انسانی علم، خدائی علم
لاش نس (Loch Ness) اسکا ٹ لینڈ کی ایک بڑی جھیل ہے۔ 1975میں ایک امریکی قانون داں نے زمیں دوز کیمرے کے ذریعے اس جھیل کے اندرونی فوٹو لیے۔ ان فوٹوؤں میں جھیل کے اندر کے کچھ مناظر دکھائی دیتے تھے۔یہ مناظر بادل کے دھبوں کی شکل میں تھے۔ ان تصویری دھبوں کا مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان دھبوں پر قیاس کا اضافہ کرکے سمجھ لیاگیا کہ یہ زندہ جانوروں کی تصویریں ہیں۔ کہاگیا کہ اسکاٹ لینڈ کی اس جھیل کے اندر انتہائی قدیم زمانے کے بعض بہت بڑے بڑے جانور موجود ہیں، جو نظریۂ ارتقا کے مطابق قدیم زمانے میں افراط کے ساتھ زمین پر پائے جاتے تھے۔اس قیاس پر ماہرین کو اتنا یقین تھا کہ اس کا ایک مفروضہ نام پلی ساسور (Plesiosaurs) رکھ دیا گیا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط تھا۔ یہ دھبے چٹانوں کے تھے، نہ کہ زندہ جانوروں کے۔
انسانی علم میں ہمیشہ اس قسم کی غلطیوں کا انکشاف ہوتا رہا ہے، پہلے بھی اور آج بھی۔ مگر قرآن میںآج تک اس قسم کی کسی غلطی کا انکشاف نہ ہوسکا۔ حالاں کہ قرآن ہر قسم کے موضوعات کو ٹَچ (touch) کرتا ہے۔ یہی ایک واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، وہ کوئی انسانی کلام نہیں۔ اگر وہ انسانی کلام ہوتا تو یقیناً اس کے اندر بھی وہی کمیاں پائی جاتیں جو تمام انسانوں کے کلام میں بلا استثنا پائی جاتی رہی ہیں۔ (ڈائری 1985)
واپس اوپر جائیں
انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد انسان کو فطری ترقی کا موقع فراہم کرنا ہے۔ خالق جب زمین پر ایک درخت اگاتا ہے تو وہ درخت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ زمین کے مواقع کو اویل کرے تاکہ مسلسل طور پر اس کا گروتھ (growth)جاری رہے۔ اب جو درخت ان مواقع کو اویل کرے وہ سرسبز اور بڑا درخت بنے گا، اور جو ایسا نہ کرے، وہ مرجھا کر فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےأَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ ۔ وَمَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ (
درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دسترخوان بناتا ہے ، وہ زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لیتا ہے، اور ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک تناور درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔
یہی فطری قانون اعلیٰ پیمانے پر انسان کے لیے جاری ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عام درخت اگر مادی وجود ہے تو انسان شعوری وجود۔ انسان کے لیے موجودہ دنیا میں نہ صرف مادی ترقی کا موقع ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کراس کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا موقع حاصل ہے۔ انسان سے اصل مطلوب یہی ذہنی ترقی یا ایمانی ترقی ہے۔ سنسیر (sincere) انسان ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے تو دوسری طرف " اوپر " سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔ وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتا ہے اور خالق سے بھی اس کی قربت برابر جاری رہتی ہے۔
اچھا درخت ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتا ہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بےزوری کی۔ ہر موقع پر ایک مومن کی زبان اور اس کا کردار وہی ردعمل ظاہر کرتا ہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔
اہل ایمان کی اس خصوصیت کو ایک حدیث ِرسول میں ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہےعَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999) ۔یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے، وہ شکر کرتا ہے تووہ اُس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔
اس حدیث میں مومن سے مراد مسلم گھر میں پیدا ہونے والا انسان نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ انسان ہے، جس کو ایمان ڈسکوری کی سطح پر حاصل ہوا ہو، جو تدبر(contemplation) اور تفکر (reflection) کی صفت کا حامل ہو۔ایسا انسان ہر چیز سے اپنے لیے معرفت کی غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ چیزوں کو خدائی تخلیق کے اعتبار سے دیکھتا ہے ۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ عسر میں یسر کو دریافت کرلیتا ہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھتا ہے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلاتا ہے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا ہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلاتی ہے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا کی حکومت قائم کریں۔ مگر یہ خدا کے منصوبۂ تخلیق سے بے خبری کا اعلان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں ہر لمحہ خدا کی حکومت کامل طورپر قائم ہے اور مومن وہ ہے جو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا اعتراف کرکے اس کے آگے اختیارانہ طورپر سرنڈر کر دے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا متقیانہ شہری بنا لے۔ اسی اختیاری اطاعت کا دوسرا نام ایمان ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے أَفَغَیْرَ دِینِ اللّہِ یَبْغُونَ وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ(
قرآن میںمختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ حق اور باطل کو واضح طورپر بیان کردیا ہے۔ اب جو شخص چاہے اُس کا مومن بنے اور جوشخص چاہے اُس کا انکار کردے (الکہف،
خدا کی اطاعت کا بجبر نافذ کیا جانے والا نظام خدا کے تخلیقی منصوبہ کی نفی ہے۔ اس لیے وہ خدا کا مطلوب عمل نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح قاہرانہ اطاعت کا نظام پوری انسانی تاریخ میں کبھی اس دنیا میں قائم نہیں ہوا، اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کا مطلوب ہی نہ تھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَخَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔ یعنی عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آپ نے کہا تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
اصل یہ ہے کہ ایک مرد و عورت جب نکاح کے تعلق میں اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے زندگی کا بھرپور تجربہ ہوتاہے۔ اس تعلق کے ذریعے ان کو ہر صبح و شام طرح طرح کے تجربے پیش آتے ہیں۔ کبھی اچھے اور کبھی بظاہر برے۔ اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ۔ کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات۔ کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے۔ کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے۔ کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں۔ کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ کیوں کہ موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے، اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ان تجربات کو سبق کے خانے میں ڈالے۔ ان تجربات کے ذریعے وہ ہمیشہ خیر کا پہلو تلاش کرے۔ ان تجربات کو وہ ہمیشہ وسیع تر معنی میں لے۔ ایک گھریلو تجربے کو وسیع ترمعنی میں زندگی کے تجربے کے طو رپر دیکھے۔ وہ ہر تجربے میں خیر کا پہلو تلاش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو نکاح کا تجربہ اس کے لیے پوری زندگی کی اصلاح کا تجربہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
طلاق (divorce) کیا ہے۔ طلاق کا مطلب یہ ہےکہ ایک بااختیار ادارہ کی طرف سے نکاح کے رشتے کو ختم کرنا
The legal dissolution of a marriage by a court or other competent body.
نکاح صرف ایک مرد اور ایک عورت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ نکاح قانون فطرت کا معاملہ ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب نکاح کے ذریعہ آپس میں رشتہ قائم کرتے ہیں تو وہ فطرت کے ایک قانون کو اپنے اوپر منطبق (apply)کرتے ہیں۔ فطرت کے جو قوانین ہیں، وہ سب کے سب بلا استثنا زندگی کے محکم اصول پر قائم ہیں۔ نکاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت اورایک مرد باہمی طور پر ایک دوسرے کے پارٹنر بنیں، اور کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کی تکمیل کریں۔
اس اعتبار سے طلاق خالق کے نقشۂ تخلیق کا حصہ نہیں۔ وہ انسان کے غلط استعمال آزادی (misuse of freedom) کا حصہ ہے۔ طلاق کسی انسان کے لیے ایک جذباتی ظاہرہ (emotional phenomenon) ہے۔ وہ انسان کی حقیقی ضرورت (real need) کا حصہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کا ایک ٹائم باؤنڈ منضبط طریقہ (prescribed method) مقرر کیا گیا ہے، جو تین مہینہ کے پراسس میں مکمل ہوتا ہے۔ جذباتی ارادہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ اس لیے طلاق کا ایک طویل کورس بنادیا گیا ہے۔ تاکہ آدمی اپنے ارادے پر از سر نو غور (rethinking) کرے، اور جذباتی فیصلہ کے بجائے سوچے سمجھے فیصلہ کو اختیار کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طلاق کا ارادہ ایک جذباتی ارادہ ہے۔ آدمی کو اگر سوچنے کا وقفہ دیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرے گا، اور نکاح کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔
میں ذاتی طور پر ایسے واقعات کو جانتا ہوں جب کہ ایک انسان نے نکاح کے بعد جذباتی طور پر طلاق کا ارادہ کیا۔ لیکن ایسے اسباب پیش آئے کہ وہ فور ی طور پر طلاق نہ دے سکا، بلکہ اپنے ارادے پر بالقصد یا حالات کے دباؤ کے تحت نظر ثانی کی۔ اس کے بعد اس کا ارادہ بدلا، اور اس نے منکوحہ عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ وہ یہ کہ مرد نے عور ت کی خصوصیات کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا، اور پھر ان خصوصیات کو استعمال (utilize) کیا۔ اس کے بعد دونوں کاگ وھیل (cogwheel) کی طرح مل کر کام کرنے لگے، اور انھوں نے غیر متوقع طور پر بڑی کامیابی حاصل کی۔
اصل یہ ہے کہ لوگ عام طور پر شادی شدہ عور ت کو اپنے لیے صرف ہوم پارٹنر (home partner) سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے لائف پارٹنرس ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے فطرت کی طرف سے دیے ہوئے انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، اور دونوں مل کر ایک دوسرے کے لیے تکملہ (counterpart) بن جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف قرآن میں طلاق کا ایک مقررہ طریقہ (prescribed course) ان الفاظ میں بتایا گیا ہے الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ (
موجودہ زمانے میں طلاق کو لے کر ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہے تین طلاق کا مسئلہ۔ تین طلاق کا طریقہ بدعت کا طریقہ ہےجو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی دور کا مسلم معاشرہ اس مبتدعانہ طریقہ سے پاک تھا۔ تین طلاق کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں عبد اللہ ابن عباس کی ایک روایت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں کَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِإِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِی أَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَہُمْ فِیہِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ، فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1472)۔ اس معاملے میں دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیںوَکَانَ عُمَرُ إِذَا أُتِیَ بِرَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا أَوْجَعَ ظَہْرَہُ (سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر
خلیفہ ثانی عمر فاروق نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین واقع کرنے کا جو عمل کیا، اس کی حیثیت حکم حاکم (executive order) کی تھی۔ اس کی حیثیت شریعت میں کسی تبدیلی کی نہ تھی۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حکم حاکم ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وہ محدود زمانے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اللہ کے حکم کی طرح قیامت تک کے لیے ایک ابدی حکم۔ لیکن بعد کے علما نے حاکم کے اجتہادی حکم کو عملاً امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ وہ خلیفہ عمر کے اسی عمل پر فتویٰ دینے لگے،جب کہ خلیفہ عمر کا ہرگز یہ منشا نہ تھا۔بعد کے علما کو یہ حق نہ تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو شرعی حکم کی طرح عام حکم کر دیں۔ اسی لیے عمر فاروق کے حکم کو عام کرنے کے باوجود ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ خطاکار کے پیٹھ پر کوڑے ماریں، اور اس کے بعد تین طلاق کو شرعی طور پر واقع کرنے کا فتوی دیں۔کیوں کہ کوڑا مارنے کا حق مسلمہ طور پر صرف حاکم کو ہے، کسی اور کو ہرگز نہیں۔جب علما کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خطاکار کو کوڑے ماریں تو ان کو یہ بھی حق نہیں تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو عام کریں، اور عام کرکے تین طلاق کو واقع کرنے کا طریقہ اختیار کریں۔ بعد کے علما کا یہی وہ اجتہادی طریقہ ہے ، جس سے تین طلاق (triple talaq) کا موجودہ مسئلہ پیدا ہوا۔
معروف عالم ابن تیمیہ( 661-728ھ) نے علما کی اس غلطی کو جانا اور انھوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ انھوں نے کہا إن طلقہا ثلاثا فی طہر واحد بکلمة واحدة أو کلمات...أنہ محرم ولا یلزم منہ إلا طلقة واحدة... فإن کل طلاق شرعہ اللہ فی القرآن فی المدخول بہا إنما ہو الطلاق الرجعی؛ لم یشرع اللہ لأحد أن یطلق الثلاث جمیعا (مجموع الفتاوى،
مگر ابن تیمیہ کے بعد سلفی علماکے سوا دوسرے علمانے ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کو عملاً تسلیم نہیں کیا۔ وہ بدستور اپنی سابق روش پر قائم رہے۔ اس معاملے میں بعد کےعلما کی روش ایک غلط فہمی پر قائم تھی۔ انھوں نے غلط طور پر قدیم علما کی روش کو اجماعِ امت کا مسئلہ بنا لیا۔ حالاں کہ ہرگز وہ اجماعِ امت کا مسئلہ نہ تھا۔ یہ بلاشبہ ایک غلط فہمی کا معاملہ تھا۔ خلیفہ عمر فاروق کے بعد آنے والے علما نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے حکم حاکم (executive order) کو امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ مزید غلطی یہ ہوئی کہ غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت کا درجہ دے دیا گیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ تھا۔ یعنی پہلےمرحلہ میں حکم حاکم کو امر شرعی کا درجہ دینا، اور پھر غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت سمجھ لینا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاملہ میں صحیح موقف کیا ہے۔ صحیح موقف یہ ہے کہ اس معاملے میں ماضی کی غلطی کی تصحیح کی جائے،اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ کے عمل کو حکم حاکم (executive order) کا درجہ دیا جائے، نہ کہ حکم شریعت کا درجہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعد کے علما نے جب خلیفہ عمر کے عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا شروع کردیا تو یہ فتویٰ ناقص فتویٰ کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیوں کہ ان علما نے طلاقِ ثلاثہ کو واقع کرنے کا فتویٰ تو دیا، جب کہ اس کے لازمی جزء ،یعنی کوڑا مارنےکو چھوڑ دیا۔اس طرح اس مسلک کی کوئی بنیاد نہ تھی۔ یہ مسلک نہ تو ابتدائی دور پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے مسلک پر۔ اس کا جواز نہ تو دور اول کے عمل پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے حکم حاکم کے عمل پر۔ اب ضرورت ہے کہ امام ابن تیمیہ کے فتویٰ کو اس معاملے میں دوسرے علما بھی درست مسلک کے طور پر اختیار کرلیں، جس طرح سلفی علما نے اس کو اختیار کرلیا ہے۔ یعنی طلاقِ ثلاثہ کو غضب پر محمول کرنا، اور اس کو ایک طلاق کا درجہ دینا۔
واپس اوپر جائیں
عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)جدید دنیا کے لیے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔ سائنس آف لائف کے مصنفین نے لکھا ہے کہ’’عضویاتی ارتقا کے حقیقت ہونے سے اب کسی کو انکار نہیں ہے۔ سوا ان لوگوں کے جو جاہل ہوں یا متعصب ہوں یا اوہام پرستی میں مبتلا ہوں۔‘‘ اس نظریہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ لل (R. S. Lull) کی سات سو صفحے کی کتاب میں زندگی کے تخلیقی تصور(special creation) پرصرف ایک صفحہ اور چند سطریں ہیں اور بقیہ تمام صفحات عضویاتی ارتقا کے بارے میں ہیں۔لل لکھتا ہے
’’ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہ ہو سکتی ہے اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
Organic Evolution, p.
ماڈرن پاکٹ لائبریری(نیویارک) نے(Man and the Universe) کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب میں ڈارون کی کتاب’’اصل الانواع‘‘ کو تاریخ ساز تصنیف قرار دیا ہے۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1958) میں تخلیق(creationism) کے نظریہ کو چوتھائی صفحہ سے بھی کم جگہ دی گئی ہے۔
اس کے مقابلہ میں عضویاتی ارتقا کے عنوان کے تحت جو مقالہ شامل کیا گیا ہے وہ باریک ٹائپ کے پورے چودہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقالے میں بھی حیوانات میں ارتقا کو بطور ایک حقیقت(fact) تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریہ کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں قبول عام(general acceptance) حاصل ہو چکا ہے۔ دورِ جدید کے اہلِ علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لی ہے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ کے علمائے حیاتیات عام طور پر نظریہ ارتقا کو تسلیم کرچکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ارتقا محض ایک نظریہ نہیں، وہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے۔ مگر جہاں تک دلیل کا تعلق ہے یہ دعوی ابھی تک ثابت نہ کیا جاسکا۔ نظریہ ارتقا ء کے حق میں تین قسم کی دلیلیں دی جاتی ہیں
1۔ ماں کے پیٹ میں انسان کا جنین مچھلی، چھپکلی، سور اور بندر کے جیسی صورتوں سے گزر کر انسان کی صورت تک پہنچتا ہے۔ ارتقا پسند علما کے نزدیک یہ مشاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اپنی تاریخ کے پچھلے دور میں انھیں جانوروں جیسا تھا۔ ان کے نقطہ نظرکے مطابق ماں کا پیٹ نو مہینوں میں انسان کی اس طویل حیاتیاتی تاریخ کو دہراتا ہے جو پیٹ کے باہر اربوں سال کے اندر وقوع میں آئی تھی۔
2۔ جانوروں اور انسان کے ڈھانچہ میں ایک ارتقائی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مچھلی سے لے کر انسان تک جانوروں کی جو مختلف قسمیں ہیں، ان کی ہڈیوں کے ڈھانچہ کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں بنیادی یکسانیت کے ساتھ ایک ارتقائی نسبت ہے۔ اوپر کی سطح کے جانور نچلی سطح کے جانور کی ارتقا یافتہ صورتیں معلوم ہوتے ہیں۔ حتی کہ انسان تک پہنچ کر یہ عملِ ارتقا اپنی کامل صورت اختیار کرلیتا ہے۔
3۔ چٹانوں کی تہوں میں قدیم جانداروں کی ہڈیاں متحجر حالت (fossilised state) میں پائی گئی ہیں۔ چٹانوں کا کیمیائی مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی تہیں ایک کے بعد ایک مختلف زمانوں میں بنی ہیں۔ اس طرح یہ چٹانی تہیں گویا کتابِ فطرت کے اوراق ہیں جو ماضی بعید کی داستان ہم کو بتاتے ہیں۔ چٹانوں کی مختلف تہوں میں متحجر ہڈیوں کے مطالعہ سے دریافت ہوا ہے کہ زمین کے اوپر جانداروں کی جو قسمیں پائی جاتی ہیں، وہ سب کی سب اول روز سے موجود نہ تھیں۔ بلکہ ان کے ظہور میں ایک ارتقائی ترتیب ہے۔ قدیم ترین تہوں میں مچھلی کی قسم کے جانوروں کی متحجر ہڈیاں ملتی ہیں، پھر چھپکلی کی قسم کے جانور، پھر دودھ پلانے والے جانور، پھر بندر، اور آخر میں انسان۔
جواب
یہ مشاہدات جن کے اوپر ارتقا کی استدلالی بنیاد قائم کی گئی ہے، وہ مشاہدات بجائے خود واقعہ ہوسکتے ہیں۔ مگر خالص علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کا کوئی بھی تعلق ارتقا کے مفروضہ سے نہیں ہے۔ ان کے ذریعہ اس نظریہ کے حق میں دلیل قائم نہیں ہوتی۔
1۔یہ بات بجائے خود ایک واقعہ ہے کہ انسان کے بچہ کا مشاہدہ جب ماں کے پیٹ میں کیا جاتا ہے تو ابتدائی ایام میں اس کے اور جانور کے بچہ میں بہت کم ظاہری فرق ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ مچھلی اور چوپائے کی شکلوں سے گزر کر انسان کی صورت اختیار کررہا ہے۔ مگر صرف اس مشاہدہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قدرت پانچ سو ملین سال کے عمل کو نو مہینوں میں دہراتی ہے۔ جس قدرت کو اس سے پہلے ایک انسان بنانے میں پانچ سو ملین سال لگ گئے، وہ اب صرف نو مہینوں میں کروروں انسان کس طرح بنا رہی ہے۔ اور اگر قدرت کے عمل کو مختصر کرنا ممکن ہے تو ایک عالم حیاتیات کے لیے یہ ممکن ہونا چاہیے کہ وہ ایک مچھلی کا انڈہ لے اور اس کو اپنی لیبوریٹری میں رکھ کر نو مہینے یا نوسال کے اندر اس کو انسان کی صورت میں تبدیل کردے۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بالکل ناممکن ہے۔
اس نظریہ کے بے بنیاد ہونے کی اس سے بھی زیادہ بڑی دلیل یہ ہے کہ فرد کی تمام خصوصیات اول روز ہی سے جین میں موجود ہوتی ہیں۔ بڑا ہو کر آدمی جن اوصاف کا حامل ہوتاہے، وہ سب اس کے اولین ڈھانچہ میں مکمل طورپر موجود رہتاہے۔ اس کا قد، اس کا رنگ، اس کا مزاج، اس کی ذہانت، سب کچھ اول دن ہی سے اس کے اندر پایا جاتا ہے۔بالفاظ دیگر، انسان کا بچہ پہلے دن سے انسان کا بچہ ہوتا ہے، وہ کسی لمحہ بھی مچھلی یا چھپکلی کا بچہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ماں کے پیٹ کے ابتدائی ہفتوں میں اور ہمارے مشاہدے کے پیمانہ میں وہ کس صورت کا دکھائی دے رہا ہے۔
2۔ ڈھانچہ میںارتقائی مشابہت سے بھی اصلاً جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف یہ کہ مختلف جاندار، اپنے بنیادی ڈھانچہ کے اعتبار سے، ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ بلکہ ان میں بعض پہلوؤں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ مگر اس سے کسی بھی طرح یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ایک قسم کا جانور دوسری قسم کے جانور کے پیٹ سے نکلا ہے۔ بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی اور کار کے ڈھانچوں میں بعض پہلوؤں سے مشابہت ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کس قدر عجیب ہوگا کہ بیل گاڑی کے بطن سے گھوڑا گاڑی نکلی ہے اور گھوڑا گاڑی کے بطن سے کار نے جنم لیا ہے۔ اور کار کے بطن سے ہوائی جہاز بر آمد ہوا ہے۔
3۔ متحجرات (fossils)کے مشاہدہ میں بھی مذکورہ بالا نظریہ کے لیے کوئی لازمی دلیل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں طبقاتی ترتیب کو اگر بلا بحث مان لیا جائے تب بھی اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ زمین کے اوپر حیوانات کی آباد کاری میں ایک ترتیب ہے۔ ایک قسم کے جانور ایک زمانہ میں وجود میں آئے۔ دوسری قسم کے جانور دوسرے زمانہ میں ۔ مثلاً جس زمانہ میں بندر وجود میں آئے، ٹھیک اسی زمانے میں انسانی نسل شروع نہیں ہوئی۔ اسی طرح جس زمانہ میں مچھلیاں یا چھپکلیاں بنیں، اسی وقت بندر کی نسل کا آغاز نہیں ہوا، وغیرہ۔ یہاں بھی یقیناً وہی آرگمینٹ ہے کہ اس سے تخلیق کی ترتیب ثابت ہوتی ہے، نہ کہ ارتقا کی ترتیب۔یعنی ایک کے پیٹ سے دوسرا، دوسرے کے پیٹ سے تیسرا نکلا۔ یہ ایک علیحدہ مفروضہ ہے۔ مذکورہ مشاہدات میں اس کے لیے براہ راست دلیل موجود نہیں ہے۔ متحجر ہڈیوں کے مطالعہ میں خواہ کتنی ہی احتیاط برتی جائے، ان سے جو بات ثابت ہوگی، وہ صرف یہی ہے کہ کس قسم کے جانور کی ہڈیاں کتنے ہزار سال سے زمین میں دفن ہیں، نہ یہ کہ کون سا جانور کس کے بطن سے نکلا ہے۔
موجودہ ارتقائی تحقیقات سے اگر کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو صرف یہ کہ زمین پر جو مختلف قسم کے جاندار پائے جاتے ہیں وہ سب بیک وقت اول روز سے زمین پر موجود نہیں ہوگئے ہیں۔ بلکہ ان کی تخلیق میں ایک زمانی ترتیب ہے۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہر جاندر اپنے وقت میں مستقل طورپر پیدا کیا گیا یا ایسا ہوا کہ بطریق تناسل ایک جاندار کے بطن سے دوسرا جاندار نکلتا رہا۔
جہاں تک دوسرے مفروضہ کا تعلق ہے اس کے حق میں ابھی تک کوئی دلیل یا مشاہدہ سامنے نہیں آیا ۔ دوسری طرف جاندار اول کی حدتک سائنسداں یہ مانتے ہیں کہ وہ پہلی بار مستقل طورپر وجود میں آیا ہے۔ پھر جو مفروضہ پہلے جاندار کے لیے صحیح سمجھا گیا ہے وہی دوسرے جاندار کے لیے بھی کیوں صحیح نہیں ہوسکتا۔ جب کہ تحقیقات نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پہلا جاندار امیبا (Amoeba) اپنے جسمانی نظام میں بعض اعتبار سے وہی تمام پیچیدگیاں رکھتا ہے جو آخری جاندار (انسان) میں پائی جاتی ہیں۔ اگر پہلے پیچیدہ جاندار کو پہلی بار وجود میں لانا قدرت کے لیے ممکن تھا تو دوسرے پیچیدہ جاندار کو پہلی بار وجود میں لانا اس کے لیے کیوں ناممکن ہوگیا۔
ایک مثال
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 ستمبر 2009) میں ایک خبر چھپی تھی۔ اِس خبر کاعنوان یہ تھا — خدا کا عقیدہ انسان کے دماغ میں پیوست ہے
Belief in God hardwired in our brain
خبر میں بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کی برسٹول یونی ورسٹی (Bristol University) میںایک رسرچ ہوئی ہے جس کا نتیجہ ٹائمس آن لائن (Times Online) میں چھپا ہے۔ اِس رسرچ میں بتایاگیاہے کہ— خدا کا عقیدہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتاہے۔ ارتقاکے دوران انسان کی اِس طرح پروگریمنگ ہوئی ہے کہ وہ خدا پر عقیدہ رکھے، کیوں کہ اِس سے اُنھیں زندہ رہنے کا زیادہ بہتر موقع ملتاہے
We are born believers. Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance to survival. (p.
اِس بیان میں عقیدہ خدا کا فطری ہونا تو رسرچ کا حصہ ہے، لیکن ارتقاء (evolution) والی بات رسرچ کرنے والوں کا اپنا اضافہ ہے— حقیقی مشاہدات میںاِسی قسم کے مفروضات کے اضافے سے حیاتیاتی ارتقا کا پورا نظریہ قائم کیاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ثابت شدہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس نظریہ کے علما نے بندر سے لے کر انسان تک کے تمام ڈھانچے (skull) جمع کیے ہیں۔ان کو سلسلہ واررکھ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک تدریجی تبدیلی (gradual change) ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کو آپ ’’تبدیلی‘‘ کہتے ہیں، اس کو میں اگر ’’فرق‘‘ کہوں تو آپ کے پاس اس کی تردید کی کیا دلیل ہوگی؟
یہ صحیح ہے کہ حیوانات کے درمیان جسمانی بناوٹ کے اعتبار سے فرق کے ساتھ کچھ مشابہتیں بھی ہیں۔ مثلاً ہاتھی اور چوہا ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن دونوں ریڑھ کی ہڈی والے جانور ہیں۔ یہی معاملہ انسان اور حیوان کا ہے۔ انسان اور حیوان کے ڈھانچہ میں بھی کچھ مشابہتیں ہے۔ مگر جب تک تجرباتی طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایک نوع سے دوسری نوع نکلی ہے، اس وقت تک ڈھانچہ کی اس مشابہت کو ارتقائی تبدیلی کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ حالت میں یہ مشابہت صرف فرق کو بتا رہی ہے۔ یعنی ہر ڈھانچہ اپنی ایک مستقل نوع کو بتا رہا ہے، نہ یہ کہ ایک سے دوسرا نکلا۔ دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے انسان بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظریۂ ارتقا کی بنیاد صرف خود ساختہ توجیہات پر ہے، نہ کہ حقیقۃً مشاہدہ اور تجربہ پر۔
جو علماءِ سائنس حیاتیاتی ارتقا کو سائنسی حقیقت کہتے ہیں، ان کے نزدیک اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے مختلف انواع (species) کے جسمانی مظاہر کا معاملہ۔ اور دوسرا ہے ، قانونِ ارتقا کا مطالعہ، جو ارتقا پسند علماکے مطابق، انواع کی تبدیلیوں کے درمیان مخفی طور پر جاری رہتاہے، جس کی بنیاد پر ، ان علما کے مطابق، ایک نوع کے جانور سے دوسرے نوع کا جانور نکلتا ہے۔
ایک ارتقائی عالم جب انواع حیات کے جسمانی مظاہر کا مطالعہ کرتا ہے تو گویا کہ وہ ’’اشیا‘‘ کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب وہ ارتقائی قانون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے موضوع کے اس پہلو کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے جس کو قیاس یاآئڈیا کہا جاتا ہے۔
ہر ارتقائی عالم جانتا ہے کہ دونوں پہلوؤں کے درمیان نوعی فرق پایاجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جہاں تک اشیا (جس کی بنیاد پر شواہدِ ارتقااکٹھا کیے جاتے ہیں)کا تعلق ہے، اس کے براہ راست دلائل قابل حصول ہیں۔ مثال کےطور پر متحجرات (fossils) جو کھدائی کے ذریعہ زمین کی تہوں سے کثرت سے برآمد کیے گئے ہیں، ان کا مطالعہ مشاہداتی سطح پر ممکن ہے۔
اس کے برعکس، قانونِ ارتقا کے معاملہ میں موضوعی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے اس پر براہ راست استدلال ممکن نہیں۔مثلاً ارتقائی عمل کے دوران اشکال میں اچانک تبدیلیوں (mutations) کا نظریہ تمام ترقیاسات پر مبنی ہے، نہ کہ براہ راست مشاہدات پر۔ اس دوسرے معاملہ میں خارجی تغیرتو دکھائی دیتا ہے، مگر قانونِ تغیر بالکل نظر نہیں آتا۔ اسی لیے ہر ارتقا پسند عالم، ارتقاکے موضوع کے اس دوسرے پہلو میں بالواسطہ استدلال سے کام لیتا ہے جس کو علم منطق میں استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔
تبدیلی کا یہ نظریہ ارتقا (evolution)کی بنیاد ہے۔ تاہم اس معاملہ کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک جزء مشاہدہ میں آتا ہے،یعنی اشیا۔ مگر اس کا دوسرا جزء مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے۔ وہ صرف استنباط کے اصول سے کام لے کر فلسفہ ٔ ارتقا میں شامل کیا گیا ہے۔
یہ ایک عام واقعہ ہے کہ انسان یا جانور سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ ان میں مختلف اعتبار سے کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اس حیاتیاتی مظہر کا سائنسی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ رحم مادر میں بچہ کے جینز کے اندر اچانک طور پر خود بخود تبدیلیاں (spontaneous changes) پیدا ہوتی ہیں۔ یہی تبدیلیاں ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں میں فرق کا سبب ہیں۔
اولاد میں ایک دوسرے کے درمیان یہ فرق ایک مشاہداتی واقعہ ہے۔ مگر اس کے بعد اس مشاہدہ کی بنیاد پر ڈارون نے جو ارتقا کا فلسفہ بنایا ہے وہ مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے، وہ صرف قیاسی استنباط کے ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ گویا اشیااور ان کے ڈھانچے کےدرمیان بناوٹ کا فرق قابل مشاہدہ ہے، مگر ایک نوع سے دوسرے نوع کے نکلنے کامفروضہ ارتقائی قانون ناقابل مشاہدہ۔
یہاں ارتقاپسند عالم یہ کرتا ہے کہ ایک سرے پر وہ ایک بکری کو رکھتا ہے اور دوسرے سرے پر ایک زرافہ کو۔ اس کے بعد وہ فاصل کے کچھ درمیانی نمونوں کو لے کر یہ نظریہ بناتا ہے کہ ابتدائی بکری کے کئی بچوں میں سے ایک بچہ کی گردن اتفاقاً کچھ لمبی تھی۔ اس کے بعد اس لمبی گردن والی بکری کی اولاد ہوئی اس میں گردن کی لمبائی کچھ اور بڑھ گئی۔ اسی طرح کروروں سال کے دوران گردن کی یہ لمبائی نسل در نسل جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ ابتدائی بکری کی اگلی اولاد آخر کار زرافہ جیسا جانور بن گئی۔ اسی نظریہ کے تحت چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع (On the Origin of Species)میں لکھا ہے کہ مجھ کو یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ ایک معمولی کُھردار چوپایہ زرافہ جیسے جانور میں تبدیل ہو سکتا ہے
...it seems to me almost certain that an ordinary hoofed quadruped might be converted into a giraffe. (p.
اس معاملہ میں بکری کی اولاد میں فرق ہونا بذات خود ایک معلوم واقعہ ہے۔ مگر اس فرق کا کروروں سال تک نسل در نسل جمع ہوتے ہوئے اس کا زرافہ بن جانا، مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ اور ناقابل تجربہ ہے۔ ارتقا کا نظریہ ایک جانور اور دوسرے جانور کے درمیان نظر آنے والے فرق کی بنیاد پر استنباط کے ذریعہ اخذ کیا گیاہے، نہ کہ براہ راست طور پر خود مشاہدہ کے ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں
حیاتیاتی ارتقا کے متعلق چارلس ڈارون کی کتاب 1859 میں شائع ہوئی تو مغربی اقوام کے درمیان اس کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں زندگی کی پیدائش کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا گیا تھا وہ اس کے نام سے ظاہر ہے۔ اس کے پہلے ایڈیشن میں ٹائٹل پر حسبِ ذیل نام درج تھا
The Origin of Species of Natural Selection, or the Preservation of Favoured Species in the Struggle for Life.
ڈارون کے نظریہ کا خلاصہ یہ تھا کہ کسی جاندار سے جب چند بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی کا فرق اس کو دوسرے ہم جنسوں کے مقابلہ میں زیادہ بہتر پوزیشن میں کردیتاہے، اسی بنا پر وہ زندہ رہتا ہے اور دوسرے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ فرق توالد وتناسل کے ذریعہ بڑھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لاکھوں سال میں یہ نوبت آتی ہے کہ ایک نوع کا جانور دوسری نوع میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مثلاً بکری کا گھوڑا بن جانا۔ اس طرح مختلف جاندار ارتقا کی سیڑھیوں پر چڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ انسان وجود میں آجاتا ہے۔
بظاہر اس خوبصورت نظریہ میں بہت سے خلا تھے۔ مثلاً یہ کہ ارتقا اگر ایک مسلسل عمل ہے تو کیوں ایسا ہے کہ زمین کے طبقات سے حاصل ہونے والے متحجرات صرف کمال کے مرحلہ کو پہنچے ہوئے انواع حیات کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔کیوں نہ ایسا ہوا کہ درمیانی مرحلہ کی قسمیں بھی کثیر تعداد میں موجود ہوتیں۔ یعنی ایسے جانور جو آدھا ایک جیسے ہوں اور آدھا دوسرے جیسے
If evolution has been a continuous process, why does the fossil record only show us apparently settled and established species. Why does it not include an abundance of intermediate forms.
ڈارون کا جواب یہ تھا کہ فاسلز کا ذخیرہ ابھی ناتمام ہے۔ آئندہ جب زیادہ فاسلز دستیاب ہوچکے ہوں گے تو یہ کمی دور ہوجائے گی۔ ڈارون کے بعد مزید بہت زیادہ فاسلز انسان کے علم میں آئے۔ مگر مذکورہ کمی اس کے باوجود بدستور باقی رہی۔
اس قسم کی کثیر خامیوں کے باوجود ڈارونزم کو کیوں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نظریہ 19ویں صدی کے مغربی انسان کی نوآبادیاتی توسیع پسندی کے عین مطابق تھا۔ برٹرینڈرسل کے الفاظ میں ’’یہ آزاد اقتصادیات کے اصول کونباتات اور حیوانات کی دنیا تک وسیع کرنا تھا
It was an extension to the animal and vegetable world of laissez-faire economics.
ــــــــــــــــــــــــــــ
نظریہ ارتقا کے دلائل جس معیارِ استد لال پراترتے ہیں، وہ کون سا معیار ہے۔ یعنی نظریۂ ارتقا کا براہ راست تجربہ نہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا، جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔ڈارونزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہیں کیا گیا ہے، یہ صرف ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ پھراس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اے ای مینڈر کے الفاظ میں یہ ہے
1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ(consistent) ہے۔
2۔ اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی توجیہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جا سکتے۔
3۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔
Clearer Thinking, p.
یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لیے معیارِ استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے، یہی استدلال زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے، ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہراتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں 2003میں کسی قدیم انسان کا ایک متحجرڈھانچہ (fossilized skeleton)ملا۔ ماہرین کی ایک انٹرنیشنل ٹیم نے گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ اِس مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اُس سے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ 18 ہزار سال پرانا ہے۔ اِس مطالعے کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8مارچ 2010) میں چھپا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ— یہ دریافت اچانک انسانی ارتقا کے بارے میں سائنسی نظریات کے خلاف ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ انسانی ارتقا کا عمل اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے، جیسا کہ پہلے سمجھ لیا گیا تھا
Almost overnight, the find threatened to change science's understanding of human evolution. It would mean contemplating the possibility that not all the answers to human evolution lie in Africa, and that human development was more complex than thought (p.
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دریافت نظریۂ ارتقا کے لیے بڑا چیلنج (big challenge) نہیں، بلکہ یہ نظریہ ارتقا کی ایک بڑی تردید ہے۔ اِس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا ء کا نظریہ اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ اس کو سمجھ لیا گیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا واقعہ اِس سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کے ذریعہ اس کی توجیہ ہوسکے
Human development is complex enough to be explained by the evolution theory.
حقیقت یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ صرف ایک مفروضہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی علمی نظریہ۔ جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وہ صرف اِس لیے پھیل گیا کہ اُنھیں یہ نظر آیا کہ یہ اُن کے لیے ایک ورک ایبل (workable) نظریہ ہے۔ تاہم اِس نظریے کا ثابت شدہ واقعہ ہونا، ابھی تک اہلِ علم کے درمیان اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نظریۂ ارتقا کے حامیوں نے بہت سے ’’قدیم انسان‘‘ دریافت کیے ہیں۔ مثلاً پلٹ ڈاؤن مین، نینڈر تھل مین (neanderthal man)، پیکنگ مین، جاوا مین وغیرہ۔ قدیم انسان کی یہ تمام صورتیں فاسل کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں جو زمین میں کھدائی سے برآمد ہوئی ہیں۔ نظریۂ ارتقا زندگی کی مختلف قسموں کے لیے جس عمل کو فرض کرتا ہے اس کے مطابق درمیانی انواعِ حیات (intermediate species) کا وجود بھی لازماً ہونا چاہیے۔ مگر ایسی انواع ابھی تک گم شدہ کڑیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈارون نے تسلیم کیا تھا کہ درمیانی انواعِ حیات کے نمونے ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ تاہم ڈارون کے بعد قدیم فاسلز کی بنیاد پر بہت سی عجیب وغریب انسانی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ اور یہ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی سلسلۂ حیات کی قدیم ارتقائی کڑیاں ہیں۔
انھیں میں سے ایک نینڈر تھل مین ہے جو جرمنی کی نینڈر نامی وادی کی طرف منسوب ہے۔ اس قسم کی ہڈیاں اور ڈھانچے 1856سے 1908تک ایشیا ، یورپ، شمالی افریقہ کے تقریباً 50 مقامات پر ملے۔پروفیسر بول (Marcellin Boule) نے ان ٹکڑوں کا مشاہدہ کرکے ان کی جو تعبیر کی، اس کو عام طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کو ابتدائی انسانی سلسلے کی ایک کڑی مان لیا گیا— گم شدہ کڑیوں میں سے ایک کڑی معلوم کرلی گئی۔
نینڈر تھل مین کی تصویریں کتابوں میں چھپنے لگیں۔ حتى کہ اس کے مجسمے بن گئے۔ مگر بعد کو علمائے حیاتیات نے جو تحقیقات کیں، اس نے بتایا کہ پروفیسر بول نے اندازہ کرنے میں کئی اہم غلطیاں کی تھیں۔ 1955میں ولیم اسٹرابس (جانسن ہاپکنس یونیورسٹی) اور اے۔جے۔ ای۔کیو (لندن) نے نینڈر تھل مین کے بنائے گئے ڈھانچہ کا از سر نو جائزہ لیا۔ یہ رپورٹ مکمل طورپر کوارٹرلی ریویو میں چھپ چکی ہے
Quarterly Review of Biology XXXIII (1957)
محققین لکھتے ہیں کہ نینڈر تھل مین کا ڈھانچہ ،جو کہ
F. Clark Nowell, Early Man, New York, Time-Life Book, 1968, pp. 123-24
ـــــــــــــــــــــــــــــ
امریکاکے ایک کمپیوٹر اسپیشلسٹ مسٹر ڈیوڈ (David Coppedge) جو ناسا (NASA) میں ایک بڑی پوسٹ پر تھے، اُن کو سروس سے نکال دیاگیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ تخلیق کے بارے میں انٹیلی جنٹ ڈزائن (intelligent design) کے تصور کو مانتے تھے۔این بی سی نیوز (
a higher power must have had a hand in creation because life is too complex to have developed through evolution alone .
www.nbcnews.com/id/wbna46701591 (accessed on 03.
ایک امریکی اسکالر جان ویسٹ (John West) نے اِس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیوڈ کا ریمارک ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مشتبہ ثابت کرتاہے، جب کہ ماڈرن طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف عملاً ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ڈارون سے اختلاف کرے۔
واپس اوپر جائیں
Centre for Peace and Spirituality (CPS International) is greatly thankful to the Government of India for conferring the second highest civilian award,Padma Vibhushan 2021 on our founder Maulana Wahiduddin Khan. With great humility we accept the prestigious award in recognition of his lifelong work in the area of Peace and Spirituality.
Dr. Saniyasnain Khan, his son received the award and conveyed his heartfelt thanks on behalf of his entire family and CPS members worldwide. He said that the award has instilled renewed enthusiasm and passion among all the followers of Maulana Sahab and that his work towards Global Peace, Spirituality, Interfaith Harmony and Nation Building will continue with greater vigour and teamwork than before.
Further, he added that the dream of Maulana Sahab to see India as a spiritual superpower will be one of the important tasks of the Centre.
سی پی ایس انٹرنیشنل اپنے بانی مولانا وحید الدین خاں کو حکومت ہند کی جانب سےدوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم وبھوشن 2021 عطا کرنے پرحکومت ہندکا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔ امن اور اسپریچوالٹی کے شعبے میں مولانا کی تاحیات خدمات کے اعتراف میں دیے گئے اس باوقار ایوارڈ کو ہم انتہائی ادب کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔
مولاناوحیدالدین خاں کے صاحبزادے ڈاکٹر ثانی اثنین خان نے 9 نومبر2021 کو صدرجمہوریہ ہند رام جناب ناتھ کووند کے ہاتھوں یہ ایوارڈ حاصل کیا، اور اپنے اہل خانہ اور دنیا بھر میں موجود سی پی ایس انٹرنیشنل کے اراکین کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پرڈاکٹر ثانی اثنین خان نے کہا کہ اس ایوارڈ نے مولانا وحیدالدین خاں کے عالمی امن و روحانیت کے مشن ، اور ان کےتمام پیروکاروں میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا ہے۔ انھوں نے امیدظاہر کی کہ مولانا کے ذریعے جاری کردہ انٹرفیتھ ہارمنی اور قومی تعمیر کا کام پہلے سے زیادہ جوش وخروش اور ٹیم ورک کے ساتھ جاری رہے گا۔ ہندوستان کو روحانی سپر پاور کے طور پر دیکھنامولانا وحیدالدین خاں کا خواب تھا،اس سمت میں سی پی ایس انٹرنیشنل کام کرتا رہے گا۔
واپس اوپر جائیں
نظریہ ارتقا کا دعویٰ ہے کہ انسان اور حیوان دونوں ایک ہی نسل سے ہیں۔ انسان دوسرے حیوانات ہی کی ترقی یافتہ نوع ہے، نہ کہ کوئی علاحدہ نوع۔ اس دعویٰ کے سلسلے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ ہے تو بیچ کی وہ انواع کہاں ہیں جو مفروضہ ارتقائی عمل کے مطابق ابھی موجودہ انسان کے مقام تک نہیں پہنچی تھیں۔وہ ابھی حیوان اور انسان کے درمیان تدریجی ارتقا کے مراحل طے کررہی تھیں۔
اس نظریہ کے حامیوں کے پاس اس کے جواب میں قیاس وگمان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ڈارون نے اپنی کتاب میں بار بار ’’ہم بخوبی قیاس کرسکتے ہیں (We may well suppose)‘‘کا جملہ استعمال کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یقیناً ایسا ہوا ہے، اگرچہ ابھی ہمیںاس کے تمام نمونے حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اس فرضی یقین کی بنیاد پر ایک پورا شجرۂ نسب تیار کرلیا گیا ہے جو انسان کی نسل کو بندر کی نسل تک جا ملاتا ہے۔ بندر اور انسان کے درمیان کی یہ کڑیاں تمام کی تمام مفروضہ کڑیاں ہیں مگر بالکل غلط طورپر ان کو گم شدہ کڑیاں (missing links)کہا جاتا ہے۔
ان خیالی قسم کی گم شدہ کڑیوں کی تلاش پچھلے ایک سوسال سے جاری ہے۔ بار بار دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں گم شدہ کڑی ہاتھ آگئی ہے۔ انھیں میں سے ایک کڑی وہ ہے جس کو پلٹ ڈاؤن مین (Piltdown Man)کہا جاتا ہے۔
پلٹ ڈاؤن مین کو تقریباً آدھی صدی تک ’’عظیم دریافت‘‘ کہا جاتا رہا ۔ یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ ماقبل تاریخ کا وہ انسان ہے جو ایک طرف انسانی اوصاف کا حامل تھا اور دوسری طرف وہ بندر (چمپینزی) کی بھی کچھ خصوصیات اپنے اندر رکھتا تھا۔تاریخ کی کتابوں میں باقاعدہ اس کے حوالے شامل ہوگئے۔ وہ کالجوں کے نصاب میں پڑھایا جانے لگا۔ مثال کے طورپر آرایس لَل (R.S. Lull) کی مشہور کتاب عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)سات سو صفحات پر مشتمل ہے اور ٹکسٹ بک کی حیثیت سے رائج ہے۔ اس میں انسان اور حیوان کے درمیان جن معلوم کڑیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل چار ہیں
1. Ape-man of Jawa.
2. Piltdown man
3. Neanderthal Man
4. Cro-magnon Man
مگر بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین ایک مکمل فریب تھا۔ اس سلسلہ میں سائنس دانوں کے تحقیقی نتائج مختلف کتابوں اور مقالات میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کو جاننے کے لیے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ یا ’’پلٹ ڈاؤن فورجری‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ کافی ہے۔ جس کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں
1. Bulletin of the British Museum (Natural History), Vol. 2, No. 3 and 6
2. J.S. Weiner, The Piltdown Forgery (1955)
3. Ronald Millar, The Piltdown Man (1972)
4. Reader's Digest, November 1956
5. Popular Science (Monthly) 1956
چارلس ڈاسن (Charles Dawson) نامی ایک انگریز متحجر ہڈیوں (Fossil Bones) کے جمع کرنے کا بہت شوقین تھا۔ 1912ء کا واقعہ ہے کہ وہ کچھ ہڈیوں کو لے کر برٹش میوزیم پہنچا اور یہ خبر دی کہ یہ ٹکڑے اسے جنوبی انگلینڈ کے ایک مقام پلٹ ڈاؤن (Piltdown) میں ایک کھوہ کے اندر کنکریوں کے درمیان پڑےہوئے ملے ہیں۔ برٹش میوزیم کے ایک نامور عالم ڈاکٹر آرتھر اسمتھ وڈورڈ (A.S. Woodward) نے اس میں خصوصی دلچسپی لی اور بتائے ہوئے مقام پر پہنچ کر کھدائی کے ذریعہ مزید ٹکڑے حاصل کیے۔ اس طرح بیس سے کچھ زیادہ ہڈیوں اور دانت کے ٹکڑے جمع کرکے ان کا مطالعہ شروع کیا گیا۔
ان حاصل شدہ ٹکڑوں میں سب سے زیادہ نمایاں ایک جبڑے کا ٹوٹا ہوا حصہ تھا جو واضح طورپر ایک بندر کا جبڑا معلوم ہوتا تھا۔ مگر اس میں ایک خاص چیز بندر سے مختلف تھی۔ یہ اس میں لگے ہوئے داڑھ کے دو دانت تھے جن کی اوپر کی سطح ہموار (flat) تھی۔ جو کہ صرف کسی انسانی دانت ہی میں ہو سکتی ہے۔ چنانچہ قیاس کرلیا گیا کہ یہ جبڑا کسی قدیم انسان کا ہے۔ اور اس کے بعد نہایت آسانی سے اس کو ارتقا کی ایک گم شدہ کڑی قرار دے دیا گیا۔ تلاش کرنے والوں نے جلد ہی پلٹ ڈاؤن کے آس پاس وہ کھوپڑی بھی حاصل کرلی جو دورِ سابق کے اس انسان کے سر پر قدرت نے پیدا کی تھی۔
مذکورہ بالا کھوہ میں ماقبل تاریخ کے زمانے کے کچھ جانوروں کے آثار ملے جن سے یہ متعین ہوگیا کہ ’’پلٹ ڈاؤن مین‘‘ قدیم برفانی دور کا انسان ہے جو پانچ لاکھ سال پہلے زمین کے اوپر گزر چکا ہے۔اس تحقیق نے دوسری معلوم کی ہوئی گم شدہ کڑیوں کے مقابلہ میں اس کو قدیم ترین معلوم انسان کی حیثیت دے دی۔ چارلس ڈاسن عظیم اعزازات کا مستحق قرار دیاگیا۔ کیوں کہ اس نے سائنس کی ایک پیچیدہ گتھی کو حل کرنے میں مدد دی تھی۔
پتھر میں تبدیل شدہ یہ انسانی ہڈیاں جو حاصل ہوئی تھیں وہ پورے انسانی ڈھانچہ کے صرف بعض اجزاء تھے۔ مگر ماہرین نے ان کی روشنی میں قوت تخیل (power of imagination) سے کام لے کر پانچ لاکھ سال پہلے کے انسان کا ایک پورا ڈھانچہ تیار کرلیا جو اپنی بے ڈھنگی پیشانی اور بندر نما جبڑوں کے ساتھ چالیس سال تک سائنس دانوں کا مرکز توجہ بنا رہا۔ مگر 1950ء میں یکایک پلٹ ڈاؤن مین کی حیثیت کو سخت دھکا لگا۔ جب طبقات الارض کے ایک عالم ڈاکٹر کنتھ آکلے (Kenneth Oakley) نے ایک کیمیاوی طریقے کو استعمال کرکے اس کی تاریخ معلوم کی۔
یہ ایک اصول ہے کہ کوئی ہڈی جتنے دنوں تک زمین میں دفن پڑی رہے گی وہ اسی کے بقدر زیادہ مقدار میں ایک مخصوص عنصر کو جذب کرتی ہے جس کا نام فلورین (Fluorine)ہے۔ ڈاکٹر آکلے کے تجربے سے معلوم ہوا کہ حاصل شدہ ہڈیوں میں جتنی فلورین پائی جاتی ہے، اس کے لحاظ سے اس کی عمر صرف پچاس ہزار سال ہونی چاہیے، نہ کہ پانچ لاکھ سال۔
بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین کی کھوپڑی کے متعلق آکلے کا اندازہ بالکل صحیح تھا۔ مگر اسی کی بنیاد پر اس نے جبڑے کی عمر بھی جو اسی قدر فرض کر لی تھی، وہ صحیح نہیں تھی۔ جبڑا درحقیقت موجودہ زمانے کے ایک بندر کا تھا جو فرضی طورپر مذکورہ کھوپڑی کے ساتھ جوڑ دیاگیا تھا۔
آکلے کی مذکورہ دریافت نے پلٹ ڈاؤن کو دوبارہ ایک معما بنا دیا کیوں کہ پانچ لاکھ سال پہلے کے ایک ڈھانچے کو تو گم شدہ کڑی فرض کیا جاسکتا تھا مگر ایک ایسا جاندار جو صرف پچاس ہزار سال پہلے موجود رہا ہو اس کا گم شدہ کڑی ہونا بالکل ناقابل قیاس تھا۔
اس کے بعد 1953ء کی ایک شام کو لندن کی ایک دعوت میں آکلے کی ملاقات آکسفرڈ یونیورسٹی میںانسانیات کے ایک پروفیسر ڈاکٹر وینر (J.S. Weiner)سے ہوئی۔ ڈاکٹر وینر ڈاکٹر آکلے کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد گھر آکر اس نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اس کی حقیقت کیا ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی اس کو پلٹ ڈاؤن مین کے دانت کے بارے میں تھی۔ ’’ایک بندر نما جبڑے میں انسانی دانت جو اس طرح ہموار ہیں جیسے کسی نے ریتی سے ......‘‘ یہ سوچتے ہوئے اچانک ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آیا‘ ’’ایسا تو نہیں ہے کہ کسی نے ریتی سے گھس کر ان دانتوں کو چکنا کردیا ہو۔‘‘ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ حقیقت کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اب وہ اپنے سامنے تحقیق کا ایک نیا میدان پا رہا تھا۔
دینر نے اپنے ایک ساتھی سرولفر ڈلی گروز کلارک (Sir Wilfred Le Gros Clark) کی معیت میں چمپینزی (بندر کی ایک قسم) کا ایک داڑھ کا دانت لیا، اس کو ریتی سے گھِس کر ہموار کیا اور اس کے بعد اسے رنگ کر دیکھا تو وہ پلٹ ڈاؤن کے دانت کے بالکل مشابہ تھا۔ اس کے بعد وہ دونوں برٹش میوزیم گئے تاکہ پلٹ ڈاؤن مین کے جبڑے حاصل کرکے اس کے متعلق اپنے قیاس کی تحقیق کریں۔ لوہے کا ایک مقفل بکس جو خاص طورپر فائر پروف بنایا گیا تھا، اس کے دروازے کھولے اور اس کے اندر سے پلٹ ڈاؤن کے ڈھانچے کے ’’مقدس‘‘ ٹکڑے نکالے گئے تاکہ سائنسی طریقوں کے مطابق ان کا گہرا تجزیہ کیا جائے۔ اکسرے مشین اور دوسرے جدید قسم کے آلات حرکت میں آگئے۔ ایک مخصوص قسم کا کیمیاوی طریقہ بھی استعمال کیا گیا جو نائٹروجن کی کمی کو معلوم کرکے یہ بتاتا ہے کہ اس پر کتنا وقت گزر چکا ہے۔
وینر کا قیاس صحیح تھا۔ ان مشاہدات سے معلوم ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین کے جبڑے کی ہڈی کوئی پرانی ہڈی نہیں تھی بلکہ عام قسم کے ایک بندر سے حاصل کی گئی تھی۔ ہڈی کا قدرتی رنگ چونکہ فاسلز (fossils) ہونے کے بعد بدل جاتا ہے، اس لیے فریب دہندہ نے نہایت ہوشیاری سے اس کو مہوگنی رنگ میں رنگ دیا تھا۔ رنگ کو عین مطابق بنانے کے لیے چند مخصوص اجزاء استعمال کیے گئے تھے۔ گہرے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ دانت کی سطح پر ایسے خراش موجود ہیں جو بلا اشتباہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ دانت مصنوعی طورپر رگڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کناروں میں غیر فطری قسم کی تیزی بھی تھی جو کہ صرف ریتی سے رگڑنے ہی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
1953ء میں مندرجہ بالا تینوں محققین (آکلے، وینر، کلارک) نے اعلان کیا کہ جبڑا اور دانت بالکل فرضی ہیں — اس کے بعد وینر نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اتنا بڑا فریب جو گھڑا گیا اس کا مصنف کون تھا۔ اس نے تمام ممکن تفصیلات جمع کرنا شروع کیں، ملک بھر کے سفر کیے تاکہ پلٹ ڈاؤن کے واقعہ سے متعلق جو افراد ہیںان سے گفتگو کرے، جو لوگ مرچکے تھے وہ ان کے عزیزوں اور دوستوں سے ملا۔ اخبار کے قدیم فائلوں سے اس سلسلے کی تمام رپورٹیں پڑھ ڈالیں۔
اس گہرے مطالعہ کے بعد پلٹ ڈاؤن کے واقعہ سے تمام افراد بالکل بری نظر آئے۔ مگر ایک شخص (چارلس ڈاسن) اس سے مستثنیٰ تھا۔ جو اس واقعہ کا ہیرو تھا۔ تمام معلومات اشارہ کررہی تھیں کہ اس بے بنیاد بات کا اصل مصنف ڈاسن ہی ہے۔
چارلس ڈاسن ایک کامیاب قانون داں تھا۔ وہ انگلینڈ کے اس مخصوص خطے کا باشندہ تھا جہاں متحجرات (fossils) کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ڈاسن کو متحجرات سے بہت دل چسپی پیدا ہوگئی اس کا یہی مشغلہ بن گیا کہ وہ متحجر ہڈیاں جمع کیا کرتا تھا۔ پلٹ ڈاؤن مین کے واقعہ سے پہلے وہ دور قدیم کے متعدد جانوروں کے ڈھانچے حاصل کرکے لندن کے عجائب خانے میں بھیج چکا تھا۔
بعد کو ڈاسن کو وہ مذاق سوجھا جس نے 40 سال سے زیادہ مدت تک اہل علم کو فریب میں مبتلا رکھا۔ ڈاسن کے ایک ملاقاتی نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ آواز دئے بغیر ڈاسن کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ ڈاسن کچھ تجربات میں مشغول ہے۔ وہ مختلف برتنوں میں کھاری اجزاء اور رنگین عرق ڈال کر ہڈیوں کو اس میں ڈبوئے ہوئے تھا۔ ڈاسن نے اس کو دیکھ کر گھبرائے ہوئے انداز میں وضاحت کی کہ وہ متحجر ہڈیوں کو رنگ رہا تھا تاکہ یہ معلوم کرے کہ قدرتی طورپر ان کا جو رنگ ہے وہ کیسے بنتا ہے۔ اس قسم کے اور واقعات معلوم ہوئے جنھوں نے اس خیال کی تصدیق کردی کہ اس گھڑے ہوئے فریب کا مصنف ڈاسن ہے۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب کہ اس سے بہت پہلے ڈاسن 1916 میں
ڈاسن نے اپنے جھوٹ کو مکمل کرنے کے لیے ایک اور تدبیر کی۔ اس نے پتھر کے کچھ اوزار پیش کیے اور بتایا کہ یہ اسے پلٹ ڈاؤن کے مقام پر ملے ہیں۔ چنانچہ یہ تسلیم کرلیا گیا کہ یہ پتھر کے وہ اوزار ہیں جن سے پانچ لاکھ سال پہلے کا ناقص انسان کام لیا کرتا تھا۔ مگر بعد کی تحقیقات نے ان کو بھی بالکل جعلی ثابت کردیا۔ ڈاسن نے اسی قسم کا ایک پتھر کا اوزار ہیری موریز (Harry Morris)کو دیا تھا۔ موریز ایک بینک کلرک تھا اور پتھر کے پرانے نمونے جمع کرنے کا شائق تھا۔ بعد کو موریز اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ پتھر کا اوزار بالکل جعلی ہے۔ موریز نے اس پتھر کو اپنی مخصوص الماری میں دوسرے نمونوں کے ساتھ رکھ چھوڑا تھا۔ جب وینر کو اس کی اطلاع ملی تو اس کا شوق بڑھا مگر اس سے بہت پہلے موریز کا انتقال ہوچکا تھا۔
وہ پتھر کہاں ہے؟ وینر کو یہ سوال پریشان کرنے لگا۔ موریز کے مرنے کے بعد اس کی الماری د و ہاتھوں میں منتقل ہوچکی تھی۔ تاہم وینر نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ الماری کھولنے پر معلوم ہوا کہ اس کے اندر بارہ خانے ہیں جن میں بہت سے نمونے لیبل لگے ہوئے رکھے ہیں۔ آخری خانے میں پلٹ ڈاؤن کا پتھر کا اوزار تھا اس پر موریز کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ الفاظ درج تھے
‘‘Stained by C. Dawson with intent to defraud”.
یعنی اس کو ڈاسن نے بالکل جعلی طورپر خود اپنے ہاتھ سے رنگا تھا تاکہ دنیا کو دھوکا دے کہ یہ بہت پرانے زمانے کا اوزار ہے۔ ایک نوٹ میں موریز نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہائیڈروکلورک ایسڈ پتھر کے بھورے رنگ کو ختم کرکے اس کو معمولی سفید رنگ کے پـتھر میں تبدیل کردیتا ہے۔
تبصرہ
یہ واقعہ بتارہا ہے کہ دور قدیم کی ہڈیوں کے ٹکڑے جمع کرکے ان کی بنیاد پر جو قیاسی ڈھانچے کھڑے کیے گئے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ بے شک دور قدیم میں کوئی ڈاسن موجود نہیں تھا جو ہم کو دھوکا دینے کے لیے ان ہڈیوں کا حلیہ بگاڑ دیتا۔ مگر لاکھوں اور کروروں برس تک آندھی، طوفان اور زلزلے زمین کے اوپر جو الٹ پلٹ کررہے تھے ان کی وجہ سے ہڈیوں کے مقام اور ان کی ہیئت میں وہ ساری تبدیلیاں ہونا ممکن ہیں جن کا آج ہم نے ’’ڈاسن مین‘‘ کی صورت میں تجربہ کیا ہے۔ پھر ارتقا کے حامیوں کے پاس وہ کون سا علم یقین ہے جس کی بنیاد پر وہ نامعلوم ماضی کے بارے میں اتنی قطعیت کے ساتھ اپنا دعوی پیش کررے ہیں۔
اس موضوع پر اپنے مضمون کو ختم کرتے ہوئے ماہنامہ پاپولر سائنس (Popular Science) کا مضمون نگار آخر میں لکھتا ہے
پلٹ ڈاؤن کی خیالی داستان اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے۔ مگر ایک معمہ ابھی تک حل نہ ہوسکا۔ وہ کیا مقصد تھا جس کے لیے ڈاسن نے اتنا بڑا جھوٹ تیار کیا؟ اس کو اس کام سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ برٹش میوزیم کو اس نے جو ہڈیا ں فراہم کی تھیں وہ اس نے محض تحفہ کے طورپر پیش کی تھیں۔ اس نے ان کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔ پھر کیا شہرت اس کا مقصد تھا۔ کیا اس زبردست فریب کے ذریعہ وہ محض ایک مذاق کرنا چاہتا تھا۔ اس انگریزجعل ساز کو آخر کس چیز نے اس کا م پر آمادہ کیا۔اس کا معلوم کرنا کیمیاوی اور طبیعی تجربوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اور شاید وہ ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا۔‘‘
یہ فقرہ درحقیقت اس بات کا اعتراف ہے کہ تجربی علم (Tested Knowledge)اپنی محدودیتوں کی وجہ سے کائنات کی توجیہ نہیں کرسکتا۔ وہ ہماری دنیا کے صرف بعض واقعات کا تجزیہ کرسکتا ہے، جب کہ ہمیں ایک ایسے علم کی ضرورت ہے جو تمام واقعات کا تجزیہ کرے۔ جو تمام حقیقتوں کو ہم پر آشکارا کرسکے۔ ایسا کامل علم صرف وحی کا علم ہے، اس کے سوا کوئی اور علم اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں
کائنات کی معلوم شاہراہوں میں اپنا راستہ نہ پاسکا
ڈارون (1809-1882) کو یقین تھا کہ زندگی ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ کیڑے مکوڑے اپنے اعضا میں ترقیاتی تبدیلیاں کرتے کرتے بکری بن گئے اور بکری نے ترقی کرکے زرافہ کی صورت اختیار کرلی۔ پچھلے سو برس کے دوران یہ ایک مسلمہ سائنسی عقیدہ بن گیا تھا۔ مگر حالیہ مطالعہ نے اس عقیدہ کو علمی حیثیت سے متزلزل کردیا ہے۔ مثال کے طورپر معلوم ہوا ہے کہ زمین کی عمر اس اندازہ سے بہت کم ہے جو ارتقائی طورپر زندگی کی انواع کو وجود میں لانے کے لیے ضروری ہے۔
اب علمائے حیاتیات کا قیاس یہ ہورہا ہے کہ زمین سے باہر کائنات کے کسی مقام پر انسان جیسی تہذیب موجود ہے اور اس نے بالقصد زندگی کا جرثومہ(bacterium) اوپر سے زمین پر بھیجا ہے۔ مگر یہاں بھی ایک رکاوٹ درپیش ہے۔ کائناتی وقت اتنا کافی نہیں کہ اس کے اندر دو تہذیبیں ایک کے بعد ایک ترقی کرسکیں۔ ایک زمین پر۔ دوسری کسی اور سیارہ میں — گویا انسانی علم وہاں پہنچ گیا ہے جہاں اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ ایک قادر مطلق کے وجود کو تسلیم کرلے۔
زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی، اس کے بارے میں حال ہی میں ایک چونکا دینے والا نظریہ سامنے آیا ہے۔ اس نظریہ کو پیش کرنے والے دو ممتاز مالے کیولر بیالوجسٹ ہیں۔ ایک، نوبل انعام یافتہ فرانسس کریک (Francis Crick) دوسرے لزلی آرگل (Leslie Orgel)۔اس نظریہ کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز نہ تو خود بخود ہوا اور نہ اس طرح کی کچھ ملین سال پہلے ایک ابتدائی مادہ سے ایک جسم حیوانی (organism)بنا اور اس سے تدریجی ارتقا کے ذریعے زندگی کی انواع وجود میں آئیں۔ بلکہ زندگی ایک ایسے تجربے کا نتیجہ تھی جو کچھ غیر ارضی ہستیوں (Extraterrestrial Beings)نے کروروں سال پہلے پلان کیا تھا۔
کریک اور آرگل یہ فرض کرتے ہیں کہہمارے کہکشانی نظام کے دوسرے سیاروں میں ترقی یافتہ تہذیبیں موجود ہیں۔ انقیاس کے مطابق، اسی قسم کے کسی سیارہ کے باشندوں نے کچھ ہزار ملین سال پہلے طے کیا کہ وہ اس بات کا تجربہ کریں کہ کیا ان کے پڑوسی سیاروں میں زندگی اپنے لیے نیا ماحول پیدا کرسکتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے ہماری کہکشاں کے کچھ سیاروں پر زندگی کے جراثیم ڈالے۔ اسی قدیم تجربہ کا نتیجہ ہماری موجودہ تہذیب ہے۔
انیسویں صدی میں ڈارون کے نظریہ کے بعد اہل مذاہب کا مخصوص تخلیق کا نظریہ علمائے سائنس کے درمیان ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد سائنس داں اس سوال کا جواب معلوم کرنے میں سرگرداں تھے کہ زندگی شروع کس طرح ہوئی۔ اس بحث کے دوران سویڈن کے کیمسٹ ارے نیس (Arrhenius) نے انیسویں صدی کے آخر میں یہ تخیل پیش کیا کہ کچھ بیکٹیریائی اجزاء کسی ایسے سیارہ سے زمین پر آگئے، جہاں پہلے سے زندگی موجود تھی، اور پھر تدریجی ارتقا کے ذریعہ اقسام حیاتیات کو وجود میں لانے کا سبب بنے۔ ارے نیس نے اس طریق عمل کو ’’پینس پرمیا‘‘ کا نام دیا۔ اس نظریہ کو اس تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ بیکٹیریا بین سیاراتی سفر میں خطرناک ریڈی ایشن (radiation)کے مقابلہ میں زندہ نہیں رہ سکتا، لارڈ کلوین (Kelvin) نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’ہوسکتا ہے کہ بیکٹیریا کسی شہابئے سے چپک گیا ہو اور اس پر سوار ہو کر زمین پر آیا ہو۔‘‘
اگر چہ یہ ممکن ہے کہ بیکٹیریائی اجزاء شہابئے پر سوار ہو کرایک سیارہ سے دوسرے سیارے کا سفر کریں، تاہم پینس پرمیا کا نظریہ کبھی سائنس دانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوسکا تھا۔ اس نظریہ کا اساسی مقدمہ یہ ہے کہ زندگی اس سے پہلے کہیں موجود تھی، جب کہ اس نظریہ میں اس کا جواب نہیں ملتا کہ دوسرے سیارہ پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔
کریک اور آرگل، یہ مانتے ہوئے کہ بیکٹیریائی اجزاء کی اتفاقی ہجرت ناممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت یہ قابلِ قیاس ہو جاتا ہے جب کہ یہ مانا جائے کہ بالقصد کسی نے زندگی کے جراثیم کو زمین پر بھیجا ہو۔ وہ اس عمل کو معین پنسپرمیا (Directed Panspermia)کا نام دیتے ہیں۔
اس نئے نظریہ کے ثبوت میں کریک اور آرگل دو حیاتیاتی مسئلوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک جینیٹک کوڈ ہے۔ ہر ایک موجودہ زمانہ میں تسلیم کرتا ہے کہ زمین پر زندگی کی تمام قسموں کے لیے صرف ایک کوڈ ہے۔کوئی حیاتیاتی عالم اس عالمگیریت کی توجیہ نہیں کرسکتا کہ سب کے لیے ایک ہی کوڈ کیوں ہے۔ آرگل اور کریک کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حیاتیات کا ایک ہی بیج تھا، جس سے زندگی شروع ہوئی، اس لیے فطری طورپر اس بیج کا جینٹک کوڈ، جو کروروں سال پہلے کسی دوسرے سیارے کے باشندوں نے زمین پر بھیجا تھا، اپنا اعادہ ایک ہی جینیٹک کوڈ کی شکل میں کرتا رہا۔
دوسری چیز مولب ڈینم (Molybdenum) نامی دھات کا وہ رول ہے جو حیاتیاتی نظام میں پایا جاتا ہے۔ اکثر انزائم سسٹم اپنی کارکردگی کے لیے اس کے اور صرف اس کے محتاج ہوتے ہیں۔مولب ڈینم اتنا غیر معمولی طور پر اہم ہونے کے باوجود زمین میں پائی جانے والی کل دھاتوں کا صرف 0.02فی صد (دس ہزار میں دو) ہے۔ دوسری طرف بعض زیادہ مقدار میں پائی جانے والی دھاتیں مثلاً کرومیم اور نکل، جو کہ اپنی خاصیت میں مولب ڈینم سے بہت مشابہ ہوتی ہے اور زمینی دھاتوں کا 0.2 فی اور 3.
اگر معین پینس پرمیا کا نظریہ مان لیا جائے تو اس سے دو سوالات پیداہوتے ہیں۔ (1) کیا کائناتی وقت اتنا کافی ہے کہ اس کے اندر دو تہذیبیں ایک کے بعد ایک ترقی کرسکیں، ایک زمین پر اور دوسری کسی اور سیارہ میں۔ (2) کیا حیاتیاتی جرثومہ بین سیاراتی فاصلوں کو عبور کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ زندہ حالت میں پہنچایا جاسکتا ہے۔
کریک اور آرگل کا خیال ہے کہ ان کا نظریہ قبولیت حاصل کرلے گا، اگر یہ ثابت ہوسکے کہ وہ عناصر جو زمینی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں، وہ وہی ہیں جو بعض قسم کے ستاروں میں، ان کے قیاس کے مطابق کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
دورِ جدید کے فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقا (organic evolution) کہاجاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی (simple life forms)سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلیکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔
چارلس ڈارون (وفات 1882ء) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے۔ ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے۔ مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن ہے۔
یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا۔ سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے۔ سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کا ذہین ڈزائن (intelligent design) ہے۔ اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے۔ کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔
اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر زندگی کے آغاز ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتابیں مذہب اور سائنس، اور علم جدید کا چیلنج)۔
زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقا کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں
حالیہ تحقیقات نے ارتقا کے مفروضہ کو علمی طورپر بے بنیاد ثابت کردیا ہے۔ مثلاً متحجرات (fossils) کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نظریہ ارتقا کا یہ مفروضہ مشاہدات کے مطابق نہیں ہے کہ زندگی کی ایک نوع کروروں سال میں ہلکی ہلکی تبدیلی سے دوسری نوع کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مثلاً ڈارونزم میں یہ فرض کیاگیا تھا کہ لومڑی کی نسلوں میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں ہوئیں جس کے نتیجہ میں ساٹھ ملین سال کے بعد لومڑی نے گھوڑے کی صورت اختیار کرلی۔ مگر تازہ دریافتیں بتاتی ہیں کہ زندگی کی انواع میں تبدیلی (اگر اس کو تبدیلی کا نام دیا جائے) بالکل اچانک ہوتی ہے۔ یعنی ’’لومڑی‘‘ بالکل اچانک ایک ہی نسل میں گھوڑا بن جاتی ہے۔ زمین کی تہوں میں قدیم زمانہ کے حیاتیاتی آثار جو پتھریلی ہڈیوں یا ڈھانچوں کی صورت میں دفن ہیں وہ قدیم مفروضہ کی مطلق تصدیق نہیں کرتے۔
ہارورڈ یونیورسٹی (امریکا) کے پروفیسر اسٹیفن جے گولڈ(Stephen Jay Gould)نے جدید شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہےکہ متحجرات کے ریکارڈ کے مطابق انواع حیات کروروں سال تک بغیر بدلے ہوئے ایک حالت پر باقی رہتی ہیں اور پھر اچانک ایک نوع غائب ہو کر دوسری نوع سامنے آجاتی ہے جو بنیادی طورپر پہلی سے مختلف مگر واضح طور پر پہلی کے مشابہ ہوتی ہے
For millions of years species remain unchanged in the fossil record, and then they abruptly disappear to be replaced. (The Sunday Times, London, 8 March, 1981)
فاسلز کے مطالعہ میں ایک نوع کروروں سال تک بالکل یکساں حالت میں نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ایسے فاسلز ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اچانک ایک نوع سامنے آگئی۔ اس طرح تدریجی تبدیلی کا نظریہ سراسر باطل ثابت ہوجاتاہے۔ تاہم فاسلز کے مطالعہ سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ صرف ایک قسم کے جاندار کے متحجر ڈھانچہ کے بعد اچانک دوسری قسم کے جاندار کے متحجر ڈھانچہ کا ملنا۔ یہ سوال ابھی بدستور حل طلب ہے کہ نئی نوع پچھلی نوع کے بطن سے نکلی یا آزادانہ طورپر وجود میں آئی جس طرح زمین کا پہلا جاندار آزادانہ طورپر وجود میں آیا تھا۔
ارتقا کے حامیوں کا خیال تھا کہ پہلے جاندار کےمتعلق اگر یہ مان لیاجائےکہ وہ اچانک پیداہوگیا تو دوسری تمام قسم کے جانداروں کی پیدائش ارتقائی طورپر ثابت ہوجاتی ہے۔ مگر اب حقائق یہ ماننے پر مجبور کررہے ہیں کہ جس طرح پہلا جاندار ’’اچانک‘‘ پیداہوا اسی طرح جانداروں کی دوسری تمام قسمیں بھی ’’اچانک‘‘ پیدا ہوئی ہیں۔ ارتقا کا نظریہ جس طرح پہلے جاندار کی تشریح میں ناکام تھا اسی طرح وہ بعد کے جانداروں کی تشریح میں بھی ناکام ہو رہا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
نظریۂ ارتقا کی صداقت پرموجودہ زمانے کے ’’سائنسداں‘‘ متفق ہوچکے ہیں۔ارتقا کاتصور ایک طرف تمام علمی شعبوں پرچھاتاجارہاہے،ہروہ مسئلہ جس کوسمجھنے کے لیے خداکی ضرورت تھی،اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کاایک خوبصورت بت بناکررکھ دیاگیاہے، مگردوسری طرف عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)کانظریہ ،جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کیے گئے ہیں، اب تک بے دلیل ہے ،حتیٰ کہ بعض علما نے صاف طورپرکہہ دیاہے کہ اس تصورکوہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کاکوئی بدل ہمارے پاس موجودنہیں ہے ۔ سرآرتھرکیتھ (Sir Arthur Keith, 1866-1955)نے1953ء میں کہاتھا
"Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable." (Islamic Thought, Dec. 1961(
یعنی ارتقا ایک غیرثابت شدہ نظریہ ہے،اوروہ ثابت بھی نہیں کیاجاسکتا،ہم اس پرصرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کاواحدبدل تخلیق کاعقیدہ ہے جوسائنسی طورپر ناقابلِ فہم ہے ، گویا سائنسدان ارتقا کے نظریے کی صداقت پرصرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگروہ چھوڑدیں تولازمی طورپرانھیں خداکے تصورپرایمان لاناپڑے گا۔
واپس اوپر جائیں
امت کا سفر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں اپنی امت کو ایک جامع نصیحت ان الفاظ میں کی تھی تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَاکِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہ(مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے امت کو جو طریقہ بتایا تھا ، وہ یہ تھا کہ امت مسائل میں الجھنے سے بچے، اور معرفت اور دعوت پر فوکس کرے۔اسی میں امت کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہے۔ انسان مسائل میں الجھنے سے منفی سوچ کا شکار ہوتا ہے، جو کہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ نصیحت کی تھیإِذَا أُصِیبَ أَحَدُکُمْ بِمُصِیبَةٍ فَلْیَذْکُرْ مُصِیبَتَہُ بِی فلِیُعَزِّہِ ذَلِکَ عَنْ مُصِیبَتِہِ(مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر 6700)۔ یعنی جب تم میں سے کسی پر مصیبت آئے تو اپنی مصیبت کے ساتھ وہ میری مصیبت کو یاد کرے۔وہ اس کو اس کی مصیبت کے موقع پر تسلی دے گی۔ یہ سادہ الفاظ میں صرف پیغمبر اسلام کی مصیبت کو یاد کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ سبق حاصل کرنا ہے کہ پیغمبر اسلام نے جس طرح مصیبت (مسائل) کو اگنور کرکے معرفت اور دعوت کا مشن انجام دیا، اسی طرح آج بھی معرفت اور دعوت کا مشن انجام دینا ہے۔
موجودہ زمانے میں معرفت اور دعوت کے ذرائع کا انفجار ہوچکا ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں بطور پیشین گوئی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ (
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کا مقصد آئڈیالاجیکل مواقع کا انفجار تھا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد ایک نئے پراسس کا آغاز تھا۔ یعنی آفاق و انفس کی آیات کے ذریعے دینِ حق کا اظہار۔ لیکن بعد کے مسلم اہل علم، سارے کے سارے، مواقع کو فکری اعتبار سے اویل کرنے کے بجائے سیاسی تحفظ اور جہادبمعنی قتال جیسی باتوں میں لگ گئے۔ اس معاملے میں کسی عالم کا استثنا نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبا ن کا سیاسی ظہور اسی سوچ کا ایک ظاہرہ ہے۔ یہ سب لوگ جہاد اور سیاست کی لائن سے سوچ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل اراءۃ آیات (نشانیوں کے ظہور)کی پیشین گوئی جو قرآن میں کی گئی تھی(فصلت،
تزئین یا ڈسٹریکشن
ایسا کیوں ہوا کہ امت کا فوکس اصل پہلو سے ہٹ گیا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ابلیس کے کیس کو سمجھنا ہوگا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جب پہلے انسان ، آدم کو پیدا کیا ، اور اس وقت کی موجود مخلوق فرشتے اور ابلیس کے سامنے اس کو پیش کیا تو شیطان نے ناراضگی کے ساتھ کہا تھا رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ (
تزیین شیطان کی سب سے خطرناک چال ہے۔اس آیت میں تزیین کا مطلب کچھ مفسرین نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے لأشغلنہم بزینة الدنیا عن فعل الطاعة(تفسیر الماوردی، جلد3، صفحہ 160)۔ یعنی میں ضرور ان کو اطاعت کے عمل سے ہٹا کر دنیا کے فریب میں مشغول کردوں گا۔ لأزیِّننَّ لہم الباطلَ حتى یقعوا فیہ (زاد المسیرلابن الجوزی، جلد،2، صفحہ
نیا دور مواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا دور ہے۔ لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، اس دور میں بھی وہی کامیاب ہوسکتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنے کی حکیمانہ پلاننگ کرے۔مسائل کو اگنور نہ کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ شکایتی ذہن کے ساتھ زندگی گزاریں— مغربی قوم سے شکایت، ہندوؤں سے شکایت، پڑوسیوں سے شکایت، آفس کے ساتھیوں سے شکایت، ان زمانی تبدیلیوں سے شکایت جو آپ کی سماجی روایت کے خلاف ہوں، وغیرہ۔
اس کے برعکس، مواقع کو اویل کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ مسائل کے باوجود یہ دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسا موقع ہے، جس کو اویل کرکے کامیابی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔ اس کا عملی نمونہ حضرت عمر کے یہاں ملتا ہے۔ایک مرتبہ صحابیٔ رسول حذیفہ نےخلیفہ ثانی عمر فاروق سے کہاإِنَّک تستعین بِالرجلِ الَّذِی فِیہِ وَبَعْضہمْ یرویہِبِالرجلِ الْفَاجِر فَقَالَ عمرإِنِّی أستعملہ لأستعین بقوّتہ ثمَّ أکون على قَفّانہ (غریب الحدیث للقاسم بن سلاّم، جلد3، صفحہ
یہی ہے مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا۔ یعنی ایک انسان کے اندر برائی ہے، اس کے ساتھ اس میں انتظامی صلاحیت بھی ہے تو حضرت عمر نے ایسے انسان کی برائی کو نظر انداز کیا، اور اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ایسا رسول اللہ کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ آپ نے بھی ہجرتِ مدینہ کے موقع پر ایک مشرک عبد اللہ بن اریقط کو اپنا رہنما بنایا تھا(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ
مگرموجودہ زمانےکے مسلمان اَن اویلڈ اپارچنٹی (unavailed opportunity)کا کیس بن گئے ہیں۔موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے جو سائنسی ڈسکوری کی ہے، اس سے نہ صرف فیزیکل ( جیسے پرنٹنگ پریس، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کی) سطح پر خدا کے دین کو مدد ملی ہے۔ بلکہ معنوی سطح پر بھی معرفت کی لامحدود دنیا ڈسکور ہوگئی ہے۔جیسے کائنات کی وسعت، انسانی جسم کی بناوٹ کا مطالعہ، کوانٹم فزکس، وغیرہ۔ یہ ڈسکوریز لامحدود سطح پر انسان کے لیے معرفت کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مادی سطح پر انسان کو مدد ملی، بلکہ معنوی سطح پر بھی انسان کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا سامان فراہم ہوا ہے۔
یہ سائنسی ڈسکوری مغربی اقوام کے ذریعے ظہور میں آئی۔ لیکن موجودہ دور کے تمام مسلم لیڈر سیاسی میدان میں مغلوبیت کی وجہ سے ان سے دشمنی کرنے لگے۔ حالاں کہ سیاسی میدان ایک محدود میدان تھا، جب کہ خدا کی معرفت اور دین کی تائید کا میدان ایک لامحدود میدان تھا۔ لیکن شیطان نے بذریعہ تزئین یہ کیا کہ مسلم لیڈروں کے سامنے سیاسی معاملے کو عظیم بنا کر پیش کیا، اور خدا کی معرفت اور دعوت کے میدان کو غیر حقیقی بنا کر پیش کیا۔ چنانچہ مسلم دنیا سترھویں صدی سے لے کر اب تک اسی تزئین میں پھنسی ہوئی ہے، اور اس سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے إِنَّ اللہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی فاجر انسان کے ذریعے اس دین کی تائید کرے گا۔ایک اور روایت میں اس کو’’غیر اہل دین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ھُمْ مِنْ أَھْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی اس دین کی تائید ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو غیر اہل دین ہوں گے۔
یہ بہت اہم پیشین گوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں ، جب کہ اسلام اجنبی بن جائے گا،اس وقت یہی بے دین اور غیر اہل دین، خدائی دین کے مددگار ثابت ہوں گے، خواہ بالواسطہ انداز میں ہو یا بلاواسطہ انداز میں۔ یہی لوگ ہوں گےجن کے ذریعے اسلام کا کلمہ روئے زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوگا۔ غالباًاسی حقیقت کی طرف رسول اللہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے قَوَامُ أُمَّتِی بِشِرَارِہَا (مسند احمد، حدیث نمبر 21985)۔ یعنی میری امت کا معاملہ اس کے برے لوگوں کے ذریعے درست رہے گا۔
ان تمام آیات و احادیث کو آج کے ریفرنس میں دیکھا جائے تو موجودہ دور کے اعتبار سے ان کا مطلب ایک جملے میں یہ ہوگا کہ سیاسی مسائل کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو اویل کرو
ignore the political problems, avail the opportunities
قدیم زمانے کی طرح موجودہ زمانے میں بھی مسائل ہیں۔کوئی زمانہ مسائل سے خالی نہیں ہوتا ہے، خواہ وہ ماضی ہو یا حال یا مستقبل۔یہ قانونِ فطرت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں بھی مسائل تھے۔ مگر آپ نے مسائل سے ٹکراکر اسٹیٹس کو (status quo) کو بدلنے کے بجائے مسائل کے درمیان موجودمواقع کو دعوتی مشن کے لیے اویل کیا۔ کیوں کہ اسٹیٹس کو کو بدلنا گریٹر ایول (greater evil) ہے، اسٹیٹس کو کو اگنور کرکے اپنا مشن شروع کرنا لیسر ایول (lesser evil) ہے۔پیغمبر اسلام نے یہی کیا۔ مثلاً یہ کہ جب آپ نے دعوتی کام شروع کیا تو کعبہ میں بت تھے، مگر آپ نے ان کو نظر انداز کیا، اور بت کے لیے آنے والوں کوپرامن انداز میں توحید کاپیغام پہنچایا۔ چنانچہ یہی لوگ شرک کوچھوڑ کر ایک دن آپ کے ساتھی بن گئے۔یہی تاریخ آج بھی دہرائی جاسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
اِس دنیا میں معیاری فرد کا بننا ممکن ہے، لیکن معیاری سماج کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ کوئی آدمی اپنے ذاتی فیصلے کے تحت، اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔ ایک انسان کے بننے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کے اندر انفرادی قوتِ ارادی(will power) پیدا ہوجائے، لیکن پورے سماج کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ قوتِ ارادی ایک فرد کے اندر ہوتی ہے، پورے سماج کے اندر اجتماعی قوتِ ارادی (collective will) صرف ایک خیالی تصور ہے، عملی طورپر اس کا کوئی وجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میںبار بار ایسے افراد پیدا ہوئے جو اپنی ذات کے اعتبار سے معیاری کردار کے حامل تھے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پورا سماج، یا پورا اجتماعی نظام اپنے کردار کے اعتبار سے، معیاری سماج یا معیاری نظام بن جائے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو زندگی گزارنے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً پانی اورروشنی اور آکسیجن، وغیرہ۔ اِس طرح کے بے شمار آئٹم ہیں جو انسان کی بقاءِ حیات کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ سامانِ حیات ہماری دنیامیں وافر طورپر بغیر مانگے ہوئےموجود ہے۔ اسبابِ حیات کے اِس مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم (life-support system) کہا جاسکتا ہے۔یہ لائف سپورٹ سسٹم اتنا مکمل ہے کہ وہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو نہایت اعلیٰ صورت میں پورا کررہا ہے۔ زمین سے لے کر سورج تک پوری دنیا استثنائی طورپر انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اس کی کوئی قیمت ادا کرنی نہیں پڑتی ہے۔
مگراکیسویں صدی کےآغاز میں ایک ناپسندیدہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ گلوبل وارمنگ دوسرے الفاظ میں، زمین کے لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمہ کی شروعات ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے پلوشن نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کیے، جب کہ یہ دنیا انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable) ہی نہیں رہے گی۔موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں جو قیامت کی پیشین گوئی (prediction)کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ستمبر 2021میں،بی بی سی انگریزی میں مسلسل ایک نیوز آرہی ہے، ایک دن یہ نیوز حسب ذیل عنوان سے نقل کی گئی تھی
Volcano on Canary Island La Palma erupts, spewing ash and lava into national park
دوسری نیوز ویب سائٹس نے ان الفاظ میں لا پالما کی تباہی کی خبر دی ہے
La Palma Volcano Reaches Atlantic Ocean, Leaves Trail of Destruction Behind. (New18)
Bright lava flows, smoke pour from La Palma volcano eruption. (Sky News)
ان تمام نیوز کا خلاصہ یہ ہے کہ اسپین کے جزیرہ لا پالما میںکمبری ویجا ( the Cumbre Vieja) نامی آتش فشاںسے راکھ، دھوئیں اور لاوے کے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے۔انتہائی گرم لاوے نے مکانات اور جنگلاتی علاقے کو جلا ڈالا ہے۔ اندازے کے مطابق، لاوا کے راستے میں آنے والے 1200سے زیادہ گھر تباہ ہوچکے ہیں، اور 6 ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ لا پالما میں آتش فشاں سے لاوے (volcanic lava)کا اخراج 19 ستمبر سےشروع ہوا تھا۔ دھماکے سے قبل 4.2 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ ہزاروں چھوٹے زلزلے کے ایک ہفتے کے بعد کمبری ویجا ا ٓتش فشاں پہاڑ سے سیاہ اور سفید دھواں کے بڑے بڑے بادل نکلے۔اس سے اب تک180 ہیکٹرز کا علاقہ جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ کئی علاقوں پر سیاہ راکھ کی موٹی تہیں جم چکی ہیں۔پگھلے ہوئے لاوا کا تقریباَ 6 میٹر (20 فٹ) اونچا نہ رکنے والا بہاؤ سمندر کی طرف جا رہاہے ۔ماہرین نےیہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر سترہ سے بیس ملین کیوبک میٹر لاوا سمندر تک پہنچے گا۔ جب لاوا سمندر میں گرے گا تو پانی کے ملاپ سے شور بلند ہونے کے ساتھ ساتھ فضا میں انتہائی زہریلی اور تیزابی گیسیں بلند ہوں گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے زمین میں مزید نئی دراڑیں ابھر سکتی ہیں ۔
اس قسم کی صورتِ حالزمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں (ecology)کے لیے سنگین خطرہ پیدا کرتی جارہی ہے۔ تمام انسانی کوششوں کے باوجودکوئی بھی انسانی تدبیر گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے۔ زمین کے ایکولوجیکل سسٹم کی صورتِ حال دن بدن پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، فضائی آلودگی سے ہونے والے نقصان کا جو اندازہ ماضی میں کیا گیا تھا، اب اس سے کہیں زیادہ نقصان کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔چنانچہ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ رہا ہے۔
میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں نے گہری ریسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ ناقابلِ تبدیل (irreversible) ہوچکی ہے۔ ایکولوجی کا معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں کو روک بھی دیں تب بھی صرف قدرتی عمل(natural processes)سے ہوا میں کافی زیادہ قدرتی کاربونک ایروسول (carbonic aerosol) یعنی مائیکرواسکوپک لیکوئڈ ڈراپ لیٹس (Microscopic Liquid Droplets) بنتی ہیں، جن سے انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گلوبل وارمنگ اور اس کے متعلق پہلوؤں پر موجودہ زمانے میں وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جارہا ہے۔ اِس مطالعے کا ایک حصہ یہ ہے کہ زمین کے نارتھ پول اور ساؤتھ پول میں پہاڑ کی مانند برف کے بڑے بڑے تودے (glaciers) ہیں۔ اِن تودوں کے نیچے بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑ (volcanoes) چھپے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ محصور توانائی (pent-up energy) کے بھاری ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن کے اوپر برف کے تودے گویا کہ بڑے بڑے فطری ڈھکن تھے جو اِس آتش فشاں کو پھٹ کر باہر آنے سے روکے ہوئے تھے۔گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے یہ برفانی ڈھکن تیزی سے پگھل رہے ہیں۔اِس طرح شدید طورپر یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا برفانی ڈھکن بہت جلد پگھل کر ختم ہوجائے اور ان کے اندر چھپا ہوا آتش فشا ں پھٹ کر آگ اور لاوا (lava)کی صورت میں باہر آجائے۔
مثلاً لاپالما کا لاوا بحر اٹلانٹک تک پہنچا تو وہاں لاوا کے پانی میں ملنے سے دھماکے شروع ہوگئے ہیں، اور زہریلی گیس کے بادل فضا میں پھیل رہے ہیں۔ لاوا کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں نے اسے 1000 ڈگری سینٹی گریڈ (1,800 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ) پر ناپا۔ اس وقت یہ آتش فشاں ایک دن میں 8,000 سے 10,500 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ پیدا کر رہا ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ صحت عامہ کے لیے بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ تیزابی بارش اور فضائی آلودگی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔یہی سب وہ چیزیںہے، جن کو لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمہ کی طرف سفر کہا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے تعلق سے مختلف پیشین گوئیاں کی ہیں۔ ان میں کلائمیٹ کی تبدیلی کے تعلق سے چند یہ ہیں دخان (اسموگ) ، زمین کا دھنسنا یا لینڈ سلائڈ، سورج کا مغرب (مخالف سمت ) سے نکلنا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2901)، زلزلوں کی کثرت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7121)، وغیرہ۔حالات بتاتے ہیں کہ ان باتوں کی ابتدا ہوچکی ہے۔ نیوز کے مطابق، ایک مقامی باشندہ نے لا پالما کی تباہی کو ان الفاظ میں بیان کیاہے کہ ہر چیز تباہ و برباد ہوگئی
Everything is destroyed
زمین کے ایک چھوٹے حصے میں ہونے والی فطری تباہی (calamity) گویا اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک دن آنے والا ہے، جب کہ زمین مکمل طور پر ڈسٹرائے (destroy) کردی جائے۔ تباہی کے یہ چھوٹے چھوٹے فطری واقعات گویا موجودہ دنیا کے خاتمے کے آغاز کا اعلان ہیں۔ یعنی بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے اور ایک نئی دنیا بنے، جہاں خدا کا عدل قائم ہو۔ جہاں نیک لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو کائناتی کوڑےخانے میں ڈال دیا جائے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہر زندہ عورت اور مرد اُس آنے والے انصاف کے دن (Day of Judgement) کے لیے تیاری کرے، جو بہر حال آکر رہے گا اور جوآنے کے بعد پھر واپس جانے والا نہیں۔
قرآن کے مطابق، بڑا عذاب (العذاب الاکبر)وہ ہے جو قیامت کے وقت صورِ اسرافیل کے بعد آئے گا، لیکن اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے علامتی عذاب (العذاب الادنیٰ)آئیں گے، تاکہ لوگ متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کرلیں (السجدۃ،
حدیث کے مطابق،انسان کے لیے توبہ (repentance )کا موقع اس وقت تک ہے، جب تک سورج مشرق سے طلوع ہورہا ہے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو انسان کے لیے توبہ کا موقع ختم ہوجائے گا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4070)۔اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، گویا خدا کے حالتِ شہود میں آنے کے پراسس کا آغاز ہوگا، اور قیامت اس پراسس کا کلمینیشن ۔ یہی وہ دن ہوگا، جب کہ خدا غیب سے نکل کر ظاہر ہوجائے گا، اور ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے عمل کے اعتبار سے اچھا یا برا بدلہ دے گا۔لیکن توبہ کا موقع ابھی ختم نہیں ہوا ہے، وہ اب بھی انسان کے پاس موجودہے۔ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو ایک سچا انسان بنائے، اور خدا کے منصوبۂ تخلیق کو جان کر اس کے مطابق زندگی کا سفرشروع کرے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.