کسی مقصد کے حصول کے لیے ہمیشہ زبردست کوشش کرنی پڑتی ہے۔ پچھلے زمانے میں ایسی کوشش کو جدوجہد (struggle) کہا جاتا تھا۔ اڈولف ہٹلر (وفات ۱۹۴۵) نے ۱۹۲۳ میں اپنی مشہور کتاب لکھی، جب کہ وہ جرمنی کی جیل میں تھا۔ اِس کتاب میں اس نے اپنی ’’نازی تحریک‘‘ کا تعارف بیان کیا تھا۔ اس کتا ب کا نام اس نے میری جدوجہد (My Struggle) رکھا۔ جرمن زبان میں اس کا نام مین کامف(Mein Kampf) تھا۔ موجودہ زمانے میں اس مفہوم کے لیے ایکٹوزم (activism) کا لفظ بولا جاتا ہے، جو بعض اعتبار سے زیادہ با معنیٰ ہے۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بنیادی طورپر ایکٹوزم کے دو طریقے ہیں— وائلنٹ ایکٹوزم، اور نان وائلنٹ ایکٹوزم ، مگر یہ تقسیم ناقص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک تیسرا طریقہ بھی موجود ہے اور وہ اسپریچول ایکٹوزم ہے۔ اسپریچول ایکٹوزم کا دوسرا نام دعوہ ایکٹوزم ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِس تیسرے طریقے کے لیے دعوہ ایکٹوزم کا لفظ استعمال کریں گے۔ یہاں ان تینوں طریقوں کے بارے میں مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
وائلنٹ ایکٹوزم(Violent Activism)
وائلنٹ ایکٹوزم میں آدمی کا طریقِ فکر کیا ہوا ہے، اس کا اندازہ چین کے کمیونسٹ لیڈر ماؤزی تنگ (Mao Tse-Tung) کے اِس مشہور قول سے ہوتا ہے— طاقت بندوق کی نالی سے نکلتی ہے:
Power flows from the barrels of gun.
وائلنٹ ایکٹوزم ایک نگیٹیو ایکٹوزم ہے، اور یہ لا آف نیچر ہے کہ نگیٹیو ایکٹ سے کبھی پازیٹیو رزلٹ نہیں نکل سکتا۔ جو عمل اپنے آغاز میں منفی ہو، وہ اپنے اختتام پر بھی منفی ہی رہے گا۔ منفی آغاز کبھی مثبت انجام کا باعث نہیںہوسکتا۔
وائلنٹ ایکٹوزم کا نتیجہ ہمیشہ بدترین تباہی کی صورت میں نکلتا ہے، جیسا کہ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کے ساتھ پیش آیا۔ جرمن ڈکٹیٹر ہٹلر غالباً تاریخ کا سب سے بڑا جنگ جو اور سب سے بڑا تشدد پسند انسان تھا۔ اس نے جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے ذریعے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہا، مگر وہ مکمل طورپر ناکام رہا۔ آخر میںاس نے برلن کے ایک بنکر میں خود کشی کرلی، جب کہ اس کے تمام ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ آخر وقت میں اس نے کہا تھا کہ اب جنگ کا دور ختم ہوچکا، اب اگر جنگ ہوگی تو اس میں کوئی فاتح نہ ہوگا۔ صرف یہ ہوگا کہ کچھ لوگ جنگ کی عمومی تباہی سے بچ جائیں گے:
No Victors, Only Survivers.
ہٹلر کو توجنگ میں مکمل شکست ہوئی تھی، لیکن جنگ ایسی تباہ کُن چیز ہے کہ اس میں فتح بھی شکست ہی کی ایک دوسری قسم ہوتی ہے۔ شکست نُما فتح کی کئی واضح مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔ یعنی ایسی فتح جس میں فاتح نے فتح کے باوجود اپنا سب کچھ کھو دیا ہو۔ بظاہر فتح، لیکن حقیقت کے اعتبار سے صرف شکست۔
قبل مسیح یونان میں پیدا ہونے والا بادشاہ پائرس (Pyrrhus) اِس معاملے کی ایک مثال ہے۔ اس کی لڑائی مقدونیہ (Macedonia) کے حکمراں سے ۲۷۵ قبل مسیح میں ہوئی۔ اِس لڑائی میں بظاہر پائرس کو فتح ہوئی، لیکن اِس فتح کو حاصل کرنے میں اس نے اپنی ساری طاقت کھودی تھی۔ اِس کے بعد اس کی سلطنت اتنی کمزور ہوگئی کہ ۲۷۲ قبل مسیح میں خوداس کو بھی قتل کردیاگیا۔ چناں چہ اِس قسم کی شکست نما فتح کو پِرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کہا جاتا ہے۔
کسی مقصد کے حصول کے لیے ہتھیار کو بطور طریقِ کار استعمال کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صورت موجودہ(status quo) کو توڑکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اِس طریقِ کار کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورے سماج میں نفرت، تشدد، لاقانونیت، انارکی اور اِن ٹالرنس جیسی منفی چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا سماج منفی سرگرمیوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔
جس ماحول میں لوگوں کے اندر پُرتشدد طریقِ کار کا مزاج ہو، وہاں ڈیماکریسی کبھی نشو نما نہیں پاتی۔ ایسے ماحول میں ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ جنم لیتی ہے۔ اور جہاں ڈکٹیٹر شپ ہو، وہاں آزادیٔ رائے کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اور آزادیٔ رائے کا خاتمہ ہمیشہ ذہنی ترقی کے خاتمے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اِس صورتِ حال کی ایک مثال ستّاون مسلم ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ان ملکوں میں ہر جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہے، اور اس کے نتیجے میں وہاں ذہنی ارتقا کا عمل رک گیا ہے۔
پُر تشدد طریقِ کار عملاً بد امنی کے ہم معنی ہے۔ کیوں کہ ایک فریق کی طرف سے تشدد کا استعمال دوسرے فریق کو تشدد کا جواز فراہم کردیتا ہے۔ اِس طرح پورا ماحول لازمی طورپر دو میں سے ایک بُرائی میں مبتلا ہوجاتا ہے— ذہنی تشدد، جس کا دوسرا نام نفرت ہے، یا عملی تشدد جو خوں ریزی کی صورت میں پورے سماج کو حیوانی سماج میں تبدیل کردیتا ہے۔
پُر تشدد طریقِ کار کا سب سے زیادہ بھیانک نقصان یہ ہوتا ہے کہ ذہنی ارتقا کا عمل رُک جاتا ہے۔ ذہنی ارتقا، لازمی طورپر آزادیٔ رائے چاہتا ہے۔ آزادانہ فکری عمل کے بغیر ذہنی ارتقا نہیںہوتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جن ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہے اور نتیجۃً آزادیٔ رائے پر پابندی لگی ہوئی ہے، وہاں کوئی آدمی اتنا بڑا علمی کام نہیں کرپاتا کہ اس کو نوبل پرائز جیسا عالمی انعام دیا جائے۔ ایسے ملکوں میں پیدا ہونے والے کسی شخص کو اگر کوئی نوبل پرائز ملا ہے تو ایسا صرف اُس وقت ممکن ہوا ہے جب کہ وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر مغرب کے آزاد ملکوں میں جاکر آباد ہوگیاہو۔
نان وائلنٹ ایکٹوزم (Non-violent Activism)
موجودہ زمانے میں نان وائلنٹ ایکٹوزم ایک مستقل شعبۂ مطالعہ بن گیا ہے۔ اِس شعبۂ مطالعہ کو آج کل پیسفزم (pacifism) کہا جاتا ہے۔ انسائکلوپیڈیا برٹانیکا میں پیسفزم پردس صفحے کا مقالہ شامل ہے۔ اس مقالے میں بہت سے لوگوں کو پیسفسٹ (pacifist) کی حیثیت سے بتایا گیا ہے۔ اِس موضوع پر ایک انسائکلوپیڈیا بھی چھپی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
An Encyclopaedia of Pacifism (1937)
نان وائلنٹ کی کامیاب عملی مثال کے لیے اس میں صرف مہاتما گاندھی کا حوالہ دیاگیا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ پیسفزم کو بطور اصول ماننے والے تو بہت سے لوگ ہیں۔ لیکن پیسفزم کی بنیاد پر ایک پوری تحریک اٹھانا اور اس کو کامیابی تک پہنچانے کا کام صرف مہاتما گاندھی نے کیا ۔
لیکن اِس معاملے میں مہاتما گاندھی کی مثال صرف پچاس فیصد کی حد تک درست ہے۔ کیوں کہ ان کے مشن کے دو حصے تھے۔ اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ انڈیاسے برٹش رول کا خاتمہ کیا جائے، یہ کام ۱۹۴۷ میں ہوگیا۔ ان کے مشن کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میںایک بہتر سماج کی تعمیر کی جائے، ایک ایسا سماج جس کی بنیاد ’’سیوا‘‘ پر قائم ہو۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے ایک ماڈل گاؤں کے طور پر مہاراشٹر میں ’’سیوا گرام‘‘ کے نام سے ایک گاؤں بسایا تھا۔ حضرت مسیح کے الفاظ کو لیتے ہوئے انھوں نے اپنے اس مشن کو اِس طرح بیان کیا تھا— میرا مشن ہر آنکھ کے آنسو پوچھنا ہے:
My mission is to wipe away tears from all faces.
مگر واقعات بتاتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کے مشن کا دوسرا حصہ ایک فیصد کے درجے میں بھی پورا نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد جب مشن کے دوسرے حصے کے لیے کام کرنے کا وقت آیا تو خود مہاتما گاندھی کے اپنے ملک میں ۱۹۴۸ میں اُن کو گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ ان کے مشن کا دوسرا پہلو ہی اُس کا اصل پہلو تھا، مگر اِس معاملے میں ان کے قریبی آدمیوں نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ مشن کے دوسرے پہلو کے اعتبار سے سخت مایوسی کی حالت میں مرے۔اپنے آخری زمانے میںاِس کا اعتراف انھوں نے خود اِس طرح کیاتھا کہ انھوں نے کہا—’’اب میری کون سُنے گا‘‘۔ مہاتما گاندھی کے اِس قول کو لے کر ایک کتاب لکھی گئی ہے جس کا ٹائٹل ان کا یہی قول ہے:
اب میری کون سنے گا
۱۹۴۷ میں آزادی کے بعد جواہر لال نہرو انڈیا کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انڈیا کے لوگوں میں سب سے زیادہ کمی جس چیز کی ہے، وہ ہے سائنسی مزاج (scientific temper)، مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا کے لوگوں میں سائنسی مزاج نہ ہونا بعد از آزادی دور کا ظاہرہ ہے، ورنہ آزادی سے پہلے کے زمانے میں یہاں سائنسی مزاج ثابت شدہ طورپر موجود تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آزادی کے پہلے کے انڈیا میںاِس پہلو سے ٹاپ کے لوگ پیدا ہوئے۔ مثلاً سی ایس وی رمن، رابندر ناتھ ٹیگور، آرووندو، رادھا کرشنن، راج گوپال آچاریہ اور سوامی وویکا نند، وغیرہ۔ اس قسم کی بہت سی اعلیٰ شخصیتیں آزادی سے قبل کے زمانے میں پیدا ہوئیں، مگر آزادی کے بعد اِس قسم کا کوئی ایک شخص بھی پیدا نہ ہوسکا۔
آزادی کے بعد کے انڈیا میں غیر سائنسی مزاج کیسے آیا۔ اِس کی تمام تر ذمے داری اُس نان وائلنٹ ایکٹوزم پر ہے جس کو حصول آزادی کے لیے یہاں استعمال کیاگیا تھا۔ جواہر لال نہرو آزادی سے پہلے ہندستانیوں کو خطاب کرکے کہا کرتے تھے— غلامی یا آزادی، دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرلو:
Slavery or freedom— choose between the two.
اس قسم کے نعروں کے ذریعے انڈیا کے لوگوں میں جو مزاج پیدا ہوا، وہ یہی غیر سائنٹفک مزاج تھا۔ ۱۹۴۷ سے پہلے انڈیا میں جو سیاسی نظام تھا، وہ صحیح لفظ میں ’’برٹش رول‘‘ تھا۔ ’’غلامی‘‘ در اصل برٹش رول کا بُرا نام تھا جو اس لیے استعمال کیا گیاتاکہ ہندستانیوںکو بھڑ کا یا جاسکے۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں آزادی کی تحریک نان وائلنس کی بنیادپر چلائی گئی تھی۔نان وائلنٹ متھڈکو مؤثر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ موبلائز کیا جائے۔ برٹش رول کا لفظ لوگوں کو زیادہ بھڑکانے والا نہیں بن سکتا تھا،اِس لیے اس کو غلامی کا اشتعال انگیز نام دیا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انگریزی اقتدار کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔
بھڑکانے والے الفاظ بول کر اور اشتعال انگیز تقریریں کرکے یہ فائدہ تو ہوا کہ ہندستانی عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اس طرح نعروں کی سیاست کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ انگریز مُردہ باد جیسے نعرے ہر طرف سنائی دینے لگے، مگر انگریزوں کے خلاف یہ کامیاب سیاست خود انڈیا کے لیے ایک ناکام سیاست ثابت ہوئی۔ اِس بھڑکانے والی سیاست کا یہ براہِ راست نتیجہ تھا کہ ہندستان میں سائنسی مزاج کا خاتمہ ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔
قدیم ہندستان کا سائنسی مزاج اچانک نہیں بنا تھا، بلکہ وہ لمبی روایات کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ درست طور پر کہاگیا ہے کہ کسی سماج میں اِس قسم کی صحت مند روایت کے لیے ایک لمبی تاریخ درکار ہوتی ہے:
It requires a lot of history to make a little tradition.
انڈیا میںنان وائلنٹ موومنٹ کا مائنس پہلو یہ تھا کہ اس کی وجہ سے ماضی کی تمام صحت مند روایتیں ٹوٹ گئیں— قانون کی پابندی کی روایت، تعلیم اور تعلم کی روایت، سماجی میل ملاپ کی روایت، دیانت دارانہ طورپر کام کرنے کی روایت، صلح پسندی کی روایت، بے غرضانہ سروس کی روایت، چھوٹے اور بڑے کے احترام کی روایت، اخلاقی قدروں کی روایت، یہ تمام روایتیں عوام کو موبلائز کرنے کے طوفان میں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوگئیں۔ آج انڈیا میں جو انارکی اور کرپشن ہے، وہ انگریزوں کی وراثت نہیں ہے، بلکہ وہ یقینی طور پر نان وائلنٹ تحریک کی وراثت ہے۔ وائلنٹ تحریک وقتی طورپر کچھ انسانوں کا خون بہاتی ہے، لیکن نان وائلنٹ تحریک سماجی روایات کو توڑ کر نامعلوم مدت تک کے لیے سماج کو نِراج میں مبتلا کردیتی ہے۔ انسان کا قتل بلا شبہہ غلط ہے، لیکن روایات کا قتل اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں دانش مند لوگوں کے درمیان کوئی دو رائے نہیں۔ لمبی مدت کے درمیان رِشیوں اور مُنیوں، سَنتوں اور صوفیوں نے ملک میں جو صالح سماجی روایات قائم کی تھیں، وہ نان وائلنٹ تحریک کے سیاسی ابھیان میںاِس طرح ختم ہوگئیں جس طرح کوئی آندھی تنکوں کو اُڑا کر بکھیر دیتی ہے۔
نئی دہلی (پانئر ہاؤس) میں جنوری ۱۹۹۷ میں ایک سیمنار ہوا تھا۔ اس میں حسب ذیل پانچ افراد نے شرکت کی تھی— رام چندر گاندھی، رویندر کمار، سُبراتا مکھرجی، آر کے ملکانی، اور راقم الحروف۔ اِس سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Could Gandhi have succeeded today?
اِس موقع پر میں نے جو تقریر کی تھی، وہ پوری کی پوری، نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ دی پانئر (The Pioneer) کے شمارہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۷ میں چھپی تھی۔ میری تقریر کے ایک جملے کو لے کر اس کا عنوان اخبار نے اِن الفاظ میں قائم کیا تھا:
Gandhi presided over a non-violent coup, He did not usher in a revolution.
میں نے اپنی تقریر میںکہا تھا کہ مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے یہ سمجھا تھا کہ فارین رول تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ انڈیا میں جب نیشنل رول آجائے گا تو تمام خرابیاں اپنے آپ ختم ہوجائیں گی، مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ صرف ایک غلط اندازہ تھا۔ جن لوگوں نے بھی میری طرح قبل از آزادی، اور بعد از آزادی، دونوں زمانوں کو دیکھا ہے، وہ متفقہ طورپر یہ کہیں گے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے کا زمانہ، ۱۹۴۷ کے بعد کے زمانے سے ہر اعتبار سے بہتر تھا۔ پہلے زمانے میں جو اخلاقی اور انسانی قدریں سماج کے اندر موجود تھیں، وہ بعد کے زمانے میں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ اب پالٹکس اور ایڈمنسٹریشن اور قومی ادارے، سب کرپشن میں غرق ہو کر رہ گیے ہیں، جب کہ برٹش رول کے زمانے میں قطعاً ایسا نہ تھا۔
میری تقریر کے بعد ایک پروفیسر صاحب نے کہا کہ مجھے آپ کی اِس بے جا جسارت پر تعجب ہے کہ آپ فادر آف دی نیشن مہاتما گاندھی پر تنقید کرتے ہیں، آپ کو گاندھی سے محبت نہیں۔ میںنے اِس اعتراض کے جواب میں نرمی کے ساتھ کہا کہ — میں گاندھی سے محبت کرتا ہوں، لیکن میں انڈیا سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں:
I love Gandhi, but I love India more than Gandhi.
تنقید کوئی بُری چیز نہیں۔ سنجیدہ تنقید دراصل ری اسس منٹ (reassessment) کا دوسرا نام ہے۔ اِس قسم کی تنقید زندہ قوموں کی خصوصیت ہے۔ زندہ قوموں کے نزدیک اِس قسم کی تنقید ایک محبوب فعل ہے۔ کیوں کہ اِس سے ملک کی ترقی مسلسل جاری رہتی ہے۔
اس قسم کی صحت مند تنقید ہماری ایک شدید ضرورت ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ ہندستان میںایک بہت بڑی بُرائی رواج پاگئی، وہ ہے ہڑتال، اسٹرائک، بھارت بند، چکّا جام، وغیرہ۔ اِس میں اسمبلی اور پارلمنٹ کے ہنگامے بھی شامل ہیں۔ یہ چیزیں جو حقیقی جمہوریت کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں، وہ براہِ راست طورپر ۱۹۴۷ سے پہلے کی ’’ستیا گرہ‘‘ پر مبنی سیاست کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔اِس پر تنقیدی جائزے کے بغیر اِس تباہ کُن سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔
۵؍اکتوبر ۲۰۰۶ کے اخباروں میں ایک خبر چھپی ہے۔ یہ ورلڈ اکنامک فورمس ایگزیکٹیو اوپی نین سروے (World Economic Forum's Executive Opinion Survery) کی رپورٹ ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار دی ٹائمس آف انڈیا (۵؍اکتوبر ۲۰۰۶) کے صفحہ اول پر یہ رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
India is world's No. 1 bribe payer.
انٹرنیشنل ادارے کی یہ رپورٹ ۱۲۵ ملکوں کے سروے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اس سروے کے مطابق، انڈیا میں کرپشن آخری حد تک بڑھ چکا ہے۔ نیشنل اور انٹرنیشنل دونوں میدان میں انڈیا تمام ملکوں سے آگے ہے:
“India doesn't just have loads of corruption at home, it is also the world leader in exporting graft.” (p. 1)
انڈیا میں رشوت اور کرپشن اتنا زیادہ عام ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے کسی عالمی سروے کی ضرورت نہیں۔ ہر ہندستانی جانتا ہے کہ یہاں کے سرکاری دفتروں میں کوئی بھی کام رشوت کے بغیر نہیںہوتا، جب کہ ۱۹۴۷ سے پہلے برٹش دور کے سرکاری دفتروں میں رشوت کے بغیر ہر کام ہوا کرتا تھا۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ و اقعہ ایک بہت بڑی حقیقت کو بتارہا ہے، وہ یہ کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کے عمل کا نقطۂ آغاز ہی درست نہ تھا۔ وہ ایک بہتر ہندستان بنانا چاہتے تھے۔ اِس حقیقت کے حصول کے لیے انھوں نے برٹش رول کے خاتمے کو اپنا نقطۂ آغاز بنایا، حالاں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ اُن کے لیے اپنے عمل کا صحیح آغاز یہ تھا کہ وہ ملک سے پیسہ پرستی (money worship) کے ذہن کو ختم کریں۔ پیسہ پرستی ہندستان کا مقدس کلچر ہے۔ یہی انڈیا کی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ سنجیدہ مُصلح کا کام یہ ہے کہ وہ انڈیا سے پیسہ پرستی کے کلچر کا خاتمہ کرے۔ یہی اِس ملک میں کسی حقیقی تعمیری تحریک کا پہلا قدم ہے۔ جب تک یہ کام نہ ہو، دوسرا کوئی کام ہمیں اپنے مطلوب نشانے تک نہیں پہنچا سکتا۔
کچھ صنعتی ترقیوں کا حوالہ دے کر یہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے آزادی کے بعد بہت ترقی کی ہے۔ یہ ایک مغالطے کی بات ہے۔ اِس قسم کی مادّی ترقیاں آزادی کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ وہ زمانی حالات کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں صنعتی ترقیوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ صنعتی ترقی کے اِس عمومی سیلاب میں ہر ملک کو اس کا حصہ مل رہا ہے۔ انڈیا میں خواہ کوئی بھی حکومت ہو، اس عالمی سیلاب کا اثر بہر حال انڈیا تک پہنچنا ہی تھا، اور اس کا آغاز خود برٹش دور ہی میں ہوچکا تھا۔
انگریزی زبان کے معاملے میں انڈیا کو امریکا اور برطانیہ کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی زبان کے معاملے میں انڈیا کا یہ تقدم اس کی صنعتی ترقی کا سب سے بڑا سبب ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا کو انگریزی زبان کا تحفہ برٹش رول ہی کے ذریعے ملا تھا۔
وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں بظاہر ایک دوسرے سے مختلف طریقے ہیں، مگر دونوں کے درمیان ایک چیز کامن ہے، وہ یہ کہ دونوں مبنی بَر پرابلم (problem-based ideology) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کا مشترک فکر یہ ہے کہ پہلے پرابلم کو راستے سے ہٹاؤ، اس کے بعد ہی آگے کا سفر طے ہوسکے گا۔
مثلاً انڈیا میں دو ہم عصر لیڈر تھے۔ایک، سُبھاش چندر بوس اور دوسرے، مہاتما گاندھی۔ سبھاش چندر بوس وائلنٹ ایکٹوزم پر یقین رکھتے تھے، جب کہ مہاتما گاندھی نان وائلنٹ ایکٹوزم کے وکیل تھے۔ مگر دونوں کا مشترک فکر یہ تھا کہ انگریزوں کا سیاسی اقتدار ایک ایسا مسئلہ ہے جو انڈیا کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے اس مسئلے کو ختم کیا جائے۔ دونوں لیڈروں کے درمیان فرق صرف یہ تھا کہ سبھاش چندر بوس، اِس پولٹکل پرابلم کو تشدد کے زور پر ہٹانا چاہتے تھے، اور مہاتما گاندھی عدم تشدد کے زور پر اس کو دور کرنے کے حامی تھے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں لیڈروں کی فکر نے مشترک طورپر انسانی تفریق کی بُرائی پیدا کی۔ انگریزاور انڈین دونوں انسان تھے، مگر اِس تحریک نے دونوں کو ایک د وسرے کے خلاف صف آرا کردیا۔
اِس تفریقی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا کی آزادی،کا میڈی (comedy)کے بجائے ٹریجڈی (tragedy)میں تبدیل ہوگئی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت پیدا ہوئی، جو جلدہی فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل ہوگئی۔ اِس منفی نتیجے کو پیدا کرنے میں ہندو لیڈروں کے ساتھ مسلم لیڈر بھی یکساں طورپر شریک ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف اگر گاندھی اور نہرو انگریز کے مقابلے میں اِس تفریقی سیاست کو چلارہے تھے تو دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے مسلم لیڈر بھی اس تحریک میں برابر کے شریک تھے۔ اس لیے اِس منفی سیاست کی ذمے داری دونوں ہی فرقے کے لیڈروں کے اوپر یکساں طورپر عائد ہوتی ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ نان وائلنٹ ایکٹوزم میں ایک بنیادی کمزوری شامل ہے، وہ یہ کہ اجتماعی تحریکوں میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ نیا موڑ آتا ہے، اور نیا فیصلہ لینا پڑتا ہے۔ مثلاً کبھی یُوٹرن لینا پڑتا ہے، کبھی دشمن کو دوست بنانا پڑتا ہے، کبھی آگے مارچ کرنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے، مگر بلا استثنا ہر نان وائلنٹ تحریک میں یہ ہوا ہے کہ اس کے لوگ نیا فیصلہ لینے میں ناکام ہوگیے، وہ بدلے ہوئے حالات میں بدلا ہوا رسپانس نہ دے سکے۔
انڈیا کے حوالے سے اُس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ میںآزادی ملنے کے بعد مہاتما گاندھی نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ اب تم لوگ آل انڈیا کانگریس کو توڑ دو، اس کی جگہ ایک غیر سیاسی پارٹی بناؤ اور اس کے تحت ملک میں وہ منصفانہ سماج قائم کرو جس میں تمام لوگوں کے آنسو پوچھے جاسکیں، مگر مہاتما گاندھی کے مشورے کو ان کے ساتھیوں نے نہیں سنا اور مہاتما گاندھی کا مشن ادھورا ہو کر رہ گیا۔
اِس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مذکورہ قسم کا یُوٹرن لینے کے لیے تیار ذہن (prepared mind) درکار تھا، اور یہ تیار ذہن وہاں سِرے سے موجودہی نہ تھا۔ یہ کمزوری بھی وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم میں یکساں طورپر موجود ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دونوں ہی قسم کی تحریکوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کا آغاز عملی اقدام سے کرتے ہیں، نہ کہ افراد کی ذہن سازی سے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی گہری تحریک کا صحیح آغاز یہ ہے کہ پہلے افراد کی ذہن سازی کی جائے، اور جب ذہن پوری طرح بن چکا ہو تو اس کے بعد عملی اقدام کیا جائے۔ ذہن سازی کے بغیر اقدام کرنے کا مطلب، بغیر تیار ی کے اقدام کرنا ہے، اور جو اقدام تیاری کے بغیر کیا جائے اس کا انجام پیشگی طورپر معلوم ہے، اور وہ ہے مکمل تباہی۔
مزید یہ کہ نان وائلنٹ ایکٹوزم کا انجام ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ آخر میں وہ منافقانہ ایکٹوزم بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کامل نان وائلنس عملی طورپر ناممکن ہے۔ اس لیے اس نظریے کے علم بردار اپنے ابتدائی دور میں زور وشور کے ساتھ نان وائلنس کی بات کرتے ہیں، لیکن بعد کو جب عملی حقائق کا سامنا پیش آتا ہے تو اُس وقت وہ مجبور ہوتے ہیں کہ وائلنس کے ذریعے اپنے مسئلے کو حل کریں۔ اپنے اصول سے اِس انحراف کو جائز ثابت کرنے کے لیے وہ بے بنیاد عُذر پیش کرتے ہیں، جو اُن کے منافقانہ ذہن کو مزید پختہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
اِس معاملے کی عملی مثال خود انڈیا ہے۔ انڈیا نے پولٹکل آزادی عدم تشدد کے ذریعہ حاصل کی، لیکن آزادی کے بعد انڈیا کو متعدد بار اپنا یہ فارمولا چھوڑنا پڑا۔ متعدد بارانڈیا مجبورہوا کہ وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرکے اپنے مسائل کو حل کرے۔
گاندھین ماڈل کا ہندستانی تجربہ بتاتا ہے کہ اس ماڈل کے ذریعے منفی رزلٹ حاصل کرنا تو ممکن ہے، مگر اس ماڈل کے ذریعے پازیٹیو رزلٹ حاصل کرنا ممکن نہیں۔ نان وائلنٹ ایکٹوزم کا گاندھیائی تجربہ بتاتا ہے کہ اس ماڈل کے ذریعے منفی مقصد کا حصول تو ممکن ہے، مگر مثبت مقصد کا حصول اس ماڈل کے ذریعے ممکن نہیں۔
اسپریچول ایکٹوزم(Spiritual Activism)
اس معاملے میں تیسرا آپشن اسپریچول ایکٹوزم یا دعوہ ایکٹوزم کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دعوہ ایکٹوزم ہی ایکٹوزم کی صحیح اور فطری صورت ہے۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ دعوہ ایکٹوزم ہی واحد کامیاب ایکٹوزم ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں کوئی منفی پہلو شامل نہیں۔ مزید یہ کہ دعوہ ایکٹوزم ہی کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ اپنے مطلوب مقصد کو اِس طرح حاصل کیا جائے کہ کوئی اور نامطلوب مسئلہ وجود میں نہ آیا ہو۔ گویا کہ وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونو ں ایسی دوائیں ہیںجو ہمیشہ سائڈ افیکٹ(side effect) پیدا کرتی ہیں، جب کہ دعوہ ایکٹوزم کا طریقہ مکمل طورپر سائڈ افیکٹ کی بُرائی سے پاک ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں کا فارمولا یہ ہے کہ پرابلم کو ہٹاؤ تاکہ مطلوب عمل کا راستہ کھلے۔ اِس کے برعکس، دعوہ ایکٹوزم کا طریقہ یہ ہے کہ — پرابلم کو نظرانداز کرو اور مواقع کواستعمال کرو۔ اور اسی طرح اپنی ترقی کا پر امن سفر جاری رکھو:
Ignore the problems and avail the opportunities.
دعوہ ایکٹوزم کا فکر اِس فطری حقیقت پر مبنی ہے کہ کسی سماج میں کبھی ایسا نہیںہوتا کہ پرابلم تو ہوں، مگر مواقع موجود نہ ہوں۔ فطری قانون کے مطابق، ہمیشہ دونوں بیک وقت موجود رہـتے ہیں۔ اس لیے پُرامن طریقِ کار یہ ہے کہ پرابلم کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کیا جائے۔
ایک برٹش اسکالرمسٹر ای ای کلیٹ(E E Kellet) نے اپنی ایک کتا ب میں پیغمبر اسلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ — پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
ناکامی سے کامیابی کو نچوڑنا کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پرابلم کو مواقع (oppertunities) میں کنورٹ کیا، اور پھر مواقع کو استعمال کرکے پرابلم کو اپنے ترقیاتی سفر کا زینہ بنالیا۔
یہ دعوہ ایکٹوزم کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اِس لیے کہ موجودہ دنیا اِس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں۔ مسائل، زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کوکسی بھی حال میں زندگی سے جُدا نہیںکیا جاسکتا۔ ایس حالت میں صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ مسائل سے بے فائدہ طورپر لڑائی جاری رکھی جائے، بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ حُسنِ تدبیر سے مسائل کو مواقع میں تبدیل کردیا جائے۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی حُسن تدبیر کی مثال ہے۔ اِس معاملے کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب—مطالعۂ سیرت:
The Prophet Muhammad: A Simple Guide to His Life
مواقع کو استعمال کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اصول ایک گہری اسٹریٹجی پر قائم ہے۔جب بھی ایسا کیا جائے کہ امن کے دائرے میں رہتے ہوئے مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ پرابلم کا اِروژن (erosion) شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پرابلم مسلسل طورپر گھٹتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ پرابلم عملاً غیر مؤثر ہوجائیں اور سارے امکانات اُن لوگوں کے حصے میں آجائیں جو اِس فارمولے کو استعمال کرکے اپنا عمل جاری کیے ہوئے تھے۔
دعوہ ایکٹوزم کا سب سے زیادہ امتیازی پہلو یہ ہے کہ آدمی صحیح نقطۂ آغاز (starting point) کو پالیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی اصلاحی عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز، اقدام نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کا ذہن بنا یا جائے۔ ذہن کی ڈی کنڈیشننگ، ذہن کی ری انجینئرنگ، ذہن کا ری اورین ٹیشن، ذہن کو اِس قابل بنانا کہ وہ منفی سوچ سے اس طرح خالی ہوجائے کہ وہ منفی واقعے کو مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے۔ اِسی کا نام ذہنی تیاری ہے، اور کسی گہرے عمل کے لیے یہی صحیح نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔
حضرت مسیح دو ہزار سال پہلے یروشلم میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے پہلے شہر کے اندر اپنا مشن شروع کیا۔ اس کے بعد وہ سمندر کے کنارے گیے۔ وہاں ملاّح مچھلیاں پکڑ رہے ـتھے۔ حضرت مسیح نے اِن ملاحوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: اے مچھلیوں کو پکڑنے والو، آؤ کہ میں تم کو انسان کا پکڑنے والا بناؤں:
“Follow me, and I will make you fishers of men.” (Matthew 4:19)
حضرت مسیح کا یہ قول دعوہ ایکٹوزم کے بنیادی فلسفے کو بتاتا ہے۔ سیاسی تحریکوں کا نشانہ کوئی مفروضہ یا غیر مفروضہ خارجی دشمن ہوتا ہے، لیکن دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ صرف انسان ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر چھپے ہوئے فطری امکان (potential) کو باہر لانا، ذہنی ترقی (intellectual development) کے ذریعے اعلیٰ انسان بنانا ۔ ہر عورت اور مرد فطری طورپر بہترین امکانات لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اِن امکانات کو واقعہ بنانا، یہی دعوہ ایکٹوزم کا اصل نشانہ ہے۔
دعوہ ایکٹوزم کی ترتیب یہ ہوتی ہے— فرد سازی، معاشرہ سازی اور اس کے بعد حسب امکان حکومت سازی۔ یہ پورا عمل امن کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ چوں کہ دعوہ ایکٹوزم میں ہر اگلے مرحلے کی طرف اقدام پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد کیا جاتا ہے، اس لیے اس میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دعوہ ایکٹوزم میں سارا عمل لوگوں کے اپنے اختیار پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ جبر پر۔ اس لیے اصولی طورپر اس میں کبھی امن شکنی کی نوبت نہیںآتی۔ دعوہ ایکٹوزم میںاگر کبھی تشدد نظر آئے تو وہ اصول سے انحراف کی بنا پر ہوگا نہ کہ اصول کے اتباع کی بنا پر۔
دعوہ ایکٹوزم میں امن کا ماحول کس طرح قائم رکھا جاتا ہے، اس کا جواب حضرت مسیح کے ایک قول میں اِس طرح ملتا ہے۔ انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ— جو قیصر کا ہے، وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے، وہ خدا کو دو:
“Render therefore to Caesar the things that are Caesar's, and to God the things that are God's.”
حضرت مسیح کے زمانے میں فلسطین رومن ایمپائر کے ماتحت تھا۔ رومی بادشاہوں کا خاندانی لقب قیصر (Caesar) ہوا کرتا تھا۔ کچھ لوگوں نے حضرت مسیح سے سوال کیا کہ فلسطین میں سیاسی اعتبار سے رومیوں کی حکومت ہے، دوسری طرف ہمارے مذہبی احکام ہیں اِس طرح ہم دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہیں۔ ایسی حالت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ حضرت مسیح نے جواب دیا کہ رومی حکمراں جو حکم دیں اس کو مانو، ان سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے عمل کا جو غیر سیاسی دائرہ باقی رہتا ہے، اُس میں اپنے مذہبی تقاضے پورے کرو۔ اِس مسیحی فارمولے کو ایک لفظ میں پولٹکل اسٹیٹس کوازم(political statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔
حضرت مسیح کے پیروؤں نے اُن کے بعد اسی اصول پر عمل کیا۔ وہ مختلف ملکوں میں داخل ہوئے۔ ہر جگہ کسی نہ کسی کی حکومت تھی، مگر مسیح کے پیروؤں نے ان سے سیاسی ٹکراؤ نہیں کیا۔ سیاسی ٹکراؤ سے اوائڈ کرتے ہوئے انھوںنے مسیحیت کی پُرامن تبلیغ کی۔ وہ پچھلے دو ہزار سال سے اِس اصول پر کار بند ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسیحی مذہب تعداد کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن گیا ہے۔
حضرت مسیح کا مذکورہ قول دراصل اسپریچول ایکٹوزم یادعوہ ایکٹوزم کے ابدی اصول کو بتاتا ہے۔ چنانچہ یہی بات پیغمبر اسلام نے اِس طرح بیان فرمائی: أدّوا إلیہم حقّہم وسئلوا اللہ حقّکم (صحیح البخاری) یعنی حکمرانوں کو ان کا حق دو، اور اپنا حق خدا سے مانگو۔
اِس حدیث میں خدا سے مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے قائم کردہ فطری نظام پر بھروسہ کرو اور اس کے مطابق عمل کرکے اپنا حق حاصل کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ سیاسی پاور کس کے ہاتھ میںہے اور کس کے ہاتھ میں نہیں، اِس کو نظر انداز کرو۔ اِس کے بجائے یہ کرو کہ خدا کے قائم کردہ فطری نظام میں جو ابدی مواقع رکھے گیے ہیں، ان کو استعمال کرکے اپنا مقصد حاصل کرو:
Ignore the political system and avail the natural opportunities present in the circumstances.
حکومت ہمیشہ سے سماج کا ایک حصہ رہی ہے۔ قدیم زمانے میں حکومت ہی کو سماج کا سب سے زیادہ طاقت ور ادارہ سمجھاجاتاتھا۔ قدیم زمانے میں زراعت، آمدنی کا واحد ذریعہ تھا اور زرعی زمین حاکم کی ملکیت میںہوتی تھی۔ اس لیے لوگوں کا یہ حال ہوا کہ ان کی امیدیں سب کی سب وقت کے حاکم سے وابستہ ہونے لگیں۔اس ذہن کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ لوگ وقت کے حاکم کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ اِسی عمومی مزاج کا یہ نتیجہ تھا کہ جب بھی کوئی لیڈر یا ریفارمر اٹھتا تو لوگ یا تو اپنے مسائل کو لے کر حکمراں سے ٹکرانے لگتے، اور اگر ٹکراؤ ممکن نہ ہوتا تو وہ اس سے متنفر ہو کر مایوس ہوجاتے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ عوام اور حکمراں سے ٹکراؤ کی تاریخ بن گئی۔ دعوہ ایکٹوزم کی فلاسفی اس معاملے میں بالکل مختلف ہے۔دعوہ ایکٹوزم اِس تصور پر قائم ہے کہ حکمراں کے سیاسی اقتدار کے باوجود ہمیشہ عمل کا ایک غیر سیاسی دائرہ پایا جاتا ہے۔ اُس غیر سیاسی دائرے میں ہمیشہ کچھ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ امن پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ سیاسی حاکم سے ٹکراؤ کو نظر انداز کرکے غیر سیاسی دائرے میں موجود مواقع کو استعمال کیا جائے۔ یہی مطلب ہے اِس قولِ رسول کا کہ — حاکم کو اس کا حق دو، اور جو تمھارا حق ہے اس کو خدا سے مانگو۔ یعنی اپنے امکاناتِ فطرت کو استعمال کرکے اس کو حاصل کرو۔
موجودہ زمانے میں اِس اصول کی اہمیت اب ہزار گُنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانہ انسٹی ٹیوشنلائزیشن کا زمانہ ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ نے اِس کو ممکن بنادیا ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ کے بغیر مختلف کاموں کے لیے ادارے قائم کیے جائیں اور ان کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً ایجوکیشن، میڈیا، دعوہ ورک، تجارت وصنعت اور لائبریری جیسے علمی مراکز کا قیام، وغیرہ۔
دعوہ ایکٹوزم کا ایک بنیادی اصول صبر ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص یا کوئی گروہ ایک مشن کو لے کر اٹھے تو درمیان میں بار بار مختلف قسم کے ناموافق حالات پیش آتے ہیں، کبھی انٹرسٹ خطرے میں پڑتا ہوا نظر آتا ہے، کبھی انا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وقتی مصلحتیں تباہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس طرح کے مواقع مشن کے لیے سخت خطرہ ہیں۔ کیوں کہ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ اصل نشانے سے انسان کی نظریں ہٹ جاتی ہیں، اِس کا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ غیر متعلق چیزوں میں الجھ کر رہ جائے اور اصل منزل کی طرف اس کا سفر جاری نہ رہ سکے۔
اِس خطرے سے بچنے کے لیے دعوہ ایکٹوزم میںایک مضبوط تحفظ موجود ہے، یہ تحفّظ صبر کا اصول ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں صبر کے اصول کو بہت زیادہ اہمت حاصل ہے ۔صبر کا مطلب یہ ہے کہ ہر نقصان اور ہر ناخوش گواری کو برداشت کرنا، اور ہر حال میں اصل منزل کی طرف اپناسفر جاری رکھنا۔ یہی صبر ہے، اور اِس صبر کے بغیر کوئی مشن راستے کے انحراف سے بچ نہیں سکتا۔
دعوہ ورک میں صبر کی اِس روش پر قائم رہنے کے لیے ایک نہایت طاقت ور محرک موجود ہوتا ہے، اور وہ جنت ہے۔ دعوہ ورک میں آدمی کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کا مقصد دنیا کے مفاد کا حصول نہیں، بلکہ صرف جنت کا حصول ہے، جو موت کے بعد ملنے والی ہے۔ جنت کا تصور آدمی کے لیے اس کے مستقبل کو اتنازیادہ پُرکشش بنا دیتا ہے کہ وہ حال کے نقصان کو پوری رضامندی کے ساتھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ کسی نقصان کو برداشت کرنے کے لیے صرف اُس وقت راضی ہوتا ہے جب کہ اس کو یقین ہو کہ اس کو زیادہ بڑا فائدہ ملنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابدی جنت کا تصور اتنا بڑا ہے کہ وہ ہر دوسری چیز کو اس کے مقابلے میں چھوٹا کردیتا ہے۔ جنت کا یہ تصور آدمی کے اندر اتھاہ حوصلہ پیدا کرتا ہے اور اس کو ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار کردیتا ہے— تاریخ میںاصحابِ رسول کا گروہ اِس صبر و برداشت کی ایک معیاری مثال تھے۔
وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں میں عمل کا آغاز پارٹی سازی (party forming) سے کیا جاتا ہے، جب کہ اسپریچول ایکٹوزم، یا دعوہ ایکٹوزم میں عمل کا آغاز کردار سازی (character building) سے کیا جاتا ہے۔ دونوں تحریکوں کے درمیان یہ فرق کوئی سادہ فرق نہیں، یہ بے حد بنیادی فرق ہے اور اِسی فرق کی وجہ سے دونوں کا معاملہ شروع سے آخرتک بدل جاتا ہے۔
پارٹی سازی سے آغاز کب ممکن ہوتا ہے۔ یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ عوام کے اندر ایسے لوگ موجود ہوں جو پہلے سے پارٹی کی فکر سے متفق ہوںاور اِس بنا پر وہ پارٹی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔جب تک لوگوں کے اندر پیشگی طورپر پارٹی کے موافق فضا موجود نہ ہو، پارٹی سازی سے آغاز ممکن نہیں۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
روسی لیڈر ولادیمیر لینن (وفات ۱۹۲۴) نے ۱۹۰۳ میں کمیونسٹ پارٹی بنائی۔ اِس پارٹی میںبہت سے لوگ شریک ہوگیے۔ کمیونسٹ پارٹی کو بنانا کیوں کر ممکن ہوا۔ وہ اس لیے ممکن ہوا کہ اس زمانے میں روس کے شہنشاہ زار(Nicholas II) کی ناکام حکومت کی بنا پر روس کے اقتصادی حالات بہت خراب ہوگیے تھے۔ لوگوں میں عام طورپر حکومت کے خلاف بے چینی پائی جاتی تھی۔ لوگ حالات میں تبدیلی چاہتے تھے، اُس وقت لینن نے کمیونسٹ پارٹی بنائی تو لوگ تیزی سے اس میں شریک ہونے لگے۔ کیوں کہ اپنے پیشگی جذبات کے تحت، وہ سمجھتے تھے کہ یہ پارٹی حالات کو بدلے گی اور ان کے مسائل کو حل کرے گی۔
یہی معاملہ تمام سیاسی تحریکوں کا ہوا ہے، خواہ وہ تشدد کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہوں یا عدم تشدد کی بنیاد پر۔ گویا کہ تمام وہ تحریکیں جنھوں نے پارٹی بنانے سے اپنے عمل کا آغاز کیا، وہ سب کی سب ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، یعنی عوام کے اندر پائی جانے والی ناراضگی کو استعمال کرکے تحریک چلانا ۔ انڈیا میں بھی ۱۹۴۷ سے پہلے جو سیاسی تحریک اٹھی، وہ برٹش راج کے خلاف عوام کی ناراضگی کو لے کر اٹھائی گئی۔ اسی لیے فوراً ہی اس کو عوام کے اندر مقبولیت حاصل ہوگئی۔
مگر اس قسم کی تمام تحریکیں منفی تحریکیں ہوتی ہیں، وہ کسی منفی نعرے پر کھڑی ہوتی ہیں۔ مثلاً لینن کی پارٹی ’’زار کو ہٹاؤ‘‘ کے نعرے پر کھڑی ہوئی، اور انڈین نیشنل کانگریس ’’برٹش راج کو ختم کرو‘‘ کے نام پر کھڑی کی گئی۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ منفی عمل سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ جو تحریک منفی احساسات کو جگا کر اٹھائی گئی ہو، وہ پورے سماج کو منفی احساس میں جینے والا بنا دیتی ہے، اور جو لوگ منفی احساس میں جیتے ہوں، وہ کبھی مثبت سماج بنانے کا کام نہیں کرسکتے۔
اس معاملے میںایک مسئلہ جنگ کا ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں جو اصول مقرر کیے گیے ہیں وہ سب کے سب اِس تصور کے تحت مقرر کیے گیے ہیں کہ جنگ کے امکان کو آخری حد تک کم کردیا جائے:
By setting these principles, it has minimised the possiblity of war to the last extent.
مثلاً دعوہ ورک کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مسائل سے ٹکرانے کے بجائے مسائل کو نظر انداز کیا جائے، اور صرف ممکن دائرے میںاپنے عمل کا نقطۂ آغاز تلاش کیا جائے۔ اسی طرح دعوہ ایکٹوزم کے نظریے میں دشمن اور حملہ آوار کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اِس نظریے کے تحت، صرف حملہ آور کے خلاف دفاعی جنگ کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک دشمن کا تعلق ہے، اُس سے ڈائلاگ اور دوسری پُر امن تدبیروں کی سطح پر معاملہ کرنا ہے نہ کہ ٹکراؤ کی سطح پر۔
اسی طرح دعوہ اکٹیوزم کی آئڈیالوجی میں نشانہ فرد کو بنا یا گیا ہے نہ کہ سسٹم کو۔ یہ اصول بھی متشددانہ ٹکراؤ کو عملی طور پر صفر کے درجے میں پہنچا دیتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، جنگ، یا متشددانہ ٹکراؤ صرف اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ سسٹم کو توڑنے کی کوشش کی جائے۔ اگر اپنے عمل کا نشانہ سسٹم کے بجائے فرد کو بنا دیا جائے تو جنگ اپنے آپ ایک غیر متعلق چیز بن کر رہ جاتی ہے۔
اسپریچول ایکٹوزم یا دعوہ ایکٹوزم کے طریقے میں یہ انوکھی صفت ہے کہ جنگی حالات کے باوجود اس کا عمل جاری رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز دعوہ پراسس کے لیے رُکاوٹ نہیں بنتی۔ اس کی ایک مثال اسلام کی تاریخ ہے۔ اسلام نظریاتی اعتبار سے ایک انقلابی فکر کا حامل ہے، یعنی کئی خداؤں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک خدا کی پرستش کی طرف لوگوں کو بلانا۔ اسلام کے اس انقلابی کیریکٹر کی بنا پر وقت کے حکمراں طبقے کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی، حتی کہ اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی، مگر اِن جنگی حالات کے باوجود اسلام فکری طور پر پھیلتا رہا، اسلام کے فکری پھیلاؤ کو کوئی چیز روک نہ سکی۔ اِس حقیقت کا اعتراف اکثر مؤرخین نے کیا ہے۔
سر آرتھر کیتھ (Keith) ایک برٹش اسکالر تھے۔ وہ مصریات(Egyptology) کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے قدیم مصر کے بارے میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اِس کتاب میں انھوں نے اسلام کی پُر امن اشاعت کے معاملے کو اس طرح بیان کیا ہے— مصریوں کو جس چیز نے فتح کیا وہ مسلمانوں کی تلوار نہیں تھی، بلکہ وہ قرآن تھا:
The Egyptians were conquered not by the sword, but by the Quran.
اِسی کا نام دعوہ ایکٹوزم ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کا اعتماد ، گن یا پولٹکل پاور پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اعتماد دل اور دماغ پر ہوتا ہے۔ دل اور دماغ کو فتح کرنا، دعوہ ایکٹوزم کا اصل نشانہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کا پورا وجود اس کے مائنڈ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ مائنڈ ہمیشہ چیزوں کو ریزن اور لاجک پر جانچتا ہے۔ جب کوئی چیز ریزن اور لاجک پر ثابت شدہ بن جائے تو انسان اِس کو افورڈ نہیں کرسکتا کہ وہ اُس کے آگے سرینڈر نہ کرے۔ تلوار کسی انسان کی گردن مار سکتی ہے، لیکن لاجک اور ریزن انسان کے دماغ کو مسخر کرلیتی ہے، اور جب دماغ مسخر ہوجائے تو اس کے بعد کوئی اور چیز مسخر کرنے کے لیے باقی نہیںر ہتی۔
پوری تاریخ میں لوگ دوست اور دشمن کی ڈائکاٹمی میں جیتے رہتے ہیں، وہ کسی کو اپنا دوست سمجھ لیتے ہیں اور اُس کے ساتھ نارمل طریقے سے رہتے ہیں، اور کسی کو اپنا دشمن کہہ دیتے ہیں اور اس کو غیر سمجھ کر اس کے ساتھ غیر معتدل معاملہ کرتے ہیں، مگر دعوہ ایکٹوزم کے طریقے میں یہ ڈائکاٹمی غیر حقیقی ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کے تصور کے مطابق، صحیح ڈائکاٹمی یہ ہے کہ — ہر آدمی یا تو ہمارا ایکچول دوست ہے، یا وہ ہمارا پوٹنشیل دوست۔ یعنی جو شخص آپ کو بظاہر آپ کا دشمن دکھائی دیتا ہے، وہ بھی امکانی طورپر آپ کا دوست ہے۔ کیوں کہ یک طرفہ طورپر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آپ اس کو اپنا دوست بنا سکتے ہیں۔
یہی وہ فطری حقیقت ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر ۴۱ میںاِس طرح بیان کیا گیا ہے: ادفع بالتی ہی احسن، فإذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کأنہ ولی حمیم (حم السجدہ ۳۴) یعنی اپنے دشمن کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو، پھر تم دیکھو گے کہ جو شخص تمھارا دشمن نظر آتا تھا، وہ تمھارا قریبی دوست بن گیا ہے۔ اس لیے دعوہ ایکٹوزم کا نظریہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ پوٹنشیل کو ایکچول بنانے کی کوشش کرو، اپنے آج کے دشمن کو اپنا کل کا دوست بناؤ۔
دعوت ایکٹوزم کی آئڈیا لوجی اِسی انسان فرینڈلی (Human friendly) اصول پر مبنی ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کا انسان فرینڈلی تصور ایک آفاقی تصور ہے۔ اِس آفاقی تصور کے دائرے میںنہ صرف عام انسان بلکہ دشمن جیسے لوگ بھی یکساں طورپر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دعوہ ایکٹوزم کاآغاز اِس مثبت تصور پر ہوتا ہے کہ ساری دنیا میری دوست ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ اُن میں سے کوئی ایکچول دوست ہے اور کوئی پوٹنشیل دوست۔
آفاقی انسانیت کا تصور منفی سوچ کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ جو لوگ اِس تصور سے متأثر ہوتے ہیں، وہ مکمل طورپر مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ دعوہ ایکٹوزم کے تصور کے تحت جو کلچر فروغ پاتا ہے، وہ کامل معنوں میں ایک مثبت کلچر ہوتا ہے۔ اِس تصور کے تحت جن لوگوں کا ذہن بنتا ہے، وہ اُس انوکھی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ منفی تجربے کو مثبت احساس میںتبدیل کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ جس سماج میں لوگ منفی احساس کو مثبت احساس میں بدلنے کا آرٹ جانتے ہوں، وہاں ہر طرف مثبت ذہن کے عورت اور مرد ہوں گے۔ وہاں منفی ذہن کے افراد کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
وائلنٹ ایکٹوزم، اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں کی اپنی ایک فلاسفی ہے۔ اِسی طرح دعوہ ایکٹوزم کی بھی اپنی ایک مستقل فلاسفی ہے۔ یہ فلاسفی لا آف نیچر پر مبنی ہے۔ یعنی وہ ابدی قانون جس پر خالق نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کی فلاسفی براہِ راست طورپر خدا کے کریشن پلان (creation plan)سے جُڑی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر ۵۷ میں ارشاد ہوا ہے:
’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو بیّنات کے ساتھ بھیجا۔ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ قسط پر قائم ہوں۔ اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑی قوت ہے اور لوگوں کے لیے اس میں دوسرے منافع بھی ہیں، اور تاکہ اللہ یہ جانے کہ کون اس کے رسولوں کی مدد غیب میں کرتا ہے۔ بے شک اللہ قوی اور عزیز ہے‘‘ (الحدید ۲۵)
قرآن کی اِس آیت میں بنیادی طورپر دو باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک بات کتاب خداوندی کے حوالے سے، اور دوسری بات لوہا (حدید) کے حوالے سے۔ کتابِ خداوندی کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے بہ شکلِ وحی وہ رہنما اصول بھیجے جن کے ذریعے انسان یہ جان سکے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، خدا کی زمین پر زندگی گذارنے کا طریقہ کیا ہے، اور وہ کون سا طریقہ ہے جس کا اتباع کرنے سے آدمی اُس سچے راستے پر چلے جو خدا کے نزدیک قسط اور عدل کا راستہ ہے، یعنی گفتگو اور معاملات اور لین دین میں انصاف کی روش اختیار کرنا۔
آیت کے دوسرے حصے میں لوہے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ تخلیق کے عالمی نقشے کے ایک پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اِس دنیا میں خدا نے اخلاقی روش کے مادّی ماڈل قائم کیے ہیں۔ مثلاً ستاروں کا ایک مدار میں گھومنا اس بات کا ایک نمونہ ہے کہ لوگ اِسی طرح اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ٹکراؤ کے بغیر اپنا سفرِ حیات طے کریں۔ اسی طرح گلاب کا پودا اِس بات کا ایک مادّی نمونہ ہے کہ پھول اور کانٹا جس طرح ایک ساتھ معتدل انداز میں رہتے ہیں، اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ سب کے ساتھ معتدل انداز میں رہے، وغیرہ۔
اسی قسم کا ایک مادّی نمونہ لوہا ہے۔ لوہا اپنی خصوصیات کے اعتبار سے طاقت (strenth) کا نمونہ ہے۔ لوہا کردار کی مضبوطی کو بتاتا ہے۔ لوہا صلابت اور استقامت کا نشان ہے۔ اسی لیے ہر زبان میں لوہا پختہ کرداری کی صفت کو بتانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً — عربی میں رجل حدید، فارسی میں مردِ آہن، ہندی میں لوہا پُرش، انگریزی میں آئرن مین(iron man) اور آئرن ہینڈ (iron hand) وغیرہ۔
لوہے کی دو خاص صفتیں ہیں۔ ایک ہے اس کی مضبوطی، یہ مضبوطی اتنی زیادہ ہے کہ پیشگی طورپر اس کا یقینی انداز کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کی دوسری صفت ہے نفع بخشی۔ اپنی مضبوطی کی بنا پر وہ بہت سے پہلوؤں سے انسان کے لیے نفع بخش بن گیا ہے۔ اگر لوہا نہ ہو تو تمدن کی اکثر سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جائیں۔ تمدن کی گاڑی آگے نہ بڑھ سکے۔
مذکورہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ نظریاتی اعتبار سے خدا کی کتاب کو اپنے لیے رہنما کتاب بنائے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ اُس کا مومن بن جائے۔ وہ اپنے صحیح اور غلط کو ناپنے کے لیے خدا کی کتاب کو اپنی میزان (ترازو) بنالے۔
دوسری بات جو آیت میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی عملی زندگی میں فطرت کے اُس نمونے کی پیروی کرے جو لوہے کی صورت میں اِس دنیا میں رکھا گیا ہے۔ یعنی قول و عمل میں پختگی۔ قول و عمل میں اِس حد تک پختگی کہ آدمی قابلِ پیشین گوئی کردار(predictable character) کا حامل بن جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کے لیے اُسی طرح نفع بخش (useful) بن جائے، جس طرح لوہا ہزاروں سال سے نفع بخش بنا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کے صنعتی شہر نیویارک میں مشہور ورلڈ ٹریڈ ٹاور بنایا گیا۔ یہ دو ٹاور پرمشتمل تھا۔ اس کی ایک سو دس منزلیں تھیں۔ وہ ۷۲ ـ۱۹۷۰ میں بن کر تیار ہوا۔ امریکا کے ایک سفر کے دوران میں نے اس کو دیکھا تھا، اور اس کے اوپر لفٹ کے ذریعے چڑھا تھا۔ یہ ٹوئن ٹاور (twin tower)گویا جدیدصنعتی دور کا ایک عجوبہ تھا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کو اچانک یہ خبر ملی کہ کچھ ہائی جیکرس نے اس سے ہوائی جہاز ٹکراکر اس کو توڑ دیا۔
اِس واقعے کے ایک ہفتہ بعد مجھ کو ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن جانا ہوا۔ اس کانفرنس کی روداد ماہ نامہ الرسالہ میں شائع ہوچکی ہے۔ اس روداد کا ایک حصہ یہ تھا:
’’اِس کانفرنس کے اجلاس ۱۸ستمبر ۲۰۰۱ میں میری تقریر تھی۔ جب میں نے لندن میں یہ تقریر کی، اس سے صرف ایک ہفتہ پہلے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو نیویارک اور واشنگٹن کی اونچی عمارتوں پر حملے کا واقعہ ہوا تھا، جس میں تقریباً چار ہزار آدمی مر گیے۔ میں نے اپنی تقریر میںاِس واقعے کا ذکر کیا تو غم سے میرا دل بھر آیا، اور میری آنکھوںمیں آنسو آگیے۔
اِس کانفرنس کے صدر مسٹر آندرے بائکوف تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان آج ایک ایسا مسلمان بھی موجود ہے جو انسانیت کا درد رکھنے والا ہے، اور جو ۱۱ ستمبر کے واقعے پر اتنا زیادہ دُکھی ہے کہ وہ اس کے لیے روتا ہے۔
اِس انٹرنیشنل کانفرنس میں میرے سوا، ایک اور مسلمان تھے۔ وہ امریکا سے آئے ہوئے تھے۔ انھوںنے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ صرف ایک مسلمان کی بات نہیں، بلکہ یہ سارے مسلمانوں کی بات ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلمان ۱۱ ستمبر کے واقعے پر رو رہے ہیں اور چلاّ رہے ہیں:
The whole Muslim world is weeping and crying.
اجلاس کے بعد کھانے کی میز پر مذکورہ امریکی مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں بھی اِسی مسلم دنیا میں رہتا ہوں، میں نے تو کسی مسلمان کو امریکا کے اس واقعے پر ’’روتے اور چلاتے ہوئے‘‘ نہیں دیکھا۔ آخر یہ آپ کس مسلم دنیا کی بات کررہے ہیں۔ انھوںنے مسکرا کر جواب دیاکہ— امریکا بہت چودھرائی کررہا تھا، اس کو سبق دینا تو ضروری تھا‘‘۔ (ماہ نامہ الرسالہ، ستمبر، ۲۰۰۲، صفحہ ۹)
۱۱ ستمبر کے واقعے پر مسلمانوں کا پہلا ردّ عمل یہی تھا۔ اس خبرکو سن کر عام طور پروہ خوش تھے۔ ان کے مفروضے کے مطابق، امریکا، اسلام کا دشمن نمبر ایک (عدوّ الاسلام رقم واحد)تھا، اس لیے ان کے لیے یہ ایک پُرمسرت خبر تھی کہ کچھ لوگوںنے خود امریکا کے ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرکے ان کو امریکا کے نشانِ فخر (ورلڈ ٹریڈ ٹاور) سے ٹکرادیا۔ اِس طرح انھوں نے ظالم امریکا کو ’’سبق سکھانے‘‘ کی کوشش کی۔
اس کے بعد مغربی ذرائع سے یہ خبریں آنے لگیں کہ نیویارک کے ٹاور کو جن لوگوں نے توڑا، وہ سب کے سب مسلمان تھے۔ اب مسلم دانش وروںنے عجیب و غریب طورپر یہ کہنا شروع کیا کہ خود امریکی انتظامیہ نے مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لیے یہ واقعہ انجام دیا ہے۔ کچھ اور لوگوں نے انکشاف کیا کہ یہ واقعہ کچھ یہودیوں نے کیا ہے، مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اسی قسم کی باتیں کرتا رہا۔ اِس درمیان میں امریکا کی انتظامیہ نے اس معاملے کا باقاعدہ ثبوت پیش کرتے ہوئے اُن مسلمانوں کے نام شائع کردیے جو اِس واقعے کے ذمّے دار تھے۔ لیکن مسلم دانش ور اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ اِس واقعے کے ذمے دار مسلمان ہیں۔
یہ بحث اسی طرح چلتی رہی۔ یہاں تک کہ آخر میں الجزیرہ ٹی وی نے اپنے پروگرام میںایک ایسا ویڈیو ٹیپ دکھایاجو آخری طور پر ثابت کررہا ہے کہ ۱۱ستمبر کا واقعہ مسلمانوں نے کیا تھا، اور اس کی قیادت خود اسامہ بن لادن نے کی تھی۔ الجزیرہ ٹی وی، اب تک مسلمانوں کے درمیان معتبر ذریعے کے طور پر لیا جاتا رہاہے۔ الجزیرہ ٹی وی میں دکھایا ہوا یہ ویڈیوتمام میڈیا میں آچکا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا، ۹ ستمبر ۲۰۰۶ کے صفحہ ۸ پر یہ خبر اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
Al-Jazeera airs pre-9/11 tape of bin Laden
Shows Osama Meeting Planners of WTC Attacks, Greeting Hijackers.
۱۱ ستمبر کے اس واقعے کے بعد مسلمانوں کا ردّ عمل بلاشبہہ درست نہ تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ۱۱ ستمبر اور اِس طرح کے دوسرے واقعات، جدید میڈیا کے دور میں پیش آئے۔ جدید میڈیا کا مزاج یہ ہے کہ وہ سنسنی خیز واقعات کو بہت زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ اِس واقعے کے پیش آنے کے بعد، مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقے نے اپنی ساری توجہ صرف اِس سوال پر دی کہ اس کا کرنے والا کون تھا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ثانوی مسئلہ تھا۔ زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ اِس واقعے نے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر بہت زیادہ بگاڑ دی۔ ساری دنیا میں اسلام کو اور مسلمانوں کو وحشت خیز نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اس لیے اصل ضرورت یہ تھی کہ اِس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ اسلام کی تصویر کو کس طرح دوبارہ درست کیا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مسلمانوںکے اوپر فرض تھا کہ وہ اِس معاملے کو درستی ٔ تصویر (image building) کی حیثیت سے لیں، اور سارے ممکن ذرائع کو استعمال کرکے وہ اس بات کی کوشش کریں کہ اسلام اور مسلمانوں کی تصویر دوبارہ اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آسکے، مگر بدقسمتی سے یہ کام نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ اب ساری دنیا میں مسلمان اس کا سخت انجام بھگت رہے ہیں۔
مجھے ہندستان کے ایک مسلم مدرسے کا واقعہ معلوم ہے۔ یہ مدرسہ ایک ندی کے کنارے واقع ہے۔ اِس ندی کے دوسری طرف ایک گاؤں تھا۔ وہاں سے ہندو عورتیں نہانے اور کپڑا دھونے کے لیے اس ندی پر آیاکرتی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مدرسے کے ایک طالب علم نے ایک ہندو عورت کو چھیڑ دیا۔ یہ خبر جب گاؤں والوں کو پہنچی تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اِس مدرسے کو جلا کرختم کردیں گے۔
مدرسے کے ذمہ داروں کو جب اس کا علم ہوا تو انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ گاؤں والوں کو ذمے دار بتا کر وہ ان کے خلاف تقریریں کریں یا بیانات شائع کریں، بلکہ مدرسے کے ذمے دار ،اُس لڑکے کو لے کر گاؤں میں گیے اور کہا کہ —اِس لڑکے نے بہت غلط کام کیا ہے۔ آپ جو سزا چاہیں اِس لڑکے کو دے سکتے ہیں۔ اِس اعترافِ خطا کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں کے ہندو نرم پڑ ِگیے ۔ انھوں نے لڑکے کو معاف کردیا۔
اس کے بعدمدرسے والوں نے مسلسل کوشش کے ذریعے گاؤں والوں کو ٹھنڈا کیا۔ انھوں نے یک طرفہ حسنِ سلوک کے ذریعے گاؤں والوں کو اپنا دوست بنا لیا، یہاں تک کہ ناخوش گوار واقعہ ایک خوش گوار انجام پر ختم ہوگیا۔ میں خود اِس مدرسے میں گیا ہوں اور وہاں میںنے ذاتی طورپر اِس واقعے کی تحقیق کی ہے، اور گاؤں کے بعض افراد سے ملاقات بھی کی ہے۔
اِس طریقے کو آج کل کی زبان میں امیج بلڈنگ(image building)کہا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی مسئلے کو حل کرنے کے لیے عام طورپر لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ۱۱ ستمبر کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں امیج بلڈنگ کا یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا، حتی کہ مسلمانوں کے کسی عالم یا کسی دانش ور نے بطور تجویز بھی یہ بات پیش نہیں کی۔
اب مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی سابقہ روش کو ترک کرکے پوری سنجیدگی کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کریں۔ اگر ایک مسلم مدرسے کی تصویر بگڑنے کے بعد دوبارہ درست ہوسکتی ہے تو یقینی طورپر یہ بھی ممکن ہے کہ امتِ مسلمہ کی بگڑی ہوئی تصویر دوبارہ درست ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
Creation For What
۳ جنوری ۲۰۰۶ کی رات کو میں دہلی میں اپنی رہائش گاہ(سی۔ ۲۹، نظام الدین ویسٹ) میں تھا۔ رات کو پچھلے پہرمیں نے ایک خواب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ امریکا کے صدر جارج بش جو نیئر، میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ میرے بیٹے کو پڑھا دیجئے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میں ایک بڑے مکان میں ہوں۔ میں اس مکان کے اوپر کی منزل کے ایک کمرے میں جاتا ہوں۔ وہاں جارج بش کے بیٹے مغربی لباس پہنے ہوئے میرے پاس آتے ہیں۔ ان کی عمر تقریباً ۱۲ سال ہے۔ بیٹے نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا:
Why was man created
نیند کھلی تو میں نے اس خواب پر غور کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آج کی پوری دنیا کا سوال ہو۔ آج پوری انسانیت شعوری یا غیر شعوری طورپر اس سوال سے دوچار ہے۔ آج ہر انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کے آنے کا حقیقی مقصد کیا ہے۔ زندگی کیا ہے اور موت کیا۔ کائنات کے وسیع نقشے میں اس کا مقام کیا ہے۔ وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر وہ اپنی اس مطلوب منزل تک پہنچ سکتا ہے، جو اس کے دماغ میں بسی ہوئی ہے۔
وہ دنیا جس کو جدید دنیا کہا جاتا ہے، وہ پوری بشری تاریخ کا ایک انوکھا دور ہے۔ انسان ہر زمانے میں اپنے اندر کچھ آرزوئیں لے کر پیدا ہوتا تھا۔ وہ ان آرزوؤں کو صرف اپنی کہانیوں میں ظاہر کرسکتا تھا۔ مگر ساری عمر کی کوشش کے باوجود وہ ان آرزوؤں کی تکمیل نہیں کرسکتا تھا اور محرومی کے احساس کے ساتھ مرجاتا تھا۔
موجودہ دنیا میں بظاہر اِن آرزوؤں کی تکمیل کا سامان حاصل ہوچکا ہے۔ جس اڑن کھٹولے کا تصور صرف کہانیوں میں پایا جاتا تھا وہ اب ہوائی جہاز کی صورت میں ایک واقعہ بن چکا ہے۔ جو عالمی کمیونی کیشن صرف افسانوی کبوتر کے ذریعے متصور ہوتا تھا وہ اب جدید کمیونی کیشن کے ذریعے ایک عملی واقعہ بن چکا ہے۔
یہی معاملہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے کے تمام خواب آج بظاہر واقعہ بن چکے ہیں۔ قدیم زمانے کے افسانوی شہر اب بظاہر عملاً بنائے جاچکے ہیں جن کے اندر دنیا بھر میں عورت اور مرد رہ رہے ہیں۔ قدیم زمانے کی افسانوی زندگی اب بظاہر واقعہ بن چکی ہے۔
لیکن جہاں تک حقیقی خوشی کا سوال ہے، انسان آج بھی حقیقی خوشی حاصل نہ کرسکا۔ درخت کی شاخوں پر چہچہانے والی چڑیاں خوش ہوںگی لیکن انسان اب بھی خوشی سے محروم ہے۔ آج دنیا کے بازار میں ہر چیز مل سکتی ہے، مگر سکون کا سرمایہ کسی بازار میں میسر نہیں۔
اِس اَلم ناک صورتِ حال کاواحد سبب ایک ہے۔ اور وہ ہے—صرف ،قبل از موت دورِ حیات(pre-death period) کو سامنے رکھ کر زندگی کو اکسپلین کرنے کی کوشش کرنا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا ایک بعد از موت دورِ حیات (post-death period) ہے، اور اس ابدی دورِ حیات کو شامل کیے بغیر زندگی کی اطمینان بخش توجیہہ کرنا ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے کریشن پلان (creation plan)کے مطابق، انسان کی زندگی دو دَوروں میں تقسیم ہے— قبل از موت دَور، اور بعد از موت دَور۔ قبل از موت دَورکی مدتِ حیات گویا فصل بونے کی مدت ہے، اور بعد از موت دَورکی مدتِ حیات گویا پھل حاصل کرنے کی مدت۔ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ فصل کے بغیر پھل نہیں اور پھل کے بغیر ذراعت کی کوئی معنویت نہیں۔ انسانی زندگی کے اِس معاملے کو جانے بغیر، انسانی زندگی کی اطمینان بخش توجیہہ کرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
حیوانات کے لیے زندگی صرف ایک بار ہے مگر انسان کے لیے استثنائی طورپر زندگی دوبار ہوتی ہے۔ ہر انسان اصلاً ابدی حیات کا مالک ہے۔ اِس ابدی زندگی کا بہت مختصر حصہ قبل ازموت دورِ حیات میں ہے۔ اور اس کا بقیہ تمام حصہ بعد از موت دورِ حیات میں۔
کائنات کی دوسری چیزیں قانون فطرت کے ماتحت ہیں۔ یہاں کی ہر چیز جبری طورپر وہی کرتی ہے جو اس کے لیے قانونِ فطرت کے تحت مقدر کردیا گیا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان استثنائی طورپر ایک آزاد مخلوق ہے۔ وہ اپنا مستقبل خود اپنے آزاد ارادے کے تحت بناتا ہے۔ وہ اپنی آزادی کا یا تو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال۔ وہ اپنے مواقع کو یا تو پاتا ہے یا اس کو نادانی کے ساتھ کھو دیتا ہے۔
اس حقیقت کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر ۹۵ میں خدا نے یہ اعلان کیا ہے کہ —ہم نے انسان کو بہترین بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا ۔ پھر اس کو سب سے نیچے درجے میں پھینک دیا (التین ۴ ـ ۵)
We created man in the best mould, then we cast him down to the lowest of the low.
یہ گویا انسان کے لیے ایک وارننگ ہے جو اس کو اس کے حال اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اعلیٰ امکانات کے ساتھ پیدا کیا، مگر انسان اپنے امکانات کا کم تر استعمال کرکے اپنے آپ کو بدترین ناکامی میں ڈال دیتا ہے:
God created man with great potential, but by under-utilizing his potential he makes himself a worst case of failure.
انسان کی شخصیت ایک دوہری شخصیت ہے— جسم اور روح (یا ذہن)۔سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں تک انسان کے جسم کا تعلق ہے ،وہ غیر ابدی ہے۔ جب کہ انسان کی روح ایک ابدی وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی روح ایک غیر مادّی حقیقت ہے۔ وہ مادّی قوانین سے بالا تر ہے۔ جب کہ انسان کا جسم مادی قوانین کے ماتحت ہے اور مسلسل طورپر فنا پذیر ہے۔
حیاتیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کا جسم بہت چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے بنا ہے۔ یہ خلیے ہر لمحہ ہزاروں کی تعداد میں ٹوٹتے رہتے ہیں۔ انسان کا نظامِ ہضم گویا ایک خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹری مسلسل طورپر خلیّات کی سپلائی کرتی رہتی ہے۔ اِس طرح جسم اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ یہ عمل اِس طرح ہوتا ہے کہ ہر چند سال کے بعد آدمی کا جسم بالکل ایک نیا جسم بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا روحانی وجود کسی تبدیلی کے بغیر اسی طرح باقی رہتا ہے۔ چنانچہ کہاگیا ہے کہ انسان کی شخصیت تغیر کے درمیان عدم تغیر کا نام ہے:
Personality is changelessness in change.
انسان کی ناکامی کا پہلا مظہر یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے غیر متغیر حصے کو نظر انداز کرتا ہے، اور اپنی شخصیت کے تغیر پذیر حصے کو اچھا بنانے میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی ساری توجہ فانی انسان کی بہتری میں لگا دیتا ہے، اور ابدی انسان کی بہتری کے لیے وہ نہ کچھ سوچتا ہے اور نہ کچھ کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک محدود مدت گذار کر جب وہ مرتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا فانی وجود اپنی تمام ظاہری ترقیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے اور اس کا ابدی وجود ترقیات سے محروم حالت میں زندگی بعد موت کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔
یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں انسان کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہہ بدترین ناکامی ہے کہ انسان انتہائی اعلیٰ امکانات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا جائے مگر وہ اپنے امکانات کو صرف ناقص طورپر استعمال کرے اور اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اپنے اِس عدم استعمال کی قیمت دینے کے لیے اپنے ابدی دورِ حیات میں داخل ہوجائے۔
اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان استثنائی طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تصوّراتی فکر (conceptual thought) انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو وسیع کائنات کی کسی بھی چیزمیں نہیں پائی جاتی۔ حتی کہ حیوانات میں بھی نہیں۔ اِسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان ایک سوچنے والا حیوان ہے:
Man is a thinking animal.
اِس اعتبار سے دیکھیے تو انسان کی شخصیت دو چیزوں پر مشتمل ہے— غیر تفکیری جسم، اور تفکیری روح۔ جو لوگ اپنے امکانات کو محدود طورپر صرف مادّی دائرے میں استعمال کریں وہ گویا اپنے وجود کے غیر تفکیری حصے کی تو خوب تزئین کررہے ہیں لیکن اپنے وجود کے تفکیری حصے کی ترقی کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ موت سے پہلے کی اپنی تمام عمر جسمانی ترقی (physical development) میں صرف کردیتے ہیں،اور جہاں تک ذہنی ترقی (intellectual development) کی بات ہے وہ اس کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں پر جب موت آتی ہے تو اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اُسی طرح مرجاتے ہیں جس طرح کوئی حیوان مرتا ہے، یعنی اپنے جسم کو خوب فربہ بنانا، اور اگلے دورِ حیات میں اِس طرح داخل ہونا کہ ان کا ذہن تمام ترقیوں سے محروم ہو اور اگلے دورِ حیات میں طویل حسرت کے سوا کچھ اور ان کے حصے میں نہ آئے۔
اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پر کل(tomorrow) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں، بشمول حیوانات، صرف اپنے آج (today) میں جیتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو کل کا شعور رکھتا ہے، اور کل کو نشانہ بنا کر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ گویا کہ بقیہ چیزیں صرف حال (present) میںجیتی ہیں اور انسان استثنائی طورپر مستقبل (future) میں ۔
قرآن کے بیان کے مطابق، وہ لوگ بدترین محرومی کا شکار ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو صرف آج کی چیزوں کے حصول میں لگا دیں اور اپنے کل کی تعمیر کے لیے وہ کچھ نہ کریں۔ ایسے لوگ موت سے پہلے کی زندگی میں بظاہر خوش نما دکھائی دے سکتے ہیں لیکن موت کے بعد کی زندگی میں وہ محرومی کی بدترین مثال بن جائیں گے۔ کیوں کہ موت کے بعد کی زندگی میں جو چیز کام آنے والی ہے وہ ذہنی اور روحانی ترقی ہے نہ کہ دنیوی مفہوم میں مادّی ترقی۔
اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر لامحدود خواہشیں رکھتا ہے۔ اِسی کے ساتھ ہر انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن کو استعمال کرکے وہ لامحدود حد تک اپنی خواہشوں کی تکمیل کرے، مگر ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا صرف اتنا استعمال کرپاتا ہے جو اس کو موت سے پہلے کی محدود دنیا میں کچھ وقتی راحت دے سکے۔ مگر آخر کار ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِن تمام صلاحیتوں کو لیے ہوئے موت کے بعد والی ابدی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے جہاں وہ ابدی طور پر بے راحت زندگی گذارے، کیوں کہ اُس نے اِس دوسرے دورِ حیات کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہیں کیا تھا۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے حقیقت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس طرح کرے کہ اس کی فطری صلاحیتیں بھر پور طورپر اس کے ابدی مستقبل کی تعمیر میں استعمال ہوں۔ وہ اپنے امکانات (potentials) کو سمجھے اور اُن کو اِس طرح استعمال کرے کہ وہ اپنے ابدی دورِ حیات میں ان کا مفید نتیجہ پاسکے۔ وہ اپنے آپ کو اِس بُرے انجام سے بچائے کہ آخر میں اس کے پاس صرف یہ کہنے کے لیے باقی رہے کہ میں اپنے امکانات کو استعمال کرنے سے محروم رہا:
I was a case of missed opportunities.
انسان کے لیے حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی یہ ہے کہ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مادی چیزوں کے معاملے میں صرف ضرورت(need) پر قناعت کرے، اور اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کا بیش تر حصہ اِس پر خرچ کرے کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں ایک مُطہَّر شخصیت (purified personality) کے ساتھ داخل ہو۔ تاکہ اس کو ابدی دورِ حیات کی معیاری دنیا (perfect world) میں عزت اور راحت کی مطلوب زندگی مل سکے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات اور موت کے بعد کے دورِ حیات دونوں میں کامیابی کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو تیّار شخصیت(prepared personality) بنانا۔ مادّی معنوں میں تیار شخصیت موت سے پہلے کے دورِ حیات میں ترقی کا ذریعہ بنتی ہے، اور روحانی معنوں میں تیار شخصیت اُس دورِ حیات میں کام آئے گی جہاں موت کے بعد آدمی کو رہنا ہے۔
مادی معنوں میں تیار شخصیت یہ ہے کہ آدمی پروفیشنل ایجوکیشن حاصل کرے۔ آدمی کے اندر تجارتی صلاحیت ہو۔ آدمی کے اندر وہ صفات ہوں جن کے ذریعے کوئی شخص لوگوں کے درمیان مقبول ہوتا ہے۔ آدمی قریبی مفاد(immediate gain) کو آخری حد تک اہمیت دیتا ہو، وغیرہ۔
موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو تیار شخصیت درکار ہے وہ ایسی شخصیت ہے جس نے موجودہ دنیا کے مواقع کو روحانی ارتقاء (spiritual development) اور فکری ارتقاء (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔ ایسی ہی شخصیت موت کے بعد کے دورِ حیات میں باقیمت ٹھہرے گی۔
یہ شخصیت وہ ہے جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے سچائی کو دریافت کیا۔ جو شبہات کے جنگل میں یقین پر کھڑا ہوا۔ جس نے خدا کو اپنی زندگی کا واحد کنسرن بنایا۔ جس نے خود پسندی کے جذبات کو کچل کرخدا پرستی کے طریقے کو اختیار کیا۔ جو منفی حالات میں مثبت سوچ پر قائم رہا۔ جس نے نفسانی انسان بننے کے بجائے ربّانی انسان ہونے کا ثبوت دیا۔جس نے مفاد پرستی کے بجائے اصول پسندی کا طریقہ اختیار کیا۔ جس نے اپنے آپ کو نفرت سے بچایا اور اپنے اندر انسانی خیر خواہی کے جذبات کی پرورش کی۔ جس نے آزادی کے باوجود اطاعت(submission) کا طریقہ اختیار کیا۔
واپس اوپر جائیں
عزیزی اُم السلام سلمہا! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵ نومبر ۲۰۰۶ کی شام کو ٹیلی فون کے ذریعے معلوم ہوا کہ عثمان بن سعید چاؤش کا انتقال ہوگیا— انّا للہ واِنّا الیہ راجعون۔ مرحوم کی صحت عرصے سے اچھی نہ تھی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کے لیے حُسنِ تلافی کا سامان فرمائے۔
مرحوم سے میرا پہلا تعارف اُس وقت ہوا جب کہ میں رام پورمیں تھا۔ یہ تعارف غائبانہ سطح پر شروع ہوا۔ پندہ روزہ ’’الحسنات‘‘ کو دیکھ کر انھوں نے مجھ کوخطوط لکھے، اِس طرح ان سے خط وکتابت شروع ہوئی۔ بعد کو اُن سے براہِ راست ملاقات ہوئی اور پھر ان سے وہ تعلق قائم ہوا جو آخر وقت تک باقی رہا۔
مرحوم بلا شبہہ ایک مخلص انسان تھے۔ وہ ہمیشہ دین کی بات کرتے تھے۔ اُن کو میں نے کبھی اِدھر اُدھر کی غیر دینی بات کرتے ہوئے نہیں سُنا۔ الرسالہ مشن کو پھیلانے میں انھوں نے بہت زیادہ کام کیا۔ برسوں تک ان کا یہ حال تھا کہ سفر کرکے وہ ہر جگہ پہنچتے اور الرسالہ، اور الرسالہ مطبوعات کو لوگوں تک پہنچاتے۔ اِس معاملے میں ان کی قربانیاں بے مثال ہیں۔
مرحوم مثبت ذہن کے حامل تھے اور خالص داعیانہ مزاج رکھتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک قریبی ساتھی برادرم محمد ضمیر (کامٹی) کا ایک خط مجھے ملا۔ اپنے اِس خط میں انھوں نے مرحوم کے دعوتی اور مثبت مزاج کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ایک واقعہ اِس طرح لکھا ہے:
’’ایک مرتبہ مُکھِیڈ (ناندیڑ) میں کسی غیرمسلم نے اپنی دیوار پر لکھ دیا تھا کہ— ’’گَرو سے کہو، ہم ہندو ہیں‘‘ اس کے جواب میں آپ نے کوئی چیخ وپکار نہیں کی، نہ ہی انھوں نے مسلمانوں کو بھڑکایا، بلکہ انھوں نے اس کے جواب میں صرف محبت کا ایک جملہ لکھ دیا جس پر شرمندہ ہو کر مذکورہ ہندو بھائی نے اپنا جملہ دیوار سے مٹا دیا۔ مرحوم کی وہ بات یہ تھی—’’مذہب گَرو کرنے کی چیز نہیں ہے‘‘۔ یہ جملہ انھوں نے مراٹھی زبان میں لکھا تھا۔
مرحوم کی ایک بات مجھے بہت یاد آتی ہے۔ وہ اکثر پُر یقین انداز میں کہا کرتے تھے: ’’اللہ بہت بڑے ہیں‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مومنانہ نفسیات کا خلاصہ ہے۔ یہ بلا شبہہ سب سے بڑی بات ہے کہ آدمی کے دل میں خدا کی عظمت بیٹھی ہوئی ہو۔ خدا کی عظمت کا احساس آدمی کو ایک طرف یقین کا سرچشمہ عطا کرتا ہے، اور دوسری طرف وہ اس کے اندر کامل تواضع پیدا کردیتا ہے۔ یہی دو چیزیں انسان کی شخصیت کی اعلیٰ تعمیر کرنے والی ہیں۔
مرحوم خود اِس بات کا کامل نمونہ تھے۔ ان کی ہر اَدا سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ خدا کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اِسی کی ساتھ ان کے اندر تواضع کی صفت بھی کامل درجے میں پائی جاتی تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے:
خدا، رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را!
گھر کے تمام لوگوں کو حسبِ مراتب سلام اور دعاء۔
نئی دہلی، ۶ نومبر ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
واپس اوپر جائیں
۲۵دسمبر ۲۰۰۶ کی صبح کو میری اہلیہ سابعہ خاتون کا انتقال ہوگیا۔ بوقتِ انتقال ان کی عمر تقریباً ۸۰ سال تھی۔ ان کا پہلا نکاح میرے چچا زاد بھائی نظام الدین خاں سے ہوا تھا۔ ان سے ایک بچی بھی پیدا ہوئی تھی، مگر نظام الدین خاں اور بچی دونوں جلد ہی وفات پاگیے۔ ان سے میرا نکاح جولائی ۱۹۴۲ میں ہوا۔ وفات سے پہلے اور وفات کے بعد کئی لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت کے باغوں میں ہیں۔
مرحومہ کی سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ ان کے اندر بے پناہ صبر و شکر تھا۔ میں اپنے مشن کی بنا پر ساری عمر دیوانے کی مانند رہا۔ یہاں تک کہ میرے خاندان کے لوگ مجھ کو مجنوں (mad) کہنے لگے۔ میری یہ حالت شروع سے آخر تک باقی رہی۔ مرحومہ نے کامل صبر کے ساتھ اس کو برداشت کیا۔ انھوں نے نہ کبھی مجھ سے شکایت کی اور نہ کسی اور سے۔ میرے مشن میں ان کا حصہ اتنا زیادہ ہے کہ شاید ان کے بغیر میرا مشن وجود ہی میں نہ آتا۔
اِس معاملے میں جب میں غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی اور مشن میں تین خواتین کا بے حد اہم حصہ ہے۔ میری ماں زیب النساء (وفات : ۱۹۸۵) ،میری اہلیہ سابعہ خاتون اور میری لڑکی فریدہ خانم۔
میری بیوی اکثر یہ کہتی تھیں کہ— آپ کو لکھنے پڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ یہ بات بالکل لفظی طورپر درست ہے۔ میری اِس نااہلی کی تلافی مذکورہ تینوں خواتین نے کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی انتظام تھا کہ اُس نے اِن تین خواتین کے ذریعہ میری نااہلی کی تلافی کا انتظام فرمایا۔
انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ— ہر بڑی چیز کے آغاز میں ایک عورت ہوتی ہے:
There is a woman at the beginning of all great things.
میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی اور میرا مشن جو کچھ ہے، وہ اِنھیں تین خواتین کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ تین فرشتہ صفت خواتین مجھ کو نہ دی ہوتیں تو میں کچھ بھی نہ ہوتا اور نہ میرا دعوتی مشن وجود میں آتا۔ میں نے اپنی کتاب ’’عورت: معمار انسانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ عورت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے لیے بہترین ذہنی رفیق (intellectual partner) ہے۔ میرا احساس ہے کہ تاریخ میں غالباً میں پہلا شخص ہوں جس نے عورت کی اِس خصوصی اہمیت کو دریافت کیا۔ میری یہ دریافت خلا میں نہیں ہوسکتی تھی، اور نہ کتابوں کے ذریعہ، کیوں کہ کتابوں کے ذخیرے میں یہ تصور سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ یہ عظیم دریافت مذکورہ تین خواتین سے تعلق کے دوران میرے لیے ممکن ہوسکی۔
۲۵ دسمبر کو قبرستان پنج پیراں (نئی دہلی) کی مسجد میں مرحومہ کی نمازِ جنازہ ہوئی۔ مولانا محمد ہار ون صاحب (امام کلاں مسجد) نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ہم لوگ تدفین کے مقام پر پہنچے۔ قبر کھودی جاچکی تھی۔ جب مرحومہ کے کپڑے میں لپٹے ہوئے جسم کو قبر میں اتارا گیا تو مجھ پر عجیب احساس طاری ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ پوری انسانیت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ آخری طور پر موجودہ دنیا سے نکل کر آخرت کی دنیا میں جارہی ہے۔ میرا یہ احساس اُس وقت شدید ہوگیا جب کہ تدفین کے وقت میں نے حسب قاعدہ قبر میں تین مٹھی مٹی ڈالتے ہوئے کہا: منھاخلقناکم وفیہا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ (طٰہٰ : ۵۵)
مجھے یاد آیا کہ ۱۹۶۵ میں جب کہ میں لکھنؤ میں تھا، مرحومہ کی طبیعت کافی خراب ہوگئی۔ میں ان کے طبّی معاینے کے لیے انھیں ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے مطب (حضرت گنج) میں لے گیا۔ انھوں نے دیکھنے کے بعد فوراً کہا— آپ نے بہت دیر کردی: You are too late.
عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کا انتقال ۱۹۷۴ میں ہوگیا۔ اور ان کے انتقال کے ۳۲ سال بعد مرحومہ کی وفات ہوئی۔ مرحومہ کی صحت بہت عرصے سے خراب رہتی تھی۔ مشن کے اعتبار سے میری زندگی کا جو طریقہ بنا، اس کی وجہ سے ان کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ آخر میں ان کی صحت بہت زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان کی پوری زندگی ایک پُر مسئلہ زندگی بن کر رہ گئی۔
وہ ۶۳ سال تک میری زندگی کی رفیق بنی رہیں۔ اس کو سوچتے ہوئے میرے ذہن میں خیالات کا طوفان آگیا۔ میں نے سوچا کہ انسان ایک ایسی دنیا میں پیداہوتا ہے جو اعلیٰ معیار کی حد تک مکمل ہے، دنیا کی اِس معیاری صفت کو شعوری طورپر صرف انسان جانتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ خود انسان اپنی پسند کے خلاف غیر معیاری زندگی گذار کر مرجاتا ہے۔ انسان اور بقیہ کائنات کے درمیان یہ فرق کتنا عجیب ہے۔
۶۳ سالہ رفاقت کی داستان بہت لمبی ہے۔کسی وقت انشاء اللہ اس کو تحریر کروں گا۔ یہاںایک واقعے کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ واقعہ میرے مشن میں ایک بنیادی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
میں ۲۴ جون ۱۹۶۷ کو دہلی آیا۔ اُس وقت میں یہاں الجمعیۃویکلی سے وابستہ تھا۔ اس کے تحت مجھے جمعیۃ بلڈنگ (دہلی) میں دفتر کے طور پر ایک کمرہ دیا گیا تھا۔میں یہاں اِس طرح تھا کہ ہر دن یہ سوچتا تھا کہ مجھے دہلی سے واپس چلا جانا چاہیے۔ اچانک ایک دن میں نے دیکھا کہ میرے تین بچے اُمّ السلام اور فریدہ خانم اور ثانی اثنین میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم لوگ یہاں کیسے آئے۔ بچوں نے بتایا کہ والدہ کے ساتھ۔ اس کے بعد میری بیوی کمرے میں داخل ہوئیں۔ اُس وقت میرے پاس دہلی میں رہنے کے لیے ایک چھوٹے کمرے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ میں سخت پریشان ہوا۔
غصے کی حالت میں یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر چلا گیا کہ— اِس طرح کوئی ایسا شخص ہی آسکتا ہے جو یا تو پاگل ہو، یا جس کے پاس کوئی گھر نہ ہو۔ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر چلا گیا اور شہر کی ایک مسجد میں گُم نام طورپر رہنے لگا۔ تین دن کے بعد مجھے احساس ہوا تو میں دوبارہ اپنے کمرے میں واپس آیا۔
اصل یہ ہے کہ میری بیوی کو یقین تھا کہ میں خودسے کبھی ان کو دہلی نہیں بلاؤں گا۔ اُس وقت وہ یوپی کے ایک گاؤں میں رہتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ وہاں بچوں کی تعلیم نہ ہوسکے گی۔ اِس لیے وہ یک طرفہ فیصلے کے تحت دہلی آگئیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست تھا۔ دہلی آنے کی وجہ ہی سے ایسا ہوا کہ میرے بچوں کی باقاعدہ تعلیم مکمل ہوسکی۔
اِسی کے ساتھ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے دارالسلطنت میں الرسالہ مشن کی بنیاد پڑی۔ اگر وہ اِس طرح دہلی نہ آتیں اور دہلی کے قیام پر اصرار نہ کرتیں تو الرسالہ مشن کبھی شروع نہ ہوتا۔ اور دعوت کا وہ کام انجام نہ پاتا جو دہلی کے قیام کے دوران خدا کی خصوصی توفیق سے انجام پایا۔
واپس اوپر جائیں
۱۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۲۹ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو طلاق کے مسئلے کے بارے میں تھا۔ سوال اور جواب کے دوران بتایا گیا کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا طریقہ سرتاسر غیر اسلامی ہے۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تین مہینے میں اس کو دیا جائے۔ اِس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں کے جذبات معتدل ہوجائیں اوروہ رجوع کرکے باہم موافقت کے ساتھ رہ سکیں۔
۲۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر اَمت بھٹا چاریہ نے ۴ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں تھا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کاجواب دیا گیا۔
۳۔ آکاش وانی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر راجیو ملک نے ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو رکارڈ کیا گیا۔ سوال کا تعلق مہاتما گاندھی کی ’’ستّیہ گرہ‘‘ سے تھا۔ ستیہ گرہ کا مطلب ہے: سچائی پر جمنا۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں وتواصو بالحق وتواصوا بالصبر (العصر) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ سچائی اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ بشرطیکہ آدمی امن کے اصول پر قائم رہے۔
۴۔ دوردرشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت ایک پروگرام تھا۔ یہ رمضان کے روزے کے بارے میں تھا۔ پروگرام میں بتایا گیا کہ روزہ سیلف ڈسپلن کی تربیت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ رمضان کے مہینے کو حدیث میں شہر المواساۃ (month of philanthropy) کہاگیا ہے، یعنی انسانی ہمدردی کا مہینہ۔ اِس مہینے میں روزے داروں کے جذبات میں خصوصی طورپر عام انسانوں کے لیے ہمدردی کے احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ لوگ زیادہ سے زیادہ رفاہی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وغیرہ۔
۵۔ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو امریکا کے ایک ٹی وی آرگنائزیشن کی ٹیم مرکز میں آئی۔ اس نے صدر اسلامی مرکز کے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیورکارڈنگ کی۔ انٹرویور کا نام مزٹیری (Teri C.Mcluhan) تھا۔ اس آرگنائزیشن کا نام یہ تھا:
Peace on earth productions, New York.
انٹرویو کا موضوع بنیادی طورپر ’’اسلام اور امن‘‘ تھا۔ سوال اور جواب کی صورت میں موضوع کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اِس وقت مسلمانوں کی طرف سے مختلف مقامات پر تشدد کے جو واقعات ہورہے ہیں، وہ سرتاسر اسلام کے خلاف ہیں۔ اسلام کے مطابق، جہاد پُر امن عمل کا نام ہے نہ کہ متشددانہ عمل کا۔
۶۔ نئی دہلی (دریا گنج) میں ایک پبلشنگ ادارہ ہے جس کا نام ’’وزڈم ٹری‘‘ (wisdom tree) ہے۔ اس کے تحت، ایک کتاب چھپی ہے۔ جس کا نام یہ ہے:
A Surprise Way to Listen to Intuition and Do Business Better.
by Arupa Tesolin.
۱۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو اشوک ہوٹل (نئی دہلی) کے ایک ہال میں مذکورہ کتاب کے اجرا کا ایک فنکشن تھا۔ اس موقع پر تین تقریر ہوئی۔ کتاب کی مصنّفہ کی، اور ڈاکٹر کرن بیدی کی، اور صدر اسلامی مرکز کی۔ کتاب کی مصنفہ کناڈا سے تعلق رکھتی ہیں اور آج کل وہ نیویارک (امریکا) میں رہتی ہیں۔ وہ اس فنکشن میں شرکت کے لیے نیویارک سے انڈیا آئی تھیں۔ صدر اسلامی مرکز نے جو تقریر کی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انٹیوشن (intuition) ایک خدائی آواز ہے۔ اگر آدمی اپنے دل و دماغ کو پاک وصاف رکھے تو وہ انٹیوشن کی صورت میں خدا کا انسپریشن پاتا رہتا ہے۔
۷۔ زی نیوز (نئی دہلی) نے ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویورکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر رویتِ ہلال کے مسئلے سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اِس معاملے میں اصل بات چاند کا ہوجانا ہے، نہ کہ دیکھنا۔ چاند کو دیکھنا اِس معاملے میں اضافی ہے۔ ایلاء کے واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے موجودہ زمانے میں فلکیاتی حساب کا اعتبار کرتے ہوئے چاند کا تعین حتمی طورپر کیا جاسکتا ہے۔
۸۔ بی بی سی لندن کی نمائندہ مز ماہ پارہ صفدر نے ۲۶ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو لندن سے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اسلام میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ حال میں حکومتِ ہند نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے مطابق، کسی مرد کے لیے اپنی عورت کو مارنا سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر سخت سزا اور جُرمانہ مقرر کیاگیا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ یہ قانون اسلام کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اسلام میں تو مرد کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ عورت کو مار سکتا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ قانون اسلام کے خلاف تو نہیں، البتہ وہ عقل کے خلاف ہے۔کیوں کہ عو رت کے ساتھ بہتر سلوک کا معاملہ اخلاق سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ قانون سے۔ یہ مقصد اخلاقی شعور کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے نہ کہ کسی قانون کو نافذ کرکے، اور جہاں تک قرآن (النساء ۳۴) میں عورت کو مارنے کی بات ہے، اس کا مطلب مارنا نہیں ہے بلکہ صرف علامتی تنبیہہ ہے۔ جیسے کہ ٹوتھ برش کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا۔ کیوں کہ اسلام میں متشددانہ سزا کا حق صرف عدالت کو ہے، افراد کو نہیں۔
۹۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر شہاب صدیقی نے ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ ایک مسلم خاتون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسلم خواتین کو بُرقع نہیں پہننا چاہئے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ برقع محض ایک کپڑے کا نام نہیں، برقع دراصل ایک کلچر کی علامت ہے۔ خواتین کے معاملے میں اسلام کی تعلیمات اِس اصول پر مبنی ہیں کہ عورت اور مردکے درمیان آزادانہ اختلاط نہیں ہونا چاہیے۔ دونوں کے حدود الگ الگ رہنے چاہئیں۔ اِسی کلچر کو علامتی طورپر ’’پردہ کلچر‘‘ کہا جاتا ہے۔
۱۰۔ ۲۷ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ کی شام کو ’’ہیپی ہوم‘‘ بٹلہ ہاؤس (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کے ذمے دار ڈاکٹر ظفر محمود تھے۔ یہ پروگرام دراصل ناروے (اسکینڈی نیویا) کے ایک صاحب کی آمد پر ہوا تھا۔ ان کا نام اورپتہ یہ ہے:
Arne Saeveras. Special Advisor Peace and Reconciliation Norwegian Church AID, Norway.
اِس کاموضوع یہ تھا کہ اسلام کے بارے میں پوپ کا بیان (۱۲ ستمبر ۲۰۰۶) پر علماء اسلام کارد عمل کیا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ انھوںنے بتایا کہ پوپ کی تقریر کا پورا ٹکسٹ میں نے پڑھا۔ میں کہوں گا کہ یہ ایک غلط فہمی کا معاملہ ہے نہ کہ عناد کا معاملہ۔ اور یہ غلطی فہمی خود مسلمانوں کی اُن مسلّح کارروائیوں سے ہوئی ہے جن کو وہ اسلامی جہاد کے نام پر کرتے ہیں۔ اِس لیے اصل کام غلط فہمی کو دور کرنا ہے، نہ کہ پوپ کی مذمت کرنا۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ شرکا کو کچھ انگر یزی کتابیں بھی مطالعے کے لیے دی گئیں۔
۱۱۔ انڈیا ٹی وی، اور این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ۲؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو فتویٰ کی حقیقت کے بارے میں صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ ان سے یہ کہاگیا کہ فتویٰ یا دار الافتا، کوئی متوازی عدالت نہیں ہے۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ مسلمانوں کے مخصوص مذہبی معاملات میں ان کو شرعی رہنمائی دی جائے۔ جہاں تک ملکی قانون کا تعلق ہے، وہ مسلمانوں پر بھی اُسی طرح عائد ہوتا ہے، جس طرح وہ ملک کے دوسرے فرقوں پر عائد ہوتا ہے۔
۱۲۔ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو بی بی سی لندن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میںایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ مختلف بیرونی مقامات کے لوگ ٹیلی فون پر سوال کررہے تھے اور صدر اسلامی مرکز، دہلی کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ان کا جواب دے رہے تھے۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے کا تھا۔ سوالات کا تعلق ’’ہندستان اور شرعی قانون’’ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میںکہاگیا کہ ہندستان ایک سیکولر ملک ہے، اس لیے جب ملکی قانون اور شرعی قانون میں ٹکراؤ ہوگا تو اس کے فیصلے کا حق عدالت کو ہوگا۔ کسی فریق کو اس کے فیصلے کا حق نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو جانیں۔
۱۳۔ نئی دہلی کے ٹی وی چینل ٹائمس ناؤ (Times Now) کی ٹیم نے ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویور رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر تابش نصیر (9818914936) تھے۔ سوال کاتعلق اِس مسئلے سے تھا کہ اسلام میں عورت کا شرعی پردہ کیا ہے۔ جوا ب میں بتایا گیا کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے کہ مسلم خاتون کو اپنا چہرہ ڈھکنا چاہیے۔ فقہ حنفی کے مطابق، وجہ اور کفّین اور قدمَین پردے سے مستثنی ہیں۔ عورت کا اصل پردہ یہ ہے کہ اس کاڈریس ماڈیسٹ ڈریس (modest dress) ہو، یعنی وہ پورے جسم کو کوَر کرتا ہو، ڈھیلا ڈھالا ہو اور بھڑک دار نہ ہو، جسم کے حصے نمایاں نہ ہوتے ہوں، یہی اصل شرعی پردہ ہے۔
۱۴۔ جَن مت ٹی وی(نئی دہلی) کے اسٹوڈیومیں ۲ نومبر ۲۰۰۶ کوایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس میں اینکر کے علاوہ تین پولٹکل پارٹیوں کے نمائندے شریک تھے۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی۔ اِس موقع پر دو مسئلے زیرِ بحث آئے۔ ایک، یہ کہ فتویٰ کے حدود کیا ہیں۔ صدر اسلامی مرکز نے تبایا کہ فتویٰ کا تعلق کسی کے ذاتی مسئلے کے بارے میں مفتی کا اپنی رائے دینا ہے۔ جہاں تک سماجی اور فوج داری معاملات کا تعلق ہے، وہ فتویٰ کے حدود سے باہر ہے۔ ایسے معاملات میں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ دوسرا مسئلہ، مسلمان اور رزرویشن کے بارے میں تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ مسلمانوں کا مسئلہ رزرویشن سے حل ہونے والا نہیں۔ اِس مسئلے کے حل کی صورت صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔
۱۵۔ زی نیوز ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۵ نومبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو ٹیپ رکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر صدام حسین کے بارے میں عدالتی فیصلے سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ مسائل سے اعراض کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے۔ صدام حسین نے اس کے برعکس، یہ کیا کہ مواقع کو نظر انداز کرکے وہ مسائل سے لڑتے رہے۔ اِس قسم کی پالیسی کا نتیجہ ہمیشہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔
۱۶۔ عراق کی عدالت نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کے لیے پھانسی کی سزا کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں ۵اکتوبر ۲۰۰۶ کو اسٹار ٹی وی (نیوز) کی ایک ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ کہی گئی کہ صدام حسین کے لیے بہتر یہ تھا کہ وہ پولٹکل گدی کو چھوڑ کر کوئی تعمیری کام کرتے۔ امریکا کے سابق صدر جیفر سن (۱۸۲۶)نے آٹھ سال امریکا میں حکومت کی۔ اس کے بعد انھوں نے سیاست کو چھوڑ کر ایک یونیورسٹی بنوائی جو یونیورسٹی آف ورجینیا کے نام سے مشہور ہے۔ صدام حسین نے عراق میں ۲۴ سال تک حکومت کی۔ ان کے پاس بہت بڑے بڑے آٹھ محل تھے۔ وہ ایسا کرسکتے تھے کہ سیاسی عہدہ چھوڑ کر آٹھ کالج یا یونیورسٹی بنائیں۔ یہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوتا لیکن وہ ’’اُمّ المعارک‘‘ کی جذباتی تقریریں کرتے رہے اور آخرکار عراق کو کچھ دیے بغیر ختم ہوگیے۔
۱۷۔ سائی انٹرنیشنل (نئی دہلی) میں ۸ نومبر ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس میں ملک بھر سے کیندریہ ودّیالیہ کے پرنسپل بلائے گیے تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں انھوں نے ’’بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام’’ کے موضوع پر ایک تقریرکی اور آخر میں سوالات کے جواب دیے۔
۱۸۔ بی بی سی لندن (اردو سکشن) نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا، انٹرویو کا موضوع ہندستان میں مسلمانوں کے لیے رزرویشن کا مسئلہ تھا۔ جواب میں بتایاگیا کہ رزرویشن کی بات صرف ایک سیاسی اشو ہے، مسلمانوں کی حقیقی ترقی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ترقی کا تعلق کسی لا آف لینڈ سے نہیں ہے بلکہ لا آف نیچر سے ہے۔ زندگی کامپٹیشن کے اصول پر قائم ہے۔ مسلمانوں کو جدوجہد کرکے ترقی مل سکتی ہے۔ رزرویشن اور رعایت سے نہیں۔
۱۹۔ انٹرفیتھ کولیشن فار پیس (Interfaith Coalition for Peace) کی طرف سے ۲۵ نومبر ۲۰۰۶ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک سیمنار ہوا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ بعض غیر ملکی افراد بھی اس میں شامل تھے۔ اس سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Religious Significance of Light
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میںایک تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسپریچول لائٹ کا سورس صرف خدا ہے۔ اس سے تعلق قائم کرکے ہی کوئی آدمی اپنے لیے روحانی روشنی حاصل کرسکتا ہے۔
۲۰۔ حکومتِ کویت کی طرف سے ہر سال مؤتمر (کانفرنس) کی جاتی ہے۔ ۲۶ نومبر تا ۲۹ نومبر ۲۰۰۶ کو کویت میں اعجازِ قرآن پر آٹھویں کانفرنس (المؤتمر الثامن للإعجاز العلمی فی القرآن الکریم والسّنۃ النبویۃ) منعقد ہوئی۔ اِس کانفرنس میںشرکت کے لیے کویت کی وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ (Ministry of Awqaf and Islamic Affairs) کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ موصول ہوا۔ اِس دعوت نامے پَر وکیل الوزارہ دکتور عادل عبد اللہ الفلاح کا دستخط تھا۔ یہ بہت اچھا موضوع تھا، لیکن بعض وجوہ سے صدر اسلامی مرکز اس میں شرکت نہ کرسکے۔ چناںچہ انھیں معذرت نامہ بھیج دیاگیا اور موضوع سے متعلق، اسلامی مرکز کی چھپی ہوئی بعض انگریزی کتابیں بھی روانہ کردی گئیں۔
۲۱۔ سوامی اوم پورن سوتنترا (راجستھان) کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط مؤرخہ ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۶ موصول ہوا جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Reverved National Saint,
Just now I heard your talk on the BBC. I feel proud of you! It is only a national saint, a true Indian, a genuinely spiritual authority who would speak with such honesty, frankness and boldness about the respective positions of the Law of the Land and the Personal Law of the Muslim community.
In a secular country like India all religions are equal and free to follow their ways in their respective spheres but the love of the Lord is supreme and all Indian citizens are obliged to follow it.
But the beauty of your presentation was that you placed your position very clearly and candidly without being offensive to anybody. It is this 'divinity' of the Maulana to which I bow down my head in reverence. All glory to thee, O, the embodiment of the soul of India.
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.