خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۵۴
۱ ای ٹی وی، نئی دہلی (EENADU Television) کی ٹیم نے ۱۶ جولائی ۲۰۰۱ء کو صدر اسلامی مرکزکا انٹرویوریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر باری مسعود تھے جو کہ سینئر کرسپانڈنٹ ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر پرویز مشرف کی پالیسی سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ پرویز مشرف اپنی تقریر میں حقیقت پسندی اور تدریج کا نام لیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ منزل متعین کرچکے ہیں اور اس کی طرف زینہ بزینہ بڑھنا چاہتے ہیں۔
۲ ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) کے نمائندہ منوج مہتا نے ۳۱؍ اگست ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں ہندستانی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاگیا کہ ہمارے یہاں ساری تحریکیں ادھیکار پر چلتی ہیں، حقوق پر نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ڈیوٹی پوری کرو، حقوق اپنے آپ ملیں گے۔
۳ ای ٹی وی ،نئی دہلی (EENADU Television) کی ٹیم نے ۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ائمہ مساجد کے بارے میں تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ زیادہ تر امام اپنی مذہبی ذمہ داریوں کی حد تک اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں۔ البتہ بعض امام ایسے ہوسکتے ہیں جو سیاسی ذہن رکھتے ہوں ۔مگر جہاں تک اسلامی اصول کا تعلق ہے، مسجدوں میں سیاسی باتیں کرنا یا مسجدوں کو سیاسی مرکز بنانا درست نہیں۔
۴ دوردرشن (نئی دہلی) کے پروگرام صبح سویرے کے لئے دوردرشن کی ٹیم نے ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو نیویارک میں ہونے والے واقعہ کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا کہ یہ واقعہ ہر اعتبار سے غلط اورقابلِ مذمت تھا۔ مگر آتنک واد کے مسئلہ کا حل صرف بم نہیں ہے بلکہ لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہے۔ امریکہ کا جوابی حملہ اصولاً درست ہے مگر نتیجہ کے اعتبار سے وہ مسئلہ کو ختم کرنے والا نہیں بن سکتا۔
۵ ڈی ڈی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو خاص طورپر جہاد کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قرآن میں جہاد بالقرآن کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جہاد اصلاً ایک پر امن نظریاتی جدوجہد کا نام ہے۔
۶ سری سروج نیندرا سرسوتی پرتشٹھان کی طرف سے کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ کو دستور میں روحانیت (Spirituality in the Constitution) کے موضوع پر ایک سیمنار ہوا۔ اس میں خصوصی طورپر ماہر قانون کو بلایا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔
۷ دہلی پریس پتر پرکاشن کے نمائندہ مسٹر جے پرکاش پانڈے نے ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمان اس ملک میں مظالم کا تختۂ مشق بن رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ افغانستان میںجو کچھ ہوا وہ شرعی جہاد نہیں تھا۔ لڑنا بھڑنا افغانی کلچر کا ایک حصہ ہے۔ یہ افغانی کلچر کا اظہار تھا، نہ کہ اسلامی جہاد۔
۸ نیویارک کے ٹائم میگزین کے نمائندہ مینا کشی گنگولی نے ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق خاص طورپر اسلامی جہاد کے مسائل سے تھا۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ اسلامی جہاد (بمعنیٰ قتال) انٹرنیشنل نارم سے الگ کوئی چیز نہیں۔ دنیا کے مسلّمہ قانون کے مطابق، دفاع ہر ایک کا حق ہے۔ اس دفاع کو اسلام میں جائز بتایا گیا ہے۔ دفاع کے سوا دوسری قسم کی کوئی جنگ مثلاً گوریلا وار، پراکسی وار، ایگریسیو وار، اَن ڈیکلیرڈ وار (undeclared war) یا اور کسی قسم کی وار اسلام میں جائز نہیں۔
۹ ساؤتھ ایشین فرٹیرنٹی پاکستان کے انفارمیشن سکریٹری، محمد شہباز نے ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ موضوع ہند۔پاک تعلقات تھا۔ ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہاں کے مسلمان برابر ترقی کررہے ہیں۔ ان کی تعداد اب ۲۲ کروڑ ہوچکی ہے جو پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ ہند۔پاک تعلقات کے بارے میں کہا گیا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ ماضی کو یکسر بھلا کر حقیقت پسندی کی بنیاد پر نئی منصوبہ بندی کرے۔
۱۰ نیو ورلڈ موومنٹ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۸ نومبر ۲۰۰۱ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹرمیں ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع عالمی دہشت گردی تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے اظہار خیال کیا۔
۱۱ ایرانی نیوز ایجنسی (IRNA) کے نمائندہ مسٹر نوید جمال نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ان کے سوالا ت کا تعلق زیادہ تر ویسٹ ایشیا کے مسلم ممالک کے حالات سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ویسٹ ایشیا کے ممالک کے مسائل کی جڑ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنی پالیسی کو حقائق کی بنیاد پر بنائیں۔ ان ملکوں نے ابھی تک وقت کے حقائق کو تسلیم نہیںکیا ہے اس لئے وہ مسائل کے شکار ہیں۔
۱۲ آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے ۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر صلح حدیبیہ کے موضوع پر نشر کی گئی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا: صلح حدیبیہ کوئی وقتی واقعہ نہیں۔ وہ زندگی کا اصول ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے مواقع کار حاصل کرو۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔
۱۳ وائی ایم سی اے (YMCA) نئی دہلی کے ہال میںایک آل انڈیا سمینار ہوا اس کا عنوان تھا:
Faith and Human Relationships
اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اس موضوع پر اسلام کے حوالہ سے ایک لکچر دیں۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۱ کے اجلاس میں انہوں نے اپنا لکچر دیا۔ حاضرین نے اس کو بہت پسند کیا اور کہا کہ آج اسلام کے بارہ میں ہماری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔
۱۴ راشٹریہ سہارا ہندی (نئی دہلی) کے نمائندہ تیج بہادر یادو نے ۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ مدرسہ کے بارے میںایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیاکہ مدرسہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ہر زمانہ میں اور ہر جگہ مدرسہ رہا ہے۔ مدرسہ کاکوئی تعلق آتنک واد سے نہیں۔ وہاں تو صرف مذہب اور اخلاق کی تعلیم دی جاتی ہے۔
۱۵ ’’ہم سب ایک ہیں‘‘ نامی تنظیم کی طرف سے ۱۹ دسمبر ۲۰۰۱ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ٹررزم پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے ایک تقریر کی۔
۱۶ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ کو سہارا ٹی وی کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا ۔ اس کا تعلق بر صغیر کے موجودہ حالات سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ اس کی غلطی کیا ہے، دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ دوسرے یہ کہ جنگ کو ہر قیمت پر روکنا چاہئے۔ جنگ میں کسی فریق کا بھی فائدہ نہیں۔
۱۷ ۲۲ دسمبر ۲۰۰۱ کو مسیح گڑھ چرچ کامپلکس (نئی دہلی) میںایک اجتماع ہوا۔ یہ مسلم۔ کرشچین ڈائیلاگ تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور کی نوٹ ایڈریس کے طورپر ایک تقریر کی۔ اس میںمسلمان اور کرشچین دونوں شریک ہوئے۔ تقریر میںانہوں نے کہا کہ ڈائیلاگ کوئی مناظرہ یا ڈیبیٹ نہیںہے۔ وہ ایک دوسرے سے سیکھنا اور مشترک عمل کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ اس طرح ڈائیلاگ ہر فریق کے لئے مفید بن سکتا ہے۔
۱۸ چائلڈ رائٹس، نئی دہلی (The Child's Rights Bulletin) کے ایڈیٹر جوزف گاـتھیا (Joseph Gathia) نے ۲۳ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ سے تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ لڑکوں کی تعلیم کی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کو پسند نہیں کرتا۔
۱۹ مسٹر ودود ساجد نے ماہنامہ سیکولر قیادت(نئی دہلی) کے لئے صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو۲۵ دسمبر ۲۰۰۱ کو ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انٹرویو اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی شائع کیا جائے گا۔ اس میں اسلامی جہاد کا تصور تفصیل کے ساتھ بتایا گیا، تاریخی اعتبار سے بھی اور نظریاتی اعتبار سے بھی۔
۲۰ ریسرچ اسکالر مسٹر دیپک ورما (نئی دہلی) نے ۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات زیادہ تر روحانیت، سائنس اور مذہب سے متعلق تھے۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ روحانیت کے دو مختلف تصورات ہیں۔ ایک تصور وہ ہے جو وحدت الوجود (مانزم) پر مبنی ہے۔ اس کا طریقہ دھیان گیان ہے۔ روحانیت کادوسرا تصور توحید کے عقیدہ پر مبنی ہے۔ اس کا طریقہ خدا کا ذکر اور خدا کی عبادت پر مبنی ہے۔
۲۱ بی بی سی لندن کے ریلیجس رپورٹر مسٹر مارٹن اسٹوٹ (Martin Stott) نے ۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانانِ عالم کے موجودہ مسائل سے تھا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا کہ موجودہ زمانہ میںمسلمانوں کاموقف اکثر معاملات میں غیر حقیقت پسندانہ ہوجاتا ہے۔ اس کا کم ازکم ایک سبب امت کا سیاسی تصور ہے۔ یہ تصور سید جمال الدین افغانی نے شروع کیا تھا جو پان اسلامزم کے نام سے مشہور ہوا۔ مذہبی اعتبارسے مسلمان بلاشبہہ ایک عالمی امت ہیں مگر سیاسی اعتبار سے ان کی قومیت ہوم لینڈ کے تصور قومیت پر مبنی ہوگی۔
۲۲ مہابیر انٹرنیشنل کے زیر انتظام بمبئی میں نان وائلنس پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ کے اجلاس میں نان وائلنس اور اسلام کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کا اصل نشانہ دل اور دماغ کی تبدیلی ہے۔ اس لئے اسلام ہر حال میں امن چاہتا ہے کیوں کہ دل اور دماغ کی تبدیلی کا کام پُرامن حالات ہیمیں ہوسکتا ہے۔
۲۳ ماہنامہ الرسالہ کا ہندی ایڈیشن بمبئی سے نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری ۲۰۰۲ پر مشتمل ہے۔ ہندی الرسالہ کا افتتاحی پروگرام ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ کو بمبئی میں ہوا جس میں اس کا پہلا شمارہ جاری کیا گیا ۔ صدر اسلامی مرکز نے اس افتتاحی پروگرام میں شرکت کی اور ہندستان میں اسلامی دعوت کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔ ہندی الرسالہ کا پتہ اردو الرسالہ کے ہر شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے خطوط اور پیغامات سے اندازہ ہوا کہ مختلف مقامات کے لوگ ہندی الرسالہ کے اجراء کا اہمیت کے ساتھ استقبال کررہے ہیں اور اس کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا تعاون پیش کررہے ہیں۔
۲۴ دوحہ میں ۳۱۔۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ کو ریاست قطر اور یونیسکو کے تعاون سے ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کا موضوع یہ تھا: ثقافتی وراثت کا تحفظ (Preservation of Cultural Heritage) اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے ایک پیپر پیش کریں۔ پیپر تیار ہوگیا تھا مگر بعض اسباب کی بنا پرسفر نہ ہوسکا۔ تاہم یہ پیپر ای میل کے ذریعہ کانفرنس کے ذمہ داروں کو بھیج دیا گیا۔
۲۵ نئی دہلی میںکناڈا کے ہائی کمیشن کے کونسلر، لوئی سمارڈ (Louis Simard) نے ۱۰ جنوری ۲۰۰۲ ء کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اپنی ایک زیر تیاری رپورٹ کے لئے ہندستانی مسلمانوں کے لئے معلومات حاصل کیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان میںمسلمانوں کے لئے ہر قسم کی ترقی کے مواقع ہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ قدیم جذباتی انداز کو ترک کر دیا جائے اور حقیقت پسندانہ انداز میں ان مواقع کو استعمال کیا جائے۔
۲۶ ڈالی ودھوا (Dolly Wadhwa) نے راشٹریہ سہارا کے لئے ۱۳ جنوری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مذہبی کنورژن سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مذہبی آزادی کے دور میں کنورژن پر پابندی لگانا ممکن نہیں۔
۲۷ انڈپنڈنٹ نیوزسروس، نئی دہلی، کی اسپیشل کرسپانڈنس، انیتا شرما نے۱۵ جنوری ۲۰۰۲ کو ’’آج کی بات‘‘ (Star Plus) کے لئے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم خواتین سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ برقعہ نہ پہننے پر مسلم خاتون کے اوپر تیزاب پھینکنا ایک سخت جرم ہے، نہ کہ کوئی اسلامی فعل۔ تعلیم کے بارے میں بتایا گیا کہ مسلم خواتین کی تعلیم بے حد ضروری ہے۔
۲۸ ۲۵ جنوری ۲۰۰۲ کو روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے نمائندہ سشیل شرما نے الیکشن اور مسلمان کے مسئلہ پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندستانی مسلمانوں کی انتخابی سیاست فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ملکی اور قومی سوچ کے تحت ہونا چاہئے۔ جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے، ہندستانی مسلمانوں کا مفاد دوسرے فرقوں سے الگ نہیں۔
۲۹ بشپ ہال (نئی دہلی) میں ۲۹ جنوری ۲۰۰۲ کو ایک مشترک سیمنار ہوا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور ’’پیس اینڈ ہارمنی اِن اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ پیس اینڈ ہارمنی فطرت کا اصول ہے اور اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لیے اس میں فطرت کے تمام قوانین کی رعایت موجود ہے۔ اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثناء کی۔
۳۰ آرچ ڈیوسیز آف ڈلہی(Archdiocese of Delhi) کی طرف سے ایک انٹر ریلیجس سیمنار آرچ ڈیوسسن کمیونٹی ہال (گول ڈاکخانہ) میں ۲۹ جنوری ۲۰۰۲ کو منعقد کیا گیا۔ پیس اور ہارمنی کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر پر صدر اسلامی مرکز نے ایک تقریر کی۔
۳۱ شانتی گری آشرم (نئی دہلی) کے افتتاح کے موقع پر ایک فنکشن ۳ فروری ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس میں شہر کے ممتاز لوگ شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور روحانیت کے موضوع پر انگریزی میں ایک تقریر کی۔
۳۲ راشٹریہ سہارا (ہندی) کے لئے مسٹر ودود ساجد نے ۴ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد۔ رام مندر کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نزاعی مسئلہ کو اول مرحلہ میں مکمل طورپر ختم کردینا چاہئے۔ نزاعی مسئلہ کو باقی رکھنا اس کو مزید بڑھانے کا سبب ہوتا ہے۔
۳۳ تہلکہ ڈاٹ کام (نئی دہلی) کے سینئر کرسپانڈنٹ شمیا داس گپتا (Shamya Das Gupta) نے ۱۰ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو خاص طورپر اسلامی جہاد کے موضوع پر تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ جہاد لازماً قتال کے معنٰی میں نہیں ہے۔ اور اگر توسیعی طورپر جہاد کو مسلح جہاد کے معنیٰ میں لیا جائے تب بھی اسلام میں اس کی کڑی شرطیں ہیں۔ مثلاً اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے۔ کوئی اور جنگ اسلام میں جائز نہیں۔ اسی طرح اسلام میں صرف قائم شدہ اسٹیٹ جنگ کرسکتی ہے اور خود اسلامک اسٹیٹ کے لئے بھی کھلا اعلان ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں دفاعی جنگ کے سوا گوریلا وار، پراکسی وار یابلا اعلان جنگ اور جارحانہ جنگ قطعاً جائز نہیں۔
۳۴ سینٹ کولمبس اسکول (نئی دہلی) میں ۱۹ فروری ۲۰۰۲ کو عیسائی ٹیچر اور فادر کا ایک اجتماع ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اسلام کے تعارف پر ایک گھنٹہ کی تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا سیشن تھا۔ زیادہ تر سوالات اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں سے متعلق تھے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میںہوا۔
۳۵ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۹ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویوریکارڈ کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا موجودہ زمانہ میں اسلام کے بارے میں غلط فہمی پھیلا رہا ہے، اس کا حل کیا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ اس کا حل یہ ہے کہ اُس کے سبب کو دور کیا جائے۔ اس کا اصل سبب میڈیا نہیں ہے بلکہ خود مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانہ میں ہر مذہبی گروہ کے لوگ کہیں نہ کہیں تشدد کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں میڈیا میں بھی آتی ہیں۔ مگر اس سے اُن کا مذہب بدنام نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنی متشددانہ تحریک اپنے مذہب کے نام پر نہیں چلاتے بلکہ اپنے مادّی مفاد کے نام پرچلاتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی متشددانہ تحریکوں کواسلامی جہاد کے نام پر چلارہے ہیں۔ اس لیے وہ میڈیا میں اسلامی جہاد کے عنوان سے رپورٹ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ دوسرے فرقوں کی طرح اپنی متشددانہ تحریک کو اپنے مادّی مفادکے نام پر چلائیں تو اپنے آپ اسلام کی بدنامی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مسلمانوں کی یہ متشددانہ تحریکیں یقینی طورپر اپنے مادّی مفاد کے نام پر چلائی جارہی ہیں۔ اُن کو اسلامی جہاد بتانا بلاشبہہ ایک غلط انتساب ہے۔ مگر میڈیا ایسے کسی فعل کو اُسی نام سے رپورٹ کرے گا جس نام سے وہ چلائی جارہی ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ مسلمان اسلام کے نام پر تشدد کریں اور میڈیا اُس کی رپورٹ اس طرح کرے کہ وہاں لوگوں کو اسلامی پھول پیش کئے گئے۔
۳۶ دہلی پالیسی گروپ کے زیر اہتمام نئی دہلی کے انڈیا ہیبیٹٹ سنٹر (India Habitat Centre) میں ۱۹۔۲۰ فروری ۲۰۰۲ کو ’’اسلام میں جنگ و امن‘‘ پر ایک سیمنار ہوا۔ اس میںاعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے وار اینڈ پیس اِن اسلام (War and Peace in Islam) کے موضوع پر ایک تقریر کی۔
۳۷ ڈی ڈی نیوز (نئی دہلی) کے لئے رام کانت، کرسپانڈنٹ نے ۲۰ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو زیرو آور (Zero Hour) کے لئے ریکارڈ کیا۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان جنگ کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس میں آخر کار دونوں ہی ملک گھاٹے میں رہیں گے۔ جنگ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مثبت فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں۔
۳۸ ڈان باسکو اسکول (نئی دہلی) میں ۲۱ فروری ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا ۔ اس کا موضوع تھا: مذاہب کے درمیان اتحاد۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور اسلام کے نقطۂ نظر سے اس موضوع پر انگریزی میں ایک تقریر کی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ مذاہب کے فرق اور اختلاف کو مٹانے کی بات کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ قابل عمل بات یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود اتحاد کے فارمولے کو مان لیا جائے۔
۳۹ اسپریچول انٹرفیتھ کی ٹیم نے ۲۴ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ مدرسہ اور اسکول سے ذہن نہیںبنتا بلکہ اس پورے ماحول سے ذہن بنتا ہے جس میں طالب علم زندگی گزارتا ہے۔
۴۰ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ۲ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ جلسہ تشدد کے حالیہ واقعات پر ہوا تھا۔ ۲۷ فروری ۲۰۰۲ کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی اکسپریس میں ۶۰ سے زیادہ آدمیوں کو جلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل میں گجرات اور دوسرے مقامات پر تشدد کے نہایت سنگین واقعات ہوئے۔ اس کے پس منظر میں یہ جلسہ کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ ملک کی ترقی امن اور پیار محبت کے ساتھ ہوسکتی ہے، نہ کہ تشدد کے ذریعہ۔ آزاد ہندستان کے معماروں نے ملک کی تعمیر کے بارے میں جو خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل صرف پر امن ماحول ہی میں ہوسکتی ہے۔
۴۱ ونے کمار ٹھاکر نے راشٹریہ سہارا ہندی کے لئے ۴ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ آج کل جو تشدد جاری ہے اس کا حل کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ تشدد کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ جوابی تشدد سے مکمل اعراض کیا جائے، لفظی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
۴۲ راما کرشنا مشن کے تحت نئی دہلی میں ۵ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع تھا:
How to promote Pluralistic Culture in today's context
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ باہمی احترام کی بنیاد پر یہ اتحاد قائم ہوسکتا ہے۔ یہی اسلام کا اصول ہے۔ اسلام اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی احترام کی بنیاد پر سوشل ہارمنی قائم کرنا چاہتا ہے۔
۴۳ مسٹر اننت متّل نے ۶ مارچ کو صدر اسلامی مرکز سے انٹرویو لیا۔ وہ ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات میں ہونے والے فسادات سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ بہت جلد ملک سے اس قسم کے فسادات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ خاتمہ ضمیر کی طاقت کے زور پر ہوگا۔ جب سیاسی ذمہ دار اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اس وقت انسانی ضمیر بیدار ہوکر اپنا کام کردیتا ہے۔
۴۴ نیو ورلڈ موومنٹ (نئی دہلی) کی طرف سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ۹ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے شرکت کی اور اسلام اور امن کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ کہی گئی کہ آج کی دنیا کو وائلنٹ بم کا خطرہ درپیش ہے۔ اس کا موثر جواب صرف اسپریچول بم سے دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں انڈیا میں اسپریچول بم بنانے کی ایک فیکٹری قائم کرنی ہوگی۔
۴۵ اجیت پِلّائی (Ajith Pillai) نے آؤٹ لُک کے لئے ۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا: میجارٹی کمیونلزم اور مائینارٹی کمیونلزم میںکیا فرق ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ کمیونلزم ابتدائی درجہ میں ایک فطری امر ہے۔ مگر جب وہ دوسرے کے لئے مضر بن جائے تو وہ قابل اعتراض بن جاتا ہے۔ تاہم دونوں کمیونلزم میں ایک فرق ہے۔ مائینارٹی کمیونلزم بنیادی طورپر دفاعی کمیونلزم ہے جب کہ میجارٹی کمیونلزم بنیادی طورپر جارحانہ کمیونلزم۔
۴۶ مسٹر آفتاب عالم نے اِنرا سٹرنتھ (Inner Strength) کے لئے ۲۰ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع یہ تھا: روحانیت اسلام میں۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلامی روحانیت کوئی پر اسرار چیز نہیں۔ وہ ایک شعوری عمل ہے۔ اس کا مختصر فارمولا یہ ہے:
Simple living, high thinking
۴۷ دینک بھاسکر کے نمائندہ سشیل پرمیشری نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام کی تعلیمات سے تھا۔ وہ اخبار کا ایک مذاہب نمبر چھاپ رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں یہ انٹرویو دیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے لئے ہر قسم کے مواقع موجود ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ان مواقع کو حکیمانہ طورپر استعمال کیا جائے۔ حکمت استعمال سے ناواقفیت کی صورت میں خود مسلم ملک میں بھی مواقع کا استعمال ممکن نہیں۔
۴۸ تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ مکمل ہوچکا ہے۔ اب وہ اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی وہ شائع کیا جاسکے گا۔
واپس اوپر جائیں