مومن سے یہ مطلوب ہے کہ اس کو خدا سے اور خدا کے رسول سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہو۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خدا سے محبت کے درجے کا تعلق ہونا چاہیے (البقرۃ:
حبّ ِالٰہی سے مراد عشقِ الٰہی نہیں ہے۔ اِسی طرح محبت ِ رسول سے مراد عشقِ رسول نہیں ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا لفظ قرآن اور حدیث میں اجنبی ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا تصور بلا شبہہ ایک مُبتدعانہ تصور ہے، جو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ محبت کا تعلق شعوری معرفت سے ہے، جب کہ عشق صرف ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے۔ حقیقی محبت اعلیٰ معرفت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے، جب کہ عشق ایک ایسی مبہم کیفیت کا نام ہے جس کو صرف وجد (ecstasy) اور بے خودی جیسی پُراسرار حالت سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
محبت ِ الٰہی کا سرچشمہ یہ ہے کہ آدمی جب بے شمار خدائی انعامات کے بارے میں سوچتا ہے، تو فطری طور پر اس کے اندر اِن انعامات کے مُنعم کے بارے میں گہرا جذبۂ اعتراف پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں رسول سے محبت کا جذبہ اِس اعتبار سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول کے ذریعے ہم کو خدا کی ہدایت ملی۔ اِس کے بغیر ہم خدا کی ہدایت سے محروم رہتے۔
دونوں کے درمیان فرق کو اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ خدا سے محبت فوق الطبیعی جذبے کے تحت پیدا ہوتی ہے، اور رسول سے محبت طبیعی جذبے کے تحت۔ خدا سے محبت، ربّ العالمین سے محبت ہے، اور رسول سے محبت، رب العالمین کے فرستادہ سے محبت۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایؤمن أحدکم حتّٰی أکون أحبَّ إلیہ من والدہ وولدہ والنّاس أجمعین۔ ایک اور روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ ہے: مِن أہلہ ومالہ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب حبّ الرّسول) یعنی تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک اُس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میںاس کے لیے اس کے والد سے اور اس کی اولاد سے اور اس کے اہل سے اور اس کے مال اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
محبت ِ رسول کے بارے میں جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، اُن میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ غور ہے کہ اُن میں سے کسی روایت میںاِس قسم کے الفاظ نہیںآئے ہیں کہ تم رسول سے اُسی طرح محبت کرو، جس طرح تم خدا سے محبت کرتے ہو۔ اِس کے بجائے روایتوں میںاِس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ تمھارا ایمان باللہ اُس وقت مکمل ہوگا، جب کہ تم رسو ل سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرو جتنا کہ تم اپنے والد سے، اپنے اہل سے اور اپنے مال اور اولاد سے محبت کرتے ہو، یعنی اِن روایتوں میں خداکے برابر محبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اپنی محبوباتِ دنیا سے زیادہ، رسول سے محبت کا ذکر ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں محبتوں میں ایک نوعی فرق ہے۔ حبّ ِ الٰہی بہ معنیٰ تعظیم اور اِجلال مراد ہے، اور حبّ ِ رسول بہ معنی ترجیح اور تقابل مراد ہے۔ حبّ ِ الٰہی ایک مطلق نوعیت کی محبت ہے۔ اِس کے مقابلے میں حبّ ِ رسول کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہ مقابلہ محبوباتِ دنیا مراد ہے۔جو لوگ محبوباتِ دنیا سے اوپر نہ اٹھیں، وہ رسول کے ربّانی مشن میںاپنے آپ کو پوری طرح وقف نہیں کرسکتے۔ جوآدمی خدا کے رسول کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پہچانتا ہے، وہ فوراً ہی یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اصحابِ رسول کی طرح رسول کے دعوتی مشن میں شامل ہوجائے۔ یہ شُمولیت اعلیٰ درجے میںاُسی وقت ہوسکتی ہے، جب آدمی کو رسول کے ساتھ محبت کے درجے کا تعلق پیدا ہوجائے۔
رسول سے محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول سے عاشقانہ اور والہانہ تعلق ہو، جیسا کہ کسی نعت خواں، یا قوّال میں بظاہر دکھائی دیتاہے۔ بلکہ رسول سے محبت کامطلب یہ ہے کہ رسول کے دعوتی مشن سے گہرا لگاؤ ہو۔ ہر دوسری چیز کو ثانوی (secondary) بناکر آدمی رسول کے دعوتی مشن کو اپنا دعوتی مشن بنالے، جس طرح خود رسول نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذٰلک (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ
یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رَینگ (boomerang) کا قانون کہاجاتا ہے۔یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang — the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو بُرا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتا تا ہے تو وہ اس کو اپنے داخلی احساس کے تحت صرف ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوںکہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑ دے گا، اوراپنی ذمے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان بہترین جسم اور اعلیٰ دماغ کے ساتھ اِس دنیا میں آتا ہے۔ اُس کے لیے سوچنے کی سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ کیسے بنا۔ پھر وہ جس دنیا میں آتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ دنیا استثنائی طورپر اس کے لیے ایک انتہائی موافق دنیا ہے۔ یہاں وہ ایک ایسی زمین کو پاتا ہے جس پر وہ پُرراحت طورپر رہے۔ یہاں سورج ہے جو مسلسل طورپر اُس کو روشنی اور انرجی دے رہا ہے۔ یہاں زرخیز مٹی ہے جو اُس کے لیے مختلف قسم کی غذائیں اُگاتی ہے۔ یہاں وافر مقدار میں پانی ہے جو زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہاں ہوا ہے جو مسلسل طورپر اس کو آکسیجن سپلا ئی کررہی ہے۔
یہ سیارۂ زمین جس پر انسان آباد ہے، وہ بے شمار طریقوں سے اس کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ یہاں نہایت اعلیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم ہے، جس کے بغیر انسان کے لیے یہاں زندہ رہنا اور ترقی کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں اتنی زیادہ نعمتیں ملی ہوئی ہیںجن کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ اِن نعمتوں میں سے صرف کچھ نعمتوں کو سائنس نے دریافت کیا ہے۔ یہ دریافت کردہ نعمتیں بھی اتنی زیادہ ہیںکہ کوئی انسان ساری عمر مطالعہ کرے، تب بھی وہ کامل طورپر اُن سے واقف نہیں ہوسکتا۔
یہ صورت ِ حال اپنے آپ میںایک سوال ہے، اتنا بڑاسوال کہ کوئی بھی عورت یا مرد اُن کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ انسان کا اپنا حیرت ناک وجود اور آس پاس کی حسین دنیا مجبور کررہی ہے کہ ہر انسان اِن سوالات پر غور کرے اور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرے۔
یہ سوالات گویا ایک خاموش پکار ہیں— مجھ کو کس نے بنایا۔ اِس دنیا کا بنانے والا کون ہے۔ وہ کون ہے جس نے مجھ کو اتنا زیادہ با معنیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم پیدا کرکے دے دیاہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ایک عظیم نعمت ہے، اور ہر نعمت زبانِ حال سے پکار رہی ہے اور دعوت دے رہی ہے کہ اِس معاملے پر غور کرو اور دریافت کرو کہ اِن نعمتوں (blessings) کا مُنعم (giver) کون ہے۔
اِسی کے ساتھ ایک اور نہایت سنگین سوال ہے جو اِن سوالات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ انسان انتہائی قیمتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا دماغ معجزاتی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے لامحدود ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے، بظاہر یہ سب کچھ ابدی معلوم ہوتا ہے، لیکن ابھی وہ اپنے سفرِ حیات کے درمیان میں ہوتا ہے کہ سوسال سے بھی کم عرصے میںکوئی نامعلوم طاقت مداخلت کرتی ہے۔ وہ اُس پر موت وارد کرکے اُس کو موجودہ دنیا سے اٹھا کر کسی اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔
یہ تمام سوالات نہایت گمبھیر سوالا ت ہیں، وہ لازمی طورپر اپنا ایک جواب چاہتے ہیں۔ کوئی عورت یا مرد جو اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ اِن سوالات کا جواب معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اِن سوالات کا صحیح جواب ہی ہماری موجودہ زندگی کی درست توجیہہ کرتا ہے، اور اِسی کے ساتھ اِن سوالات کا جواب ہی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ حقیقی طورپر زندگی کو با معنیٰ اور کامیاب بنانے کے لیے ہمیں کیا کرناچاہیے۔
اِن سوالات پر پوری تاریخ میں غور و فکر کیا جاتا رہا ہے۔ انتہائی بڑے بڑے دماغ اِن سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم طورپر کوشش کرتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ جس جواب نے عالمی دماغوں کو مطمئن کیا ہے، وہ یہ کہ اِس دنیا کا ایک خدا ہے، وہی اِس کا خالق ہے، وہی اس کا مالک ہے، وہی اس کا انتظام کررہا ہے، وہی اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ اِس پوری دنیا کو سنبھالے ہوئے ہے۔
پھر یہ کہ اِس دنیا کو خدا نے ایک خصوصی تخلیقی پلان (creation plan) کے تحت پیدا کیا ہے۔ اِس پلان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن انسان کو پیداکرنے والے نے اس کی زندگی کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس کا بہت تھوڑا حصہ موت سے قبل کے مرحلۂ حیات میںہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں۔ آدمی جب اِس دنیا میں مرتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اگلی دنیا میں داخل ہوجاتاہے، تاکہ وہ اپنی بقیہ زندگی وہاں کے ابدی ماحول میں گزارے۔
واپس اوپر جائیں
’تواصی‘ کا لفظ قرآن کی سورہ نمبر
History is a witness that man is in loss. Except those who believe and do good, and exhort on each other truth, and exhort on each other patience.
قرآن کی اِس سورہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک روایت میںبتایا گیا ہے کہ دو صحابی جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو وہ یاددہانی کے لیے آپس میں اِس سورہ کا تذکرہ کرتے تھے (عن أبی حُذیفہ قال: کان الرّجلان مِن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا التقیا، لم یتفرّقا حتّٰی یقرأ أحدُہما علی الآخر سورۃَ العصر، ثمّ یسلّم أحدہما علی الآخر، رواہ البیہقی فی شعب الإیمان)۔
قرآن کی اِس سورہ میں مومنانہ زندگی کا کورس بتایا گیا ہے۔ یہ کورس بنیادی طورپر تین اجزا پر مشتمل ہے— ایمان اور عمل اور تواصی۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی کو شعور کی سطح پر خدا کی معرفت حاصل ہو۔ یہ معرفت ایک انسان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے اپنی تلاش کا جواب پالیا۔ آدمی کو اپنی فکری سرگرمیوں کے لیے صحیح فریم ورک مل گیا ۔ آدمی کو ظاہری بصارت کے ساتھ، داخلی بصیرت کی روشنی حاصل ہوگئی۔ آدمی کو اپنی ذہنی تگ و دَو کا مرکز حاصل ہوگیا۔ آدمی کے اندر اُس ہستی کا شعور پیداہوگیا، جس سے وہ سب سے زیادہ ڈرے اور جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرے۔
اِس کورس کا دوسرا جُز عملِ صالح ہے۔ عملِ صالح سے مراد وہ عمل ہے جو عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ عملِ صالح کی اِس فہرست میں ذکر و دعا، عبادات، اخلاق اور معاملات، وغیرہ سب شامل ہیں۔ ہر وہ کام جس میں انسان کا جسمانی وجود شامل ہوتا ہے، وہ سب اُس کا عمل ہے اور یہ مطلوب ہے کہ اِن تمام اعمال کو صالحیت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی عمل کی دو قسمیں ہیں— ایک، خود رُخی(self-oriented) عمل اور دوسرے، خدا رُخی (God-oriented)عمل۔ اسلامی شریعت میں خود رخی عمل کا دوسرا نام غیر صالح عمل ہے اور خدا رخی عمل کا دوسرا نام صالح عمل۔
اِس کورس کا تیسرا جُز تواصی ہے۔ تواصی میں مشارکت پائی جاتی ہے۔اِس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو نصیحت کرنا۔ دو آدمی ایک دوسرے کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت، سنجیدہ موضوعات پر ایک دوسرے کے ساتھ جو گفتگو کریں، اُس کانام تواصی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تواصی نام ہے باہمی تبادلۂ خیال(mutual discussion) کا۔ دینی موضوعات پر باہمی ڈسکشن کسی مومن کی زندگی کا اُسی طرح ایک ناگزیر حصہ ہے، جس طرح ایمان اور عملِ صالح۔
یہ باہمی تبادلۂ خیال، یا انٹلکچول ایکسچینج (intellectual exchange) ذہنی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹلکچول ایکسچینج کے بغیر ذہنی ترقی بالکل ممکن نہیں۔ جب دو آدمی سنجیدگی کے ساتھ ایک موضوع پر تبادلۂ خیال کریں تو دو آدمیوں کی گفتگو کے دوران ایک تیسرا تصور ایمرج (emerge)کرتا ہے، جس طرح دو پتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز نکلتی ہے، یعنی چنگاری۔ اِسی طرح باہمی تبالۂ خیال دونوں کے لیے ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنتا ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے تواصی کے اِس عمل کا موضوع صرف دو ہے، اور وہ ہے— حق اور صبر۔ حق میں تمام مثبت موضوعات شامل ہیں۔ مثلاً قرآن اورحدیث کے گہرے معانی کو سمجھنے کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرنا۔ یہ مقصد صرف قرآن کی تلاوت سے حاصل نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث کو چرچا اور تبادلۂ خیال کا موضوع بنادیا جائے۔ یہ مقصد صرف سنجیدہ ڈسکشن کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔مثلاً ہر گھر میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ کبھی کسی نقصان کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی کسی فائدے کا تجربہ۔ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ گھروں میںنقصان کے واقعے کو لے کر لوگ منفی انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ اِسی طرح فائدے کے واقعے کو لے کر خوشی اور فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر قرآن کی آیت: لکیلا تأ سَو علیٰ ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم (الحدید:
اِسی طرح نئے واقعات بھی اِس تواصی کا موضوع بن سکتے ہیں۔مثلاً حال میں چھپی ہوئی ایک کتاب کے اندر یہ انکشاف کیا گیاہے کہ مدر ٹریسا (وفات:1997 ) جو تقریباً ستّر سال تک خدا کے نام پر سوشل سروس کرتی رہیں، مگر اُنھیں اپنے اِس عمل کے دوران کبھی سچائی کا تجربہ نہیںہوا۔ وہ مسلسل طورپر مذہبی اور روحانی اعتبار سے سوہانِ روح (agony) میںمبتلا رہیں (ٹائم میگزین، 3 ستمبر 2007)۔ اب اِس خبر پر آپ باہم ہمدردانہ تبادلۂ خیال کریں کہ مدر ٹریسا کے ساتھ یہ ٹریجڈی کیوں پیش آئی۔
تواصی کے عمل کا دوسرا موضوع صبر ہے۔ صبر کوئی انفعالی چیز نہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کا مثبت عمل ہے۔ اِس دنیا میں آدمی کو مسلسل طور پر ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں تو اصی بالصبر یہ ہے کہ دو آدمی یا چند آدمی اِس پر گفتگو کریں کہ ناموافق حالات کے باوجود، کس طرح ایمان اور عملِ صالح کی زندگی کی منصوبہ بندی کی جائے۔
میرے تجربے کے مطابق، اِس تواصی کا پہلا میدان آدمی کا اپنا خاندان ہے، خاندان، عورت اور مرد کے اُس مجموعے کا نام ہے جن کے درمیان خونی رشتہ(blood relationship) ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں سماجی تعلقات کے درمیان سب سے زیادہ طاقت ور رشتہ خونی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ خونی رشتہ انٹلکچول ایکسچینج کے لیے بے حد مفید ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی تبادلۂ خیال کے لیے دونوں فریق کے درمیان باہمی موانست بے حد ضروری ہے۔ اور خاندانی افراد کے درمیان یہ موانست کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔
صحت مند تبادلۂ خیال کے لیے ایک لازمی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ ساری گفتگو’حق‘ اور ’صبر‘ کے موضوع پر کی جائے۔ دیگر موضوعات سے مکمل طورپر پرہیز کیا جائے۔ دیگر موضوعات مثلاً نفرت اور شکایت کا چرچا، دنیوی اہمیت کی چیزیں اورسطحی موضوعات پر تفریحی باتیں، وغیرہ۔ یہ سب اِس معاملے میں ڈسٹریکشن ہیں۔ اور ڈسٹریکشن اتنی زیادہ تباہ کُن چیز ہے جس کا تحمل ایک حق پرست آدمی کبھی نہیں کرسکتا۔
قرآن کی سورہ نمبر
اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول کا ذکر ہے، مگر یہاں پرٹکلر ریفرنس (particular reference) میں ایک جنرل تعلیم دی گئی ہے۔ اِس اعتبار سے یہاں ہر صاحبِ ایمان کے اہلِ بیت مراد ہیں۔ اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے— رِجس کو دور کرنا اور تطہیر کرنا۔ بظاہر اِن دونوں عمل کو خدا کی طرف منسوب کیاگیا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبارسے یہ وہی چیز ہے جس کو تواصی کہاگیا ہے۔ تواصی کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت کے لیے کیا۔ اِسی طرح ہر اہلِ ایمان عورت اور مرد کو اپنے اہلِ بیت پر تواصی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
اہلِ بیت کی تواصی سے مراد سادہ طورپر خاندان کی اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مومن خاندان کے اندر یہ ماحول ہونا چاہیے کہ افرادِ خاندان ایک دوسرے کے ساتھ تواصی میں شریک ہوجائیں۔ہر گھر میں ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کے درمیان چرچا یا تبادلۂ خیال صرف دو موضوعات پر ہو، یعنی حق کے موضوع پر اور صبرکے موضوع پر۔ ہر خاندان میںیہ ماحول ہو کہ دُنیوی چیزیں ضرورت کے خانے میں ڈال دی جائیں، دُنیوی چیزیں اہلِ خاندان کے درمیان چرچا کا موضوع نہ ہوں، بلکہ چرچا کا موضوع صرف وہ چیزیں ہوں جن کا تعلق دین اور آخرت سے ہو۔
مزید غور کیجیے تومعلوم ہوگا کہ ہر انسان کے لیے خدا نے اُس کے اہلِ بیت کی صورت میں ایک فطری گروپ فراہم کردیا ہے، جس کے ذریعے وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی عبادت کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے بعد ہر مومن کی ایک اور ضرورت ہے اور وہ ہے اس کا ذہنی ارتقا۔ اِس ذہنی ارتقا میں مطالعہ اور مشاہدہ کے علاوہ انٹلکچول ایکسچینج بہت زیادہ اہم ہے۔
کسی خاندان کے افراد کا سب سے بڑا رول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partners) بن جائیں، جس طرح کسی اکیڈمی میں کچھ اسکالر ہوں تو وہاں وہ شاپنگ اور آؤٹنگ کی بات نہیں کرتے، بلکہ وہاں وہ سنجیدہ علمی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔یہی معاملہ ہر مومن خاندان کا ہونا چاہیے۔ مومن خاندان کے ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے جب بھی بات کریں تو وہ صرف علمی اور دینی موضوعات پر بات کریں۔ دوسرے موضوعات کو قصداً وہ اپنے لیے چرچا کا موضوع نہ بنائیں۔ ہر مومن فیملی کو چاہیے کہ وہ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے یہ کوشش کرے کہ کسی فردِ خاندان کے اندر منفی جذبات پرورش نہ پائیں۔ ہر ایک مثبت ذہن کے ساتھ جینے والا انسان بن جائے۔
بچوں کی اصلاح کا بھی یہی سب سے زیادہ کارگر ذریعہ ہے۔ عام طورپر ماں باپ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی خوشی پوری کرتے رہیں، مگر یہ بچوں کے ساتھ محبت نہیں بلکہ وہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ اِس معاملے میں ایک حدیثِ رسول، والدین کے لیے رہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہے: مانحلَ والدٌ ولدَہ من نُحْلٍ أفضلَ من أدبٍ حسَنٍ۔ یعنی کسی والد کی طرف سے اُس کی اولاد کے لیے سب سے اچھا عطیہ یہ ہے کہ وہ اُس کو اچھے اخلاق اور آدابِ حیات کی تعلیم دے (الترمذی، کتاب البِّر)۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کا یہ مقصد اِس طرح حاصل نہیں ہوسکتا کہ والدین اپنے بچوں کو یہ کرو اور وہ نہ کرو (do’s and don’ts) کی زبان میں کچھ ہدایات دیتے رہیں، بلکہ یہ مقصد صرف اِس طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ پورے گھر کے اندر تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا ماحول قائم ہوجائے۔ گھر کے اندر چرچا کا موضوع صرف ایک ہو اور وہ حق اور صبر ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن پہلا کام خود اپنی اصلاح ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کریں۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو اس کے بعد غیر مسلموں میںدعوت کا کام اپنے آپ ہونے لگے گا۔
میںنے کہا کہ یہ نظریہ آپ نے خود اپنے ذہن سے بنایا ہے، یا آپ نے اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا ہے۔ وہ اپنے اِس نظریے کے حق میں قرآن اور حدیث سے کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ جو بات قرآن اورحدیث میںنہ کہی گئی ہو، اس کو اپنی طرف سے کہنے کا نام بدعت ہے، اور بدعت ایک گم راہی ہے۔ ’’پہلے اپنی اصلاح‘‘ کا نظریہ بھی اِسی قسم کی ایک بدعت ہے۔
میںنے کہا کہ دعوتی کام کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہمارے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوںنے مسلسل دعوتی عمل کے ذریعے اسلام کو ہر طرف پھیلایا۔ آپ اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر صحابی احساسِ بے عملی میںمبتلا تھا، نہ کہ احساسِ عمل میں۔ ہر صحابی اپنے آپ کو غیر اصلاح یافتہ سمجھتا تھا، اِس کے باوجود اُس نے دعوتِ عام کا کام کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ دعوت کی شرط اگر یہ ہو کہ داعی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھنے لگے، تو کبھی دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ سچا مومن ہمیشہ اِس احساس میںمبتلا رہتا ہے کہ میں اپنی اصلاح نہ کرسکا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھ لے، وہ دعوت کے لیے سب سے زیادہ نااہل (incompetent) انسان بن جاتا ہے۔ اِسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ دعوت ہر حال میں دی جائے گی، خواہ مسلمان اصلاح یافتہ ہوں، یا اصلاح یافتہ نہ ہوں۔ اصلاح اور دعوت دونوں کام ایک ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ مقدم ہے اور نہ مؤخر۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی اُسی وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔ اپنی اصلاح کوئی ایسا کام نہیں جو خلا میں انجام پائے۔
واپس اوپر جائیں
راقم الحروف کی کتاب —مذہب اور جدید چیلنج (God Arises) پہلی بار 1966 میں چھپی۔ اس میں دلیلِ آخرت (Argument for the Life Hereafter) کے باب کے تحت حسب ذیل سطریں درج تھیں:
’’سب سے پہلا تجربہ جو ہم کو قیامت کے امکان سے باخبر کرتاہے، وہ زلزلہ ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ نہایت گرم سیّال (hot semi-molten) کی شکل میںہے۔ اس کا مشاہدہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاوا کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مادّہ مختلف شکلوں میں زمین کی سطح کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات زمین کے اوپر زبردست گڑگڑاہٹ کی آواز محسوس ہوتی ہے اور کش مکش کی وجہ سے جھٹکے پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی کا نام زلزلہ ہے۔ یہ زلزلہ آج بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوف ناک لفظ ہے۔ یہ انسان کے اوپر قدرت کا ایسا حملہ ہے جس میں فیصلے کا اختیار تمام تر دوسرے فریق کو ہوتا ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں انسان بالکل بے بس ہے۔ یہ زلزلے ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک سُرخ پگھلے ہوئے نہایت گرم مادّے کے اوپر آباد ہیں، جس سے صرف پچاس کلو میٹر کی ایک پتلی سی چٹانی تہہ (crust) ہم کو الگ کرتی ہے۔ یہ چٹانی تہہ زمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے، جیسے سیب کے اوپر اس کا باریک چھلکا۔ ایک جغرافیہ داں کے الفاظ میں — ہمارے آبادشہروں اور نیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنم (Physical Hell) دہک رہا ہے۔ گویا کہ ہم ایک عظیم ڈائنا مائٹ کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر سارے نظامِ ارضی کو درہم برہم کرسکتا ہے۔‘‘ (صفحہ
اِس سلسلے کی ایک خبر وہ ہے جو حال میں میڈیا میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا سورس یہ ہے:
US Geographical Survey, NASA, National Geographic, “Smithsonian Earth”.
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (
Fire Underground.
اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا یلواسٹون نیشنل پارک ایک متحرک جوالہ ُ مکھی کے اوپر قائم ہے، جو کہ زمین کی سطح سے صرف پانچ میل نیچے ہے۔ بہ ظاہر اگرچہ اس کی کو ئی علامت دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ ایک انفجار (eruption) کی طرف جارہا ہے۔ اِس قسم کا انفجار ایک عظیم ہلاکت کا سبب ہوگا۔ یلو اسٹون کے نیچے اگر اِس قسم کا انفجار ہوتا ہے، تو وہ امریکا کے بڑے رقبے کو قبرستان بنا دے گا:
Yellowstone National Park sits on an active volcanic system. Yellowstone’s magma chamber lies 5 miles below surface and although the system shows no signs that it is headed toward an eruption, such an eruption could be catastrophic.... If another eruption were to occur at Yellowstone, thick ash deposits would bury vast areas of the United States. (p.
خدا نے یہ دنیا ابدی طورپر نہیں بنائی ہے، بلکہ ایک محدود مدت کے لیے بنائی ہے۔ زیر زمین آتش فشاں اِس بات کی وارننگ ہے کہ یہ محدود مدت پوری ہوتے ہی سب کچھ پھٹ جائے گا اور پوری تہذیب ایک کھنڈر بن کر رہ جائے گی۔
مذکورہ سروے گویا کہ آنے والی قیامت کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھئے تو اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان جاگ اٹھے۔ وہ آنے والے دن کی تیاری شروع کردے، اِس سے پہلے کہ وہ دن آجائے اور کسی کے لیے تیاری کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں
فروری 2008 میں پرگتی میدان (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل بک فئر کا انعقاد کیاگیا۔ میں 9 فروری 2008 کو یہ بک فئر دیکھنے کے لیے وہاں گیا۔ پرگتی میدان کے وسیع رقبے میں ہر طرف کتابوں کے شان دار اسٹال لگے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتاتھا، جیسے نئی دہلی کا پرگتی میدان علم کا شہر (city of knowledge) بن گیاہے۔ کثیر تعداد میں لوگ کتابوں کو پڑھتے ہوئے اور خریدتے ہوئے نظر آئے۔
جب میں بک فئر کے اندر چل پھر رہا تھا، اس وقت مجھے وہاں ایک انوکھا منظر دکھائی دیا۔ میںنے دیکھا کہ وہاںانسانوں کے علاوہ ایک کتّا بھی ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان اِدھر اُدھر دوڑتا ہوا نظرآیا۔ بظاہر وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر رہا تھا، لیکن اس کو نہ اِس بات کا علم تھا کہ یہاں کتابوں کی صورت میں دنیا بھر کا علم موجود ہے، اور نہ اس کو یہ شوق تھا کہ وہ اس اتھاہ علمی ذخیرے سے اپنے لیے کوئی روشنی حاصل کرے۔
بک فئر کی دنیا میں ایک حیوان کی موجودگی دیکھ کر مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آئی، جس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ بظاہر انسان دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ حیوان کی مانند ہیں۔ وہ اِس دنیا میں صرف کھاتے پیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اندھے پن کے ساتھ اٹھائے جائیں گے (طٰہٰ:
موجودہ دنیا میں ہر طرف خالق کی نشانیاں (signs)بکھری ہوئی ہیں۔یہ نشانیاں مخلوق کی صورت میں خالق کا تعارف کرارہی ہیں۔ جو لوگ اِس تعارف میں خالق کو دریافت کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں، وہ بینا لوگ ہیں۔ اور جو لوگ اِس تعارف میں خالق کو نہ دیکھیں، وہ گویا کہ اندھے تھے۔ وہ دنیا میں اندھے بن کررہے ، اِس لیے وہ آخرت میں بھی اندھے پن کی حالت میں اٹھائے جائیں گے۔ ایسے لوگ بظاہر انسان، مگر حقیقت میں وہ حیوان ہیں۔ دنیا میں ان کی یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے، لیکن آخرت میں ان کی یہ حقیقت عیاں ہو کر سامنے آجائے گی۔
واپس اوپر جائیں
چارلس ڈیوک (Charles Mass Duke Jr.) ایک امریکی خلاباز (astronaut) ہیں۔ وہ 1935 میں امریکا (North Carolina) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اسپیس سائنس میںاعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ 1966 میں ناسا (NASA) کے پانچویں خلاباز گروپ کے لیے منتخب کیے گئے۔ انھوںنے خلا (space) میںکئی پروازیں کیں۔ 1972 میں انھوںنے اپالو (Apollo-16) کے ذریعے چاند کا سفر کیا۔
ہماری ٹیم کے مذکورہ د ونوں ممبروں نے امریکی خلا باز ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع اسپریچولٹی (spirituality) تھا۔ انٹرویو کے دوران اُن سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں، اور آپ کو پُرمسرت زندگی حاصل ہے۔ اِس کے جواب میں انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ — ابتدائی طورپر میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میںنے یہ سمجھا کہ چاند مجھ کو سکون دے گا۔ میںنے یہ سمجھا کہ خلابازی کی زندگی مجھے سکون عطا کرے گی۔ میںخلابازبن گیا، مگر خلابازی کی زندگی نے مجھ کو سکون نہیں دیا۔ پھر میںنے سوچا کہ میںاپنا کیریر بدل دوں۔ میںنے ناسا میںایسٹروناٹ کا جاب چھوڑ دیا اور بزنس شروع کردیا۔ میںنے کافی دولت کمائی، مگر اب بھی میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میںمحسوس کرتاہوں کہ اب بھی میری زندگی میںکوئی چیز مفقود ہے:
I had no peace in life. I thought the moon would give me peace. I thought all these goals, all these accomplishments, this great career would give me peace, but it didn’t, So I thought I'll change career. So I left NASA as an astronaut and went into business. Imade a lot of money but I still had no peace in my life. There was still something missing.
New Delhi, Charlse Duke Jr.
February 21, 2008
یہ معاملہ صرف ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا نہیں، یہی موجودہ زمانے میں تمام لوگوں کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دولت اور شہرت اور اقتدار حاصل کرنے کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ اِن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اِن چیزوں کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سپر اچیورس (super achievers) کہاجاتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ تمام سپر اچیور کا کیس سپر ناکامی (super failure) کا کیس تھا۔ سب کچھ پانے کے باوجود اِن لوگوں کو داخلی مسرت حاصل نہیں ہوئی۔ آخر کار وہ مایوسی کا احساس لے کر مر گئے۔
کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانہ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا زمانہ ہے۔ اِس صورتِ حال نے موجودہ زمانے میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے (super achievers) کہاجاتا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر بڑی کامیابی آخر میں صرف بڑی ناکامی (super failure)بن گئی۔ اِس قسم کے لوگ نئے قسم کے سنگین مسائل میں مبتلا ہوگئے۔ مثلاً مہلک بیماریاں، وغیرہ۔
اِنھیں نئے مسائل میں سے ایک ٹنشن (tension) یا اسٹریس (stress) ہے۔ لوگوں کے پاس دولت اور شہرت اور اقتدار سب کچھ موجود ہے، لیکن اِن ظاہری کامیابیوں کے باوجود لوگ مسلسل طورپر ٹنشن اور اسٹریس میں مبتلا رہتے ہیں۔ زیادہ دولت صرف زیادہ بیماری کا سبب بن رہی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ رسرچ میڈیکل سائنس میں ہورہی ہے، تاکہ نئی نئی بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاسکے۔اِس صورت ِ حال کے نتیجے میں ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے جس کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ اِن اداروں میںبڑے بڑے ماہرین، لوگوں کو اسٹریس سے نجات دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ لوگوں کا ٹنشن اور اسٹریس بدستور بڑھتا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا خطرہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں ہے، بلکہ ٹنشن اور اسٹریس کا خطرہ ہے۔
یہ صورت ِ حال ہم کو قرآن کی ایک آیت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد:
اِس معاملے کا براہِ راست تعلق خالق کے کریشن پلان (creation plan of God) سے ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کسی کے لیے بھی اپنی آرزوؤں کی تکمیل کی جگہ نہیں بن سکتی۔ موجودہ دنیا ہر عورت اور مرد کے لیے سفر کا مرحلہ ہے، اور بعد کو آنے والی آخرت کی دنیا اس کی ابدی منزل ہے۔
آپ، بس یا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوں اور اس کے اندر آپ گھر والی سہولتیں حاصل کرنا چاہیں، تو آپ اس کو حاصل نہ کرسکیں گے۔ کیوں کہ سواری صرف سواری ہے، وہ گھر کا بدل نہیں۔ اِس طرح موجود دنیا میں خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ جو آدمی اپنی خواہشوں کی تکمیل چاہتا ہو، اس کو آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: لمثل ہٰذا فلیعمل العاملون (الصّافّات:
واپس اوپر جائیں
سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا 7 مارچ 2008 کو دہلی سے بمبئی گئے۔ یہ سفر ان کی کمپنی کے تحت تھا۔ ان کا یہ سفر کنگ فشر (King Fisher) ائر لائنس کے ذریعے ہوا۔ نئی دہلی کے ائر پورٹ پر جب وہ جہاز کے اندر داخل ہوئے، تو انھوںنے دیکھا کہ فرسٹ کلاس کی اگلی سیٹ پر ایک ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ ہوائی پرواز(civil aviation) کے محکموں میں کیبنٹ منسٹر ہیں۔ اُس وقت مسٹررجت ملہوترا کی جیب میں ہمارے یہاں کا انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ (The Reality of Life) موجود تھا۔ انھوںنے منسٹر صاحب کو ایک پمفلٹ یہ کہتے ہوئے پیش کیا:
Sir, this is for your inflight reading.
منسٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پمفلٹ کو لے لیا اور اُسی وقت اس کو پڑھنا شروع کردیا، مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا، تو میںنے یہ سمجھا کہ موجودہ زمانے کے دعوتی امکانات میںسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ حاکم (ruler) اور محکوم (ruled) دونوں ایک سواری پر سفر کریں، اور محکوم کسی قسم کے درباری رسوم ادا کیے بغیر حاکم کو بے تکلف ایک خوب صورت چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ پیش کرسکے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اتری، تو اُس میں یہ کہا گیا تھا: علّم بالقلم (القلم : 4 )۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت ایک مبنی بر لٹریچر (literature-based) دعوت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ پرنٹنگ پریس وجودمیں نہیں آیا تھا، یہ دعوتی لٹریچر لوگوں کے حافظے میںہوتا تھا۔ آدمی کا حافظہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اِس پوزیشن میںہوتاتھا کہ اپنے حافظے کی مدد سے لوگوں کو دعوتی پیغام دے سکے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ کرنا ہے کہ داعی ہر وقت اپنے پاس چھپا ہوا دعوتی لٹریچر رکھے، اور ملاقاتوں کے دوران اُسے لوگوں کو دے سکے۔
واپس اوپر جائیں
مارک جے ایچ کلاسین (Mark J.H. Klassen) کناڈا کے ایک مسیحی عالم ہیں۔ وہ کناڈا کی ایک کمپنی (Kalora Interiors International Inc.) کے نمائندہ (representative)کے طور پر نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ 6 مارچ 2008 کو الرسالہ کے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر اقبال پردھان بھی موجود تھے۔ اُن سے دیر تک مسیحی مذہب اور اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ میں حضرت مسیح کو خدا کا پیغمبر مانتا ہوں، لیکن میں اُن کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ میں نے کہا کہ موجودہ مسیحیت (Christianity) کے تین بنیادی عقیدے ہیں— تثلیث (Trinity) ، ابنیّت ِ مسیح (Sonship) ، کفّارہ (Atonement) ۔ مگر یہ تینوں عقیدے نئے عہدنامہ (New Testament) کے اُن چار ابواب میںموجود نہیں ہیں جن کو گاسپل (Gospel) کہاجاتا ہے، حالاں کہ یہی چار ابواب مسیحیت کے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن عقیدوں کو مسیحی چرچ نے چوتھی صدی عیسوی میں وضع کیا، حضرت مسیح کی اصل تعلیمات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
انھوںنے کہا کہ گاسپل کے ایک راوی یوحنّا (John) ہیں، اور یوحنّا کے خطوط (Epistles) میں اِبنیّت (Sonship) کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ ان کے بیگ میں بائبل کا ایک نسخہ موجود تھا۔ انھوںنے یہ نسخہ نکالا اور اس کی یہ آیت مجھے دکھائی:
جوکچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے، تمھیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں، تاکہ تم بھی ہمارے ساتھ شریک ہو، اور ہماری شرکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ ہے:
That which we have seen and heard, we declare to you, that you also may have fellowship with us; and truly our fellowship is with the Father and with His Son Jesus Christ (The First Epistle of John: 3).
میںنے کہا کہ گاسپل (Gospel) اور خطوط (Epistles) میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ گاسپل، نئے عہد نامے کا وہ حصہ ہے جس میںمسیح کے براہِ راست شاگردوں نے مسیح کی زندگی اور ان کی تعلیمات کے بارے میں روایت کیا ہے:
Gospel: The history of the life and teachings of Jesus.
انھوں نے کہا کہ یہ خط بھی اُسی یوحنّا (John) کا ہے جو گاسپل کے چار راویوں میں سے ایک راوی ہیں۔ میں نے کہا کہ گاسپل اور خطوط میں ایک بنیادی فرق ہے، وہ یہ کہ گاسپل میں خود مسیح کی اپنی تعلیمات بیان کی گئی ہیں، مگر خطوط کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو مسیح کے بعد ان کے کچھ متبعین(followers) نے ان کو اپنی طرف سے لکھا۔ ایسی حالت میں خطوط کا درجہ وہ نہیں ہوسکتا جو گاسپل کا درجہ ہے۔
یہ گفتگو کئی لوگوں کی موجودگی میں کافی دیر تک جاری رہی۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ جب ہم بائبل اور چرچ کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں تو خود ہم کو مایوسی ہوتی ہے:
When we see the difference between the Bible and the Church, we are dissappointed.
مجھے اِس طرح کے تجربات بار بار ہوئے ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ مسیحی لوگ اندر سے کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں، لیکن سماجی تقاضے کی بنا پر وہ مسیحیت سے جڑے رہتے ہیں۔
یہ موجودہ مسیحی مذہب کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ اِس اعتبار سے مسلم داعیوں کے لیے مسیحی حضرات کے درمیان دعوت الی اللہ کا بہت اچھا موقع تھا، لیکن مسلم علما کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔ وہ غلطی یہ کہ انھوں نے مسیحی حضرات کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے دعوت کا انداز اختیار نہیں کیا، بلکہ مناظرہ (debate) کا انداز اختیار کیا۔
دعوت کے انداز سے مدعو کے دل میں قربت پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مناظرے کا انداز مدعو کے اندر توحش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ مناظرے کا انداز مسلمانوں کو خوش کرسکتا ہے، لیکن وہ مدعو کو متاثر نہیں کرتا۔ یہ غلطی نو آبادیاتی دور میں شروع ہوئی تھی، مگر بد قسمتی سے وہ آج تک جاری ہے۔ مناظرہ بازی سے صرف منفی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور دعوت سے مثبت نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کے دوراستے ہیں— سیدھا راستہ اور بھٹکاؤ کا راستہ (النّحل: 9 )۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آدمی خالق کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام دے، وہ خالق کو اپنا سب کچھ بنالے۔ بھٹکاؤ کا راستہ یہ ہے کہ آدمی مخلوق میں گُم ہو جائے، وہ مخلوق کی نسبت سے اپنی زندگی کا پورا نقشہ بنائے۔ پہلے طریقے کا نام توحید ہے،اور دوسرے طریقے کا نام شرک ہے۔ہماری کائنات میں صرف دو چیزیں ہیں— خالق اور مخلوق ۔ خالق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام توحید ہے، اور مخلوق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام شرک۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسانیت کے آغاز ہی سے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی رہ نمائی دیتے رہے۔ ہر پیغمبر کا مشن ایک ہی تھا— انسان کو توحید کی طرف بلانا، اور اس کو شرک سے بچنے کی تلقین کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زمانے میں توحیدایک تھی، اسی طرح شرک بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔
قدیم شرک یا شرک کا قدیم ورژن (ancient version of shirk) نیچر پرستی (nature worship) پر قائم تھا۔ نیچر کی حیثیت مخلوق کی ہے۔ قدیم زمانے کے انسان نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ وہ نیچر پرستی (nature worship) کی بُرائی میںمبتلا ہوگیا، یعنی خالق کی پرستش کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِسی کو مظاہرِ فطرت کی پرستش کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی یہ شرک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے کہ وہ خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا سب کچھ (supreme concern) بنائے ہوئے ہے۔ قدیم شرک اور جدید شرک کے درمیان جو فرق ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قدیم انسان نے نیچر کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنایا تھا۔ جدید انسان نے نیچر کو تفریح کا موضوع(object of entertainment) بنا لیا ہے۔ جذباتِ عُبودیت کا مرکز پہلے بھی مخلوقات تھیں، اور اب بھی جذباتِ عبودیت کا مرکز مخلوقات ہیں۔
موجودہ زمانے کے انسان کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے آج (now) میں خوش رہو، کل کی فکر چھوڑ دو۔ یہ ’’آج‘‘ کیا ہے۔ یہ وہی سامانِ حیات ہے جو ہم کو نیچر کی صورت میں ملا ہے۔ یہ سامانِ حیات خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ تفریح کے سامانوں میں سے کوئی بھی سامان انسان نے خود نہیں بنایا، وہ اس کو خالق کی طرف سے ملا ہے۔ یہ خالق ہے جو ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ آج کے انسان نے یہ کیا کہ اُس نے نعمت (blessing) کو لیا، اور منعم (giver) کو چھوڑ دیا۔ یعنی خالق رُخی نظریے کو ترک کرکے، مخلوق رخی نظریے کو اختیار کرلیا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کو جب کوئی چیز ملے تو وہ دینے والے کا اعتراف کرے۔ احساسِ تشکُّر (gratitude) انسان کی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے دوربارہ یہ کیا کہ اُس نے اپنے احساسِ تشکر کو خالق کے بجائے مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ جو قلبی اعتراف اس کو مُنعم کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا، اُس کو وہ منعم کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے پیش کرنے لگا۔
آج کل کے لوگوں کی باتیں سنیے، یا ان کی تحریریں پڑھیے تو بار بار اِس قسم کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ہر آدمی اپنے روزانہ کے تجربات میں اِس کے نمونے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں مثال کے طورپر میںایک حوالہ نقل کروں گا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
Be happy here and now.
آج کل کے زمانے میں انسان ایک عام مسئلے سے دوچار ہے۔ وہ ٹنشن یا اسٹریس (stress) ہے۔ یہ ٹنشن کیوںہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو اُس کی مطلوب خوراک نہیںدے رہا ہے۔ وہ خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بھر پور انتفاع کررہا ہے، لیکن وہ خالق کا اعتراف نہیںکرتا۔ یہ بے اعترافی، یا عدم تشکر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ انسان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر ٹنشن یا اسٹریس کا سبب بنا ہوا ہے۔ موجودہ انسان نے اِس کا یہ غیر فطری حل دریافت کیا ہے کہ دینے والے کے بجائے، خود دی ہوئی چیزوں پر تشکر کا اظہار کرنا۔ مذکورہ مضمون اِسی جدید ذہن کی نمائندگی کررہا ہے۔ چناں چہ اس میں کہاگیا ہے کہ — تم ملی ہوئی چیزوں پر خوب تشکر کا اظہار کرو اور تم ٹنشن سے بچ جاؤ گے۔ اِس سلسلے میں مضمون نگار کے الفاظ یہ ہیں:
Gratitude feels my soul as I enjoy my computer, more about my home, enjoy the feeling of a hug from my daughter. There is so much to be grateful for each moment of each day. I find that where gratitude goes, joy flows, spend a few moments throughout the day with thought shifter statements. A few of the thought shifter statements that I use are— I am so happy and joyful to believe. I am so happy and grateful for this wonderful mind, and body that allows me to enjoy touch, taste, sound, and movement. I am so happy and grateful for my family, and friends, and the love we share. I am so happy and grateful for my home and utilities. I am so happy and grateful for my computer, my internet, my ability to type and share with friends all over the world.
انسان کے اندر جس طرح بھوک اور پیاس کا طاقت ور جذبہ موجود ہے، اُسی طرح یہ جذبہ بھی انسان کے اندر نہایت طاقت ور شکل میںموجود ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا اعتراف کرے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان اِس کا تحمل نہیںکرسکتا کہ اُس کو کسی سے کوئی بڑی چیز ملے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ آدمی کا فطری مزاج یہ ہے کہ جب اُس کو کسی سے کوئی بڑا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی پوری شخصیت چاہتی ہے کہ چیخ کر وہ اس کا اعتراف کرے۔ یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں۔
انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب خداکا عطیہ ہے۔ خواہ اس کا اپنا وجود ہو یا اس کے باہر کا وہ پورا نظام جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، سب کا سب اس کو خدا کی طرف سے یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ وہ اِن تمام عطیات (blessings) کے لیے ان کے مُعطی (giver) کا بھر پوراعتراف کرے۔ اِن عطیات میںسے ایک قسم اُن عطیات کی ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے انسان کو مل رہے ہیں۔ مثلاً ہوا اور پانی اور روشنی ، وغیرہ۔ اور دوسری چیزیں وہ ہیں جو بالواسطہ طورپر خدا کا عطیہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نے عالمِ فطرت میں دریافت کرکے خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعے اُن کو مختلف قسم کی مصنوعات میںتبدیل کیا ہے۔ مثلاً تمام قسم کے کنزیومر گُڈس (consumer goods) ۔
یہ تمام عطیات تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے سارے دل اور سارے دماغ کے ساتھ اُن کا اعتراف کرے۔ لیکن خود ساختہ فلسفوں کے تحت ،انسان نے یہ کیا کہ اُس نے عطیات کو لیا، اور اُن کے معطی (giver) کو حذف کردیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی فطرت ایڈریس ہونے سے رہ گئی:
The human nature was left unaddressed.
یہ کسی انسان کے لیے ایک داخلی تضاد کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد اِسی داخلی تضاد میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا وہ مسئلہ جس کو ٹنشن اور اسٹریس کہا جاتا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی داخلی تضاد کا نتیجہ ہے۔
اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد:
Peace of mind can be achieved only through the remembrance of God (
واپس اوپر جائیں
کمیونسٹ حکومت کے آخری زمانے میں میںنے سوویت یونین (روس) کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت میخائل گوربا چیف (Mikhail Gorbachev) وہاں کے صدر تھے۔ اُس زمانے میں وہاںآزادی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کے چرچ اور مسجدیں جو پہلے ویران رہا کرتی تھیں، اب وہاں مذہبی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ میںنے اپنے گائڈ سے کہا کہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ روس میں مذہب مر چکا ہے، مگر یہاں تو وہ زندہ حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ گائڈ نے جواب دیا کہ مذہب یہاں ہمیشہ زندہ تھا۔ جو فرق ہوا ہے، وہ صرف یہ کہ پہلے یہاں مذہب اَنڈر گراؤنڈ (underground)تھا، اور اب وہ سامنے آگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور انسان کی فطرت میں آخری حدتک پیوست ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی زبان سے خدا کا انکار کرے، تب بھی خدا کا شعور اس کے دل کے اندر پوری طرح موجود رہتا ہے۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چیف پہلے ایک ملحد کمیونسٹ تھے، مگر اب ان کی دبی ہوئی فطرت جاگ اٹھی ہے۔ انھوںنے خود اِس کا اعتراف کیا ہے۔
برٹش نیوز پیپر ڈیلی ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (20 مارچ2008 ) میں چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گوربا چیف اٹلی کے ایک چرچ میں پہنچے اور وہاں انھوںنے اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کی عبادت کی:
Gorbachev, who had earlier publicly pronounced himself as an atheist, acknowledged his Christian faith while paying a surprise visit to pray at the tomb of St Francis of Assisi in Italy (p.
خدا کا شعور انسان کی فطرت میںاِس طرح شامل ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں منکرین اور ملحدین کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
30 مارچ 2008 کی شام کو دو اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ ایک، مشہور برطانی جنرلسٹ سرمارک تلی (Sir Mark Tully) ، اور دوسرے، برطانیہ کے ایک مسیحی عالم (Bishop of Kingston) ڈاکٹر رِچرڈ (Dr. Richard Cheetham) ۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ چناں چہ اُن سے اسلام کے مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
سرمارک تلی نے کہا کہ اسلام کے اعتقادی نظام میں ایک خدا کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، یا خدا کے وجود کا کوئی سائنسی ثبوت بھی ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میں کوئی عقیدہ محض ادّعائی عقیدہ (dogmatic belief) نہیں ہوتا، اسلام کے اعتقادی نظام فطرت کے اٹل اصولوں پر قائم ہے۔ اِسی کو موجودہ زمانے میں سائنسی بنیاد (scientific base) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ 1920 سے پہلے جو نیوٹنین میکانکس (Newtonian Mecanics) تھی، اس کے مطابق، مادّہ (matter) کی آخری اکائی (unit) ایٹم تھا۔ اُس وقت ایٹم (atom) ناقابلِ تقسیم سمجھا جاتا تھا۔ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر چیز قابلِ مشاہدہ ہے، اِس لیے معقول استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) کے اصول پر مبنی ہو۔
مگر1920 کے بعد نیوکلیر سائنس (nuclear science) میںجو نئی تحقیقات ہوئیں، اس کے نتیجے میںایٹم ٹوٹ گیا۔اب کلاسکل فزکس (classical physics) کی جگہ ویومیکانکس (wave mechanics) وجود میں آئی۔ اِس تبدیلی کا اثر اصولِ استدلال پر پڑا۔ اِس نئی دریافت نے استنباطی استدلال (inferential argument) کی اہمیت بڑھا دی۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول استدلال(valid argument) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔
بنائِ استدلال کی اِس تبدیلی کے بعد خدا کے عقیدے پر استدلال قائم کرنا اتنا ہی ممکن ہوگیا ہے، جتنا کہ الیکٹران پر استدلال قائم کرنا۔ جیسا کہ معلوم ہے، الیکٹران کے وجود کو استنباطی دلیل کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ یہی استنباطی استدلال اب خدا کے وجود کو علمی طورپر ثابت کرنے کے لیے بھی حاصل ہوگیا ہے۔چناںچہ برٹرینڈرسل (وفات: 1970) نے ڈزائن سے استدلال (argument from design) کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، ایک سائنسی استدلال قرار دیا ہے۔
میری اِس بات کو سن کر ڈاکٹر رچرڈ نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ موجودہ طبیعیاتی علماء (physicists) اِس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ کائنات کی حد درجہ معنویت اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ موجودہ کائنات کسی ذہن (mind) کی تخلیق ہے، لیکن علمائِ حیاتیات (biologists) اِس کی تائید نہیںکرتے۔میں نے کہا کہ بطور واقعہ آپ کا کہنا صحیح ہے، لیکن علمائِ حیاتیات کی یہ رائے کسی سائنسی حقیقت پر مبنی نہیں، ان کی یہ رائے تمام تر ایک غلط مفروضے پر قائم ہے۔ چارلس ڈارون (وفات: 1802 ) نے اِس معاملے میں ایک غلط مفروضہ پیش کیا اور پھر تمام لوگوں نے اِس مفروضے کو بطور حقیقت مان لیا۔
ڈارون نے زندگی کے مختلف نمونوں کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اُس نے پایا کہ ہماری زمین پر بہت سی انواعِ حیات(species) پائی جاتی ہیں، مگر ان کے جسمانی ڈھانچے میں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ مثلاً بلّی اور شیر کے ڈھانچے میں مشابہت، بکری اور زرافہ کے ڈھانچے میں مشابہت، انسان اور بندر کے ڈھانچے میں مشابہت، وغیرہ۔ اِن مشابہتوں (similarities) کو لے کر ڈارون نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ یہاں نیچرل سلیکشن (natural selection) کے اصول کے تحت، ایک ارتقائی عمل (evolutionary process) ہواہے۔ اِس ارتقائی عمل کے تحت،ایک نوع دوسری نوع میںخود بخود تبدیل ہورہی ہے۔
میں نے کہا کہ اِس معاملے میں ڈارون کی غلطی یہ تھی کہ اس نے مختلف انواعِ حیات کے درمیان اِن مشابہتوں کی غلط توجیہہ کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشابہتیں زندگی میں تنوّع (varieties) کو بتاتی ہیں، نہ کہ مفروضہ ارتقائی عمل کو۔ ہم متنوّع اقسامِ حیات کو دیکھ رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے تنوع کا نظریہ اپنے آپ ثابت شدہ ہے۔ اِس کے مقابلے میں ارتقائی عمل کا تصور محض ایک قیاس ہے، جس کے حق میںکوئی واقعی ثبوت موجود نہیں۔انھوں نے میری بات سے اتفاق کیا۔
واپس اوپر جائیں
مدرسہ کے بارے میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں دینی تعلیم ہوتی ہے، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مدرسہ مبنی بر اقدار تعلیم (value education) کا ادارہ ہے۔ مدرسہ دراصل اُن قدیم روایات کے تسلسل کا نام ہے، جب کہ تعلیم کا مطلب اخلاقی تعلیم (moral education) ہوتا تھا، جب کہ انسانی اَقدار (human values) کو نصابِ تعلیم کا اہم جز سمجھا جاتا تھا۔
جدید نظامِ تعلیم کے برعکس، مدرسہ میں صرف سبجکٹ پڑھانے کے بجائے کتابوں کے ذریعے مختلف موضوعات کو پڑھایا جاتا ہے۔ اِس طرح اِن مدرسوں میں ابھی تک قدیم کتابوں کی اہمیت باقی ہے۔ قدیم روایات کے مطابق، یہ تمام کتابیں انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اِس طرح مدارس تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کے ادارے بن گئے ہیں۔ اِن مدارس میں سماج کے اچھے شہری تیار کیے جاتے ہیں۔
مدارس کے ماحول میںہمیشہ خدا اور مذہب اور روحانیت کا چرچا رہتا ہے۔ اِس طرح یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ مدارس میں تربیت پاکر جو لوگ تیار ہوں، وہ تعمیری سوچ کے حامل ہوں۔ وہ اجتماعی ذمے داریوں کو سمجھیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) سمجھیں۔ وہ اپنی ذات میں جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ دوسرے انسانوں کا شعور بھی یکساں طورپر رکھتے ہوں۔
مدرسے کے تعلیمی نظام میں مسلسل طورپر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات دہرائی جاتی ہے۔ یہ دونوں تصور مدرسہ کے پورے نظامِ تعلیم میں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر شامل ہیں۔ اِس طرح ہر مدرسہ گویا کہ ایک ایسا ادارہ بن جاتا ہے، جو فنّی تعلیم کے ساتھ انسانی اور اخلاقی کلچر کا مرکزہو۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں قدیم اخلاقی روایات کا تسلسل جن اداروں کے ذریعے قائم ہے، وہ یہی مدرسے ہیں۔ یہ مدرسے قدیم اخلاقی چراغ کو موجودہ زمانے میں بھی جلائے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک سیّاح نے لکھا ہے کہ میںنے دنیا بھر میں مختلف ملکوںکا سفر کیا۔ میںنے پایا کہ دوسری قوموں کے لوگ جہاں جہاں گئے، وہاں انھوں نے بڑے بڑے قلعے بنائے، لیکن مسلمان جب عرب سے نکل کر دنیا کے مختلف ملکوں میں داخل ہوئے تو انھوںنے ہر جگہ مسجدیں بنائیں۔ یہ مسجدیں گویا کہ اسلام کے مراکز ہیں۔ اسلام کی حیثیت ایک غیر سیاسی ایمپائر کی ہے، اور یہ مسجدیں گویا کہ عالمی سطح پر قائم اِس غیر سیاسی ایمپائر کی شاخیں ہیں جو ساری دنیا میں تقریباً ہر شہر اور ہر بستی میں موجود ہیں۔
یہ مسجدیں ایک اعتبار سے اسلام کی عبادت گاہیں ہیں، دوسرے اعتبار سے یہ مسجدیں اسلام کے دعوتی مراکز ہیں۔ اِن مسجدوں کے ذریعے جس طرح عالمی سطح پر نماز کا نظام قائم ہے، اِسی طرح اِن مسجدوں کے ذریعے اسلام کی عالمی دعوت کو منظم کیا جاسکتا ہے۔ خاص طورپر جمعہ اور عیدین کا دن اِس مقصد کے لیے بہت زیادہ موزوں ہے۔ اِن دنوں میں مسلمان بڑی تعداد میں اِن مسجدوں میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ عالمی سیّاح (tourists) بھی اپنے سفر کے دوران اِن مسجدوں میںبرابر آتے رہتے ہیں۔ اِن لوگوں کے ذریعے اسلام کی دعوت تیزی سے عالمی سطح پر پھیل سکتی ہے۔
دعوت، اہلِ ایمان پر اُسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز اُن کے اوپر فرض ہے (البقرۃ:
اِس مقصد کے لیے اسلامی مرکز نے اور گڈ ورڈ (Goodword) نے اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) نے بڑی تعداد میں پمفلٹ اور بروشر خوب صورت انداز میں چھپوائے ہیں۔ اِن میں اسلام کی تعلیمات کو سادہ اور عصری اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ پمفلٹ اور بروشر اردو اور ہندی اور انگریزی زبان میں بڑی تعداد میں دستیاب ہیں۔ مسجدوں کے امام اِس دعوتی مہم میں نہایت آسانی کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں۔ وہ اِس لٹریچر کو منگواکر اپنے یہاں رکھیں اور آنے جانے والے لوگوں کے درمیان اُن کو تقسیم کریں۔ اِس طرح مسجدوں کے امام بیک وقت دو کام کرسکتے ہیں— نماز کی امامت، اور دعوتِ اسلامی کی اشاعت۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ دنیا میں کسی کام کے بننے یا بگڑنے کا اصول صرف ایک ہے۔ جو کام عقلی طورپر غور وفکر کے ذریعے کیا جائے، وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور جو کام جذباتی ردّ عمل کی صورت میں کیا جائے، اُس کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عقلی غور وفکر کے ذریعے کیے ہوئے کام کو مثبت عمل کہہ سکتے ہیں، اور جذبات کے تحت کیے ہوئے کام کو منفی عمل۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جب کہ آدمی کے اندرمنفی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد لالچ اور گھمنڈ، وغیرہ۔ یہ جذبات فوری طور پر آدمی کو شدت کے ساتھ متاثر کرتے ہیں۔ آدمی اگر اِس شدتِ تاثر کے تحت کوئی کام کرنے لگے، تو اِسی کا نام جذبات کے تحت کام کرنا ہے۔ ایسا کام کبھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتا۔ اُس میں حالات کا پورا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس طرح کا کام ہمیشہ بے نتیجہ انجام پر ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی کے اندر جذبات بھڑکیں، وہ کسی صورتِ حال کے نتیجے میںشدت تاثر میں مبتلا ہو، تو وہ فوری طورپر کوئی کارروائی نہ کرے۔ وہ صبر تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے معاملے کے تمام موافق پہلوؤں اور ناموافق پہلوؤں پر غور کرے۔ وہ اپنی عقل کو استعمال کرے اور دوسرے صاحب الرّاے لوگوں سے مشورہ کرے۔ اِس طرح کے ایک صابرانہ کورس سے گزرنے کے بعد وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
پہلا طریقہ گویا کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانے کا طریقہ ہے۔ اور دوسرا طریقہ روشنی میںاپنا سفر طے کرنے کاطریقہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانا ہمیشہ آدمی کو ہلاکت تک پہنچاتا ہے۔ اور روشنی میں سفر کا طریقہ ہمیشہ آدمی کو کامیابی تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔عقل اور جذبات دونوں فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہیں، مگر عقل کی حیثیت رہ نماکی ہے، اور جذبات کا کام یہ ہے کہ وہ عقل کی رہ نمائی میں زندگی کا سفر طے کرے۔ جذبات کو اگر رہ نما کی حیثیت دے دی جائے تو اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیںہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
ایک بار میں ایک فیکٹری کو دیکھنے کے لیے گیا۔میں اس کے مینیجر کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِس اثنا میں فیکٹر ی کا ایک کارکن کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کہا: سر، پانی کی سپلائی رک گئی ہے۔ ہمارا کام بند ہوگیا ہے۔ مینجر نے یہ بات سنی تو اس نے تقریباً چیخ کر کہا: پرابلم مت لاؤ، سلیوشن لاؤ۔ کارکن واپس گیا اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ واپس آیا۔ اس نے کہا کہ میںنے ساتھیوں سے مشورہ کیا، سب کا کہنا یہ ہے کہ کارپوریشن کے واٹر سپلائی کے بجائے، یہاں بورِنگ کرکے خود اپنا پانی کا انتظام ہونا چاہئے۔ اِس کے بعدمینیجر نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی ٹھیکے دار سے کہا کہ ہماری فیکٹری میں بورنگ کی ضرورت ہے۔ آپ آج ہی اُس کا کام شروع کردیں۔ اگلے دن فیکٹری میں پانی کا ذاتی انتظام ہوچکا تھا۔
یہی کام کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں، یا آپ کسی کمپنی میں کام کررہے ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کا کام شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ آپ ذمے داروں کے پاس نہ شکایت لے جائیے اور نہ احتجاج۔ آپ ان کو بتائیے کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے۔ اور پھر آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جائیں گے۔
اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں اور آپ وہاں کسی بات کو لے کر شکایت کرتے ہیں، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں ایک غیر جانب دار شخص بن کر رہ رہے ہیں۔ لیکن جب آپ مسئلے کا حل بیان کریں، تو آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جاتے ہیں۔ اب ادارہ آپ کو غیر کی نظر سے نہیں دیکھے گا، بلکہ اپنی تنظیم کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھے گا۔ یہی زندگی کا صحیح طریقہ ہے۔ اِسی طریقے میںآپ کی اپنی کامیابی بھی ہے، اور ادارے کی کامیابی بھی۔
کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنادے۔ وہ دوسروں کے لیے سرمایہ (asset) بن جائے، نہ کہ بوجھ (liability) ۔ یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اِس کے سوا اِس دنیا میں کامیابی کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک ہندستانی نوجوان بزنس کے لیے باہر کے ایک ملک میں گئے۔ یہ بیرونِ ملک کے لیے ان کا پہلا سفر تھا۔ دو ہفتے کے بعد وہ اپنے سفر سے واپس آئے۔ میںنے پوچھا کہ آپ نے اپنے اِس بیرونی سفر میں سب سے بڑا تجربہ کیا حاصل کیا۔ انھوں نے ایک لمحہ سوچا اور اس کے بعد کہا— یہ کہ آج کی دنیا میں انا کے لیے کوئی جگہ نہیں:
Ego has no place in the world.
یہ بے اہم بات ہے۔ ایک آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر کے ماحول میں لاڈ پیار (pampering) کے ماحول میں رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گھر کے اندر اس کی شخصیت ہی مرکزی شخصیت ہے۔ دوسرے لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہے۔ گھر کے ماحول میں اس کی انا (ego) ہی مرکزی شخصیت کا درجہ رکھتی ہے۔
لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بالکل مختلف ماحول ہے۔ یہاں مکمل طورپر مقابلہ اور مسابقت (competition) کا ماحول ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے، وہ اُس کے ذاتی جوہر (merit) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ انسان کے ذاتی جوہر کے سوا، کسی اور چیز کی یہاںکوئی قیمت نہیں۔ باہر کی دنیا مکمل طورپر اِس اصول پر قائم ہے— مقابلہ کرکے جیو، یا مر جاؤ:
Compete, or perish
یہ زندگی کی ایک سنگین حقیقت ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کو اِس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ماں باپ کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اِس آنے والے امتحان کے لیے تیار کریں۔ اِس معاملے میںکوئی بھی دوسری چیز ذاتی تیاری (self-pereparation) کا بدل نہیں بن سکتی۔
ذاتی تیاری ہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو مقابلے کی اِس دنیا میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ موجودہ دنیا حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی غیر حقیقی بنیاد پر کامیابی کا حصول اِس دنیا میں ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے لیے زندگی کا کامیاب فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے — آخرت کے لیے غم، اور دنیا کے لیے بے غم۔ یہی انسان کے تمام معاملات کا خلاصہ ہے۔ یہی واحد طریقِ زندگی (way of life) ہے جس میں انسان اپنے لیے سکون پاسکتاہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انسان اپنی پوری ساخت کے اعتبار سے چاہتا ہے کہ کوئی چیز ہو جس کو وہ اپنا اصل کنسرن (sole concern) بنائے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی (energy)صرف کرے۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اور کوئی بھی شخص اِس فطری تقاضے سے خالی نہیں۔
انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش ایک مادّی دنیا (material world)پھیلی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اِس مادّی دنیا کے حصول کو اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہے۔ وہ اُس کے حصول کے لیے رات دن کوشش کررہا ہے۔ اِس ماحول میں ہر پیدا ہونے والا آدمی وہی کرنے لگتا ہے جو دوسرے عورت اور مرد کررہے ہیں۔
مگر اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ ہر آدمی ساری جدوجہد کے باوجود اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرپاتا اور مایوسی (despair) کے احساس میں مرجاتا ہے۔ اِس دنیا میںبیماری، حادثہ ، بڑھاپا، نقصانات اورموت، فیصلہ کُن طورپر اِس راہ میں رکاوٹ ہیں کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی طلب کی تکمیل کرسکے۔
یہ عمومی نتیجہ ہر عورت اور مرد کے لیے ایک رہ نما واقعہ ہے۔ یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ فطرت کی طلب کی تکمیل (fulfillment) موجودہ دنیا میں ممکن نہیں، اس کے حصول کا مقام آخرت ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا فارمولا صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنائے، اور موجودہ دنیا کے معاملے میں وہ بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے— دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجانا، اور آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنا لینا، یہی اِس دنیا میں کامیاب زندگی کا فارمولا ہے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
الرسالہ، مارچ 2008 ملا۔ یوں تو میں الرسالہ کا دس سال سے زائد مدت سے مطالعہ کرتا آرہا ہوں اور ہر مضمون سے الحمد للہ نفع حاصل ہوتا ہے، لیکن اِس ماہ کے الرسالہ میں مضمون ’’جھوٹ کی دو قسم‘‘ ایک چشم کشا (eye opener) مضمون ثابت ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ گویا اب تک اپنی زندگی کا بہت بڑا حصّہ میں نے جھوٹ کی بنیاد پر قائم کررکھا تھا۔ اللہ آپ کو اِس نصیحت اور خیر خواہی کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اب میری کوشش ہے کہ میں ہر حال میں کذبِ خفی سے بچوں۔ اللہ سے اس کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔
مضمون کے آخری حصہ، جس میں کذب خفی کا انجام، کمزور شخصیت، کی شکل میں ظاہر ہونا لکھا گیا ہے،اس نے بھی خاص طورپر متاثر کیا۔ ابھی تک منافقانہ شخصیت کا جو تصور ذہن میں بناہوا تھا، اس کے اندر کافی تبدیلی آگئی۔ کذب خفی بھی منافقانہ شخصیت کی پرورش کرتا ہے، اس کا علم پہلی بار ہوا۔ اب تو میں سمجھتا ہوں کہ کذب خفی سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیاہے ،جس طرح ہر ایمان والے کے لیے منافقانہ صفات سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے (ساجد انور، مہاراشٹر)۔
جواب
حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں—شرکِ جَلی اور شرکِ خفی۔ اِس پر قیاس کرکے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِسی طرح کذب کی بھی دو قسمیں ہیں— کذبِ جلی، اور کذبِ خفی۔ جہاں تک کذبِ جلی کا معاملہ ہے، وہ ایک معلوم بات ہے۔ ہر آدمی بہ آسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ کون سا بیان کذبِ جلی کی تعریف میں آتا ہے۔ البتہ کذبِ خفی کو صرف سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
کذبِ خفی تقریباً وہی چیز ہے جس کو ٹو ِسٹ (twist) کرنا کہتے ہیں، یعنی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا۔ یہ عمل آدمی خاص طورپر دو مقصد سے کرتا ہے۔ کسی معاملے میں جب آدمی کی اپنی ذات زد میں آرہی ہو، تو وہ بات کو اِس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی اپنی ذات پر کوئی حرف نہ آئے۔ اِسی طرح جب ایک آدمی دوسرے شخص کو بدنام کرنا چاہے، تو وہ اس کی بات کو صحیح صورت میں نہ پیش کرکے، بدلی ہوئی صورت میں پیش کرتا ہے۔ جیسے کہ کہاجاتا ہے — اخبار نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
ٹوسٹ کرکے بات کو پیش کرنے کا طریقہ موجودہ زمانے میں اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید ہی کوئی انسان اِس برائی سے بچا ہوا ہو۔
اِس معاملے کوجاننے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ضمیر (conscience) سے اِس کو دریافت کرے۔ کوئی عورت یا مرد جب کسی بات کو ٹوسٹ کرکے کہتے ہیں، تو ان کا ضمیر فوراً اس کی خلش محسوس کرنے لگتا ہے۔ ضمیر اپنی خاموش زبان میں کہتا ہے کہ تم اِس معاملے میں صاف گوئی سے کام نہیں لے رہے ہو، بلکہ تم اس کو بدلی ہوئی صورت میں پیش کررہے ہو۔ آدمی اگر اپنے ضمیر کی اِس آواز کو سنے، تو یہ آواز ہی اِس معاملے میں اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
سوال
میںالرسالہ کا پچھلے
میرے محلّے کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے میری بیٹی کے گھرڈلیوری ہونے والی تھی، میرے داماد پرمحلے کی جماعت کے ساتھیوں نے چار مہینہ جماعت میں لے جانے کے لیے زور دیا۔ اس پر میں نے یہ بات جماعت والوںکو بتائی تو انھوں نے کہا کہ سب اللہ اچھا کرے گا۔ ایسا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوںبعد میری لڑکی کی طبیعت خراب ہوگئی۔پھر میں اس کو اپنے گھر لایا اور اسپتال میں بھرتی کرایاجس میں مجھے قریب 17000 روپئے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ نہیں تو میری بچّی کی جان خطرے میں تھی۔
یہ بات جب میںنے اپنے داماد کو جماعت سے واپس آنے پر بتائی تو وہ میرا احسان ماننے کے بجائے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور 17000میں سے ایک پیسہ بھی مجھے نہیںدیا۔ تب سے مجھے جماعت کے نام سے نفرت ہوگئی ہے۔یہ بات مذکورہ صاحب نے مجھے اُس وقت بتائی جب میں نے ان سے فجر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت پوچھا کہ آج کل آپ تعلیم میں کیوں نہیں بیٹھتے۔ اسی طرح کے اور بھی واقعات ہیں۔
اصل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھیڑ دیکھ کر آدمی اُس سے جڑ تو جاتا ہے لیکن وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد جب میرے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہوا تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ آپ لوگ صبح شام ایک ہی کتاب پڑھتے رہتے ہیں اور وہ فضائل اعمال ہے۔ اور بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی۔ حالاں کہ آپ کا طریقہ تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے اور قر آن سے ہی دعوت دیتے تھے، جب کہ ان کی مخاطب قوم تو جہالت کی حد پر تھی۔ پھر جب وہ قوم قرآن کے ذریعے ہمارے لیے نمونہ بنا دی گئی تو ہمیں جھوٹے فضائل کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ جس دین میں خدا کی کتاب ہی کاوجود نہیں، وہ دین کیسا۔
میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جوا ب نہیں تھا۔ لہذا وہ کسی مفتی سے یہ جواب لے کر آئے کہ قرآن کو صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں، عام مسلمان اس کو پڑھنے سے بھٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے جماعت کے آدمی کا ذہن ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ خود کسی بات پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچ نہیں پاتا۔ بس ایک بات یا جملہ ان کے بڑوں نے کہہ دیا تو وہ پتھر کی لکیر ہوگئی، صحیح ہے یا غلط اس پر کسی کو عقل لگانے کی ضرورت نہیں۔
میرے ساتھ اللہ کا یہ بڑا احسان ہوا جو اس نے مجھے الرسالہ کے ذریعہ اس گمراہی سے باہر نکال لیا۔اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میںخود الرسالہ پڑھتاہوں،بلکہ الرسالہ کی اردو اور انگریزی کاپیاں اپنے ساتھ بیگ میں ہمیشہ رکھتا ہوں اور اپنے آفس میں، اور دوستوں کو پڑھنے کے لیے دیتا رہتا ہوں۔ ابھی فی الحال میںنے ایسا کیا ہے کہ میں اپنے رشتہ داروں کے ایڈرس الرسالہ آفس میں ڈی ڈی کے ساتھ بھیجنا شروع کیا ہے اور ایک سال کا الرسالہ مذکورہ لوگوں کے لیے جاری کرایا ہے۔ الرسالہ کے ساتھ ساتھ آپ کی ساری کتابیں بھی میں مسلسل پڑھ رہا ہوں اور اس سے مجھے غیر معمولی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جو مسلسل الرسالہ اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے۔ لیکن ایک غلطی کی تلافی کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میری شادی 2004 میں ہوئی، اس میں میری سسرال والوں نے مجھے کافی جہیز دیا جس میں دوسری چیزوں کے ساتھ10 تولا سونا بھی موجود ہے۔ اس وقت تو میں نے ان کو منع کیا تھا کہ آپ یہ سب چیزیں نہ دیں، لیکن وہ نہیں مانے۔ ظاہر ہے کنڈیشنڈ مائنڈ ہونے کی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا اور میں بھی یہ سارا سامان لے کر گھر چلا آیا۔ اب جیسا کہ آپ کی تحریریں مسلسل پڑھنے سے میری ڈی کنڈیشننگ ہورہی ہے تو خدا کی پکڑ اور آخرت کے ڈر سے میں یہ سوچ کر پریشان ہورہا ہوں کہ یہ چیز کہیں آخرت میں گھاٹے کا سبب نہ بن جائے۔ آپ مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ کیا مجھے اس کی رقم اپنے سسر کو واپس کرنا چاہیے یا پھر اس کی اور کوئی دوسری صورت ہے جس سے اس کی تلافی ہوسکے۔
قرآن میںجو خدا کی عظمت اور اس کے جلال کا، جنت کا، جہنم کا، قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے، اس کو پڑھنے کے بعد میں زیادہ تر اسی کے بارے میں سوچتا رہتاہوں۔ کبھی کبھی تو میں آفس میں کام کرتا رہتا ہوں اور پھر اچانک مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنا زیادہ وقت تو دنیا کمانے میں نہیں لگا رہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے میں کام کرتے کرتے رک جاتا ہوں اور اِس پر دیر تک بیٹھا سوچتا رہتاہوں۔ یہ معرفت مجھے الرسالہ کے ذریعہ ہی سے حاصل ہوئی ہے۔
میں2003 میں آپ سے آپ کی رہائش گاہ پر ملاتھا۔ میں نے الرسالہ میں جو کچھ پڑھا تھا، آپ کی شخصیت میں اس کو عملاًویسا ہی پایا۔ جس سنجیدگی کی بات آپ کرتے ہیں وہ آپ کے چہرے پر صاف دکھائی دیتی ہے۔ آپ سادگی اور سنجیدگی کی ایک مثال ہیں جو اسی آدمی کی اصلاح کا ذریعہ بنے گی جس کے اندر حقیقت پسندی والا ذہن ہو، جو باتوں کو اپنے ذاتی خول سے باہر نکل کر صرف اصول کی بنا پر حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو (شکیل احمد، اندور)۔
جواب
1 - تبلیغی جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذمے داروں نے عوام کے اندر دینی شوق پیدا کرنے کے لیے اس کام کو شروع کیا۔ انھوںنے محسوس کیا کہ عوام زیادہ گہری باتوں کو سمجھ نہیںسکتے، اِس لیے انھوںنے فضائل کی روایات کے اوپر اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔
عوام کی اصلاح کے اعتبار سے یہ طریقہ مفید ہوسکتا ہے، لیکن بعد کو یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذمّے داروں نے اپنے طریقِ کار کو بدلے بغیر، خواص کو اپنے دائرۂ عمل میں شامل کرلیا۔ تبلیغی جماعت کی یہ توسیع الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیوں کہ فضائل کی روایتیں عوام کو متاثر کرسکتی تھیں، لیکن خواص کا ذہن اس سے ایڈریس نہیں ہوتا تھا۔ چناں چہ خواص، تبلیغی جماعت سے قریب ہونے کے بعد جلد ہی اس سے دور ہونے لگے۔
خواص کی یہ دوری سادہ طور پر تبلیغ سے دوری نہ تھی، بلکہ عملاً وہ دین سے دوری کا سبب بن گئی۔ خواص یہ سمجھنے لگے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عوام کی ضرورت کو تو پوری کرتا ہے، لیکن اس میں خواص کے لیے اطمینان کا سامان نہیں۔ دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان جو پہلے تبلیغی جماعت سے قریب ہوئے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہوکر اُس سے دور ہوگئے۔ انھوںنے اِس معاملے کو بتاتے ہوئے یہ بامعنیٰ جملہ کہا— تبلیغ والوںنے پہلے میواتیوں کو مسلمان بنایا، اب وہ مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔
2 - جہیز کے سلسلے میں عرض ہے کہ شادیوں میں جہیز کاموجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک بدعت ہے۔ اِس اعتبار سے جہیز کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے۔ لیکن ملے ہوئے جہیز کا معاملہ اِس سے الگ معاملہ ہے۔ اس کی واپسی کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ممکن ہو تو آپ اس کو کسی تعمیری کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً اپنے لیے گھر بنانا، وغیرہ۔
سوالات کے سلسلے میں ایک اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ ایک صحابی کہتے ہیں: نُہینا عن کثرۃ السؤال ( صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) یعنی ہم کو زیادہ سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس لیے کہ سوال کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ آدمی خود غور و فکر کرنے کے بجائے کسی دوسرے سے اپنے سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے۔ آپ مطالعہ کیجیے اور سوچنے کی عادت ڈالیے، اور کامن سنس (common sense)استعمال کیجیے، آپ کو خود ہی اپنے سوال کا جواب معلوم ہوجائے گا۔
سوال
علوم قطعیہ نے کلّی طورپر یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف دماغ ہی تمام جذبات و احساسات اور غور وفکر کا مرکز ہے۔ جب کہ ہم اب بھی ایک خاص طریقے پر کچھ مخصوص کلمات کا ورد کرکے قلب پر ضرب لگاکر تطہیر قلب کا دعویٰ کرتے ہیں اور بشمول افرادِ خانہ، محلے کے لوگوں کی نیند خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بجائے جدید منطق کے پیش نظر، تطہیر دماغ کے لیے آپ ہیمرنگ (hammering) کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار کیا ہو، اس کی وضاحت فرمائیے (محمد جمیل اختر، کشن گنج، بہار)۔
جواب
ذکر بالجہر کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی کا دل اس کے تمام احساسات کا مرکز ہے،بُرے احساسات کا بھی اور اچھے احساسات کا بھی۔ کوئی آدمی جب بلند آواز سے لاإلٰہ کہہ کر اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کے دل سے تمام بُرے احساسات نکل جاتے ہیں۔ اور پھر جب وہ بلند آواز سے إلاّ اللہ کہہ کر دوبارہ اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کا دل تمام اچھے احساسات سے بھر جاتا ہے۔قدیم ر وایتی دور میں ایک مفروضہ کے طورپر اِس کو مان لیا گیا تھا، لیکن موجودہ سائنسی دور میں یہ نظریہ بے بنیاد (baseless)ثابت ہوچکا ہے۔ اب دل پر ضرب لگانا، ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی پر ضرب لگانا۔
دین میں تزکیہ بلا شبہہ ایک مطلوب عمل ہے۔ تزکیہ کا یہ عمل ذہن کی سطح پر انجام پاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کا ذہن ہی ہر قسم کے افکار اور احساسات کا مرکز ہے۔ ایک حدیث کے مطابق، ہر انسان اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اُسی میں آدمی کے ذہن کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اِس ذہنی کنڈیشننگ کو ’’ضرب‘‘ کا موضوع بنایا جائے، یعنی فکری ضرب (intellectual beating) کے ذریعے اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کی جائے۔ اِسی فکری ضرب کا دوسرا نام فکری ہیمرنگ (intellectual hammering) ہے۔
سوال
آپ کی مایہ ناز کتاب ’’مسائلِ اجتہاد‘‘ واقعی حکمت کا مخزن ہے۔صفحہ
جواب
مذکورہ کتاب میںاکبر کی مثال ایک معیاری مسلمان کی حیثیت سے نہیں دی گئی ہے۔ اِس مضمون کا مقصد اکبر کی مجموعی زندگی پر رائے دینا نہیں ہے، بلکہ اکبر کی زندگی کے صرف ایک مثبت پہلو کو بتانا ہے۔ اوراِس قسم کا مثبت پہلو کسی بھی شخص کی زندگی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کا سوال اِس معاملے میں غلو پسندی کی ایک مثال ہے۔ حالاں کہ غلو اسلام میں نہیں (لا غُلوّ فی الإسلام)۔ غلو دراصل انتہا پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اور انتہا پسندی ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہٰذا الدین بالرّجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اگر کسی پہلو سے ’’فاجر‘‘ ہو، تب بھی وہ کسی اور پہلو سے اسلام کے حق میں تائید کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ اگر کسی آدمی کی زندگی میں کوئی فجور کا پہلو ہو، تو اِس پہلو سے اس کے لیے دعا کریں۔ اور اگر اس کی زندگی میں کسی اعتبار سے کوئی مفید پہلو ہو تو اس کا اعتراف کریں۔ یہی صحیح اسلامی اسپرٹ ہے۔
سوال
عرض خدمت ہے کہ راقم نے ایک نہایت ہی اہم موضوع پر اپنی اولین تحقیقی کتاب بنا م ’’قرآن عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفہ کائنات‘‘ تصنیف کی ہے، جس کا مسودہ حاضر خدمت ہے۔ جیساکہ سرورق سے عیاں ہے، اس کتاب میں خارج از زمین زندگی اور خود انسان اور کتاب الٰہی کی حقیقت پر جدید قرآنی بصائر کو منکشف کرتے ہوئے عالم انسانی پر قرآن مجید کے عظیم ترین علمی اعجاز کی نقاب کشائی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تحقیق کی عوامی سطح پر اشاعت سے قبل میںاس پر عالمِ اسلام کے چند منتخب اہلِ علم اور علمی و دینی مراکز کے تاثرات حاصل کرنا چاہ رہا ہوں، جن میں آںجناب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ لہذا آںجناب سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ موضوع کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اولین فرصت میں اس پر اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار فرمایا جائے (سعید الرحمن ندوی، بنگلور)۔
جواب
آپ کی کتاب (قرآنِ عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفۂ کائنات) کا مسوّدہ موصول ہوا۔ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن کی آفاقیت کا تعلق صرف موجودہ زمین پر آباد انسانوں سے نہیںہے، بلکہ اس کا تعلق یکساں طورپر کائنات میں موجود دوسرے سیاروں پر آباد امکانی مخلوقات سے بھی ہے۔ قرآن ان مخلوقات کے لیے بھی کتابِ ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ عرض یہ کہ مجھے آپ کے اِس نظریے سے اتفاق نہیں ہے۔ قرآن بلا شبہہ ایک آفاقی کتاب ہے، لیکن اُس کی آفاقیت کا تعلق موجودہ سیّارۂ زمین سے ہے، نہ کہ بقیہ کائنات میں دوسرے مفروضہ سیّاروں سے۔
قرآن کی دعوتِ عام ہمارے اوپر فرض ہے، لیکن اِس کا تعلق موجودہ زمین پر بسنے والے انسانوں سے ہے، نہ کہ کائنات کے کسی اور سیارے پر آباد مفروضہ مخلوقات سے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین پر جو انسان آباد ہیں، اُن کو قرآن کا پیغام پہنچائیں، اُن کے لیے قرآن کی دعوت کو قابلِ فہم بنائیں اور اس مقصد کے لیے تمام ضروری وسائل اختیار کریں۔ آپ نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ صرف ایک مفروضہ بحث ہے۔ اس کا تعلق نہ ہماری ذمّے داری سے ہے، اور نہ کسی معلوم حقیقت سے۔ میںآپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے نظریات کی بنیاد مسلّمات پر قائم کریں، نہ کہ مفروضات پر۔
آپ کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ استنباط کہاجاسکتاہے، لیکن یہ استنباط کوئی معقول استنباط (valid inference) نہیں۔ کیوں کہ اصولِ استدلال کے مطابق، معقول استنباط وہ ہے جوکسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم کیاگیا ہو۔ ایک ایسا واقعہ جو خود ثابت شدہ نہ ہو، اس کی بنیاد پر کوئی معقول استنباط نہیں کیا جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں
Al-Risala is the only book which gives the life style to all humankind. This is the Great monthly magzine that I read in my life. It provides us the right thought, right direction of life. I pray to God that you continue to go on like. (Rafeeq Ahmad, Canada)
2 - نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام پرگتی میدان (نئی دہلی) میں ہر دوسال پر ایک ورلڈ بک فئر لگتا ہے۔ اِس سال یہ بک فئر 2 فروری سے 10 فر وری 2008 تک کے لیے تھا۔ گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے اِس میں اپنا اسٹال لگایا۔ یہ اسٹال اردو اور انگریزی کے دونوں ہال میں لگایا گیا تھا۔ دونوں اسٹال سے لوگوں نے کافی تعداد میں صدر اسلامی مرکز کی کتابیں خریدیں اور بہت کم قیمت پر ہندی اور انگر یزی ترجمۂ قرآن حاصل کیا۔ ہمالین پیس اینڈ ویلفئر ٹرسٹ (راجوری، جمّوں) نے بڑی تعداد میں یہاں سے قرآن خرید کر غیر مسلم حضرات کے درمیان ہدیۃً تقسیم کیا۔ 9 فروری 2008 کو صدر اسلامی مرکز نے بک فئر میں آکر دونوں اسٹال کا معائنہ کیا۔ اِس سے اسٹال پر موجودکارکنان اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے ممبران کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔
3 - ایک خط: برادرم محمد ذکوان ندوی حرّسک اللہ من أعین الحسد! السلام علیکم ورحمۃ اللہ، ماہ نامہ الرسالہ کا تازہ شمارہ (جنوری 2008 ) موصول ہوا۔ بہت بہت شکریہ۔ مزید شکریہ اِس بات کا کہ آپ نے میرے نام ایک سال کے لیے الرسالہ جاری کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ میں تو زمانہ ٔ طالب علمی سے محترم مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی تحریروں کو پڑھتا رہا ہوں۔ میرے دل میںاِن تحریروں کی بہت قدر ہے، میںان کا بہت مداح ہوں۔عصری اسلوبِ نگارش کا مالک یہ مفکر، جدید ہندستان اور عالمِ اسلام میںایک عظیم معمار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندستان کے ایک سطحی حلقے نے مولانا کی مخالفت محض اِس بنیاد پر کی ہے کہ یہ شخص عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کیوں گفتگوکرتا ہے، یا روایتی قسم کے لوگوں کے خاص اندازِ فکر سے ہٹ کر وہ کیوں سوچتا ہے۔ مگر بادِ مخالف، دعوت اور ربانیت کے اِس چراغِ ہدایت کو ہر گز بجھا نہیں سکتی۔ میںذاتی طورپر نہ صرف مولانا کا قائل ہوں بلکہ جدید ذہن کو اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنے کے حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات کا کھلے دل سے معترف بھی ہوں۔ مولانا سے اِس نیاز مند کا سلام عرض کیجیے۔ خدا آپ کو راہِ دعوت میں ثابت قدم رکھے (مولانا محمد احمد بیگ ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ،
I am in receipt of your Al-Risala for the month of March 2008 first time. Many many thanks for that. I have gone through the magazine, it's a very good collection of informative articles and very beautiful and effective response to the present problems of the Muslim Ummah. This is the call of the times. even the caption on the front page give us a great food for thought. I hope now insha-Allah we will get Al-Risala regularly. If you need any sort of co-operation from me please do not hesitate to write, I am always at your disposal. Please convey my Salam to your family Members and co-workers. (Muhammad Omer Khan, General Secretary, Bengal Educational & Social Trust, Kolkata)
5 -مسلم یونی ورسٹی (علی گڑھ) میں
Commercialization and Value System.
اِس پروگرام میںشرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کو خصوصی دعوت نامہ موصول ہوا اور کئی ٹیلی فون آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے وہ اِس پروگرام میں شریک نہ ہوسکے، البتہ مذکورہ موضوع پر ایک تحریری مقالہ منتظمین کو بھیج دیا گیا۔ یہ مقالہ انگریزی کے گیارہ سو الفاظ پر مشتمل تھا۔
6 - امریکا میں کرسچین بردرس (Christian Brothers) کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے۔ اِس تنظیم کے تقریباً 10 افراد
7 - امریکا میں کرسچن بردرس (Christian Brothers) کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی شریک ہیں۔ اِس تنظیم کے
8 - اسٹار نیوز (Star News) کی ٹیم نے
9 - خدا کے فضل سے الرسالہ مشن اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے ذریعے مسلسل طورپر دعوت الی اللہ کا کام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک واقعہ مارچ 2008 میں سامنے آیا ہے۔ اس کو یہاںنقل کیا جارہا ہے۔ بنگلور میں الرسالہ کے دعوتی حلقے سے جڑے ہوئے ایک ساتھی نے یہ طے کیا کہ وہ مختلف شہروں میں جاکر الرسالہ کا دعوتی لٹریچر پھیلائیں۔ اِس سلسلے میں انھوںنے مقامی حلقے کے ایک ساتھی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک سکنڈ ہینڈ کار (van) کا انتظام کردیں، تاکہ میں اُس پر دعوتی میٹریل رکھ کر اس کے ذریعے مختلف شہروں کا سفر کروں، اور وہاں پر آبادانسانوں تک خدا کا پیغام پہنچاؤں۔ مذکو رہ ساتھی نے جب یہ بات سنی، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ انھوںنے کہا— اپنے لیے نئی کار اور خدا کے کام کے لیے سکنڈ ہینڈ کار۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اِس کے بعد انھوںنے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ کار کے شو روم میں جائیں اور وہاں جو کار آپ کو اپنے مقصد کے اعتبار سے پسند آئے، اس کو خرید لیں۔ اِس کے بعد انھوںنے ایک نئی کار (van) کی قیمت ان کو دے دی۔ اب اِس کارکے ذریعے مختلف شہروں میں دعوتی لٹریچر عام کیا جارہا ہے۔ لوگ بہت دل چسپی اورشوق کے ساتھ وہاں سے دعوتی لٹریچر حاصل کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.