قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
قرآن کی اِس آیت میں ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم تسکین (solace) کا سامان موجود ہے۔اس میں ایک مومن بندے کے لیےدعاکا ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ بندہ اللہ رب العالمین سے ایک چیز کا طالب ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے معاملہ کو سنبھالنے والا بن جائے۔ اِس آیت کو لے کر ایک بندۂ مومن کہہ سکتا ہے— خدایا، میں آخری حد تک ایک عاجز انسان ہوں، لیکن قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تیری رحمت بہت وسیع ہے۔ خدایا، تو نے میرے گناہوں کے بارے میں یہ فرمادیا ہے کہ تو خود اس کو معاف فرمائے گا۔ اب میں جو دعا کررہا ہوں تو کیا تو میری دعا کو ریجکٹ کردے گا۔ یعنی جب تو بندوں کے معاملے میں اتنا فیاض ہے کہ بغیر مانگے ہوئے تو اعلان کررہا ہے کہ تو ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا تو جب میں خود سے سوال کررہا ہوں تو کیا تو اس کو پورا نہیں فرمائے گا۔
سب سے بڑی دعا وہ ہے جو حقیقی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)کے حوالے سے کی جائے۔جس انسان کو شعوری طورپر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے، وہ پکار اٹھے گا کہ خدایا، میں کامل طورپرعاجز انسان ہوں، لیکن تونے اپنی رحمت سے بلا استحقاق مجھے یک طرفہ طورپر تمام چیزیں عطا کی ہے، موت کے بعد بھی دوبارہ میں اپنے آپ کو کامل طور پر عجز کی حالت میں پاؤں گا۔ خدایا، جس طرح تونے موت سے پہلے کی زندگی میں میرے عجز کی کامل بھرپائی کی، اسی طرح تو موت کے بعد کی زندگی میں بھی میرے عجز کا مکمل بدل عطا فرما، میرے تمام گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کردے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: مَنْ أَصْبَحَ مُعَافًى فِی بَدَنِہِ، آمِنًا فِی سِرْبِہِ، عِنْدَہُ قُوتُ یَوْمِہِ، فَکَأَنَّمَا حِیزَتْ لَہُ الدُّنْیَا بِحَذَافِیرِہَا(حلیۃ الاولیاء، جلد5، صفحہ
میں روزانہ صبح کو جب اپنے آفس سے نکل کر باہر بیٹھتا ہوں، تو سچ مچ واقعۃً محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا میرے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ہر چیز میری خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ غذا ، پانی، آکسیجن، وغیرہ تمام چیزیں مکمل طور پر میری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔گویا یہ یونیورس انسان کے لیےایک کسٹم میڈ یونیورس ہے۔ وہ انسان کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔اس حقیقت پر اگر انسان غور کرے تو وہ کبھی نیگیٹیو تھنکنگ کا شکار نہ ہو۔ وہ ہمیشہ نعمتوں کے احساس میں جینے لگے۔ اس کی زبان پر ہمیشہ شکر کا کلمہ جاری رہے۔حتی کہ انسان ایک گلاس پانی پیتا ہے، اور وہ جسمانی نظام کے تحت ہضم ہوکر باہر نکل جاتا ہے تو اس پراس کو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہر چیز جو اس دنیا میں انسان کو ملتی ہے اس پر شکر کا جذبہ پیدا ہونا بالکل نیچرل بات ہے۔ مثلا غذا، ہوا کے ذریعے آکسیجن کا ملنا، پانی کی مسلسل سپلائی کا جاری رہنا، وغیرہ۔ اگر انسان سوچے تویہ تمام چیزیں ہر وقت اللہ رب العالمین کی نعمت کو یاد دلاتی ہیں۔
اسی طرح مذکورہ حدیث میں ہے کہ وہ اپنے سِرب (گھر) میں مامون ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرامن سوچ یا مثبت سوچ کے ساتھ اپنے دن کی ابتدا کرے۔ اس دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چائس ہے،وہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آنے والے چیلنج کا مقابلہ کرے۔ اسی حقیقت کو مذکورہ حدیث میں" مسکن میں مامون ہونا" کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَیَحْمِلَنَّ شِرَارُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ عَلَى سَنَنِ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِہِمْ أَہْلِ الْکِتَابِ حَذْوَ الْقُذَّةِ بِالْقُذَّةِ(مسند احمد، حدیث نمبر 17135)۔ یعنی اس امت کے شرارت پسند لوگ پچھلے اہل کتاب کے طریقے کو اپنائیں گے ، جیسےایک تیر دوسرے تیر کی طرح ہوتا ہے۔اس حدیث کے مطابق، مسلمان اپنے بگاڑ کے زمانے میں وہی کریں گے، جو یہود و نصاری نے اپنے بگاڑ کے زمانے میں کیا تھا۔البتہ یہاں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا خدائی پیغام محفوظ نہیں۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام کا لایا ہوا قرآن پوری طرح محفوظ ہے، آپ کی سنت بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ اس طرح یہ امکان ہمیشہ باقی رہے گا کہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین محمدی کو دوبارہ دریافت کیاجائے، اور اس کو اصل صورت میں اختیار کیا جائے۔ قرآن وسنت کا محفوظ ہونا، اس بات کی گارنٹی ہے کہ مجموعے کی سطح پر خواہ بگاڑ آجائے، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ امت میں ایسے افراد موجود رہیں گے، جو اصل دین کو دوبارہ دریافت کرکے مکمل طور پراس کی پیروی کریں۔
موجودہ دور میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ میڈیامیں اپنا وقت گزاریں۔ بے خوف دل کے ساتھ لوگوں سے بحثیں کریں۔ آپ کا سارا کنسرن میڈیا کی خبریں ہو، نہ کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ باتیں۔ اس قسم کے لوگوں کا ذہنی شاکلہ (mindset) میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر بنے گا، نہ کہ قرآن اور سنت کی بنیاد پر ۔ یہی وہ لوگ ہیں، جو پچھلی قوموں کی پیروی کرتے ہیں۔
دوسری شکل یہ ہے کہ تعاہدبالقرآن (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033) آپ کی مصروفیت ہو،یعنی قرآن و حدیث میں غور و فکر آپ کے دن رات کاعمل بنا ہوا ہو۔ آپ قرآن کے معانی کو سمجھنے میں اپنے صبح و شام گزارتے ہوں۔ آپ قرآن و حدیث میں گہرا غور و فکر کرنے والے بنے ہوئے ہوں۔ اس طرح مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں آپ پر قرآن کے اور حدیث کے نئے نئے معانی کھلیں، اور پھر آپ ان کو اپنی زندگی میں اپنا رہنما بنا لیں۔ یہی لوگ حقیقی معنوں میں ربانی انسان ہیں۔
واپس اوپر جائیں
صعب بن جثامة بن قیس لیثی (وفات
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کسی شخصیت کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک دور کا نام ہے، جب کہ گمراہی بہت پھیل جائے گی۔ وہ گمراہی یہ ہوگی کہ لوگوں کے ذہن سے خدا کی معرفت ختم ہوجائے گی۔ اس غفلت کا سبب ایسے خیالات یا نظریات ہوں گے، جس پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوگا، مگر وہ اسلام سے دور کرنے والے ہوں گے۔
دجالیت کا دور وہ ہے، جب کہ دنیا میں پروفیشنل ایجوکیشن کا دور دورہ ہوگا۔ یعنی وہ ایجوکیشن جس کے ذریعے افراد کو ہنر مند بنایا جائے ۔مثلاً تجارت ،نرسنگ، انجنیئرنگ اور قانون ، وغیرہ۔ لیکن وہ علم جس سے معرفت میں اضافہ ہو، وہ کم یاب ہوجائے گا۔ لوگ پیسہ کمائیں گے، لیکن سچے علم سے بے خبر ہوں گے۔ لوگوں کی جیبیں بھری ہوںگی، اس بنا پر وہ بہت بولیں گے، بہت زیادہ بحثیں کریں گے۔ بظاہر علم کا چرچا ہوگا، لیکن یہ چرچا مادی انٹرسٹ کے لیے ہوگا، نہ کہ اللہ کی معرفت میں اضافہ کے لیے۔
یہ وہ زمانہ ہوگا، جب کہ مال کی کثرت کی وجہ سے لوگ نفس پرستی میں مبتلاہوجائیں گے۔ جھوٹ کی کثرت ہوگی۔ سچائی کو ماننے کا مزاج کم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، اپنی بات منوانے والوں کی کثرت ہوجائے گی۔ سنانے والے بہت ہوجائیں گے، لیکن سننے والے موجود نہ ہوں گے۔ پیسے کی افراط کی بنا پر لوگ اِن سنسیرٹی (insincerity)میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ہر آدمی اپنے ہی کو سب کچھ سمجھے گا۔ دوسرے کی بات سننا، اور اس پر غور کرنا، یہ مزاج دنیا سے ختم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
انگریز مستشرق ایڈورڈ ولیم لین(Edward William Lane, 1801-1876) ایک برطانوی مستشرق، مترجم اور لغت نگار(lexicographer) تھا ۔وہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ عربی زبان کے ڈیٹا کے لیے اس نے مصر میں کئی برس قیام کیا۔ اس نے ایک کتاب منتخب ترجمۂ قرآن(Selections from the Kuran) تیار کی۔ جو پہلی بار لندن سے1843 میں چھپی۔ اِس کتاب کے دیباچے میں لین نے لکھا تھا —اسلام کا تباہ کُن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے:
The fatal point in Islam is the degradation of woman. (p. 90)
مستشرق لین نے 1843 میں جوبات کہی تھی۔ اُس سے اس کی خاص مراد یہ تھی کہ اسلام کے قانونِ شہادت (evidence) میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر ماناگیا ہے۔ یہ دونوں صنفوں کے درمیان کُھلی ہوئی نابرابری ہے۔ اِس کے بعد بطور مسلّمہ یہ بات مان لی گئی کہ اسلام عہدِ جاہلیت کا مذہب ہے، وہ سائنسی دَور کا مذہب نہیں بن سکتا۔
اسلام کے خلاف یہ نظریہ ڈیڑھ سو سال تک چلتا رہا۔ اس کے بعد مختلف اسباب سے سائنسی حلقوں میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ عورت اور مرد کے دماغ کے بارے میں دوبارہ ریسرچ کی جائے، اور یہ معلوم کیا جائے کہ کیا دونوں کی دماغی بناوٹ میں کوئی فرق ہے۔ اِس ریسرچ کا ایک ریزن یہ سوال تھا کہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان لَو میریج (love marriage) ہوتی ہے اور پھر بیش تر واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ دونوں لڑ بھڑ کر ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔
اِس سلسلے میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں کے تحت، سائنسی انداز میںبہت سی ریسرچز کی گئیں۔ یہاں تک کہ خالص سائنسی ریسرچ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عورت اور مرد کے دماغ میں فطری بناوٹ کے اعتبار سے ایسا فرق پایا جاتا ہے، جس کو بدلنا ممکن نہیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ مرد پیدائشی طور پر سنگل ٹریک مائنڈ (single-track mind) کاحامل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں عورت فطری طورپر ملٹی ٹریک مائنڈ(multi-track mind) رکھتی ہے۔بی بی سی انگریزی ویب سائٹ پر چھپی رپورٹ
Women 'better at multitasking' than men, study finds
It is not a myth - women really are better than men at multitasking, at least in certain cases, a study says... says co-author Dr Gijsbert Stoet, of the University of Glasgow, "Multitasking is getting more and more important in the office, but it's very distracting, all these gadgets interrupting our workflow."
www.bbc.com/news/science-environment-24645100 (accessed on 07.04.2021)
یعنی ریسرچ کے مطابق، عورتیں ایک وقت میں کئی ذمے داریوں کی انجام دہی میں مردوں سے بہتر ہیں۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ عورتیں ملٹی ٹاسک کے ، کم از کم، کچھ معاملوں میں مردوں سے بہتر ہیں... گلاسگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر گزبرٹ اسٹائٹ کہتے ہیں کہ آفس میں ملٹی ٹاسک زیادہ سے زیادہ بہتر ہے، لیکن یہ ڈسٹریکٹ کرتا ہے، یہ طریقہ کام کی رفتار میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
مرد وعورت کے درمیان یہ فرق اتنا عام ہے کہ اس کوہر گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی گھر جہاں پر عورت اور مرد دونوں اکٹھے رہتے ہوںوہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مرد کا ذہن کسی ایک پوائنٹ پَر متوجہ رہے گا۔ جب کہ عورت کا یہ حال ہو گا کہ اس کا ذہن ایک ہی وقت میں کئی چیزوں کی طرف متوجہ رہے گا۔ مثلاً مرد اگر ایک کتاب پڑھ رہا ہے تو اس کا سارا دھیان کتاب میں لگا رہے گا۔ حتی کہ پاس کے کمرے میں اگر ٹیلی فون کی گھنٹی بجے تو وہ اس کو سننے سے قاصر رہے گا۔ حالاں کہ اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی عورت دوسرے کمرے میں بجنے والی ٹیلی فون کی گھنٹی کو بخوبی طورپر سن لے گی۔
عورت کے ذہن اور مرد کے ذہن کا یہ فطری فرق بتاتا ہے کہ گواہی کے قانون میں دونوں کے درمیان فرق رکھنے کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک واقعہ جس کو عورت اور مرد دونوں دیکھ رہے ہوں اس کو مرد جب دیکھے گا تو وہ اس کو یکسوئی (concentration) کے تحت دیکھے گا۔ اِس بنا پر وہ اس قابل ہوگا کہ واقعے کے تمام اَجزاء اس کے حافظے میں محفوظ ہوسکیں۔ اس کے مقابلے میں عورت اپنے ذہن کی فطری بناوٹ کی بنا پرچیزوں کو سرسری انداز میں دیکھے گی۔ اس کے ذہن کا ایک حصہ واقعے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے ذہن کا دوسرا حصہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اِس بنا پر ایک گواہ عورت کے ساتھ دوسری گواہ عورت رکھی گئی تاکہ دونوں مل کر واقعے کی پوری تصویر بنا سکیں۔
مذکورہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیت زیادہ قابلِ فہم بن جاتی ہے۔ یہ آیت قرآن میں اِس طرح آئی ہے: وَاسْتَشْہِدُوا شَہِیدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَإِنْ لَمْ یَکُونَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَى (
قرآن کی مذکورہ آیت میں ضَلَّ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ضَلّ کے معنی عربی زبان میں اِدھراُدھر بھٹکنے (go astray) کے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اِس معاملے میں عَین سائنسی ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر مذکورہ آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —اگر ذہنی بناوٹ کی بنا پر ایک عورت کی توجہ اصل واقعے سے کچھ ہٹ جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا کر پہلی عورت کی کمی پوری کردے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن عالم الغیب کی طرف سے اتاری ہوئی کتاب ہے۔ خدائے عالم الغیب نے اپنے علم کلّی کی بنا پر دونوں صنفوں کے درمیان فطری فرق کو اُس وقت جانا جب کہ عام انسان اِس فرق سے بالکل ناواقف تھا۔ اِس علم کی بنا پر خدا نے گواہی کا مذکورہ اُصول مقرر کیا۔ مذکورہ آیت اِس بات کا ایک علمی ثبوت ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ابدی صداقت کی حامل ہے۔ قرآن خدائے برتر کی کتاب ہے، نہ کہ عام معنوں میں کوئی انسانی کتاب۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت وہ ہے، جس کو پالیسی آف ڈی لنکنگ (policy of delinking) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر مکہ میں آپ نے اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت مکہ اہل شرک کے قبضے میں تھا۔ انھوں نے کعبہ کو 360بتوںکا مرکز بنا دیا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ کعبہ میں آنے والے زائرین اور اس میں موجود بتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ اس طرح ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کرنے کی بنا پر آپ کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مکمل طور پر مثبت ذہن کے ساتھ اپنا مشن ، دعوت الی اللہ کا عمل انجام دےسکیں۔ اگر آپ ڈی لنکنگ پالیسی اختیار نہ کرتے تو یہ فائدہ کبھی حاصل نہ ہوتا۔
ایسا کیوں ہے۔ اس کو صحابی رسول عمر و بن العاص (وفات
اس کا مطلب یہی ہے کہ شر کے مختلف پہلوؤں کو ڈی لنک کرکے دیکھا جائے تو شر کے اندر بھی خیر کا پہلو مل جائے گا۔ آپ نے کعبہ میں بت اور بت پرستوں کے معاملے میں جو طریقہ اختیار کیا، وہ کیا تھا۔ ان بتوں کا ظاہری پہلو یہ تھا کہ وہ شرک کا ذریعہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انھی بتوں کی وجہ سے وہاں لوگ جمع ہوتے تھے، اور اس کی وجہ سے وہاں ایک آڈینس بنتا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ بتوں کے مشرکانہ پہلو کو الگ کردیا، اور بتوں کی وجہ سے وہاں آنے والے لوگوں کو اپنے لیے بطورِ آڈینس استعمال کیا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر عسر کے ساتھ یسر کا پہلو موجود ہوتا ہے۔انسان اگرمثبت ذہن کے ساتھ معاملے میں غور کرےتو ہرعسر میں اس کو یسرکا پہلو مل جائے گا۔
انیسویں صدی میںانگریز جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے مسلمانوں کو بہت سی چیزیں دیں۔ مثلاً انگریزی ایجوکیشن، جس کی وجہ سے مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ انڈیا کے باہر کی دنیا کو دیکھ سکیں۔ لیکن سارے مسلمانوںنے انڈیا میں اینٹی برٹش تحریک چلادی۔اسی طرح آزادی کے بعد جو حکومت آئی اس نے بھی مسلمانوں کو بہت کچھ دیا۔ لیکن دوبارہ مسلمانوں کو حکومت سے شکایت پیدا ہوگئی، وغیرہ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم لیڈران زندگی کے ایک اصول کو نہیں جانتے ہیں۔ مسلم قائدین اس فطری قانون کو نہیں جانتے کہ ہر عسر کے ساتھ یسرموجود ہوتاہے (الانشراح،
قرآن کی سورہ البقرہ میں زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو (
انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع کے طور پر پیش آتے ہیں۔ زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔مشکل حالات منفی چیز نہیں۔مشکل حالات یا چیلنج کسی انسانی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔جب کسی گروہ کے اندر ایسی حالت پیدا ہو، تو انسان اس کو فطرت کا تحفہ سمجھے،اور ڈی لنکنگ کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو بطور موقع اویل کرے۔ اس طرح نان کریٹو گروہ کریٹیو (creative) گروہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
1949ء میں جاپانیوں نے اپنے یہاں ایک صنعتی سیمینار کیا۔ اس سیمینارمیں انہوں نے امریکا کے ڈاکٹر ایڈورڈ ڈیمنگ (Dr Edward Deming) کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلایا۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میںاعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ یہ کوالٹی کنٹرول (quality control) کا نظریہ تھا۔ (ہندوستان ٹائمس
جاپان کے لیے امریکہ کے لوگ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کو بدترین شکست اور ذلت سے دوچار کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ جاپانیوں کے دل میں امریکا کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے۔ مگر جاپانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات سے اوپر اٹھا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن ہواکہ وہ امریکی پروفیسر کو اپنے سیمینار میں بلائیں اور اس کے بتائے ہوئے فارمولاپر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اس کو دل و جان سے قبول کر لیں۔
جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح پکڑ لیا۔ انہوںنے اپنے پورےانڈسٹری کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے صنعت کاروں (industrialist)کے سامنے بے نقص (zero-defect) کا نشانہ رکھا۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں لانا جس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص نہ پایا جائے۔ جاپانیوں کی سنجیدگی اور ان کا ڈیڈیکیشن (dedication) اس بات کا ضامن بن گیا کہ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہو۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوںکے کارخانے بے نقص سامان تیارکرنے لگے۔ یہاںتک کہ یہ حال ہوا کہ برطانیہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ جاپان سے اگر میں ایک ملین کی تعداد میںکوئی سامان منگائوں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہو گی۔ چنانچہ تمام دنیا میں جاپان کی پیداوار پر صد فیصد بھروسہ کیاجانے لگا۔
اب جاپان کی تجارت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ حتی کہ وہ امریکا کے بازار پر چھا گیا، جس کے ایک ماہر کی تحقیق سے اس نے کوالٹی کنٹرول کا فارمولا حاصل کیا تھا— اس دنیامیں بڑی کامیابی وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو ہر ایک سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ ان کا دوست ہو یا ان کا دشمن۔
واپس اوپر جائیں
اہل ایمان کے عمل کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو پڑھیں، پھر اس پر عمل کریں۔ مثلاً یہ کہ پانچ وقت نمازیں پڑھنا، اور رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا، وغیرہ۔ ایک اور خاص عمل یہ ہے کہ ایک شخص غور وفکر کرکے کوئی مطلوب عمل دریافت کرے، اور اس کو روبعمل لانے کی پلاننگ کرے۔ اس دوسرے عمل کو کریٹیو عمل کہہ سکتے ہیں۔ اجتہادی عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کریٹیو عمل ہے۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہےإِذَا اجْتَہَدَ الْحَاکِمُ فَأَخْطَأَ، کَانَ لَہُ أَجْرٌ، وَإِذَا اجْتَہَدَ فَأَصَابَ، کَانَ لَہُ أَجْرَانِ (مسند ابو یعلیٰ، حدیث نمبر
اجتہادی عمل یا کریٹیو عمل کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ کرنے والا اس میں غلطی کرے تب بھی اس کو ایک ثواب ہے، اور اگر اجتہاد درست ہو تو دہرا ثواب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ لوگوں کے اندر تخلیقی عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ شوق (incentive)پیدا ہو۔کریٹیو عمل میں آدمی کو بہت زیادہ جد و جہد کرنی پڑتی ہے، اس لیے اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص نے قرآن و حدیث اور موجودہ حالات پر غور کیا، اس کے بعد اس کو یہ دریافت ہوئی کہ موجودہ زمانے میں ایک انٹرنیشنل زبان وجود میں آئی ، جس کے ذریعے انٹرنیشنل تبلیغ کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اس کےبعد وہ یہ کرے کہ انٹرنیشنل زبان میں قرآن کا معیاری ترجمہ تیار کرے، اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائے تو یہ کریٹیو عمل ہوگا۔ عام عمل کا بھی ثواب ہے، لیکن کریٹیو عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ تخلیقی عمل کا خاص تعلق دعوتی عمل سے ہے۔ دعوت میں تخلیقی عمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مثلاً اگر آپ قرآن کی دعوت کو عالمی سطح پر پھیلانا چاہیں تو اس کےلیے بہت زیادہ تخلیقی فکر کو کام میں لانا پڑے گا۔ تخلیقی عمل کے بغیر کوئی بڑا دعوتی کام انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں: میرےایک ساتھی ہیں جو جنوبی ہند میں دعوتی کام کرتے ہیں۔ آج کل وہ بیمار ہیں، میں ان کی عیادت کے لیے گیا تھا۔دورانِ گفتگو انھوں نے اپنا تاثر بتایا کہ جب ہم ٹیم کی شکل میں 1998 میں شمالی ہند کے دعوتی دورے پر گئے۔ تواس وقت مختلف شخصیات اور اداروں میں جانے کا موقعہ ملا تاکہ دعوتی کام کا تعارف ہو ،اور ہمیں اچھا مشورہ اور حوصلہ ملے۔انھوں نے بتایا کہ اس سفر میں تقریباً سارے ہی افراد نے ہمیں ڈر ایا، اور پست ہمت کیا، اور کہا کہ دعوتی کام کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔ اس میں صرف ایک شخصیت کا استثنا تھا، وہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہیں۔ انھوں نے ہماری ہمت افزائی کی ،اور ہمیں مفید مشورے سے نوازا ۔ مولانا ہمارے یہ ساتھی بہت ہی ایکٹیو داعی ہیں، انھوں نے کہا کہ میں آج کل بیماری کے ایام میں خوداحتسابی (self-introspection) کی زندگی گزاررہاہوں ۔انھوں نے مزید کہا کہ میں کنفیوزن کا شکار ہوں، اور اس کی وجہ کیا ہے، اب تک مجھے اس کا جواب نہیں ملا۔
جب میں ان سے مل کر واپس آگیا تو انھوں نے یہ پیغام بھیجا:" آپ میری عیادت کے لیے آئے ،اور مجھے دعاؤں کے ساتھ بہت کچھ دے کر گئے۔ جب سے میں بیمار ہوا ہوں، اپنے اور اپنی دعوتی ٹیم کے سلسلے میں بہت سوچتا رہتا ہوں کہ ہم نے بیس سال کا عرصہ لگا کر کیا حاصل کیا؟ ہمارا رخ کدھر ہے ۔کیا ہم دعوت اورینٹڈ زندگی گزار رہے ہیں، دعوت کے نام پر ہم کیا کیا کام کر رہے ہیں،وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کے سوالات ذہن میں آتے ہیں ۔ میں ان کے جوابات کی تلاش میں ہوں ،کسی سوال کا کچھ جواب ملتا ہے، کسی کانہیں، خیر ساری چیزیں اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہوں ،کیا پتہ میرے رب کی طرف سے دوبارہ موقع ملے تومیں اپنی اصلاح کروں۔" مولاناجب انھوں نے آپ کی شخصیت کا اعتراف بطور داعی کے کیا ،پھر بھی اپنے مقصد اور مشن کو لے کر کنفیوزن کا شکار ہیں،اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ کچھ علما اعتدالِ فکری کے نام پرکنفیوزن کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے وہ "دعوت بھی کرے گا اور عدوات (دشمنی) بھی کرے گا "کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس، متعین رہنمائی پر اگر کوئی چلے تو اس کو شخصیت پرستی کا نام دیتے ہیں، یہی ا ن کا ذہنی انتشار ہے۔ اس پر کچھ رہنمائی فرمائیں ۔
جواب
پچھلے سو سال سے زیادہ مدت کے اندر مسلمانوں میں بہت سی تحریکیں اٹھی ہیں۔ بظاہر ان کے نام مختلف ہیں، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے سب کا محرک ایک تھا، اور وہ تھا رد عمل۔یہ تمام تحریکیں ردعمل (reaction) کی تحریکیں تھیں۔ دورِ جدید کی مختلف تحریکوں کو انھوں نے اسلام کے لیے اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھا، اور وہ اس کےخلاف بطورِ دفاع اٹھ کھڑے ہوئے۔میرے علم کے مطابق ان میں سے کوئی تحریک حقیقی معنوں میں اللہ اور آخرت اور جنت کے لیے نہیں اٹھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں کہیں نہ کہیں منفی نفسیات موجود تھی۔ اسی منفی نفسیات کا سبب ہے کہ بظاہر وہ کوئی بھی نام لیں، مثلاً دعوت یا تبلیغ۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ردعمل کی تحریکیں تھیں، اور جو تحریک بطور ردعمل کے اٹھے، اس کے اندر وہی کمی پائی جائے گی، جس کی نشاندہی آپ کے ساتھی نے کی ہے۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق،مسلمان کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے اقوام کی حیثیت مشہود کی(
اس منفی مزاج کی بنا پر مسلمانوں میں مختلف قسم کی بے راہ روی پیدا ہوئی۔ اسی بنا پر یہ تحریکیں مسلمانوں کے اندر صحت مند مزاج بنانے میں بری طرح فیل ثابت ہوئی ہیں ۔ حتی کہ تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ بظاہر خواہ مختلف قسم کے داعیانہ الفاظ بولیں، لیکن ان کے اندر سے داعیانہ جذبہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے ان تحریکوں سے وابستہ افراد سے ملیے تو بہت جلد وہ ظلم اور سازش کے الفاظ بولنے لگتے ہیں، جس کو مذکورہ ملاقات میں ڈر اور پست ہمتی کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس صورتِ حال سے محفوظ رہنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ ہے کہ پچھلی غلطیوںکا اعتراف کیا جائے، اور دوبارہ مثبت انداز میں دعوت الی اللہ کی منصوبہ بندی کی جائے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ ماضی میں غلطی ہوئی، تب بھی وہ کھل کر اس کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ غلطی کا اعتراف کیے بغیر کچھ نیا کام کیا جائے۔ مگر اس قسم کا کام کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ غلط سرگرمیوں کے زمانے میں جو ذہن بنا ہے، اس کو اعلان کے ساتھ ترک کرنا ضروری ہے۔ اگر اعلان کے ساتھ ترک نہ کیا جائے، تو ممکن ہے کہ اس کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں ۔
نیز یہ کہ آپ کے دوست نے کچھ افراد کے حوالے سے جو یہ بات کہی ہے کہ انھوں نے ہمیں ڈر ایا، اور پست ہمت کیا، اور کہا کہ دعوتی کام کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔ ایسے لوگوں پر حضرت عائشہ کا یہ قول ثابت آتا ہے کہ انھوں نے قرآن و حدیث پڑھا، مگر انھوں نے قرآن و حدیث نہیں پڑھا(أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا)مسند احمد، حدیث نمبر24609۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث سے عام طور پر صرف کچھ چھوٹے چھوٹے مسئلے نکالے جا تے ہیں، جن کو جزئی (فروعی) مسائل کہاجاتا ہے۔ اس کے برعکس، حدیث میں ابدی رہنمائی کا جو پہلو تھا وہ امت کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گیا۔ یہ حدیث کی تصغیر (underestimation) ہے۔ حدیث یا سنتِ رسول سے سب سے بڑی چیز دریافت کرنے کی یہ ہے کہ رسول اللہ نے مسائل کو مواقع میں کنورٹ کیا۔ حدیث کو پڑھنے والے حدیث سے سب کچھ نکالتے ہیں، مگر اس قسم کی ابدی حکمت ابھی تک نہیں نکال پائے۔ ان کے موجودہ منفی ذہن کا یہی اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں
The Prophet of Peace
پیغمبر اسلام، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (وفات
The rise and expansion of Islam was one of the most memorable revolutions which has impressed a new and lasting character on the nations of the globe.
ایم۔ این۔ رائے(M.N. Roy) ایک انڈین لیڈر تھے۔ وہ بنگال میں 1887 میں پیدا ہوئے اور 1954 میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی کتاب ’’ہسٹاریکل رول آف اسلام ‘‘ (Historical Role of Islam) پہلی بار دہلی سے 1939 میں چھپی۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : محمد کو تمام پیغمبروں میں سب سے بڑا پیغمبر ماننا چاہیے۔اسلام کی توسیع تمام معجزوں سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:
Mohammad must be recognised as by far the greatest of all prophets. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
امریکا کے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ (Michael H. Hart) کی کتاب ’’دی ہنڈریڈ‘‘ (The 100) نیویارک سے 1978 میں چھپی۔ اس کتاب میں انہوں نے پوری انسانی تاریخ سے ایک سو ایسے افراد کی فہرست بنائی ہے جنہوں نے اُن کے مطابق، اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں۔ اِس فہرست میں انہوں نے ٹاپ پر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’وہ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے۔ مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی‘‘:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ کی اس عظیم کامیابی کا راز کیا تھا۔ اس کا راز ایک لفظ میں امن تھا۔ یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے بڑے پیسیفسٹ (pacifist) تھے۔ اُنہوں نے پُر امن طریقہ (peaceful method) کو ایک کامیاب ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:الصُّلْحُ خَیْرٌ (
Peaceful method is a far more effective method.
اسی طرح خود پیغمبر اسلام نے فرمایا: یُعْطِی عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَى الْعُنْفِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2593)۔یعنی خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا:
God grants to peace what He does not grant to violence.
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے امن کو ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طورپر دریافت کیا۔ آپ نے امن کو ایک ایسے طریقۂ کار کے طورپر دریافت کیا جو ہر صورتِ حال کے لیے سب سے موثّر(effective) تدبیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک مفکّر نے لکھا ہے کہ ’’تاریخ کے تمام انقلابا ت صرف حکمرانوں کی تبدیلی (coup) کے واقعات تھے، وہ حقیقی معنوں میں انقلاب نہ تھے‘‘۔ یہ بات اگر صحیح ہو تو پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام اس معاملے میں ایک استثنا مانا جائے گا۔ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے وہ تمام انفرادی(individual)، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جن کے مجموعے کو انقلاب (revolution) کہا جاتا ہے۔
اپنے مطالعے کی بنیاد پر میرااحساس یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا انسانی تاریخ میں جو کنٹری بیوشن (contribution) ہے۔ اُس کے لحاظ سے اُن کا سب سے زیادہ مناسب نام یہی ہوسکتا ہے کہ اُن کو امن کا پیغمبر (Prophet of Peace) کہا جائے۔
تاریخ ایک ایسا ڈسپلن ہے جس میں یہ امکان رہتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا ایک سے زیادہ رایوں تک پہنچ جائے ۔ تاہم مصنف کا یہ خیال ہے کہ ایسا زیادہ تر محدود مطالعے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر مطالعہ زیادہ وسیع اور جامع ہوتو تعدّد آراء کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں کچھ دفاعی لڑائیاں پیش آئیں۔ ان میں سے ایک دفاعی لڑائی وہ تھی جس کو جنگِ بدر کہاجاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جس وقت جنگ کا واقعہ ہوا، پیغمبر اسلام میدانِ جنگ سے باہر ایک عَریش میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ہاتھ یا لکڑی سے آپ ریت پر کچھ لکیریں کھینچتے نظر آئے۔ اس واقعے کو لے کر ایک مستشرق نے بطور خود اس کو جنگ سے منسوب کیا، اور لکھا کہ ’’قائدِ اسلام اُس وقت اپنی اگلی جنگ کا منصوبہ بنا رہے تھے‘‘:
The leader of Islam was making his next war plan.
مستشرق (Orientalist)نے یہ بات کسی حوالے کے بغیر صرف اپنے قیاس کی بنیاد پر لکھ دی۔ حالاں کہ دوسری روایات کو دیکھا جائے تو خود روایت کی بنیادپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام اُس وقت کیا کررہے تھے۔ وہ دراصل یہ نقشہ بنارہے تھے کہ آئندہ کس طرح امن قائم کیا جائے:
چنانچہ دوسری روایت میںبتایا گیا ہے کہ جس وقت بدر کی یہ دفاعی جنگ ہورہی تھی، عَین اُسی وقت خدا کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ خدا نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:ہُوَ السَّلَامُ وَمِنْہُ السَّلَامُ وَإِلَیْہِ السَّلَامُ(البدایۃ والنہایۃ، جلد 3، صفحہ
اس دوسری روایت کے مطابق درست طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر پیغمبراسلام اپنا اگلا منصوبۂ امن بنا رہے تھے:
The leader of Islam was making his next peace plan.
پیغمبر اسلام کو قرآن(
پیغمبر اسلام کا مشن کوئی پولیٹیکل مشن نہیں تھا۔ آپ کے مشن کو دوسرے الفاظ میں اسپریچول مشن کہا جاسکتا ہے۔ قرآن (
اس قسم کا مقصد صرف نصیحت اور تذکیر (persuasion) کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ مقصد ذہن کی تشکیلِ نَو (re-engineering of the mind) کا طالب ہے ۔ یہ مقصد صرف انسان کی تھنکنگ قوت کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ سیاسی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ذہنی انقلاب ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں۔
پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی کتاب قرآن میں تقریباً 6236 آیتیں ہیں۔ اِن آیتوں میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جن میں قتال یا جنگ کا ذکر ہے۔ یعنی کُل آیتوں کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ۔ قرآن کی
پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آپ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نہ صرف نظریۂ امن پیش کیا بلکہ آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ پُر امن زندگی کے لیے ایک مکمل طریقِ کار وضع کیا:
He was able to develop a complete methodology of peaceful activism.
اسلام کے بعد کی سیاسی تاریخ نے پیغمبر اسلام کے اس پہلو پر ایک پردہ ڈال دیا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس پردے کو ہٹایا جائے۔ یہ ہٹانا گویا پیغمبر اسلام کی دریافتِ نو (re-discovery of the Prophet of Islam) ہے۔پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے نہ صرف امن کی ایک آئیڈیالوجی پیش کی، بلکہ امن کو عمل میں لانے کے لیے وہ ایک مکمل میتھاڈولوجی آف پیس ڈیویلپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گویا کہ آپ نظریۂ امن کے آئیڈیا لاگ بھی تھے، اور نظریۂ امن کو عملی انقلاب کی صورت دینے والے بھی۔
ابتدائی حالات
عرب ایک جزیرۂ نما ہے۔ وہ ایشیا کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ یہ ایک صحرائی ملک ہے، اور انتہائی قدیم زمانے سے آباد ہے۔ قدیم زمانے سے یہاں مختلف قبائل اپنے اپنے علاقوں میں رہتے تھے۔ ہر قبیلے کا سردار اُن کے اوپر حاکم ہوا کرتا تھا۔
چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے اپنے خاندان کو مکّہ کے علاقے میں آباد کیا۔ یہ لوگ ایک خدا کو مانتے تھے اور ایک خدا کی پرستش کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ باہر کے اثرات سے یہ لوگ بتوں کو پوجنے والے بن گئے۔ اب بھی وہ سماجی روایت کے طورپر ایک خدا کو مانتے تھے مگر اسی کے ساتھ عملی طور پر وہ بہت سے بتوں کو پوجتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں پورا عرب ایک بت پرست ملک بن چکا تھا۔ عرب کے یہی حالات تھے جب کہ پیغمبر اسلام وہاں پیدا ہوئے۔
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب عرب کے شہر مکّہ میں 570 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 610 عیسوی میں مکّے میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیا ۔
آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ کی عمر چھ سال تھی تو آپ کی والدہ آمنہ بنت وہب بھی انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد آپ اپنے دادا عبد المطلب اور اپنے چچا ابو طالب کی سر پرستی میں رہے۔ قرآن میں خدا نے پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی کے بارے میں فرمایا:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى ۔ وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَى (
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنی ابتدائی زندگی میں جب یتیمی کا تجربہ ہوا تو اس تجربے نے آپ کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ کوئی چیز آپ سے کھوئی گئی ہے۔ یہ احساس آخر کار حق کی تلاش کی صورت میں اُبھرا۔ آپ حق کی تلاش میں اتنا زیادہ سرگرداں ہوئے کہ اکثر آپ مکے کے باہر چلے جاتے اور قریبی پہاڑ حِرا کے ایک کھوہ میں تنہائی کی حالت میں زندگی کی حقیقت کے بارے میں سوچتے رہتے اور دعا کرتے رہتے۔ اس طرح آپ حق کی تلاش میںسرگرداں تھے کہ خدا نے 610عیسوی کی ایک رات کو آپ کے پاس فرشتہ بھیجا۔ فرشتے نے آپ کو بتایا کہ خدا نے آپ کو اپنے پیغمبر کی حیثیت سے چن لیا ہے۔ اس کے بعد آپ پر قرآن وقفے وقفے سے اُترتا رہا۔
پیغمبر اسلام کو خدا کی طرف سے یہ مشن دیاگیا کہ وہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچائیں۔ یعنی یہ کہ خدا صرف ایک ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اعتبار سے خدا رُخی زندگی (God-oriented life) گذارے۔ یہی انسان کی نجات کا راستہ ہے۔پیغمبر اسلام اپنی ابتدائی زندگی میںایک تاجر تھے۔ تاجر کی حیثیت سے ان کی تصویر ایسی بنی کہ لوگ اُن کو الامین(honest person) کہنے لگے۔ اس طرح آپ مکّے میںایک باعزت شخص بن گئے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ پیغمبری ملنے کے بعد جب آپ نے مکّہ کے ایک ٹیلے ’’صَفا‘‘ پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا تو لوگ آپ کی بات سننے کے لیے وہاں جمع ہوگئے۔
یہ نبوت کی حیثیت سے آپ کا پہلا خطاب تھا۔ اس خطاب میں آپ نے لوگوں کو بتایا کہ موت کے بعد ہر ایک کو یا تو جنت ملے گی یا جہنم۔ اس لیے تم لوگ موت سے پہلے کے زمانے میں موت کے بعد کے زمانے کی تیاری کرو۔
مکّہ میں اُس وقت بت پرستی کا رواج تھا۔ لوگ بت پرستی میں کنڈیشنڈ ہوچکے تھے۔ اس لیے ابتدائی زمانے کی اس تقریر کا لوگوں کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔لوگ اثر لیے بغیر واپس چلے گئے۔ آپ کے چچا عبد العزّی (ابو لہب) نے منفی ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’تمہارا بُرا ہو، کیا تم نے یہی کہنے کے لیے ہم کو بلایا تھا ( تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِہَذَا)۔ مستخرج ابی عوانہ، حدیث نمبر
مکّہ عرب کا مرکزی شہر تھا۔ یہاں قبیلۂ قریش کے لوگ رہتے تھے۔ قریش کو کعبہ کی تولیت حاصل تھی، جو کہ پورے عرب کا مذہبی مرکز تھا۔ اس بنا پر قریش کو پورے ملک میںسرداری کا مقام حاصل ہوگیا تھا۔ قریش نے مکّہ میں دار الندوہ قائم کررکھا تھا۔ دار الندوہ گویا قبائلی پارلیمنٹ تھی۔ قریش کے سینئر افراد دارالندوہ کے ممبر ہوتے تھے۔ یہاں تمام اہم اُمور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ پیغمبر اسلام کے دادا عبدالمطلب دارالندوہ کے ممتاز ممبروں میں سے ایک تھے۔
عام رواج کے مطابق، ایک حوصلہ مند لیڈر کے لیے پہلا ٹارگیٹ یہ تھا کہ وہ دار الندوہ کا رُکن بننے کی کوشش کرے۔ جو گویا اُس وقت کے عرب میں سیاسی طاقت کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ بظاہر اس کے بغیر عرب یا مکّہ میں کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے دار الندوہ میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ اُنہوں نے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ اپنے دادا عبد المطلب کی خالی سیٹ اُنہیں دی جائے۔
دار الندوہ کے معاملے میں پیغمبر اسلام نے وہ پُر امن طریقہ اختیار کیا جس کو اسٹیٹس کوازم (status quoism) کہا جاتا ہے۔ یعنی صورتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ جو صورتِ موجودہ ہے اس کو علی حالہٖ قبول کرلینا۔ مگر پیغمبر اسلام کا اسٹیٹس کوازم سادہ طورپر صرف اسٹیٹس کوازم نہ تھا، بلکہ وہ مثبت اسٹیٹس کوازم (positive-status quoism) تھا۔ مثبت اسٹیٹس کوازم یہ ہے کہ آدمی وقت کے نظام سے ٹکراؤ نہ کرے، بلکہ وہ یہ کرے کہ وقت کے نظام میں موجودہ مواقع کو دریافت کرکے اُسے استعمال کرے۔ اس طریقِ کار کو فارمولا کی زبان میں اس طرح کہاجاسکتا ہے:
Ignore the problem, avail the opportunities.
پازیٹیو اسٹیٹس کوازم کا یہ طریقہ ایک انتہائی حکیمانہ طریقہ تھا۔ اس کی طرف رہنمائی پیغمبر اسلام کو خود قرآن کی ابتدائی آیتوں میں ان الفاظ میں دی گئی:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (
پیغمبر اسلام کا مشن توحید (oneness of God) کا قیام تھا۔ اس لحاظ سے آپ کے لیے اُس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مکّہ کے مقدس عبادتی مرکز کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ عرب کے مختلف قبائل کے بُت تھے۔ اور مکّہ کے سرداروں نے ان بتوں کو کعبے میں اس لیے رکھا تھا تاکہ وہ مکہ کو مرکزی مقام کا درجہ دے سکیں۔ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت کا ہونا ایک پرابلم تھا، مگر اسی کے ساتھ اُس میںایک موقع (opportunity) بھی چھپی ہوئی تھی۔ ان بتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا کہ مکّہ کے لوگ اور مکّہ کے باہر کے لوگ وہاں ہر روز جمع ہوتے تھے۔ اس طرح کعبہ لوگوں کے لیے اجتماع کا ایک فطری مقام بن گیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا، اوران بتوں کی وجہ سے وہاں لوگوں کے اجتماع کو ایک موقع کے طورپر استعمال کیا۔ اب آپ نے یہ کیا کہ آپ روزانہ وہاں جاتے اور لوگوں سے ملاقات کرتے اور ان کو قرآن کی آیتیں سناتے۔
قدیم مکّہ میں پیغمبر اسلام نے دعوت کا جو مذکورہ طریقہ اختیار کیا، وہ پرابلم سے خالی نہ تھا۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ النجم اُتری تو حسب معمول آپ نے یہ کیا کہ کعبہ کے اجتماع میں جاکر لوگوں کو اُسے پڑھ کر سنایا۔ اس سورہ میں عرب کے بڑے بڑے بتوں کو بے حقیقت بتاتے ہوئے یہ الفاظ تھے:
أَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ۔ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (
اس آیت میں لات، عزّیٰ اور مَنات کے نام آئے ہیں۔ یہ تینوں بُت قدیم عرب کے بڑے بڑے بُت تھے۔ قدیم عربوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی مجلس میں اِن بتوں کا نام آتا تو وہ اُن کے اعتراف کے لیے کچھ تعظیمی الفاظ بولتے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ جب پیغمبر اسلام نے قرآن پڑھتے ہوئے لات وعزّیٰ اور منات کے نام لیے تو وہاںکے مشرک حاضرین نے اپنے رواج کے مطابق، بلند آواز سے کہا :
تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلَى. وَإِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْتَجَى
پیغمبر اسلام کی آواز میں حاضرین کی مذکورہ آواز مل گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود رسول اللہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ یہ خبر نہایت تیزی سے پھیل گئی، یہاں تک کہ یہ خبر حبش تک پھیل گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام نے مشرک عربوں کے اس مطالبے کو مان لیا ہے کہ اُن کے جو بُت ہیں وہ بھی خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف ایک غلط فہمی تھی، نہ کہ کوئی حقیقی واقعہ۔
اس طرح مکّہ میں پیغمبر اسلام لوگوں کو مسلسل عقیدۂ توحید کی طرف بلاتے رہے۔ اِس مقصد کے لیے وہ لوگوں کو خطاب بھی کرتے اور انفرادی طورپر ان سے مل کر اُنہیں اپنا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس طرح ایک ایک کرکے لوگ پیغمبر اسلام کے دین میں داخل ہوتے رہے۔ مثلاً حضرت خدیجہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، وغیرہ۔تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں۔ چنانچہ مکّہ میں پیغمبر اسلام کی مخالفت شروع ہوگئی۔ قریش ہر تدبیر سے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا توحید کا مشن ختم ہوجائے۔ اس مخالفت کا سبب کسی بھی درجے میں سیاسی نہ تھا، وہ صرف اعتقادی حسّاسیت کی بنا پر تھا۔ اس مخالفت کا سبب صرف اعتقادی اختلاف تھا، نہ کہ کوئی سیاسی خطرہ۔
پیغمبر اسلام کے اس ابتدائی دَور میںآپ کی بیوی خدیجہ اور آپ کے چچا ابو طالب آپ کے لیے گویا سَپورٹ سسٹم بنے ہوئے تھے۔ اعلانِ نبوت کے دسویں سال اِن دونوں کا انتقال ہوگیا۔ قدیم قبائلی رواج کے مطابق، اب آپ کو ضرورت تھی کہ آپ کسی اور کو تلاش کریں، جو آپ کو اپنی پناہ میں لے لے۔ تاکہ آپ اپنا مشن بدستور جاری رکھ سکیں۔
پناہ کے حصول کے لیے پہلے آپ نے مکّہ میںکوشش کی ۔ کعبہ کی زیارت کے لیے جو قبائلی سردار مکّہ آتے تھے، اُن سے اس مقصد کے لیے ملاقاتیں کیں۔ مگر اُن میں سے کوئی شخص تیّار نہیں ہوا۔ آخر کار آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ مکّہ سے
آپ طائف سے باہر ایک باغ میں رات گذارنے کے لیے پناہ لیے ہوئے تھے۔ روایت کے مطابق، اُس وقت، خدا نے پہاڑوں کا فرشتہ (مَلک الجبال) کو آپ کے پاس بھیجا۔ ملک الجبال نے آپ سے کہا کہ طائف والوں نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کو خدا نے دیکھا۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں طائف کے اَطراف میں واقع پہاڑوں کو ایک دوسرے میں ملا دوں۔ تاکہ طائف کے لوگ اُس میں دب کر ختم ہوجائیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے کہا کہ نہیں۔ طائف کی موجودہ نسل نے اگر چہ میری بات کو ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ طائف کی اگلی نسلیں میری بات کو مانیں گی اور خدا کے راستے پر چلیں گی (بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ وَحْدَہُ، لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231۔
پیغمبر اسلام طائف سے واپس ہوکر دوبارہ مکّہ پہنچے تو قریش کا ظلم اور زیادہ بڑھ گیا۔ انہوں نے دار الندوہ میں مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو قتل کردیں۔ اس فیصلے میں مکہ کے تمام قبائل شریک ہوگئے۔اُس وقت مکّہ اور اطرافِ مکہ میں تقریباً دو سو آدمی پیغمبر اسلام کے پیغام کو مان کر اُن کے ساتھی بن چکے تھے، مگر یہ تعداد قریش کے مقابلے میں آپ کی حمایت کے لیے ناکافی تھی۔ چنانچہ آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے جائیں، جو مکہ سے تقریباً تین سو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔
مدینہ میں اسلام کا داخلہ
پیغمبر اسلام ابھی مکّہ میں تھے کہ آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے مدینہ کے لیے روانہ کیا۔ یہ لوگ وہاں اس لیے گئے تھے تاکہ آپ کا پیغام مدینہ والوں کو پہنچائیں۔ مدینہ والوں کی زبان عربی تھی، جس طرح مکہ والوں کی زبان عربی ۔ چنانچہ اِن لوگوں نے یہ کیا کہ قرآن کے مختلف حصوں کو پڑھ کر اُنہیںسنانے لگے۔ اسی لیے ان کا نام مُقری پڑ گیا (وَکَانَ یُدْعَى الْمُقْرِئَ) معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصفہانی، جلد5، صفحہ2556۔ عربی زبان میں مقری کے معنی ہیں: پڑھ کر سنانے والا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مکہ کے برعکس مدینہ میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیلنے لگا۔ مدینہ کے تقریباً ہر گھر میں ایسے افراد پیدا ہوگئے جنہوں نے بتوںکی پرستش چھوڑ دی اور پیغمبر اسلام کے دین کو اختیار کرلیا۔مکّہ میںمخالفت اور مدینہ میں موافقت کا یہ دو مختلف تجربہ کیوں ہوا۔ اس کا ایک معلوم سبب تھا۔ وہ یہ کہ مکّہ عرب کے صحرائی علاقے میں واقع تھا۔ یہاں زراعت وغیرہ موجود نہیں تھی۔ مکّہ والوں کی معیشت بڑی حد تک بت پرستی کے کلچر سے وابستہ تھی۔ کعبہ اُس زمانے میں پورے عرب میں بت پرستی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا تھا کہ عرب کے تمام قبائل کے لوگ سال بھر یہاں آتے۔ اس طرح بت پرستی میں مکّہ والوں کے لیے ایک اقتصادی قدْر (commercial value) پیدا ہوگئی تھی۔ گویا کہ قدیم مکّہ میں بتوں کو وہی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جس کو موجودہ زمانے میں ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر مکّہ کے لوگ ڈرتے تھے کہ اگر عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو ان کی ’’ٹورسٹ انڈسٹری‘‘ ختم ہوجائے گی۔
اہل مدینہ کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ مدینہ عرب کے ایک ایسے علاقے میں واقع تھا جہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔ اس بنا پر وہاں زراعت اور باغبانی کا کافی رواج تھا۔ یہاں کے لوگوں کے لیے یہ ڈر نہ تھا کہ اگر بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو اُن کی معاش کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ بت پرستی ان کی معاش کا ذریعہ ہی نہ تھی۔
اس بنا پر ایسا ہوا کہ توحید کا مذہب اہلِ مکّہ کے لیے ابتدائی زمانے میں قابلِ قبول نہ ہوسکا۔ مگر اہلِ مدینہ اس قسم کی نفسیات سے خالی تھے۔ بت پرستی کا خاتمہ ان کے نزدیک صرف ایک مذہبی کلچر کا خاتمہ تھا، نہ کہ ان کےمعاشی ذریعے کا خاتمہ۔ چنانچہ مدینے میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیل گیا۔
پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔یہ دراصل ٹکراؤ کے طریقے کو چھوڑ کر امن کے طریقے کو اختیار کرنا تھا۔ پیغمبر اسلام کےاس اصول کو آپ کی اہلیہ حضرت عائشہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔یعنی پیغمبر اسلام کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ یہ کرتے کہ مشکل کے مقابلے میں آسان طریقے کا انتخاب فرماتے۔
اس معاملے کی ایک واضح مثال مکّہ کے تیرہ سالہ قیام کے آخری دنوں میں آپ کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ یا تو قریش سے جنگی ٹکراؤ کریں، یاخاموشی کے ساتھ پُر امن طورپر مکّہ سے نکل کر مدینہ چلے جائیں۔ اُس وقت کے حالات میں پہلا انتخاب مشکل انتخاب (harder option) تھا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا انتخاب، یعنی خاموشی سے مدینہ چلے جاناایک آسان انتخاب (easier option) تھا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصول کے مطابق اُس کو لے لیا جو آسان تھا، اور اس کو چھوڑ دیا جو مشکل تھا۔
مکّہ سے مدینہ کا یہ سفر تقریباً پانچ سو کلو میٹر کا سفر تھا۔ یہ پورا سفراونٹ پر گذرا۔ مگر چوں کہ آپ کو معلوم تھا کہ مکّہ کے لوگ آپ کو پکڑنے کے لیے آپ کا پیچھا کررہے ہیں، اس لیے آپ نے ان سے بچاؤ کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ مثلاً مکہ سے رات کے وقت خاموشی سے روانگی۔ سیدھے مدینہ سفر کرنے کے بجائے مخالف سمت کےایک غیر آباد کھوہ میں تین دن چھپے رہنا۔ عام راستے کے بجائے نئے راستے سے سفر کرنا، وغیرہ۔
ہجرت کے اس سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کا مزاج کیا تھا۔ مثلاً ایک مقام پر آپ کو دو شخص ملے۔ وہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔ آپ نے اُن سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے قبیلے نے ہم دونوں کا ایک ہی نام رکھا ہے۔ وہ ہے الْمُہَانَانِ(دو بے عزّت آدمی)، آپ نے فرمایا کہ نہیں، تم دونوں باعزت آدمی ہو (بَلْ أَنْتُمَا الْمُکْرَمَانِ) مسند احمد، حدیث نمبر 16691 ۔
یہ طریقہ آپ کے اصولِ تربیت کا ایک حصہ تھا۔ آپ جانتے تھے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں کی جائے۔ اس لیے آپ نے اُن کا نام بدل دیا۔ اس طرح انہیں یہ نفسیاتی ترغیب دی کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ انسانیت کے رُخ پر ترقی دیں۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب سے ہُوا۔ ان کے یہاں پہلا لڑکا پیدا ہوا تو پیغمبر اسلام نے علی سے پوچھا کہ تم نے بیٹے کا نام کیا رکھا۔ اُنہوں نے کہا کہ حَرب (جنگ) پیغمبر اسلام نے کہا کہ یہ نام درست نہیں۔ اس کےبعد آپ نے اس کا نام حَسن رکھا (فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2777۔
مدنی زندگی
ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ پیغمبر اسلام کا دل شکایت اور احتجاج سے بھرا ہوا ہو اور وہ مدینہ پہنچتے ہی مکّہ والوں کے خلاف منفی باتیں کہنا شروع کردیں۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ پیغمبر اسلام نے مدینہ پہنچ کر مدینہ والوں کے سامنے جو پہلی تقریر کی،وہ اب بھی سیرت کی کتابوں میںموجود ہے۔ سیرت ابن ہشام میںاس کو" مدینہ کا پہلا خطبہ" کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے —وَکَانَتْ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ آپ کے اس خطبے کا خلاصہ یہ ہے— فَمَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَقِیَ وَجْہَہُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ بِشِقٍّ مِنْ تَمْرَةٍ فَلْیَفْعَلْ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ
یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ یہ دراصل پیس فل ایکٹوزم کی قیمت تھی۔ اُس وقت کے حالات میں بلاشبہ یہ ایک مشکل کام تھا۔ یہ اپنے منفی جذبات کو مثبت جذبات میںکنورٹ کرنا تھا۔ مگر یہی پیس فل ایکٹوزم کی قیمت ہے۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن اور تشدد دونوں ہی داخلی احساسات کا اظہار ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کے ذہن میںنفرت ہو تو اس کا اظہار متشددانہ(violent) عمل کی صورت میں ہوگا، اور اگر اس کے ذہن میں محبت ہو تو اس کا اظہار ہمیشہ پُر امن طریقِ عمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ایسی حالت میں پیس فل ایکٹوزم کا نام لینا، کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ قربانی یہ کہ آدمی نفرت کے اسباب کے باوجود فریقِ ثانی سے نفرت نہ کرے، وہ اپنے دماغ کو نفرت والی باتوں سے پوری طرح خالی رکھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی پُر امن طریقِ کار پر عمل کرنا چاہتا ہو اُس کو سب سے پہلے خود اپنے ذہن کومیانہ روی پر قائم رکھنا ہوگا۔ اُس کو یک طرفہ طورپر یہ کرنا ہوگا کہ فریقِ ثانی اس کوغصہ دلائے، مگر وہ ہر گز غصہ نہ ہو۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پُر امن طریقِ کار کے اصول کواختیار نہیں کرسکتا۔
پیغمبر اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار پُر امن ایکٹوزم کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ نے یک طرفہ اعتدال پسندی کی مذکورہ قیمت ادا کی۔ آپ کے ساتھ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتی کی گئی مگر آپ ان زیادتیوں سے اوپر اُٹھ کر سوچتے رہے۔ ان کی زیادتیوں کو نظر انداز کرکے آپ نے مثبت انداز میںاپنے عمل کا نقشہ بنایا۔
پیغمبر اسلام کی یہ تقریر بتاتی ہے کہ آپ مکمل معنوں میں ایک امن پسند انسان تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا ناخوش گوار واقعہ آپ کے ذہنی سکون (peace of mind) کو درہم برہم نہیں کرسکتا تھا۔ آپ نے اپنے ذہن کی سطح پر ایک ایسی بلند چیز پالی تھی کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز آپ کو غیراہم معلوم ہوتی تھی۔ آپ کامل معنوں میں ایک مثبت ذہن کے انسان تھے۔ آپ کا دماغ گویا ایک ایسا کارخانہ تھا جس میں داخل ہو کر ایک نیگیٹیو آئٹم بھی پازیٹیو آئٹم بن جاتا تھا۔ آپ کو اپنی زندگی میں جب بھی کوئی ناخوشگوار تجربہ پیش آتا تو آپ کا ذہن فوری طور پر ڈفیوز کرکے اس کو ایک مثبت احساس میں تبدیل کرلیتا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے حافظے تک جب کوئی منفی احساس پہنچتا تو وہ بدل کر مثبت احساس بن چکا ہوتا تھا۔ آپ کی شخصیت کامل معنوں میں ایک مثبت شخصیت تھی۔ آپ منفی حالات میں بھی مثبت ذہن کے ساتھ رہنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ تشدد کے واقعات کو بدل کر امن کا واقعہ بنانے کی غیر معمولی استعداد رکھتے تھے۔
Follow one and respect all.
اس وقت کے مدینہ میں تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہوچکی تھی۔ اس لیے اُس وقت کے مدینہ میں جو ابتدائی ریاست بنی، اُس کے صدر خود پیغمبر اسلام تھے۔ آپ نے صدرِ ریاست کی حیثیت سے ایک ڈیکلیریشن (declaration) جاری کیا، جو تاریخ میں صحیفۂ مدینہ یا میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ڈیکلیریشن میں بتایا گیا تھا کہ مسلم، مشرک اور یہود، تینوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کو خود اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق طَے کریں۔ البتہ جہاں تک اجتماعی نزاعات کی بات ہے، اُن کو اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق طَے کیا جائے گا(وَإِنَّکُمْ مَہْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِنْ شَیْءٍ، فَإِنَّ مَرَدَّہُ إلَى اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) سیرت بن ہشام، جلد1، صفحہ
یہ کثیر مذہبی یا کثیر کلچر والے سماج میںامن قائم کرنے کا واحد عملی اصول ہے۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک اپنے طریقے کی پیر وی کرنے میں آزاد ہو۔ جہاں تک اجتماعی معاملات کا تعلق ہے، یعنی وہ معاملات جن میں رائیں ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتی ہیں، وہاں مرکزی انتظامیہ کی اتّباع کرنا۔ اس طریقے کو دوسرے الفاظ میں پُر امن ڈفرینس مینجمنٹ (peaceful difference management) کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں ہمیشہ فرق اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ سماج واحد مذہبی سماج ہو یا کثیر مذہبی سماج۔ اس فرق کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، مگر اس کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسے حالات میں کسی سماج میں امن قائم کرنا صرف بقائے باہم (co-existence) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس معاملے میں دوسرا کوئی انتخاب ممکن نہیں۔
مدینہ پہنچ کر آپ نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے وہاں ایک مسجد بنائی۔ اور اس مسجد میںپانچ وقت کی نماز کا نظام قائم کیا۔ اس نماز کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت کا منظّم طریقہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیتیںپیدا ہوں جن کے ذریعے وہ سماج کے اندر پُر امن طورپر رہ سکے۔ چنانچہ آپ نے نماز کا جو طریقہ مقرر کیا اس کے خاتمے پر تمام نمازیوں کو اپنا چہرا دائیں اور بائیں پھیر کر یہ کہنا ہوتا تھا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ اس طرح گویا نمازی ساری دنیا کے انسانوں کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے لوگو، تمہارے اوپر سلامتی (peace) ہو۔
اس طرح نمازِ باجماعت گویا لوگوں کی اس انداز میں تربیت کا ذریعہ تھی کہ وہ اپنے سماج میں پُر امن شہری بن کر رہیں۔ سماج کے لوگوں کے لیے ان کے دل میں ہر حال میں مثبت جذبات ہوں، وہ دوسروں کے لیے کبھی مسئلہ نہ بنیں۔ اُن کا رویّہ دوسروں کے ساتھ انسان دوستی (human friendly) والا رویّہ ہو۔
پیغمبر اسلام جب ہجرت کرکے مکّہ سے مدینہ آگئے تو یہ ٹکراؤ کا خاتمہ نہ تھا بلکہ یہ ٹکراؤ کے نئے دَور کا آغاز بن گیا۔ پیغمبر اسلام نے خود تو یہ قربانی دی کہ جنگ سے بچنے کے لیے اپنے وطن مکّہ کو چھوڑ دیا اور مدینہ جاکر آباد ہوگئے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ مدینہ آپ کے مشن کے لیے ایک زرخیز علاقہ ثابت ہوا۔ یہاں کے لوگ تیزی سے آپ کے دین میں داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ اہلِ مدینہ کی اکثریت آپ کی ساتھی بن گئی۔
پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد یہ ہوا کہ مکّہ اورمکہ کے آس پاس دوسرے مسلمان بھی اپنے مقامات کو چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ اس طرح مدینہ، پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک مضبوط مرکز بن گیا۔ یہاں مدینہ کے اندر اور مدینہ کے باہر، دونوں علاقوں کے لوگ جمع ہوگئے۔ یہ مکّہ والوں کے لیے گویا ایک وارننگ تھی۔ وہ اپنے طور پر یہ سوچنے لگے کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں اپنے افراد کو اکٹھاکرکے ایک بڑی قوت بنائیں گے اور مکّہ کو واپس لینے کے لیے مکّہ پر حملہ کردیں گے۔ اس لیے مکّہ والوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مدینہ میں پیغمبر اسلام کی طاقت کو توڑ کر اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
اس مقصد کے لیے مکّہ والوں نے عوامی عطیات سے پچاس ہزار دینار اکھٹا کیے ، اور تیاری شروع کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ پر باقاعدہ حملے کا منصوبہ بنالیا۔ حتی کہ ایک ہزار کی تعداد میں مسلّح فوج لے کر روانہ ہوئے تاکہ مدینہ کی جدید مسلم ریاست کا خاتمہ کردیں۔
اس طرح مدنی دَور میںغزوات (لڑائیوں) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیرت کی کتابوں میں تقریباً
اس پُر امن تدبیری مہم کا ایک خاص جُزء یہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے عرب کے تمام قبائل سے معاہدے کرلیے، اور تمام قبائل کو امن کا پابند بنا لیا۔ یہ ایک نیا طریقہ تھا جس کو معاہدہ ڈپلومیسی کہا جاسکتا ہے۔ انہیں تدبیروں کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب جیسے جنگ جُو ملک میں مختصر مدت کے اندر ایک ایسا انقلاب آگیا جس کو بلاشبہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
صبر کا فلسفہ
پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً ایک سو دس آیتیں ہیں جن میں صبر کے الفاظ کو استعمال کیا گیاہے۔ یہاںتک کہ صبر ہی پر کامیابی کا مدار رکھا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو! صبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (آلِ عمران،
اسی حقیقت کو پیغمبر اسلام نے اپنی ایک لمبی حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا:وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ (مسند احمد،حدیث نمبر 2803)۔ یعنی جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ صبر نہیں تو کامیابی بھی نہیں۔ کامیابی کا درخت ہمیشہ صبر کی زمین پر اُگتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام پیسیفسٹ (pacifist) یا پیس فل ایکٹوسٹ (peaceful activist) اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا مشترک سبب یہ ہے کہ انہوں نے امن کو دریافت کیا مگر وہ صبر کو دریافت نہ کرسکے۔ حالاں کہ صابرانہ روش کے بغیر پُر امن تحریک کو چلانا ممکن نہیں۔
عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد پیس فُل ایکٹوزم کے اصول پر اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے ساؤتھ افریقہ میں کیا۔ انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے سفید فام مکینوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور پھر کہا کہ ہم ان کو ساؤتھ افریقہ سے نکالنے کے لیے پیس فُل تحریک چلائیں گے۔حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کی نفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کی تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ کسی گروہ کے مقابلے میں پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر تحریک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اس کے خلاف منفی جذبات نہ ہوں۔ اس کے مقابلے میں آپ مکمل طورپر مثبت نفسیات کے حامل ہوں۔ یہی واحد بنیاد ہے جس کے اوپر پیس فل ایکٹوزم کی سرگرمیاں جاری ہوسکتی ہیں۔ مدّ مقابل گروہ کے لیے آپ کے دل میں اگر مثبت جذبات نہ ہوں تو آپ کبھی اپنے پُر امن مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر ایک تحریک اُٹھاتا ہے، لیکن فریقِ ثانی کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں کا احساس فریقِ اوّل کے خلاف اس کے دل میں نفرت ڈال دیتا ہے۔ یہ نفرت دھیرے دھیرے تشدّد کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اگر تشدد کے ذ ریعہ مطلوب کامیابی نہ مل رہی ہو تو فریقِ اوّل کے دل میں فریقِ ثانی کے خلاف نفرت کا طوفان اس کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف ہر ممکن تخریبی کارروائی شروع کردے۔ یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لیے اُس قسم کی بھیانک کارروائی کرنے لگے جس کو موجودہ زمانے میں خودکُش بمباری (suicide bombing) کہتے ہیں۔
پیس فل ایکٹوزم کے سلسلے میں یہ بات غالباً پوری تاریخ میں صرف پیغمبر اسلام کی زندگی میںملتی ہے۔ دوسرے مصلحین کی طرح ان کو بھی فریقِ ثانی کی طرف سے سخت قسم کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ نے کبھی اُن کے خلاف نفرت کی زبان استعمال نہیںکی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آپ ہمیشہ نفرت کےاحساس سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی زندگی میںاس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
مثال کے طورپر مکہ میں پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کا ایک خاندان تھا، جس کو آلِ یاسر کہاجاتا تھا۔ یہ ایک کمزور خاندان تھا۔ چنانچہ آپ کے طاقت ور مخالفین نے اُنہیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور کہا کہ پیغمبر کا ساتھ چھوڑ دو۔ پیغمبر اسلام نے اس منظر کو دیکھا تو آپ نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف نفرت کا کوئی کلمہ نہیں کہا، بلکہ یہ کہا:صَبْرًا یَا آلَ یَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّةُ (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5646)۔ یعنی اے آل یاسر صبر کرو، کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔جنت کو صبر کا انعام بتا کر آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا کہ وہ کسی بھی زیادتی پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ کسی بھی حال میں فریقِ ثانی کے خلاف اپنے دل میں منفی جذبات کی پرورش نہ کریں۔
یہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کا نہایت اہم پہلو تھا جو آپ نے خدا کی رہنمائی کے مطابق اختیار کی۔ یعنی مخالفوں کی ہر زیادتی پر صبر کرنا۔ قرآن میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاًنبیوں کی زبانی یہ کہا گیا ہے : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَیْتُمُونَا (
یہ صبر کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی ظالمانہ کارروائی کے باوجود مثبت سوچ پر قائم رہنا، اپنے آپ کو اس سے بچانا کہ اپنے ذہن میں فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے۔ کیوں کہ فریقِ اوّل کے دل میں اگر فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے تو فریقِ اوّل کبھی فریقِ ثانی کے ساتھ پُر امن طریقِ کار کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہوجائے۔ پر امن طریقِ کار (peaceful activism) در اصل معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا یہ اصول دراصل اسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کے ساتھ مخاطب گروہ کی طرف سے مسلسل زیادتیاں کی گئیں، لیکن آپ ہمیشہ پابندی کے ساتھ صبر کے اصول پر قائم رہے، اور اپنے ساتھیوں کو اسی کی تلقین کی۔ آپ کی مجلسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کے ظلم کا چرچا کیاجائے۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مخالفین کے ظلم کے حوالے سے ان کے خلاف بددعائیں کریں۔ اس کے برعکس، آپ ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے خلاف اچھی دعا کرتے تھے۔ آپ نے مخالفوں کو کبھی کافریا دشمن نہیں کہا، بلکہ ہمیشہ ان کے بارے میں انسان کا لفظ بولتے رہے۔ اس معاملے کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک بار آپ کے مخالفوں نے پتھر مارکر آپ کو زخمی کردیا، اُس وقت آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:اللہُمَّ اہْدِ قَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1375)۔ خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔
یک طرفہ صبر اور خیر خواہی کا طریقہ جو آپ نے عرب میںاختیار فرمایا، وہ اسی لیے تھا کہ فریقِ ثانی کے بارے میں آپ، یا آپ کے ساتھیوں کے دل میں شکایت اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ جو ذہن شکایت اور نفرت لیے ہوئے ہو، وہ اصلاح کا کام درست طورپر نہیں کرسکتا۔
خاموش تبلیغ
ایسی حالت میں پیغمبر اسلام کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ ایک یہ کہ لوگوں کو کھُلے طورپر توحید کی طرف بلائیں اور کھلے طور پر شرک کو غلط قرار دیں۔ آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے اپنا مشن شروع کریں اور حالات کااندازہ کرتے ہوئے تدریجی طورپر آگے بڑھیں۔پہلے طریقے میں متشددانہ ٹکراؤ کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے آپ نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا، جو واضح طور پر امن کا طریقہ تھا۔ جس میں یہ ممکن تھا کہ لوگوں سے ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا جاسکے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہ پیس فل ایکٹوزم کی پہلی مثال تھی۔ اسی طرح آپ نے اپنی پوری تحریک امن کے اصول پر چلائی۔ اسی حقیقت کو ایک حدیث میں آپ نے اس طرح فرمایا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو کسی دشمن کا سامنا پیش آئے تو ایسا نہ کرو کہ ردّعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر اس سے لڑ جاؤ، بلکہ امن کے اصولوں کواختیار کرتے ہوئے دشمنی کے مسئلے کو حل کرو:
Solve the problem of enmity by following the peaceful method.
اس طرح آپ پُر امن انداز میں کام کرتے رہے یہاںتک کہ دھیرے دھیرے
عمر بن الخطّاب آپ کے ساتھیوں میں نہایت طاقتور شخص تھے۔ انہوں نے بھی پیغمبر اسلام سے کہا کہ ہم حق پر ہیں، پھر ہم کیوں خاموش رہیں۔ ہم اعلان کے ساتھ کھُلے طورپر اپنا کام کریں گے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:یَا عُمَرُ إِنَّا قَلِیلٌ قَدْ رَأَیْتَ مَا لَقِینَا (سیرت ابن کثیر، جلد 1، صفحہ
دھیرے دھیرے پیغمبر اسلام کا مشن پھیلنے لگا۔ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب کہ مدینہ سے
پیغمبر اسلام کی یہ روش بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ عملی نتیجے کو سامنے رکھتے تھے۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اقدام کو مثبت نتیجے کا حامل ہونا چاہیے، ایسا اقدام جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہو ،وہ کوئی اقدام نہیں۔ وہ نتیجہ خیز اقدام(result-oriented action) کے حامی تھے۔
پیغمبر اسلام کی لائف بتاتی ہے کہ ان کی اسکیم میں اُس قسم کی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، جس کو موجودہ زمانے میں خود کُش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے۔ خود کُش بمباری کیا ہے۔ وہ در اصل مایوسی کا آخری درجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ فریقِ ثانی کو پریشان کرنے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرے اور پھر اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلے کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ میں شہید ہوجاؤں۔
دشمن کے مقابلے میں خود کش بمباری دراصل یہ ہے کہ آدمی کے سامنے پیس فل ایکشن کا انتخاب کھُلا ہوا ہو مگر نفرت اور انتقام کے جذبات میں مبتلا ہو کر وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے اندھا ہوجائے اور اس اندھے پن میں وہ خود اپنے ہی کو ہلاک کرڈالے۔ کوئی بھی صورتِ حال جہاں کوئی شخص خودکُش بمباری کا چائس لیتا ہے، وہاں یقینی طور پر اس کے لیے پُر امن طریقِ کار کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔
اصل یہ ہے کہ پُر امن طریقِ کار کا انتخاب کرنے کے لیے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ چیزوں کوویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ وہ ہیں (أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ) تفسیر الرازی، جلد1، صفحہ
امن پسندانہ سوچ
پیس فل ایکٹوزم بظاہر ایک خارجی عمل ہے، مگر وہ مکمل طورپر ایک داخلی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ صرف پیس فل مائنڈ ہے جو پیس فل ایکٹوزم کی بات سوچ سکتا ہے اور اس کو درست طورپر عمل میں لاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس حقیقت کو جانا۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ کیا کہ سب سے پہلے پیس فل مائنڈ بنایا۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوسکے کہ پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر اپنی تحریک چلا سکیں۔ اسی حقیقت کو آپ نے مذہبی زبان میں اس طرح بیان کیا ہے : جب آدمی کا دل درست ہوتا ہے تو اس کے تمام اعمال درست ہوجاتے ہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر
ذہن سازی کے اس عمل کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کرے (البقرہ،
اس حدیث میں پیغمبر اسلام نے ایک اہم نفسیاتی حقیقت بتائی ہے۔ نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے ذہن میں جب کوئی بات آتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس کے حافظے میںاس طرح محفوظ ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کبھی نہیں نکلتی۔ نفسیات کا مطالعہ مزید بتاتا ہے کہ انسانی ذہن کے دو بڑے خانے ہیں۔ ایک، شعور، اور دوسرا، لاشعور۔ جب کوئی بات انسانی ذہن میں آتی ہے تووہ پہلے اس کے زندہ شعور کے خانے میں آتی ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ لاشعور کے خانے میں چلی جاتی ہے۔
ایک خانے سے دوسرے خانے میں جانے کا یہ عمل خاص طورپر رات کے وقت ہوتا ہے۔ اس طرح اگرچہ ایساہوتا ہے کہ کوئی بات جو آج زندہ حافظہ (active memory) میں ہے، بعد کو وہ دماغ کے پچھلے خانے میں جاکر بظاہر ایک بھولی ہوئی بات بن جاتی ہے۔ مگر جہاں تک شخصیتِ انسانی کاتعلق ہے، وہ لازمی طورپر اس کا جُزء بنتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصیتِ انسانی کا براہِ راست تعلق انسانی تھنکنگ سے ہے۔ جیسی سوچ ویسی شخصیت۔
پیغمبر اسلام کے مذکورہ قول کا مطالعہ جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قولِ رسول میں پیس فل تھنکنگ اور پیس فل ایکٹوزم کا اصل راز بتادیا گیا ہے۔ صحیح معنوں میں وہی شخص پیس فل ایکٹوسٹ بن سکتا ہے جو مذکورہ قولِ رسول پر عمل کرے۔ اس عمل کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے۔
ہر انسان اور ہر انسانی گروہ ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں ہر وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اس کے لیے ناخوش گوار ہوں، جو اس کے اندرفریقِ ثانی کے خلاف منفی احساسات پیدا کریں۔ اس طرح گویا ہر آدمی کے ذہن میں بار بار منفی نوعیت کے احساسات آتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی اس منفی احساس کو فوری طورپر بدل کر مثبت احساس نہ بنائے تو وہ آگے بڑھ کر اس کے لاشعور میں ایک منفی آئٹم کے طورپر محفوظ ہوجائے گا۔ یہ عمل اگر بلا روک ٹوک جاری رہے تو آخر کار یہ ہوگا کہ اس کا لاشعور یا اس کا حافظہ منفی آئٹم سے بھر جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں اس کی پوری شخصیت، منفی شخصیت بن جائے گی۔ یہی وہ منفی شخصیت ہے جس کے حامل افراد دوسروں کے خلاف تشدد اور جنگ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تشدد دراصل منفی شخصیت کے خارجی اظہار کا دوسرا نام ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جب آدمی کے ذہن میں کوئی منفی احساس آئے تو اسی وقت وہ اس کو بدل کر مثبت احساس بنا لے۔ جو آدمی اپنے اندر کنورزن کا یہ عمل جاری کرے اس کا یہ حال ہوگا کہ اس کا پورا لاشعور یا حافظہ مثبت آئٹم کا اسٹور بن جائے گا۔ اس کا فائدہ اس کو یہ ملے گا کہ اس کی شخصیت ایسی شخصیت بنے گی جو ہر قسم کے نیگیٹیو احساس سے خالی ہوگی۔ ایسا آدمی مکمل طورپر ایک پازیٹیو شخصیت کا حامل ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پر امن ذہن میں جیتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو پیس فل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق کوئی تحریک چلا سکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نفسیاتی (psychological)حقیقت کو سمجھا، اور تزکیہ، بالفاظ دیگر ایک ایک شخص پر ڈی کنڈیشننگ کا عمل جاری کرکے ایک سو ہزار سے زائد افراد کی ایک ٹیم بنائی۔ یہ وہ لوگ تھے جو پورے معنوں میں امن پسندی کا مزاج رکھتے تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ پیس فُل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق عمل کرسکیں، اور امن کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک انقلاب لائیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
آپ کو لفظ"جہاد" کی تعریف میںکچھ لیف لیٹس روانہ کیے جارہے ہیں ۔ غور اور صبر کے ساتھ پڑھ کر اس کا جواب دیں۔ ان کو پڑھ کر یہی سمجھ میںآتا ہے کہ قرآن کو خدائی کتاب کہنے والا انسانیت کا دشمن ہے اور سرودھرم سمبھاؤ کا بھی دشمن ہے۔ (شیواگوڑ، سنگاریڈی)
جواب
شیواگوڑصاحب نے اپنے اس خط کے ساتھ ہمیں انگریزی میں
واضح رہےکہ قرآن کی یہ آیتیں جو آپ نے نقل کی ہیں وہ غیر مسلم کے ساتھ مسلمان کےتعلق کو نہیں بتاتیں۔ بلکہ وہ جنگ کرنے والوں کے ساتھ مسلمان کے تعلق کو بتاتی ہیں ، اور جنگ کے معاملہ میں یہی ساری دنیا کا مسلمہ اصول ہے ۔ان آیتوں کی بنیاد پر آپ نے اسلام کے بارے میں جو شدید رائے قائم کی ہے ، وہ سرا سر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ آپ نے قرآن کی مذکورہ آیتوں کو عمومی معنوں میں لے لیا ہے ۔ حالانکہ یہ آیتیں ہنگامی حالات کے لیے ہیں ۔ یہ اس وقت کے لیے ہیں جب کہ مسلمانوں اور دوسری قوم کے درمیان حالت جنگ (state of war)قائم ہوگئی ہو، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حالت جنگ میں ہمیشہ ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ جہاں تک نارمل حالات میں لوگوں کے ساتھ مسلمان کے سلوک کا تعلق ہے وہ دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے جو قرآن میں کثرت سے موجود ہیں ۔
ان دوسری آیتوں میں مسلمانوں کوتمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا سلوک کرنے کاحکم دیا گیا ہے (سورہ البلد،
جہاں تک غیرمسلموں سے تعلق کا معاملہ ہے ، قرآن میں اس کی بابت ایک بنیادی اصول مقرر کردیا گیا ہے ۔وہ یہ ہے: لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ۔ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَى إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (
قرآن کی ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے تم سے جنگ نہیں کیا ان سے تم کو بھلائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔مگر جو لوگ تمھارے خلاف جنگی کارروائی کررہے ہیں، ان کے ساتھ بطور ڈیفنس جنگ کرو۔ قرآن کے مطابق، عام انسانوں کو تکلیف دینا سخت منع ہے، بلکہ عدو(enemy) اور مُقاتل (combatant) کے درمیان بھی فرق کرنا چاہیے۔ قرآن کا حکم یہ ہے کہ بظاہر اگر کوئی شخص یا گروہ تمہارا دشمن ہو تب بھی تم کواس کے ساتھ اچھا تعلق قائم رکھنا چاہیے۔
جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک شخص اگر بظاہر تمہارا دشمن ہو تب بھی تم اس کے ساتھ احسن طریقے پر معاملہ کرو، عین ممکن ہے کہ وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ لیکن جو اس جنگ میں شامل نہیں ہیں، ان کو بالکل بھی تکلیف نہیں دی جائے گی، خواہ وہ دل میں دشمنی رکھتا ہو۔ بین اقوامی معاملات میں یہی مساویانہ سلوک ساری دنیا کا مسلمہ اصول ہے اور اسلامی شریعت میں بھی مساویانہ سلوک کے اسی اصول کو اختیار کیا گیا ہے ۔
واضح رہےکہ قرآن بیک وقت ایک واحد کتاب کی صورت میں نہیں اترا ۔ بلکہ وہ حالات کے اعتبار سے
سوال
قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں سے کہتی ہیں کہ کافروں کو قتل کرو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہادی ہوگئے ہیںاور غیر مسلموں کو قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔مثلاً قرآن میں یہ آیت ہے: وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَیْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ (
سوال یہ ہے کہ قرآن میں جب تک اس طرح کی آیتیں موجود ہیں تو مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ شانتی سے رہنا کیسے ممکن ہے۔(اشوک سنگھل ، نئی دہلی)
جواب
یہ آیت خود ہی یہ بتارہی ہے کہ جنگ کا حکم کافر کے خلاف نہیں ہے بلکہ مقاتل (حملہ آور) کے خلاف ہے۔ جیسا کہ خود اسی آیت میں کہا گیا ہے :فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ (پس اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی دفاع میں اُن سے جنگ کرو)۔ اسی طرح مذکورہ آیت سے پہلے یہ آیت ہے : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا(
چنانچہقرآن اور پیغمبر اسلام کی سنت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جد جہد (armed struggle)کی ہرگز اجازت نہیں۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قتال (جنگ) کا حکم ایک عارضی(temporary) سبب کے لیے ہے، وہ اسلام کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے، جو ہر لمحہ جاری ر ہے۔ جب دفاع کا سبب ختم ہوجائے تو جنگ کا حکم بھی عملاً موقوف (suspend) ہوجائے گا، یعنی جب امن کا زمانہ ہو تو جنگ نہیں کی جائے گی۔ یہی اسلام کی ابتدائی تاریخ میں پیش آیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ، ماضی کے تسلسل (continuation) کے تحت جنگ کی صورت پیش آئی ۔یعنی انھوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ مگر جنگ کا یہ حکم عارضی تھا۔ قرآن کے الفاظ میں، جب فریقِ مخالف نےاپنا اوزار (ہتھیار)رکھ دیا تو جنگ کا خاتمہ ہوگیا(محمد،
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں جن چند مقامات پر کافر کا لفظ آیا ہے ،اُس سے پیغمبر اسلام کے زمانے کےانکار کرنے والے مراد ہیں ۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق،ایسا نہیں ہے کہ لفظ کافر ابد تک کے لیے ہر غیر مسلم گروہ کے لیے بولا جائے گا، یعنی کافر کسی قوم کا یانسل کا دائمی لقب نہیں ہے۔ چنانچہ اہل اسلام نے بعد کے زمانہ کے لوگوں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ کافر یا کفارنہ تھے بلکہ یہ وہی الفاظ تھے جو کہ قومیں خود اپنے لیے استعمال کر رہی تھیں ۔ مثلاً ہنو د ، یہود، نصاریٰ، مجوس ، بودھ(بوذا) وغیرہ۔ اسلامی اصول کے مطابق ، کسی قوم کو اسی لفظ سے پکارا جائے گا جو لفظ اُس نے خود اپنے لیے اختیار کیا ہو۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر وں نے جب اپنے زمانہ کے غیر مومن لوگوں کو پکارا تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے کافرو، بلکہ یہ کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے پچاس بار یہ الفاظ آئے ہیں :یَاقَوْمِ (اے میری قوم ) ۔ اسی طرح قرآن میں پیغمبر وں کے ہم زمانہ غیر مومنین کو اُن کی قوم کا نام دیا گیا ہے۔ مثلاً : قوم لوط ، قوم صالح ، قوم ہود، قوم نوح، وغیرہ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک پیغمبر کو اُس کے مخالفین نے پتھر مارا اور ان کی پیشانی سے خون بہنے لگا، اُس وقت پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نکلے :رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی، فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (مسند احمد، حدیث نمبر 4057)۔اے میرے رب ، میری قوم کو معاف کردے کیوں کہ وہ لوگ نہیں جانتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کا نظریہ دوقومی نظریہ نہ تھا ، بلکہ وہ ایک قومی نظریہ تھا۔ یعنی جو قومیت پیغمبر کی تھی وہی قومیت پیغمبر کے مخاطبین کی تھی۔ پیغمبر اور اُس کے مخاطبین کے درمیان جو فرق تھا، وہ قومیت کا فرق نہ تھا بلکہ عقیدہ اور مذہب کا فرق تھا ۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن(
قرآن میں الا نسان (واحد ) کا لفظ
واپس اوپر جائیں
انسانیت کی تعمیر میں خواتین کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں ان کو انڈر یوٹیلائز (underutilize)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میںخواتین کے رول کو دریافت کیا، مثلاً حضرت ہاجرہ اور حضرت خدیجہ، وغیرہ۔اور اس کو ایکسپلین کرکے موجودہ دور کی خواتین کوبتایا کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے اس تاریخ کو دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا ہےجس کا نام ہے:
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہ گروپ
اس وقت ہماری دوہفتہ وار آن لائن قرآن کلاسیںجاری ہیں:
Urdu Quran Class - Every Sunday at 2 pm (IST)
English Quran class - Every Wednesday at 2 pm (IST)
@ www.facebook.com/cpsinternational
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تونیچے دیے گئے ای میل وغیرہ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
واٹس ایپ 09453215285
Telegram channel: https://t.me/joinchat/_6an7cUFeOU1MjA1
CPS Ladies FB group link: www.facebook.com/groups/cpsladies
س
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.