سورج ہماری زمین سے نو کرورتیس لاکھ میل دور ہے۔سورج ہماری زمین سے ایک لاکھ تیس ہزارگنا بڑا ہے۔ سورج زمین کی مانند ٹھوس نہیں ہے، بلکہ وہ پورا کا پورا ایک عظیم دہکتا ہوا شعلہ ہے۔ اس کی گرمی گیارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ہے۔ یہ گرمی اتنی زیادہ ہے کہ سخت ترین مادہ بھی اس میں پگھلے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زمین اگر اس کے قریب کی جائے تو وہ ایک سکنڈ سے بھی کم عرصے میں پگھل کر گیس بن جائے گی۔
سورج کیسے چمکتا ہے اور کیسے اتنی بڑی مقدار میں وہ روشنی اور گرمی دے رہا ہے۔ قدیم خیال یہ تھا کہ سورجمسلسل جل رہا ہے، جیسے کوئی لکڑی یا کوئلہ جلتا ہے۔ مگر جب فلکیاتی تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ ہزاروں ملین سال سے اسی طرح روشن ہے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگیا۔ سورج میںاگر کوئی مادہ جل رہا ہوتا تو اب تک سورج بجھ چکا ہوتا، کیوں کہ کوئی چیز اتنی زیادہ لمبی مدت تک جلتی ہوئی حالت میں نہیںرہ سکتی۔
اب سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ سورج کی گرمی اُسی قسم کے ایک عمل (process) کا نتیجہ ہے جو ایٹم بم کے اندر وقوع میں آتا ہے، یعنی سورج، مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ عمل جلنے سے مختلف ہے۔ جلنا مادہ کو ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل کرتا ہے، مگر جب مادہ کو توانائی میں بدلا جائے تو بہت زیادہ توانائی صرف تھوڑے سے مادہ کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ مادہ کا ایک اونس اتنی زیادہ توانائی پیدا کرسکتا ہے جو ایک ملین ٹن سے زیادہ چٹان کو پگھلا دے:
The sun changes matter into energy. This is different from burning. Burning changes matter from one form to another. But when matter is changed into energy, very little matter is needed to produce a tremendous amount of energy. One ounce of matter could produce enough energy to melt more than a million tons of rock.
کائنات میںاس قسم کی ان گنت نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نشانیاں بتاتی ہیں کہ کائنات کے پیچھے ایک عظیم خالق کی ہستی کام کررہی ہے۔ عظیم خالق کے بغیر کبھی اس قسم کی عظیم تخلیق ظہور میں نہیں آسکتی۔قرآن میں بار بار کائناتی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ غور وفکر ایک خالص دینی عمل ہے، وہ مومن کے ایمان میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتا ہے، وہ مومن کے یقین کو بے پناہ حد تک بڑھا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میںبتایا گیاہے کہ — اللہ کی یاد بلا شبہہ سب سے بڑی چیز ہے (ولذکر اللّٰہ أکبر) دوسرے لفظوں میں یہ کہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کو یاد کرے:
And rememberance of God is the greatest thing. (
انسان سے یہ ذکر سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ چناں چہ قرآن میں بار بار کہاگیا ہے کہ اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو (اذکروا اللہ ذکراً کثیرا) الأحزاب:
ذکر ِکثیر سے کیا مراد ہے۔ اِس سے مراد کوئی عدد، یا شمار یاتی نصاب نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ایک ذہنی کیفیت ہے۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت عائشہ نے کہا: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کلّ أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الٔاذان) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع (occasion) پر اللہ کو یاد کرتے تھے۔ اِس روایت سے ذکر ِ کثیر کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔
أحیانہ میں ہ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے۔ اِس کا مطلب ہے— أحیان اللہ، جیسے کہ قرآن میں آیا ہے: أیّام اللہ۔ اصل یہ ہے کہ کوئی بھی معاملہ جو انسان کے ساتھ پیش آتا ہے، اُس میںآلاء اللہ کا پہلو شامل رہتا ہے۔ آلاء اللہ سے مراد، اللہ کے کرشمے ہیں جو ہر چیزمیں شامل ہیں، کوئی بھی چیز اُس سے خالی نہیں۔
ذکر ِ کثیر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو بھی دیکھے، یا اُس پر جو بھی تجربہ گزرے، وہ اس کو اللہ کی یاد کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس بنالے:
Make every experience a point of reference for the remebrance of God.
ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلائے۔ ہر تجربہ اس کے ایمان میں اضافے کا سبب بنتا رہا۔ ہر مطالعہ اور مشاہدہ، اس کے لیے خدا سے قربت کے ہم معنٰی بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن ایک آفاقی کتاب ہے۔ قرآن کا پیغام ایک ابدی پیغام ہے۔ قرآن کی آیتوںکا ایک ابتدائی مفہوم ہوتا ہے اور دوسرا ، اس کا توسیعی مفہوم (extended meaning)۔ قرآن کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر
اِس آیت کا ایک توسیعی مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ آدمی صبح کی نماز اول وقت ادا کرے، اور پھر واک (walk) کرنے کے لیے وہ کسی پارک میں جائے، یا ایسے مقام پر جائے جہاں نیچر کی ہریالی ہو۔ ایسے مقام پر صبح کے وقت ایک قسم کا ملکوتی ماحول ہوتا ہے۔ اِس ماحول میں آدمی، خدا کی نشانیوں پر غور کرے۔ وہ قرآن کی آیتوں کو پڑھے۔ وہ تخلیق میں خالق کی معرفت حاصل کرے۔
اِس کی ایک صورت یہ ہے کہ نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد کچھ لوگ اجتماعی طورپر ایسے مقامات پر جائیں۔ وہاں فطرت کے ماحول میں وہ ذکر کا حلقہ قائم کریں۔ وہ خدا کی باتوں کا چرچا کریں۔ وہ درسِ قرآن، یا درسِ حدیث کی صورت میں نصیحت حاصل کریں۔ وہ فطرت کے مناظر میں خدا کے کمالات کا ذکر کریں۔ وہ روحانیت کی فضا میں اپنے لیے دینی غذا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ گویا کہ تذکیر ِ فجر ہے، جو قرآنِ فجر کی ایک توسیعی صورت ہے۔ اِس قسم کا عمل بلاشبہہ اضافۂ ایمان کا باعث ہے، خواہ وہ انفرادی طورپر ہو یا اجتماعی طورپر۔
یہی قرآن کی ہر آیت کا معاملہ ہے۔ قرآن کی کسی آیت کا ایک مفہوم وہ ہے جو اس کے شانِ نزول، یا سببِ نزول کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ یہ آیت کا ابتدائی مفہوم ہے۔ اِسی کے ساتھ قرآن کی ہر آیت کاایک توسیعی مفہوم ہے۔ اِس توسیعی مفہوم کے اعتبار سے ہر دور میں قرآن کے نئے معانی لوگوں پر کھلتے چلے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی سورہ نمبر 5 میں مختلف پیغمبروں کی امتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک طریقہ ٹھہرایا۔ (المائدہ:
قرآن کی ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کے لیے جو ہدایت نامہ بھیجا ہے اس کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک حصہ وہ ہے جس کو ’الدین‘ کہا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو ’شریعت‘ اور ’منہاج‘ کا نام دیا گیا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’الدین‘ سے مراد خدا کی ہدایت کا وہ حصہ ہے جو حضرت نوح سے لے کر پیغمبر اسلام تک سب کو یکساں طورپر دیا گیا ہے۔ یہ خدا کی ہدایت کا ابدی حصہ ہے۔ اس حصۂ ہدایت میں نہ پہلے کبھی کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ آئندہ اس میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ مگر خدائی ہدایت نامے کا دوسرا حصہ جس کو شریعت کہا گیا ہے، وہ جیسا کہ قرآن سے واضح ہے، ہر نبی کی امت کو مختلف صورت میں دیاگیا ہے۔ گویا کہ ’الدین‘ کے برعکس ’شریعت‘ تبدیلی کا موضوع ہے۔
تعلیمات کے درمیان اِس تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کا جو ابدی پیغام ہے، وہ ہرزمانے میں یکساں رہا ہے۔ لیکن اِس پیغام کو جب عملی طورپر وقت کی صورتِ حال پر منطبق کیا جائے تو یہ ’شریعت‘ کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اور شریعت کے معاملے میں ہمیشہ حالات کا اعتبار کیا جائے گا۔ اِسی حکمت کی بنا پر مختلف شریعتوں کے درمیان فرق رہا ہے۔ چوں کہ حالات بدلتے رہتے ہیں، اس لیے کوئی شریعت اپنی پوری تفصیل کے ساتھ دوامی نہیں ہوسکتی، وہ ہمیشہ اجتہاد کا موضوع بنی رہے گی۔ اِس اجتہاد میں پچھلے نبیوں کا عمل ایک رہ نما نمونے کی حیثیت رکھتا ہے (الأنعام: 90 ) ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
And remember also the time when your Lord declared: ‘If you are grateful, I will surely bestow more favours on you; but if you are ungrateful, then know that My punishment is severe indeed’. (
قرآن کی اِس آیت میں نعمت میں اضافہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو انسان، خدا کی نعمتوں کا سچا شکر ادا کرے گا، اُس کو آخر ت میں جنت کی صورت میں زیادہ بڑا انعام دیا جائے گا۔ شکر دراصل اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ نعمت کے ملنے پر منعم کا اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہی عبادت وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جنت کا مستحق بنائے گی۔
نعمت کیا ہے، نعمت دراصل احساسِ لذت (sense of enjoyment) کا دوسرا نام ہے۔ کوئی چیز پُرلذت اِسی لیے ہے کہ ہمارے اندر لذت کا احساس موجود ہے۔ اگر لذت کا احساس نہ ہو، تو کوئی بھی چیز لذت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
کائنات میں انسان واحد مخلوق ہے جو لذت کا احساس رکھتا ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو عارضی طورپر اِسی لیے رکھا گیا ہے کہ وہ لذتوں کو محسوس کرکے، خدا کاشکر اداکرے۔ جو انسان اِس دنیا میں حقیقی شکر کا ثبوت دے گا، وہ اگلی دنیا میںابدی جنت میں بسایا جائے گا، جہاں وہ اپنے احساسِ لذت کی کامل تسکین پاسکے۔
موجودہ دنیا انسان کے لیے عارضی شکر کا مقام ہے۔ یہی عارضی شکر وہ قیمت ہے جو کسی انسان کو ابدی جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صلّیٰ یُرائی فقد أشرک، ومن صام یرائی فقد أشرک، ومن تصدّق یُرائی فقد أشرک (مسند احمد، جلد 4، صفحہ
نماز اور روزہ اور صدقہ، خدا کی عبادتیں ہیں، پھر وہ شرک کیسے بن جاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا ایک معاشرہ بن جائے۔ معاشرہ ایک دنیوی تنظیم ہے۔ ایسی تنظیم جب وجود میں آتی ہے، تو وہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اب تمام مادّی روابط اِس سماجی تنظیم کے ساتھ جُڑجاتے ہیں۔ قیادت، مادّی فائدے، انسانی تعلقات، تمام دنیوی نوعیت کی چیزیں سماج کے اندر وجود میں آجاتی ہیں، جس طرح وہ عام قسم کے سیکولر سماج میں موجود ہوتی ہیں۔
یہی وہ وقت ہے، جب کہ مسلمانوں کے درمیان مذکورہ قسم کا ’’شرک‘‘ وجود میں آتا ہے۔ اِس کو سماجی شرک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس سماج سے وابستہ ہر شخص کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے اندر اپنے سماجی اسٹیٹس کو برقرار (maintain) رکھے۔ اِس نفسیات کے تحت، یہ ہوتا ہے کہ لوگ دین کی اسپرٹ (spirit) کو الگ الگ کرکے صرف اس کا ظاہری ڈھانچہ (form) لے لیتے ہیں، اور اِسی ظاہری ڈھانچہ کی دھوم مچاتے ہیں۔
اِس ماحول میں لوگ ظاہری دین داری کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے آپ کودین دار ثابت کرنے کے بعد ہی وہ مسلمانوں کے اندر اپنی مطلوب جگہ بنا سکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے اندر موجود تمام سماجی فائدے اپنے گرد اکھٹا کرسکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے نمائندے بن کر اُن کے درمیان ہر قسم کے قیادتی مناصب پر قابض ہوسکتے ہیں۔ اِس قسم کی ظاہری عبادت میں رضائِ الٰہی کی اسپرٹ موجود نہیں ہوتی، اِس لیے حدیث میں اِس کو شرک کانام دیاگیا ۔
واپس اوپر جائیں
حضرت انس بن مالک کی ایک روایت الدارمی میں اِن الفاظ میں آئی ہے: إذا وُضع الطّعام فاخلعوا نِعالکم، فإنہ أروح لأقدامکم (سُنن الدَّارمی، کتاب الأطعمۃ؛ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:4240 )۔ یعنی جب کھانا رکھا جائے تو تم اپنے جوتے اتار دو، کیوں کہ ایسا کرنے میں تمھارے پاؤں کے لیے راحت ہے۔
اِس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ تمھارے لیے زیادہ پُر راحت طریقہ ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت جوتا اتارنا، کوئی مطلق نوعیت کی سنت نہیں، اس کا مقصد صرف راحت ہے۔ یہی معاملہ اُن تمام ’’سنتوں‘‘ کا ہے جن میں آدابِ حیات کو بتایا گیا ہے۔ آدابِ حیات کے بارے میں کوئی طریقہ مطلق طورپر اچھا، یا بُرا نہیں ہوتا، بلکہ اُس کا تعلق تمام تر راحت سے ہوتا ہے۔ جس وقت جس طریقے میں انسان کے لیے راحت ہو، وہی طریقہ سنت کا طریقہ قرار پائے گا۔
مثال کے طورپر آپ کو کار میں بیٹھنا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، کار میں دائیں اور بائیں دونوں طرف دروازے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کار میں اُس کے دائیں طرف کے دروازے سے بیٹھ رہے ہوں، تو سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا بایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اِسی طرح اگر آپ کار کے بائیں دروازے سے اس میں بیٹھ رہے ہوں، تو آپ کے لیے سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا دایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اس کے برعکس طریقہ اختیار کرنا، آپ کے لیے غیر ضروری مشقت کا باعث ہوگا۔ ٹھیک یہی معاملہ کار سے اترنے کا بھی ہے۔
ایسی حالت میں اگر کوئی شخص کار میں بیٹھنے کی سنت یہ بتائے کہ اُس میں داخل ہوتے ہوئے ہرحال میں اپنا دایاں پاؤں کارکے اندر داخل کرو، اور اترتـے ہوئے ہر حال میں اپنا بایاں پاؤں اس کے اندر سے نکالو، تو ایسا کرنا راحت کے بجائے زحمت کا باعث بن جائے گا۔ جب کہ آدابِ زندگی کے بارے میں سنت ہمیشہ راحت پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ غیرضروری مشقت پر۔
واپس اوپر جائیں
میں نے 1982 میں حج کیا۔ اس سفر میں ایک عرب پروفیسربھی میرے ساتھ تھے۔ہم دونوں جدہ ائر پورٹ پر اترے اور پھر وہاں سے روانہ ہوکر مکہ پہنچے۔ مکہ پہنچ کر میرے عرب ساتھی کو اچانک معلوم ہوا کہ وہ اپنا ہینڈ بیگ جدہ میںائر پورٹ پر چھوڑ آئے ہیں جس میں اُن کے بیس ہزار ریال تھے۔ اس کے بعد وہ مجھ کو مکہ میں چھوڑ کر دوبارہ جدہ کے لیے روانہ ہوگئے تاکہ وہاں اپنا کھویا ہوا ہینڈ بیگ تلاش کریں۔ ان کے جانے کے بعد میںنے دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا تو میری زبان سے یہ الفاظ نکلے— خدایا، تو اس کو ہمارے لیے سبق بنادے، تو اس کو ہمارے لیے نقصان نہ بنا۔
آدمی کو پوری کوشش کرنا چاہیے کہ وہ غلطی یا نقصان سے بچے، لیکن جب نقصان ہوجائے تو دوسری چیز جس سے آدمی کو بچنا چاہیے، وہ ہونے والے واقعہ پر غم اور افسوس ہے۔ جب ایک غلطی ہوجائے تو وہ گویاکمان سے نکلا ہوا ایک تیر ہے جو واپس نہیں آتا۔ ایسی غلطی کے لیے افسوس نہیں کرنا ہے، بلکہ اللہ سے دعا کرنا ہے کہ وہ اس کے بُرے انجام سے آدمی کو بچائے۔
غلطی نہ کرنا اچھا ہے، مگر غلطی کرنا بھی اس وقت اچھا بن جاتا ہے جب کہ غلطی کا احساس آدمی کو اللہ کی طرف متوجہ کردے۔ وہ اپنے رب سے دعائیں کرنے لگے۔ ایسی غلطی آدمی کے لیے عبادت کا سبب بن جاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ دعا ایک عبادت ہے: (الدعاء ہوالعبادۃ)۔
نقصان کے بعد اس پر غم کرنا گویا کھوئے ہوئے میں جینا ہے۔ اور نقصان کے بعد اللہ کی طرف رجوع ہوجانا گویا نقصان کے بعد اس کی بہتر تلافی کا طالب بننا ہے۔ اور بلا شبہہ اللہ یہ اختیاررکھتا ہے کہ وہ آدمی کے نقصان کو دوبارہ عظیم تر فائدے میں تبدیل کردے۔
ہر نقصان کے دو پہلو ہیں۔ ایک، نقصان اوردوسرے، سبق۔ اگر کوئی نقصان ہوجائے، تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اُس سے سبق لے۔ اِس طرح نقصان، فائدے میںتبدیل ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
دین کو سمجھنے کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ آدمی عربی زبان جانے، یا وہ قرآن اور حدیث کا ترجمہ پڑھ لے۔ اِسی کے ساتھ لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی پوری سنجیدگی کے ساتھ اُس پر تدبّر کرے۔ سنجیدہ غور وفکر کے بغیر کوئی بھی شخص دین کو حقیقی طورپر سمجھ نہیں سکتا، خواہ وہ تمام دینی علوم اور دُنیوی علوم کا ماہر ہو۔ مثال کے طورپر قرآن میں اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے: ربّنا آتنا فی الدنیا حسنۃً، وفی الآخرۃ حسنۃً، وقنا عذابَ النّار (البقرۃ:
ظاہر ِ الفاظ کو لے کر اگر آپ اس دعاکا یہ مطلب سمجھ لیں کہ اے رب، ہم کو دنیا کی اچھی چیزیں دے دے اور ہم کو آخرت کی اچھی چیزیں دے دے، تو ایسا سمجھنا غلط ہوگا۔ اِس دعا میں جو بات کہی گئی ہے، وہ خدا کی نسبت سے ہے، نہ کہ انسان کی نسبت سے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری اپنی خواہشوں کے مطابق، خدا ہم کو دونوں جہان کی اچھی چیزیں دے دے، بلکہ اِس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تیرے نزدیک دنیا کا جو حسنہ ہے، وہ تو ہم کو دے، اور تیرے نزدیک آخرت کا جو حسنہ ہے، وہ ہم کو دے دے۔
اِسی طرح ایمانِ مفصّل کے کلمہ میں مومن جو الفاظ ادا کرتا ہے، اُس میں سے ایک چیز یہ ہے: وبالقدر خیرہ وشرّہ (میںایمان لایا تقدیر پر، وہ خیر ہویا شر ہو) اِن الفاظ کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ خدا کی نسبت سے نہیں ہیں، بلکہ وہ انسان کی نسبت سے ہیں، اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کسی کے لیے خیر مقدر کردیتا ہے اور کسی کے لیے شر۔ گویا کہ بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو کچھ میرے ساتھ پیش آئے، خواہ وہ میری اپنی سمجھ کے مطابق، خیر ہو یا وہ میری اپنی سمجھ کے مطابق شر ہو، میں ہر حال میں اُس پر راضی ہوں۔
گویا کہ پہلی مثال میں’حسنہ‘ کی جو بات ہے، اُس کو صرف اُس وقت سمجھا جاسکتا ہے جب کہ اُس کو خدا کی نسبت سے دیکھا جائے۔ اگر اُس کوانسان کی نسبت سے دیکھا جانے لگے تو اُس کا مفہوم بالکل غلط ہوجائے گا۔ اِسی طرح دوسری مثال میں خیر و شرکی جو بات ہے، وہ انسان کی نسبت سے ہے، نہ کہ خدا کی نسبت سے۔ اگر اِس نسبت کو بدل دیا جائے تو اُس کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کا آغاز کلمہ ٔ شہادت سے ہوتا ہے، یعنی زبان سے اِن الفاظ کو ادا کرنا: أشہد أن لا إلٰہ إلاّ اللّہ، وأشہد أنّ محمداً عبدُہ ورسولہُ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد، اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں)۔گواہی یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر ایک بیان دے:
Giving a statement on the basis of direct knowledge.
اسلام کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے۔ ایک انسان جو سچائی کا متلاشی ہو، وہ تلاش وجستجو کے بعد سچائی کی دریافت کرتا ہے۔ اُس کا دل اِس یقین سے بھر جاتا ہے کہ جو چیز میں نے دریافت کی ہے، وہ کامل سچائی ہے۔ اُس وقت فطری طورپر وہ یہ کرتا ہے کہ جس حقیقت کو اُس نے دل و دماغ کی سطح پر پایا ہے، اُس کا اعلان وہ اپنی زبان سے کرے۔ کلمہ ٔ شہادت اعلانِ معرفت ہے، نہ کہ محض تکرارِ الفاظ۔اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں، صرف معبودیت کے معنیٰ میں ہے، یعنی خدا ہی معبودِ حقیقی ہے۔ وہی اِس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، وہی روزِ جزا کا مالک ہے، کسی بھی اعتبار سے کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔
لا إلٰہ إلاّ اللّہکا مطلب ہے: لا معبودَ إلّا اللّہ، لیکن کچھ لوگوں نے خود ساختہ طورپر اُس میں نئے معانی شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً کچھ لوگ وحدتِ وجود (monism) کے نظریے سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے اپنے اِس تصور کو اسلامی عقیدے میں شامل کرنے کے لیے کہا: لاَ موجودَ إلاّ اللّٰہ، یعنی جس طرح خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی طرح خدا کے سوا کوئی اور موجود نہیں۔ اِسی طرح کچھ اور لوگوں نے اِس عقیدے میں سیاست کو شامل کرنا چاہا تو انھوں نے کہہ دیا کہ : لا حاکم إلاّ لِلّٰہ، یعنی خدا جس طرح فوق الفطری معنیٰ میں معبود ہے، اِسی طرح وہ سیاسی معنیٰ میں حاکم بھی ہے۔
اس طرح کے تمام اضافے بلاشبہہ باطل ہیں، یہ اسلام میں تحریف کے ہم معنیٰ ہیں۔ لا الٰہ إلاّ اللّٰہ کا کلمہ، عقیدے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور عقیدے میں قیاس اور استنباط اور اجتہاد سرے سے جائز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
میںاپنے مطالعے سے یہ سمجھا ہوں، واللّٰہ أعلم بالصّواب، کہ غالباً آخرت کی نجات کے دو معیار ہیں— ایک، ربّانی معیار اور دوسرا، اخلاقی معیار۔ ربّانی معیار پر پورا اُترنے والے لوگ جنت میں اعلیٰ مقام پائیں گے۔ اخلاقی معیار پر پورا اترنے والے لوگ بھی جنت میں جاسکتے ہیں، لیکن وہ عام درجے کی جنت میں جگہ پائیں گے، نہ کہ اعلیٰ درجے کی جنت میں۔
ربّانی معیار اور اخلاقی معیار کو دوسرے لفظوں میں، شرعی معیار اور فطری معیار کہاجاسکتا ہے۔ شرعی معیار پر پورا اترنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کے ذریعے اترنے والی سچائی کو دریافت کیا، اور پھر دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اُس کو اپنی زندگی میںاختیار کرلیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معیارِ اوّل پر پورے اترے۔ وہ حسبِ اخلاص، جنت میںاعلیٰ درجات پائیں گے۔
فطری معیار پر پورا اُترنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی فطرت، یا اپنے ضمیرکی آواز کو سنا اور اُس پر پوری دیانت داری کے ساتھ قائم ہوگئے۔ انھوںنے اپنی آزادی کا کوئی غلط استعمال نہیں کیا۔ معروف اخلاقیات کے اوپر وہ سنجیدگی کے ساتھ قائم رہے۔ جن کا حال یہ تھا کہ جو سچائی اُن کے علم میں آئی، اُس کا انھوں نے انکار نہیں کیا۔ ایسے لوگ بھی غالباً جنت میں جگہ پائیں گے۔
ایک عالم سے اِسی طرح کا سوال پوچھا گیا تو انھوں نے مختصر انداز میں اس کا جواب اِس طرح دیا: جیسا علم ویسا مواخذہ، یعنی آدمی کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ جتنا جانے، اُس پرعمل میں کوتاہی نہ کرے۔ جو بات اس کے علم میں نہیں آئی، اس میں اگر وہ کوتاہی کرتا ہے، تو خدا اس کو بے خبری کے خانے میں ڈال دے گا، نہ کہ باخبری کے خانے میں۔حدیث میں آیا ہے کہ: إنما الأعمال بالنیات (صحیح البخاری)یعنی عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ نیت (intention) ہی خدا کے یہاں اصل اہمیت کی چیز ہے۔ آدمی جب ایک صحیح بات کو جانے اور جانتے بوجھتے اس کے خلاف کرے، تو اِس قسم کی خلاف ورزی بلا شبہہ وہ چیز ہے جس پر انسان کی پکڑ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
اگر پہاڑ کی کھوہ (cave) سے کسی دن ایک زندہ انسان نکل آئے، تو سارے دیکھنے اور جاننے والے لوگ اس کو حیرت ناک واقعہ سمجھیں گے۔ تمام لوگ یہ سوچنے لگیں گے کہ ایسا کیوں کر ہوا۔ ماں کے پیٹ سے ایک انسان کا پیدا ہونا بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہے جو دہشت ناک حد تک عجیب ہے۔ لوگ ماں کے پیٹ سے زندہ انسان کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن وہ اس کے متعلق کچھ نہیں سوچتے۔
یہ فرق کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا روزانہ کا ایک واقعہ ہے۔ بار بار دیکھنے کی وجہ سے لوگ اس واقعے کے عادی (used to) ہوگئے ہیں، اِس لیے وہ اس کا کو فار گرانٹیڈ(for granted) طورپر لیے رہتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔لوگ اگر اِس معاملے سنجیدگی کے ساتھ سوچیں تو وہ انسان کی پیدائش کے واقعے میں خالق کے وجود کو دریافت کرلیں۔ جب وہ دیکھیں کہ ایک زندہ اور باشعور انسان پیدا ہو کر زمین پرچل پھر رہا ہے، وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور بولتا ہے، تو ان کو محسوس ہوکہ ہر انسان خالق کے وجود کا ایک چلتا پھرتا نشان (sign) ہے۔ ہر انسان لوگوں کو اپنے خالق کا ایک زندہ تعارف معلوم ہونے لگے۔
اِسی طرح انسان جب پیدا ہو کر موجودہ زمین (planet earth) پر آتا ہے، تو وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لیے ایک پورا لائف سپورٹ سسٹم موجود ہے۔ یہ لائف سپورٹ سسٹم اتنا مکمل ہے کہ کوئی قیمت دیے بغیر وہ انسان کی ہر چھوٹی اور بڑی ضرورت کو نہایت اعلیٰ صورت میں پورا کررہا ہے۔ زمین سے لے کر سورج تک پوری دنیا استثنائی طورپر انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔
اس کے بعد وہ دن آتا ہے جب کہ انسان اچانک مرجاتا ہے۔ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن سو سال کے اندر ہی یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنی مرضی کے خلاف اِس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
زمین پر پیدا ہونے والا ہر انسان دو چیزوں کا تجربہ کرتاہے۔ پہلے زندگی کا تجربہ، اور اس کے بعد موت کا تجربہ۔ اگر انسان سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات پر سوچے تو وہ یقینی طورپر ایک بہت بڑی حقیقت کو دریافت کرے گا، وہ یہ کہ انسان کو پیدا کرکے اِس زمین پر آباد کرنا بطور انعام نہیں ہے، بلکہ وہ بطور امتحان ہے۔موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔ یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ کون شخص بااصول زندگی گزارتا ہے اور کون شخص بے اصول زندگی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔
آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ اِس حقیقت کو پالے گا کہ موت دراصل خالق کے سامنے حاضری کادن ہے۔ انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے، لیکن اس کی مدتِ حیات (life span) کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا ہے— موت سے قبل کی مدتِ حیات (pre-death period)، اور موت کے بعد کی مدتِ حیات(post-death period) ۔ موت سے پہلے کی مدتِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے، اور موت کے بعد کی مدتِ حیات اُس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق، انعام یا سزا پانے کے لیے۔
انسان آج اپنے آپ کو اِس دنیا میں ایک زندہ اور باشعور وجود کی صورت میں پاتاہے۔ یہ زندہ اور باشعور وجود ایک مستقل وجود ہے۔ موت وہ دن ہے جب کہ یہ زندہ اور باشعور وجود اپنی اِسی موجودہ صورت میں عارضی دنیا سے نکالا جاتا ہے اوراس کو اِسی زندہ اور باشعور وجود کی حالت میں اگلی مستقل دنیا کی طرف منتقل (transfer) کردیاجاتا ہے۔
یہ لمحہ ہر عورت اور مرد پر لازماً آنے والا ہے۔ وہ ناقابلِ قیاس حد تک سنگین لمحہ ہوگا۔ موت کے بعد آنے والے اِس دورِ حیات میں یہی موجودہ انسان ہوگا، لیکن اس کے تمام اسباب اس سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جو اس سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی، اور اس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اس کو کامل بے سروسامانی کے ساتھ ابدی طورپر رہنا ہے— دانش مند وہ ہے جو اِس آنے والے دن کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔
واپس اوپر جائیں
مسلم اخباروں اور مسلم جرائد میں آج کل کثرت سے ایسے مضامین چھپتے ہیں، جن کا عنوان اِس قسم کا ہوتا ہے— مستقبل اسلام کا ہے، وغیرہ۔ اِس قسم کی سوچ ایک بے بنیاد سوچ ہے۔ اسلام کے غلبہ کے لیے کسی مستقبل کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ اسلام آج بھی پوری طرح غالب اور قائم ہے۔
اسلام کے غلبہ سے مراد اس کا فکری غلبہ (اظہار) ہے، یعنی دلائل وبراہین کے ذریعے اسلام کی حقانیت کا ثابت شدہ رہنا۔ اِس اعتبار سے، اسلام ابدی طورپر ایک غالب دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ مذکورہ قسم کی باتیں صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کو، اسلام کے غلبہ کے ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
اسلام اصلاً ایک آئڈیا لوجی (ideology) کا نام ہے۔ جب دلائل کی تائید اسلام کے حق میں ہو، تو اسلام کو غالب سمجھا جائے گا۔ دلائل کی یہ تائید پہلے بھی اسلام کے حق میں تھی، اور اب سائنسی حقائق کے ظہور کے بعد مزید اضافے کے ساتھ دلائل کی یہ تائید اسلام کو حاصل ہوچکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب مسئلہ اسلام کے غلبہ کا نہیں ہے، کیوں کہ اسلام کا فکری غلبہ تو اپنے آپ ہر حال میں قائم ہے۔ اب جو سوال ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ مسلمانوں کی اپنی ذمے داری کا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ ایک طرف، اسلام کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور دوسری طرف، وقت کے حالات کا پوری طرح اندازہ لگائیں اور پھرجدید ذہن کے مطابق، اسلام کی تعلیمات کو مدلل انداز میں پیش کریں۔ اِس عمل کا نام دعوتِ اسلام ہے۔
فکری غلبہ، اسلام کی اپنی ایک صفت ہے، لیکن اسلام کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانا، یہ مسلمانوں کے کرنے کا کام ہے۔ مسلمان اگر اپنی اِس ذمے داری کو انجام نہ دیں، تو اِس قسم کی باتوں کا کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں۔ اسلام کے ’’مستقبل‘‘ کا انحصار حال میں اپنی ذمے داری کو ادا کرنے پر ہے، نہ کہ اس کے بارے میں مذکورہ قسم کا پُر فخر اعلان کرنے پر۔
واپس اوپر جائیں
زندگی کی حکمتوں میںسے ایک حکمت یہ ہے کہ وسیط یا درمیانی شخص (middleman) کی اہمیت کوسمجھا جائے اور اس کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک عالمی اصول ہے۔ ہرزمانے میں اِس کی مثالیں پائی جاتی ہیں، قدیم تاریخ میں بھی اور جدید تاریخ میں بھی۔
1 - قرآن میں اِس معاملے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے۔ حضرت یوسف اٹھارھویں صدی قبل مسیح میںفلسطین میں پیداہوئے، پھر وہ مخصوص اسباب کے تحت مصر پہنچے۔ اُس وقت مصر میںایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام یہ تھا— اپوفِس (Apophis)۔ حضرت یوسف کو یہ موقع ملا کہ وہ مصر میں وہ پوزیشن حاصل کرلیں جس کوقرآن میں خزائنِ ارض (یوسف:
حضرت یوسف کو یہ غیر متوقع کامیابی کیسے ملی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعض اسباب کے تحت وہاں ایک شخص سامنے آیا جس نے اُن کے اور بادشاہ کے بیچ، درمیانی شخص (intermediary) کارول ادا کیا۔ اِس طرح حضرت یوسف جیل سے نکل کر اقتدار کے منصب پر پہنچ گئے۔ اِس معاملے کی تفصیل قرآن کی سورہ نمبر
2 - حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک اسرائیلی پیغمبر تھے۔ وہ پندرھویں صدی قبل مسیح میں مصر میں پیدا ہوئے۔ اُن کی زندگی میںایک سے زیادہ ایسے واقعات ملتے ہیں، جب کہ کسی درمیانی شخص نے ان کے لیے بوسٹر (booster) کا رول ادا کیا۔ مثلاً حضرت موسیٰ بچپن میںایک خاتون کے رول (القصص:
3 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںبھی اِس حکمت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک واضح مثال وہ ہے جو غزوۂ خندق کے موقع پر سامنے آئی۔ غزوۂ خندق یا غزوۂ احزاب 5 ہجری میںپیش آیا۔ اُس وقت بے حد سنگین صورت حال تھی۔ مخالفین کی طرف سے بارہ ہزار کا طاقت ور لشکر مدینہ کی سرحد تک پہنچ چکا تھا۔ مسلمان اِس لشکر کا مقابلہ کرنے سے اپنے آپ کوعاجز پارہے تھے۔ اِس واقعے کی تصویر قرآن میں اِس طرح دی گئی ہے:
’’اُس وقت کو یاد کرو، جب کہ وہ تم پر چڑھ آئے، تمھارے اوپر کی طرف سے اور تمھارے نیچے کی طرف سے۔ اور جب آنکھیں کھُل گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اُس وقت ایمان والے امتحان میں ڈالے گئے اور بالکل ہلا دئے گئے‘‘۔ (الأحزاب:
تاریخ بتاتی ہے کہ مخالفینِ اسلام کی طرف سے پیش آنے والا یہ سنگین خطرہ ،جنگ اور قتال کے بغیر ختم ہوگیا۔ بارہ ہزار کا یہ طاقت ور لشکر تقریباً ایک مہینے کے محاصرے کے بعد خود ہی مدینہ کے خلاف کوئی اقدام کئے بغیر واپس چلا گیا۔ یہ معجزہ(miracle) کیسے پیش آیا۔ اِس کا جواب ہم کو سیرت کی کتابوں سے ملتا ہے۔ سیرت کی کتابوں میںیہ واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس وقت مدینہ میں ایک صاحب تھے جن کا نام نُعیم بن مسعود بن عامر الاشجعی (وفات 650 ء) تھا۔ وہ اگر چہ دل سے مسلمان ہوچکے تھے، لیکن مخالفِ اسلام گروہ کو ابھی تک اِس کا علم نہ تھا۔ اِس بنا پر ان کے قبیلے کے اندر، یا مخالفِ اسلام گروہ کے اندر ان کو بدستور معتمد علیہ (trustworthy) شخص کی حیثیت حاصل تھی۔ اِس بنا پر وہ اُس وقت دو طرفہ رول ادا کرنے کی پوزیشن میںتھے۔
محاصرے کے دوران نُعیم بن مسعود الاشجعی رات کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اپنے بارے میں بتایا کہ میں دل سے اسلام کو مان چکا ہوں، لیکن ابھی دوسرے لوگ اِس سے واقف نہیں۔ اِس بنا پر ابھی تک مجھ کو اُن کا اعتماد حاصل ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں مخالفانہ محاصرے کو ختم کرنے کے سلسلے میں اہم رول ادا کرسکتا ہوں۔ پیغمبر اسلام نے اُس وقت ایسا نہیں کیا کہ وہ نعیم بن مسعود پر شک کریں اور ان کو دشمنوں کا ایجنٹ (agent) بتا کر اپنے اصحاب سے کہیں کہ یہ شخص خطرناک آدمی ہے، تم لوگ اِس سے بچو۔ اِس کے برعکس، پیغمبر اسلام نے اُن کی قدر دانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ تم ضرور اپنے منصوبے کے مطابق کوشش کرو۔ کیوں کہ: إنما أنت فینا رجلٌ واحد (سیرت ابنِ ہشام، جلد 3 ، صفحہ
You are only one man among us. So go and awake distrust among the enemy to draw them off us, if you can, war is deceit.
نعیم بن مسعود الاشجعی نے اِس موقع پر مدینہ کے محاصرے کو ختم کرنے کے لیے جو رول ادا کیا، اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ عین وہی رول تھا جس کو درمیانی شخص کا رول (intermediary role) کہاجاتا ہے۔ انھوںنے جنگ کے بغیر ایک جنگی اقدام کا خاتمہ کردیا۔ یہ بارہ ہزار کا لشکر جو اُس وقت مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کے لیے آیا تھا، وہ سب بعد کو اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔
اِس اعتبار سے دیکھئے تو نعیم بن مسعود کا یہ رول اپنے اندر بہ یک وقت دو عظیم پہلو رکھتا تھا۔ ایک، جنگ اور خون کے بغیر دشمنانہ محاصرے کا خاتمہ اور دوسرے، اُن لوگوں کو ہلاکت سے بچانا جو اُس وقت متوقع اہلِ ایمان (expected believers) کی حیثیت رکھتے تھے۔
4 - اِس معاملے کی ایک مثال رجاء بن حَیوہ بن جرول الکِندی (وفات: 730 ء) کی ہے۔وہ بنو امیہ کے دور میںخلیفہ سلیمان بن عبد الملک (وفات:
اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک ایک سفر میں تھے کہ وہ بیمار ہوگئے ، ان کے بچنے کی امید نہ رہی۔ اُس وقت رجاء بن حیوہ، خلیفہ کے ساتھ تھے۔ خلیفہ کے براہِ راست وارث موجود تھے، لیکن وہ لائق نہ تھے۔ رجاء بن حیوہ نے سلیمان بن عبد الملک کو راضی کیا کہ وہ ایک وصیت نامہ لکھیں اور اِس وصیت نامے میں عمر بن عبد العزیز کو وہ اپنے جانشین کی حیثیت سے نام زد کردیں۔ یہ اُس وقت ایک خلافِ روایت بات تھی، لیکن رجاء بن حیوہ کے کہنے پر سلیمان بن عبد الملک نے اُس وقت ایک تحریری وصیت تیار کی اور اس پر اپنی شاہی مُہر ثبت کردی۔ سلیمان بن عبد الملک ابھی سفر ہی میں تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ چناں چہ ان کی تحریری وصیت کے مطابق، ان کی جگہ عمر بن عبد العزیز کو اموی سلطنت کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔
5 - برصغیر ہند میں انگریزوں کا سیاسی غلبہ ہوا تو 1857 میں علماء نے انگریزوں کے خلاف باقاعدہ طورپر مسلح جنگ کی۔یہ جنگی اقدام علماء کے نزدیک اسلامی جہاد تھا، لیکن انگریزوں کے نزدیک اِس جنگی اقدام کی حیثیت بغاوت (mutiny) کی تھی۔ چناں چہ انگریزوں نے اِن علماء کو حکومتِ وقت کا باغی قرار دے کر ان کے خلاف سخت دار وگیر شروع کردی۔ چوں کہ مسلم عوام نے عام طورپر علماء کے اِس جنگی اقدام کو غلط نہیں سمجھا تھا، اور اُس سے اظہارِ برأت (disown) نہیں کیا تھا، اِس لیے تمام مسلمان، انگریزوں کی نظر میں غدّار قرار پاگئے۔انگریز حکم راں، مسلمانوں کی وفاداری پرشک کرنے لگے۔ اِس کا بھاری نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔
یہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ اُس وقت برصغیر ہند میں صرف ایک نمایاں مسلمان تھے، جو اِس مسئلے کے حل کے لیے اٹھے۔ یہ سرسید احمد خاں (وفات: 1898 ) تھے۔ انھوںنے اپنی مسلسل کوشش کے ذریعے مسلمانوں کے بارے میںانگریزوں کے شکوک وشبہات کو دور کیا۔ انھوںنے علی گڑھ میںمحمڈن کالج (موجودہ مسلم یونی ورسٹی) قائم کیا، تاکہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور انگریزوں کے دورِ حکومت میںاُن کو باعزت مقام حاصل ہوسکے۔ سرسید احمد خاں کا مشن اتنا زیادہ مفید ثابت ہوا کہ آج مسلم یونی ورسٹی کو انڈیا میں مسلمانوں کے وجود و بقا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سرسید احمد خاں کو یہ اہم رول ادا کرنے کا موقع کس طرح ملا۔ اُس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مخصوص حالات کے نتیجے میں سرسید کو انگریزی حکومت اور مسلمانوں کے بیچ میںدرمیانی شخص (middleman) کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ایک طرف ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک مسلمان تھے۔ استثنائی طورپر ان کی نمایاں قسم کی شرعی داڑھی ان کے باعمل مسلمان ہونے کی کھلی علامت تھی۔ دوسری طرف یہ کہ انگریزوں کے بارے میں اُن کا رویہ نرم اور معتدل تھا۔ سرسید کی اِن دو طرفہ خصوصیات نے ان کو اِس قابل بنا دیا کہ وہ انگریزوں کے شدید رد عمل (backlash) کو روک سکیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرسید کے ذریعے سے یہ کام بخوبی طورپر انجام پایا۔
6 - اِسی طرح کا ایک نام مولانا ابو الکلام آزاد (وفات: 1958 ) کا بھی ہے۔ 1947 میں برصغیرہند میں ملک کی تقسیم کا واقعہ پیش آیا۔ ایک طرف انڈیا بنا، اور دوسری طرف پاکستان ۔ ملک کی یہ تقسیم مسلمانوں کے مطالبے کے تحت انجام پائی تھی، اِس لیے ہندوؤں نے تقسیم کا سارا الزام مسلمانوں کے اوپر ڈال دیا۔ تقسیم کے بعد بننے والے نئے انڈیا میںمسلمانوں کو عام طورپر شک وشبہہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔
اِس نازک وقت میں مولانا ابو الکلام آزاد نے نہایت اہم رول ادا کیا۔ مخصوص اسباب کے تحت، مولانا ابوالکلام آزاد کو اُس وقت کے ہندستان میںدرمیانی شخص (middleman) کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ایک طرف وہ ایک ممتاز مسلم فرد کی حیثیت رکھتے تھے، اور دوسری طرف آزادی کے بعد قائم ہونے والی کانگریسی حکومت میں مولانا ابو الکلام آزاد کو کامل اعتماد کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ اِس مخصوص پوزیشن کی بنا پر مولانا ابوالکلام آزاد کویہ موقع ملا کہ وہ ہندو اور مسلم کے بیچ درمیانی شخص کا رول ادا کریں۔
1947 کے بعد دہلی اور دوسرے مقامات پر ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے تھے۔ مولاناابوالکلام آزاد نے اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو (وفات: 1964 ) کی مدد سے اِن فسادات کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ انھوںنے لکھنؤ میں1948 میں آل انڈیا مسلم کنونشن بلایا۔ اِس کنونشن میں پورے ہندستان سے مسلم نمائندے شریک ہوئے۔ یہ کنونشن نہایت کامیاب رہا۔ اِس موقع پر مولانا ابولکلام آزاد نے جو تقریر کی، اس کو کتابوں میںدیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس کنونشن نے انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ آزادی (1947) کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد گیارہ سال تک زندہ رہے۔ انھوںنے مذکورہ قسم کے بہت سے کام کیے۔ درمیانی شخص کا جو مثبت رول ہوتا ہے، اِس پہلو سے مولانا ابو الکلام آزاد بلا شبہہ ایک کامیاب مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاریخ کے ہر دور میں درمیانی شخص (middleman) کا رول بہت اہم رہا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہر زمانے میں درمیانی شخص کو شبہہ کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ درمیانی شخص ایک طرف، اپنی قوم سے وابستہ ہوتا ہے اور دوسری طرف، وقت کے حکم راں اُس سے قریب ہوجاتے ہیں۔ اِسی دو طرفہ تعلق کی بنا پر وہ اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ درمیانی شخص کا اہم رول ادا کرسکے۔
لیکن قوموں کی نفسیات یہ ہے کہ ہمیشہ اربابِ اقتدار کے بارے میں ان کی رائے منفی ہوتی ہے۔ اربابِ اقتدار کے خلاف اِس منفی ذہن کو اینٹی انکمبینسی فیکٹر (anti-incumbency factor) کہا جاتا ہے۔ اِس مزاج کی بنا پر جمہوری ملکوں میں ایسا ہوتا ہے کہ اربابِ اقتدار کے مقابلے میں ایک اپوزیشن گروپ بن جاتا ہے۔
یہی مزاج درمیانی شخص کا رول ادا کرنے والے افر اد کے مقابلے میں بھی کام کرتا ہے۔ ایسا کسی عقلی فیصلے کی بناپر نہیں ہوتا، بلکہ وہ تمام تر اینٹی انکمبینسی مزاج کے تحت ہوتا ہے۔ اِس قومی مزاج نے پہلے بھی کسی درمیانی شخص کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ اور آج بھی ایسے افراد پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھے جاتے۔ درمیانی شخص کے رول کو ہر آدمی اپنے ذاتی معاملے میں بھر پور طورپر استعمال کرتا ہے، لیکن قومی معاملے میں وہ اس کی اہمیت کو بھول جاتا ہے۔
عام طورپر قوموں کا مزاج یہ ہے کہ جو لوگ اُن کے مفروضہ حریف کے خلاف پُرجوش تقریریں کریں، ان کو قومیں اپنا دوست سمجھ لیتی ہیں، اور جو شخص ان کے مفروضہ حریف کے بارے میں معتدل انداز میں کلام کرے، اس کو دشمن کا ایجنٹ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ایسا تاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک تباہ کن مزاج ہے۔ جو قومیں اِس مزاج کا شکار ہوں، وہ اپنے گرد وپیش موجود مواقع کو استعمال کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مثبت امکانات کے درمیان منفی انجام کے سوا کچھ اور ان کے حصے میں نہیں آتا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ مفروضہ حریف کے خلاف منفی تقریریں کریں، ان کو قوموں کے درمیان خوب مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے لیے پرجوش تالیاں بجائی جاتی ہیں۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے ایسے لوگ اپنی قوم کی تباہی میں اضافے کے سوا کچھ اور نہیں کر پاتے۔ وہ قوم کی جذباتیت میںاضافہ کرکے اُس کواِس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ کے ساتھ اپنی تعمیری منصوبہ بندی نہ کرسکے۔
اِس کے برعکس، جو شخص حریف سے نفرت میںمبتلا نہ ہو، وہ معتدل انداز میں سوچنے کے قابل ہوتا ہے۔ وہ حالات کا حقیقت پسندانہ اندازہ کرکے تعمیری منصوبہ بناتا ہے، اور قوم کو از سرِ نو نئی زندگی دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں دونوں قسم کے کردار پائے جاتے ہیں۔ لیکن نتیجہ بتاتا ہے کہ پہلی قسم کے کردار نے صرف تباہی میں اضافہ کیا، اور دوسری قسم کے کردار نے اپنی قوم کو نئی زندگی دینے میںکامیابی حاصل کی۔
واپس اوپر جائیں
فکری اعتبار سے انسان کی تاریخ کو دو بڑے دوروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے— قبل سائنس دور، اور بعد سائنس دور۔قبل سائنس دور میں فکری اعتبارسے، مذہب انسان کے لیے رُجحان ساز بنا ہوا تھا۔ماڈرن سائنس کے ظہور کے بعد یہ صورت حال بد ل گئی۔ اب سائنس کو عمومی طورپر رجحان ساز (trendsetter) کا درجہ حاصل ہوگیا۔ سائنس بذاتِ خود نہ مذہب کے موافق ہے اور نہ مذہب کے خلاف، لیکن بعض وجوہ سے اس کا یہ عملی نتیجہ نکلا کہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام فکری معاملات میں الحادی نظریہ غالب آگیا۔ ایسا کیوں کر ہوا، یہاں اس کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ سیارۂ ارض پر انسان ہزاروں سال سے رہ رہا ہے۔ وہ روزانہ بہت سی چیزوں کو ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مثلاً سورج کا نکلنا، بارش کا برسنا اور ہواؤں کا چلنا، وغیرہ۔ روایتی طورپر انسان یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کے لیے ایک مسلّمہ یا ایک بدیہی صداقت (axiom) بن چکا تھا۔ مؤحّد انسان اور مشرک انسان، دونوں کسی نہ کسی طورپر اس کو بطور ایک مسلّمہ حقیقت کے مانتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق (مُسبِّب) اور نتیجے کے درمیان کسی سبب (cause) کا تصور فکری یا عملی طور پر موجود نہ تھا۔
جدید سائنس کے ظہور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہر نتیجے سے پہلے بظاہر اس کا ایک مادّی سبب (material cause) موجود ہے۔ مثال کے طور پر جدید سائنس کا بانی سرآئزاک نیوٹن (وفات: 1727ء) اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے سیب کا ایک درخت تھا۔ درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر نیچے گرا۔ نیوٹن سوچنے لگا کہ پھل درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں آیا، وہ اوپر کی طرف کیوں نہیں چلا گیا۔ آخر کار اُس نے دریافت کیا کہ ہماری زمین میں قوتِ کشش (gravitational pull) ہے، اِس بنا پر ایسا ہوتاہے کہ چیزیں اورپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں، وہ نیچے سے اوپر کی طرف نہیں جاتیں۔
یہ سائنسی مطالعہ بڑھا، یہاں تک کہ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ اِس دنیا میں جو واقعات ہوتے ہیں، اُن سب کے پیچھے ہمیشہ ایک سبب (cause) موجود رہتا ہے، ہر نتیجہ کسی سبب کے تحت ظہورمیں آتا ہے۔ سائنس دانوں نے اپنی اِس دریافت کو قانونِ تعلیل (principle of causation) کا نام دیا۔ واقعات کو مبنی بَراسباب سمجھنے کا یہ ذہن پھیلتا رہا، یہاں تک کہ وہ انسان کی تمام علمی اور فکری سرگرمیوں پر چھا گیا۔ واقعات کی توجیہہ کے لیے پہلے، خدا کا حوالہ دیا جاتا تھا، اب واقعات کی توجیہہ کے لیے خدا کے بجائے، سبب (cause) کا حوالہ دیا جانے لگا۔
سائنس کی یہ دریافت ابتدائی طوپر اپنے اندر صرف ایک طبیعی مفہوم رکھتی تھی۔ خدا کے حوالے سے واقعات کی توجیہہ نہ کرنے کے باوجود وہ خدا سے انکار کے ہم معنی نہ تھی۔ مگر ملحد مفکرین نے، نہ کہ سائنس دانوں نے، نظریاتی ہائی جیک(hijack) کے ذریعے اس کو خدا سے انکار کے ہم معنیٰ بنا دیا۔ یہیں سے وہ نظریہ شروع ہوا جس کو جدید الحاد (modern atheism) کہاجاتا ہے۔
سائنس کی اِس دریافت کو لے کر جدید ملحدین نے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب ہمیں واقعات کی توجیہہ کے لیے خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ واقعات اگر طبیعی اسباب کا نتیجہ ہیں، تو وہ مافوق الطبیعی اسباب کا نتیجہ نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
جیسا کہ آئندہ ہم واضح کریں گے کہ اِس استدلال میں واضح طورپر ناقابلِ حل منطقی خلا (logical gap) موجود تھا، اس کے باوجود جدید اہلِ علم کے درمیان اس کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کو خدا کا بدل سمجھا جانے لگا، یہاں تک کہ یہی طرزِ فکر تمام جدید علمی شعبوں میں چھا گیا۔ چند مثالوں سے اِس کی وضاحت ہوتی ہے۔
1 - اِن میں سے ایک ماڈرن میٹریل ازم (modern materialism) ہے۔ مٹیریل ازم ایک فلسفہ بھی ہے، اور ایک کلچر بھی۔ عملی طورپر دیکھیے تو میٹریل ازم کا خلاصہ یہ ہے کہ— اپنی آرزوؤں کی جنت کے حصول کے لیے اب اِس کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ اگلی دنیا (آخرت) برپا ہو اور وہاں خدا اپنی خصوصی عنایت کے طورپر ہمیں جنت عطا کرے۔ اب ہم کو وہ سبب معلوم ہوگیا ہے جس کے ذریعے اِسی دنیا میں جنت کی تعمیر ممکن ہے، یہ سبب جدید ٹکنالوجی ہے۔
چناں چہ جدید ٹکنالوجی اور جدید انڈسٹری کے ذریعے اِس جنتِ ارضی کی تعمیر کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ مادّیت (materialism) کے نام سے ایک پوری تہذیب ظہور میں آگئی۔ آج کا انسان، خدا سے غافل ہو کر اس تہذیبی جنت کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑا۔ جدید انداز کے مکانات اور جدید انداز کے شہر اور جدید انداز کا لائف اسٹائل ہر طرف وجود میں آنے لگا۔ تہذیبِ جدید کے تحت اِس مادّی جنت کی تعمیر ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ بعد کی تحقیقات نے خود اُس کی تعمیر ہی کو سرے سے ناممکن ثابت کردیا۔ طبیعیاتی سائنس نے مزید مطالعے کے بعد بتایا کہ ہماری دنیا میں ضابطۂ ناکارگی (law of entropy) نافذ ہے۔ اِس کے تحت، دنیا مسلسل طورپر خاتمے کی طرف جارہی ہے، اور ایک دن آئے گا جب کہ وہ مکمل طورپر ختم ہوجائے۔
اکیسویں صدی میں پہنچ کر اِس میں مزید اضافہ ہوا۔ اب معلوم ہوا کہ خاتمے کی یہ مدت بہت قریب آگئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ صرف پچاس سال کے اندر وہ تمام ذرائع اور وسائل بالکل تباہ ہوجائیں، جن کی مدد سے مفروضہ مادّی جنت تعمیر کی جارہی تھی۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہ عن قریب وہ اسباب ہی ختم ہوجائیں گے، جن کی بنیاد پر مادّی جنت کی تعمیر کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔
2 - اِس معاملے کی ایک مثال ڈارون ازم (Darwinism) ہے۔ پچھلے ہزاروں سال سے انسان یہ مانتا چلا آرہا تھا کہ انواعِ حیات، بہ شمول انسان، کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ یہ خداوندِ عالم ہے جو براہِ راست اپنی تخلیق کے ذریعے تمام انواعِ حیات کو وجود میں لاتا ہے۔ مگر چارلس ڈارون (وفات: 1802 ) نے مفروضہ طورپر یہاں بھی ایک ’’سبب‘‘ کو دریافت کرلیا، جو مختلف انواعِ حیات کووجود میں لانے کا ذمے دار تھا۔ یہ سبب، ڈارون کے الفاظ میں، نیچرل سلیکشن (natural selection) تھا، یعنی حیاتیاتی عمل کے دوران طبیعی اسباب کے تحت مختلف انواعِ حیات ظہور میں آتی چلی گئیں۔ گویا کہ انواعِ حیات، یا انسان کو وجود میں لانے والا عُنصر ایک مادّی سبب (material cause) ہے، نہ کہ غیر مادّی خدا۔
ڈارون کا دریافت کردہ یہ سبب (cause) کبھی بھی علمی اعتبار سے ثابت شدہ نہ تھا، وہ صرف ایک مفروضہ تھا۔ مزید یہ کہ خود علمائِ حیاتیات اِس کو ایک ثابت شدہ نظریے کے بجائے صرف ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) کا درجہ دیتے ہیں۔ حتی کہ خود چارلس ڈارون کو اپنے اِس دریافت کردہ مفروضہ پر آخری عمر میں شک پیدا ہوگیا تھا، چناں چہ وہ مایوسی کی حالت میں مرا۔
اِس واضح منطقی خامی کے باوجود، ڈارون کے نظریے کو جدید علمی حلقوں میں عمومی مقبولیت (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوگیا۔ حتی کہ آج بھی یہ غیر ثابت شدہ نظریہ تمام دنیا کی یونی ورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
3 - اِسی کی ایک مثال مارکس ازم (Marxism)بھی ہے۔ کارل مارکس (وفات: 1883 ) نے سماجی معاشیات(social economy) کے معاملے میں بھی اِسی مفروضہ اصول کو منطبق کیا۔ بطورخود اس نے اُس سبب (cause) کو دریافت کیا جس کے تحت، انسانی سماج کے اندر انقلابی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور سماج ایک خود کار مادّی عمل کے تحت، ایک حالت سے ترقی کرکے دوسری حالت تک پہنچ جاتا ہے۔
کارل مارکس نے اِس سبب کو تاریخی ناگزیریت (historical determinism) یا جَدلیاتی مادّیت (dialectical materialism) کا نام دیا۔ اُس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سماج کے اندر ناگزیر داخلی اسباب کے تحت، دو طبقے (classes) پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخی اسباب کے تحت، اِن طبقوں کے درمیان ٹکراؤ پیش آتا ہے، اِس کے بعد ایک طبقہ مٹ جاتا ہے اور دوسرا طبقہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اِس طرح داخلی اسباب کے تحت، انسانی سماج ترقی کرتا رہتا ہے۔
کارل مارکس اور اس کے ساتھیوں کا دریافت کردہ یہ سبب (cause) بھی صرف مفروضہ ثابت ہوا۔ مارکس کی پیشین گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے، وہ کبھی واقعہ نہ بن سکا۔ جیسا کہ معلوم ہے، سوویت روس میں 1917میں مصنوعی طورپر یہ انقلاب لایا گیا، مگر عملاً صرف یہ ہوا کہ یہ نظریہ سوویت روس میں پیدا ہوا، اور سوویت روس ہی کے قبرستان میں وہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب: ’’مارکس ازم — تاریخ جس کو رد کر چکی ہے‘‘)۔
4 - جدید کنزیومرازم (modern consumerism) بھی اسی نوعیت کی ایک مثال ہے۔ انسان کے اندر بے پناہ حد تک یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے لیے ہر قسم کی راحت اور آسائش کا سامان حاصل کرے۔ جدید صنعتی ترقیوں نے بظاہر اِس کو ممکن بنا دیا۔ گویا کہ جدید صنعت وہ سبب (cause) تھا جس کے نتیجے کے طورپر انسان کو ہر قسم کی استعمالی اشیا (consumer goods) حاصل ہوسکتی تھیں۔ چناں چہ لوگ ہر جگہ قائم ہونے والے شاپنگ سنٹروں پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن آخر میں معلوم ہوا کہ یہ ’’سبب‘‘بھی صرف ایک غلط مفروضہ تھا۔ سامانِ استعمال کی تیاری صرف اِس قیمت پر ہوئی کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے قابلِ استعمال ہی نہ رہی۔
مثال کے طورپر کاروں اور ہوائی جہازوں نے بظاہر سفر کو آسان کردیا، مگر اس کا ناقابلِ برداشت حد تک منفی نتیجہ کاربن ایمیشن (carbon emissions) اور گر ین ہاؤس گیس (green house gases) کی شکل میں نکلا، جس کا حل تلاش کرنے میں تمام سائنس داں عاجز ہورہے ہیں۔ ائر کنڈیشننگ کے سامانوں کی تیاری کا یہ بھیانک نتیجہ نکلا کہ زندگی بخش اوزون لیئر(Ozone layer) میں بہت بڑا سوراخ (hole) پیدا ہوگیا، جو خود انسانی زندگی کے لیے ایک ناقابلِ حل چیلنج بن گیا، وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ غیر مضر انداز میں استعمالی اشیا بنانے کے لیے پلوشن فری انڈسٹری (pollution free industry) درکار ہے، اور پلوشن فری انڈسٹری کو قائم کرنا سرے سے انسان کے بس ہی میں نہیں۔
5 - اِسی معاملے کی ایک مثال بدھ ازم میں پائی جاتی ہے۔ بدھ ازم کو موجودہ زمانے میں تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اِس مقبولیت کا راز بھی وہی چیز ہے، جس کو اوپر ہم نے قانونِ تعلیل (principle of causation) کے تحت بیان کیا ہے۔
جدید سائنس کے زیراثر موجودہ زمانے میں وہ ذہن بنا، جو ہر چیز کو سبب اور علّت (cause and effect) کی اصطلاح میں سمجھنے کی کوشش کرتاہے۔ بدھ ازم نے زندگی اور موت کے ظاہرہ کے بارے میں اِس اصول کو منطبق کیا۔ اگر چہ یہ انطباق تمام تر قیاسی تھا، لیکن بظاہر اسباب پر مبنی ہونے کی بنا پر وہ جدید مغربی ذہن کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہوگیا۔
موجودہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی غریب خاندا ن میں پیدا ہوتا ہے اور کوئی امیر خاندان میں، کوئی مصیبت میں جیتا ہے اور کوئی آرام میں۔ بدھ ازم نے مفروضہ طورپر اس کا ایک سبب دریافت کرلیا، وہ یہ کہ ہر آدمی اپنے پچھلے کرم (عمل) کے لازمی نتیجے کے طورپر اپنے عمل کے انجام کو بھگت رہا ہے۔ یہ توجیہہ چوں کہ بظاہر ’’سبب‘‘کے اصول پر مبنی تھی، اِس لیے وہ جدید ذہن کو پسند آگئی اور ان کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہوگئی۔ گویا کہ یہاں بھی مادّی سبب نے غیر مادّی خدا کی جگہ لے لی۔
لیکن بدھ ازم کی یہ توجیہہ خود سائنسی تحقیق کے مطابق، سر تاسر غیر ثابت شدہ تھی۔ علمِ نفسیات کے شعبے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا حافظہ (memory) انسانی شخصیت کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنے پچھلے جنم کے اعمال کے مطابق، ایک خاص صورت میں نیا جنم لیتاہے تو اس کو اپنے پچھلے جنم کی ساری باتیں یاد رہنا چاہئیں۔ کیوں کہ یہ اُس کی پچھلی شخصیت (personality) ہی ہے، جو نئی شخصیت کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، کسی بھی انسان کو اپنے پچھلے جنم کا معاملہ یاد نہیں۔ بدھ ازم کے نظریے کے مطابق، ہر عورت اور مرد جس کو آج ہم دیکھتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو، وہ خود اپنے پچھلے جنم کا نیا جنم ہے، مگر اِن میں سے کسی کوبھی اپنے پچھلے جنم کی بات یادنہیں۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ہندو عورت یا کسی ہندو مرد کو پُر اسرار طورپر سامنے لایا جاتا ہے، جو اپنے پچھلے جنم کے احوال بتاتا ہے، مگر اِس قسم کا شعبدہ کوئی دلیل نہیں۔ کیوں کہ علمی اعتبار سے ایسا واقعہ صرف اُس وقت دلیل بن سکتا ہے، جب کہ تمام ہندوؤں اور غیر ہندوؤں کو اپنے پچھلے جنم کی بات یاد ہو، نہ کہ صرف چند پُراسرار افراد کو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گوتم بدھ نے جب سمادھی لگائی تھی تو انھو ںنے ماضی میں سفر کیا تھا، اور اپنے پچھلے تما جنموں کو دیکھ لیا تھا، مگر یہ دعویٰ تمام تر صرف ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق، اِس کا کوئی ثبوت نہیں کہ گوتم بدھ نے خود اپنی زبان سے ایسا کہا تھا۔ یہ صرف بعد کے شارحین ہیں، جنھوں نے اپنے قیاس اور استنباط کے ذریعے اِس قسم کی بات کہی ہے، اور بعد کے شارحین کا استنباط اِس معاملے میں ہر گز کوئی دلیل نہیں بن سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ تعلیل (principle of causation) اپنی ابتدا ہی میں صرف ایک مفروضے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ کوئی علمی دلیل نہ تھا۔ اس کی شہرت یا مقبولیت اس کے علمی وزن کی بنیاد پر نہیں ہوئی، بلکہ صرف جذباتیت کی بنیاد پر ہوئی۔ لوگوں نے جلد بازی میں ایک ایسے مفروضے کو حقیقت سمجھ لیا، جو اپنے آغازکے پہلے دن ہی صرف ایک مفروضہ تھا، نہ کہ کوئی واقعی حقیقت۔
جدید ملحدین کے اس استدلال میںواضح طورپر ایک بہت بڑا منطقی خلا تھا، وہ یہ کہ کسی واقعے کا جو سبب (cause) سائنس بتارہی ہے، وہ اپنے آپ میں کوئی آخری بات نہیں، اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہ سبب کیوں کر وقوع میں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سبب (cause) اصل معاملے کی توجیہہ نہیں کرتا، سبب خود اِس کا محتاج ہے کہ اُس کی کوئی توجیہہ تلاش کی جائے:
Cause does not explain, cause itself is in need of an explanation.
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ (God Arises)۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر رجَت ملہوترا ایک انٹرنیشنل بینک میں مینیجر ہیں۔ بینک نے اپنے اعلیٰ عہدے داروں کو مختلف ملکوںمیں سیاحت کے لیے بھیجا۔ اِس ٹیم میں مسٹر رجت ملہوترا بھی شامل تھے۔
لیکن جب ہم لوگ کسی بڑے شہر میں پہنچتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ شاپنگ کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میرے سوا، ٹیم کا ہر آدمی نہایت دل چسپی کے ساتھ خریداریاں کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ فرق کیوں ہے۔ کیوں ایسا ہے کہ وہ خدا کے موضوع پر بات کرنے میںکوئی دل چسپی نہیں لیتے ، لیکن جب شاپنگ کا موقع آتا ہے تو یہ لوگ نہایت دھوم کے ساتھ شاپنگ کرتے ہیں۔ میں جب اُن سے اِس کا سبب پوچھتا ہوں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم واپس ہو کر گھر پہنچیں گے تو ہمارے گھر والے ہم سے پوچھیں گے کہ تم فلاں فلاں ملک میں گئے، وہاں سے تم ہمارے لیے کیا لائے۔ انھوںنے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ ٹیلی فون پر برابر اپنے گھر والوں سے بات کرتے رہتے ہیں اور خوشی کے لہجے میں یہ کہتے ہیں کہ ہم تمھارے لیے یہ چیز لارہے ہیں اور وہ چیز لا رہے ہیں۔
اس موضوع پر میں نے غور کیا تو مجھے ایک عرب عالم کی بات یاد آئی۔ یہ محمد العارف ہیں۔ وہ اِس وقت مانچسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوںنے کہا کہ برطانیہ آکر مجھے یہ دریافت ہوئی کہ موجودہ زمانے کی اخلاقی بُرائیوں کی جڑ کیا ہے۔ وہ ہے— انعام کو مُنعم سے الگ کردینا۔ آج کا انسان، خدا کے انعامات کو تو خوب خوب استعمال کررہا ہے، لیکن وہ خدا کا اعتراف نہیںکرتا جو کہ منعم ہے، جو اِن تمام انعامات کو دینے والا ہے۔ یہ تجزیہ بلا شبہہ درست ہے اور یہی موجودہ زمانے کی تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے۔
موجودہ زمانے کی سب سے بڑی فکری بُرائی یہ ہے کہ اِس زمانے میںخالق کو مخلوق سے الگ کردیا گیا۔ انسان کا اپنا وجود اور اس کے باہر کی تمام چیزیں خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ انسان اِن چیزوں کو آخری ممکن درجے تک استعمال کررہا ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو اِس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ وہ خدا کا اعتراف کرے، جو تمام موجودات کا خالقِ حقیقی ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اِسی تفریق کے نتیجے میں موجودہ زمانے کی تمام برائیاں پیدا ہوئی ہیں۔
دونوں قسم کے ذہن سے دو الگ الگ کلچر پیدا ہوتے ہیں۔ خالق کااعتراف آدمی کے اندرذمّے داری کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ اِس سے مسئولیت (accountability) کا احساس جاگتا ہے۔ یہ احساس آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ دنیا میںاخلاقی ڈسپلن کے ساتھ زندگی گزارے، کیوں کہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس نے اپنی اخلاقی ذمے داری کو پورا نہیں کیا تو لازمی طورپر وہ خدا کی پکڑ میں آجائے گا۔ خدائی قانون کے مطابق، وہ سخت سزا کا مستحق بن جائے گا جس سے بچنا اُس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اِس کے برعکس معاملہ اُس انسان کا ہے جو اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے آزاد سمجھتا ہو۔ایسے آدمی کا حال یہ ہوگا کہ وہ انسانوں کی بستی میں خوش پوش حیوان کی مانند رہنے لگے گا، اُس کا پورا کردار غیرذمے دارانہ کردار بن کر رہ جائے گا۔
موجودہ زمانے میں یہ غیر ذمّے دارانہ کلچر اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ آج کا انسان اپنے آپ ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ وہ اِس نفسیات میںجیتا ہے کہ میں جو چاہوں کروں، مجھے کسی اور سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اِس غیر ذمے دارانہ کلچر کے نمونے ہر روز سماج میں اور میڈیا میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ بطور نمونہ یہاں میں صرف دو حوالے نقل کروں گا۔
اگر آپ آج کل کے کسی بڑے انگریزی اخبار کو پڑھیں تو آپ اُس کے ہر شمارے میں جدید سماج کے نمونے اس کے تقریباً ہر صفحے پر پائیں گے۔ ہر شمارے میں برہنگی (nudity) اتنی زیادہ نمایاں ہوگی کہ آپ کا جی چاہے گا کہ آپ اخبار پڑھنا ہی بند کردیں۔ مثال کے طور پر
I don’t regret any decision.
فلم ایکٹریس کا یہ جملہ نمائندہ طورپر یہ بتارہا ہے کہ آج کے انسان کا اصل اخلاقی مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جدید افکار و نظریات کے تحت، ایسا ہوا ہے کہ انسان کے اندر ضمیر (conscience) کا عمل تقریباً ختم ہوگیا۔ ضمیر ایک فطری آواز ہے جوانسان کو صحیح اور غلط کا احساس دلاتی ہے، لیکن موجودہ زمانے میں جدید افکار و نظریات کے تحت، انسان کی ایسی کنڈیشننگ ہوئی ہے کہ اس کے اندر ضمیر کا عمل تقریباً ختم ہوگیا۔ اور جب ضمیر کا عمل ختم ہوجائے تو اس کے بعد عملی طورپر یہی ہوگا کہ انسان اور حیوان کے درمیان اخلاقی اعتبار سے کوئی فرق باقی نہ رہے۔
جنگل کے حیوان اپنی جِبلّت (instinct) پر قائم رہتے ہیں۔ ان کی جبلت میںصحیح اور غلط، یا حق اور باطل کا فرق موجود نہیں، اِس لیے وہ اِس قسم کے احساسات سے خالی ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن انسان پیدائشی طورپر صحیح اور غلط، یا حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کا احساس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ جدید افکار و نظریات کے تحت، اِباحیت(permissiveness) کا جو کلچر پیدا ہوا، اس میں اور اس انسانی احساس میں ایک تضاد پایا جاتاتھا۔ اِس تضاد کو دور کرنے کے لیے نہایت خوب صورت نظریات گھڑے گئے اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس کو تمام لوگوں میں پھیلا دیا گیا۔ بطور نمونہ یہاں اِس کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔
نئی دہلی کے مشہور انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(
Don’t feel guilty
اِس مضمون میں جدید ذہن کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ خطا کا احساس آدمی کے اندر سیلف بلیم (self-blame) کی نفسیات پیدا کرتاہے، ایسا آدمی شکست خوردہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے، اس کا کانفڈینس لیول (confidence level) بہت گر جاتا ہے، ایسے آدمی کے اندر غیرضروری طورپر منفی مزاج پیدا ہوجاتا ہے، وہ حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ کھو بیٹھتا ہے، ماں باپ کی روک ٹوک اور اخلاقی پابندیوں کی بات کو اِس مضمون میں نگیٹیو پیرنٹنگ (negative parenting) بتایا گیا ہے، کیوں کہ اِس سے بچے کے اندر اپنے بارے میں کم تری کا احساس پیداہوتا ہے، وغیرہ۔
یہ بلا شبہہ صورتِ حال کا غلط تجزیہ ہے۔ آدمی کے اندر جب غلطی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے اندر اپنی اصلاح (self-correction) کا جذبہ ابھارتا ہے، نہ کہ سیلف ڈفیٹ (self-defeat) کا جذبہ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اندر اس کا ضمیر کم زور ہونے کے باوجود ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ایسی حالت میں جو آدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، وہ ہمیشہ بے یقینی کے احساس میں مبتلا رہے گا۔ اِسی کا دوسرا نام بے حوصلگی ہے۔ اِس کے برعکس، جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرلے، وہ اپنی اصلاح کرکے اپنے اندر مزید یقین پیدا کرلے گا، وہ زیادہ حوصلے کے ساتھ عمل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یقین اور اعتماد کا سر چشمہ آدمی کا یہ احساس ہے کہ میں سچائی کے راستے پر ہوں۔ میں اپنے ضمیر کے مطابق چل رہا ہوں۔ میں نے فطرت کے نظام سے بغاوت نہیں کی ہے۔ میں اُن اصولوں کا پابند ہوں جن کے اوپر پوری کائنات قائم ہے۔ برسرِ حق ہونے کا احساس آدمی کے حوصلے کو بڑھاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جو آدمی غلطی کرنے کے باوجود اپنے کو غلط نہ مانے، وہ داخلی بے یقینی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ یہ واقعہ کبھی شعوری طور پر ہوتا ہے اور کبھی غیر شعوری طور پر، مگر جہاں تک نتیجے کا تعلق ہے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
فکری اعتبار سے اِس غلطی کا آغاز بہت پہلے سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، اِس دور میں عالمی افکار پر سب سے زیادہ جو لوگ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ مغربی علما اور سائنس داں ہیں۔ چناں چہ اِس معاملے میں بھی جو صورتِ حال عالمی سطح پر پیدا ہوئی، اِس کی ذمے داری زیادہ تر مغربی علما پر جاتی ہے۔ یہ در اصل مغربی علما ہی تھے جنھوں نے انسانی فکر کی دنیا میں وہ حالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں ارادی یا غیرارادی طورپر، وہ صورتِ حال پیدا ہوئی جس کواخلاقی بحران (moral crisis) کہا جاتا ہے۔
اِس معاملے میں سب سے زیادہ نمایاں نام اٹلی کے مشہور سائنس داں گلیلیو (Galileo)کا ہے۔ گلیلیو 1564 میں پیدا ہوا، اور 1642 میں اِس کی وفات ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ گلیلیو وہ شخص ہے جس نے ماڈرن سائنس کی بنیاد رکھی۔ گلیلیو پہلا شخص ہے جس نے دور بین کے ذریعے ستاروں اور سیاروں کا اور شمسی نظام مشاہدہ کیا۔ اگر چہ آخری عمر میں وہ اندھا ہوگیا تھا، لیکن سائنس کے مختلف شعبوں میں اس کی خدمات بہت زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔
گلیلیو نے ایک طرف یہ تاریخی کام کیا کہ اس نے میتھ میٹکس اور فزکس کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا، جب کہ اس سے پہلے دونوں الگ الگ شعبے بنے ہوئے تھے:
Galileo was the first man who perceived that mathematics and physics, previously kept in separate compartments, were going to join forces. (EB,7/853)
گلیلیو کے اِس عمل سے فزکس کو بہت ترقی ہوئی۔لیکن اِس مثبت کام کے ساتھ گلیلیو نے ایک ایسا کام بھی کیا، جس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوئے۔ وہ یہ کہ گلیلیو نے چیزوں کے کمّیاتی پہلو (quantitative aspect) کو چیزوں کے کیفیاتی پہلو (qualititative aspect) سے جدا کردیا۔ اِس طرح اس نے سائنس کی تحقیقات کو صرف اُن چیزوں تک محدود کردیا جو ناپی اور تولی جاسکتی تھیں، دوسری چیزیں اپنی تمام اہمیت کے باوجود سائنسی تحقیق کا موضوع نہ رہیں، اِس کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ انسان کے لیے غیر اہم قرار پاگئیں، کیوں کہ موجودہ زمانے میں فکری اعتبار سے سائنس کا غلبہ ہے۔ آج کا انسان اُنھیں چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، جو سائنس کے اعتبار سے اہم قرار پائیں۔اِس مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر الیکسس کیرل (وفات: (1944 نے اپنی کتاب: انسانِ نامعلوم (Man the Unknown, 1935) میں لکھا ہے:
’’یہ غلطی جو ہماری تمام مصیبتوں کی ذمے دار ہے، گلیلیو کے تولیدی نظریہ (genial idea) کی ایک غلط تعبیر کا نتیجہ ہے۔ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو اَبعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، اُن ثانوی صفات سے الگ کردیا، جو شکل، بُو اور رنگ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیںاور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ کمّیت کو کیفیت سے جدا کردیاگیاہے۔ اِس غلطی سے غیر معمولی نتائج پیدا ہوئے۔ انسان کے اندر وہ چیزیں، جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی، اُن چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ مثلاً فکر اور خیال کاوجود اتنا ہی اہم ہے، جتنا خوں ناب (blood serum) کے طبیعی کیمیاوی توازن کا وجود اہم ہے۔ کمّی اور کیفی اشیا کے درمیان یہ فرق اور وسیع ہوگیا، جب ڈیکارٹ نے جسم اور روح کے درمیان فرق کرنا شروع کیا۔ اِس کے بعد سے دماغ کے مظاہر ناقابلِ تشریح بن گئے۔ مادّی اشیا کو روحانی اشیا سے بالکل الگ کردیاگیا‘‘ (Religion and Science, p.
انسانی فکر میں اِس تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق ختم ہوگیا، یا صرف رسمی طورپر باقی رہا۔انسان دنیا میں اِس طرح رہنے لگا، جیسے کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں، وہ اپنی قسم کا مالک آپ ہے، اُس کو یہ حق ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اِسی سے ہیومن ازم (Humanism) کا فلسفہ پیدا ہوا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ— خدا کی سیٹ پر اب خود انسان کو قبضہ حاصل ہوگیا ۔ چناں چہ ہیومن ازم کے نظریے کو اِن الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے:
Transfer of seat from God to man.
انسان جب اپنے آپ کو خدا کی نسبت سے دیکھے تو اس کے اندر اللہ اکبر کی نفسیات پیدا ہوتی ہے، یعنی ہر قسم کی بڑائی صرف خدا کے لیے ہے۔ میں اُس کے مقابلے میں صرف ایک عاجز مخلوق کی حیثیت رکھتا ہوں۔ ایسا انسان خدا کو کبیر مان کر، اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں صغیر بنا لیتا ہے۔ اِس سے انسان کے اندر تواضع (modesty) کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عجز اور تواضع کا احساس ہی تمام اعلیٰ اخلاقی اقدار کا سر چشمہ ہے۔
اِس کے برعکس معاملہ اُس انسان کا ہے جو خدا کو حذف کرکے سوچے۔ ایسے انسان کے پاس تقابل کے لیے صرف دوسرے انسان ہوتے ہیں۔ فطری طور پر اس کے اندر یہ احساس ابھرتا ہے کہ کوئی مجھ سے بڑا نہیں، دوسرے جو لوگ ہیں، وہ یا تو میرے برابر ہیں، یا مجھ سے چھوٹے ہیں۔ ہر آدمی کے اندر کوئی نہ کوئی خاص صفت ہوتی ہے، اِس لیے ہر آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے۔ وہ اِس کی ضرورت نہ سمجھے کہ اُس کو کسی کے آگے جھکنا چاہیے۔ اِس قسم کا احساس بلا شبہہ تمام اخلاقی اقدار کی نفی کے ہم معنیٰ ہے۔
مثال کے طورپر برطانیہ کا مدبّر لارڈ کَرزن (وفات:1925 ) غیر معمولی ذہین آدمی تھا۔ اس کا مطالعہ بھی کافی وسیع تھا۔ چناں چہ جب وہ لوگوں سے ملتا تو اس کو محسوس ہوتا کہ دوسرے لوگ اُس سے کم ہیں۔ اس کے اندر اپنے بارے میں برتری کا احساس پیدا ہوگیا۔ لارڈکرزن کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے کہ — اُس کے معاصرین میں کوئی اس کے برابر کا نہ تھا:
He had no equal
اِس احساسِ برتری کی بنا پر لارڈ کرزن کا پورا رویّہ غیر متوازن بن گیا۔ وہ دوسرے تمام لوگوں کے لیے منفی احساس میں جینے لگا، یہاں تک کہ سخت مایوسی کے عالم میں وہ مرگیا۔ یہی کم وبیش اُن تمام انسانوں کا حال ہوتا ہے جو خدا کو حذف کرکے اپنا فکر بنائیں۔ جن کی اخلاقیات کا سرچشمہ خدا نہ ہو، وہ اپنے آپ میں جئیں گے اور اپنے آپ ہی میں مرجائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
آل انڈیا ریڈیو پر ایک سینئر پروفیسر کی تقریر تھی۔ اپنی تقریر میں وہ بتارہے تھے کہ قدیم زمانے میں صرف چند جاب (job) ہوا کرتے تھے)۔ موجودہ زمانہ جاب ایکسپلوژن(job explosion) کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر طرف جاب کی کثرت ہے، لیکن یہ جاب صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں، غیر ماہرین کے لیے موجودہ دنیا میں کوئی بڑا جاب نہیں۔ یہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا:
Our world is a world of skilled man power.
اصل یہ ہے کہ جدید سائنسی دور سے پہلے چیزوں کی معیار بندی (standardization) نہیںہوئی تھی، اِس لیے ہر قسم کے لوگوں کو آسانی سے روزگار مل جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں ہر شعبے میں معیار بندی کا عمل ہوا ہے۔ اب اُسی چیز کی قیمت ہے جو تسلیم شدہ معیار کے مطابق ہو، جو چیز تسلیم شدہ معیار کے مطابق نہ ہو، آج کی دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔
معیار بندی کا یہ معاملہ ہر چیز میں ہوا ہے۔ قلم سے لے کر موٹر کار تک، ٹیچنگ سے لے کر مینج مینٹ تک، ایک بلڈنگ کی تعمیر سے لے کر سٹی پلاننگ تک، ہر چیز کا ایک تسلیم شدہ معیار بن گیا ہے۔ ہر چیز کو اِسی معیار پر جانچا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ اُسی آدمی کو روزگار ملے جو اِس معیاری کارکردگی پر پورا اترتا ہو۔
ایسی دنیا میں جو آدمی اپنے لیے روزگار حاصل کرنا چاہے، اُس کو جاننا چاہیے کہ یہاں معیاری کارکردگی کا ثبوت دے کر اس کو روزگار ملے گا، نہ کہ شکایت اور احتجاج میں غیر ضروری طورپر مشغول ہونے سے۔مہارت کی اہمیت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مقابلہ (competition ) بہت زیاہ بڑھ گیا ہے۔ اِس بنا پر موجودہ زمانے میں مہارت کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ ہوگئی ہے— کسی فن میں مہارت پیدا کرلیجیے، اور آپ خود دنیا کی ایک ضرورت بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ دنیا میں ہر انسان کو کسی نہ کسی قسم کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔نقصان کا یہ تجربہ ایک تلخ یاد بن کر اس کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ عام طورپر پیش آتا ہے۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ ایک اردو شاعر نے کہا:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یہ نقصان کے مسئلے کا ایک منفی حل (negative solution) ہے، اور منفی حل صرف دل کی تسکین کے لیے ہوتا ہے، وہ اصل مسئلے کا حقیقی حل نہیں ہوتا۔ اِس مسئلے کا ایک حل جارج برناڈ شا (وفات: 1950 ) نے بتایا ہے۔ اُس نے کہا کہ — سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان وہ ہے جس کے پاس بھلا دینے کے لیے کچھ نہ ہو:
The most uneducated person is one who has nothing to forget in his life.
نقصان، زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہ مختلف صورتوں میں ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اِس مسئلے کا بے ضرر حل صرف یہ ہے کہ اُس کوبھلا دیا جائے۔ فراموشی اِس مسئلے کا سیکولر حل ہے۔ اِس کا مذہبی حل یہ ہے کہ اِس قسم کے تجربات کو خدا کے خانے میں ڈال دیا جائے۔
مزید یہ کہ اِس دنیا میں ہر چیز کا ایک مثبت پہلو ہوتا ہے۔ نقصان کے تجربے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کے سوئے ہوئے ذہن کو جگاتا ہے۔ وہ آدمی کی سوچنے کی صلاحیت میںاضافہ کرتا ہے۔ وہ آدمی کو نئے نئے تجربات سے آشنا کرکے اس کے ذہنی اُفق (intellectual level) کو وسیع کرتا ہے۔ تلخ تجربہ ایک شاکنگ تجربہ (shocking experience)بن جائے، جب کہ بے حسی کسی انسان کے لیے نفسیاتی موت(psychological death) کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کی مختلف یونی ورسٹیوں میں اِس موضوع پر رسرچ ہوئی ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ، کیا کم عمر کے لوگوں سے زیادہ دانش مند (wise)ہوتے ہیں۔ اِن تحقیقات کے نتائج ایک کتاب کی صورت میں چھپے ہیں۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Progress in Brain Research (2008).
اِس کتاب کے بارے میں ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ
Older brain really may be a wiser brain (p.
آج کل ہر چیز کو رسرچ کا موضوع بنایا جاتا ہے، لیکن مذکورہ حقیقت انسان کو بہت پہلے سے معلوم تھی۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ کم عمر والوں کے مقابلے میں، زیادہ عمر کے لوگ زیادہ عاقل اور دانا (wise) ہوتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ زیادہ عمر والوں کے پاس دو چیزیں مزید ہوتی ہیں۔ ایک، پختگی (maturity) ، ا ور دوسرے، تجربہ (experience)۔
فطرت میں یہ نظام اِس لیے ہے، تاکہ اگلی نسل کے لوگ، پچھلی نسل والوں سے فائدہ اٹھائیں۔ کم عمر کے لوگ زیادہ عمر والوں سے رہ نمائی لیتے رہیں، تاکہ مجموعی اعتبار سے زندگی کا سفر زیادہ بہتر طورپر جاری رہے۔ کم عمر والوں اور زیادہ عمر والوں کے درمیان جو فرق ہوتا ہے، وہی فرق آج بھی موجود ہے۔ یہ فرق فطرت پر مبنی ہے، اور فطرت زمانے کی رفتار سے نہیں بدلتی۔ موجودہ زمانے کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں سے اُسی طرح فائدہ اٹھائیں، جس طرح پچھلے زمانے کے لوگ فائدہ اٹھاتے تھے۔اگلی نسل کے لوگ اگر پچھلی نسل کے لوگوں سے فائدہ نہ اٹھائیں، تو یہ ان کے لیے فطرت کے نظام سے بغاوت کے ہم معنیٰ ہوگا، اور اِس دنیا میں کوئی بھی شخص فطرت کے نظام سے بغاوت کرکے کامیاب نہیںہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
ہر زبان میں مثلیں (sayings)اور کہاوتیں ہوتی ہیں۔ یہ کہاوتیں انسانی زندگی کا تجربہ ہوتی ہیں۔ ہر مثل لمبے انسانی تجربے کے بعد بنتی ہے۔ اِسی قسم کی ایک انگریزی مثل یہ ہے— یہ اتنا زیادہ اچھا ہے کہ وہ سچ نہیں ہوسکتا:
It is too good to be true.
یہ ایک حقیقت ہے کہ سچ کے مقابلے میں، جھوٹ ہمیشہ خوش نما ہوتا ہے۔ حقیقی نفع کے مقابلے میں، فرضی نفع ہمیشہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ مخلصانہ بات کے مقابلے میں ، منافقانہ بات ہمیشہ خوب صورت ہوتی ہے۔ نصیحت کے مقابلے میں، خوش کرنے والی بات سننے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقی تاریخ کے مقابلے میں، فرضی قصہ کہانیاں زیادہ دل چسپ ہوتی ہیں۔ حقیقت پسندانہ کلام کے مقابلے میں، رومانوی کلام ہمیشہ زیادہ دل کش نظر آتا ہے۔ کار آمد بات کے مقابلے میں، بے فائدہ بات آدمی کو زیادہ پرکشش معلوم ہوتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی ہر وقت امتحان کی حالت میں ہے۔ ہر وقت اس کو چوکنا بن کر رہنا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹ کے فریب میں پھنس کر، سچائی سے دور ہوجائے۔ وہ ہوائی باتوں سے مسحور ہو کر، حقیقت پسندی کے راستے سے ہٹ جائے۔ وہ منافقانہ باتوں کے فریب میںآکر، مخلصانہ بات کو قبول نہ کرسکے۔
اِس دنیا میں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ آدمی سونے کے ملمّع کو سونا سمجھ کر لے لے اور پھر وہ سخت نقصان میں پھنس جائے۔ وہ جھوٹے الفاظ کے فریب میںآکر ایسی چھلانگ لگا دے، جو اس کوایسے گڑھے میںگرادے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے لیے نہ ہو۔
اِس دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خوش نما باتوں سے متاثر نہ ہو، وہ ٹھوس حقائق کی روشنی میں اپنی رائے بنائے۔ دانش مند صرف وہ شخص ہے جو اِس معیار پر پورا اترے۔
واپس اوپر جائیں
برادرِ محترم مولانا سیدنور ابراہیم! السلام علیکم ورحمۃاللہ
آپ کا خط مؤرخہ 2 جون 2008 ملا۔ اِس کو میں نے دوبار پڑھا۔ میں آپ کو مرتد نہیں سمجھتا۔ زیادہ صحیح لفظوں میں، آپ عقلی (rationalist) ہیں، یعنی: معتقد بکفایۃ العقل دُون الوحی۔آپ کے متعلق، میری رائے یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عقل کا ایک تصور بنا ہے اور اس کی بنیاد پر آپ نے ایک رائے قائم کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی اورنقطۂ نظر آپ کے سامنے آئے جو عقل کے معیار پر پورا اترتاہو توآپ اپنے موجودہ موقف سے رجوع کرلیں گے، جیسا کہ آپ نے اپنے پچھلے روایتی موقف سے رجوع کرلیا۔میںنے اِس موضوع پر بہت پڑھا ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ عقل کو مطلق معیار کی حیثیت دیتے ہیں، وہ سب کے سب ثانوی درجے کے مفکرین ہیں۔ اول درجے کے فلاسفہ اور مفکرین میں سے کوئی بھی نہیں جو عقل کو مطلق معیار کی حیثیت دیتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عقلی مفکرین اصلاً مُشکک(sceptic) تھے، نہ کہ مُنکر یا مرتد۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے جدید فلاسفہ اور مفکرین کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ آپ نے صرف رَجنیش (Osho) کو پڑھا ہے۔ اور رجنیش (وفات: 1999)کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ فلسفی تھے اور نہ سائنٹسٹ، وہ صرف ایک خطیب تھے۔ خطابت کا فن ان کو آتا تھا۔ رجنیش سے صرف وہی لوگ متاثر ہوئے ہیں جو خطیبانہ استدلال اور سائنٹفک استدلال کا فرق نہیں جانتے۔ اور غالباً آپ کا کیس اِس معاملے میں استثنا (exception) کا نہیں۔خالص عقلی اعتبار سے اس معاملے میں اصل بات یہ ہے کہ سائنس نے صرف یہ معلوم کیا ہے کہ اکثرواقعات میں کسی سبب کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ مگر کوئی سائنس یا کوئی عقلی سسٹم اب تک یہ معلوم نہ کرسکا کہ کوئی سبب مؤثر کیوں ہوتا ہے۔ مثلاً سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ ہائڈروجن کے دوایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے ملنے سے پانی وجود میں آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی سائنس یا کوئی بھی عقلی سسٹم اب تک یہ نہ بتا سکا کہ سبب میں یہ تاثیر کیسے پیدا ہوگئی۔
سائنس نے سبب اور نتیجے کو تو معلوم کیا ہے، لیکن یہ سبب کیوں مؤثر ہوتا ہے، اُس کو سائنس دریافت نہ کر سکی۔ گویا کہ سبب اور نتیجے کے درمیان ایک مِسنگ لنک (missing link) ہے جو ابھی تک غیر معلوم ہے۔ فلسفیوں نے اِس مسنگ لنک کو دریافت کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ناکام رہے۔
خالص عقلی اعتبار سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کسی سبب اور اس کے نتیجے کے درمیان کوئی حقیقی لازمہ نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اشیا کا اسباب کے ذریعہ وجود میں آنا جتنا ممکن ہے، اتنا ہی ممکن یہ بھی ہے کہ اشیا کسی ظاہری سبب کے بغیر وجود میںآجائیں۔ یہی اِس معاملے میں صحیح ترین عقلی موقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص لا ادریّہ(agnostic) تو بن سکتا ہے، لیکن عقلی (rationalist) ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے، وہ اس کے سوا کوئی اور موقف اختیار نہیں کرسکتا۔ اگر آپ اِس معاملے میں سنجیدہ ہوں تو میں عرض کروں گا کہ آپ مندرجہ ذیل دو کتابیںضرور پڑھ لیں:
1. Human Knowledge, by Bertrand Russel.
2. Appearance and Reality, by Francis Herbert Bradeley.
آپ کے خط کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ظاہری سبب کے بغیر کسی چیز کے وقوع کو نہیں مانتے۔ لیکن اگر آپ رجنیش کے علاوہ ،دوسرے بڑے فلاسفہ اور مفکرین کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خالص عقلی اعتبار سے کسی واقعے کا غیر معجزاتی طورپر وجود میں آنا بھی اتنا ہی عجیب ہے، جتنا کہ ان کا معجزاتی طورپر وجود میں آنا۔ اس لیے اِس معاملے میں صحیح عقلی موقف یہ ہے کہ آدمی اگر ایک ناقابلِ توجیہہ واقعے کو مانتا ہے، تو اُس کو دوسرے ناقابلِ توجیہہ واقعے کو بھی ضرور مان لینا چاہیے۔
آپ نے لکھا ہے کہ اوشو کی کتابوں سے آپ کا ذہن بدل گیا۔ میں نے بھی رجنیش کی کتابیں پڑھی ہیں۔ میںنے پایا کہ رجنیش کے یہاں ’شَبدجنجال‘ کے سوا اور کچھ نہیں۔ عام لوگ چوں کہ خطیبانہ استدلال اور سائنسی استدلال کے فرق کو نہیں جانتے، اس لیے وہ ان کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ مگر جس آدمی کے اندر علمی تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہو، وہ اُن سے متاثر نہیں ہوسکتا۔ آپ نے اپنے خط میں رجنیش کے کسی استدلال کا ذکر نہیں کیا ہے، ورنہ میں اس کا تجزیہ کرکے بتاتا کہ ان کا استدلال کتنا بے اصل ہوتا ہے۔
نئی دہلی، 5جون 2008 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں
سوال
آج کل مسلمانوں کے درمیان ایک نیا ظاہرہ دیکھنے میںآرہا ہے۔ وہ یہ کہ مسلم رہ نما اور مسلم لیڈر بڑے پیمانے پر امن کی باتیں کررہے ہیں۔ وہ جگہ جگہ دہشت گردی مخالف کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں، اور میڈیا میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے، دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ اِس معاملے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ کیا آپ اِس کو کوئی صحت مند ظاہرہ سمجھتے ہیں (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)۔
جواب
یہ صحیح ہے کہ آج کل دہشت گردی (terrorism) کے خلاف لکھنے اور بولنے کا فیشن ہوگیا ہے۔ اِس موضوع پر مختلف مقامات پر سیمنار اور کانفرنسیں ہوررہی ہیں، انڈیا کے اندر بھی اور انڈیا کے باہر بھی۔ اِسی قسم کی ایک بڑی کانفرنس 30مئی 2008 کو نئی دہلی میں ہوئی۔ میڈیا میں اس کو کافی کور (cover) کیا گیا ۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (یکم جون 2008 )میں اِس کانفرنس کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے:
Fatwa Against Terrorism
دہشت گردی کے خلاف اِس زمانے میں تقریر و تحریر کی جو دھوم ہے، وہ میرے نزدیک سر تاسر بے فائدہ ہے۔ اِس لیے کہ یہ تمام لوگ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف بے تکان بولتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ دہشت گردی ہے کیا۔ اِن میں سے کسی نے آج تک دہشت گردی کی تعریف (definition) نہیں دی۔ایسی حالت میں ان کی ساری چیخ وپکار بے معنی ہے۔ اِس لیے کہ وہ لوگ جو مختلف مقامات پر تشدد اور خود کش بم باری (suicide bombing) کررہے ہیں، وہ خود اپنے آپ کو دہشت گرد نہیں کہتے، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ — ہم آزادیٔ وطن کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ہم انسانی حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ہم انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں، وغیرہ۔ اِس لیے وہ یہ سمجھتے ہیںکہ دہشت گردوں کے خلاف جو کچھ کہاجارہا ہے، وہ ان کے اوپر منطبق (apply) نہیں ہوتا۔
پوری دنیا میں، میں واحد شخص ہوں جس نے بتایا کہ دہشت گردی(terrorism) کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) کا ہتھیار اٹھانا، یہی دہشت گردی ہے۔ اسلامی شریعت کے اصول کی روشنی میں دہشت گردی کی تعریف (definition) یہ ہے — حکومت کے علاوہ کسی غیرحکومتی تنظیم کا ہتھیار اٹھانا:
Use of arms by agencies, other than state.
غیر حکومتی افراد، یا تنظیموں کو صرف پُر امن جدوجہد کا حق ہے، مسلّح جدوجہد کا اُن کو حق نہیں۔
اِس قسم کے مقررین اور محررین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پُرجوش طورپر یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں، مگر یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ اِس معاملے میں لوگوں کا کہنا یہ نہیں ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کچھ مسلمان، اسلام کے نام پر وہ متشددانہ فعل کررہے ہیں جس کو موجودہ زمانے میں دہشت گردی کہاجاتا ہے۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل کام یہ ہے کہ اِس قسم کے مسلمانوں کو کنڈم (condemn) کیاجائے۔ کھلے طورپر یہ بتایا جائے کہ یہ لوگ اپنے متشددانہ عمل کے لیے غلط طورپر اسلام کا نام لے رہے ہیں۔ اِس معاملے میںاصل کام، اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے، نہ کہ مسلمانوں کے بارے میں خاموش رہ کر یہ کہاجائے کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں۔ موجودہ صورت میں اِس قسم کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں۔
اگر کوئی ناخوش گوار صورتِ حال پائی جائے، تو ایسے وقت میں عمل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، پُرامن جدوجہد اور دوسرے، مسلّح جدوجہد۔ اسلامی شریعت کے مطابق، مسلح جدوجہد کا حق صرف قائم شدہ حکومت کو ہے، اور وہ بھی اُس وقت ہے، جب کہ کسی طاقت نے اُس پر حملہ کردیا ہو۔ جہاں تک غیر حکومتی عوام کی بات ہے، ان کے لیے ہتھیار اٹھانا کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ عوام کے لیے صرف پُر امن جدوجہد ہے، نہ کہ مسلح جدوجہد۔
سوال
ہمارے یہاں تبلیغی جماعت کے بعض حضرات ہر کسی پر یہ فتویٰ لگاتے رہـتے ہیں کہ اُس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ اِس طرح کے معاملات میں اسلام کا کیا حکم ہے (معاذالدین، بھاگل پور)۔
جواب
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ ایک عام مزاج ہے کہ وہ مسجد کے امام پر ایک شخصی الزام لگائیں گے اور پھر یہ تحریک چلائیں گے کہ اس کے پیچھے نماز جائز نہیں، اِس لیے اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا امام مقرر کیا جائے۔ اِس قسم کی تحریک بلاشبہہ ایک گناہ کا کام ہے۔ یہ اسلام کے نام پر غیر اسلام کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ حدیث میں اِس قسم کے عمل کو صراحت کے ساتھ منع کیاگیا ہے۔
سنن ابی داؤد میں ایک حدیث ِ رسول اِن الفاظ میںآئی ہے: الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃٌ خَلْف کلّ مسلم، بَرًّا کان أو فاجراً وإن عمل الکبائر (باب إمامۃ البَرّ والفاجر)یعنی فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد، خواہ اس سے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوا ہو۔
اِس حدیثِ رسول کا خطاب اصلاً امام کی طرف نہیں ہے، بلکہ مقتدی کی طرف ہے۔ اِس کا مطب یہ ہے کہ کوئی مقتدی اگر یہ سمجھتا ہوکہ امام کے اندر فلاں فلاں خرابی پائی جاتی ہے، تو اِس کے باوجود اس کو امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے۔ کیوں کہ ہر آدمی خود اپنی نماز پڑھتا ہے، نہ کہ امام کی نماز۔ مسجد میںامام کا تقرر صرف تنظیمِ جماعت کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ صحتِ نماز کے لیے۔ جہاںتک صحتِ نماز کا معاملہ ہے، اس کا تعلق ہر آدمی کی اپنی نیت سے ہے۔ اِس معاملے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ مسجد میں ہر وہ فعل قابلِ ترک ہے جو مسجد کے عبادتی ماحول کو بگاڑے۔ کوئی بھی ایسا فعل جس سے مسجد کا عبادتی ماحول بگڑے، وہ شریعت کے نزدیک فتنہ ہے، اور فتنہ کسی بھی عذر کی بنا پر جائز نہیں۔
بالفرض اگر کسی امام کے اندر کوئی برائی پائی جاتی ہو، تو مقتدی کی ذمے داری صرف یہ ہے کہ وہ اس کے حق میں دعا کرے۔ اور اگر وہ دعا سے زیادہ کرنا چاہتا ہے، تو وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ تنہائی میںامام سے ملے اورخیر خواہی اور دل سوزی کے ساتھ اس کو سمجھانے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں
1 - الرسالہ مشن ملک اور بیرونِ ملک میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ مسلسل طور پر پھیل رہا ہے۔ خاص طور پر گذشتہ سالوں میں، الرسالہ کی ریڈر شپ (readership) میںحیرت ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ الرسالہ سے وابستہ افراد پورے گلوب پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے متعلقین، احباب، با ذوق افراد، اہلِ علم، سربرآوردہ شخصیات، علمی اداروں اور مساجد اور مدارس کے نام مسلسل طورپر اپنی طرف سے الرسالہ اور مطبوعاتِ الرسالہ کا خصوصی تحفہ پیش کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک دل چسپ خبر یہ ہے کہ جون 2008 میں الرسالہ مشن سے وابستہ حیدرآباد (دکن) کے ایک صاحبِ خیر ساتھی نے اپنی طرف سے ایک ہزار افراد کے نام الرسالہ جاری کرایا ہے۔
2 - مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے شمالی یورپ کے مشہور ملک سویڈین (Sweden) میں کافی عرصے سے الرسالہ مشن پھیل رہا تھا۔ گذشتہ کئی سال سے سویڈن کے دارالسلطنت، اسٹاک ہوم(Stockholm) میںالرسالہ کی ایجنسی بھی قائم ہے۔ جون 2008 میں مسٹر اخلاق حسین انصاری نے شہر کے مرکزی مقام پر الرسالہ کی مطبوعات پر مشتمل ایک لائبری بھی قائم کردی ہے۔ اِس لائبریری سے لوگ بڑی تعداد میں استفادہ کررہے ہیں۔
3 - الرسالہ مشن سے وابستہ ایک صاحب ِ خیر جو ویسٹ انڈیز (West Indies) میں مقیم ہیں، جون 2008 میں انھوں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کے ہندی ترجمۂ قرآن کی تین ہزار سے زیادہ کاپیاں انڈیا میں غیر مسلم حضرات کے درمیان مفت تقسیم کرائی ہیں۔
4 - برادر محترم مولانا محمد ذکوان ندوی السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الحمد للہ طالبِ عافیت بعافیت ہے۔ دہلی، جے پور، اندور کے سفرسے واپسی کے بعد دعوہ لائبریری کے لیے عنایت کردہ کتابیں دستیاب ہوئیں۔ تذکیر القرآن کا درس بروز اتوار بعد نماز عصر شروع کردیاگیا ہے۔ جس میں اسکول کے استاتذہ، طلباء اور گاؤں کے دیگر افراد شرکت کررہے ہیں۔ سی پی ایس کے پمفلٹس مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کرنے کا عمل جاری ہے۔ جس سے نئی جنریشن اسلام کو عصری اسلوب میں سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ الرسالہ اور دیگر کتابیں لائبریری سے لے کر لوگ پڑھ رہے ہیں۔ حضرت مولانا وحید الدین خاں اور سی پی ایس کے ارکان کا صدہا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے انتہائی مصروفیات کے باوجود مجھ سے ملاقات کی، اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا اور لائبریری کے لیے کتابیں فراہم کیں جس کے لیے ایک بار پھر شکریہ ادا کررہا ہوں۔ جزاک اللّٰہ خیراً کثیراً (قاری محمد جابر سراجی، جامعہ محمدیہ (الاقصیٰ لائبریری)گونڈہ، یوپی،
5 - عالی جناب محترم المقام مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ
غالباً تین سال قبل ناگ پور میں جناب عبد السلام اکبانی کی رہائش گاہ پر آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ میںنے ہندی روزنامہ ’’نوبھارت‘‘ کے لیے آپ کا انٹرویو بھی لیا تھا۔ آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوں۔ ’’الرسالہ‘‘ کے ذریعہ آپ اصلاح اور دعوت کا جو کام انجام دے رہے ہیں، اس کی مثال کہیں نہیں ملے گی۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم وحکمت اور دانش وفراست سے خوب نوازا ہے۔ ’’الرسالہ‘‘ میں بیس پچیس سطروں میں آپ وہ بات کہہ دیتے ہیں جو سوصفحات کی کتابوں میںبھی نظر نہیں آتی۔بین الاقوامی وملکی حالات پر نظر، اسلامی اور اسلام مخالف سرگرمیوں کا جائزہ، تاریخ، ادب ،فنونِ لطیفہ ہر ایک کی معلومات اور روز مرّہ کے حالات سے واقفیت، یہ سب کچھ ایک واحد شخص کے پاس ہونا، کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔ آپ کے وجود سے مسلمانوں کو بڑی ہمّت اور حوصلہ ہے۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔ اہلِ ناگ پور آپ کی آمد کے منتظر ہیں (نثار اختر انصاری (جنرلسٹ)، ناگپور، 8 جون 2008 )۔
6-
Al Risala Forum international (USA) brings to you both audio and text format of Al Risala Urdu Monthly published from the Islamic Centre, New Delhi- India. The Magazine carries very thought provoking articles authored by the Islamic scholar and thinker Maulana Wahiduddin Khan, the preseident of the Islamic Centre, New Delhi. The purpose of the audio format of Al Risala is to provide opportunity to those people who have little or no time to read. Such people can download the Audio Al Risala and burn a CD and listen while driving or otherwise.
Khaja Kaleemuddin (Al Risala Forum International (USA)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.