جدید الحاد— ایک تجزیہ
فکری اعتبار سے انسان کی تاریخ کو دو بڑے دوروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے— قبل سائنس دور، اور بعد سائنس دور۔قبل سائنس دور میں فکری اعتبارسے، مذہب انسان کے لیے رُجحان ساز بنا ہوا تھا۔ماڈرن سائنس کے ظہور کے بعد یہ صورت حال بد ل گئی۔ اب سائنس کو عمومی طورپر رجحان ساز (trendsetter) کا درجہ حاصل ہوگیا۔ سائنس بذاتِ خود نہ مذہب کے موافق ہے اور نہ مذہب کے خلاف، لیکن بعض وجوہ سے اس کا یہ عملی نتیجہ نکلا کہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام فکری معاملات میں الحادی نظریہ غالب آگیا۔ ایسا کیوں کر ہوا، یہاں اس کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ سیارۂ ارض پر انسان ہزاروں سال سے رہ رہا ہے۔ وہ روزانہ بہت سی چیزوں کو ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مثلاً سورج کا نکلنا، بارش کا برسنا اور ہواؤں کا چلنا، وغیرہ۔ روایتی طورپر انسان یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کے لیے ایک مسلّمہ یا ایک بدیہی صداقت (axiom) بن چکا تھا۔ مؤحّد انسان اور مشرک انسان، دونوں کسی نہ کسی طورپر اس کو بطور ایک مسلّمہ حقیقت کے مانتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق (مُسبِّب) اور نتیجے کے درمیان کسی سبب (cause) کا تصور فکری یا عملی طور پر موجود نہ تھا۔
جدید سائنس کے ظہور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہر نتیجے سے پہلے بظاہر اس کا ایک مادّی سبب (material cause) موجود ہے۔ مثال کے طور پر جدید سائنس کا بانی سرآئزاک نیوٹن (وفات: 1727ء) اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے سیب کا ایک درخت تھا۔ درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر نیچے گرا۔ نیوٹن سوچنے لگا کہ پھل درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں آیا، وہ اوپر کی طرف کیوں نہیں چلا گیا۔ آخر کار اُس نے دریافت کیا کہ ہماری زمین میں قوتِ کشش (gravitational pull) ہے، اِس بنا پر ایسا ہوتاہے کہ چیزیں اورپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں، وہ نیچے سے اوپر کی طرف نہیں جاتیں۔
یہ سائنسی مطالعہ بڑھا، یہاں تک کہ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ اِس دنیا میں جو واقعات ہوتے ہیں، اُن سب کے پیچھے ہمیشہ ایک سبب (cause) موجود رہتا ہے، ہر نتیجہ کسی سبب کے تحت ظہورمیں آتا ہے۔ سائنس دانوں نے اپنی اِس دریافت کو قانونِ تعلیل (principle of causation) کا نام دیا۔ واقعات کو مبنی بَراسباب سمجھنے کا یہ ذہن پھیلتا رہا، یہاں تک کہ وہ انسان کی تمام علمی اور فکری سرگرمیوں پر چھا گیا۔ واقعات کی توجیہہ کے لیے پہلے، خدا کا حوالہ دیا جاتا تھا، اب واقعات کی توجیہہ کے لیے خدا کے بجائے، سبب (cause) کا حوالہ دیا جانے لگا۔
سائنس کی یہ دریافت ابتدائی طوپر اپنے اندر صرف ایک طبیعی مفہوم رکھتی تھی۔ خدا کے حوالے سے واقعات کی توجیہہ نہ کرنے کے باوجود وہ خدا سے انکار کے ہم معنی نہ تھی۔ مگر ملحد مفکرین نے، نہ کہ سائنس دانوں نے، نظریاتی ہائی جیک(hijack) کے ذریعے اس کو خدا سے انکار کے ہم معنیٰ بنا دیا۔ یہیں سے وہ نظریہ شروع ہوا جس کو جدید الحاد (modern atheism) کہاجاتا ہے۔
سائنس کی اِس دریافت کو لے کر جدید ملحدین نے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب ہمیں واقعات کی توجیہہ کے لیے خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ واقعات اگر طبیعی اسباب کا نتیجہ ہیں، تو وہ مافوق الطبیعی اسباب کا نتیجہ نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
جیسا کہ آئندہ ہم واضح کریں گے کہ اِس استدلال میں واضح طورپر ناقابلِ حل منطقی خلا (logical gap) موجود تھا، اس کے باوجود جدید اہلِ علم کے درمیان اس کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کو خدا کا بدل سمجھا جانے لگا، یہاں تک کہ یہی طرزِ فکر تمام جدید علمی شعبوں میں چھا گیا۔ چند مثالوں سے اِس کی وضاحت ہوتی ہے۔
1 - اِن میں سے ایک ماڈرن میٹریل ازم (modern materialism) ہے۔ مٹیریل ازم ایک فلسفہ بھی ہے، اور ایک کلچر بھی۔ عملی طورپر دیکھیے تو میٹریل ازم کا خلاصہ یہ ہے کہ— اپنی آرزوؤں کی جنت کے حصول کے لیے اب اِس کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ اگلی دنیا (آخرت) برپا ہو اور وہاں خدا اپنی خصوصی عنایت کے طورپر ہمیں جنت عطا کرے۔ اب ہم کو وہ سبب معلوم ہوگیا ہے جس کے ذریعے اِسی دنیا میں جنت کی تعمیر ممکن ہے، یہ سبب جدید ٹکنالوجی ہے۔
چناں چہ جدید ٹکنالوجی اور جدید انڈسٹری کے ذریعے اِس جنتِ ارضی کی تعمیر کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ مادّیت (materialism) کے نام سے ایک پوری تہذیب ظہور میں آگئی۔ آج کا انسان، خدا سے غافل ہو کر اس تہذیبی جنت کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑا۔ جدید انداز کے مکانات اور جدید انداز کے شہر اور جدید انداز کا لائف اسٹائل ہر طرف وجود میں آنے لگا۔ تہذیبِ جدید کے تحت اِس مادّی جنت کی تعمیر ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ بعد کی تحقیقات نے خود اُس کی تعمیر ہی کو سرے سے ناممکن ثابت کردیا۔ طبیعیاتی سائنس نے مزید مطالعے کے بعد بتایا کہ ہماری دنیا میں ضابطۂ ناکارگی (law of entropy) نافذ ہے۔ اِس کے تحت، دنیا مسلسل طورپر خاتمے کی طرف جارہی ہے، اور ایک دن آئے گا جب کہ وہ مکمل طورپر ختم ہوجائے۔
اکیسویں صدی میں پہنچ کر اِس میں مزید اضافہ ہوا۔ اب معلوم ہوا کہ خاتمے کی یہ مدت بہت قریب آگئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ صرف پچاس سال کے اندر وہ تمام ذرائع اور وسائل بالکل تباہ ہوجائیں، جن کی مدد سے مفروضہ مادّی جنت تعمیر کی جارہی تھی۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہ عن قریب وہ اسباب ہی ختم ہوجائیں گے، جن کی بنیاد پر مادّی جنت کی تعمیر کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔
2 - اِس معاملے کی ایک مثال ڈارون ازم (Darwinism) ہے۔ پچھلے ہزاروں سال سے انسان یہ مانتا چلا آرہا تھا کہ انواعِ حیات، بہ شمول انسان، کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ یہ خداوندِ عالم ہے جو براہِ راست اپنی تخلیق کے ذریعے تمام انواعِ حیات کو وجود میں لاتا ہے۔ مگر چارلس ڈارون (وفات: 1802 ) نے مفروضہ طورپر یہاں بھی ایک ’’سبب‘‘ کو دریافت کرلیا، جو مختلف انواعِ حیات کووجود میں لانے کا ذمے دار تھا۔ یہ سبب، ڈارون کے الفاظ میں، نیچرل سلیکشن (natural selection) تھا، یعنی حیاتیاتی عمل کے دوران طبیعی اسباب کے تحت مختلف انواعِ حیات ظہور میں آتی چلی گئیں۔ گویا کہ انواعِ حیات، یا انسان کو وجود میں لانے والا عُنصر ایک مادّی سبب (material cause) ہے، نہ کہ غیر مادّی خدا۔
ڈارون کا دریافت کردہ یہ سبب (cause) کبھی بھی علمی اعتبار سے ثابت شدہ نہ تھا، وہ صرف ایک مفروضہ تھا۔ مزید یہ کہ خود علمائِ حیاتیات اِس کو ایک ثابت شدہ نظریے کے بجائے صرف ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) کا درجہ دیتے ہیں۔ حتی کہ خود چارلس ڈارون کو اپنے اِس دریافت کردہ مفروضہ پر آخری عمر میں شک پیدا ہوگیا تھا، چناں چہ وہ مایوسی کی حالت میں مرا۔
اِس واضح منطقی خامی کے باوجود، ڈارون کے نظریے کو جدید علمی حلقوں میں عمومی مقبولیت (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوگیا۔ حتی کہ آج بھی یہ غیر ثابت شدہ نظریہ تمام دنیا کی یونی ورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
3 - اِسی کی ایک مثال مارکس ازم (Marxism)بھی ہے۔ کارل مارکس (وفات: 1883 ) نے سماجی معاشیات(social economy) کے معاملے میں بھی اِسی مفروضہ اصول کو منطبق کیا۔ بطورخود اس نے اُس سبب (cause) کو دریافت کیا جس کے تحت، انسانی سماج کے اندر انقلابی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور سماج ایک خود کار مادّی عمل کے تحت، ایک حالت سے ترقی کرکے دوسری حالت تک پہنچ جاتا ہے۔
کارل مارکس نے اِس سبب کو تاریخی ناگزیریت (historical determinism) یا جَدلیاتی مادّیت (dialectical materialism) کا نام دیا۔ اُس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سماج کے اندر ناگزیر داخلی اسباب کے تحت، دو طبقے (classes) پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخی اسباب کے تحت، اِن طبقوں کے درمیان ٹکراؤ پیش آتا ہے، اِس کے بعد ایک طبقہ مٹ جاتا ہے اور دوسرا طبقہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اِس طرح داخلی اسباب کے تحت، انسانی سماج ترقی کرتا رہتا ہے۔
کارل مارکس اور اس کے ساتھیوں کا دریافت کردہ یہ سبب (cause) بھی صرف مفروضہ ثابت ہوا۔ مارکس کی پیشین گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے، وہ کبھی واقعہ نہ بن سکا۔ جیسا کہ معلوم ہے، سوویت روس میں 1917میں مصنوعی طورپر یہ انقلاب لایا گیا، مگر عملاً صرف یہ ہوا کہ یہ نظریہ سوویت روس میں پیدا ہوا، اور سوویت روس ہی کے قبرستان میں وہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب: ’’مارکس ازم — تاریخ جس کو رد کر چکی ہے‘‘)۔
4 - جدید کنزیومرازم (modern consumerism) بھی اسی نوعیت کی ایک مثال ہے۔ انسان کے اندر بے پناہ حد تک یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے لیے ہر قسم کی راحت اور آسائش کا سامان حاصل کرے۔ جدید صنعتی ترقیوں نے بظاہر اِس کو ممکن بنا دیا۔ گویا کہ جدید صنعت وہ سبب (cause) تھا جس کے نتیجے کے طورپر انسان کو ہر قسم کی استعمالی اشیا (consumer goods) حاصل ہوسکتی تھیں۔ چناں چہ لوگ ہر جگہ قائم ہونے والے شاپنگ سنٹروں پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن آخر میں معلوم ہوا کہ یہ ’’سبب‘‘بھی صرف ایک غلط مفروضہ تھا۔ سامانِ استعمال کی تیاری صرف اِس قیمت پر ہوئی کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے قابلِ استعمال ہی نہ رہی۔
مثال کے طورپر کاروں اور ہوائی جہازوں نے بظاہر سفر کو آسان کردیا، مگر اس کا ناقابلِ برداشت حد تک منفی نتیجہ کاربن ایمیشن (carbon emissions) اور گر ین ہاؤس گیس (green house gases) کی شکل میں نکلا، جس کا حل تلاش کرنے میں تمام سائنس داں عاجز ہورہے ہیں۔ ائر کنڈیشننگ کے سامانوں کی تیاری کا یہ بھیانک نتیجہ نکلا کہ زندگی بخش اوزون لیئر(Ozone layer) میں بہت بڑا سوراخ (hole) پیدا ہوگیا، جو خود انسانی زندگی کے لیے ایک ناقابلِ حل چیلنج بن گیا، وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ غیر مضر انداز میں استعمالی اشیا بنانے کے لیے پلوشن فری انڈسٹری (pollution free industry) درکار ہے، اور پلوشن فری انڈسٹری کو قائم کرنا سرے سے انسان کے بس ہی میں نہیں۔
5 - اِسی معاملے کی ایک مثال بدھ ازم میں پائی جاتی ہے۔ بدھ ازم کو موجودہ زمانے میں تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اِس مقبولیت کا راز بھی وہی چیز ہے، جس کو اوپر ہم نے قانونِ تعلیل (principle of causation) کے تحت بیان کیا ہے۔
جدید سائنس کے زیراثر موجودہ زمانے میں وہ ذہن بنا، جو ہر چیز کو سبب اور علّت (cause and effect) کی اصطلاح میں سمجھنے کی کوشش کرتاہے۔ بدھ ازم نے زندگی اور موت کے ظاہرہ کے بارے میں اِس اصول کو منطبق کیا۔ اگر چہ یہ انطباق تمام تر قیاسی تھا، لیکن بظاہر اسباب پر مبنی ہونے کی بنا پر وہ جدید مغربی ذہن کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہوگیا۔
موجودہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی غریب خاندا ن میں پیدا ہوتا ہے اور کوئی امیر خاندان میں، کوئی مصیبت میں جیتا ہے اور کوئی آرام میں۔ بدھ ازم نے مفروضہ طورپر اس کا ایک سبب دریافت کرلیا، وہ یہ کہ ہر آدمی اپنے پچھلے کرم (عمل) کے لازمی نتیجے کے طورپر اپنے عمل کے انجام کو بھگت رہا ہے۔ یہ توجیہہ چوں کہ بظاہر ’’سبب‘‘کے اصول پر مبنی تھی، اِس لیے وہ جدید ذہن کو پسند آگئی اور ان کے درمیان بہت زیادہ مقبول ہوگئی۔ گویا کہ یہاں بھی مادّی سبب نے غیر مادّی خدا کی جگہ لے لی۔
لیکن بدھ ازم کی یہ توجیہہ خود سائنسی تحقیق کے مطابق، سر تاسر غیر ثابت شدہ تھی۔ علمِ نفسیات کے شعبے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا حافظہ (memory) انسانی شخصیت کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنے پچھلے جنم کے اعمال کے مطابق، ایک خاص صورت میں نیا جنم لیتاہے تو اس کو اپنے پچھلے جنم کی ساری باتیں یاد رہنا چاہئیں۔ کیوں کہ یہ اُس کی پچھلی شخصیت (personality) ہی ہے، جو نئی شخصیت کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، کسی بھی انسان کو اپنے پچھلے جنم کا معاملہ یاد نہیں۔ بدھ ازم کے نظریے کے مطابق، ہر عورت اور مرد جس کو آج ہم دیکھتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو، وہ خود اپنے پچھلے جنم کا نیا جنم ہے، مگر اِن میں سے کسی کوبھی اپنے پچھلے جنم کی بات یادنہیں۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ہندو عورت یا کسی ہندو مرد کو پُر اسرار طورپر سامنے لایا جاتا ہے، جو اپنے پچھلے جنم کے احوال بتاتا ہے، مگر اِس قسم کا شعبدہ کوئی دلیل نہیں۔ کیوں کہ علمی اعتبار سے ایسا واقعہ صرف اُس وقت دلیل بن سکتا ہے، جب کہ تمام ہندوؤں اور غیر ہندوؤں کو اپنے پچھلے جنم کی بات یاد ہو، نہ کہ صرف چند پُراسرار افراد کو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گوتم بدھ نے جب سمادھی لگائی تھی تو انھو ںنے ماضی میں سفر کیا تھا، اور اپنے پچھلے تما جنموں کو دیکھ لیا تھا، مگر یہ دعویٰ تمام تر صرف ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق، اِس کا کوئی ثبوت نہیں کہ گوتم بدھ نے خود اپنی زبان سے ایسا کہا تھا۔ یہ صرف بعد کے شارحین ہیں، جنھوں نے اپنے قیاس اور استنباط کے ذریعے اِس قسم کی بات کہی ہے، اور بعد کے شارحین کا استنباط اِس معاملے میں ہر گز کوئی دلیل نہیں بن سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ تعلیل (principle of causation) اپنی ابتدا ہی میں صرف ایک مفروضے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ کوئی علمی دلیل نہ تھا۔ اس کی شہرت یا مقبولیت اس کے علمی وزن کی بنیاد پر نہیں ہوئی، بلکہ صرف جذباتیت کی بنیاد پر ہوئی۔ لوگوں نے جلد بازی میں ایک ایسے مفروضے کو حقیقت سمجھ لیا، جو اپنے آغازکے پہلے دن ہی صرف ایک مفروضہ تھا، نہ کہ کوئی واقعی حقیقت۔
جدید ملحدین کے اس استدلال میںواضح طورپر ایک بہت بڑا منطقی خلا تھا، وہ یہ کہ کسی واقعے کا جو سبب (cause) سائنس بتارہی ہے، وہ اپنے آپ میں کوئی آخری بات نہیں، اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہ سبب کیوں کر وقوع میں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سبب (cause) اصل معاملے کی توجیہہ نہیں کرتا، سبب خود اِس کا محتاج ہے کہ اُس کی کوئی توجیہہ تلاش کی جائے:
Cause does not explain, cause itself is in need of an explanation.
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ (God Arises)۔
واپس اوپر جائیں