سوال وجواب
سوال
میں ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوںاورروزہ بھی رکھتا ہوں، لیکن یہ تراویح جو ہر سال پڑھی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری، الرسالہ، حیدر آباد)
جواب
تراویح کوئی رسم نہیں ہے۔تراویح دراصل، قرآن کا اجتماعی مطالعہ (collective study) ہے۔ تراویح کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کو سنا جائے اور اس کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔تراویح کی بہترین صورت یہ ہے کہ کسی دن قرآن کا جو حصہ پڑھا جانے والا ہو، تمام نمازی پیشگی طورپر قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھیں اور اس کے مضمون کو اپنے ذہن میں بٹھائیں۔ اِس کے بعد وہ مسجد میں جاکر تراویح پڑھیں۔ اِس طرح جب وہ تراویح پڑھیں گے تو وہ قرآن کو سنیں گے بھی اور اُس پر غور بھی کریں گے۔ یہ اُن کے لیے قرآن کا ایک اجتماعی مطالعہ ہوگا جس سے انھیں غیرمعمولی فائدے حاصل ہوں گے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ لوگ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں اور اللہ کا چرچا کریں تو اُس وقت وہاں فرشتے بہت زیادہ تعداد میں آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی آمد سے اُس مقام پر ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ تراویح، اِسی قسم کا ایک اجتماعی ذکر اور اجتماعی مطالعہ قرآن ہے۔ اُس کو اگر صحیح طورپر انجام دیا جائے تو اُس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوںگے۔
سوال
میری عمر اس وقت 48 سال ہے۔ میری تعلیم ایک دینی مدرسے میں ہوئی۔ تعلیمی زندگی میں مدرسے کے اندر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ میںاس ماحول سے متنفّرہوگیا، نہ صرف اس ماحول سے بلکہ مذہب کے تعلق سے ایسی بیزاری ہوئی کہ روزہ نماز بھی چھوڑ دیا۔ برسوں یہ سلسلہ چلتا رہا پھر ایک دوست کے ذریعے ماہ نامہ الرسالہ سے تعارف ہوا۔ الرسالہ کے مضامین پسند آئے۔ لیکن اس لیے نہیں کہ اس میں معرفت والا دین بتایا گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ اس میں ڈھیر ساری معلومات ہوتی ہیں جس کے سہارے مختلف لوگوں سے بحث کی جاسکتی ہے،لیکن کب تک؟سچائی سر چڑھ کر بولتی ہے۔ الرسالہ کے مضامین نے دھیرے دھیرے متاثر کرنا شروع کردیا۔ اور میں نے سنجیدگی سے الرسالہ کی باتوں پر غور کرنا شروع کیا۔ میں نے پایا کہ یہ واحد ذریعہ ہے دین کو سمجھنے کا۔ اورخداکی توفیق سے یہ سمجھ میں آیا کہ اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے۔
میںآپ کی تحریک (دعوت الی اللہ) سے پوری طرح متفق ہوں اور چاہتاہوں کہ اس تحریک میں اپنا حصہ ادا کرکے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفّارہ ادا کر سکوں۔ گو کہ میں روحانی اعتبار سے خود کو انتہائی کمزور پاتا ہوں۔ میری شدید خواہش ہے کہ کم ازکم چالیس 40 دن آپ کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملے، تاکہ میری کنڈیشننگ ٹوٹے اور میں اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکوں۔ میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ کے ذریعہ کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کروں اور آپ کے زیر سایہ کچھ دن تربیت حاصل کرسکوں۔
میرے ساتھیوںکا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:
1 - حافظ صلاح الدین عمر 25 سال
انھوںنے تعلیمی فراغت کے بعد پانچ سال تک ایک مسجد میں امامت کی۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن روایتی شاکلہ (framework)سے مطمئن نہیں تھے۔ آخر انھوںنے سب کچھ چھوڑ دیا۔ اور ایک کارخانے میں مینجر ہیں۔ الرسالہ مشن سے پوری طرح اتفاق رکھتے ہیں۔
2 - شفیق بھائی (میڈیکل اسٹور کے مالک) الرسالہ سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن بابری مسجد جیسے موضوع پر وہ آپ کے موقف سے مطمئن نہیں۔
3 - مسٹر سہراب اعظمی (اعظمی بیکری)یہ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ میں نے اُن سے بارہا کہا کہ دین کے کاموں میں آگے آئیں، اللہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر کرے گا۔ وہ الرسالہ کو پسند کرتے ہیں لیکن اُن کا اختلاف اس بات پر ہے کہ مولانا، مسلمانوں کو مکی زندگی کی ترغیب دیتے ہیں، جب کہ اس وقت مسلمانوں کو مدنی زندگی کے قیام کی کوشش کرنا چاہیے۔ میںنے اُن کو دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ مکی زندگی کے بغیر مدنی زندگی کا تصور ہی فضول ہے۔
4 - جاوید اکبر صاحب (ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ) یہ الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میں فرق کرنا ہی نہیں جانتے ۔وہ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
5 - مولانا مسعود۔ یہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ وہ میری باتوں کے جواب میں الٹے سیدھے سوال کرکے اُلجھا دیتے ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ انسان کے تین جسم ہیں— روح، جسم اور نفس۔ مرنے کے بعدروح، اللہ کے پاس چلی جائے گی کیوں کہ وہ پاک ہے اور جسم مٹی میں مل جائے گا، عذاب نفس کو ہوگا۔ جواب میں میں نے کہا کہ روح، جسم اور نفس کے مجموعے کا نام انسان ہے اور اپنے عمل کا وہی ذمہ دار ہے (محمد سلیم، حافظ صلاح الدین، مالے گاؤں)۔
جواب
1 - یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو ہمارے مشن سے پورا اتفاق ہے۔ ہمارے مشن میں حصہ لینے کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مقام پر، اپنی استطاعت کے بقدر، بلا تاخیر کام شروع کردیں۔ مثلاً آپ ایک لائبریری قائم کریں۔ ہم خیال لوگوں کو لے کر ہفتے وار اجتماع کریں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الرسالہ کا قاری بنائیں اور ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان پھیلائیں۔ حسب مقدور دعوتی کام کریں۔
2 - آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کمیونکیشن کا زمانہ ہے۔ آج کمیونکیشن کے ذریعے وہ فائدہ بالواسطہ طورپر حاصل کیا جاسکتا ہے جو پچھلے زمانے میں براہِ راست طورپر صحبت کے ذریعے حاصل ہوتا تھا۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر کئی افراد اِس طرح کام کررہے ہیں۔ وہ بار بار ٹیلی فون کے ذریعے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے یہاں ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کرتے ہیں۔ وہ ماڈرن کمیونکیشن کے ذریعے مسلسل طورپر ربط میں رہتے ہیں۔ اِس طرح وہ دور رہتے ہوئے صحبت کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آپ بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔
3 - آپ کے ساتھیوں کے بارے میں میرا قیاس ہے کہ وہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھ لیتے ہیں۔ اِس لیے ان کا ذہن ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ تذکیر القرآن کو اور دوسری کتابوں کو بار بار پڑھیں۔ اِس کے بعد اُن کے تمام اشکالات اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
4 - مکی اور مدنی زندگی کے بارے میں آپ نے ایک صاحب کا جواشکال نقل کیا ہے، وہ بھی مطالعے کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ ہماری کتابوں کو غور کے ساتھ پڑھیں، تو ان کا اشکال بھی اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ لوگوں کے تصور کے مطابق، مکی زندگی پُر امن دعوت کی علامت ہے، اور مدنی زندگی مسلّح جہاد کی علامت۔ پچھلے دو سو سال سے ساری دنیا کے مسلمان جگہ جگہ مسلح جہاد کررہے ہیں۔ یہ جہاد اب تک جاری ہے، لیکن بے شمار قربانیوں کے باوجود اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ہمارا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میںمسلح جہاد کے مواقع یک سر مفقود ہیں، جب کہ پُر امن دعوت کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں بلاشبہہ یہ بدترین نادانی ہے کہ پرامن دعوت کے مواقع کو استعمال نہ کیا جائے اور جہاد کے نام سے تباہ کن سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔ خود آپ کے ساتھی اور ان کے جیسے بہت سے لوگ عملاً اِسی طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ پُر امن مواقع کے درمیان اپنا کام کررہے ہیں، نہ کہ متشددانہ ماحول کے درمیان۔
5 - الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میںایک واضح فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ الرسالہ مشن خالص دعوتی تحریک ہے، جب کہ دوسری تحریکیں ملّی تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دعوتی تحریک وہ ہے جو انسانیتِ عامہ کے لیے اِنذار و تبشیر کی بنیاد پر اٹھے، جوکسی قومی یا مادّی مفاد کے بغیر، خدا کے ابدی پیغام کو بے آمیز انداز میں لوگوں کی قابلِ فہم زبان میںاُن کو پہنچائے۔ یہ پیغمبرانہ نوعیت کا کام ہے۔ اور یہ کام موجودہ زمانے میں صرف الرسالہ مشن کے تحت انجام پارہا ہے۔
ملی تحریکوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اُن میںسے کسی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو فخر کی غذا فراہم کی جائے، کسی کا مقصد ہے سیاسی اقتدار کو قائم کرنا، کوئی مسلمانوں کی مادّی یا اقتصادی خدمت کررہا ہے، کوئی مسلمانوں کے قومی مطالبات کو لے کر احتجاجی مہم چلا رہا ہے، کوئی مسلمانوں کی ملی اور روایتی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے، وغیرہ۔ اِس قسم کے کاموں کو ملی خدمت تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اُن کو دعوت الی اللہ کا کام نہیں کہا جاسکتا۔
7 - آپ کے جو ساتھی انسان کو روح اور جسم اور نفس میں تقسیم کرتے ہیں، اور اِس تقسیم کی بنیاد پر اپنا نظریے پیش کرتے ہیں، اُن سے آپ کوئی اور بحث نہ کریں، اُن سے آپ صرف یہ پوچھیے کہ اُن کے اِس نظریہ کا ماخذ قرآ ن میں کہاں ہے۔ اپنے نظریے کے ثبوت میں جب تک وہ کوئی صریح آیت نہ پیش کریں، اُن سے آپ امام احمد کی زبان میں کہیے: إیتونی شیئا من کتاب اللہ حتی أقول۔
سوال
عرض ہے کہ مجھے یہاںایک ساتھی مل گیا ہے، دعوتی کام کرنے کے لیے۔ میرے اِس ساتھی کا نام عبد القیوم شیخ محبوب ہے۔ وہ ناندیڑ کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھی کا کہنا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے لیے رات دن کام کرنے کا نصاب قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتائیے۔ اُن کے اِس کہنے پر میں نے اپنی معلومات کے مطابق، اُن سے کہا کہ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم الرسالہ مشن سے جُڑجائیں، تاہم اُن کو میری اِس بات پر سو فی صد اطمینان نہیںہو رہا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میںاُن کو کس طرح مطمئن کرسکتا ہوں۔ اِس بارے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ (کِشن جیونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، ناندیڑ، مہاراشٹر)۔
جواب
یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو اپنے مقام پر ایک ساتھی مل گیا۔ اب آپ دونوں مل کر مشن کواچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ آپ دونوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ آپ خالص غیر تنقیدی انداز میں کام کریں، کسی بھی حال میں آپ تنقیدی انداز نہ اختیار کریں۔ عام لوگوں کے لیے تنقید کا طریقہ ہر گز جائز نہیں۔آپ دونوں کامل طورپر صبر کا فارمولا اختیار کریں۔ صبر کا فارمولا یہ ہے کہ— پوری طرح مثبت انداز میںکام کیا جائے، کسی بھی حال میں منفی انداز نہ اختیار کیا جائے۔
آپ کے ساتھی کاکہنا ہے کہ اُن کو چوبیس گھنٹے کی دینی مشغولیت کے لیے ایک نصاب چاہیے۔ زندگی کے لیے اِس قسم کا نصاب بتانے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ دریافت کرنے کی چیز ہے۔ آپ کے ساتھی اگر فی الواقع ایسا ہمہ وقتی نصاب چاہتے ہیں، تو اُن کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ گہرا مطالعہ کریں۔ وہ تذکیر القرآن کو بار بار پڑھیں۔ وہ مطالعۂ سیرت اور پیغمبر انقلاب کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کا باربار گہرا مطالعہ کریں۔ اِس طرح کے گہرے مطالعے کے بعد اُن کو اپنے آپ وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس کو وہ ہمہ وقتی نصاب کہتے ہیں۔ اِس قسم کا نصاب پوچھ کر جاننے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ مطالعہ کے ذریعے دریافت کرنے کی چیز ہے۔
عملی پروگرام کے اعتبار سے، سب سے پہلے آپ لوگوں کو صرف ایک کام کرنا ہے، وہ یہ کہ آپ اپنے مقام پر مطبوعاتِ الرسالہ پر مشتمل ایک لائبریری قائم کریں۔ اور لوگوں کو آمادہ کریں کہ وہ اس لائبریری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اِس کے علاوہ، کسی دن ایک مقرر وقت پر آپ لوگ ہفتے وار اجتماع کریں۔ اِس اجتماع میںالرسالہ مشن سے وابستہ افراد کو اکھٹا کریں۔ اُن میں سے کوئی شخص ایک ہفتے تک باقاعدہ تیاری اور گہرے مطالعے کے بعد لوگوں کے سامنے دعوتی اور تربیتی موضوعات پر گفتگو کرے، یا حاضرین کی نسبت سے، وہ اِس موضوع پر اُن کے سامنے ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کسی کتاب کو پڑھ کر سنائے۔ اجتماع کے بعد دعوت کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے باہمی مشورہ کیا جائے۔ اِس پروگرام میں بنیادی چیز صرف ایک ہے، اوروہ ہے ماہ نامہ الرسالہ اور یہاں سے چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا۔اگر اِس طرح، سنجیدگی اور کامل صبر کے ساتھ کام کیا جائے، تو ان شاء اللہ چند دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور اللہ تعالی کام کے مزید راستے کھول دے گا۔
سوال
الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ افراد کی جانب سے صاحب ِالرسالہ کی جانب منسوب کرتے ہوئے یہ بات مستقل طورپر سننے میں آرہی ہے کہ مسلمانوں یا کم ازکم مولویوں کو سی پی ایس کا پیغام نہ پہنچایا جائے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کیا صاحب الرسالہ کی جانب منسوب کی گئی یہ بات درست ہے یا پھر یہ غلط نمائندگی کا کیس ہے۔ براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں(شکیل احمد، سہارن پور)۔
جواب
مذکورہ بات اگر کسی نے کہی ہے تو وہ بلا شبہہ ہماری غلط نمائندگی ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر ہرگز وہ نہیں ہے جو مذکورہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا مشن دعوت کا مشن ہے، اور دعوت کے مشن میں مذکورہ قسم کی تفریق درست نہیں ہوتی۔ دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک کو مخاطب کیا جائے، البتہ اِس خطاب میں افراد کے مزاج اور علمی معیار کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ دعوتی عمل میںمناظرہ (debate) نہیں کیا جاتا۔ مناظرہ، دعوت کی اسپرٹ کے خلاف ہے اگر داعی یہ محسوس کرے کہ وہ خود زیادہ موثر گفتگو کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہے، تو اس کو چاہیے کہ وہ مدعو کو دعوتی لٹریچر دینے پر اکتفا کرے، وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔
آپ کا یہ طریقہ نہایت مستحسن طریقہ ہے کہ آپ نے ہمارے بارے میں جو بات سنی، اس کو براہِ راست طورپر ہمارے پا س لکھ کراس کی تحقیق کی۔ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنے لگیں۔ اِس بارے میں ہر شخص کو یہ حدیث یاد رکھنا چاہیے: کفیٰ بالمرء کذباً أن یحدّث بکل ما سمع(صحیح مسلم) یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں