سائنس اور الہٰیات
پروفیسر پال ڈیویز(Paul Davies) مشہور امریکی رائٹر ہیں۔ وہ ایری زونا اسٹیٹ (Arizona State) یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر (Beyond) کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ایک کتاب کا نام گولڈی لاکس انِگما(Goldilocks Enigma) ہے۔ حال میں ان کا ایک مقالہ مجلّہ گارجین (Guardian Newspapers Limited 2007) میں چھپا ہے۔ اِس مقالے کو انگریزی اخبار ہندو(The Hindu) نے اپنے شمارہ 27 جون 2007 میں اِس عنوان کے تحت شائع کیا ہے— تخلیق پسندوں کے استدلال میں دراڑ:
Flaw in creationists' argument
مضمون نگارلکھتے ہیں کہ ’’سائنس داں دھیرے دھیرے ایک ناگوار سچائی (inconvenient truth) تک پہنچ رہے ہیں، وہ یہ کہ کائنات ایک نہایت محکم کائنات ہے۔ سائنس داں چالیس سال سے کائنات میں کام کرنے والے قوانینِ طبیعی کی تحقیق کررہے ہیں۔ یہ تحقیق، کائنات کے پیچھے ایک شعوری وجود (concious being) کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ کائنات کے قوانین میں سے کسی ایک کو بھی اگر بدلا جائے تواس کا نتیجہ نہایت مہلک ہوگا۔ کائنات اتنی زیادہ منظم ہے کہ اس کے موجودہ ڈھانچے میں معمولی تبدیلی بھی اس کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ساری کائنات ایٹم سے بنی ہے۔ اور ہر ایٹم نیوٹران اور پروٹان کامجموعہ ہے۔ نیوٹران کسی قدر وزنی ہوتا ہے اور پروٹان کسی قدر ہلکا۔ یہ تناسب بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا الٹا ہو، یعنی پروٹان بھاری ہو اور نیوٹران ہلکا، تو معلوم قوانین کے مطابق، ایٹم کا وجود ہی نہ رہے گا۔ جب نیوکلیس نہ ہوگا تو ایٹم بھی نہ ہوگا، اور جب ایٹم نہ ہوگا تو کیمسٹری بھی نہیں ہوگی۔ اور جب کیمسٹری نہیں ہوگی تو زندگی بھی نہیں ہوگی۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ سائنس ناقابلِ حل سوالات سے دوچار ہے۔ مثلاً طبیعیات کے موجودہ قوانین کہاں سے آئے، وہ اپنی موجودہ محکم حالت میں کیوں قائم ہیں، وغیرہ۔ روایتی طور پر سائنس داں یہ فرض کررہے تھے کہ یہ قوانین، کائنات کا لازمی حصہ ہیں۔ قوانینِ طبیعی کی حقیقت کی کھوج کرنا، سائنس کا موضوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سوالات سائنس دانوں کو پریشان کررہے ہیں۔
کیمبرج کے سائنس داں مارٹن ریس(Martin Rees) جو کہ ’رائل سوسائٹی‘ کے صدر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین، مطلق اور آفاقی نہیں ہیں، وہ ایک بڑے کائنات نظام کے متفرق حصے ہیں۔ ہر حصے کے اپنے ضوابط ہیں۔ وہ اِس نظام کو متعدّد کائناتی نظام (the multiverse system) کہتے ہیں۔ اِن تحقیقات کے مطابق، ہماری کائنات ایک ایسی کائنات ہے جو موافقِ حیات قوانین (bio-friendly laws) کی حامل ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات کو ہم اِس طرح پاتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاںانسان کا قیام ناممکن ہوجاتا۔ یہ محکم قوانین جو کائنات کو نہایت منظم طورپر کنٹرول کررہے ہیں، وہ کہاں سے آئے۔
تمام مشکلات کا سبب، جدید مفکرین کے نزدیک، یہ ہے کہ مذہب اور جدیدسائنس، دونوں کائنات کا جو تصور دے رہے ہیں، وہ کائنات کے علاوہ ایک ایسی ایجنسی کا تقاضا کرتے ہیں جو کائنات کے باہر سے کائنات کا نظم کررہی ہو۔ تاہم کائنات کی توجیہہ کے لیے ایک ایسے ڈزائنر کو ماننا جو کائنات سے پہلے موجود ہو، وہ اِس مسئلے کی کوئی توجیہہ نہیں۔ کیوںکہ یہ توجیہہ فوراً یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ڈزائنر نے اگر کائنات کو بنایا تو خود ڈزائنر کو کس نے بنایا:
Who designed the designer
اگر زندگی کی کوئی آخری معنویت(ultimate meaning) ہے، جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں، تو یہ جواب خود نیچر کے اندر ملنا چاہیے، نہ کہ اُس سے باہر۔ کائنات ایک محکم کائنات ہوسکتی ہے، لیکن اگر ایسا ہے تو کائنات نے خود ہی اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے‘‘۔
وضاحت
الہٰیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔ اِس کا ایک اندازہ پروفیسر پال ڈیویز کے مذکورہ مضمون سے ہوتا ہے۔ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگرمذہبی عقیدے کے مطابق، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا۔ مگر یہ سوال مکمل طورپر ایک غیر منطقی (illogical) سوال ہے۔ یہ منطق (logic) کی نفی ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اعتراض ایک کھُلی تضاد فکری پر قائم ہے۔ یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں، مگر خالق کو ماننے کے لیے وہ ایک خالقِ خالق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بھی بغیر خالق کے ممکن ہونا چاہیے۔
عقلی موقف
خدا کے وجود کے معاملے میں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ خالص عقلی نقطہ نظر سے ہم کیا موقف اختیار کرسکتے ہیںاور کیا نہیں۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ اِس معاملے میں سرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کائنات میں انتہائی معیاری حد تک نظم پایا جاتا ہے۔ نظم کا یہ معاملہ ہر آدمی کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مذکورہ مضمون نگار نے ایٹم کی ساخت کو لے کر اِسی معاملے کی ایک سائنسی مثال دی ہے۔ اِس لیے جہاں تک کائنات میں نظم کا سوال ہے، یہ ہر فریق کے نزدیک، ایک مسلّم حقیقت ہے۔
عقلی موقف کے اعتبار سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کا تصور ناظم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جہاں نظم ہے، وہاں یقینا اس کا ایک ناظم موجود ہے۔ ناظم کے بغیرنظم کا تصور عقلی اعتبار سے محال ہے۔ نظم کی موجودگی ایک مجبورانہ منطق (compulsive logic) پیدا کرتی ہے، یعنی کسی بھی عذر کے بغیر ناظم کی موجودگی کا اقرار کرنا۔ کسی کے ذہن میں ناظم کی موجودگی کی توجیہہ نہ ہونا، اُس کو یہ منطقی جواز نہیں دیتا کہ وہ ناظم کی موجودگی کا انکار کردے۔
ایٹم کے ڈھانچے کی مثال لے کر مضمون نگار نے جو بات کہی ہے، وہی اِس دنیا کی ہر چیز کے بارے میں درست ہے۔ اِس دنیا کا ہر جُز، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، وہ اِس قدر محکم اور متناسب ہے کہ اس کے ڈھانچے میں کوئی بھی تغیر سارے نظام عالم کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ہمارے سیارۂ زمین میں جو کشش (gravity) ہے، وہ آخری حد تک ہماری ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر زمین کی کشش نصف کے بقدر زیادہ ہوجائے، یا نصف کے بقدر کم ہوجائے تو دونوں حالتوں میں سیارۂ زمین پر انسانی تہذیب کا بقاناممکن ہوجائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلا میں ہمارے دو قریبی پڑوسی ہیں— سورج اور چاند۔ اگر ایسا ہو کہ سورج وہاں ہوجہاں آج چاند ہے، اور چاند وہاں ہو جہاں آج سورج ہے، تو زمین پر انسانی زندگی تو درکنار خود زمین جل کر ختم ہوجائے گی۔
ہماری زمین پر تمام چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ لیکن درخت کا معاملہ استثنائی طورپر یہ ہے کہ اس کی جڑیں تو زمین میں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس کا تنا اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ درخت میں یہ دو طرفہ خصوصیت نہ ہو تو اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرے بھرے درختوں کا خاتمہ ہوجائے گا، وغیرہ۔
ذہین کائنات
کائنات میںاَن گنت چیزیں ہیں، اور ہر چیز مرکّب(compound) کی صورت میں ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایٹم، کائنات کا ایک ایسا واحدہ ہے جو مفرد(single) ہے اور غیر مرکب حالت میں ہے۔ مگر آئن سٹائن کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیاتو معلوم ہوا کہ اٹیم بھی مرکب ہے، وہ کوئی مفرد چیز نہیں۔
دورِ جدید میں ہر چیز کا سائنسی مطالعہ کیا گیاہے۔ اِس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چیزیں جن اشیا سے ترکیب پاکر بنتی ہیں، ان کی ترکیب کے لیے ہمیشہ بہت سے آپشن (options) موجود ہوتے ہیں، مگر سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ نیچر ہمیشہ یہ کرتی ہے کہ بہت سے آپشن میں سے اُسی ایک آپشن کو لیتی ہے جو کائنات کی مجموعی اسکیم کے عین مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز بالکل پرفیکٹ نظر آتی ہے، اِس دنیا کی ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔
یہ اصول جو کائنات میں رائج ہے، اُس کو ایک لفظ میں ذہین انتخاب(intelligent selection) کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں بلین، ٹری لین سے بھی زیادہ چیزیں موجود ہیں، لیکن ہر چیز بلا استثنا، اِسی ذہین انتخاب کی مثال ہے۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ ایک سائنس داں ڈاکٹر فریڈ ہائل (Fred Hoyle) نے اِسی موضوع پر ایک کتاب تیار کر کے شائع کی ہے، اُس کا نام ہے— ذہین کائنات(The Intelligent Universe) ۔ یہ کتاب ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے اور 1983میں لندن سے چھپی ہے۔
کائنات کا یہ ظاہرہ (phenomenon) کوئی سادہ بات نہیں، وہ خدا کے وجود کا ایک حتمی ثبوت ہے۔ کائنات کی بناوٹ میں ذہانت (intelligence) کی موجودگی واضح طورپر ایک اور بات ثابت کرتی ہے۔ ذہین تخلیق (intelligent creation) واضح طورپر ذہین خالق (intelligent creator) کا ثبوت ہے۔ منطقی طورپر یہ ناقابلِ قیاس ہے کہ یہاں ذہین عمل موجود ہو، لیکن ذہین عامل یہاں موجود نہ ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بلاشبہہ لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ذہین عمل کو ماننے کے بعد ذہین عامل کو نہ ماننا، ایسا ہی ہے جیسے ایک پیچیدہ مشین کو ماننے کے بعد اُس کے انجینئر کو نہ ماننا۔ ڈاکٹر فریڈ ہائل نے اپنی کتاب میںدرست طورپر لکھا ہے کہ سائنس کے ابتدائی دور میں مسیحی چرچ نے سائنس دانوں کے خلاف جو متشددانہ کارروائی کی، وہ ابھی تک لوگوں کو یاد ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ یہ اعلان کردیں کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین خالق کے وجود کا ثبوت مل رہا ہے تو قدیم مذہبی تشدد(religious connotation) شاید دوبارہ واپس آجائے گا۔ مگر یہ ایک بے بنیاد خوف ہے۔ ذہین خالق کے سائنسی اعتراف کے بعد جوچیز تاریخ میںواپس آئے گی، وہ سچاخدائی مذہب ہے، نہ کہ مسیحی چرچ۔
دو انتخاب(options)
کائنات میں جو غیر معمولی نظم اور تناسب پایا جاتا ہے، اس کی توجیہہ کے لیے ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہیں۔ ایک، یہ کہ کائنات اپنی ناظم آپ ہے۔ مگر سائنس کی تمام تحقیقات اِس کی تردید کرتی ہیں۔ اِس لیے کہ سائنس نے کائنات میں جس نظم کو دریافت کیا ہے، وہ مکمل طور پر ایک ذہین نظم(intelligent design) ہے۔ دوسری طرف سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ خود کائنات کے اندر سب کچھ ہے، لیکن وہی چیز اس کے اندر موجود نہیں جس کو ذہانت (intelligence) کہاجاتا ہے۔ سائنس کی دریافت کردہ کائنات، بیک وقت کامل طورپر منظم (designed)ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل طورپر غیرذہین (non-intelligent)ہے۔ ایسی حالت میں کائنات کو اپنے نظم کا خود ناظم سمجھنا، ایسا ہی ہے جیسے پتھر کے اسٹیچو کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے اپنی بامعنیٰ ڈزائن خود تیار کی ہے۔ وہ ایک خود تخلیقی وجود (self-created being) ہے۔
اِس کے بعد ہمارے پاس کائنات کی توجیہہ کے لیے صرف ایک آپشن باقی رہتا ہے، اور وہ یہ کہ ہم ایک خارجی ایجنسی(outside agency) کو کائنات کے نظم کا سبب قرار دیں۔ اِس ایک انتخاب کے سوا، کوئی دوسرا انتخاب ہمارے لیے عملی طورپر ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے بے خدا کائنات اور با خدا کائنات کے درمیان انتخاب نہیں ہے، بلکہ با خدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) کے درمیان انتخاب ہے۔ یعنی ہم اگر خدا کا انکار کریں تو ہمیں کائنات کے وجود کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوںکہ ہم کائنات کے وجود کا انکار نہیں کرسکتے، اِس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کریں۔
واحد انتخاب
عقلی اصولوں میںسے یہ ایک اصول ہے کہ جب ایسی صورت حال ہو کہ عملی طور پر ہمارے لیے صرف ایک ہی انتخاب ممکن ہو تو اُس وقت ایک مجبور کن صورتِ حال (compulsive situation) پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اُس ایک انتخاب کو لے لیں۔ اِس کے خلاف کرنا، صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہاں ایک سے زیادہ انتخاب موجود ہوں۔ لیکن جب ایک کے سوا کوئی دوسرا انتخاب سرے سے موجود ہی نہ ہو تو اُس وقت لازم ہوجاتا ہے کہ ہم اِسی واحد انتخاب کو قبول کرلیں۔ زیرِ بحث مسئلے میں یہ واحدانتخاب خدا کے وجود کو بطور واقعہ تسلیم کرنا ہے، کیوں کہ یہاں اقرارِخدا کے سوا کوئی اور انتخاب ہمارے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔
منطقی استدلال
کسی بات کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے انسان کے پاس سب بڑی چیز منطق (logic) ہے۔ منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طورپر قابل فہم بنایا جاتا ہے۔ منطق کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک ہے، انتخابی منطق(optional logic) اور دوسری ہے، مجبورانہ منطق (compulsive logic) ۔منطق کے یہ دونوں ہی طریقے یکساں طورپر قابلِ اعتماد ذریعے ہیں۔ دونوں میں سے جس ذریعے سے بھی بات ثابت ہوجائے، اس کو ثابت شدہ مانا جائے گا۔
انتخابی منطق
انتخابی منطق وہ ہے جس میں آدمی کے لیے کئی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ہو۔ اِس قسم کے معاملے میںہمارے پاس ایسے ذریعے ہوتے ہیں جن کو منطبق کرکے ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ کئی میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چھوڑ دیں۔
مثلاً سورج کی روشنی کو لیجیے۔ آنکھ سے دیکھنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکھائی دیتی ہے، لیکن پِرزم (prism) سے دیکھنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ اِس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب (options) ہوگیے۔ اب ہمارے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیادہ ہو، ہم اس کو لیں۔ چناں چہ اِس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیاگیا۔ کیوں کہ وہ زیادہ قوی ذریعے سے ثابت ہورہا تھا۔
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب (option) ہوتاہے۔ آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اُس ایک انتخاب کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اس میںایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طورپر ماننا بھی ہے، اور ماننے کے لیے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں۔
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے۔ ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے۔ حالاں کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اِس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ ماں مانتا ہے۔ یہ ماننا، مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا وہ اِس لیے کرتا ہے کہ اِس معاملے میںاُس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے۔ اِسی لیے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کرلیتا ہے۔ کیوں کہ اِس کیس میں اُس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب (option) موجود نہیں۔
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اِسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے۔ خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں۔ کیوں کہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی۔ چوں کہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کرسکتے ، اِس لیے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کرسکتے۔
انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت
وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ حالاں کہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صفتیں ناقص طورپر موجود ہیں جو خدا کے اندر کامل طورپر موجود ہیں۔ اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بھی یقینی طورپر وجود ہے۔ ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا، ایک ایسا منطقی تضاد ہے جس کا تحمل کوئی بھی صاحبِ عقل نہیں کرسکتا۔
ڈیکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے۔ وہ 1596 میں پیدا ہوا اور 1650 میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے سامنے یہ سوال تھا کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے۔ لمبے غور وفکر کے بعد اس نے اس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیا— میںسوچتا ہوں ، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore I exist.
ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے۔ مگر یہ منطق، جس سے انسان کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات کو ثابت کررہی ہے، اور وہ ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت۔ اِس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ— سوچ کا وجود ہے، اِس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
Thinking exists, therefore God exists.
سوچ ایک مجرد (abstract) چیز ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اِسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انھیں ایک مجرد تصور معلوم ہوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابل فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادّی وجود نہ ہو۔ لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے۔ حالاں کہ سوچ مکمل طورپر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادّی وجود نہیں۔
اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اُس پر لازم آجاتا ہے کہ وہ دوسری قسم کی مجرد تصور کے وجود کو بھی تسلیم کرے۔ یہ بلاشبہہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلا اختلاف مانتا ہے۔ اگر سوچ کے وجود کا انکار کردیا جائے تو اس کے بعد یقینی طورپر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کرسکتا، اس لیے کسی بھی آدمی کے لیے منطقی طورپر یہ ممکن نہیںکہ وہ خدا کے وجود کا انکار کرے۔
خدا کا غیر مرئی (invisible)ہونا، اِس بات کے لیے کافی نہیں کہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلافِ زمانہ استدلال (anachronistic argument) ہے۔ اس لیے کہ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا اور علم کا دریا عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے۔ پہلے جو چیزیں مرئی (visible) سمجھی جاتی تھیں، اب وہ سب کی سب غیر مرئی ہوگئیں۔ ایسی حالت میں عدم رُویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے حسب ذیل دو کتابوں کا مطالعہ کافی ہے:
Unseen World, by Sir Arthur Eddington
Human Knowledge, by A. W. Bertrand Russel
خلائی مشاہدہ
موجودہ زمانے میں جو نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں، اُن میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو خلائی سفر کہاجاتا ہے۔ بہت سے لوگ راکٹ کے ذریعے خَلا میں گیے اور وہاں سے مخصوص دور بینوں کے ذریعے انھوں نے زمین کا مطالعہ کیا۔ اِن لوگوں نے اپنے خلائی مشاہدے کی بنیاد پر بہت سی نئی باتیں بتائی ہیں۔
اُن میں سے ایک بات یہ ہے کہ ایک خلا باز نے کہا کہ خلائی سفر کے دوران انھوںنے یہ تجربہ کیا کہ وسیع خلا میں کہیں بھی زمین جیسا کوئی کُرہ موجود نہیں۔ زمین پر لائف ہے اور اُسی کے ساتھ اعلیٰ پیمانے پر لائف سپورٹ سسٹم بھی۔ یہ دونوں چیزیں زمین پر انتہائی موزوں اور متناسب اندازمیں پائی جاتی ہیں۔
ایک خلاباز نے زمین کے بارے میں اپنا تاثر بتائے ہوتے کہا— صحیح قسم کا سامان صحیح جگہ پر:
Right type of material at the right place.
زمین کی یہ انوکھی صفت ہے کہ یہاں زندگی پائی جاتی ہے، یہاں چلتا پھرتا انسان موجود ہے، مگر اِس قسم کی زندگی کی موجودگی کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے لیے دوسرے اَن گنت اسباب درکار ہیں۔ اِن اسباب کے بغیر زندگی کا وجود اور بقا ممکن نہیں۔ زمین، اِس اعتبار سے وسیع کائنات میں ایک انوکھا استثنا ہے۔ یہاں استثنا ئی طورپر انسان موجود ہے اور اسی کے ساتھ یہاں اس کے وجود اور بقا کے لیے انتہائی متناسب انداز میں تمام سامانِ حیات موجود ہے۔
وسیع کائنات میں یہ بامعنیٰ استثنا بلا شبہہ ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت ہے، اور جہاں ارادی عمل اور منصوبہ بند تخلیق کا ثبوت موجود ہو، وہاں ایک صاحبِ ارادہ اور ایک صاحبِ تخلیق ہستی کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔
زمین ایک استثنا
ایک شخص اگر کائنات کا سفر کرے، وہ پوری کائنات کا مشاہدہ کرے تو وہ پائے گا کہ وسیع کائنات پوری طرح ایک غیر ذی روح (lifeless) کائنات ہے۔ اُس میں اتھاہ خلا ہے، دہشت ناک تاریکی ہے، اُس کے اندر پتھر کی چٹانیں ہیں، آگ کے بہت بڑے بڑے گولے ہیں اور یہ سب چیزیں دیوانہ وار مسلسل حرکت میں ہیں۔
اِس پُر ہیبت منظر سے گذر کر جب وہ سیارۂ زمین پر پہنچتا ہے تو یہاں اس کو ایک حیران کُن استثنا نظر آتا ہے۔ یہاں استثنائی طورپر پانی ہے، سبزہ ہے، حیوانات ہیں، زندگی ہے، عقل و فہم کے پیکر انسان ہیں، پھر یہاں حیرت ناک طورپر وہ موافقِ حیات چیز موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے۔ یہاںایک مکمل تہذیب (civilization) موجود ہے، جو وسیع کائنات میں کہیں بھی سرے سے موجود نہیں، یعنی بظاہر ایک انتہائی بے معنی کائنات میںایک انتہائی بامعنیٰ دنیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وسیع کائنات میں سیارۂ زمین ایک انتہائی نادر استثنا ہے۔ یہ استثنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک عظیم حقیقت کا مشاہداتی ثبوت ہے، اور وہ ہے قادرِ مطلق خدا کا ثبوت — استثنا مداخلت کو ثابت کرتا ہے اور مداخلت بلا شبہہ مداخلت کار کا ثبوت ہے، اور جب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اس کے بعد خدا کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
Exception proves intervention and intervention proves intervenor and when the existence of intervenor is proved, the existence of God is also proved.
سفرنگ کا مسئلہ
خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو پرابلم آف اِوِل(problem of evil) یا سفرنگ (suffering) کہاجاتا ہے۔ یہ اعتراض صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، وہ یہ کہ انسانی زندگی میں جو سفرنگ ہے، وہ تمام تر مین میڈ (man-made) ہے، مگر اس کو غلط طور پر گاڈ میڈ(God-made) سمجھ لیاگیا ہے۔ انسانی زندگی میںسفرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہاجاتا ہے، وہ اِسی غلط انتساب کا نتیجہ ہے۔
اِس غلط فہمی کااصل سبب یہ ہے کہ لوگ جب کسی انسان کی زندگی میں سفرنگ کے واقعہ کو دیکھتے ہیں تو وہ اُسی مبتلاانسان کے حوالے سے اُس کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ چوں کہ اکثر مثالوں میں خود اُسی مبتلا انسان کے اندر اس کی توجیہہ نہیں ملتی، اس لیے اس سفرنگ کو لے کر وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، یا اگر خدا ہے تو وہ ظالم اور غیر منصف خدا ہے، مگر یہ انتساب بجائے خود غلط ہے۔
انسان کی زندگی میں جوسفرنگ پیش آتی ہے، اس کا سبب کبھی انسان خود ہوتا ہے اور کبھی اس کے والدین ہوتے ہیں اور کبھی اس کا سبب وہ سماج ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہے اور کبھی وسیع تر معنوں میں اجتماعی نظام اُس کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ کبھی کوئی سفرنگ فوری سبب سے پیش آتی ہے اور کبھی اس کے اسباب پیچھے کئی پشتوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
غلط ریفرنس میں مطالعہ
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شبہے کا سبب، اصل صورتِ حال کا غلط ریفرنس میںمطالعہ ہے، یعنی جس ظاہرے کو انسان کی نسبت سے دیکھنا چاہیے، اُس کو خدا کی نسبت سے دیکھنا۔ حالاں کہ یہ سائنسی حقائق کے سرتا سر خلاف ہے۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانے میں ایڈز(AIDS) کا مسئلہ ایک خطرناک مسئلہ سمجھاجاتا ہے۔ مگر خود طبّی تحقیق کے مطابق، یہ انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ میڈیکل سائنس میں یہ مستقل نظریہ ہے کہ کئی بیماریاں اَجداد سے نسلی طورپر منتقل ہوتی ہیں۔ ایسی بیماریوں کو اجدادی بیماری(atavistic disease) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح مختلف قسم کی وبائیں پھیلتی ہیں جس میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، یا خرابی ٔ صحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ بھی خود طبی تحقیق کے مطابق، انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔
دہلی میں معروف شخصیت ڈاکٹر اَرُن شوری کے صاحب زادے مفلوج ہو کر وھیل چیئر پر رہتے ہے۔ اِس ’’سفرنگ‘‘ کا سبب بھی یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں امریکا کے ایک اسپتال میں اُن کو غلط انجکشن لگ گیا، اِس بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوگیے۔ اِسی طرح تشدد اور جنگوں کے نتیجے میں بے شمار لوگ مرجاتے ہیں یاناکارہ ہوجاتے ہیں، یہ سب بھی انسانی کارروائیوں کی بنا پر ہوتاہے، وغیرہ۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانی سفرنگ کو نیچر سے منسوب کرنا، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے۔ سائنس کی تمام شاخوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نیچر مکمل طورپر خرابیوں سے پاک ہے۔ نیچر اِس حد تک محکم ہے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی طورپر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر نیچر کے اندر قابل پیشین گوئی کردار نہ ہو تو سائنس کی تمام سرگرمیاں اچانک ختم ہوجائیں گی۔
تقابلی مطالعہ
پرابلم آف اِوِل کے اِس معاملے کا علمی مطالعہ کرنے کا پہلا اصول وہ ہے جس کو تقابلی طورپر سمجھنا (in comparision that we understand) کہاجاتا ہے۔ تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ محدودطورپر صرف انسانی دنیا کا مسئلہ ہے، جب کہ انسان پوری کائنات کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹے جُز کی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (zero-defect world) ہے۔ کائنات میں بے شمار سرگرمیاں ہر آن جاری رہتی ہیں، لیکن اُس میں کہیں بھی کوئی خرابی(evil) دکھائی نہیں دیتی۔
انسانی دنیا میں بیماریاں ہیں، انسانی دنیا میں حادثات ہیں، انسانی دنیا میں ظلم ہے، انسانی دنیا میں کرپشن ہے، انسانی دنیا میںبے انصافی ہے، انسانی دنیا میں استحصال ہے، انسانی دنیا میں لڑائیاں ہیں، انسانی دنیا میں نفرت اور دشمنی ہے، انسانی دنیامیں سرکشی ہے، انسانی دنیا میں فسادات ہیں، انسانی دنیا میں جرائم ہیں، اِس قسم کی بہت سی برائیاں انسانی دنیامیں پائی جاتی ہیں، لیکن انسان کے سوا، بقیہ کائنات اِس قسم کی برائیوں سے مکمل طورپر خالی ہے۔ یہی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) خود انسان کا پیدا کردہ ہے، نہ کہ فطرت کا پیدا کردہ۔اگر یہ مسئلہ فطرت کا پیدا کردہ مسئلہ ہوتا تو وہ بلا شبہہ پوری کائنات میں پایا جاتا۔
سائنٹفک مطالعہ
اس معاملے کا سائنٹفک مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا اور بقیہ کائنات میں ایک واضح فرق ہے، وہ یہ کہ بقیہ کائنات حتمی قسم کے قوانینِ فطرت سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان آزاد ہے اور وہ خود اپنی آزادی سے اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ یہی فرق دراصل اُس چیز کا اصل سبب ہے، جس کو بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) کہاجاتا ہے۔
اِس معاملے کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کی تمام بُرائیاں، انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔ میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ بیماریوں کا سبب نیچر میں نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی اپنی غلطیوں میں ہے۔ یہ غلطیاں کبھی مبتلا شخص کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں، کبھی باپ دادا کی وراثت اس کا سبب ہوتی ہے، کبھی اجتماعی نظام کا کرپشن بیماریوں کے اسباب پیداکرتا ہے۔ یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ بیماری کو نیچر سے جوڑنا ملحد مفکرین کا نظریہ ہے، وہ کسی سائنٹفک دریافت پر مبنی نہیں۔اِسی طرح لڑائیاں، گلوبل وارمنگ، مختلف قسم کی کثافت، فضائی مسائل (ecological problems) وغیرہ، سب کے سب انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔
خدا کا تخلیقی پلان
خالق نے انسان کویہ آزادی (freedom) کیوں دی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خالق نے چاہا کہ وہ انسان کو ایک عظیم انعام دے۔ یہ عظیم انعام جنت ہے، جو ابدی خوشیوں کی جگہ ہے۔ جنت میں جگہ پانے کا حق دار صرف وہ شخص ہوگا جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے۔ جو آزاد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ڈسپلن اور کنٹرول میں رکھے۔جہاں آزادی ہوگی، وہاں آزادی کاغلط استعمال بھی ہوگا۔ لیکن آزادی اتنی زیادہ قیمتی چیز ہے کہ کسی بھی اندیشے کی بنا پر اس کو ساقط نہیں کیا جاسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) کو جاننا ضروری ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ایسا خدا نے مصلحتِ امتحان کے لیے کیا ہے۔ انسانی زندگی میں سفرنگ کے جو واقعات ہوتے ہیں، وہ تمام تر اسی آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں، کبھی براہِ راست طورپر اور کبھی بالواسطہ طور پر، کبھی سفرنگ میں مبتلا شخص کے ذاتی عمل کی وجہ سے اور کبھی دوسرے انسانوں کے عمل کی وجہ سے، کبھی کسی فوری غلطی کے نتیجے کے طورپر اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسلوں کی غلطی کی بنا پراُس کا نتیجہ بعد کی نسلوں کے سامنے آتا ہے۔
کائناتی معنویت کی توجیہہ
خدا کے وجود کی بحث کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، کائنات کی معنویت (meaning) سے ہے۔ خدا کو ماننا، نہ صرف کائنات کے وجود کی توجیہہ ہے بلکہ خدا کا عقیدہ کائنات کو کامل طورپر بامعنیٰ بنا دیتا ہے۔ خدا کو نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ بامعنیٰ کائنات ایک بے معنیٰ انجام پر ختم ہوجائے۔ جب کہ خدا کو ماننا، یہ بتاتا ہے کہ کائنات آخر کار ایک بامعنیٰ انجام پر پہنچنے والی ہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر انصاف اور بے انصافی کاتصور پایا جاتا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر یہ چاہتا ہے کہ جو شخص انصاف کے اصولوں کے تحت زندگی گذارے، اُس کو انعام ملے۔ اور جو شخص ناانصافی کا طریقہ اختیار کرے، اس کو سزا دی جائے۔ اِس فطری تقاضے کی تکمیل صرف باخدا کائنات (universe with God) کے نظریے میں ملتی ہے، بے خدا کائنات (universe without God) کے نظریے میں اِس فطری تقاضے کا کوئی جواب نہیں۔
ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر خواہشوں کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ موجودہ دنیا میں اِن خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) ممکن نہیں۔ بے خدا کائنات کے نظریے میں انسان کے لیے یہ حسرت ناک انجام مقدر ہے کہ اس کی فطری خواہشیں کبھی پوری نہ ہوں۔ لیکن باخدا کائنات کے نظریے میں یہ امکان موجود ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں کی کامل تسکین، بعد از موت کے مرحلۂ حیات میں پالے۔
وقت کا شعور
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ٹائم کانشش مخلوق ہے۔ وہ اپنے وقت کو حال اور مستقبل میں بانٹ کردیکھتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر آدمی کو اپنی زندگی میں صرف حال (present) ملتا ہے۔ ہر آدمی اپنے مستقبل سے محروم ہوکر مایوسی کی حالت میں مر جاتا ہے۔ وہ اپنے حال میں بہتر مستقبل کے لیے عمل کرتا ہے، لیکن اس کی محدود عمر میں اس کا وہ بہتر مستقبل اس کو نہیں ملتا اور وہ مایوسی کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
ایک بار ہم نے انٹرنیٹ پر یہ سوال ڈالا کہ بڑے بڑے لوگوں میں وہ کون ہیں جو اپنی آخری عمر میں مایوسی کا شکار ہوئے اور ڈپریشن (depression) کی حالت میں مَرے۔ اِس کے جواب میں انٹرنیٹ نے جو فہرست دی، اس میں چار سو دو بڑے بڑے اشخاص کے نام موجود تھے۔ (کوئی شخص سرچ انجن پر جاکر اِس فہرست کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: Risk Factor: Depression )۔ کائنات کے باخدا نظریے میں انسان کے اِس فطری سوال کا جواب موجود ہے، لیکن کائنات کے بے خدا نظریے میں اِس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں۔
زَوجین کا اصول
کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز جوڑاجوڑا پیدا کی گئی ہے— منفی برقی ذرّے کا جوڑا مثبت برقی ذرہ، درخت کے پھولوں میں نر اور مادہ، حیوانات میں مذکّر اور مؤنث۔ انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔ یہ ایک کائناتی قانون ہے کہ یہاں ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کرتی ہے۔
اِس لحاظ سے انسانی زندگی کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے، یعنی موت سے پہلے کی نامکمل زندگی کے ساتھ موت کے بعد کی کامل زندگی۔ باخدا کائنات کے نظریے میں اُس کا یہ تکمیلی جوڑا موجود ہے، لیکن بے خدا کائنات کے نظریے میں اُس کایہ تکمیلی جوڑا موجود نہیں۔
آئڈیل ازم کی ناکامی
تمام فلاسفہ اور مفکرین موجودہ دنیا کو ابدی (eternal) سمجھتے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اِسی موجودہ عالم میں ہم کبھی نہ کبھی اپنی مطلوب دنیا بنا لیں گے۔ آئڈیل سوسائٹی، آئڈیل ریاست، آئڈیل نظام کے تصورات اِسی فکر کے تحت پیدا ہوئے۔ ایسے تمام مفکرین اِن تصورات سے اپنی آخری عمر تک مسحور رہے۔
لوگوں کے نزدیک تہذیب (civilization) اِسی انسانی خواب کی تعبیر تھی۔ موجودہ صنعتی ترقیوں کے بعد لوگوں نے یہ سمجھا کہ تہذیبی ارتقا آخر کار اُنھیں اِس منزل تک پہنچانے والا ہے، جب کہ اِسی موجودہ دنیا میں وہ اپنی جنت تعمیر کرلیں۔ لیکن یہ تصور مکمل طورپر باطل ثابت ہوا۔
دنیا کا خاتمہ
جدید سائنس کے بانی سرآئزاک نیوٹن (وفات: 1727 ) نے 1704 میں قوانینِ طبیعی کا مطالعہ کرکے بتایا تھا کہ موجودہ دنیا 2060 میں ختم ہوجائے گی۔ (ٹائمس آف انڈیا، 18 جون 2007) ۔اب دنیا بھر کے تمام سائنس داں خالص مشاہدات کی بنیاد پر یہ بتارہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کا خاتمہ یقینی بن چکا ہے۔ تہذیب کا مزید ارتقا اب سرے سے یہاں ممکن ہی نہیں۔
الون ٹافلر(Alvin Toffler) کی کتاب ’فیوچر شاک‘ پہلی بار 1970میں چھپی۔ الون ٹافلر نے تبایا تھا کہ دنیا انڈسٹریل ایج سے نکل کر اب سپرانڈسٹریل ایج میں داخل ہورہی ہے۔ تہذیب کا اگلا دَور مکمل آٹومیشن (complete automation) کا دور ہوگا۔ پُش بٹن کلچر (push button culture) اِس حد تک ترقی کرے گا کہ ہر کام آٹومیٹک طورپر ہونے لگے گا۔ لیکن گلوبل وارمنگ کا مسئلہ تکمیلِ تاریخ کے بجائے خاتمۂ تاریخ (end of history) کا پیغام لے کر سامنے آگیا۔
تاریخ انسانی کا یہ ظاہرہ بلا شبہہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ اِس سوال کی اطمینان بخش توجیہہ صرف با خدا کائنات کے نظریے میں موجود ہے۔ بے خدا کائنات کے نظریے کے تحت، اِس ظاہرے کی کوئی اطمینان بخش توجیہہ کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اِس طرح کی مثالیں واضح طورپر ثابت کرتی ہیں کہ بے خدا کائنات کے نظریے میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے، وہ یہ کہ اِس نظریے کو ماننے کی صورت میںایک انتہائی بامعنیٰ کائنات ایک انتہائی بے معنیٰ انجام پر ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف، با خدا کائنات کا نظریہ اِس نقص سے مکمل طور پر خالی ہے۔ باخدا کائنات کے نظریے کو ماننے کی صورت میںیہ ہوتا ہے کہ بامعنیٰ کائنات کا انجام ایک انتہائی بامعنیٰ مستقبل پر منتہی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ، باخدا کائنات کے نظریے کے حق میںایک ایسی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جو عقل اور منطق کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں