اسلام میں دو عبادت کو بنیادی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے— نماز، اور روزہ۔ نماز علامتی طورپر اسلام کے مثبت احکام کو بتاتی ہے۔ اور روزہ بتاتا ہے کہ اہلِ ایمان کو کچھ باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نماز عمل کی زبان میں یہ بتاتی ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تواضع، اطاعت، شکر، امن پسندی اور باہمی الفت کا مزاج ہونا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں روزہ یہ بتاتا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زندگی پرہیزگاری کی زندگی ہو۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص روزہ رکھے تو وہ نہ گندی بات کرے اور نہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ر وزہ سیلف کنٹرول کی تربیت ہے۔ آدمی روزے کے زمانے میں جس طرح کھانے پینے کی چیزوں میںسیلف کنٹرول کا طریقہ اختیار کرتا ہے، اسی طرح اس کو اپنی پوری زندگی میں اخلاقی کنٹرول کا طریقہ اختیار کرناچاہیے۔ کوئی شخص اگر اپنے غلط رویّے سے اس کو بھڑکائے تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بھڑکنے سے بچائے۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھا مگر ا س نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑدے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں کھانا اور پانی چھوڑنا ایک علامتی ترک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آدمی ہر بُرائی کے معاملے میں ’’روزے دار‘‘ بن جائے۔ وہ غلط بات بولنا بھی چھوڑ دے، اور غلط کام کرنا بھی چھوڑ دے۔ یہی روزے کا اصل مقصد ہے۔
رمضان کا مہینہ ذاتی محاسبہ کا مہینہ ہے۔ یہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ اپنی اصلاح آپ کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی نظر سے دیکھے نہ کہ صرف اپنی نظر سے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر ۲۹ میں بتایا گیا ہے کہ:إنّ الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر (العنکبوت: ۴۵) یعنی بے شک نماز فحش اور منکر باتوں سے روکتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز کے فارم کو دہرائے تو خود بخود اس کا یہ عملی نتیجہ ہوگا کہ وہ بُری باتوں اور بُرے کاموں سے رُک جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو فارم والی نماز پڑھنے والے کروروں لوگ ہر بُری بات اور ہر بُرے کام سے رُکنے والے دکھائی دیتے۔ حالاں کہ ایسا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اِس آیت میں نماز سے مراد نماز کی اسپرٹ ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی انسان کے اندر نماز والی اسپرٹ پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے اندر بُرائیوں سے بچنے کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ نفسیاتِ نماز اس کے لیے فحش اور منکر سے ناہی (restrict) کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ نماز دراصل ایک تربیت ہے نہ کہ صرف ایک رسم۔ آیت میں دراصل تربیت یافتگانِ نماز کا ذکر ہے نہ کہ صرف رسمی طورپر فارم کو ادا کرنے والوں کا ذکر۔
اِس کا مطلب یہ نہیں کہ فارم کوئی غیر اہم چیز ہے۔ اصل یہ ہے کہ فارم داخلی اسپرٹ کا ایک خارجی ظہور ہے۔ جہاں اسپرٹ ہوگی وہاں یہ خارجی ظہور بھی یقینا پایا جائے گا۔ اِس معاملے کو اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نماز کا فارم، نماز کی اسپرٹ کا ظہور یا اسپرٹ اِن ایکشن (spirit in action) ہے۔
ہر عبادتی فارم کا معاملہ یہی ہے۔ اگر چہ عبادت میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہے، لیکن اسپرٹ جب زندہ ہو تو فطری طور پر وہ حرکت و عمل(activities) کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ نماز کے لیے آدمی جب وقت پر اٹھتا ہے، وہ وضو کرتا ہے، وہ مسجد جاتا ہے، وہ لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز میں شریک ہوتا ہے اور پھر لوگوںسے مل کر وہ واپس آتا ہے، اور پھر یہی کام وہ روزانہ پانچ بار کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی عبادت، حرکت و عمل میں (activities) بدل جاتی ہے۔ اسپرٹ کے بغیر حرکت و عمل نہیں، اور حرکت و عمل کے بغیر اسپرٹ نہیں۔
اسپرٹ اِن ایکشن کے معاملے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مختلف ملکوں میں قومی دن منائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندستان میں ۱۵؍اگست کو یوم آزادی، ۲۶ جنوری کو یومِ جمہوریہ وغیرہ۔ بظاہر یہ کچھ رسمی تقریبات(celeberation) منانے کا دن ہوتا ہے۔ مگر ان کی اہمیت صرف اِن ظاہری تقریبات کی بنا پر نہیں بلکہ اُس داخلی اسپرٹ کی بنا پر ہوتی ہے، جس کے تحت ان کو منایا جاتا ہے۔
یہ داخلی اسپرٹ کیا ہے۔ یہ داخلی اسپرٹ حبُّ الوطنی ہے۔ یعنی وطن سے اپنے تعلق کو یاد کرنے کے لیے کچھ تاریخی دنوں میں بعض تقریبات منانا۔ اِس اعتبار سے ہندستان کے یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کو حبّ الوطنی کا عمل (patriotis in action) کہا جاسکتا ہے۔
یہ معاملہ زندگی کی ہر سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے۔ مثال کے طورپر آپ کا ایک دوست لمبے عرصے کے بعد آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے۔ دوست کو دیکھ کر آپ کے اندر محبت کا جذبہ بھڑک اٹھے گا۔ آپ اٹھ کر اس سے ملیں گے۔ اس سے معانقہ کریں گے۔ اس کو لے جاکر عزت کے ساتھ بٹھائیں گے۔ ٹیلی فون کے ذریعے دوسروں کو بتائیں گے کہ آپ کا فلاں دوست آیا ہوا ہے۔ اس کے لیے کھانے پینے اور آرام کرنے کا اہتمام کریں گے، وغیرہ۔
محبوب د وست کے لیے آپ کی یہ تمام سرگرمیاں عملاً محبت(love in action) کا مصدا ق ہیں۔آپ کی ظاہری سرگرمیاں گویا کہ داخلی محبت کا خارجی ظہور ہیں۔ محبت اگرچہ اصلاًایک داخلی حالت کا نام ہے، لیکن مذکورہ سرگرمیاں بھی اس کا لازمی جُز ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا—اِن مثالوں سے عبادت کی روح اور اس کے فارم کے باہمی تعلق کو سمجھا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن اور حدیث میں دعوت کے لیے دوسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ شہادت ہے۔ اِسی طرح داعی اور مدعو کے لیے جو دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ شاہد اور مشہود کے الفاظ ہیں۔ یہ بات بہت با معنیٰ ہے۔ اس پر غور کرنے سے ایک نہایت اہم حقیقت سامنے آتی ہے۔
شاہد کا مطلب گواہ (witness) ہے۔ گواہ کون ہے۔ گواہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے زیرِ بحث واقعہ کو دیکھا ہو، یا کسی چیز کے بارے میں وہ ابتدائی معلومات دے سکے:
Witness: a person who saw, or can give a first-hand account of something.
دعوت سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلموں میں حق کا پیغام پہنچا یا جائے۔ جب مسلمانوں کو ان کی یہ دعوتی ذمے داری یاد دلائی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اِس سلسلے میں پہلا کام خود مسلمانوں کی اصطلاح ہے۔ یعنی مسلم سماج اور مسلم ریاست کو صحیح اسلامی اصول پر قائم کرنا۔ کیوں کہ اگر مسلمان خود ہی بگڑے ہوئے ہوں اور اُن کے درمیان صالح معاشرہ او ر صالح نظامِ حکومت قائم نہ ہو تو غیر مسلموں کو کس طرح اسلام کی طرف بلایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ کیوں کہ اسلامی دعوت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو مسلم سماج کی طرف بلایا جائے۔ اسلامی دعوت کا مقصد لوگوں کو مسلمانوں کی طرف بلانانہیں بلکہ اسلام کی طرف بلانا ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا کہ ان کا ایک خدا ہے۔ لوگوں کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرنا، لوگوں کو جنت اور جہنم کی خبر دینا، لوگوں کو یہ بتانا کہ خدا ایک دن تم کو جمع کرے گا اور تمھارا حساب لے گا، اور پھر لوگوں کے لیے ان کے ریکارڈ کے مطابق، جنت یا جہنم کا فیصلہ کرے گا۔
گویا کہ دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ جو لوگ دکھائی دینے والی دنیا(seen world) میں جیتے ہیں، ان کو یہ بتانا کہ یہاںایک نہ دکھائی دینے والی دنیا(unseen world) موجود ہے، اور تم کو آخر کار مرنے کے بعد اسی نہ دکھائی دینے والی ابدی دنیا کی طرف جانا ہے، اور اس کے تقاضوں کا سامنا کرنا ہے۔
اِس اعتبار سے دیکھیے تو دعوت کے عمل میں مسلمانوں کے معاشرے یا نظام کا صالح ہونا یا غیر صالح ہونا ایک غیر متعلق بات ہے۔ اِس معاملے میں اصل اہمیت صرف دوچیزوں کی ہے— استدلال اور یقین۔ ایک، یہ کہ داعی کے پاس ایسی دلیل کا سرمایہ موجود ہو جو مدعو کو مطمئن کرسکے۔ دوسری بات یہ کہ داعی کو خود سچائی کی اتنی گہری معرفت حاصل ہو کہ وہ پورے یقین کے ساتھ اس کی طرف دعوت دے سکے۔ اس کا یقین اتنا بڑھا ہوا ہو کہ جب وہ اس کے بارے میں بولے تو ایسا محسوس ہو کہ وہ لوگوں کو کسی ایسی چیز سے باخبر کررہا ہے جس کو اس نے خود دیکھا ہے۔
داعی جب دوسروں کے درمیان دعوت کا کام کرتا ہے تو اُس وقت نکتۂ دعوت کیا ہوتا ہے۔ اُس وقت اس کا نکتۂ دعوت یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنے یہاں ایک صالح نظامِ زندگی بنالیا ہے، تم اس کو دیکھو اور تم بھی ویسا ہی نظام اپنے یہاں بناؤ۔ داعی کا دعوتی نکتہ یہ نہیں ہوتا۔ داعی کا دعوتی نکتہ صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان کیا تعلق ہے، اور دعوت کے بعد کی زندگی میں انسان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ اسی کو قرآن میںانذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ گویا کہ اسلام میں نکتۂ دعوت اس کا نظری پہلو ہے نہ کہ اس کا نظامی پہلو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت اِسی دعوتی نقطۂ نظر کی تائید کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسانی سماج کو ایک بہتر سماج بنانے کے لیے جو تعمیری اصول ہیں، انھیں اصولوں کو اخلاقی اقدار (moral values) کہا جاتا ہے۔ اِن اخلاقی اقدار کو اختیار کرنے سے انسانی سماج بہتر سماج بنتا ہے، اور ان کو چھوڑنے سے انسانی سماج برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سماج کو اگر ٹرین سے تشبیہ دی جائے تو اخلاقی اقدار گویا ریل کی وہ پٹریاں ہیں جن کے اوپر سماجی ٹرین بھٹکے بغیر اپنا سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہے۔
یہ اخلاقی اقدار بنیادی طورپر یہ ہیں— امن، انصاف، محبت، سچائی، رواداری، خیر خواہی، عدم تشدد، صبر تواضع، عالمی اخوت اور اخلاقی سلوک، وغیرہ۔ یہ اخلاقی اقدار اتنی زیادہ مسلّم ہیں کہ تمام مذہبی اور روحانی نظاموں میں یکساں طورپر ان کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے، اور ان کو انسانی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اقدارکا یہی مجموعہ ہے جس کو اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہی اخلاقی اصول انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت بناتے ہیں۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے کوئی سماج بہتر سماج بنتا ہے۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے وہ سماجی مقاصد حاصل ہوتے ہیں، جن کو ہم انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
خدا نے اِن اقدار کو انسان کی فطرت میں اخلاقی حِس (moral sense) کے طور پر ودیعت کردیا ہے۔ ہر انسان اِن اخلاقی اصولوں کا شعور پیدائشی طورپر رکھتا ہے۔ تمام مذہبی اور روحانی نظام اِس کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ خدا نے کائنات کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے گویا ایک اخلاقی ماڈل بن گئی ہیں۔ جو چیز انسان کو خود اپنے ارادے کے تحت، عمل میں لانا ہے وہ چیز بقیہ کائنات میں خدا کے براہِ راست کنٹرول کے تحت زیر عمل آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور کائنات دونوں کا اخلاقی نظام ایک ہے۔ بقیہ کائنات میں اس کا نام قانونِ فطرت (law of nature) ہے، اور انسانی دنیا میں اس کو اخلاقی اقدار (moral values) کہاجاتا ہے۔
انسان اور کائنات دونوں کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ دونوں کی کارکردگی کے لیے اس نے ایک ہی قانون مقرر کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بقیہ کائنات میں یہ قانون براہِ راست طورپر خود خدا نے نافذ کررکھا ہے۔ لیکن انسان کو خدا نے یہ عزت دی ہے کہ اس کو آزاد اور خود مختار بنایا ہے۔ بہتر انسانی سماج بنانے کا راز یہ ہے کہ انسان اسی خدائی قانون کو خود اپنے ارادے سے اپنی زندگی میں نافذ کرے۔
خلامیں اَن گنت ستارے ہیں۔ ہر ایک نہایت تیزی کے ساتھ وسیع خلا میں گردش کررہا ہے۔ لیکن ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اپنے اپنے مقرر مدار(orbit) پر گردش کرتا ہے۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ گردش کا یہ انضباطی اصول، ستاروں کے درمیان ٹکراؤ ہونے نہیں دیتا۔ یہی اصول، انسان کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو اپنے دائرے کے اندر محدود رکھے۔ اس کے بعد انسانی سماج میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ یہی فارمولا پیس فُل سماجی تعلقات کا واحد فارمولا ہے۔
ہوائیں چلتی ہیں تو وہ نہایت تیزی کے ساتھ میدان سے گذرتی ہیں۔ یہاں سر سبز پودے ہوتے ہیں۔ یہ پودے ہواؤں کے طوفان میں نہیں ٹوٹتے۔ اس کا سبب یہ ہے وہ ہوا کے مقابلے میں کبھی نہیں اکڑتے۔ جب ہو اکا جھونکا آتا ہے تو پودا فوراً جھک کر ہوا کو گذرنے کا موقع دے دیتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سماجی زندگی میں اکڑ کے بجائے سمجھوتہ اور ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور اس سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ چشمے کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ پہلے وہ پتھر کو اپنے راستے سے ہٹائے اور پھر اس کے بعد اپنا سفر جاری کرے۔ بلکہ وہ مُڑ کر پتھر کے کنارے کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اور آگے کی طرف رواں ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے اپنا راستہ بنائے۔ نہ کہ وہ رُکاوٹ سے ٹکراؤ شروع کردے۔
درخت انسان کے لیے آکسیجن نکالتا ہے، اور ہوا اس کو لے کر اُسے انسان تک پہنچاتی ہے۔ لیکن درخت اور ہوا اپنے اس عمل کے لیے انسان سے اس کی کوئی قیمت نہیں مانگتے ۔ایسا ہی انسان کو کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے۔ اور اپنے اس عمل کے لیے لوگوں سے کسی قیمت کا تقاضا نہ کرے۔
گائے خدا کی ایک زندہ انڈسٹری ہے۔ گائے کو اس کا مالک گھاس کھلاتا ہے، لیکن گائے اس کے بدلے میںاپنے مالک کو دودھ لوٹاتی ہے۔ وہ دوسروں سے غیر دودھ (non-milk)کو لیتی ہے اور پھر ان کو اپنی طرف سے دودھ (milk) کا تحفہ واپس کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ جب بھی اس کو کسی سے منفی تجربہ ہو تواس کے جوا ب میں وہ اس کے ساتھ مثبت سلوک کی روش اختیا رکرے۔
کسی مقام پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہوں اور وہ زمین پر پڑے ہوئے دانے چُگ کر خوش خوش اس کو کھارہی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ ان کی طرف ایک کنکر پھینک دیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ چڑیاں اُڑ کر درخت کی شاخ پر پہنچ گئیں، اور دوبارہ وہاں چہچہانے لگیں۔ نفرت اور شکایت جیسی چیز کسی چڑیاں کے دل میں کبھی جگہ نہیں پاتی۔ یہی طریقہ انسان کا ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی ایسا بننا چاہیے کہ جب کوئی شخص اس کو ستائے یا اس کو کوئی نقصان پہنچائے تو وہ نفرت اور شکایت کو اپنے دل میں جگہ نے دے۔ وہ منفی حالات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔
دنیا کی تمام چیزیں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کی حامل ہیں۔ اِس مادّی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اِس معاملے میں استثناء کی حیثیت رکھتی ہو۔ مثلاً ستارے ہمیشہ اپنی مقرر رفتار پر پوری حتمیت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ ببول کے بیج سے ہمیشہ ببول کا درخت نکلتا ہے اور انگور کے بیج سے ہمیشہ انگور کا درخت، وغیرہ۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی اس طرح قابلِ پیشین گوئی عمل کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔
سورج مسلسل طورپر روشنی اور حرارت سپلائی کرتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ اپنے اور غیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ وہ سب کو یکساں طورپر روشنی اور حرارت کا خزانہ پہنچاتا رہتا ہے۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر یک کے لیے نفع بخش بنے۔ اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔ دوستوں کے لیے بھی اور دشمنوں کے لیے بھی۔ خوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی اور ناخوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی۔ یہی کسی انسان کے لیے اعلیٰ معیاری اخلاق ہے۔
شہد کی مکھی اپنے مقام سے اُڑ کر جنگل میں جاتی ہے۔ یہاں بہت سی مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ مثلاً لکڑی، کانٹا، جھاڑی اور گھاس، وغیرہ۔ لیکن شہد کی مکھی انتخابی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اعراض کرکے سیدھے اُس پھول تک پہنچتی ہے جہاں سے اس کو میٹھا رس لینا ہے۔ یہی انتخابی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اس کو سماج میں اِس طرح رہنا چاہیے کہ وہ غیر مطلوب چیزوں سے اعراض کرکے۔ وہ ہر ناپسندیدہ چیز سے دور رہتے ہوئے اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔
انسان اور بقیہ کائنات میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ بقیہ کائنات نے جس کردار کو مجبورانہ طورپر اختیار کررکھا ہے، اُسی کردار کو انسان خود اپنی آزادی کے تحت اختیار کرے۔
بقیہ کائنات مجبورانہ اخلاق کی مثال ہے۔ مگر انسان کو اختیارانہ کردار کا نمونہ بننا ہے۔ اِس کا سبب یہ ے کہ بقیہ کائنات کے لیے نہ کوئی انعام ہے اور نہ کوئی سزا۔ لیکن انسان کے لیے خدا کا قائم کردہ قانون یہ ہے کہ جو شخص اِس مطلوب کردار کو اختیار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے سزا پائے گااور جو شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس مطلوب کردار کا حامل بن جائے اس کو خدا کی طرف سے ابدی انعام کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ یہ امتیازی انعام اِس کائنات میں صرف انسان کے لیے مقدر ہے۔ کیوں کہ انسان خود اپنے اختیار سے وہ مطلوب روش اختیار کرتا ہے، جس کو بقیہ کائنات مجبورانہ طورپر اختیار کیے ہوئے ہے۔
واپس اوپر جائیں
مَیں کون ہوں(who am I) ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ سے انسان کی توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ اِس سوال کو ایک لفظ میں آئی ڈنٹٹی کرائسس(identity crisis) کا نام دیا جاسکتا ہے۔ افکار کی تاریخ (history of thought) بتاتی ہے کہ اِس معاملے میں انسانی دماغ سب سے زیادہ جس تصور سے مسحور رہا ہے وہ وحدتِ وجود (monism) کا تصور ہے۔ ہندو ازم میں اس کو ادُوئت واد کہا جاتا ہے۔ اِس تصور کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ایک عظیم پھیلی ہوئی طاقت ہے اور انسان اسی طاقت کا ایک جُزء ہے۔
فلسفہ اور مذہب دونوں میں یہ نظریہ ہمیشہ چھایا رہا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی بعد کے زمانے میں یہ نظریہ پھیل گیا۔ صوفیامیں خاص طورپر اور علماء میں عام طور پر اِس نظریے نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔مثنوی مولانا روم، جس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے، اورجو نہ صرف صوفیا بلکہ علماء میں بھی مقدس کتاب کے طورپر پڑھی جاتی رہی ہے، وہ پوری کی پوری وحدتِ وجود کے تصور پر لکھی گئی ہے۔
اِس بات کو اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اصل یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہو کر دنیا میں آتا ہے تو و ہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس سوال سے دوچار ہوتا ہے کہ میں کون ہوں، میں کہاں سے آیا ہوں، اور میری منزل کیا ہے۔
پانچ ہزار سال پہلے یونانی فلسفیوں نے آئی ڈنٹٹی کرائسس کے اِس سوال پر غور کرنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ فرض کیا کہ انسان ایک حقیقتِ کُلّی کا حصہ ہے۔ وہ صرف اس لیے اُس سے الگ ہوا ہے کہ ایک دن وہ دوبارہ اس سے مل جائے۔ انسان ایک الگ وجود کی حیثیت سے اپنی شناخت نہیں پارہا تھا۔ لیکن جب اس نے یہ مان لیا کہ وہ ایک عظیم تر حقیقتِ کلّی کا ذاتی جز ہے تو اس نے گویا اپنی شناخت پالی۔ کائنات کے اندر اس کو اپنی پہچان معلو م ہوگئی۔ یہ نظریہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کو مانزم اور ادوئت واد اور وحدتِ وجود کہا جاتا ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایک نامکمل وجود ہے۔ وہ اپنی تکمیل کے لیے اپنی ذات سے باہر کسی اور چیز کو چاہتا ہے۔ یہ احساس ہر انسان کو مسلسل طورپر بے چین رکھتا ہے۔ جب انسان کو اپنی اِس تلاش کا جواب نہیں ملتا تو اس کا حال وہ ہو جاتا ہے جس کو سر جیمز جینز نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— میں شاید بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہوں جو میرے لیے بنائی نہیں گئی۔ اِسی احساس کی ترجمانی ایک اردو شاعر نے اِس طرح کی ہے:
مجھے بلا کے یہاں، آپ چھپ گیا کوئی وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
I was invited here, but when I came the invitee was absent. I am the guest who failed to find his host.
میں نے وحدتِ وجود کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ مگر میں نے پایا کہ اِس پورے نظریے کے پیچھے کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ یہ پورا نظریہ صرف تمثیلات پر کھڑا کیاگیا ہے، اور تمثیل کسی بھی درجے میں منطقی دلیل کے قائم مقام نہیں۔ مثال کے طورپر ہندوازم کوماننے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ سمندر کا ایک قطرہ سمندر سے باہر ہو تب بھی وہ سمندر کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح انسان حقیقت کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ جب تک وہ باہر ہے وہ ایک الگ قطرہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب وہ سمندر میں مل جائے تو اس کے بعد ایک الگ قطرے کی حیثیت سے اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اسی بات کو مثنوی مولانا روم میںاِس طرح کہاگیا ہے:
بشنو ازنَے حکایت می کُند از جدائی ہا شکایت می کند
اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ ایک کنفیوژن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ انسان کے اندر اپنی شناخت کے حوالے سے جو بحران (crisis) پایا جاتارہا ہے وہ اِس لیے نہیں ہے کہ پانی کا قطرہ اپنے سمندر کی تلاش میں ہے، بلکہ وہ اِس لیے ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو پہچاننا چاہتی ہے۔ اسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ نظریات پیدا ہوئے جن کو مانزم یا اِس طرح کے دوسرے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اِس معاملے پر قرآن کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان ربط اپنے آپ میں ایک فطری حقیقت ہے۔ لیکن اِس ربط کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانی کا قطرہ سمندر میں مل کر ایک ہو جائے، بلکہ اس کا مطلب صرف قربت(nearness) ہے۔ انسان فطری طورپر اپنے اُس خدا کی قربت چاہتا ہے جس نے اس کو پیدا کیا، اور جو اس کو سب کچھ دینے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہے۔
اِس قربت کو ماں اور بیٹے کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بیٹا اپنی ماں سے قریب ہونا چاہتا ہے۔ یہ بلا شبہہ اس کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ لیکن اس خواہش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماںاور بیٹا دونوں کی ذات ایک دوسرے میں مدغم ہوجائے، یہاں تک کہ بیٹے کا کوئی الگ وجود باقی نہ رہے۔ بیٹے کے اندر یہ خواہش سادہ طورپر صرف قربت کے معنیٰ میں ہے نہ کہ انضمام (merger) کے معنٰی میں۔
قرآن میں خدااور بندے کی دنیوی قربت کے معنی میں یہ آیت آئی ہے: واسجد واقترب (القلم)، اور آخرت میں خدا اور بندے کی قربت کا تصور اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے: ربّ ابن لی عندک بیتاً فی الجنّۃ (التحریم ۱۱)
اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں خدا اور بندے کے درمیان روحانی ہم سائیگی (spiritual neighbourhood) کامعاملہ پیش آتا ہے اور آخرت کی زندگی میں خدا اور بندے کے درمیان مادّی ہم سائیگی (physical neighbourhood) کا تجربہ ہوگا۔ جو کہ انسان کے لیے تمام لذتوں سے زیادہ لذیذ ثابت ہوگا۔
اس معاملے پر مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کو پیدا کرکے جس دنیا میں اس کورکھا ہے وہ دنیا پورے معنوں میں اپنے خالق کاتعارف ہے۔ یہاں وسیع خلا ہے جو خالق کی ناقابلِ احاطہ ہستی کا گویا ایک تعارف ہے۔ یہاں روشن سورج اور روشن ستارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ خالق کس طرح تمام موجودات کے لیے روشنی کا منبع ہے۔ یہاں اونچے پہاڑ ہیں جو خدا کی عظمت کا ایک علامتی اظہار ہیں۔ یہاں پانی کے اتھاہ سمندر ہیں جو خدا کی بے پایاں رحمت کی داستان سنارہے ہیں۔ یہاں سرسبز درخت ہیں جویہ بتارہے ہیں کہ خدا نے کس طرح ہماری زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کا حیرت انگیز نظام قائم کر رکھا ہے، وغیرہ۔
انسان پیدائشی طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ وہ اپنے عجزکی تلافی کے لیے اپنے سے بڑی کسی ہستی کو پانا چاہتا ہے۔ اِسی فطری احساس کی توجیہہ کرنے کی کوشش میں وحدتِ وجود کی قسم کے فلسفے بنے۔ مگر اِس احساس کا صحیح جواب یہ ہے کہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ وہ خدا کی تخلیق میں غور و فکر کرکے خدا کی جھلکیاں دیکھے۔ وہ خدا کو دریافت کرنے کی سعادت حاصل کرے۔
قرآن کے مطابق، انسان کی زندگی کا ایک مختصر حصہ قبل از موت دورِ حیات میں رکھا گیا ہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ بعد ازموت دَور میں رکھا گیا ہے۔ اِن دونوں دوروں میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ مخلوق کو اپنے خالق کی قربت حاصل ہوجائے۔ یہ قربت، دنیا کی زندگی میںتصوّراتی قربت کی صورت میں حاصل ہوگی، اور آخرت کی زندگی میں حقیقی قربت کی صورت میں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی زندگی میںآدمی کو خدا رُخی زندگی حاصل ہوجائے اور آخرت میں اس کو خدا کے پڑوس میں رہنے کی سعادت ملے۔
واپس اوپر جائیں
Life Beyond Life
کیا موت کے بعد آدمی دوبارہ زندہ رہتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہاں۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس طرزِ استدلال کو معتبر سمجھا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرزِاستدلال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موت کسی کے لیے زندگی کا خاتمہ نہیں۔ ہر عورت اور مرد کی زندگی ابدی ہے۔ موت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آدمی ایک دورِ حیات سے نکل کر دوسرے دورِ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔
۱۔ علماء طبّ پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ موت کا مطلب دل کی حرکت کا بندہوجانا ہے۔ مگر اب یہ نظریہ رد کیا جاچکا ہے۔ اب یہ مانا جاتا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت مرتا ہے جب کہ اس کے برین کا فنکشن رُک جائے۔ اس واقعہ کو بتانے کے لیے فنکشن کا لفظ درست نہیں۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ برین کسی انسان کے لیے موجودہ دنیا میں اس کے سفر کا آخری اسٹیشن ہے۔
جیساکہ معلوم ہے، جب انسان کے ساتھ وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو کلنکل موت (clinical death) کہا جاتا ہے تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے جسم سے روح نکل جاتی ہے، لیکن جہاں تک برین کا تعلق ہے، وہ بدستور ویسا ہی باقی رہتا ہے جیسا کہ وہ موت سے پہلے تھا۔ موت کے بعد برین کا ایک سیل(cell) بھی کم نہیں ہوتا۔
اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ روح یا انسان کی شخصیت (personality) برین سے الگ اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے۔ وہ کسی بھی اعتبار سے برین کا حصہ نہیں ۔
۲۔ اس سلسلے میں دوسری قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مرنے والا انسان مرکر بظاہر ہمارے پاس سے چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کے وجود کا کم از کم ایک حصہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ یہ اس شخص کی آواز ہے۔ اس کے مرنے کے بعد جب ہم کیسیٹ پر اس کی آواز سنتے ہیں تو ہم کسی شبہہ کے بغیر یہ جان لیتے ہیں کہ یہ آواز اُسی مرنے والے انسان کی آواز ہے۔
موت کے بعد کسی آدمی کی آواز کا ٹھیک اُسی طرح موجود رہنا، اِس بات کا کم ازکم ایک جزئی ثبوت ہے کہ انسان کی ہستی ایک غیر فانی ہستی ہے۔ انسان کی شخصیت کا اگر ایک جز ثابت شدہ طور پر موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے تو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کی پوری ہستی بھی قابلِ اعادہ (repeatable) حالت میں باقی اور موجود ہو۔
اگر یہ کہا جائے کہ موت کے بعد کسی انسان کی آواز جو باقی رہتی ہے وہ صوتی لہروں (sound waves) کی شکل میں باقی رہتی ہے۔ جب کہ انسان ایک زندہ وجود ہے۔ مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لیے کہ اس دنیا میں ہر چیز لہروں ہی کا ایک مجموعہ ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں ہیں ان کی آخری ہیئت لہروں پر مشتمل ہے۔ میٹریل و رلڈ کی ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں الکٹران ہے، اور الکٹران کے بارے میں سائنس داں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اَمواج امکان (waves of probability) ہیں، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ پھر اگر اِس دنیا کی تمام چیزیں امواجِ امکان ہیں تو انسان کی شخصیت بھی اگر امواجِ امکان کی ایک صورت ہو تو اس کے وجود سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔
۳۔ حیاتیاتی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کاوجود بے شمار چھوٹے چھوٹے سیل (cell)کا مجموعہ ہے۔ یہ سیل ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں، اور نیا سیل پرانے سیل کی جگہ لیتا رہتا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے جسم کے تمام سیل بدل جاتے ہیں۔ گویا کہ معروف موت سے پہلے بھی انسان کا جسم برابر مرتا رہتا ہے۔
جسم میں سیل کے بدلنے (replacement) کا یہ عمل برابر جاری رہتا ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی انسان کا سابقہ جسم مکمل طورپر مرجاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی کا حافظہ (memory) مستقل طورپر ایک حالت میں باقی رہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب جسم پر بار بار موت واقع ہوتی ہے تو انسان کا حافظہ کہاں باقی رہتا ہے۔ اگروہ جسم کے سیل پر موجود رہا ہو تو حافظے کو ختم ہوجانا چاہیے۔ لیکن سیل کے فنا ہونے کے باوجود حافظے کا باقی رہنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی شخصیت، جسم سے ماورا ایک مستقل وجود ہے۔ وہ معروف موت کے باوجود اپنے آپ کو باقی رکھتی ہے۔
۴۔ اس سلسلے میں آخری اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے جو طرزِ استدلال رائج ہے، اور جس معیار پر وضاحت کے بعد چیزیں ثابت شدہ مان لی جاتی ہیں، اسی معیار پر زندگی بعد موت کے ثبوت کا تقاضا بھی کیا جاسکتا ہے۔ کسی اور معیار پر زندگی بعد موت کے ثبوت کا تقاضا کرنا غیر علمی بات ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت بھی اسی طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس طرح زندگی قبل موت ایک ثابت شدہ واقعہ سمجھی جاتی ہے۔ خالص منطقی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ڈائلاگ (dialogue) یا مکالمہ دو شخصیتوں یا دو پارٹیوں کے درمیان بات چیت (conversation) کا نام ہے۔ ڈائلاگ کا مقصد یہ ہے کہ کسی اختلافی مسئلے کا پُر امن حل تلاش کیا جائے۔ قدیم بادشاہی دَور میں آزادانہ ڈائلاگ کا رواج نہ تھا۔ جب دنیا میں ڈیماکریسی آئی تو فطری طورپر لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈائلاگ ہونے لگا۔ یہ ڈائلاگ سیاسی سطح پر بھی جاری ہوا، اور غیرسیاسی سطح پر بھی۔
ڈائلاگ دراصل انسانیت کو حیوانی دور سے اٹھا کر انسانی دور میں لانے کا نام ہے۔ انسانوں کے درمیان اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اختلاف کی باتوں پر لڑجاتے تھے۔ وہ اختلاف کو طے کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے، اور وہ لڑائی تھی۔ لیکن ڈیماکریسی نے اِس طریقے کوختم کردیا، اور انسان کو جنگل کلچر کے دور سے نکال کر امن کلچر کے دور میں پہنچایا۔
ڈائلاگ یا پُر امن مکالمے کا طریقہ عین اسلام کا طریقہ ہے۔ اسلام کی بنیاد دعوت کے اصول پر قائم ہے، اور دعوت پُر امن گفت وشنید کا دوسرا نام ہے۔ اسلام میں تشدد مکمل طورپر ایک ممنوع فعل ہے۔ اس ممانعت میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ دفاع کا ہے۔ یہ دفاع، خارجی حملے کے وقت ہوتا ہے۔ اور دفاع کا یہ کام بھی صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے۔ غیر حکومتی تنظیم، دفاع یا انصاف کے نام پر متشددانہ لڑائی لڑنے کا حق نہیں رکھتی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۱۰عیسوی میں عرب میں اپنا مشن شروع کیا۔ یہ مشن کیا تھا۔ وہ مشن یہ تھا کہ آپ اپنی آئڈیا لوجی کو لے کر لوگوں میں جائیں اور لوگوں سے اس کے بارے میں بات چیت کریں۔ ان کے اعتراضات کو سُنیں اور دلیل کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر پر انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ پیغمبر اسلام پر جب وحی اترنا شروع ہوئی تو اس کے آغاز ہی میںآپ پر یہ آیت اتری: وأمابنعمۃ ربّک فحدث (الضحی: ۱۱) یعنی خدا کی طرف سے آپ کو جو نظریۂ حیات دیاگیا ہے، لوگوں کے درمیان اس کاچرچا کریں۔ آپ کا نظریۂ حیات توحید پر مبنی تھا، جب کہ اُس وقت عرب کے لوگ شرک پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس لیے فطری طورپر آپ کا مشن دو طرفہ گفت وشنید کا موضوع بن گیا۔ آپ لوگوں سے اپنی بات کہتے اور لوگوں کا رد عمل سنتے اور پھر اس کی مزید وضاحت کرتے۔ اِس طرح آپ کا مشن عملاً وہی چیز بن گیا جس کو موجودہ زمانے میں ڈائلاگ کہاجاتا ہے۔
اِس ڈائلاگ کو مفید بنانے کے لیے قرآن میں کچھ با معنیٰ اصول بتائے گیے ہیں۔ ان اصولوں میںسے کچھ اصولوں کا ہم یہاں تذکرہ کریں گے۔
۱۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے: ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بُلاؤ، اور اُن سے اچھے طریقے سے بحث کرو‘‘۔ (النحل: ۱۲۵)
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دوسروں سے تم جو گفتگو کرو وہ ’جِدال احسن‘ کے طریقے پر ہو۔ یعنی فریقِ ثانی سے تکرار نہ کرنا، بلکہ اس کے اختلاف کو سُن کر سنجیدگی کے ساتھ ایسی بات کہنا جو اس کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ گفتگو محض بحث و مباحثے پر ختم نہ ہو بلکہ وہ ایک نتیجہ خیز انجام پر ختم ہو۔ بات چیت کے دوران حریفانہ اور رقیبانہ انداز اختیار نہ کیا جائے بلکہ علمی انداز اختیار کیا جائے۔
۲۔ اِس سلسلے میں دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اُس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی،وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا‘‘۔ (حم السجدہ: ۳۴)
قرآن کی اِس آیت میںبتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی مسٹر دشمن نہیں۔ ہر آدمی امکانی طور پر مسٹر دوست ہے۔ اس لیے کہ ہر آدمی ایک ہی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے، کئی فطرت پر نہیں۔ اِس قر آنی اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈائلاگ کا آغاز اِس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے ہی سے دونوں فریق ایک دوسرے کے بارے میں ناامید بنے ہوئے ہوں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ڈائلاگ کا عمل پُرامید ذہن کے ساتھ کیا جائے نہ کہ ناامیدی اور مایوسی کے ذہن کے ساتھ۔
۳۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’کہو، اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مسلّم ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں‘‘۔ (آل عمران: ۶۴)
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو فریق کے درمیان بات چیت ہو تو اُس وقت موضوعِ گفتگو کا انتخاب کس طرح کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ گفتگو کا آغاز کنٹرورشل پہلو کو لے کر نہ کیا جائے بلکہ دونوں فریقوں کے درمیان کامن گراؤنڈ (کلمۂ سَواء) کی تلاش کی جائے، اور اِس کامن گراؤنڈ سے گفتگو کاآغاز کیاجائے۔ یعنی گفتگو کا طریقہ اختلاف سے اتفاق کی طرف نہ ہو بلکہ اتفاق سے اختلاف کی طرف ہو۔
۴۔ اِس سلسلے میں ایک اور قابلِ حوالہ آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ان کوتم بُرا بھلا نہ کہو، ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر، جہالت کی بناپر، خدا کو بُرا بھلا کہنے لگیں گے‘‘۔ (الانعام: ۱۰۹)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دوفریقوں کے درمیان ایک اختلافی موضوع پر ڈائلاگ ہو تو ضروری ہے کہ ڈائلاگ کے باہر موافقِ ڈائلاگ فضا کو باقی رکھا جائے۔ اگر ایسا ہو کہ دونوں فریقوں کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی باتیں پھیلا رہا ہو۔ دونوں طرف کے لوگ ایسی باتوں کا چرچا کرنے میں مصروف ہوں جس سے ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں تو ایسی غیر موافق فضا میں مفید ڈائلاگ نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈائلاگ کے نتیجہ خیز ہونے کا تعلق، صرف کمرۂ ڈائلاگ کی بات چیت پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ اِس پر منحصر ہوتا ہے کہ کمرۂ ڈائلاگ کے باہر جو فضا بنائی گئی ہے وہ ڈائلاگ کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ہے۔
ڈائلاگ کا ایک اور اصول وہ ہے جو سنتِ رسول سے ثابت ہوتا ہے، یہ اصول حُدیبیہ کے معاہدے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان لمبی بات چیت کے بعد طے پایا تھا۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، یہ معاہدہ اِس طرح ممکن ہوا کہ پیغمبر اسلام نے قریش کی کئی شرطوں کویک طرفہ طورپر مان لیا۔ پیغمبر کی اِس سنت سے ڈائلاگ کا یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے نقطۂ نظر کو دلیل کے ساتھ پیش کریں۔ لیکن اِسی کے ساتھ دونوں اِس بات کے لیے تیار رہیں کہ ڈائلاگ ہمیشہ لینے اور دینے (give and take) کے اصول کو اختیار کرکے کامیاب ہوتا ہے نہ کہ صرف لینے کے اصول پر اصرار کرنے سے۔عملی معاملات میں اسلام آخری حد تک لچک کے اصول کو پسند کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف ڈائلاگ کے اصول نہیں بتائے گیے ہیں بلکہ ڈائلاگ کے اصول کا عملی تجربہ بھی بار بار کیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اِس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
پیغمبر اسلام نے اپنے مشن کے مکّی دو رمیں بار بار ڈائلاگ کے اصول پر عمل کیا۔ مثلاً ایک بار قریش نے اپنے سردار عقبہ بن ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر پیغمبر اسلام کے پاس بھیجا۔ تاکہ باہمی اختلاف کے موضوع پر بات چیت کرکے صُلح کا ماحول بنایا جائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبہ نے نہایت غور کے ساتھ آپ کی باتیں سنیں اور قریش کے پاس جاکر انھیں اِس سے آگاہ کیا۔ اِسی طرح ایک بار آپ کے چچا ابو طالب کی دعوت پر آپ اور قریش کے نمائندے اکھٹا ہوئے اور اختلافی موضوعات پر پُرامن انداز میں بات چیت ہوئی۔
اِسی طرح حدیبیہ کے موقع پر پیغمبر اسلام اور قر یش کے درمیان ایک گفت و شنید ہوئی۔ اِس کا سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہا۔ اِس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان وہ معاہدۂ امن طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ واقعہ بلاشبہہ پُرامن ڈائلاگ کی ایک کامیاب مثال ہے۔
اِسی طرح پیغمبر اسلام کی موجودگی میں تین مذہب—اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے نمائندوں کے درمیان ڈائلاگ ہوا۔ یہ ٹرائلاگ (trilogue) مدینہ کی مسجد نبوی میں ہوا۔ عرب مصنفین نے اس کو مؤتمر الادیان الثلاثہ کانام دیا ہے۔یعنی تین مذہبوں کے درمیان ٹرائلاگ۔ غالباً یہ تاریخ کا پہلا ٹرائلاگ تھا جو مقدس عبادت خانے کے اندر ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں پُر امن گفت وشنید کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
اسلام کی تاریخ میں اِس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ یہ مثالیں اُس عہد زرّیں سے تعلق رکھتی ہیں جس کو عہدِ نبوت اور عہدِ صحابہ کہاجاتا ہے۔ اس لیے ڈائلاگ یا باہمی گفت وشنید کے اصول کو اسلام میں ایک مستند اصول کی حیثیت حاصل ہے۔
خلاصۂ کلام
اوپر کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا طریقہ پُرامن ڈائلاگ کا طریقہ ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صلح کا طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ (النساء: ۱۲۸) اِس طرح ایک اور آیت میںآیا ہے کہ اختلاف کے موقع پر باہمی گفت و شنید اور ثالثی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔(النساء: ۳۵) حدیث میں آیا ہے کہ دشمن سے مڈبھیڑ نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت مانگو (لاتتمنوا لقاء العدوّ وسئلوا اللہ العافیۃ)۔
اسلام کا مقصد ربّانی انقلاب لانا ہے۔ لوگوں کو خدا پرستانہ زندگی کی طرف بلانا ہے۔ ایک ایسا سماج بنانا ہے جہاں روحانی اور اخلاقی اور انسانی قدروں کا رواج ہو۔ اسلام ایک ایسے ماحول کا داعی ہے جہاں امن اور ٹالرنس اور محبت اور خیر خواہانہ تعلقات کا مزاج لوگوں کے اندر پایا جائے۔ جہاں نزاعات کو تشدد کے بغیر حل کیا جائے۔ یہی اسلام کی مطلوب دنیا ہے۔ ایسی دنیا صرف پُرامن ڈائلاگ کے ذریعے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عقیدے کے اعتبار سے توحید پر قائم ہے، اور طریقِ کار کے اعتبار سے پُرامن ڈائلاگ پر۔ یہی اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ اس کے سوا جو طریقہ ہے اس کو اسلام کا طریقہ نہیں کہا جاسکتا۔ (۲ جون ۲۰۰۶ء)
واپس اوپر جائیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ وہ عراق میں پیدا ہوئے۔ پھر مصر اور فلسطین سے سفر کرتے ہوئے وہ عرب کے اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اُس وقت یہ مقام ایک غیر آباد مقام تھا۔ رتیلے میدان اور خشک پہاڑوں کے سوا یہاں اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ یہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔
یہ چار ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ یہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔ یہ دراصل ایک نیا دورِ تاریخ شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ اب مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔
اصل یہ ہے کہ چار ہزار سال پہلے کی دنیا میں ہر طرف شرک کا غلبہ تھا۔ شرک دراصل فطرت پرستی کا نام ہے۔ انسان، سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ اور حیوانات، ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ فطرت (nature)کو پرستش کی چیز بنائے ہوئے تھا۔
یہ صورت حال ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر ہر قسم کی طاقتیں چھپا دی تھیں۔ ضرورت تھی کہ انسان ان کو دریافت کرکے انھیں استعمال کرے۔ لیکن انسان نے فطرت کو پرستش کی چیز بنا لیا۔ حتی کہ فطرت کی پرستش(nature worship) یا شرک، انسانی کلچر کا غالب حصہ بن گیا۔ پرستشِ فطرت کے اِس مزاج نے انسان کے اندر سے تسخیرِ فطرت کا ذہن ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فطرت کی طاقتوں کو دریافت کرکے، اس کو انسانی خدمت کے لیے استعمال کرنے کا ذہن عملاً ختم ہوگیا۔ اِس ماحول میں عابد ِفطرت پیدا ہونے لگے نہ کہ وہ لوگ جو کھُلے ذہن کے ساتھ تحقیق کرکے فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کرسکیں۔
ان حالات میںضرورت تھی کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جو فطرت پرستی کے ذہن یا مشرکانہ تہذیب کے اثر سے خالی ہو۔ یہ کام کسی متمدن شہر میں نہیں ہوسکتا تھا۔ کیوں کہ اس زمانے میں ہر متمدّن شہر ، شرک (فطرت پرستی) کا مرکز بن چکا تھا۔ اِس بنا پر حضرت ابراہیم نے مکّہ کے غیر آباد علاقے کو منتخب کیا تاکہ یہاں کے کھُلے ماحول میں ایک نئی نسل پیدا کی جائے جو مشرکانہ تہذیب کے اثرات سے خالی ہو، اور اپنے بے آمیز ذہن کی بنا پر نئی تاریخ بنانے کا کام کرسکے۔
پیغمبر اسلام اسی علاقے میں ۵۷۰ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں آپ کو نبوت ملی۔ یہاں کی زندہ نسل جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے، اس میں کام کرکے آپ نے ایک طاقت ور ٹیم تیار کی۔ یہ ٹیم جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے اس نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے قدیم دَور کے فطرت پرستانہ نظام (مشرکانہ نظام) کو توڑا، اور دوسرے دَورِ تاریخ کا آغاز کیا۔ یعنی وہ دَور جب کہ فطرت(nature) پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بنے۔ یہ عمل ہزار سال تک جاری رہا۔ یہاںتک کہ موجودہ دور پیدا ہوا، جب کہ فطرت کا آزادانہ مطالعہ کرکے فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ دَور آگیا جس کو سائنسی دَور یا جدید صنعتی دَور کہاجاتا ہے۔
اکیسویں صدی میںاب دنیا اپنی تاریخ کے تیسرے دَور میں پہنچ چکی ہے۔ اس دَور میں بیک وقت دو چیزیں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہیں۔ ایک ہے، جدید مشینی سامانوں کے ذریعے نیے تمدنی اسباب کا پیدا ہونا۔ ان نیے تمدنی اسباب میں سب سے زیادہ اہم چیز جدید مواصلات (ماڈرن کمیونکیشن) ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر اور پیغام رسانی اتنا ہی آسان بن چکا ہے جتنا کہ پہلے ایک محلے کے اندر ممکن ہوتا تھا۔
جدید انقلاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدائی سچائی آخری حد تک مُبرہن ہوچکی ہے۔ خدائی سچائی کے حق میں پہلے روایتی دلائل ہوا کرتے تھے۔ اب خدائی سچائی کو ثابت شدہ بنانے کے لیے سائنسی دلائل ظاہر ہوچکے ہیں۔ خدائی سچائی اب صرف ایک عقیدہ نہیں رہی بلکہ وہ سائنسی طورپر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکی ہے۔
یہ تیسرا دور لوگوں کو ایک نیے عمل کی دعوت دے رہا ہے۔ پہلے دور کا مطلوب کام نئی نسل بنانا تھا، وہ بنو اسماعیل کے ذریعے انجام پایا۔ دوسرے دور کا مطلوب کام ایک انقلاب لانا تھا، جس میں فطرت (نیچر) پرستش کے بجائے تسخیر کا موضوع بن جائے۔ یہ کام اصحاب رسول کے ذریعہ واقعہ بنا۔ تیسرے دور کا مطلوب کام یہ ہے کہ اب اکیسویں صدی میں عزم و یقین سے بھر پور ایک گروہ اٹھے۔ وہ جدید وسائل اور جدید دلائل کو استعمال کرکے خدائی سچائی کو عالمی سطح پر آشکارا کردے، تاکہ خدا کے بندے خدا کی رحمت کے سایے میں جینے کی سعادت حاصل کرسکیں۔
شاید انسانی تاریخ کا یہی وہ آخری دَور ہے جس میں دعوتِ نبوت کو انجام دینے والوں کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کا لفظ آیا ہے۔ اصحابِ رسول نے روایتی دَور میں اظہارِ دین کا کام انجام دیا تھا، اب اخوانِ رسول سائنسی دَور میں اظہارِ دین کے اسی کام کو انجام دیں گے۔ حدیث میں اخوانِ رسول کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔
رویاتی دور میں اظہارِ دین، اور سائنسی دو رمیں اظہارِ دین کے درمیان کیا فرق ہے، اس کو راقم الحروف نے اپنی کتابوں میںتفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم روایتی دور میں انسان کا جو فریم ورک تھا اس کے مطابق، گرہن کے بارے میں قابل فہم طورپر صرف یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کی روشنی میں اِس واقعے کو اور بھی زیادہ ایمان افروز انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ زمین اور سورج اور چاند تین مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں۔ مگر وسیع خلا میں ان کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک سیدھ میںلایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے:
It is a result of unimaginably well-calculated positioning of three different moving bodies in the vast space.
واپس اوپر جائیں
انیسویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ ہوا کہ مغربی قومیں نئی قوتوں سے مسلّح ہو کر ابھریں، اور ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گئیں۔ یہ علاقہ وہی تھا جہاں مسلمان سیکڑوں سال سے حالتِ اقتدار میں رہ رہے تھے۔ مسلم دنیا کے رہنماؤں کے اندر اس صورت حال کے خلاف ردّ عمل پیدا ہوا۔ تقریباً ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں اس ردّ عمل کا اظہار ہونے لگا۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسی زمانے میں اِس سوال کو لے کر دو تحریکیں اٹھیں۔ ایک تحریک ۱۸۵۷ میں اٹھی۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ یہ تحریک مسلّح انقلاب پر یقین رکھتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے یہ کوشش کی کہ اسلحے کی مدد سے انگریزوں کو ہندستان سے نکال دیں۔اِس جنگ میں ہندو اور مسلمان، دونوں کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔لیکن یہ تحریک اپنے مقصد میں مکمل طورپر ناکام رہی۔
اِس مسلّح تحریک کے تقریباً ساٹھ سال بعد مہاتما گاندھی، سیاسی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔ ۱۹۱۹ء کے بعد وہ کانگریس کے سب سے بڑے لیڈر بن گیے۔
مہاتما گاندھی نے ۱۹۱۹ میں یہ اعلان کیا کہ وہ ہنسا (تشدد) میں یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ آزادی کی تحریک کو مکمل طورپر اَہنسا (عدم تشدّد) کے اصول پر چلائیں گے۔ یعنی وائلنٹ متھڈ (violent method) کے بجائے پیس فُل متھڈ(peaceful method) کے ذریعے۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، انگریزی حکومت ۱۸۵۷سے لے کر ۱۹۱۹ تک تحریکِ آزادی سے وابستہ لوگوں کو تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی رہی۔ تحریک آزادی کے کارکنوں کا تشدد، انگریزوں کو یہ موقع دیتا رہا کہ وہ جوابی تشدد کے ذریعے اِس تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتے رہیں۔ لیکن جب مہاتما گاندھی نے تشدد کا طریقہ ترک کردیا تو گویا کہ انھوںنے انگریزی حکومت سے تشدد کا جواز چھین لیا۔
مہاتما گاندھی کی امن پالیسی کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے اس کا ایک اندازہ اِس واقعے سے ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے ایک انگریز کلکٹر نے اپنے برٹش سکریٹریٹ کو یہ میسیج بھیجا کہ— براہِ کرم، بذریعہ ٹیلی گرام یہ بتائیے کہ ایک شیر کو تشدد کے بغیر کس طرح ہلاک کیا جائے:
Kindly, wire instructions how to kill a tiger non-violently.
جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، متشددانہ طریقِ کار کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار اتنا زیادہ کامیاب رہا کہ صرف ۲۵ سال کے بعد ۱۹۴۷ میں انڈیا آزاد ہوگیا۔ ساٹھ سال کی پُر تشدد جدوجہد، آزادی کے حصول میں ناکام ثابت ہوئی۔ مگر بیس سال کی پُرامن جدوجہد، آزادی کے حصول میں پوری طرح کامیاب رہی۔
برِّ صغیر ہندمیں پیش آنے والے یہ دونوں واقعات، مسلم نقطۂ نظر سے بے حد اہم تھے۔ یہ واقعات بتارہے تھے کہ نوآبادیاتی دَور صرف سیاسی استیلاء کے ہم معنٰی نہیں ہے، اسی کے ساتھ وہ نیے عظیم تر امکانات بھی لے کر آیا ہے۔ اِن امکانات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب نیے وسائل نے قدیم پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کو زیادہ مؤثر بنادیا ہے۔ یہاں تک کہ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو جنگ ہتھیاروں کی مدد سے جیتی نہیں جاسکتی تھی، اس کو امن کے ذرائع کی مدد سے شان دار طور پر جیت لیا جائے۔
یہ واقعہ ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں کے لیے ایک چشم کُشا واقعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر میرے علم کے مطابق، ساری مسلم دنیا میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر مسلم رہنما نہیں تھا جو اِس واقعے سے سبق لے اور اس کی روشنی میں اپنی ملّی جدوجہد کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ ہر جگہ کی مسلم تحریکیں بدستور اُسی متشددانہ طریقِ کار پر چلتی رہیں جس پر وہ پہلے چلتی تھیں۔ اِس تاریخ پر اب ڈیڑھ سو سال گذر چکے ہیں، لیکن کسی بھی علاقے کے مسلمانوں میں کوئی حقیقی مثبت تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔
مزید اندوہ ناک بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے ذاتی معاملات کو تو مصالحت اور ایڈجسٹ مینٹ کے اصول پر چلاتے ہیں۔ لیکن جہاں تک قومی پالیسی کی بات ہے، ہر جگہ وہ تشدد اور انتہا پسندی کا طریقہ استعمال کررہے ہیں— یہ دوعملی بلا شبہہ اُن کے لیے پہلے سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے۔
اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں اپنی تحریکوں پر نظر ثانی کریں۔ وہ نظری اعتبار سے اپنی سوچ کو بدلیں، اور عملی اعتبار سے اپنی تحریکوں کو متشددانہ طریقِ کار کے بجائے پُر امن طریقِ کار کے اصول پر چلائیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کے لیے اِس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔ یہاں میں مختصر طور پر بتاؤں گا کہ موجودہ حالت میں مسلمانوں کو اپنی نئی پالیسی کن خطوط پر بنانا چاہیے۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ واضح انداز میں اِس بات کا کھلا اعلان کیا جائے کہ انڈیا میں، اور دوسرے ملکوں میں مسلمانوں نے جو مسلّح تحریکیں شروع کیں، وہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اِس اعتراف کے بعد یہ اعلان کیا جائے کہ تمام مسلّح تحریکوں کو بلا شرط یک طرفہ طورپر ختم کیا جاتا ہے۔ اِس قسم کا اعلان لازمی طورپر ضروری ہے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کو کوئی نیانقطۂ آغاز ہی نہیں ملے گا۔
بد قسمتی سے اِس معاملے میں برعکس طریقہ اختیار کیا گیا۔ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک، پچھلے دو سو سال کے اندر جو ناکام لڑائیاں لڑی گئیں، اب تک ہمارے لکھنے اور بولنے والے ان کو گلوری فائی کرتے رہے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تباہی کے واقعات مسلمانوں کی نظر میں فخر کے واقعات بن گیے۔ اس کی ایک مثال ’’علماء ہند کا شان دار ماضی‘‘ نامی کتاب ہے۔ اِس طرح کی تحریریں ساری دنیا میں شائع کی گئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان اپنی معکوس نتیجہ پیدا کرنے والی لڑائیوں پر نظر ثانی نہ کرسکے۔ کیوں کہ فخر اور نظر ثانی، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۔ ضرورت ہے کہ ہر جگہ تمام متشددانہ کارروائیوں کو یک لخت بند کرکے تعلیم کا کام شروع کیا جائے۔ خاص طور پر ماڈرن ایجوکیشن بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں میں جب تک ماڈرن ایجوکیشن نہ آئے، وہ جدید مسائل کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور جب مسائل کی نوعیت ہی معلوم نہ ہوتو ان کے حل کی کامیاب منصوبہ بندی کس طرح کی جاسکتی ہے۔
۳ ۔ مسلمان ساری دنیا میں جہاں جہاں زمین کے لیے لڑ رہے ہیں، اب وہ اِس معاملے میں اسٹیٹس کوازم(statusquoism) کی پالیسی اختیار کرلیں۔ یعنی حالتِ موجودہ کو علیٰ حالہ تسلیم کرنا، اور غیر نزاعی دائرے میں موجود مواقع کو پُر امن طورپر استعمال کرنے کی کوشش کرنا۔
۴۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ مسلمان اُس کام کو کریں جس کو اسلام میں دعوت الیٰ اللہ کہاگیا ہے۔ یعنی اسلام کے پیغام کو پُر امن طورپر غیر مسلم قوموں تک پہنچانا۔ دعوت کا کام کوئی محدود کام نہیں، دعوت کا کام پوری زندگی کے لیے ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں میں اگر دعوت کا کام زندہ ہو جائے تو اس کے بعد دوسرے بہت سے مثبت واقعات وجود میں آئیں گے۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر عالمی نقطۂ نظر پیدا ہوگا۔ ان کے روابط دوسری قوموں سے بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ان کے اندر تعلیم کا گہرا جذبہ پیدا ہوگا۔ وہ ایک متحرک قوم بن جائیں گے۔ ان کے اندر مثبت سوچ، تعمیری ذہن، تحمّل، رواداری اور انسانی احترام جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوں گی۔
واپس اوپر جائیں
۱۹۴۷ میں جب ہندستان آزاد ہوا تو مسلم سیاست کی نسبت سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی وہ یہ کہ ہندستان کے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی شخصیت یاتحریک نہیں اٹھی جو مسلمانوں میں اپنی ملّی تعمیر کے لیے صحت مند رجحان (healthy trend) قائم کرے۔ فوری ردّ عمل کے تحت، ہر باریش اور بے ریش رہنما نے مسلم حقوق کے نام پر مطالبات کی مہم شروع کردی۔ یہ ان لوگوں نے کیا جو ایک ایسے مذہب پر فخر کرتے تھے جس کی تعلیم یہ ہے کہ— دوسروں سے سوال نہ کرو بلکہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جاؤ، اس کے بعد تمہارے حقوق تم کو اپنے آپ مل جائیں گے۔
حال میں اِس قسم کے لوگوں کو اپنی بے نتیجہ مطالباتی مہم کو چلانے کے لیے ایک نیا خوب صورت لفظ مل گیا ہے، اور وہ مسلم ایمپاورمنٹ (Muslim Empowerment) ہے۔ ایمپاور یا ایمپاورمنٹ کا مطلب ہے اختیار دینا۔ کہا جاتا ہے:
Science empowers men to control natural forces more effectively.
مسلم ایمپاورمنٹ کا مطلب دوسرے لفظوں میں مسلم اَپ لفٹ (uplift) ہے، یعنی مسلمان جو مفروضہ طورپر ایک پچھڑی ہوئی کمیونٹی بن گیے ہیں، ان کو ایسے مواقع بہم پہنچانا کہ وہ اوپر اٹھیں اور دوسرے گروہوں کے برابر ہوجائیں۔ اِسی قسم کی تحریک عورتوں کے حوالے سے ویمن ایمپاورمنٹ (Women Empowerment) کے نام سے چل رہی ہے۔ وہاں بھی یہی تصور ہے کہ عورتیں سماجی زندگی میں مَردوں سے پیچھے ہوگئی ہیں۔ اب عورتوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جن کے ذریعہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مَردوں کے برابر ہوجائیں۔
میرے نزدیک مسلم ایمپاورمنٹ کی تحریک ایک لفظی کھیل کے سوا اور کچھ نہیں۔ مسلم حقوق کے لیے مطالبات کی مہم پچھلی نصف صدی کے دوران مسلسل چلائی گئی ہے۔ یہ مہم اس سے پہلے مسلمانوں کے ’’اکابر‘‘ کے ذریعے چلائی گئی۔ لیکن وہ مکمل طورپر ناکام رہی۔ اب یہ مہم مسلمانوں کے ’’اصاغر‘‘ کے ذریعے چلائی جارہی ہے۔ ایسی حالت میں کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب وہ نتیجہ خیز ہوجائے گی۔
اس معاملے میں ناکامی کسی اتفاقی سبب سے نہیں ہوئی۔ اس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ یہ مطالباتی مہم، قانونِ فطرت کے خلاف تھی۔ اِس دنیا کے لیے فطرت کا اٹل قانون یہ ہے کہ —جو دے وہ پائے، اور جو نہ دے وہ پانے سے محروم رہے۔ فطرت کا یہی اصول قرآن کی اِس آیت میں بیان کیاگیا ہے: وأمّا ما ینفع الناس فیمکث فی الأرض (الرعد: ۱۷) یعنی جو دوسروں کے لیے نفع بخش بنتا ہے اُسی کو اِس دنیا میں قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ولا تسئلنَّ أحداً شیئاً وإنّ سقط سوسطک (مسند احمد، جلد ۵، صفحہ ۱۸۱) اِس حدیث کو عام طورپر فضائل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے حالاں کہ اِس میں زندگی کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ خدا کی اِس دنیا میں اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو مانگنے کا مزاج اپنے اندر سے ختم کردو، اپنی ذاتی محنت کے بل پر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
مسلم ایمپاورمنٹ کی بات کرنے والے لوگ دستورِ ہند کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری مطالباتی مہم جائز ہے۔ کیوں کہ دستورِ ہند میں ملک کے شہریوں اور اقلیتوں کو جو حقوق دیے گیے ہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان حقوق کو عملاً ہمیں دے دیا جائے۔
یہ بات گریمر کے اعتبار سے صحیح ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سرتاسرغلط ہے۔ اِس ملک کا ہر آدمی جانتا ہے کہ دستورِ ہند، صرف ایک لفظی گُل دستہ ہے۔ بعض ٹکنکل دفعات کے سوا، اس میں لکھی ہوئی کوئی بات اب تک واقعہ نہیں بنی— دستورِ ہند کے مطابق، ملک کو فیر الکشن ملنا چاہیے، لیکن اب تک ملک اس سے محروم ہے۔دستور کے مطابق، ملک کو دیانت دار ایڈمنسٹریشن ملنا چاہیے، لیکن ملک کو صرف ایک کرپٹ ایڈمنسٹریشن ملا ہے۔ دستور ہند کے مطابق، دستور کے نفاذ کے پندرہ سال کے اندر سارے ملک کو تعلیم یافتہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اب تک یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ دستور نے ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان کادرجہ دیا تھا لیکن عملاً ملک کے اوپر انگریزی زبان کا راج ہے، وغیرہ۔
دستور ِ ہند کی یہ ناکامی ایک معلوم اور مسلّم واقعہ ہے۔ ایسی حالت میں کس طرح ممکن ہے کہ دستورِ ہند ایک استثنائی معجزہ کے طورپر مسلمانوں کی خواہش کے مطابق، ان کے تمام حقوق کا پارسل انھیں رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعہ روانہ کردے۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان میں مسلمانوں کے علاوہ اور کئی ’’اقلیتیں‘‘ بستی ہیں۔ مثلاً عیسائی، پارسی، سکھ اور جَین وغیرہ۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتوں کے حقوق پوری طرح محفوظ ہیں۔ عیسائی اِس ملک کے تعلیمی نظام پر چھائے ہوئے ہیں۔ پارسیوں نے اِس ملک میںاپنا انڈسٹریل ایمپائر بنا لیا ہے۔ سکھوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے لیکن عملاً وہ ملک کی تقریباً بیس فیصد اقتصادیات کو کنٹرول کررہے ہیں۔ جینی فرقہ اتنا زیادہ خوش حال فرقہ ہے کہ اس کو کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اِن اقلیتوں نے یہ کامیابی خود اپنی جدوجہد کے ذریعہ حاصل کی ہے، وہ انھیں دستور کے عطیہ کے طورپر نہیں ملی۔
اِن مثالوں میں ایک اور مثال شامل کر لیجئے، اور وہ خود مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کی محرومی کو لے کر اپنی تحریک چلا رہا ہے، اور مسلمانوں کو ایمپاور کرنا چاہتا ہے۔قریب سے دیکھیے تو یہ لوگ اپنی ذات کے اعتبار سے خود پوری طرح ایمپاور ہوچکے ہیں۔ ان کو وہ تمام مادّی چیزیں حاصل ہیں جن کودوسروں کے لیے فراہم کرنے کے نام پر وہ اپنی تحریکیں چلارہے ہیں۔
ایسی حالت میں مسلم ایمپاور منٹ کا نعرہ لگانے والوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیںکہ اِس ملک کی دوسری اقلیتوں اور خود مسلم ایمپاور منٹ کے لیڈروں نے کس طرح اِسی ملک میں اپنے تمام مطلوب مفادات حاصل کرلیے۔ انھیں چاہیے کہ مسلمانوں کو کا میابی کا یہ راز بتائیں تاکہ وہ اِس سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو کامیاب بنا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ایمپاورمنٹ کا اِشو، سیلف ایمپاورمنٹ کا اشو ہے۔ یعنی خود اپنی جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو محرومی سے نکالنا اور اپنے آپ کو ترقی کے مقام تک پہنچانا۔ یہ سارا معاملہ داخلی جدوجہد کا ہے، نہ کہ خارجی مطالبات کا۔
واپس اوپر جائیں
۱۹۴۷ میں ہندستان آزاد ہوا۔ اُس وقت یہاں کے مسلمان، غالباً بلااستثنا، یہ سمجھ رہے تھے کہ اِس ملک میں اب مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے جس قسم کی مایوس کُن باتیں کہہ رہے تھے اُس کی ایک علامتی مثال مسٹر خالد لطیف گابا (وفات ۱۹۸۱) کی انگریزی کتاب منفعل آوازیں (Passive Voices) ہے۔ اِس کتاب کے دیباچے میں انھوں نے لکھا تھا کہ— انڈیا کے مسلمانوں کی حالت کا خلاصہ بتانے کے لیے صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِس ملک میں منفعل آوازیں بن چکے ہیں:
It would be difficult to sum up the status and conditions of Muslims in India better in two words "Passive Voices".
یہ آزادی کے بعد ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں مسلم قیادت کا عمومی اندازہ تھا۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ نتیجہ عملاً اس کے بالکل برعکس نکلا۔ آج ہندستان کے مسلمان اس ملک میں ہمیشہ سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں، حتی کہ مغل دَور سے بھی زیادہ بہتر حالت میں۔ آج کے شہروں میں مسلمانوں کو جو مادّی سہولیات حاصل ہیں وہ مغل دور کے مسلمانوں کو بھی حاصل نہ تھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان موجودہ ستّاون مسلم ملکوں سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ اس کی علامتی مثال یہ ہے کہ پاکستان کا مسلمان نیو کلیر سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد القدیر خاں قید کی زندگی گذاررہا ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کا مسلمان نیوکلیر سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام، ملک کی صدارت کے عہدے پر فائز ہے۔
اس طرح انڈیا کے حکیم عبد الحمید (وفات ۱۹۹۹) نے دہلی میں ہمدرد یونیورسٹی بنائی۔ اس کے بعد اپنی عمر طبعی کے مطابق، ان کی وفات ہوئی۔ اس کے برعکس، حکیم محمد سعید (وفات ۱۹۹۸) نے کراچی میں ہمدرد یونیورسٹی بنائی اور ان کے دفتر میں ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیاگیا، وغیرہ۔
موجودہ ہندستان میں مسلمانوں کی جو ترقی یافتہ حالت ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۶۷ میں جب میں دہلی آیا، اُس وقت دہلی میں یہ حالت تھی کہ جمعہ اور عیدین کے دن مسجد کے باہر کسی مسلمان کی کار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ آج یہ حالت ہے کہ آپ جس مسجد میں جمعہ اور عیدین کی نمازادا کریں، وہاںآپ کو مسجد کے باہر مسلم کاروں کی لمبی قطاریں دکھائی دیں گی۔ میں ۱۹۸۳ میں نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) کی کالونی میں آیا۔ اُس وقت یہاں ہر طرف صرف ہندو دکھائی دیتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ کالونی کی بیش تر بلڈنگوں کو مسلمانوں نے بڑی بڑی قیمت دے کر خرید لیا ہے۔ یہاں کی سڑکوں پر رات، دن مسلمانوں کی کاریں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس معاملے کو ایک اور مثال سے سمجھیے۔ پروفیسر خورشید احمد (مقیم برطانیہ) نے اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادی (وفات ۲۰۰۲) کے بارے میں ان کے حالات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’میرے استفسار پر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک بار بتایا کہ ‘‘میں دولتِ آصفیہ (حیدرآباد) کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر (پولیس ایکشن کے بعد) میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں…‘‘ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدرآباد دکن کبھی واپس نہ آئے۔ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں، تو بڑے دُکھے دل سے کہا کہ میں اُس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے‘‘ ۔(ماہ نامہ میثاق، لاہور، مئی ۲۰۰۳)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے احساسات جو حیدر آباد کے بارے میں تھے وہی ۱۹۴۷ کے بعد تمام مسلم قائدین کے احساسات تھے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ ۱۹۴۷ کے بعد حیدرآباد کے مسلمانوں نے غیر معمولی ترقی کی، ایسی ترقی جو انھیں سابق دولتِ آصفیہ کے زمانے میں بھی حاصل نہ تھی۔میں نے حیدرآباد کو ۱۹۴۷ سے پہلے بھی دیکھا تھا، اور آج کے حیدر آباد کو بھی میں نے کئی بار بار دیکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج حیدرآباد کے مسلمانوں نے اتنی زیادہ ترقی کی ہے جس کا تصور بھی ۱۹۴۷ سے پہلے کے مسلمان نہیں کرسکتے تھے۔
آج آپ حیدرآباد کے جس حصے میں جائیں وہاں آپ کو مسلمانوں کی شان دار دکانیں اور بڑے بڑے نو تعمیر رہائشی مکانات نظر آئیں گے۔ مسجدیں اور مدرسے اور مسلم ادارے اپنی شان دار بلڈنگوں کے ساتھ بتارہے ہوں گے کہ نیے حیدرآباد میںمسلمانوں کو غیر معمولی ترقیاں حاصل ہوئی ہیں۔
یہی حال پورے ملک کا ہے۔ اوپر میں نے ملک کے دو بڑے شہروں کا ذکر کیا ہے۔مشرقی یوپی میں میرا آبائی گاؤں ایک دور افتادہ گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا۔ ۱۹۴۷ سے پہلے یہاں ترقی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ مگر آج اِس گاؤں میںبجلی، ٹیلی فون اور سڑک جیسی چیزوں کی موجودگی بتارہی ہے کہ اب یہ گاؤں بھی ملکی ترقی کے نقشے پر آچکا ہے۔گاؤں میں شان دار مدرسہ اور شان دار اسکول قائم ہے۔ گاؤں میں ہر طرف پختہ مکانات نظر آتے ہیں، وغیرہ۔
یہی حالت آج پورے ملک میں مسلمانوں کی ہے۔ گاؤں سے لے کر شہر تک ہر جگہ مسلمان تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ وہ تجارت اور تعلیم اور دوسرے تر قیاتی شعبوں میں نمایاں طورپر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو انڈیا کے ہر شہر اور ہر علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اِس حقیقت کا انکار کرے تو اس سے آپ صرف ایک سوال کیجئے کہ— تمھارے اپنے خاندان کی معاشی حالت ۱۹۴۷ سے پہلے کیا تھی، اور اب کیا ہے۔ یقینی طور پر اس کا جواب یہ ہوگا کہ آج میرا خاندان ۱۹۴۷ کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ پہلے اگر ہمارے گھر کے لوگ سائیکل نشیں تھے تو اب وہ کار نشیں ہوگیے ہیں، وغیرہ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندستان کے مسلم قائدین کے تمام مایوسانہ اندازوں کے سراسر خلاف، ہندستانی مسلمانوں کی حالت اتنی زیادہ بہتر کیسے ہوگئی ۔ یہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ یہ تمام تر زمانی تبدیلی کا معاملہ ہے۔ ۱۹۴۷ سے پہلے کا انڈیا، بنیادی طورپر، زرعی دَور میںتھا۔ ۱۹۴۷ کے بعد کا انڈیا، بنیادی طورپر، صنعتی دور میں پہنچ چکا ہے۔ زرعی دور میں معاشی ذرائع صرف لینڈ لارڈ کے پاس ہوا کرتے تھے۔ صنعتی دور نے معاشی ذرائع کو ڈی سنٹرلائز(de-centralize) کردیا۔ اِسی زمانی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ آج معاشی اسباب تمام لوگوں کے لیے قابل حصول ہوگیے۔ اسبابِ معیشت کے اِس عمومی پھیلاؤ میں جس طرح دوسروں کو حصہ ملا، اُسی طرح مسلمانوں کو بھی اس میں حصہ ملا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہ المیہ پیش آیا کہ ان کے اوپر ایسے لوگ قائدبن گیے جو زمانی بصیرت سے مکمل طورپر خالی تھے۔ اپنی بے بصیرتی کی بنا پر وہ صرف ماضی کو دیکھ سکے۔ انھیں زمانے کی اُن انقلابی تبدیلیوں کی خبر نہ ہوسکی جو دورِ جدید کو مکمل طورپر بدل دینے والی تھیں۔ مسلمانوں کے یہ بے بصیرت قائدین، مسلمانوں کو منفی خبریں بتاتے رہے۔ جب کہ عین اسی وقت زمانے کے اندر ہونے والا تاریخی عمل ، پورے ملک اور پورے سماج کو ایک نیے ترقیاتی دور کی طرف لے جارہا تھا، جہاں معاشی مواقع ہر ایک کے لیے کھُل جائیں ، جہاں کوئی بھی شخص عمومی اقتصادی برسات میں حصہ پانے سے محروم نہ رہے۔
مسلمانوں کے نام نہاد قائدین، اپنی بے بصیرتی کی بنا پر منفی بولی بولتے رہے۔ دوسری طرف زمانی اسباب مسلمانوں کے لیے ترقی کے دروازے کھولتے رہے۔ یہی وہ دو طرفہ واقعہ ہے جس کا نتیجہ ہم آج اِس صورت میں دیکھ رہے ہیں کہ— مسلم قائدین مکمل طورپر ناکام ہیں، اور مسلم کمیونٹی مکمل طور پر کامیاب۔
واپس اوپر جائیں
ایک طالب علم جب اپنی زندگی کے تعلیمی مرحلے میںہو تو اُس کی سوچ اُس سے مختلف ہوتی ہے جب کہ وہ اپنی تعلیم کو مکمل کرکے اپنے لیے ایک اچھا جاب حاصل کرلے۔ پہلے مرحلے میں وہ اِس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ ایک مسافر ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں وہ اِس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گیا ہو۔ پہلے مرحلے میں وہ ہر چیز کو ایک وقتی چیز سمجھتا ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے میں وہ ہر چیز کو اِس حیثیت سے لیتا ہے جیسے کہ وہ اس کی زندگی کا مستقل حصہ ہو۔
یہی معاملہ وسیع تر معنوں میں، انسانی زندگی کا ہے۔ انسان کو ہمیشہ کی عمر دی گئی ہے۔ اس عمر کے دو حصے ہیں، قبل ازموت، اور بعد از موت۔ قبل ازموت، آدمی اپنے عارضی دَورِ حیات میں رہتا ہے۔ بعد از موت وہ اپنے ابدی دَور حیات میں پہنچ جاتا ہے۔ اگر یہ حقیقت آدمی کے اندر زندہ شعور کے طورپر موجود ہو تو یہی اس کی مکمل اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
موجودہ دنیا کو مذہبی اصطلاح میں فتنے کی دنیا کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا ایک مغالطے کی دنیا (deceptive world) ہے۔ یہاں کی ہر چیز کسی نہ کسی اعتبار سے مغالطے کا رول (deceptive role) ادا کررہی ہے۔ یعنی موجودہ عارضی دنیا کو مستقل دنیا کے روپ میں دکھانا۔ موجودہ دنیا کی وقتی چیز کو مستقل چیز کی حیثیت سے متعارف کرنا۔فانی بدایونی ایک اردو شاعر تھے۔ انھیں اپنی زندگی میں کچھ ایسے تجربات پیش آئے جس نے انھیں بتایا کہ موجودہ دنیا ایک بے حقیقت دنیا ہے۔ یہاں کی ہر خوش نُمائی صرف ظاہری اور وقتی خوش نمائی ہے۔ اپنے اِس تجربے کو انھوں نے اِن الفاظ میں نظم کیا تھا:
فریبِ جلوہ اور کتنا مکمل، اے معاذ اللہ! بڑی مشکل سے دل کو بزمِ عالم سے اٹھا پایا
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی ہر چیز مغالطہ آمیز ہے۔ وہ وقتی چیز کو مصنوعی طورپر ابدی رنگ میں دکھاتی ہے۔ کامیاب وہ ہے جو موجودہ دنیا کو عارضی دورِ حیات سمجھے، اور ناکام وہ ہے جو اِس دنیا کو ابدی دورِ حیات سمجھ لے۔
واپس اوپر جائیں
زُہیر بن ابی سُلمیٰ (وفات: ۶۰۹ء) عرب جاہلیت کا مشہور شاعر تھا۔ ابن الاعرابی نے اس کے بارے میں کہا ہے: کان لزُہیر فی الشعر ما لم یکن لغیرہ(زہیر کا درجہ شعر میں وہ تھا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا) ۔ اس کا ایک قصیدہ سبع معلّقہ میں شامل کیا گیا۔ زہیر نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ —میں زندگی کی مشقتوں سے اُکتا چکا ہوں، اور جو شخص اسی سال تک زندہ رہے گا، تیرے باپ کی قسم، وہ زندگی سے اکتا جائے گا:
سئمتُ تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثمانین حولاً لاأبا لکََ یسأم
میری عمر اب اسّی سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔اپنے تجربے کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ لمبی عمر بلاشبہہ جسمانی اعتبار سے ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ لیکن ذہنی اعتبار سے وہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ وہ ایک نعمت ہوتی ہے۔ کیوں کہ زیادہ عمر کا مطلب ہے—زیادہ علم، زیادہ تجربہ، زیادہ معرفت اور زیادہ بصیرت۔ یہ چیز جو لمبی عمر میں ملتی ہے وہ کسی کو کم عمری میں حاصل نہیں ہوتی۔آدمی اگر اس حقیقت کو سمجھے اور اپنے علم اور بصیرت کو مثبت طور پر استعمال کرے تو وہ نہ اُکتائے گا اور نہ مایوس ہوگا، بلکہ وہ نیے حوصلے کے ساتھ ازسرِ نو زندگی کا سفر شروع کردے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر دو صفتیں ہوں۔ ایک، امکاناتِ فطرت کا شعور اور دوسرے، انسان کے ساتھ گہری خیر خواہی۔ جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں ہوں وہ برعکس طورپر یہ سوچے گا کہ آج دنیا کو دینے کے لیے میرے پاس ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ مجھے یہ کرنا چاہیے کہ میں اِس سرمایے کو تمام انسانوں کی امانت سمجھوں اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میںاپنی بقیہ زندگی وقف کردوں۔زیادہ عمر ایک نعمت ہے، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ۔
اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر ناموافق میں ایک موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔ بڑھاپا اگر چہ انسان کے لیے بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اس کے اندر ایک اعلیٰ درجے کی مطلوب چیز چھپی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
مختار الحسن رفیقی (پیدائش ۱۹۷۲) ایک ہونہار نوجوان ہیں۔ ان کی تعلیم جامعہ دار السلام عمر آباد میں ہوئی۔ ان کے والد مولانا محمدرفیق قاسمی ۱۹۹۸ میں دہلی سے کویت جارہے تھے۔ اس وقت انھوں نے اپنا بایوڈاٹا ان کو دیااور کہا کہ آپ کویت جارہے ہیں، وہاں کوشش کیجئے کہ مجھے کوئی جاب مل جائے۔ یہ بظاہر بیٹے اور باپ کا معاملہ تھا۔ باپ ہمیشہ بیٹے کے لیے نرم دل ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بالکل برعکس واقعہ ہوا۔ باپ نے بیٹے کے بایو ڈاٹا کو اس کے سامنے ہی پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ میں اس کو نہیں لے جاسکتا۔ آپ اپنے اندر ایسی صلاحیت پیداکریں جس سے لوگ آپ کو بذات خود مدعو کریں۔
مختار الحسن رفیقی صاحب کو فطری طورپر اس واقعہ پر بہت غصہ آیا۔ وہ یہ سمجھے کہ میرے باپ کو مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو میرے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیکن یہ واقعہ دراصل ایک دانشمند باپ کا واقعہ تھا۔ چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ مختار الحسن صاحب ہمیشہ سے زیادہ متحرک ہوگئے۔ان کی صلاحیتیں اس جھٹکے کے بعد جاگ اٹھیں۔ انھوں نے بزنس کے میدان میں کام شروع کردیا۔ اب وہ خدا کے فضل سے ممبئی میں ایک کمپنی میں مینیجر ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
عام طور پر باپ کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ساری سہولتیں فراہم کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں نہ دینا بھی دینے کی ایک صورت ہے۔ جو باپ اپنے بیٹے کو کچھ نہ دے وہ اس کو زیادہ بڑی چیز دے دیتا ہے، اور وہ ہے خود کچھ کرنے کا جذبہ۔
اِس دنیا میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر عمل کا جذبہ جاگ اٹھے۔ اس کو کام کرنے کی دُھن لگ جائے۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ میں اپنے ہی کیے کا نتیجہ پاؤں گا۔ کسی اور سے مجھے کچھ ملنے والا نہیں۔ ایسا آدمی ایک بے پناہ آدمی بن جاتا ہے۔ اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے کا زیرو آج کا ہیرو بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حیثیت یہ تھی کہ آپ حق کے داعی تھے۔ آپ کے بعد امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری بھی یہی ہے کہ وہ تمام قوموں تک اُس سچائی کو پہنچائے جو پیغمبر کے ذریعے اس کو ملی ہے۔ لیکن دعوت کا یہ کام اسلام کی تاریخ میں اپنے مطلوبہ انداز میں زیادہ نہ ہوسکا۔ دعوت کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ کے تین دور ہیں:
۱۔ ایکٹیو دعوہ(active dawah)
۲۔ پَیسیو دعوہ(passive dawah)
۳۔ اینٹی دعوہ (anti dawah)
رسول اور اصحاب رسول کا زمانہ ایکٹیو دعوہ کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں براہِ راست طورپر دعوت الی اللہ کا کام کیاگیا۔ کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی آمیزش کے بغیر دعوت کا کام اس کی بے آمیز صورت میں انجام دیا گیا۔ یہ دعوت کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ میں معیاری دور تھا۔
خلافتِ راشدہ کے بعد وہ دور آیا جب کہ دعوت کا براہِ راست کام تقریباً ختم ہوگیا۔ لیکن دعوت کاکام بالواسطہ انداز میں اب بھی پوری طرح جاری رہا۔ اب قرآن محفوظ ہوچکا تھا۔ حدیث مدوّن ہوگئی تھی۔ ایک مسلم سماج بڑے پیمانے پر بن گیا تھا۔ مسلم ادارے منظم کیے جاچکے تھے۔ عبادات کا نظام قائم ہوگیا تھا۔ اِس قسم کی چیزوں کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دعوت کا کام خود اپنے زور پر برابر جاری رہا۔ اِس بعد کے زمانے میں اگر چہ مسلمان عملاً براہِ راست انداز میں دعوت کی مہم نہیں چلارہے تھے ، لیکن قائم شدہ ماحول کی بنا پر بالواسطہ انداز میں اسلام کا تعارف جاری تھا، اور اس کے نتیجے میں لوگ برابر اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ اسی کو ہم نے پیسیو دعوہ کہا ہے۔ یہ کام مسلسل طورپر اٹھارہویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ اس کے بعد نو آبادیاتی نظام کے ظہور کی بنا پر اس کے اوپر روک لگ گئی۔
نوآبادیاتی نظام آٹھارہویں صدی میں مسلم دنیا میں داخل ہوا، اب مسلمانوں کے اندر غیر مسلموں کے خلاف منفی ذہن پیدا ہوگیا۔انھوں نے غیر مسلموں کے خلاف جگہ جگہ مسلّح جنگ چھیڑ دی۔ پورے مسلم سماج میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت کا ماحول پیداہوگیا۔ یہ نفرت یا جنگ مدعوکے خلاف تھی۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی طرف سے دعوت کے عمل کا خاتمہ کردیا۔ مدعو قوموں کے لیے مسلمانوں کے دل میں نُصح اور خیر خواہی کا جذبہ باقی نہیں رہا، وہ ان کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسی حالت میں فطری طورپر دعوت کا کام جاری نہیں رہ سکا۔
رسول اور اصحاب رسول کے بعد مسلمان تقریباً ایک ہزار سال تک آپس میں لڑتے رہے۔ اِس لمبی مدت کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں ہے جب کہ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑائی نہ کررہے ہوں۔ یہ آپس کی لڑائی بلا شبہہ غلط تھی، لیکن وہ پیسیو دعوہ کے عمل کے جاری رہنے میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکی۔
اینٹی دعوہ کا دَور جو اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا، وہ دعوت کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا تھا۔ باہمی لڑائیوں میں مسلمان قتل ہوتے تھے، لیکن مدعو کے خلاف لڑائی میں دعوت کا قتلِ عام ہونے لگا۔ اِس عمل کے نتیجے میں فطری طورپر دعوت کے عمل کو سخت نقصان پہنچا۔ یہی تیسرا دور ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں اینٹی دعوہ کا نام دیا ہے۔
مسلمان جب تک آپس میں لڑرہے تھے وہ خدا کی نظر میں صرف گنہ گار کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے مدعو قوموں سے لڑنا شروع کیا تو وہ خدا کے غضب کا نشانہ بن گیے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، وہ لعنت کے مستحق قرا ر پائے۔
یہ تیسرا دَور بے حد خطرناک دور ہے۔ یہی وہ دَور ہے جب کہ خدا نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے حوالے کردیا۔ وہ ذلّت اور تباہی کے مستحق قرار پائے۔ دو سو سال سے بھی زیادہ مدّت سے مسلمانوں پر یہی دور گزر رہا ہے۔ عزت اور سرفرازی ان سے چھین لی گئی ہے۔ خدا نے انھیں ان کے دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال صرف اُس وقت ختم ہوگی جب کہ مسلمان اپنی مجرمانہ روش کی بھیانک غلطی کا اعتراف کریں، وہ مدعو کے خلاف اپنی نفرت اور اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں۔
واپس اوپر جائیں
سَروے بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد آئی ڈنٹٹی کرائسس کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ اِس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے اور بڑے انسان کا یہ حال ہوا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک کامیڈی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر موت نے بتایا کہ ہر ایک کے لیے صرف ٹریجڈی کا انجام مقدر تھا، ہر آدمی غیر حاصل شُدہ تمنّاؤں(unfulfilled desires) کا کیس بن کر رہ گیا۔ یہ بلا شبہہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ دردناک سوال ہے جس کا جواب شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام عورت اور مرد تلاش کررہے ہیں، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔تجربہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر کچھ سوالات سے دوچار رہتے ہیں—میں کون ہوں۔ میری پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ یہ دنیا کس منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ موت کے بعدکیا ہونے والا ہے۔ اس دنیا کے بارے میں خدا کا کریشن پلان کیا ہے۔ یہ سوالات آئڈیالوجی آف لائف سے تعلق رکھتے ہیں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مقصد انھیں سوالات کا جواب فراہم کرنا ہے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل (Centre for Peace and Spirituality)گویا ایک اسٹڈی فورم ہے۔ سی پی ایس، لٹریچر، میڈیا، آڈیو اور ویڈویو کیسٹ اور ویب سائٹ کے ذریعے یہ کوشش کررہا ہے کہ وہ پُرامن انداز میں سچائی کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل گویا عالمی ڈائلاگ کا ایک اسٹیج ہے۔ وہ اِس لیے قائم کیا گیا ہے کہ لوگ اعلیٰ فکری سطح پر زندگی اور کائنات کے بارے میں ڈسکشن کریں اور اِس معاملے میں وہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص دعوتی تحریک ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا تعلق، سیاست سے نہ براہِ راست طورپر ہے اور نہ بالواسطہ طورپر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں سیاست ایک ثانوی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ اب سیاست کا تعلق صرف ایڈمنسٹریشن سے ہے۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبے سیاست کے دائرۂ عمل سے باہر ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
زندگی میں دو اہم شعبے ہیں۔ ایک ہے انتظامِ ملکی، اور دوسرا ہے انسان سازی۔ قدیم زرعی دَورمیں یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ موجودہ صنعتی اور سائنسی دَور میں یہ دونوں شعبے عملاً ایک دوسرے سے الگ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کو انتظامیہ (administration) کہاجاتا ہے۔ اب اگر کسی کو حکومتی عہدہ مطلوب ہو تو اس کو سیاست میں جانا چاہیے۔ لیکن جو لوگ انسانی ترقی سے دلچسپی رکھتے ہوں اُن کے لیے صحیح اور مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اقتدار سے باہر غیر سیاسی شعبوں کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنائیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل انسانی ترقی سے دل چسپی رکھتا ہے۔ اِس لیے ا س نے صرف غیر سیاسی شعبے کو اپنا میدان کار بنایا ہے۔ مثلاً ایجوکیشن، فارمل اور انفارمل دونوں، اسپریچول ڈیولپ مینٹ، تعمیر شعور، امن کا فروغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا، ویب سائٹ، میٹنگ اور ڈائلاگ، فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب ، وغیرہ۔ یہی سی پی ایس کا اساسی مقصد ہے۔ ہمارا اصل کام فکری انقلاب لانا ہے۔ عملی انقلاب اِسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے۔ فکری انقلاب کے بغیر عملی نتائج پانا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں پر قائم کیاگیا ہے۔ سی پی ایس کا پیغام یہ ہے کہ آؤ ہم امن اور روحانیت کے اصولوں میں اپنی مطلوب آئڈیالوجی آف لائف کو تلاش کریں۔ سی پی ایس کو یقین ہے کہ انسان، امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں میں اپنے اُن سوالات کا جواب پاسکتا ہے جن کا جواب پانے کے لیے وہ لمبی مدت سے ناکام طورپر سرگرداں ہے، اور پھر زیادہ بہتر بنیادوں پر وہ اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے۔
امن کے متعلق عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے وہ عدم جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ مگر یہ امن کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ امن ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔ امن ایک اصول حیات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر وتشکیل کی جائے۔ میدانِ جنگ کے محدود دائرے سے باہر کی پوری زندگی امن کے دائرے میں داخل ہے۔
روحانیت کو عام طور پر ایک پُر اسرار ڈسپلن سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانیت اِس سے زیادہ وسیع ہے۔ روحانیت در اصل، ربّانیت (divine cultrue) کانام ہے۔ روحانیت کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ روحانیت، دوسرے لفظوں میں، خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کانام ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ آدمی اعلیٰ شعوری سطح پر سچائی کی معرفت حاصل کرے۔ فکری عمل کے ذریعے وہ اپنے اندر ربّانی شخصیت پیدا کرے۔ وہ سچائی کو ابدی حقیقت کی صورت میں دریافت کرے۔ وہ محدود مادّی دنیا سے اوپر اٹھ کر سچائی کو اس کی آفاقی صورت میں پالے۔ وہ زندگی کی معنویت کو دریافت کرکے پوری طرح ایک بامقصد انسان بن جائے۔
سی پی ایس انٹر نیشنل اپنے فکر کے اعتبار سے ایک آفاقی تحریک ہے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ انسان فرینڈلی مزاج رکھتی ہے۔ سی پی ایس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے محدود دائرے سے اٹھ کر کائناتی کلچر کا حصہ بن جائے۔ وہ امن اور روحانیت اور حقیقت شناسی کی لامحدود دنیا میں جینے لگے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.