قرآن کی سورہ نمبر 2 میں صومِ رمضان کے احکام آئے ہیں۔ اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح وہ تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تا کہ تم متقی بنو،گنتی کے چند دن۔ پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو، یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ اُسے بہ مشقت برداشت کرسکیں، تو ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے، جو شخص مزید نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اور تم روزہ رکھو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانو۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا ، ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستے کی، اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں جو شخص اِس مہینے کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اُس کیگنتی پوری کرلے۔ اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے، وہ تمھارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اور وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ کی بڑائی کرو اِس بات پر کہ اُس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اللہ کے شکر گزار بنو‘‘ (البقرۃ: 183-185 )۔
روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ایک، شکر اور دوسر ے، تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، مگر عام حالات میں آدمی کو اِس کا احساس نہیں ہوتا۔ روزے میں جب آدمی دن بھر اِن چیزوں سے رُکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک، پیاس کی حالت میں وہ کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے، تو اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی، اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اِس تجربے سے آدمی کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
دو سری طرف، روزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے، وہ اُن چیزوں سے رکا رہے جن سے خدا نے اُس کوروکا ہے اور وہ وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اس کو اجازت دی ہے۔ روزے میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا، پینا چھوڑ دینا، گویا اللہ کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دارانہ زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر، آدمی کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر کے لیے اُن چیزوں کو چھوڑ دے جو اُس کے رب کو ناپسند ہیں۔
قرآن، بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اِس انعام کا عملی اعتراف۔ روزے کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق، دنیا میں متقیانہ زندگی گزارسکے۔
روزہ رکھنے سے دل کے اندر نرمی اورشکستگی آتی ہے۔ اِس طرح، روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اُن کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزے کی پُرمشقت تربیت، آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میںاس کا دل تڑپے، اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو— جب آدمی اِس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اُسی وقت وہ اِس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر ادا کرے جس میں اُس کے د ل کی دھڑکنیں شامل ہوں، وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کردے، وہ اللہ کو ایک ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیاہو۔
رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اور قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے، وہ تعلق یہ ہے کہ قرآن اپنے ماننے والوںکو ایک مشن دیتا ہے، دعوت الی اللہ کا مشن ۔ اِس دعوتی مشن کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے صبر وتحمل کی لازمی طورپر ضرورت ہے۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ — رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے (ہوشہر الصبر، البیہقی، جلد 2، صفحہ
واپس اوپر جائیں
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمس: شہادۃِ أن لا إلٰہ إلاّ اللّٰہ وأن محمداً عبدُہ ورسولُہ، وإقام الصلاۃِ وإیتاء الزکاۃ والحجّ وصوم رمضان (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب: الإیمان) یعنی پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں— اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکات ادا کرنا، اور حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔
اِس حدیث میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ پہلی چیز کلمۂ شہادت ہے جو اسلام کے اعتقادی رکن کی حیثیت رکھتاہے۔ دوسری چیز ہے، نماز کو قائم کرنا۔ تیسری چیز ہے، اپنے مال میں سے زکات دینا۔ چوتھی چیز ہے، حج ادا کرنا۔ اور پانچویں چیز ہے، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔
اسلام کو اگر ایک عمارت سے تشبیہہدی جائے تو اِس عمارت کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔ اِن میں سے ایک روزہ ہے۔ روزے کی حقیقت صبر ہے۔ روزے کا مقصد آدمی کے اندر صبر وتحمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ صبر اسلامی زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص اسلام پر قائم نہیں رہ سکتا— نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر، شیطان کے بہکاوے کے مقابلے میں صبر، لوگوں کی ایذاؤں کے مقابلے میں صبر، جان ومال کے نقصان کے مقابلے میں صبر، ناخوش گوار تجربات کے مقابلے میں صبر، محرومی کے واقعات پر صبر، مصیبتوں کے مقابلے میں صبر، وغیرہ۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت ہے۔ سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود مثبت سوچ (positive thinking)پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔ اور روزہ اِسی قسم کی حوصلہ مندانہ زندگی کی تربیت ہے۔
واپس اوپر جائیں
روزہ کے لیے عربی لفظ صوم ہے۔ صوم کے معنیٰ ہیں، رُکنا(abstinance)۔ زندگی میں صرف اقدام کی اہمیت نہیںہوتی، بلکہ رُکنا بھی زندگی میںایک بے حد اہم پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقدام اگر خارجی توسیع کی علامت ہے تو رُکنا داخلی استحکام کی علامت۔ اور زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے بلا شبہہ دونوں ہی یکساں طورپر ضروری ہیں۔
مشہور صحابی خالد بن الولید کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ کا لقب عطا کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے خالد بن الولید کو یہ لقب کسی اقدام یا جنگی پیش قدمی پر نہیں دیا تھا، بلکہ آپ نے سیف اللہ کا لقب اُنھیں اُس وقت دیا تھا جب کہ غزوۂ مُوتہ (8 ہجری) کے موقع پر انھوں نے یک طرفہ طورپر اپنی تلوار میان میں رکھ لی تھی اور تمام صحابہ کو جنگ کے میدان سے ہٹا کر مدینہ واپس آگئے تھے۔
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ تم چند دنوں کے لیے کھانا چھوڑ دو، تاکہ تم بقیہ دنوں میں زیادہ اچھے کھانے والے بنو۔ تم چند دنوں کے لیے اپنی سرگرمیوں کو داخلی تعمیر کے محاذ پر لگا دو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر طورپر خارجی سرگرمی کے قابل بن جاؤ۔ چند دنوں کے لئے تم اپنے بولنے پر پابندی لگا لو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر بولنے والے بن سکو۔ چند دنوں کے لیے تم اپنے مقام پر ٹھہر جاؤ، تاکہ اس کے بعد تم کامیاب پیش قدمی کے قابل بن سکو۔
روزے کا مہینہ مومن کے لیے تیاری کا مہینہ ہے— اپنی سوچ کے معیار کو بلند کرنا، اپنی عبادت میںتقویٰ کی اسپرٹ بڑھانا ، اپنی روحانیت میںاضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، بھوک اور سیری کا تجربہ کرکے اپنے اندر شکر کا احساس جگانا، مادی مشغولیت کو کم کرکے آخرت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا، خارجی سفر کو روک کر داخلی سفر کی طرف رواں ہونا، ایک مہینے کے تربیتی کورس سے گزر کر پورے ایک سال کے لیے شکر و تقویٰ کی غذا حاصل کر لینا، وغیرہ۔یہی روزے کا مقصد ہے اوریہی روزے کی مقبولیت کا اصل معیاربھی۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صام رمضان إیماناً واحتساباً، غُفِر لہ ما تقدم من ذنبہ، ومن قام رمضان إیماناً واحتساباً غُفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔ ومن قام لیلۃَ الْقدر إیمانًا واحتسابًا غُفر لہ ما تقدم من ذنبہ(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: من صام رمضان) یعنی جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیامِ لیل کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اور جس نے شب ِ قدر میںایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
اِس حدیث میں رمضان کی تین عبادتوں کا ذکر ہے۔ تینوں کے ساتھ حدیث میں ’ایمان‘ اور ’احتساب‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ایمان سے مراد اللہ پر عارفانہ یقین ہے۔ اور احتساب (anticipation of God’s reward)سے مراد خالص رضائِ الہی کے حصول اور طلب اجر کی نیت سے عمل کرنا ہے(طلب الأجر من اللہ تعالیٰ، لا لقصد اٰخر من ریاء أو نحوہ)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ روزہ اور دوسری عبادات کو صرف اس کے ظاہری فارم (form) کے اعتبار سے نہ کرنا، بلکہ اس کی سچی روح (spirit) کے ساتھ اس کو انجام دینا۔
ایمان اور احتساب کے ساتھ ادا کیا جانے والا یہ روزہ اور عبادت وہ ہے جس میں بندہ گویا کہ آنسوؤں سے وضو کرتا ہے، جس میں بھوک کا مطلب یہ ہوتا ہے، گویا کہ آدمی نے اپنے اور اللہ کے درمیان سے ہر دوسری چیز کو ہٹا دیا ہے، جس میں رکوع اور سجدہ خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ کرنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے، جس میںانسان الہامی الفاظ میں دعا کرنے لگتا ہے— جو شخص اِن اعلیٰ ربانی کیفیات کے ساتھ روزہ اور عبادت کا تجربہ کرے، وہی وہ انسان ہے جو رمضان کے مہینے سے اِس طرح نکلتا ہے کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ روزہ تمھارے اوپر اس لیے فرض کیا گیا، تاکہ تمھارے اندر خدا کا ڈر پیدا ہو (البقرۃ:
حقیقت یہ ہے کہ عجز کا اعتراف ہی ایمان کا آغاز ہے۔ جب کسی آدمی کو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کے اندر سب سے زیادہ جو احساس پیدا ہوتا ہے، وہ یہی عجز ہے۔ خدا پر ایمان در اصل خدا کی بے پناہ عظمت کو دریافت کرنا ہے۔ اور جو آدمی خدا کی بے پناہ عظمت کو دریافت کرے، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ عجز کے احساس میں ڈوب جائے گا۔ اُس کے اندر جو سب سے بڑی صفت پیدا ہوگی، وہ یہی عجز کی صفت ہے۔
ایمان، خدا کی معرفت کا دوسرا نام ہے، اُس خدا کی معرفت جو اتھاہ کائنات کا خالق و مالک ہے، جو حیرت ناک قدرت کے ساتھ اس اتھاہ کائنات کو کنٹرول کررہا ہے۔ یہ شعور جس عورت یا مرد کے اندر پیدا ہو جائے، اُس کا حال یہی ہوگا کہ اس کو تمام عظمتیںخدا کی طرف دکھائی دیں گی اور اپنی طرف اس کو عجز کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے گا۔
عجز سادہ طور پر صرف ایک احساس کا نام نہیں ہے، عجز کسی انسان کی زندگی میں سب سے بڑی قوتِ محرکہ (motivational force)ہے۔ عجز آدمی کی پوری شخصیت میں ایک بھونچال پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ عجز آدمی کے ذہن و فکر میں کامل انقلاب برپاکردیتا ہے۔
عجز کے احساس کاتعلق خدا سے ہے، مگر جب کسی آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں عجز کا احساس پیدا ہوجائے تو انسانی تعلقات میں بھی اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ جو آدمی اپنے آپ کو خدا کے سامنے عاجز بناتا ہے، وہ اپنی اسی اسپرٹ کے تحت انسانوں کے سامنے متواضع (modest)بن جاتا ہے۔عجز، خدا کی نسبت سے عجز ہے اور انسان کی نسبت سے تواضع۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کے بارے میں فرمایا: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالھا إلی سبع مأۃ ضعف، قال اﷲ تعالیٰ: إلا الصوم، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی، للصائم فرحتان: فرحۃ عند فطرہ، و فرحۃ عند لقاء ربہ، و لخُلوف فم الصائم أطیب عند اﷲ من ریح المسک، والصیام جُنۃ، و إذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفُث و لایصخَب، فإن سابّہ أحد أو قاتلہ فلیقل: إنی امرؤ صائم (صحیح مسلم، کتاب الصّیام، باب: فضل الصیام)۔
انسان کے ہر عمل کی نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مگر روزہ، پس وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار میرے لئے اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس کے افطارکے وقت، اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ نہ بد گوئی کرے اور نہ جھگڑا کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔
یہ روایت صحیحین میں اور حدیث کی دوسری کتابوں میں آئی ہے۔اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ روزہ اللہ کے لئے ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا جواب قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں روزہ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے (البقرۃ:
قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایسے انسان درکار ہیں جو اپنی ذات کے لئے جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ تمام تر اللہ کے لیے جینے والے ہوں۔ جن میں یہ حوصلہ ہو کہ وہ ایک ربانی مشن کے لئے اپنی خواہشات پرر وک لگادیں۔ جو پر رونق زندگی کے بجائے خشک زندگی پر راضی ہوجائیں۔ جن کے اندر یہ برداشت ہو کہ وہ لوگوں کی منفی باتوں کا بھی مثبت جواب دے سکیں۔ جو شعوری اعتبار سے اتنا بلند ہوں کہ لوگوں کی مخالفتیں ان کو قرآنی مشن سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
قرآن کے پیغام ہدایت کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانا خالص اللہ کا کام ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی دنیوی فائدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کو صرف اپنا کام قرار دیا اور اس پر خصوصی انعام کا اعلان فرمایا۔
جو لوگ قرآن کا علم حاصل کریں، وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کریں، وہ قرآن کے پیغام کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بنانے میں اپنی ساری کوشش صرف کر ڈالیں ، جو یک طرفہ طورپر اس ذمہ داری کو قبول کریں کہ انھیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرنا ہے، تا کہ اللہ کا پیغام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو سکے، حتی کہ اس مقصد کے لیے وہ بھوک اور پیاس کی مشقت برداشت کرنے کے لیے راضی ہو جائیںـــایسے لوگ اللہ کے خاص بندے ہیں، وہ اس کے مستحق ہیں کہ اللہ اُن پر اپنی خصوصی نوازشوں کی بارش کرے۔
روزے دار کا اللہ کے لیے اپنی خواہشوں کو چھوڑنا یہ ہے کہ وہ ذاتی کامیابی کے بجائے اللہ کے دعوتی مشن کو اپنا مقصد بنائے۔ وہ خدا کی کتاب کے نزول کے مہینہ میں خصوصی تربیتی کورس کے ذریعہ اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرے کہ وہ خدا کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچائے گا۔ وہ قرآن کی دعوت وتبلیغ کو اپنی زندگی کا مشن بنائے گا، نہ کہ ذاتی مفاد کے حصول کو۔ اس کی زندگی کا مرکز و محور قرآن ہوگا اور صرف قرآن۔
واپس اوپر جائیں
حضرت سلمان فارسی کی ایک روایت حدیث کی کتابوںمیں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ— شعبان کے مہنیے کے آخری دن، رسول اللہ ﷺنے ہم کو خطاب فرمایا۔ یہ ایک تفصیلی حدیث ہے۔ اس کے کچھ حصے یہ ہیں: یا أیہا الناس، قد أظلّکم شہرٌ عظیمٌ، شہرٌ مبارکٌ، شہرٌ فیہ لیلۃٌ خیر من ألف شہر، جعل اللہ صیامہ فریضۃً وقیام لیلہ تطوّعا… ہو شہر الصبر، والصبرثوابُہ الجنّۃ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، جلد2 ، صفحہ
’’صبر کا مہینہ‘‘ کا مطلب ہے — مشقت کا مہینہ۔ رمضان کے مہینے میں آدمی کو اپنے معمولات کو توڑنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیاس کے باوجود پانی نہ پئے، اور بھوک کے باوجود کھانا نہ کھائے، وہ اپنی خواہشات (desires) کو کنٹرول میں رکھے۔ رمضان کو اگر درست طور پر گزارا جائے توپورا کا پورا مہینہ مشقتوں کا مہینہ بن جائے گا۔ سچے روزہ دار کے لیے رمضان کا مہینہ مسلسل صبر کا مہینہ ہے، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی۔
جو عمل صبر کی قیمت پر کیا جائے، وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی عمل ہوتاہے۔ عام حالات میں انسان جو عمل کرتا ہے، اُس میںاُس کی شخصیت کا صرف جزئی حصہ شامل ہوتا ہے۔ لیکن جس عمل کو انجام دینے کے لیے صبر کرنا پڑے، اُس میں آدمی کی پوری شخصیت فعّال (active)طورپر شامل ہوجاتی ہے۔ یہی فرق ہے جس کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ عام عمل کے مقابلے میں، صابرانہ عمل کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس بنا پر اُس کی جزا بھی۔ رمضان کو پانے والا وہ ہے جس کے لیے رمضان کا مہینہ حقیقی معنوںمیں صابرانہ زندگی کی تیاری کا مہینہ بن جائے، ایسی صابرانہ زندگی جو پورے سال کے لیے آدمی کو صبر کے راستے پر قائم رکھنے والی بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت سلمان فارسی سے ایک طویل روایت آئی ہے۔ اِس روایت میں رمضان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ آئے ہیں: ہو شہر المواساۃ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، باب فی الصیام، فصل فی فضائل شہر رمضان) یعنی رمضان کا مہینہ انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں رمضان کو مواسات (philanthropy) کا مہینہ کہا گیاہے۔ مواسات کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ساتھ مالی، یا غیر مالی مدد کا معاملہ کیا جائے۔ اِس کے لیے قرآن میں ’مَرحمۃ‘ (البلد:
رمضان کے مہینے میںروزہ رکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اندر انسانی ہمدردی کے احساس کو جگاتا ہے۔ روزہ گویا کہ اُس محتاجی کی حالت کو اختیاری طورپر اپنے اوپر طاری کرناہے جو دوسروں کے ساتھ مجبورانہ طورپر پیش آتی ہے۔ اِس طرح، روزہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایک اخلاقی ذمّے داری کو روزے دار کے لیے اُس کا ایک ذاتی تجربہ بنا دیتاہے۔ اِس ذاتی تجربے کی بنا پر وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ انسانی ہمدردی کے معاملے کو سمجھتا ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔
روزہ ایک طرف، انسان کے اندر اللہ سے تعلق کو بڑھاتا ہے، اور دوسری طرف، وہ روزے دار کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ مزید اضافے کے ساتھ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ رمضان کے مہینے کے بعد انسان زیادہ بہتر طورپر خدا کا عبادت گزار بن جاتا ہے اور اِسی کے ساتھ وہ زیادہ بہتر طورپر انسان کا خدمت گزار بھی۔روزہ ایک اعتبار سے، عبادت ِ خداندی کا تجربہ ہے اور دوسرے اعتبار سے، خدمتِ انسانی کی تربیت کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں اللہ تعالیٰ نے دعا کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: وإذا سألک عبادی عنّی فإنی قریب ، أجیب دعوۃ الدّاع إذا دعانِ فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلہم یرشد ون (البقرۃ:
دعا کسی قسم کے متعین الفاظ کو دہرانے کا نام نہیں، دعادراصل دل کی پکار کا نام ہے۔ جب کسی انسان کے دل میں اعلیٰ ربانی جذبات پیدا ہوں اور وہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے، تو یہی وہ چیز ہے جس کو اسلام میں دعا کہاگیا ہے۔ اِس قسم کی دعا اُس انسان کے اندر سے نکلتی ہے جو دل شکستگی کے تجربے سے دوچار ہو۔ اور روزے کی مشقت آدمی کو اِسی دل شکستگی کا تجربہ کراتی ہے۔ اِس طرح ، آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ مطلوب نوعیت کی سچی دعا کرسکے۔حقیقی دعا وہ ہے جس میں عجز کا تجربہ شامل ہوجائے۔
خدا، انسان کے بالکل قریب ہے۔ وہ ہر لمحہ انسان کے قریب رہتا ہے، لیکن اِس قربتِ الہٰی کاتجربہ صرف اُس انسان کو ہوتا ہے جو عاجزانہ روح کے ساتھ اللہ کو پکارے۔ حقیقی روزہ آدمی کو اِسی عجز اور عبدیت کا تجربہ کراتا ہے۔ اِس طرح، سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ خدا کی قربت کا تجربہ کرے، وہحقیقی معنوں میں خداسے دعا کرنے والا بن جائے۔
سچی دعا وہ ہے جس کے ساتھ سچا عمل شامل ہو۔ سچے عمل سے مراد مطابقِ دعا عمل ہے۔ سچی دعا اور سچے عمل کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ جس آدمی کو خدا کی سچی قربت ملے، وہ یقینا ایک باعمل انسان بن جائے گا۔ اور باعمل انسان ہی وہ انسان ہے جس کی دعا اللہ تک پہنچتی ہے اور قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ جس دعا کے ساتھ مطابقِ دعا عمل شامل نہ ہو، وہ دعا قابلِ رد ہے، نہ کہ قابلِ قبول۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلُّ عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃُ بعشر أمثالہا إلی سبع مأۃ ضِعْف، قال اللہ تعالی: إلاّ الصوم، فإنہ لی وأنا أَجزی بہ، یَدَع شہوتہ وطعامَہ من أجلی (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام) یعنی انسان کے ہر عمل کا اجر، دس گُنا سے لے کر سات سوگنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: سوائے روزہ کے، کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش کو اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔
انسان جب کوئی صالح عمل کرتا ہے، تو اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُس کے عمل کا اجر اُس کو زیادہ بڑھا کر دیا جائے۔ عام حالات میںآدمی کے اجر میں یہ اضافہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہوتا ہے، لیکن روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اجر ایک سچے روزے دار کو بے حساب گنا اضافے کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
صالحعمل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، وہ جو نارمل حالت میں کیا جائے۔ مثلاً معمول کے مطابق، پانچ وقت کی نماز ادا کرنا، یا سال پورا ہونے پر اپنے مال میں سے زکات نکالنا۔ ذی الحجہ کا مہینہ آنے پر حج کی عبادت کو انجام دینا، وغیرہ۔ یہ عبادتیں وہ ہیں جو معمول کے حالات میں ادا کی جاتی ہیں۔ اِن پر بھی بلا شبہہ اجر ملتا ہے، لیکن ان کا اجر،اضافے کے باوجود، ایک محدود اجر ہوتا ہے، نہ کہ لامحدود اجر۔
عبادت کی دوسری قسم وہ ہے جو غیر معمولی حالات میں ادا کی جاتی ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس میں انسان کو ایک قسم کے بھونچال سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جس میںآدمی کو خود اپنے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے، جس میں آدمی کو اپنی خواہشوں (desires)سے لڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے، یہ وہ عبادت ہے جو قربانی (sacrifice) کی سطح پر ادا کی جاتی ہے۔ پہلی قسم کی عبادت اگر ہموار راستے کا سفر ہے، تو دوسری قسم کی عبادت پہاڑ کی چڑھائی کے ہم معنیٰ۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر دوسری قسم کی عبادت کا اجر پہلی قسم کی عبادت کے مقابلے میں، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ایک، معمول کی عبادت ہے اور دوسری، غیر معمولی حالات میں کی ہوئی عبادت۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا کان أوّلُ لیلۃٍ من شہر رمضان، صُفّدت الشیاطینُ ومَرَدۃُ الجنّ، وغُلّقت أبواب النّار فلم یُفتح منہا بابٌ۔ وفُتحت أبواب الجنّۃ فلم یُغلق منہا باب۔ وینادی مُنادٍ: یا باغیَ الخیرِ أقبِلْ، ویا باغی الشرّ أقصِرْ۔ وللّٰہ عُتقاء من النار، وذلک کلّ لیلۃ ( الترمذی،کتاب الصوم، باب: فضل شہر رمضان) یعنی جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات آتی ہے، تو شیاطین اور بھٹکانے والے سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ — اے خیر کے طالب، آگے بڑھ اور اے شر کے طالب، رک جا۔ اور اللہ لوگوں کو جہنم سے بَری کرتاہے، اور ایسا ہر رات کو ہوتا ہے۔
اِس حدیث میں ایک مخصوص اسلوب میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ رمضان کا مہینہ اپنے اعمال کے اعتبارسے، روزے داروں کے لیے ایک موافقِ اصلاح ماحول پیدا کرتاہے۔ جو لوگ اِس ماحول سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھائیں، وہ اللہ کی رحمت کے نتیجے میں جنت سے قریب ہوجائیں گے اور وہ جہنم سے دور ہوجائیں گے۔ ان کے اندر ایسی شخصیت کی تعمیر ہوگی جو اُن کے لیے رمضان کی برکتوں کے حصول کا ذریعہ بن جائے گی۔
رمضان میںزیادہ سے زیادہ، قرآن کا چرچا ہوتاہے۔ رمضان میں، اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میںاضافہ ہوجاتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں کم کھانا، کم سونا، مادّی چیزوں میںکم سے کم مشغول ہونا، اِس قسم کی چیزیں رمضان میں بڑے پیمانے پردین کے موافق ماحول پیدا کردیتی ہیں۔ اِس ماحول کا حقیقی فائدہ اُن لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اِس موقع کو اپنی اصلاح کے لیے استعمال کریں۔رمضان کا یہ فائدہ کسی کو اپنی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی مہینے کی پُراسرار فضیلت کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا کان یومُ صومِ أحدکم فلا یرفُث، ولا یَصخَب، فإن سابَّہ أحدٌ أوقاتلہ فلیقل: إنّی امرئٌ صائم(البخاری، کتاب الصوم) یعنی جب تم میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو تو وہ بے ہودہ گوئی نہ کرے اورنہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے، یا اُس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میںایک روزے دار آدمی ہوں۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی بُرے اخلاق کوچھوڑ دے، وہ کسی معاملے میں شور و غل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ یہاں تک کہ اگر دوسرا شخص اُس کو اشتعال دلائے، تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ وہ مشتعل ہو کر خود بھی وہی کرنے لگے جو دوسرا شخص اس کے خلاف کررہا ہے۔
اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ صرف ایک رسمی عمل کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا مقصد آدمی کے اندر گہری اسپرٹ پیدا کرنا ہے، ایسی اسپرٹ جو اس کی سوچ کو بدل دے، جو اس کے مزاج میں تبدیلی پیداکردے، جو اس کے کردار میںانقلاب برپاکردے ۔ سچاروزے دار وہ ہے جس کا روزہ اس کی پوری شخصیت کو ربانی شخصیت بنادے۔
سچا روزہ انسان کو آخری حد تک ایک سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کے ہر پہلو میں سنجیدگی کا رنگ غالب آجاتاہے۔ اس کا یہ مزاج اتنا گہرا ہوتا ہے کہ دوسروں کا اشتعال انگیز رویّہ بھی اس کو سنجیدگی کے راستے سے نہیں ہٹاتا۔ وہ سماج کا ایک پُر سکون ممبر (peaceful member)ہوتا ہے، وہ سماج میں لوگوں کے لیے کسی طرح کا کوئی پرابلم کھڑا کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ سچا روزے دار ایک متواضع (modest)انسان ہوتا ہے، نہ کہ سرکش انسان۔سچا روزے دار اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کو تو چھوڑے، لیکن وہ بُرے اخلاق کو نہ چھوڑے۔ وہ کھانے پینے کے معاملے میں اپنے معمول کو بدلے، لیکن وہ اپنی زندگی کی روش میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صام رمضان وعرَفَ حدودَہ، وتحفَّظَ مما کان ینبغی لہ أن یتحفّظ منہ، کُفّر ما قبلہ (مسند احمد، جلد 3 ، صفحہ
رمضان کا مہینہ دراصل محاسبہ (introspection) کا مہینہ ہے۔ سچا روزہ، آدمی کے اندر محاسبہ کی نفسیات کو جگاتا ہے۔ وہ اپنے ماضی اور اپنے حال کا جائزہ لینے لگتا ہے۔ روزہ آدمی کے اندر مزید اضافے کے ساتھ یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ وہ مرنے والا ہے اور مرنے کے بعد وہ خدا کے سامنے کھڑا ہونے والا ہے۔ اِس احساس کے تحت، وہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ قیامت کی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے اپنا حساب کرلے، تاکہ وہ آخرت میں خدا کی پکڑ سے بچ جائے۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا، بلا شبہہ آدمی کی خطاؤں کی معافی کا ذریعہ ہے، مگر خطاؤں کی یہ معافی پُر اسرار طورپر خود بخود نہیں ہوتی، یہ اُس شعوری عمل کے ذریعے ہوتی ہے جس کو شریعت میں محاسبہ کہاگیا ہے۔ روزہ آدمی کے اندر شدت کے ساتھ محاسبہ کی نفسیات جگاتا ہے۔ آدمی ایک ایک کرکے اپنی خطاؤں کو یاد کرتا ہے اور اپنی تنہائیوں میں اُس پر وہ خدا سے معافی کی دعائیں کرتا ہے۔ یہ احساس اُس پر اتنی شدت کے ساتھ طاری ہوتاہے کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔
دراصل روزے دار کے یہی آنسو ہیںجو خدا کی رحمت کے تحت، اُس کی خطاؤں کو دھودیتے ہیں۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خطاؤں کی معافی، کیفیات سے بھرے ہوئے روزے کا نتیجہ ہوتی ہے، نہ کہ سالانہ رسم کے طورپر بے روح روزے داری کا نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاء ثلاثۃُ رَہْطٍ إلی بیوتِ أزواج النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم یسألون عن عبادۃ النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فلمّا أُخبروا کأنہم تقالُّوہا۔ فقالوا: وأین نحن من النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قد غفر اللّٰہ لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر۔ قال أحدُہم: أمّا أنا، فأُصلّی اللیلَ أبداً، وقال اٰخر: أنا أصوم الدہرَ ولا أُفْطِر، وقال اٰخر: أنا أعتزل النسائَ فلا أتزوّج أبداً، فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: أنتم الّذین قلتم کذا وکذا، أما واللہ إنّی لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہ، لٰکنّی أصوم وأفطر، وأصَلّی وأرقُد، وأتزوّج النساء، فمن رغب عن سنّتی فلیس منّی (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب: الترغیب فی النکاح) ۔
یعنی صحابہ میں سے تین شخص ازواجِ رسول کے گھر پر آئے۔ انھوںنے آپ کی ازواج سے آپ کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب اُن کو آپ کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا، تو گویا کہ انھوںنے اس کو کم سمجھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ، اللہ نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطاؤں کو بخش دیا ہے۔ اُن میں سے ایک نے کہا: میںتو اپنی رات کو ہمیشہ نماز پڑھنے میں گزاروں گا۔ دوسرے نے کہا: میںہمیشہ روزہ رکھوںگا۔ اور تیسرے نے کہا: میں ہمیشہ عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ اِسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمھیں لوگوں نے ایسا اور ایسا کہا ہے۔ میں، خدا کی قسم، تم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ خدا کا تقویٰ رکھنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور روزہ نہیں بھی رکھتا، اور میں قیامِ لیل بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت سے اعراض کرے، وہ مجھ سے نہیں۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کا تعلق کیفیت سے ہے، نہ کہ کمیت سے۔ یہی معاملہ روزے کا ہے۔ اللہ کے نزدیک اصل اہمیت روزے کی اسپرٹ کی ہے، نہ کہ اس کے ظاہری فارم کی۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا دخل شہرُ رمضان فُتحت أبواب السماء۔ وفی روایۃ: فُتحت أبواب الجنّۃ، وغُلّقت أبواب جہنّم، وسُلسِلت الشیاطین۔ وفی روایۃ: فُتحت أبواب الرحمۃ (صحیح البخاری، کتاب الصّوم، باب: ہل یُقال رمضان) یعنی جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
اِس حدیث میں جنت اور جہنم، یا شیاطین کی نسبت سے جو بات کہی گئی ہے،وہ دراصل تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہے۔ کلام کا اصل مقصود وہی ہے جس کو ’فتحت أبواب الرحمۃ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی رحمت کے دروازوں کا کھل جانا، یا رحمتِ خداوندی کے حصول کے مواقع میںاضافہ ہوجانا۔
رمضان کے مہینے کے یہ فوائد جو اِس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں، وہ پُراسرار طورپر خود بخود مل جانے والے فوائد نہیں ہیں، بلکہ وہ پوری طرح معلوم فوائد ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میںاگر اس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھا جائے، تو ایسا روزہ آدمی کے لیے اُن فوائد کے حصول کا سبب بن جاتا ہے، جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ، یعنی ر وزے دار کے اندر اُن صفات کا پیدا ہونا جو اس کو خدا کی رحمت کا مستحق بنادیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ صرف فارم کے اعتبار سے روزہ رکھیں، اُن کا روزہ اُس حدیثِ رسول کا مصداق ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ— کچھ روزے دار وہ ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ اور نہیں ملتا (کم من صائمٍ لیس لہ من صیامہ إلا الجوع والعطش۔النسائی، ابن ماجہ)۔
واپس اوپر جائیں
حضرت انس بن مالک کہتے ہیںکہ دو عورتوں نے روزہ رکھا اور دونوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر دوسروں کی غیبت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے بارے میں معلوم ہوا، تو آپ نے فرمایا: إنّہما لم یصوما، وکیف صام مَن ظلَّ ہذا الیوم یأکل لُحومَ الناس۔یعنی اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا۔ بھلااُس کاروزہ کیسے ہوگا جو روزہ رکھے اور غیبت کرکے لوگوں کا گوشت کھائے۔ ایک اور روایت میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: إن ہاتَین صامتا عمّا أحلّ اللہ لہما وأفطرَتا علی ما حرّم اللّٰہ علیہما (مجمع الزوائد، کتاب الصیام، باب الغیبۃ للصائم) یعنی انھوں نے اُس چیز سے روزہ رکھا جو اللہ نے اُن کے لیے حلال کیا تھا، اور پھر انھوںنے اُس چیز سے افطار کرلیا جواللہ نے اُن کے لیے حرام کیا تھا۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے میں صرف یہ حرام نہیں ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا کھالے اور پانی پی لے، اِس کے سوا بھی کچھ چیزیں حرام ہیں اور وہ روزے کو باطل کرنے والی ہیں۔ مثلاً دوسروں کی برائی بیان کرنا۔جو آدمی روزہ رکھے اور کھانے پینے کی چیزوںسے بچا رہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کی برائی بیان کرے، تو اُس کا روزہ مطلوب روزہ نہ ہوگا، اُس کا روزہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنے کے ہم معنی ہوگا۔
روزہ توڑنے کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھتے ہوئے جان بوجھ کر مادّی ممنوعات پر عمل کرنے کا ارتکاب کرے، مثلاً وہ کھانا کھالے، یا پانی پی لے۔ اِسی طرح، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ ممنوعات ہیں، مثلاً دوسروں کی بُرائی اور غیبت کرنا۔ اگر آدمی روزہ رکھ کر روحانی اور اخلاقی ممنوعات کا ارتکاب کرے، تو ایسے ارتکاب سے بھی اس کا روزہ باطل ہوجائے گا، بظاہر روزہ رکھ کر بھی وہ روزے کے ثواب سے محروم رہے گا۔روزہ غذائی پرہیزگاری کا نام بھی ہے، اور اخلاقی پرہیزگاری کا نام بھی۔ روزے میںاخلاقی پرہیزبھی اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح غذائی پرہیز۔
واپس اوپر جائیں
قرآن اور حدیث میں روزہ کے لیے صوم کا لفظ آیا ہے۔ صوم کے لفظی معنیٰ ہیں— رُکنا (abstinence) ، کسی چیز سے پرہیز کرنا۔ انسان جیسی مخلوق کے لیے اِس کی بے حد اہمیت ہے۔ انسان کا معاملہ ففٹی پرسنٹ رکنا ہے، اور ففٹی پرسنٹ کرنا۔ آدمی جب ایک غیر مطلوب چیز سے رکتا ہے، اُسی وقت وہ ایک مطلوب کام کو کرپاتا ہے۔ یہی وہ ضروری استعداد ہے جس کی تربیت انسان کو روزے کے ذریعے دی جاتی ہے۔
مثلاً توحید کو لیجیے۔ انسان جب غیر اللہ کو بڑا بنانے سے اپنے کو روکتا ہے، اُس کے بعد ہی اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو اپنا بڑا بنا سکے۔ ۔ انسان جب غیر پیغمبرانہ رہ نمائی کو چھوڑتا ہے، اس کے بعد ہی وہ پیغمبرانہ رہ نمائی کو قبول کرتا ہے۔ انسان جب قرآن کے سوا دوسری کتابوں کے غیر مستند ہونے کو دریافت کرتاہے، اس کے بعد ہی وہ قرآن کو مستند ہدایت نامہ کی حیثیت سے اختیار کرتا ہے۔
اِسی طرح، انسان جب شیطان کی صحبت کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ اپنے آپ کو فرشتوں کی صحبت کے قابل بناتا ہے۔ انسان جب اپنی خواہش کی پیروی کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ مرضیاتِ الہی کی پیروی کے قابل بنتا ہے۔ انسان جب اپنے اندر سے فخر وغرور کے مزاج کو ختم کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ تواضع (modesty) کے مزاج کا حامل بنتا ہے۔ انسان جب اپنے مال میں اِسراف سے کامل پرہیز کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ سادگی اور قناعت کے طریقے کو اپناتا ہے۔ انسان جب غیر ذمے دارانہ روش کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد ہی وہ اِس قابل بنتا ہے کہ وہ سنجیدگی اور متانت کی روش کو اپنی روش بنا سکے۔
ترک واختیار کا یہ معاملہ پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس طریقے کو اختیار کیے بغیر کوئی شخص اپنی زندگی کو اسلامی زندگی نہیں بنا سکتا۔ روزے کے ذریعے آدمی کے اندر یہی اسپرٹ پیدا کرنا مقصود ہے۔ جو آدمی ’’ترک‘‘ کے اِس اصول کو نہ مانے، وہ ’’اختیار‘‘ کی سعادت کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت حفصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یُجمعِ الصیامَ قبلَ الفجر فلاصیامَ لہ (التّرمذی، کتاب الصوم، باب: لا صیامَ لمن لم یعزم) یعنی جس شخص نے طلوعِ فجر سے پہلے، روزہ رکھنے کا پختہ عزم نہیںکیا، اس کا روزہ نہیں۔
اِس حدیثِ رسول سے روزے کے عمل میںنیت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ روزے کا وقت شروع ہونے سے پہلے آدمی کو چاہیے کہ وہ شعوری طورپر اپنے اندر یہ ارادہ پیدا کرے کہ میرا آنے والا دن روزے کا دن ہوگا۔ گویا کہ باقاعدہ ارادے کے بغیر صرف بھوکا رہ جانے کا نام روزہ نہیں۔
دوسرے شرعی اعمال کی طرح، روزہ ایک باشعور دینی عمل ہے، یعنی ایک ایسا عمل جس کو آدمی زندہ شعور کے ساتھ انجام دے۔ عمل کے دوران وہ اُسی کے لیے سوچے، وہ اُسی کی کیفیات میںجیے، وہ اُن ربانی احساسات کو اپنے اوپر طاری کرے جو روزے کے دنوں میں ایک مومن سے خدا کو مطلوب ہیں۔ گویا کہ اس کا روزہ صرف جسمانی روزہ نہ ہو، بلکہ اُس کا شعور اور اس کے جذبات بھی اُس کے عمل کی روح کی حیثیت سے اس میں شامل ہوگئے ہوں۔
ایک سچا مومن جب زندہ نیت کے ساتھ اپنے روزے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کی سوچ بھی اُسی رخ پر متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ روزے کے بارے میں سوچتا ہے۔ بھوک اور پیاس کے تجربات کے دوران وہ اعلیٰ روحانی حقیقتوں کا تجربہ کرتا رہتا ہے۔ جب وہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے ، یا نماز ادا کرتا ہے، تو اس کی روزہ دارانہ زندگی اس کی تلاوت اور اس کی نماز میں ایک نئی روح پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ روزے کی حالت میں دن گزارنا اور قیام کی حالت میں رات گزارنا، اس کے لیے خدا سے خصوصی قربت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ حقیقی روزہ وہ ہے جو آدمی کی پوری زندگی کو روزہ رخی زندگی (Roza-oriented life) بنادے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن نَسِیَ وہو صائم فأکل أو شرب، فلیُتِمَّ صومَہ۔ فإنما أطعمہ اللہ وسقاہ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أکلُ النّاسی) یعنی جو شخص روزہ رکھے اور وہ بھول کر کچھ کھالے یا پی لے، تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے، کیوں کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو کھلایا اور پلایا۔
روزہ اگر خالص قانونی نوعیت کی چیز ہو تو بظاہر ایسا ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں ہو اور دن کے اوقات میں کبھی وہ بھول کر کچھ کھالے یا پی لے، تو اس کا روزہ ٹوٹ جانا چاہیے۔ روزہ اگر صرف ایک ظاہری صورت کا نام ہو تودن کے وقت کچھ کھانے یا پینے سے ہر حال میں اس کا روزہ ٹوٹ جانا چاہیے، خواہ اس نے جان کر کھایا ہو، یا بھول کر کھایا ہو۔ قانونی نوعیت کی چیزوں کے بارے میں مشہور مقولہ ہے کہ — قانون سے بے خبری کسی کے لیے عذر نہیں:
Ignorance of law has no excuse.
پھر کیا وجہ ہے کہ حدیث میں یہ بتایا گیاہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ روزہ کوئی ٹکنکل نوعیت کا قانونی فعل نہیں، روزہ ایک زندہ انسان کا عمل ہے۔ زندہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اُس سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً اس کے اندر ایک نئی سوچ جاگ اٹھتی ہے۔ یہ نئی سوچ اس کی بھول کو ایک مثبت عمل بنا دیتی ہے۔ وہ اِس بھول میں اپنے عجز اور خدا کی قدرت کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ انسان کتنا زیادہ کم زور ہے، اُس کے مقابلے میں خدا کتنا زیادہ قوی اور عزیز ہے کہ وہ کبھی کسی چیز کو نہیں بھولتا (لایضلُّ ربّی ولا ینسیٰ)۔ یہ دریافت ایک زندہ انسان کو خدا سے اور زیادہ قریب کردیتی ہے۔ وہ مزید اضافے کے ساتھ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے—جو غلطی، معرفت میں اضافے کا سبب بن جائے، وہ غلطی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک زندہ ربانی تجربہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تزال أمّتی بخیر ما عَجَّلُوا الإفطارَ وأخَّرُوا السَّحور(مسند احمد، جلد 5، صفحہ
اِس حدیث میں خیر سے مراد دین کی روح (spirit) ہے۔ اِس حدیث کے مطابق، رمضان کے مہینے میںافطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر اِس بات کی علامت ہے کہ امت خیر پر ہے، یعنی امت کے اندر دین کی حقیقی روح زندہ ہے۔ اور جب معاملہ اِس کے برعکس ہوجائے، یعنی لوگ افطار میں ’’احتیاطی تاخیر‘‘ کرنے لگیں، اور وہ سحری میں ’’احتیاطی تعجیل‘‘ کرنے لگیں، تو یہ اِس بات کی علامت ہوگی کہ امت کے اندر سے خیر نکل گیا ہے، یعنی امت دین کی روح (spirit) پر قائم نہیںہے، بلکہ وہ صرف دین کی شکل (form) پر قائم ہے۔ اور اِس قسم کی حالت اللہ کے نزدیک مطلوب حالت نہیں۔ تعجیل یا تاخیر سے مراد تعجیل یا تاخیر نہیں ہے، بلکہ وقت کی ٹھیک ٹھیک پابندی ہے۔
افطار میں دیر کرنے کا مزاج کیوں ہوتا ہے، اور سحری میں جلدی کرنے کا مزاج کب پیدا ہوتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد میں روحِ دین باقی نہ رہے، وہ محض شکل کی بجاآوری کو دین سمجھنے لگیں۔ ’’احتیاط‘‘ کا ذہن ہمیشہ ظاہری صورت، یا فارم کے بارے میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ ظاہری صورت کے اہتمام کو اہم چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ظاہری پہلو میں کمی اُن کے نزدیک، دین کو ناقص بناتی ہے، اور ظاہری پہلو میں اضافہ کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دین کو کامل کرلیا۔ مذکورہ حدیث میں اِسی زوال یافتہ مزاج کی نشان دہی کی گئی ہے۔
زندہ دین داری، آدمی کو اسپرٹ کانشس (spirit-conscious) بناتی ہے، اورجب زندہ دین داری باقی نہ رہے، تو لوگ فارم کانشس (form-conscious) بن جاتے ہیں۔ اِ س حقیقت کا تعلق، صرف روزے سے نہیںہے، بلکہ تمام دینی اعمال سے ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں رمضان کے مہینے میں روزے کا حکم ایک پورے رکوع میںبیان ہوا ہے۔ اِس میں روزے کے بارے میں دو قسم کی رخصتوں کا ذکر ہے۔ ایک رخصت (concession) مستقل رخصت ہے جو اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: وعلی الذین یطیقونہ فدیۃٌ طعامُ مسکین (البقرۃ:
رخصت کی دوسری صورت، قرآن میں اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ومَن کان مریضاً أو علی سفرٍ فعدّۃٌ من أیامٍ اُخر (البقرۃ:
اِن دو رخصتوں کے بیان کے بعد قرآن میں یہ آیت آئی ہے: یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العُسر، ولتکملوا العدّۃ ولتکبّروا اللّٰہ علی ما ہداکم، ولعلّکم تشکرون (البقرۃ:
قرآن کی اِن آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی احکام کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جو متعلقہ حکم کے فارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزے کا فارم یہ ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا، پینا اور دوسری ممنوعات کو ترک کردے۔ روزے کی اسپرٹ تکبیر اور شکر ہے، یعنی آدمی کے اندر اللہ کی کبریائی کا احساس طاری ہونا، اور اللہ کے انعامات پر گہرے شکر کا جذبہ پیدا ہونا۔
مذکورہ آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں فارم اور اسپرٹ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اِس فرق کو مذکورہ آیت میں ’عُسر‘ اور ’یُسر‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اگر روزے کے فارم کو مطلق حیثیت دے کر، اُس کو ہر حال میں لازم کردیا جائے تو یہ اہلِ ایمان کے لیے عُسر (دشواری) کا باعث ہوجائے گا، اِس لیے فارم کے معاملے میں عسر کے بجائے، یُسر (آسانی) کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، یعنی رخصت کا طریقہ۔
مگر جہاں تک دینی احکام کے دوسرے پہلو، یعنی اسپرٹ کا معاملہ ہے، اُس میں کسی قسم کی رخصت نہیں، اسپرٹ کا پہلو ہر حال میں اور مطلق طورپر اہلِ ایمان سے مطلوب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب فارم کی ادائیگی میں عُسر (دشواری) کی صورت پیدا ہوئے جائے، تو اُس وقت شریعت کا تقاضا ہوگا کہ فارم کے معاملے میں ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے، تاکہ اسپرٹ کا پہلو کسی نَقص کے بغیر مسلسل طورپر باقی رہے۔
روزے میں بھوک، پیاس کا تعلق فارم سے ہے، اس لیے اُس میں رخصت کا طریقہ اختیار کیاگیا۔ اِس کے مقابلے میں، تکبیرِ رب اور شکر الٰہی کا تعلق، روزے کی اسپرٹ سے ہے، اِس لیے اس کو مطلق حیثیت دے کر مسلسل طورپر باقی رکھا گیا ہے۔
یہ اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔ اِس اصول کا تعلق، صرف روزے سے نہیں، بلکہ دوسرے تمام دینی معاملات سے بھی ہے۔ جب بھی ایسا ہو کہ کسی دینی حکم کی ادائیگی میں عُسر کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو اُس وقت متعلقہ حکم کے فارم میں ایڈجسٹ مینٹ کیا جائے گا، تاکہ متعلقہ حکم سے جو اسپرٹ مطلوب ہے، وہ اسپرٹ کسی قسم کے خلل کے بغیر پوری طرح باقی رہے۔
یہ شریعت کا ایک تخلیقی اصول (creative principle) ہے۔ یہ اصول اِس بات کا ضامن ہے کہ شریعت کی اصل روح مسلسل طورپر اہلِ ایمان کے درمیان باقی رہے، اور اُس میں کسی بھی حال میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔
واپس اوپر جائیں
روزہ ایک سچے انسان کے لیے ایک قسم کی یاد دہانی (reminder) ہے، اِس بات کی یاددہانی کہ— تم خدا کی دنیا میں ہو۔ تم ایک ایسی دنیا میں ہو جس کو خدا نے بنایا ہے۔ اِس دنیا کے مالک تم نہیںہو، بلکہ خدا اُس کا مالک ہے۔ یہاں تم اپنی مرضی کے ساتھ نہیں رہ سکتے، یہاں تم اپنی مرضی سے نہیں کھاسکتے، یہاں تم اپنی مرضی سے نہیں پی سکتے، یہاںتم اپنی مرضی سے نہیں بول سکتے، یہاں تم کو خدا کی مرضی کے مطابق رہنا ہے، نہ کہ خود اپنی مرضی کے مطابق،
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس قسم کی روزہ دارانہ زندگی صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ انسان، خدا کو معرفت (realization) کے درجے میں پائے۔ وہ اِس حقیقت کو دریافت کرے کہ خدا کی اِس دنیا میں بے قید زندگی گزارنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ خدا کی اِس دنیا میں کامیابی کا راز پابند زندگی میںہے، نہ کہ بے قید زندگی میں۔
رمضان کا مہینہ در حقیقت تزکیۂ نفس (purification of soul)کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینے کا یہ تقاضا ہے کہ آدمی اپنی زندگی پر پھر سے غور(reassessment) کرے، وہ اپنے معاملات کا ازسرِ نو جائزہ لے، وہ اپنی دینی اور دعوتی زندگی کی ازسرِ نو منصوبہ بندی (replanning) کرے، وہ اپنے دل ودماغ کی پھر سے تطہیر کرے، وہ اپنے اندر ایک نئی شخصیت کی تعمیر کرے، وہ دینی اور روحانی اعتبار سے، پورے معنوں میں، اپنا اوور ہال(overhaul) کرے۔
یہی تزکیۂ نفس ہے اور یہی رمضان کا اصل مقصد ہے۔ جو شخص اِس طرح رمضان کے شب و روز گزارے، وہی وہ شخص ہے جس نے رمضان کے مہینے کو پایا۔ اُسی شخص کا روزہ حقیقی روزہ ہے جو اِس معنیٰ میںاُس کے لیے تزکیۂ نفس کا ذریعہ بن جائے۔تزکیۂ نفس مومن کے لیے ایک مستقل عمل ہے۔ وہ مومن کی زندگی میں روزانہ جاری رہتا ہے۔ لیکن رمضان کے مہینے میں مزید شدت کے ساتھ تزکیۂ نفس کے اِس عمل کو انجام دینا ممکن ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کَم مِن صائمٍ لیس لہ من صیامہ إلاّ الظَّمَأ، وکم من قائمٍ لیس لہ من قیامہ إلا السَّہرَ (سنن الدّارمی، کتاب الصوم) یعنی بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے( بھوک اور)پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیامِ لیل کرنے والے وہ ہیں جن کو اپنے قیامِ لیل سے ،جاگنے کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔
روزے میں ترکِ طعام،روزے کی ایک ظاہری صورت ہے۔ اِسی طرح، رمضان کی راتوں میں قیام کرنا اس کی ایک ظاہری صورت ہے، مگر ہر ظاہری صورت کے ساتھ ایک حقیقت شامل رہتی ہے۔ جس چیز کا حال یہ ہو کہ اُس میں اُس کی ظاہری صورت موجود ہو، لیکن اس کی داخلی حقیقت اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو ایسی چیز کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کی مثال ایسے پھل کی ہے جس کا ظاہری چھلکا تو موجود ہو، لیکن اس کے اندر کا مغز ا س میں نہ پایا جاتا ہو۔
روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر خوفِ خدا کی صفت پیدا ہو، اس کے اندر تقویٰ کا شعور جاگے، ا س کے اندر اخلاقی ڈسپلن پایا جائے، وہ حقیقی معنوں میں اپنے خالق اور رازق کا شکر کرنے والا بن جائے۔ یہی روزے کا اصل مقصد ہے اور کسی کے روزے کو اِسی اعتبار سے جانچا جائے گا کہ اس کے اندر روزے کی یہ مطلوب صفات پیدا ہوئیں یا نہیں۔اِسی طرح، روزے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مومن کو قرآن سے وابستہ کیا جائے۔ اِسی لیے روزے کے مہینے میں مختلف انداز سے، قرآن کا زیادہ سے زیادہ چرچا کیا جاتا ہے۔ سچا روزہ آدمی کے اندر گہرائی اور سنجیدگی پیدا کرتا ہے۔ اِس طرح کے ذہن کو لے کر آدمی جب قرآن کو سنتا ہے اور پڑھتا ہے تو وہ عام دنوںسے زیادہ، قرآن سے نصیحت لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی کے روزے کو جانچنے کا اصل معیار ہیں۔جس آدمی کے روزے میں یہ داخلی کیفیات شامل نہ ہوں، اُس کا روزہ ایک بے روح روزہ ہے، نہ کہ حقیقی روزہ۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن لم یَدعْ قولَ الزّور والعملَ بہ، فلیس للّٰہ حاجۃٌ فی أن یَدَعَ طعامَہ وشرابَہ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: من لم یدع قول الزور والعمل بہ) یعنی جو شخص جھوٹ بولنااور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑ دے۔
روزہ بظاہر مخصوص اوقات میں کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام ہے، مگر کھانے اور پینے کا یہ ترک ایک علامتی ترک (symbolic abstinence)ہے۔ روزہ کے مہینے میں چند چیزوں کو چھوڑ کر روزے دار اپنے آپ کو اِس مقصد کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کی منع کی ہوئی تمام چیزوں کو چھوڑ دے۔ گویا کہ ترکِ طعام اگر جسمانی روزہ ہے تو ترکِ مَنہیَّات، روحانی روزہ۔ جس آدمی کی زندگی میں ترکِ طعام ہو، لیکن اس کی زندگی میں ترکِ منہیات نہ ہو، تو اس کا روزہ خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ پانے والا نہیں۔
دین میں دو قسم کی تعلیمات شامل ہیں۔ ایک، وہ جن میں کسی چیز کے کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور دوسرے، وہ جن میں کسی چیز کے چھوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔ روزہ ترکِ منہیات والی تعلیمات کے لیے تربیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزہ کے مہینے میں وقتی طورپر کچھ چیزوں کے ترک کا حکم دے کر یہ سبق دیا جاتا ہے کہ اِسی طرح پورے سال دوسری تمام منہیات کو ترک کردینا ہے، اِس کے بغیر دین کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
اِن منہیّات (prohibitions) میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو حدیث میں، جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا کہاگیا ہے۔ جھوٹ بولنا یہ ہے کہ آدمی کسی چیز کے بارے میں خلافِ واقعہ بیان دے۔ مثلاً وہ رات کے وقت کو دن کا وقت بتائے۔ اِسی طرح، جھوٹ پر عمل کرنا یہ ہے کہ آدمی ایک غلط کام کرے اور وہ اس کو خلافِ واقعہ طورپر صحیح کانام دے۔ وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے لیے ایک کام کرے اور لوگوں کو بتائے کہ میں یہ کام خالص حق کے لیے کررہا ہوں۔ جو لوگ اِس طرح کے جھوٹ میں مبتلا ہوں، اُن کا روزہ خدا کے یہاں قابلِ رد قرار پائے گا، نہ کہ قابلِ قبول۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن أفطر یوماً من رمضان من غیر رُخصۃٍ ولا مَرَضٍ، لم یقضِ عنہ صومُ الدّہر کُلّہ وإن صامہ (التّرمذی،کتاب الصوم، باب الإفطار متعمّداً) یعنی جو شخص رمضان کے دنوں میں کسی دن روزہ ترک کردے، جب کہ اُس کے لیے کوئی شرعی عذر اور بیماری نہ ہو، تو اس کے بعد خواہ وہ ساری عمر روزے رکھے، وہ اس کے لیے رمضان میں چھوڑے ہوئے روزے کا بدل نہیںہوسکتا۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی اہمیت یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ اُس کا حکم دیا ہے۔ ایسی حالت میں رمضان کے کسی ایک روزے کو بھی قصداً چھوڑنااپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کے بعد آدمی اگر ساری عمر روزہ رکھے، تو وہ اس کے اپنے فیصلے کے تحت ہوگا، نہ کہ براہِ راست حکمِ خداوندی کی تعمیل میں۔ اور بلاشبہہ کوئی بھی دوسرا عمل، خدا کے حکم کی قصداً خلاف ورزی کی تلافی نہیں بن سکتا۔
اِس دنیا میں پانی کا جو ذخیرہ ہے، اس کی ایک ایک بوند کا مالک خداہے۔ اِس دنیا میں مختلف قسم کی جو غذائیں ہیں، ان کا غیر مشترک مالک بھی صرف ایک خدا ہے۔ اِس قسم کی تمام چیزیں جو دنیا میں موجود ہیں، ان کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اور یہ بھی خدا وند ِ ذوالجلال ہی ہے جو یہ تمام چیزیں انسان کو عطا کرتا ہے۔
ایسی حالت میں جب خدا خودیہ حکم دے کہ فلاں مہینے کے دنوں میں تم میرا پانی اور میری پیداکی ہوئی غذائیں استعمال نہیں کروگے، تو یہ انسان کی انسانیت کے سر تا سر خلاف ہے کہ وہ رزق کے خالق و مالک کی ممانعت کے باوجود اس کے دیے ہوئے رزق کا ایک دانہ بھی استعمال کرے۔ حکمِ خداوندی کی ایسی خلاف ورزی کے بعد انسان اپنے آپ کو اِس دنیا میں بے جگہ بنالیتا ہے۔ اِس کے بعد وہ انسان کی سطح سے گر کر غیر انسان کی سطح پر آجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمع النّدائَ أحدُکم والإنائُ علیٰ یدہ، فلا یضعْہ حتی یقضی حاجتَہ منہ(مسند احمد، جلد5 ، صفحہ
اِس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص سحری کررہا ہے۔ ابھی وہ اپنی سحری پوری نہیں کرسکا تھا کہ اس کو فجر کی اذان کی آواز سنائی دی۔ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو وہ ایسا نہ کرے کہ وہ فوراً کھانا یا پینا چھوڑ دے، بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ اپنی سحری کو پورا کرلے۔ اور پھر فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جائے۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کسی ٹکنکل (technical)عمل کانام نہیں ہے۔ روزے میں ٹکنکل مسائل کی حیثیت ثانوی (secondary) ہے۔ روزے میں اصل اہمیت اس کی روح یا اس کی اسپرٹ کی ہے۔ جس عمل میں روح پر زور دیا جائے، اُس میں ٹکنکل مسائل کا درجہ وہی ہوجائے گا جس کی ایک علامتی مثال مذکورہ حدیث میں نظر آتی ہے۔
روزہ جیسے زندہ عمل میں ٹکنکل مسائل پر زور دینا، ہمیشہ اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ اس کی اسپرٹ کا پہلو مجروح ہوجائے۔ اِسی معاملے کو واضح کرنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بات ارشاد فرمائی۔ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمھارا سارا دھیان روزے کی اسپرٹ پر ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے ٹکنکل مسائل پر۔ اسلامی عبادات میں سب سے زیادہ اُس کی اسپرٹ کی اہمیت ہوتی ہے، نہ کہ اس کے ٹکنکل مسائل کی۔روزہ اگر ٹکنکل نوعیت کا کوئی عمل ہوتا، تو اذان کی آواز سنتے ہی کھانے پینے کو فوراً چھوڑدینا لازم ہوجاتا۔مگر اِس معاملے میں رخصت دینے سے معلوم ہوا کہ عبادت میںاس کی روح، اس کا اصل حصہ ہے اور اس کا فارم اس کا اضافی حصہ۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں بتایا گیاہے کہ رمضان کے مہینے میں قیام لیل ایک اہم عبادت ہے (مَن قام رمضانَ إیماناً و احتساباً غُفرلہ ما تقدّم من ذنبہ، صحیح البخاری، کتاب الصوم) قیام لیل سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی ساری رات کھڑے ہو کر نماز پڑھتا رہے۔ قیام لیل کا مطلب رات کے محدود اوقات میں نماز پڑھنا ہے، نہ کہ ساری رات جاگ کر نماز پڑھنا۔
قیامِ لیل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سوجائے، پھر اپنی فطری نیند پوری کرنے کے بعد رات کے آخری حصے میں وہ فجر سے پہلے اٹھے۔ اُس وقت کے پر سکون لمحے میں وہ وضو کرکے نماز کے لیے کھڑا ہوجائے اور حسب توفیق، کچھ رکعتیں قرآن کی لمبی قرأت کے ساتھ پڑھے۔ اور پھر اِلحاح اور دعا پر اِس نماز کو ختم کرے۔ رات کی یہی وہ نماز ہے جس کو تہجد (الإسراء:
اہلِ ایمان چوبیس گھنٹے کے دوران روزانہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ یہ نماز اجتماعی نماز (congregational prayer) ہے۔ اِس کے اپنے خصوصی فائدے ہیں۔ اِسی لیے اُس کو شریعت میں فرض قرار دیا گیاہے۔ یہ اجتماعی نماز بیک وقت عبادت بھی ہے اور اِسی کے ساتھ وہ امت میںاتحاد قائم رکھنے کا ایک ذریعہ بھی۔
تاہم مومن فطری طور پر اپنے اندر ایک اور نماز کی طلب پاتا ہے، یہ انفرادی نماز ہے، یعنی وہ نماز جب کہ مومن اپنی تنہائیوں میںاللہ کے سامنے اپنی عبودیت کا اظہار کرے، ایک ایسا لمحہ جہاں صرف وہ ہو اور اس کا رب ہو، جب کہ اُس پر وہ تجربہ گزرے جس کو حدیث میں ’یُناجی ربَّہ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی۔ رات کے پچھلے پہر کے پرسکون لمحے میں اِس قسم کی انفرادی عبادت کرنا، یہی تہجد اور قیامِ لیل ہے۔ تہجد کی یہ نماز رمضان کے مہینے میں خصوصی طورپر مطلوب ہے اور سال کی بقیہ راتوں میں عمومی طورپر۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو رمضان کے مہینے میں اتارا (البقرۃ:
قرآن ، انسان کے لیے رزقِ روحانی کا دستر خوان ہے (القرآن مأدُبۃ اللہ فی الأرض)۔ قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسان رزقِ روحانی کی اہمیت کو محسوس کرے اور قرآن سے دریافت کرکے اُس کو وہ اپنی زندگی میں شامل کرے، وہ زیادہ سے زیادہ قرآن میںتدبر کرکے اپنا ذہنی تزکیہ کرے۔
رمضان میں پورے مہینہ روزہ رکھا جاتا ہے اور ذکر وعبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اِس طرح، رمضان کا مہینہ پورے معنوں میں ایک روحانی مہینہ بن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں قرآن کی تلاوت کرنا، تراویح میں قرآن کو سننا، مختلف صورتوں میں قرآن کا چرچا کرنا، یہ چیزیں لوگوں کو یہ موقع دیتی ہیں کہ وہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن سے قریب ہوں، وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کو سمجھیں۔ رمضان کا مہینہ، تاریخی اعتبار سے، قرآن کے نزول کا مہینہ ہے، اور تربیت کے اعتبار سے وہ قرآن کو اپنے دل و دماغ میں اتارنے کا مہینہ۔
قرآن میںارشاد ہوا ہے: لا یمسُّہُ إلاّ المُطَہَّرون (الواقعۃ:
واپس اوپر جائیں
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قراء ۃُ القرآن فی الصلاۃ أفضلُ من قراء ۃ القرآن فی غیر الصلاۃ (البیہقی، جلد2 صفحہ
تراویح کیا ہے۔ تراویح یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں حالتِ نماز میںکھڑے ہوکر قرآن کو سنا جائے۔ یہی تراویح کی اصل حقیقت ہے، اور حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت سے اِس طریقے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تراویح کا عام رواج نہ تھا۔ بعد کے زمانے میں تراویح کا رواج بڑھ گیا۔ نہ صرف عرب میں، بلکہ ساری دنیا میں، عشاکی نماز کے بعد تراویح کی نماز بڑے پیمانے پر پڑھی جانے لگی۔
تراویح کے اِس عمومی رواج کا ایک مزید سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں حفاظتِ قرآن کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ لوگ بہت زیادہ قرآن کو یاد کرنے لگے۔ اِس ماحول میںفطری طورپر ایسا ہوا کہ رمضان کی راتوں میںتراویح کے دوران پورے قرآن کو پڑھنے اور سننے کا عمومی رواج ہوگیا۔اِس طرح ایسا ہوا کہ پرنٹنگ پریس (printing press)کے دور سے پہلے تراویح، قرآن کی حفاظت کا ایک موثر ذریعہ بنی رہی۔
تراویح میں یہ ہوتا ہے کہ ایک حافظِ قرآن، امام کی جگہ پر کھڑا ہو کر مختلف رکعتوں میں بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے۔ اور تمام مقتدی، امام کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ قرآن کو سنتے ہیں۔ قرآن کو سنتے ہوئے فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کا ذہن، قرآن کے معانی پر سوچنے لگتا ہے۔ اِس طرح، تراویح گویا کہ اجتماعی تدبر ِ قرآن کا ایک طریقہ ہے۔ تراویح کو اگر صرف ایک سالانہ رسم کے طورپر نہ ادا کیا جائے، بلکہ اُس کو قرآنپر اجتماعی غور وفکر کا موقع سمجھا جائے تو تراویح، امت کے اندر قرآنیفکر کی بیداری کا ایک انقلابی ذریعہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
رمضان کے مہنیے میں ہر جگہ ختم قرآن کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ روزانہ تلاوت میں پڑھ کرقرآن کو ختم کرنا، تراویح میں ِقرآن کو ختم کرنا، وغیرہ۔ اِس کی آخری صورت وہ ہے جس کو ’شبینہ‘ کہاجاتا ہے، یعنی ایک رات میں تراویح کے دوران پورے قرآن کو ختم کرنا۔ اِس قسم کا ختم قرآن یقینی طورپر رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ صرف ایک بدعت ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
حدیث سے ثابت ہے کہ بدعت کے ذریعے کبھی خیر کا ظہور نہیںہوسکتا (مسند احمد، جلد 4 ، صفحہ
اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد انسانی عقل کو ایڈریس کرنا ہے، تاکہ انسان سوچے اور وہ اُس کے گہرے معانیتک پہنچ سکے۔ اِس طرح کی آیتیں قرآن میں کثرت سے ہیں، لیکن سارے قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی موجود نہیں جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُس کے الفاظ کو دہرا کر اُس کو ختم کرتے رہو اور کم سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرکے اُس کا جشن مناؤ۔
رمضان کا مہینہ، قرآن پر غور کرنے کا مہینہ ہے، نہ کہ اس کے الفاظ کو تیز رفتاری کے ساتھ دہرا کر اُس کو ختم کرنے کا مہینہ۔ قرآن ، انسان کے لئے ایک ربانی غذا ہے، نہ کہ محض لسانی ورزش کا ذریعہ۔ یہ قرآن کی تصغیر (underestimation) ہے کہ اُس کو شبینہ جیسی خود ساختہ رسموں کا موضوع بنادیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اب ایک مومن کا تصور کیجیے۔ روزہ کے مہینے میں اُس نے اپنا پورا دن بھوک، پیاس میں گزارا۔ اس کے بعد شام ہوئی اور افطار کا وقت آیا، تو اس کے سامنے کھانے اور پینے کی چیزیں رکھی گئیں، اُن کو دیکھ کر مومن کو قرآن کی مذکورہ آیت یاد آئی۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس نے کہا کہ —خدایا، تو نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ تو نے انسان کو وہ سب کچھ دیا جس کا اس نے تجھ سے سوال کیا۔ یہ تیری رحمت کا اظہار ہے اور یقینا اِس رحمت میں انسانی فطرت کا کوئی سوال ایسا نہیں ہو سکتا جو پورا نہ ہوا ہو۔
خدایا، انسان کی فطرت نے پانی مانگا، تو نے اُس کو پانی عطا کیا۔ انسان کی فطرت نے کھانا مانگا، تونے اس کو کھانا عطاکیا۔ انسان کی فطرت نے ہوا او ر روشنی کا سوال کیا، تو نے اس کو ہوا اور روشنی عطا فرمائی۔ اِسی طرح، مادّی ضرورت کی تمام چیزیں تو نے انسان کو بھر پور طور پر عطا فرمائیں۔
خدایا، انسانی فطرت اپنی تخلیق کے اعتبار سے، اِسی طرح ایک اور چیز کی طالب ہے، اور وہ ہے تیری غیر مادّی رحمتیں۔ وہ یہ کہ انسان گناہ کرے اور تو اس کو معاف کردے۔ انسان سے کوتاہیاں سرزد ہوں اور تو اُن کی تلافی فرمائے۔ انسان صراطِ مستقیم سے بھٹک جائے اور تو اس کو دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم کردے۔ انسان اپنے عمل کے اعتبار سے جنت کا مستحق نہ ہو، لیکن تو اس کو اپنی رحمتِ خاص سے جنت میں داخلہ عطافرمادے—یہ اللہ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ انسانی فطرت کی مادّی طلب کو پورا کرے اور وہ اس کی فطرت کی غیر مادّی طلب کو پورا کیے بغیر چھوڑ دے۔
واپس اوپر جائیں
رمضان کے مہینے میں، عام طورپر آخری عشرہ میں، مسجد کے اندر اعتکاف کیاجاتا ہے۔ جو لوگ اعتکاف کرتے ہیں، وہ اِن دنوں میں دوسرے تعلقات کو منقطع کرکے مسجد میں بیٹھ جاتے ہیں۔ناگزیر انسانی ضرورت کے سوا، وہ کسی اور مقصد سے باہر نہیں نکلتے۔ مسجد میں خلوت نشیں ہوکر ، وہ اپنا زیادہ وقت عبادت اور ذکر اور دعا اور تلاوتِ قرآن میں گزارتے ہیں۔
اعتکاف کا لفظی مطلب — خلوت نشینی (seclusion) ہے۔ یہ اعتکاف کس لیے کیا جاتا ہے۔ حدیث میں اعتکاف کرنے والے کے بارے میں آیا ہے کہ: ہو یعتکف الذُّنوب ( مشکاۃ المصابیح ، رقم : 2108 ) یعنی وہ گناہوں سے اعتکاف کرتا ہے۔ گناہوں سے اعتکاف کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے محدث ناصر الدین الالبانی (وفات : 1999 ) نے لکھا ہے کہ : أی یحتبس عن الذّنُوب (مشکاۃ، جلد 1 ، صفحہ 650 ) یعنی وہ اپنے آپ کو گناہوں سے روک لیتا ہے۔ اعتکاف کا مطلب سادہ طور پر صرف گناہ سے رکنا نہیںہے، بلکہ روزے کی اسپرٹ کو بھر پور طورپر اپنانے کے لیے اپنے آپ کو خلوت نشیں بنا لینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اعتکاف کا مطلب ہے— اپنے آپ کو مواقعِ گناہ سے ہٹا کر پوری طرح عملِ خیر میں مشغول کرلینا۔
اِس پر غور کرتے ہوئے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اعتکاف کا اصل مقصد اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچانا ہے۔ گناہ خود بھی ایک قسم کا ڈسٹریکشن ہے۔ فطرت کی صراطِ مستقیم سے ہٹنا، آدمی کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اعتکاف ایک خصوصی تدبیر ہے جس کے ذریعہ آدمی چند دنوں کے لیے مجبوری کی حالت پیدا کرکے اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچاتا ہے، تاکہ وہ بعد کے دنوں میںاختیارانہ طورپر اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچا کر صراطِ مستقیم پر قائم رہنے والا انسان بناسکے۔
ترک واختیار کایہ معاملہ پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس طریقے کو اختیار کیے بغیر، کوئی شخص اپنی زندگی کو اسلامی زندگی نہیں بنا سکتا۔ روزے کے ذریعے آدمی کے اندر یہی اسپرٹ پیدا کرنا مقصود ہے۔
اعتکاف بظاہر اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے خاص کرنے کا نام ہے۔ لیکن اسلام میں عبادت اور رَہبانیت (Monasticism) میں فرق کیا گیاہے۔ اسلام کے مطابق،رہبانیت ایک قسم کا غلو ہے اور غلو اسلام میں جائز نہیں (لاغلو فی الإسلام)۔ایک صحابی ٔ رسول کا حسب ذیل واقعہ اِس معاملے میں شریعت کی صحیح روح کو بتاتا ہے:
طَبرانی اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بنِ عباس کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ روایت کے مطابق، حضرت عبد اللہ بن عباس، مدینہ کی مسجد ِ نبوی میںاعتکاف کی حالت میں تھے۔ اُن کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: تم مجھ کو افسردہ اور غمگین دکھائی دیتے ہو۔ اُس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول کے چچا زاد بھائی، میرے اوپر فلاں شخص کا حق ہے، اور اِس صاحبِ قبر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت کی قسم، میںاُس کی ادائیگی پر قادر نہیں۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: کیا میں تمھارے بارے میں اُس آدمی سے بات کروں(أفلا أکلّمہ فیک)۔ اُس شخص نے کہا: ہاں، اگر آپ پسند فرمائیں۔ اِس کے بعد عبد اللہ بن عباس نے اپنے جوتے پہنے اور مسجد سے باہر نکل کر روانہ ہوگئے۔ اُس آدمی نے کہا: شاید آپ بھول گئے کہ آپ اِس وقت حالتِ اعتکاف میں ہیں۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے (اور یہ کہتے ہوئے عبداللہ بن عباس کی آنکھوں میں آنسو آگئے) کہ: مَن مشیٰ فی حاجۃِ أخیہ وبلغ فیہا، کان خیراً لہ من اعتکاف عشْرِ سنین (الترغیب، والترہیب، کتاب الصوم، جلد 2، صفحہ
حضرت عبد اللہ بن عباس کے اِس واقعے سے اسلامی عبادت ا ور اعتکاف کی روح معلوم ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقتِ ضرورت عبادت کے فارم میں ایڈجسٹ مینٹ کیا جائے گا، لیکن عبادت کی روح کو ہر حال میں باقی رکھا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت نُفیع بن حارث ابوبکرہ الثقفی سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یقولنّ أحدکم إنّی صُمتُ رمضان کُلّّہ، وقمتہ کلّہ (سنن أبی داؤد، کتاب الصّوم) یعنی تم میں سے کو ئی شخص ہر گز یہ نہ کہے کہ میں نے ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھے، اور میں نے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کیا۔ اِس حدیث کو بیان کرنے کے بعد راوی نے کہا: لا أدری، أَخَشِی التزکیۃَ علیٰ أمتہ، أوقال: لا بُدّ مِن نومٍ أو غفلۃ (مسند احمد، جلد5، صفحہ
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیںہے کہ رمضان میں تمام روزے رکھنا آدمی کے لیے ضروری نہیں ہے، یا قیامِ لیل ضروری نہیں۔ اِس حدیث میں فوکس حقیقتاً خود صیام اور قیام پر نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے سامنے اپنے صیام اور قیام کا اظہار کرنے پر ہے۔ عبادت کے بارے میں اِس قسم کا اظہار، اخلاص کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔آدمی جب خداوند ِ ذوالجلال کی عبادت کرتا ہے تو اس کے اندر عجز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عظمتِ خداوندی کے احساس کی بنا پر اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کایہ احساس پورے معنوں میں حقیقی ہوتا ہے، نہ کہ مصنوعی۔
ایک آدمی اگر لوگوں کے سامنے یہ کہے کہ — الحمد للہ میرے تمام روزے پورے ہوئے، ماشاء اللہ میںنے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کیا، تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ کہنے والے نے عبادت کو صرف اس کے فارم کی سطح پر پایا ہے، نہ کہ اسپرٹ کی سطح پر۔ عبادت کا فارم چوں کہ ایک معلوم چیز ہوتی ہے، اِس لیے اس کے فارم کے بارے میں ایسا کہا جاسکتا ہے۔ لیکن عبادت کی روح ایک داخلی چیز ہے، اس کاحقیقی علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اس لیے جس شخص نے عبادت کو اس کی اسپرٹ کی سطح پایا ہو، وہ ہمیشہ اپنی عبادت کے بارے میں اندیشے میں مبتلا رہے گا۔ اس کو یہ احساس ہوگا کہ معلوم نہیں، خدا کے نزدیک میری عبادت مطلوب عبادت تھی یا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ذر غفاری سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے۔ یہ حدیث ِ قُدسی ہے۔ اس حدیث کا ایک حصہ یہ ہے: یا عبادی، کلّکم جائعٌ إلاّ من أطعمتُہ، فاستطْعِمُونی أُطْعِمْکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب: تحریم الظلم) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے بندو، تم میں سے ہر شخص بھوکا ہے، سوا اُس شخص کے جس کو میںکھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھانا دوں گا۔
اِس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عین وہی بات ہے جو روزے سے مطلوب ہے۔ روزے کا مقصد آدمی کے اندر یہ زندہ شعور پیدا کرنا ہے کہ رزق کا دینے والا صرف خدا ہے، خدا اگر رزق نہ دے تو کہیں اور سے انسان کو رزق ملنے والا نہیں۔
روزے میں یہ ہوتاہے کہ آدمی صبح سے شام تک اپنے آپ کو کھانے سے دور رکھتاہے۔ اِس طرح، وہ اِس حقیقت کا تجربہ کرتا ہے کہ وہ خود رزق کا مالک نہیں۔ اِس کے بعد شام کو جب اس کے سامنے کھانا آتا ہے، تو وہ اس کو خدا کی طرف سے دیا ہوا رزق سمجھ کر کھاتا ہے۔ اُس وقت وہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ— خدایا، میں بھوکا تھا، تیرا شکر کہ تو نے مجھے کھانا دیا اور اِس طرح اپنی رحمتِ خاص سے میری محرومی کی تلافی کا انتظام فرمایا۔
رمضان کے مہینے میں دن کا وقت آدمی کو اُس کے محروم ہونے کا تجربہ کراتا ہے، اور رات کا وقت اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا تجربہ۔ اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ بظاہر یہاں ایک کے دینے سے دوسرے کو ملتا ہے۔ لیکن صاحبِ معرفت انسان وہ ہے جو اِس ظاہر سے اوپر اٹھ جائے، وہ بظاہر انسان کی طرف سے ملنے والی چیز کو خدا کی طرف ملنے والی چیز سمجھنے لگے۔ جو شخص اِس حالتِ احتیاج کو دریافت کرے، وہی وہ انسان ہے جس کو حقیقی روزہ ملا، اس کا روزہ اس کے لیے رحمتِ الٰہی کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن گیا۔
واپس اوپر جائیں
غذا انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے، لیکن متوازن غذا (balanced diet) کا نام صحیح غذا ہے۔ متوازن غذا وہ ہے جس میں حسب ذیل اجزا شامل ہوں— کاربو ہائڈریٹ، پروٹین، فَیٹ، وٹامن، منرل سالٹ، فائبر:
A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts and fibre in the correct proportions.
اگر آپ غذا کے موضوع پر کوئی کتاب پڑھیںاور اُس سے متوازن غذا کا علم حاصل کرکے اپنی فہرستِ طعام (menu) بنائیںاور اس کے مطابق کھانا کھائیں، تو یہ علم کی بنیاد پر غذا کی دریافت ہوگی۔ لیکن جب آپ بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور اِس حالت میں کھانا کھا کر غذا کی اہمیت کو جانیں، تو یہ حساسیت (sensitiveness) کی سطح پر غذا کی اہمیت کو دریافت کرنا ہوتا ہے۔
دونوں صورتوں میںانسان، کھانے کی چیز کو اپنی خوراک بناتا ہے، لیکن دونوں میںاتنا زیادہ فرق ہے کہ پہلی صورت کا مطلب اگر کھانے سے صرف پیٹ بھرنا ہے، تو دوسری صورت کا مطلب کھانے سے معرفتِ خداوندی کا تجربہ حاصل کرنا۔
سچا روزہ، آدمی کو یہی ربانی نعمت عطا کرتاہے سچے روزہ کے ذریعے آدمی، رازقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ سچاروزہ کسی آدمی کے لیے غذا کو اعلیٰ معرفت کا ذریعہ بنادیتا ہے۔ عام حالت میں خوراک صرف مادّی خوراک ہے، لیکن روزہ اِس خوراک کو ایک سچے مومن کے لیے کامل معنوں میں ایک روحانی خوراک بنادیتا ہے، ایک ایسی خوراک جو اُس کے لیے رازقِ حقیقی کی دریافت کے ہم معنیٰ بن جائے، جو اُس کو سچائی کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کردے۔
جو آدمی حساسیت کی سطح پر غذا کی اہمیت کو در یافت کرے، اُسی کا روزہ روزہ ہے۔ اِس کے بغیر روزہ ایک حیوانی عمل ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں انسانی عمل۔
واپس اوپر جائیں
روزہ آدمی کو یہ تجربہ کراتا ہے کہ وہ خدائے برتر کے ماتحت ہے۔ روزہ کے دوران آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے خلاف، اللہ کے حکم کو اپنے اوپر نافذ کرتا ہے۔ اس طرح وہ شعوری طورپر اس حقیقت کا تجربہ کرتا ہے کہ — میں خداوند ِ ذوالجلال کے ماتحت ہوں۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا یہ سب سے بڑا تجربہ ہے۔اس طرح گویا کہ ایک بھولا ہوا انسان اپنے رب کے بارے میں زندہ شعورحاصل کرتا ہے۔ وہ لمبی غفلت کے بعد اپنے خالق اور مالک کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے کہ یہاں ایک عظیم خدا ہے جو میرا معبود ہے اور میںاس کا ایک عاجز بندہ ہوں۔ میںاِس دنیا میں آزاد نہیں ہوں، بلکہ میں ایک عظیم ہستی کے حکم کے ماتحت ہوں۔ مجھے اس عظیم ہستی کی اطاعت کرنا ہے، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ اس کی اطاعت کے لئے اپنی خواہشوں کو دبانا پڑے،اپنی آزادی کو ختم کرنا پڑے، اختیار رکھتے ہوئے خود اپنے ارادے سے اپنے آپ کو محکوم بنالینا پڑے—یہ رمضان کے روزہ کا سب سے بڑا پہلو ہے اور اسی کو قرآن میں تقویٰ کہاگیا ہے۔ تقویٰ کا مطلب خدا شناسی (God-consciousness) ہے اور روزہ اس خدا شناسی کو بیدار کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ۔روزے کا عمل جسمانی سطح پر کیا جاتا ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ذہنی اور روحانی سطح پر کیا جانے والا ایک عمل ہے۔ روزہ آدمی کے شعور کو تجربہ بناتا ہے۔ روزہ آدمی کے اندر گہرے احساس کو بیدار کرتاہے۔ روزہ آدمی کے اندر چھپے ہوئے ربانی جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ روزہ آدمی کی سوئی ہوئی روح کو جگا کر اس کو خدا سے قربت کا تجربہ کراتا ہے۔ روزہ قادرِ مطلق کے مقابلے میں،اپنے عاجز ِ مطلق ہونے کے واقعاتی ادراک کا سبب بنتا ہے۔
روزہ، آدمی کے قلب و دماغ کی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ روزہ متقیانہ زندگی کا ایک سالانہ ریہرسل (rehearsal) ہے۔ روزہ ایک تطہیری کورس ہے، جس سے گزر کر آدمی دوبارہ اُس پاکیزہ فطری حالت پر پہنچ جاتا ہے جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر شام کو پانی سے افطار کیا تو آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: ذہب الظماء وابتلّت العروق وثبت الأجر إن شاء اللّٰہ (سنن أبی داؤد، کتاب الصیام، باب القول عند الإفطار) یعنی پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور روزے کا اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔
پانی ایک غیر معمولی قسم کی نعمت ہے۔ پانی پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ پانی نہیں تو زندگی نہیں۔ مگر عام حالات میں پانی کی اِس خصوصی نعمت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک آدمی جب روزہ رکھ کر سارے دن پانی کا استعمال نہ کرے اور اُس پر پیاس کا تجربہ گزرے، اُس وقت جب آدمی پانی پیتا ہے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ پانی کیسی عجیب نعمت ہے۔
اُس وقت آدمی کے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ کس طرح دو گیسوں کے ملنے سے سیال (liquid)پانی بن گیا۔ اتھاہ مقدارمیں پانی کے ذخیرے زمین کے اوپر جمع ہوگئے، پھر پانی سے زندگی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ پانی آدمی کی پیاس کو بجھاکر اس کے لیے زندگی کا سبب بنتا ہے۔یہ احساسات جب جاگتے ہیں تو نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی پیاس بجھتی ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ شکر ِخداوندی کا ایک دریا آدمی کے اندر رواں ہوجاتا ہے۔
اللہ، انسان کا منعمِ حقیقی ہے۔ اللہ نے انسانوں کو ان گنت نعمتیں عطا کی ہیں۔ ان نعمتوں پر اللہ کا حقیقی شکر ادا کرنا، اللہ کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ روزہ کے ذریعہ جب انسان کے اندران نعمتوں کا احساس جگایا جاتا ہے تو آدمی کا شعور بیدار ہوجاتا ہے۔ وہ غفلت سے باہر آجاتا ہے۔ وہ احساسِ نعمت سے سرشار ہوکر حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔روزہ ،جذباتِ شکر کی بیداری کا ذریعہ ہے۔ انسان ہر وقت انعاماتِ خداوندی کے سمندر میںرہتا ہے، مگر عام حالات میں اس کو ان نعمتوں کا زندہ احساس نہیںہوتا۔ روزہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اِن نعمتوں کو ازسرِ نو دریافت کرکے اپنے رب کی اعلیٰ معرفت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں
ایک فارسی شاعر نے روزہ اور رمضان کے بارے میں اپنے تجربات کو اِن الفاظ میں بیان کیاہے— روزے کا مقصد لوگوں کے اندر ریاضت کا مزاجپیدا کرنا تھا، مگر رمضان آیا تو ریاضت کے بجائے، لوگوں کے یہاں کھانے پینے کی دھوم میں اور اضافہ ہوگیا:
تن پروریِ خَلق فُزوں شد، نہ ریاضت جُز گرمی ٔ افطار، نہ دارد رمضاں ہیچ
رمضان کے مہینے میں یہ منظر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے، مشرق اور مغرب اور عرب اورعجم کے درمیان اس معاملے میں کوئی فرق نہیں۔ ہر جگہ رمضان کا مہینہ کھانے پینے کی مزید سرگرمیوں کا مہینہ بن گیا ہے۔ایسا کیوںہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ صرف اُن لوگوں کے لیے روزے کا مہینہ بنتا ہے جو سال بھر روزہ دارانہ زندگی (Roza-oriented life)گزار رہے ہوں۔ جو لوگ سال کے بقیہ مہینوں میں غیر روزہ داربنے ہوئے ہوں، ان کے درمیان جب، رمضان کا مہینہ آئے گا تووہ اُسی کلچر میں اضافے کا سبب بنے گا جس کلچر میں وہ اس سے پہلے زندگی گزار رہے تھے۔
آج کل لوگوں کی زندگی کا مقصد یہ بن گیا ہے کہ — خوب کماؤ اور اچھے اچھے کھانے کھاؤ۔ یہی تقریباً تمام لوگوں کی سوچ ہے اور یہی عملی طورپر لوگوں کا کلچر ہے۔ اسی قسم کی زندگی کے وہ پوری طرح عادی بنے ہوئے ہیں، وہ اس کے سوا زندگی کے کسی اور پیٹرن کو جانتے ہی نہیں۔ ایسی حالت میں جب ان کے درمیان رمضان کا مہینہ آتا ہے تو وہ ان کے کھانے پینے کے کلچر کی ایک توسیع کے ہم معنی ہوتا ہے۔ رمضان ان کے اُسی ذوق میں مزید اضافہ کردیتا ہے جس کے وہ اب تک عادی بنے ہوئے تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو وہ ان کے لیے صرف افطار اور سحری کی دھوم کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اس لیے آتا ہے، تاکہ لوگوں کے اندر سادگی اور قناعت کا مزاج پیداہو۔ لوگوں کا اشتغال انسانوں کے درمیان کم ہو، اور اللہ کے ساتھ ان کے تعلق میں اضافہ ہوجائے، مگر عملاً یہ سب نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ سال بھر روزہ دارانہ زندگی گزاریں، وہی رمضان کے مہینے میں سچے روزے دار بنیں گے۔
واپس اوپر جائیں
رمضان کے مہینے کا روزہ کسی قسم کی سالانہ رسم (annual custom) نہیں، وہ ایک زندہ تخلیقی (creative)عمل ہے۔ روزے کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ روزے کا مقصد دراصل یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی روزہ رخی زندگی (Roza-oriented life) بن جائے۔
روزے کی اصل حقیقت خواہشات (desires) پر روک لگانا ہے۔ اسی کو حدیث میں یَدَع شہوتَہ (خواہش کو چھوڑنا) بتایا گیا ہے۔ پیاس ایک خواہش ہے، بھوک ایک خواہش ہے، نیند ایک خواہش ہے،معمول کے مطابق زندگی گزارنا ایک خواہش ہے۔ روزے کے مہینوں میں ان سب خواہشوں پر قانوناً روک لگائی جاتی ہے،تاکہ آدمی اسی طرح اپنی دوسری خواہشوں پر ارادتاً روک لگائے۔ وہ خود اپنے فیصلے کے تحت ایک پابند زندگی گزارنے لگے۔
انسان کی زندگی میں جتنے بھی اعمال ہیں، ان سب میں ففٹی ففٹی کا تناسب ہے، یعنی ففٹی پرسنٹ کسی چیز سے رکنا ہے، اور اس کا ففٹی پرسنٹ کسی چیز پرعمل کرنا۔ اسلامی شریعت میں إلاّ اللّٰہسے پہلے لا إلٰہ آتاہے۔ منفی اور ایجابی پہلو کا یہی تناسب تمام دینی اعمال میں پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی تمام خواہشات پر بریک لگائے، تاکہ وہ اِس دنیا میں اپنے آپ کو مطلوب اعمال پر قائم کرسکے۔
تمثیل کی زبان میں کہاجائے تو روزے کی حیثیت انسانی زندگی میں انجن میں لگے ہوئے بریک (brake) جیسی ہے۔ بریک گاڑی کے انجن کو قابو میں رکھتا ہے،اسی لیے گاڑی درست طورپر اپنا سفر طے کرتی ہے۔ اگر کسی انجن میں بریک نہ ہو تو انجن درست طورپر کام نہیں کرے گا۔
یہی معاملہ مومن کی زندگی میں روزے کا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ روزے کو اپنی زندگی میں بریک کا مقام دے ، تاکہ وہ خدا کے راستے پر درست طورپر اپنا سفر طے کرسکے۔اُسی آدمی کا روزہ حقیقی روزہ ہے جس کا روزہ اس کے لیے ممنوعاتِ خداوندی کے مقابلے میں بریک کے ہم معنی بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
مسائلِ رمضان سے مراد، رمضان یا روزے کے فقہی یا قانونی مسائل ہیں۔ اِن مسائل کا چرچا ہر مسجد اور ہر مدرسے میں ہوتا ہے، اِس بنا پر لوگ عام طورپر روزہ اور رمضان کے فقہی مسائل سے واقف ہوتے ہیں۔ اِسی واقفیت کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ ہر سال رمضان کے مہینے میں آسانی کے ساتھ روزہ رکھتے ہیںاور اُس کے ضروری احکام کی پابندی کرتے ہیں۔ اِس لیے اِن مسائل کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ یہاں اس کے کچھ بنیادی پہلوؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
روزے کا وقت طلوعِ فجر سے شروع ہوتا ہے اورغروبِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ روزہ ہر بالغ عورت اور مرد پر فرض ہے، الا یہ کہ اُس کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو جس کو شریعت میںمعتبر ماناگیا ہو۔ روزے کا آغاز نیت سے ہوتا ہے۔ یہ نیت آدمی کو طلوعِ فجر سے پہلے، یا سحری کھانے کے وقت کرناچاہیے۔
رمضان کے مہینے میںاگر کوئی شخص سفر کرے، یا بیمار ہوجائے تو وہ رخصت کے طورپر اُن دنوں میں روزہ ترک کرسکتا ہے۔ لیکن اُس کو رمضان کے بعد چھوٹے ہوئے دنوں کے بقدر روزہ رکھ کر اس کی تکمیل کرنی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص بڑھاپے، یا کسی طبّی سبب سے مستقل طورپر معذور ہوجائے اور روزہ رکھنا اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو وہ روزہ ترک کردے اور کفارہ کے طورپر مساکین کو کھانا کھلادے، یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنا۔
شریعت، آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزے میں دن کے اوقات میں کھانے پینے اور دیگر ممنوعات کے باوجود، رات کے اوقات میں اُس کی اجازت، سحری اور افطار کا وقتجاننے کے لیے کیلنڈر کا پابند کرنے کے بجائے، عام مشاہدے کو بنیاد قرار دینا، اِسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِن مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں وہ اُس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی اسپرٹ کے مطابق ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ہریرہ کی ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: یُغفر لہم فی اٰخر لیلۃ من رمضان۔ قیل: یا رسول اللہ، أہی لیلۃ القدر۔ قال: لا، ولکنّ العاملَ إنّما یُوفی أجرہ إذا قضیٰ عملہ (مسند احمد، جلد 2، صفحہ
اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کے وہ افراد جو روزے کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھیں، مہینے کی آخری رات میں ان کے عمل کا پورا اجر ان کے ریکارڈ میں لکھ دیا جاتاہے ۔ رمضان کے مہینے کی اِس آخری رات کو دوسری حدیث میں ’لیلۃ الجائزۃ‘ (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی انعام کی رات۔ ہر نیک عمل پر اللہ اپنے بندوں کو انعام دیتا ہے۔ رمضان کی عبادت کی اہمیت کی بناپر اس حدیث میں اس کے انعام کا ذکر خصوصی انداز میں کیا گیا۔
عام طورپر ایسا ہوتاہے کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے، تو عید سے پہلے کی رات کو لوگ غفلت میں یا تماشے میں گزارتے ہیں۔ وہ اس میں شاپنگ کی دھوم مچاتے ہیں۔ یہ حدیث اِس قسم کی غفلت کے لیے ایک انتباہ (warning) کی حیثیت رکھتی ہے۔انعام کی اِس رات کا بہتر استعمال یہ ہے کہ اُس رات کو زیادہ سے زیادہ دعا اور عبادت میں گزارا جائے، اور پورے مہینے کا محاسبہ کیا جائے، اور نئے سال کی دوبارہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اِس رات کو مسرفانہ شاپنگ جیسی چیزوں میں گزارنا، اِس بابرکت موقع کا ضیاع بھی ہے اور اُس کی ناقدری بھی۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ رمضان کے مہینے کو اُس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ گزاریں، وہ کبھی اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ رمضان کی آخری رات کو وہ غفلت اور تماشے میں گزار دیں۔ ان کے لیے مہینے کی آخری رات دعا اور عبادت کی رات ہوگی، نہ کہ غفلت کی رات۔
واپس اوپر جائیں
رمضان اور روزہ اور عید الفطر کے بارے میں حضرت انس بن مالک سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے۔ اُس روایت کا ایک حصہ یہ ہے:
’’… فإذا کان یومُ عیدِہم، یعنی یومَ فِطرہم، باہیٰ بہم ملائکتَہ، فقال: ملائکتی، ماجزائُ أجیرٍ وفّیٰ عملَہ۔ قالوا: ربّنا، جزائُہ أن یُوفّیٰ أجرُہ۔ قال: ملائکتی، عبیدی وإمائی قضَوا فریضتی علیہم، ثمّ خرجوا یعُجُّون إلی الدّعاء، وعزّتی وجَلالِی وکَرمی وعُلوّی وارْتفاعِ مکانی لأجیبنَّہم۔ فیقول: ارجعوا فقد غفرتُ لکم، وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات۔ قال: فیرجعون مغفوراً لہم۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، باب الصیام، فصل فی لیلۃ العید ویومہما)۔
یعنی جب عید کا دن آتا ہے، یعنی عید الفطر کا دن، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے روزے دار بندوں اور بندیوںپر فخر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: اے میرے فرشتو، اُس کی جزا کیا ہے جس نے اپنے عمل کو پورا کردیا۔ فرشتے کہتے ہیںکہ اے ہمارے رب، اُس کی جزا یہ ہے کہ اُس کو اُس کے عمل کا پورا بدلہ دے دیا جائے۔خدا کہتاہے کہ اے میرے فرشتو، میرے بندو ں اور میری بندیوں نے میرے اُس فرض کو ادا کردیاجو اُن پر عائد تھا، پھر وہ نکلے ہیں دعا کے ساتھ مجھ کو پکارتے ہوئے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ، میرے کرم ، میرے عُلو ِ شان اور میرے بلند مقام کی قسم، میں ضرور اُن کی پکار کو سنوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم لوگ واپس جاؤ، میں نے تم کو بخش دیا اور میں نے تمھارے سیّاٰت کو حسنات میں تبدیل کر دیا۔ پس وہ لوگ اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔
رمضان کے خاتمے کے بعد عید الفطر کا دن ایک عظیم خوش خبری بن کر آتا ہے، ابدی انعام کی خوش خبری۔ یہ ابدی انعام اللہ کے اُن بندوں اور بندیوںکے لیے ہے جو رمضان کے مہینے میں مطلوب روزے کے ذریعے اپنے لیے اُس کا استحقاق ثابت کریں۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.