قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک فلاح یاب انسانوں کی جو درجہ بندی ہے، اُس میں بنیادی طورپر تین گروہ شامل ہیں— رسول، اصحابِ رسول، اخوانِ رسول۔ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے وحیِ خداوندی کی سطح پر سچائی کو جانا ۔ اصحابِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت (companionship) سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ اخوانِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو بعد کے زمانے میں ارتقا یافتہ شعور کے ذریعے، رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے کو اس طرح دریافت کریں کہ وہ دوبارہ عملاً پیغمبر کی زندہ صحبت (living companionship) کا تجربہ کرسکیں۔
رسول، عام انسانوں میں سے کوئی منتخب انسان ہوتا ہے۔ اُس پر خدا کی طرف سے فرشتے کے ذریعے سچائی کا علم اترتا ہے۔ اسلامی تصور کے مطابق، آدم پہلے پیغمبر تھے۔ آدم سے لے کر مسیح ابنِ مریم تک، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ اِن پیغمبروں نے یکساں درجے میں خدائی سچائی کا اعلان کیا۔ لیکن انھیں اپنے زمانے میں ساتھیوں کی کوئی بڑی جماعت نہ مل سکی۔ چناں چہ یہ پیغمبر مذہبی عقیدے کا حصہ تو بنے، لیکن وہ مذہبی تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔
سلسلۂ نبوت کے آخری فرد محمد بن عبد اللہ تھے۔ وہ 570 ء میں عرب میں پیدا ہوئے۔ 610ء میں ان کو پیغمبری ملی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اگر نفسیات کی زبان میں بیان کریں تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آپ ایک اسپریچول جینیس(spiritual genius) تھے۔ رسول کا کام دراصل یہی ہوتا ہے کہ وہ مادّی انسان کو روحانی انسان بنائے۔ رسول اس لیے آتا ہے تاکہ وہ انسان کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرے۔ خدا کا کریشن پلان یہی ہے کہ انسان اپنا تزکیہ کرکے اپنے آپ کو اسپریچول انسان بنائے۔ اور اِس طرح اپنے آپ کو جنت میں داخلے کا مستحق ثابت کرے۔
اسپریچولٹی کے لیے قرآنی لفظ ربّانیت (آلِ عمران:
اسپریچول انسان بننا، امکانی طورپر ہر عورت اور مرد کے لیے ممکن ہے۔ لیکن اسپریچول انسان بننے کے لیے بے پناہ قربانی دینی ہوتی ہے۔ ہر شخص یہ قربانی نہیں دے سکتا۔اس لیے ہرشخص حقیقی معنوں میںاسپریچول انسان بھی نہیں بن سکتا۔اس لیے خدا نے اِس مقصد کے لیے یہ نظام بنایا کہ وہ بعض افراد کو اپنی خصوصی نصرت کے ذریعے ایسے حالات فراہم کرتا ہے کہ وہ اسپریچول جائنٹ (spiritual giant) بن سکے۔ عام انسانوں کا کام یہ ہے کہ وہ اِس اسپریچول جائنٹ کو پہچانیں اور اپنے آپ کو اُس کی غیر مشروط رہنمائی میں دے کر اعلی اسپریچویلٹی کا درجہ حاصل کریں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعتبار سے گویا اِسی قسم کے ایک اسپریچول جائنٹ تھے۔ آپ کے ہم عصر لوگوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ایسے افراد نکلے جنھوں نے اِس غیر معمولی معرفت کاثبوت دیا کہ انھوں نے پیغمبر کو خالص جوہر(merit) کی سطح پر پہچانا۔ انھوں نے پیغمبر کو اُس کے ابتدائی دورمیں اُس وقت دریافت کیا جب کہ ابھی وہ پُر عظمت تاریخ کا مینار نہیں بنا تھا۔ یہ بلا شبہہ کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ یہ حال کے اندر مستقبل کو دیکھنا ہے۔ پیغمبر کے ہم عصر اہلِ ایمان نے اِس مشکل ترین صفت کا ثبوت دیا، اس لیے وہ اصحابِ رسول کے ابدی مقام پر سرفراز کیے گیے۔
یہ اصحابِ رسول کس طرح اصحابِ رسول بنے۔ اِس پراسس کا نقطۂ آغاز یہ تھا کہ انھوں نے نظریاتی سطح پر خدائی سچائی کو دریافت کیا جس کو ایمان کہا جاتا ہے۔ ایمان کے بعد انھوں نے اپنی عملی زندگی میں اُس نقشے کو اختیار کرلیا جس کی تعلیم انھیں خدا کے رسول کے ذریعے ملی تھی۔ ایسا کرکے وہ گویا اصحابِ رسول کے گروہ میں شامل ہوگیے۔
لیکن اعلیٰ اسپریچول شخصیت کی تعمیر کے لیے صرف اتنا کافی نہیں۔ اعلی اسپریچول شخصیت کی تعمیر اُس عمل کے ذریعے ہوتی ہے جس کو قرآن میں توسُّم (الحجر:
Spirituality is the ability to convert daily events into spiritual experiences.
جن معاصر اہلِ ایمان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی، وہ تاریخ کی اعلیٰ ترین اسپریچول شخصیتیں تھیں۔ یہ شخصیتیں کسی پُر اسرار نسبت کے ذریعے نہیں بنیں۔ وہ معلوم فطری قانون کے ذریعے بنیں۔ وہ فطری قانون خاص طورپر یہ تھا کہ پیغمبر نے ایک اسپریچول جائنٹ کی حیثیت سے تزکیہ کے عمل میں اُن کی مسلسل رہنمائی کی۔ یہ رہنمائی خاص طورپر توسم کے ذریعے ہوئی۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ روزمرزہ کے واقعات اور مشاہدات میںایسے پہلوؤں کی نشان دہی فرماتے تھے کہ یہ واقعات اور مشاہدات اہلِ ایمان کے لیے روحانی خوراک بن جائیں۔ خدا پر زندہ عقیدے کے بعد یہی توسم اصحابِ رسو ل کی روحانی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
قرآن میں اِس عمل کو ذکرِ کثیر (الاحزاب :
اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے معاصر اہلِ ایمان کی روحانی تربیت کے لیے آپ کا طریقہ کیا تھا۔ وہ طریقہ توسم پر مبنی ہوتا تھا، یعنی آس پاس کے واقعات اور مشاہدات کو تربیتی غذا میں کنورٹ کرنا۔ اور اِس طرح لوگوں کو اِس قابل بنانا کہ وہ توسم کے ذریعے اپنی مسلسل روحانی تربیت کرتے رہیں۔
اِس تربیتی اسلوب کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ایک آیت کا مطالعہ کیجیے: فإذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الأرض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون (الجمعہ:10 )یعنی اور جب نماز ختم ہوجائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور خدا کا رزق تلاش کرو اور اللہ کوبہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔اِس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین میں پھیل کر ہر جگہ خفی یا جلی انداز میں اللہ، اللہ، کرتے رہو، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم زمین میں پھیل جاؤ اور اس طرح غور وفکر کے ساتھ رہو کہ فطرت کے مشاہدات اور زندگی کے واقعات تمھارے لیے ربّانی تجربہ یا قرآنی الفاظ میں رزقِ رب بنتے رہیں— احادیث کا بیش تر ذخیرہ گویا اِسی قسم کے توسم کی مثال ہے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، اسپریچول تربیت کے لیے ایک اسپریچول جائنٹ کی صحبت ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے معاصر اہلِ ایمان کو یہ صحبت تو فطری طور پر مل گئی تھی۔ اب بعد کے لوگوں کے لیے اِس تربیتی کورس کے حصول کا ذریعہ کیا ہوگا۔ یہ بلا شبہہ ایک اہم سوال ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا یکساں طور پر سارے انسانوں کا رب ہے۔ وہ ایک زمانے کے انسان اور دوسرے زمانے کے انسان کے درمیان یہ فرق نہیںکرسکتا کہ وہ ایک زمانے کے لوگوں کو اعلیٰ روحانی تربیت کے مواقع دے، لیکن دوسرے زمانے کے لوگوں کو اِس سے محروم کردے۔
بلکہ اس کے برعکس، حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے خداایسے اسباب پیدا کرے گا کہ اگروہ چاہیں تو اِس معاملے میں اور بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بات اُس حدیث سے ثابت ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: عبادٌ لیسوا بأنبیاء ولا شہداء یغبطہم النبیون والشہداء لمقعدہم وقربہم من اللہ یوم القیامۃ (مسند احمد، جلد 5، صفحہ
جیسا کہ معلوم ہے، احادیث رسول کا تقریباً پورا ذخیرہ کتابوں کی صورت میں آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ احادیثِ رسول، یا اقوالِ رسول وہی ہیں جن کو آپ کے معاصر اہلِ ایمان نے سُنا اور اُن سے ان کو وہ اعلیٰ روحانی غذا ملی جس نے انھیں اصحابِ رسول کا درجہ دے دیا۔ اب جو چیز غیرموجود ہے، وہ کلام نہیںہے بلکہ صرف متکلم ہے۔ اس کمی کی تلافی خدا کی اِس دنیا میں ناممکن نہیں بلکہ وہ پوری طرح ممکن ہے، بشرطیکہ اِس معاملے کو کامل سنجیدگی کے ساتھ پوری طرح سمجھا جائے۔
ایک محدّث نے بجا طور پر کہا ہے کہ : مَنْ کان فی بیتہ مجموعۃ من الأحادیث، فکأنما فی بیتہ النبیّ یتکلم (جس آدمی کے گھر میںاحادیث کا ایک مجموعہ ہو، اُس کے گھر میں گویا کہ خود پیغمبر کلام کرتا ہوا موجود ہے) یہ بات کسی استعارے کے بغیر درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احیائِ شخصیت بھی اُسی طرح ممکن ہے جس طرح احیاء سنت کو ممکن سمجھا جاتا ہے۔ اِس احیائِ شخصیت کے لیے تین ضروری شرطیں ہیں:
1۔ اِس کی پہلی شرط سنجیدگی ہے۔ لوگوںکو اِس معاملے میں اتنا زیادہ سنجیدہ ہونا چاہیے کہ وہ سچے متلاشی (seeker)بن جائیں۔ وہ ہر قسم کے تعصّبات سے اوپر اٹھ کر چیزوں کو لے سکیں۔ ہمارے اور پیغمبر کے دوران جو دوری ہے، وہ حقیقتاً فاصلے کی دوری نہیں ہے بلکہ مزاج کی دوری ہے۔ اگر آج کے لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں رسول اور اصحاب رسول والا مزاج پیدا ہوجائے تو یہ دوری عملاً غائب ہوجائے گی۔ مزاجی مناسبت ماضی اور حال کے درمیان کا فاصلہ ختم کردے گی۔ آج کا انسان بھی اُسی طرح خدا کے رسول سے جُڑ جائے گا جس طرح معاصر اہلِ ایمان اُن سے جُڑے ہوئے تھے۔
نفسیاتی طورپر یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قربت کا تعلق حقیقتاً بعد ِمکانی یا قربِ مکانی سے نہیں ہے بلکہ خود اپنے مزاج سے ہے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں جو لوگ تھے اُن میں سے بھی صرف انھیں لوگوں کو آپ کی حقیقی قربت ملی جو مزاجی اعتبار سے آپ سے قریب تھے۔ جو لوگ اپنے مزاجی اعتبار سے دور تھے، انھیں پیغمبر کا ہم عصر ہونے کے باوجود قربت کی سعادت حاصل نہیں ہوئی۔
2 - اِس سلسلے میں دوسری چیز یہ ہے کہ خدا کے منصوبے کو سمجھا جائے۔ خدا اپنے منصوبے کے تحت، ہر دور میںایک اسپریچول جائنٹ پیدا کرنا ہے۔ پچھلے زمانوں میں اسپریچول جائنٹ کا یہ درجہ پیغمبروں کو حاصل ہوتا تھا۔ بعد کے زمانے میں خدا ایسا مجدد پیدا کرتا ہے جو اپنی معرفت کے اعتبار سے اسپریچول جائنٹ کا مقام رکھتا ہے۔ ایسا انسان دوسروں کے لیے گویا پیغمبر کی غیر موجودگی کی تلافی ہوتا ہے۔ البتہ یہ تلافی صرف اُن لوگوں کے حصے میں آئے گی جو اُس کو پہچانیں اور پہچان کر اس سے استفادہ کریں۔
3 - بعد کے زمانے میں اِس مقصد کے لیے جو کام کرنا ہے، وہ خاص طورپر یہ ہے کہ اقوالِ رسول کا مطالعہ دوبارہ صحبتِ رسول کے حوالے سے کیا جائے۔ یہ گویا پیغمبر کی تاریخ کو ری پراسس (re-process) کرنا ہے۔ یہ گویا کہ صحبتِ رسول کا احیا کرنا ہے۔ یہ گویا کہ دوبارہ اپنے آپ کو صحبتِ رسول میں لے جانا ہے۔ دوسرے لفظوں میںاِس کو صحبتِ رسول کی توسیع کہہ سکتے ہیں۔ اِس سے کم تر درجے کا کوئی کام اعلیٰ اسپریچول شخصیت پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
اِس معاملے میں یہ کرنا ہوگا کہ حدیث کے مطالعے کے سلسلے میں بھی وہی طریقہ اختیار کریں جو قرآن کے مطالعے کے سلسلے میں کیاجاتا ہے۔ قرآن کے مطالعے کا طریقہ، عام طور پر، یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں کو اُس کے شانِ نزول یا اسبابِ نزول کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔ اِسی طرح احادیثِ رسول کا بھی شانِ نزول ہے۔ یہ شانِ نزول کبھی قولِ رسول کے ساتھ اشارۃً یا تفصیلاً موجود رہتا ہے اور کبھی موجود نہیں رہتا۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ گہرے مطالعے کے ذریعے حدیثوں کے ساتھ اُس کے شانِ نزول کو شامل کریں۔ اِس طرح ہم اُس صورتِ حال کو جان لیں گے جس صورتِ حال میں پیغمبر اسلام نے کوئی بات کہی۔ حدیثوں کا اِس طرح مطالعہ گویا کہ حدیثِ رسول کے ساتھ صحبتِ رسول کااضافہ کرنا ہے۔ یہ ایک اعتبار سے اعادۂ تاریخ ہے۔ حدیث کے مطالعے کا یہ اسلوب ایک انقلابی اسلوب ہے جو مطالعہ حدیث کو صحبتِ رسول کے ہم معنیٰ بنا دینے والا ہے۔ اِس معاملے کو چند مثالوں کے ذریعے سمجھیں۔
پیغمبر اسلام کے صحابی ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ : ولقد ترکنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومایتقلّب طائرجناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علماً (مسند احمد، جلد 5، صفحہ
اِس مثال میں قولِ رسول کے ساتھ اِس کا پس منظر بھی موجود ہے۔ اِس پر غور کرکے ہم بآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانے میں اِس طرح کے واقعات پیش آئے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ چل رہے تھے۔ اِس دوران آپ نے دیکھا کہ ایک چڑیا فضا میں اڑتی ہوئی جارہی ہے۔ آپ نے اپنے اصحاب کو فطرت کے اِس ظاہرے کی طرف متوجہ فرمایا۔ غالباً آپ نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہوگا کہ اِس کو دیکھو اور قرآن کی اِس آیت پر غور کرو:أولم یروا إلی الطیر فوقہم صٰفّٰتٍ ویقبضن، ما یمسکہنّ إلا الرحمن، إنہ بکل شیئٍ بصیر (الملک: 19) یعنی کیا وہ پرندوں کو اپنے اوپر نہیں دیکھتے، پَر پھیلائے ہوئے، اور وہ ان کو سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو اُن کو تھامے ہوئے ہو۔ بے شک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ چڑیا فطرت کا ایک انوکھا ظاہرہ ہے۔ اُس پر غور کرتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چڑیاں کی ساخت کو مخصوص طورپر اِس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ فضا میں اُڑ سکے۔اِسی چڑیا کی نقل کرکے موجودہ زمانے میں ہوائی جہاز بنائے گیے ہیں۔ مچھلی کا جسم پانی کے اعتبار سے بنایا گیا ہے اور چڑیا کی ساخت فضا کے اعتبار سے اور چوپائے کی ساخت سطحِ زمین کے اعتبار سے، وغیرہ۔یہ مختلف ڈزائین اس بات کا ثبوت ہے کہ کائنات اتفاقی طور پر وجود میں نہیں آئی بلکہ وہ ایک ذہین منصوبہ بندی (intelligent planning) کا نتیجہ ہے۔
کچھ اور حدیثیں ہیں جن میں قول تو موجود ہوتا ہے لیکن اس کا پس منظر موجود نہیںہوتا۔ اِس قسم کے اقوال یہ بتاتے ہیں کہ آپ نے ایک منظر کو دیکھا اور پھر آپ نے اُس کو سبق میں کنورٹ کرکے ایک نصیحت کی بات کہی۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ اس قول کوری کنورٹ کرکے دوبارہ ابتدائی مشاہدے سے جوڑ کر دیکھیں۔ جب ہم ایسا کریں گے تو گویا ہم نے اُس لمحے کو زندہ کیا جب کہ پیغمبر بنفسہٖ موجود تھے، اور اپنے ساتھیوں کو بتارہے تھے کہ کس طرح وہ فطرت کے مشاہدات کو روحانی تجربات میں کنورٹ کرکے اپنے تزکیے کا سامان کرسکتے ہیں۔
مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ: مثل المؤمن کمثل خامۃ الزرع۔ یہاں ہم کامن سنس سے یہ اضافہ کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ چل رہے تھے کہ راستے میں ایک نرم پودا دکھائی دیا۔ وہ ہوا کے جھونکے کے مقابلے میں اکڑتا نہیں تھا بلکہ جھک جاتا تھا۔ اس کو دیکھ کر آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ مومن بھی اسی طرح ایک نرم مزاج والا انسان ہوتا ہے۔ اُس کے اندر ٹکراؤ کا مزاج نہیں ہوتا بلکہ ایڈجسٹمنٹ کا مزاج ہوتا ہے۔
اِس مزاج کا فائدہ مومن کو یہ ملتا ہے کہ غیر متعلق چیزوں میںالجھ کر وہ اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کو بلا روک جاری رکھتا ہے۔ اس کے وقت اور اس کی طاقت کا کوئی بھی لمحہ کسی غیر متعلق کام میں ضائع نہیں ہوتا— اِس طرح اقوالِ رسول میں اپنے کامن سنس سے اُس کے ماحول کا تصور کرکے ہم اپنے آپ کو گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں پہنچا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ ہوگا کہ جو چیز اصحابِ رسول کو واقعاتی طورپر حاصل تھی، وہ ہم کو تصوراتی طورپر حاصل ہوجائے گی۔ اِس پہلو سے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ: مَنْ کان فی بیتہ مجموعۃ من الاحادیث کأنما ہو فی صحبۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (جس کے گھر میںاحادیث رسول کا کوئی مجموعہ موجود ہو، وہ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جی رہا ہے)۔
واپس اوپر جائیں
حلال اور حرام کا تصور کوئی پُر اسرار تصور نہیں۔ وہ فطرت کے قانون (law of nature) کا مذہبی نام ہے۔ حلال اور حرام کا مطلب اُن ابدی اصولوں کواپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے جو نظام فطرت کے تحت آدمی کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے انسان کو استثنائی طورپر ایک عظیم نعمت دی ہے۔ یہ عظیم نعمت وہی ہے جس کو دماغ کہاجاتا ہے۔ انسان کے دماغ میں لا محدود صلاحیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر فردکے دماغ میںایک سو ملین، بلین، بلین پارٹکل ہیں۔ یہ سارے پارٹکل انفارمیشن پارٹکل ہیں۔ لیکن ابتدائی طور پر یہ تمام پارٹکل خوابیدہ حالت میں ہیں۔ انسان اپنی کوشش سے ان کو اَن فولڈ (unfold)کرتا ہے۔ کوئی آدمی جتنے زیادہ پارٹکل کو ان فولڈ کرے گا، اتنا ہی زیادہ وہ ذہنی اور روحانی ترقی حاصل کرسکے گا۔
انسان کو موجودہ دنیا میں،جینے کے لیے تھوڑی مدت ملی ہے۔ مثلاً نپولین بونا پارٹ (وفات 1821) غیر معمولی دماغ کا حامل ہونے کے باوجود صرف باون سال کی عمر میں مرگیا۔ سید جمالدین افغانی (وفات: 1897)غیرمعمولی دماغ رکھتے تھے۔ لیکن ان کا انتقال صرف اٹھاون سال کی عمر میں ہوگیا، وغیرہ۔
ایسی حالت میں انسان کو اپنے ذہنی امکانات کو ان فولڈ کرنے کے لیے بہت تھوڑا وقت ملا ہے۔ کوئی بھی آدمی اِس نادانی کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ سو سال یا اُس سے بھی کم مدت میں مرجائے اور اُس کے ننانوے فیصد سے بھی زیادہ ذہنی امکانات واقعہ بننے سے رہ گیے ہوں۔ محدود عمر کے اندر لامحدود امکانات کے حصول کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی بھی قیمت پر اِس نقصان کو برداشت نہ کرے۔
اِس نقصان کا سب سے بڑا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ڈسٹریکشن (distraction)، یعنی ذہنی امکانات کی ان فولڈنگ کے پراسس کا رُک جانا۔ ڈسٹریکشن کیا ہے، اس کو لغت میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے:
Distraction is the diverting of the attention of an individual or group from the chosen object of attention onto the source of distraction.
حرام (unlawful) در اصل اِسی ڈسٹریکشن کا مذہبی نام ہے۔ وہ تمام چیزیں جن کو مذہب میں حرام یا منع کیا گیا ہے، وہ سب اِسی لیے حرام یا منع ہیں کہ وہ آدمی کے ذہن کو اصل نشانے سے غیر مفید طورپر ہٹا دیتی ہیں، اور اِس طرح آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل، وقتی طورپر یا مستقل طورپر، رُک جاتا ہے۔
اِس ڈسٹریکشن کی دو قسمیںہیں — حرام اور مکروہ۔ موجودہ دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مکمل ڈسٹریکشن (total distraction) کا ذریعہ بنتی ہیں، ایسی چیزوں کو مذہب میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اِن کے علاوہ کچھ اور چیزیں ہیں جو جُزئی ڈسٹریکشن (partial distraction) کا ذریعہ بنتی ہیں، اُن کو حرام تو نہیں قرار دیاگیا، لیکن اُن کو مکروہ بتایا گیا۔ یعنی غیر مطلوب یا قابلِ پرہیز۔
حرام چیزوں میں سے چند چیزیں یہ ہیں— بت پرستی، قتل، زنا، شراب، خنزیر، جوا، وغیرہ۔ جو چیزیں مکروہ قرار دی گئی ہیں، اُن میں سے چند چیزیں یہ ہیں— لڑائی جھگڑا ، عورت مرد کا اختلاط، شاپنگ، آؤٹنگ، رقص وسُرود، بے فائدہ تفریحات، پان سگریٹ، فیشن، میک اپ، پُر تکلف دعوتیں، سامانِ عیش، تحفے تحائف کی رسم، احباب اور اعزّہ کی بے معنٰی دھوم، سماجی تکلفات اور تقریبات ، وغیرہ۔
آدمی کا ذہن فطری طورپر جامد ذہن نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ اِس کے بعد آدمی مطالعہ، مشاہدہ، انٹلکچول ایکسچینج، غور وفکر، عبرت پذیری، وغیرہ کے ذریعہ جو سیکھتا ہے، وہ مسلسل طورپر انسان کی ذہنی ترقی میں مددگار بن جاتا ہے۔ذہنی ترقی کا یہ عمل ایک مسلسل عمل ہے۔ یہاں تک کہ وہ سونے کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے۔ جب بھی آدمی مذکورہ قسم کے محرّمات یا ممنوعات میں مشغول ہوتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ڈسٹریکشن کا لمحہ ہوتا ہے۔ وہ اُس کے اندر اُس فکری پراسس کو، وقتی یا ابدی طور پر، روک دیتا ہے جو آدمی کے ذہنی ارتقا کے لیے ضروری ہے۔
اِس نظریے کو کسی بھی شخص کا مطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً جو لوگ بزنس یا تفریحات وغیرہ میں زیادہ مشغول رہتے ہیں، اُن سے بات کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اگر چہ وہ اپنے پروفیشن میں بظاہر کامیاب ہیں، لیکن وہ فکری ارتقا کے معاملے میں بالکل پس ماندہ ہیں۔ فکری موضوعات پر اُن سے بات کیجیے تو آپ کو فوراً محسوس ہوگا کہ وہ ذہنی پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ لوگ جسمانی دیو (physical giant) ہیں اور ذہنی بَونے (intellectual dwarf) ۔
موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے تفریحات کو ایک عمومی کلچر کی حیثیت دے دی ہے۔ آج یہ حال ہے کہ آرٹ، ٹی وی، سینما، فیشن، عورت مرد کا اختلاط، تفریحی تقریبات بہت زیادہ عام ہوگئی ہیں۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کی تفریحات کا کوئی وجود نہ تھا۔
اب قدیم اور جدید زمانوں کا تقابل کرکے دیکھئے۔ جتنے بڑے بڑے فلسفی ، مصنف، سائنس داں اور مُوجد پیدا ہوئے، وہ تقریباً سب کے سب قدیم زمانے میں پیدا ہوئے۔ موجودہ تفریحات کے زمانے میں شاید کوئی بھی بڑا صاحب دماغ آدمی پیدا نہیں ہوا۔ اِس کا سبب یہ نہیں ہے کہ عالی دماغ لوگ پیدا ہونا بند ہوگیے، بلکہ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسی بے شمار چیزیں وجود میں آگئی ہیں جو مسلسل طورپر انسان کے لیے ڈسٹریکشن کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ جب کہ قدیم زمانے میں ڈسٹریکشن کے یہ اسباب موجود نہ تھے۔ اِس لیے انسان یکسو ہو کر صرف اپنے علمی یا سائنسی کام میں مشغول رہتا تھا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک تاریخی واقعے کو اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولاہدی ولا کتاب منیر (الحج: 8) اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وسیع تر انطباق کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ زندگی کے بارے میں بغیر ہدایت، خدائی اسکیم سے لڑتے ہیں:
Some people defy the divine scheme without having a guidance.
اِس آیت کی روشنی میںغور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ پوری انسانی تاریخ پر ایک تبصرہ ہے۔ ساری تاریخ میں مسلسل یہ ہوتا رہا ہے کہ بڑے بڑے دماغ کسی رہنمائی کے بغیر محض اپنی ذاتی اُپج سے زندگی اور کائنات کی تشریح کرتے رہے۔ اِس طرح انھوں نے انسانیت کے بڑے حصے کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
فلسفے کی مثال
تمام علوم میں فلسفہ شاید سب سے قدیم علم ہے۔ بڑی تعداد میں اعلیٰ دماغ، فلسفیانہ غور میں مشغول رہے ہیں لیکن فلسفہ انسانی علم میں کوئی مثبت اضافہ نہ کرسکا۔ مثال کے طور پر تقریباً تمام فلسفیوں نے یہ کیا کہ انھوںنے کائنات کے مختلف مظاہر کو وحدت کی اصطلاح میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ اِس طرح انھوںنے یہ کیا کہ انھوںنے خالق اور تخلیق دونوں کو ایک قرار دے دیا۔ ان کے نزدیک ایک ہی حقیقت تھی جو مختلف اشیا کی صورت میں اپنا ظہور کررہی تھی۔ اسی فلسفیانہ تفکیر کے نتیجے میں تخلیق کے بارے میں وہ نظریہ پیدا ہوا جس کو وحدتِ وجود(monism) کہاجاتا ہے، سنسکرت میںاسی کو اَدُوئت واد کہتے ہیں۔
یہ نظریہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی فطرت میںایک بڑے کا تصور نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ انسان اپنے داخلی تقاضے کے تحت، ایک ایسی ہستی کو پانا چاہتا ہے جو اُس سے برتر ہو، جو اس کے لیے اعتماد کا سرچشمہ بن سکے۔ مگر وحدتِ وجود کے نظریے میں اِنسان کی اس تلاش کا جواب نہیں۔ کیوں کہ یہ نظریہ بتاتا ہے کہ انسان خود ہی خدا ہے۔ انسان کے باہر کوئی اور ہستی موجود نہیں جس کو وہ اپنا مرکز ومحور بناسکے۔ اِس طرح وحدتِ وجود کے نظریے نے انسان کی سب سے بڑی طلب کو اس کا مطلوب فراہم کیے بغیر حیرانی اورسرگشتی کی حالت میں چھوڑ دیا۔
دوسری طرف یہ ہوا کہ پوری تاریخ میںپیغمبر اٹھتے رہے۔ انھوںنے بتایا کہ زندگی کی تشریح کا زیادہ صحیح تصور ’وحدتِ وجود‘ نہیں ہے بلکہ توحید (monotheism) ہے۔ اِس پیغمبرانہ تصورکے مطابق، یہاں ایک قسم کی ثنویت (dualism) پائی جاتی ہے۔ یعنی خالق اور تخلیق دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ایک خدا ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو پیدا کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق الگ ہے، اور تخلیق اُس سے الگ۔
اِس پیغمبرانہ تصورکے مطابق، یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف انسان اور کائنات کی قابلِ فہم تشریح مل جاتی ہے، بلکہ انسان کو وہ مطلوب بھی حاصل ہوجاتا ہے جس کا تقاضا اس کا پورا وجود کررہا تھا۔
فلسفیانہ توجیہ کے نادرست ہونے کے بہت سے پہلو ہیں، مگر اس کی نادرستگی کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ فطرتِ انسانی کے لیے ایک متبائن(incompatable) تصور کی حیثیت رکھتا ہے، اور جو چیز فطرتِ انسانی کے لیے متبائن تصور کی حیثیت رکھتی ہو، وہ اپنے آپ میں قابلِ رد ہے۔ اس کے بعد اس کو رد کرنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
پیغمبرانہ ہدایت آدمی کو فکری عمل کے لیے رہنما اصول (guideline)دیتی ہے۔ اِن اصولوں سے رہنمائی لینے والا آدمی فکری بھٹکاؤ سے بچ جاتا ہے۔ وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ صحیح سمت کا اتباع کرتے ہوئے درست شاہ راہ پر اپنا سفر جاری رکھے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
سائنس کی مثال
فلسفیکے بعد دوسرا سب سے بڑا علم وہ ہے جس کو سائنس یا علومِ قطعیّہ (exact sciences) کہاجاتا ہے۔ سائنس اُس علم کا نام ہے جس میں مظاہرِ فطرت کی تحقیق کرکے فطرت کے اصول اخذ کیے جائیں اور ان کی روشنی میں مادّی دنیا کی تعمیر کی جائے۔ یہ علم ابتدائی صورت میں بہت پہلے سے موجود تھا، لیکن وہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میںاپنے عروج پر پہنچا ہے۔
سائنس نے انسان کو بہت سی چیزیں دی ہیں۔ یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوگیا کہ مادّی قوانین کا اتباع کرکے اپنے لیے ایک پُرکشش دنیا بنائی جاسکے۔ انسان ہمیشہ سے راحت اور آسائش کی زندگی کا طالب رہا ہے۔ سائنس نے پہلی بار ایسا کیا کہ بظاہر اس نے اِس بات کو ممکن بنادیا کہ انسان اپنی خواہشوں کو واقعے کی صورت دے سکے۔
لیکن جہاں تک فکری پہلو کا تعلق ہے، سائنس نے انسان کو ایک بہت بڑی بے راہ روی میں ڈال دیا، ایک ایسی بے راہ روی جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے کامل تباہی کے ہم معنٰی ہے۔
وہ فکری گمراہی یہ ہے کہ دنیا میں مختلف قسم کے جو سامانِ حیات موجود ہیں، ان کو سائنس نے صرف یہ حیثیت دی کہ وہ لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کے طورپر ہیں۔ حالاں کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، ان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم (test support system) کے طورپر ہیں۔
سامان حیات کے سائنسی تصور کی روشنی میں انسان اور اس سامانِ حیات کے درمیان جو تعلق بنتا ہے، وہ وہی ہے جو حیوانات کا اِن چیزوں کے ساتھ بنا ہوا ہے۔ حیوان اِن چیزوں کو صرف ذریعۂ انتفاع کے طورپر دیکھتا ہے، جس سے کوئی ذمّے داری وابستہ نہ ہو۔ سائنسی خاکے میں یہی حال انسان کا بھی ہوجاتا ہے۔ سائنسی تصور کے مطابق، انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دنیوی سازوسامان سے انتفاع اس کے لیے صرف رائٹ(right) کا ایک مسئلہ ہے، وہ ڈیوٹی (duty) کا مسئلہ نہیں۔ یہ تصور انسان کو اُس سطح پر لے جاتا ہے، جس کو حیوانی سطح کہاجاتا ہے۔
اس کے برعکس، سامانِ حیات کے بارے میں پیغمبرانہ تصور یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں امتحانی پرچہ (test papers) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے ساتھ براہِ راست طورپر ذمے داری کا تصور جُڑا ہوا ہے۔ اِس طرح پیغمبرانہ تصور آدمی کو مکمل طورپر ڈیوٹی کانشش (duty concious) بنا دیتا ہے۔ سائنسی تصور کے مطابق، یہ حال ہوتا ہے کہ ہر آدمی زندگی کو اِس نظر سے دیکھنے لگتا ہے کہ وہ اِس لیے دنیا میں ہے کہ وہ بقدر امکان آرام اور آسائش کی چیزیں حاصل کرے اور پھر مرجائے۔ جب کہ پیغمبرانہ تصور کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے، وہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انسان اس کے اندر اپنا امتحان دے، اور پھر موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس کے مطابق، انعام یا سزا کی صورت میں اس کا نتیجہ پائے۔
پیغمبرانہ تصور کے مطابق، خالق نے ہماری زندگی کو دو دَوروں میں تقسیم کیا ہے— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ موت سے پہلے کا مرحلہ عمل کرنے کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلہ اپنے عمل کا انجام پانے کا مرحلہ۔ سائنسی تصور کے مطابق، زندگی کی معنویت کو سمجھنے کا معیار یہ ہے کہ آدمی اس عارضی مرحلۂ حیات کو کتنا زیادہ پُر آسائش بنا سکا۔ جب کہ پیغمبرانہ تصور کے مطابق، سارا معاملہ جنت سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبرانہ تصور کے مطابق، انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دنیا میں ملی ہوئی ہر چیز کو امتحان کا ایک پرچہ سمجھے۔ وہ چیزوں کے درمیان اِس احساس کے ساتھ رہے کہ اُسے دنیا میں اُس روش کو اختیار کرنا ہے جو موت کے بعد کے طویل تر مرحلۂ حیات میں اس کو کامیاب بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں
(History of Withouts)
نظریۂ ارتقا کو ماننے والے لوگ زمین پر انسان کی تاریخ کو لاکھوں سال قدیم بتاتے ہیں، لیکن تاریخ کے رکارڈ کے مطابق، زمین پر انسان کی عمر بہ مشکل پچیس ہزار سال پیچھے تک جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی زندگی کے دو پہلوؤں میں بہت زیادہ فرق ملے گا— انسان نے مادّی چیزوں میںتو بہت زیادہ ترقی کی، لیکن انسانی علوم میں لمبی مدت گذر نے کے باوجود کوئی ترقی نہ ہوسکی۔ مٹیریل ترقی کا خواب انسان نے بڑی حد تک پورا کرلیا، لیکن ذہنی اور روحانی ترقی کی سمت میںابھی تک کوئی قابلِ ذکر پیش قدمی نہ ہوسکی۔ اسی کا ایک اظہار درج ذیل کتاب ہے جو پہلی بار 1935 میںچھپی۔ اس کا نام یہ ہے :
Dr. Alexis Carrel, Man the Unknown
اصل یہ ہے کہ ترقی کے لیے ہمیشہ گائڈ لائن کی ضرورت ہوتی ہے۔مٹیریل ورلڈ یا فزکل ورلڈ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی گائڈ لائن خود اِن اشیا کے اندر موجود ہے۔ تجربے کے ذریعے اس قانون کو دریافت کرکے ترقی کا سفر جاری رکھا جاسکتا ہے۔
مثلاً سواری کے میدان میں یہ ہوا کہ پہلے انسان گھوڑے پر سواری کرتا تھا۔ اس کے بعد اس نے پہیے دار گاڑی بنائی۔ اس کے بعد سمندری جہاز بنائے گیے۔ پھر اس نے بائسکل تیار کی۔ اس کے بعد موٹر کار بنی اور پھر ہوائی جہاز اور راکٹ تیار کیے گیے۔ اِن تمام سواریوں کو بنانے کے لیے گائڈ لائن لا آف نیچر کی صورت میں خود اُن چیزوں کے اندر موجود تھی جس کو استعمال کرکے مختلف قسم کی سواریاں بنائی گئیں۔
مگر انسان کے بارے میں سب کچھ لامعلوم تھا۔ مثال کے طورپر انسان جب پیدا ہوتا ہے اور سماج کے اندر رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے ذہن کی کنڈیشننگ ہونے لگتی ہے، یہاںتک کہ ہر آدمی مسٹر کنڈیشنڈ بن جاتا ہے، یہ کنڈیشننگ ، آدمی کو اس قابل نہیں رکھتی کہ وہ اپنی دنیا کے بارے میں بے آمیز رائے قائم کرسکے۔ مگر یہ حقیقت صرف بیسویں صدی کے رُبع اوّل میںمعلوم ہوسکی اور وہ بھی صرف پچاس فیصد۔ یہ واقعہ پھر بھی لامعلوم رہا کہ کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرکے اس کو دوبارہ فطری سوچ (natural thinking) پر لایا جاسکتا ہے۔
قرآن خدا کی کتاب ہے۔ قرآن کی اصل حیثیت یہی ہے کہ وہ انسان کے لیے ایک قابل اعتماد گائڈ لائن ہے۔ مذکورہ سوال کا جواب قرآن کی اِس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے: ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علمٍ ولا ہدًی ولا کتاب منیر(الحج: 8) یعنی لوگوں میں کوئی شخص ہے جو اللہ کی بات میں جھگڑتا ہے، علم اور ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر۔
اِس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سائنس میں ناکامی کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے گائڈنس کے بغیر انسانی زندگی کو سمجھنا چاہا اور اس کی تشکیل کرنے کی کوشش کی۔ یہی واحد وجہ ہے جس کی بنا پر انسانی سائنس ترقی سے محروم رہی۔ کیوں کہ جب گائڈنس موجود نہ ہو تو آدمی کو اپنے عمل کا نقطہ آغاز ہی نہیں ملے گا، اور جب حقیقی نقطہ آغاز کو جانے بغیر سفر شروع کیاجائے تو ایسا سفر کبھی اپنی منزل تک پہنچنے والا نہیں۔
خالق کے تخلیقی نقشے کو جانے بغیر
کسی پیچیدہ مشین کو بنانے والا انجینئر ہی اس کی گائڈ بک دے سکتا ہے، یہی معاملہ موجودہ دنیا کا ہے۔ موجودہ دنیا کو خدا نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق بنایا ہے۔ یہ تخلیقی نقشہ زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کو جانے بغیر زندگی کا جو تصور قائم کیا جائے گا، وہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق نہ ہوگا۔ اور جو منصوبہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق نہ ہو اس کے لیے ناکامیابی یقینی ہے۔
خدا کی کتاب قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اِس دنیا کو ٹسٹ کے لیے بنایا ہے۔ اس دنیا سے انسان کے تعلق کی نوعیت وہی ہے جو امتحان ہال سے ایک طالب علم کی ہوتی ہے۔ امتحان ہال میں کوئی طالب علم اس لیے جاتا ہے کہ وہاں وہ مطلوب ٹسٹ دے کر اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کرے کہ امتحان ہال کے باہر کی دنیا میں وہ جگہ پانے کا مستحق ہے۔
اسی طرح موجودہ دنیا انسان کے لیے خدائی ٹسٹ دینے کی جگہ ہے۔ موت سے پہلے کی اِس دنیا میں آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ٹسٹ میں اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرے، تاکہ موت کے بعد کی دنیا میں وہ خدا کے ابدی انعامات کا مستحق قرار پائے۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ خدا کی گائڈبک کے ذریعے دنیا کے بارے میں خدا کے تخلیقی نقشے کو جانے، اور اس سے مطابقت کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ جو لوگ ایسا کریں وہی کامیاب انسان ٹھیریں گے اور جو لوگ ایسا نہ کریں وہ ناکام ہو کر رہ جائیں گے۔
آئڈیل زندگی کی تعمیر
مشہور یونانی فلسفی افلاطون (Plato) تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں پیدا ہوا۔ اس کا نشانہ یہ تھا کہ یونان میں ایک اسٹیٹ بنائی جائے جو ہر اعتبار سے آئڈیل ہو۔ اس نے اپنے کتاب آئڈیل اسٹیٹ(Ideal State) میںاس کا نقشہ پیش کیا۔ اس کے نزدیک آئڈیل اسٹیٹ بناناپوری طرح ممکن تھا۔ افلاطون یونان کے شاہی خاندان کا معلم تھا۔ اِس طرح اس کو موقع مل گیا کہ وہ شہزادوں کی تعلیم و تربیت کرکے ایسا مطلوب سیاسی کردار تیار کرے جو اس کی اسٹیٹ میں وہ رول ادا کرسکے جس کو اس نے فلاسفر کنگ(Philosopher King) کا نام دیا تھا۔ مگر افلاطون کی مفروضہ آیڈیل اسٹیٹ کبھی قائم نہ ہوسکی۔
اِس کا سبب یہ نہ تھا کہ اس کے شاگرد سکندر اعظم نے بعد کے مرحلے میںاس کی پیروی نہ کی، بلکہ اس کا سبب فطرت کے تخلیقی نقشے سے بے خبر تھی۔ خدا نے یہ دنیا اِس لیے نہیں بنائی کہ یہاں آئڈیل اسٹیٹ بنائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، آئڈیل اسٹیٹ اِس دنیا میں بنانا ممکن ہی نہیں۔ افلاطون نے ایک ناقابلِ عمل منصوبے کو عمل میں لانا چاہا، اس لیے وہ ناکام ہو کر رہ گیا۔ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اگر وہ کسی عملی منصوبے کو زیر عمل لانے کی کوشش کرتا تو ضرور وہ کامیاب ہوسکتا تھا۔
ڈی کنڈیشننگ کے بغیر تفکیری عمل
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلّ مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہوّدانہ أو ینصّرانہ، أویمجّسانہ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز) یعنی ہر پیدا ہونے والا اپنی اصل فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا مسیحی یامجوسی بنادیتے ہیں۔
اس حدیثِ رسول میں جو بات کہی گئی ہے وہ اب خود سائنسی ریسرچ کے تحت ثابت ہوچکی ہے۔ اب خالص علمی طورپر یہ مان لیاگیا ہے کہ کوئی عورت یا مرد جس ماحول میں پرورش پاتے ہیں، اُس ماحول کے مطابق، ان کے ذہن کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ کوئی بھی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کنڈیشننگ کا یہ عمل غیر شعوری طور پر ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ پراسس ہر آدمی کے ذہن میں جاری رہتا ہے اور کوئی آدمی بطورِ خود یہ جان نہیں پاتا کہ اس کے ذہن میں مسلسل طور پر کنڈیشننگ کا عمل جاری ہے۔
کنڈیشننگ کا یہ معاملہ پہلی بار بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آیا۔ امریکا میں نفسیات کے پروفیسر واٹسن (J.B. Watson) نے اِس موضوع پر لمبی تحقیق کے بعد 1925 میں اپنی مشہور کتاب بہیویرازم(Behaviourism) چھاپی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ہر آدمی لازمی طورپر کنڈیشننگ کا معمول بنتا ہے، کوئی بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ واٹسن کا یہ نظریہ اتنا مقبول ہوا کہ عرصے تک وہ یونیورسٹیوں میں نفسیات کے نصاب میں پڑھایا جاتا رہا۔
لیکن واٹسن کے نظریے میں ایک بھیانک کمی تھی۔ اس نے یہ فرض کرلیا کہ یہ کنڈیشننگ جو ہوتی ہے، وہی اصل صورت حال ہے۔ اس نظریے کے مطابق، انسانی شخصیت کی تشکیل وتعمیر نیچر (nature) سے نہیں ہوتی بلکہ نرچر(nurture) سے ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو آدمی جیسا بن گیا، وہی اس کی ابدی شخصیت ہے۔ اس کو دوبارہ اس کی ابتدائی فطرت کی طرف نہیں لوٹایا جاسکتا۔
یہ نظریہ اگر چہ بیسویں صدی کے آغاز میں پیش کیاگیا، لیکن عملاً وہ پوری تاریخ پر چھایا رہا۔ پچھلے ہزاروں سال کے درمیان جو عورت اور مرد پیدا ہوئے، وہ سب اِس حقیقت سے بے خبر رہے کہ ان کے لیے تفکیری عمل کا آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کریں، وہ اپنے ذہن کے اوپر سے مصنوعی پردوں کو ہٹا کر اپنے آپ کو اپنی اصل فطرت کی طرف واپس لے جائیں۔ خالق نے خارجی دنیا میں پیاز کی صورت میں اس معاملے کی ایک مادّی مثال رکھ دی تھی۔ پیاز اشارے کی زبان میں لوگوں کو بتارہی تھی کہ پہلے اپنے ذہن کے خارجی پردوں کو ہٹاؤ، اس کے بعد ہی تم چیزوں کو اُن کی بے آمیز صورت میں سمجھ سکتے ہو۔ مگر انسان نے نہ پیاز کی اس مثال سے سبق سیکھا، اور نہ پروفیسر واٹسن اور ان کے ہم نوا اِس حقیقت کو دریافت کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ بے خبری کے راستے پر چلتی رہی۔
مثال کے طورپر تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو تمام سیاسی، یا غیر سیاسی تحریکیں ردّ عمل کی تحریکیں نظر آتی ہیں۔ روسو کی تحریک، بادشاہت کے خلاف ردّ عمل کی تحریک تھی۔ مارکس کی تحریک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ جمال الدین افغانی کی تحریک مغربی استعمار کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ گاندھی کی تحریک برٹش اقتدار کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ آیت اللہ خمینی کی تحریک شاہ ایران کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ سید قطب کی تحریک یہودیوں کی زائن ازم (Zionism)کے خلاف ردعمل کی تحریک تھی، وغیرہ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ رد عمل کی تحریک ہمیشہ منفی ذہن کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آدمی کسی کے بارے میں نفرت میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر وہ اس کے خلاف رد عمل کی تحریک چلانے لگتا ہے۔ یہی پوری انسانی تاریخ کی کہانی ہے۔ تمام عورت اور مرد کسی نہ کسی اعتبار سے نفرت میں جیتے رہے، وہ مثبت نفسیات میں جینے والے نہیں بنے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کنڈیشننگ کے معاملے سے بے خبر تھے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر وہ حقائق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں سکتے، جب کہ حقائق کو بے آمیز صورت میں دیکھنا ہی مثبت طرز فکر کی پہلی شرط ہے۔
ذہنی انقلاب کے بغیر روحانیت
روحانیت(spirituality) ہمیشہ سے انسان کی دل چسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس کے نام ہر حلقے میںالگ الگ لیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً مسٹسزم (Mysticism) اور مراقبہ(Meditation)اور تصوّف (Sufism)، وغیرہ۔ روحانیت کے محاذ پر ہزاروں سال سے زبردست سرگرمیاں جاری ہیں، مگر ابھی تک ان سرگرمیوں کا کوئی حقیقی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ تمام کوششوں اور ریاضتوں کے بعد جو چیز حاصل ہوئی، وہ صرف بے شعور وجد(ecstasy) ہے، نہ کہ روحانی ارتقاء جو کہ ان سرگرمیوں کا اصل مطلوب تھا۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے سے لوگ یہ ماننے لگے کہ انسان کا ذہن سوچ کا مرکز ہے، اور انسان کا دل جذبات و عواطف کا مرکز۔ کیوں کہ روحانیت کو عواطف کی نوعیت کی چیز سمجھ لیا گیا، اس لیے انسان ہمیشہ مبنی بَر قلب روحانیت(heart-based spirituality) پر عقیدہ رکھتا رہا۔ اس مفروضے کی بنیاد پر باقاعدہ فلسفہ وضع کیا گیا۔ یہ مان لیا گیا کہ انسان کا دل ہر قسم کے روحانی خزانوں کا سرچشمہ ہے۔ اور دل میں چھپے ہوئے احساسات کو جگا کر روحانی فیض حاصل کیا جاسکتا ہے۔
لیکن موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات نے اس مفروضے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ اب یہ قطعیت کے ساتھ معلوم ہوچکا ہے کہ فکر اور جذبات دونوں کا واحد مرکز صرف انسان کا ذہن(mind) ہے۔ جہاں تک دل کا تعلق ہے، وہ صرف گردش خون(circualtion of blood) کا ذریعہ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الرسالہ، نومبر 2004، صفحہ
یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال کی روحانی ریاضت کے نتیجے میں انسان کو جو چیز ملی، وہ صرف وجد (ecstasy) تھا، نہ کہ روحانی بنیاد پر ذہنی ارتقاء۔ اس قسم کی روحانیت دراصل، روحانیت کی ایک کم تر صورت (reduced form) ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں روحانی ارتقاء۔
جیسا کہ معلوم ہے، وجد ایک مبہم کیفیت کا نام ہے، جب کہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسا ذہن رکھتا ہے جس کے اندرسوچنے کی صلاحیت ہے۔ انسانی تاریخ کی تمام ترقیاں سوچ کی صلاحیت کو عمل میں لانے سے حاصل ہوئی ہیں۔ ایسی حالت میں ، روحانیت اگر کوئی چیز ہے تو اس کو بھی ذہن کی سطح پر حاصل ہونا چاہیے۔ تمام انسانی ترقیوں کا سرچشمہ انسان کے ذہن میں تفکیری عمل ہے، اِسی طرح روحانی ترقی کا ذریعہ بھی تفکیری عمل کو ہونا چاہیے۔ روحانیت دراصل معرفتِ حقیقت کا اعلیٰ درجہ ہے، وہ مبہم بے خودی جیسے کوئی چیز نہیں۔ اس لیے حقیقی روحانیت وہی ہے جو کسی آدمی کو ذہن کی سطح پر حاصل ہو، نہ کہ قلب کی سطح پر۔
اس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر ایسا ہوا کہ پوری تاریخ میںانسان حقیقی روحانیت کے حصول سے محروم رہا۔ اس نے جس چیز کو روحانیت سمجھا، وہ روحانیت نہیں تھی۔ اور جو اصل روحانیت تھی اس سے بے خبری کی بنا پر وہ اس کو حاصل کرنے کی طرف اپنا سفر ہی شروع نہ کرسکا۔ تاریخِ انسانی کا یہ شاید سب سے بڑا المیہ ہے، اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مسجد سے اذان کی آواز بلند ہو تو لوگ جان لیتے ہیںکہ خدا کی عبادت کا وقت آگیا۔ وہ تیزی سے چل کر مسجد پہنچتے ہیںتاکہ خدا کی عبادت کرکے اُس کا انعام حاصل کرسکیں۔ اسی طرح جب رمضان کے مہینے کا نیا چاند افق پر دکھائی دیتاہے تو لوگ فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ اب روزے کا مہینہ آگیا۔ وہ ضروری تیاریاں شروع کردیتے ہیں تاکہ رمضان کے روزے رکھ کر وہ ثواب حاصل کرسکیں جو خدا نے روزے کی عبادت میںرکھ دیا ہے۔
اسی طرح صبر بھی ایک عبادت ہے۔ جب بھی وہ وقت آجائے جب کہ خدا کی مرضی پر قائم رہنے کے لیے صبر کی قیمت دینا ضروری ہوگیا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صبر والی عبادت کی ادائیگی کا وقت آگیا، وہ عبادت جس پر اللہ نے بے حساب اجر کا فیصلہ فرمایا ہے—إنما یوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب(الزّمر: 10 )
ایک آدمی آپ کے ساتھ اشتعال انگیزی کرے اور آپ کے اندر غصے کی آگ بھڑک اٹھے تو ایسی حالت میں اللہ کا حکم ہے کہ تم جوابی غصے کی کارروائی نہ کرو بلکہ اِس پر صبر کی روش اختیار کرتے ہوئے اُس آدمی کو معاف کردو (الشوریٰ:
یہی معاملہ دوسرے تمام منفی جذبات کا ہے۔ جب بھی ایک آدمی کے اندر کسی کے بُرے سلوک کے نتیجے میں نفرت، انتقام اور حسد جیسے منفی جذبات بھڑکیں تو یہ اس بات کا خاموش اعلان ہوتا ہے کہ اُس آدمی کے لیے صبر کی اعلیٰ عبادت ادا کرنے کا وقت آگیا۔ وہ فریقِ ثانی کی طرف سے بدسلوکی پر صبر کرکے یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا ثبوت دے اور اس کا مستحق بن جائے کہ اعلیٰ ترین عبادت پر اُس کو اعلیٰ ترین انعام کا مستحق قرار دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
دنیا میں ہمیشہ امیری اور غریبی کا فرق پایا جاتا رہا ہے۔ اس فرق کو کچھ لوگ معاشی اور سماجی برائی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، اور اگر خدا ہے تو وہ عادل نہیں۔ کیوں کہ یہ خدا کی عادلانہ صفت کے خلاف ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان یہ فرق رکھے کہ کچھ لوگ معاشی اعتبار سے اونچے ہوں اور کچھ لوگ معاشی اعتبارسے نیچے۔
یہ اعتراض درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ معاش میں اونچ نیچ کا فرق اچھے اور بُرے کی نسبت سے نہیں ہے۔ یہ دراصل اس لیے ہے کہ انسانی سماج میں مسابقت(competition) کا ماحول قائم ہو۔ مزید یہ کہ کم آمدنی والے لوگ زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ کیوں کہ فطرت کے قانون کے تحت یہ ہوتا ہے کہ غریب طبقے کے حالات اس کی تخلیقیت(creativity) کو بڑھاتے ہیں اور امیر طبقے کے حالات اُس کو غیر تخلیقی (uncreative) بناتے چلے جاتے ہیں۔
فطرت کے اسی قانون کی بنا پر بار بار اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیںکہ ایک شخص جو دولت مند گھرانے میںپیدا ہوا تھا وہ عیش وعشرت کا شکار ہوگیا۔ اُس کی صلاحیتیں ترقی نہ کرسکیں۔ آخر کار وہ ایک ناکام انسان کی حیثیت سے مرگیا۔ دوسری طرف یہ برعکس مثال بھی بار بار سامنے آئی ہے کہ ایک شخص غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوا۔ اُس کے حالات نے اُس کو جدوجہد کے راستے پر لگایا۔ وہ دوسروں سے زیادہ محنت کرنے لگا۔ یہاں تک کہ اُس نے غیر معمولی ترقی حاصل کرلی۔
اُس نے بیک وقت دو پہلوؤں سے ترقی کی۔ ایک طرف اُس کے مشکل حالات نے اُس کو زیادہ گہرے تجربات کرائے۔ اُس کا ذہنی ارتقاء دوسروں سے زیادہ ہوا۔ وہ دوسروں سے زیادہ فہم اور بصیرت کا مالک بن گیا۔ اسی کے ساتھ اُس نے مادی اور معاشی اعتبار سے بھی غیر معمولی ترقی کی۔ اُس کو اپنے باپ کی طرف سے غریبی کی وراثت ملی تھی، مگر جب وہ مرا تو اُس نے اپنی اولاد کے لیے دولت اور جائداد کی بہت بڑی وراثت چھوڑی۔
واپس اوپر جائیں
مولانا محمد کلیم صدیقی (پھلت) نے اپنے ایک بھانجے کا قصہ لکھا ہے۔ اِس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کے لیے دعا کتنی زیادہ اہم ہے۔ اِس قصے کو ہم یہاں اُنھیں کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
’’نہادھوکر اُس نے نیے کپڑے پہنے اور آٹھ نوسال کے ننھے داعی حمّاد سلمہ کے پاس آیا اور بڑی فکرمندی سے بولا— حماد بھائی، آج تم مجھے مسلمان کرلو۔ رات تم نے اتنا ڈرایا دیا کہ رات کو دیر تک نیند نہیں آئی۔ اور آئی بھی تو بار بار گھبرا کر آنکھ کھلتی رہی۔ اگر میںآج مرگیا اور کلمہ پڑھنے سے رہ گیا تو پھر ہمیشہ نرک (دوزخ) میں جلنا پڑے گا۔ رات کو ’آپ کی امانت‘ میںنے تیسری بار پھرپڑھی۔ ننھے داعی حماد نے اُس کو خوش خوش کلمہ پڑھایا۔ اُس سے کہا— اشوک بھائی،اب آپ کا اسلامی نام محمد عاشق رکھتا ہوں۔ ہمارے ماموں اِسی طرح نام رکھتے ہیں۔ حماد اب اس نیے عاشقِ محمد کو لے کر اپنے والدِ محترم برادرِ نسبتی جناب قمر الاسلام کے پاس آیا اور بتایا کہ ابو، یہ اشوک بھائی ہمارے ڈرائیور ہیں اور کتنے اچھے آدمی ہیں۔ میں ایک ہفتے سے ان کو سمجھارہا تھا۔ میںنے ان کو ’آپ کی امانت‘ بھی دی۔ روزانہ اللہ سے ان کے لیے دعا بھی کرتا تھا۔ آج اللہ نے میری دعا قبول کرلی۔ انھوں نے کلمہ پڑھ لیا اور ان کا نام میںنے محمد عاشق رکھا۔ قمر الاسلام نے عاشق کو گلے لگایا۔ مبارک باد دی اور بولے— میں خود حیرت میں تھا کہ تم نے حماد کو کیا پلا دیا کہ گھر کے سب لوگوں کو چھوڑ کر ایک ہفتے سے یہ ہر وقت تم سے چمٹا رہتا ہے۔ اصل میںاللہ کو تم پر پیار آرہا تھا۔ اللہ نے اس معصوم کو تمھارے ساتھ لگادیا۔ اشوک بولا— سر، یہ ننھا اور پیارا ہمدرد ایک ہفتے سے مجھے سمجھا رہا تھا۔ وہ اِس طرح مجھے سمجھا رہا تھا، مجھے لگتا تھا کہ موت بالکل سر پر کھڑی ہے۔ سورگ اور نرک میرے سامنے ہے۔ کلمہ پڑھ کر مجھے چین سا مل گیا ہے۔ جیسے میں کسی محفوظ قلعے میںآگیا ہوں۔ سر، اب آپ مجھے نماز، وغیرہ سکھائیے اور بتائیے کہ ایک اچھا مسلمان بننے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے۔
الحمد للہ اشوک اب محمد عاشق ہے۔ اور روز بروز اُس کے ایمان اور اسلام سے تعلق میں اضافہ ہورہا ہے۔ قمر بھائی نے دورکعت صلاۃ الشکر پڑھی اور اس حقیر کو فون کیا کہ بھائی میاں، آپ کے بھانجے حماد کا اکاؤنٹ کھل گیا ہے اور عاشق کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ سنایا۔ اس سے قبل وہ اپنے اسکول بس کے کنڈیکٹر پر بھی کام کررہا تھا‘‘ ۔(ماہ نامہ ارمغان، فروری2007 ، صفحہ: 40 )
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کی توسیع اور اشاعت نہایت تیزی کے ساتھ ہوئی۔ مؤرخین نے اعتراف کیا ہے کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ اسلام دنیامیں پھیلا، اُس تیز رفتاری کے ساتھ کوئی اور مذہب نہیں پھیلا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا یہ پھیلاؤ تلوار کے ذریعے ہوا۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ مذہب ایک فکری اعتراف کا معاملہ ہے، مذہب کو کبھی تلوار کے ذریعے پھیلایا نہیں جاسکتا، اور نہ مذہب اسلام کو تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا۔
اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں جو لڑائیاں ہوئیں، وہ بادشاہوں کی فوج کے ساتھ ہوئیں۔ عوام سے اِن لڑائیوں کا کوئی تعلق نہ تھا۔ قدیم طریقے کے مطابق، یہ لڑائیاں زیادہ تر بستیوں سے دور کسی غیر آباد مقام پر ہوئیں اور چند روز کے ٹکراؤ کے بعد وہیں اُن کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ زمانہ میڈیا سے قبل کا زمانہ تھا۔ چنانچہ عام لوگوں کو اس طرح کے واقعات کی خبر بھی بہت دیر سے ہوتی تھی۔ جنگ کے باوجود عوام کی زندگی بدستور اپنے معمول پر چلتی رہتی تھی۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں جنگ کی حیثیت ایک استثناء (exception)کی تھی۔ روز مرّہ کے حالات میں جو ہوتا تھا، وہ یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے، اُن کے درمیان پُر امن مذہبی ڈائلاگ ہوتا، لوگ قرآن کو پڑھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اِس طرح عملاً گویا دو دھارے بن گیے تھے۔ ایک طرف حکمرانوں کی فوجی کارروائی کا دھارا، جو بڑی حد تک عوامی زندگی سے الگ چلتا تھا، اور دوسری طرف اسلام کی پُر امن فکری اشاعت کا دھارا۔ یہ فکری دھارا خاموش انداز میں عوام کے اندر ہمیشہ جاری رہتا۔ اس کے نتیجے میں لوگ اسلام سے متأثر ہوتے اور کسی جبر کے بغیر خود اپنے فیصلے سے وہ اسلام قبول کرلیتے۔
اِس معاملے کی ایک مثال ہندستان میں نظر آتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان میں اسلام کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہوئی، مگر اِس اشاعت کا کوئی تعلق، مسلم حکم رانوں سے نہ تھا۔ یہ زیادہ تر مسلم صوفیوں کے ذریعے ہوا۔ صوفیوں کا اصول، اُن کہ الفاظ میں صلحِ کُل (peace with all) تھا۔ یہی ’صلحِ کل‘ کی پالیسی تھی جو عملاً ہندستان میںاسلام کی عمومی اشاعت کا ذریعہ بنی۔
واپس اوپر جائیں
میں اس وقت آپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہوں گا۔ یہ باتیں میرے طویل تجربات پر مشتمل ہیں۔ مطالعے اور تجربے اور دعا کے بعد میںکہہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ جو عورت اور مرد ہمارے دعوتی مشن کے ساتھ جُڑ کر دعوہ ورک کرنا چاہتے ہیں، اُن کو لازمی طورپر اِن باتوںکو ملحوظ رکھنا ہوگا۔
نتیجہ رُخی کوشش(result-oriented effort)
میرے تجربے کے مطابق، صرف وہی کوششیں درست ہیں جو نتیجہ خیز ہوں۔ بائبل میںکہاگیا ہے—تم نے بہت سا بویا پر تھوڑا کاٹا:
You have sown much, and bring in little (Haggai 1:6)
اِس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ لوگ عام طورپر بہت زیادہ کام کرتے ہیں، لیکن وہ صرف اس کا تھوڑا نتیجہ حاصل کرپاتے ہیں۔ ایسا اِس لیے ہوتا ہے کہ لوگ، عام طورپر، اپنے عمل کے نتیجے کو سامنے نہیں رکھتے۔ میںآپ تمام لوگوں سے کہوں گا کہ ہمیشہ اپنے عمل کے نتیجے کو سامنے رکھ کر کام کریں اور صرف وہی کام کریں جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہو کہ وہ نتیجہ خیز کام ہے۔
قول کے ساتھ عمل کی اہمیت
دنیا میںزیادہ تر لوگ خوب صورت الفاظ بولتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، عمل کے بغیر، خوب صورت الفاظ کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اچھے عمل کے بغیر اچھے الفاظ گناہ ہیں، نہ کہ کوئی اجر کے قابل چیز:
Good talk without good deeds is a sin, rather than an awardable practice.
اس لیے آپ کو اِس معاملے میں بہت زیاہ محتاط رہنا چاہیے۔ آپ صرف وہی بات کہیں جس پر آپ عمل کرسکیں۔ آپ کواِس معاملے میں بہت زیادہ باہوش رہنا ہوگا کہ لوگوں کی خوب صورت باتوں پر آپ یقین کرلیں۔ آپ کسی کی خوبصورت بات پر صرف اُس وقت یقین کریں، جب اُس کے ساتھ عمل بھی موجود ہو۔ عمل کے بغیر خوب صورت الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں۔
ترجیحات پر مبنی جدوجہد
مشن کے لیے ابھی آپ کو بہت سے کام کرنے ہیں۔ اس لیے میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اپنی ترجیحات متعین کریں۔ میرے نزدیک ، قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اُس کی عالمی اشاعت اِس وقت ہماری اولین ترجیح ہے۔
اولین ترجیح— قرآن کا انگریزی ترجمہ
میں آپ کو پہلے یہ بتا چکا ہوں کہ اِس وقت قرآن کا ایک درست انگریزی ترجمہ کتنا ضروری ہے، اور یہ ترجمہ کس طرح ہمارے دعوتی مشن کو ایک آئی ڈنٹٹی عطا کرے گا۔ اِس لیے ہم کو ترجیحی بنیاد پر ترجمۂ قرآن کے اِس کام کو کرنا ہوگا۔
اِس وقت قرآن بسٹ سیلر(best seller) بن چکا ہے۔ جیسا کہ ابھی گوگل(Google) کے ایک آن لائن ریڈنگ سروے میں بتایا گیا ہے کہ — قرآن، گوگل بُک سرچ کے ٹاپ پر ہے، اور ’آن لائن ریڈنگ‘ میں قرآن سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکا ہے:
The Quran tops Google book search and it has the topmost position as regards online reading.
اِس سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں قرآن کی کتنی زیادہ ڈمانڈ ہے۔ مارکیٹ میں قرآن کے تقریباً دو درجن انگریزی ترجمے دستیاب ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ اُن میںسے کوئی ایک ترجمہ بھی ایسا نہیںہے جس کو قرآن کا درست ترجمہ کہا جاسکے۔
ایسی حالت میں قرآن کا ایک درست انگریزی ترجمہ لوگوں کے لیے سب سے زیادہ بڑی خبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس لیے جتنی جلد ممکن ہوسکے، ہم کو قرآن کا ایک درست انگریزی ترجمہ تیار کرنا ہوگا۔
اِس وقت ہمارے سامنے ایک مسئلہ درپیش ہے، اور وہ آئی ڈنٹٹی (identity) کا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیںہے جو ہمارے دعوتی مشن کے لیے آئی ڈنٹٹی کی حیثیت رکھتی ہو۔ عام طورپر لوگ یہ کہتے ہیں کہ— الرسالہ مشن ایک قسم کا ’ون مین شو‘ ہے:
The Al-Risala mission is a ‘one man show’.
اِس امیج کو بدلنا ضروری ہے، ورنہ ہمارا مشن ایک انٹرنیشنل مشن بننے کے بجائے ایک قسم کافرقہ(sect) بن جائے گا۔ اگر ہم قرآن کا ایک درست انگریزی ترجمہ شائع کرنے میںکامیاب ہوگیے تو انشاء اللہ یہ قرآنی کام ہمارے مشن کے لیے ایک آئی ڈنٹٹی ثابت ہوگا، اور بلا شبہہ یہ سب سے بڑی آئی ڈنٹٹی ہے جس کو ہم اِس دنیامیں حاصل کرسکتے ہیں۔
آئی ڈنٹٹی کے علاوہ، اِس میںایک اور بہت بڑا پہلو موجود ہے، وہ یہ کہ ترجمۂ قرآن کا یہ کام ہمارے دعوتی مشن کے لیے ایک بہت بڑا بوسٹ(boost) ثابت ہوگا۔ ہر مشن کی کامیابی کے لیے ایک ’بوسٹ‘ درکار ہوتا ہے، اور قرآن کا درست انگریزی ترجمہ، انشاء اللہ ہمارے مشن کے لیے اسی طرح کا ایک بوسٹ ثابت ہوگا۔
اردو زبان کی اہمیت
میری شدید خواہش ہے کہ ہمارے دعوتی مشن (سی پی ایس) کے تمام ممبراُردو زبان سیکھیں۔ میری اردو کتابیں، اسلام کے صحیح فہم اور اسلام کی صحیح تعبیر کو سمجھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ ایک حدیث میںارشاد ہوا ہے کہ — لایبقیٰ من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقیٰ من القرآن إلا رسمہ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، مشکوۃ المصابیح، رقم الحدیث:
یہ ایک واقعہ ہے کہ بعد کے دَور میں حقیقی اسلام تعبیرات کی کثرت میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ میںنے خدا کے فضل سے اپنی ساری زندگی اسلام کو اُس کے اصل ماخذ(original sources) سے ازسرِ نو دریافت کرنے میں صرف کی ہے۔ اور اپنے اردو لٹریچر کی صورت میں اسلام کی صحیح تعبیر پیش کردی ہے۔
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ کسی آدمی کے لیے میرا اُردو لٹریچر اسلام کی صحیح تعبیر کو سمجھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اِس لٹریچر کا دوسرا کوئی اور بدل نہیں۔ اِس لیے ہر وہ آدمی جو سنجیدگی کے ساتھ ہمارے دعوتی مشن سے جڑنا چاہتا ہو، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ اُردو زبان سیکھے، تاکہ وہ ہماری اردو کتابوں کو سمجھ سکے۔ جو شخص میری اِس بات پر عمل نہ کرے، وہ فکری اندھیرے اور کنفیوژن میں جینے پر مجبور ہوگا۔ وہ اسلام کو اُس کے حقیقی مفہوم میں سمجھنے سے قاصر رہے گا۔ اس لیے میں اِس معاملے میں سی پی ایس ٹیم کے کسی ممبر کو مستثنیٰ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
عالمی سطح پر لٹریچر کی اشاعت
میرے علم کے مطابق، میری اردو کتابیں، اسلام کی درست تعبیر کو معلوم کرنے کا واحد ذریعہ ہیں، اِس مقصد کے لیے دوسرا کوئی لٹریچر مفید نہیں۔ میری تمام کتابوں کی اُردو اور دیگر زبانوں میںاشاعت کے لیے آپ کو اپنی تمام تر کوششیں صرف کرنا ہے۔ آپ کو لازماً یہ کوشش کرنا ہے کہ میری تمام کتابیں عالمی سطح پر اشاعت کے لیے چھپ کر تیار ہو جائیں۔ بہت سارا مٹیریل جو میں نے اُردو میں تیار کیا ہے، ابھی اُس کو چھپنا باقی ہے۔ آپ کو لازمی طورپر اُس مٹیریل کی بھی اشاعت کرنا ہے۔ اِس سارے مٹیریل کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ اور عالمی سطح پر اس کی اشاعت ضروری ہے۔
ہم کو تمام انسانوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کا بھرپور طورپر استعمال کرنا ہوگا۔ میری کتابوں کے علاوہ ، میری سیکڑوں تقاریر کی آڈیو اور ویڈیو رکارڈنگ ہوچکی ہے۔ آپ کو ٹیلی ویژن، ریڈیو، آڈیوکیسٹ، سی ڈی، وی سی ڈی اور ڈی وی ڈی اور میڈیا کے ذریعے ان چیزوں کو ہر ممکن طریقے سے دنیا کے ہر انسان تک پہنچانا ہے۔
سارے انسانوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا، ہمارا مشن ہے۔ مشن کی اِس نوعیت کا تقاضا ہے کہ ہمارے اندر بولنے کی صلاحیت(speaking skill) ہو۔ اس لیے دوسری سرگرمیوں کے ساتھ ضروری ہے کہ ہمارے مشن کے تمام افراد اپنے آپ کو پبلک اسپیکنگ (public speaking) کے لیے تیار کریں۔
موجودہ زمانے میں تقریباً روزانہ میٹنگ، کانفرنس اور سیمنار ہوتے ہیں۔ اِس میں ہر مذہب کے لوگوں کو اپنا پیغام دینے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ہم کو اِس طرح کے تمام مواقع کو استعمال کرناچاہیے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے مشن کا ہر فرد ایک اچھا اسپیکر(speaker) ہو۔ میرا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ مشن کا ہر فرد خطیب(orator) بن جائے، تاہم مشن کے ہر آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سادہ طورپر ایک اسپیکر بنے۔
ہمارا مشن ایک ربّانی مشن ہے اور ’خطابت‘ کا طریقہ اِس کے لیے مفید نہیں، ہم کو صرف اُن لوگوں کی ضرورت ہے جو سادہ اور واضح انداز میںاپنا پیغام پہنچاسکیں۔ اِس لیے ہم کو اِس مقصد کے لیے بولنے والوں کی ضرورت ہے، نہ کہ خطابت کرنے والوں کی۔
پروگرام ساز افراد
مجھ سے کئی بار یہ سوال کیاگیا ہے کہ آپ کے مشن کا پروگرام کیا ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ایک داعی کو اس طرح کے مختلف حالات سے گذرنا پڑتا ہے کہ اپنی دعوتی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی ایک پروگرام اس کے لیے کافی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میںاِس طرح کے سوال کا جواب ہمیشہ یہی دیتا ہوں کہ— ہمارا کام پروگرام ساز افراد تیار کرنا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے انسان بنیں جن کے اندر دعوتی اسپرٹ پوری طرح بھری ہوئی ہو۔ یہ دعوتی اسپرٹ اِس بات کے لیے کافی ہوجائے گی کہ آپ مختلف حالات میں خود اپنا دعوتی پروگرام بناسکیں۔ میںنے آپ کو ایک داعی کا واقعہ بتایا تھا۔ وہ ایک ڈاکٹر کو اسلام کی دعوت دینا چاہتے تھے۔ اُن کے اندر دعوتی اسپرٹ بھری ہوئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ مذکورہ ڈاکٹر سے مل کر کچھ دعوتی چیزیں کسی طرح وہ ڈاکٹر کو پڑھنے کے لیے دے سکیں۔
چناں چہ انھوں نے مذکورہ ڈاکٹر کے کلنک کا ایک کارڈ لیا۔ اور اِس طرح وہ مریضوں کی لائن میں کافی دیر تک اپنی باری آنے کے انتظار میںکھڑے رہے، یہاں تک کہ وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیے۔ ڈاکٹر نے اُن سے پوچھا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں صرف آپ کو کچھ ریڈنگ مٹیریل دینے کے لیے آیا ہوں۔ یہی ایک سچے داعی کی صفت ہے۔ وہ کسی پیشگی پروگرام کا انتظار نہیں کرتا۔ وہ صورتِ حال کے مطابق،خود اپنا پروگرام بنا لیتا ہے۔ اُس کو صرف اسی بات کی دھن ہوتی ہے کہ کس طرح خدا کا پیغام سارے انسانوں تک پہنچ جائے۔
اخوان رسول کا رول
میںنے کئی بار آپ کے سامنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کی ہے جس میں آپ نے اپنے ’اخوان‘ کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا: وددتُ أَنّا قدرأینا إخواننا، قالوا: أولسنا إخوانک یا رسول اللہ، قال أنتم أصحابی وإخواننا الذین لم یأتوابعد۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث :
مذکورہ حدیث میں پیغمبر اسلام نے اپنے جن ’اخوان‘ کے متعلق بتایا ہے، اُن سے مرادوہ اہلِ ایمان ہیںجو معرفت کی سطح پر رسول کو پہچانیں گے اور بعد کے زمانے میں وہ دعوتی مقصد کے لیے اٹھیں گے، تاکہ سارے انسانوں کوخدا کا ابدی پیغام پہنچا دیں۔اخوانِ رسول معروف معنوں میں کوئی ٹائٹل نہیں، بلکہ وہ ایک ذمے داری ہے۔
’اخوانِ رسول‘ کا لفظ ہزارسال سے پُر اسرار بنا ہوا ہے۔ تاریخ کے کسی دور میں یہ واضح نہ ہوسکا کہ یہ کون لوگ ہوں گے اور مستقبل میںان کا رول کیا ہوگا۔اسلامی تاریخ میںجس طرح، امکانی طورپر، یہ لفظ پہلی بار ایک گروپ پر منطبق ہورہا ہے اُسی طرح یہ بھی پہلی بارواضح ہورہا ہے کہ اخوانِ رسول کا رول کیا ہوگا۔
اِس حدیث سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مابعد سائنس دَور(post scientific era) میںدعوت الی اللہ کا پیغمبرانہ رول ادا کرنا ابھی باقی ہے، یعنی آج کی زبان میں خدائی سچائی کو اُس کی خالص اور بے آمیز صورت میں انسانوں کے سامنے پیش کرنا۔
سی پی ایس انٹرنیشنل اور الرسالہ مشن کی دعوتی ٹیم ’اخوانِ رسول‘ کے اِس ٹائٹل کے لیے امکانی امیداوار(potential canditates) گروپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ میں سے ہر عورت اور مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس امکان کو واقعہ بنائے۔
اِس امکان کو واقعہ بنانا اِس طرح ممکن ہے کہ سب سے پہلے آپ خود اسلام کی معرفت حاصل کریں۔ اور اُس کے بعد قرآن کے صحیح انگریزی ترجمے کی اشاعت اور الرسالہ کی مطبوعہ کتابوں کو دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا کام کریں۔ اور اِس طرح حقیقی معنوں میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر سارے انسانوں کی خیر خواہی کی اسپرٹ موجود ہو۔ آپ سارے انسانوں کے حقیقی خیر خواہ بن کر اٹھیں۔ آپ کے دل میں ہر ایک کے لیے محبت اور ہمدردی ہو۔ آپ کا ٹارگیٹ کیا ہو، اس کو ایک حدیث میںاِن الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقیٰ علی وجہ الأرض بیت مدر و لا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام (مسنداحمد، مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:
یہ کوئی پر اسرار بات نہیں۔ یہ حدیث کی زبان میں امکاناتِ دعوت کا اظہار ہے۔ یہ اُس دور کی پیشین گوئی ہے جب کہ ذرائع ابلاغ کا ظاہرہ سامنے آئے گا اور اُس کو استعمال کرکے ہر انسان تک کلمۂ اسلام کو پہنچانا ممکن ہوجائے گا۔ یہ کام صرف اِس طرح ممکن ہے کہ ہم دعوتی مشن کے ساتھ جینے اور مرنے کا عزم کرلیں۔ اور اِس کام کو اپنا اوّلین کنسرن(primary concern) بنا کر بقیہ تمام دوسری چیزوں کو اپنی زندگی میں ثانوی(secondary) حیثیت دے دیں۔
رائے کی قربانی
عمرۃ الحدیبیہ (
’’اے لوگو، اللہ نے مجھے سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پس تم میرے بارے میں اختلاف نہ کرو، جیسا کہ حواریوں نے عیسیٰ بن مریم سے اختلاف کیا۔ آپ کے اصحاب نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عیسی بن مریم نے انھیں اُس چیز کی طرف بلایا جس کی طرف میںنے تمھیں بلایا ہے۔ پس جس کو انھوں نے (دعوتی مقصد کے لیے) قریب کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اُس پر راضی ہوگیا اور اُس نے اُس کو مان لیا، اور جس کو انھوں نے دُور کے علاقے کے طرف بھیجا تو وہ اُس کو ناگوار معلوم ہوا اور اُس نے اُس پر گرانی محسوس کی۔ عیسیٰ بن مریم نے اللہ سے اِس کی شکایت کی۔ تو جن لوگوں کو ناگواری ہوئی، اُن کا حال یہ ہوا کہ اُن میں سے ہر ایک اُس قوم کی زبان بولنے لگا جس کی طرف اُس کو جانے کے لیے کہاگیا تھا۔‘‘ (سیرۃ النبی لابن ہشام، جلد اوّل، صفحہ:
اِس لیے میں آپ سے کہوں گا کہ دعوتی مشن کے لیے اتحاد بہت ضروری ہے۔ اتحاد کا مطلب ہے— اختلاف کے باوجود متحد رہنا۔ آپ کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ — اتحاد ہماری طاقت ہے اور اختلاف ہماری کمزوری:
United we stand, divided we fall.
آپ اِس حدیثِ رسول کو اپنے ذہن میں ہمیشہ تازہ رکھیں: مَنْ شذّ شُذَّ إلی النار (الترمذی، کتاب الفتن) یعنی جو شخص اجتماعیت سے الگ ہوا، وہ آگ میں جائے گا۔ یہ حدیث بہت اہم ہے۔اِس حدیث میںاختلاف سے مراد نفسیاتِ اختلاف ہے، نہ کہ مجرّد گروہی اختلاف۔ یعنی اصل برائی عملاً کسی گروہ سے کٹنا نہیں ہے، بلکہ اختلاف برپا کر کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ اس لیے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ کبھی بھی اختلافات کو عُذر (excuse) بنا کر دعوتی مشن سے الگ نہ ہوں۔ خدا اس معاملے میں آپ کے کسی بھی عذر کو قبول نہیں کرے گا۔
کوئی آدمی جب کوئی رائے قائم کرتا ہے تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُسی کی رائے درست ہے۔ ایسا صرف اُس کی اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسی لیے بجا طور پر کہاگیا ہے کہ —کسی آدمی کے لیے سب سے بڑی قربانی اپنی رائے کی قربانی ہے۔ اِس لیے آپ کو اپنی رائے کی قربانی دینی ہوگی۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی قربانی ہے۔ یہی وہ قربانی ہے جس کی قیمت پر آپ متحد ہو کر اپنا دعوتی فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔
نیا فیصلہ
دعوتی کام کے دوران آپ کو بار بار نیافیصلہ لینا ہوگا۔نیے نیے مسائل کا حل دریافت کرنا ہوگا۔ جب آپ کوئی فیصلہ لینا چاہیں تو آپ درج ذیل اصولوں کو سامنے رکھیں:
1 - سب سے پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ اسلام کے اصل ماخذ قرآن اور حدیث اور اُسوۂ صحابہ، میںاُس مسئلے کا حل کیا ہے۔
2 - اگر آپ اصل ماخذ (قرآن اور حدیث) میںاپنے مسئلے کا حل نہ پاسکیں تو آپ باہمی مشورے سے اُس مسئلے کو حل کریں۔
3 - اگر آپ باہمی مشورے سے کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکیں تو یہ دیکھیں کہ اکثریت کا عمل (majority rule) کیا ہے۔
4 - اگر اکثریت کی رائے سے بھی کوئی نتیجہ سامنے نہ آسکے تو آپ قرعہ اندازی (drawing of lots) کا طریقہ اپنائیں۔
مذکورہ طریقِ کار میں سے کسی بھی طریقِ کار کو اپنا کر آپ ضرور کسی فیصلے تک پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کسی معاملے میں خود میری رائے کیا ہوگی تو آپ اُس کو میری لڑکی ڈاکٹر فریدہ خانم سے معلوم کرسکتے ہیں۔
انھوں نے قربانی کی حد تک اپنی پوری زندگی میری تربیت میں گذاری ہے۔ میرے نزدیک وہ میرے مزاج اور میری تحریروں سے سب سے زیادہ واقف ہیں۔ اِس لیے اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کسی خاص معاملے میں میری رائے کیا ہوگی تو آپ اس کو فریدہ خانم سے معلوم کریں۔ انشاء اللہ اُن سے آپ کو صحیح رہنمائی مل جائے گی۔
میری دعا ہے کہ خدا آپ کی مدد کرے اور آپ اپنی دعوتی ذمے داریوں کو بھر پور طورپر ادا کرکے ’اخوانِ رسول‘ کا رول ادا کرسکیں۔ اور ’اسلام کا کلمہ‘ سطح زمین کے ہرگھر میں پہنچ جائے۔
کرنے کا کام
الرسالہ مشن اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت جو پُر امن دعوتی کا کام کرنا ہے، وہ بنیادی طورپر ایک درست انگریزی ترجمۂ قرآن کی اشاعت اور تقاریر کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹ اور میری دوسری کتابوں کی توسیع و اشاعت ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے کہ وہ دنیا کو قرآن کا ایک درست انگریزی ترجمہ دینے میںناکام رہے۔ خدا اُس وقت تک ہم پر اپنی رحمت کے دروازے نہیںکھولے گا جب تک ہم اِس کام کو اپنی اولین ترجیح کی حیثیت سے انجام نہ دے دیں۔ اِس لیے جلد ازجلد ہم کو قرآن کا ایک درست انگریزی ترجمہ تیار کرنا ہے۔
قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ تیار ہو کر انشاء اللہ گڈ ورڈ بکس (Goodword Books) سے شائع ہوگا۔ دوسرا سب سے زیادہ ضروری کام، تمام ممکن ذرائع کو استعمال کرکے اِس کو عالمی سطح پر تمام انسانوں کے درمیان پھیلانا ہے۔
قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ خدائی پیغام کے متن (text) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور صرف قرآن کے ایک درست ترجمے کی اشاعت اور اس کی توسیع کرکے ہم قیامت کے دن خدا کے سامنے یہ کہہ سکتے ہیں کہ— خدایا، میں نے تیری کتاب ہدایت کا صحیح ترجمہ تمام انسانوں تک پہنچا دیا:
O my lord, I have delivered the correct translation of Your book of guidance to mankind.
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا: ألاہَل بلّغت۔ یعنی کیا میںنے خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیا۔ صحابہ نے اِس کے جواب میں کہا: نشہد أنک قد بلّغتَ وأدّیتَ ونصحتَ۔ یعنی ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کا پیغام پوری خیر خواہی اور امانت کے ساتھ ہم تک پہنچا دیا۔
ہمارے اندر بھی یہی احساس ذمے داری ہونا چاہیے کہ ہم خدا کے پیغام کو ہر انسان تک پہنچا دیں اور کوئی چھوٹا اور بڑا گھر ایسا باقی نہ رہے جہاں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے۔
جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ کام ان کتابوں کے انگریزی ترجمے کی اشاعت سے ہوگا۔ کیوں کہ آج دنیا کی آبادی کا ساٹھ فی صد حصہ انگریزی زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ اُس کے بعد حالات کے مطابق، یہ کام دوسری زبانوں تک وسیع ہوگا۔ اِس اشاعتی کام کے بنیادی طورپر چند اجزا ہیں:
1 - قرآن کا صحیح انگریزی ترجمہ کم قیمت پر ساری دنیا میں پھیلانا (قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ خدا کے فضل سے سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت زیرتیاری ہے)۔
2 - ’تذکیر القرآن‘ کا ہندی ترجمہ چھپ کر تیارہوگیا ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کو اپنی ساری کوشش صرف کرکے زیادہ سے زیادہ انسانوں تک اس کو پہنچانا ہے۔
3 - الرسالہ مشن کی مطبوعہ کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا۔ مثلاً تذکیر القرآن، مطالعۂ سیرت، مطالعۂ حدیث، مذہب اور جدید چیلنج (God Arises) ، اِن سرچ آف گاڈ(In Search of God) اسلام ری ڈسکورڈ(Islam Rediscovered)، آئڈیا لوجی آف پیس(Ideology of Peace)، کریشن پلان آف گاڈ(Creation Plan of God) ،وغیرہ۔ اِس کے علاوہ، آپ اپنے علاقوں میں لائبریری اور اسٹڈی فورم قائم کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے ان کتابوں تک رسائی ممکن ہوسکے۔
4 - چھوٹے چھوٹے دعوتی کتابچے(Dawah Booklets) تقریباً تیس کی تعداد میں چھپ چکے ہیں۔ ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا، یہاں تک کہ وہ تمام تعلیم یافتہ انسانوں تک پہنچ جائیں۔
5 - ’ڈوائن لائٹ سیریز‘ پمفلٹ بھی چھپ کرتیار ہوچکے ہیں۔ یہ پمفلٹ امن اور روحانیت اور اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ آدمی اِن مطبوعہ کتابچوں کو ایک نشست میں پڑھ سکتا ہے۔ یہ پمفلٹ مدعو کے ساتھ دعوتی کام کرنے کے لیے معیاری پمفلٹ ہیں۔ اِن کے ذریعے آپ اسلامی تعلیمات اور تصورات(concepts) کو نہایت آسانی کے ساتھ اپنے مدعو تک پہنچا سکتے ہیں۔ آپ کو اِن دعوتی پمفلٹ کے ذریعے اپنے اِرد گرد کے تمام لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچانے میںاپنی کوشش صرف کرنا ہے۔
6 - الکٹرانک میڈیا کی اہمیت کو سمجھنا اور دعوتی مقصد کے لیے اس کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہوگا۔ میرے دعوتی لکچر مختلف چینل پر ٹیلی کاسٹ ہورہے ہیں۔ مثلاً: ’گُڈ لائف سیریز‘ — زی جاگرن پر، ’رازِ حیات سیریز‘ — اے آروائی پر، وغیرہ۔ خدا کے فضل سے ہم ’قرآن اور احادیثِ رسول سیریز‘ کو بھی رکارڈ کررہے ہیں۔ اِسی طرح ’حیاۃ الصحابہ سیریز‘ اور اِس کے علاوہ ’حکمتِ ربّانی سیریز‘ بھی تیار کررہے ہیں۔
اب آپ کو یہ کرنا ہے کہ آپ اِن چیزوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ آپ اپنے علاقوں میںاپنے طور پر بھی ان پروگراموں کو کسی ٹی وی چینل یا ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے نشرکرسکتے ہیں۔
میرے دعوتی لکچر کے آڈیو کیسٹ بھی تیار ہوچکے ہیں۔ اِس وقت اُن کے درج ذیل چھ سیٹ دستیاب ہیں:
1 - ارکان اسلام -2 درسِ حدیث
3 - اسلامی تعلیمات 4 - رسول اللہ ﷺ کا طریقِ کار
5 - تعارفِ اسلام 6 - دعوتِ اسلام
مختلف موضوعات پر وی سی ڈی(VCDs) تیار ہوچکے ہیں۔ مثلاً: ’امن اور تشدد‘ (Peace and Non-violence) اور ’فطرت اور روحانیت‘(Nture as a role Model) ، وغیرہ۔
اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر ہم آڈیو کیسٹ، آڈیو سی ڈی، وی سی ڈی اور ڈی وی ڈی بھی تیار کررہے ہیں۔ آپ اِن کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ اپنے طورپر آپ ان چیزوں کو مقامی ٹی وی چینل پر نشر کرسکتے ہیں۔
خدا کے ابدی پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کے لیے ہم نے اپنے ویب سائٹ بھی درج ذیل عنوان سے تیار کرلیے ہیں:
www.alrisala.org
www.cps.org.in/cpsglobal.org
آپ زیادہ سے لوگوں کو اِن ویب سائٹس کے متعلق آگاہی دیں۔ مذکورہ وسائل ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو متحد ہو کر خدا کا پیغام ہندستان میںاور پھر ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچانا ہے۔
ہندستان میںدعوت الی اللہ
حدیث ِ رسول میں ہم کو یہ پیشین گوئی ملتی ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لیے ہندستان میںایک مخصوص گروہ (عصابۃ) اٹھے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں — عصابۃ تغزوا الہند(نسائی، کتاب الجہاد، باب غزوۃ الہند) یعنی ایک گروہ ہے جو ہندستان میں غزوہ کرے گا، یہاں ’غزوہ ‘ سے مراد دعوتی جدوجہد ہے۔
یہ مخصوص دعوتی گروہ انڈیا میںبھی دعوت الی اللہ کا کام اُسی طرح کرے گا جس طرح وہ عالمی سطح پر دعوت الی اللہ کے کام کو انجام دے گا اور لوگوں کو جنت کا راستہ دکھائے گا۔ میںپورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حدیث میں جس دعوتی گروہ کی پیشین گوئی کی گئی ہے، وہ امکانی طورپر سی پی ایس انٹرنیشنل اور الرسالہ مشن کی دعوتی ٹیم ہے۔
خدا کی طرف سے اِس بات کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ ہندستان میںدعوت الی اللہ کا کام اس طرح منظم ہو کہ اُس کے ذریعے لوگ خدا کی ابدی رحمت کے سایے میں آسکیں۔ مذکورہ حدیث میں بتایا گیاہے کہ ہندستان میںاٹھنے والا یہ دعوتی گروہ عذاب جہنم سے محفوظ رہے گا (أحرزہما اللہ من النار)، جنت کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جائیں گے اور یہ لوگ خدا کی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
اس لیے سی پی ایس کی ٹیم کو اس دعوتی کام میں پورے یقین کے ساتھ کامل طورپر شامل ہوجانا ہے۔ سی پی ایسی کی ٹیم کے ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس دعوتی گروہ کا ناقابلِ تقسم حصہ بنائے۔ اگر آپ نے اپنی دعوتی ذمے داریوں کو پورا کیا تو خداآپ کو ضرور اُس دعوتی گروہ میں شامل فرمائے گا جس کے لیے اس کی طرف سے پیشگی طورپر خوش خبری اور بشارت دے دی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واحد مشن توحید تھا، یعنی لوگوں کو شرک سے نکال کر ایک خدا کی عبادت کی طرف لانا۔ توحید کا یہ مشن دنیا کے بڑے حصے تک پہنچ چکا ہے۔ اِس معاملے میں صرف ہندستان کا استثنا ہے۔ یہاں شرک اب بھی زندہ شکل میں موجود ہے، کیوں کہ یہاںدعوت الی اللہ کا کام مطلوب انداز میں نہ کیا جاسکا۔ تاہم میرے اندازے کے مطابق، اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہندستان میں دعوت الی اللہ کے لیے وہ گروہ اٹھے جس کی پیشین گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہی دعوتی گروہ وہ ’’عصابۃ‘‘ ہے جس کے لیے خدا کی طرف سے کامیابی کا فیصلہ مقدر ہوچکا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اُس گروہ میں شامل فرمائے۔
واپس اوپر جائیں
1 - پٹنہ بُک فیئر کا شمار ہندستان کے بڑے بک فیئر میں ہوتا ہے۔ یہ بُک فیئر پٹنہ کے مشہور گراؤنڈ گاندھی میدان میں لگتا ہے۔ اس بار پٹنہ میں یہ بُک فیئر یکم نومبر 2006 تا
2 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 6 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق، بابری مسجد سانحے سے تھا جس کو اب چودہ سال ہوچکے ہیں۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ کچھ خود ساختہ لیڈروں کا مسئلہ ہے جو اس مسئلے پرعوام کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ اس سے کوئی مثبت فائدہ نکلنے والا نہیں۔
3 - ماہ نامہ ’افکارِ ملّی‘ (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر اسلم مقبول نے 9 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویور کارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا— مسلم تنظیمیں، جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلم تنظیموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مثبت طرز فکر کو اپنائیں۔ مثبت طرزِ فکر ہی تمام ترقیوں کا ذریعہ ہے۔
4 - نئی دہلی کے اُردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر اسجدنواز نے
5 - دوردرشن (نئی دہلی) کی ٹیم نے
6 - این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 30 دسمبر 2006 کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو کارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر اوما شنکر تھے۔ سوالات کا تعلق، صدر صدام حسین کی پھانسی سے تھا جو آج ہی عراق میں پیش آئی ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ جو کچھ ہوا اُس کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ صدام حسین نے تقریباً 30 سال تک عراق پر ڈکٹیٹرانہ حکومت کی، لیکن آخرمیں انھو ںنے عراقیوں کے نام اپنے ایک پیغام میںعراقیوں کو مثبت طرزِ فکر کا پیغام دیا۔ انگریزی رپورٹنگ میںان کے یہ الفاظ نقل کیے گیے ہیں:
I call on you not to hate Americans, because hate closes all doors of thinking.
یہ بلاشبہہ ایک صحیح پیغام ہے۔ اور نہ صرف عراقیوں کو بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو اِس پر عمل کرنا چاہیے۔
7 - دینک ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر احمد نے
8 - مسٹر باوا جین (مقیم امریکا) اور مسٹر رمیش بھنڈاری (سابق گورنر، یوپی) کی قیادت میںایک تنظیم ’ہندو۔جوئش سمٹ‘ بنی ہے۔ اُس کے تحت 7 فروری 2007 کو ایک ڈائلاگ ہوا۔ یہ پروگرام نئی دہلی کے ہوٹل ’آبرائے کانٹی ننٹل‘ میں منعقد کیا گیا۔ اس میں اسرائیل اور دوسرے مقامات کے یہودی مذہب کے بڑے بڑے پیشوا شریک ہوئے تھے۔اس کا موضوع یہ تھا کہ— اسرائیل اور فلسطین میںامن کس طرح قائم کیا جائے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے مسئلے کا حل بتایا۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور وہ ہر حال میں امن کو قائم کرنا چاہتا ہے۔
9 - صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط مورخہ
محترمی و مکرمی جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الرسالہ جنوری 2007 کا شمارہ بعض حقائق کے انکشاف کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ میںہمیشہ اس احساس سے رنجیدہ رہاہوں کہ آپ ایک مظلوم ترین انسان ہیں۔ گزشتہ تقریباً چالیس سال سے آپ مسلمانوں کو جو مشورے دیتے آئے ہیںاور جن کے صلے میں آپ کو کیا کیا نہ ذہنی اذیتیں برداشت کرنی پڑی ہیں، آج ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کسی اعتراف اور احساس ندامت کے بغیر ان پر عمل کررہے ہیں۔ مالے گاؤں ہی کی مثال لے لیجئے۔ ستمبر 2006 کو یہاں بم دھماکے ہوئے، 30 افراد ہلاک اور 300 افراد زخمی ہوئے۔ مسلمانوں کے اس صبر کی تمام طبقوں کی جانب سے خوب خوب تعریفیں ہوئیں اور ابھی بھی ہورہی ہیں۔ پولیس افسران، سیاست دان، وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ شیوراج پاٹل اور سونیا گاندھی نے بھی مسلمانوں کے اس صبر و ضبط کی سراہنا کی۔ حالاں کہ یہ صبر مسلمانوں نے ’بعد از خرابی ٔ بسیار‘ کیا ہے۔ 2001کے فسادات میں مالے گاؤں کے اطراف و جوانب کے لگ بھگ
اس سب کے باوجود کسی شخص میں یہ اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ یہ اعتراف کرے کہ آپ طویل عرصے سے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیتے آئے ہیں۔ آج جب مختلف طبقات کی جانب سے علما کی رہنمائی کی تعریفیں ہورہی ہیں تو یہ حضرات بڑے آرام سے کسی احساس اور اعتراف کے بغیر اس کریڈٹ کو اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
تازہ الرسالہ میں دی گئی خط و کتابت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اور بھی کئی طریقوں سے آپ کی حق تلفی اور آپ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ دین کو عصری اسلوب میںآپ پیش کررہے ہیں تاہم کچھ لوگ ہیں جو بے بنیاد طور پراس کا سہرا اپنی اپنی محبوب شخصیتوں کے سرباندھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اِس سے غلط ذہن بنتا ہے۔ دار الدعوہ کا تصوربھی سب سے پہلے آپ نے پیش کیا، لیکن کوئی بھی اس کااعتراف نہیں کررہا ہے۔ اتنا ہی نہیںبلکہ کچھ لوگ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا بھی کریڈٹ خود لے رہے ہیں۔ دیانت داری کا تقاضا اور ضمیر کی آواز وغیرہ ایسے لوگوں کے نزدیک سب سے معنیٰ ہیں۔ افسوس، صدافسوس، یہ اُن لوگوں کا حال ہے جو شب وروز اخلاقیات کا درس دیتے ہیں۔ (رمضان شکور، مالے گاؤں)
10 - شہر بہرائچ (یوپی) میں برادرم رفیع احمد انصاری (بھٹے والے Tel. 941 544 2201) اور بر ادرم عبد اللہ انصاری کے مخلصانہ تعاون سے الرسالہ مشن کے دعوتی لٹریچر کی اشاعت اور توسیع کے لیے ایک اسٹڈی فورم قائم کیاگیا ہے۔ اس کے تحت، تعلیم یافتہ حضرات کی ایک ٹیم نے الرسالہ کی مطبوعات کا اجتماعی طورپر مطالعہ شروع کردیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.