کسی انسان کو شکر کا اعلیٰ درجہ کیسے حاصل ہوتا ہے۔مئی 2012 میں میں نے ترکی کا سفر کیا۔ وہاں مجھ کو جو پانی پینے کے لیے دیا گیا، وہ پانی اتنا زیادہ فریش (fresh) تھا، اور پینے میں اتنا زیادہ میرے اعلیٰ ذوق کےعین مطابق تھا ۔ میں نے پانی کا گلاس میز پر رکھ دیا، اور سوچنے لگا کہ خالق نے یہ کیسے جانا کہ میرے بندے کو ایسا پانی چاہیے، اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے بندے کی عین طلب کے مطابق، اس کو پانی فراہم کریں۔
کوئی چیز پُرلذت اِسی لیے ہے کہ ہمارے اندر لذت کا احساس موجود ہے۔ اگر لذت کا احساس نہ ہو، تو کوئی بھی چیز لذت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔سائنسی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کی زبان میں تقریباً دس ہزار ذائقہ خانے (taste buds) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر جتنے ذائقہ خانے ہیں، ان کے عین مطابق خدا نے ہمارے آس پاس کی دنیا میں فل فلمینٹ (fulfillment ) کا سامان بھی مہیا کردیا ہے۔ یہ خدا کی قدرت کا انتہائی انوکھا ظاہرہ ہے۔ کیوں کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی ذائقے کو اس وقت جانتا ہے، جب کہ وہ خود اس کا تجربہ کرے۔ ذاتی تجربے کے بغیر کسی ذائقے کو جاننا انسان کے لیے ممکن نہیں۔
ایک سنجیدہ انسان جب دنیا میں کسی ذائقے کا تجربہ کرتا ہےتو یہ احساس اس کو شکر کے اتھاہ جذبے سےسرشار (overwhelm) کردیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس منعم کا اعتراف کرے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس وہ الفاظ نہیں، جن کے ذریعے وہ اس عظیم نعمت کا اعتراف کرسکے۔ یہ اس کے لیے ایک ناقابلِ تصور تجربہ ہوتاہے۔ اسی تجربے کا نام شکر ہے۔
یہ تجربہ اتنا زیادہ اعلی ہوتاہےکہ منعم کےلیےزبان سےشکر کی ادائیگی کےہر الفاظ اس کو کمتر لگنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتا ہےکہ اس کی پوری شخصیت ایک زبان بن جاتی، اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتا۔ اس کا پورا وجود شکر کے احساس میں ڈھل جاتا ، اوروہ زبان سے شکر کے الفاظ بولنے والا نہیں، بلکہ سراپا شکر میں جینے والا انسان بن جاتا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ بسم اللہ کے بعد سب سے پہلی آیت یہ ہےالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔یعنی، شکر ہے خداوندِ عالم کے لیے۔قرآن کی اِس آیت سے شکر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام اعمال میںشکر ہی ایک ایسا عمل ہے، جس کو انسان اپنی نسبت سے اعلیٰ ترین صورت میں کرسکتاہے۔ دوسرے تمام اعمال، مثلاً عبادت اور اخلاق اور معاملات کی ادائیگی میں مختلف اسباب سے کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ لیکن شکر کا تعلق دل اور دماغ سے ہے اور جس چیز کا تعلق دل اور دماغ سے ہو، اُس کے بارے میں یہ ممکن ہوتاہے کہ آدمی اُس کو کامل ترین صورت میں ادا کرسکے۔ یہاں وہ اپنے تمام جذبا ت اور اپنی ساری سوچ کو خدا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ یہ خصوصیت صرف شکر کو حاصل ہے۔
شکر کیا ہے، شکر دراصل اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ انسانی معاملات میں جس چیز کو اعتراف کہاجاتاہے، اُسی کا نام خدائی معاملے میں شکر ہے۔ ہر آدمی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ ہر ملی ہوئی چیز اُس کو کامل معنوں میں خدا کا عطیہ دکھائی دے۔ وہ کامل جذبۂ اعتراف کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ خدایا، تیرا شکر ہے۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کا کامل احساس کرکے یہ کہہ پڑنا کہ الحمد للہ ربّ العالمین، یہی شکر ہے اور یہ شکر بلا شبہ سب سے بڑی عبادت ہے۔
موجودہ دنیا میں وہ چیز بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہاں کی ہر چیز اِس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ کامل طورپر انسان کے لیے موافق اسباب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے کہ انسان جب اِس دنیا میں چلے پھرے اور اس کو استعمال کرے تو وہ شکر اور اعتراف کے جذبے سے سرشار ہو۔ موجودہ دنیا کی تمام قیمتی چیزیں انسان کو سرتاسر مفت میں ملی ہوئی ہیں، سچا شکر ہی اِن چیزوں کی قیمت ہے۔ جو آدمی یہ قیمت ادا نہ کرے، اُس کی حیثیت اِس دنیا میں غاصب کی ہے، اور غاصب کے لیے بلا شبہ سزا ہے، نہ کہ انعام۔ شکر کے احساس کے بغیر اِس دنیا میں رہنا بلا شبہ ایک ناقابلِ معافی جرم کی حیثیت رکھتا ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔
واپس اوپر جائیں
شکر کیا ہے۔ شکر اُس داخلی کیفیت کا نام ہے جو کسی نعمت کے گہرے احساس سے آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ انگریزی میں اس کو گریٹ فُل نیس (gratefulness) کہاجاتا ہے۔ عربی زبان کی مشہور ڈکشنری لسان العرب (جلد4، صفحہ
نعمت کا اعتراف (acknowledgement)ایک اعلیٰانسانی صفت ہے۔ یہ اعتراف جب خدا کی نسبت سے ہو تو اِسی کا نام شکر ہے۔ انسان کے اوپر خدا کی نعمتیں سب سے زیادہ ہیں، اِس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ خداوند ِ ذوالجلال کا شکر ادا کرے۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ نے اپنی ایک دعا میں فرمایارَبِّ اجْعَلْنِی لَک شَکَّارًا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3831؛ سنن الترمذی،حدیث نمبر3551 ؛ مسند احمد،حدیث نمبر1997) ۔یعنی اے میرے رب! تو مجھ کو اپنا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا۔
قرآن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اے لوگو! خدا کے شکر گزار بندے بنو۔ مثلاً میٹھے پانی کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایافَلَوۡلَا تَشۡکُرُونَ(
And you will not find most of them grateful (
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کے بندوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو شکر کرنے والے ہیں وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ(
اصل یہ ہے کہ شکر کی دو قسمیں ہیں— لسانی شکر، اور قلبی شکر۔ لسانی شکر کو نارمل شکر، اور قلبی شکر کو تھِرلنگ (thrilling) شکر کہہ سکتے ہیں۔ خدا کی خدائی شان کے مطابق، شکر صرف وہ ہے جو تھرلنگ شکر ہو۔ نارمل شکر صرف ایک لِپ سروس (lip-service) ہے۔ اِس قسم کا شکر خدا کو مطلوب نہیں۔ اِسی کے ساتھ ضروری ہے کہ خدا کے لیے انسان کا شکر ایک اضافہ پذیر شکر ہو۔ جو شکر ایک حالت پر قائم ہوجائے، وہ ایک جامد شکر ہے۔ اور جامد شکر وہ شکر نہیں جو خدا کے نزدیک مطلوب شکر کی حیثیت رکھتا ہے۔
تھرلنگ شکر صرف اُس شخص کو ملتا ہے جو خدا کے احسانات (blessings)پر مسلسل غور کرتا رہے۔ انسان کے اوپر خدا کے احسانات لامحدود ہیں۔ اِس لیے جوآدمی اِس پہلو سے غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر وقت ایک نئے خدائی احسان کو دریافت کرے گا، وہ ہر وقت ایک نئے سبب ِ شکر کا تجربہ کرے گا۔ اس کے یہ تجربات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اِس لیے اس کے اندر شکرِ خداوندی کا احساس بھی مسلسل طورپر زندہ رہے گا۔
میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا کہ انسان کی قوتِ سماعت بھی کیسی عجیب ہے کہ اس کے کان میں بے شمار قسم کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ ہر آواز کو ممیّز (differentiate) کرکے اس کو الگ سے پہچان لیتا ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنے ایک ہاتھ کو حرکت دی اور بات کرنے کے لیے ریسیور کو اٹھایا۔ دوبارہ میں نے سوچا کہ میرے جسم میں بہت سے اعضا ہیں، لیکن میرے دماغ نے صرف ایک عضو (ہاتھ) کو متحرک کیا کہ وہ ریسیور کو اٹھائے۔ اِس عمل میں آنکھ کا بھی ایک حصہ تھا، کیوں کہ اگر آنکھ اپنا عمل نہ کرتی تو مجھے یہ معلوم ہی نہ ہوتا کہ ریسیور کہاں ہے۔
جب میں نے ٹیلی فون پر بات کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ٹیلی فون کے دوسری طرف جو آدمی ہے، وہ انگریزی زبان میں بول رہا ہے۔ میںاس کی بات کو پوری طرح سمجھ رہا تھا۔ میںنے سوچا کہ میری مادری زبان اردوہے، اور دوسرے شخص کی زبان انگریزی۔ میںکسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتا ہوں، جب کہ میںاس کو اردو الفاظ میں ڈھال لوں۔ میںنے سوچا کہ دماغ کیسی عجیب نعمت ہے۔ جو اپنے اندر یہ انوکھی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ انگریزی الفاظ کو فی الفور(instantly) اردو میں ڈھال دے۔ اور اِس طرح متکلم کی بات کو بلاتاخیر میرے لیے قابلِ فہم بنادے۔
اِس طرح کی بہت سی باتیں اُس وقت میرے ذہن میں آتی رہیں۔ میں ایک طرف دور کے ایک شخص سے ٹیلی فون پر بات کررہا تھا اور دوسری طرف، عین اُسی وقت میں خدا کے بارے میں تھرلنگ شکر کا تجربہ کررہا تھا۔ یہ تجربہ اتنا زیادہ شدید تھا، جیسے کہ شکر کا ایک دریا میرے سینے میں جاری ہوگیا ہو۔اِسی طرح ہر لمحہ انسان کو ایسے تجربات پیش آتے ہیں جن کے اندر شکر کا سمندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اِس اعلیٰ شکر تک آپ کی رسائی صرف غور وفکر کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ ہی اعلیٰ شکر کا دروازہ ہے۔ جس آدمی کے اندر سوچ نہ ہو، اس کے اندر شکر بھی نہ ہوگا۔ ایسا آدمی ہر چیز کو فارگرانٹیڈ (for granted) لیتا رہے گا۔
جو انسان چیزوں کو فار گرانٹیڈ طور پر لے گا، وہ خدا کی نعمتوں کی کوئی قدر نہیں کرے گا، وہ شکر کے سمندر کے درمیان رہتے ہوئے بھی تھرلنگ شکر کا تجربہ نہیں کرے گا۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میںآیا ہے —
لَہُمۡ قُلُوبٌ لَّا یَفۡقَہُونَ بِہَا وَلَہُمۡ أَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُونَ بِہَا وَلَہُمۡ ءَاذَانٌ لَّا یَسۡمَعُونَ بِہَآۚ أُوْلَٰٓئِکَ کَٱلۡأَنۡعَٰمِ بَلۡ ہُمۡ أَضَلُّۚ أُوْلَٰٓئِکَ ہُمُ ٱلۡغَٰفِلُونَ(
اصل یہ ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک، اس کا ابتدائی اور ظاہری پہلو۔ اور دوسرا، اس کا زیادہ گہرا پہلو۔ چیزوں کا ظاہری پہلو ہر آدمی کو کسی کوشش کے بغیر اپنے آپ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کا جو گہرا پہلو ہے، وہ صرف سوچنے کے بعد کسی کو سمجھ میںآتا ہے۔ اعلیٰ شکر کا تجربہ کرنے کے لیے آدمی کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ چیزوں کے گہرے پہلو پر غور کرے، تاکہ وہ ایک معمولی چیز کو غیر معمولی روپ میں دیکھ سکے
It is the result of taking an ordinary thing as extraordinary.
ایک دن مجھے پیاس لگی۔ میرے سامنے میز پر شیشے کا ایک گلاس پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کو دیکھ کر میرے دماغ میں ایک فکری طوفان برپا ہوگیا۔ اچانک ایک پوری تاریخ میرے ذہن میںآگئی۔ میری زبان سے نکلا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تونے پانی جیسی نعمت انسان کو عطا کی۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ یہ ایک سپر(super) شکر تھا، جس نے میری پوری شخصیت میں طوفان برپا کردیا تھا۔میں نے سوچا کہ کئی بلین سال پہلے ایسا ہوا کہ دو گیسوں، آکسیجن اور ہائڈروجن، کے ملنے سے پانی جیسی سیّال چیز بنی۔ یہ پانی گہرے سمندروں میںذخیرہ ہوگیا۔ اِس کے بعد خدا نے تحفّظاتی مادّہ (preservative) کے طورپر اِس میں دس فی صد نمک ملا دیا۔ یہ پانی براہِ راست طورپر انسان کے لیے ناقابلِ استعمال تھا۔ اِس کے بعد خدا نے ایک عالمی نظام کے تحت، پانی کو نمک سے الگ کرنے کے لیے، اِزالۂ نمک (desalination)کا ایک آفاقی عمل جاری کیا۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ سمندروں کا کھاری پانی، میٹھا پانی بن کر بارش کی صورت میں ہم کو حاصل ہوگیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ تھرلنگ شکر کی توفیق کسی آدمی کو کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اِس کا واحد ذریعہ سوچ ہے۔ یہ دراصل سوچ ہے جو آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ سپر شکر کا ہدیہ اپنے رب کے حضور پیش کرے۔ سوچ کے سوا کوئی بھی دوسری چیز نہیں ہے جو آدمی کو اُس اعلیٰ شکر کا تجربہ کرائے جو کہ خدا کو انسان سے مطلوب ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا ربّ اجْعَلنِی لَک شکّاراً۔ کوئی انسان، شَکَّار یا بہت زیادہ شکر کرنے والا کیسے بنتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آدمی شکر کے کلمہ کو ہزاروں بار دہرائے، یا اور کوئی وظیفہ پڑھے۔ اِس کوحاصل کرنے کا واحد ذریعہ غوروفکر ہے۔ مذکورہ دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو مجھ کو ربّانی غور وفکر کی توفیق دے، تاکہ میرے اندر اعلیٰ شکر کی کیفیات پیدا ہوں، جو کہ حقیقی معنوں میں کسی انسان کو خدا کا شکر گزار بندہ بناتی ہیں۔آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ قرآن میں شکر کو صبر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں دنیا کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہےإِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ (
ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اِس بنا پر یہاں مختلف قسم کی برائیاں (evils)پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ صورتِ حال خدا کے قانون کی بنا پر ہے، انسان اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ اِس معاملے میں انسان کو ایک ہی اختیار (option) حاصل ہے، وہ یہ کہ وہ صبر وبرداشت سے کام لے، تاکہ وہ دنیا میں نارمل طریقے سے رہ سکے۔
شکر ایک ایسا جذبہ ہے جو صرف ایک ایسے مائنڈ میں پیدا ہوتاہے جو کامل طور پر مثبت (positive) ہو، کسی بھی قسم کا منفی فکر(negative thought) اس کے ذہن میں موجود نہ ہو۔ مثبت ذہن کا آدمی ہی خدا کی توفیق سے اعلیٰ شکر ادا کرنے کے قابل ہوتاہے۔ صبر دراصل شکر کی قیمت ہے۔ جو آدمی یہ قیمت ادا نہ کرے، وہ شکر جیسی اعلیٰ عبادت بھی انجام نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں
طاغوت کا لفظی مطلب ہے، حد سے تجاوز کرنے والا۔ قرآن میں یہ لفظ شیطان کے لیے آیا ہے۔ کیوں کہ اس نے اللہ رب العالمین سے بغاوت کی۔شیطان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ انسان کو شکایتی ذہن میں مبتلا کرکے اللہ سے دور کردے۔ شیطان نے آدم کی تخلیق کے وقت اللہ رب العالمین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (
دین کا خلاصہ اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ سے تعلق اگر انسان کو دریافت کے درجے میں حاصل ہوا ہو تو انسان کے اندر اپنے آپ میں یہ واقعہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔اس کے برعکس، جہاں اللہ کا اعتراف (شکر) نہ ہو، یقینی طور پر وہاںاللہ سے حقیقی تعلق بھی نہ ہوگا۔انسان کے اندر اللہ کے شکر کا جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔وہ تدبر و تفکر سے پیدا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا یک طرفہ عطیہ ہیں۔ اس دریافت کے بعد انسان کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اللہ رب العالمین کے اِسی اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔
تعلق باللہ فقہی یا قانونی حکم کے طور پر کسی کے اندر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ وہ دریافت کے نتیجے کے طو رپر پیدا ہوتا ہے۔اگر ایسا ہوکہ بندے کے اندر ڈسکوری کے درجے میں اللہ سے تعلق پیدا ہو تو اس کے بعد اپنے آپ اس کے نتائج ظاہر ہوں گے، اس کی سوچ میں تعلق باللہ کی جھلک دکھائی دے گی۔ تعلق باللہ کا ایک ظاہرہ شکر(acknowledgement) ہے۔ اور جب اس قسم کا شکر کسی کو حاصل ہوجائے تو فطری طور پر اس کے اندر غور و فکر کا مزاج پیدا ہوتا ہے ، یعنی وہ ہمیشہ اللہ رب العالمین کے بارے میں غور وفکر کرتا رہے۔ معرفت اسی غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے دین میں تدبر یا غور و فکر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (آل عمران،
لیکن شکر محض زبان سے کچھ الفاظ ادا کردینے کا نام نہیں، شکر ایک قربانی کا عمل ہے، بلکہ سب سے بڑی قربانی کا عمل۔ جو آدمی سب سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو، وہی اُس شکر کا تجربہ کرسکتا ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے احساسِ محرومی کا شکار ہوتاہے۔ ہر انسان کے دل میںکسی نہ کسی کے خلاف منفی جذبات موجود رہتے ہیں۔ ہر انسان مختلف اسباب سے شکایت اور نفرت کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو شکر کو کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام بنا دیتی ہے۔ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا ہے، لیکن اس کا دل حقیقی جذباتِ شکر سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
ایسی حالت میں صرف وہی انسان شکر کا عمل کرسکتاہے جس کا شعور اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ ناشکری کے اسباب کے باوجود شکر کرسکے، جو منفی خیالات کے جنگل میں رہتے ہوئے مثبت احساس میں جینے والا بن جائے۔ وہ اپنے اندر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلافِ شکر چیزوں کو نکالے، وہ اپنے اندر حقیقی جذباتِ شکر کی تخلیق کرسکے۔
شکر ایک عبادت ہے جو ہر حال میں مطلوب ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ شکر اُس وقت کرنا ہے جب کہ ہر چیز اُس کو اس طرح حاصل ہوجائے جیساکہ وہ انھیں حاصل کرنا چاہتاتھا، ملی ہوئی چیز اُس کی مرضی کے مطابق اُس کو مل جائے۔ ایسا آدمی کبھی شکر کرنے والا نہیں بن سکتا۔ خدا کا حقیقی شکر گزار وہی ہے جو شکایت کے باوجود شکر گزاری کار از دریافت کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوا ہےوَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ (
And remember also the time when your Lord declared: ‘If you are grateful, I will surely bestow more favours on you; but if you are ungrateful, then know that My punishment is severe indeed’ (
قرآن کی اِس آیت میں نعمت میں اضافہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو انسان خدا کی نعمتوں کا سچا شکر ادا کرے گا، اُس کو آخر ت میں جنت کی صورت میں حقیقی طور پرزیادہ بڑا انعام دیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس کی ذات کے اعتبار سے یا خارجی دنیا کے اعتبار سے جو چیزیں ملی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کے لیے عظیم نعمت (great blessing) ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) نہ لے، بلکہ وہ ان کو شعوری طورپر دریافت کرے۔ وہ ان نعمتوں کے لیے کامل معنوںمیں خالق کا اعتراف (acknowledgement) کرے۔
شکر دراصل اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ نعمت کے ملنے پر منعم کا اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہی عبادت وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جنت کا مستحق بنائے گی۔نعمت کا احساس کس طرح ہوتا ہے۔ انسان کے اندر خالق نے ایک فیکلٹی رکھی ہے، اس کو احساسِ لذت (sense of enjoyment) کہتے ہیں۔
کائنات میں انسان واحد مخلوق ہے جو لذت کا احساس رکھتا ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو عارضی طورپر اِسی لیے رکھا گیا ہے کہ وہ لذتوں کو محسوس کرکے خدا کاشکر اداکرے۔ جو انسان اِس دنیا میں حقیقی شکر کا ثبوت دے گا، وہ اگلی دنیا میںابدی جنت میں بسایا جائے گا، جہاں وہ اپنے احساسِ لذت کی کامل تسکین پاسکے۔ موجودہ دنیا انسان کے لیے عارضی شکر کا مقام ہے۔ یہی عارضی شکر وہ قیمت ہے جو کسی انسان کو ابدی جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
اکتوبر 1988 میں میرا کابل کے لیے ایک سفر ہوا۔میں نظام الدین ویسٹ نئی دہلی اپنےآفس سے ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوا توسڑک کے دونوں طرف سرسبز درختوں کی قطاریں مسلسل چلی جا رہی تھیں ۔ اس کو دیکھ کر مجھے شارجہ کا ایک صحرائی منظر یاد آیا۔ 1984 کے شارجہ کے سفر میں الشیخ علی المحویتی (قاضی شارجہ) مجھے اپنے رہائشی مکان پر لے گئے تھے جو شہرسے تقریباً
مومن انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ صحابیٔ رسول صہیب رومی (وفات
عَنْ صُہَیْبٍ، قَالَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَعَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاک لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ (وفی روایۃ لاحمد حَمِدَ رَبَّہُ وَ) شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ، (وفی روایۃ لاحمد وَإِنِ أصَابَتْہُ مُصِیبَةٌ حَمِدَ رَبَّہُ وَ) صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2999؛ مسند احمد، حدیث نمبر 1487)۔
The affair of the believer is truly strange. Every situation proves good for him and this is special to a believer alone. If he finds himself in a pleasant situation, he is thankful to God, and that is good for him. If he is faced with unpleasant situation he keeps patience and again that is good for him.
اللہ کی حمد وہی کرسکتا ہے جومنفی نفسیات سے خالی ہو۔مومن کے ساتھ دو طرفہ خیر کا یہ معاملہ کسی پر اسرار سبب سے نہیں ہوتا ، وہ مکمل طورپر ایک معلوم سبب کے تحت پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مومن اس انسان کا نام ہے جس کو دریافت کی سطح تک خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ ایسے انسان کے اندر ایک ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے اندر شعوری بیداری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ معاملات اور تجربات کو حقیقت کی نظر سے دیکھے۔ وہ وقتی جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے۔
مومن اپنی اس حقیقت شناسی کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ جس تجربہ سے بھی گزرے وہ اس کو مثبت نتیجہ میں تبدیل کرسکے۔ وہ ہر واقعہ میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھے۔ وہ ذاتی تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکے۔ مومن کی یہی وہ صفات ہیںجو اس کے اندر یہ با معنٰی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں کہ اس کو جب خوشی اور راحت کا تجربہ ہو تو وہ سرکش نہ بن جائے۔وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے۔ اسی اعتراف خداوندی کا نام شکر ہے۔ شکر بلاشبہ ایک عظیم عبادت ہے۔
تاہم دنیا کی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ خوش گوار تجربے نہیں ہوتے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ناخوش گوار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مومن کی شعوری بیداری اس کو اس سے بچا لیتی ہے کہ وہ اس پر شکایت یا فریاد کرنے لگے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو ایک فطری عمل سمجھ کر اس سے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی چیز ہے۔ حالات یقیناً بدلیں گے اور وہ جلدہی مجھ کو زیادہ بہترزندگی عطا کریں گے، خواہ آج کی دنیا میں یا آج کے بعد بننے والی دوسری ابدی دنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں
شکر کا مزاج کیسے پیدا ہوتا ہے، اس کو ایک واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں اسلامی ذہن بنانے کے لیے بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں، مگر پچاس سالہ کوششوں کے باوجود اب تک اسلامی انداز میں لوگوں کی ذہنی تربیت نہ ہوسکی ۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کے بیان کے نصف ثانی سے اتفاق ہے۔ مگر مجھے اس کے نصف اول سے اتفاق نہیں ۔صرف اسلام کا نام لینے سے اسلامی تربیت نہیں ہوتی۔ اصل یہ ہے کہ اسلامی ذہن بنانے کے لیے صحیح رخ میں کوشش نہیں کی گئی ۔ جب سمت درست نہ ہو تو مطلوب نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے ۔ اسلامی مزاج بنانے کی ابتدا خدا کی معرفت اور خدا کے شکر کا مزاج پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔
یہ مزاج کیسے پیدا ہوتا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ المنبر کے شمارہ
مگر محض اس طرح اسلام کا نام لینے سے خدا کی معرفت اور اسلامی کر دار پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضرورت ہو تی ہے کہ لوگوں کو حیات و کائنات کا اس طرح مطالعہ کرایا جائے کہ ان کے گرد و پیش کی پوری دنیا ان کے لیے رزق ربانی کا دسترخوان بن جائے، تاکہ انسان خدا کی بلیسنگ کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل کرے، اور خدا کا شکر گزار بنے۔مگر مذکورہ میگزین میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کے تذکرہ کے تحت درج ہے کہ ’’یہ شہید صدر ہی تھے جن کی بدولت (سویت یونین ٹوٹنے کے بعد)قرآن مجید کے لاکھوں نسخے روس میں تقسیم ہوتے رہے‘‘(صفحہ
اسی واقعہ کا ذکر الرسالہ (نومبر1990 ،صفحہ
کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں— اس واقعہ کو اکابر قوم یا قومی ہیرو کے خانے میں ڈال کر دیکھنا۔ اس کے برعکس، دوسرا طریقہ ہے اس واقعہ کوخدا کے خانہ میں ڈال کر دیکھنا ۔الرسالہ کے مضمون کو پڑھ کر آدمی کے اندرشکر خدا وندی کا جذ بہ امنڈے گا۔ مزیداس کے اندر یہ جذبہ ابھرے گا کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ان کو استعمال کریں ۔ جب کہ المنبر کے بیان سے صرف ہیروورشپ کا جذبہ ابھرے گا، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی تربیت کے لیے مسلمانوں کا موجودہ طریقہ کس طرح ناکافی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریہ مالدیپ بحر ہند میں واقع جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے۔ دسمبر1987 میں مالدیپ کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ یہ سفر ایک انٹر نیشنل اسلامک کا نفرنس میں شرکت کے لیے تھا جس کا اہتمام حکومت مالدیپ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ 5 دسمبر1987 کی صبح کو فجر سے پہلے گھر سے روانہ ہونا تھا ۔4 دسمبر کی شام کو مختلف کاموں میں دیر ہوگئی اور میں ساڑھے بارہ بجے سے پہلے بستر پر نہ جاسکا ۔ سوتے وقت دل سے دعا نکلی کہ خدا یا مجھے تین بجےجگا دیجیے۔ تاخیر کی وجہ سے نیند بھی کسی قدر دیر میں آئی، اور میں سو گیا۔ میں بالکل گہری نیند سورہا تھا کہ خلاف معمول اچا نک نیند کھل گئی ۔ دیکھا تو گھڑی کی ایک سوئی تین پر تھی اور دوسری سوئی بار ہ پر۔میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ دل نے کہا کہ اللہ کی مدد ٹھیک اپنے وقت پر آتی ہے ، اگر چہ انسان اپنی عجلت پسندی کی وجہ سے گھبرا اٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی مدد آنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسان ایک مکمل وجود ہے، مگر اِسی کے ساتھ وہ مکمل طورپر خارجی سہارے کا محتاج وجود ہے۔یعنی، انسان کو اپنے وجود کی تکمیل کے لیے ہر لمحہ ایک مددگار نظام درکار ہے۔ اِس نظام کے بغیر وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یَاأَیُّہَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّہِ (
اِس مددگار نظام کا نام نظامِ ربوبیت ہے، یعنی رب العالمین کا قائم کردہ نظام۔مثلاًانسان کے اندر نظامِ ہضم(digestive system) ہے، مگر غذائی اشیا کی سپلائی باہر سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر نظامِ تنفس (respiratory system )ہے، مگر آکسیجن اس کو خدا کے کارخانے سے ملتا ہے۔ انسان کے پاس نظامِ بصارت ہے، مگر وہ روشنی خداکی طرف سے آتی ہے جس کے بغیر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس نظامِ سماعت ہے، مگر اُس ہوا کو چلانے والا خدا ہے جس کے ذریعہ انسان کے کانوں تک آواز پہنچتی ہے، وغیرہ۔انسانی وجود کے اندر اِس قسم کے بہت سے نظام ہیں، مگر ہر نظام اپنی کارکردگی کے لیے خارجی مدد کا محتاج ہے۔ یہ مختلف قسم کے خارجی نظام جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ ان کے مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتاہے۔ یہ اگر سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا پورا وجود بے معنی ہوجائے گا۔
مچھلی پانی کے باہر مسلسل تڑپتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے اور مچھلی صرف پانی سے آکسیجن لے سکتی ہے۔ مچھلی کی یہ مثال ہر آدمی کے لیے بہت زیادہ سبق آموز ہے۔ ہر وقت انسان کو سوچنا چاہیے کہ خدا اگر لائف سپورٹ سسٹم یا بالفاظ دیگر اپنے نظامِ ربوبیت کو واپس لے لے تو میراکیا حال ہوگا۔قرآن میں ہےبتاؤ، اگر اللہ قیامت کے دن تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات کردے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے روشنی لے آئے۔ تو کیا تم لوگ سنتے نہیں(
واپس اوپر جائیں
1938 میں عرب میں پٹرولیم کی دریافت ہوئی ۔ اس کے بعد عربوں کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب بدو کا واقعہ ہے، وہ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سوئٹزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب بدو ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب بدو کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب بدو کو سوئٹزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سوئٹزر لینڈ کا مکان عرب بدو کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب بدو کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ اس فطری حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہےاے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو(
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب بدو کی طرح، شکر کے احساس سے، سجدے میں گرپڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ (for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔ اِس اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔اِس کے دو درجے ہیں— ایک، نارمل شکر یانارمل اعتراف (normal acknowledgement)۔ دوسرا، تخلیقی شکر یا تخلیقی اعتراف (creative acknowledgement) ۔ نارمل شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ کو پیاس لگی۔ آپ نے گلاس میں پانی لے کر اس کو پیا۔ اِس سے آپ کو سیرابی حاصل ہوئی اور پھر آپ نے کہا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ کو پانی دیا جس سے میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
تخلیقی شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جب پانی پیا تو آپ کو پانی کی وہ پوری تاریخ یاد آگئی جو جدید سائنس نے دریافت کی ہے، یعنی تقریباً
پانی کے معاملے میں پہلی صورت نارمل شکر کی ہے اور دوسری صورت تخلیقی شکر کی۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا شکر اگر صرف شکر ہے تو دوسرا شکر برتر شکر۔ شکر اور برتر شکر کا یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کے بارے میں پیش آتا ہے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال خون (blood) ہے۔ انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے، پھر یہ خون ایک اور پیچیدہ نظام کے تحت سارے جسم میں رگوں کے ذریعے مسلسل دوڑتا ہے۔ یہ بلاشبہ ربوبیت کے نظام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں انسان کو خدا کی نعمتیں یاد دلاتی ہیںاور وہ اللہ کے لیے سراپا شکر میں ڈھل جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں خون کا تصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک سرخ سیال ہے جو جسم کی طاقت کے لیے جسم کے اندر گردش کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ دریافت ہوئی کہ خون دو قسم کے ذرات سے مل کر بنتا ہے— سرخ ذرات (red blood corpuscles)، اور سفید ذرات (white blood corpuscles) ۔ اب یہ دریافت ہوئی ہے کہ خون میں اِس کے سوا، ایک اور خورد بینی ذرہ ہوتا ہے۔ اس کو پلیٹ لیٹس (platelets) کانام دیاگیاہے۔ یہ تیسرا ذرہ انسان کی زندگی اور صحت کے لیے بےحد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خون ہراعتبار سے، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس نعمت کا احساس آدمی کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔
اِس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کے اوپر انسان کی زندگی قائم ہے۔ یہ نظام براہِ راست خدا کی قدرت کے تحت قائم ہے اور اِسی کو قرآن میں ربوبیت کہاگیاہے۔ یہ نظامِ ربوبیت تمام تر اللہ کی جانب سے قائم ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ربوبیت کے اِس نظام سے واقفیت حاصل کرے اور پورے معنوںمیں اللہ کا شاکر بندہ بن کر اِس دنیا میں رہے۔
قرآن میں بتایا گیاہے کہ رب صرف اللہ ہے اور اُسی کی ربوبیت اِس دنیا میں قائم ہے (
واپس اوپر جائیں
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر شام کو پانی سے افطار کیا تو آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہُ(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر2357) ۔یعنی، پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور روزے کا اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔
پانی ایک غیر معمولی قسم کی نعمت ہے۔ پانی پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ پانی نہیں تو زندگی نہیں۔ مگر عام حالات میں پانی کی اِس خصوصی نعمت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک آدمی جب روزہ رکھ کر سارے دن پانی کا استعمال نہ کرے اور اُس پر پیاس کا تجربہ گزرے، اُس وقت جب آدمی پانی پیتا ہے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ پانی کیسی عجیب نعمت ہے۔
اُس وقت آدمی کے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ کس طرح دو گیسوں کے ملنے سے سیال (liquid)پانی بن گیا۔ اتھاہ مقدارمیں پانی کے ذخیرے زمین کے اوپر جمع ہوگئے، پھر پانی سے زندگی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ پانی آدمی کی پیاس کو بجھاکر اس کے لیے زندگی کا سبب بنتا ہے۔یہ احساسات جب جاگتے ہیں تو نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی پیاس بجھتی ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ شکر ِخداوندی کا ایک دریا آدمی کے اندر رواں ہوجاتا ہے۔
اللہ، انسان کا منعمِ حقیقی ہے۔ اللہ نے انسانوں کو ان گنت نعمتیں عطا کی ہیں۔ ان نعمتوں پر اللہ کا حقیقی شکر ادا کرنا، اللہ کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ روزہ کے ذریعہ جب انسان کے اندران نعمتوں کا احساس جگایا جاتا ہے تو آدمی کا شعور بیدار ہوجاتا ہے۔ وہ غفلت سے باہر آجاتا ہے۔ وہ احساسِ نعمت سے سرشار ہوکر حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔روزہ ،جذباتِ شکر کی بیداری کا ذریعہ ہے۔ انسان ہر وقت انعاماتِ خداوندی کے سمندر میں رہتا ہے، مگر عام حالات میں اس کو ان نعمتوں کا شعوری احساس نہیں ہوتا۔ روزہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اِن نعمتوں کو ازسرِ نو دریافت کرکے اپنے رب کی اعلیٰ معرفت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں
اگر آپ لذیذ کھانا کھائیں اور اس کو کھا کرلپ سروس کے طور پر الحمد للہ کہیں تو یہ حیوانی درجے کا شکر ہے۔ کیوں کہ یہ مشاہدہ اور ذائقہ پر مبنی ہے، اور مشاہدہ اور ذائقہ کے درجے کا شکر صرف حیوانی درجے کا شکر ہے، وہ اعلیٰ انسانی درجے کا شکر نہیں۔
اعلیٰ درجے کا شکر یہ ہے کہ جب کھانا آپ کے سامنے آئے تو اس کو دیکھ کر خدا کا پورا تخلیقی نظام آپ کو یاد آجائے۔ آپ سوچیں کہ یہ تمام غذائی چیزیں پہلے غیر غذائی چیزیں تھیں۔ خدا نے ایک برتر عمل (process) کے ذریعے ایک عظیم واقعہ برپا کیا۔ وہ تھا غیر غذا (non-food) کو غذا (food) میں تبدیل کرنا۔ اِس طرح ایک کائناتی عمل کے ذریعے یہ تمام غذائی چیزیں وجود میں آئیں۔
پھر آپ یہ سوچیں کہ یہ غذائی چیزیں اپنی ابتدائی صورت میں میرے لیے توانائی (energy) کا ذریعہ نہیں ہوسکتی تھیں۔ چنانچہ خدا نے مزید یہ کیا کہ اُس نے میرے جسم کے اندر ایک پیچیدہ قسم کا نظام ہضم (digestive system) رکھ دیا۔ یہ نظامِ ہضم ایک خود کار نظام ہے۔ جب میں کوئی چیز کھاتا ہوں تو یہ نظام ہضم اِن غذائی چیزوں کو حیرت انگیز طورپر زندہ خلیات(living cells) میں تبدیل کردیتا ہے، پھر یہ زندہ خلیات میرے جسم میں گوشت اور خون جیسی چیزوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر آپ کے اندر شکر کا گہرا احساس پیدا ہوگا، جس کو الفاظ میں ظاہر کرنے کے لیے آپ خود کو عاجز پائیں گے۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی شکر کیا ہے اور حیوانی شکر کیا۔ اگر آپ کے اندر صرف حیوانی درجے کا شکر ہے توآپ ہمیشہ ناشکری کے احساس میں جئیں گے۔ شکر کے اعلیٰ احساس میں جینے کے لیے انسانی درجے کا جذبۂ شکر درکار ہے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ کم پائی جاتی ہےوَقَلِیل مِّنۡ عِبَادِیَ ٱلشَّکُورُ (
واپس اوپر جائیں
شیطانی اغوا کا اصل نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے (الاعراف،
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خدا کی نعمتوں کے اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکر ہر زمانے میں انسان سے مطلوب تھا۔ پچھلے زمانے میں بھی اور موجودہ زمانے میں بھی۔ کسی انعام پر مُنعم کا اعتراف کرنا، ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ لیکن اعتراف کے لیے ہمیشہ کسی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً جب آپ کھانے کی کوئی چیز کھاتے ہیں، تو آپ کو فوڈ آئٹم کی صورت میں شکر، یا اعتراف کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس مل جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ خدایا، تیرا شکرہے کہ تو نے مجھے یہ چیز کھانے کے لیے عطا کی۔
لیکن ایک شخص جو جدید علم نباتات (Botany) اور جدید علم زراعت (Agriculture) اور جدید علم باغبانی (Horticulture) سے واقف ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ کسی فوڈ آئٹم کی معنویت کو ہزاروں گُنا زیادہ اہمیت کے ساتھ دریافت کرسکے۔ اِس طرح اس کا احساسِ شکر، عام انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ جب وہ کہے گا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے یہ فوڈ آئٹم دیا، تو وہ ایک عظیم اہتزاز (super thrill) کے جذبے کے تحت، وہ الفاظ بولے گا جس کا تجربہ پہلے کسی انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔پہلا شخص جس حقیقت کو صرف ذائقہ لسانی کی سطح پر جانے گا، دوسرا شخص اس کو وسیع تر علم سائنس کی سطح پر دریافت کرے گا۔ پہلے شخص کا اعتراف اگر ایک سادہ اعتراف ہوگا، تو دوسرے شخص کا اعتراف ایک ہمالیائی اعتراف بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْقَلِیلَ، لَمْ یَشْکُرِ الْکَثِیرَ(مسند احمد،حدیث نمبر18449 ) یعنی جو شخص کم پر شکر نہیں کرے گا، وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرے گا۔ اِس حدیثِ رسول میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ چھوٹے واقعے کو یاد کرنے سے بڑے بڑے واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں بہت سے الگ الگ فولڈر (folder) ہوتے ہیں۔ مثلاً محبت کا فولڈر، نفرت کا فولڈر، اعتراف (acknowledgement)کا فولڈر، ظلم کا فولڈر، وغیرہ۔ جوچیزیں انسان کے تجربے اورمشاہدے میں آتی ہیں،اُن کو دماغ الگ الگ کرکے ان کے متعلق فولڈر میں ڈالتا رہتا ہے۔ آدمی جب کسی ایک واقعے سے متاثر ہو تو اُس وقت انسان کا دماغ ٹریگر (trigger) ہوجاتاہے اور پھر فوری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اُس سے متعلق (relevant) فولڈر کھل جاتا ہے اور اس نوعیت کے تمام واقعات آدمی کے ذہن میںتازہ ہوجاتے ہیں۔
فطرت کا یہ قانون شکر اور اعتراف کے معاملے میں بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً آج آپ کو ایک موبائل ملا۔ اُس سے آپ نےکسی دوسرے مقام پر موجود ایک شخص سے بات کی۔ اُس وقت آپ نے سوچا کہ پہلے زمانے میں ایک آدمی کو کسی دوسرے پر موجود آدمی سے رابطہ قائم کرنے میں کتنی مشکلیں پیش آتی تھیں۔ اِس پر آپ نے گہرے تاثر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا تو اس کے بعد فوراً یہ ہوگا کہ آپ کا دماغ ٹریگر ہوجائے گا۔ اُسی وقت دماغ کا وہ فولڈر کھل جائے گا، جس میں آپ کی پوری زندگی میں پیش آنے والے شکر واعتراف کے تمام آئٹم محفوظ ہیں۔فطرت کے اِس نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ شکر کے چھوٹے واقعے کی یاد، شکر کے دوسرے تمام واقعات کو یاد دلا دیتا ہے۔ اِس طرح شکر کا چھوٹا واقعہ بڑے شکر کا سبب بن جاتاہے، یہاں تک کہ آدمی کے دل میں شکر کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ شکر کا احساس خدا سے آدمی کے تعلق کو بڑھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ مثلاً صحیح البخاری (حدیث نمبر 6490)، صحیح مسلم ( حدیث نمبر 2963)جامع الترمذی ( حدیث نمبر 2513)، سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 4142) ،وغیرہ۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیںانْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ، فَہُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللہِ۔ قَالَ أَبُو مُعَاوِیَةَ ۔ عَلَیْکُم(مسند احمد،حدیث نمبر10246)۔ یعنی، تم اس کو دیکھو جوتم سے نیچے ہے اورتم اس کونہ دیکھو جوتم سے اوپر ہے ، کیوںکہ اس طرح تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کوکم نہیں سمجھوگے ۔
اس حدیث کی مزید تشریح ایک اورحدیث سے ہوتی ہے ۔ ایک مرفوع روایت کے مطابق رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَصْلَتَانِ مَنْ کَانَتَا فِیہِ کَتَبَہُ اللہُ شَاکِرًا وَصَابِرًا ، مَنْ نَظَرَ فِی دِینِہِ إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ ، وَنَظَرَ فِی دُنْیَاہُ إِلَى مَنْ ہُوَ دُونَہُ ، فَحَمِدَ اللہَ ، کَتَبَہُ اللہُ شَاکِرًا صَابِرًا وَمَنْ نَظَرَ فِی دُنْیَاہُ إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَضَّلَہُ اللہُ عَلَیْہِ ، لَنْ یَکْتُبَہُ اللہُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا (مسند الشامیین للطبرانی، حدیث نمبر
شکر سب سے بڑی عبادت ہے ۔ کسی بندے سے جوچیز سب سے زیادہ مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو ایک عظیم منعم کے طورپر دریافت کرے ۔ اللہ کی نعمتوں کے احساس سے اس کاسینہ بھراہواہو ۔ اس کی روح میں شکر کاابدی چشمہ جاری ہوجائے۔وہ اللہ کو ایک ایسی ہستی کے طورپرپائے جو اس پر بے پایاں نعمتوں کی بارش کررہاہے ۔ یہ شعور اتنا زیادہ قوی ہوکہ کسی بھی حال میں اس کاسینہ شکر خدا وندی کے احساس سے خالی نہ ہو۔
مگر یہ کوئی آسان بات نہیں ۔ اپنے آپ کوشکر کے جذبہ سے سرشار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کاشعور اس معاملہ میں پوری طرح زندہ ہو ۔ وہ اس کامسلسل اہتمام کرے ۔ وہ کسی ایسے خیال کو اپنے دل میں جگہ نہ دے جواس کے جذبۂ شکر کومجروح کرنے والاہو۔ وہ سب کچھ برداشت کرلے مگر وہ اپنے جذبۂ شکر کاانحطاط (erosion)کبھی برداشت نہ کرے۔ موجودہ دنیا میں فطری طورپر ہمیشہ ایسا ہو تاہے کہ لوگوں کے درمیان نا برابری قائم رہتی ہے ۔ اس بنا پر ہرآدمی یہ محسوس کرتاہے کہ مادی اعتبارسے کوئی اس سے کم ہے اورکوئی اس سے زیادہ ۔ اب اگر آدمی اپنامقابلہ اس شخص سے کرے جوبظاہر اس سے زیادہ ہے تواس کے اندر کمتری کااحساس پیدا ہوگا اور اس کاجذبۂ شکر دب کررہ جائے گا۔ اس لیے آدمی کوایسا کبھی نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنا موازنہ (comparison) اس سے کرے جومادی اعتبارسے بظاہر اس سے زیادہ ہے ۔ اس کے بجائے آدمی کویہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا موازنہ (comparison)ان لوگوں سے کرے جومادی اعتبارسے ا س سے کم ہیں ۔ اس طرح اس کاجذبۂ شکر زندہ رہے گا ۔ اس کا دل کبھی نعمت کے احساس سے خالی نہ ہوسکے گا۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایساہو تاہے کہ تمام لوگ مادی اعتبارسے یکساں نہیں ہو تے ۔ کوئی زیادہ ہو تاہے اورکوئی کم ، کوئی پیچھے ہوتاہے اورکوئی آگے ، کوئی طاقت ورہوتاہے اورکوئی کمزور ۔ اس قسم کے تمام فرق امتحان کی مصلحت کی بنا پر ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی مختلف قسم کے حالات سے گزرے ، مگروہ حالات سے متاثرہوئے بغیر اپنے ایمانی شعور کوزندہ رکھے ۔ وہ ناشکری والے حالات سے دوچار ہو، پھربھی اس کے شکر کے جذبہ میں کوئی کمی نہ آئے ۔ وہ بے اعترافی کی صورتِ حال سے گزرے ، مگر وہ اپنے اعتراف کی صفت کو نہ کھوئے ۔ وہ منفی جذبات پیدا کرنے والے حالات سے دوچارہو ، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مثبت طرز فکر پرقائم رکھے ۔ شکر وہ سب سے قیمتی متاع ہے جس کو انسان اپنے رب کے سامنے پیش کرسکتاہے ۔ ایسی حالت میںعقل مند انسان وہ ہے جو اپنے سینہ کو شکر کے احساس سے خالی نہ ہونے دے ، حتی کہ انتہائی غیرموافق صورت حال میں بھی ۔
واپس اوپر جائیں
تقریباً تیرہ بلین سال پہلے سولر سسٹم وجود میں آیا۔ اس وقت زمین کے اوپر صرف گیس تھی۔ پھر گیس کے ذریعے پانی بنا۔ پانی کا فارمولا H2O ہے، یعنی زمین میں ایسے مالیکیول (molecule) رکھ دیے گئے، جس میں ہائڈروجن کے دو ایٹم ہوتےتھے، اور آکسیجن کا ایک ایٹم۔ اس طرح زمین کے اوپر پانی وجود میں آیا۔ یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتدامیں نیچر نے اس پانی میں حفاظتی مادہ (preservative) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ جب سمندرکی سطح پر سورج کی حرارت پہنچی تو سمندر کا پانی فطری قانون کے تحت ازالۂ نمک (desalination) کے پراسس سے گزر ا،یعنی پانی بھاپ بن کرنمک سےالگ ہوگیا ۔ نمک سمندر میں رہ گیا، اور پانی بھاپ بن کر فضا میں بلندہوا، وہاں وہ بادل بنااور آخر کار وہ پانی بارش کی صورت میں دوبارہ زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے لیے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً یہی وہ عظیم حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا (
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا — میں پورے فخر اور شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں دینی ماحول میں پیدا کیا، اور اس نے مجھے فلاں ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع عطا فرمایا، وغیرہ۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں۔ اِس قسم کی بات بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہائی بے معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر اور شکر دونوں دو مختلف جذبات ہیں۔ جہاں فخر ہوگا، وہاں شکر نہیں ہوگا اور جہاں شکر ہوگا، وہاں فخر نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسے الفاظ بولیں، ان کے اندر فخر تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی شکر کا جذبہ ان کے اندر ہرگز موجود نہیں ہوسکتا۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خداوند ِ ذوالجلال کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ خداوند ِ ذوالجلال کی نعمت کا احساس فوراً ہی آدمی کے اندر اپنی بے مائگی کا احساس پیدا کردیتا ہے اور اپنی بے مائگی کے احساس کے بعد کوئی شخص کبھی فخر کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اِس قسم کے احساس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ’’بے کچھ‘‘ کے مقام پر پاتا ہے اور خداوندذوالجلال کو ’’سب کچھ‘‘ کے مقام پر۔ جو آدمی اس قسم کی نفسیات کا حامل ہو، اس کے لیے فخر ایک مضحکہ خیز لفظ بن جائے گا۔ ایسا آدمی سب کچھ بھول کر شکر ِ خداوندی کے جذبے سے سرشار ہوجائے گا۔اس کے اندر فخر جیسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ شکر کی توفیق ہمیشہ عجز کامل کی سطح پر ہوتی ہے جس آدمی کے اندر عجز کامل کی اعلیٰ ربانی صفت نہ ہو، وہ شکر کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
فخر کے ساتھ شکر کا لفظ بولنا، بتاتا ہے کہ ایسا آدمی، امتحان کی اصطلاح میں، مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ ایسا کہنے والا شخص اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ فخر اور شکر دونوں کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ وہ نہ فخر کی نفسیات کو جانتا ہے اور نہ شکر کی نفسیات کو۔ اگر وہ دونوں کی حقیقت سے باخبر ہوتا تو وہ اِس طرح، فخر اور شکر کے متضاد الفاظ کو ایک ساتھ نہ بولتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر ہمیشہ نفیِ فخر کی زمین پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ اثباتِ فخر کی زمین پر۔
واپس اوپر جائیں
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، قَالَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَمَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ، لَمْ یَشْکُرِ اللہَ (مسند احمد،حدیث نمبر 7504)۔یعنی، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا جو آدمی لوگوں کا شکر نہ کرے، وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرے گا۔
شکر ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ کیفیت کسی آدمی کے دل میں پیدا ہو جائے تو وہ منقسم ہو کر نہیں رہ سکتی۔ اگر وہ ایک معاملہ میں ظاہر ہوگی تو یہ ناممکن ہے کہ وہ اسی قسم کے دوسرے معاملہ میں ظاہر نہ ہو۔ جب آدمی ایک کا شکر گزار ہوگا تو وہ دوسرے کا بھی ضرور شکرگزار ہوگا۔
بندہ کا احسان آنکھ سے دکھائی دیتا ہے، وہ ایک براہ راست تجربہ ہے۔اس کے برعکس، خدا کا جو احسان ہے وہ ظاہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا، وہ آدمی کے لیے براہِ راست تجربہ نہیں۔خدا کے احسان کو سوچ کر جاننا پڑتا ہے۔ بندہ کے احسان کو آدمی بذریعہ مشاہدہ جانتا ہے اور خدا کے احسان کو بذریعہ تفکر۔جو آدمی براہِ راست مشاہدہ میں آنے والے واقعہ کا احساس نہ کر سکے، وہ ایسے واقعہ کو کیوں کر محسوس کرے گا جو بالواسطہ غور وفکر کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔
کوئی احسان کرنےوالا جب احسان کرتا ہے تو آدمی اس کے احسان کا اعتراف اس لیے نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح میں محسن کی نگاہ میں چھوٹا ہو جاؤں گا۔ حالانکہ ایسا کر کے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے۔اس کے بعد وہ اپنے ضمیر کی نگاہ میں چھوٹا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کے نزدیک کم بن جاتا ہے۔ اور بلاشبہ اپنے ضمیر کے نزدیک کم ہونا، دوسرے کے نزدیک کم ہونے سے زیادہ سخت ہے۔
اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ بندوں کے احسان نہ ماننے سے آدمی کے اندر بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ اولاً وہ انسان کا اعتراف نہیں کرتا۔ اور اس کے بعد اس کا بگڑا ہوا مزاج اس کو یہاں تک لے جاتا ہے کہ وہ رب العالمین کا بھی سچا اعتراف نہیں کر پاتا۔ اور بلاشبہ اس سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والا اور کوئی نہیں جو اپنے رب کا اعتراف کرنے سے عاجز رہے۔
واپس اوپر جائیں
نومبر 1992 میں میرا ایک سفر ناگپور کے لیے ہوا۔ 8نومبرکو میں نے فجرکی نماز نظام الدین کی سات سو سالہ قدیم کالی مسجد میں پڑھی تھی ۔ پھر ظہرکی نماز میں نے دہلی ایرپورٹ پرپڑھی ، اور عصر کی نماز ناگپور پہنچ کر ادا کی ۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے جو ہر روز بہت سے مسلمانوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ مگر جب میں نے غور کیا تو مجھے اس چھوٹے سے واقعہ میں بہت بڑا سبق چھپا ہوا نظر آیا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میں دہلی میں بھی اسلامی عبادت کرنے کے لیے آزاد تھا۔ اسی طرح میں راجدھانی کے ایر پورٹ پر بھی اسلامی عبادت آزادانہ طور پر کر سکتا تھا۔ اور دہلی سے گیارہ سو کیلومیٹر دور ناگپور میں بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ میں اطمینان کے ساتھ اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ کی عبادت کروں ۔
پھر اس کا مقابلہ میں نے قدیم مکی دور سے کیا جب کہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس وقت پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ کھلے طور پر وہ نماز ادا کرسکیں۔ حتی کہ نماز باجماعت ادا کرنے کے مواقع بھی اس وقت موجود نہ تھے مگر آج تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر دینی آزادی حاصل ہے ۔
یہ واقعہ میرے لیے ایک علامت بن گیا جس میں مجھے اسلام کی تاریخ آگے کی طرف سفر کرتی ہوئی نظر آنے لگی ۔ مجھے دکھائی دیا کہ آج مسلمانوں کی حالت لائق شکر ہے، نہ کہ لائق شکایت ۔ آج ہم اسلام کے حوصلہ افزا مرحلہ میں ہیں، نہ کہ حوصلہ شکن مرحلہ میں ۔
میں نے سوچا کہ جدید تہذیب نے انسانوں (بشمول مسلمان)کے لیے ہر اعتبار سے کتنی زیادہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔ اس کے باوجود انسان خدا کا شکر ادا نہیں کرتا۔موجودہ زمانہ میں جو چیز سب سے زیادہ اٹھ گئی ہے وہ شکر ہے۔ سائنسی دریافت ،صنعتی انفجار، اور مذہبی آزادی کے اس دور میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ انسان ہمیشہ سے زیادہ شکر کرنے والا بن جائے ، مگربرعکس طور پر ایسا ہوا کہ وہ ہمیشہ سے زیادہ ناشکری کرنے و الا بن گیا۔ اس معاملہ میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کا کوئی فرق نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں
5 ستمبر(2003) کو جمعہ کا دن تھا۔ میں نے نظام الدین کی کلاں (کالی) مسجد میں نماز ادا کی۔ امام صاحب نے خطبہ سے پہلے اپنی تقریر میں بتایا کہ 1947 میں یہ مسجد کچھ ہندوؤں کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے دوبارہ قبضہ کرکے اس کو آباد کرنا چاہا تو پولیس کیس بن گیا اور عدالتی کارروائی کی نوبت آگئی۔ عدالت کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا
کلاں (کالی) مسجد تقریباً 800 سال پہلے تغلق دور میں بنائی گئی تھی۔ میں 1983 سے اس مسجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں۔ پہلے یہ مسجد تقریباً کھنڈر کی حالت میں تھی۔ اب یہاں مسجد کی شاندار عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک علامت ہے جو بتاتی ہے کہ اس ملک میں ملت مسلمہ کا مستقبل دن بدن بہتر حالت کی طرف جارہا ہے۔
اسی طرح کا واقعہ ہے۔ اپریل 1996 کو میرٹھ اور اس کے اطراف کے لیے میرا سفر ہوا۔
مجھے یاد آتا ہے کہ 40 سال پہلے میں یوپی میں اپنے آبائی گاؤں، بڈھریا، ضلع اعظم گڑھ، میں رہتا تھا۔ میرے گھر کے قریب ایک مسجد تھی۔ اس میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں ہی مؤذن ہوتا تھا اور میں ہی امام اور مقتدی۔ خاص طورپر عشاء کی نماز مجھے اس طرح پڑھنا ہوتا تھا کہ میں لالٹین لے کر مسجد جاتا جو گاؤں کے باہر کھیتوں کے کنارے واقع تھی۔ رات کے سنسان ماحول میں عشاء کی نماز پڑھنا بڑا عجیب تجربہ تھا۔ اس وقت وہاں میرے ساتھ کوئی اور نمازی نہیں ہوتا تھا۔ میں خود ہی اذان دیتا اور خود ہی تکبیر کہہ کر جماعت کے طورپر نماز ادا کرتا اور پھر لالٹین لے کر واپس اپنے گھر آجاتا۔
مگر اب40 سال کے بعد مسجد سمیت یہ پوری جگہ نہایت با رونق ہوگئی ہے۔ اب وہاں مسجد سے متصل سڑک گزررہی ہے۔ بجلی اور ٹیلی فون آچکا ہے۔ مسجد کے بالکل سامنے ایک معیاری اسکول قائم ہوگیا ہے۔ اب یہاں رات دن چہل پہل رہتی ہے۔
اس قسم کے واقعات ہر جگہ پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں نہایت امید افزا پیغام چھپا ہوا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں تمام مسلمان، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں، شکایت کی بولی بولتے ہیں۔ مجھے اپنے تجربہ میں پوری مسلم دنیا میں کوئی شخص نہیں ملا جو شکایت سے خالی ہو، اورحقیقی طورپرشکر کے جذبہ سے سرشار ہوکر حمد کلچر یا مثبت سوچ میں جیتاہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
اردو کے ایک مرثیہ گونے قدیم زمانہ میں حضرت حسین اور ان کے خاندان کے لوگوں کے سفر کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین کو مختصر کر کے ان کا راستہ آسان بنا دو
طنابیں کھینچ کر کم کر زمیں کو کہ ہو وے راہ کم ان مہ جبیں کو
آج اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے لیے ’’زمین کی طنابیں کھینچ کر‘‘سفر کو مختصر بنا دیا ہے، یعنی جدید وسائل کے ذریعہ فاصلوں کو کم کردیا ہے ۔ مثلاًہوائی جہاز کی سواری آج بہت زیادہ عام ہوچکی ہے۔ اس لیے لوگوں کو اس کے غیر معمولی پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوائی جہاز اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ ہوائی جہاز نے آج لمبے سفروں کو ہر آدمی کے لیے ممکن بنا دیا ہے۔ ورنہ قدیم زمانے میں بہت ہی کم افراد لمبے سفر کا حوصلہ کرسکتے تھے۔ مگر قرآن کے مطابق، انسانوں میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو قابل شکر باتوں کو شدت کے ساتھ محسوس کریں اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو جائیں (سبا،
واپس اوپر جائیں
سائنسی اندازہ کے مطابق،سورج ہماری زمین سے تقریباًنو کرورتیس لاکھ میل دور ہے۔ سورج ہماری زمین سے ایک لاکھ تیس ہزارگنا بڑا ہے۔ سورج زمین کی مانند ٹھوس نہیں ہے، بلکہ وہ پورا کا پورا ایک عظیم دہکتا ہوا شعلہ ہے۔ اس کی گرمی گیارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ہے۔ یہ گرمی اتنی زیادہ ہے کہ سخت ترین مادہ بھی اس میں پگھلے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زمین اگر اس کے قریب کی جائے تو وہ ایک سکنڈ سے بھی کم عرصے میں پگھل کر گیس بن جائے گی۔
سورج کیسے چمکتا ہے اور کیسے اتنی بڑی مقدار میں وہ روشنی اور گرمی دے رہا ہے۔ قدیم خیال یہ تھا کہ سورج مسلسل جل رہا ہے، جیسے کوئی لکڑی یا کوئلہ جلتا ہے۔ مگر جب فلکیاتی تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ ہزاروں ملین سال سے اسی طرح روشن ہے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگیا۔ سورج میںاگر کوئی مادہ جل رہا ہوتا تو اب تک سورج بجھ چکا ہوتا، کیوں کہ کوئی چیز اتنی زیادہ لمبی مدت تک جلتی ہوئی حالت میں نہیںرہ سکتی۔
اب سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ سورج کی گرمی اُسی قسم کے ایک عمل (process) کا نتیجہ ہے جو ایٹم بم کے اندر وقوع میں آتا ہے، یعنی سورج، مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ عمل جلنے سے مختلف ہے۔ جلنا مادہ کو ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل کرتا ہے، مگر جب مادہ کو توانائی میں بدلا جائے تو بہت زیادہ توانائی صرف تھوڑے سے مادہ کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ مادہ کا ایک اونس اتنی زیادہ توانائی پیدا کرسکتا ہے جو ایک ملین ٹن سے زیادہ چٹان کو پگھلا دے
The sun changes matter into energy. This is different from burning. Burning changes matter from one form to another. But when matter is changed into energy, very little matter is needed to produce a tremendous amount of energy. One ounce of matter could produce enough energy to melt more than a million tons of rock.
کائنات میں ا س قسم کی ان گنت نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نشانیاں بتاتی ہیں کہ کائنات کے پیچھے ایک عظیم خالق کی ہستی کام کررہی ہے۔ عظیم خالق کے بغیر کبھی اس قسم کی عظیم تخلیق ظہور میں نہیں آسکتی۔قرآن میں بار بار کائناتی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ غور وفکر ایک خالص دینی عمل ہے، وہ مومن کے ایمان میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتا ہے، وہ مومن کے شکر کے جذبے کو بے پناہ حد تک بڑھا دیتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
جولائی 2001 میں میرا ایک سفر سوئٹزرلینڈ کے لیے ہوا۔ ہمارا جہاز
It is like seeing paradise from a distance.
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک نہایت حسین اور معیاری دنیا بنائی جہاں انسان ابدی طورپر پر مسرت زندگی گزار سکے۔ یہ جنت ہے ۔پھر اس نے ایک اور دنیا موجودہ زمین کی صورت میں بنائی۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انتہائی انوکھا استثنا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے،یعنی اس دنیا میں جنت کے مشابہ تمام چیزیں رکھ دی گئی ہیں (البقرہ ،
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْالحَمْدُ لِلہِ، وَلْیَقُلْ لَہُ أَخُوہُ أَوْ صَاحِبُہُیَرْحَمُکَ اللہُ، فَإِذَا قَالَ لَہُیَرْحَمُکَ اللہُ، فَلْیَقُلْ یَہْدِیکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ(صحیح البخاری،حدیث نمبر 6224 )۔یعنی، جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ کہے الحَمْدُ لِلہِ (اللہ کا شکرہے)۔ اُس وقت اس کا ساتھی یہ کہے یَرْحَمُکَ اللہُ (اللہ کی رحمت ہو تم پر)۔ اس کے بعد چھینکنے والا کہےیَہْدِیکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ (اللہ تم کو ہدایت دے اور تمھارے حالات کو درست کردے)۔
چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا محض کوئی رسمی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چھینک آنا شکر کا ایک آئٹم ہے۔ یہ بات ایک تازہ تحقیق سے علمی طورپر ثابت ہوئی ہے۔ اِس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چھینک کوئی بری چیز نہیں، وہ فطرت کا ایک عمل ہے۔ چھینک سے جسم میں تازگی آتی ہے
Sneezing revives your body: A sneeze is your body’s way of rebooting naturally and patients with disorders of the nose such as sinusitis sneeze more often as they can’t reboot easily, a new study said. Researchers from the University of Pennsylvania found that our noses require ‘‘reboot’’ by the pressure force of a sneeze. (The Times of India, New Delhi, August 2, 2012, p.
اِس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنا کوئی سادہ بات نہیں، چھینک آنا بھی شکر کا ایک آئٹم ہے۔ ہر چھینک پورے جسم کو تازگی عطا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ چھینک اللہ کی نعمتوں کی ایک یاد دہانی ہے۔ چھینک کے ذریعے ایک انسان اللہ کی ایک نعمت کو یاد کرکے جب اُس پر شکر ادا کرتاہے تو اُس وقت اس کا ذہن بیدار ہوجاتا ہے۔ اِس ذہنی بیداری کی بنا پر انسان کو شکر کے دوسرے آئٹم بھی یاد آنے لگتے ہیں۔ شکر کے ایک آئٹم پر شکر کرکے آدمی شکر کے دوسرے آئٹم پر بھی شکر کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سےملاقات ہوئی،وہ دعوت کے کام کو اہم کام سمجھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ مدارس کے علما میں دعوت کا شوق نہیں۔ وہ بس مدرسے کے کام میں لگے رہتے ہیں، اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔
ان کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کے اندر بہت اچھا اسپیکنگ پاور ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مدارس کے لوگوں کو دیکھ کر منفی احساس میں مبتلا ہورہے ہیں، آپ ایسا کیجیے کہ مدارس کے لوگوں کو لے کر مت سوچیے، بلکہ خود اپنے آپ کو لے کر سوچیے۔ اگر آپ خود اپنے آپ کو لے کر سوچیں تو آپ دریافت کریں گے کہ آپ کو اللہ تعالی نے بہت اچھا اسپیکنگ پاور دیا ہے۔ آپ اپنی اس صلاحیت کو دعوت کے کام میں استعمال کیجیے، اور مجھے یقین ہے کہ سارے شہر میں آپ سے اچھا اسپیکر نہ ہوگا۔
آپ کے اندر بولنے کی فطری صلاحیت بہت اعلیٰ درجے میں موجود ہے۔ اب آپ صرف اتنا کیجیے کہ دعوت کے موضوع پر اپنا مطالعہ بڑھائیے۔ آپ دعوت کے اعتبار سے اپنے آپ کو مزید تیار کیجیے، اور پھر دعوت کے میدان میں کام کرنا شروع کردیجیے۔ میں نے کہا کہ آپ اکیلے ہی، ان شاءاللہ، دعوتی کام کے لیے کافی ہیں۔ آپ اپنے آپ کو لے کر سوچیے، آپ دوسروں کو لے کر سوچنا بند کر دیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔
لوگوں میں یہ غلطی بہت عام ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنے آپ کو لے کر نہیں سوچتے، بلکہ دوسروں کو لے کر سوچتے ہیں۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔اگر وہ مثبت نفسیات میں جینے والے بن جائیںتو خدا کے وعدہ کا مستحق بن سکتے ہیں،جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُم (
واپس اوپر جائیں
مسلمان ہر روز اپنی نماز میں قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (
قرآن کی اس آیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو صرف زبان سے پڑھ دیا جائے، بلکہ وہ ایک تربیت کا کلمہ ہے۔ وہ ہر روز مسلمان کو ایک حقیقت کی یاد دلاتاہے۔ وہ یہ کہ انسان کو چاہیے کہ وہ روزانہ پیش آنے والے واقعات پر غور کرے۔ وہ واقعات کی ایسی مثبت توجیہ (positive explanation) تلاش کرے، جو اس کو ہر حال میں شکر کرنے والا انسان بنا دے، وہ ہردن اس احساس سے بھرا رہے کہ کائنات کا خالق ایک نہایت مہربان خالق ہے، وہ ہر وقت خالق کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے شکر واعتراف کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
قرآن کی یہ آیت مومن کی حقیقی تصویر کو بتارہی ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو الحمد للہ کی نفسیات میں جیے۔ اس کے برعکس، جو انسان عملاً لا حَمدَ للہکی نفسیات میں جیتا ہو، وہ سچا مومن نہیں۔ وہ زبان سے تو الحمد للہ کہتا ہے، لیکن اس کا دل شکایتی مزاج کی بنا پرعملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لا حَمدَ للہ، یعنی اللہ کے لیے کوئی حمد نہیں۔ یہ نفسیات منافقت کی نفسیات ہے، نہ کہ ایمان کی نفسیات۔
اس معاملہ کا تعلق حالات کی توجیہ سے ہے۔ جو آدمی حالات کی مثبت توجیہ کرے، وہ الحمد للہ کی نفسیات میں جیے گا، اور جو آدمی حالات کی مثبت توجیہ نہ کرسکے، وہ لاحَمدَ لِلہ کی نفسیات میں جینے والا انسان بن جائے گا۔ الْحَمْدُ لِلہِ شکر کا کلمہ ہے اور لاحَمدَ لِلہ ناشکری کا کلمہ۔گویا کہ الحمد للّٰہ کہنے سے پہلے ایک اور چیز مطلوب ہے،اور وہ ہے الحمد للّٰہ کی شعوری معرفت۔جو آدمی الحمد للّٰہ کہنے سے پہلے اس کی شعوری معرفت حاصل کرچکا ہو، وہی درست طورپر الحمد للہ کہے گا، اور جو آدمی اس شعوری معرفت سے خالی ہو، اس کی زندگی میں الحمد للہ ایک حقیقت کے طورپر شامل نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غزوہ پیش آیا جس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں کافی بھیڑ بکری غنیمت کی صورت میں حاصل ہوئیں۔ رسول اللہ نے غنیمت کا سامان مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا(وَلَمْ یُعْطِ الْأَنْصَارَ شَیْئًا)۔ یہ دیکھ کر انصار کے کچھ افراد کو شکایت پیداہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نےانصار کے لوگوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی۔ آپ نے فرمایا کہ اے انصار! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکری لے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے جاؤ( أَتَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالبَعِیرِ، وَتَذْہَبُونَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِکُمْ ) صحیح البخاری، حدیث نمبر4330 ۔
اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ دوسروں کو اگر میں نے بھیڑ بکری دی ہے تو تم کو تو میں نے خود اپنے آپ کو دے دیا ہے، یعنی اللہ کے رسول کو۔
یہ انسان کی عام کمزوری ہے کہ وہ اپنے ملے ہوئے کو نہیں دیکھ پاتا اور دوسرے کو جو کچھ ملے وہ اس کو بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ملی ہوئی چیز بظاہر زیادہ ہوتی ہے، اور نہ ملی ہوئی چیز بظاہر کم۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کا مزاج بے حد خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر سے شکر کا جذبہ نکل جائے گا، وہ ناشکری میں جینے لگے گا۔ اور یہ نقصان بلاشبہ تمام نقصانات سے زیادہ ہے۔ جو چیز آدمی کے اندر ناشکری پیدا کرے اس کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں۔
دین میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے۔ اس کے صبح و شام شکر کی نفسیات میں بسر ہوتے ہوں۔ لیکن ضروری ہے کہ آدمی اس معاملے میں اپنے شکر کی حفاظت کرے۔ شکر کی حفاظت کرنے سے شکر باقی رہے گا، اور حفاظت نہ کرنے سے شکر کا احساس آدمی کے اندر سے رخصت ہوجائے گا۔ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب کہ آدمی ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک اچھی چیز آپ کو ملتی ہے ۔ اس کواگرآپ اپنی محنت اورقابلیت کانتیجہ سمجھیں توآپ کے اندر سرکشی کاجذبہ پیداہوگا۔ اوراگر آپ اس کو خد اکی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھیں تو آپ کے اندر شکر کاجذبہ جاگ اٹھے گا۔ پہلی کیفیت کانام گمراہی ہے اوردوسری کیفیت کانام ہدایت یابی ۔
موجودہ دنیاکو امتحان(test) کی مصلحت کے تحت بنایاگیاہے ۔دنیا کے تمام واقعات بلاشبہ اللہ کی مرضی سے اورا س کی پلاننگ کے تحت سے ہورہے ہیں ۔ مگر تمام واقعات پراسباب کاپردہ ڈال دیاگیاہے ۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اسباب کے ظاہری پردہ کوہٹا کر اصل واقعہ کودیکھے اوراس پرایمان لائے ۔
آپ کے اندر ایک چیز کی طلب پیداہوتی ہے ۔ آپ اس کے لیے کوشش شروع کرتے ہیں۔آپ کی کوشش مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔ کہیں آپ اپنا ذہن استعمال کرتے ہیں کہیں اپنی عملی طاقت لگاتے ہیںاورکہیں اپنا اثاثہ خرچ کرتے ہیں ۔ اس طرح بظاہراسباب وعلل کے راستہ سے گزرتی ہوئی آپ کی کوشش اپنے انجام تک پہنچتی ہے ۔ آپ اپنے مقصود کوپالیتے ہیں ۔
اب اگر آپ کوصرف ظاہربیںنگاہ حاصل ہے تو آپ اپنی کامیابی کواپنی کوشش کانتیجہ سمجھیںگے لیکن اگرآپ کووہ نگاہ حاصل ہو جوباتوں کواس کی گہرائی کے ساتھ دیکھ سکے تو آپ جان لیں گے کہ جوہوا وہ خد کے کیے سے ہوا ، یہ میراکوئی ذاتی کارنامہ نہیں ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کاامتحان ہورہاہے ۔ آدمی پرلازم ہے کہ وہ ظاہری پردہ کو پھاڑ کر اندرونی حقیقت کو دیکھے ۔ بظاہر اپنے ہاتھ سے ہونے والے کام کے بارے میں یہ دریافت کرے کہ وہ حقیقت میں خدا کے ذریعہ انجام پارہاہے ۔
جولوگ اس بصیرت کاثبوت دے سکیں وہی معرفت والے لو گ ہیں اورجولوگ اس بصیرت کاثبوت نہ دیں وہی وہ لوگ ہیں جو معرفت سے محروم رہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاحقاف میں ایک بندہ صالح کی دعا ان الفاظ میں آئی ہےرَبِّ أَوۡزِعۡنِیٓ أَنۡ أَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ ٱلَّتِیٓ أَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلَىٰ وَٰلِدَیَّ وَأَنۡ أَعۡمَلَ صَٰلِحٗا تَرۡضَىٰہُ وَأَصۡلِحۡ لِی فِی ذُرِّیَّتِیٓ إِنِّی تُبۡتُ إِلَیۡکَ وَإِنِّی مِنَ ٱلۡمُسۡلِمِینَ(
سورہ النمل (آیت19)میں الفاظ کے جزئی فرق کے ساتھ یہی دعا حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالہ سے آئی ہے۔اس دعا کے ذریعہ ایک سنجیدہ انسان (sincere person) کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اس کو نعمت ملے تو اس کا حال کیا ہونا چاہیے۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب ان کو کوئی نعمت(favor) ملتی ہے تو وہ اس کا کریڈٹ خدا کو نہیں دیتے ہیں، بلکہ اپنی ذات کو اس کا کریڈٹ دیتےہیں۔ اس قسم کا کوئی بڑاواقعہ ایک عام انسان کو فخر و غرور میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مگرایک بندہ صالح ، جس کو خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو، اللہ سے تعلق قائم ہونے کے بعد اس کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ نعمت کو دیکھ کر سراپا شکر بن جاتا ہے۔ جو کچھ بظاہر اس کو ذاتی محنت سے حاصل ہوتا ہے اس کو بھی وہ پورے طور پر خدا کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہی ہرسنجیدہ انسان کا طریقہ ہونا چاہیے۔ اِسی اعتراف کا شرعی نام شکر ہے۔ یعنی کسی نعمت کے حصول پر مُنعِم کے لیےدل کی گہرائی سے قدردانی کا اظہار ہے
deep appreciation for kindness received
جہاں شکر نہ ہو، یقینی طور پر وہاں دین بھی نہ ہوگا۔اس دنیا کے اندر شکر کے آئٹم اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو گنا نہیں جاسکتا ہے(النحل،
انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ اس کی نفسیات میں کسی کیفیت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ شکرِ خداوندی کی کیفیات میں زندگی گزارے۔ اِس لیے انسان پر مختلف قسم کے ناخوشگوار حالات لائے جاتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے انسان کے اندر نعمت اور منعم کی اہمیت کا احساس ابھرے۔ تاکہ آدمی کبھی شکر کی کیفیت سے خالی نہ ہونے پائے، وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے ہر تجربے کے بعد شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔
بے خبرانسان
نومبر2004 میں بمبئی (ممبئی)کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ اس سفر میں ایک بڑا عبرت ناک واقعہ معلوم ہوا۔ ممبئی میں نیتومانڈکے نامی ایک ڈاکٹر تھے۔ 2003 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ امراضِ قلب کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرجری میں اُن کو کمال حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے دل کے مریضوں کی کامیاب سرجری کی تھی۔ آخر میں اُن کو اپنے فن پر بہت غرور آ گیا تھا۔یہاں تک کہ وہ خدا کے منکربن گئے ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار ایک مسلم خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔ آپریشن سے صحتیابی کے بعد مسلم خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی، اور بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس میں خدا کی کیا بات ہے۔ تم پیسہ دو اور میں تم کو صحت دوں گا
Give me money and I will give you cure.
وہ ایک آپریشن کا معاوضہ تین لاکھ روپیے لیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود اُن کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔ وہ اپنی قیمتی کار میں سفر کررہے تھے، ہندو جا ہاسپٹل پہنچے کہ اچانک اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، اتفاق سے وہاں اُس وقت جو عملہ تھا وہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ چنانچہ اسپتال میں ان کے ساتھ بے توجہی کا معاملہ ہوا۔ وہ بے بسی کے ساتھ چلّاتے رہے کہ میں ڈاکٹر مانڈکے ہوں۔ مگر عدم واقفیت کی بنا پر وہاں بَر وقت ان کا صحیح علاج نہ ہوسکا اور اسپتال ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔
ممبئی کے ایک دوسرے سرجن، ڈاکٹر کامران سے ملاقات ہوئی۔انھوںنے بتایا کہ انسان کے جسم میں ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ یہی آپریشن کے بعد اندمال (healing)کا سارا کام کرتا ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتو تمام سَرجن بے روزگار ہوجائیں۔ ڈاکٹر مانڈکے اگر اِس پوری حقیقت پر غور کرتے تو وہ ہر سرجری کے بعد اپنے عجز کو دریافت کرتے۔ لیکن غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ برعکس طورپر سرجری کے واقعے میں اپنی مہارت دیکھتے رہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جس واقعے میں انہیں عجز کی غذا مل رہی تھی، اُس سے وہ غلط طورپر کبر کی غذا لیتے رہے اور آخر کار اسی بے خبری کے ساتھ اُن کا خاتمہ ہوگیا۔
موجودہ زمانے میں یہ مزاج بہت زیادہ عام ہوچکا ہے— نعمتوں کا استعمال، لیکن مُنعم کا اعتراف نہیں۔ہر انسان مکمل طورپر عاجز ہے مگر وہ اپنے آپ کو قادر سمجھ لیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ آپ کی زندگی میں
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے میں خدا نے انسان کو نہایت قیمتی چیزیں عطا کی ہیں، جو قدیم زمانے میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھیں۔ مگر میر ے تجربے کے مطابق، بیش تر لوگ ان کا صرف غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جدید کمیونی کیشن خدا کی ایک عظیم نعمت ہے مگر غالباً اس نعمت کا تقریباً
واپس اوپر جائیں
صحابی رسول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے اوپر اللہ کی نعمت کا اندازہ کرنا چاہے تووہ اس کو دیکھے جواس سے کمتر ہو، وہ اس کو نہ دیکھے جو اس سے برتر ہو(عَنْ أَبَی ہُرَیْرَةَ یَقُولُقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَحَبَّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَعْلَمَ قَدْرَ نِعْمَةِ اللہِ عَلَیْہِ، فَلْیَنْظُرْ إِلَى مَنْ ہُوَ تَحْتَہُ، وَلَا یَنْظُرْ إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ) الزہد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر 1433۔
خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، دنیا کی چیزوں کی تقسیم میں یکسانیت نہیں۔ یہاں کسی کو کم ملا ہے اور کسی کو زیادہ۔ کسی کو ایک چیز دی گئی ہے اور کسی کو دوسری چیز۔ اس صورت حال نے دنیوی معاملات میں ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان فرق کر دیا ہے ۔ اب اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرے جو بظاہر اس کو اپنے سے کم نظر آتا ہے تو اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرنے لگے جو بظاہر اس کو اپنے سے زیادہ دکھائی دیتا ہے تو اس کے اندر ناشکری کا احساس ابھرے گا ۔ اس نفسیاتی خرابی سے بچنے کا آسان حل یہ بتایا گیا ہے کہ ہر آدمی اس کو دیکھے جو اس کے نیچے ہے ، وہ اس کو نہ دیکھے جو اس کے اوپر ہے ۔
شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ میرے پاؤں میں جوتے نہیں تھے۔ میں نے کچھ لوگوں کو جوتا پہنے ہوئے دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ دیکھو ، خدا نے ان کو جوتا دیا اور مجھے بغیر جوتے کے رکھا۔ وہ اسی خیال میں تھے کہ ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر انھوں نے اللہ کا شکرادا کیا کہ اس نے انھیں اس سے بہتر بنایا اور ان کو دو تندرست پاؤں عطا کیے — اللہ تعالیٰ کو اپنے ہر بندہ سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس کا شکر گزار بنے۔ مگر موجودہ دنیا میں شکر گزار وہی شخص رہ سکتاہے جو اس اعتبار سے اپنا نگراں بن گیا ہو— ملے ہوئے پرشکر کا جذبہ آدمی کے اندر حوصلہ پیدا کرتا ہے ۔ نہ ملے ہوئےپر شکایت کا ذہن آدمی کو جھنجلاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
واپس اوپر جائیں
ماہنامہ پاپولر سائنس نیو یارک (امریکا) سے شائع ہونے والی ایک میگزین ہے۔ یہ میگزین 1872 میں شروع ہوئی، اور آج تک جاری ہے۔ اس کے قدیم شمارے گوگل بکس میں موجود ہیں۔ اس کے ایک قدیم شمارہ (مارچ 1956 ، صفحہ 2 )میں ایک پیراگراف ان الفاظ میں تھا
From Atom to Star: Research at Bell Telephone Laboratories ranges from the ultimate structure of solids to the radio signals from outer space. Radio interference research created the new science of radio astronomy; research in solids produced the transistor and the Bell Solar Battery. Between atoms and stars lie great areas of effort and achievement in physics, electronics, metallurgy, chemistry and biology. Mechanical engineers visualize and design new devices.
اس مضمون میںایک امریکی کمپنی، بیل ٹیلیفون لیبوریٹری میں ہونے والی سائنسی ریسرچ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ایٹم سےلے کر ستارے تک انسانی جدو جہد اورکارِنمایاں انجام دینے کے لیے فزکس، الیکٹرانکس،میٹالرجی، کیمسٹری،اوربایالوجی کا بہت بڑا میدان موجود ہے۔اس سائنسی لیبوریٹری میں میکانیکل انجینئر نئے آلات کا خاکہ بناتے ہیں اور ڈیزائن تیارکرتے ہیں۔
ایک سیکولر انسان کی حد یہاں پر ختم ہوجاتی ہے ۔ لیکن اہل ایمان کی ایک اور حد ہے۔ وہ ہے، کائناتی نشانیوں سے معرفت و شکر کی غذا حاصل کرنا۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔اس نے معرفت اور شکرکے لیے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے۔
مثلاً پرندوں کا فضا میں اڑنا قدرت الٰہی کی ایک عظیم نشانی ہے۔ قدیم زمانہ میں قدرت الٰہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لیے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔یہی معاملہ تمام کائناتی انفراسٹرکچر کا ہے،جوتمام نقائص سے پاک (zero-defect) ہو کر زمین کےلیے لائف سپورٹ سسٹم کا کام کررہا ہے۔ یہ بلاشبہ شکر کا بہت عظیم آئٹم ہے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں
اسلام میں انسانوں کا شکر ادا کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار انسانوں کا شکر ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ مثلاً ایک حدیث رسول یہ ہے عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَلَا یَشْکُرُ اللہَ مَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ(مسند احمد، حدیث نمبر 8019)۔ ابوہریرہ کی روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیںکیا ، جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا۔
اس حدیث کا ایک اور مطلب بھی ہے جو ابن الاثیر الجزری (وفات
غور سے دیکھا جائے تو اِس حدیث میں شکر کا ایک عالمی حکم بیان کیا گیا ہے، یعنی دنیا کے تمام انسانوں کا شکر گزار ہونا، اور ان کے لیے دل میں منفی سوچ نہ رکھنا۔ قدیم دور میںانسان ایک دوسرے پر محدود معنی میں نِربھَر (dependent)ہوتا تھا۔مگر دور جدید کو عالمی طور پر باہمی انحصار (global interdependence) کا دور کہا جاتا ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے بے نیاز نہیں ، ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے۔ خواہ وہ ڈائریکٹ طور پرہو یا بالواسطہ طور پر۔
اسی حقیقت کو مولانا وحید الدین خاں صاحب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے اللہ نے انسانی تاریخ میں ایسے اسباب پیدا کیے کہ انسانوں کے درمیان ایک نئی ڈائیکاٹومی وجود میں آگئی۔ وہ تھی، دوست اور موید (supporter) کی ڈائیکاٹومی۔ یعنی جو لوگ دوست تھے، وہ تو دوست ہی تھے۔لیکن جو لوگ دوست نہ تھے، وہ عملاً موید (supporter) بن گئے۔یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ جمہوریت (democracy) اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہر آدمی کا مفاد دوسرے آدمی کے ساتھ جڑ گیا۔ پولیٹکل لیڈر کا انٹرسٹ ووٹر سے، اور ووٹر کا انٹرسٹ پولیٹکل لیڈر سے.... ٹیچر کا انٹرسٹ اسٹودنٹس سے، اور اسٹوڈنٹس کا انٹرسٹ ٹیچر سے، وغیرہ۔اس طرح دنیا میں ایک نیا باہمی انحصار کا کلچر (interdependent culture) وجود میں آیا (الرسالہ ستمبر 2017)۔
قدیم زمانے میں بھی انسان ایک دوسرے پر انحصار کرتا تھا، مگروہ بہت ہی محدود پیمانے پر تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ ظاہرہ، مولانا وحید الدین خاں صاحب کے الفاظ میں، ’’اپنے نقطۂ انتہا (culmination) کو پہنچ گیا ہے۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر باہمی مفاد (mutual interest) کے اصول پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں باہمی انحصار (interdependence) کا دور آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو خود اپنے مفاد کے تحت دوسرے کی ضرورت ہے۔ مثلاً تاجر کو گراہک کی ضرورت ہے، اور گراہک کو تاجر کی۔ وکیل کو کلائنٹ کی ضرورت ہے اور کلائنٹ کو وکیل کی ۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، اور مریض کو ڈاکٹر کی۔ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے ،اور ووٹر کو لیڈر کی۔ کنزیومر کو بازار کی ضرورت ہے، اور بازار کو کنزیومر کی۔ کمرشیل سواری کو مسافر کی ضرورت ہے، اور مسافر کو کمرشیل سواری کی ۔ہوٹل کو سیاح کی ضرورت ہے، اور سیاح کو ہوٹل کی ۔ صنعت کو خریدار کی ضرورت ہے، اور خریدار کو صنعت کی ، وغیرہ‘‘۔ (الرسالہ ستمبر 2017)
اس واقعہ کی ایک مثال روس اور یوکرین کی جنگ ہے، جو فروری 2022 میں شروع ہوئی اور اس مضمون کے لکھے جانے تک
واپس اوپر جائیں
یہ اٹلی کا واقعہ ہے۔ کورونا وائرس کا ایک
In Italy, a 93 year old gentleman was on the ventilator in ICU fighting for the Coronavirus and survived. When his Doctor told him that he is billed for 500 Euro for one day ventilator use, he cried. The Doctor tried to comfort him not to feel sad for the cost. What the old man responded made the hospital workers weep. The old man explained: "I don’t cry because of the money I have to pay. Thankfully I am able to afford it. I cry for another reason. I cry because I’ve just come to realize after all these many years on earth I’ve been breathing God’s air for 93 years, yet I have never had to pay for it. It seems it takes over Euro 500 to use a ventilator in the hospital for one day. Do you know how much I owe God Why haven’t I ever truly thanked Him all the days of my life for the miracle of this divine gift which I took for granted". (https://bit.ly/3oONJjW)
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا یک طرفہ عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف (شکر) کرے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں
شکر یہ ہے کہ آدمی خدا کی نعمتوں کا اعتراف کرے۔ یہ اعتراف اصلاً دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر وہ الفاظ کی صورت میں آدمی کی زبان پر آ جاتا ہے۔
انسان کو خدا نے بہترین جسم اور دماغ کے ساتھ پیدا کیا ۔ اس کی ضرورت کی تمام چیزیں افراط کے ساتھ مہیا کیں۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا۔ زمین پر زندگی گزارنے یا تمدن کی تعمیر کرنے کے لیے جو جو چیزیں مطلوب تھیں، وہ سب وافر مقدار میں یہاں مہیا کر دیں۔انسان ہر لمحہ ان نعمتوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر لمحہ خدا کی نعمتوں پر شکر کرے۔ اس کا قلب خدا کی نعمتوں کے احساس سے سرشار رہے۔
شکر کی اصل حقیقت اعتراف ہے۔ جس چیز کو انسان کے سلسلہ میں اعتراف کہا جاتا ہے اسی کا نام خدا کی نسبت سے شکر ہے۔ اعتراف کا لفظ انسان کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور شکر کا لفظ خدا کے مقابلہ میں۔شکر تمام عبادتوں کا خلاصہ ہے۔ عبادت کی تمام صورتیں دراصل شکر کے جذبہ ہی کی عملی تصویر ہیں۔ شکر سب سے زیادہ جامع اور سب سے زیادہ کامل عبادت ہے۔ شکر خدا پرستانہ زندگی کا خلاصہ ہے۔
شکر کا تعلق انسان کے پورے وجود سے ہے۔ ابتدائی طور پر آدمی اپنے دل اور اپنے دماغ میں شکر کے احساس کو تازہ کرتا ہے، پھر وہ اپنی زبان سے بار بار اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے بعد جب شکر کے جذبات قوی ہو جاتے ہیں تو انسان اپنے مال اور اپنے اثاثہ کو اظہار شکر کے طور پر خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح اس کا جذبۂ شکر اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو اس خدا کی راہ میں صَرف کرے جس نے اس کو وقت اور طاقت کا یہ سرمایہ دیا ہے۔ ہمارا وجود پورا کا پورا خدا کا دیا ہوا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جیتے ہیں جو سب کا سب خدا کا عطیہ ہے۔ اسی حقیقت کے اعتراف اور اظہار کا دوسرا نام شکر ہے۔
(زیر نظر شمارہ شکر کے موضوع پر آنے والی نئی کتاب کے منتخب مضامین پر مشتمل ہے)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.