سوال وجواب
سوال
الرسالہ، مارچ 2008 ملا۔ یوں تو میں الرسالہ کا دس سال سے زائد مدت سے مطالعہ کرتا آرہا ہوں اور ہر مضمون سے الحمد للہ نفع حاصل ہوتا ہے، لیکن اِس ماہ کے الرسالہ میں مضمون ’’جھوٹ کی دو قسم‘‘ ایک چشم کشا (eye opener) مضمون ثابت ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ گویا اب تک اپنی زندگی کا بہت بڑا حصّہ میں نے جھوٹ کی بنیاد پر قائم کررکھا تھا۔ اللہ آپ کو اِس نصیحت اور خیر خواہی کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اب میری کوشش ہے کہ میں ہر حال میں کذبِ خفی سے بچوں۔ اللہ سے اس کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔
مضمون کے آخری حصہ، جس میں کذب خفی کا انجام، کمزور شخصیت، کی شکل میں ظاہر ہونا لکھا گیا ہے،اس نے بھی خاص طورپر متاثر کیا۔ ابھی تک منافقانہ شخصیت کا جو تصور ذہن میں بناہوا تھا، اس کے اندر کافی تبدیلی آگئی۔ کذب خفی بھی منافقانہ شخصیت کی پرورش کرتا ہے، اس کا علم پہلی بار ہوا۔ اب تو میں سمجھتا ہوں کہ کذب خفی سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیاہے ،جس طرح ہر ایمان والے کے لیے منافقانہ صفات سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے (ساجد انور، مہاراشٹر)۔
جواب
حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں—شرکِ جَلی اور شرکِ خفی۔ اِس پر قیاس کرکے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِسی طرح کذب کی بھی دو قسمیں ہیں— کذبِ جلی، اور کذبِ خفی۔ جہاں تک کذبِ جلی کا معاملہ ہے، وہ ایک معلوم بات ہے۔ ہر آدمی بہ آسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ کون سا بیان کذبِ جلی کی تعریف میں آتا ہے۔ البتہ کذبِ خفی کو صرف سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
کذبِ خفی تقریباً وہی چیز ہے جس کو ٹو ِسٹ (twist) کرنا کہتے ہیں، یعنی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا۔ یہ عمل آدمی خاص طورپر دو مقصد سے کرتا ہے۔ کسی معاملے میں جب آدمی کی اپنی ذات زد میں آرہی ہو، تو وہ بات کو اِس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی اپنی ذات پر کوئی حرف نہ آئے۔ اِسی طرح جب ایک آدمی دوسرے شخص کو بدنام کرنا چاہے، تو وہ اس کی بات کو صحیح صورت میں نہ پیش کرکے، بدلی ہوئی صورت میں پیش کرتا ہے۔ جیسے کہ کہاجاتا ہے — اخبار نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
ٹوسٹ کرکے بات کو پیش کرنے کا طریقہ موجودہ زمانے میں اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید ہی کوئی انسان اِس برائی سے بچا ہوا ہو۔
اِس معاملے کوجاننے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ضمیر (conscience) سے اِس کو دریافت کرے۔ کوئی عورت یا مرد جب کسی بات کو ٹوسٹ کرکے کہتے ہیں، تو ان کا ضمیر فوراً اس کی خلش محسوس کرنے لگتا ہے۔ ضمیر اپنی خاموش زبان میں کہتا ہے کہ تم اِس معاملے میں صاف گوئی سے کام نہیں لے رہے ہو، بلکہ تم اس کو بدلی ہوئی صورت میں پیش کررہے ہو۔ آدمی اگر اپنے ضمیر کی اِس آواز کو سنے، تو یہ آواز ہی اِس معاملے میں اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
سوال
میںالرسالہ کا پچھلے 5-6 سال سے مسلسل مطالعہ کررہا ہوں اور الرسالہ کی ہر بات سے اتفاق رکھتا ہوں۔ الرسالہ میںاسلامی تعلیمات کو اِس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کے مائنڈ کو ایڈرس کرتی ہیں۔ یہ طریقہ کہیں اور دیکھنے اور سننے میں نہیںآتا۔ میں شروع میں تبلیغی جماعت سے جڑا تھا اور 4-5 بار 3-3 دن بھی لگایا۔ لیکن اس کے بعد جب الرسالہ مجھے ملا اور میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو میری سوئی ہوئی فطرت جاگ اٹھی۔ یہ تجربہ مجھے جماعت میں جانے سے نہیں ہوا تھا۔ تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے کی بات پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ طریقہ امت کے عوام طبقہ کے لیے درست ہوسکتا ہے، جس کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہیں کہ دین کیا ہے، خدا، رسول اور آخرت کیا ہے۔ لیکن اب میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ عوام ہوں یا خواص، تبلیغی جماعت میں جڑنے کے بعد مسلمان ذہنی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سے باہر کسی بات پر سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اِس لیے کہ اس میں کچھ گنی چنی باتوں کو دہرایا جاتا ہے اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے، بنا کسی دلیل کے۔
میرے محلّے کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے میری بیٹی کے گھرڈلیوری ہونے والی تھی، میرے داماد پرمحلے کی جماعت کے ساتھیوں نے چار مہینہ جماعت میں لے جانے کے لیے زور دیا۔ اس پر میں نے یہ بات جماعت والوںکو بتائی تو انھوں نے کہا کہ سب اللہ اچھا کرے گا۔ ایسا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوںبعد میری لڑکی کی طبیعت خراب ہوگئی۔پھر میں اس کو اپنے گھر لایا اور اسپتال میں بھرتی کرایاجس میں مجھے قریب 17000 روپئے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ نہیں تو میری بچّی کی جان خطرے میں تھی۔
یہ بات جب میںنے اپنے داماد کو جماعت سے واپس آنے پر بتائی تو وہ میرا احسان ماننے کے بجائے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور 17000میں سے ایک پیسہ بھی مجھے نہیںدیا۔ تب سے مجھے جماعت کے نام سے نفرت ہوگئی ہے۔یہ بات مذکورہ صاحب نے مجھے اُس وقت بتائی جب میں نے ان سے فجر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت پوچھا کہ آج کل آپ تعلیم میں کیوں نہیں بیٹھتے۔ اسی طرح کے اور بھی واقعات ہیں۔
اصل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھیڑ دیکھ کر آدمی اُس سے جڑ تو جاتا ہے لیکن وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد جب میرے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہوا تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ آپ لوگ صبح شام ایک ہی کتاب پڑھتے رہتے ہیں اور وہ فضائل اعمال ہے۔ اور بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی۔ حالاں کہ آپ کا طریقہ تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے اور قر آن سے ہی دعوت دیتے تھے، جب کہ ان کی مخاطب قوم تو جہالت کی حد پر تھی۔ پھر جب وہ قوم قرآن کے ذریعے ہمارے لیے نمونہ بنا دی گئی تو ہمیں جھوٹے فضائل کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ جس دین میں خدا کی کتاب ہی کاوجود نہیں، وہ دین کیسا۔
میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جوا ب نہیں تھا۔ لہذا وہ کسی مفتی سے یہ جواب لے کر آئے کہ قرآن کو صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں، عام مسلمان اس کو پڑھنے سے بھٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے جماعت کے آدمی کا ذہن ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ خود کسی بات پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچ نہیں پاتا۔ بس ایک بات یا جملہ ان کے بڑوں نے کہہ دیا تو وہ پتھر کی لکیر ہوگئی، صحیح ہے یا غلط اس پر کسی کو عقل لگانے کی ضرورت نہیں۔
میرے ساتھ اللہ کا یہ بڑا احسان ہوا جو اس نے مجھے الرسالہ کے ذریعہ اس گمراہی سے باہر نکال لیا۔اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میںخود الرسالہ پڑھتاہوں،بلکہ الرسالہ کی اردو اور انگریزی کاپیاں اپنے ساتھ بیگ میں ہمیشہ رکھتا ہوں اور اپنے آفس میں، اور دوستوں کو پڑھنے کے لیے دیتا رہتا ہوں۔ ابھی فی الحال میںنے ایسا کیا ہے کہ میں اپنے رشتہ داروں کے ایڈرس الرسالہ آفس میں ڈی ڈی کے ساتھ بھیجنا شروع کیا ہے اور ایک سال کا الرسالہ مذکورہ لوگوں کے لیے جاری کرایا ہے۔ الرسالہ کے ساتھ ساتھ آپ کی ساری کتابیں بھی میں مسلسل پڑھ رہا ہوں اور اس سے مجھے غیر معمولی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جو مسلسل الرسالہ اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے۔ لیکن ایک غلطی کی تلافی کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میری شادی 2004 میں ہوئی، اس میں میری سسرال والوں نے مجھے کافی جہیز دیا جس میں دوسری چیزوں کے ساتھ10 تولا سونا بھی موجود ہے۔ اس وقت تو میں نے ان کو منع کیا تھا کہ آپ یہ سب چیزیں نہ دیں، لیکن وہ نہیں مانے۔ ظاہر ہے کنڈیشنڈ مائنڈ ہونے کی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا اور میں بھی یہ سارا سامان لے کر گھر چلا آیا۔ اب جیسا کہ آپ کی تحریریں مسلسل پڑھنے سے میری ڈی کنڈیشننگ ہورہی ہے تو خدا کی پکڑ اور آخرت کے ڈر سے میں یہ سوچ کر پریشان ہورہا ہوں کہ یہ چیز کہیں آخرت میں گھاٹے کا سبب نہ بن جائے۔ آپ مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ کیا مجھے اس کی رقم اپنے سسر کو واپس کرنا چاہیے یا پھر اس کی اور کوئی دوسری صورت ہے جس سے اس کی تلافی ہوسکے۔
قرآن میںجو خدا کی عظمت اور اس کے جلال کا، جنت کا، جہنم کا، قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے، اس کو پڑھنے کے بعد میں زیادہ تر اسی کے بارے میں سوچتا رہتاہوں۔ کبھی کبھی تو میں آفس میں کام کرتا رہتا ہوں اور پھر اچانک مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنا زیادہ وقت تو دنیا کمانے میں نہیں لگا رہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے میں کام کرتے کرتے رک جاتا ہوں اور اِس پر دیر تک بیٹھا سوچتا رہتاہوں۔ یہ معرفت مجھے الرسالہ کے ذریعہ ہی سے حاصل ہوئی ہے۔
میں2003 میں آپ سے آپ کی رہائش گاہ پر ملاتھا۔ میں نے الرسالہ میں جو کچھ پڑھا تھا، آپ کی شخصیت میں اس کو عملاًویسا ہی پایا۔ جس سنجیدگی کی بات آپ کرتے ہیں وہ آپ کے چہرے پر صاف دکھائی دیتی ہے۔ آپ سادگی اور سنجیدگی کی ایک مثال ہیں جو اسی آدمی کی اصلاح کا ذریعہ بنے گی جس کے اندر حقیقت پسندی والا ذہن ہو، جو باتوں کو اپنے ذاتی خول سے باہر نکل کر صرف اصول کی بنا پر حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو (شکیل احمد، اندور)۔
جواب
1 - تبلیغی جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذمے داروں نے عوام کے اندر دینی شوق پیدا کرنے کے لیے اس کام کو شروع کیا۔ انھوںنے محسوس کیا کہ عوام زیادہ گہری باتوں کو سمجھ نہیںسکتے، اِس لیے انھوںنے فضائل کی روایات کے اوپر اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔
عوام کی اصلاح کے اعتبار سے یہ طریقہ مفید ہوسکتا ہے، لیکن بعد کو یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذمّے داروں نے اپنے طریقِ کار کو بدلے بغیر، خواص کو اپنے دائرۂ عمل میں شامل کرلیا۔ تبلیغی جماعت کی یہ توسیع الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیوں کہ فضائل کی روایتیں عوام کو متاثر کرسکتی تھیں، لیکن خواص کا ذہن اس سے ایڈریس نہیں ہوتا تھا۔ چناں چہ خواص، تبلیغی جماعت سے قریب ہونے کے بعد جلد ہی اس سے دور ہونے لگے۔
خواص کی یہ دوری سادہ طور پر تبلیغ سے دوری نہ تھی، بلکہ عملاً وہ دین سے دوری کا سبب بن گئی۔ خواص یہ سمجھنے لگے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عوام کی ضرورت کو تو پوری کرتا ہے، لیکن اس میں خواص کے لیے اطمینان کا سامان نہیں۔ دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان جو پہلے تبلیغی جماعت سے قریب ہوئے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہوکر اُس سے دور ہوگئے۔ انھوںنے اِس معاملے کو بتاتے ہوئے یہ بامعنیٰ جملہ کہا— تبلیغ والوںنے پہلے میواتیوں کو مسلمان بنایا، اب وہ مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔
2 - جہیز کے سلسلے میں عرض ہے کہ شادیوں میں جہیز کاموجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک بدعت ہے۔ اِس اعتبار سے جہیز کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے۔ لیکن ملے ہوئے جہیز کا معاملہ اِس سے الگ معاملہ ہے۔ اس کی واپسی کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ممکن ہو تو آپ اس کو کسی تعمیری کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً اپنے لیے گھر بنانا، وغیرہ۔
سوالات کے سلسلے میں ایک اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ ایک صحابی کہتے ہیں: نُہینا عن کثرۃ السؤال ( صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) یعنی ہم کو زیادہ سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس لیے کہ سوال کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ آدمی خود غور و فکر کرنے کے بجائے کسی دوسرے سے اپنے سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے۔ آپ مطالعہ کیجیے اور سوچنے کی عادت ڈالیے، اور کامن سنس (common sense)استعمال کیجیے، آپ کو خود ہی اپنے سوال کا جواب معلوم ہوجائے گا۔
سوال
علوم قطعیہ نے کلّی طورپر یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف دماغ ہی تمام جذبات و احساسات اور غور وفکر کا مرکز ہے۔ جب کہ ہم اب بھی ایک خاص طریقے پر کچھ مخصوص کلمات کا ورد کرکے قلب پر ضرب لگاکر تطہیر قلب کا دعویٰ کرتے ہیں اور بشمول افرادِ خانہ، محلے کے لوگوں کی نیند خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بجائے جدید منطق کے پیش نظر، تطہیر دماغ کے لیے آپ ہیمرنگ (hammering) کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار کیا ہو، اس کی وضاحت فرمائیے (محمد جمیل اختر، کشن گنج، بہار)۔
جواب
ذکر بالجہر کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی کا دل اس کے تمام احساسات کا مرکز ہے،بُرے احساسات کا بھی اور اچھے احساسات کا بھی۔ کوئی آدمی جب بلند آواز سے لاإلٰہ کہہ کر اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کے دل سے تمام بُرے احساسات نکل جاتے ہیں۔ اور پھر جب وہ بلند آواز سے إلاّ اللہ کہہ کر دوبارہ اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کا دل تمام اچھے احساسات سے بھر جاتا ہے۔قدیم ر وایتی دور میں ایک مفروضہ کے طورپر اِس کو مان لیا گیا تھا، لیکن موجودہ سائنسی دور میں یہ نظریہ بے بنیاد (baseless)ثابت ہوچکا ہے۔ اب دل پر ضرب لگانا، ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی پر ضرب لگانا۔
دین میں تزکیہ بلا شبہہ ایک مطلوب عمل ہے۔ تزکیہ کا یہ عمل ذہن کی سطح پر انجام پاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کا ذہن ہی ہر قسم کے افکار اور احساسات کا مرکز ہے۔ ایک حدیث کے مطابق، ہر انسان اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اُسی میں آدمی کے ذہن کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اِس ذہنی کنڈیشننگ کو ’’ضرب‘‘ کا موضوع بنایا جائے، یعنی فکری ضرب (intellectual beating) کے ذریعے اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کی جائے۔ اِسی فکری ضرب کا دوسرا نام فکری ہیمرنگ (intellectual hammering) ہے۔
سوال
آپ کی مایہ ناز کتاب ’’مسائلِ اجتہاد‘‘ واقعی حکمت کا مخزن ہے۔صفحہ 37 میں مغل بادشاہ اکبر کے موقف تالیفِ قلب کے لیے آپ نے سراہاہے۔ تائید میں ایک اقتباس از سید حسین احمد مدنی بحوالہ مکتوبات شیخ الاسلام (صفحہ 141 ) بطور دلیل درج ہے، جب کہ اکبر نے جودھا بائی سے مشرکانہ رواج میں شادی کی اور ایک مشرکہ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ (البقرۃ: 221 ) اتنی اچھی کتاب ہے آپ کی۔ مگر اکبری دین کی حمایت میں یہ کیسا داغ اِس میں موجود ہے (نثار احمد خاں السلفی ،مومن پورہ، ناگ پور)۔
جواب
مذکورہ کتاب میںاکبر کی مثال ایک معیاری مسلمان کی حیثیت سے نہیں دی گئی ہے۔ اِس مضمون کا مقصد اکبر کی مجموعی زندگی پر رائے دینا نہیں ہے، بلکہ اکبر کی زندگی کے صرف ایک مثبت پہلو کو بتانا ہے۔ اوراِس قسم کا مثبت پہلو کسی بھی شخص کی زندگی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کا سوال اِس معاملے میں غلو پسندی کی ایک مثال ہے۔ حالاں کہ غلو اسلام میں نہیں (لا غُلوّ فی الإسلام)۔ غلو دراصل انتہا پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اور انتہا پسندی ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہٰذا الدین بالرّجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اگر کسی پہلو سے ’’فاجر‘‘ ہو، تب بھی وہ کسی اور پہلو سے اسلام کے حق میں تائید کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ اگر کسی آدمی کی زندگی میں کوئی فجور کا پہلو ہو، تو اِس پہلو سے اس کے لیے دعا کریں۔ اور اگر اس کی زندگی میں کسی اعتبار سے کوئی مفید پہلو ہو تو اس کا اعتراف کریں۔ یہی صحیح اسلامی اسپرٹ ہے۔
سوال
عرض خدمت ہے کہ راقم نے ایک نہایت ہی اہم موضوع پر اپنی اولین تحقیقی کتاب بنا م ’’قرآن عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفہ کائنات‘‘ تصنیف کی ہے، جس کا مسودہ حاضر خدمت ہے۔ جیساکہ سرورق سے عیاں ہے، اس کتاب میں خارج از زمین زندگی اور خود انسان اور کتاب الٰہی کی حقیقت پر جدید قرآنی بصائر کو منکشف کرتے ہوئے عالم انسانی پر قرآن مجید کے عظیم ترین علمی اعجاز کی نقاب کشائی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تحقیق کی عوامی سطح پر اشاعت سے قبل میںاس پر عالمِ اسلام کے چند منتخب اہلِ علم اور علمی و دینی مراکز کے تاثرات حاصل کرنا چاہ رہا ہوں، جن میں آںجناب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ لہذا آںجناب سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ موضوع کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اولین فرصت میں اس پر اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار فرمایا جائے (سعید الرحمن ندوی، بنگلور)۔
جواب
آپ کی کتاب (قرآنِ عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفۂ کائنات) کا مسوّدہ موصول ہوا۔ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن کی آفاقیت کا تعلق صرف موجودہ زمین پر آباد انسانوں سے نہیںہے، بلکہ اس کا تعلق یکساں طورپر کائنات میں موجود دوسرے سیاروں پر آباد امکانی مخلوقات سے بھی ہے۔ قرآن ان مخلوقات کے لیے بھی کتابِ ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ عرض یہ کہ مجھے آپ کے اِس نظریے سے اتفاق نہیں ہے۔ قرآن بلا شبہہ ایک آفاقی کتاب ہے، لیکن اُس کی آفاقیت کا تعلق موجودہ سیّارۂ زمین سے ہے، نہ کہ بقیہ کائنات میں دوسرے مفروضہ سیّاروں سے۔
قرآن کی دعوتِ عام ہمارے اوپر فرض ہے، لیکن اِس کا تعلق موجودہ زمین پر بسنے والے انسانوں سے ہے، نہ کہ کائنات کے کسی اور سیارے پر آباد مفروضہ مخلوقات سے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین پر جو انسان آباد ہیں، اُن کو قرآن کا پیغام پہنچائیں، اُن کے لیے قرآن کی دعوت کو قابلِ فہم بنائیں اور اس مقصد کے لیے تمام ضروری وسائل اختیار کریں۔ آپ نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ صرف ایک مفروضہ بحث ہے۔ اس کا تعلق نہ ہماری ذمّے داری سے ہے، اور نہ کسی معلوم حقیقت سے۔ میںآپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے نظریات کی بنیاد مسلّمات پر قائم کریں، نہ کہ مفروضات پر۔
آپ کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ استنباط کہاجاسکتاہے، لیکن یہ استنباط کوئی معقول استنباط (valid inference) نہیں۔ کیوں کہ اصولِ استدلال کے مطابق، معقول استنباط وہ ہے جوکسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم کیاگیا ہو۔ ایک ایسا واقعہ جو خود ثابت شدہ نہ ہو، اس کی بنیاد پر کوئی معقول استنباط نہیں کیا جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں