مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ایک ممتاز مسلم رہنما اورایک مستند عالم دین تھے۔ وہ ۹؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو دربھنگہ میں پیدا ہوئے۔ وہ مختلف اعلیٰ حیثیتوں کے ساتھ اسلام اور ملت اسلام کی قابل قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ اپنی آخری عمر میں وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے چیئر مین تھے۔ ۴؍اپریل ۲۰۰۲ء کو دہلی میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ إنا للّٰہ وإنا الیہ راجعون۔
مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی موت دور آخر کے اس ظاہرہ کی ایک مثال ہے جس کو حدیث میں ذہاب العلماء کہا گیا ہے۔ یعنی علماء کا چلے جانا یا علماء کا اُٹھ جانا۔ عام طور پر اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ علماء ایک کے بعد ایک مرجائیں گے اور پھر کوئی عالم دنیا میں باقی نہ رہے گا۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں علماء سے مراد اجتہادی صلاحیت کے علماء ہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں علماء سے مراد بلند پایہ علماء ہیں۔ تاہم اس کا مطلب سادہ طورپر بلند پایہ علماء کی رحلت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ملت کے بلند پایہ افراد کا علماء کی صف میں شامل نہ ہونا ہے۔ یعنی علماء بننے کے قابل لوگ علماء بننا چھوڑ دیں گے۔ اس سے مراد اشخاص کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ دور کا خاتمہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی بہت سی حدیثیں صنعتی دور میں پیدا ہونے والے حالات کی پیشین گوئی ہیں۔ صنعتی دور میں ترقی کے مواقع اور مادی چمک دمک بہت بڑھ جائے گی، اس بنا پر دنیا کی طرف رغبت (temptation) میں اتنا زیادہ اضافہ ہوجائے گا کہ اعلیٰ صلاحیت کے لوگ دنیوی شعبوں کی طرف بھاگنے لگیں گے۔ اس صورت حال کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
فریبِ جلوہ اور کتنا مکمل اے معاذ اللہ بڑی مشکل سے دل کو بزم عالم سے اُٹھا پایا
خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام کے مطابق، اعلیٰ صلاحیت کا آدمی ہی اعلیٰ عالم بنتا ہے۔ جب اعلیٰ اذہان دین کی طرف راغب نہ ہوں گے تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ دین کی صفیں اعلیٰ قسم کے علماء سے خالی ہو جائیں گی۔ اس کے بعد صرف وہ لوگ دینی شعبوں اور دینی اداروں کو مل سکیں گے جو اپنی کم تر صلاحیت کی بنا پر مادی ترقی کے بڑے مناصب میں اپنی جگہ بنانے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں۔
مولانا مجاہد الاسلام قاسمی غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے۔ وہ تقریر اور تحریر، انتظام اور معاملہ فہمی، بصیرت اور تدبر میں اعلیٰ قابلیت رکھتے تھے۔ وہ اگر سیکولر ڈگری اور سیکولر پروفیشن کو اپنا میدان بناتے تو یقینا وہ بڑے بڑے دنیوی مناصب پر فائز ہوسکتے تھے۔ اس طرح یہ ذہاب العلماء کا ایک واقعہ ہوتا۔ مگر انہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیت کو اسلام اور ملت اسلام کی خدمت میں لگانے کو ترجیح دی۔ دنیا کے مادی بازار میںاپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بڑی قیمت لینے کے بجائے قناعت کا طریقہ اختیارکرتے ہوئے انہوں نے اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کردیا۔ وہ ایک ایسے عالم بن گئے جنہوں نے مادی ترقی کے حصول کو اپنا نشانہ نہیں بنایا۔ انہوں نے دنیا کی طرف جانے کے بجائے دین کی طرف جانے کو اپنی توجہات کا مرکز بنالیا۔
وہ ان خوش قسمت افراد میں سے تھے جنہوں نے اپنی اعلیٰ فطری صلاحیت کے باوجود اپنی صلاحیت کو دنیا کے بازار میں کیش نہیں کرایا بلکہ اس کو دین کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے مختلف مقامات پر سیکڑوں کی تعداد میں ملّی ادارے قائم کیے۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر بہت سی ممتاز علمی اور ملی تنظیموں میں انہیں اعلیٰ مناصب دیئے گئے، وغیرہ۔
مولانا اشرف علی تھانوی (وفات ۱۹۴۳) سے کسی نے کہا کہ آپ کے مدرسوں میں آج کل اعلیٰ قابلیت کے علماء پیدا نہیں ہوتے۔ مولانا نے جواب دیا کہ اصل بات یہ نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ اعلیٰ قابلیت کے لوگ اب مدرسوں میں نہیں آتے۔
یہی مطلب ذہاب العلماء کا ہے جس کو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے سادہ انداز میں اس طرح بیان کردیا۔ یہ نئی صورت حال جو موجودہ زمانہ میں پیدا ہوئی، اس کا سبب کیا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، اس کا سبب یہ ہے کہ جدید صنعتی انقلاب نے دولت کمانے کے جو نئے طریقے پیدا کئے ہیں اُس میں اعلیٰ صلاحیت کے لوگوں کو ایسے برتر امکانات نظر آنے لگے جو پہلے کبھی نہیں تھے۔
قدیم زمانہ میں معیشت کا دارومدار زیادہ تر روایتی انداز کی زراعت پر تھا۔ اس نظام کے تحت کمائی کے مواقع بہت محدود ہوتے تھے۔ مگر جدید ٹیکنالوجی اور جدید تجارتی شعبوں نے کمائی کے مواقع لاکھوں گُنا زیادہ بڑھا دیے ہیں۔ اب ’’عاجلہ‘‘ میں اتنی زیادہ کشش پیدا ہوگئی ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔ مادی ترقی کی یہی بڑھی ہوئی کشش ہے جس نے اعلیٰ صلاحیت کے لوگوں کا رُخ اُن تعلیمی اداروں سے ہٹا دیا جہاں علماء پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ تیزی کے ساتھ اُن سیکولر تعلیمی اداروں کی طرف بھاگنے لگے جہاں وہ افراد پیدا کئے جاتے ہیں جو جدید ترقیاتی شعبوں میں اعلیٰ مناصب پاسکیں۔
اس اعتبار سے دیکھئے تو مولانا مجاہد الاسلام قاسمی حقیقی معنوں میں دور جدید کے اسلامی مجاہد تھے۔ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ ایک باصلاحیت آدمی مواقع دنیا کے مقابلہ میں مواقع دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرسکے۔ یہ قربانی کی وہ قسم ہے جو کسی آدمی کو عظیم مجاہد بنا دیتی ہے، اور مولانا مرحوم بلاشبہہ اس معنٰی میں دور جدید کے مجاہد اسلام تھے۔
مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی متنوع خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ہر دل عزیز اوصاف کی بنا پر ہر طبقہ کے درمیان مقبول تھے۔ مسلمانوں کے ہر مکتب فکر کے درمیان اُن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ ایک ممتاز عالم ہونے کے ساتھ ایک مقبول رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ نئی نسل کے درمیان ایسے لوگ پیدا ہوں جو مولانا مرحوم کی راہ پر چلیں۔ ملت کے درمیان ایسے افراد کا خلا نہ ہونے پائے جن کو بیک وقت علمی استناد بھی حاصل ہو اور اسی کے ساتھ عوام کی مقبولیت بھی۔ مولانا مرحوم کی زندگی جدید مسلم نسل کو یہ مثبت پیغام دیتی ہے کہــمیری موت کو ماتم کا عنوان نہ بناؤ، بلکہ اُس کو عزمِ نو کا عنوان بناؤ۔ ملت کے کام کو میں نے جہاں چھوڑا ہے وہاںسے آغاز کرکے آگے بڑھو۔ تعمیرِ ملت کے عمل کو مسلسل جاری رکھو۔ یہاں تک کہ تم اُس کی آخری منزل پر پہنچ جاؤ۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلمان نے دوسرا نکاح کر لیا۔ اس پر اُن کی پہلی بیوی بہت ناراض ہوگئیں۔دوسرے نکاح سے پہلے وہ ایک دین دار خاتون مشہور تھیں۔ مگر دوسرے نکاح کے بعد انہوں نے گھر کے اندر اتنا طوفان برپا کیا کہ اُن کے شوہر دل کے مریض بن گئے۔ میں نے مذکورہ خاتون کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طورپر موجودہ عملی حالات میں دوسرے نکاح کا قائل نہیںہوں۔ مگرآپ کے لیے یہ دوسرا نکاح گویا ایک خدائی امتحان تھا جس میں آپ ناکام ہوگئیں۔ یاد رکھئے، جنت کا ٹکٹ موافق حالات میں دین داری پر نہیں ملتا بلکہ وہ غیر موافق حالات میں دین داری پر ملتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہیــــــکیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور اُن کو جانچا نہ جائے گا۔ (العنکبوت ۲۔۳)۔
اصل یہ ہے کہ دین داری کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، معمول کے حالات میںدین داری۔ دوسری دین داری وہ ہے جب کہ حالات غیر موافق ہو جائیں۔ جب آدمی کو اپنے بھڑکے ہوئے جذبات پر قابو رکھ کر دینی حکم کا پابند بننا پڑے۔ اسی دوسری صورت حال کا نام آزمائش ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت یا مرد کے لیے جنت کا فیصلہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُس پر اس دوسری نوعیت کے حالات گذر یں۔ مگر وہ اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھے۔ وہ غیر معمولی حالات میں بھی اُسی طرح دینی تقاضوں پر عمل کرے جس طرح کوئی شخص معمول کے حالات میں دینی تقاضوں پر عمل کرتا ہے۔
جانچ کا یہ لمحہ ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مرد پر ضرور آتا ہے۔ مزید یہ کہ جانچ کا یہ لمحہ اعلان کے ساتھ نہیں آتا بلکہ وہ اعلان کے بغیر آتاہے۔ جولوگ اس لمحہ کو پہچانیں اور جانچ میں پورے اُتریں وہی کامیاب ہیں اور جو لوگ اس لمحہ کو نہ پہچانیں اور جانچ میں پورے نہ اُتریں وہ اللہ کی نظر میں ناکام قرار پائیں گے، خواہ کسی اور اعتبار سے بظاہر وہ کتنا ہی زیادہ دین دار بنے ہوئے ہوں۔
واپس اوپر جائیں
۱۹۴۷ میں جب ہندستان آزاد ہوا تو اس کے بعدتمام مسلمانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ نئے ہندستان میں مسلمانوں کے لئے لائن آف ایکشن کیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس موضوع پر ہزاروں تحریریں سامنے آئیں اور ہزاروں جلسے کئے گئے۔ مگر آج بھی لوگ یہی پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کیا ہونا چاہئے۔
میرے نزدیک یہ مسئلہ لائن آف ایکشن کی غیر موجودگی کا نہیں ہے بلکہ لائن آف ایکشن کے موجود ہوتے ہوئے اس کو عملاً قبول نہ کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی جوا ب کو مسلمانوں میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ۱۹۴۸ میں لکھنؤ میں مشہور مسلم کنونشن کیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد نے جو تقریر کی تھی وہ آج بھی چھپی ہوئی موجود ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مسلمانان ہند کے سامنے یہ لائحہ عمل پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ کو توڑ دیں اور نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنی ملی پالیسی نہ بنائیں بلکہ اپنی پالیسی مشترک قومی بنیاد پر بنائیں۔ نمائندگی کے اعتبار سے لکھنؤ کا یہ آل انڈیا مسلم کنونشن نہایت کامیاب تھا۔ مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان مولانا آزاد کے مشورہ کو اپنی ملی پالیسی کے طورپر اختیار کرلیں۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
اسی طرح نہایت دھوم کے ساتھ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (۱۹۶۴) بنی ۔ ملک کے تقریباً تمام مسلم رہنما اس کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے متفقہ طورپر ایک مسلم منشور تیار کرکے شائع کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کے مسلمان اس ملک میں خیر امت کا کردار ادا کریں۔ مگر اس عنوان پر مسلمان عملاً متحرک نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ خود مسلم مجلس مشاورت بے اثر ہوکر رہ گئی۔
یہی معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (۱۹۷۲) کا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بانی قائدین کے زمانہ میں متفقہ طورپر تعمیر ملت اور اصلاح معاشرہ کی تجویز پاس کی۔ اس پر کافی حد تک وہ کام بھی ہوا جس کو پیپر ورک کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لائحہ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان عملی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔
اس طرح کچھ مسلم قائدین نے نہایت دھوم کے ساتھ وہ تحریک شروع کی جو پیام انسانیت (۱۹۵۱) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان خود انسانی اقدار کو اپنائیں اور برادران وطن کو انسانی اقدار کی پیروی کی دعوت دیں۔ مگر جلسوں کی وقتی دھوم دھام کے علاوہ اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانی اقدار کی پیروی کی فضا نہ مسلمانوں میں قائم ہوسکی اور نہ غیر مسلموں میں۔
اسی طرح ۱۹۹۰ میں بابری مسجد کے نام پر جلسہ اور جلوس اور ریلی کے زبردست ہنگامے شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہوگیا۔ اس تحریک کے مسلم لیڈروں نے یہ نعرہ دیا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارچ کرکے اجودھیا پہنچیں اور حملہ آور وںکے مقابلہ میں بابری مسجد کی حفاظت کریں۔ مگر اس مقصد کے لئے نہ چھوٹا مارچ ہوا اور نہ بڑا مارچ۔ یہاں تک کہ ’’حملہ آور‘‘ کسی مزاحمت کے بغیر ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو اجودھیا میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو توڑ کر اس کی جگہ ایک عارضی رام مندر تعمیر کر دیا۔
اسی طرح کچھ ممتاز مسلم لیڈروں نے یہ لائحہ عمل دیا کہ مسلمان اس ملک میں باعزت زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرانے کے لئے استعمال کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنایا:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میںہو خوئے حریری
ہر بار جب اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ وقت آتا ہے جب کہ مسلمان اس لائحۂ عمل کو اختیار کرکے مفروضہ اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرائیں اور مفروضہ پرومسلم پارٹیوں کو جتائیں۔ مگر ہر بار صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اپنے عدم اتحاد کی بنا پر منتشر ہوجاتا ہے۔ مذکورہ سیاسی مقصد حاصل کرنے کے بجائے مسلمان صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پرتقسیم ہو کرووٹ کی طاقت کو ضائع کردیتے ہیں۔ الیکشن ان کے ووٹوں کا ایک سیاسی قبرستان بن کر رہ جاتا ہے۔ (واضح ہو کہ پارلیمنٹ کی تقریباً سو سیٹوں پر مسلم ووٹر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں)
یہی معاملہ جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے تقریباً ہر موقع پر یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے کہ مسلمان ایسا طریقِ کار نہ اختیار کریں جس میں ہندو اور مسلم کے درمیان ٹکراؤ کی فضا بنے۔ اس کے بجائے وہ خاموش تدبیر اور تعمیری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کریں۔ مگر ہر بار یہی ہوا ہے کہ مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے بتائے ہوئے اس لائحہ عمل کو اختیار نہیں کر پاتے۔ گویا لائحہ عمل موجود ہے مگر لائحہ عمل کی قبولیت اور پیروی موجود نہیں۔
اس فہرست میں کسی قدر فرق کے ساتھ خود الرسالہ مشن کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت مسلمانوں کے سامنے نہایت واضح اور مدلّل انداز میں ۱۹۷۶ سے یہ لائحہ عمل پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان کا اصلی اور ابدی مشن دعوت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اور برادران وطن کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے اپنے اس فریضہ کو پہچانیں۔ وہ دعوت کے آداب اور دعوت کی حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک میں دین حق کی پر امن پیغام رسانی کا کام انجام دیں۔ مگر رُبع صدی سے زیادہ مدت تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی نے اس راہ عمل کوعملاً اختیار کیا ہے۔
یہ طویل تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ راہ عمل کی غیر موجودگی نہیںہے بلکہ جذبۂ قبولیت کی غیر موجودگی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے درمیان حقیقی کام کا آغاز صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ تقریر یا تحریر کی صورت میں ایک راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے لیے شعوری تعمیر اور ذہنی بیداری کی ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلے شعوری اعتبار سے لوگوں میںمادّۂ قبولیت پیدا کیجئے، اُس کے بعد ہی راہِ عمل کے اعلان کا کوئی مفید عملی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
صہیب بن سنان الرومی اُن اصحابِ رسول میں سے ہیں جنہوں نے دور اوّل میں اسلام قبول کیا۔ اُن کی پیدائش موصل میں ہوئی۔ اُنہوں نے مدینہ میں ۳۸ھ میں وفات پائی۔ بوقت وفات اُن کی عمر تقریباً ستّر سال تھی۔ اُن سے تین سو سات حدیثیں مروی ہیں۔ اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنا سابق العرب، وصہیب سابق الروم۔
صہیب رومی کا تذکرہ تاریخ اسلام کی اکثر کتابوں میں آیا ہے۔ مثلاً طبقات ابن سعد، تاریخ ابن عساکر، وغیرہ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیب رومی ایک اونچے خاندان کے فرد تھے۔ پھر وہ مکہ میں تجارت کرنے لگے۔ انہوں نے تجارت میں کافی دولت کمائی (کان صہیب قد ربح مالا وفیرا من تجارتہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کے لیے ہجرت فرمائی تو صہیب رومی نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ اُن کی ہجرت کی خبر لوگوں کو ہوگئی۔ چنانچہ قریش کے کچھ نوجوان اُن کے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم نے اپنا یہ مال مکہ میں حاصل کیا ہے۔ اس کو لے کر ہم تم کومدینہ نہیں جانے دیں گے۔ صہیب رومی نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنا مال دے دوں تو کیا تم مجھ کو جانے دوگے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس کے بعد صہیب رومی نے اپنا سارا مال اُن کے حوالہ کردیا(فجعل لھم مالہ أجمع)
اپنا مال قریش کے حوالہ کرکے صہیب رومی مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کو مکہ کا پورا واقعہ بتایا۔ اُس کو سن کر رسول اللہﷺنے فرمایا: یا أبا یحییٰ ربح البیع(أے ابو یحییٰ، تمہاری تجارت کامیاب رہی) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ربح صہیب، ربح صہیب(صہیب کی تجارت کامیاب رہی، صہیب کی تجارت کامیاب رہی)۔ البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، الجزء الثالث، صفحہ ۱۷۳۔ ۱۷۴۔
حضرت صہیب رومی کا یہ واقعہ جس کی تصدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، بے حد اہم ہے۔ اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ بامقصد انسان کا کردار کیا ہونا چاہئے۔ اس کا کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر دوسری چیز کو ثانوی (سیکنڈری) درجہ پر رکھے۔ وہ اپنے مقصد کو بچانے کی خاطر ہر دوسری چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔
مذکورہ واقعہ پر غور کیجئے۔ حضرت صہیب رومی کے سامنے ایک صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ مال میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔ وہ میرا ایک جائز حق ہے۔ مجھے اپنے حق سے محرومی کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔ مجھے ہر حال میں اپنے مال کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہئے، خواہ اُس کے لیے مجھے ظالموں سے لڑائی لڑنی پڑے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ مدینہ دعوت ِ اسلامی کا مرکز بن رہا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے اس دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ اسلام کے اس قافلہ کے ساتھ مل کر مجھے چاہئے کہ میںاس تاریخی مہم کو اُس کی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کروں۔
صہیب رومی نے محسوس کیا کہ یہ کم بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر میں مال کے لیے ٹکراؤ کروں تو یہ کوئی عقل مندی نہ ہوگی۔ یہ مال کی خاطر مقصد کو قربان کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔ چنانچہ اُنہوں نے مقصد کو بچانے کی خاطر مال کو قربان کر دیا اور اُس سے دست بردار ہو کر مدینہ چلے گئے۔
اس طرح کے معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے منطقی انصاف کا طریقہ، اور دوسرا ہے عملی حل کا طریقہ۔ منطقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ خالص فنّی اعتبار سے صحیح اور غلط کو معلوم کیا جائے، جیسا کہ قانونی عدالت میں ہوتا ہے۔ اور دوسرا ہے عملی حل(practical solution) ۔ عملی حل کا مطلب یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے صحیح اور غلط کی بحث میں نہ پڑا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ عملی حالات کے اعتبارسے مسئلہ کا مثبت حل کیا ہے۔ پہلا طریقہ عام انسان کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ با مقصد انسان کا طریقہ۔
عام انسان کو صرف یہ معلوم رہتا ہے کہ قانون کے مطابق، اُس کا حق کیا ہے۔ اس کے برعکس بامقصد انسان قانونی حق اور منطقی انصاف سے بلند ہو کر یہ سوچتا ہے کہ میرے لیے اپنے مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا مفید طریقہ کیا ہے۔ سوچ میں اس فرق کی بنا پر، عام انسان لوگوں کے ساتھ زر اور زمین کا جھگڑا کرتا رہتا ہے، کیونکہ اس کے سوا اُس کا اورکوئی نشانۂ حیات نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس با مقصد انسان کا نظریہ، حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ، کوئی تمہارا کرتا لینا چاہے تو اُس کو اپنا چُغہ بھی دے دو۔ یعنی دنیوی چیزوں کے معاملہ میں نزاع پیدا ہو تو فوراً یک طرفہ قربانی کے ذریعہ اُس نزاع کو ختم کردو، تاکہ مقصد کی طرف تمہارا سفر کسی خلل کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔
اس طرح کے نزاعی معاملات میں عام انسان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حق کیوں چھوڑیں، ہم انصاف سے دست بردار کیوں ہوں۔ مگر بامقصد انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دنیوی حق کو لینے کی کوشش میں وہ ربّانی حق سے محروم ہوجائے گا۔ دنیوی انصاف کو حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ آخرت کے انصاف کی میزان میں اپنے آپ کو بے قیمت کر لے گا۔ سوچنے کا یہی فرق دونوں کے عمل میں فرق پیدا کردیتا ہے۔ ایک، دنیا کی خاطر آخرت کو گنوا دیتا ہے، اور دوسرا، آخرت کی خاطر دنیا کو۔
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کار کیا تھا، اس سوال کا جواب حضرت عائشہ کی ایک روایت میںملتا ہے: ما خیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار ایسرھما۔ (صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امرکا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب فرماتے تھے۔
حدیث میںأیسر کا لفظ ہے۔ اس کی تشریح شارحینِ حدیث نے عام طور پر أسہل کے لفظ سے کی ہے (فتح الباری ۶؍۶۶۵) یعنی زیادہ سہل۔ مگر اسہل (سہل تر) کے لفظ سے اُس کی اصل حقیقت واضح نہیں ہوتی۔ پیغمبر اسلام اور دوسرے تمام پیغمبر، قرآن کے بیان کے مطابق، اولو العزم پیغمبر (الاحقاف ۳۵) تھے۔ کوئی پیغمبر کبھی سہل پسند نہیں ہوتا۔ سہل پسندی پیغمبر کے مزاج کے خلاف ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں أیسر کا لفظ زیادہ قابل عمل کے معنٰی میں ہے، نہ کہ سادہ طورپر محض سہل کے معنیٰ میں۔
حضرت عائشہ کی اس روایت کا مفہوم اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سیرت کی روشنی میں متعین کیا جائے تو اس سے پوری حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو اس روایت میں أیسر سے مراد قابل حصول نقشۂ کار (available framework) ہے۔ ہر صورت حال میں دو عملی طریقہ ممکن ہوتا ہے۔ ایک وہ طریقہ جو بر وقت موجود نقشہ ہی میں قابلِ عمل ہو۔ اور دوسرا طریقہ وہ جس کا تقاضا یہ ہو کہ پہلے موجود نقشہ کو بدلا جائے، اُس کے بعد ہی اپنا مطلوب عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اُس نقشۂ کار میںاپنا عمل جاری کیا جوبر وقت آپ کے لیے ممکن اور قابل حصول تھا ۔ اس پیغمبرانہ طریقِ کار کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم مکہ میں آپ کو دین توحید کی تبلیغ کا کام کرنا تھا۔ اب اس کی دو صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ کعبہ کے موجود اجتماع گاہ کو استعمال کیاجائے جہاں بتوں کی پوجا کے لیے لوگ پہلے سے اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ آپ اس سے الگ اپنا کوئی نیا مقام اجتماع بنائیں۔ دوسرا اورنیا اجتماع گاہ بنانا اس وقت سخت مشکل کام تھا۔ اس کے برعکس کعبہ کا صحن ایک بنے بنائے اجتماع گاہ کی صورت میں موجود تھا۔ پیغمبر اسلام نے بتوں کی موجودگی کے ناپسندیدہ پہلو کو وقتی طورپر نظر انداز کرتے ہوئے اس موجود نقشۂ کار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں اپنے دعوتی خطاب کا مستقل سلسلہ شروع کر دیا۔
کام کا یہی وہ عملی طریقہ ہے جس کو مذکورہ حدیث میں اختیار ایسر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں قابلِ حصول نقشۂ کار (available framework) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں نے اس پیغمبرانہ حکمت کو نہیں سمجھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ أیسر اور أعسر میں فرق نہ کرسکے۔ اُن کے لیے قابلِ حصول نقشۂ کار موجود تھا مگر اپنی بے خبری کی بنا پر وہ ناقابلِ حصول نقشۂ کا ر میں اپنی عملی سرگرمیاں دکھاتے رہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اس کا نتیجہ صرف یک طرفہ تباہی ہو سکتا تھا اور وہی اُن کے حصہ میں پیش آیا۔
بر صغیر ہند میں اس کی ایک مثال انگریزوں کے خلاف علماء ہند کی پُرتشدد تحریک ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ علماء کی یہ پُر تشدد تحریک ساٹھ سالہ قربانیوں کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام رہی۔ اس کے برعکس مہاتما گاندھی کی انہی انگریزوں کے خلاف پُر امن تحریک صرف پچیس سال میں اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوگئی۔ اس فرق کا واحد سبب یہ تھا کہ مہاتما گاندھی کی پُر امن جدوجہد قابلِ حصول نقشۂ کار کے دائرہ میں تھی، جب کہ علماء ہند کی پُر تشدد جدوجہد ناقابلِ حصول نقشۂ کار کے دائرہ میں۔
اس معاملہ کی دوسری مثال الإخوان المسلمون کی تحریک ہے۔ انہوں نے مصر میں شاہ فاروق (وفات ۱۹۶۵) اور صدر جمال عبد الناصر (وفات ۱۹۷۰) کو مغرب نواز اور اسلام دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف پُر تشدد تحریک چلائی۔ مگر غیر معمولی قربانیوں کے باوجود اخوانیوں کے حصہ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ البتہ مصر ایک تباہ شدہ ملک ہو کر رہ گیا۔ مزید یہ کہ اسی اخوانی فکر کے لوگ اپنے ملک میں سیاسی داروگیر سے بھاگ کر بڑی تعداد میں امریکہ گئے۔ اب وہ وہاں مختلف قسم کے اسلامی ادارے بڑے پیمانہ پر چلارہے ہیں۔ اور پُر فخر طورپر وہاں اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں۔
ا لإخوان المسلمون مصر میں کیوں ناکام رہے اور امریکہ میں خود اپنے دعویٰ کے مطابق، وہ کیوں کامیاب ہیں۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ انہوں نے مصر میں پُر تشدد نقشۂ کار کے مطابق کام کرنا چاہا جو وہاں اُن کے لیے قابل حصول ہی نہ تھا۔ اس کے برعکس امریکہ میں وہ پر امن طریقِ کار کے مطابق کام کررہے ہیں جو وہاں کے حالات میں اُن کے لیے پوری طرح قابلِ حصول ہے۔
تاہم الإخوان المسلمون کو نہ مصر میںاُن کے کام پر کوئی کریڈٹ دیا جاسکتا ہے اور نہ امریکہ میں اُن کے کام پر۔ مصر میں اُن کا کام صرف سیاسی نادانی کے خانہ میں لکھا جائے گا۔ اور امریکہ میں وہ اپنے کام پر دوہرا معیار (ڈبل اسٹینڈرڈ) اختیار کرنے والے قرار پائیں گے، إلّا یہ کہ وہ کھلے لفظوں میں یہ اعلان کریں کہ مصر میںاُن کی پالیسی سراسر غلطی اور نادانی کی پالیسی تھی۔ اعتراف کے بعد غلطی ایک نیکی بن جاتی ہے اور اعتراف کے بغیر غلطی صرف غلطی رہتی ہے۔
جماعت اسلامی کا معاملہ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ جماعت اسلامی اور اُس کے بانی نے پاکستان میں زبردست سیاسی ہنگامہ برپا کیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان میں وہاں کے سیکولر حکمرانوں نے سیکولر نظام قائم کر رکھا ہے۔ جب تک اس سیکولر نظام کو توڑا نہ جائے یہاں کوئی قابلِ ذکر اسلامی کام کرنا ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی اوراُس کے بانی کی ٹکراؤ کی اس سیاست کا کوئی مثبت نتیجہ پاکستان کو نہیں ملا۔ بلکہ برعکس طورپر پاکستان ایک تباہ شدہ ملک بن کر رہ گیا۔
اب اسی جماعت اسلامی کی فکر کو ماننے والے لوگ نہایت اطمینان کے ساتھ انڈیا کے سیکولر نظام کے تحت کام کررہے ہیں۔ وہ پُر فخر طور پر یہاں اپنے اسلامی کارنامے بیان کرتے ہیں۔ مگر جماعت اسلامی کا معاملہ بھی وہی ہے جو ا لإخوان المسلمون کا معاملہ ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگوں نے پاکستان میںجو کچھ کیا اُس پر اُنہیں صرف سیاسی نادانی کا کریڈٹ دیا جائے گا۔ اسی طرح انڈیا کی جماعت اسلامی کے لوگ انڈیا میں اپنے اعلان کے مطابق، جو کارنامے انجام دے رہے ہیں اُس پر بھی وہ کوئی کریڈٹ نہیں پا سکتے۔ إلّا یہ کہ وہ کھُلے طورپر یہ اعلان کریں کہ اُن کے بانی کا نظریۂ سیکولرزم یا سیکولر نظام کے بارے میں سراسر غلط تھا اور زمانہ سے بے خبری پر مبنی تھا۔ اس کھُلے اعلان کے بغیر یقینی طورپر وہ کسی مثبت انعام کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ غلطی کے اعلان کے بغیر انڈیا میں اُن کی پالیسی دوہرا معیار (ڈبل اسٹینڈرڈ) کی پالیسی قرار پائے گی۔ اور غلطی کے اعتراف کے بعد اُن کی یہ پالیسی موجبِ ثواب توبہ کی حیثیت اختیار کر لے گی۔
قابل حصول نقشۂ کار (available framework) کی جو بات یہاں لکھی گئی، وہ فرد اور جماعت دونوں کے لیے یکساں طورپر نہایت اہم ہے۔ حدیث کی زبان میںوہ اختیار أیسر کی پالیسی ہے، اور فطرت کی زبان میںوہ حقیقت پسندی کی پالیسی۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کو اختیار کئے بغیر اس دنیا میں نہ کوئی فرد کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرسکتا ہے اور نہ کوئی جماعت۔ یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے جس میں کسی کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔
واپس اوپر جائیں
یہ ۱۳ مارچ ۲۰۰۲ کا واقعہ ہے۔ نئی دہلی کے کیٹ آفس (CAT office)میں ڈاکٹرشمس الآفاق خاں اپنے کام سے گئے ہوئے تھے۔ وہاں حسب معمول دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ ایک آدمی ان کے سامنے تھا۔ ڈاکٹر صاحب آگے جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا کہ مجھے راستہ دے دو۔
آفس میں اپنے کام سے فارغ ہوکر جب وہ نکلے تو گیٹ کے باہر دو آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک وہی شخص تھا جس کی پیٹھ پر ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ رکھا تھا۔ اور دوسرا اس کا ساتھی تھا۔ دونوں صورت سے جاٹ معلوم ہوتے تھے۔
مذکورہ آدمی نے جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا وہ اچانک بگڑ گیا۔ وہ نہایت اشتعال انگیز لہجہ میں ان کو برا بھلا کہنے لگا۔ حتیٰ کہ اس نے کہا کہ راجند ر، تم کیا سمجھتے ہو، میں تم کو گولی مار دوں گا۔ ڈاکٹرشمس الآفاق صاحب اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اب تک بالکل خاموش تھے۔ جب اس آدمی نے راجندر کا نام لیا تو انہوں نے فوراً محسوس کیا کہ یہ غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ ابھی وہ چپ ہی تھے کہ ان کے ساتھی مسٹر اشوک کمار نے کہا کہ بھائی، تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ تو ڈاکٹر شمس الآفاق ہیں۔ اور یہ فلاں سرکاری محکمہ میں افسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس آدمی کو یقین نہیں آیا۔ شاید اس کے مفروضہ راجندر کی صورت ڈاکٹر صاحب سے کچھ ملتی جلتی تھی۔ اس کی طلب پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے اپنا آئڈنٹٹی کارڈ نکالا اور اس آدمی کو دکھایا۔ آئڈنٹٹی کارڈ کو دیکھتے ہی وہ ایسا ہوگیا جیسے پھولے ہوئے غبارہ کی ہوا اچانک نکل گئی ہو۔اور پھر وہ سر جھکا کر خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔
اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے خلاف برا برتاؤ کرے تو فوراً اس کو اپنا دشمن نہ سمجھ لیجئے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے برے برتاؤ کا سبب اس کی غلط فہمی ہو۔ اگر آپ صبر و اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس سے نرمی کا معاملہ کریںتو عین ممکن ہے کہ آپ کی صحیح تصویر کو جاننے کے بعد اس کا رویہ بالکل بدل جائے۔ گولی مارنے کی بات کرنے والا آدمی آپ کو پھول کی پیش کش کرنے لگے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ بے صبری کا انداز آدمی کے نفس امّارہ کو جگاتا ہے۔ اس کے برعکس صبر کا انداز اس کے نفس لوّامہ کو جگا دیتا ہے۔ نفس امّارہ کا جاگنا آدمی کوآپ کا دشمن بنا دیتا ہے۔ اور نفس لوّامہ کا جاگنا آدمی کو آپ کا دوست بنا دیتا ہے۔
انسانی زندگی میں غلط فہمی پیدا ہونا ایک عام بات ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی بھی شخص کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے غلط فہمی پیدا ہونا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں۔ جرم یہ ہے کہ غلط فہمی پیدا ہونے کے بعد وہ درست رویہ اختیار نہ کرے۔
اگر کسی شخص کو کسی کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوجائے تو صرف غلط فہمی کی بنیاد پر اسے مان نہیں لینا چاہئے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ معاملہ کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بعد اگر وہ بات غلط ثابت ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اس کو مکمل طورپر اپنے دل سے نکال دے۔
غلط فہمی کی تحقیق سے پہلے اس کا چرچا کرنا سخت گناہ ہے۔ ایک آدمی کسی کے بارے میں تحقیق کے بغیر بھلی بات تو کہہ سکتاہے مگر تحقیق کے بغیر بری بات کہنا سر تا سر حرام ہے۔ ایسی روش پر اللہ کے یہاں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے۔
خدا کا پسندیدہ معاشرہ وہ ہے جس میں لوگوں کے باہمی تعلقات حسن ظن کی بنیاد پر قائم ہوں۔ کسی کے بارے میں کوئی بری بات معلوم ہو تو تحقیق کے بغیر ہی اس کو رد کر دیا جائے۔ اس قسم کی باتیں براہِ راست طور پر آخرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے، خدا آخرت میںاس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔
دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا ایک قسم کی عملی دعا ہے۔ ایسا آدمی گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا، میںنے تیرے بندوں کے ساتھ بہتر معاملہ کیا، تو بھی میرے ساتھ بہتر معاملہ فرما، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
واپس اوپر جائیں
آج کل آتنک واد یا دہشت گردی (terrorism) کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ تقریباً ہر ملک میں اس موضوع پر لکھا اور بولا جارہا ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، ابھی تک اس کی کوئی واضح تعریف سامنے نہ آسکی۔ لوگ آتنک واد کی مذمت کرتے ہیں، مگر وہ بتا نہیں پاتے کہ آتنک واد متعین طور پر ہے کیا۔
راقم الحروف نے اس سوال کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، غیر حکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا آتنک واد ہے:
Armed struggle by non-governmental organisations
اسلام آزادی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، قومی یا سیاسی مقصد کے لیے پُر امن تحریک چلانے کا حق کسی بھی شخص یا جماعت کو حاصل ہے۔ یہ حق اُس کو اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔ اسلام میں ہتھیار کا استعمال یا کسی حقیقی ضرورت کے تحت مسلّح عمل کا حق صرف باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کوحاصل ہے۔ غیرحکومتی تنظیمیں (NGOs) کو کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانے کا حق حاصل نہیں (اس اسلامی حکم کی تفصیل میری کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے)۔
مجرم کو سزا دینا، حملہ آور کے مقابلہ میںدفاع کرنا، اس طرح کے امور جو بین اقوامی اُصول کے مطابق، کسی قائم شدہ حکومت کو مسلّح کارروائی کا حق دیتے ہیں۔ یہی خود اسلام کا اصول بھی ہے۔ اس اُصول کی روشنی میں ٹیررزم کی تعریف یہ ہے کہ ـــــ ٹیررزم اُس مسلح کارروائی کا نام ہے جو کسی غیرحکومتی تنظیم نے کی ہو۔ یہ غیر حکومتی تنظیم خواہ کوئی بھی عذر پیش کرے مگر وہ ہر حال میں ناقابلِ قبول ہوگا۔ ایک غیر حکومتی تنظیم اگر یہ محسوس کرتی ہے کہ ملک میں کوئی بے انصافی ہوئی ہے یا حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اُس کو صرف یہ حق ہے کہ وہ پُر امن جدوجہد کے دائرہ میں رہـتے ہوئے اپنی کوشش کو جاری کرے۔ وہ کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہ اختیار کرے۔
کوئی فرد یا کوئی غیر حکومتی تنظیم اگر یہ کہے کہ ہم تو پُر امن عمل چاہتے ہیں مگر فریقِ ثانی پُر امن عمل کے ذریعہ ہمیں ہمارا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں ہم کیا کریں۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ کی ذمہ داری حکومت پر ہے، نہ کہ غیر حکومتی تنظیم پر۔ اگر کسی کا یہ احساس ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے تب بھی اُس کے لیے جائز نہیں کہ وہ حکومت کا کام خود کرنے لگے۔ ایسی حالت میں بھی اُس کے لیے صرف دو میں سے ایک راستہ کا انتخاب ہیــــصبر یا پُر امن جدوجہد۔ یعنی یا تو پُر امن عمل کرنا، یا سِرے سے کوئی عمل ہی نہ کرنا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی دہشت گردی یا حکومتی تشدد کا حکم کیا ہے۔ یعنی حکومت اگر غیر مطلوب تشدد کا وہی کام کرے جو کوئی غیرحکومتی تنظیم کرتی ہے تو ایسی حالت میں اُس کا حکم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ حکومتی تشدد حکومت کے لیے اپنے حق کا بے جا استعمال ہے، جب کہ غیر حکومتی تنظیم کے لیے تشدد ایک ایسا فعل ہے جس کو کرنے کا اُسے کوئی حق ہی نہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ حق کے بغیر کسی فعل کو کرنا اور حکماً حق رکھتے ہوئے اُس کا بے جا استعمال(misuse) کرنا، دونوں ایک دوسرے سے نوعی طورپر مختلف ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر غیر حکومتی تنظیم تشدد کرتی ہے تو اُس سے اُس کا جواز پوچھے بغیر تشدد سے باز رہنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی باقاعدہ حکومت بے جا تشدد کرتی ہے تو اُس سے کہا جائے گا کہ تم کو چاہئے کہ اپنے حاصل شدہ حق کا صرف جائز استعمال کرو۔ حق کا ناجائز استعمال کرکے حکومت بھی اپنے آپ کو اُسی طرح مجرم بنالیتی ہے جس طرح کوئی غیر حکومتی تنظیم۔
مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ کوئی باضابطہ سرجن اگر جسم کے غلط حصہ پر نشتر چلائے تو وہ اپنے حق کا بے جا استعمال کرنے کا مجرم ہوگا۔ ایک تربیت یافتہ سرجن کو صحیح مقام پر نشتر چلانے کا حق تو ضرور ہے مگر غلط مقام پر نشتر چلانے کا اُس کو کوئی حق نہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک غیر سرجن کسی انسان کے جسم پر نشتر چلانے لگے تو اُس کا ایسا کرنا ہر حال میں غلط ہوگا کیونکہ ایک غیر سرجن کو نہ بظاہر درست مقام پر نشتر چلانے کا حق ہے اور نہ غلط مقام پر۔
واپس اوپر جائیں
ہائی جیکنگ (ہوائی قذّافی) بلا شبہہ ایک فعل حرام ہے۔ اس کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے، یقینی طورپر وہ شرعی اعتبار سے حرام اور انسانی اعتبار سے جرم قرار پائے گا۔ ہائی جیکنگ کو جائز ثابت کرنا صرف جرم کے اوپر سرکشی کا اضافہ ہے۔ ہائی جیکنگ ایک ایسا جرم ہے جس میں بیک وقت کئی سنگین جرائم شامل ہو جاتے ہیں ــــرہزنی (highway robbery) ، یرغمال (hostage) بنانا، ناحق قتل کرنا، دھوکہ کی جنگ، کسی کے مال کو غصب کرنا اور اس کو نقصان پہنچانا۔
۱۔ رہزنی کیا ہے، رہزنی یہ ہے کہ کسی آدمی کو غیر محفوظ (vulnerable) حالت میں پاکر اس پر حملہ کرنا اور اس کو جانی اور مالی نقصان پہنچانا۔ پہلے زمانہ میں برّی رہزنی (highway robbery)کا رواج تھا۔ اس کے بعد بحری قذافی (piracy) کی جانے لگی۔ اب موجودہ زمانہ میں ہوائی قذّافی (hijacking) شروع ہوگئی ہے۔ رہزنی کی یہ تمام قسمیں اسلام میں یکساں طور پر حرام ہیں۔ جو فرد یا گروہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اس قسم کا فعل کرے وہ بلا شبہہ سخت گناہگار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے لئے اسی انجام کا خطرہ ہے جو کسی فعل حرام کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے مقدر ہے۔ الاّ یہ کہ وہ توبہ کرے اور علی الاعلان متعلقہ افراد سے اپنے جرم کی معافی مانگے۔ اسی کے ساتھ وہ اس نقصان کی تلافی کرے جو اس نے ہائی جیکنگ کے ذریعہ کسی کو پہنچایا ہے۔
۲۔ یرغمال بنانا یہ ہے کہ اپنی کچھ مانگوں کے لئے موقع پا کر معصوم لوگوں کو پکڑنا اور پھر سودے بازی کرنا۔ یرغمال بنانے کا یہ رواج قدیم زمانہ میں بھی تھا لیکن موجودہ زمانہ میں اس نے اب باقاعدہ فن کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس قسم کا فعل بلا شبہہ سخت گناہ بھی ہے اور بزدلی بھی۔ یہ بات اسلام میں سراسر حرام ہے کہ آپ کو کسی سے شکایت ہو اور آپ اس کا بدلہ کسی اور سے لیں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر کسی معصوم جان کو ستانا اسلام میں ہر گز جائز نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے نام سے جو معاہدہ کیا تھا اس سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ اگر فریق ثانی ہمارے کسی آدمی کو یرغمال بنا لے تب بھی ہمیں فریقِ ثانی کے آدمی کو یرغمال بنانا جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ معصوم افراد سے انتقام لینے کے ہم معنٰی ہے اور معصوم افراد پر ظلم کرکے اپنے انتقام کی آگ بجھانا بلا شبہہ اسلامی شریعت میں جائز نہیں۔
۳۔ جو لوگ ہائی جیکنگ کرتے ہیں وہ اپنے مجرمانہ مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکثر بے قصور مسافروں کو قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ اس قسم کاقتل بلا شبہہ انتہائی سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص کسی ایک آدمی کو بھی ناحق قتل کرے، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کرڈالا (المائدہ ۳۲) ۔اس اعلان خداوندی کے باوجود جو لوگ بے قصور مسافروں کو قتل کریں یا ان کو ستائیں ان کے دل بلا شبہہ خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ اور جس دل کے اندر خدا کا خوف نہ ہو وہ یقینی طورپر ایمان سے بھی خالی ہوگا۔
ہوائی جہاز میں جو مسافر سفر کررہے ہوتے ہیں، واضح طورپر وہ بے قصور ہوتے ہیں۔ ہائی جیکروں کے ساتھ ان کا کوئی بھی نزاعی معاملہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں ان کے سفر میں رکاوٹ ڈالنا، ان کو ستانا، یا ان کو قتل کرنا، یہ سب کا سب اسلام میں حرام ہے، حتٰی کہ اگر بالفرض کسی مسافر نے کوئی غلطی کی ہو تب بھی اس کی غلطی پر سزادینے کا اختیار صرف باقاعدہ عدالت کو ہے۔ کوئی بھی غیرعدالتی آدمی قصور وار کو بھی سزا دینے کا حق نہیں رکھتا۔ پھر بے قصور مسافروں کو سزا دینا تو اور بھی زیادہ غیراسلامی فعل قرار پائے گا۔
۴۔ اسلام میں دھوکہ دینا مطلق طورپر حرام ہے، خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لئے ہو۔ موجودہ زمانہ کی ہائی جیکنگ مکمل طورپر دھوکہ کا ایک فعل ہے۔ ہائی جیکنگ کرنے والے ہائی جیکنگ کے ہر اسٹیج پر لوگوں کے ساتھ دھوکہ کا معاملہ کرتے ہیں۔ فرضی پاسپورٹ بنوانا، جعلی کرنسی استعمال کرنا، ائرپورٹ پر عملہ کو دھوکہ دے کر خطرناک ہتھیار جہاز میں پہنچانا، متعلق افراد کو دھوکہ دے کر جہاز کے اندر داخل ہونا، وغیرہ۔ یہ سارا عمل جھوٹ اور دھوکہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اور جھوٹ اور دھوکہ اسلام میں انتہائی سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلام میں صرف کھلے معاملہ کی اجازت دی گئی ہے۔ اسلام میں اس مجرمانہ کارروائی کے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ لوگوں کو فریب دے کر اپنا مقصد حاصل کیا جائے۔ حتی کہ اگر ایک مسلم ملک کے تعلقات دوسرے ملک سے امن کی بنیاد پر قائم ہوں اور پھر مسلم ملک کسی وجہ سے اس ملک کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہے تو مسلم ملک پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اپنے اس فیصلہ کا کھلا اعلان کرے اور یہ کہے کہ آج سے ہم اور تم بر سرِ جنگ ہیں (الانفال ۵۸)۔ در پردہ جنگ یا پراکسی وار (proxy war) اسلام میں قطعاً جائز نہیں۔
جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر اپنا مقصد حاصل کرنا انسانی نقطۂ نظر سے بھی ایک پست حرکت ہے۔ اور اسلامی نقطۂ نظر سے بھی وہ ایک گناہ عظیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من غشنا فلیس منا (صحیح مسلم، کتاب الایمان) یعنی جو شخص دھوکہ کا معاملہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
۵۔ ہائی جیکنگ میں جان اور مال دونوں کا نقصان شامل ہے۔ ایک طرف ایک پورا ہوائی جہاز ہے جس کی قیمت کروڑوں روپیہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میںجہاز میں گھس کر یہ دھمکی دینا کہ ہماری مانگیں پوری کرو ورنہ ہم جہاز کو بم سے اڑا دیں گے، یہ مال کا غصب بھی ہے اور دوسرے کے ما ل کو ناحق تلف کرنا بھی۔ جہاز میں عام طورپر سیکڑوں آدمی سوار رہتے ہیں اور یہ سب بے قصور ہوتے ہیں اس لئے جہاز کو تباہ کرنے کا ہر منصوبہ سیکڑوں بے گناہ لوگوں پر ظلم اور قتل کے ہم معنیٰ ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کا ہر فعل خود ہائی جیکرس کے لئے بھی خود کشی کے اقدام کے برابر ہے جو خود بھی اتنی بری چیز ہے کہ اسلامی شریعت میں بتایا گیا ہے کہ جو آدمی جان بوجھ کر اپنے آپ کو مارے وہ حرام موت مرا۔ اور حرام موت سے بُری کوئی موت اسلام میں نہیں۔
ہائی جیکنگ کا خونیں ڈرامہ کرنے والے اپنے اس فعل کو اسلامی جہاد قرار دیتے ہیں۔ یہ توجیہہ بلا شبہہ مجرمانہ حد تک غلط ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہیں۔
اسلامی جہاد اللہ کے راستہ میں دفاعی طورپر کیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ لوگ جو نام نہاد جنگ لڑرہے ہیں وہ ملک اور مال کے لئے ہے۔ ملک اور مال کے لئے جو جنگ لڑی جائے وہ ہر گز جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاد (بمعنیٰ قتال) صرف ایک قائم شدہ ریاست کا فعل ہے نہ کہ عام افراد کا۔ موجودہ جنگ کی صورت یہ ہے کہ اس کو عام افراد چھیڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ عام افراد کو اسلامی نقطۂ نظر سے یہ حق ہی حاصل نہیں۔ عام افراد اگر جنگ چھیڑیں تو یہ ان کے لئے ایک فعل حرام کا ارتکاب ہوگا۔
ایک قائم شدہ ریاست جارحیت کی صورت میں دفاعی جنگ لڑسکتی ہے مگر ایسی دفاعی جنگ بھی اس وقت اسلامی جنگ ہوگی جب کہ وہ کھلے اعلان کے ساتھ لڑی جائے۔ اعلان کے بغیر کسی کے خلاف پراکسی وار چھیڑنا اور اس کو جھوٹ کے بل پر چلانا اسلام میں ہر گز جائز نہیں۔
اسلام میں حقوق کی دو قسمیں کی گئی ہیںــــحقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ سے مراد وہ ذمہ داریاں ہیں جو خدا کی نسبت سے بندے پر عائد ہوتی ہیں۔اگر کوئی بندہ حقوق اللہ کے معاملہ میں کوتاہی کرے تو اس کی تلافی کے لئے معافی مانگنا ہی کافی ہو جاتا ہے۔
مگر حقوق العباد کا معاملہ بے حد سنگین ہے۔ حقوق العباد میں غلطی کرنے کا معاملہ انسانوں سے ہوتا ہے۔ جو آدمی انسان کے معاملہ میں کوئی جرم کرے تو صرف خدا سے معافی مانگنا اس کی تلافی کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ خدا سے معافی مانگنے کے ساتھ اس کے اوپر لازم ہے کہ وہ متعلق لوگوں سے بھی معافی مانگے اور اس نقصان کی تلافی کرے جو اس نے انہیں پہنچایا ہے۔
ہائی جیکنگ کا تعلق بلا شبہہ حقوق العباد سے ہے۔ یہ انسان کے مقابلہ میں ظلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ہائی جیکروں پر لازم ہے کہ وہ ستم زدہ انسانوں سے باقاعدہ طورپر اس کی تلافی کریں۔ ورنہ وہ خدا کے نزدیک ناقابل معافی مجرم قرار پائیں گے، خواہ وہ بظاہر نماز روزہ کیوں نہ ادا کررہے ہوں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں ارشاد ہوا ہے: کلما أوقدو ا نارا للحرب أطفأھا اللہ۔ (المائدہ ۶۴) یعنی جب کبھی وہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اُس کو بجھا دیتا ہے۔
اس آیت میں وقتِ نزول کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر یہود مراد تھے۔ مگر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ایک عمومی حکم ہے اور وہ اہل اسلام کے لیے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے یہ اُصول معلوم ہوتا ہے کہ مخالف فریق اگر آگ بھڑکانے کی کوشش کرے تواہلِ اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ اُس کو فوراً بجھانے کی تدبیر کریں، نہ کہ وہ اُس کو مزید بھڑکائیں۔
مثال کے طورپر ایک بس میں کچھ غیر مسلم مسافر سفر کر رہے ہیں۔ اُس میں ایک باریش مسلمان بھی موجود ہے۔ بس میں کچھ غیر سنجیدہ قسم کے غیر مسلمہیں۔ وہ مذکورہ مسلمان سے دل آزاری کی باتیں کرتے ہیں ۔ وہ اُس کواشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھربس جب اپنے اسٹیشن پر رکتی ہے تو مذکورہ مسلمان باہر آکر بلند آواز سے یہ کہتا ہے کہ اے مسلمانو، اس بس کے مسافروں نے میری بے عزتی کی ہے، تم ان کو سبق دو۔
اس کے بعد مقامی مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ بس پر یورش کردیتے ہیں۔ بات بڑھتی ہے۔ یہاں تک کہ غصہ میں بھرے ہوئے مسلمان بس میںآگ لگادیتے ہیں۔ اس آگ میں بس بھی تباہ ہوتی ہے اور اُس کے بیشترمسافر جل کر مر جاتے ہیں۔
مذکورہ مسلمانوں کا یہ رویہ قرآن کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کی روشنی میںاس معاملہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ بس کے غیر مسلم مسافروں نے جو ’’آگ‘‘ بھڑکائی تھی اُسے مسلمانوں کوبجھانا چاہیے تھا۔ پُر امن تدبیر کے ذریعہ اُنہیں اشتعال کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے اس کے برعکس عمل کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب بس کو اور اُس کے مسافروں کو زندہ جلانے کی خبر پھیلی تو پوری ریاست کے غیر مسلم غصہ میں بھڑک اٹھے ۔انہوں نے ریاست میں بسے ہوئے مسلمانوں کو جلانا اور مارنا شروع کیا۔ اُن کی دکانوں اور مکانوں کو تباہ کیا گیا۔ اس طرح بس کے ایک مسلمان مسافر کے ساتھ بدتمیزی کی صورت میں جو بُرائی پیش آئی تھی وہ بہت بڑے اضافہ کے ساتھ پوری ریاست کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی۔ آگ لگانے والے اگر آگ لگائیں تب بھی مسلمان کا کام اُس کو بجھانا ہے، نہ کہ اُس کو مزید بھڑکانا۔
نزاع کے معاملہ میں جوابی سلوک کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) زیادتی کرنے والے کے ساتھ مزید اضافہ کے ساتھ زیادتی کرنا (۲) زیادتی کاجواب برابر کی زیادتی سے دینا (۳) زیادتی کرنے والے کو یک طرفہ طورپر معاف کردینا۔ اس طرح کے معاملہ میں ان کے علاوہ کوئی چوتھی صورت غالباً نہیںہے۔
زیادتی کا جواب مزید زیادتی کے ساتھ دینا اصل مسئلہ کو تو حل نہیں کرتا، البتہ وہ انتقام اور جوابی انتقام کا جذبہ بھڑکاکر مسئلہ کو اورزیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔ فریق ثانی بھی دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ زیادتی کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس طرح بُرائی ایک ایسی حد پر پہنچ جاتی ہے جس کو ختم کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔
زیادتی کاجواب برابر کی زیادتی سے دینا اگر چہ جائز ہے مگر وہ بھی منفی جذبات پیدا کرنے والا ہے اس لیے بہتر ہے کہ اُس سے پرہیز کیا جائے۔ کیوں کہ اس کے ذریعہ دل کی بھڑاس تو نکل سکتی ہے مگر وہ مسئلہ کو حل کرنے والی نہیں۔
اس طرح کے نزاع کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ اُس کو یک طرفہ طورپر معاف کردیا جائے۔ اس طرح کا اعلیٰ سلوک نزاع کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردیتا ہے۔ وہ ظالم کے مقابلہ میں مظلوم کو اخلاقی فتح عطا کرتا ہے اور بلاشبہہ اخلاقی فتح سے بڑی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔ اخلاقی فتح بلا شبہہ سیاسی فتح سے بھی زیادہ عظیم ہے۔
واپس اوپر جائیں
۲۷ فروری ۲۰۰۲ء کو مغربی ہندستان کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ ہوا۔ کچھ لوگوں نے مشتعل ہوکر ٹرین کے ایک ڈبّہ میں آگ لگادی جس میں تقریباً ساٹھ ہندومسافر جل کر مرگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آگ لگانے والے لوگ مسلمان تھے۔ اُس کے بعد مارچ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اُٹھا۔ اس فساد میں تقریباً ایک ہزار مسلمان مار ڈالے گئے اور اُن کے بہت سے گھروں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات میں اس فساد کو کرنے والے لوگ ہندو تھے۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ دونوں واقعات کو کرنے والا ایک ہی مشترک گروہ تھا، اور وہ ہے جاہل اور بے پڑھے لکھے لوگوں کی بھیڑ۔ گودھرا ریلوے اسٹیشن پر جن لوگوں نے ٹرین کے ڈبہ میں آگ لگائی وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ مسلمان۔ اسی طرح ریاست گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔
تعلیم یافتہ انسان اور غیر تعلیم یافتہ انسان میں کیا فرق ہے۔ وہ شعور اور بے شعوری کا فرق ہے۔ غیر تعلیم یافتہ انسان اپنے نا پختہ شعور کی بنا پر صرف اپنے جذبات کو جانتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ انسان اپنے پختہ شعور کی بنا پر اپنے جذبات کے ساتھ اُس کے نتائج (consequences) کو بھی جانتا ہے۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو اگر ٹھیس لگتی ہے تو وہ بھڑک کر متشددانہ کارروائی کرنا شروع کردیتاہے، خواہ اُس کا نتیجہ زیادہ بڑے نقصان کی صورت میں خود اُس کو بھگتنا پڑے۔ اس کے برعکس اگر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے تو وہ حکمت اور تحمل سے کام لیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی شعوری بیدار ی کی بنا پر زندگی کی اس عالمگیر حقیقت کو جانتا ہے کہ ــــــچھوٹے نقصان کو برداشت کرلو تاکہ تمہیں بڑے نقصان کو برداشت نہ کرنا پڑے۔
ایک بڑے شہر کے ریلوے پلیٹ فارم پر دو تعلیم یافتہ آدمی آگے پیچھے چل رہے تھے۔ پیچھے والے مسافر کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا۔ اُس نے تیزی سے آگے بڑھنا چاہا۔ اس کوشش میں اُس کا بیگ اگلے آدمی سے ٹکراگیا۔ اگلا آدمی اچانک پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ صرف یہ تھا کہ پیچھے والے نے معذرت کے انداز میں کہا کہ ساری(sorry) ۔ اس کے بعد آگے والے نے نرمی کے ساتھ کہا کہ اوکے(okay) اور پھر دونوں خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اس کے برعکس اگر یہ دونوں مسافر جاہل اور بے شعور ہوتے تو دونوں غصّہ ہوجاتے۔ ایک کہتا کہ تم اندھے ہو۔ دوسرا کہتا کہ تم پاگل ہو۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے لڑ جاتے، خواہ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہو کہ دونوں کی ٹرین چھوٹ جائے، اور وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے اسپتال میں داخل کر دئیے جائیں۔
اصلاح کا حقیقیطریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ اس قسم کے تمام جھگڑوں کی جڑ جہالت ہے۔ اس لیے اس وقت کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ پورے ملک کو مکمل طورپر تعلیم یافتہ بنا دیا جائے۔ یہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے اور اس جڑ کو ختم کرکے فساد کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ریاست کیرلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کیرلا میں جھگڑے اور فساد جیسے واقعات پیش نہیں آتے۔ اسی ملکی تجربہ میں مسئلہ کا حل چھپا ہواہیــــــلوگوں کو تعلیم یافتہ بنائیے ، اور اس کے بعد فرقہ وارانہ جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔
جارج برناڈ شا نے کہا تھا کہ جس آدمی کے پاس بھُلا دینے کے لیے کچھ نہیں وہی سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان ہے۔ مستقبل کی تعمیر صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ پچھلی باتوں کو بھُلا دیا جائے، اور بھلانے کی یہ حکمت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو ان کی تعلیم نے باشعور بنادیا ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک خط
برادر محترم محمد مسیح الدین فاروقی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۳۰ مارچ ۲۰۰۲ء تحفہ کے پارسل کے ساتھ ملا، جزاکم اللہ۔ مجھے فاروقی منجن کے مقامی ڈیلر کا پتہ مطلوب تھا۔ میںنے آرڈینری پوسٹ کارڈ پر اپنے رفیق کار برادرم ندیم احمد سنابلی سے معمولی انداز میں ایک خط لکھوا کر بھیج دیا تھا۔ ایسا میںنے اس لیے کیا تھا تاکہ میری آئیڈینٹیٹی مخفی رہے۔ مگر یہ اتقوافراسۃ المؤمن فإنہ ینظربنور اللہ کا معاملہ بن گیا۔ آپ نے حیرت انگیز طورپر اس کو پہچان لیا اور تحفہ کی صورت میںمطلوب اشیاء کا ایک پارسل روانہ فرما دیا۔
اصل یہ ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، مجھے بھی دانت کی شکایت تھی۔ میں پابندی کے ساتھ سفر وحضر میں مسواک کرتا رہا ہوں۔ اسی طرح ملک کے اندر اور ملک کے باہر بننے والے ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کئے۔ مگر اس کے باوجود دانت میں وہی مسئلے پیدا ہوگئے جو عام طورپر دوسرے لوگوں کو پیش آتے ہیں، یعنی درد وغیرہ۔
اس کے بعد میں نے آپ کے یہاں کا بنا ہوا فاروقی منجن استعمال کیا جو پچھلے سفر حیدرآباد میںآپ نے مجھے دیاتھا۔ مگر میں بروقت اس کو استعمال نہ کرسکا تھا۔ اُس کی ایک شیشی میرے پاس باقی تھی۔ اُس کو استعمال کرنے سے حیرت انگیز طورپر دانت کی تکلیف دور ہوگئی۔ اس تجربہ کی بنا پر میں نے مقامی ڈیلر کا پتہ معلوم کرنے کے لیے وہ کارڈ آپ کے دفتر کے نام بھجوایاتھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ آپ کے دفتر کے کارکن مجھ سے بخوبی واقف ہیں، ورنہ یہ صورت حال پیش نہ آتی۔
یہاں میں اپنا ایک اور احساس درج کرنا چاہتا ہوں۔ تقریباً تیس سال پہلے، الجمعیۃ ویکلی میں میں نے چند مضامین شائع کئے تھے۔ اُن میں میں نے لکھا تھا کہ مسلم طب، جو عام طورپر یونانی طب کے نام سے مشہور ہے، وہ امکانی طورپر مغربی طب سے بدرجہا زیادہ فائق حیثیت رکھتی ہے۔ مغربی طب کی بنیاد جراثیم (بیکٹریا) کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ خارجی جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہو کر بیماری پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے مغربی طب میں زہریلی دواؤں کے ذریعہ ان جراثیم کو ہلاک کیا جاتا ہے تاکہ انسان کو مرض سے بچایاجاسکے۔ مگر یہ طریقہ دودھاری تلوار کی مانند ہے۔ وہ اگر مفروضہ جراثیم کو ہلاک کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ خود انسان کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
نیز تجربہ بتاتاہے کہ جب اس قسم کی ایک دوا کو کچھ عرصہ تک استعمال کیا جائے تو جراثیم کے اندر مقاومت (resistance) پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ضرورت ہوتی ہے کہ ان جراثیم کو ہلاک کرنے کے لیے زیادہ شدید دوا استعمال کی جائے۔ اس طرح جراثیم کُشی کا عمل آخر کار انسان کُشی کے ہم معنٰی بن جاتا ہے۔
قدیم یونانی طِب جس کو مسلمانوں نے مزید ترقی دے کر ایک مکمل فن بنا دیا تھا اُس کا اُصول علاج اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ طبیعت مدبّر ۂ بدن کے اصول پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں فطری طورپر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ مرض کا مقابلہ کرکے اُس کو دفع کرتی رہے۔ جدید حیاتیات میںاس پر کافی ریسرچ ہوئی ہے۔ اس کو اصطلاحی طور پر مقاومت (immunity) کہا جاتا ہے:
The ability of an organism to resist infection, by means of the presence of circulating antibodies and white blood cells. (Concise Oxford dictionary)
اس موضوع پر کافی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میںامیونٹی (immunity) کے عنوان سے تفصیلی مقالہ شامل ہے۔ اس سلسلہ میں ایک مستند کتاب کا نام یہ ہے:
Genitics of the Immune Response, 1968.
مغربی طب جراثیم کشی کے اصول پر قائم ہے جو خود ایک بیماری ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلم طِب یا قدیم طب کا اصول یہ ہے کہ جسم کے تدبیری نظام کو تقویت دی جائے۔ اوراُس کو متحرک کرکے فطری انداز میں مرض کا علاج کیا جائے۔ بعض ہنگامی حالات میں استثنائی طورپر بعض دوسرے طریقوں، مثلاً آپریشن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مگر عام حالات میں فطرت کا نظام ہی حفظان صحت کے لیے کافی ہے۔ حیوانات کے اندر یہی نظام حیوانات کی صحت کا ضامن بنا رہتا ہے۔
میں نے الجمعیۃ ویکلی میں لکھا تھا کہ حکیم اجمل خاں (وفات ۱۹۳۰ ) جو طب میںاجتہاد کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے طب قدیم کی اس امتیازی اہمیت کو جان لیا تھا۔ وہ دہلی میں ایک طبّی یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے جہاں ریسرچ کے جدید طریقوں کو استعمال کر کے مسلم طب کو زمانۂ حال کے مطابق ترقی دی جائے۔ اس کے لیے اُنہوں نے قرول باغ میں ایک وسیع زمین بھی حاصل کر لی تھی۔ مگر اُس زمانہ میں کچھ مسلم لیڈروں نے جو منفی سیاست چلا رکھی تھی، وہ بد قسمتی سے اُس کا شکار ہوگئے۔ اُن کی زندگی کے آخری نہایت قیمتی بارہ سال اس بے فائدہ سیاست میں ضائع ہوگئے۔ طب کے احیاء جدید کا خواب پورا نہ ہوسکا اور اُس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حکیم اجمل خاں جیسا مجتہدانہ صلاحیت رکھنے والا طبیب دوبارہ اس فن کے لئے حاصل نہیںہوا۔
فاروقی منجن کے تجربہ نے مجھے یہ باتیں یاد دلا دیں۔ فاروقی منجن مذکورہ طبی اُصول پر بنایا گیا ہے۔ اور میرے تجربہ کے مطابق، وہ مغربی ٹوتھ پیسٹ سے زیادہ مفید ہے۔ آج مغربی طب کو غلبہ حاصل ہے اور مسلم طب بظاہر مغلوب ہے۔ لیکن اگر مسلم طب کے مذکورہ امکان کو جدید طرز پر زندہ کیا جائے تو صورت حال برعکس ہوجائے گی۔زندہ طلسمات کے بارے میں بھی میرا تجربہ یہی ہے۔
موجودہ زمانہ میں حکیم عبد الحمید دہلوی (وفات ۱۹۹۹) نے اس سلسلہ میں قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔ اُن کے بھائی حکیم محمد سعید دہلوی جو ملک کی تقسیم کے بعد کراچی میںآباد ہوگئے تھے، وہ مسلم طب کے احیاء جدید کے لیے زیادہ بڑے پیمانہ پر یہی کوشش انجام دے رہے تھے، مگر جیسا کہ معلوم ہے، کراچی میں ۱۹۹۸ء میں اُن کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ہمارے لیڈروں نے جو پاکستان اسلام کے قلعہ کے طورپر بنایا تھا، وہ عملاً اس کے برعکس ثابت ہوا۔
نئی دہلی، ۵ ؍اپریل ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین
ایک خط
برادر محترم مولانا محمد عمر عابدین قاسمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا مقالہ بعنوان ’’ہندستان میں دعوتِ اسلام۔ تاریخ، مواقع اور امکانات‘‘ پڑھا۔ یہ ایک جامع تحریر ہے۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ ہندستان میں دعوت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ہے، جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
اسلام میں دعوت کی اہمیت میرے مطالعہ کا خاص موضوع رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور اوّل میں ۶ھ میں صلح حدیبیہ کا جو واقعہ پیش آیا، اس نے ہمیشہ کے لئے اسلامی دعوت کا رُخ متعین کردیا۔ صلح حدیبیہ کا پیغام ایک لفظ میں یہ تھا کہ صُلح کا ماحول قائم کرو اور اسلام کی اشاعت اپنے آپ ہونے لگے گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف صُلح حدیبیہ کے بعد اُترنے والی سورت میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: انا فتحنا لک فتحا مبینا(الفتح ۱)۔ دوسر ے لفظوں میں یہ کہ فریقِ ثانی کے ساتھ صلح کرنا اسلام کے لیے فتح مبین کا ذریعہ ہے۔مصالحانہ رویہ اختیار کرنا اسلام کے لیے پُرامن فاتحانہ اقدام کا راستہ کھولتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے ہندستان میںکرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان معتدل تعلقات قائم کئے جائیں۔ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ امن کے ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ اس کے بعد اسلام کی نظریاتی اشاعت اپنے آپ ہونے لگے گی۔ ہندستانی صوفیاء کا تجربہ اس معاملہ کی ایک تاریخی مثال ہے۔ اُن کے زمانہ میں اسلام کی اشاعت کا خاص سبب یہی تھا کہ اُنہوں نے اپنی صلح کُل کی پالیسی کے ذریعہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول کو ختم کر دیا تھا۔
موجودہ دنیا کا نظام آزادمسابقت کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق کو دوسرے فریق سے شکایتیں پیدا ہوں۔ یہ ایک فطری امر ہے جو ہمیشہ اور ہر سماج میں باقی رہے گاحتیٰ کہ خود مسلم سماج کے درمیان بھی ۔ ان شکایتوں کا حل شکایت کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اُن سے اعراض کرنا ہے۔ میرے نزیک، عملی اعتبار سے دعوت کایہی سب سے زیادہ اہم نکتہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت تمام ترصبر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جتنا زیادہ صبر اتنا ہی زیادہ دعوت۔
میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ ہندستان کے مسلمان صرف یہ کریں کہ وہ کچھ نہ کریں۔ اور اس کے بعد اسلام اپنے آپ پھیلنے لگے گا۔ اسلام کی اصل طاقت یہ ہے کہ وہ دین فطرت ہے۔ یعنی جو اسلام ہے وہی انسانی فطرت ہے، اور جو انسانی فطرت ہے وہی اسلام ہے۔ اس لیے جہاں مصنوعی نفرت اور کشیدگی کا ماحول نہ ہو وہاں اسلام خود اپنے زور پر بندگان خدا کے دلوں میں جگہ پکڑنے لگے گا۔
برادرانِ وطن کی طرف سے بعض اوقات اسلام کے خلاف باتیں سامنے آتی ہیں۔ اس سے مسلمانوں نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ یہ لوگ اسلام سے عناد رکھتے ہیں۔ یہ سراسر بے اصل بات ہے۔ یہ مخالفانہ باتیں جو لکھی اور بولی جاتی ہیں، بظاہر وہ اسلام کے حوالہ سے ہوتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ قومی اور سیاسی شکایت کا مظہر ہوتی ہیں۔ مسلمان اگر اس حکمت کو جانیں اور برادرانِ وطن کے مقابلہ میں قومی اور سیاسی شکایت کا ماحول ختم کردیں تو اس کے بعد وہ دیکھیں گے کہ کسی کو بھی اسلام کے خلاف نہ نفرت ہے اور نہ عناد۔
ہندستان میں اسلام کی جو اشاعت ہوئی ہے وہ زیادہ تر ملک کے پسماندہ طبقات یا غیر تعلیم یافتہ عوام کے درمیان ہوئی۔ یہ لوگ فطر ی طور پر شعوری انقلاب کے نتیجہ میں اسلام میں داخل نہیں ہوئے بلکہ وہ دوسرے اضافی اسباب کے تحت اُس میں داخل ہوئے، مثلاً برکت یا سماجی برابری جیسی چیزوں کی کشش کی بنا پر۔ یہ عوام جب اسلام میں داخل ہوئے تو وہ اپنے پچھلے مذہب کی رسوم و روایات بھی اپنے ساتھ لائے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہندستان میں بدعات کا جو زور ہے وہ عرب ملکوں میں موجود نہیں۔ بدعات کیا ہیں، بدعات دراصل ہندوؤں کی مشرکانہ رسموں کا اسلامائزیشن ہیں۔ ہندستان میں سماجی ناانصافی کا ماحول اسلام کی اشاعت کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوا۔ مگر اسی کا دوسرا نتیجہ وہ مسائل بھی ہیں جن کو ہم بدعات کہتے ہیں۔ اور جن میںاس ملک کے ،پچاس فیصد سے زیادہ مسلمان مبتلا ہیں۔
اس علاقہ میں اسلامی دعوت کی جو منصوبہ بندی کی جائے اُس میں اس بنیادی نکتہ کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام آج کی دنیا میں حقیقی معنوں میں غالب دین کی حیثیت سے ابھرے تو اسلام کو علم کے زور پر اٹھانا ہوگا، نہ کہ برکت اور فضائل کے زور پر۔ اسلام کے غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں ہے بلکہ فکری اور نظریاتی غلبہ ہے۔ اسلام کو فکری غلبہ اُسی وقت مل سکتا ہے جب کہ اُس کو اس طرح دنیا کے سامنے لایا جائے کہ وہ دوسرے معاصر افکار کے مقابلہ میں لوگوں کو برتر فکر دکھائی دے۔
برکت اور فضائل کا اسلوب صرف عوام کو متاثر کرسکتا ہے، وہ ہرگز خواص کو متأثر کرنے والا نہیں۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ کسی سماج یا کسی انسانی گروہ کے درمیان کسی فکر کو غالب فکر کی حیثیت اُس وقت ملتی ہے جب کہ اُس سماج یا اُس گروہ کے خواص اُس فکر کو کھلے طور پر اپنا لیں۔ دو راول کے مکہ میںابو بکر صدیق اور عمر فاروق، اسی طرح دور اول کے مدینہ میں سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کے قبولِ اسلام کے بعد پیدا ہونے والے موافق حالات اس کا تاریخی ثبوت ہیں۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا خطاب سب سے پہلے اپنی قوم کے خواص سے ہوتا تھا۔ یہ حقیقت قرآن کی اُن آیات سے معلوم ہوتی ہے جن میں قوم کے جواب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وقال الملاء الذین کفروا من قومہ۔
قرآن میں جن لوگوں کو ملاء قوم (سردار قوم) کہاگیا ہے وہ دراصل وقت کے خواص یا وقت کے ذہین لوگ (intellectuals) تھے۔ کسی قوم کے ذہین لوگ در اصل قوم کے مزاج ساز (opinion makers) ہوتے ہیں۔ وہی عوام کے فکر و عمل کا رُخ متعین کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایک شخص پوری قوم میں زندگی پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے: رجُلٌ ذُو ہمۃ یُحی الأمۃ۔
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں تبایا گیا ہے: خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الإسلام۔ دین میں خواص کی یہی اہمیت ہے جس کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے مکّہ میں یہ دعا فرمائی: اللّھم اعز الإسلام بأحد العمرین۔ آغاز اسلام کے وقت مکہ میں دو بے حد ذہین آدمی تھے، عمر بن الخطاب اور عمروبن ہشام (ابوجہل)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کے بارے میں مذکورہ دعا فرمائی۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ ذہن کی دین میں کتنی زیادہ اہمیت ہے۔
آپ نے اپنے مقالہ میں بارہویں صدی عیسوی کے مشہور صوفی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا ذکر کیا ہے اوراُن کو اس معاملہ میں ’’اُسوہ‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ نے لکھا ہے:
تاریخ بتاتی ہے کہ خواجہ اجمیری جب افغانستان سے ہندستان آئے تواُس وقت راجستھان میں جہاں آپ نے قیام فرمایا تھا، پرتھوی راج کی حکومت تھی۔ جب اُس نے آپ کا چرچا سنا تو وہ آپ کو ستانے اور پریشان کرنے کے درپے ہوگیا۔ آپ کو تکلیف پہنچائیں۔ مگر آپ نے کبھی اس کی حرکتوں کا بُرا نہیں مانا اور اس کے خلاف سیاسی ٹکراؤ کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ آپ پوری طرح دعوت کے کام میں یکسو رہے، اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ پرتھوی راج بھی خواجہ اجمیری کے حلقۂ عقیدت میں داخل ہوگیا۔
آپ کا یہ بیان بالکل درست ہے۔ خواجہ معین الدین اجمیری نے کام کا جو طریقہ اختیار کیا، بلاشبہہ وہی طریقہ آج بھی سب سے زیادہ مفید اور مؤثر طریقہ ہے۔ میں اللہ کی توفیق سے اسی طریقہ کا مبلّغ ہوں او ر عملاً اسی پر کار بند ہوں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ موجودہ مسلمان خواجہ اجمیری کا تو زبردست اعتراف کرتے ہیں لیکن آج اگر کوئی شخص ان کے طریقہ کو موجودہ حالات میںزندہ کرنا چاہے تو اس کے اوپر فرضی الزام لگا کر اس کو بدنام کرنے کی کوشش کریں گے۔
نئی دہلی ۲۷ مارچ ۲۰۰۲ء دعا گو وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۴ مارچ ۲۰۰۲ ء کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ آپ نے ملّی اتحاد کے مسئلہ پر زور دیا۔ اس معاملہ پر غور کرنے کے بعد میری سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اتحاد کی بڑی بڑی کوششو ں کے باوجود مسلمان متحد نہ ہوسکے۔
مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کے نام پر بظاہر سارے برّ صغیر ہند کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کردیا تھا۔ مگر یہ اتحاد بہت جلد ریت کے ڈھیر کی طرح بکھر گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں بظاہر مسلمانوں کا بہت بڑا اتحاد قائم ہوا ،مگر پاکستان بننے کے بعد ہی یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کر منتشر ہوگیا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی صورت میں بظاہر پورے ملک کے مسلمانوں کا اتحاد قائم ہوگیا مگر اُس سے بھی جلسہ جلوس کے وقتی دھوم کے سوا مسلمانوں کو کچھ اور نہیں ملا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام سے بڑے بڑے اتحادی جلسے کئے گئے مگر ملّت ایک متحد گروہ نہ بن سکی۔ بابری مسجد کے نام پر بڑی تعداد میں اتحادی مظاہرے ہوئے مگر وہ غیر متّحد ملت کو متحد ملت نہ بنا سکے، وغیرہ۔
مذکورہ اتحادی کوششوں کے درمیان ہمارا ہر لیڈر بڑے بڑے الفاظ بولتا رہا۔ اس لحاظ سے جائزہ لیجئے تو یہ محسوس ہوگا کہ ہمارے لیڈروں کو شاید یہ خبرہی نہ تھی کہ اتحاد کیسے قائم ہوتا ہے اور اتحاد کیسے باقی رہتا ہے۔
مثلاً ہمارے لیڈر بظاہر اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ بھیڑ اور اتحاد میں فرق ہے۔ خطرہ کی گھنٹی بجاکر کوئی بھی شخص وقتی بھیڑ اکٹھا کر سکتا ہے مگر حقیقی اتحاد ایک مثبت واقعہ ہے جو صرف شعوری بیداری کے نتیجہ میں کسی قوم کے اندرپیدا ہوتا ہے۔ ان تمام لوگوں نے بھیڑ کو اتحاد سمجھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتحاد کو شعوری طورپر جانتے بھی نہ تھے۔ پھر جو لوگ اتحاد کی حقیقت سے بے خبرہوں، وہ کیوں کرعملی اتحاد قائم کریں گے۔
دوسری بات یہ کہ اکثر اتحاد اپنے رہنماؤں کے اختلاف کی بنا پر ختم ہوا۔ مثلاً آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رہنماؤں کا باہمی اختلاف۔ یہ لوگ اس ابتدائی حقیقت سے بے خبر تھے کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کے باوجود قائم ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ ایسے بے شعور لوگوں سے یہ اُمید کرنا ہی بے سود ہے کہ وہ ملت کو ایک متحد ملت بنائیں گے۔
میرے نزدیک اتحاد کا آغاز اتحاد کانفرنس سے نہیں ہو سکتا بلکہ وہ شعوری بیداری کے ذریعہ ہوتا ہے۔ موجودہ مسلمانوں میں سب سے پہلے شعوری بیداری پیدا کرنا ہے۔ اُن کے اندر وسیع پیمانہ پر ملّی صحافت وجود میں لانا ہے۔ اُن کے اندر تعمیری معنوں میں ایک قیادت برپا کرنا ہے۔ اُن کے اندر صبر اور تحمل کا مزاج پیدا کرنا ہے۔اُن کے اندر انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی سوچ لانا ہے۔ اس قسم کی ابتدائی کوششوں کے بغیر جو اتحادی کانفرنس ہوگی وہ نشستند و گفتند و برخاستند کے سوا کوئی اور مثال قائم نہیں کرسکتی۔
اس وقت ہندستان کے مسلمان ذہنی اعتبار سے جس مقام پر ہیں وہ یہ ہے کہ اُن کے پاس صرف منفی سوچ کا سرمایہ ہے، مثبت سوچ کا فکری سرمایہ اُن کے پاس موجود نہیں۔ وہ صرف اپنی ملّت کے سطحی مفاد کو جانتے ہیں۔ اُن کی موجودہ تمام سرگرمیاں کمیونٹی ایکٹوزم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وسیع تر انسانیت کے درد سے اُن کے سینے خالی ہیں۔ اعترافِ حقیقت کی اہم ترین انسانی قدر اُن کے اندر اتنی کم ہے کہ شاید اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ذاتی مفاد اور ذاتی مصالح سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی اہمیت نہ اُن کے اصاغر کو معلوم ہے اور نہ اُن کے اکابر کو۔ زمانہ کی تبدیلیوں سے اُن کے دانشور اور علماء دونوں اتنا زیادہ بے خبر ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم شاید اتنی زیادہ بے خبر نہیں ہوگی۔ اُن کا ذہنی ارتقاء اتنا کم ہوا ہے کہ اُن کے درمیان یا تو برکت اور فضیلت پر مبنی تحریکیں مقبول ہوتی ہیں یا جذباتی سیاست پر مبنی تحریکیں۔ ایسی حالت میں اتحاد ملت عمومی معنوں میں ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں۔
۱۵ مارچ ۲۰۰۲ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں
۱ ای ٹی وی، نئی دہلی (EENADU Television) کی ٹیم نے ۱۶ جولائی ۲۰۰۱ء کو صدر اسلامی مرکزکا انٹرویوریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر باری مسعود تھے جو کہ سینئر کرسپانڈنٹ ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر پرویز مشرف کی پالیسی سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ پرویز مشرف اپنی تقریر میں حقیقت پسندی اور تدریج کا نام لیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ منزل متعین کرچکے ہیں اور اس کی طرف زینہ بزینہ بڑھنا چاہتے ہیں۔
۲ ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) کے نمائندہ منوج مہتا نے ۳۱؍ اگست ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں ہندستانی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاگیا کہ ہمارے یہاں ساری تحریکیں ادھیکار پر چلتی ہیں، حقوق پر نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ڈیوٹی پوری کرو، حقوق اپنے آپ ملیں گے۔
۳ ای ٹی وی ،نئی دہلی (EENADU Television) کی ٹیم نے ۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ائمہ مساجد کے بارے میں تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ زیادہ تر امام اپنی مذہبی ذمہ داریوں کی حد تک اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں۔ البتہ بعض امام ایسے ہوسکتے ہیں جو سیاسی ذہن رکھتے ہوں ۔مگر جہاں تک اسلامی اصول کا تعلق ہے، مسجدوں میں سیاسی باتیں کرنا یا مسجدوں کو سیاسی مرکز بنانا درست نہیں۔
۴ دوردرشن (نئی دہلی) کے پروگرام صبح سویرے کے لئے دوردرشن کی ٹیم نے ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو نیویارک میں ہونے والے واقعہ کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا کہ یہ واقعہ ہر اعتبار سے غلط اورقابلِ مذمت تھا۔ مگر آتنک واد کے مسئلہ کا حل صرف بم نہیں ہے بلکہ لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہے۔ امریکہ کا جوابی حملہ اصولاً درست ہے مگر نتیجہ کے اعتبار سے وہ مسئلہ کو ختم کرنے والا نہیں بن سکتا۔
۵ ڈی ڈی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو خاص طورپر جہاد کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قرآن میں جہاد بالقرآن کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جہاد اصلاً ایک پر امن نظریاتی جدوجہد کا نام ہے۔
۶ سری سروج نیندرا سرسوتی پرتشٹھان کی طرف سے کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ کو دستور میں روحانیت (Spirituality in the Constitution) کے موضوع پر ایک سیمنار ہوا۔ اس میں خصوصی طورپر ماہر قانون کو بلایا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔
۷ دہلی پریس پتر پرکاشن کے نمائندہ مسٹر جے پرکاش پانڈے نے ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمان اس ملک میں مظالم کا تختۂ مشق بن رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ افغانستان میںجو کچھ ہوا وہ شرعی جہاد نہیں تھا۔ لڑنا بھڑنا افغانی کلچر کا ایک حصہ ہے۔ یہ افغانی کلچر کا اظہار تھا، نہ کہ اسلامی جہاد۔
۸ نیویارک کے ٹائم میگزین کے نمائندہ مینا کشی گنگولی نے ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق خاص طورپر اسلامی جہاد کے مسائل سے تھا۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ اسلامی جہاد (بمعنیٰ قتال) انٹرنیشنل نارم سے الگ کوئی چیز نہیں۔ دنیا کے مسلّمہ قانون کے مطابق، دفاع ہر ایک کا حق ہے۔ اس دفاع کو اسلام میں جائز بتایا گیا ہے۔ دفاع کے سوا دوسری قسم کی کوئی جنگ مثلاً گوریلا وار، پراکسی وار، ایگریسیو وار، اَن ڈیکلیرڈ وار (undeclared war) یا اور کسی قسم کی وار اسلام میں جائز نہیں۔
۹ ساؤتھ ایشین فرٹیرنٹی پاکستان کے انفارمیشن سکریٹری، محمد شہباز نے ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ موضوع ہند۔پاک تعلقات تھا۔ ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہاں کے مسلمان برابر ترقی کررہے ہیں۔ ان کی تعداد اب ۲۲ کروڑ ہوچکی ہے جو پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ ہند۔پاک تعلقات کے بارے میں کہا گیا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ ماضی کو یکسر بھلا کر حقیقت پسندی کی بنیاد پر نئی منصوبہ بندی کرے۔
۱۰ نیو ورلڈ موومنٹ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۸ نومبر ۲۰۰۱ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹرمیں ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع عالمی دہشت گردی تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے اظہار خیال کیا۔
۱۱ ایرانی نیوز ایجنسی (IRNA) کے نمائندہ مسٹر نوید جمال نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ان کے سوالا ت کا تعلق زیادہ تر ویسٹ ایشیا کے مسلم ممالک کے حالات سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ویسٹ ایشیا کے ممالک کے مسائل کی جڑ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنی پالیسی کو حقائق کی بنیاد پر بنائیں۔ ان ملکوں نے ابھی تک وقت کے حقائق کو تسلیم نہیںکیا ہے اس لئے وہ مسائل کے شکار ہیں۔
۱۲ آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے ۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر صلح حدیبیہ کے موضوع پر نشر کی گئی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا: صلح حدیبیہ کوئی وقتی واقعہ نہیں۔ وہ زندگی کا اصول ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے مواقع کار حاصل کرو۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔
۱۳ وائی ایم سی اے (YMCA) نئی دہلی کے ہال میںایک آل انڈیا سمینار ہوا اس کا عنوان تھا:
Faith and Human Relationships
اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اس موضوع پر اسلام کے حوالہ سے ایک لکچر دیں۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۱ کے اجلاس میں انہوں نے اپنا لکچر دیا۔ حاضرین نے اس کو بہت پسند کیا اور کہا کہ آج اسلام کے بارہ میں ہماری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔
۱۴ راشٹریہ سہارا ہندی (نئی دہلی) کے نمائندہ تیج بہادر یادو نے ۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ مدرسہ کے بارے میںایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیاکہ مدرسہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ہر زمانہ میں اور ہر جگہ مدرسہ رہا ہے۔ مدرسہ کاکوئی تعلق آتنک واد سے نہیں۔ وہاں تو صرف مذہب اور اخلاق کی تعلیم دی جاتی ہے۔
۱۵ ’’ہم سب ایک ہیں‘‘ نامی تنظیم کی طرف سے ۱۹ دسمبر ۲۰۰۱ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ٹررزم پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے ایک تقریر کی۔
۱۶ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ کو سہارا ٹی وی کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا ۔ اس کا تعلق بر صغیر کے موجودہ حالات سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ اس کی غلطی کیا ہے، دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ دوسرے یہ کہ جنگ کو ہر قیمت پر روکنا چاہئے۔ جنگ میں کسی فریق کا بھی فائدہ نہیں۔
۱۷ ۲۲ دسمبر ۲۰۰۱ کو مسیح گڑھ چرچ کامپلکس (نئی دہلی) میںایک اجتماع ہوا۔ یہ مسلم۔ کرشچین ڈائیلاگ تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور کی نوٹ ایڈریس کے طورپر ایک تقریر کی۔ اس میںمسلمان اور کرشچین دونوں شریک ہوئے۔ تقریر میںانہوں نے کہا کہ ڈائیلاگ کوئی مناظرہ یا ڈیبیٹ نہیںہے۔ وہ ایک دوسرے سے سیکھنا اور مشترک عمل کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ اس طرح ڈائیلاگ ہر فریق کے لئے مفید بن سکتا ہے۔
۱۸ چائلڈ رائٹس، نئی دہلی (The Child's Rights Bulletin) کے ایڈیٹر جوزف گاـتھیا (Joseph Gathia) نے ۲۳ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ سے تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ لڑکوں کی تعلیم کی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کو پسند نہیں کرتا۔
۱۹ مسٹر ودود ساجد نے ماہنامہ سیکولر قیادت(نئی دہلی) کے لئے صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو۲۵ دسمبر ۲۰۰۱ کو ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انٹرویو اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی شائع کیا جائے گا۔ اس میں اسلامی جہاد کا تصور تفصیل کے ساتھ بتایا گیا، تاریخی اعتبار سے بھی اور نظریاتی اعتبار سے بھی۔
۲۰ ریسرچ اسکالر مسٹر دیپک ورما (نئی دہلی) نے ۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات زیادہ تر روحانیت، سائنس اور مذہب سے متعلق تھے۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ روحانیت کے دو مختلف تصورات ہیں۔ ایک تصور وہ ہے جو وحدت الوجود (مانزم) پر مبنی ہے۔ اس کا طریقہ دھیان گیان ہے۔ روحانیت کادوسرا تصور توحید کے عقیدہ پر مبنی ہے۔ اس کا طریقہ خدا کا ذکر اور خدا کی عبادت پر مبنی ہے۔
۲۱ بی بی سی لندن کے ریلیجس رپورٹر مسٹر مارٹن اسٹوٹ (Martin Stott) نے ۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانانِ عالم کے موجودہ مسائل سے تھا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا کہ موجودہ زمانہ میںمسلمانوں کاموقف اکثر معاملات میں غیر حقیقت پسندانہ ہوجاتا ہے۔ اس کا کم ازکم ایک سبب امت کا سیاسی تصور ہے۔ یہ تصور سید جمال الدین افغانی نے شروع کیا تھا جو پان اسلامزم کے نام سے مشہور ہوا۔ مذہبی اعتبارسے مسلمان بلاشبہہ ایک عالمی امت ہیں مگر سیاسی اعتبار سے ان کی قومیت ہوم لینڈ کے تصور قومیت پر مبنی ہوگی۔
۲۲ مہابیر انٹرنیشنل کے زیر انتظام بمبئی میں نان وائلنس پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ کے اجلاس میں نان وائلنس اور اسلام کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کا اصل نشانہ دل اور دماغ کی تبدیلی ہے۔ اس لئے اسلام ہر حال میں امن چاہتا ہے کیوں کہ دل اور دماغ کی تبدیلی کا کام پُرامن حالات ہیمیں ہوسکتا ہے۔
۲۳ ماہنامہ الرسالہ کا ہندی ایڈیشن بمبئی سے نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری ۲۰۰۲ پر مشتمل ہے۔ ہندی الرسالہ کا افتتاحی پروگرام ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ کو بمبئی میں ہوا جس میں اس کا پہلا شمارہ جاری کیا گیا ۔ صدر اسلامی مرکز نے اس افتتاحی پروگرام میں شرکت کی اور ہندستان میں اسلامی دعوت کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔ ہندی الرسالہ کا پتہ اردو الرسالہ کے ہر شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے خطوط اور پیغامات سے اندازہ ہوا کہ مختلف مقامات کے لوگ ہندی الرسالہ کے اجراء کا اہمیت کے ساتھ استقبال کررہے ہیں اور اس کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا تعاون پیش کررہے ہیں۔
۲۴ دوحہ میں ۳۱۔۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ کو ریاست قطر اور یونیسکو کے تعاون سے ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کا موضوع یہ تھا: ثقافتی وراثت کا تحفظ (Preservation of Cultural Heritage) اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے ایک پیپر پیش کریں۔ پیپر تیار ہوگیا تھا مگر بعض اسباب کی بنا پرسفر نہ ہوسکا۔ تاہم یہ پیپر ای میل کے ذریعہ کانفرنس کے ذمہ داروں کو بھیج دیا گیا۔
۲۵ نئی دہلی میںکناڈا کے ہائی کمیشن کے کونسلر، لوئی سمارڈ (Louis Simard) نے ۱۰ جنوری ۲۰۰۲ ء کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اپنی ایک زیر تیاری رپورٹ کے لئے ہندستانی مسلمانوں کے لئے معلومات حاصل کیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان میںمسلمانوں کے لئے ہر قسم کی ترقی کے مواقع ہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ قدیم جذباتی انداز کو ترک کر دیا جائے اور حقیقت پسندانہ انداز میں ان مواقع کو استعمال کیا جائے۔
۲۶ ڈالی ودھوا (Dolly Wadhwa) نے راشٹریہ سہارا کے لئے ۱۳ جنوری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مذہبی کنورژن سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مذہبی آزادی کے دور میں کنورژن پر پابندی لگانا ممکن نہیں۔
۲۷ انڈپنڈنٹ نیوزسروس، نئی دہلی، کی اسپیشل کرسپانڈنس، انیتا شرما نے۱۵ جنوری ۲۰۰۲ کو ’’آج کی بات‘‘ (Star Plus) کے لئے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم خواتین سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ برقعہ نہ پہننے پر مسلم خاتون کے اوپر تیزاب پھینکنا ایک سخت جرم ہے، نہ کہ کوئی اسلامی فعل۔ تعلیم کے بارے میں بتایا گیا کہ مسلم خواتین کی تعلیم بے حد ضروری ہے۔
۲۸ ۲۵ جنوری ۲۰۰۲ کو روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے نمائندہ سشیل شرما نے الیکشن اور مسلمان کے مسئلہ پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندستانی مسلمانوں کی انتخابی سیاست فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ملکی اور قومی سوچ کے تحت ہونا چاہئے۔ جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے، ہندستانی مسلمانوں کا مفاد دوسرے فرقوں سے الگ نہیں۔
۲۹ بشپ ہال (نئی دہلی) میں ۲۹ جنوری ۲۰۰۲ کو ایک مشترک سیمنار ہوا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور ’’پیس اینڈ ہارمنی اِن اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ پیس اینڈ ہارمنی فطرت کا اصول ہے اور اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لیے اس میں فطرت کے تمام قوانین کی رعایت موجود ہے۔ اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثناء کی۔
۳۰ آرچ ڈیوسیز آف ڈلہی(Archdiocese of Delhi) کی طرف سے ایک انٹر ریلیجس سیمنار آرچ ڈیوسسن کمیونٹی ہال (گول ڈاکخانہ) میں ۲۹ جنوری ۲۰۰۲ کو منعقد کیا گیا۔ پیس اور ہارمنی کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر پر صدر اسلامی مرکز نے ایک تقریر کی۔
۳۱ شانتی گری آشرم (نئی دہلی) کے افتتاح کے موقع پر ایک فنکشن ۳ فروری ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس میں شہر کے ممتاز لوگ شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور روحانیت کے موضوع پر انگریزی میں ایک تقریر کی۔
۳۲ راشٹریہ سہارا (ہندی) کے لئے مسٹر ودود ساجد نے ۴ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد۔ رام مندر کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نزاعی مسئلہ کو اول مرحلہ میں مکمل طورپر ختم کردینا چاہئے۔ نزاعی مسئلہ کو باقی رکھنا اس کو مزید بڑھانے کا سبب ہوتا ہے۔
۳۳ تہلکہ ڈاٹ کام (نئی دہلی) کے سینئر کرسپانڈنٹ شمیا داس گپتا (Shamya Das Gupta) نے ۱۰ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو خاص طورپر اسلامی جہاد کے موضوع پر تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ جہاد لازماً قتال کے معنٰی میں نہیں ہے۔ اور اگر توسیعی طورپر جہاد کو مسلح جہاد کے معنیٰ میں لیا جائے تب بھی اسلام میں اس کی کڑی شرطیں ہیں۔ مثلاً اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے۔ کوئی اور جنگ اسلام میں جائز نہیں۔ اسی طرح اسلام میں صرف قائم شدہ اسٹیٹ جنگ کرسکتی ہے اور خود اسلامک اسٹیٹ کے لئے بھی کھلا اعلان ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں دفاعی جنگ کے سوا گوریلا وار، پراکسی وار یابلا اعلان جنگ اور جارحانہ جنگ قطعاً جائز نہیں۔
۳۴ سینٹ کولمبس اسکول (نئی دہلی) میں ۱۹ فروری ۲۰۰۲ کو عیسائی ٹیچر اور فادر کا ایک اجتماع ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اسلام کے تعارف پر ایک گھنٹہ کی تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا سیشن تھا۔ زیادہ تر سوالات اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں سے متعلق تھے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میںہوا۔
۳۵ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۹ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویوریکارڈ کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا موجودہ زمانہ میں اسلام کے بارے میں غلط فہمی پھیلا رہا ہے، اس کا حل کیا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ اس کا حل یہ ہے کہ اُس کے سبب کو دور کیا جائے۔ اس کا اصل سبب میڈیا نہیں ہے بلکہ خود مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانہ میں ہر مذہبی گروہ کے لوگ کہیں نہ کہیں تشدد کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں میڈیا میں بھی آتی ہیں۔ مگر اس سے اُن کا مذہب بدنام نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنی متشددانہ تحریک اپنے مذہب کے نام پر نہیں چلاتے بلکہ اپنے مادّی مفاد کے نام پرچلاتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی متشددانہ تحریکوں کواسلامی جہاد کے نام پر چلارہے ہیں۔ اس لیے وہ میڈیا میں اسلامی جہاد کے عنوان سے رپورٹ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ دوسرے فرقوں کی طرح اپنی متشددانہ تحریک کو اپنے مادّی مفادکے نام پر چلائیں تو اپنے آپ اسلام کی بدنامی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مسلمانوں کی یہ متشددانہ تحریکیں یقینی طورپر اپنے مادّی مفاد کے نام پر چلائی جارہی ہیں۔ اُن کو اسلامی جہاد بتانا بلاشبہہ ایک غلط انتساب ہے۔ مگر میڈیا ایسے کسی فعل کو اُسی نام سے رپورٹ کرے گا جس نام سے وہ چلائی جارہی ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ مسلمان اسلام کے نام پر تشدد کریں اور میڈیا اُس کی رپورٹ اس طرح کرے کہ وہاں لوگوں کو اسلامی پھول پیش کئے گئے۔
۳۶ دہلی پالیسی گروپ کے زیر اہتمام نئی دہلی کے انڈیا ہیبیٹٹ سنٹر (India Habitat Centre) میں ۱۹۔۲۰ فروری ۲۰۰۲ کو ’’اسلام میں جنگ و امن‘‘ پر ایک سیمنار ہوا۔ اس میںاعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے وار اینڈ پیس اِن اسلام (War and Peace in Islam) کے موضوع پر ایک تقریر کی۔
۳۷ ڈی ڈی نیوز (نئی دہلی) کے لئے رام کانت، کرسپانڈنٹ نے ۲۰ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو زیرو آور (Zero Hour) کے لئے ریکارڈ کیا۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان جنگ کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس میں آخر کار دونوں ہی ملک گھاٹے میں رہیں گے۔ جنگ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مثبت فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں۔
۳۸ ڈان باسکو اسکول (نئی دہلی) میں ۲۱ فروری ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا ۔ اس کا موضوع تھا: مذاہب کے درمیان اتحاد۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور اسلام کے نقطۂ نظر سے اس موضوع پر انگریزی میں ایک تقریر کی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ مذاہب کے فرق اور اختلاف کو مٹانے کی بات کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ قابل عمل بات یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود اتحاد کے فارمولے کو مان لیا جائے۔
۳۹ اسپریچول انٹرفیتھ کی ٹیم نے ۲۴ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ مدرسہ اور اسکول سے ذہن نہیںبنتا بلکہ اس پورے ماحول سے ذہن بنتا ہے جس میں طالب علم زندگی گزارتا ہے۔
۴۰ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ۲ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ جلسہ تشدد کے حالیہ واقعات پر ہوا تھا۔ ۲۷ فروری ۲۰۰۲ کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی اکسپریس میں ۶۰ سے زیادہ آدمیوں کو جلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل میں گجرات اور دوسرے مقامات پر تشدد کے نہایت سنگین واقعات ہوئے۔ اس کے پس منظر میں یہ جلسہ کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ ملک کی ترقی امن اور پیار محبت کے ساتھ ہوسکتی ہے، نہ کہ تشدد کے ذریعہ۔ آزاد ہندستان کے معماروں نے ملک کی تعمیر کے بارے میں جو خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل صرف پر امن ماحول ہی میں ہوسکتی ہے۔
۴۱ ونے کمار ٹھاکر نے راشٹریہ سہارا ہندی کے لئے ۴ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ آج کل جو تشدد جاری ہے اس کا حل کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ تشدد کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ جوابی تشدد سے مکمل اعراض کیا جائے، لفظی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
۴۲ راما کرشنا مشن کے تحت نئی دہلی میں ۵ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع تھا:
How to promote Pluralistic Culture in today's context
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ باہمی احترام کی بنیاد پر یہ اتحاد قائم ہوسکتا ہے۔ یہی اسلام کا اصول ہے۔ اسلام اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی احترام کی بنیاد پر سوشل ہارمنی قائم کرنا چاہتا ہے۔
۴۳ مسٹر اننت متّل نے ۶ مارچ کو صدر اسلامی مرکز سے انٹرویو لیا۔ وہ ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات میں ہونے والے فسادات سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ بہت جلد ملک سے اس قسم کے فسادات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ خاتمہ ضمیر کی طاقت کے زور پر ہوگا۔ جب سیاسی ذمہ دار اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اس وقت انسانی ضمیر بیدار ہوکر اپنا کام کردیتا ہے۔
۴۴ نیو ورلڈ موومنٹ (نئی دہلی) کی طرف سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ۹ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے شرکت کی اور اسلام اور امن کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ کہی گئی کہ آج کی دنیا کو وائلنٹ بم کا خطرہ درپیش ہے۔ اس کا موثر جواب صرف اسپریچول بم سے دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں انڈیا میں اسپریچول بم بنانے کی ایک فیکٹری قائم کرنی ہوگی۔
۴۵ اجیت پِلّائی (Ajith Pillai) نے آؤٹ لُک کے لئے ۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا: میجارٹی کمیونلزم اور مائینارٹی کمیونلزم میںکیا فرق ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ کمیونلزم ابتدائی درجہ میں ایک فطری امر ہے۔ مگر جب وہ دوسرے کے لئے مضر بن جائے تو وہ قابل اعتراض بن جاتا ہے۔ تاہم دونوں کمیونلزم میں ایک فرق ہے۔ مائینارٹی کمیونلزم بنیادی طورپر دفاعی کمیونلزم ہے جب کہ میجارٹی کمیونلزم بنیادی طورپر جارحانہ کمیونلزم۔
۴۶ مسٹر آفتاب عالم نے اِنرا سٹرنتھ (Inner Strength) کے لئے ۲۰ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع یہ تھا: روحانیت اسلام میں۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلامی روحانیت کوئی پر اسرار چیز نہیں۔ وہ ایک شعوری عمل ہے۔ اس کا مختصر فارمولا یہ ہے:
Simple living, high thinking
۴۷ دینک بھاسکر کے نمائندہ سشیل پرمیشری نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام کی تعلیمات سے تھا۔ وہ اخبار کا ایک مذاہب نمبر چھاپ رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں یہ انٹرویو دیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے لئے ہر قسم کے مواقع موجود ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ان مواقع کو حکیمانہ طورپر استعمال کیا جائے۔ حکمت استعمال سے ناواقفیت کی صورت میں خود مسلم ملک میں بھی مواقع کا استعمال ممکن نہیں۔
۴۸ تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ مکمل ہوچکا ہے۔ اب وہ اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی وہ شائع کیا جاسکے گا۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.