دعوہ ایکٹوزم
کسی مقصد کے حصول کے لیے ہمیشہ زبردست کوشش کرنی پڑتی ہے۔ پچھلے زمانے میں ایسی کوشش کو جدوجہد (struggle) کہا جاتا تھا۔ اڈولف ہٹلر (وفات ۱۹۴۵) نے ۱۹۲۳ میں اپنی مشہور کتاب لکھی، جب کہ وہ جرمنی کی جیل میں تھا۔ اِس کتاب میں اس نے اپنی ’’نازی تحریک‘‘ کا تعارف بیان کیا تھا۔ اس کتا ب کا نام اس نے میری جدوجہد (My Struggle) رکھا۔ جرمن زبان میں اس کا نام مین کامف(Mein Kampf) تھا۔ موجودہ زمانے میں اس مفہوم کے لیے ایکٹوزم (activism) کا لفظ بولا جاتا ہے، جو بعض اعتبار سے زیادہ با معنیٰ ہے۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بنیادی طورپر ایکٹوزم کے دو طریقے ہیں— وائلنٹ ایکٹوزم، اور نان وائلنٹ ایکٹوزم ، مگر یہ تقسیم ناقص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک تیسرا طریقہ بھی موجود ہے اور وہ اسپریچول ایکٹوزم ہے۔ اسپریچول ایکٹوزم کا دوسرا نام دعوہ ایکٹوزم ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِس تیسرے طریقے کے لیے دعوہ ایکٹوزم کا لفظ استعمال کریں گے۔ یہاں ان تینوں طریقوں کے بارے میں مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
وائلنٹ ایکٹوزم(Violent Activism)
وائلنٹ ایکٹوزم میں آدمی کا طریقِ فکر کیا ہوا ہے، اس کا اندازہ چین کے کمیونسٹ لیڈر ماؤزی تنگ (Mao Tse-Tung) کے اِس مشہور قول سے ہوتا ہے— طاقت بندوق کی نالی سے نکلتی ہے:
Power flows from the barrels of gun.
وائلنٹ ایکٹوزم ایک نگیٹیو ایکٹوزم ہے، اور یہ لا آف نیچر ہے کہ نگیٹیو ایکٹ سے کبھی پازیٹیو رزلٹ نہیں نکل سکتا۔ جو عمل اپنے آغاز میں منفی ہو، وہ اپنے اختتام پر بھی منفی ہی رہے گا۔ منفی آغاز کبھی مثبت انجام کا باعث نہیںہوسکتا۔
وائلنٹ ایکٹوزم کا نتیجہ ہمیشہ بدترین تباہی کی صورت میں نکلتا ہے، جیسا کہ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کے ساتھ پیش آیا۔ جرمن ڈکٹیٹر ہٹلر غالباً تاریخ کا سب سے بڑا جنگ جو اور سب سے بڑا تشدد پسند انسان تھا۔ اس نے جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے ذریعے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہا، مگر وہ مکمل طورپر ناکام رہا۔ آخر میںاس نے برلن کے ایک بنکر میں خود کشی کرلی، جب کہ اس کے تمام ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ آخر وقت میں اس نے کہا تھا کہ اب جنگ کا دور ختم ہوچکا، اب اگر جنگ ہوگی تو اس میں کوئی فاتح نہ ہوگا۔ صرف یہ ہوگا کہ کچھ لوگ جنگ کی عمومی تباہی سے بچ جائیں گے:
No Victors, Only Survivers.
ہٹلر کو توجنگ میں مکمل شکست ہوئی تھی، لیکن جنگ ایسی تباہ کُن چیز ہے کہ اس میں فتح بھی شکست ہی کی ایک دوسری قسم ہوتی ہے۔ شکست نُما فتح کی کئی واضح مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔ یعنی ایسی فتح جس میں فاتح نے فتح کے باوجود اپنا سب کچھ کھو دیا ہو۔ بظاہر فتح، لیکن حقیقت کے اعتبار سے صرف شکست۔
قبل مسیح یونان میں پیدا ہونے والا بادشاہ پائرس (Pyrrhus) اِس معاملے کی ایک مثال ہے۔ اس کی لڑائی مقدونیہ (Macedonia) کے حکمراں سے ۲۷۵ قبل مسیح میں ہوئی۔ اِس لڑائی میں بظاہر پائرس کو فتح ہوئی، لیکن اِس فتح کو حاصل کرنے میں اس نے اپنی ساری طاقت کھودی تھی۔ اِس کے بعد اس کی سلطنت اتنی کمزور ہوگئی کہ ۲۷۲ قبل مسیح میں خوداس کو بھی قتل کردیاگیا۔ چناں چہ اِس قسم کی شکست نما فتح کو پِرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کہا جاتا ہے۔
کسی مقصد کے حصول کے لیے ہتھیار کو بطور طریقِ کار استعمال کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صورت موجودہ(status quo) کو توڑکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اِس طریقِ کار کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورے سماج میں نفرت، تشدد، لاقانونیت، انارکی اور اِن ٹالرنس جیسی منفی چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا سماج منفی سرگرمیوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔
جس ماحول میں لوگوں کے اندر پُرتشدد طریقِ کار کا مزاج ہو، وہاں ڈیماکریسی کبھی نشو نما نہیں پاتی۔ ایسے ماحول میں ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ جنم لیتی ہے۔ اور جہاں ڈکٹیٹر شپ ہو، وہاں آزادیٔ رائے کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اور آزادیٔ رائے کا خاتمہ ہمیشہ ذہنی ترقی کے خاتمے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اِس صورتِ حال کی ایک مثال ستّاون مسلم ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ان ملکوں میں ہر جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہے، اور اس کے نتیجے میں وہاں ذہنی ارتقا کا عمل رک گیا ہے۔
پُر تشدد طریقِ کار عملاً بد امنی کے ہم معنی ہے۔ کیوں کہ ایک فریق کی طرف سے تشدد کا استعمال دوسرے فریق کو تشدد کا جواز فراہم کردیتا ہے۔ اِس طرح پورا ماحول لازمی طورپر دو میں سے ایک بُرائی میں مبتلا ہوجاتا ہے— ذہنی تشدد، جس کا دوسرا نام نفرت ہے، یا عملی تشدد جو خوں ریزی کی صورت میں پورے سماج کو حیوانی سماج میں تبدیل کردیتا ہے۔
پُر تشدد طریقِ کار کا سب سے زیادہ بھیانک نقصان یہ ہوتا ہے کہ ذہنی ارتقا کا عمل رُک جاتا ہے۔ ذہنی ارتقا، لازمی طورپر آزادیٔ رائے چاہتا ہے۔ آزادانہ فکری عمل کے بغیر ذہنی ارتقا نہیںہوتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جن ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہے اور نتیجۃً آزادیٔ رائے پر پابندی لگی ہوئی ہے، وہاں کوئی آدمی اتنا بڑا علمی کام نہیں کرپاتا کہ اس کو نوبل پرائز جیسا عالمی انعام دیا جائے۔ ایسے ملکوں میں پیدا ہونے والے کسی شخص کو اگر کوئی نوبل پرائز ملا ہے تو ایسا صرف اُس وقت ممکن ہوا ہے جب کہ وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر مغرب کے آزاد ملکوں میں جاکر آباد ہوگیاہو۔
نان وائلنٹ ایکٹوزم (Non-violent Activism)
موجودہ زمانے میں نان وائلنٹ ایکٹوزم ایک مستقل شعبۂ مطالعہ بن گیا ہے۔ اِس شعبۂ مطالعہ کو آج کل پیسفزم (pacifism) کہا جاتا ہے۔ انسائکلوپیڈیا برٹانیکا میں پیسفزم پردس صفحے کا مقالہ شامل ہے۔ اس مقالے میں بہت سے لوگوں کو پیسفسٹ (pacifist) کی حیثیت سے بتایا گیا ہے۔ اِس موضوع پر ایک انسائکلوپیڈیا بھی چھپی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
An Encyclopaedia of Pacifism (1937)
نان وائلنٹ کی کامیاب عملی مثال کے لیے اس میں صرف مہاتما گاندھی کا حوالہ دیاگیا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ پیسفزم کو بطور اصول ماننے والے تو بہت سے لوگ ہیں۔ لیکن پیسفزم کی بنیاد پر ایک پوری تحریک اٹھانا اور اس کو کامیابی تک پہنچانے کا کام صرف مہاتما گاندھی نے کیا ۔
لیکن اِس معاملے میں مہاتما گاندھی کی مثال صرف پچاس فیصد کی حد تک درست ہے۔ کیوں کہ ان کے مشن کے دو حصے تھے۔ اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ انڈیاسے برٹش رول کا خاتمہ کیا جائے، یہ کام ۱۹۴۷ میں ہوگیا۔ ان کے مشن کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میںایک بہتر سماج کی تعمیر کی جائے، ایک ایسا سماج جس کی بنیاد ’’سیوا‘‘ پر قائم ہو۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے ایک ماڈل گاؤں کے طور پر مہاراشٹر میں ’’سیوا گرام‘‘ کے نام سے ایک گاؤں بسایا تھا۔ حضرت مسیح کے الفاظ کو لیتے ہوئے انھوں نے اپنے اس مشن کو اِس طرح بیان کیا تھا— میرا مشن ہر آنکھ کے آنسو پوچھنا ہے:
My mission is to wipe away tears from all faces.
مگر واقعات بتاتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کے مشن کا دوسرا حصہ ایک فیصد کے درجے میں بھی پورا نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد جب مشن کے دوسرے حصے کے لیے کام کرنے کا وقت آیا تو خود مہاتما گاندھی کے اپنے ملک میں ۱۹۴۸ میں اُن کو گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ ان کے مشن کا دوسرا پہلو ہی اُس کا اصل پہلو تھا، مگر اِس معاملے میں ان کے قریبی آدمیوں نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ مشن کے دوسرے پہلو کے اعتبار سے سخت مایوسی کی حالت میں مرے۔اپنے آخری زمانے میںاِس کا اعتراف انھوں نے خود اِس طرح کیاتھا کہ انھوں نے کہا—’’اب میری کون سُنے گا‘‘۔ مہاتما گاندھی کے اِس قول کو لے کر ایک کتاب لکھی گئی ہے جس کا ٹائٹل ان کا یہی قول ہے:
اب میری کون سنے گا
۱۹۴۷ میں آزادی کے بعد جواہر لال نہرو انڈیا کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انڈیا کے لوگوں میں سب سے زیادہ کمی جس چیز کی ہے، وہ ہے سائنسی مزاج (scientific temper)، مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا کے لوگوں میں سائنسی مزاج نہ ہونا بعد از آزادی دور کا ظاہرہ ہے، ورنہ آزادی سے پہلے کے زمانے میں یہاں سائنسی مزاج ثابت شدہ طورپر موجود تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آزادی کے پہلے کے انڈیا میںاِس پہلو سے ٹاپ کے لوگ پیدا ہوئے۔ مثلاً سی ایس وی رمن، رابندر ناتھ ٹیگور، آرووندو، رادھا کرشنن، راج گوپال آچاریہ اور سوامی وویکا نند، وغیرہ۔ اس قسم کی بہت سی اعلیٰ شخصیتیں آزادی سے قبل کے زمانے میں پیدا ہوئیں، مگر آزادی کے بعد اِس قسم کا کوئی ایک شخص بھی پیدا نہ ہوسکا۔
آزادی کے بعد کے انڈیا میں غیر سائنسی مزاج کیسے آیا۔ اِس کی تمام تر ذمے داری اُس نان وائلنٹ ایکٹوزم پر ہے جس کو حصول آزادی کے لیے یہاں استعمال کیاگیا تھا۔ جواہر لال نہرو آزادی سے پہلے ہندستانیوں کو خطاب کرکے کہا کرتے تھے— غلامی یا آزادی، دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرلو:
Slavery or freedom— choose between the two.
اس قسم کے نعروں کے ذریعے انڈیا کے لوگوں میں جو مزاج پیدا ہوا، وہ یہی غیر سائنٹفک مزاج تھا۔ ۱۹۴۷ سے پہلے انڈیا میں جو سیاسی نظام تھا، وہ صحیح لفظ میں ’’برٹش رول‘‘ تھا۔ ’’غلامی‘‘ در اصل برٹش رول کا بُرا نام تھا جو اس لیے استعمال کیا گیاتاکہ ہندستانیوںکو بھڑ کا یا جاسکے۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں آزادی کی تحریک نان وائلنس کی بنیادپر چلائی گئی تھی۔نان وائلنٹ متھڈکو مؤثر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ موبلائز کیا جائے۔ برٹش رول کا لفظ لوگوں کو زیادہ بھڑکانے والا نہیں بن سکتا تھا،اِس لیے اس کو غلامی کا اشتعال انگیز نام دیا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انگریزی اقتدار کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔
بھڑکانے والے الفاظ بول کر اور اشتعال انگیز تقریریں کرکے یہ فائدہ تو ہوا کہ ہندستانی عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اس طرح نعروں کی سیاست کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ انگریز مُردہ باد جیسے نعرے ہر طرف سنائی دینے لگے، مگر انگریزوں کے خلاف یہ کامیاب سیاست خود انڈیا کے لیے ایک ناکام سیاست ثابت ہوئی۔ اِس بھڑکانے والی سیاست کا یہ براہِ راست نتیجہ تھا کہ ہندستان میں سائنسی مزاج کا خاتمہ ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔
قدیم ہندستان کا سائنسی مزاج اچانک نہیں بنا تھا، بلکہ وہ لمبی روایات کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ درست طور پر کہاگیا ہے کہ کسی سماج میں اِس قسم کی صحت مند روایت کے لیے ایک لمبی تاریخ درکار ہوتی ہے:
It requires a lot of history to make a little tradition.
انڈیا میںنان وائلنٹ موومنٹ کا مائنس پہلو یہ تھا کہ اس کی وجہ سے ماضی کی تمام صحت مند روایتیں ٹوٹ گئیں— قانون کی پابندی کی روایت، تعلیم اور تعلم کی روایت، سماجی میل ملاپ کی روایت، دیانت دارانہ طورپر کام کرنے کی روایت، صلح پسندی کی روایت، بے غرضانہ سروس کی روایت، چھوٹے اور بڑے کے احترام کی روایت، اخلاقی قدروں کی روایت، یہ تمام روایتیں عوام کو موبلائز کرنے کے طوفان میں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوگئیں۔ آج انڈیا میں جو انارکی اور کرپشن ہے، وہ انگریزوں کی وراثت نہیں ہے، بلکہ وہ یقینی طور پر نان وائلنٹ تحریک کی وراثت ہے۔ وائلنٹ تحریک وقتی طورپر کچھ انسانوں کا خون بہاتی ہے، لیکن نان وائلنٹ تحریک سماجی روایات کو توڑ کر نامعلوم مدت تک کے لیے سماج کو نِراج میں مبتلا کردیتی ہے۔ انسان کا قتل بلا شبہہ غلط ہے، لیکن روایات کا قتل اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں دانش مند لوگوں کے درمیان کوئی دو رائے نہیں۔ لمبی مدت کے درمیان رِشیوں اور مُنیوں، سَنتوں اور صوفیوں نے ملک میں جو صالح سماجی روایات قائم کی تھیں، وہ نان وائلنٹ تحریک کے سیاسی ابھیان میںاِس طرح ختم ہوگئیں جس طرح کوئی آندھی تنکوں کو اُڑا کر بکھیر دیتی ہے۔
نئی دہلی (پانئر ہاؤس) میں جنوری ۱۹۹۷ میں ایک سیمنار ہوا تھا۔ اس میں حسب ذیل پانچ افراد نے شرکت کی تھی— رام چندر گاندھی، رویندر کمار، سُبراتا مکھرجی، آر کے ملکانی، اور راقم الحروف۔ اِس سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Could Gandhi have succeeded today?
اِس موقع پر میں نے جو تقریر کی تھی، وہ پوری کی پوری، نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ دی پانئر (The Pioneer) کے شمارہ ۲۶ جنوری ۱۹۹۷ میں چھپی تھی۔ میری تقریر کے ایک جملے کو لے کر اس کا عنوان اخبار نے اِن الفاظ میں قائم کیا تھا:
Gandhi presided over a non-violent coup, He did not usher in a revolution.
میں نے اپنی تقریر میںکہا تھا کہ مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے یہ سمجھا تھا کہ فارین رول تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ انڈیا میں جب نیشنل رول آجائے گا تو تمام خرابیاں اپنے آپ ختم ہوجائیں گی، مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ صرف ایک غلط اندازہ تھا۔ جن لوگوں نے بھی میری طرح قبل از آزادی، اور بعد از آزادی، دونوں زمانوں کو دیکھا ہے، وہ متفقہ طورپر یہ کہیں گے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے کا زمانہ، ۱۹۴۷ کے بعد کے زمانے سے ہر اعتبار سے بہتر تھا۔ پہلے زمانے میں جو اخلاقی اور انسانی قدریں سماج کے اندر موجود تھیں، وہ بعد کے زمانے میں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ اب پالٹکس اور ایڈمنسٹریشن اور قومی ادارے، سب کرپشن میں غرق ہو کر رہ گیے ہیں، جب کہ برٹش رول کے زمانے میں قطعاً ایسا نہ تھا۔
میری تقریر کے بعد ایک پروفیسر صاحب نے کہا کہ مجھے آپ کی اِس بے جا جسارت پر تعجب ہے کہ آپ فادر آف دی نیشن مہاتما گاندھی پر تنقید کرتے ہیں، آپ کو گاندھی سے محبت نہیں۔ میںنے اِس اعتراض کے جواب میں نرمی کے ساتھ کہا کہ — میں گاندھی سے محبت کرتا ہوں، لیکن میں انڈیا سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں:
I love Gandhi, but I love India more than Gandhi.
تنقید کوئی بُری چیز نہیں۔ سنجیدہ تنقید دراصل ری اسس منٹ (reassessment) کا دوسرا نام ہے۔ اِس قسم کی تنقید زندہ قوموں کی خصوصیت ہے۔ زندہ قوموں کے نزدیک اِس قسم کی تنقید ایک محبوب فعل ہے۔ کیوں کہ اِس سے ملک کی ترقی مسلسل جاری رہتی ہے۔
اس قسم کی صحت مند تنقید ہماری ایک شدید ضرورت ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ ہندستان میںایک بہت بڑی بُرائی رواج پاگئی، وہ ہے ہڑتال، اسٹرائک، بھارت بند، چکّا جام، وغیرہ۔ اِس میں اسمبلی اور پارلمنٹ کے ہنگامے بھی شامل ہیں۔ یہ چیزیں جو حقیقی جمہوریت کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں، وہ براہِ راست طورپر ۱۹۴۷ سے پہلے کی ’’ستیا گرہ‘‘ پر مبنی سیاست کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔اِس پر تنقیدی جائزے کے بغیر اِس تباہ کُن سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔
۵؍اکتوبر ۲۰۰۶ کے اخباروں میں ایک خبر چھپی ہے۔ یہ ورلڈ اکنامک فورمس ایگزیکٹیو اوپی نین سروے (World Economic Forum's Executive Opinion Survery) کی رپورٹ ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار دی ٹائمس آف انڈیا (۵؍اکتوبر ۲۰۰۶) کے صفحہ اول پر یہ رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
India is world's No. 1 bribe payer.
انٹرنیشنل ادارے کی یہ رپورٹ ۱۲۵ ملکوں کے سروے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اس سروے کے مطابق، انڈیا میں کرپشن آخری حد تک بڑھ چکا ہے۔ نیشنل اور انٹرنیشنل دونوں میدان میں انڈیا تمام ملکوں سے آگے ہے:
“India doesn't just have loads of corruption at home, it is also the world leader in exporting graft.” (p. 1)
انڈیا میں رشوت اور کرپشن اتنا زیادہ عام ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے کسی عالمی سروے کی ضرورت نہیں۔ ہر ہندستانی جانتا ہے کہ یہاں کے سرکاری دفتروں میں کوئی بھی کام رشوت کے بغیر نہیںہوتا، جب کہ ۱۹۴۷ سے پہلے برٹش دور کے سرکاری دفتروں میں رشوت کے بغیر ہر کام ہوا کرتا تھا۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ و اقعہ ایک بہت بڑی حقیقت کو بتارہا ہے، وہ یہ کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کے عمل کا نقطۂ آغاز ہی درست نہ تھا۔ وہ ایک بہتر ہندستان بنانا چاہتے تھے۔ اِس حقیقت کے حصول کے لیے انھوں نے برٹش رول کے خاتمے کو اپنا نقطۂ آغاز بنایا، حالاں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ اُن کے لیے اپنے عمل کا صحیح آغاز یہ تھا کہ وہ ملک سے پیسہ پرستی (money worship) کے ذہن کو ختم کریں۔ پیسہ پرستی ہندستان کا مقدس کلچر ہے۔ یہی انڈیا کی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ سنجیدہ مُصلح کا کام یہ ہے کہ وہ انڈیا سے پیسہ پرستی کے کلچر کا خاتمہ کرے۔ یہی اِس ملک میں کسی حقیقی تعمیری تحریک کا پہلا قدم ہے۔ جب تک یہ کام نہ ہو، دوسرا کوئی کام ہمیں اپنے مطلوب نشانے تک نہیں پہنچا سکتا۔
کچھ صنعتی ترقیوں کا حوالہ دے کر یہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے آزادی کے بعد بہت ترقی کی ہے۔ یہ ایک مغالطے کی بات ہے۔ اِس قسم کی مادّی ترقیاں آزادی کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ وہ زمانی حالات کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں صنعتی ترقیوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ صنعتی ترقی کے اِس عمومی سیلاب میں ہر ملک کو اس کا حصہ مل رہا ہے۔ انڈیا میں خواہ کوئی بھی حکومت ہو، اس عالمی سیلاب کا اثر بہر حال انڈیا تک پہنچنا ہی تھا، اور اس کا آغاز خود برٹش دور ہی میں ہوچکا تھا۔
انگریزی زبان کے معاملے میں انڈیا کو امریکا اور برطانیہ کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی زبان کے معاملے میں انڈیا کا یہ تقدم اس کی صنعتی ترقی کا سب سے بڑا سبب ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا کو انگریزی زبان کا تحفہ برٹش رول ہی کے ذریعے ملا تھا۔
وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں بظاہر ایک دوسرے سے مختلف طریقے ہیں، مگر دونوں کے درمیان ایک چیز کامن ہے، وہ یہ کہ دونوں مبنی بَر پرابلم (problem-based ideology) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کا مشترک فکر یہ ہے کہ پہلے پرابلم کو راستے سے ہٹاؤ، اس کے بعد ہی آگے کا سفر طے ہوسکے گا۔
مثلاً انڈیا میں دو ہم عصر لیڈر تھے۔ایک، سُبھاش چندر بوس اور دوسرے، مہاتما گاندھی۔ سبھاش چندر بوس وائلنٹ ایکٹوزم پر یقین رکھتے تھے، جب کہ مہاتما گاندھی نان وائلنٹ ایکٹوزم کے وکیل تھے۔ مگر دونوں کا مشترک فکر یہ تھا کہ انگریزوں کا سیاسی اقتدار ایک ایسا مسئلہ ہے جو انڈیا کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے اس مسئلے کو ختم کیا جائے۔ دونوں لیڈروں کے درمیان فرق صرف یہ تھا کہ سبھاش چندر بوس، اِس پولٹکل پرابلم کو تشدد کے زور پر ہٹانا چاہتے تھے، اور مہاتما گاندھی عدم تشدد کے زور پر اس کو دور کرنے کے حامی تھے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں لیڈروں کی فکر نے مشترک طورپر انسانی تفریق کی بُرائی پیدا کی۔ انگریزاور انڈین دونوں انسان تھے، مگر اِس تحریک نے دونوں کو ایک د وسرے کے خلاف صف آرا کردیا۔
اِس تفریقی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا کی آزادی،کا میڈی (comedy)کے بجائے ٹریجڈی (tragedy)میں تبدیل ہوگئی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت پیدا ہوئی، جو جلدہی فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل ہوگئی۔ اِس منفی نتیجے کو پیدا کرنے میں ہندو لیڈروں کے ساتھ مسلم لیڈر بھی یکساں طورپر شریک ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف اگر گاندھی اور نہرو انگریز کے مقابلے میں اِس تفریقی سیاست کو چلارہے تھے تو دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے مسلم لیڈر بھی اس تحریک میں برابر کے شریک تھے۔ اس لیے اِس منفی سیاست کی ذمے داری دونوں ہی فرقے کے لیڈروں کے اوپر یکساں طورپر عائد ہوتی ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ نان وائلنٹ ایکٹوزم میں ایک بنیادی کمزوری شامل ہے، وہ یہ کہ اجتماعی تحریکوں میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ نیا موڑ آتا ہے، اور نیا فیصلہ لینا پڑتا ہے۔ مثلاً کبھی یُوٹرن لینا پڑتا ہے، کبھی دشمن کو دوست بنانا پڑتا ہے، کبھی آگے مارچ کرنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے، مگر بلا استثنا ہر نان وائلنٹ تحریک میں یہ ہوا ہے کہ اس کے لوگ نیا فیصلہ لینے میں ناکام ہوگیے، وہ بدلے ہوئے حالات میں بدلا ہوا رسپانس نہ دے سکے۔
انڈیا کے حوالے سے اُس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ میںآزادی ملنے کے بعد مہاتما گاندھی نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ اب تم لوگ آل انڈیا کانگریس کو توڑ دو، اس کی جگہ ایک غیر سیاسی پارٹی بناؤ اور اس کے تحت ملک میں وہ منصفانہ سماج قائم کرو جس میں تمام لوگوں کے آنسو پوچھے جاسکیں، مگر مہاتما گاندھی کے مشورے کو ان کے ساتھیوں نے نہیں سنا اور مہاتما گاندھی کا مشن ادھورا ہو کر رہ گیا۔
اِس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مذکورہ قسم کا یُوٹرن لینے کے لیے تیار ذہن (prepared mind) درکار تھا، اور یہ تیار ذہن وہاں سِرے سے موجودہی نہ تھا۔ یہ کمزوری بھی وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم میں یکساں طورپر موجود ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دونوں ہی قسم کی تحریکوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کا آغاز عملی اقدام سے کرتے ہیں، نہ کہ افراد کی ذہن سازی سے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی گہری تحریک کا صحیح آغاز یہ ہے کہ پہلے افراد کی ذہن سازی کی جائے، اور جب ذہن پوری طرح بن چکا ہو تو اس کے بعد عملی اقدام کیا جائے۔ ذہن سازی کے بغیر اقدام کرنے کا مطلب، بغیر تیار ی کے اقدام کرنا ہے، اور جو اقدام تیاری کے بغیر کیا جائے اس کا انجام پیشگی طورپر معلوم ہے، اور وہ ہے مکمل تباہی۔
مزید یہ کہ نان وائلنٹ ایکٹوزم کا انجام ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ آخر میں وہ منافقانہ ایکٹوزم بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کامل نان وائلنس عملی طورپر ناممکن ہے۔ اس لیے اس نظریے کے علم بردار اپنے ابتدائی دور میں زور وشور کے ساتھ نان وائلنس کی بات کرتے ہیں، لیکن بعد کو جب عملی حقائق کا سامنا پیش آتا ہے تو اُس وقت وہ مجبور ہوتے ہیں کہ وائلنس کے ذریعے اپنے مسئلے کو حل کریں۔ اپنے اصول سے اِس انحراف کو جائز ثابت کرنے کے لیے وہ بے بنیاد عُذر پیش کرتے ہیں، جو اُن کے منافقانہ ذہن کو مزید پختہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
اِس معاملے کی عملی مثال خود انڈیا ہے۔ انڈیا نے پولٹکل آزادی عدم تشدد کے ذریعہ حاصل کی، لیکن آزادی کے بعد انڈیا کو متعدد بار اپنا یہ فارمولا چھوڑنا پڑا۔ متعدد بارانڈیا مجبورہوا کہ وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرکے اپنے مسائل کو حل کرے۔
گاندھین ماڈل کا ہندستانی تجربہ بتاتا ہے کہ اس ماڈل کے ذریعے منفی رزلٹ حاصل کرنا تو ممکن ہے، مگر اس ماڈل کے ذریعے پازیٹیو رزلٹ حاصل کرنا ممکن نہیں۔ نان وائلنٹ ایکٹوزم کا گاندھیائی تجربہ بتاتا ہے کہ اس ماڈل کے ذریعے منفی مقصد کا حصول تو ممکن ہے، مگر مثبت مقصد کا حصول اس ماڈل کے ذریعے ممکن نہیں۔
اسپریچول ایکٹوزم(Spiritual Activism)
اس معاملے میں تیسرا آپشن اسپریچول ایکٹوزم یا دعوہ ایکٹوزم کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دعوہ ایکٹوزم ہی ایکٹوزم کی صحیح اور فطری صورت ہے۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ دعوہ ایکٹوزم ہی واحد کامیاب ایکٹوزم ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں کوئی منفی پہلو شامل نہیں۔ مزید یہ کہ دعوہ ایکٹوزم ہی کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ اپنے مطلوب مقصد کو اِس طرح حاصل کیا جائے کہ کوئی اور نامطلوب مسئلہ وجود میں نہ آیا ہو۔ گویا کہ وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونو ں ایسی دوائیں ہیںجو ہمیشہ سائڈ افیکٹ(side effect) پیدا کرتی ہیں، جب کہ دعوہ ایکٹوزم کا طریقہ مکمل طورپر سائڈ افیکٹ کی بُرائی سے پاک ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں کا فارمولا یہ ہے کہ پرابلم کو ہٹاؤ تاکہ مطلوب عمل کا راستہ کھلے۔ اِس کے برعکس، دعوہ ایکٹوزم کا طریقہ یہ ہے کہ — پرابلم کو نظرانداز کرو اور مواقع کواستعمال کرو۔ اور اسی طرح اپنی ترقی کا پر امن سفر جاری رکھو:
Ignore the problems and avail the opportunities.
دعوہ ایکٹوزم کا فکر اِس فطری حقیقت پر مبنی ہے کہ کسی سماج میں کبھی ایسا نہیںہوتا کہ پرابلم تو ہوں، مگر مواقع موجود نہ ہوں۔ فطری قانون کے مطابق، ہمیشہ دونوں بیک وقت موجود رہـتے ہیں۔ اس لیے پُرامن طریقِ کار یہ ہے کہ پرابلم کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کیا جائے۔
ایک برٹش اسکالرمسٹر ای ای کلیٹ(E E Kellet) نے اپنی ایک کتا ب میں پیغمبر اسلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ — پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
ناکامی سے کامیابی کو نچوڑنا کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پرابلم کو مواقع (oppertunities) میں کنورٹ کیا، اور پھر مواقع کو استعمال کرکے پرابلم کو اپنے ترقیاتی سفر کا زینہ بنالیا۔
یہ دعوہ ایکٹوزم کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اِس لیے کہ موجودہ دنیا اِس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں۔ مسائل، زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کوکسی بھی حال میں زندگی سے جُدا نہیںکیا جاسکتا۔ ایس حالت میں صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ مسائل سے بے فائدہ طورپر لڑائی جاری رکھی جائے، بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ حُسنِ تدبیر سے مسائل کو مواقع میں تبدیل کردیا جائے۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی حُسن تدبیر کی مثال ہے۔ اِس معاملے کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب—مطالعۂ سیرت:
The Prophet Muhammad: A Simple Guide to His Life
مواقع کو استعمال کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اصول ایک گہری اسٹریٹجی پر قائم ہے۔جب بھی ایسا کیا جائے کہ امن کے دائرے میں رہتے ہوئے مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ پرابلم کا اِروژن (erosion) شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پرابلم مسلسل طورپر گھٹتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ پرابلم عملاً غیر مؤثر ہوجائیں اور سارے امکانات اُن لوگوں کے حصے میں آجائیں جو اِس فارمولے کو استعمال کرکے اپنا عمل جاری کیے ہوئے تھے۔
دعوہ ایکٹوزم کا سب سے زیادہ امتیازی پہلو یہ ہے کہ آدمی صحیح نقطۂ آغاز (starting point) کو پالیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی اصلاحی عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز، اقدام نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کا ذہن بنا یا جائے۔ ذہن کی ڈی کنڈیشننگ، ذہن کی ری انجینئرنگ، ذہن کا ری اورین ٹیشن، ذہن کو اِس قابل بنانا کہ وہ منفی سوچ سے اس طرح خالی ہوجائے کہ وہ منفی واقعے کو مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے۔ اِسی کا نام ذہنی تیاری ہے، اور کسی گہرے عمل کے لیے یہی صحیح نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔
حضرت مسیح دو ہزار سال پہلے یروشلم میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے پہلے شہر کے اندر اپنا مشن شروع کیا۔ اس کے بعد وہ سمندر کے کنارے گیے۔ وہاں ملاّح مچھلیاں پکڑ رہے ـتھے۔ حضرت مسیح نے اِن ملاحوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: اے مچھلیوں کو پکڑنے والو، آؤ کہ میں تم کو انسان کا پکڑنے والا بناؤں:
“Follow me, and I will make you fishers of men.” (Matthew 4:19)
حضرت مسیح کا یہ قول دعوہ ایکٹوزم کے بنیادی فلسفے کو بتاتا ہے۔ سیاسی تحریکوں کا نشانہ کوئی مفروضہ یا غیر مفروضہ خارجی دشمن ہوتا ہے، لیکن دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ صرف انسان ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر چھپے ہوئے فطری امکان (potential) کو باہر لانا، ذہنی ترقی (intellectual development) کے ذریعے اعلیٰ انسان بنانا ۔ ہر عورت اور مرد فطری طورپر بہترین امکانات لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اِن امکانات کو واقعہ بنانا، یہی دعوہ ایکٹوزم کا اصل نشانہ ہے۔
دعوہ ایکٹوزم کی ترتیب یہ ہوتی ہے— فرد سازی، معاشرہ سازی اور اس کے بعد حسب امکان حکومت سازی۔ یہ پورا عمل امن کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ چوں کہ دعوہ ایکٹوزم میں ہر اگلے مرحلے کی طرف اقدام پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد کیا جاتا ہے، اس لیے اس میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دعوہ ایکٹوزم میں سارا عمل لوگوں کے اپنے اختیار پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ جبر پر۔ اس لیے اصولی طورپر اس میں کبھی امن شکنی کی نوبت نہیںآتی۔ دعوہ ایکٹوزم میںاگر کبھی تشدد نظر آئے تو وہ اصول سے انحراف کی بنا پر ہوگا نہ کہ اصول کے اتباع کی بنا پر۔
دعوہ ایکٹوزم میں امن کا ماحول کس طرح قائم رکھا جاتا ہے، اس کا جواب حضرت مسیح کے ایک قول میں اِس طرح ملتا ہے۔ انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ— جو قیصر کا ہے، وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے، وہ خدا کو دو:
“Render therefore to Caesar the things that are Caesar's, and to God the things that are God's.”
حضرت مسیح کے زمانے میں فلسطین رومن ایمپائر کے ماتحت تھا۔ رومی بادشاہوں کا خاندانی لقب قیصر (Caesar) ہوا کرتا تھا۔ کچھ لوگوں نے حضرت مسیح سے سوال کیا کہ فلسطین میں سیاسی اعتبار سے رومیوں کی حکومت ہے، دوسری طرف ہمارے مذہبی احکام ہیں اِس طرح ہم دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہیں۔ ایسی حالت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ حضرت مسیح نے جواب دیا کہ رومی حکمراں جو حکم دیں اس کو مانو، ان سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے عمل کا جو غیر سیاسی دائرہ باقی رہتا ہے، اُس میں اپنے مذہبی تقاضے پورے کرو۔ اِس مسیحی فارمولے کو ایک لفظ میں پولٹکل اسٹیٹس کوازم(political statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔
حضرت مسیح کے پیروؤں نے اُن کے بعد اسی اصول پر عمل کیا۔ وہ مختلف ملکوں میں داخل ہوئے۔ ہر جگہ کسی نہ کسی کی حکومت تھی، مگر مسیح کے پیروؤں نے ان سے سیاسی ٹکراؤ نہیں کیا۔ سیاسی ٹکراؤ سے اوائڈ کرتے ہوئے انھوںنے مسیحیت کی پُرامن تبلیغ کی۔ وہ پچھلے دو ہزار سال سے اِس اصول پر کار بند ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسیحی مذہب تعداد کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن گیا ہے۔
حضرت مسیح کا مذکورہ قول دراصل اسپریچول ایکٹوزم یادعوہ ایکٹوزم کے ابدی اصول کو بتاتا ہے۔ چنانچہ یہی بات پیغمبر اسلام نے اِس طرح بیان فرمائی: أدّوا إلیہم حقّہم وسئلوا اللہ حقّکم (صحیح البخاری) یعنی حکمرانوں کو ان کا حق دو، اور اپنا حق خدا سے مانگو۔
اِس حدیث میں خدا سے مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے قائم کردہ فطری نظام پر بھروسہ کرو اور اس کے مطابق عمل کرکے اپنا حق حاصل کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ سیاسی پاور کس کے ہاتھ میںہے اور کس کے ہاتھ میں نہیں، اِس کو نظر انداز کرو۔ اِس کے بجائے یہ کرو کہ خدا کے قائم کردہ فطری نظام میں جو ابدی مواقع رکھے گیے ہیں، ان کو استعمال کرکے اپنا مقصد حاصل کرو:
Ignore the political system and avail the natural opportunities present in the circumstances.
حکومت ہمیشہ سے سماج کا ایک حصہ رہی ہے۔ قدیم زمانے میں حکومت ہی کو سماج کا سب سے زیادہ طاقت ور ادارہ سمجھاجاتاتھا۔ قدیم زمانے میں زراعت، آمدنی کا واحد ذریعہ تھا اور زرعی زمین حاکم کی ملکیت میںہوتی تھی۔ اس لیے لوگوں کا یہ حال ہوا کہ ان کی امیدیں سب کی سب وقت کے حاکم سے وابستہ ہونے لگیں۔اس ذہن کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ لوگ وقت کے حاکم کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ اِسی عمومی مزاج کا یہ نتیجہ تھا کہ جب بھی کوئی لیڈر یا ریفارمر اٹھتا تو لوگ یا تو اپنے مسائل کو لے کر حکمراں سے ٹکرانے لگتے، اور اگر ٹکراؤ ممکن نہ ہوتا تو وہ اس سے متنفر ہو کر مایوس ہوجاتے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ عوام اور حکمراں سے ٹکراؤ کی تاریخ بن گئی۔ دعوہ ایکٹوزم کی فلاسفی اس معاملے میں بالکل مختلف ہے۔دعوہ ایکٹوزم اِس تصور پر قائم ہے کہ حکمراں کے سیاسی اقتدار کے باوجود ہمیشہ عمل کا ایک غیر سیاسی دائرہ پایا جاتا ہے۔ اُس غیر سیاسی دائرے میں ہمیشہ کچھ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ امن پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ سیاسی حاکم سے ٹکراؤ کو نظر انداز کرکے غیر سیاسی دائرے میں موجود مواقع کو استعمال کیا جائے۔ یہی مطلب ہے اِس قولِ رسول کا کہ — حاکم کو اس کا حق دو، اور جو تمھارا حق ہے اس کو خدا سے مانگو۔ یعنی اپنے امکاناتِ فطرت کو استعمال کرکے اس کو حاصل کرو۔
موجودہ زمانے میں اِس اصول کی اہمیت اب ہزار گُنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانہ انسٹی ٹیوشنلائزیشن کا زمانہ ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ نے اِس کو ممکن بنادیا ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ کے بغیر مختلف کاموں کے لیے ادارے قائم کیے جائیں اور ان کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً ایجوکیشن، میڈیا، دعوہ ورک، تجارت وصنعت اور لائبریری جیسے علمی مراکز کا قیام، وغیرہ۔
دعوہ ایکٹوزم کا ایک بنیادی اصول صبر ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص یا کوئی گروہ ایک مشن کو لے کر اٹھے تو درمیان میں بار بار مختلف قسم کے ناموافق حالات پیش آتے ہیں، کبھی انٹرسٹ خطرے میں پڑتا ہوا نظر آتا ہے، کبھی انا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وقتی مصلحتیں تباہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس طرح کے مواقع مشن کے لیے سخت خطرہ ہیں۔ کیوں کہ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ اصل نشانے سے انسان کی نظریں ہٹ جاتی ہیں، اِس کا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ غیر متعلق چیزوں میں الجھ کر رہ جائے اور اصل منزل کی طرف اس کا سفر جاری نہ رہ سکے۔
اِس خطرے سے بچنے کے لیے دعوہ ایکٹوزم میںایک مضبوط تحفظ موجود ہے، یہ تحفّظ صبر کا اصول ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں صبر کے اصول کو بہت زیادہ اہمت حاصل ہے ۔صبر کا مطلب یہ ہے کہ ہر نقصان اور ہر ناخوش گواری کو برداشت کرنا، اور ہر حال میں اصل منزل کی طرف اپناسفر جاری رکھنا۔ یہی صبر ہے، اور اِس صبر کے بغیر کوئی مشن راستے کے انحراف سے بچ نہیں سکتا۔
دعوہ ورک میں صبر کی اِس روش پر قائم رہنے کے لیے ایک نہایت طاقت ور محرک موجود ہوتا ہے، اور وہ جنت ہے۔ دعوہ ورک میں آدمی کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کا مقصد دنیا کے مفاد کا حصول نہیں، بلکہ صرف جنت کا حصول ہے، جو موت کے بعد ملنے والی ہے۔ جنت کا تصور آدمی کے لیے اس کے مستقبل کو اتنازیادہ پُرکشش بنا دیتا ہے کہ وہ حال کے نقصان کو پوری رضامندی کے ساتھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ کسی نقصان کو برداشت کرنے کے لیے صرف اُس وقت راضی ہوتا ہے جب کہ اس کو یقین ہو کہ اس کو زیادہ بڑا فائدہ ملنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابدی جنت کا تصور اتنا بڑا ہے کہ وہ ہر دوسری چیز کو اس کے مقابلے میں چھوٹا کردیتا ہے۔ جنت کا یہ تصور آدمی کے اندر اتھاہ حوصلہ پیدا کرتا ہے اور اس کو ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار کردیتا ہے— تاریخ میںاصحابِ رسول کا گروہ اِس صبر و برداشت کی ایک معیاری مثال تھے۔
وائلنٹ ایکٹوزم اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں میں عمل کا آغاز پارٹی سازی (party forming) سے کیا جاتا ہے، جب کہ اسپریچول ایکٹوزم، یا دعوہ ایکٹوزم میں عمل کا آغاز کردار سازی (character building) سے کیا جاتا ہے۔ دونوں تحریکوں کے درمیان یہ فرق کوئی سادہ فرق نہیں، یہ بے حد بنیادی فرق ہے اور اِسی فرق کی وجہ سے دونوں کا معاملہ شروع سے آخرتک بدل جاتا ہے۔
پارٹی سازی سے آغاز کب ممکن ہوتا ہے۔ یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ عوام کے اندر ایسے لوگ موجود ہوں جو پہلے سے پارٹی کی فکر سے متفق ہوںاور اِس بنا پر وہ پارٹی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔جب تک لوگوں کے اندر پیشگی طورپر پارٹی کے موافق فضا موجود نہ ہو، پارٹی سازی سے آغاز ممکن نہیں۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
روسی لیڈر ولادیمیر لینن (وفات ۱۹۲۴) نے ۱۹۰۳ میں کمیونسٹ پارٹی بنائی۔ اِس پارٹی میںبہت سے لوگ شریک ہوگیے۔ کمیونسٹ پارٹی کو بنانا کیوں کر ممکن ہوا۔ وہ اس لیے ممکن ہوا کہ اس زمانے میں روس کے شہنشاہ زار(Nicholas II) کی ناکام حکومت کی بنا پر روس کے اقتصادی حالات بہت خراب ہوگیے تھے۔ لوگوں میں عام طورپر حکومت کے خلاف بے چینی پائی جاتی تھی۔ لوگ حالات میں تبدیلی چاہتے تھے، اُس وقت لینن نے کمیونسٹ پارٹی بنائی تو لوگ تیزی سے اس میں شریک ہونے لگے۔ کیوں کہ اپنے پیشگی جذبات کے تحت، وہ سمجھتے تھے کہ یہ پارٹی حالات کو بدلے گی اور ان کے مسائل کو حل کرے گی۔
یہی معاملہ تمام سیاسی تحریکوں کا ہوا ہے، خواہ وہ تشدد کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہوں یا عدم تشدد کی بنیاد پر۔ گویا کہ تمام وہ تحریکیں جنھوں نے پارٹی بنانے سے اپنے عمل کا آغاز کیا، وہ سب کی سب ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، یعنی عوام کے اندر پائی جانے والی ناراضگی کو استعمال کرکے تحریک چلانا ۔ انڈیا میں بھی ۱۹۴۷ سے پہلے جو سیاسی تحریک اٹھی، وہ برٹش راج کے خلاف عوام کی ناراضگی کو لے کر اٹھائی گئی۔ اسی لیے فوراً ہی اس کو عوام کے اندر مقبولیت حاصل ہوگئی۔
مگر اس قسم کی تمام تحریکیں منفی تحریکیں ہوتی ہیں، وہ کسی منفی نعرے پر کھڑی ہوتی ہیں۔ مثلاً لینن کی پارٹی ’’زار کو ہٹاؤ‘‘ کے نعرے پر کھڑی ہوئی، اور انڈین نیشنل کانگریس ’’برٹش راج کو ختم کرو‘‘ کے نام پر کھڑی کی گئی۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ منفی عمل سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ جو تحریک منفی احساسات کو جگا کر اٹھائی گئی ہو، وہ پورے سماج کو منفی احساس میں جینے والا بنا دیتی ہے، اور جو لوگ منفی احساس میں جیتے ہوں، وہ کبھی مثبت سماج بنانے کا کام نہیں کرسکتے۔
اس معاملے میںایک مسئلہ جنگ کا ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں جو اصول مقرر کیے گیے ہیں وہ سب کے سب اِس تصور کے تحت مقرر کیے گیے ہیں کہ جنگ کے امکان کو آخری حد تک کم کردیا جائے:
By setting these principles, it has minimised the possiblity of war to the last extent.
مثلاً دعوہ ورک کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مسائل سے ٹکرانے کے بجائے مسائل کو نظر انداز کیا جائے، اور صرف ممکن دائرے میںاپنے عمل کا نقطۂ آغاز تلاش کیا جائے۔ اسی طرح دعوہ ایکٹوزم کے نظریے میں دشمن اور حملہ آوار کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اِس نظریے کے تحت، صرف حملہ آور کے خلاف دفاعی جنگ کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک دشمن کا تعلق ہے، اُس سے ڈائلاگ اور دوسری پُر امن تدبیروں کی سطح پر معاملہ کرنا ہے نہ کہ ٹکراؤ کی سطح پر۔
اسی طرح دعوہ اکٹیوزم کی آئڈیالوجی میں نشانہ فرد کو بنا یا گیا ہے نہ کہ سسٹم کو۔ یہ اصول بھی متشددانہ ٹکراؤ کو عملی طور پر صفر کے درجے میں پہنچا دیتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، جنگ، یا متشددانہ ٹکراؤ صرف اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ سسٹم کو توڑنے کی کوشش کی جائے۔ اگر اپنے عمل کا نشانہ سسٹم کے بجائے فرد کو بنا دیا جائے تو جنگ اپنے آپ ایک غیر متعلق چیز بن کر رہ جاتی ہے۔
اسپریچول ایکٹوزم یا دعوہ ایکٹوزم کے طریقے میں یہ انوکھی صفت ہے کہ جنگی حالات کے باوجود اس کا عمل جاری رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز دعوہ پراسس کے لیے رُکاوٹ نہیں بنتی۔ اس کی ایک مثال اسلام کی تاریخ ہے۔ اسلام نظریاتی اعتبار سے ایک انقلابی فکر کا حامل ہے، یعنی کئی خداؤں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک خدا کی پرستش کی طرف لوگوں کو بلانا۔ اسلام کے اس انقلابی کیریکٹر کی بنا پر وقت کے حکمراں طبقے کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی، حتی کہ اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی، مگر اِن جنگی حالات کے باوجود اسلام فکری طور پر پھیلتا رہا، اسلام کے فکری پھیلاؤ کو کوئی چیز روک نہ سکی۔ اِس حقیقت کا اعتراف اکثر مؤرخین نے کیا ہے۔
سر آرتھر کیتھ (Keith) ایک برٹش اسکالر تھے۔ وہ مصریات(Egyptology) کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے قدیم مصر کے بارے میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اِس کتاب میں انھوں نے اسلام کی پُر امن اشاعت کے معاملے کو اس طرح بیان کیا ہے— مصریوں کو جس چیز نے فتح کیا وہ مسلمانوں کی تلوار نہیں تھی، بلکہ وہ قرآن تھا:
The Egyptians were conquered not by the sword, but by the Quran.
اِسی کا نام دعوہ ایکٹوزم ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کا اعتماد ، گن یا پولٹکل پاور پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اعتماد دل اور دماغ پر ہوتا ہے۔ دل اور دماغ کو فتح کرنا، دعوہ ایکٹوزم کا اصل نشانہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کا پورا وجود اس کے مائنڈ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ مائنڈ ہمیشہ چیزوں کو ریزن اور لاجک پر جانچتا ہے۔ جب کوئی چیز ریزن اور لاجک پر ثابت شدہ بن جائے تو انسان اِس کو افورڈ نہیں کرسکتا کہ وہ اُس کے آگے سرینڈر نہ کرے۔ تلوار کسی انسان کی گردن مار سکتی ہے، لیکن لاجک اور ریزن انسان کے دماغ کو مسخر کرلیتی ہے، اور جب دماغ مسخر ہوجائے تو اس کے بعد کوئی اور چیز مسخر کرنے کے لیے باقی نہیںر ہتی۔
پوری تاریخ میں لوگ دوست اور دشمن کی ڈائکاٹمی میں جیتے رہتے ہیں، وہ کسی کو اپنا دوست سمجھ لیتے ہیں اور اُس کے ساتھ نارمل طریقے سے رہتے ہیں، اور کسی کو اپنا دشمن کہہ دیتے ہیں اور اس کو غیر سمجھ کر اس کے ساتھ غیر معتدل معاملہ کرتے ہیں، مگر دعوہ ایکٹوزم کے طریقے میں یہ ڈائکاٹمی غیر حقیقی ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کے تصور کے مطابق، صحیح ڈائکاٹمی یہ ہے کہ — ہر آدمی یا تو ہمارا ایکچول دوست ہے، یا وہ ہمارا پوٹنشیل دوست۔ یعنی جو شخص آپ کو بظاہر آپ کا دشمن دکھائی دیتا ہے، وہ بھی امکانی طورپر آپ کا دوست ہے۔ کیوں کہ یک طرفہ طورپر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آپ اس کو اپنا دوست بنا سکتے ہیں۔
یہی وہ فطری حقیقت ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر ۴۱ میںاِس طرح بیان کیا گیا ہے: ادفع بالتی ہی احسن، فإذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کأنہ ولی حمیم (حم السجدہ ۳۴) یعنی اپنے دشمن کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو، پھر تم دیکھو گے کہ جو شخص تمھارا دشمن نظر آتا تھا، وہ تمھارا قریبی دوست بن گیا ہے۔ اس لیے دعوہ ایکٹوزم کا نظریہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ پوٹنشیل کو ایکچول بنانے کی کوشش کرو، اپنے آج کے دشمن کو اپنا کل کا دوست بناؤ۔
دعوت ایکٹوزم کی آئڈیا لوجی اِسی انسان فرینڈلی (Human friendly) اصول پر مبنی ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کا انسان فرینڈلی تصور ایک آفاقی تصور ہے۔ اِس آفاقی تصور کے دائرے میںنہ صرف عام انسان بلکہ دشمن جیسے لوگ بھی یکساں طورپر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دعوہ ایکٹوزم کاآغاز اِس مثبت تصور پر ہوتا ہے کہ ساری دنیا میری دوست ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ اُن میں سے کوئی ایکچول دوست ہے اور کوئی پوٹنشیل دوست۔
آفاقی انسانیت کا تصور منفی سوچ کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ جو لوگ اِس تصور سے متأثر ہوتے ہیں، وہ مکمل طورپر مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ دعوہ ایکٹوزم کے تصور کے تحت جو کلچر فروغ پاتا ہے، وہ کامل معنوں میں ایک مثبت کلچر ہوتا ہے۔ اِس تصور کے تحت جن لوگوں کا ذہن بنتا ہے، وہ اُس انوکھی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ منفی تجربے کو مثبت احساس میںتبدیل کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ جس سماج میں لوگ منفی احساس کو مثبت احساس میں بدلنے کا آرٹ جانتے ہوں، وہاں ہر طرف مثبت ذہن کے عورت اور مرد ہوں گے۔ وہاں منفی ذہن کے افراد کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
وائلنٹ ایکٹوزم، اور نان وائلنٹ ایکٹوزم دونوں کی اپنی ایک فلاسفی ہے۔ اِسی طرح دعوہ ایکٹوزم کی بھی اپنی ایک مستقل فلاسفی ہے۔ یہ فلاسفی لا آف نیچر پر مبنی ہے۔ یعنی وہ ابدی قانون جس پر خالق نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ دعوہ ایکٹوزم کی فلاسفی براہِ راست طورپر خدا کے کریشن پلان (creation plan)سے جُڑی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں