اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت تقویٰ کی ہے اور رمضان کے مہینے کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت کے لیے مقرر کیاگیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان لانے والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ، جس طرح تم سے اگلوں پر فرض کیاگیا تھا، تاکہ تم تقویٰ والے بنو (البقرۃ:
تقوی ٰکیا ہے۔ اس کی بہترین تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے:
إنّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سأل ابیّ بن کعب عن التقویٰ، فقال لہ: أما سلکتَ طریقاً ذا شوک۔ قال بلیٰ، قال فما عملتَ۔ قال: شمّرتُ واجتہدتُ۔ قال فذلک التقویٰ (تفسیر ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 40 )
عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں پوچھا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ کیا آپ کسی کانٹے دار راستے سے گزرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ انھوں نے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ انھوںنے کہا کہ میںنے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچ کر اس سے گزر گیا۔ ابی بن کعب نے جواب دیا کہ یہی تقویٰ ہے۔
موجودہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اسی لیے یہاں بہت سی غیر مطلوب چیزیں بھی موجود ہیں۔ مومن کو ان چیزوں سے بچتے ہوئے اپنا سفرِ حیات طے کرنا ہے۔ اِسی پرہیز گارانہ رویّے کا نام تقویٰ ہے، اور رمضان کا روزہ اِسی تقویٰ کی تربیت ہے۔
روزے میں کیا ہوتا ہے۔ روزے میں آدمی اپنا کھانا اور پانی ایک مقررہ مدت کے لیے چھوڑتا ہے۔ اپنی عادتوں کو ترک کرتا ہے۔ اپنی خواہشوں پرروک لگاتا ہے۔ اِسی طرح وہ اِس بات کی تربیت حاصل کرتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ وہ کچھ چیزوں سے بچ کر زندگی گزارے۔ روزہ اِسی پرہیزگاری کی انتہائی تربیت ہے۔ روزہ رکھ کر آدمی یہ عہد کرتا ہے کہ ناجائز چیزیں تو درکنار، اگر اللہ کی مرضی ہو تو وہ جائز چیزوں کو بھی اللہ کی خاطر چھوڑ دینے کے لیے تیار ہے۔
روزے میں کھا نا اور پینا چھوڑنا، ایک علامتی ترک ہے۔ اصل میں جوچیز ترک کرنا ہے، وہ تو خداکی ممنوعہ چیزیں ہیں۔ ممنوعات کا وقتی ترک ،ممنوعات کے اُسی مستقل ترک کی مشق ہے۔ کیوںکہ جو آدمی اللہ کے لیے غیر ممنوعات کوچھوڑنے پر راضی ہو، وہ ممنوعات کو بدرجۂ اولی چھوڑنے پر راضی ہوجائے گا۔
موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان جس بات میں ہے، وہ یہی ہے کہ وہ حرام اور حلال میں فرق کرے۔ وہ حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا بنے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارے۔ اِسی ذمّے دارانہ زندگی کی تربیت کے لیے روزے کا طریقہ اہلِ ایمان کے اوپر فرض کیا گیا ہے۔
روزہ محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی حقیقی اسپرٹ کے اعتبار سے مطلوب ہے۔ اِسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے (صحیح البخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوںنے روزہ رکھا اور اسی کے ساتھ انھوں نے غیبت کا فعل کیا جو اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ انھوں نے خدا کی جائز کی ہوئی چیز سے روزہ رکھا اور اس کی ناجائز کی ہوئی چیز سے انھوں نے افطار کرلیا۔
متقیانہ زندگی کو دوسرے لفظوں میں، محتاط زندگی کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان وہ ہے جو احتیاط کے تصورسے خالی ہو، وہ بلاقید جو چاہے بولے اور جوچاہے کرے۔ دوسرا نسان وہ ہے جو احتیاط کے طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہو— وہ ایک محکم اصول کے تحت، کسی روش کو اختیار کرے اور کسی روش کو اختیا رنہ کرے، یہی معاملہ متقی انسان کا ہے۔ متقی انسان مکمل طورپر ایک محتاط انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے قول اور عمل کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے۔
روزہ آدمی کے اندر تقویٰ اور احتیاط کا یہی مزاج پیدا کرتاہے۔ رمضان کی ماہانہ تربیت آدمی کو اِس قابل بنادیتی ہے کہ وہ پورے سال تک اِس طرح زندگی گزارے کہ وہ مباحات کے لیے مُفطر ہو اور ممنوعات کے لیے وہ صائم بنا رہے۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے قرآن میںکہاگیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اِس لیے دیا تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو اِس پر کہ اُس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اُس کے شکر گزار بنو (ولتکبّروا اللہ علی ما ہداکم و لعلکم تشکرون، البقرۃ:
رمضان کے مہینے کاروزہ دو پہلوؤں سے شکر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ایک، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے قرآن کی صورت میں ایک کامل ہدایت نامہ انسان کو عطا کیا۔ دوسرے، اِس بات کا شکر کہ اللہ نے دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو وہ تمام سامانِ حیات دئے جن کی ضرورت انسان کو تھی۔
انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو اِس حال میں پاتا ہے کہ ذاتی طورپر اس کے لیے سچّائی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا بورڈ بھی لگا ہوا نہیں ہے جس میں زندگی کا مقصد اور اس کی فلاح کا طریقہ بتایا گیا ہو۔ ایسی حالت میںایک حقیقی انسان جب قرآن کو پاتاہے تو اس کا دل احساسِ نعمت سے سرشار ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اِس احسان پر وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔
مزید یہ کہ قرآن واحد خدا ئی کتاب ہے جو محفوظ حالت میں آج تک موجود ہے۔ ایک آدمی جب سچائی کی تلاش کرتا ہے اور مختلف مذاہب کی کتابوں کو پڑھتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ یہ تمام کتابیں بعد کے زمانے میں تحریف کا شکار ہوگئیں۔ اِس طرح ان تمام کتابوں نے اپنی تاریخی اعتباریت یک سر کھودی ہے۔
اِس عمومی تجربے کے بعد آدمی جب قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مکمل طورپر اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ تاریخی حیثیت سے وہ پوری طرح ایک قابلِ اعتبار کتاب ہے۔ قرآن کی یہ خصوصیت آدمی کو مزید احسان مندی میںمبتلا کرتی ہے۔ وہ ہمہ تن اللہ کے شکر وسپاس کے جذبے میں غرق ہوجاتا ہے۔
رمضان کا روزہ اِسی اظہارِ شکر کی ایک خصوصی صورت ہے۔ روزہ رکھ کر قرآن کو پڑھنا، اِس بات کی علامت ہے کہ بندہ وفورِ شکر میںاپنا کھانا اور پینا تک بھول گیا ہے،وہ اپنی ضروریاتِ زندگی تک سے بے پروا ہو کر خدا کے کلام کو اپنے سینے سے لگا لینا چاہتاہے۔
شکر کو دوسرا پہلو سامانِ حیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار چیزیں عطا کی ہیں جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا— اُنھیں میں سے ایک ضروری چیز کھانا اور پانی ہے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ عام حالات میںاُس کو کسی چیز کی قدر و قیمت کا احساس نہیںہوتا۔ چیزوں کی قدر وقیمت کو وہ صرف اُس وقت جانتا ہے جب کہ وہ ان چیزوں سے محروم ہوگیا ہو۔ آدمی کو اگر کھانا اور پانی برابر وقت پر ملتا رہے تو وہ حقیقی طورپر محسوس نہیں کر پاتا کہ کھانا اور پانی کیسی عجیب نعمتیں ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے بآسانی اِس زمین پر وافر مقدار میں فراہم کردیا ہے۔
روزہ آدمی کے اندر اسی احساسِ نعمت کو پیدا کرنے کی ایک خصوصی تدبیر ہے۔ عام حالات میں صرف کسی انتہائی غریب آدمی ہی کو کھانے اور پانی کی قدر معلوم ہوسکتی ہے، مگر روزہ اِس کو ممکن بنا دیتا ہے کہ ہر آدمی اِس نعمت کی قدر و قیمت کو محسوس کرے، ہر آدمی کے سینے میں اس جذبے کی پرورش ہو کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے رازق کا شکر ادا کرنے والا بن جائے۔
روزے کے زمانے میں آدمی دن بھر بھوک میںمبتلا رہنے کے بعد شام کو جب کھانے کے بعد اپنی بھوک کو مٹاتا ہے، جب وہ دن بھر پیاس کا تجربہ کرنے کے بعد شام کو پانی پی کر اپنی رگوں کو ترکرتا ہے تو اُس کی زبان پر شکرِ خداوندی کا وہ کلمہ جاری ہوجاتا ہے جوحدیث میں اس طرح آیا ہے: ذہبَ الظّماء وابتلّت العروق وثبتَ الأجر إن شاء اللہ تعالیٰ۔
شکر بہت بڑا عمل ہے۔ شکر خلاصۂ عبادت ہے۔ روزہ اسی عظیم عمل اور اسی اعلیٰ عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتا ہے۔ روزے داری دراصل اِسی شکر گزاری کی تربیت ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر دو میں روزے کا حکم دیتے ہوئے حسب ذیل باتیں کہی گئی ہیں:
روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیداہو۔ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اترا۔ تم اس پورے مہینے کا روزہ رکھو اور اس نعمتِ ہدایت پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اور جان لو کہ خدا اپنے بندوں سے بے حد قریب ہے۔ وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے، لہٰذا تم کو چاہیے کہ تم اُس کا حکم مانو اور اُس پر ایمان لاؤ، تاکہ تم کو ہدایت ملے (البقرۃ: 183-186 )
روزہ بظاہر یہ ہے کہ آدمی رات کو کھائے پیے اور دن میں وہ کھانا پانی چھوڑ دے، مگر یہ روزے کی ظاہری صورت ہے۔ روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہو، وہ اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گزارنے لگے۔ گویارمضان کے دنوں میں روزے کی مخصوص شکل ایک علامتی تربیت ہے کہ بقیہ مہینوں میں اور ساری عمر میںآدمی کو کس طرح رہنا چاہیے۔
خدا کی شریعت میں ہر آدمی کے لیے کچھ چیزیں جائز ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز۔ رات کے اوقات آدمی کے لیے جائز چیزوں کی علامت ہیں اور دن کے اوقات ناجائز چیزوں کی علامت۔ اس علامتی ترک کے لیے کھانے پینے کو منتخب کرنا یہ بتاتا ہے کہ ممنوعات کی فہرست اس سے بھی زیادہ ہے جو قانونی الفاظ میں بتائی گئی ہے۔ممنوعات کی اس دوسری قسم کا نام قربانی ہے۔ روزہ یہ سبق دیتا ہے کہ خدا کی خاطر رکنے اور چھوڑنے کی فہرست اگر کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں تک پہنچ جائے تو اس سے بھی آدمی دریغ نہ کرے۔
آدمی جب دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور شام کو کھانے اور پانی سے سیراب ہوتا ہے تو وہ ایک بہت بڑی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے، وہ یہ کہ اس کا وجود جس غذا کا اتنی شدت سے محتاج تھا وہ انتہائی کامل صورت میں اس کے باہر خدا نے مہیا کررکھی تھی۔ خوراک ایک حیرت انگریز مثال ہے کہ انسان کی طلب کا کتنا مکمل جواب خدا نے اس دنیا میں تیار کر رکھا ہے۔
یہی احساس آدمی کے اندر قرآن کے بارے میں پیدا ہونا چاہیے۔ جس طرح غذا آدمی کی مادی طلب کا جواب ہے، اسی طرح قرآن آدمی کی روحانی طلب کا جواب ہے۔ خدا کی شکر گزاری اور اس کی بڑائی کا اعتراف یہ ہے کہ آدمی قرآن کو اُس حیثیت سے پالے جس حیثیت سے خدا نے اس کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے۔ وہ اسی طرح آدمی کی ضرورت بن جائے جس طرح کھانا آدمی کی ضرورت ہے۔ وہ اس کو پاکر اسی طرح سیراب ہوجائے جس طرح ایک بھوکا آدمی کھانا کھاکر اور پانی پی کر آخری حد تک سیراب ہوجاتا ہے۔
ر وایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسول، ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا وہ ہم سے دور ہے کہ ہم اس کو پکاریں (یا رسول اللہ، أقریبٌ رَبُّنا فنناجیہ أم بعید فننادیہ، أخرجہ إبن أبی حاتم) اس کے جواب میں مذکورہ آیتیں اتریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ، بلکہ تمام عبادتوں کا اصل مطلوب کیا ہے۔ اصل مطلوب اسی مقام ہدایت (رشد) تک پہنچانا ہے، جب کہ بندہ اپنے رب کے اتنا قریب ہوجائے کہ وہ خدا سے ہم کلام ہونے لگے، وہ اپنے رب سے سوال کرے اور اس سے اس کا جواب پائے۔ یہی قربتِ خداوندی تمام دینی اعمال کا اصل مقصود ہے۔ جس کا دین اس کو خدا سے اس معنی میں قریب کردے، وہی دین دار ہے۔ اور جس کا دین اس کو خدا سے اس طرح قریب نہ کرے، وہ بے دین ہے، خواہ ظاہری طور پروہ دین داری کا لباس اوڑھے ہوئے ہو۔
دن بھر کے روزے کے بعد شام کو افطار کا وقت آتا ہے۔ اسی طرح پورے مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر آتی ہے۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کی تعبیر ہے۔ ’’روزہ‘‘ دنیا کی زندگی کی علامت ہے اور ’’اِفطار‘‘ آخرت کی زندگی کی علامت۔ بھوک پیاس اور تعب کی ایک مدت گزارنے کے بعد آدمی کو افطار کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں جو عورت اور مرد احتیاط اور ذمے داری کی زندگی گزارے گا، وہ آخرت میں ابدی جنت کا آرام پائے گا۔ دنیا، روزے کی پابندی سہنے کی جگہ ہے اور آخرت عید ِافطار کی خوشی پانے کی جگہ۔
روزہ اور دعا کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے ۔ دعا سب سے زیادہ جہاں سے ابلتی ہے، وہ ٹوٹا ہوا دل ہے۔ روزے میں آدمی کو بھوک اور پیاس ستاتی ہے، اس کے معمولات ٹوٹتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ آدمی کا جسم کمزوری اور بے بسی کا تجربہ کرتاہے۔ اس وقت آدمی کے اندر دل شکستگی پیدا ہوتی ہے ۔ وہ خدا کی طرف رجوع ہو کر اس کو پکارنے لگتا ہے— خدایا، تو میری زندگی میںدو تعب کو جمع نہ کر۔ میں نے دنیا میں بہت تعب اٹھایا، اب تو آخرت کے تعب سے مجھ کو بچالے۔ یہی دعائے رمضان ہے اور یہی رمضان کا خلاصہ۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم میں ایک تفصیلی روایت آئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ محمدی کا ایک فرد اٹھے گا جو اُس زمانے کے فتنۂ کبریٰ کو ختم کرے گا۔ یہ خاتمہ حجت اور دلائل کے ذریعہ ہوگا۔ یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اتنا بڑا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں فرمایا: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین (کتاب الفتن) یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک، تاریخ کی سب سے بڑی گواہی ہوگی۔
حالات بتاتے ہیں کہ وہ وقت پوری طرح آچکا ہے، جب کہ کچھ لوگ اٹھیں اور اِس رول کو انجام دیں۔ اِس معاملے میں اب مزید تاخیر کا وقت باقی نہیں رہا۔ یہ حدیث اور اِس طرح کے دوسرے نصوص، دراصل ایک امکان کو بتارہے ہیں، نہ کہ کسی فرد یا افراد کے کارنامے کو۔ یہ قیامت سے پہلے کا ایک رول ہے جس کی طرف دوڑنے والوںکو دوڑنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس معاملے میں ’’آنے والے‘‘ کاانتظار اور خود اپنے کو ’’آنے والا‘‘ بتانا، دونوں ہی یکساں طورپر غلط ہیں:
Waiting for a ‘‘coming person’’ or claiming ‘‘I am that person’’, both are equally wrong.
عظیم شہادت کا تعلق، عظیم امکانات سے ہے، نہ کہ صرف ایک فرد کے کارنامے سے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دورِ آخر میں ایسے عظیم مواقع ظہور میںآئیں گے جن کو استعمال کرکے عظیم دعوتی واقعہ انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔
مشہور برٹش سائنس داں سرآئزاک نیوٹن کا ایک خط (1704ء) حال میں یروشلم کے ایک میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا۔ اِس خط میں نیوٹن نے لکھا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ اِس واقعہ کی رپورٹ دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (18 جون 2007) میں اُس کے صفحۂ اول پر چھپی ہے۔ اِس خبر کاعنوان یہ ہے:
Newton saw end of world in 2060
سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ء)نے اپنی یہ تحریر کلاسکل لاز آف گریوٹی اینڈ موشن (Classical Laws of Gravity and Motion) کی روشنی میں میتھ میٹکل کیلکولیشن کے ذریعہ ظاہر کی تھی۔ یہ اندازہ اتنا عجیب تھا کہ لوگوں نے اس کو نیوٹن کی زندگی کا توہماتی پہلو (superstitious side) قرار دیا۔ یہ خط پہلی بار 1969 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اب اس کو یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں ایک مخصوص نمائش (Newton's Secrets) میں رکھا گیا ہے۔
موجودہ دنیا کے خاتمے کے بارے میں نیوٹن نے جو بات حسابی اندازے کے تحت کہی تھی، وہ اب مشاہداتی سائنس کے تحت ایک معلوم واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جو کلائمیٹ چینج کا واقعہ پیش آرہا ہے، اُس کی روشنی میں مغربی سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ 2010 تک موجودہ دنیا کا لائف سپورٹ سسٹم بہت زیادہ بگڑ جائے گا، اور2050 تک شاید زمین پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
قرآن اور حدیث میں واضح طورپر اِس واقعہ کی پیشین گوئی موجود ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا نے یہ دنیا محدود مدت کے لیے بنائی تھی، اور اب وہ نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ محدودمدت اپنے آخری خاتمے کے قریب ہے۔قرآن اور حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے یہاں ایک آخری دعوتی اعلان کیا جائے گا، تاکہ انسانی نسلیں آخری طورپر جان لیں کہ اب وہ وقت آچکا ہے جب کہ انھیں خالقِ کائنات کے سامنے آخری پیشی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اور اُس کے بعد ہر ایک کے لیے یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم۔
قیامت سے پہلے یہ آخری اعلان معجزاتی طورپر نہیں ہوگا، بلکہ اسباب و علل کے ذریعے ہوگا۔ حالات بتاتے ہیں کہ وہ اسباب اب پوری طرح موجود ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اٹھنے والے اٹھیں اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے آخری طورپر خدا کے دین کا اعلانِ عام کردیں۔ غالباً اسرافیل اپنا صور لیے ہوئے اِسی آخری اعلانِ حق کا انتظار کررہے ہیں۔حدیث میں جس چیز کو عظیم ترین شہادت یا عظیم ترین دعوت کہاگیا ہے، اُس کے امکانات کامل طور پر ظہور میںآچکے ہیں۔ اب ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ اِن امکانات کو استعمال کرکے اِس کارِ عظیم کو عملاً انجام دے دیا جائے۔
گلوبل وارمنگ یا موجودہ دنیا کے خاتمے کی بات کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر خدا کے قانون سے جُڑی ہوئی ہے۔ موجودہ دنیا جو انسان کو ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right) کے طور پر ملی ہے اور نہ انعام(reward) کے طورپر، اور نہ ایسا کہ وہ اتفاقی طورپر انسان کو مل گئی ہو بلکہ انسان یہاں امتحان کے طورپر رکھا گیا ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد انسان اِس دنیا میں رہنے کا جواز کھودیتا ہے۔یہ معاملہ بالکل امتحان ہال جیسا ہے۔ طالبِ علم کو امتحانی پرچہ کرنے کے لیے ایک محدود مدت تک امتحان ہال کے اندر رکھا جاتا ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی طالبِ علم کو امتحان ہال سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر موجودہ دنیا کا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، انسانوں کے درمیان برابر خداکے پیغمبر آتے رہے۔ انھوں نے انسان کو خدا کی طرف سے پیغام دیا۔ جب پیغمبر کی مخاطَب قوم نے پیغمبر کی بات نہ سُنی تو اِتمامِ حجت کے بعد اُس قوم کو تباہ کردیا گیا۔ یہ واقعہ ماضی میں بار بار ہوتا رہا۔
قدیم مثالوں میں اتمامِ حجت کا واقعہ مقامی طورپر ہوتا تھا، اِس لیے اتمامِ حجت کے بعد صرف محدود آبادی کو تباہ کیا جاتا تھا۔ اب جدید ترقیوں کی بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ عالمی سطح پر اتمامِ حجت کا واقعہ انجام پارہا ہے، اس لیے اب اتمامِ حجت کے بعد جو تباہی آنے والی ہے، وہ عالمی تباہی ہوگی۔ اِسی کا نام قیامت ہے۔ قیامت اُسی اصول کا عالمی انطباق ہے جس کا انطباق پہلے صرف مقامی طورپر ہوا کرتا تھا۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوجائے گا (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدرٍ ولا وبَرٍ إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام) کلمۂ اسلام کا یہ عمومی داخلہ یقینی طورپر اسباب کے تحت پیش آئے گا۔ قدیم زمانے میں اس کے اسباب موجود نہ ـتھے۔ اب موجودہ زمانے میں ماڈرن کمیونکیشن کی صورت میں یہ اسباب پوری طرح انسان کی دست رس میں آچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیاہے کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور ملٹی میڈیا کو استعمال کرکے کلمۂ اسلام کو ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
جون 2007 کے پہلے ہفتے میں جرمن (برلن) میںجی آٹھ (G-8) کی ایک کانفرنس ہوئی ۔ ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہ اُس میں شریک ہوئے۔ اس کے ایجنڈے میں نمایاں طورپر گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تھا۔ لمبی بحث کی باوجود کوئی پروگرام طے نہ ہوسکا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار (ٹائمس آف انڈیا، 10 جون 2007 ) میںاِس اہم میٹنگ کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے— اتنے زیادہ مفلس کہ وہ دنیا کو بچا نہیں سکتے:
Too broke to save the world
گلوبل وارمنگ کے بارے میں آج کل روزانہ میڈیا میں خبریں آرہی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس داں یہ بتارہے ہیں کہ دنیا کی کلائمیٹ(climate) خطرناک طورپر بدل رہی ہے۔ 2015 تک، یعنی اب سے صرف آٹھ سال کے اندر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم اتنا زیادہ بگڑ چکاہوگا کہ یہاں زندگی کی بقا اور نشو ونما ممکن نہیں رہے گی۔
یہ سادہ طورپر موسم میں تغیر کی بات نہیں ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ خدا نے انسان کو اور انسانی تہذیب کو رد کردیا ہے۔ انسان نے موجودہ زمین پر مزید رہنے کا جواز کھودیا ہے۔ اب وہ وقت بالکل قریب آگیا ہے جب کہ خدائی نقشے کے مطابق، پہلا دورِ حیات ختم ہوجائے اور دوسرا دورِ حیات شروع ہو، یعنی عالمِ آخرت کا دورِ حیات۔
خدا نے موجودہ دنیا کو انسان کے لیے تیاری کی دنیا (preparatory ground) کے طور پر بنایا تھا۔ یہاں وہ تمام چیزیں مہیّا کی گئی تھیں جن کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو جنت کے قابل بنائے۔ اِس دنیا کی ہر چیز سامانِ تیاری تھی، نہ کہ سامانِ عیش۔ مگر انسان نے خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) سے سرتابی کی۔ اُس نے موجودہ دنیا کو اپنے لیے مقامِ عیش سمجھ لیا اور اُس نے زندگی کا یہ فارمولا بنایا:
Eat, drink and be merry.
اس طرح انسان نے خدا کے تخلیقی نقشے کو بدل دیا۔ یہاں تک کہ اس نے موجودہ تہذیب پیدا کی جو آخری معنوں میں اِسی فارمولے پر قائم ہے۔ خدا نے ہزاروں سال تک انتظار کیا کہ انسان اپنی روش پر نظر ثانی کرے۔ وہ خدا کی دنیا میں اپنا ذاتی ایجنڈا چلانا بند کردے۔ وہ اپنی اصلاح کرکے خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ وہ موجودہ دنیا کے مواقع کو اِس مقصد کے لیے استعمال کرے کہ وہ خدا کا وہ مطلوب بندہ بن جائے جس کو خدا اپنی ابدی جنت میں بسانے کے لیے منتخب کرے گا۔
مگر انسان اپنی روش پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ انسان کے اوپر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ اب انسان نے وہ جواز کھودیا جس کے تحت وہ زمین پر بسا ہوا تھا— موجودہ گلوبل وارمنگ دراصل اِسی حقیقت کا پیشگی انتباہ ہے۔
اِس صورتِ حال میںہر مذہب کے لوگوں کی یہ ذمّے داری تھی کہ وہ دنیا کو آنے والے بھیانک خطرے سے آگاہ کریں۔ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اب تیاری کا آخری موقع ختم ہونے والاہے۔ کسی تاخیر کے بغیر ہوشیار ہوجاؤ اور خدا کے نقشے کے مطابق، زندگی گذارنا شروع کردو۔
لیکن ہر مذہب کے لوگ، بشمول مسلمان، کسی ’’آنے والے‘‘ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ کوئی آنے والا پُر اسرار طورپر آئے گا او رمعجزاتی طاقت کے ذریعے وہ سارے کام کو انجام دے دے گا۔ مگر یہ سخت بھول کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پُر اسرار ہستی آنے والی نہیں۔ جو چیز آنے والی ہے، وہ صرف قیامت ہے۔ اور قیامت جب آئے گی تو وہ کسی کے ساتھ بھی رعایت نہیںکرے گی۔ اُس کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ یکساں ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر(وفات: 1530)نے جب کشمیر کو دیکھا تو اُس نے کشمیر کو ’’جنت نظیر‘‘ کا نام دیا۔ اس نے کہا:
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است وہمین است و ہمین است
یہ قبل از جہاد کے دور کا کشمیر تھا۔ بابر اگر بعد از جہاد کے کشمیر کو دیکھتا تو شاید وہ کہتا کہ پہلے میں نے کشمیر کو جنت نظیر کہا تھا، لیکن اب میں اپنے قول کو واپس لیتا ہوں۔ کیوں کہ اب کشمیر کی پہچان بدل چکی ہے۔
کشمیر اپنے قدرتی اوصاف کی بنا پر عرصے سے فطرت اور روحانیت کا خوب صورت امتزاج بنا ہوا تھا۔ یہاں کے روحانی ماحول کی وجہ سے مسلم صوفیوں کو یہاں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں مذہب اور روحانیت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ نام نہاد جہاد سے پہلے کشمیر کو جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ اِس بیان کی مکمل تصدیق کریں گے۔
یہ کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ پچھلے چند سو سالوں میں یہاں باہر سے جو مسلم صوفی آئے، یا مقامی طورپر جو صوفی پیداہوئے، وہ سب کے سب امن اور محبت کا پیغام دینے والے تھے۔ اِس کے نتیجے میں کشمیر میں زبردست اِنقلاب آیا۔ کشمیر میں اسلام کو غیر معمولی طورپر فروغ حاصل ہوا۔ اگر چہ اب یہ پراسس تقریباً رک گیا ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کشمیر کے صوفیوں میں سے ایک صوفی تھے۔ کشمیر کے لوگوں میں عام طورپر وہ ’’علَم دارِ کشمیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہندو لوگ انھیں پیار سے ’’نند رِشی‘‘ کہتے تھے۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طورپر مقبول تھے۔ قصہ چَرار شریف (کشمیر) میں ان کی درگاہ تھی جو کہ سری نگر سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ درگاہ
شیخ نور الدین نورنی فیروز شاہ تغلق کے ہم عصر تھے۔ وہ 1377 ء میں کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اور 1439 ء میں چرار کے مقام پر ان کی وفات ہوئی۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں کشمیر کے حاکم زین العابدین نے شیخ نورانی کی قبر کی جگہ پر ایک بڑا مقبرہ تعمیر کیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں پٹھانوں کی حکومت کے زمانے میں اس درگاہ کی مزید توسیع ہوئی اور اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی۔
چرار شریف کی اِس درگاہ میں شیخ نورالدین نورانی کی قبر کے ساتھ گیارہ اور صوفیوں کی قبریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی مقدس تاریخی یادگاریں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔ مثلاً حضرت فاطمہ کے تبرکات، وغیرہ جو آگ کی نذر ہوگیے۔
افغانی گورنر عطا محمد خاں شیخ نورانی سے بہت متاثر تھا۔ اس نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طورپر انیسویں صدی کے آغاز (1808-1810) میں شیخ نورالدین نورانی کے نام کا سکہ جاری کیا۔ اس افغانی گورنر نے درگاہ کی مزیدتوسیع کرکے اس میں مسجد کا اضافہ کیا۔
کشمیر کے مشہور بزرگ سید امیر کبیر علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے کشمیر میںایک روحانی بیداری آگئی تھی۔ اس زمانے میں مقامی صوفیوں اور بزرگوں کا ایک پورا گروہ پیدا ہوگیا۔ ان لوگوں کو عام طورپر بابا یا رِشی کہا جاتا تھا۔
یہ مسلمان رشی نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ ہندو اور مسلمان دونوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان مسلمان رشیوں میں سب سے زیادہ شہرت شیخ نورالدین نورانی نے پائی۔ ہندوؤں میں بھی وہ اتنا ہی مقبول و محبوب تھے جتنا کہ مسلمانوں میں(آبِ کوثر، از شیخ محمداکرام، صفحہ
شیخ نور الدین نورانی کی ابتدائی زندگی مصیبتوں میں گزری۔ وہ دنیا والوں کی حالت دیکھ کر غمگین رہتے تھے، آخر کار انھوں نے بستی کو چھوڑ دیا۔ اور وہ پہاڑ میں جاکر تنہا ایک غار میں رہنے لگے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ
ایک کتاب ہے جس کا نام ’نورنامہ‘ ہے۔ اِس کتاب میں شیخ نور الدین نورانی کے صوفیانہ اقوال جمع کیے گیے تھے۔ اِس کتاب کو بابا نصیب الدین غازی نے فارسی زبان میں مرتب کیا تھا۔ یہ کتاب شیخ نورانی کے انتقال کے دو سو سال بعد تیار کی گئی۔
چرار شریف میں شیخ نور الدین نورانی کی درگاہ کا طرزِ تعمیر بالکل بُدھوں کے پگوڈا جیسا تھا۔ یہ عمارتی اسٹائل گویا اس بات کی علامت تھا کہ شیخ نورالدین نورانی کٹر پن سے بہت دور تھے۔ وہ صلحِ کُل (peace with all)کی پالیسی کو پسند کرتے تھے۔
شہنشاہ جہاں گیر ان کا معتقد تھا۔ اس نے شیخ نورالدین نورانی اور ان کے پیروؤں کے بارے میں کہا تھا کہ —یہ رشی نہ کسی کو بُرا کہتے ہیں اور نہ کسی سے کوئی چیز مانگتے ہیں۔ یہ دو لفظ میں شیخ نورالدین نورانی اور ان کے ماننے والوں کی صحیح اور جامع تصویر ہے۔
شیخ نور الدین نورانی سچی کشمیریت کی علامت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ— اگر تو دانش مند ہے تو ہندو اور مسلمان کو الگ الگ انسان نہ سمجھ، یہی خدا سے ملنے کا راستہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ چناں چہ ان کا کلام کشمیر کے ایک شاعر نے ’رِشی نامہ‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ نورالدین نورانی کے نزدیک انسان کی ایک ہی پہچان تھی،وہ یہ کہ انسان انسان سے پیار کرے۔ ان کے نزدیک انسان سے پیار ہی خدا کی پہچان کا راستہ ہے۔
شیخ نور الدین نورانی ایک صوفی بزرگ تھے۔ وہ روحانیت اور انسانیت اور پیار کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ کسی کا دل دکھانا یا کسی کو نقصان پہنچانا، ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ تھا ۔ وہ انسان کی زندگی میں فطرت کا حسن دیکھنا چاہتے تھے۔
شیخ نور الدین نورانی کے قیمتی اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اُس سے درانتی بنالی۔ یہ قول شیخ نورانی کے فکر کا خلاصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے لوہا بنایا جس میں خصوصی طاقت ہے، مگر لوہا اس لیے نہیں ہے آپ اس کو تشدد کے لیے استعمال کریں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ لوہے کو تعمیر انسانیت کے لیے استعمال کریں۔ آپ لوہے سے تلوار کے بجائے درانتی بنائیں جو زراعت کے کام آتی ہے۔
اِسی طرح انھوں نے کہا کہ —جنگل ہوں گے تو اناج ہوگا۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جنگل سے بارش ہوگی اور بارش سے کھیتوں میں فصل اُگے گی۔ اِسی کے ساتھ اس قول کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں ایک کو دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرنا ہے۔ باہمی تعاون کے بغیر اس دنیا میں کوئی تعمیری نتیجہ بر آمد نہیں ہوسکتا۔
شیخ نورا لدین نورانی کے اقوال کشمیری زبان میں ہیں۔ یہ اقوال، انسانیت اور روحانیت کی اسپرٹ سے بھر پور ہیں۔ کچھ مزید اقوال کا ترجمہ یہ ہے:
کام، کرودھ، لوبھ، موہ اور اہنکار یہ سب انسان کو دوزخ میں بھیجنے کے لیے کافی ہیں۔
اپنے جسم کا سنگار کرنے سے من کا میل نہیں ہٹتا۔
ایک ہی ماں باپ کے بیٹے ہیں، ان کو خدا کا دامن تھامنا چاہیے۔ کیا مسلمان اور کیا ہندو، اللہ کی رحمت دونوں کے لیے برابر ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کا زمانہ چودھویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور پندرھویں صدی کا نصف اوّل ہے۔ وہ ایک صوفی آدمی تھے۔ انھوںنے اپنے طریقِ کار کو اِن لفظوں میں بیان کیا تھا کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اس سے درانتی بنالی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میں نے تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن اور محبت کا طریقہ اختیار کرلیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر نہ صرف ایک پُر امن علاقہ بن گیا، بلکہ وہاں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ کشمیر کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئی۔
لیکن اکتوبر 1989 سے کشمیر میں ایسے لوگ اُبھرے جو برعکس اصول پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے برعکس طور پر یہ کیا کہ اپنی ’’درانتی‘‘ کو توڑ کر اُس سے ’’تلوار‘‘ بنالی۔ انھوں نے جہاد کے نام پر پوری ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلادیا۔ جس کا نتیجہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
اِس خود ساختہ جہاد کانتیجہ ناقابلِ بیان نقصانات کی صورت میں نکلا۔ کشمیر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خوش گوار تعلقات ختم ہوگیے۔ سیاحت کی انڈسٹری پر تباہ کن اثر پڑا۔ اقتصادی ترقی رک گئی۔ دعوت کا عمل ختم ہوگیا۔ لوگوں کے اندرمایوسی اور منافقت پیدا ہوگئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، وغیرہ۔
کشمیر میں مسلّح تحریک شروع ہونے سے ایک مہینے پہلے میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں کے ’ٹیگور ہال‘ میں میری تقریر ہوئی۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ یہاں مسلح تحریک شروع ہونے والی ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں پیشگی طورپر یہ کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بدو مدینہ آیا اور اُس نے مسجدنبوی میں پیشاب کر دیا۔ رسول اللہ نے اُس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جہاں اس نے گندہ کیا ہے اُس پر پانی بہا دو، وہ صاف ہوجائے گا۔ اِس حسنِ اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بدو اور اس کا پورا قبیلہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ میںنے کہا کہ پیغمبراسلام نے جو نتیجہ پانی بہا کر حاصل کیا تھا، اُس کو آپ خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اور ایساہونا کبھی ممکن نہیں۔
اب اِس تقریر پر تقریبا بیس سال گذر چکے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے جو کچھ میں نے اُس وقت کہا تھا، وہ اب لفظ بہ لفظ واقعہ بن چکا ہے۔ لوگ اندر سے اپنی غلطی کو محسوس کررہے ہیں، لیکن اب بھی وہ کھلے طورپر اس کا اعتراف نہیں کرتے۔
پاکستان کے مشہور روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے سنڈے میگزین (
ہارٹ ٹوہارٹ کانفرنس اور مجاہد ِاوّل
اِس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کشمیری جہاد کے لیڈر سردار عبد القیوم خان اور انڈیا میں کشمیری جہاد کے لیڈر میر واعظ عمر فاروق، دونوں مسلح جہاد سے تائب ہو کر اب امن کی باتیں کررہے ہیں۔اب وہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کو چھوڑچکے ہیں۔ مضمون میں سردار عبد القیوم خان کی طرف سے یہ الفاظ نقل کیے گیے ہیں: ’’موجودہ دَور میں کشمیرکی آزادی کی بات کرنا، احمقانہ سوچ ہے‘‘۔
کشمیری جہاد کے لیڈروں میں یہ تبدیلی بلا شبہہ خوش آئند ہے، لیکن اِن حضرات کو اس کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اِس لیے کہ وہ آج امن کی بولی تو بول رہے ہیں، لیکن انھوں نے کھلے لفظوں میں یہ اعلان نہیں کیا کہ اِس سے پہلے انھوں نے جو کچھ کیا، وہ بالکل غلط تھا۔ انھوں نے کشمیری قوم کی غلط رہنمائی کی۔ ان حضرات کے لیے کسی نیے رول کا آغاز اعتراف سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کھلے طور پر اعتراف نہ کریں تو کسی نیے رول کا آغاز بھی اُن کے لیے مقدر نہیں ۔
جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں پہلے دن سے نام نہاد کشمیری تحریک کو بے اصل سمجھتا رہا ہوں۔ میرا کہنا یہ رہا ہے کہ اِس طرح کے واقعات تاریخ کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں، نہ کہ موجودہ قسم کی تحریک کے ذریعے۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ انڈیا کی آزادی کے وقت ہی ہوچکا ہے۔ اب نہ اُس کو باقاعدہ جنگ کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے اور نہ گوریلا وار کے ذریعے۔ اِس قسم کی ہر کوشش مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ اُس کو مزید دہرانا، صرف اپنے نقصان میں اضافے کے ہم معنیٰ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ انڈیا ہر اعتبار سے پاکستان سے بہت زیادہ ترقی کررہا ہے۔ ایسی حالت میں کشمیر کے لیے بہترین چوائس انڈیا ہے، نہ کہ پاکستان۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ جُڑنا، ایک ترقی یافتہ ملک کے ساتھ جڑنا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ جڑنا، ایک ایسے ملک کے ساتھ جڑنا ہے جو ابھی تک ترقی کی طرف اپنا سفر بھی شروع نہ کرسکا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 9 میں ارشاد ہوا ہے: ألا تقاتلون قوماً نکثُوا أیمانہم وہمُّوا بإخراجِ الرّسولِ وہُم بدَء وکُم أوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبۃ:
اِس آیت کی تشریح میںصاحب التفسیر المظہری نے لکھا ہے: وہم بدء وکم بالقتال أوّل مرّۃ، لأنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بَدَأ بالدَّعوۃِ وإلزام الحجۃ بالکتاب والتحدّی بہ، فعدلوا عن معارضتہ إلی المعاداۃ والمقاتلۃ، حتّیٰ اجتمعوا فی دارالندوۃ وأجمعوا علیٰ قتلہ (جلد 4، صفحہ
یعنی انھوں نے تم سے جنگ میں پہل کی۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت سے آغاز کیا۔ اور کتاب اللہ کے ذریعہ حجت قائم کرنے سے اور اُس کے ذریعہ تحدّی کرنے سے مگر انھوں نے اُس کے جواب میں انحراف کیا اور دشمنی اور جنگ کا طریقہ اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ دار الندوہ میں اکھٹا ہوکر انھوں نے آپ کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔
قرآن کی اِس آیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک،یہ کہ ’’وہُم بدء وکم‘‘ میں جس ابتدا کا ذکر ہے، اُس سے مشرکین کی طرف سے کیا جانے والا کون سا واقعہ مراد ہے۔ اِس معاملے میں مفسرین کی ایک رائے نہیں۔ مفسرین نے مشرکوں کی طرف سے کیے جانے والے مختلف واقعات کو اِس کا مصداق قرار دیا ہے۔
آیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اُس سے ایک اصولی حکم نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگ کے معاملے میں بَدْء(آغاز) اہلِ اسلام کی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ فریقِ ثانی کی طرف سے ہوگا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے جب تک جارحانہ آغاز نہ کیا جائے، اہلِ اسلام پُرامن طریقِ کار کے مطابق، اپنا دعوتی مشن جاری رکھیں گے۔ البتہ جب فریقِ ثانی کی طرف سے جارحیت کا آغاز کردیا جائے تو اُس کے بعد اہلِ اسلام کے لیے جائز ہوجاتا ہے کہ وہ دفاع کے طورپر فریقِ ثانی سے جنگی مقابلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کا علاقہ بہت خاص علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت یہاں لوگ سیروتفریح کے لیے آتے ہیں۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں آیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کا بچہ تھا۔ بچے نے اپنے باپ سے آئس کریم کی فرمائش کی۔ باپ نے فوراً اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا۔ اس نے آئس کریم کا ایک پیکٹ خریدا اور پھر تینوں کھڑے کھڑے آئس کریم کھانے لگے۔ میں نے اُس آدمی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر فخر کی چمک تھی۔ گویا کہ خاموش انداز میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری جیب میں پیسہ ہے اور میں اپنے پیسے سے آئس کریم خرید کر اپنے بچے کی فرمائش پوری کرسکتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ اُس کے نزدیک ’’میں‘‘ کاکارنامہ تھا۔ اِس کے لیے اُسے کسی اور کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
یہی تمام انسانوں کا حال ہے۔ تمام عورت اور مرد اِسی احساس میں جی رہے ہیں۔ اِس احساس نے لوگوں کے اندر سے تواضع(modesty) کا جذبہ چھین لیا ہے۔ ہر آدمی کا کیس کبر (arrogance) کا کیس بنا ہوا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا صرف ایک مذہب ہے، اور وہ ایگوازم (egoism)ہے۔ اِس ایگوکلچر نے ہر ایک کو خود پسند اور سرکش اور متکبر بنا دیا ہے۔ لوگوں کا یہ مزاج صرف اُس وقت تک چھپا رہتا ہے، جب تک ان کی انا کو چھیڑا نہ جائے۔ اَنا کو چھیڑتے ہی ہر آدمی بتا دیتا ہے کہ وہ کبر کا کیس تھا۔ اگر چہ وہ بظاہر متواضع (modest) بنا ہوا تھا۔
یہ مزاج سرتاسر غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ اگر آدمی حقیقتِ واقعہ پر غور کرے تو وہ کبھی بھی متکبرنہ بنے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں کسی کے لیے متکبر بننا مضحکہ خیز حد تک بے معنیٰ ہے۔ چناںچہ کوئی سائنٹسٹ کبھی متکبر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُس کا میدانِ مطالعہ علومِ قطعیہ(exact sciences) ہوتے ہیں۔ اِس بنا پر اس کے اندر اپنے آپ حقیقت پسندی کا مزاج آجاتا ہے۔ ہر سائنٹسٹ، شعوری یا غیر شعوری طورپر جانتا ہے کہ اس کو کامل طورپر حقیقتِ واقعہ کی پابندی کرنا ہے۔ اگر وہ حقیقتِ واقعہ سے ذرا بھی ہٹے تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے سے محروم رہ جائے گا۔ گویا کہ اگزیکٹ سائنس، اس کے اندر اگزیکٹ تھنکنگ کا مزاج بناتی ہے۔ اور ایگزیکٹ تھنکنگ ہی کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔
اب انڈیا گیٹ کے مذکورہ واقعہ کو لیجیے۔ آدمی کے اندر فخر کا جذبہ کیوں آیا۔ صرف اس لیے کہ اس کے اندر سائنسی مزاج، بالفاظ دیگر، حقیقت پسندانہ مزاج موجود نہ تھا۔ اگر اس کے اندر صحیح مزاج موجود ہوتا تو آئس کریم کا پیکٹ اس کے تواضع میںاضافہ کرتا نہ کہ فخر اور گھمنڈ میں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
آئس کریم کیا ہے۔ آئس کریم ایک عظیم تحفہ ہے۔ آئس کریم کو وجود میں لانے میں ایک طرف نیچر کا طویل کائناتی عمل شامل ہے، اور دوسری طرف انسان کی تہذیبی جدوجہد کا لمبا سفر اس کو وجود میں لانے میں سرگرم رہا ہے۔ اِس طرح ناقابلِ یقین حد تک ایک پُراز واقعات تاریخ کے نتیجے میں وہ وقت آیا کہ ایک شخص کو خوب صورت کیس میں پیک کی ہوئی آئس کریم حاصل ہوسکے۔
ایک سائنسی نظریے کے مطابق، تقریباً دس بلین سال پہلے وسیع کائنات گیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد لمبے عمل کے نتیجے میں ہائڈروجن اور آکسیجن مخصوص تناسب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے۔ اِس کے نتیجے میں پانی وجود میںآیا۔ اس کے بعد لمبی مدت تک زمین پر پانی برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں زمین پر پانی کے ذخیرے اکھٹا ہوگیے۔ اس کے بعد حیوانات وجود میں آئے۔ آخر میں انسان اِس زمیں پر آباد ہوا۔
اِس طرح لمبی مدت کے عمل کے نتیجے میں دودھ دینے والے جانور پیدا ہوئے۔ پھر انسانی تہذیب کا عمل شروع ہوا۔ انسانی تہذیب ہزاروں سال تک ایک ارتقائی سفر طے کرتی رہی۔ اس نے حیوانات سے دودھ حاصل کیا۔ پھر اِس د ودھ کے مختلف مرکبات بنائے۔ پھر جدید صنعت ظہور میں آئی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ دودھ کو آئس کریم کی شکل میں ڈھالا جاسکے۔ اور اس کو خوب صورت پیکٹ میں پیک کرکے بازار میں لایا جائے۔
عالمِ فطرت اور انسانی تہذیب دونوں کے اس لمبے مشترک عمل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج جب ایک آدمی چند روپیے دے کر بازار سے آئس کریم کا پیکٹ حاصل کرتا ہے تو اِس پورے عمل (process) کے مقابلے میں آدمی کا اپنا حصہ ایک فی بلین سے بھی بہت زیادہ کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں جب آئس کریم کا پیکٹ آئے تو وہ سرتاپا تواضع میں ڈھل جائے۔ دوطرفہ احسان مندی کے جذبے سے اُس کی گردن جھک جائے۔ فخر اور گھمنڈ کاکوئی ذرہ بھی اس کے دل میں باقی نہ رہے۔
یہ صرف آئس کریم کا معاملہ نہیں۔ اِس دنیا میں ہر چیز کا معاملہ یہی ہے۔ کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز جس کو آدمی استعمال کرتاہے، وہ اِسی طرح انسان کے لیے ایک عالمی عطیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف فطری سپورٹ (natural support) اور دوسری طرف تہذیبی سپورٹ(civilizational support) ، اِن دونوں قسم کے عظیم سپورٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی مرد یاعورت اِس زمین پر آباد ہو اور اپنے لیے ایک کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔
اِس واقعے کا اِدراک انسان کے لیے بے حد اہم ہے۔ اِسی ادراک کے نتیجے میں انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیداہوتی ہے جس کو تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی تواضع انسان کی اصل پہچان ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع نہیں، وہ گویا کہ انسان بھی نہیں۔
Flaw in creationists’ argument, by Paul Davies
We will never explain the cosmos by taking on faith either divinity or physical laws. True meaning is to be found within nature. Scientists are slowly waking up to an inconvenient truth - the universe looks suspiciously like a fix. The issue concerns the very laws of nature themselves. For 40 years, physicists and cosmologists have been quietly collecting examples of all to convenient "coincidences" and special features in the underlying laws of the universe that seem to be necessary in order for life, and hence conscious beings, to exist. Change any one of them and the result would be lethal. To see the problem, imagine playing God with the cosmos. Before you is a designer machine that lets you tinker with the basics of physics. Twiddle this knob and you make all electrons a bit lighter, twiddle that one and you make gravity a bit stronger, and so on. It happens that you need to set 30-something knobs to fully describe the world about us. The point is that some of those metaphorical knobs must be tuned precisely, or the universe would be sterile. Example: neutrons are just a tad heavier than protons. If it were the other way around, atoms could not exist, because all the protons in the universe would have decayed into neutrons shortly after the big bag. No protons, then no atomic nucleuses, and no atoms. No atoms, no chemistry, no life. Like Baby Bear's porridge in the story of Goldilocks, the universe seems to be just right for life. So what's going on? Fuelling the controversy is an unanswered question lurking at the very heart of science - the origin of the laws of physics. Where do they come from? Why do they have the form that they do? Traditionally, scientists have treated the laws of physic as simply "given," elegant mathematical relationships that were somehow imprinted on the universe at its birth, and fixed thereafter. Inquiry into the origin and nature of the laws was not regarded as a proper part of science.
Illusory impression
But the embarrassment of the Goldilocks enigma has prompted a rethink. The Cambridge cosmologist Martin Rees, president of The Royal Society, suggests the laws of physics aren't absolute and universal but more akin to local bylaws, varying from place to place on a mega-cosmic scale. A God's eye view would show our universe as merely a single representative amid a vast assemblage of universes, each with this own bylaws. Mr. Rees calls this system "the multiverse," and it is an increasingly popular idea among cosmologists. Only rarely within the variegated cosmic quilt will a universe possess bio-friendly laws and spawn life. It would then be no surprise that we find ourselves in a universe apparently customized for habitation; we would hardly exist in one where life is impossible. The multiverse theory cuts the ground from beneath intelligent design, but it falls short of a complete explanation of existence. For a start there has to be a physical mechanism to make all those universes and allocate bylaws to them. This process demands its own laws, or meta-laws. Where do they come from? The root cause of all the difficulty can be traced to the fact that both religion and science appeal to some agency outside the universe to explain its law-like order. Dumping the problem in the lap of a pre-existing designer is no explanation at all, as it merely begs the question of who designed the designer. But appealing to a host of unseen universes and a set of unexplained meta-laws is scarcely any better. This shared failing is no surprise, because the very notion of physical law has its origins in theology. The idea of absolute, universal, perfect, immutable laws comes straight out of monotheism, which was the dominant influence in Europe at the time science as we know it was being formulated by Isaac Newton and his contemporaries. Just as classical Christianity presents God as upholding the natural order from beyond the universe, so physicists envisage their laws as inhabiting an abstract transcendent realm of perfect mathematical relationships. Furthermore, Christians believe the world depends utterly on God for its existence, while the converse is not the case. Correspondingly, physicists declare that the universe is governed by eternal laws, but the laws remain impervious to events in the universe.
Outdated theory
I think this entire line of reasoning is now outdated and simplistic. We will never fully explain the world by appealing to something outside it that must simply be accepted on faith, be it an unexplained God or an unexplained set of mathematical laws. Can we do better? I propose that the laws are more like computer software: programmes being run on the great cosmic computer. They emerge with the universe at the big bang and are inherent in it, not stamped on it from without like a maker's mark. Man-made computers are limited in their performance by finite processing speed and memory. So too, the cosmic computer is limited in power by its age and the finite speed of light. Seth Lloyd, an engineer at MIT, has calculated how many bits of information the observable universe has processed since the big bang. The answer is one followed by 122 zeros. Crucially, however, the limit was smaller in the past because the universe was younger. Just after the big bang, when the basic properties of the universe were being forged, its information capacity was so restricted that the consequences would have been profound. Here's why. If a law is a truly exact mathematical relationship, it requires infinite information to specify it. In my opinion, however, no law can apply to a level of precision finer than all the information in the universe can express. Infinitely precise laws are an extreme idealization with no shred of real world justification. In the first split second of cosmic existence, the laws must therefore have been seriously fuzzy. Then, as the information content of the universe climbed, the laws focused and homed in on the life-encouraging form we observe today. But the flaws in the laws left enough wiggle room for the universe to engineer its own bio-friendliness. If there is an ultimate meaning to existence, as I believe is the case, the answer is to be found within nature, not beyond it. The universe might indeed be a fix, but if so, it has fixed itself.
(Paul Davies is director of Beyond, a research center at Arizona State University, and author of The Goldilocks Enigma.)
واپس اوپر جائیں
پروفیسر پال ڈیویز(Paul Davies) مشہور امریکی رائٹر ہیں۔ وہ ایری زونا اسٹیٹ (Arizona State) یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر (Beyond) کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام گولڈی لاکس انِگما(Goldilocks Enigma) ہے۔ حال میں ان کا ایک مقالہ مجلّہ گارجین (Guardian Newspapers Limited 2007) میں چھپا ہے۔ اِس مقالے کو انگریزی اخبار ہندو(The Hindu) نے اپنے شمارہ
Flaw in creationists' argument
مضمون نگارلکھتے ہیں کہ ’’سائنس داں دھیرے دھیرے ایک ناگوار سچائی (inconvenient truth) تک پہنچ رہے ہیں، وہ یہ کہ کائنات ایک نہایت محکم کائنات ہے۔ سائنس داں چالیس سال سے کائنات میں کام کرنے والے قوانینِ طبیعی کی تحقیق کررہے ہیں۔ یہ تحقیق، کائنات کے پیچھے ایک شعوری وجود (concious being) کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کائنات کے قوانین میں سے کسی ایک کو بھی اگر بدلا جائے تواس کا نتیجہ نہایت مہلک ہوگا۔ کائنات اتنی زیادہ منظم ہے کہ اس کے موجودہ ڈھانچے میں معمولی تبدیلی بھی اس کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ساری کائنات ایٹم سے بنی ہے۔ اور ہر ایٹم نیوٹران اور پروٹان کامجموعہ ہے۔ نیوٹران کسی قدر وزنی ہوتا ہے اور پروٹان کسی قدر ہلکا۔ یہ تناسب بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا الٹا ہو، یعنی پروٹان بھاری ہو اور نیوٹران ہلکا، تو معلوم قوانین کے مطابق، ایٹم کا وجود ہی نہ رہے گا۔ جب نیوکلیس نہ ہوگا تو ایٹم بھی نہ ہوگا، اور جب ایٹم نہ ہوگا تو کیمسٹری بھی نہیں ہوگی۔ اور جب کیمسٹری نہیں ہوگی تو زندگی بھی نہیں ہوگی۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ سائنس ناقابلِ حل سوالات سے دوچار ہے۔ مثلاً طبیعیات کے موجودہ قوانین کہاں سے آئے، وہ اپنی موجودہ محکم حالت میں کیوں قائم ہیں، وغیرہ۔ روایتی طور پر سائنس داں یہ فرض کررہے تھے کہ یہ قوانین، کائنات کا لازمی حصہ ہیں۔ قوانینِ طبیعی کی حقیقت کی کھوج کرنا، سائنس کا موضوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سوالات سائنس دانوں کو پریشان کررہے ہیں۔
کیمبرج کے سائنس داں مارٹن ریس(Martin Rees) جو کہ ’رائل سوسائٹی‘ کے صدر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین، مطلق اور آفاقی نہیں ہیں، وہ ایک بڑے کائنات نظام کے متفرق حصے ہیں۔ ہر حصے کے اپنے ضوابط ہیں۔ وہ اِس نظام کو متعدّد کائناتی نظام (the multiverse system) کہتے ہیں۔ اِن تحقیقات کے مطابق، ہماری کائنات ایک ایسی کائنات ہے جو موافقِ حیات قوانین (bio-friendly laws) کی حامل ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات کو ہم اِس طرح پاتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاںانسان کا قیام ناممکن ہوجاتا۔ یہ محکم قوانین جو کائنات کو نہایت منظم طورپر کنٹرول کررہے ہیں، وہ کہاں سے آئے۔
تمام مشکلات کا سبب، جدید مفکرین کے نزدیک، یہ ہے کہ مذہب اور جدیدسائنس، دونوں کائنات کا جو تصور دے رہے ہیں، وہ کائنات کے علاوہ ایک ایسی ایجنسی کا تقاضا کرتے ہیں جو کائنات کے باہر سے کائنات کا نظم کررہی ہو۔ تاہم کائنات کی توجیہہ کے لیے ایک ایسے ڈزائنر کو ماننا جو کائنات سے پہلے موجود ہو، وہ اِس مسئلے کی کوئی توجیہہ نہیں۔ کیوںکہ یہ توجیہہ فوراً یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ڈزائنر نے اگر کائنات کو بنایا تو خود ڈزائنر کو کس نے بنایا:
Who designed the designer
اگر زندگی کی کوئی آخری معنویت(ultimate meaning) ہے، جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں، تو یہ جواب خود نیچر کے اندر ملنا چاہیے، نہ کہ اُس سے باہر۔ کائنات ایک محکم کائنات ہوسکتی ہے، لیکن اگر ایسا ہے تو کائنات نے خود ہی اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے‘‘۔
وضاحت
الہٰیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔ اِس کا ایک اندازہ پروفیسر پال ڈیویز کے مذکورہ مضمون سے ہوتا ہے۔ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگرمذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا۔ مگر یہ سوال مکمل طورپر ایک غیر منطقی (illogical) سوال ہے۔ یہ منطق (logic) کی نفی ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اعتراض ایک کھُلی تضاد فکری پر قائم ہے۔ یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں، مگر خالق کو ماننے کے لیے وہ ایک خالقِ خالق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بھی بغیر خالق کے ممکن ہونا چاہیے۔
عقلی موقف
خدا کے وجود کے معاملے میں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ خالص عقلی نقطہ نظر سے ہم کیا موقف اختیار کرسکتے ہیںاور کیا نہیں۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ اِس معاملے میں سرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کائنات میں انتہائی معیاری حد تک نظم پایا جاتا ہے۔ نظم کا یہ معاملہ ہر آدمی کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مذکورہ مضمون نگار نے ایٹم کی ساخت کو لے کر اِسی معاملے کی ایک سائنسی مثال دی ہے۔ اِس لیے جہاں تک کائنات میں نظم کا سوال ہے، یہ ہر فریق کے نزدیک، ایک مسلّم حقیقت ہے۔
عقلی موقف کے اعتبار سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کا تصور ناظم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جہاں نظم ہے، وہاں یقینا اس کا ایک ناظم موجود ہے۔ ناظم کے بغیرنظم کا تصور عقلی اعتبار سے محال ہے۔ نظم کی موجودگی ایک مجبورانہ منطق (compulsive logic) پیدا کرتی ہے، یعنی کسی بھی عذر کے بغیر ناظم کی موجودگی کا اقرار کرنا۔ کسی کے ذہن میں ناظم کی موجودگی کی توجیہہ نہ ہونا، اُس کو یہ منطقی جواز نہیں دیتا کہ وہ ناظم کی موجودگی کا انکار کردے۔
ایٹم کے ڈھانچے کی مثال لے کر مضمون نگار نے جو بات کہی ہے، وہی اِس دنیا کی ہر چیز کے بارے میں درست ہے۔ اِس دنیا کا ہر جُز، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، وہ اِس قدر محکم اور متناسب ہے کہ اس کے ڈھانچے میں کوئی بھی تغیر سارے نظام عالم کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ہمارے سیارۂ زمین میں جو کشش (gravity) ہے، وہ آخری حد تک ہماری ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر زمین کی کشش نصف کے بقدر زیادہ ہوجائے، یا نصف کے بقدر کم ہوجائے تو دونوں حالتوں میں سیارۂ زمین پر انسانی تہذیب کا بقاناممکن ہوجائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلا میں ہمارے دو قریبی پڑوسی ہیں— سورج اور چاند۔ اگر ایسا ہو کہ سورج وہاں ہوجہاں آج چاند ہے، اور چاند وہاں ہو جہاں آج سورج ہے، تو زمین پر انسانی زندگی تو درکنار خود زمین جل کر ختم ہوجائے گی۔
ہماری زمین پر تمام چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ لیکن درخت کا معاملہ استثنائی طورپر یہ ہے کہ اس کی جڑیں تو زمین میں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس کا تنا اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ درخت میں یہ دو طرفہ خصوصیت نہ ہو تو اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرے بھرے درختوں کا خاتمہ ہوجائے گا، وغیرہ۔
ذہین کائنات
کائنات میںاَن گنت چیزیں ہیں، اور ہر چیز مرکّب(compound) کی صورت میں ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایٹم، کائنات کا ایک ایسا واحدہ ہے جو مفرد(single) ہے اور غیر مرکب حالت میں ہے۔ مگر آئن سٹائن کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیاتو معلوم ہوا کہ اٹیم بھی مرکب ہے، وہ کوئی مفرد چیز نہیں۔
دورِ جدید میں ہر چیز کا سائنسی مطالعہ کیا گیاہے۔ اِس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چیزیں جن اشیا سے ترکیب پاکر بنتی ہیں، ان کی ترکیب کے لیے ہمیشہ بہت سے آپشن (options) موجود ہوتے ہیں، مگر سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ نیچر ہمیشہ یہ کرتی ہے کہ بہت سے آپشن میں سے اُسی ایک آپشن کو لیتی ہے جو کائنات کی مجموعی اسکیم کے عین مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز بالکل پرفیکٹ نظر آتی ہے، اِس دنیا کی ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔
یہ اصول جو کائنات میں رائج ہے، اُس کو ایک لفظ میں ذہین انتخاب(intelligent selection) کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں بلین، ٹری لین سے بھی زیادہ چیزیں موجود ہیں، لیکن ہر چیز بلا استثنا، اِسی ذہین انتخاب کی مثال ہے۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ ایک سائنس داں ڈاکٹر فریڈ ہائل (Fred Hoyle) نے اِسی موضوع پر ایک کتاب تیار کر کے شائع کی ہے، اُس کا نام ہے— ذہین کائنات(The Intelligent Universe) ۔ یہ کتاب ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے اور 1983میں لندن سے چھپی ہے۔
کائنات کا یہ ظاہرہ (phenomenon) کوئی سادہ بات نہیں، وہ خدا کے وجود کا ایک حتمی ثبوت ہے۔ کائنات کی بناوٹ میں ذہانت (intelligence) کی موجودگی واضح طورپر ایک اور بات ثابت کرتی ہے۔ ذہین تخلیق (intelligent creation) واضح طورپر ذہین خالق (intelligent creator) کا ثبوت ہے۔ منطقی طورپر یہ ناقابلِ قیاس ہے کہ یہاں ذہین عمل موجود ہو، لیکن ذہین عامل یہاں موجود نہ ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بلاشبہہ لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ذہین عمل کو ماننے کے بعد ذہین عامل کو نہ ماننا، ایسا ہی ہے جیسے ایک پیچیدہ مشین کو ماننے کے بعد اُس کے انجینئر کو نہ ماننا۔ ڈاکٹر فریڈ ہائل نے اپنی کتاب میںدرست طورپر لکھا ہے کہ سائنس کے ابتدائی دور میں مسیحی چرچ نے سائنس دانوں کے خلاف جو متشددانہ کارروائی کی، وہ ابھی تک لوگوں کو یاد ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ یہ اعلان کردیں کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین خالق کے وجود کا ثبوت مل رہا ہے تو قدیم مذہبی تشدد(religious connotation) شاید دوبارہ واپس آجائے گا۔ مگر یہ ایک بے بنیاد خوف ہے۔ ذہین خالق کے سائنسی اعتراف کے بعد جوچیز تاریخ میںواپس آئے گی، وہ سچاخدائی مذہب ہے، نہ کہ مسیحی چرچ۔
دو انتخاب(options)
کائنات میں جو غیر معمولی نظم اور تناسب پایا جاتا ہے، اس کی توجیہہ کے لیے ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہیں۔ ایک، یہ کہ کائنات اپنی ناظم آپ ہے۔ مگر سائنس کی تمام تحقیقات اِس کی تردید کرتی ہیں۔ اِس لیے کہ سائنس نے کائنات میں جس نظم کو دریافت کیا ہے، وہ مکمل طور پر ایک ذہین نظم(intelligent design) ہے۔ دوسری طرف سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ خود کائنات کے اندر سب کچھ ہے، لیکن وہی چیز اس کے اندر موجود نہیں جس کو ذہانت (intelligence) کہاجاتا ہے۔ سائنس کی دریافت کردہ کائنات، بیک وقت کامل طورپر منظم (designed)ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل طورپر غیرذہین (non-intelligent)ہے۔ ایسی حالت میں کائنات کو اپنے نظم کا خود ناظم سمجھنا، ایسا ہی ہے جیسے پتھر کے اسٹیچو کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے اپنی بامعنیٰ ڈزائن خود تیار کی ہے۔ وہ ایک خود تخلیقی وجود (self-created being) ہے۔
اِس کے بعد ہمارے پاس کائنات کی توجیہہ کے لیے صرف ایک آپشن باقی رہتا ہے، اور وہ یہ کہ ہم ایک خارجی ایجنسی(outside agency) کو کائنات کے نظم کا سبب قرار دیں۔ اِس ایک انتخاب کے سوا، کوئی دوسرا انتخاب ہمارے لیے عملی طورپر ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے بے خدا کائنات اور با خدا کائنات کے درمیان انتخاب نہیں ہے، بلکہ با خدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) کے درمیان انتخاب ہے۔ یعنی ہم اگر خدا کا انکار کریں تو ہمیں کائنات کے وجود کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوںکہ ہم کائنات کے وجود کا انکار نہیں کرسکتے، اِس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کریں۔
واحد انتخاب
عقلی اصولوں میںسے یہ ایک اصول ہے کہ جب ایسی صورت حال ہو کہ عملی طور پر ہمارے لیے صرف ایک ہی انتخاب ممکن ہو تو اُس وقت ایک مجبور کن صورتِ حال (compulsive situation) پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اُس ایک انتخاب کو لے لیں۔ اِس کے خلاف کرنا، صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہاں ایک سے زیادہ انتخاب موجود ہوں۔ لیکن جب ایک کے سوا کوئی دوسرا انتخاب سرے سے موجود ہی نہ ہو تو اُس وقت لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اِسی واحد انتخاب کو قبول کرلیں۔ زیرِ بحث مسئلے میں یہ واحدانتخاب خدا کے وجود کو بطور واقعہ تسلیم کرنا ہے، کیوں کہ یہاں اقرارِخدا کے سوا کوئی اور انتخاب ہمارے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔
منطقی استدلال
کسی بات کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے انسان کے پاس سب بڑی چیز منطق (logic) ہے۔ منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طورپر قابل فہم بنایا جاتا ہے۔ منطق کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک ہے، انتخابی منطق(optional logic) اور دوسری ہے، مجبورانہ منطق (compulsive logic) ۔منطق کے یہ دونوں ہی طریقے یکساں طورپر قابلِ اعتماد ذریعے ہیں۔ دونوں میں سے جس ذریعے سے بھی بات ثابت ہوجائے، اس کو ثابت شدہ مانا جائے گا۔
انتخابی منطق
انتخابی منطق وہ ہے جس میں آدمی کے لیے کئی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ہو۔ اِس قسم کے معاملے میںہمارے پاس ایسے ذریعے ہوتے ہیں جن کو منطبق کرکے ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ کئی میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چھوڑ دیں۔
مثلاً سورج کی روشنی کو لیجیے۔ آنکھ سے دیکھنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکھائی دیتی ہے، لیکن پِرزم (prism) سے دیکھنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ اِس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہوگیے۔ اب ہمارے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیادہ ہو، ہم اس کو لیں۔ چناں چہ اِس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیاگیا۔ کیوں کہ وہ زیادہ قوی ذریعے سے ثابت ہورہا تھا۔
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب (option) ہوتاہے۔ آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اُس ایک انتخاب کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اس میںایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طورپر ماننا بھی ہے، اور ماننے کے لیے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں۔
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے۔ ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے۔ حالاں کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اِس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ ماں مانتا ہے۔ یہ ماننا، مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا وہ اِس لیے کرتا ہے کہ اِس معاملے میںاُس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے۔ اِسی لیے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کرلیتا ہے۔ کیوں کہ اِس کیس میں اُس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب (option) موجود نہیں۔
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اِسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے۔ خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں۔ کیوں کہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی۔ چوں کہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کرسکتے ، اِس لیے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کرسکتے۔
انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت
وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ حالاں کہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صفتیں ناقص طورپر موجود ہیں جو خدا کے اندر کامل طورپر موجود ہیں۔ اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بھی یقینی طورپر وجود ہے۔ ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا، ایک ایسا منطقی تضاد ہے جس کا تحمل کوئی بھی صاحبِ عقل نہیں کرسکتا۔
ڈیکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے۔ وہ 1596 میں پیدا ہوا اور 1650 میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے سامنے یہ سوال تھا کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے۔ لمبے غور وفکر کے بعد اس نے اس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیا— میںسوچتا ہوں ، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore I exist.
ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے۔ مگر یہ منطق، جس سے انسان کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات کو ثابت کررہی ہے، اور وہ ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت۔ اِس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ— سوچ کا وجود ہے، اِس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
Thinking exists, therefore God exists.
سوچ ایک مجرد (abstract) چیز ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اِسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انھیں ایک مجرد تصور معلوم ہوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابل فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادّی وجود نہ ہو۔ لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے۔ حالاں کہ سوچ مکمل طورپر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادّی وجود نہیں۔
اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اُس پر لازم آجاتا ہے کہ وہ دوسری قسم کی مجرد تصور کے وجود کو بھی تسلیم کرے۔ یہ بلاشبہہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلا اختلاف مانتا ہے۔ اگر سوچ کے وجود کا انکار کردیا جائے تو اس کے بعد یقینی طورپر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کرسکتا، اس لیے کسی بھی آدمی کے لیے منطقی طورپر یہ ممکن نہیںکہ وہ خدا کے وجود کا انکار کرے۔
خدا کا غیر مرئی (invisible)ہونا، اِس بات کے لیے کافی نہیں کہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلافِ زمانہ استدلال (anachronistic argument) ہے۔ اس لیے کہ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا اور علم کا دریا عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے۔ پہلے جو چیزیں مرئی (visible) سمجھی جاتی تھیں، اب وہ سب کی سب غیر مرئی ہوگئیں۔ ایسی حالت میں عدم رُویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے حسب ذیل دو کتابوں کا مطالعہ کافی ہے:
Unseen World, by Sir Arthur Eddington
Human Knowledge, by A. W. Bertrand Russel
خلائی مشاہدہ
موجودہ زمانے میں جو نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں، اُن میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو خلائی سفر کہاجاتا ہے۔ بہت سے لوگ راکٹ کے ذریعے خَلا میں گیے اور وہاں سے مخصوص دور بینوں کے ذریعے انھوں نے زمین کا مطالعہ کیا۔ اِن لوگوں نے اپنے خلائی مشاہدے کی بنیاد پر بہت سی نئی باتیں بتائی ہیں۔
اُن میں سے ایک بات یہ ہے کہ ایک خلا باز نے کہا کہ خلائی سفر کے دوران انھوںنے یہ تجربہ کیا کہ وسیع خلا میں کہیں بھی زمین جیسا کوئی کُرہ موجود نہیں۔ زمین پر لائف ہے اور اُسی کے ساتھ اعلیٰ پیمانے پر لائف سپورٹ سسٹم بھی۔ یہ دونوں چیزیں زمین پر انتہائی موزوں اور متناسب اندازمیں پائی جاتی ہیں۔
ایک خلاباز نے زمین کے بارے میں اپنا تاثر بتائے ہوتے کہا— صحیح قسم کا سامان صحیح جگہ پر:
Right type of material at the right place.
زمین کی یہ انوکھی صفت ہے کہ یہاں زندگی پائی جاتی ہے، یہاں چلتا پھرتا انسان موجود ہے، مگر اِس قسم کی زندگی کی موجودگی کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے لیے دوسرے اَن گنت اسباب درکار ہیں۔ اِن اسباب کے بغیر زندگی کا وجود اور بقا ممکن نہیں۔ زمین، اِس اعتبار سے وسیع کائنات میں ایک انوکھا استثنا ہے۔ یہاں استثنا ئی طورپر انسان موجود ہے اور اسی کے ساتھ یہاں اس کے وجود اور بقا کے لیے انتہائی متناسب انداز میں تمام سامانِ حیات موجود ہے۔
وسیع کائنات میں یہ بامعنیٰ استثنا بلا شبہہ ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت ہے، اور جہاں ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت موجود ہو، وہاں ایک صاحبِ ارادہ اور ایک صاحبِ تخلیق ہستی کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔
زمین ایک استثنا
ایک شخص اگر کائنات کا سفر کرے، وہ پوری کائنات کا مشاہدہ کرے تو وہ پائے گا کہ وسیع کائنات پوری طرح ایک غیر ذی روح (lifeless) کائنات ہے۔ اُس میں اتھاہ خلا ہے، دہشت ناک تاریکی ہے، اُس کے اندر پتھر کی چٹانیں ہیں، آگ کے بہت بڑے بڑے گولے ہیں اور یہ سب چیزیں دیوانہ وار مسلسل حرکت میں ہیں۔
اِس پُر ہیبت منظر سے گذر کر جب وہ سیارۂ زمین پر پہنچتا ہے تو یہاں اس کو ایک حیران کُن استثنا نظر آتا ہے۔ یہاں استثنائی طورپر پانی ہے، سبزہ ہے، حیوانات ہیں، زندگی ہے، عقل و فہم کے پیکر انسان ہیں، پھر یہاں حیرت ناک طورپر وہ موافقِ حیات چیز موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے۔ یہاںایک مکمل تہذیب (civilization) موجود ہے، جو وسیع کائنات میں کہیں بھی سرے سے موجود نہیں، یعنی بظاہر ایک انتہائی بے معنی کائنات میںایک انتہائی بامعنیٰ دنیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وسیع کائنات میں سیارۂ زمین ایک انتہائی نادر استثنا ہے۔ یہ استثنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک عظیم حقیقت کا مشاہداتی ثبوت ہے، اور وہ ہے قادرِ مطلق خدا کا ثبوت — استثنا مداخلت کو ثابت کرتا ہے اور مداخلت بلا شبہہ مداخلت کار کا ثبوت ہے، اور جب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اس کے بعد خدا کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
Exception proves intervention and intervention proves intervenor and when the existence of intervenor is proved, the existence of God is also proved.
سفرنگ کا مسئلہ
خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو پرابلم آف اِوِل(problem of evil) یا سفرنگ (suffering) کہاجاتا ہے۔ یہ اعتراض صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، وہ یہ کہ انسانی زندگی میں جو سفرنگ ہے، وہ تمام تر مین میڈ (man-made) ہے، مگر اس کو غلط طور پر گاڈ میڈ(God-made) سمجھ لیاگیا ہے۔ انسانی زندگی میںسفرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہاجاتا ہے، وہ اِسی غلط انتساب کا نتیجہ ہے۔
اِس غلط فہمی کااصل سبب یہ ہے کہ لوگ جب کسی انسان کی زندگی میں سفرنگ کے واقعہ کو دیکھتے ہیں تو وہ اُسی مبتلاانسان کے حوالے سے اُس کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ چوں کہ اکثر مثالوں میں خود اُسی مبتلا انسان کے اندر اس کی توجیہہ نہیں ملتی، اس لیے اس سفرنگ کو لے کر وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، یا اگر خدا ہے تو وہ ظالم اور غیر منصف خدا ہے، مگر یہ انتساب بجائے خود غلط ہے۔
انسان کی زندگی میں جوسفرنگ پیش آتی ہے، اس کا سبب کبھی انسان خود ہوتا ہے اور کبھی اس کے والدین ہوتے ہیں اور کبھی اس کا سبب وہ سماج ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہے اور کبھی وسیع تر معنوں میں اجتماعی نظام اُس کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ کبھی کوئی سفرنگ فوری سبب سے پیش آتی ہے اور کبھی اس کے اسباب پیچھے کئی پشتوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
غلط ریفرنس میں مطالعہ
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شبہے کا سبب، اصل صورتِ حال کا غلط ریفرنس میںمطالعہ ہے، یعنی جس ظاہرے کو انسان کی نسبت سے دیکھنا چاہیے، اُس کو خدا کی نسبت سے دیکھنا۔ حالاں کہ یہ سائنسی حقائق کے سرتا سر خلاف ہے۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانے میں ایڈز(AIDS) کا مسئلہ ایک خطرناک مسئلہ سمجھاجاتا ہے۔ مگر خود طبّی تحقیق کے مطابق، یہ انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ میڈیکل سائنس میں یہ مستقل نظریہ ہے کہ کئی بیماریاں اَجداد سے نسلی طورپر منتقل ہوتی ہیں۔ ایسی بیماریوں کو اجدادی بیماری(atavistic disease) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح مختلف قسم کی وبائیں پھیلتی ہیں جس میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، یا خرابی ٔ صحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ بھی خود طبی تحقیق کے مطابق، انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔
دہلی میں معروف شخصیت ڈاکٹر اَرُن شوری کے صاحب زادے مفلوج ہو کر وھیل چیئر پر رہتے ہے۔ اِس ’’سفرنگ‘‘ کا سبب بھی یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں امریکا کے ایک اسپتال میں اُن کو غلط انجکشن لگ گیا، اِس بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگیے۔ اِسی طرح تشدد اور جنگوں کے نتیجے میں بے شمار لوگ مرجاتے ہیں یاناکارہ ہوجاتے ہیں، یہ سب بھی انسانی کارروائیوں کی بنا پر ہوتاہے، وغیرہ۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانی سفرنگ کو نیچر سے منسوب کرنا، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے۔ سائنس کی تمام شاخوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نیچر مکمل طورپر خرابیوں سے پاک ہے۔ نیچر اِس حد تک محکم ہے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی طورپر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر نیچر کے اندر قابل پیشین گوئی کردار نہ ہو تو سائنس کی تمام سرگرمیاں اچانک ختم ہوجائیں گی۔
تقابلی مطالعہ
پرابلم آف اِوِل کے اِس معاملے کا علمی مطالعہ کرنے کا پہلا اصول وہ ہے جس کو تقابلی طورپر سمجھنا (in comparision that we understand) کہاجاتا ہے۔ تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ محدودطورپر صرف انسانی دنیا کا مسئلہ ہے، جب کہ انسان پوری کائنات کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹے جُز کی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (zero-defect world) ہے۔ کائنات میں بے شمار سرگرمیاں ہر آن جاری رہتی ہیں، لیکن اُس میں کہیں بھی کوئی خرابی(evil) دکھائی نہیں دیتی۔
انسانی دنیا میں بیماریاں ہیں، انسانی دنیا میں حادثات ہیں، انسانی دنیا میں ظلم ہے، انسانی دنیا میں کرپشن ہے، انسانی دنیا میںبے انصافی ہے، انسانی دنیا میں استحصال ہے، انسانی دنیا میں لڑائیاں ہیں، انسانی دنیا میں نفرت اور دشمنی ہے، انسانی دنیامیں سرکشی ہے، انسانی دنیا میں فسادات ہیں، انسانی دنیا میں جرائم ہیں، اِس قسم کی بہت سی برائیاں انسانی دنیامیں پائی جاتی ہیں، لیکن انسان کے سوا، بقیہ کائنات اِس قسم کی برائیوں سے مکمل طورپر خالی ہے۔ یہی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) خود انسان کا پیدا کردہ ہے، نہ کہ فطرت کا پیدا کردہ۔اگر یہ مسئلہ فطرت کا پیدا کردہ مسئلہ ہوتا تو وہ بلا شبہہ پوری کائنات میں پایا جاتا۔
سائنٹفک مطالعہ
اس معاملے کا سائنٹفک مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا اور بقیہ کائنات میں ایک واضح فرق ہے، وہ یہ کہ بقیہ کائنات حتمی قسم کے قوانینِ فطرت سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان آزاد ہے اور وہ خود اپنی آزادی سے اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ یہی فرق دراصل اُس چیز کا اصل سبب ہے، جس کو بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) کہاجاتا ہے۔
اِس معاملے کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کی تمام بُرائیاں، انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔ میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ بیماریوں کا سبب نیچر میں نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی اپنی غلطیوں میں ہے۔ یہ غلطیاں کبھی مبتلا شخص کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں، کبھی باپ دادا کی وراثت اس کا سبب ہوتی ہے، کبھی اجتماعی نظام کا کرپشن بیماریوں کے اسباب پیداکرتا ہے۔ یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ بیماری کو نیچر سے جوڑنا ملحد مفکرین کا نظریہ ہے، وہ کسی سائنٹفک دریافت پر مبنی نہیں۔اِسی طرح لڑائیاں، گلوبل وارمنگ، مختلف قسم کی کثافت، فضائی مسائل (ecological problems) وغیرہ، سب کے سب انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔
خدا کا تخلیقی پلان
خالق نے انسان کویہ آزادی (freedom) کیوں دی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خالق نے چاہا کہ وہ انسان کو ایک عظیم انعام دے۔ یہ عظیم انعام جنت ہے، جو ابدی خوشیوں کی جگہ ہے۔ جنت میں جگہ پانے کا حق دار صرف وہ شخص ہوگا جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے۔ جو آزاد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ڈسپلن اور کنٹرول میں رکھے۔جہاں آزادی ہوگی، وہاں آزادی کاغلط استعمال بھی ہوگا۔ لیکن آزادی اتنی زیادہ قیمتی چیز ہے کہ کسی بھی اندیشے کی بنا پر اس کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) کو جاننا ضروری ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ایسا خدا نے مصلحتِ امتحان کے لیے کیا ہے۔ انسانی زندگی میں سفرنگ کے جو واقعات ہوتے ہیں، وہ تمام تر اسی آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں، کبھی براہِ راست طورپر اور کبھی بالواسطہ طور پر، کبھی سفرنگ میں مبتلا شخص کے ذاتی عمل کی وجہ سے اور کبھی دوسرے انسانوں کے عمل کی وجہ سے، کبھی کسی فوری غلطی کے نتیجے کے طورپر اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسلوں کی غلطی کی بنا پراُس کا نتیجہ بعد کی نسلوں کے سامنے آتا ہے۔
کائناتی معنویت کی توجیہہ
خدا کے وجود کی بحث کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، کائنات کی معنویت (meaning) سے ہے۔ خدا کو ماننا، نہ صرف کائنات کے وجود کی توجیہہ ہے بلکہ خدا کا عقیدہ کائنات کو کامل طورپر بامعنیٰ بنا دیتا ہے۔ خدا کو نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ بامعنیٰ کائنات ایک بے معنیٰ انجام پر ختم ہوجائے۔ جب کہ خدا کو ماننا، یہ بتاتا ہے کہ کائنات آخر کار ایک بامعنیٰ انجام پر پہنچنے والی ہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر انصاف اور بے انصافی کاتصور پایا جاتا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر یہ چاہتا ہے کہ جو شخص انصاف کے اصولوں کے تحت زندگی گذارے، اُس کو انعام ملے۔ اور جو شخص ناانصافی کا طریقہ اختیار کرے، اس کو سزا دی جائے۔ اِس فطری تقاضے کی تکمیل صرف باخدا کائنات (universe with God) کے نظریے میں ملتی ہے، بے خدا کائنات (universe without God) کے نظریے میں اِس فطری تقاضے کا کوئی جواب نہیں۔
ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر خواہشوں کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ موجودہ دنیا میں اِن خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) ممکن نہیں۔ بے خدا کائنات کے نظریے میں انسان کے لیے یہ حسرت ناک انجام مقدر ہے کہ اس کی فطری خواہشیں کبھی پوری نہ ہوں۔ لیکن باخدا کائنات کے نظریے میں یہ امکان موجود ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں کی کامل تسکین، بعد از موت کے مرحلۂ حیات میں پالے۔
وقت کا شعور
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ٹائم کانشش مخلوق ہے۔ وہ اپنے وقت کو حال اور مستقبل میں بانٹ کردیکھتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر آدمی کو اپنی زندگی میں صرف حال (present) ملتا ہے۔ ہر آدمی اپنے مستقبل سے محروم ہوکر مایوسی کی حالت میں مر جاتا ہے۔ وہ اپنے حال میں بہتر مستقبل کے لیے عمل کرتا ہے، لیکن اس کی محدود عمر میں اس کا وہ بہتر مستقبل اس کو نہیں ملتا اور وہ مایوسی کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
ایک بار ہم نے انٹرنیٹ پر یہ سوال ڈالا کہ بڑے بڑے لوگوں میں وہ کون ہیں جو اپنی آخری عمر میں مایوسی کا شکار ہوئے اور ڈپریشن (depression) کی حالت میں مَرے۔ اِس کے جواب میں انٹرنیٹ نے جو فہرست دی، اس میں چار سو دو بڑے بڑے اشخاص کے نام موجود تھے۔ (کوئی شخص سرچ انجن پر جاکر اِس فہرست کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: Risk Factor: Depression )۔ کائنات کے باخدا نظریے میں انسان کے اِس فطری سوال کا جواب موجود ہے، لیکن کائنات کے بے خدا نظریے میں اِس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں۔
زَوجین کا اصول
کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز جوڑاجوڑا پیدا کی گئی ہے— منفی برقی ذرّے کا جوڑا مثبت برقی ذرہ، درخت کے پھولوں میں نر اور مادہ، حیوانات میں مذکّر اور مؤنث۔ انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔ یہ ایک کائناتی قانون ہے کہ یہاں ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کرتی ہے۔
اِس لحاظ سے انسانی زندگی کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے، یعنی موت سے پہلے کی نامکمل زندگی کے ساتھ موت کے بعد کی کامل زندگی۔ باخدا کائنات کے نظریے میں اُس کا یہ تکمیلی جوڑا موجود ہے، لیکن بے خدا کائنات کے نظریے میں اُس کایہ تکمیلی جوڑا موجود نہیں۔
آئڈیل ازم کی ناکامی
تمام فلاسفہ اور مفکرین موجودہ دنیا کو ابدی (eternal) سمجھتے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اِسی موجودہ عالم میں ہم کبھی نہ کبھی اپنی مطلوب دنیا بنا لیں گے۔ آئڈیل سوسائٹی، آئڈیل ریاست، آئڈیل نظام کے تصورات اِسی فکر کے تحت پیدا ہوئے۔ ایسے تمام مفکرین اِن تصورات سے اپنی آخری عمر تک مسحور رہے۔
لوگوں کے نزدیک تہذیب (civilization) اِسی انسانی خواب کی تعبیر تھی۔ موجودہ صنعتی ترقیوں کے بعد لوگوں نے یہ سمجھا کہ تہذیبی ارتقا آخر کار اُنھیں اِس منزل تک پہنچانے والا ہے، جب کہ اِسی موجودہ دنیا میں وہ اپنی جنت تعمیر کرلیں۔ لیکن یہ تصور مکمل طورپر باطل ثابت ہوا۔
دنیا کا خاتمہ
جدید سائنس کے بانی سرآئزاک نیوٹن (وفات: 1727 ) نے 1704 میں قوانینِ طبیعی کا مطالعہ کرکے بتایا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ (ٹائمس آف انڈیا، 18 جون 2007) ۔اب دنیا بھر کے تمام سائنس داں خالص مشاہدات کی بنیاد پر یہ بتارہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کا خاتمہ یقینی بن چکا ہے۔ تہذیب کا مزید ارتقا اب سرے سے یہاں ممکن ہی نہیں۔
الون ٹافلر(Alvin Toffler) کی کتاب ’فیوچر شاک‘ پہلی بار 1970میں چھپی۔ الون ٹافلر نے تبایا تھا کہ دنیا انڈسٹریل ایج سے نکل کر اب سپرانڈسٹریل ایج میں داخل ہورہی ہے۔ تہذیب کا اگلا دَور مکمل آٹومیشن (complete automation) کا دور ہوگا۔ پُش بٹن کلچر (push button culture) اِس حد تک ترقی کرے گا کہ ہر کام آٹومیٹک طورپر ہونے لگے گا۔ لیکن گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تکمیلِ تاریخ کے بجائے خاتمۂ تاریخ (end of history) کا پیغام لے کر سامنے آگیا۔
تاریخ انسانی کا یہ ظاہرہ بلا شبہہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ اِس سوال کی اطمینان بخش توجیہہ صرف با خدا کائنات کے نظریے میں موجود ہے۔ بے خدا کائنات کے نظریے کے تحت، اِس ظاہرے کی کوئی اطمینان بخش توجیہہ کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اِس طرح کی مثالیں واضح طورپر ثابت کرتی ہیں کہ بے خدا کائنات کے نظریے میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے، وہ یہ کہ اِس نظریے کو ماننے کی صورت میںایک انتہائی بامعنیٰ کائنات ایک انتہائی بے معنیٰ انجام پر ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف، با خدا کائنات کا نظریہ اِس نقص سے مکمل طور پر خالی ہے۔ باخدا کائنات کے نظریے کو ماننے کی صورت میںیہ ہوتا ہے کہ بامعنیٰ کائنات کا انجام ایک انتہائی بامعنیٰ مستقبل پر منتہی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ، باخدا کائنات کے نظریے کے حق میںایک ایسی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جو عقل اور منطق کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں
چارلس رابرٹ ڈاروِن (وفات: 1882) نظریۂ ارتقا کی نسبت سے بہت مشہور ہے۔ اِس سلسلے میں اُس نے دو کتابیں لکھیں۔ اِن دونوں انگریزی کتابوں کے نام یہ ہیں:
On the Origin of Species
The Descent of Man
’اوریجن آف اسپیشیز‘ کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آغازِ انواع کے موضوع پر ہے۔ مگر اصلاً اُس کا موضوع انواعِ حیات کی تعبیر ہے۔ اِس لحاظ سے غالباً اس کا زیادہ صحیح نام تعبیرِ انواع (Interpretation of Species) ہونا چاہیے۔
ڈارون کی کتاب کے چھپنے کے بعد مسیحی چرچ کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ چناں چہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ڈارون ازم خدا کے وجود کی نفی ہے، مگر یہ درست نہیں۔ ڈارون کی کتاب ’اوریجن آف اسپیشیز‘ میں ایک سے زیادہ بار خدا(God) کا نام آیا ہے۔ اُس نے اپنی یہ کتاب اِن الفاظ کے ساتھ ختم کی ہے کہ— خالق نے ابتدا میں زندگی کی ایک یا کئی شکلیں پیدا کیں اور پھر اُس سے بہت سی انواعِ حیات وجود میں آگئیں۔ تخلیق کا یہ تصور کتنا عظیم ہے:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one: and that, whilst this planet has gone cycling on according to the fixed law of gravity, from so simple a beginning endless forms most beautiful and most wonderful have been, and are being evolved.
ڈارون اپنی آخری عمر میں ناقابلِ تشخیص اَمراض کا شکار ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کتاب میںدی ہوئی متضاد تعبیرات(contradictory explanations) سے سخت غیر مطمئن تھا۔ اُس پر دوبار دِل کا دورہ پڑا اور اِسی میں اُس کا انتقال ہوگیا (B-5/496)
واپس اوپر جائیں
آدم پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں رکھا، اور کہا کہ تم دونوں یہاں رہو اور آزادانہ طورپر یہاں کے سامانِ راحت سے فائدہ اٹھاؤ۔ لیکن تم اِس شجرِ ممنوعہ کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالم ہوجاؤگے (البقرۃ:
مگر شیطان کے وسوسے سے متاثر ہو کر انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد آدم اور حوا دونوں جنت سے نکال کر موجودہ زمین میں ڈال دیے گیے۔اور آدم سے اور ان کی پوری نسل سے یہ کہہ دیاگیا کہ جو عمل کا ثبوت دے گا، وہی ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
زندگی کے آغاز کی یہ مثال بتاتی ہے کہ جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ جنت کسی کو پُر اسرار طورپر نہیں ملے گی اور نہ کسی کی سفارش کسی کو جنت کا مستحق بنائے گی۔ جنت کسی کو پیدائشی حق کے طور پر ملنے والی نہیں، یہاں تک کہ پیغمبر کو بھی نہیں:
Paradise is not a birth right, even for the Prophets.
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے ذریعے سارے انسانوں کے لیے یہ مثال قائم کردی اور بتا دیا کہ جنت کسی خود ساختہ عقیدے کے تحت کسی کو ملنے والی نہیں۔ یہ اصول اتنا عام ہے کہ اِس میں پیغمبروں تک کا کوئی استثنا نہیں ہے۔
حضرت آدم کے واقعے میںایک اور بے حد اہم بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ جنت کے حصول کا مدار سب سے پہلے جس چیز پر ہے، وہ ہے اپنی خواہشوں پر کنٹرول اور اپنی عقل کو اتنا زیادہ ترقی دینا کہ وہ شیطان کے وسوسوں سے بچ سکے۔ انسان کے اندر ابدی کامیابی کی خواہش بے پناہ طورپر موجود ہے۔ اِسی خواہش کے راستے سے شیطان نے آدم کے اوپر حملہ کیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ اِسی طرح انسان کے اندر بہت سی خواہشیں ہیں۔ ہر خواہش انسان کے اندر شیطان کے داخلے کا دروازہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے ہر دروازے پر چوکی دار بنا رہے، تاکہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر اُس کو خدا کی رحمت سے دور نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.