پلٹ ڈاؤن مین
نظریہ ارتقا کا دعویٰ ہے کہ انسان اور حیوان دونوں ایک ہی نسل سے ہیں۔ انسان دوسرے حیوانات ہی کی ترقی یافتہ نوع ہے، نہ کہ کوئی علاحدہ نوع۔ اس دعویٰ کے سلسلے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ ہے تو بیچ کی وہ انواع کہاں ہیں جو مفروضہ ارتقائی عمل کے مطابق ابھی موجودہ انسان کے مقام تک نہیں پہنچی تھیں۔وہ ابھی حیوان اور انسان کے درمیان تدریجی ارتقا کے مراحل طے کررہی تھیں۔
اس نظریہ کے حامیوں کے پاس اس کے جواب میں قیاس وگمان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ڈارون نے اپنی کتاب میں بار بار ’’ہم بخوبی قیاس کرسکتے ہیں (We may well suppose)‘‘کا جملہ استعمال کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یقیناً ایسا ہوا ہے، اگرچہ ابھی ہمیںاس کے تمام نمونے حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اس فرضی یقین کی بنیاد پر ایک پورا شجرۂ نسب تیار کرلیا گیا ہے جو انسان کی نسل کو بندر کی نسل تک جا ملاتا ہے۔ بندر اور انسان کے درمیان کی یہ کڑیاں تمام کی تمام مفروضہ کڑیاں ہیں مگر بالکل غلط طورپر ان کو گم شدہ کڑیاں (missing links)کہا جاتا ہے۔
ان خیالی قسم کی گم شدہ کڑیوں کی تلاش پچھلے ایک سوسال سے جاری ہے۔ بار بار دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں گم شدہ کڑی ہاتھ آگئی ہے۔ انھیں میں سے ایک کڑی وہ ہے جس کو پلٹ ڈاؤن مین (Piltdown Man)کہا جاتا ہے۔
پلٹ ڈاؤن مین کو تقریباً آدھی صدی تک ’’عظیم دریافت‘‘ کہا جاتا رہا ۔ یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ ماقبل تاریخ کا وہ انسان ہے جو ایک طرف انسانی اوصاف کا حامل تھا اور دوسری طرف وہ بندر (چمپینزی) کی بھی کچھ خصوصیات اپنے اندر رکھتا تھا۔تاریخ کی کتابوں میں باقاعدہ اس کے حوالے شامل ہوگئے۔ وہ کالجوں کے نصاب میں پڑھایا جانے لگا۔ مثال کے طورپر آرایس لَل (R.S. Lull) کی مشہور کتاب عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)سات سو صفحات پر مشتمل ہے اور ٹکسٹ بک کی حیثیت سے رائج ہے۔ اس میں انسان اور حیوان کے درمیان جن معلوم کڑیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل چار ہیں
1. Ape-man of Jawa.
2. Piltdown man
3. Neanderthal Man
4. Cro-magnon Man
مگر بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین ایک مکمل فریب تھا۔ اس سلسلہ میں سائنس دانوں کے تحقیقی نتائج مختلف کتابوں اور مقالات میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کو جاننے کے لیے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ یا ’’پلٹ ڈاؤن فورجری‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ کافی ہے۔ جس کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں
1. Bulletin of the British Museum (Natural History), Vol. 2, No. 3 and 6
2. J.S. Weiner, The Piltdown Forgery (1955)
3. Ronald Millar, The Piltdown Man (1972)
4. Reader's Digest, November 1956
5. Popular Science (Monthly) 1956
چارلس ڈاسن (Charles Dawson) نامی ایک انگریز متحجر ہڈیوں (Fossil Bones) کے جمع کرنے کا بہت شوقین تھا۔ 1912ء کا واقعہ ہے کہ وہ کچھ ہڈیوں کو لے کر برٹش میوزیم پہنچا اور یہ خبر دی کہ یہ ٹکڑے اسے جنوبی انگلینڈ کے ایک مقام پلٹ ڈاؤن (Piltdown) میں ایک کھوہ کے اندر کنکریوں کے درمیان پڑےہوئے ملے ہیں۔ برٹش میوزیم کے ایک نامور عالم ڈاکٹر آرتھر اسمتھ وڈورڈ (A.S. Woodward) نے اس میں خصوصی دلچسپی لی اور بتائے ہوئے مقام پر پہنچ کر کھدائی کے ذریعہ مزید ٹکڑے حاصل کیے۔ اس طرح بیس سے کچھ زیادہ ہڈیوں اور دانت کے ٹکڑے جمع کرکے ان کا مطالعہ شروع کیا گیا۔
ان حاصل شدہ ٹکڑوں میں سب سے زیادہ نمایاں ایک جبڑے کا ٹوٹا ہوا حصہ تھا جو واضح طورپر ایک بندر کا جبڑا معلوم ہوتا تھا۔ مگر اس میں ایک خاص چیز بندر سے مختلف تھی۔ یہ اس میں لگے ہوئے داڑھ کے دو دانت تھے جن کی اوپر کی سطح ہموار (flat) تھی۔ جو کہ صرف کسی انسانی دانت ہی میں ہو سکتی ہے۔ چنانچہ قیاس کرلیا گیا کہ یہ جبڑا کسی قدیم انسان کا ہے۔ اور اس کے بعد نہایت آسانی سے اس کو ارتقا کی ایک گم شدہ کڑی قرار دے دیا گیا۔ تلاش کرنے والوں نے جلد ہی پلٹ ڈاؤن کے آس پاس وہ کھوپڑی بھی حاصل کرلی جو دورِ سابق کے اس انسان کے سر پر قدرت نے پیدا کی تھی۔
مذکورہ بالا کھوہ میں ماقبل تاریخ کے زمانے کے کچھ جانوروں کے آثار ملے جن سے یہ متعین ہوگیا کہ ’’پلٹ ڈاؤن مین‘‘ قدیم برفانی دور کا انسان ہے جو پانچ لاکھ سال پہلے زمین کے اوپر گزر چکا ہے۔اس تحقیق نے دوسری معلوم کی ہوئی گم شدہ کڑیوں کے مقابلہ میں اس کو قدیم ترین معلوم انسان کی حیثیت دے دی۔ چارلس ڈاسن عظیم اعزازات کا مستحق قرار دیاگیا۔ کیوں کہ اس نے سائنس کی ایک پیچیدہ گتھی کو حل کرنے میں مدد دی تھی۔
پتھر میں تبدیل شدہ یہ انسانی ہڈیاں جو حاصل ہوئی تھیں وہ پورے انسانی ڈھانچہ کے صرف بعض اجزاء تھے۔ مگر ماہرین نے ان کی روشنی میں قوت تخیل (power of imagination) سے کام لے کر پانچ لاکھ سال پہلے کے انسان کا ایک پورا ڈھانچہ تیار کرلیا جو اپنی بے ڈھنگی پیشانی اور بندر نما جبڑوں کے ساتھ چالیس سال تک سائنس دانوں کا مرکز توجہ بنا رہا۔ مگر 1950ء میں یکایک پلٹ ڈاؤن مین کی حیثیت کو سخت دھکا لگا۔ جب طبقات الارض کے ایک عالم ڈاکٹر کنتھ آکلے (Kenneth Oakley) نے ایک کیمیاوی طریقے کو استعمال کرکے اس کی تاریخ معلوم کی۔
یہ ایک اصول ہے کہ کوئی ہڈی جتنے دنوں تک زمین میں دفن پڑی رہے گی وہ اسی کے بقدر زیادہ مقدار میں ایک مخصوص عنصر کو جذب کرتی ہے جس کا نام فلورین (Fluorine)ہے۔ ڈاکٹر آکلے کے تجربے سے معلوم ہوا کہ حاصل شدہ ہڈیوں میں جتنی فلورین پائی جاتی ہے، اس کے لحاظ سے اس کی عمر صرف پچاس ہزار سال ہونی چاہیے، نہ کہ پانچ لاکھ سال۔
بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین کی کھوپڑی کے متعلق آکلے کا اندازہ بالکل صحیح تھا۔ مگر اسی کی بنیاد پر اس نے جبڑے کی عمر بھی جو اسی قدر فرض کر لی تھی، وہ صحیح نہیں تھی۔ جبڑا درحقیقت موجودہ زمانے کے ایک بندر کا تھا جو فرضی طورپر مذکورہ کھوپڑی کے ساتھ جوڑ دیاگیا تھا۔
آکلے کی مذکورہ دریافت نے پلٹ ڈاؤن کو دوبارہ ایک معما بنا دیا کیوں کہ پانچ لاکھ سال پہلے کے ایک ڈھانچے کو تو گم شدہ کڑی فرض کیا جاسکتا تھا مگر ایک ایسا جاندار جو صرف پچاس ہزار سال پہلے موجود رہا ہو اس کا گم شدہ کڑی ہونا بالکل ناقابل قیاس تھا۔
اس کے بعد 1953ء کی ایک شام کو لندن کی ایک دعوت میں آکلے کی ملاقات آکسفرڈ یونیورسٹی میںانسانیات کے ایک پروفیسر ڈاکٹر وینر (J.S. Weiner)سے ہوئی۔ ڈاکٹر وینر ڈاکٹر آکلے کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد گھر آکر اس نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اس کی حقیقت کیا ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی اس کو پلٹ ڈاؤن مین کے دانت کے بارے میں تھی۔ ’’ایک بندر نما جبڑے میں انسانی دانت جو اس طرح ہموار ہیں جیسے کسی نے ریتی سے ......‘‘ یہ سوچتے ہوئے اچانک ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آیا‘ ’’ایسا تو نہیں ہے کہ کسی نے ریتی سے گھس کر ان دانتوں کو چکنا کردیا ہو۔‘‘ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ حقیقت کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اب وہ اپنے سامنے تحقیق کا ایک نیا میدان پا رہا تھا۔
دینر نے اپنے ایک ساتھی سرولفر ڈلی گروز کلارک (Sir Wilfred Le Gros Clark) کی معیت میں چمپینزی (بندر کی ایک قسم) کا ایک داڑھ کا دانت لیا، اس کو ریتی سے گھِس کر ہموار کیا اور اس کے بعد اسے رنگ کر دیکھا تو وہ پلٹ ڈاؤن کے دانت کے بالکل مشابہ تھا۔ اس کے بعد وہ دونوں برٹش میوزیم گئے تاکہ پلٹ ڈاؤن مین کے جبڑے حاصل کرکے اس کے متعلق اپنے قیاس کی تحقیق کریں۔ لوہے کا ایک مقفل بکس جو خاص طورپر فائر پروف بنایا گیا تھا، اس کے دروازے کھولے اور اس کے اندر سے پلٹ ڈاؤن کے ڈھانچے کے ’’مقدس‘‘ ٹکڑے نکالے گئے تاکہ سائنسی طریقوں کے مطابق ان کا گہرا تجزیہ کیا جائے۔ اکسرے مشین اور دوسرے جدید قسم کے آلات حرکت میں آگئے۔ ایک مخصوص قسم کا کیمیاوی طریقہ بھی استعمال کیا گیا جو نائٹروجن کی کمی کو معلوم کرکے یہ بتاتا ہے کہ اس پر کتنا وقت گزر چکا ہے۔
وینر کا قیاس صحیح تھا۔ ان مشاہدات سے معلوم ہوا کہ پلٹ ڈاؤن مین کے جبڑے کی ہڈی کوئی پرانی ہڈی نہیں تھی بلکہ عام قسم کے ایک بندر سے حاصل کی گئی تھی۔ ہڈی کا قدرتی رنگ چونکہ فاسلز (fossils) ہونے کے بعد بدل جاتا ہے، اس لیے فریب دہندہ نے نہایت ہوشیاری سے اس کو مہوگنی رنگ میں رنگ دیا تھا۔ رنگ کو عین مطابق بنانے کے لیے چند مخصوص اجزاء استعمال کیے گئے تھے۔ گہرے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ دانت کی سطح پر ایسے خراش موجود ہیں جو بلا اشتباہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ دانت مصنوعی طورپر رگڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کناروں میں غیر فطری قسم کی تیزی بھی تھی جو کہ صرف ریتی سے رگڑنے ہی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
1953ء میں مندرجہ بالا تینوں محققین (آکلے، وینر، کلارک) نے اعلان کیا کہ جبڑا اور دانت بالکل فرضی ہیں — اس کے بعد وینر نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اتنا بڑا فریب جو گھڑا گیا اس کا مصنف کون تھا۔ اس نے تمام ممکن تفصیلات جمع کرنا شروع کیں، ملک بھر کے سفر کیے تاکہ پلٹ ڈاؤن کے واقعہ سے متعلق جو افراد ہیںان سے گفتگو کرے، جو لوگ مرچکے تھے وہ ان کے عزیزوں اور دوستوں سے ملا۔ اخبار کے قدیم فائلوں سے اس سلسلے کی تمام رپورٹیں پڑھ ڈالیں۔
اس گہرے مطالعہ کے بعد پلٹ ڈاؤن کے واقعہ سے تمام افراد بالکل بری نظر آئے۔ مگر ایک شخص (چارلس ڈاسن) اس سے مستثنیٰ تھا۔ جو اس واقعہ کا ہیرو تھا۔ تمام معلومات اشارہ کررہی تھیں کہ اس بے بنیاد بات کا اصل مصنف ڈاسن ہی ہے۔
چارلس ڈاسن ایک کامیاب قانون داں تھا۔ وہ انگلینڈ کے اس مخصوص خطے کا باشندہ تھا جہاں متحجرات (fossils) کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ڈاسن کو متحجرات سے بہت دل چسپی پیدا ہوگئی اس کا یہی مشغلہ بن گیا کہ وہ متحجر ہڈیاں جمع کیا کرتا تھا۔ پلٹ ڈاؤن مین کے واقعہ سے پہلے وہ دور قدیم کے متعدد جانوروں کے ڈھانچے حاصل کرکے لندن کے عجائب خانے میں بھیج چکا تھا۔
بعد کو ڈاسن کو وہ مذاق سوجھا جس نے 40 سال سے زیادہ مدت تک اہل علم کو فریب میں مبتلا رکھا۔ ڈاسن کے ایک ملاقاتی نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ آواز دئے بغیر ڈاسن کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ ڈاسن کچھ تجربات میں مشغول ہے۔ وہ مختلف برتنوں میں کھاری اجزاء اور رنگین عرق ڈال کر ہڈیوں کو اس میں ڈبوئے ہوئے تھا۔ ڈاسن نے اس کو دیکھ کر گھبرائے ہوئے انداز میں وضاحت کی کہ وہ متحجر ہڈیوں کو رنگ رہا تھا تاکہ یہ معلوم کرے کہ قدرتی طورپر ان کا جو رنگ ہے وہ کیسے بنتا ہے۔ اس قسم کے اور واقعات معلوم ہوئے جنھوں نے اس خیال کی تصدیق کردی کہ اس گھڑے ہوئے فریب کا مصنف ڈاسن ہے۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب کہ اس سے بہت پہلے ڈاسن 1916 میں 52 برس کی عمر میں عین اپنی شہرت کے وقت مرچکا تھا۔
ڈاسن نے اپنے جھوٹ کو مکمل کرنے کے لیے ایک اور تدبیر کی۔ اس نے پتھر کے کچھ اوزار پیش کیے اور بتایا کہ یہ اسے پلٹ ڈاؤن کے مقام پر ملے ہیں۔ چنانچہ یہ تسلیم کرلیا گیا کہ یہ پتھر کے وہ اوزار ہیں جن سے پانچ لاکھ سال پہلے کا ناقص انسان کام لیا کرتا تھا۔ مگر بعد کی تحقیقات نے ان کو بھی بالکل جعلی ثابت کردیا۔ ڈاسن نے اسی قسم کا ایک پتھر کا اوزار ہیری موریز (Harry Morris)کو دیا تھا۔ موریز ایک بینک کلرک تھا اور پتھر کے پرانے نمونے جمع کرنے کا شائق تھا۔ بعد کو موریز اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ پتھر کا اوزار بالکل جعلی ہے۔ موریز نے اس پتھر کو اپنی مخصوص الماری میں دوسرے نمونوں کے ساتھ رکھ چھوڑا تھا۔ جب وینر کو اس کی اطلاع ملی تو اس کا شوق بڑھا مگر اس سے بہت پہلے موریز کا انتقال ہوچکا تھا۔
وہ پتھر کہاں ہے؟ وینر کو یہ سوال پریشان کرنے لگا۔ موریز کے مرنے کے بعد اس کی الماری د و ہاتھوں میں منتقل ہوچکی تھی۔ تاہم وینر نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ الماری کھولنے پر معلوم ہوا کہ اس کے اندر بارہ خانے ہیں جن میں بہت سے نمونے لیبل لگے ہوئے رکھے ہیں۔ آخری خانے میں پلٹ ڈاؤن کا پتھر کا اوزار تھا اس پر موریز کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ الفاظ درج تھے
‘‘Stained by C. Dawson with intent to defraud”.
یعنی اس کو ڈاسن نے بالکل جعلی طورپر خود اپنے ہاتھ سے رنگا تھا تاکہ دنیا کو دھوکا دے کہ یہ بہت پرانے زمانے کا اوزار ہے۔ ایک نوٹ میں موریز نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہائیڈروکلورک ایسڈ پتھر کے بھورے رنگ کو ختم کرکے اس کو معمولی سفید رنگ کے پـتھر میں تبدیل کردیتا ہے۔
تبصرہ
یہ واقعہ بتارہا ہے کہ دور قدیم کی ہڈیوں کے ٹکڑے جمع کرکے ان کی بنیاد پر جو قیاسی ڈھانچے کھڑے کیے گئے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ بے شک دور قدیم میں کوئی ڈاسن موجود نہیں تھا جو ہم کو دھوکا دینے کے لیے ان ہڈیوں کا حلیہ بگاڑ دیتا۔ مگر لاکھوں اور کروروں برس تک آندھی، طوفان اور زلزلے زمین کے اوپر جو الٹ پلٹ کررہے تھے ان کی وجہ سے ہڈیوں کے مقام اور ان کی ہیئت میں وہ ساری تبدیلیاں ہونا ممکن ہیں جن کا آج ہم نے ’’ڈاسن مین‘‘ کی صورت میں تجربہ کیا ہے۔ پھر ارتقا کے حامیوں کے پاس وہ کون سا علم یقین ہے جس کی بنیاد پر وہ نامعلوم ماضی کے بارے میں اتنی قطعیت کے ساتھ اپنا دعوی پیش کررے ہیں۔
اس موضوع پر اپنے مضمون کو ختم کرتے ہوئے ماہنامہ پاپولر سائنس (Popular Science) کا مضمون نگار آخر میں لکھتا ہے
پلٹ ڈاؤن کی خیالی داستان اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے۔ مگر ایک معمہ ابھی تک حل نہ ہوسکا۔ وہ کیا مقصد تھا جس کے لیے ڈاسن نے اتنا بڑا جھوٹ تیار کیا؟ اس کو اس کام سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ برٹش میوزیم کو اس نے جو ہڈیا ں فراہم کی تھیں وہ اس نے محض تحفہ کے طورپر پیش کی تھیں۔ اس نے ان کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔ پھر کیا شہرت اس کا مقصد تھا۔ کیا اس زبردست فریب کے ذریعہ وہ محض ایک مذاق کرنا چاہتا تھا۔ اس انگریزجعل ساز کو آخر کس چیز نے اس کا م پر آمادہ کیا۔اس کا معلوم کرنا کیمیاوی اور طبیعی تجربوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اور شاید وہ ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا۔‘‘
یہ فقرہ درحقیقت اس بات کا اعتراف ہے کہ تجربی علم (Tested Knowledge)اپنی محدودیتوں کی وجہ سے کائنات کی توجیہ نہیں کرسکتا۔ وہ ہماری دنیا کے صرف بعض واقعات کا تجزیہ کرسکتا ہے، جب کہ ہمیں ایک ایسے علم کی ضرورت ہے جو تمام واقعات کا تجزیہ کرے۔ جو تمام حقیقتوں کو ہم پر آشکارا کرسکے۔ ایسا کامل علم صرف وحی کا علم ہے، اس کے سوا کوئی اور علم اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں