ڈائلاگ اسلام میں
ڈائلاگ (dialogue) یا مکالمہ دو شخصیتوں یا دو پارٹیوں کے درمیان بات چیت (conversation) کا نام ہے۔ ڈائلاگ کا مقصد یہ ہے کہ کسی اختلافی مسئلے کا پُر امن حل تلاش کیا جائے۔ قدیم بادشاہی دَور میں آزادانہ ڈائلاگ کا رواج نہ تھا۔ جب دنیا میں ڈیماکریسی آئی تو فطری طورپر لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈائلاگ ہونے لگا۔ یہ ڈائلاگ سیاسی سطح پر بھی جاری ہوا، اور غیرسیاسی سطح پر بھی۔
ڈائلاگ دراصل انسانیت کو حیوانی دور سے اٹھا کر انسانی دور میں لانے کا نام ہے۔ انسانوں کے درمیان اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اختلاف کی باتوں پر لڑجاتے تھے۔ وہ اختلاف کو طے کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے، اور وہ لڑائی تھی۔ لیکن ڈیماکریسی نے اِس طریقے کوختم کردیا، اور انسان کو جنگل کلچر کے دور سے نکال کر امن کلچر کے دور میں پہنچایا۔
ڈائلاگ یا پُر امن مکالمے کا طریقہ عین اسلام کا طریقہ ہے۔ اسلام کی بنیاد دعوت کے اصول پر قائم ہے، اور دعوت پُر امن گفت وشنید کا دوسرا نام ہے۔ اسلام میں تشدد مکمل طورپر ایک ممنوع فعل ہے۔ اس ممانعت میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ دفاع کا ہے۔ یہ دفاع، خارجی حملے کے وقت ہوتا ہے۔ اور دفاع کا یہ کام بھی صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے۔ غیر حکومتی تنظیم، دفاع یا انصاف کے نام پر متشددانہ لڑائی لڑنے کا حق نہیں رکھتی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۱۰عیسوی میں عرب میں اپنا مشن شروع کیا۔ یہ مشن کیا تھا۔ وہ مشن یہ تھا کہ آپ اپنی آئڈیا لوجی کو لے کر لوگوں میں جائیں اور لوگوں سے اس کے بارے میں بات چیت کریں۔ ان کے اعتراضات کو سُنیں اور دلیل کے ذریعے اپنے نقطۂ نظر پر انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ پیغمبر اسلام پر جب وحی اترنا شروع ہوئی تو اس کے آغاز ہی میںآپ پر یہ آیت اتری: وأمابنعمۃ ربّک فحدث (الضحی: ۱۱) یعنی خدا کی طرف سے آپ کو جو نظریۂ حیات دیاگیا ہے، لوگوں کے درمیان اس کاچرچا کریں۔ آپ کا نظریۂ حیات توحید پر مبنی تھا، جب کہ اُس وقت عرب کے لوگ شرک پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس لیے فطری طورپر آپ کا مشن دو طرفہ گفت وشنید کا موضوع بن گیا۔ آپ لوگوں سے اپنی بات کہتے اور لوگوں کا رد عمل سنتے اور پھر اس کی مزید وضاحت کرتے۔ اِس طرح آپ کا مشن عملاً وہی چیز بن گیا جس کو موجودہ زمانے میں ڈائلاگ کہاجاتا ہے۔
اِس ڈائلاگ کو مفید بنانے کے لیے قرآن میں کچھ با معنیٰ اصول بتائے گیے ہیں۔ ان اصولوں میںسے کچھ اصولوں کا ہم یہاں تذکرہ کریں گے۔
۱۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے: ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بُلاؤ، اور اُن سے اچھے طریقے سے بحث کرو‘‘۔ (النحل: ۱۲۵)
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دوسروں سے تم جو گفتگو کرو وہ ’جِدال احسن‘ کے طریقے پر ہو۔ یعنی فریقِ ثانی سے تکرار نہ کرنا، بلکہ اس کے اختلاف کو سُن کر سنجیدگی کے ساتھ ایسی بات کہنا جو اس کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ گفتگو محض بحث و مباحثے پر ختم نہ ہو بلکہ وہ ایک نتیجہ خیز انجام پر ختم ہو۔ بات چیت کے دوران حریفانہ اور رقیبانہ انداز اختیار نہ کیا جائے بلکہ علمی انداز اختیار کیا جائے۔
۲۔ اِس سلسلے میں دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اُس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی،وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا‘‘۔ (حم السجدہ: ۳۴)
قرآن کی اِس آیت میںبتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی مسٹر دشمن نہیں۔ ہر آدمی امکانی طور پر مسٹر دوست ہے۔ اس لیے کہ ہر آدمی ایک ہی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے، کئی فطرت پر نہیں۔ اِس قر آنی اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈائلاگ کا آغاز اِس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے ہی سے دونوں فریق ایک دوسرے کے بارے میں ناامید بنے ہوئے ہوں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ڈائلاگ کا عمل پُرامید ذہن کے ساتھ کیا جائے نہ کہ ناامیدی اور مایوسی کے ذہن کے ساتھ۔
۳۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’کہو، اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مسلّم ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں‘‘۔ (آل عمران: ۶۴)
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو فریق کے درمیان بات چیت ہو تو اُس وقت موضوعِ گفتگو کا انتخاب کس طرح کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ گفتگو کا آغاز کنٹرورشل پہلو کو لے کر نہ کیا جائے بلکہ دونوں فریقوں کے درمیان کامن گراؤنڈ (کلمۂ سَواء) کی تلاش کی جائے، اور اِس کامن گراؤنڈ سے گفتگو کاآغاز کیاجائے۔ یعنی گفتگو کا طریقہ اختلاف سے اتفاق کی طرف نہ ہو بلکہ اتفاق سے اختلاف کی طرف ہو۔
۴۔ اِس سلسلے میں ایک اور قابلِ حوالہ آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ان کوتم بُرا بھلا نہ کہو، ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر، جہالت کی بناپر، خدا کو بُرا بھلا کہنے لگیں گے‘‘۔ (الانعام: ۱۰۹)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دوفریقوں کے درمیان ایک اختلافی موضوع پر ڈائلاگ ہو تو ضروری ہے کہ ڈائلاگ کے باہر موافقِ ڈائلاگ فضا کو باقی رکھا جائے۔ اگر ایسا ہو کہ دونوں فریقوں کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی باتیں پھیلا رہا ہو۔ دونوں طرف کے لوگ ایسی باتوں کا چرچا کرنے میں مصروف ہوں جس سے ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں تو ایسی غیر موافق فضا میں مفید ڈائلاگ نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈائلاگ کے نتیجہ خیز ہونے کا تعلق، صرف کمرۂ ڈائلاگ کی بات چیت پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ اِس پر منحصر ہوتا ہے کہ کمرۂ ڈائلاگ کے باہر جو فضا بنائی گئی ہے وہ ڈائلاگ کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ہے۔
ڈائلاگ کا ایک اور اصول وہ ہے جو سنتِ رسول سے ثابت ہوتا ہے، یہ اصول حُدیبیہ کے معاہدے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان لمبی بات چیت کے بعد طے پایا تھا۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، یہ معاہدہ اِس طرح ممکن ہوا کہ پیغمبر اسلام نے قریش کی کئی شرطوں کویک طرفہ طورپر مان لیا۔ پیغمبر کی اِس سنت سے ڈائلاگ کا یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے نقطۂ نظر کو دلیل کے ساتھ پیش کریں۔ لیکن اِسی کے ساتھ دونوں اِس بات کے لیے تیار رہیں کہ ڈائلاگ ہمیشہ لینے اور دینے (give and take) کے اصول کو اختیار کرکے کامیاب ہوتا ہے نہ کہ صرف لینے کے اصول پر اصرار کرنے سے۔عملی معاملات میں اسلام آخری حد تک لچک کے اصول کو پسند کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف ڈائلاگ کے اصول نہیں بتائے گیے ہیں بلکہ ڈائلاگ کے اصول کا عملی تجربہ بھی بار بار کیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اِس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
پیغمبر اسلام نے اپنے مشن کے مکّی دو رمیں بار بار ڈائلاگ کے اصول پر عمل کیا۔ مثلاً ایک بار قریش نے اپنے سردار عقبہ بن ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر پیغمبر اسلام کے پاس بھیجا۔ تاکہ باہمی اختلاف کے موضوع پر بات چیت کرکے صُلح کا ماحول بنایا جائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبہ نے نہایت غور کے ساتھ آپ کی باتیں سنیں اور قریش کے پاس جاکر انھیں اِس سے آگاہ کیا۔ اِسی طرح ایک بار آپ کے چچا ابو طالب کی دعوت پر آپ اور قریش کے نمائندے اکھٹا ہوئے اور اختلافی موضوعات پر پُرامن انداز میں بات چیت ہوئی۔
اِسی طرح حدیبیہ کے موقع پر پیغمبر اسلام اور قر یش کے درمیان ایک گفت و شنید ہوئی۔ اِس کا سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہا۔ اِس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان وہ معاہدۂ امن طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ واقعہ بلاشبہہ پُرامن ڈائلاگ کی ایک کامیاب مثال ہے۔
اِسی طرح پیغمبر اسلام کی موجودگی میں تین مذہب—اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے نمائندوں کے درمیان ڈائلاگ ہوا۔ یہ ٹرائلاگ (trilogue) مدینہ کی مسجد نبوی میں ہوا۔ عرب مصنفین نے اس کو مؤتمر الادیان الثلاثہ کانام دیا ہے۔یعنی تین مذہبوں کے درمیان ٹرائلاگ۔ غالباً یہ تاریخ کا پہلا ٹرائلاگ تھا جو مقدس عبادت خانے کے اندر ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں پُر امن گفت وشنید کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
اسلام کی تاریخ میں اِس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ یہ مثالیں اُس عہد زرّیں سے تعلق رکھتی ہیں جس کو عہدِ نبوت اور عہدِ صحابہ کہاجاتا ہے۔ اس لیے ڈائلاگ یا باہمی گفت وشنید کے اصول کو اسلام میں ایک مستند اصول کی حیثیت حاصل ہے۔
خلاصۂ کلام
اوپر کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا طریقہ پُرامن ڈائلاگ کا طریقہ ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صلح کا طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ (النساء: ۱۲۸) اِس طرح ایک اور آیت میںآیا ہے کہ اختلاف کے موقع پر باہمی گفت و شنید اور ثالثی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔(النساء: ۳۵) حدیث میں آیا ہے کہ دشمن سے مڈبھیڑ نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت مانگو (لاتتمنوا لقاء العدوّ وسئلوا اللہ العافیۃ)۔
اسلام کا مقصد ربّانی انقلاب لانا ہے۔ لوگوں کو خدا پرستانہ زندگی کی طرف بلانا ہے۔ ایک ایسا سماج بنانا ہے جہاں روحانی اور اخلاقی اور انسانی قدروں کا رواج ہو۔ اسلام ایک ایسے ماحول کا داعی ہے جہاں امن اور ٹالرنس اور محبت اور خیر خواہانہ تعلقات کا مزاج لوگوں کے اندر پایا جائے۔ جہاں نزاعات کو تشدد کے بغیر حل کیا جائے۔ یہی اسلام کی مطلوب دنیا ہے۔ ایسی دنیا صرف پُرامن ڈائلاگ کے ذریعے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عقیدے کے اعتبار سے توحید پر قائم ہے، اور طریقِ کار کے اعتبار سے پُرامن ڈائلاگ پر۔ یہی اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ اس کے سوا جو طریقہ ہے اس کو اسلام کا طریقہ نہیں کہا جاسکتا۔ (۲ جون ۲۰۰۶ء)
واپس اوپر جائیں