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے، اور غیر صالح تحریک ہمیشہ بُرے انجام پر ختم ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے ایم بی اے (ماسٹر آف بزنس ایڈ منسٹریشن) کاکورس کیا۔ اِس کے بعد اُن کو دہلی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںاچھی سروس مل گئی۔ انھوں نے اِس سروس کی بنیاد پر ہاؤس لون لے کر اپنا ایک گھر بنا لیا۔ اِسی طرح انھوں نے کار لون لے کر اپنے لیے ایک کار حاصل کرلی۔بظاہر اُن کے معاملات درست تھے۔ ایک عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملے۔ وہ اُس وقت غصے میں تھے۔ انھوںنے بتایا کہ کمپنی والوں نے میرے ساتھ ایک بے انصافی کی ہے۔ انھوں نے میرے ایک جونیئر کا پروموشن کردیا۔ میں اس کے مقابلے میں سینئر تھا، مگر میرا پروموشن نہیں ہوا۔ میں اِس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا کہ اِسی کمپنی کی ملازمت کی وجہ سے شہر میں آپ کا گھر ہوگیا اور آپ کو کار مل گئی۔ اِس کا آپ نے کبھی اعتراف نہیں کیا، اور آپ کا پروموشن نہیں ہوا تو آپ اِس پر غصہ ہورہے ہیں۔
یہی عام طورپر تمام عورتوں اور مردوں کا مزاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے موافق باتوں کا چرچا نہیں کرتے، لیکن اُن کے مخالف کوئی بات ہوجائے، تو وہ اس کا چرچا خوب کرتے ہیں۔ یہ مزاج انسانی شخصیت کے لیے قاتل ہے۔ ہر انسان کو بہت زیادہ اِس مزاج سے بچنا چاہئے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر سو میںننانوے مثبت باتیں ہوں، تووہ اس کی شخصیت کا حصہ نہیں بنیں گی، لیکن اگر ایک منفی بات ہو تووہی اس کی شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔ پانی کے گلاس میں اگر آپ پتھر کا ایک ٹکڑا ڈالیں تو وہ صرف ایک ٹکڑا بن کر پانی میں رہے گا، لیکن اگر آپ اس کے اندر رنگ ڈال دیں تو رنگ پورے پانی میں پھیل جائے گا۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب کسی واقعے سے منفی تاثر لے گاتو وہ تاثر اس کی پوری شخصیت کا حصہ بن جائے گا، لیکن اُس کے ساتھ کوئی مثبت واقعہ پیش آئے تو وہ اس کی شخصیت کا صرف ایک محدود جز بن کر پڑا رہے گا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ منفی تاثر فوراً انسان کے فعّال حافظے کا جز بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت تاثر بہت جلد فراموشی کے خانے میںچلا جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب کوئی منفی تاثرپیش آئے تو فوراً وہ اس کو بھلا دے، ورنہ اس کو منفی شخصیت کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کے بل گیٹس (Bill Gates) کو سافٹ وئرجائنٹ (software giant)کہاجاتا ہے۔اُ ن کے پاس کوئی بڑی تعلیمی ڈگری نہیں۔ وہ امریکا کی ہارورڈ یونی ورسٹی میں پڑھ رہے تھے، پھر انھوں نے فراغت سے پہلے تعلیم چھوڑ دی، مگر جلد ہی وہ کرۂ ارض کے سب سے زیادہ دولت مند انسان بن گئے۔ 1999 میں ان کی دولت کا اندازہ ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ تھا:
The Harvard dropout was the wealthiest person on the planet for years worth more than $ 100 billion in 1999.
کمپیوٹر ٹکنالوجی میںانھو ںنے نئی ترقیاں کیں۔ ان کا کاروبار ساری دنیا میں اتنا بڑھا کہ وہ کمپیوٹر کنگ کہے جانے لگے۔ لیکن یہ ترقیاں ان کو قلبی سکون نہ دے سکیں۔ اب انھوں نے انسانی مواسات (philanthropy) کو اپنا میدان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اِس سلسلے میں انھو ںنے ایک ادارہ قائم کیا اور اپنی دولت کا تقریباً آدھا حصہ اس میں دے دیا۔ اِس ادارے کا نام یہ ہے:
Bill and Melinda Gates Foundation
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مادّی سامان یا مادّی ترقی، انسان کو حقیقی سکون نہیں دے سکتی۔ موجودہ دنیا کو اس کے بنانے والے نے اِس لیے نہیں بنایاکہ یہاں انسان اپنی تمام خواہشیں پوری کرے اور پورے معنوں میں وہ فل فل مینٹ (fulfillment) حاصل کرے۔
موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ وہ صرف اِس لیے ہے کہ انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اعلیٰ ربانی مقصد میں اپنی توانائی صرف کرے، تاکہ وہ آخرت میں خدا کے ابدی انعام (reward)کا مستحق ٹھہرے۔
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ’ہندو‘ (The Hindu) کے شمارہ 2 ستمبر 2008 میں ایک سبق آموز رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ مشہور کھلاڑی ابھنو بندرا (Abhinav Bindra) کے بارے میں ہے۔ابھنو بندرا ایک ہندستانی کھلاڑی ہیں۔ بیجنگ (چین)میں ہونے والے اولمپک گیم (اگست 2008 ) میںانھوںنے شوٹنگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ اُن کے بارے میں مذکورہ رپورٹ حسب ذیل عنوان کے تحت اخبارمیں شائع ہوئی ہے— میں صرف ہارا ہواایک انسان ہوں:
I am quite a loser
رپورٹ کے مطابق، ابھنو بندرا نے کہا کہ — وہ اپنے آپ کو زندگی میں ایک ہارا ہوا انسان (loser) سمجھتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے شوٹنگ کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔ میری تمام زندگی شوٹنگ میں گزری۔ میںنے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا۔ میں صرف ایک کھونے والا انسان ہوں۔ میں صرف سوتا ہوں اور دوڑتا ہوں اور شوٹنگ کے سوا کچھ اور نہیں کرتا۔ بندرا نے یہ بات بی بی سی کے تحت ’’ایک ملاقات‘‘ کے پروگرام میں کہی۔ انھوں نے کہا کہ اسپورٹ، زندگی کا صرف ایک حصہ ہے۔ زندگی میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، لیکن میں نے کچھ اور نہیں کیا:
New Delhi: Abhinav Bindra says he considers himself a “loser” in life, as he has done nothing except shooting at ranges. “All my life has been shooting. I have done nothing in my life. I am quite a loser. I just sleep, run and do nothing except shooting.” Bindra told BBC’s “Ek Mulaqat” programme. “Sport is one part of life. There are so many other things to life, but I have done nothing”, he added. — PTI (p.
انسانی شخصیت کے دو حصے ہیں— مادّی حصہ، اور روحانی حصہ۔ آدمی اگر اپنی شخصیت کے صرف مادّی حصے کو فیڈ (feed) کرے، تو وہ مذکورہ قسم کے احساسِ محرومی کا شکار رہے گا۔ اور اگر مادّی حصے کے ساتھ، وہ اپنی شخصیت کے روحانی حصے کو بھی فیڈ کرے، تو وہ کبھی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
خدا، انسان کا خالق ہے۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے انسان جو کچھ ہے، وہ تمام تر خدائی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ انسان کی خود اپنی تعمیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان پچاس فی صد، خدا کی تخلیق ہے اور پچاس فی صدخود اپنی تعمیر:
Every human being is fifty percent God-made, and fifty percent self-made.
انسان فطری طور پر ہر قسم کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوہ(potential) کے طورپر ہوتی ہیں۔ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ ایک عظیم موقع(opportunity) ہے جو ہر عورت اورہر مرد کو ملی ہوئی ہے۔ یہ تمام تر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنائے، یا اس کے بغیر ہی ایک ناکام انسان کے طورپر مرجائے۔
بالقوہ کو بالفعل بنانا ایک مسلسل عمل (process) ہے جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ اِس عمل کا آغاز سنجیدہ غور وفکر سے ہوتاہے۔ سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے آدمی سچائی کی معرفت تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ہر دن اپنا محاسبہ (introspection) کرنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے اور ان کی اصلاح کرکے اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کوجاری رکھے۔
شخصیت کی تعمیر (prsonality building)کا یہ عمل آدمی خود کرتا ہے، لیکن اِس عمل کو درست طورپر جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو مسلسل طورپر خدا کی مدد حاصل رہے۔ اِس مدد کے حصول کا ذریعہ دعا ہے۔ دعا میں جینے والا آدمی ہی اپنی شخصیت کی تعمیر میںکامیاب ہوتا ہے۔ دعا کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا (ore) کی مانند ہوتا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے خام لوہے کوترقی دے کر اسٹیل (steel) بنائے۔ یہ کام ہر ایک کو کرنا ہے۔ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے ایک دکان کھولی۔ دکان سے اتنی آمدنی ہوتی تھی کہ اُن کا ضروری خرچ چل جائے۔ مگر انھوں نے اپنے گھر کا خرچ بڑھالیا۔ اِس سے مسئلہ پیدا ہوا۔ اب انھوں نے بینک سے قرض لیا، تاکہ اپنی آمدنی کو بڑھائیں۔ مگر قرض کے بعدان کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئیں۔ یہ ان کے لیے ایک چھلانگ تھی، جو نتیجے کے اعتبار سے الٹی ثابت ہوئی۔ اگر وہ یہ کرتے کہ اپنے خرچ پر کنٹرول کرتے اور محنت کرکے دھیرے دھیرے ترقی کی کوشش کرتے، تو وہ چند سال میںکامیاب ہوسکتے تھے۔ مگر اچانک ترقی کی کوشش اُن کے لیے ایک ایسی چھلانگ تھی جس نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے، مسئلے میں اور زیادہ اضافہ کردیا۔
چھلانگ کا طریقہ جس طرح فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اِسی طرح وہ قوموں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ عراق کے اوپر امریکا کا حملہ(2003) اِسی قسم کی ایک چھلانگ تھا۔ سپرپاور ہونے کے باوجود یہ حملہ امریکا کے لیے الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہوا۔
حملہ شروع ہونے سے دو سال پہلے، میں نے اِس موضوع پر ایک انٹرویو دیا تھا، جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
US aggression would be counter-productive.
چناں چہ اِس حملے کے بعد امریکا سخت مشکلوں کا شکار ہوگیا۔ عراق پر حملہ، امریکا کے لیے ایک بہت بڑے دلدل میںکودنے کے ہم معنٰی ثابت ہوا۔
کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ منصوبے کے تحت عمل کیا جائے۔ چھلانگ کا طریقہ ہرگز اختیارنہ کیا جائے۔ حقیقت پسندانہ عمل میں انسان کی رہ نما اس کی عقل ہوتی ہے، اور چھلانگ کا عمل ہمیشہ جذبات کے زیر اثر پیش آتا ہے۔ عقل سے سوچ کر کیا ہوا عمل ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، اور جذبات کے تحت کئے جانے والے عمل کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسانوں میںفطری طورپر کچھ لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کم ذہین۔ پوری تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ زیادہ ذہین لوگوں میں بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو خدا کے دین کی طرف راغب ہوں ۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں صرف کم تر ذہانت کے لوگ اپنے آپ کو دینی کام میں لگاتے ہیں۔ زیادہ ذہانت رکھنے والے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلے جو اپنی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں، خدا کے دین کے لیے وقف کرسکیں۔
ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب وہی ہے جس کو قرآن میں حبِّ عاجلہ (القیامۃ:20 ) کہاگیا ہے، یعنی فوری فائدہ(immediate gain) کی کشش۔ زیادہ ذہین لوگ بہت جلد منی مارکیٹ (money market) میں اپنے لیے ایک نفع بخش جاب (job) پالیتے ہیں، جب کہ دینی کام کا فائدہ آخرت سے جڑا ہوا ہے۔ منی مارکیٹ میں ان کو فوراً دولت اور شہرت اور اقتدار ملتا ہوا نظر آتا ہے، جب کہ دینی کام میں اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے عمل کا انعام پانے کے لیے اُنھیں موت کے بعد آنے والی دنیا کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ تاریخ کے اِس تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جو شخص زیادہ ذہین ہوتاہے، وہ عملی طورپر اتنا ہی زیادہ نادان ثابت ہوتا ہے۔ ایسے افراد وقتی فائدے کی خاطر، ابدی فائدے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ دنیا کی جھوٹی خوشی کے بدلے، جنت کی سچی خوشی سے خود کو محروم کرلیتے ہیں۔
زیادہ ذہین آدمی کی ایک کم زوری یہ ہے کہ وہ انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے اور دینی کام میں انانیت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دینی کام ہمیشہ تواضع (modesty) کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ فخر اور برتری کی بنیاد پر۔ زیادہ ذہین لوگ اپنی انا کو کچل نہیں پاتے، اِس لیے وہ دینی کام سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے ۔ دینی کام دراصل، خدائی کام ہے۔ دینی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کیے ہوئے ہوں۔ اِس مزاج میںادنی کمی بھی کسی آدمی کو دینی کام کے لیے نااہل (incompetent) بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
لوگوں سے بات کیجیے تو اکثر لوگ، بلکہ شاید سبھی لوگ کسی نہ کسی کے خلاف کوئی شکایت لے کر منفی احساسات میں مبتلا رہتے ہیں۔ پورے معنوں میں مثبت سوچ(positive thinking) والا آدمی شاید کوئی بھی آج کی دنیا میں موجود نہیں۔
اِس قسم کی سوچ آدمی کے اندر منفی شخصیت (negative personality) پیدا کرتی ہے۔ اور منفی شخصیت کسی بھی عورت یامرد کے لیے خود کُشی سے کم نہیں۔ عام خود کشی اگر جسمانی خود کشی (physical suicide) ہے، تو منفی سوچ بلاشبہہ نفسیاتی خود کشی (psychological suicide) ہے۔
اِس معاملے میں لوگوں سے پوچھ گچھ(scrutiny) کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شکایت کسی نہ کسی ایسے واقعے پر مبنی ہے جس کا تعلق گزرے ہوئے ماضی سے ہے۔ لوگوں کی یہ ایک تباہ کن عادت ہے کہ اگر اُن کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے، تو وہ دوسروں سے اس کا چرچا کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اس کو اپنی یاد (memory)میں لیے رہتے ہیں۔ یہی عادت کسی عورت یا مرد کے اندر منفی شخصیت کی تشکیل کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ہر عورت اور ہر مرد کو چاہیے کہ جب بھی اس کے ساتھ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آئے، تو اُسی وقت وہ اس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ہرگز دوسروںسے اس کا چرچا نہ کرے، بلکہ وہ کوشش کرکے ناخوش گوار واقعہ کے کسی خوش گوار پہلو کو تلاش کرے۔ اِس طرح وہ ایک منفی تجربے کو، مثبت تجربے میں تبدیل کردے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک مسافر کے پاؤں میںکانٹا چبھ جائے، تو وہ اُسی وقت اس کانٹے کو نکال کر باہرپھینک دیتا ہے۔ وہ اس کو اپنی زندہ یادداشت (living memory) کا جز نہیں بناتا۔
دانش مند انسان وہ ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دے۔ وہ اپنے ذہن کو ماضی کی ناخو ش گوار یادوں کا جنگل نہ بننے دے۔ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی اِس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
میں ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوںاورروزہ بھی رکھتا ہوں، لیکن یہ تراویح جو ہر سال پڑھی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری، الرسالہ، حیدر آباد)
جواب
تراویح کوئی رسم نہیں ہے۔تراویح دراصل، قرآن کا اجتماعی مطالعہ (collective study) ہے۔ تراویح کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کو سنا جائے اور اس کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔تراویح کی بہترین صورت یہ ہے کہ کسی دن قرآن کا جو حصہ پڑھا جانے والا ہو، تمام نمازی پیشگی طورپر قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھیں اور اس کے مضمون کو اپنے ذہن میں بٹھائیں۔ اِس کے بعد وہ مسجد میں جاکر تراویح پڑھیں۔ اِس طرح جب وہ تراویح پڑھیں گے تو وہ قرآن کو سنیں گے بھی اور اُس پر غور بھی کریں گے۔ یہ اُن کے لیے قرآن کا ایک اجتماعی مطالعہ ہوگا جس سے انھیں غیرمعمولی فائدے حاصل ہوں گے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ لوگ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں اور اللہ کا چرچا کریں تو اُس وقت وہاں فرشتے بہت زیادہ تعداد میں آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی آمد سے اُس مقام پر ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ تراویح، اِسی قسم کا ایک اجتماعی ذکر اور اجتماعی مطالعہ قرآن ہے۔ اُس کو اگر صحیح طورپر انجام دیا جائے تو اُس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوںگے۔
سوال
میری عمر اس وقت
میںآپ کی تحریک (دعوت الی اللہ) سے پوری طرح متفق ہوں اور چاہتاہوں کہ اس تحریک میں اپنا حصہ ادا کرکے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفّارہ ادا کر سکوں۔ گو کہ میں روحانی اعتبار سے خود کو انتہائی کمزور پاتا ہوں۔ میری شدید خواہش ہے کہ کم ازکم چالیس 40 دن آپ کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملے، تاکہ میری کنڈیشننگ ٹوٹے اور میں اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکوں۔ میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ کے ذریعہ کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کروں اور آپ کے زیر سایہ کچھ دن تربیت حاصل کرسکوں۔
میرے ساتھیوںکا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:
1 - حافظ صلاح الدین عمر
انھوںنے تعلیمی فراغت کے بعد پانچ سال تک ایک مسجد میں امامت کی۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن روایتی شاکلہ (framework)سے مطمئن نہیں تھے۔ آخر انھوںنے سب کچھ چھوڑ دیا۔ اور ایک کارخانے میں مینجر ہیں۔ الرسالہ مشن سے پوری طرح اتفاق رکھتے ہیں۔
2 - شفیق بھائی (میڈیکل اسٹور کے مالک) الرسالہ سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن بابری مسجد جیسے موضوع پر وہ آپ کے موقف سے مطمئن نہیں۔
3 - مسٹر سہراب اعظمی (اعظمی بیکری)یہ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ میں نے اُن سے بارہا کہا کہ دین کے کاموں میں آگے آئیں، اللہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر کرے گا۔ وہ الرسالہ کو پسند کرتے ہیں لیکن اُن کا اختلاف اس بات پر ہے کہ مولانا، مسلمانوں کو مکی زندگی کی ترغیب دیتے ہیں، جب کہ اس وقت مسلمانوں کو مدنی زندگی کے قیام کی کوشش کرنا چاہیے۔ میںنے اُن کو دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ مکی زندگی کے بغیر مدنی زندگی کا تصور ہی فضول ہے۔
4 - جاوید اکبر صاحب (ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ) یہ الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میں فرق کرنا ہی نہیں جانتے ۔وہ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
5 - مولانا مسعود۔ یہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ وہ میری باتوں کے جواب میں الٹے سیدھے سوال کرکے اُلجھا دیتے ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ انسان کے تین جسم ہیں— روح، جسم اور نفس۔ مرنے کے بعدروح، اللہ کے پاس چلی جائے گی کیوں کہ وہ پاک ہے اور جسم مٹی میں مل جائے گا، عذاب نفس کو ہوگا۔ جواب میں میں نے کہا کہ روح، جسم اور نفس کے مجموعے کا نام انسان ہے اور اپنے عمل کا وہی ذمہ دار ہے (محمد سلیم، حافظ صلاح الدین، مالے گاؤں)۔
جواب
1 - یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو ہمارے مشن سے پورا اتفاق ہے۔ ہمارے مشن میں حصہ لینے کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مقام پر، اپنی استطاعت کے بقدر، بلا تاخیر کام شروع کردیں۔ مثلاً آپ ایک لائبریری قائم کریں۔ ہم خیال لوگوں کو لے کر ہفتے وار اجتماع کریں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الرسالہ کا قاری بنائیں اور ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان پھیلائیں۔ حسب مقدور دعوتی کام کریں۔
2 - آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کمیونکیشن کا زمانہ ہے۔ آج کمیونکیشن کے ذریعے وہ فائدہ بالواسطہ طورپر حاصل کیا جاسکتا ہے جو پچھلے زمانے میں براہِ راست طورپر صحبت کے ذریعے حاصل ہوتا تھا۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر کئی افراد اِس طرح کام کررہے ہیں۔ وہ بار بار ٹیلی فون کے ذریعے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے یہاں ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کرتے ہیں۔ وہ ماڈرن کمیونکیشن کے ذریعے مسلسل طورپر ربط میں رہتے ہیں۔ اِس طرح وہ دور رہتے ہوئے صحبت کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آپ بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔
3 - آپ کے ساتھیوں کے بارے میں میرا قیاس ہے کہ وہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھ لیتے ہیں۔ اِس لیے ان کا ذہن ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ تذکیر القرآن کو اور دوسری کتابوں کو بار بار پڑھیں۔ اِس کے بعد اُن کے تمام اشکالات اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
4 - مکی اور مدنی زندگی کے بارے میں آپ نے ایک صاحب کا جواشکال نقل کیا ہے، وہ بھی مطالعے کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ ہماری کتابوں کو غور کے ساتھ پڑھیں، تو ان کا اشکال بھی اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ لوگوں کے تصور کے مطابق، مکی زندگی پُر امن دعوت کی علامت ہے، اور مدنی زندگی مسلّح جہاد کی علامت۔ پچھلے دو سو سال سے ساری دنیا کے مسلمان جگہ جگہ مسلح جہاد کررہے ہیں۔ یہ جہاد اب تک جاری ہے، لیکن بے شمار قربانیوں کے باوجود اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ہمارا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میںمسلح جہاد کے مواقع یک سر مفقود ہیں، جب کہ پُر امن دعوت کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں بلاشبہہ یہ بدترین نادانی ہے کہ پرامن دعوت کے مواقع کو استعمال نہ کیا جائے اور جہاد کے نام سے تباہ کن سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔ خود آپ کے ساتھی اور ان کے جیسے بہت سے لوگ عملاً اِسی طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ پُر امن مواقع کے درمیان اپنا کام کررہے ہیں، نہ کہ متشددانہ ماحول کے درمیان۔
5 - الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میںایک واضح فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ الرسالہ مشن خالص دعوتی تحریک ہے، جب کہ دوسری تحریکیں ملّی تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دعوتی تحریک وہ ہے جو انسانیتِ عامہ کے لیے اِنذار و تبشیر کی بنیاد پر اٹھے، جوکسی قومی یا مادّی مفاد کے بغیر، خدا کے ابدی پیغام کو بے آمیز انداز میں لوگوں کی قابلِ فہم زبان میںاُن کو پہنچائے۔ یہ پیغمبرانہ نوعیت کا کام ہے۔ اور یہ کام موجودہ زمانے میں صرف الرسالہ مشن کے تحت انجام پارہا ہے۔
ملی تحریکوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اُن میںسے کسی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو فخر کی غذا فراہم کی جائے، کسی کا مقصد ہے سیاسی اقتدار کو قائم کرنا، کوئی مسلمانوں کی مادّی یا اقتصادی خدمت کررہا ہے، کوئی مسلمانوں کے قومی مطالبات کو لے کر احتجاجی مہم چلا رہا ہے، کوئی مسلمانوں کی ملی اور روایتی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے، وغیرہ۔ اِس قسم کے کاموں کو ملی خدمت تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اُن کو دعوت الی اللہ کا کام نہیں کہا جاسکتا۔
7 - آپ کے جو ساتھی انسان کو روح اور جسم اور نفس میں تقسیم کرتے ہیں، اور اِس تقسیم کی بنیاد پر اپنا نظریے پیش کرتے ہیں، اُن سے آپ کوئی اور بحث نہ کریں، اُن سے آپ صرف یہ پوچھیے کہ اُن کے اِس نظریہ کا ماخذ قرآ ن میں کہاں ہے۔ اپنے نظریے کے ثبوت میں جب تک وہ کوئی صریح آیت نہ پیش کریں، اُن سے آپ امام احمد کی زبان میں کہیے: إیتونی شیئا من کتاب اللہ حتی أقول۔
سوال
عرض ہے کہ مجھے یہاںایک ساتھی مل گیا ہے، دعوتی کام کرنے کے لیے۔ میرے اِس ساتھی کا نام عبد القیوم شیخ محبوب ہے۔ وہ ناندیڑ کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھی کا کہنا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے لیے رات دن کام کرنے کا نصاب قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتائیے۔ اُن کے اِس کہنے پر میں نے اپنی معلومات کے مطابق، اُن سے کہا کہ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم الرسالہ مشن سے جُڑجائیں، تاہم اُن کو میری اِس بات پر سو فی صد اطمینان نہیںہو رہا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میںاُن کو کس طرح مطمئن کرسکتا ہوں۔ اِس بارے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ (کِشن جیونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، ناندیڑ، مہاراشٹر)۔
جواب
یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو اپنے مقام پر ایک ساتھی مل گیا۔ اب آپ دونوں مل کر مشن کواچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ آپ دونوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ آپ خالص غیر تنقیدی انداز میں کام کریں، کسی بھی حال میں آپ تنقیدی انداز نہ اختیار کریں۔ عام لوگوں کے لیے تنقید کا طریقہ ہر گز جائز نہیں۔آپ دونوں کامل طورپر صبر کا فارمولا اختیار کریں۔ صبر کا فارمولا یہ ہے کہ— پوری طرح مثبت انداز میںکام کیا جائے، کسی بھی حال میں منفی انداز نہ اختیار کیا جائے۔
آپ کے ساتھی کاکہنا ہے کہ اُن کو چوبیس گھنٹے کی دینی مشغولیت کے لیے ایک نصاب چاہیے۔ زندگی کے لیے اِس قسم کا نصاب بتانے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ دریافت کرنے کی چیز ہے۔ آپ کے ساتھی اگر فی الواقع ایسا ہمہ وقتی نصاب چاہتے ہیں، تو اُن کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ گہرا مطالعہ کریں۔ وہ تذکیر القرآن کو بار بار پڑھیں۔ وہ مطالعۂ سیرت اور پیغمبر انقلاب کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کا باربار گہرا مطالعہ کریں۔ اِس طرح کے گہرے مطالعے کے بعد اُن کو اپنے آپ وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس کو وہ ہمہ وقتی نصاب کہتے ہیں۔ اِس قسم کا نصاب پوچھ کر جاننے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ مطالعہ کے ذریعے دریافت کرنے کی چیز ہے۔
عملی پروگرام کے اعتبار سے، سب سے پہلے آپ لوگوں کو صرف ایک کام کرنا ہے، وہ یہ کہ آپ اپنے مقام پر مطبوعاتِ الرسالہ پر مشتمل ایک لائبریری قائم کریں۔ اور لوگوں کو آمادہ کریں کہ وہ اس لائبریری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اِس کے علاوہ، کسی دن ایک مقرر وقت پر آپ لوگ ہفتے وار اجتماع کریں۔ اِس اجتماع میںالرسالہ مشن سے وابستہ افراد کو اکھٹا کریں۔ اُن میں سے کوئی شخص ایک ہفتے تک باقاعدہ تیاری اور گہرے مطالعے کے بعد لوگوں کے سامنے دعوتی اور تربیتی موضوعات پر گفتگو کرے، یا حاضرین کی نسبت سے، وہ اِس موضوع پر اُن کے سامنے ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کسی کتاب کو پڑھ کر سنائے۔ اجتماع کے بعد دعوت کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے باہمی مشورہ کیا جائے۔ اِس پروگرام میں بنیادی چیز صرف ایک ہے، اوروہ ہے ماہ نامہ الرسالہ اور یہاں سے چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا۔اگر اِس طرح، سنجیدگی اور کامل صبر کے ساتھ کام کیا جائے، تو ان شاء اللہ چند دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور اللہ تعالی کام کے مزید راستے کھول دے گا۔
سوال
الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ افراد کی جانب سے صاحب ِالرسالہ کی جانب منسوب کرتے ہوئے یہ بات مستقل طورپر سننے میں آرہی ہے کہ مسلمانوں یا کم ازکم مولویوں کو سی پی ایس کا پیغام نہ پہنچایا جائے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کیا صاحب الرسالہ کی جانب منسوب کی گئی یہ بات درست ہے یا پھر یہ غلط نمائندگی کا کیس ہے۔ براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں(شکیل احمد، سہارن پور)۔
جواب
مذکورہ بات اگر کسی نے کہی ہے تو وہ بلا شبہہ ہماری غلط نمائندگی ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر ہرگز وہ نہیں ہے جو مذکورہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا مشن دعوت کا مشن ہے، اور دعوت کے مشن میں مذکورہ قسم کی تفریق درست نہیں ہوتی۔ دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک کو مخاطب کیا جائے، البتہ اِس خطاب میں افراد کے مزاج اور علمی معیار کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ دعوتی عمل میںمناظرہ (debate) نہیں کیا جاتا۔ مناظرہ، دعوت کی اسپرٹ کے خلاف ہے اگر داعی یہ محسوس کرے کہ وہ خود زیادہ موثر گفتگو کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہے، تو اس کو چاہیے کہ وہ مدعو کو دعوتی لٹریچر دینے پر اکتفا کرے، وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔
آپ کا یہ طریقہ نہایت مستحسن طریقہ ہے کہ آپ نے ہمارے بارے میں جو بات سنی، اس کو براہِ راست طورپر ہمارے پا س لکھ کراس کی تحقیق کی۔ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنے لگیں۔ اِس بارے میں ہر شخص کو یہ حدیث یاد رکھنا چاہیے: کفیٰ بالمرء کذباً أن یحدّث بکل ما سمع(صحیح مسلم) یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
1 - جون-جولائی 2008 میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کی طرف سے شاہ عمران حسن کا صوبہ گجرات (انڈیا) کا سفر ہوا۔ یہ سفر تقریباً ایک ماہ پر مشتمل تھا۔ شاہ عمران حسن نے اطلاع دی ہے کہ گجرات کے دو بڑے شہروں، احمد آباد اور سورت میں، بڑی تعداد میں لوگ ماہ نامہ الرسالہ کے ممبر بنے ۔ احمد آباد اور سورت میں حلقہ الرسالہ سے وابستہ احباب نے اپنا پوراتعاون دیا۔مسٹر الطاف ایم رفعت گجراتی زبان کے رائٹر (writer) ہیں۔ انھوںنے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کا ترجمہ گجراتی زبان میں کیا ہے۔ جلد ہی یہ کتاب گڈ ورڈ بکس سے شائع ہوگی۔ اس کا گجراتی نام یہ ہے: Manav Olakh Tari Jaat Ne (مانو آلوکھ تاری جات نی)
2 - الرسالہ مشن کے دعوتی پروگرام کے تحت کشمیر کا سفر ہوا۔ یہ سفر 30 جولائی 2008 کو شروع ہوا اور
3 - دور درشن (نئی دہلی) کی ٹیم اور زی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے
1. New Delhi, July 30 - A leading Muslim scholar Wednesday said a new ideology and stricter laws are needed to counter the militant face of Islam.
‘Violence begins from mind and every violence has an ideology. The solution is to counter it by evolving another counter-ideology,’ said Maulana Wahiduddin Khan at a press conference organised by Centre for Peace and Spirituality here Wednesday. ‘We need to dispel their wrong notions and tell them that killing innocent people in the name of Jihad will send them to hell and not heaven,’ he said. Maulana Wahiduddin Khan is a noted Islamic scholar and has authored more than 200 books on Islam. He established the Islamic centre in 1970 and CPS International in 2001 for bringing out the true face of Islam and to promote peace among nations. ‘After 60 years of freedom, we are - living under the shadow of bomb. My vocabulary fails to give me appropriate words to condemn the inhuman act of bomb blasts in Bangalore and Ahmedabad,’ said Maulana Wednesday. ‘One needs to differentiate between Islam and Muslim. You need to judge Muslim in the light of Islam, and not vice versa,’ he added. ‘When Islam came into the world in 7th century, there were only two literatures, Quran - and Hadith -. Muslims had a huge empire in the world and for nearly 1,000 years during their rule other literature was developed which was, however, influenced by political ideas,’ he added. ‘It was during this time that Muslims developed a psyche of supremacy, considering their Prophet as superior among all messengers of gods and their religion supreme among all others. However, this is nowhere written in Quran,’ said Maulana. ‘They entered modern period with this legacy but the condition today is not same and they don't have the same empire. This has led to Muslims living in despair and frustration, trying for political supremacy. Now out of frustrations, they have started suicide bombings,’ Maulana stated. He suggested that Muslim leaders and reformers take on the baton and educate their brethren all over the world. (IANS)
2. NEW DELHI, July 31 (Bernama) -- A renowned Indian Muslim scholar has urged Muslim leaders to promote counter-ideology to stem terrorism, as mere condemnation will not stop the growing menace, which continues to rear its ugly head in all corners of the earth. “All the educated people, both religious and secular, are engaged in condemning this act (terrorism).” “And this is not a new phenomenon. I can say that we are engaged in this kind of condemnation for half a century. This has failed to yield positive result,” Maulana Wahiduddin Khan, president of the New Delhi Islamic Centre, told reporters. “We have to tell Muslims that according to Islamic Shariah, this kind of violence is haram (unlawful). Islamic ideology is completely based on peaceful method. We have to introduce this ideology to the misguided Muslims,” hesaid. India needed to reassess its strategy to discover the root cause of this violent culture that is threatening the entire country. (BERNAMA)
5 - صدر اسلامی مرکز کی ایک نئی کتاب’حکمت اسلام‘ کے نام سے چھپ کر گڈورڈ بکس (نئی دہلی) سے شائع ہوگئی ہے۔ یہ کتاب
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.